1
زید اپنے والد چوہدری حیدر کا سب سے چھوٹا بچہ تھا اور وہ جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ ان کے والد کے چھ بچے تھے جن میں سمیرا سب سے بڑی تھیں پھر عباد دوسرے نمبر پر پھر ہادی پھر کرن پھر عادل اور ان سب کے بعد زید تھے۔ اگرچہ چوہدری حیدر کے تمام بچے پڑھائی میں بہت ہونہار تھے لیکن زید غیر معمولی تھا، وہ بہت ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت تیز سیکھنے والا بھی تھا اور وہ چیزیں بہت جلد سیکھ لیتا تھا۔ اس کی عمر 16 سال تھی جب کہ اس کی سب سے بڑی بہن 30 سال کی تھی اس کے بعد اس کا بھائی عباد 27 سال کا تھا، ہادی 25 سال کا تھا، کرن 22 سال کا تھا جب کہ عادل کی عمر 19 سال تھی۔ چوہدری حیدر اپنے والد کے 4 بچوں میں تیسرے نمبر پر تھے، ان کے بڑے بھائی چوہدری حیات فارن سروس میں بیورو کریٹ تھے اور لندن میں تعینات تھے۔ حیات کے چار بچے تھے جن میں رضوان سب سے بڑا تھا پھر ریحان پھر نعمان اور پھر اکلوتی بیٹی زارا تھی۔ رضوان 26، ریحان 23، نعمان 19 جبکہ زارا 16 سال کی تھی۔ پھر چوہدری حیدر کی ایک بڑی بہن تھی جس کا نام طاہرہ تھا جس کی چوہدری شاکر سے شادی ہوئی، ان کے بھی چار بچے تھے جن میں خاور سب سے بڑی بیٹی نبیلہ پھر داور اور پھر سب سے چھوٹی سویرا تھی جو اپنے والد کو بہت عزیز تھی۔ چوہدری حیدر کے سب سے چھوٹے بھائی چوہدری حبیب تھے جن کی صرف ایک بیٹی تھی جس کا نام میرب تھا اور اس کی عمر 18 سال تھی۔ حیات ساری زندگی پردیس میں رہا اور اس نے خاندان سے باہر ایک خاتون سے شادی کی لیکن پھر بھی اس نے اپنے بچوں کو اپنی جڑوں سے دور نہیں رکھا اور بچے ہر سال ان کے آبائی گاؤں جاتے تھے۔ کزنز میں اچھا رشتہ تھا، مزید یہ کہ سمیرا کی شادی خاور سے ہوئی تھی جبکہ نبیلہ کی شادی عباد سے ہوئی تھی اور کرن کی منگنی داور سے ہوئی تھی۔ عادل اور میرب ان میں سب سے خوش قسمت تھے کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور دونوں کی منگنی بھی ہو چکی تھی حالانکہ خاندان کے اکثر افراد اس محبت کی کہانی سے ناواقف تھے اور وہ اسے کزنز کا رشتہ سمجھتے تھے لیکن زید اور کرن دونوں کے سب سے بڑے مددگار تھے اور یہ ایک سیدھی سیدھی محبت کی کہانی لگ رہی تھی جو جلد ہی شادی میں تبدیل ہونے والی تھی جو 60 کی دہائی میں بہت کم تھی کیونکہ ان دنوں زیادہ تر محبت کی کہانیاں اپنی موت آپ مر جاتی تھیں۔ اب کہانی شروع ہوتی ہے جب 16 سالہ زید قریبی گاؤں میں کبڈی میچ کھیل کر واپس آ رہا تھا۔ زید کو کبڈی اور ریسلنگ کا جنون تھا۔ برسات کی شام تھی اور اچانک بارش شروع ہو گئی۔ زید نے سوچا کہ شاید بارش زیادہ ہونے سے پہلے وہ اپنی حویلی پہنچ جائے لیکن وہ غلط تھا کیونکہ زید اپنے گاؤں کے احاطے میں پہنچنے سے پہلے ہی بارش تیز ہو گئی تھی۔ موسلا دھار بارش قابل برداشت تھی لیکن زید ایک اور پریشانی سے گزرا کیونکہ نہ صرف تیز بارش ہو رہی تھی بلکہ ہوا بھی تیز چل رہی تھی جس سے زید کو سردی کا احساس ہو رہا تھا اور وہ
کانپنے لگا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو پتا چلا کہ وہ اپنے کھیتوں میں ہے اور اسے قریب کے کھیت میں ایک ڈیرہ نظر آیا جو ایک مزدور کا تھا جو اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ کھیت میں رہتا تھا۔ زید تین کمروں کے اس چھوٹے سے ڈیرے کی طرف تیزی سے چلنے لگا۔ زید کے خاندان کے پاس کھیتوں میں بہت سے چھوٹے چھوٹے مکانات تھے کیونکہ وہ کھیتی کے موسم میں وہاں رہنے والے مزدوروں کو دیے گئے تھے اور ان میں سے کچھ مہمانوں کے لیے بھی خالی رکھے گئے تھے۔ زید ڈیرہ پر پہنچا اور وہ دستک دیے بغیر داخل ہو گیا۔ یہ بات بہت عام تھی کہ گاؤں کے گھروں کے دروازے دن کے وقت کھلے رہتے تھے اور یہ رواج آج تک جاری ہے۔ زید نے دیکھا کہ ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہے اور وہ اندر داخل ہوا لیکن اندر کے منظر نے زید کو چونکا دیا اور ایک لمحے کے لیے وہ ہلنے سے قاصر رہا۔ مزدور کی بیوی جس کی عمر تقریباً 25 سال تھی اندر تھی، وہ برہنہ تھی اور چارپائی پر لیٹی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ اپنی پھدی میں انگلی کرنے میں مصروف تھی۔
زید چند لمحے اس خاتون کو دیکھتا رہا لیکن اچانک خاتون کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اور اس نے آنکھیں کھولیں، وہ زید کو اپنے سامنے دیکھ کر چونک گئی جبکہ زید بھی کچھ دیر کے لیے پریشان ہو گیا۔ اس خاتون کا نام چھندو تھا، اس نے اپنا دوپٹہ لے کر خود کو ڈھانپ لیا لیکن پھر بھی دوپٹہ اسے پوری طرح نہیں ڈھانپ رہا تھا۔ اس نے غصے سے کہا” شرم نئیں آندی بغیر سوچے سمجے اندر آگیاں منہ چک کے” اس بات نے زید کے تن بدن میں آگ لگا دی اور اس نے ب ھی جواباً غصے سے کہا “پنڈ وچ کیڑا بوہا وجا کے آندا او وی اینی بارش وچ نا لے مینو کی پتہ کہ تسی ایتھے………” زید نے بات ادھوری چھوڑ دی اور باہر نکل گیا. چھنڈو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اپنے ننگے پن کی پرواہ کیے بغیر زید کے پیچھے بھاگی۔ وہ جانتی تھی کہ زید اس کے شوہر کے آجر کا بیٹا ہے اور اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے سے اس کے شوہر کو نوکری کا نقصان ہو سکتا ہے۔ زید گھر سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’اوہ چوہدری رک‘‘ اس نے غصے سے کہا ’’کیوں رکاں میں آیتھے ہیں‘‘ اس نے اندر سے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا ’’اوہ چوہدری اینا غصہ نہیں کری دا ہنڈا، چل اندر میرے نال” بارش بہت تیز تھی اور چھندو بھی ان چند لمحوں میں پوری طرح گیلا ہو چکی تھی جو اس نے زید کا پیچھا کرتے ہوئے کمرے کے باہر گزارے تھے اور زید خود بھی بالکل بھیگ چکا تھا کیونکہ وہ اس تیز بارش سے اندر آیا تھااور اب وہ پھر بارش میں تھا۔ اچانک گرج چمک ہوئی, بادل کڑ کے اور ننگی چھندو اس سے ڈر گئی اور وہ زید سے لپٹ گئی۔ اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ کسی برہنہ عورت کی گرمی محسوس ہو رہی تھی جو اس سے چپکی ہوئی تھی، اس کا لن جسے کسی عورت نے چھوا بھی نہیں تھا، کھڑا ہونے لگا اور چھندو کو بھی لن کا سائز محسوس ہوا۔ وہ واپس ہٹی اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی، “چل ضد نئی کردے ایویں، تو اچانک آیا سی تے میں………….. تو سمجھ کے اس حالت وچ جو میں بولیا او میں بولنا چاہندی نئی سی پر میرے کولوں بول ہو گیا، آ جا اندر چلیئے، ویکھ تیرے چکر میں وی پجھ گئی آں” زید نے پھر خفگی سے کہا، “جیویں مینو شوق ای پجھن دا” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تقریباً گھسیٹتی ہوئی کمرے میں لے گئی۔ . اسے لگا کہ وہ ہوا کی وجہ سے کانپ رہا ہے، وہ خود بھی سردی کی وجہ سے کانپ رہی تھی، اس کے علاوہ وہ ننگی بھی تھی۔ وہ اسے کمرے میں لے گئی اور پھر وہ کچن میں گئی اور لکڑی کے ٹکڑوں سے ایک برتن بھر کر بوری سے ڈھانپ کر کمرے میں لے گئی۔ پھر اس نے ماچس کی تیلی کو روشن کیا اور خوش قسمتی سے وہ کمرے میں موجود کیروسین آئل کی مدد سے اسے روشن کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ ابھی تک ننگی تھی لیکن اس نے دروازہ بند کر رکھا تھا اور کسی اور غیر متوقع شخص کی امید نہیں تھی۔ اس نے کہا، “چودھری ویکھ میں اگ بال دتی تے ہن کپرے وی سکھا لے تے اگ وی سیک لے” زید نے دیکھا کہ وہ ابھی تک برہنہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسے اس کے سامنے برہنہ کھڑا ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ۔ اس نے کپکپاتے ہوئے کہا، “کیویں سیکاں، کپرے گلے نیں” اس نے کہا، “تے لالے کپرے، تینو کنے آکھیا کے کپرے پاکے رکھ” زید نے کہا، “فر اپنے بندے دے کپرے لیا دے مینو” وہ ہنس کر بولی۔ “اوہ چوہدری، اپنا جسا ویکھ تے میرے بندے نو ویکھ، اودے ورگے دو تیرے کپریاں وچ پورے آ جان گے” یہ سچ بھی تھا کیونکہ زید بہت لاڈ پیار کروانے والا بچہ تھا اور اس کا پورا خاندان اس کا بہت خیال رکھتا تھا اسی لیے وہ۔ اپنی عمر کے دوسرے بچوں سے زیادہ صحت مند تھا اور وہ صرف 16 سال کی عمر میں 20 سال کا لگ رہا تھا، مزید یہ کہ وہ کبڈی کے کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ریسلنگ کا کھلاڑی بھی تھا جس کی وجہ سے وہ خود کو فٹ رکھنے کے لیے غیر معمولی ورزش کرنے کا عادی تھا تا کہ کھیل کے لیے دستیاب رہے اسی لیے اس کا جسم ایک پہلوان کا جسم لگتا تھا۔ اس نے الجھن میں کہا، “تے فیر ہن کی کراں” اس نے لاپرواہی سے کہا، “کرنا کی آئے، کپرے لا کے تار تے ٹنگ دے، اگ دے سینک نا سکھ جان گے” اس نے کہا، “کی مطلب، تیرے سامنے ننگا ہو جاواں۔ “اس نے کہا، “ہور کی کرنا فیر، دوجے کمرے وچ تو جا نی سکدا نالے مینو تے ننگا ویکھ ای لیا تو میرے سامنے ننگا ہوندے تینوں کیوں شرم آندی” اس نے کہا، “تو پاگل تے نہیں ہو گئی” اس نے کہا، “جا اوئے تو تے چودھریاں دا نک ای ڈوب چھڈیا، تیرے کسے وڈے نو آکھیا ہنڈا تے ہن نو سب کجھ لا کے او مارنا سی، تُو تے درپوک ای بڑا ایں” یہ زید کی انا اور مردانگی پر سیدھا حملہ تھا اس لیے اس نے کہا: “او میں نی ڈردا کسے تو وی” اس نے کہا، “تے فیر حالی تک ٹھنڈ کیوں لوائی جان ڈیا ایں” زید کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اس لیے وہ کھڑا ہو گیا اور اپنے کپڑے اتارنے لگا، اس نے کپڑے ایک تار پر لٹکا دیے تھےجو کمرے کی ایک دیوار سے دوسری دیوار سے بندھا ہوا تھا اور اس تار کے نیچے آگ جل رہی تھی۔ اب وہ مکمل طور پر ننگا تھا جبکہ وہ صرف اپنے دوپٹہ سے خود کو ڈھانپ رہی تھی۔ اچانک چھندو اٹھی اور زید کے قریب آئی جو آگ کے پاس کھڑا اپنی ٹانگیں گرم کر رہا تھا۔ زید نے اس کی موجودگی کو اپنے قریب اس وقت محسوس کیا جب اس نے اس کا لن ہاتھ میں پکڑا اور کہا “واہ اوئے تیرے تے واوا ای وڈا سودا ای ویسے” زید نے کہا، “اے کی کرن ڈئی ایں تو” وہ مسکرائی اور اپنا ہاتھ اس کے لن پر پھیرتے ہوئے بولی، “چوہدری تو تے واوا ای پھولا ایں، ننگی زنانی تیرے کول کھڑی تیرا لن ہتھ اچ پھریا ہوا فیر وی پچھدا پیا کے میں کی کردی پئی” ایسا نہیں تھا کہ زید جنسی اور دیگر بالغ چیزوں سے بے خبر تھا لیکن وہ شرمیلا اور ان سب چیزوں سے گریز کیا کرتا تھا، مزید یہ کہ اس نے بزرگوں سے سنا تھا کہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس نے کہا، ’’کنی بیشرماں عالیان گلاں کردی ایں تو‘‘۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا، “لے ایدے وچ شرم کتھوں آ گئی، ہن مینو تےتو ننگی ویکھ ای لیا تے شرم تے رہ نی گئی، نالے تیرے ایڈا لمبا سودا ویکھ کے تے کسے وی زنانی دا پانی اویں ای نکل جاوے”۔ زید کا لن وہ مسلسل مسل رہی تھی جب وہ یہ سب کہہ رہی تھی۔ زید نے کہا، “کی کری جان ڈئی ایں مینو درد ہو ریااے” اس نے شرارت سے کہا، “کتھے” اس نے شرماتے ہوئے کہا، “جتھے تیرا ہاتھ ای ہور کتھے” اس نے پھر شرارت سے کہا، “اتھے دا کوئی ناں شاں وی ہوندا” اس نے پھر ۔ شرماتے ہوئے کہا، “میرے لن وچ” وہ ہنسی اور بولی، “چل آ تیرے لن دے درد دا علاج کراں” وہ اس کا لن پکڑے ہوئے اسے چارپائی کے پاس گھسیٹتی لے گئی۔ اس نے پھر اسے سیدھا لٹایا جب کہ زید خاموشی سے اس کی ہدایات پر عمل کر رہا تھا، اس نے کہا، “کی کرن لگیں” اس نے کہا، “تیرے لن دا علاج” یہ کہتے ہوئے وہ اس کے اوپر آئی اور اپنے دونوں پاؤں دونوں زید کے دونوں طرف رکھ کر بیٹھ گئی اور اس کے لن کو پکڑتے ہوئے اس نے اپنی پھدی کی نوک پر رکھ دیا۔ وہ پھر لن پر بیٹھنے لگی اور لن دھیرے دھیرے اندر چلا گیا، اس نے کراہتے ہوئے کہا، “آہ، ہائے کنی ودی ٹوپی ای، آہ” زید نے کہا، “تو ہائے ہائے، کیوں کردی پئی،تینو درد ہو ریا” حالانکہ وہ سیکس کے بارے میں جانتا تھا۔ لیکن اس کے پاس صرف بنیادی معلومات تھیں۔ اس نے کراہتے ہوئے کہا، “اوئے کملیا ایڈا وڈا لوڑا اندر جاوے تے پہلی وار درد ہوندا ای آہ ہائے تو تے بوہتا ای چھلہ ایں ہائے” اس نے اس کے ہاتھ تھامے اور اپنے چھاتی پر رکھتے ہوئے کہا، “این نال کھیل، دب تے چوس ایناں نو مینو ارام ملو گا” زید نے پہلی بار کسی عورت کے مموں کو پکڑا اور وہ عورت کے ننگے مموں کو پکڑ کر بہت پرجوش تھا۔ چھندو کے ممے فٹ بال کی طرح گول تھے اور وہ بڑے بھی تھے لیکن غبارے کی طرح نرم تھے۔ وہ زید کی طرف جھکی اور بولی، “آہ آہ آہ، ہائے اوئے انا نو صرف دبنا نہیں چوسنا وی ہندا” زید ایک بوب دباتا رہا جب کہ اس نے ایک نپل منہ میں لیا اور چھندو کے نپلز کو چوسنا شروع کر دیا جو مسلسل ہلنے کی وجہ سے پرجوش ہو گئی اورزید کے لن پر اوپر نیچے ہوتی رہی لیکن اس نے اپنی پھدی میں اس کی لمبائی کا آدھا حصہ لیا تھا کیونکہ لن تقریباً 9 انچ لمبا اور 3 انچ موٹا تھا۔ زید چھندو کے ممے چوستے ہوئے پرجوش ہو گیا اور جوش کے نتیجے میں اس کے ہاتھ چھندو کے کولہوں پر چلے گئے اور اس نے اس کے کولہوں کو پکڑتے ہوئے نیچے سے ایک زور دار دھکا دیا۔ لن جو دھیرے دھیرے اندر جا رہا تھا کہ اچانک تمام رکاوٹیں توڑ کر پھدی کے اندر چلا گیا اور چھندو نے درد سے چیخ ماردی، “ہائے اوہ ماررررررررر دتااااااااا مینووووووووووو، پورررررااااا اااااای ی ی وچ کلللللےےے واااانگوووووں ٹھووووووک سٹیا، آہہہہہہہہہہہہہہہ ہاااااااااااائے میں مرررررررررر گئی” وہ چیخ رہی تھی۔ درد سے اور چارپائی پر ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ساتھ اگر وہ ان کو رگڑ رہی تھی تو درد کو دور کرنے کے لیے جو اسے تھا۔ زید پریشان ہوا اور بولا، “تینو درد ہو ریا” اس نے کہا، “اوہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ کنجررررررررررررا جدددددددد سنڈےےےےےے دا لن پھدی وچ پوووووورا جائے گا تےےےےےدرد نہیں ہووے گا تی ہوررررررررر کی ہووووووے گا” زید نے اٹھنے کی کوشش کی جب اس نے کہا، “ہاااااااااائے آہہہہہہہہہہہہ کی کری جا ریا ایں ہوں” اس نے کہا، “اٹھ کے بار کڈن لگا تا کے تینو درد نہ ہووے” وہ چلائی، “آہہہہہہہہہہہہہہہہ ہاااااااااااااااائے اووووووئے کداں ددددددے کملے نااااااال ووووااااہ پے گیا، اوہ چپ کر کے پیا رہہہہہہہہہییہ، جو تو کرنا سی کر دیتا ہااااااااااااائے۔ ہُن بس ممے دب تے چُوس” زید نے حکم کی تعمیل کی اور نہ صرف ایک ایک کر کے اس کے نپل چوستا رہا بلکہ وہ اس کے مموں کو دباتا بھی رہا اور وہ کہتی رہی، “آہہہہہہییییییییہہہہہہہہ ہورررررررر دب، زوررررررر نااااااااال دب، چوسسسسسسد لے پوررررررااااا دودھ”۔ وہ خود زید کے لن پر اوپر نیچے ہونے لگی اور آہستہ آہستہ اس کی پھدی زید کے لن کے ساتھ ایڈجسٹ ہو گئی جبکہ زید بھی آرام محسوس کر رہا تھا۔ کچھ دیر زید کے لن پر چھلانگ لگانے کے بعد اس کی رفتار بڑھ گئی اور وہ تقریباً چلائی، “آہ میں گئی، ہاااائے میں گئی” زید نے اسے پکڑتے ہوئے کہا، “کی ہوا تینو، کی ہنڈا پیا” زید کو خبر ہی نہیں تھی کہ لن سے پانی نکلتا ہے جنسی عمل کے نتیجے میں اور عورت کی پھدی سے بھی نکلتا ہے اس نے اپنا پانی چھوڑا اور زید کو اپنے لن پر گرم پانی محسوس ہوا جب وہ زید کے سینے پر گر گئی۔ وہ ہانپ رہی تھی جب اس نے کہا، “ہائے اج تے مزہ ای آ گیا، پتا نی کنے سالاں بعد چھٹی آں اج میں” زید نے الجھ کر کہا، “کی مطلب، تینو کنے پھریا ہویا سی” چھندو زید کی معصومیت پر ہنسنے لگی اور بولی “اوہ پاگلا، جدوں بندہ بی بی وچ لن واڑدا تے ایدے وچ اندر بہار کردا تے بی بی نو مزہ آندا تے اودی پھدی وچون پانی نکلیا کردا، اوہ میرا کئی سالاں بعد نکلیا………… اک منٹ، تیرے ہویا نئی حالے”۔ “کی نئی ہویا” وہ اٹھی اور کھڑا لن ہاتھ میں لیتے ہوئے بولی “اوہ واہ او چوہدری، ہن تو لگا ایں چوہدری، اٹھ تے آ جا ہن” زید نے کہا، “کتھے آ جاواں” اس نے سر پر ہاتھ مارا۔ مایوسی سے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا، “تُو اُٹھ زرا میں تینوں دسدی آں” یہ کہہ کر اس نے اسے کھڑا کیا اور وہ خود ہی چارپائی پر لیٹ گئی جب اس نے ٹانگیں کھولیں، یہ پہلی بار تھا کہ زید پھدی کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے پھدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “لن ادے وچ پانا تے اگے پچھے یانی اندر بہار کرنا جیویں میں ہونئی کِیتا سی” زید سمجھ گیا اور اس کی ٹانگوں کے درمیان آگیا اور اپنے لن کی بڑی ٹوپی کو چھندو کی پھدی کے دہانے پر رکھتے ہوئے اس نے ایک زور دار دھکا دیا اور لن چھندو کی پھدی کے اندر گہرائی تک گھس گیا اور وہ چلائی، “آہہہہہہہہیہیہہییہہہہہہہہہہ مررررررررررررررررررررر گئیییییییییییی، ظااااااااالم، ہاااااااااااااائے” اس نے کہا، “ہن کی ہویا” وہ چلائی، “ایڈااااااااااااا وڈاااااااااا موسللللللللل میری پھدی وچ وااااااااااڑ چھڈیا ایکو واری آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ پاااااااااااااااااااااڑ چھڈی میرررررررررررررررررری”۔ زید نے کہا، “تُو آکھیا سی کے اکو واری درد ہوندا ای” وہ غصے میں آ گئی اور چڑچڑی آواز میں بولی، “اوووووووووئے ایڈاااااااااااااااااا وڈااااااااااااااااا لن اکو واررررررررررییییی وچ نئی واڑی دا، ہولی ہولی پائ دااااااااااااا ہنڈاااااااااا” زید نے اس کی بات سمجھ لی اور اس کے مموں ساتھ کھیلنے لگا۔ اور دھیرے دھیرے اپنے لن کو اس کی پھدی کے اندر باہر کرنے لگا اور وہ بھی مموں کے دبائے جانے کے ساتھ ہی اپنی گانڈ کو اٹھانے لگی اور مموں کے چوسنے سے اسے سکون ملا۔ وہ کراہ رہی تھی اور کمرے میں تھپ تھپ کی آواز آ رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی “آہ ہوووووووررررر زووووووررررررر ناااااااااااال، ہوووووووووررررررررررر تیززززززززززز مزاااااااااااااااا آ ریاااااااااااااااا مینووووو آہہہہہہہہہہہہ” زید چودتا رہا اور اچانک اسے محسوس ہوا کہ اسے کچھ ہو رہا ہے تو اس نے کہا، “مینو کج ہوندا پیا” اس نے زید کی گانڈ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ “کردا رہہہہہہہیہیی، کج ہون نئی ڈیا، تیرااااااااااااا پانی نکلن لگا بسسسسسسسسسسس” زید کی رفتار مسلسل بڑھتی جا رہی تھی اور اچانک وہ چلایا، “آہ آہ آہ” وہ بھی چلائی، “ہااااااااااااائے میں فیررررررررررر گئی آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ” زید کا لن پوری طرح اندر داخل ہو گیا۔ اور اس کا پانی چھندو کی پھدی کے اندر گہرائی میں چھوٹنے لگا اور وہ بھی اپنا پانی چھوڑنے لگی۔ زید چھندو پر گرا اور ہانپنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور پھدی سے اپنا لن نکالتے ہوئے دیکھا کہ چھندو کی پھدی سے ان کے پانیوں کی آمیزش کی ندی نکل رہی ہے۔ زید بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا اور وہ چھنڈو کے پاس چارپائی پر لیٹ گیا جبکہ چھندوابھی تک ہانپ رہی تھی۔زید نے اپنی زندگی کا پہلا سیکس کیا تھا اور وہ اب کنوارا نہیں تھا۔ وہ سیکس کرنے کے بعد اتنا پرجوش تھا کہ اس کے لن کو دوبارہ کھڑا ہونے میں دیر نہیں لگی۔ جیسے ہی اس کا لن بالکل سیدھا ہوا، وہ اٹھ کر چھندو کی کھلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان آ گیا جس نے ابھی ایک بڑا لن اس کی پھدی میں لیا تھا۔ اسے اس صورت حال کا علم اس وقت ہوا جب زید نے اپنے لن کی ٹوپی چھندو کی پھدی کے منہ پر رکھ دی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی لفظ کہتی زید نے ایک گہرا دھکا دیا اور اس کا لن اس کی پھدی کے اندر گھس گیا اور اس کی ٹوپی چھندو کی بچے دانی سے ٹکرانے لگی. وہ چلا اٹھی “ہااااااائےےےےےےے ماررررر دتااااا میری پاااااااااٹ گئ”زید پرجوش بھی تھا اور ناتجربہ کار بھی کیونکہ اسے پھدی کی صفائی کا خیال نہیں تھا۔ وہ چھنڈو یا اس کی پھدی پر کوئی رحم کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اور اس کی اونچی چیخوں کے باوجود وہ گہرے دھکے دیتا رہا اور اس کا لن روانی سے چھندو کی پھدی کے اندر باہر جاتا رہا۔ کمرہ تھپ تھپ کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا اور چھندو کی اونچی آہوں سے بھی کیونکہ وہ زور زور سے چلا رہی تھی اور کہہ رہی تھی “ہااائے وے تووووو تےےے اپنے چاچے نالوں وووووی دووو ہاتھ اگگگگے ویں ہااااائے میرررررررری پھددددی تے رحم کر تے ہولی گھسسسسے ماررر”وہ التجا کر رہی تھی اور چلا رہی تھی لیکن دوسری طرف وہ اپنی پھدی میں زید کے گہرے دھکوں کا مزہ بھی لے رہی تھی۔ جبکہ زید پر اس کے چیخنے کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ دھکے دیتا رہا اور ساتھ ہی اس کے بوبس کو بھی تھام لیا۔ اس نے اس کے بڑے مموں کو دبانا شروع کر دیا جس سے اسے اس درد میں تھوڑا سا سکون ملا جو وہ اپنی پھدی میں محسوس کر رہی تھی لیکن اصل سکون اس پانی کی صورت میں آیا جو اس کی پھدی سے نکلا اور زید کے لن کو آسانی سےپھدی کے اندر باہر جانے کے لیے چکنا کرنے کام کیا اور اب اسے کم درد محسوس ہو رہا تھا۔ اب چھندو بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر ہر دھکے کا جواب دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی “ہور زوررر نااال اینج ای مااارررر گھسسسے ہور زور لاااااا”زید کو اپنے پہلے سیکس میں 2-3 منٹ سے زیادہ نہیں لگےلیکن اس بار اس نے چھندو کی پھدی کو چودتے ہوئے زیادہ وقت لیا اور چھندو کو دو بار اس کا پانی چھوڑنے پر مجبور کیا تھا جبکہ وہ تیسری بار اپنا پانی چھوڑنے کے لیے تیار تھی۔ زید کی اپنی دھکوں کی رفتار بھی بڑھ گئی اور جیسے ہی چھندو چلائی “آہہہہہہہ میں گئی آہہہہہہ” وہ بھی غرایا “آہہہہ” اس غراہٹ کے ساتھ ہی زید نے اپنا پانی چھندو کی پھدی کی گہرائیوں میں چھوڑا اور اس پر گر کر ہانپنے لگا.زید کو تو غنودگی سی ہو نے لگی تھی اور وہ نیند میں ہی چلا گیا ایک طرح لیکن جلد ہی اس نے خود کو سنبھالا اور لن نکال لیا. چھندو کی پھدی میں جیسے سیلاب آیا ہوا تھا اور پانی نکل کر گانڈ سے بھی نیچے جا چکا تھا. وہ بولی “چوہدری تو تے پھدی نو دو واریاں وج پھدا بنا کے رکھ دتا جے کتے کسے کواری تے چڑھ گیا اونو تے مار ای دویں گا”. زید ہنسا اور بولا “فکر نہ کر تو ہیں نہ سکھون لئی” وہ بولی “تے فر پہلا سبق ایہو ای اے کہ فارغ ہو کے پھدی تے لن دوناں نو صاف کری دا آہہہہہہ” وہ جیسے ہی اٹھی. اس کی تکلیف سے حالت خراب ہو گئی. زید اس سے پھر ملنے کا وعدہ کر کے گھر کو نکل آیا. اگلے دن ایک نوکر نے اس کو ایک خط دیا جو اس کے دوست محب کا تھا. یہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر کی بات تھی اور تب رابطے کا ذریعہ شہروں میں ٹیلیفوں اور دیہات میں خطوط تھے اور جنوبی پنجاب کے تو کئی علاقوں میں آج بھی فون نہیں تو تب کہاں ہوتا. اس نے خط کھولا تو اس میں ایک کاغذ اور ایک اور خط تھا اس نے سب سے پہلے کاغذ کھولا اور محب کا خط پڑھا جس کی تحریر تھی “میرے پیارے زید, امید ہے کہ تم ٹھیک ہو میری خواہش ہے کہ ہماری جلد ملاقات ہو جائے کیونکہ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں جن کا میں اس خط میں ذکر نہیں کر سکتا اور مجھے امید ہے کہ یہ ملاقات بہت جلد ہو گی لیکن فی الحال اس خط کا مقصد تمہاری امانت بھیجنا تھا۔ مجھے امید ہے کہ اس خط میں تمہارے لیے خوشخبری ہو گی اور میری خواہش ہے کہ تم ہمیشہ خوش رہو. تمہارا غم خوار محب” .دوسرے خط کی ساخت اور کاغذ بتا رہے تھے کہ بیرون ملک سے آیا ہے کیونکہ وہ زارا کا خط تھا. زید اور زارا کی محبت میں رابطے کے لیے پل کا کردار محب ادا کرتا تھا یعنی پہلے زویا محب کو خط بھیجتی اور پھر محب زید کو بغیر لفافہ کھولے بھیج دیتا تھا. اس نے زارا خوشبو سے مہکتے خط کو پہلے چوما اور پھر سینے سے لگایا اور پھر خط کھول کر پڑھنے لگا. “میری روح کے مالک, میری خوشیوں کے امین واسلام. میرا دل ہمیشہ تمہارے لیے دھڑکتا ہے اور میری خواہش ہے کہ میرے پاس پنکھ ہوں تاکہ میں تمہارے پاس اڑ کر پہنچ سکوں لیکن پنکھ تو آپ کے تایا جی کے ہاتھ میں ہیں اور مجھے یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہم اس گرمی میں فیملی ٹرپ پر پاکستان نہیں آ رہے ہیں۔ لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میرے بڑے بھائی رضوان کی شادی اگلے سال فروری میں ہو رہی ہے اور ہم فروری کے شروع میں آئیں گے جبکہ شادی فروری کے آخر میں ہو گی اور میرا پورا خاندان پاکستان میں ہی رہے گا 3 ماہ کے لئے. بہرحال مجھے امید ہے کہ تم اگلے سال اپنے سالانہ امتحانات کے لیے پوری طرح تیار ہو گے کیونکہ تمہارے اچھے نمبر آنے سے ہمارا راستہ آسان ہو جائے گا کیونکہ تمہیں انگلینڈ کی کسی بھی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے گا اور ایک بار جب تم یہاں آ جاؤ گے تو ہمارے لیے متحد ہونا آسان ہو جائے گا۔ اپنا خیال رکھنا کیونکہ تم میری امانت ہو اور میں چاہتی ہوں کہ تم ہمیشہ فٹ رہو۔ تمہارے دل کی دھڑکن”وہ کبھی بھی خطوط میں ایک دوسرے کا نام نہیں لکھتے تھے تا کہ پکڑے نا جائیں. زید کے دل میں آیا کے اگر کبھی زارا کو یہ معلوم ہو گیا کہ زید نے اس کی امانت میں خیا نت کی یعنی لن جس پر پہلا حق زارا کا تھا سے پہلی پھدی جھندو کی چود ڈالی تو اس کو کیسا لگے گا. چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ چدائی سے متعلق معاملات سے دور رہے گا. زارا کا خط پڑھ کر زید مسکرا رہا تھا جب کسی نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر زید کا دھیان اس کی طرف مبذول کرایا تو یہ عادل تھا جس نے کہا، “میں نے سوچا کہ شاید تمہیں یہ سن کر بہت دکھ ہوا ہوگا کہ تایا جان اور ان کے گھر والے پاکستان نہیں آرہے ہیں ان گرمیوں میں” زید نے مسکرا کر کہا “تم جیسے ہر کوئی خوش نصیب نہیں کہ تم نے اس لڑکی سے منگنی کر لی جس سے تم بچپن سے پیار کرتے تھے” اس نے کہا، “تمہیں نہیں لگتا کہ تم زیادہ بولنے لگے ہو” وہ مسکرایا اور بولا۔ “کم از کم میں تم سے اور میرب سے کم بولتا ہوں” یہ کہہ کر وہ بھاگا جیسے عادل اسے تھپڑ مارنے ہی والا تھا۔ زید نے خود سے وعدہ تو کرلیا لیکن دو دن بعد ہی وہ اس وعدے کو ایک طرف رکھنے پر مجبور ہوگیا جب اس نے ایک عورت کو مشکوک انداز میں اپنے چچا حبیب کے ڈیرے میں داخل ہو تے دیکھ لیا. اس کے ذہن میں چھندو کی چوہدریوں کے متعلق باتیں آئیں اور وہ تجسس میں پڑ گیا. یہ ڈیرا ان ڈیروں میں سے تھا جو مزیروں کو نہیں دیے گئے تھے اور مہمانوں کے لیے مختس تھے یا چوہدری خود استعمال کرتے تھے. زید اس عورت کا چہرہ نہ دیکھ سکا اور وہ اندر چلی گئی لیکن زید ہاں ناں کے دوراہے پر کھڑا تھا.آخر اس نے آگے بڑھنے لگا اور ڈیرے کی دیوار تک جا پہنچا. ڈیرے کی پانچ فٹ کی دیوار اس جیسے پہلوان کے لیے کطھ نہیں تھی اور ویسے بھی نہ تو ان ڈیروں میں کچھ قیمتی تھا اور نہ ہی چوہدریوں کے ڈیروں میں گھسنے کی کسی میں ہمت. زید دیوار پھاند کر دوسری طرف کودا لیکن کھڑکی دوسری طرف تھی. جیسے ہی وہ دوسری طرف پہنچا تو جھٹکا کھا گیا کیونکہ ایک لڑکی پہلے سے ہی کھڑکی سے لگی اندر جھانک رہی تھی. زید اس لڑکی کے پیجھے کھڑا ہوگیا لیکن اس کو پتہ نہ چلا کیونکہ وہ اندر چلتے کھیل کو دیکھنے میں مگن تھی. اند ایک عورت بستر پہ جھکی ہوئی تھی اور اس کا منہ نیچے تھا اور نظر نہیں آرہا تھا جبکہ حبیب پیچھے سے تیزی سے اس کی پھدی میں لن اندر باہر کر رہا تھا. اندر کا منظر دیکھ کر زید کا لن کھڑا ہو گیا اور سامنے کھڑی لڑکی کی گانڈ سے ٹکرا گیا. لڑکی چونکی اور مڑی مگر زید نے اس کے بولنے سے قبل ہی منہ پر ہاتھ رکھ دیا. یہ سترہ سالہ لڑکی رانی تھی جو حبیب کے مزیرے شکورے کی بیٹی تھی. تبھی اند رسے آہہہہہہ کی آواز آئی. حبیب فارغ ہو چکا تھا. اس نے لن پھدی سے نکالا تو وہ عورت سیدھی ہوئی اور اس کو دیکھ کر زید کو حیرت کا جھٹکا لگا کیونکہ وہ عورت……….
جاری ہے
زید اپنے والد چوہدری حیدر کا سب سے چھوٹا بچہ تھا اور وہ جنوبی پنجاب کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ ان کے والد کے چھ بچے تھے جن میں سمیرا سب سے بڑی تھیں پھر عباد دوسرے نمبر پر پھر ہادی پھر کرن پھر عادل اور ان سب کے بعد زید تھے۔ اگرچہ چوہدری حیدر کے تمام بچے پڑھائی میں بہت ہونہار تھے لیکن زید غیر معمولی تھا، وہ بہت ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت تیز سیکھنے والا بھی تھا اور وہ چیزیں بہت جلد سیکھ لیتا تھا۔ اس کی عمر 16 سال تھی جب کہ اس کی سب سے بڑی بہن 30 سال کی تھی اس کے بعد اس کا بھائی عباد 27 سال کا تھا، ہادی 25 سال کا تھا، کرن 22 سال کا تھا جب کہ عادل کی عمر 19 سال تھی۔ چوہدری حیدر اپنے والد کے 4 بچوں میں تیسرے نمبر پر تھے، ان کے بڑے بھائی چوہدری حیات فارن سروس میں بیورو کریٹ تھے اور لندن میں تعینات تھے۔ حیات کے چار بچے تھے جن میں رضوان سب سے بڑا تھا پھر ریحان پھر نعمان اور پھر اکلوتی بیٹی زارا تھی۔ رضوان 26، ریحان 23، نعمان 19 جبکہ زارا 16 سال کی تھی۔ پھر چوہدری حیدر کی ایک بڑی بہن تھی جس کا نام طاہرہ تھا جس کی چوہدری شاکر سے شادی ہوئی، ان کے بھی چار بچے تھے جن میں خاور سب سے بڑی بیٹی نبیلہ پھر داور اور پھر سب سے چھوٹی سویرا تھی جو اپنے والد کو بہت عزیز تھی۔ چوہدری حیدر کے سب سے چھوٹے بھائی چوہدری حبیب تھے جن کی صرف ایک بیٹی تھی جس کا نام میرب تھا اور اس کی عمر 18 سال تھی۔ حیات ساری زندگی پردیس میں رہا اور اس نے خاندان سے باہر ایک خاتون سے شادی کی لیکن پھر بھی اس نے اپنے بچوں کو اپنی جڑوں سے دور نہیں رکھا اور بچے ہر سال ان کے آبائی گاؤں جاتے تھے۔ کزنز میں اچھا رشتہ تھا، مزید یہ کہ سمیرا کی شادی خاور سے ہوئی تھی جبکہ نبیلہ کی شادی عباد سے ہوئی تھی اور کرن کی منگنی داور سے ہوئی تھی۔ عادل اور میرب ان میں سب سے خوش قسمت تھے کیونکہ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور دونوں کی منگنی بھی ہو چکی تھی حالانکہ خاندان کے اکثر افراد اس محبت کی کہانی سے ناواقف تھے اور وہ اسے کزنز کا رشتہ سمجھتے تھے لیکن زید اور کرن دونوں کے سب سے بڑے مددگار تھے اور یہ ایک سیدھی سیدھی محبت کی کہانی لگ رہی تھی جو جلد ہی شادی میں تبدیل ہونے والی تھی جو 60 کی دہائی میں بہت کم تھی کیونکہ ان دنوں زیادہ تر محبت کی کہانیاں اپنی موت آپ مر جاتی تھیں۔ اب کہانی شروع ہوتی ہے جب 16 سالہ زید قریبی گاؤں میں کبڈی میچ کھیل کر واپس آ رہا تھا۔ زید کو کبڈی اور ریسلنگ کا جنون تھا۔ برسات کی شام تھی اور اچانک بارش شروع ہو گئی۔ زید نے سوچا کہ شاید بارش زیادہ ہونے سے پہلے وہ اپنی حویلی پہنچ جائے لیکن وہ غلط تھا کیونکہ زید اپنے گاؤں کے احاطے میں پہنچنے سے پہلے ہی بارش تیز ہو گئی تھی۔ موسلا دھار بارش قابل برداشت تھی لیکن زید ایک اور پریشانی سے گزرا کیونکہ نہ صرف تیز بارش ہو رہی تھی بلکہ ہوا بھی تیز چل رہی تھی جس سے زید کو سردی کا احساس ہو رہا تھا اور وہ
کانپنے لگا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو پتا چلا کہ وہ اپنے کھیتوں میں ہے اور اسے قریب کے کھیت میں ایک ڈیرہ نظر آیا جو ایک مزدور کا تھا جو اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ کھیت میں رہتا تھا۔ زید تین کمروں کے اس چھوٹے سے ڈیرے کی طرف تیزی سے چلنے لگا۔ زید کے خاندان کے پاس کھیتوں میں بہت سے چھوٹے چھوٹے مکانات تھے کیونکہ وہ کھیتی کے موسم میں وہاں رہنے والے مزدوروں کو دیے گئے تھے اور ان میں سے کچھ مہمانوں کے لیے بھی خالی رکھے گئے تھے۔ زید ڈیرہ پر پہنچا اور وہ دستک دیے بغیر داخل ہو گیا۔ یہ بات بہت عام تھی کہ گاؤں کے گھروں کے دروازے دن کے وقت کھلے رہتے تھے اور یہ رواج آج تک جاری ہے۔ زید نے دیکھا کہ ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہے اور وہ اندر داخل ہوا لیکن اندر کے منظر نے زید کو چونکا دیا اور ایک لمحے کے لیے وہ ہلنے سے قاصر رہا۔ مزدور کی بیوی جس کی عمر تقریباً 25 سال تھی اندر تھی، وہ برہنہ تھی اور چارپائی پر لیٹی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ اپنی پھدی میں انگلی کرنے میں مصروف تھی۔
زید چند لمحے اس خاتون کو دیکھتا رہا لیکن اچانک خاتون کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اور اس نے آنکھیں کھولیں، وہ زید کو اپنے سامنے دیکھ کر چونک گئی جبکہ زید بھی کچھ دیر کے لیے پریشان ہو گیا۔ اس خاتون کا نام چھندو تھا، اس نے اپنا دوپٹہ لے کر خود کو ڈھانپ لیا لیکن پھر بھی دوپٹہ اسے پوری طرح نہیں ڈھانپ رہا تھا۔ اس نے غصے سے کہا” شرم نئیں آندی بغیر سوچے سمجے اندر آگیاں منہ چک کے” اس بات نے زید کے تن بدن میں آگ لگا دی اور اس نے ب ھی جواباً غصے سے کہا “پنڈ وچ کیڑا بوہا وجا کے آندا او وی اینی بارش وچ نا لے مینو کی پتہ کہ تسی ایتھے………” زید نے بات ادھوری چھوڑ دی اور باہر نکل گیا. چھنڈو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اپنے ننگے پن کی پرواہ کیے بغیر زید کے پیچھے بھاگی۔ وہ جانتی تھی کہ زید اس کے شوہر کے آجر کا بیٹا ہے اور اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے سے اس کے شوہر کو نوکری کا نقصان ہو سکتا ہے۔ زید گھر سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا ’’اوہ چوہدری رک‘‘ اس نے غصے سے کہا ’’کیوں رکاں میں آیتھے ہیں‘‘ اس نے اندر سے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا ’’اوہ چوہدری اینا غصہ نہیں کری دا ہنڈا، چل اندر میرے نال” بارش بہت تیز تھی اور چھندو بھی ان چند لمحوں میں پوری طرح گیلا ہو چکی تھی جو اس نے زید کا پیچھا کرتے ہوئے کمرے کے باہر گزارے تھے اور زید خود بھی بالکل بھیگ چکا تھا کیونکہ وہ اس تیز بارش سے اندر آیا تھااور اب وہ پھر بارش میں تھا۔ اچانک گرج چمک ہوئی, بادل کڑ کے اور ننگی چھندو اس سے ڈر گئی اور وہ زید سے لپٹ گئی۔ اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ کسی برہنہ عورت کی گرمی محسوس ہو رہی تھی جو اس سے چپکی ہوئی تھی، اس کا لن جسے کسی عورت نے چھوا بھی نہیں تھا، کھڑا ہونے لگا اور چھندو کو بھی لن کا سائز محسوس ہوا۔ وہ واپس ہٹی اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی، “چل ضد نئی کردے ایویں، تو اچانک آیا سی تے میں………….. تو سمجھ کے اس حالت وچ جو میں بولیا او میں بولنا چاہندی نئی سی پر میرے کولوں بول ہو گیا، آ جا اندر چلیئے، ویکھ تیرے چکر میں وی پجھ گئی آں” زید نے پھر خفگی سے کہا، “جیویں مینو شوق ای پجھن دا” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تقریباً گھسیٹتی ہوئی کمرے میں لے گئی۔ . اسے لگا کہ وہ ہوا کی وجہ سے کانپ رہا ہے، وہ خود بھی سردی کی وجہ سے کانپ رہی تھی، اس کے علاوہ وہ ننگی بھی تھی۔ وہ اسے کمرے میں لے گئی اور پھر وہ کچن میں گئی اور لکڑی کے ٹکڑوں سے ایک برتن بھر کر بوری سے ڈھانپ کر کمرے میں لے گئی۔ پھر اس نے ماچس کی تیلی کو روشن کیا اور خوش قسمتی سے وہ کمرے میں موجود کیروسین آئل کی مدد سے اسے روشن کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ وہ ابھی تک ننگی تھی لیکن اس نے دروازہ بند کر رکھا تھا اور کسی اور غیر متوقع شخص کی امید نہیں تھی۔ اس نے کہا، “چودھری ویکھ میں اگ بال دتی تے ہن کپرے وی سکھا لے تے اگ وی سیک لے” زید نے دیکھا کہ وہ ابھی تک برہنہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسے اس کے سامنے برہنہ کھڑا ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ۔ اس نے کپکپاتے ہوئے کہا، “کیویں سیکاں، کپرے گلے نیں” اس نے کہا، “تے لالے کپرے، تینو کنے آکھیا کے کپرے پاکے رکھ” زید نے کہا، “فر اپنے بندے دے کپرے لیا دے مینو” وہ ہنس کر بولی۔ “اوہ چوہدری، اپنا جسا ویکھ تے میرے بندے نو ویکھ، اودے ورگے دو تیرے کپریاں وچ پورے آ جان گے” یہ سچ بھی تھا کیونکہ زید بہت لاڈ پیار کروانے والا بچہ تھا اور اس کا پورا خاندان اس کا بہت خیال رکھتا تھا اسی لیے وہ۔ اپنی عمر کے دوسرے بچوں سے زیادہ صحت مند تھا اور وہ صرف 16 سال کی عمر میں 20 سال کا لگ رہا تھا، مزید یہ کہ وہ کبڈی کے کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ریسلنگ کا کھلاڑی بھی تھا جس کی وجہ سے وہ خود کو فٹ رکھنے کے لیے غیر معمولی ورزش کرنے کا عادی تھا تا کہ کھیل کے لیے دستیاب رہے اسی لیے اس کا جسم ایک پہلوان کا جسم لگتا تھا۔ اس نے الجھن میں کہا، “تے فیر ہن کی کراں” اس نے لاپرواہی سے کہا، “کرنا کی آئے، کپرے لا کے تار تے ٹنگ دے، اگ دے سینک نا سکھ جان گے” اس نے کہا، “کی مطلب، تیرے سامنے ننگا ہو جاواں۔ “اس نے کہا، “ہور کی کرنا فیر، دوجے کمرے وچ تو جا نی سکدا نالے مینو تے ننگا ویکھ ای لیا تو میرے سامنے ننگا ہوندے تینوں کیوں شرم آندی” اس نے کہا، “تو پاگل تے نہیں ہو گئی” اس نے کہا، “جا اوئے تو تے چودھریاں دا نک ای ڈوب چھڈیا، تیرے کسے وڈے نو آکھیا ہنڈا تے ہن نو سب کجھ لا کے او مارنا سی، تُو تے درپوک ای بڑا ایں” یہ زید کی انا اور مردانگی پر سیدھا حملہ تھا اس لیے اس نے کہا: “او میں نی ڈردا کسے تو وی” اس نے کہا، “تے فیر حالی تک ٹھنڈ کیوں لوائی جان ڈیا ایں” زید کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا اس لیے وہ کھڑا ہو گیا اور اپنے کپڑے اتارنے لگا، اس نے کپڑے ایک تار پر لٹکا دیے تھےجو کمرے کی ایک دیوار سے دوسری دیوار سے بندھا ہوا تھا اور اس تار کے نیچے آگ جل رہی تھی۔ اب وہ مکمل طور پر ننگا تھا جبکہ وہ صرف اپنے دوپٹہ سے خود کو ڈھانپ رہی تھی۔ اچانک چھندو اٹھی اور زید کے قریب آئی جو آگ کے پاس کھڑا اپنی ٹانگیں گرم کر رہا تھا۔ زید نے اس کی موجودگی کو اپنے قریب اس وقت محسوس کیا جب اس نے اس کا لن ہاتھ میں پکڑا اور کہا “واہ اوئے تیرے تے واوا ای وڈا سودا ای ویسے” زید نے کہا، “اے کی کرن ڈئی ایں تو” وہ مسکرائی اور اپنا ہاتھ اس کے لن پر پھیرتے ہوئے بولی، “چوہدری تو تے واوا ای پھولا ایں، ننگی زنانی تیرے کول کھڑی تیرا لن ہتھ اچ پھریا ہوا فیر وی پچھدا پیا کے میں کی کردی پئی” ایسا نہیں تھا کہ زید جنسی اور دیگر بالغ چیزوں سے بے خبر تھا لیکن وہ شرمیلا اور ان سب چیزوں سے گریز کیا کرتا تھا، مزید یہ کہ اس نے بزرگوں سے سنا تھا کہ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس نے کہا، ’’کنی بیشرماں عالیان گلاں کردی ایں تو‘‘۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا، “لے ایدے وچ شرم کتھوں آ گئی، ہن مینو تےتو ننگی ویکھ ای لیا تے شرم تے رہ نی گئی، نالے تیرے ایڈا لمبا سودا ویکھ کے تے کسے وی زنانی دا پانی اویں ای نکل جاوے”۔ زید کا لن وہ مسلسل مسل رہی تھی جب وہ یہ سب کہہ رہی تھی۔ زید نے کہا، “کی کری جان ڈئی ایں مینو درد ہو ریااے” اس نے شرارت سے کہا، “کتھے” اس نے شرماتے ہوئے کہا، “جتھے تیرا ہاتھ ای ہور کتھے” اس نے پھر شرارت سے کہا، “اتھے دا کوئی ناں شاں وی ہوندا” اس نے پھر ۔ شرماتے ہوئے کہا، “میرے لن وچ” وہ ہنسی اور بولی، “چل آ تیرے لن دے درد دا علاج کراں” وہ اس کا لن پکڑے ہوئے اسے چارپائی کے پاس گھسیٹتی لے گئی۔ اس نے پھر اسے سیدھا لٹایا جب کہ زید خاموشی سے اس کی ہدایات پر عمل کر رہا تھا، اس نے کہا، “کی کرن لگیں” اس نے کہا، “تیرے لن دا علاج” یہ کہتے ہوئے وہ اس کے اوپر آئی اور اپنے دونوں پاؤں دونوں زید کے دونوں طرف رکھ کر بیٹھ گئی اور اس کے لن کو پکڑتے ہوئے اس نے اپنی پھدی کی نوک پر رکھ دیا۔ وہ پھر لن پر بیٹھنے لگی اور لن دھیرے دھیرے اندر چلا گیا، اس نے کراہتے ہوئے کہا، “آہ، ہائے کنی ودی ٹوپی ای، آہ” زید نے کہا، “تو ہائے ہائے، کیوں کردی پئی،تینو درد ہو ریا” حالانکہ وہ سیکس کے بارے میں جانتا تھا۔ لیکن اس کے پاس صرف بنیادی معلومات تھیں۔ اس نے کراہتے ہوئے کہا، “اوئے کملیا ایڈا وڈا لوڑا اندر جاوے تے پہلی وار درد ہوندا ای آہ ہائے تو تے بوہتا ای چھلہ ایں ہائے” اس نے اس کے ہاتھ تھامے اور اپنے چھاتی پر رکھتے ہوئے کہا، “این نال کھیل، دب تے چوس ایناں نو مینو ارام ملو گا” زید نے پہلی بار کسی عورت کے مموں کو پکڑا اور وہ عورت کے ننگے مموں کو پکڑ کر بہت پرجوش تھا۔ چھندو کے ممے فٹ بال کی طرح گول تھے اور وہ بڑے بھی تھے لیکن غبارے کی طرح نرم تھے۔ وہ زید کی طرف جھکی اور بولی، “آہ آہ آہ، ہائے اوئے انا نو صرف دبنا نہیں چوسنا وی ہندا” زید ایک بوب دباتا رہا جب کہ اس نے ایک نپل منہ میں لیا اور چھندو کے نپلز کو چوسنا شروع کر دیا جو مسلسل ہلنے کی وجہ سے پرجوش ہو گئی اورزید کے لن پر اوپر نیچے ہوتی رہی لیکن اس نے اپنی پھدی میں اس کی لمبائی کا آدھا حصہ لیا تھا کیونکہ لن تقریباً 9 انچ لمبا اور 3 انچ موٹا تھا۔ زید چھندو کے ممے چوستے ہوئے پرجوش ہو گیا اور جوش کے نتیجے میں اس کے ہاتھ چھندو کے کولہوں پر چلے گئے اور اس نے اس کے کولہوں کو پکڑتے ہوئے نیچے سے ایک زور دار دھکا دیا۔ لن جو دھیرے دھیرے اندر جا رہا تھا کہ اچانک تمام رکاوٹیں توڑ کر پھدی کے اندر چلا گیا اور چھندو نے درد سے چیخ ماردی، “ہائے اوہ ماررررررررر دتااااااااا مینووووووووووو، پورررررااااا اااااای ی ی وچ کلللللےےے واااانگوووووں ٹھووووووک سٹیا، آہہہہہہہہہہہہہہہ ہاااااااااااائے میں مرررررررررر گئی” وہ چیخ رہی تھی۔ درد سے اور چارپائی پر ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ساتھ اگر وہ ان کو رگڑ رہی تھی تو درد کو دور کرنے کے لیے جو اسے تھا۔ زید پریشان ہوا اور بولا، “تینو درد ہو ریا” اس نے کہا، “اوہہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ کنجررررررررررررا جدددددددد سنڈےےےےےے دا لن پھدی وچ پوووووورا جائے گا تےےےےےدرد نہیں ہووے گا تی ہوررررررررر کی ہووووووے گا” زید نے اٹھنے کی کوشش کی جب اس نے کہا، “ہاااااااااائے آہہہہہہہہہہہہ کی کری جا ریا ایں ہوں” اس نے کہا، “اٹھ کے بار کڈن لگا تا کے تینو درد نہ ہووے” وہ چلائی، “آہہہہہہہہہہہہہہہہ ہاااااااااااااااائے اووووووئے کداں ددددددے کملے نااااااال ووووااااہ پے گیا، اوہ چپ کر کے پیا رہہہہہہہہہییہ، جو تو کرنا سی کر دیتا ہااااااااااااائے۔ ہُن بس ممے دب تے چُوس” زید نے حکم کی تعمیل کی اور نہ صرف ایک ایک کر کے اس کے نپل چوستا رہا بلکہ وہ اس کے مموں کو دباتا بھی رہا اور وہ کہتی رہی، “آہہہہہہییییییییہہہہہہہہ ہورررررررر دب، زوررررررر نااااااااال دب، چوسسسسسسد لے پوررررررااااا دودھ”۔ وہ خود زید کے لن پر اوپر نیچے ہونے لگی اور آہستہ آہستہ اس کی پھدی زید کے لن کے ساتھ ایڈجسٹ ہو گئی جبکہ زید بھی آرام محسوس کر رہا تھا۔ کچھ دیر زید کے لن پر چھلانگ لگانے کے بعد اس کی رفتار بڑھ گئی اور وہ تقریباً چلائی، “آہ میں گئی، ہاااائے میں گئی” زید نے اسے پکڑتے ہوئے کہا، “کی ہوا تینو، کی ہنڈا پیا” زید کو خبر ہی نہیں تھی کہ لن سے پانی نکلتا ہے جنسی عمل کے نتیجے میں اور عورت کی پھدی سے بھی نکلتا ہے اس نے اپنا پانی چھوڑا اور زید کو اپنے لن پر گرم پانی محسوس ہوا جب وہ زید کے سینے پر گر گئی۔ وہ ہانپ رہی تھی جب اس نے کہا، “ہائے اج تے مزہ ای آ گیا، پتا نی کنے سالاں بعد چھٹی آں اج میں” زید نے الجھ کر کہا، “کی مطلب، تینو کنے پھریا ہویا سی” چھندو زید کی معصومیت پر ہنسنے لگی اور بولی “اوہ پاگلا، جدوں بندہ بی بی وچ لن واڑدا تے ایدے وچ اندر بہار کردا تے بی بی نو مزہ آندا تے اودی پھدی وچون پانی نکلیا کردا، اوہ میرا کئی سالاں بعد نکلیا………… اک منٹ، تیرے ہویا نئی حالے”۔ “کی نئی ہویا” وہ اٹھی اور کھڑا لن ہاتھ میں لیتے ہوئے بولی “اوہ واہ او چوہدری، ہن تو لگا ایں چوہدری، اٹھ تے آ جا ہن” زید نے کہا، “کتھے آ جاواں” اس نے سر پر ہاتھ مارا۔ مایوسی سے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا، “تُو اُٹھ زرا میں تینوں دسدی آں” یہ کہہ کر اس نے اسے کھڑا کیا اور وہ خود ہی چارپائی پر لیٹ گئی جب اس نے ٹانگیں کھولیں، یہ پہلی بار تھا کہ زید پھدی کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے پھدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “لن ادے وچ پانا تے اگے پچھے یانی اندر بہار کرنا جیویں میں ہونئی کِیتا سی” زید سمجھ گیا اور اس کی ٹانگوں کے درمیان آگیا اور اپنے لن کی بڑی ٹوپی کو چھندو کی پھدی کے دہانے پر رکھتے ہوئے اس نے ایک زور دار دھکا دیا اور لن چھندو کی پھدی کے اندر گہرائی تک گھس گیا اور وہ چلائی، “آہہہہہہہہیہیہہییہہہہہہہہہہ مررررررررررررررررررررر گئیییییییییییی، ظااااااااالم، ہاااااااااااااائے” اس نے کہا، “ہن کی ہویا” وہ چلائی، “ایڈااااااااااااا وڈاااااااااا موسللللللللل میری پھدی وچ وااااااااااڑ چھڈیا ایکو واری آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ پاااااااااااااااااااااڑ چھڈی میرررررررررررررررررری”۔ زید نے کہا، “تُو آکھیا سی کے اکو واری درد ہوندا ای” وہ غصے میں آ گئی اور چڑچڑی آواز میں بولی، “اوووووووووئے ایڈاااااااااااااااااا وڈااااااااااااااااا لن اکو واررررررررررییییی وچ نئی واڑی دا، ہولی ہولی پائ دااااااااااااا ہنڈاااااااااا” زید نے اس کی بات سمجھ لی اور اس کے مموں ساتھ کھیلنے لگا۔ اور دھیرے دھیرے اپنے لن کو اس کی پھدی کے اندر باہر کرنے لگا اور وہ بھی مموں کے دبائے جانے کے ساتھ ہی اپنی گانڈ کو اٹھانے لگی اور مموں کے چوسنے سے اسے سکون ملا۔ وہ کراہ رہی تھی اور کمرے میں تھپ تھپ کی آواز آ رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی “آہ ہوووووووررررر زووووووررررررر ناااااااااااال، ہوووووووووررررررررررر تیززززززززززز مزاااااااااااااااا آ ریاااااااااااااااا مینووووو آہہہہہہہہہہہہ” زید چودتا رہا اور اچانک اسے محسوس ہوا کہ اسے کچھ ہو رہا ہے تو اس نے کہا، “مینو کج ہوندا پیا” اس نے زید کی گانڈ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ “کردا رہہہہہہہیہیی، کج ہون نئی ڈیا، تیرااااااااااااا پانی نکلن لگا بسسسسسسسسسسس” زید کی رفتار مسلسل بڑھتی جا رہی تھی اور اچانک وہ چلایا، “آہ آہ آہ” وہ بھی چلائی، “ہااااااااااااائے میں فیررررررررررر گئی آہہہہہہہہہہہہہہہہہہہ” زید کا لن پوری طرح اندر داخل ہو گیا۔ اور اس کا پانی چھندو کی پھدی کے اندر گہرائی میں چھوٹنے لگا اور وہ بھی اپنا پانی چھوڑنے لگی۔ زید چھندو پر گرا اور ہانپنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور پھدی سے اپنا لن نکالتے ہوئے دیکھا کہ چھندو کی پھدی سے ان کے پانیوں کی آمیزش کی ندی نکل رہی ہے۔ زید بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا اور وہ چھنڈو کے پاس چارپائی پر لیٹ گیا جبکہ چھندوابھی تک ہانپ رہی تھی۔زید نے اپنی زندگی کا پہلا سیکس کیا تھا اور وہ اب کنوارا نہیں تھا۔ وہ سیکس کرنے کے بعد اتنا پرجوش تھا کہ اس کے لن کو دوبارہ کھڑا ہونے میں دیر نہیں لگی۔ جیسے ہی اس کا لن بالکل سیدھا ہوا، وہ اٹھ کر چھندو کی کھلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان آ گیا جس نے ابھی ایک بڑا لن اس کی پھدی میں لیا تھا۔ اسے اس صورت حال کا علم اس وقت ہوا جب زید نے اپنے لن کی ٹوپی چھندو کی پھدی کے منہ پر رکھ دی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی لفظ کہتی زید نے ایک گہرا دھکا دیا اور اس کا لن اس کی پھدی کے اندر گھس گیا اور اس کی ٹوپی چھندو کی بچے دانی سے ٹکرانے لگی. وہ چلا اٹھی “ہااااااائےےےےےےے ماررررر دتااااا میری پاااااااااٹ گئ”زید پرجوش بھی تھا اور ناتجربہ کار بھی کیونکہ اسے پھدی کی صفائی کا خیال نہیں تھا۔ وہ چھنڈو یا اس کی پھدی پر کوئی رحم کرنے کے موڈ میں نہیں تھا اور اس کی اونچی چیخوں کے باوجود وہ گہرے دھکے دیتا رہا اور اس کا لن روانی سے چھندو کی پھدی کے اندر باہر جاتا رہا۔ کمرہ تھپ تھپ کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا اور چھندو کی اونچی آہوں سے بھی کیونکہ وہ زور زور سے چلا رہی تھی اور کہہ رہی تھی “ہااائے وے تووووو تےےے اپنے چاچے نالوں وووووی دووو ہاتھ اگگگگے ویں ہااااائے میرررررررری پھددددی تے رحم کر تے ہولی گھسسسسے ماررر”وہ التجا کر رہی تھی اور چلا رہی تھی لیکن دوسری طرف وہ اپنی پھدی میں زید کے گہرے دھکوں کا مزہ بھی لے رہی تھی۔ جبکہ زید پر اس کے چیخنے کا کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ دھکے دیتا رہا اور ساتھ ہی اس کے بوبس کو بھی تھام لیا۔ اس نے اس کے بڑے مموں کو دبانا شروع کر دیا جس سے اسے اس درد میں تھوڑا سا سکون ملا جو وہ اپنی پھدی میں محسوس کر رہی تھی لیکن اصل سکون اس پانی کی صورت میں آیا جو اس کی پھدی سے نکلا اور زید کے لن کو آسانی سےپھدی کے اندر باہر جانے کے لیے چکنا کرنے کام کیا اور اب اسے کم درد محسوس ہو رہا تھا۔ اب چھندو بھی گانڈ اٹھا اٹھا کر ہر دھکے کا جواب دے رہی تھی اور کہہ رہی تھی “ہور زوررر نااال اینج ای مااارررر گھسسسے ہور زور لاااااا”زید کو اپنے پہلے سیکس میں 2-3 منٹ سے زیادہ نہیں لگےلیکن اس بار اس نے چھندو کی پھدی کو چودتے ہوئے زیادہ وقت لیا اور چھندو کو دو بار اس کا پانی چھوڑنے پر مجبور کیا تھا جبکہ وہ تیسری بار اپنا پانی چھوڑنے کے لیے تیار تھی۔ زید کی اپنی دھکوں کی رفتار بھی بڑھ گئی اور جیسے ہی چھندو چلائی “آہہہہہہہ میں گئی آہہہہہہ” وہ بھی غرایا “آہہہہ” اس غراہٹ کے ساتھ ہی زید نے اپنا پانی چھندو کی پھدی کی گہرائیوں میں چھوڑا اور اس پر گر کر ہانپنے لگا.زید کو تو غنودگی سی ہو نے لگی تھی اور وہ نیند میں ہی چلا گیا ایک طرح لیکن جلد ہی اس نے خود کو سنبھالا اور لن نکال لیا. چھندو کی پھدی میں جیسے سیلاب آیا ہوا تھا اور پانی نکل کر گانڈ سے بھی نیچے جا چکا تھا. وہ بولی “چوہدری تو تے پھدی نو دو واریاں وج پھدا بنا کے رکھ دتا جے کتے کسے کواری تے چڑھ گیا اونو تے مار ای دویں گا”. زید ہنسا اور بولا “فکر نہ کر تو ہیں نہ سکھون لئی” وہ بولی “تے فر پہلا سبق ایہو ای اے کہ فارغ ہو کے پھدی تے لن دوناں نو صاف کری دا آہہہہہہ” وہ جیسے ہی اٹھی. اس کی تکلیف سے حالت خراب ہو گئی. زید اس سے پھر ملنے کا وعدہ کر کے گھر کو نکل آیا. اگلے دن ایک نوکر نے اس کو ایک خط دیا جو اس کے دوست محب کا تھا. یہ ساٹھ کی دہائی کے اواخر کی بات تھی اور تب رابطے کا ذریعہ شہروں میں ٹیلیفوں اور دیہات میں خطوط تھے اور جنوبی پنجاب کے تو کئی علاقوں میں آج بھی فون نہیں تو تب کہاں ہوتا. اس نے خط کھولا تو اس میں ایک کاغذ اور ایک اور خط تھا اس نے سب سے پہلے کاغذ کھولا اور محب کا خط پڑھا جس کی تحریر تھی “میرے پیارے زید, امید ہے کہ تم ٹھیک ہو میری خواہش ہے کہ ہماری جلد ملاقات ہو جائے کیونکہ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں جن کا میں اس خط میں ذکر نہیں کر سکتا اور مجھے امید ہے کہ یہ ملاقات بہت جلد ہو گی لیکن فی الحال اس خط کا مقصد تمہاری امانت بھیجنا تھا۔ مجھے امید ہے کہ اس خط میں تمہارے لیے خوشخبری ہو گی اور میری خواہش ہے کہ تم ہمیشہ خوش رہو. تمہارا غم خوار محب” .دوسرے خط کی ساخت اور کاغذ بتا رہے تھے کہ بیرون ملک سے آیا ہے کیونکہ وہ زارا کا خط تھا. زید اور زارا کی محبت میں رابطے کے لیے پل کا کردار محب ادا کرتا تھا یعنی پہلے زویا محب کو خط بھیجتی اور پھر محب زید کو بغیر لفافہ کھولے بھیج دیتا تھا. اس نے زارا خوشبو سے مہکتے خط کو پہلے چوما اور پھر سینے سے لگایا اور پھر خط کھول کر پڑھنے لگا. “میری روح کے مالک, میری خوشیوں کے امین واسلام. میرا دل ہمیشہ تمہارے لیے دھڑکتا ہے اور میری خواہش ہے کہ میرے پاس پنکھ ہوں تاکہ میں تمہارے پاس اڑ کر پہنچ سکوں لیکن پنکھ تو آپ کے تایا جی کے ہاتھ میں ہیں اور مجھے یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہم اس گرمی میں فیملی ٹرپ پر پاکستان نہیں آ رہے ہیں۔ لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میرے بڑے بھائی رضوان کی شادی اگلے سال فروری میں ہو رہی ہے اور ہم فروری کے شروع میں آئیں گے جبکہ شادی فروری کے آخر میں ہو گی اور میرا پورا خاندان پاکستان میں ہی رہے گا 3 ماہ کے لئے. بہرحال مجھے امید ہے کہ تم اگلے سال اپنے سالانہ امتحانات کے لیے پوری طرح تیار ہو گے کیونکہ تمہارے اچھے نمبر آنے سے ہمارا راستہ آسان ہو جائے گا کیونکہ تمہیں انگلینڈ کی کسی بھی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ مل جائے گا اور ایک بار جب تم یہاں آ جاؤ گے تو ہمارے لیے متحد ہونا آسان ہو جائے گا۔ اپنا خیال رکھنا کیونکہ تم میری امانت ہو اور میں چاہتی ہوں کہ تم ہمیشہ فٹ رہو۔ تمہارے دل کی دھڑکن”وہ کبھی بھی خطوط میں ایک دوسرے کا نام نہیں لکھتے تھے تا کہ پکڑے نا جائیں. زید کے دل میں آیا کے اگر کبھی زارا کو یہ معلوم ہو گیا کہ زید نے اس کی امانت میں خیا نت کی یعنی لن جس پر پہلا حق زارا کا تھا سے پہلی پھدی جھندو کی چود ڈالی تو اس کو کیسا لگے گا. چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ چدائی سے متعلق معاملات سے دور رہے گا. زارا کا خط پڑھ کر زید مسکرا رہا تھا جب کسی نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر زید کا دھیان اس کی طرف مبذول کرایا تو یہ عادل تھا جس نے کہا، “میں نے سوچا کہ شاید تمہیں یہ سن کر بہت دکھ ہوا ہوگا کہ تایا جان اور ان کے گھر والے پاکستان نہیں آرہے ہیں ان گرمیوں میں” زید نے مسکرا کر کہا “تم جیسے ہر کوئی خوش نصیب نہیں کہ تم نے اس لڑکی سے منگنی کر لی جس سے تم بچپن سے پیار کرتے تھے” اس نے کہا، “تمہیں نہیں لگتا کہ تم زیادہ بولنے لگے ہو” وہ مسکرایا اور بولا۔ “کم از کم میں تم سے اور میرب سے کم بولتا ہوں” یہ کہہ کر وہ بھاگا جیسے عادل اسے تھپڑ مارنے ہی والا تھا۔ زید نے خود سے وعدہ تو کرلیا لیکن دو دن بعد ہی وہ اس وعدے کو ایک طرف رکھنے پر مجبور ہوگیا جب اس نے ایک عورت کو مشکوک انداز میں اپنے چچا حبیب کے ڈیرے میں داخل ہو تے دیکھ لیا. اس کے ذہن میں چھندو کی چوہدریوں کے متعلق باتیں آئیں اور وہ تجسس میں پڑ گیا. یہ ڈیرا ان ڈیروں میں سے تھا جو مزیروں کو نہیں دیے گئے تھے اور مہمانوں کے لیے مختس تھے یا چوہدری خود استعمال کرتے تھے. زید اس عورت کا چہرہ نہ دیکھ سکا اور وہ اندر چلی گئی لیکن زید ہاں ناں کے دوراہے پر کھڑا تھا.آخر اس نے آگے بڑھنے لگا اور ڈیرے کی دیوار تک جا پہنچا. ڈیرے کی پانچ فٹ کی دیوار اس جیسے پہلوان کے لیے کطھ نہیں تھی اور ویسے بھی نہ تو ان ڈیروں میں کچھ قیمتی تھا اور نہ ہی چوہدریوں کے ڈیروں میں گھسنے کی کسی میں ہمت. زید دیوار پھاند کر دوسری طرف کودا لیکن کھڑکی دوسری طرف تھی. جیسے ہی وہ دوسری طرف پہنچا تو جھٹکا کھا گیا کیونکہ ایک لڑکی پہلے سے ہی کھڑکی سے لگی اندر جھانک رہی تھی. زید اس لڑکی کے پیجھے کھڑا ہوگیا لیکن اس کو پتہ نہ چلا کیونکہ وہ اندر چلتے کھیل کو دیکھنے میں مگن تھی. اند ایک عورت بستر پہ جھکی ہوئی تھی اور اس کا منہ نیچے تھا اور نظر نہیں آرہا تھا جبکہ حبیب پیچھے سے تیزی سے اس کی پھدی میں لن اندر باہر کر رہا تھا. اندر کا منظر دیکھ کر زید کا لن کھڑا ہو گیا اور سامنے کھڑی لڑکی کی گانڈ سے ٹکرا گیا. لڑکی چونکی اور مڑی مگر زید نے اس کے بولنے سے قبل ہی منہ پر ہاتھ رکھ دیا. یہ سترہ سالہ لڑکی رانی تھی جو حبیب کے مزیرے شکورے کی بیٹی تھی. تبھی اند رسے آہہہہہہ کی آواز آئی. حبیب فارغ ہو چکا تھا. اس نے لن پھدی سے نکالا تو وہ عورت سیدھی ہوئی اور اس کو دیکھ کر زید کو حیرت کا جھٹکا لگا کیونکہ وہ عورت……….
جاری ہے
ایک تبصرہ شائع کریں for " گمنام.1"