کے ساتھ کھڑے ہو کر۔۔۔۔ چوپا لگواتا یہ گورا۔۔۔۔۔۔ میری اور سلیم کی بولتی بلکل بند
ادھر۔۔۔ گورا، اورگوری کے کپڑے اتر چکے تھے۔۔۔۔ گورے نے جب گوری کی پھدی
چاٹنا شروع کی۔۔۔ میرے منہ سے نکلا۔۔۔ اخ گندہ۔۔۔۔ کدھر منہ ڈال رہا ہے۔۔۔۔ اس وقت سوچا بھی نہ تھا۔۔۔۔ کہ آگے چل کر خود میں نے کتنی پھدیاں چاٹنی ہیں۔۔۔۔ ادھر گورےنے گوری کی ٹانگیں اٹھائیں۔۔۔ اور۔۔۔ اپنا لوڑا اسکی چوت میں ڈالا۔۔۔ ادھر۔۔۔ ہم دونوں کے لوڑے نکل آئے۔۔۔ گورا جتنی سپیڈ سے گوری کوچود رہا تھا۔۔۔ اتنی ہی سپیڈ سے
ہمارے لوڑے۔۔۔ ہمارے ہاتھوں کو چود رہے تھے۔۔۔ لیکن ہمارے خیالوں میں بس گوری
کی چوت تھی۔۔۔۔ یہ فلم دیکھنے سے دو چیزوں کا پتہ لگا۔۔۔۔ پہلی یہ کہ۔۔۔ سیکس کے لیے
لڑکی کا بس ایک سوراخ نہیں ھوتا۔۔۔۔ پھدی کے ساتھ ساتھ گانڈ بھی ماری جاتی ہے۔۔۔
اور۔۔ چوپے بھی لگوائے جا سکتے ہیں۔۔۔۔ دوسری یہ کہ۔۔۔ صنف نازک کو دیکھنے والی
میری نظر ہی بدل گئی۔۔۔۔ پہلے لڑکی۔۔۔ چاچا زاد ۔۔۔ تایا زاد ۔۔۔ یا خالہ زاد ۔۔۔ بہن تھی۔۔۔
اورعورت۔۔۔ آنٹی۔۔۔ خالہ۔۔۔ یا۔۔۔ پھوپھو تھی۔۔۔ جبکہ اب سے میری نظر میں۔۔۔ وہ بس مموں۔۔۔ گانڈ ۔۔۔ اور پھدی ۔۔۔ کا مجموعہ تھی۔۔۔ اور آج سے زندگی کا مقصد تھا۔۔۔ تو بس۔۔۔
پھدی کی تلاش۔۔۔ اب خیالی چوت نہیں اصلی چاہیئے تھی۔۔۔۔ میں نے سلیم کو کہا۔۔۔ بہن
چود بہت ہو گئیں مٹھیں ۔۔۔ اب یا تو پھدی ڈھونڈ کر دے۔۔۔ یا پھر اپنی بنڈ دے۔۔۔۔ سلیم
بولا۔۔۔ گانڈو حالت میری بھی ایسی ہی ہے۔۔۔ صبر کرلے ۔۔۔۔ کرتے ہیں کچھ ۔۔۔۔ لیکن کچھ
کام اتنے آسان بھی نہیں ہوتے ۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنے وقت پر ہونے ہوتے ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ وقت کی
اچھی بات یہ ہے کہ۔۔۔ وقت ۔۔۔۔ گزر جاتا ہے۔۔۔ ہمارا بھی گزر گیا۔۔۔۔ امی کو اپنی چکوال
والی بہن کی یاد آئی۔۔۔ اور۔۔۔ میرا آیا اچھا وقت۔۔۔ پہلے کبھی امی چکوال جانے کا
کہتی۔۔۔۔ تو میرا موڈ خراب ہو جاتا۔۔۔ کیونکہ چکوال والی خالہ سے امی کی دوستی اتنی تھی۔۔۔ کہ امی جاتیں تھیں۔۔۔ تو جلدی واپسی نہیں ہوتی تھی۔۔۔۔ کم از کم ہفتہ لگ جاتاتھا۔۔۔ اور۔۔۔ میرا ادھر دل نہیں لگتا تھا۔۔۔۔ کہ ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔۔۔ اور۔۔۔ خالومسقط میں ہوتے تھے۔۔۔ تو مجھے کمپنی دینے۔۔۔ یا ۔۔۔۔ باہر گھمانے والا کوئی نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ لیکن
اس دفعہ ۔۔۔ امی سے بھی زیادہ ۔۔۔ چکوال جانے کے لیے میں پرجوش تھا۔۔۔۔ اس کی وجہ
یہ تھی۔۔۔ کہ ان کا بیٹا نہیں تھا۔۔۔۔ تو کیا ہوا ۔۔۔ بیٹیاں تو تھی ناں۔۔۔ اور۔۔ وہ بھی دو عدد
جن میں سے بڑی کی شادی ہوئی۔۔۔ اور شادی کے ایک سال بعد ہی ۔۔۔ اس کے شوہر کی
کار ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہو گئی۔۔۔ اور وہ واپس خالہ کی طرف آ گئی۔۔۔ تو خیر۔۔۔ امی کو
بہت حیرانگی تھی۔۔۔ کہ میں اتنے آرام سے چکوال جانے کے لیے کیسے مان گیا ہوں۔۔۔
اب ان کو کیا پتہ ۔۔۔ کہ میں چکوال جانے کے لیے پرجوش کیوں نہ ہوتا۔۔۔ آخر دو پھدیوں
کی قربت ملنے والی تھی۔۔۔۔ جانے کا فائنل ہوا ۔۔۔ تو سب سے پہلے۔۔۔ میں نے۔۔۔ سلیم کو
بتا کر۔۔۔ اس کی گانڈ میں آگ لگائی۔۔۔۔ اگلے دن شام تک ہم خالہ کے گھر پہنچ گئے ۔۔۔
ان کی بیٹیوں سے ملاقات میری پہلے بھی تھی۔۔۔ لیکن پہلے میں نے ان کو اس نظر سے
نہیں دیکھا تھا۔۔۔ آج دیکھا۔۔۔ تو پتہ لگا۔۔۔ کہ یہ تودونوں کمال کی ہیں۔۔۔ لیکن جو قیامت۔۔۔۔
بڑی سعدیہ تھی ویسی۔۔۔ نادیہ نہیں تھی۔۔۔ میرے سےتین سال بڑی تھی۔۔۔ اس وجہ سے۔۔۔ میں ان کو سعدیہ باجی کہتا تھا۔۔۔ باجی سعدیہ کافی شوخ مزاج تھی۔۔۔ اور۔۔۔ تھی بڑی سیکسی سی۔۔۔ چھتیس سائز کے ممے تھے۔۔۔ جو قمیض میں بھی باہر کو نکلے نظر آتے تھے۔۔۔
اور موٹی موٹی آنکھیں۔۔۔ پیٹ نہ ھونے کے برابر تھا۔۔۔ اور ۔۔۔ ان کی گانڈ تو کمال کی
تھی۔۔۔ بلکل گول ۔۔۔ اور ۔۔۔ باہر کو نکلی ہوئی۔۔۔ انہوں نے کپڑے بھی بڑے فٹنگ والےپہنے تھے۔۔۔ جس سے ان کے ممے ۔۔۔ اور گانڈ ۔۔۔ بلکل نمایاں نظرآ رہی تھی۔۔۔ اور جب
وہ چلتی۔۔۔ تو پیچھے سے ہلتی ھوئی گانڈ کا نظارا ھی الگ ھوتا تھا۔۔۔ رنگ تھوڑاگندمی۔۔۔ مگرصاف تھا ۔۔۔ اور رنگ میں کشش تھی۔۔۔ ۔ مجھے تو یہی خیال آیا۔۔۔ کہ ایک
سال کی شادی میں ان کے مرحوم شوہر نے ان کو بہت احتیاط سے چودا ہے۔۔۔ سعدیہ کو
دیکھ دیکھ کر میرا لوڑا بے قابو ہوا جا رہا تھا۔۔۔۔ نادیہ میرے سے چار سال چھوٹی تھی۔۔۔
رنگ گورا تھا۔۔۔ چہرے پر معصومیت تھی۔۔۔ موٹی تو نہیں۔۔۔ لیکن جسم تھوڑا بھرا بھرا
سا تھا ۔۔۔ قد مناسب سا تھا اور۔۔۔ ممے قمیض میں اتنے نمایاں نہیں تھے۔۔۔ اس وجہ سے
گول مٹول سی لگتی تھی۔۔۔ خالہ وغیرہ نے بہت خوشی اور چاہت سے ہمارا استقبال کیا۔۔۔
اپنی کزنز سے دوستی میری پہلے بھی تھی۔۔۔ لیکن اب تو میں اور زیادہ گھل مل رہا تھا۔۔۔
گپیں لگا رہا تھا۔۔۔ ہنسی مزاق کر رہا تھا۔۔۔ کہ یہ فرینک ہوں گی تو بات بن جائے گی۔۔۔۔
خالہ بولی۔۔ شیراز! ہردفعہ تم آتے ہی دوسرے دن واپسی کا شور ڈالتے ہو۔۔۔ لیکن اس دفعہ
میں پہلے بتا رہی ہوں۔۔۔ میں نے کم از کم ایک ہفتے سے پہلے تم لوگوں کو نہیں جانے
دینا۔۔۔ میں شوخی سے بولا خالہ! بس ایک ہفتہ۔۔۔ میں اور امی تو ایک مہینے کا زہن بنا
کر آئے تھے۔۔۔ خالہ بڑے جوش سے بولیں۔۔۔ ہائے خالہ صدقے۔۔۔ کاش تم واقعی اتنےاچھے ہو جاؤ کہ مہینہ رہ سکو۔۔۔ تم تو دو دن میں ہم سے تنگ پڑ جاتے ہو۔۔۔ باجی پتہ
نہیں کتنی منتیں ترلے کر کے تمھیں منا کر لائی ہیں۔۔ یہ سن کر امی بولیں۔۔۔ نہیں اس دفعہ
تو یہ خود بڑی خوشی سے آیا ہے۔۔۔ خالہ حیران ہو کر بولیں ۔۔۔ یہ معجزہ کیسے ہوگیا۔۔۔
میں نے ہنس کرکہا ۔۔۔ خالہ! اب مجھے عقل آ گئی ہے۔۔۔ یہ سن کے سب ہنس پڑے۔۔
میں نے کہا ۔۔۔ خالہ! اصل میں۔۔۔ میں اب بڑا ہو گیا ہوں۔۔۔ خود گھوم پھر سکتا ہوں۔۔۔
چکوال کا میں نے بہت سنا ہے۔۔۔ ادھر گھومنے پھرنے کی بہت سی جگہیں ہیں۔۔۔ آپ
بس مجھے جگہوں کا بتاتی جانا۔۔۔ گھوم میں خودہی لوں گا۔۔۔ یہ سن کر نادیہ بولی۔۔۔
ساری جگہوں کا میں بتاؤں گی۔۔۔ لیکن آپ اکیلے نہیں جاؤ گے۔۔۔ میں اور باجی بھی آپ
کے ساتھ جائینگے۔۔۔ امی ہمیں اکیلے جانے نہیں دیتیں۔۔۔ اور۔۔۔ نہ خود ساتھ لیکر جاتیں
ہیں۔۔۔ خالہ نادیہ کو گھور کر بولیں۔۔۔ ایک تو تمھاری شکایتیں ختم نہیں ہوتیں۔۔۔ امی
بولیں۔۔۔ کیوں ڈانٹ رہی ہو بچی کو؟ صحیح تو کہہ رہی ہے۔۔۔ شیراز ہے تو بچیاں بھی
گھوم پھر لیں گی۔۔۔ سارا دن گھر بیٹھ کر بور ہوتی ہیں۔۔۔ ویسے بھی آج کل چھٹیاں ہی
ہیں۔۔ خالہ بولیں۔۔۔ اس نے اس سال میٹرک کے امتحان دینے ہیں۔۔۔ اس کی تیاری کے لیے
اس کے سکول میں سمر کیمپ چل رہا ہے۔۔۔ روزانہ صبح چار گھنٹے کے لیے انکو بلاتے
ہیں۔۔۔ نادیہ بولی۔۔۔ ہاں تو وہ تو صبح چھ سے گیارہ تک ہوتا ہے۔۔۔ اس وقت تک تو باجی بھی
سو رہی ہوتی ہیں ۔۔۔ اور شیراز بھائی بھی جلدی کدھر اٹھتے ہوں گے۔۔۔ گھومنے تو شام کو
ہی جانا ہوگا۔۔۔ خالہ بولی۔۔۔ اتنا دماغ پڑھائی میں لگاو تو آرام سے ڈاکڑ بن جاؤ۔۔۔
مجھے تو پہلے ہی انکے قریب رہنے کا بہانہ چاہیے تھا۔۔۔ میں جلدی سے بولا۔۔۔ ہاں خالہ
میں نے کونسا اتنی صبح جانا ہے۔۔۔ شام کو ہی
جایا کروں گا۔۔۔ تو ان دونوں کو بھی
ساتھ لیے جاؤں گا ۔۔ میرا بھی ساتھ بن جائے گا۔۔۔ خالہ نادیہ کو بولیں۔۔۔ اچھا دیکھتے
ہیں۔۔۔ ابھی جا کرکچن میں بہن کی مدد کرو۔۔۔ خالہ اور بھائی کے کھانے پینے کا بندوبست
کرو۔۔ نادیہ خوش ہو کر بولی۔۔۔ سب تیار ہے۔۔۔ باجی بس سلاد بنا رہی ہیں۔۔۔ میں جا کر
ٹیبل سیٹ کرتی ہوں۔۔۔ خالہ کا گھر چھوٹا لیکن کافی صاف ستھرا تھا۔۔۔ اور۔۔ سجاوٹ بھی
اچھی ہوئی تھی۔۔۔ دو بیڈ روم ود اٹیچ واش روم تھے۔۔ ٹی وی لاؤنج کے ساتھ کچن اور
ڈرائینگ روم تھا۔۔ باہر صحن تھا جس میں کافی بڑا نیم کا درخت لگا تھا۔۔ جسکی وجہ
سے صحن میں چھاؤں رہتی تھی۔۔ اوپر سیڑھیوں کے ساتھ ایک کمرہ تھا۔۔ جس میں فالتو
اور پرانا سامان پڑا تھا۔۔۔ میں لاؤنج میں بیٹھا سعدیہ کوکچن میں کام کرتا دیکھ رھا تھا۔۔۔
اس کے مموں۔۔ اور۔۔ مٹکتی گانڈ کے نظارے لیتا سوچ رہا تھا۔۔۔ کہ گھر میں ایسی کونسی
جگہ ہو سکتی ہے جدھر میں اس جوانی کا مزہ لے سکوں گا۔۔۔ پھر سوچا ابھی سعدیہ
کو سیٹ تو کر لوں باقی بعد میں سوچیں گے۔۔۔ رات کا کھانا کھا کر ہم ٹی وی دیکھنا
شروع ھو گئے۔۔۔ نادیہ لوڈو لے آئی۔۔۔ میں سعدیہ اور نادیہ کھیلنے لگ پڑے۔۔۔ نو بجے
خالہ اٹھ گئیں اور بولیں۔۔ میں تو سونے لگی ہوں۔۔۔ صبح فجرٹائم اٹھنا ہوتا ہے۔۔۔ امی کا
مجھے پتہ تھا کہ وہ بھی فجر کے لیے اٹھتی ہیں۔۔۔۔ اس لیے وہ بھی رات جلدی سو جائیں
گی۔۔۔ اور وہی ہوا خالہ کے اٹھتے ہی وہ بھی اٹھ گئیں۔۔۔۔ خالہ نے سعدیہ سے پوچھا۔۔۔
بستر لگا دئے ہیں؟ وہ بولی ہاں جی۔۔۔۔ خالہ نادیہ سے بولیں۔۔۔۔ جلدی گیم ختم کرو اور آ
کر سو جاؤ۔۔۔ صبح تم سے اٹھا نہیں جاتا۔۔۔۔ وہ بولی ہاں جی بس میں آئی۔۔۔۔ اب امی کی
باری تھی۔۔۔ وہ بولی ۔۔۔۔ شیراز تم بھی جلدی سو جانا یہ نہ ہو ساری رات ٹی وی کے
دیھان لگے رہو۔۔۔ گرمی بھی بہت ہے۔۔۔۔ میں بولا۔۔۔ اچھا ماں جی۔۔۔ آپ دونوں ماؤں کی
کلاس ختم ہو گئ ہو تو ہم گیم پر دھیان دے لیں۔۔۔ یہ سعدیہ باجی ہمیں آپ کی طرف توجہ دیکھ کر
چیٹنگ کئے جا رہی ہیں۔۔۔ سعدیہ بولی۔۔۔ جھوٹے میں نے کونسی چیٹنگ کی ہے۔۔۔ میں
نے کہا۔۔۔ ابھی آپکی دو گوٹیاں اندر تھی ۔۔۔ اب ایک رہ گئی ہے ۔۔۔۔اور باہر والی گھر
کیسے پہنچ گئیں؟؟ وہ بولی ۔۔۔ میرے چھ بھی تو اتنے آئے تھے۔۔۔ نادیہ بولی۔۔۔ ہاں سارے
آپکے ہی تو آتے ہیں۔۔۔ گیم کا نتیجہ یہ آیا کہ۔۔۔ تھوڑی دیر میں سعدیہ جیت گئی۔۔۔ میں
دوسرے نمبر پر آیا۔۔۔۔ میں بولا باجی آپ چیٹنگ سے جیتی ہو۔۔۔۔ وہ بولی تم ابھی بچے
ہو۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ چلیں آپ کی یہ غلط فہمی دور کر دیتا ہوں ۔۔۔ ایک اور گیم ہو جائے۔۔۔
انہوں نے کہا ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ دوسری گیم میں جیت گیا ۔۔۔ اب سعدیہ بولی ۔۔۔ تم چیٹنگ
سے جیتے ہو۔۔۔ چلو بیسٹ آف تھری ہو جائے۔۔۔ میں نے اوکے کہا ۔۔۔ اب نادیہ بولی ۔۔۔
میں تو سونے چلی ۔۔۔ آپ دونوں کھیلیں ۔۔ میں ویسے بھی دونوں بار ہاری ہوں ۔۔۔ ہم نے
کہا اوکے ۔۔ اور گوٹیں سیٹ کرنی شروع کی ۔۔۔ سعدیہ بولی ۔۔۔ آج گرمی بہت ہے ۔۔۔ یہ
کہہ کر اس نے سینے پر لیا ہوا دوپٹہ اتار کے سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔ اب اس کے بڑےبڑے
ممے میرے سامنے اکڑ کے کھڑے تھے۔۔ آف وائٹ قمیض میں بلیک بریزیر اور اس
میں قید ممے صاف نظر آ رہے تھے ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا ابھی قید توڑ کر باہر آ جائیں گے
۔۔۔ ہم دونوں آمنے سامنے نیچے قالین پر بیٹھے تھے ۔۔۔ درمیان میں لوڈو تھی ۔۔۔ سعدیہ
کی قمیض ڈیپ نیک والی تھی ۔۔۔ اب ہو یہ رہا تھا ۔۔۔ کہ جب سعدیہ باری کرنے یا اپنی
گوٹ چالنے جھکتی ۔۔ تو اس کی کیلویج اورہاف کپ برا ۔۔۔۔ جس نے اس کے گندمی
مموں کے نپلززتک کے حصے کو بمشکل قید کیا ہوا تھا ۔۔۔ یعنی نپلز سے اوپر والا
سارا ننگا حصہ ۔۔۔ سب نظر آتا تھا ۔۔ اب میں نے گیم خاک کھیلنی تھی ۔۔۔ میری نظر
مموں سے ہٹتی تو گیم پر جاتی ۔۔۔ نہ میری نظریں میرے قابو میں تھیں ۔۔۔ اور نہ میرا
لوڑا ۔۔۔ انڈر وئیر نہ پہنا ہوتا اور پینٹ لوز فٹ نہ ہوتی تو اب تک میرا پول کھل چکا
ہوتا ۔۔۔ گیم کا نتیجہ وہی ہوا جو دھیان نہ ہونے کی وجہ سے ہونا تھا ۔۔۔۔ یعنی میں بری
طرح ہار رہا تھا ۔۔۔ ایسے میں سعدیہ مجھے چڑاتے ھوئے ڈبل باری کرنے لگی ۔۔۔ جو وہ
مجھے اپنے مموں میں الجھا کر۔۔۔ پہلے بھی پتہ نہیں کتنی بار کر چکی تھی ۔۔۔ لیکن اس
دفعہ مجھے پتہ لگ گیا ۔۔۔ اور میں نے شور ڈال دیا ۔۔۔ کہ ڈبل ڈبل باریاں کر رہی ہو۔۔۔
ساتھ ہی میں نے ڈبی اور دانہ اس کے ہاتھ سے چھیننے کے لیے اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ اس
نے بچانے کے لیے اپنا ہاتھ اپنے سر کے پیچھے کیا ۔۔۔
میں آگے ہوا ۔۔۔ اور ہماری آپس میں زور آزمائی شروع ہوگئی۔۔۔ دھکم پیل میں سعدیہ لیٹ
گئی ۔۔۔ اور میں لوڈو کو بچاتے بچاتےسعدیہ کے اوپر گر گیا ۔۔۔ اس کے ممے میرے سینے میں
کھب گئے۔۔۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا ۔۔۔ اور اپنے لن سے سعدیہ کی پھدی پر دو تین
گھسے لگا دئے۔۔۔۔ کپڑوں کی وجہ سے سعدیہ کو تو محسوس نہ ہوا ۔۔۔ لیکن مجھے بہت
مزا آیا ۔۔۔ میرے ہونٹ سعدیہ کے ہونٹوں کے بہت قریب تھے ۔۔ ہم ایک دوسرے کی
سانسوں کو اپنے چہروں پر محسوس کر سکتے تھے۔۔۔۔ ہماری نظریں ملیں ۔۔۔ تو سعدیہ
نے جلدی سے مجھے ڈبی پکڑائی ۔۔۔ اور سائیڈ پر دھکیل دیا ۔۔۔۔ دھکے کی وجہ سے میں
لوڈو پر گرا ۔۔۔ اور ساری گیٹیاں اپنی جگہ سے ہل گئیں ۔۔۔ یہ سب اتنی سپیڈ سے ہوا کہ
سعدیہ کو محسوس بھی نہ ہوا۔۔۔ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئے۔۔۔ سعدیہ بولی
۔۔۔ اب بہت رات ہو گئی ہے سونا چاہیئے ۔۔۔ ورنہ صبح امی سے بہت کلاس لگے گی ۔۔۔
اور ویسے بھی گیم تومیں جیت ہی چکی تھی ۔۔۔ میری آخری گوٹ تھی ۔۔۔ اور تمھاری دو
رہتی تھیں۔۔۔ میں نے کہا ۔۔ آپ نے چیٹینگ کی تھی ۔۔ سعدیہ بولی ۔۔۔ کیا چیٹینگ کی میں
نے۔۔۔؟ میں بولا ۔۔۔ آپ نے میرا دیھان گیم سے ہٹا دیا تھا۔۔۔ وہ بولی ۔۔۔ وہ کیس طرح ۔۔۔ ؟
اب میں اسے کیا بتاتا ۔۔ کہ اپنے ممے دکھا دکھا کر۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ چھوڑیں اور بتائیں
میرا روم کونسا ہے۔۔۔؟ وہ بولی ۔۔۔ بھائی ہم غریبوں کے گھر دو ہی کمرے ہیں ۔۔۔ اور
صرف امی والے روم میں اے سی لگا ہوا ہے ۔۔۔ اس لیے سب کے بستر ادھرہی ہیں ۔۔۔
میں نے کہا ۔۔۔ آپ دو کمرں کی بات کر کے شرمندہ کر رہی ہیں ۔۔۔۔ اتنا پیارا گھر ہے ۔۔۔
اور اس سے بھی پیارے اس میں رہنے والے لوگ ۔۔۔۔ سعدیہ نے میری طرف دیکھا اور
بولی ۔۔۔ عمر چھوٹی ہے اور باتیں بڑی بڑی ۔۔۔ میں بولا آپ جو مجھے چھوٹا بچہ سمجھ
رہی ہیں ۔۔۔ بہت جلد آپ کی یہ غلط فہمی دور کر دوں گا ۔۔۔ سعدیہ ہنس کر بولی ۔۔۔ اچھا
جی دیکھ لیتے ہیں ۔۔۔ ہم دونوں یہی باتیں کرتے خالہ کے کمرے کے داروزے پر پہنچ
گئے ۔۔۔ سعدیہ نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ اور دروازہ کھول کر اندر داخل
ہوتے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ کمرے کے اندر نائٹ لائٹ کی مدہم سی
روشنی تھی ۔۔۔ سامنے ڈبل بیڈ پر امی اور خالہ سورہی تھیں ۔۔۔ بیڈ کے ساتھ نیچے قالین
پر بستر بچھا تھا ۔۔۔ جس پر نادیہ سو رہی تھی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ جگہ خالی تھی ۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "زندگی کا سفر ۔۔2"