اچھا سن ۔۔۔۔تو نے ابھی عفت کے گھر جانا ہے نا ؟؟ کرن چاچی نے اپنی جیٹھانی اور میری تائی کا نام لیا
جی کرن چاچی ۔۔۔یہاں سے سیدھا وہیں جاونگا اور پھر واپس شہر ۔۔۔لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہیں میں نے حیرت سے پوچھا
کچھ نہیں ویسے ہی۔۔۔تو اسے ہماری باتیں نا بتانا۔۔۔کرن چاچی جھجھکتے ہوئے بولیں
ارے آپ فکر نا کریں میں نے بےتکلفی سے انکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر ہلکے سے دبایا۔۔۔۔یہ صرف ہماری آپسی بات ہے ہماری دوستی کی بات۔۔۔۔میں نے انہیں بھرپور تسلی دی آپکی شاپنگ کا کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا میں انکے شانے کے لمس سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بولا۔۔۔۔شانے پہ قمیض کے نیچے انکے بریزئیر کے سٹریپ کی چھبن اور شانے کا لمس۔۔۔۔۔آج منفرد مزہ دے رہا تھا
ہممم شاپنگ کی بھی اور شہر میں رکنے والی بات بھی۔۔۔کرن چچی جھجھکتے ہوئے بولیں۔۔۔۔
میں انکے یوں جھجھکنے سے قدرے حیران ہوا۔۔۔۔میں اس سے پہلے کئی بار انکے ساتھ اکیلے گھر میں سو چکا تھا۔۔۔ہر مہینے میں تقریبا ایک دو بار تو ایسا ہو ہی جاتا تھا
لیکن آج انکا جھجھکنا انکے دل کے ڈر کو ظاہر کر رہا تھا۔۔۔۔میری دوستی کی آفر میں چھپی شرارت کو انہوں نے حس کر لیا تھا
انکا یہ ڈر یہ جھجھک میری ہمت بڑھا رہی تھی۔۔۔اففف چاچی آپ کو لگتا ہے کہ میں ایسی بات کسی سے شئیر کر سکتا ہوں۔۔۔آپ بے فکر ہو جائیں کسی کو خبر بھی نہیں ہوگی۔۔میں نے انکے ملیح چہرے اور بھرے بھرے ہونٹوں کو تاڑتے ہوئے کہا
ہممم اچھا ٹھیک ہے اب میں تمہارے آسرے اپنا کوئی سوٹ بھی نہیں خریدوں گی بلکہ وہ پیسے دوسرے خرچوں کے لیے بچا لوںگی ۔۔۔آخر میرے بھانجے کا بیاہ ہے۔۔۔سو قسم کی رسمیں ہوتی ہیں۔۔۔اور تمہارے چچا تو کنجوسوں کے راجہ ہیں۔۔۔۔کرن چاچی روہانسے انداز میں بولیں
بسسس تو چاچی آپ بےفکر ہو جائیں۔۔۔۔۔میرا آپ سے وعدہ رہا کہ سلیم کی شادی آپکے لیے یادگار بنا دونگا۔۔۔۔بس آپ کو ایک وعدہ کرنا ہوگا۔۔۔میں نے لوہا گرم دیکھ کر آخری چوٹ کا سوچا
کونسا وعدہ۔۔۔کرن چاچی نے چونک کر پوچھا
یہی وعدہ کہ آپ نے اپنی ساری حسرتیں ساری خواہشیں پوری کرنی ہیں۔۔۔۔۔میں آپکے کہنے پہ آپکے ساتھ جاونگا۔۔۔۔ایسا نا ہو آپ بور کر دیں۔۔۔۔اب دوست بنی ہیں تو پکی دوستی کرنا
باقی باتیں تو منظور ہے لیکن یہ پکی دوستی کیا ہوتی ہے ذرا یہ تو بتاو۔۔۔یکدم کرن چاچی سنجیدگی سے بولیں
انکا سنجیدہ لہجہ دیکھ کر ایکبار تو میری گانڈ ہی پھٹ گئی۔۔۔
وووہ ممیرا مطلب ہے کہ۔۔۔میں بوکھلا اٹھا
خوب اچھی طرح سمجھتی ہوں تیری پکی دوستی کو۔۔۔انہوں نے میرے کان کو پکڑ کر ہلکا سا مروڑا۔۔۔۔انکی سنجیدہ نظریں مجھ پہ جمی تھیں۔۔۔۔یکدم وہ کھلکھلا کر ہنسیں۔۔۔۔اب گھگھی کیوں بندھ گئی شیطان ۔۔۔۔۔چاچی کو لائن مارتے ہو۔۔۔ہیں۔۔۔بتاو وہ شوخی سے کان مروڑتے ہوئے بولیں۔۔۔۔انکا موڈ بدلتا دیکھ کر میری جان میں جان آئی
ارے نہیں تو چاچی لائن کب مار رہا ہوں میں نے مصنوعی انداز میں کراہتے ہوئے کہا
ہاں ہاں میں تو جیسے بچی ہوں نا۔۔۔۔سب دیکھ رہی ہوں شہر جا کر بڑا شیطان ہوگیا ہے ۔۔۔بتاو اب چاچے کی طرح ٹھنڈے ہوگئے ساری خرمستی ٹھس ہیں ؟؟ چاچی نے روانی سے کہا
میں ہلکا سا چونکا۔۔۔انکا روانی میں کہا جملہ مونا چاچی کی پیشگوئی کی تصدیق کر گیا
یکدم چاچی کو بھی اپنے کہے کا احساس ہوا۔۔انکے گورے رنگ پہ سرخی دوڑی اور انہوں نے فورا میرے کان کو چھوڑ کر پیچھے ہٹنا چاہا
میں نے پھرتی سے انکا بازو پکڑا۔۔۔پکڑے رکھیں نا۔۔۔۔اور سنیں۔۔۔۔میں لائن نہیں مارتا بلکہ پکے نشان سے پکے دستخط کرتا ہوں۔۔۔بس آپکا لحاظ ہے ورنہ میں چاچے کی طرح ٹھس بنٹا بوتل نہیں بلکہ کچا پوا ہوں۔۔۔۔سر چڑھ جاتا ہوں۔۔۔۔میں ایک ہی سانس میں بولتا گیا۔۔میری ذومعنی سرگوشی اور بازو پہ گرفت سے کرن چاچی ہلکا سا لرزیں۔۔۔انہوں نے بازو چھڑانا چاہا۔۔۔۔میں نے ہاتھ کی گرفت تھوڑی سخت کی ۔۔۔۔۔انہوں نے میری طرف دیکھا۔۔۔انکی پلکیں لرزیں۔۔۔۔چل چھوڑ نا۔۔۔۔انہوں نے آہستگی سے کہا اور بازو کھینچا
میں نے مسکراتے ہوئے انکا بازو چھوڑ دیا
توبہ کتنے ظالم ہو تم۔۔۔دیکھو نشان پڑ گئے کرن چاچی اپنی گوری کلائی کو سہلاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔واقعی انکی گوری کلائی پہ میری انگلیوں کے ہلکے نشان ثبت ہو چکےتھے
ہااں کچھ کاموں میں تھوڑا سا ظالم ہوں ۔۔۔۔لیکن ویسے تو اچھا ہوں نا میں نے ذومعنی انداز میں کہا
تم نے واقعی مار کھا لینی ہے چل اب جا اور مجھے بھی گھر کےنکام سمیٹنے دے چاچی قدرے شرماتے ہوئے بولیں
اچھا چلا جاتا ہوں لیکن پہلے بتائیں نا ؟؟؟ پکی دوستی والی بات میں نے ڈھٹائی سے انہیں یاد دلایا
چل بھاگ۔۔۔پکی دوستی وہ مصنوعی غصے سے گھرک کر بولیں
پلیز بتائیں نا۔۔۔۔اس میں آپکا فائدہ ہے میں نے انکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا
کونسا فائدہ ۔۔۔۔۔شیطان لالچ دیتے ہو ؟؟ کرن چاچی نے بڑی ادا سے مجھے گھورا
ارے لالچ نہیں ہے ۔۔۔۔سنیں تو۔۔۔۔آپ پکی دوستی کابتائیں گی تو میں پکی دوستی والا گفٹ خریدوں گا نا۔۔۔میں نے جوابی شوخی سے پوچھا
اوہو تو یہ بات ہے۔۔۔۔کیا خریدو گے انہوں نے چہک کر پوچھا
یہ نہیں بتانا ۔۔۔۔یہ تو سیکرٹ ہے نا۔۔۔۔ میں نے انہیں تڑپایا
اچھا چل ٹھیک ہے ہوگئی پکی دوستی۔۔۔۔اب بتاو کیا گفٹ دو گے کرن چاچی کا تجسس عروج پر تھا
سوچ لیں۔۔۔ایسا نا ہو آپ ناراض ہو جاو میں نے جان بوجھ کر ڈرتے ہوئے کہا
ہیں۔۔۔۔ایسا کونسا گفٹ ہوسکتا ہے جو مجھے ناراض کرے۔۔۔انہوں نے قدرے حیرت سے پوچھا
ہے ایک شرارتی سا گفٹ۔۔۔آپکے استعمال کا۔۔۔نیا سوٹ اور نیا۔۔۔۔۔میں نے شوخی سے انکی تنی چھاتیوں کو گھورتے ہوئے کہا
اففف بدتمیز۔۔۔شرم کرو تم۔۔۔کرن چاچی نے جھٹ شرماتے ہوئے کہا اور فورا سینےپہ بازو باندھ لیے
دیکھا ۔۔۔۔آپکو برا لگا نا۔۔۔میں نے انہیں کریدا۔۔۔۔
چپ کرو بےشرم۔۔۔مجھے نہیں لینا ایسا گفٹ وہ میری بےتکلفی سے سرخ پڑ چکیں تھیں
لیں تحفے میں کیسی شرم۔۔۔سچی میرے سٹور پر برانڈڈ اور سلکی نرم فوم والے برا پڑے ہیں۔۔۔۔اتنےسافٹ کہ آپ یاد کرو آپکے حسن کو چار چاند لگ جائیں گے۔۔میں نے جھجھک چھوڑ کر کھلے الفاظ میں آفر کی۔۔۔۔جب بات کھل گئی تھی تو جھجھکنا کیسا
توبہ کتنے بےشرم ہوگئے ہو تم۔۔۔۔۔ٹہرو تمہیں بتاتی ہوں۔۔۔کرن چاچی نے مجھے گھرکا۔۔۔۔لیکن انکا یہ غصہ انکے چہرے کی سرخی اور آنکھوں کی چمک سے میل نہیں کھاتا تھا۔۔۔
لیں شرم کیسی۔۔۔۔پورا دن یہی کام ہوتا ہے میرا۔۔۔۔ویسے آپ نہیں جاتی بازار ۔۔۔سیلزمین اور درزی سے کیسی شرم میں نے انتہائی دھٹائی سے لاجک پیش کی
اففف اچھا بھئی سیلز مین صاحب لے لینا جو بھی لینا ہوا اب جاو مجھے زیادہ تنگ نہیں کرو ۔۔۔ورنہ۔۔۔۔وہ نروٹھے انداز میں بولیں
اچھا اچھا۔۔۔۔۔ناراض مت ہوں۔۔۔بس ایک بات تو بتائیں نا میں نے آہستگی سے پوچھا
ہاں پوچھو لیکن جلدی جلدی وہ میرے بڑھاوے سے ہلکا سا گھبرا چکیں تھیں۔۔۔انکی یہ گھبراہٹ فطری تھی۔۔۔۔۔۔ڈیڑھ دو گھنٹے میں ہی ہمارے درمیان بےتکلفی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی۔۔۔۔
گفٹ کے لیے سائز تو بتائیں نا میرے نشیلے سوال پہ وہ بدک کر پیچھے ہٹیں
نومی۔۔۔۔۔اب تو نے واقعی سینڈل کھانے۔۔۔چل بھاگ شاباش انہوں نے جھک کر سینڈل کی طرف ہاتھ کیا
ارے نہیں سسسوری چاچی ۔۔۔میں نے فورا مستی چھوڑی۔۔۔۔حد سے زیادہ ستانا مناسب نہیں تھا۔۔
شاباش ۔۔۔یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔۔۔یاد رکھنا زیادہ مستی کرو گے تو سینڈل پڑیں گے سمجھے۔۔۔
جی جی سمجھ گیا۔۔میں نے اپنا شاپر اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔۔
اوے نومی سنو تو ۔۔۔ابھی میں آدھے صحن تک پہنچا تھا کہ چاچی نے مجھے پکارا
جی چاچی میں جلدی سے گھوما۔۔۔رکو میں بھی دروازہ بند کر لوں کہتے ہوئے چاچی میرے قریب آئیں۔۔۔۔مجھے ایسے لگا جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہوں لیکن ہچکچا رہی ہوں
آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں میں نے انکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔وہ کسی گہری کشمکش میں تھیں۔۔۔وہ نومی مجھے کہنا تھا کہ۔۔۔۔۔وہ بولتے بولتے رکیں
ارے چاچی بتائیں نا بے جھجھک بتائیں۔۔۔آپکا دوست ہوں میں نے دوست پہ زور دیتے ہوئے کہا
ہاں دوست سمجھ کر ہی کہوں گی لیکن ۔۔۔۔تم کسی کو بتانا نہیں ورنہ میں نے خودکشی کر لینی ہے کرن چاچی بھرائی آواز میں بولیں
ارے چاچی۔۔۔میں تڑپ کر انکے قریب پہنچا۔۔۔۔ادھر دیکھیں میری طرف۔۔۔یہ میں ہوں نومی آپکا رازدار دوست۔۔۔آج تک کبھی آپکی کوئی بھی بات کسی کو بتائی ہے۔۔۔۔نہیں نا ؟؟؟ اب تو آپ میری دوست ہیں۔۔۔۔میں نے انہیں بھرپور حوصلہ دیا
تو واقعی میں پکی دوستی والا گفٹ لے گا ؟؟؟ چاچی کے سوال پہ میری دھڑکن تیز ہوئی۔۔۔۔
لینا چاہتا ہوں لیکن اگر آپکو برا لگے گا تو نہیں لونگا میں نے سر جھکاتے ہوئے کہا
برا لگنے کی بات نہیں ہے نومی ۔۔۔للیکن ہم چاچی بھتیجا ہیں تو ایسے گفٹ ایسی دوستی۔۔۔۔انکی لرزتی آواز میری ہمتوں کو بڑھا رہی تھی۔۔۔۔
تو کیا ہوا ؟؟؟ دوستی میں رشتے نہیں خلوص اور قدر دیکھی جاتی ہے ۔۔۔۔۔یقین کریں چاچی میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔۔۔۔۔پورے خلوص اور قدر سےکہا ہے۔۔۔۔آپ کو اچھا نہیں لگتا تو منع کر دیں ۔۔۔۔میں برا نہیں مانوں گا۔۔۔میں تو بس آپکو خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔آپ جیسے خوش میں ویسے خوش میں نے جذباتی ادکاری میں دلیپ کمار کو پیچھے چھوڑ دیا
نووومی۔۔۔ممیں نے یہ کب کہا مجھے اچھا نہیں لگا۔۔۔للیکن وہ بولتے بولتے رکیں
للیکن ۔۔۔آپکو زمانے اور برادری کا ڈر ہے نا ؟؟ بولیں ایسا ہی ہے نا ؟؟؟ تو یقین رکھیں آپکی عزت کبھی کم نہیں ہوگی۔۔۔کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا یہ میرا وعدہ رہا۔۔۔۔۔آپ بس اپنا بتائیں آپکو قدر چاہیے یا نہیں۔۔۔میں نے انکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
قدر کسے نہیں چاہیے نومی ۔۔للیکن مجھے بڑا ڈر لگتا ہے ایسی دوستیوں سے بندہ بھٹک جاتا ہے نومی ۔۔۔۔دوستی بہت بڑھ جاتی ہے وہ شرماتے ہوئے بولیں
ہاہاہا تو کیا ہوا ۔۔۔۔لیکن پھر بھی آپ بےفکر رہیں۔۔۔۔۔شادی میں ابھی ہفتہ دس دن ہیں۔۔۔آپ سوچ کر بتا دینا۔۔۔میں گفٹ نہیں لونگا۔۔۔۔باقی آپکے ڈریسز تو میرا وعدہ۔۔۔۔وہ میں اپنی سویٹ چچی کو ادھار دونگا جو آپ واپس کریں گی ۔۔۔یہ رہا میرا فون نمبر میں نے جیب میں پہلے سے رکھا کاغذ نکال کر انہیں پکڑایا۔۔۔۔آپکے فون کا انتظار کرونگا۔۔۔۔۔دوست بن کر یا صرف چچی بن کر۔۔۔۔۔دونوں صورتوں میں آپ اس شادی کو بھرپور انجوائے کرو گی یہ میرا وعدہ رہا میں نے مضبوط لہجے میں کہا اور تیزی سے مڑ کر دروازہ کھولتا باہر نکل آیا۔۔۔۔۔میں اونچی شاٹ کھیل آیا تھا اب چھکا لگتا یا کیچ آوٹ ہوتا اسکا فیصلہ فون کال پہ منحصر تھا
میری دھڑکن ابھی تک نہیں سنبھلی تھی۔۔۔میں نے جذبات میں سب بول تو دیا تھا لیکن اب تھوڑا بہت گھبرا رہا تھا۔۔۔کرن چاچی کے مزاج کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کیا پتہ بعد میں ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو میری بینڈ بجا دیں۔۔۔۔۔
دوسری طرف انکا جھجھکنا میری شرارتوں پہ صرف سینڈل کا ڈراوا دینا اور اسے آواز دیکر روکنا میری ہمت بڑھا رہے تھے۔۔۔۔اور یہ سب مونا چاچی کی بھڑکائی آگ کا نتیجہ تھا۔۔۔۔یہ مونا چاچی ہی تھیں جنہوں نے میرے دل و دماغ پر قبضہ جما رکھا تھا۔۔۔۔میں انکے حکم سے انکار کر ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔
بھلا ایک غلام اپنی ملکہ کے حکم سے انکار کیسے کر سکتا ہے۔۔۔ہاں وہ میری ملکہ ہیں۔۔۔۔۔میں نے دل ہی دل میں مونا چاچی کا سراپا سوچا۔۔۔۔بیشک وہ ایسی تھیں کہ انکے لیے سلطنت بھی چھوڑی جا سکتی تھی۔۔۔۔امیر و کبیر باپ کی نازو و نعم میں پلی بیٹی۔۔وہ سر تا پا ملکہ مزاج تھیں۔۔۔خود پسند نخریلی اور بہہت ہی خوبصورت۔۔۔نخرہ تو ان پہ جچتا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور میں انکے عشق میں ڈوبا خصوصی مشن پہ تھا۔۔۔۔۔
میں مونا چاچی کے بارے میں سوچتا سیدھا تائی عفت کے گھر پہنچا۔۔۔وہاں حسب معمول بچوں کا شور شرابہ مچا ہوا تھا۔۔۔۔۔ارے دوگھڑی چپ ہوجاو ۔۔۔۔توبہ ہے بچے ہیں کہ شیطان کے چیلے۔۔۔۔ارے صبا تو تو شرم کر۔۔۔۔لڑکی ذات ہو کر کیسے کدکڑے مار رہی ہے۔۔۔۔ابےکب عقل آئے گی پندرھواں سال لگ گیا تجھے۔۔۔۔۔۔جیسے ہی میں گھر میں گھسا مجھے عفت تائی کی چلاتی آواز سنائی دی۔۔۔۔میں دروازہ بند کرتا آگے بڑھا۔۔۔۔سامنے ہی صحن میں انکے تینوں بچے پکڑن پکڑائی کھیلتے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔۔۔۔۔سب سے پہلے یاسر کی مجھ پہ نظر پڑی۔۔۔۔۔۔ارے نومی بھائی آپ۔۔۔۔وہ مجھے دیکھتا ہی خوشی سے چیختا میری طرف بھاگا۔۔اور آتے ہی مجھ سے لپٹ گیا۔۔۔۔اسکی دیکھا دیکھی ناصر بھی بھاگتا مجھ سے آ لپٹا جبکہ صبا کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ارے میرے شہزادو۔۔۔۔بھئی بس کرو میں نے یاسر اور ناصر کو زوردار جھپی لگا کر پیچھے کیا۔۔۔۔ارے صبا کتنی بڑی ہوگئی ہو تم۔۔میں نے صبا کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا
بنا دوپٹے کے کھڑی صبا کو دیکھ کر میں حیران ہوا۔۔کل کی چھوٹی سی صبا پیاری سی لڑکی بن رہی تھی۔۔۔۔۔گھریلو عام سے شلوار قمیض پہنے پکڑن پکڑائی سے سانس پھلائے صبا میرے ہوش اڑا گئی۔۔۔۔اسکی چھوٹی چھوٹی پھوٹتی چھاتیاں اور چہرے پر پھوٹتی نوجوانی کی مخصوص چمک اور دو چار دانے۔۔۔۔میں نے بےساختہ جھرجھری لی اور اپنی فضول سوچ پہ لعنت بھیجتے ہوئے اسے ساتھ لگایا
ہیں نا نومی بھائی۔۔۔۔دیکھیں آپکے کندھوں جتنی ہو گئی ہوں۔۔۔۔صبا معصومیت سے بولتی اوپر کو ہوئی۔۔۔۔۔اسکا یہ ہلکا سا لمس ۔۔۔۔اسکی پھوٹتی چھاتیوں کا گداز مجھے دہکا گیا۔۔۔۔میرے کان تک سلگ گئے۔۔۔۔ہااں ہاں پیچھے تو ہٹو میں نے بوکھلا کر اسے پیچھے کیا۔۔۔۔۔
ارے اسے نہیں سمجھ آئےگی نومی پتر یہ ہر وقت کاکی بنی رہتی ہے کتنی بار کہا ہے دوپٹہ نا اتارا کر۔۔۔۔۔۔اچانک مجھے عفت تائی کی آوز سنائی دی۔۔۔وہ کچن سے نکلتی میری طرف ہی بڑھ رہی تھیں۔۔۔۔ارے چھوڑیں تائی بچی ہے۔۔۔میں دل کی دھڑکنیں سنبھالتا انکی طرف بڑھا اور انکے گلے جا لگا
کیسا ہے میرا پتر۔۔۔میں تو بہت اداس ہو گئی تھی۔۔۔چل آ ادھر بیٹھ ۔۔۔تائی عفت میرا ماتھا چومتے برآمدے تک لائیں۔۔۔۔چل جا صبا بھائی کے لیے چائے بنا او ناصر جا شاباش سموسے پکڑ لا اور دیکھ تازہ لانا۔۔۔۔۔خبردار جو باسی سموسے گرم کروا کر لائے۔۔۔ورنہ مجھ سے برا کوئی نا ہوگا۔۔۔۔عفت تائی نے اپنے بڑے بیٹے کو پیسے پکڑاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔اور میں بس انکا بدلتا روپ دیکھ رہا تھا۔۔۔یہ وہی تائی تھیں جو مجھے نکھٹو کہہ کر بلاتیں تھیں۔۔۔۔۔اور آج انکا روپ ہی الگ تھا۔۔۔شائد یہ سب ان پیسوں کا کرشمہ تھا جو میں نے اپنے آنے سے پہلے بھجوائے تھے۔۔۔۔۔یہ بھی مونا چاچی کا ہی مشورہ تھا۔۔یہ مونا چاچی ہی تھیں جنہوں نے مجھے اس قابل بنایا تھا کہ آج تائی عفت میرے لیے گرما گرم سموسے منگوا رہی تھیں۔۔۔۔
اور سنا نومی۔۔۔۔بڑے دنوں بعدچکر لگایا۔۔۔۔دو تین مہینے تو ہوگئے ہونگے ہیں نا ؟؟ تائی عفت کے سوال پہ میں چونکا
بس تائی کیا بتاوں۔۔۔نئی نئی جاب تھی تو چھٹیاں ملنا مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔۔اب آپکی دعا سے سب سیٹ ہوگیا ہےتو آتاجاتا رہوں گا میں نے نپا تلا جواب دیا
اچھا کچھ اپنی نوکری کا بتا ۔۔۔کیا کرتا ہے کہاں رہتا ہے کتنی تنخواہ ہے ۔۔۔۔تائی عفت نے ایک ہی سانس میں بہت سے سوال پوچھ ڈالے
کیا بتاوں ۔۔۔۔شروع میں بڑی مشکل کاٹی ہے لیکن اب بڑی اچھی نوکری لگ گئی ہے ۔۔گھربھی ملا ہے اور بہت جلد گاڑی بھی مل جائے گی میں نے لمبی چھوڑنا شروع کیں۔۔۔۔اسی دوران چائے اور سموسے بھی آگئے۔۔۔۔۔چائے سموسے کے بعد میں نے اپنا شاپر کھولا اور اندر سے بچوں کے گفٹس نکالے
یہ لو ناصر تمہارے لیے پارکر کا خوبصورت پین۔۔۔۔دھیان رکھنا اسکی نب خراب نا ہو۔۔۔یہ آسانی سے نہیں ملتی
اور یہ ویڈیو گیم تمہارے لیے ہے یاسر میں نے اسے سیلوں والی ویڈیو گیم پکڑائی۔۔۔۔دونوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے تھے
اور میرا گفٹ نومی بھائی۔۔۔۔ان دونوں کے ساتھ کھڑی صبا نے فورا مطالبہ کیا
میں نے ایک نظر اسکی طرف دیکھا۔۔۔۔اسکا گفٹ خریدتے وقت چھوٹا سا بلنڈر ہو گیا تھا
میں نے شاپر میں ہاتھ ڈالا اور ڈانس کرنے والی گڑیا اسے پکڑائی۔۔۔لو یہ رہا تمہارا گفٹ۔۔۔میں نے اسے گڑیا تھماتے ہوئے کہا
میرے لیے آپ گڑیا لائے ہیں۔۔۔اس نے قدرے حیرت سے پوچھا۔۔۔
ہااں کیوں تمہیں پسند نہیں آئی ؟ میں نے اسکے چہرے پہ اداسی دیکھتے ہوئے پوچھا
ارے نہیں نومی یہ تو ہے ہی بیوقوف۔۔۔تو چھوڑ اسکو تائی نے فورا اسے گھرکا
چلو شاباش جاو کھیڈو۔۔۔۔ہمیں کوئی اپنی بات بھی کرنے دو ۔۔۔تائی عفت نے بچوں کو وہاں سے بھگایا اور میری طرف پلٹیں
کیا ضرورت تھی اتنے مہنگے گفٹ لانے کی۔۔۔۔ان شیطانوں نے دو دن نہیں نکالنے سب خراب کر دینا ہے۔۔۔۔تائی نے مجھے مخاطب کیا
تو کیا ہوا۔۔۔۔کردیں خراب اور لے آونگا۔۔۔۔بچے ہیں تائی ۔۔اور میں انکا وڈا بھائی۔۔۔۔۔آپ یقین نہیں کرو گی میں اکثر انکے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔۔۔۔یہ پڑھیں لکھیں گے تو گھر کے حالات بدلیں گے۔۔۔اب دیکھیں میں نے جیسے تیسے بی اے کیا ہے تو نوکری مل ہی گئی نا۔۔۔میں انہیں بڑے طریقے سے اپنا خلوص جتا رہا تھا
ہاں سہی کہہ رہا ہےاب یہ ناصر میٹرک میں ہے اس سے آگے کیا کرے گا ۔۔۔۔پھر صبا بھی آٹھویں چڑھ گئی ہے۔۔۔۔مجھے تو اسے دیکھ کر ہول اٹھنے لگے ہیں نومی پتر۔۔۔دنوں میں کیسے قد نکالا ہے اس نے۔۔۔تائی اپنے دکھڑے سناتی فکرمندی سے بولیں
ارے تو اچھا ہے نا بڑی ہو رہی ہے ۔گھر کے کاموں میں آپکی مدد کرے گی میں نے بھولپن سے جواب دیا
کھیہہ تے سواہ (خاک) مدد کرنی ہے اس نے سارا دن توکدکڑے مارتی پھرتی ہے۔۔۔۔میرا بس چلے تو اگلے سال اسے رخصت کردوں تائی کے ارادے سن کر میں حیران ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔
تائی کیا ہوگیا ہے۔۔۔۔اگلے سال شادی اتنی کم عمری میں۔۔۔میں نے بوکھلا کر پوچھا
ہیں۔۔۔کم عمری کونسی۔۔۔۔میں اٹھارہ سال کی تھی تو میرا ناصر ہوا تھا۔۔۔۔اور یہ سولہویں سال چڑھنے والی۔۔۔۔ویسے بھی سولہ سترہ سال چھوٹی عمر نہیں ہوتی تجھے کیا پتہ بھلا۔۔۔تائی نے میری سادگی پہ ہنستے ہوئے کہا
اچھا چلیں جیسے آپکو مناسب لگے ویسا کریں۔۔۔اور بلکل پریشان نا ہوں۔۔۔۔۔ہم صبا کا فرض دھوم دھڑکے سے ادا کریں گے
کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں اوپر چھت پر آگیا۔۔۔۔اس چھت اور اس پر بنے سٹور نما کمرے سے میری بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔۔تقریبا دس سال میں اس کمرے میں رہا تھا۔۔۔وہ دس سال اور ان سالوں کی تلخ یادیں میں چاہ کر بھی نہیں بھلا سکتا۔۔۔میں نے دروازہ کھولا۔۔۔اور اندر جا کر چارپائی پہ لیٹ گیا۔۔۔یہ جھلنگا سی چارپائی جسکی ادوائن اکثر ڈھیلی ہو جاتی تھی میری جان پہچانی تھی۔۔۔۔
گرمیوں ک دوپہر ہلکا ہلکا چلتا چھتی پنکھا۔۔۔میں چارپائی پر لیٹے لیٹے گزرے وقت کو سوچتا گیا۔۔۔۔
ہم لوگ فیصل آباد کے نواحی گاوں میں رہتے تھے
میرے ابا لوگ تین بھائی تھے۔۔۔میرے ابا۔۔۔تایا شفیق اور چچا رفیق۔۔۔۔۔تایا شفیق کھیتی باڑی کرتے تھے انکا اکثر وقت کھیتوں میں ہی بسر ہوتا تھا۔۔۔۔انکی شادی تائی عفت سے ہوئی تھی اور انکے تین بچے تھے
ناصر ۔۔۔۔عمر سترہ سال
صبا۔۔۔۔عمر تقریبا پندرہ سال
اور
یاسر۔۔۔۔عمر تقریبا گیارہ بارہ سال
جبکہ رفیق چچا ساتھ والے بڑے قصبے میں پوسٹ آفس کے ملازم تھے۔۔۔۔انکی شادی کرن چاچی سےہوئی تھی اور ابھی تک وہ دونوں بےاولاد تھے
جبکہ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔۔۔میرے والدین کا انتقال روڈ ایکسیڈنٹ میں ہوا۔۔۔اور اسکے بعد مجھے تایا شفیق اپنے گھر لے آئے۔۔۔۔اس وقت چھوٹا یاسر شائد چند مہینوں کا تھا
اور کرن چاچی ابھی بیاہ کر ہمارے گھر نہیں آئی تھی۔۔۔انکی شادی میرے آنے سے دو سال بعد ہوئی۔۔۔۔جب میں یہاں آیا تو میری عمر بارہ سال تھی جبکہ آج میں پورے چوبیس سال کا تھا۔۔۔۔پورے بارہ سال بعد آخر میرا وقت آ گیا تھا۔۔۔۔سچ کہا تھا کسی نے کہ بارہ سال بعد تو اجاڑ جگہ کی بھی سنی جاتی ہے
یہی تائی عفت جو آج مجھے سموسے کھلا رہی تھیں انکی زہریلی زبان سے میرے دل پر سینکڑوں گھاو تھے
نکھٹو۔۔۔کام چور۔۔۔۔سست ۔۔۔۔نشئی اور نجانے کیا کیا کچھ سن کر دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کھانےکو ملتی تھی۔۔۔۔سردیوں کی راتوں میں یاسر کے لیے فیڈر بناتے وقت۔۔۔گیلی لکڑیوں کو جلاتے ہوئے میں نجانے کتنی راتیں بلک بلک کر رویا تھا
تایا شفیق کسی حد تک واقعی شفیق تھے لیکن وہ تو کھیتی باڑی میں اتنا مصروف رہتے تھے کہ کئی دنوں ان سے ملاقات نہیں ہوتی تھی۔۔۔
جب کرن چاچی کی شادی ہوئی تو وہ بھی اسی گھر بیاہ کر آئی تھیں۔۔لیکن تین سال بعد عفت تائی کی چخ چخ اور فضول طعنوں سے تنگ آکر الگ ہو گئی عفت تائی اکثر انہیں بےاولادی کا طعنہ دیا کرتی تھیں
اسکے برعکس میری ان سے کافی بنتی تھی۔۔۔جب وہ بیاہ کر آئیں میری عمر چودہ پندرہ سال اور انکی عمر اندازا اٹھائیس انتیس سال ہوگی۔۔۔۔میں ان دنوں میٹرک کے پیپر دے رہا تھا
ہمارے درمیان ہلکی پھلکی چچی بھتیجے والی دوستی شروع سے ہی بن گئی تھی ۔۔۔وہ میرا خیال رکھنے کی کوشش بھی کرتی تھیں ۔۔۔میرے سامنے تائی عفت کے ظلم بھی مانتی تھیں لیکن۔۔۔۔۔وہ بڑی ہی ڈرپوک تھیں۔۔۔۔نجانے کیوں تائی عفت سے انکی جان جاتی تھی۔۔۔۔بجائے عفت تائی کو دوبدو جواب دینے کے۔۔۔۔۔وہ ہمیشہ چپ ہو جاتی تھیں۔۔۔میں نے ایک دن ان سے اسکی وجہ پوچھی تھی۔۔۔مجھے یاد ہے اس دن بھی تائی نے فضول سا بہانہ بنا کر چاچی سے لڑنا شروع کر دیا تھا۔۔۔اکثر ایسی جھڑپ کے بعد کرن چاچی کمرے میں بند ہو کر پہروں روتی رہتی۔۔۔۔ایسے ہی ایک دن میں نے ان سے ڈرنے کی وجہ پوچھی ؟؟؟
نومی ۔۔۔۔تجھے کیا بتاوں ۔۔۔۔۔اسکے تین بچے ہیں اسی بنیاد مضبوط ہے وہ تمہاری برادری کی ہے اور میں بے اولاد باہر کے خاندان کی لڑکی۔۔۔۔اگر میں اسے جواب دونگی تو بات مزید بگڑ جائے گی۔۔۔۔بھائی شفیق تک جائے گی۔۔۔۔بس تو چھوڑ کرن چاچی نے آنسو صاف کرتے ہوئے مجھے سمجھایا
کرن چاچی کی ایک بڑی خامی اور بھی تھی۔۔۔۔۔جب بھی تائی عفت کو ضرورت پڑتی وہ جھٹ کرن چاچی کو راضی کرکے اپنی بات منوا لیتی تھیں۔۔۔۔کرن چاچی سب کچھ جانتے ہوئے بھی عفت تائی کا ساتھ دیتی تھیں۔۔۔۔اور جب میں شکوہ کرتا تو۔۔۔۔۔چل خیر ہے نومی وہ گھر کی بڑی ہیں میری ساس کی جگہ ہیں۔۔۔کہہ کر مجھے چپ کرا دیتیں
کرن چاچی سے میرا یہ بھروسے والا تعلق ہی آج کے ذومعنی باتوں کی بنیاد بنا
ہمارے درمیان دس گیارہ سال سے اعتماد کا رشتہ تھا۔۔۔اور یہی میرا پلس پوائنٹ تھا۔۔۔۔
اب آپ سب سوچ رہے ہونگے کہ یہ مونا چاچی کون ہیں ؟؟؟
مونا چاچی۔۔۔۔۔انکی کہانی بڑی ہی عجیب ہے۔۔۔۔
مونا چاچی میرے سب سے چھوٹے چچا عتیق کی بیگم ہے۔۔۔۔
عتیق چچا۔۔۔۔جنکا نام لینا بھی گھر میں منع ہے۔۔۔۔۔
مونا چاچی صرف دو مہینے اس گھر رہیں۔۔۔۔۔اور پھر اپنے شوہر کو لیکر ہمیشہ کے لیے یہاں سے چلی گئیں۔۔۔۔۔یا یوں سمجھ لیں سب خاندان والوں نے ملکر عتیق چچا کو اپنی بیوی چھوڑنے یا خاندان چھوڑنے کا آپشن دیا۔۔۔۔تب عتیق چچا نے بیوی کا ہاتھ پکڑا اور گاوں سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے
وہ دن اور آج کا دن۔۔۔۔اس گھر میں ان دونوں کا ذکر کرنا بھی حرام ہے
یہی وجہ ہے کہ میں نے اوپر انکا ذکر نہیں کیا
نومی بھائی۔۔۔نومی بھائی۔۔۔۔۔صبا کی آواز سنکر میں چونکا۔۔۔ہاں صبا آو کیا بات ہے میں نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا
اماں کہہ رہی ہیں کہ آپ نے آج رہنا ہے یا چلے جانا ہے ؟؟ وہ بولتے بولتے میرے قریب آ کھڑی ہوئی
شام کو چلےجانا ہے ۔۔۔۔میں نے کسلمندی سے انگڑائی لیتےہوئے جواب دیا
اچھااااا۔۔۔۔۔چلیں ٹھیک ہے وہ جواب لیکر مڑنے لگی کہ میں نے اسے پکارا
سنو صبا۔۔۔۔۔۔ ایک بات بتاو۔۔۔میں نے اسے آواز دی
ہاں جی پوچھیں۔۔۔۔وہ تھوڑی بہت ناراض ناراض لگ رہی تھی۔۔۔
تمہیں میرا گفٹ پسند نہیں آیا ؟؟ میں نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
پسند ہے بس چھوڑیں آپ۔۔۔۔۔صبا نے اداسی سے جواب دیا
نہیں نا۔۔۔۔بتاو تو۔۔۔میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب بٹھایا۔۔۔۔چلو بتاو اب۔۔۔۔میں نے اسکے ہاتھ تھامے اور اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
رہنےدیں۔۔اماں کو پتہ چلا تو وہ ماریں گی۔۔۔صبا نروٹھے انداز میں بولی
ارے چندا۔۔۔۔پکا وعدہ تائی کو نہیں بتاونگا۔۔۔ میں نے اسکے ہاتھوں کو ہلکے سے سہلایا۔۔۔۔یہ سب نیچرل تھا۔۔۔۔یہ صبا اسے میں نے نجانے کتنی بار کندھوں پہ بٹھا کر جھولے دئیے تھے۔۔۔آپ گڑیا کیوں لائے میں کوئی بچی ہوں جو گڑیا سے کھیلوں گی ۔۔۔وہ تنک کر بولی
اوہ تو یہ بات ہے۔۔۔۔میں نے اسکی شکائتی نظروں میں جھانکا۔۔۔سوری سوری۔۔۔۔مجھے اندازہ نہیں تھا ورنہ لڑکیوں جیسا کچھ لاتا۔۔۔۔تم بھی تو چار مہینوں میں بڑی ہو گئی میں نے ذومعنی انداز میں سرگوشی کی
میری سرگوشی سن کر پہلی بار اسکے ہاتھ ہلکے سے کانپے
نومی بھائی۔۔۔۔۔آپ بھی نا۔۔۔وہ شرماتے ہوئے چلائی
اچھا بتاو ۔۔۔۔۔کیا گفٹ لاوں میں اپنی صبو رانی کے لیے۔۔۔میں نے اسے بچوں کی طرح پچکارا
ہممم رہنے دیں۔۔۔۔اماں کو پتہ چلا تو بڑی مار پڑنی۔۔۔
نہیں بتاتا۔۔۔۔چلو شاباش بتاو کیا لینا ہے میں نے اسکے ہاتھوں کو پھر سے سہلایا۔۔۔۔نجانے اسکی ہتھیلیاں کیوں بھیگ رہی تھیں۔۔۔؟؟
اممم میک اپ کٹ۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد وہ جھجھکتے ہوئے بولی
اوکے ڈن۔۔۔۔۔لے آوںگا ۔۔۔۔تمہیں میک اپ کا شوق ہے میں نے سرگوشی میں پوچھا
ہاااں لیکن اماں کچھ بھی نہیں لے کر دیتی اس نے روہانسے انداز میں کہا
چلو کوئی بات نہیں میں لادونگا ویسے تمہیں میک اپ کی ضرورت نہیں ویسے ہی اتنی پیاری ہو میں نے روانی میں تبصرہ کیا
ہااائے سچی۔۔۔۔میری تعریف سنتے ہی اسکی آنکھیں چمکیں
ہاں مچی۔۔۔۔۔میں نے اسے یقین دلایا۔۔۔۔۔
میری تعریف سے اسکا چہرہ ہلکے سے گلناز ہوا۔۔۔۔میں حیرت سے اسکے تاثرات دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
لیکن پھر بھی آپ مجھے میک اپ کٹ لا کر دیں۔۔۔۔اس نے اپنے بچپن کی طرح ضد کی۔۔۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔۔لادونگا۔۔۔۔اب خوش۔۔۔۔میں نے ہنستے ہوئے کہا
ہاں بہت خوش۔۔۔۔چلیں اب میرے ہاتھ چھوڑیں نا ۔اس نے بڑی ادا سے کہا۔۔۔۔میں نے قدرے حیرانگی سے اسے دیکھا اور ہاتھ چھوڑ دئیے۔۔۔۔صبا کے اندر کچھ تبدیلی تھی ۔۔۔۔
ارے سچ یاد آیا۔۔۔۔۔ابھی سلطانہ آپا بھی آ رہی ہیں۔۔۔اچھا ہی ہے آپ چلے جاو۔۔۔
کیا۔۔۔۔۔۔سلطانہ کا نام سن کر میرا حلق تک کڑوا ہو گیا۔۔۔۔۔یہ سلطانہ ہی تھی فساد کی جڑ
ایک تبصرہ شائع کریں for "مونا چاچی قسط نمبر 2"