Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

پھوپھی کا گاؤں


​   پھوپھی کا گاوں میرا نام کامران ھے ہم لوگ کراچی گلشن اقبال میں رہتے ہیں گھر میں امی ابو کے علاوہ میں اور میری بہن ارم ھے گھر میں ہم چار لوگ ہیںابو-امجدامی-عالیہبہن-ارمابو کا اپنا الیکٹرانکس کا بزنس ھے ہماری الیکٹرانکس کی شاپ بھی گلشن میں ھی ھے ابو صبح ایک بجے دوکان پر جاتے اور رات کو دس تک گھر آجاتے ہیں کبھی کبھی میں بھی ٹائم گزارنے شاپ پر چلا جاتا ھوںمیں نے سیکنڈ ایر کا امتھان دیا تھا اور رزلٹ کا انتیظار کر رھا تھا میری بہن نے میٹرک کا امتھیان دیا تھا وہ بھی رزلٹ کا انتیظار کر رھی تھی امی کو شوگر اور بلیڈپریشر رہتا تھا تو گھر کے کام کے لیے گھر میں ایک کام والی آنٹی تھیں جو ہمارے گھر کا کام کرتی تھیں وہ صبح سےرات تک ہمارے گھر کے سب کام کرتیں اور رات کو اپنے گھر چلی جاتی تھیں اب میں آپ کو اپنی کہانی کے بارے میں بتاتا ھوںمیرے ابو کی عمر 45 سال تھی لیکن اس عمر میں بھی وہ بہت فٹ اور اسمارٹ تھے انکو دیکھ کر انکی عمر کا کو اندازہ نہی کرسکتا تھا کہ ابو 45 سال کے ھونگےکیونکہ ابو ٹائم نیکال کر جم بھی جاتے تھے تو اس لیے اس عمر بھی فٹ تھےہمارا تعلق صادق آباد سے تھا دادا کے انتیقال کے بعد ابو کراچی آگے اور یہاں آکر الیکٹرانکس کی دوکان کھول لی ابو کی ایک بہن ابھی بھی صادق آباد کے قریب ایک گاوں میں رہتی تھیں وہاں پر ابو کی بھی زمینیں تھیں اور پھوپھی کی بھی پھوپھی ہماری زمینوں کی بھی دیکھ بھال کرتی تھیں پھوپھی بھی کبھی کبھی کراچی ابو سے ملنے آتی تھیں لیکن کافی سال ھوگے تھے پھوپھی بھی ملنے نہی آی تھیں لائف ایسیے ہی چل رھی تھی ہمارے گھر کا ماحول فرینڈلی تھا ابو ہم دونوں سے بہت پیار کرتے تھے ہم دونوں بھای بہن کی ہر خواہش کو پورا کرتے تھے امی ابو نے کبھی ہم پر سختی نہی کی تھی ہمارے گھر کا ماحول بہت فرہنڈلی تھا ابو امی کا بھی بہت خیال کرتے تھے مطلب لائف بہت اچھی چل رھی تھی میں فارغ وقت میں دوستوں کے ساتھ یہ پھر موبائل پر پورن مووی دیکھ لیتا اور زیادہ جوش چڑھتا تو مٹھ مار لیتا بس اسکے علاوہ کچھ نہی کرتا تھا کوی گرل فرینڈ بھی نہی تھی بس پورن موی دیکھنے کا شوق تھا جبکہ میرے فرینڈ کی گرل فرینڈ تھیں اور وہ اپنی گرل فرینڈ کو چود بھی چکے تھے لیکن میں ابھی چدای کے مزے سے دور تھا سب دوست کہتے تھے کہ گرل فرینڈ بنالے اور چدای کا مزا لیے لیکن میں اس چکر میں نہی پڑنا چاہتا تھاہم بھای بہن آپس میں بہت فرینک تھے لیکن میرے دل میں کبھی بھی فیملی سیکس یہ بہن کے بارے میں کوی غلط خیال نہی آیا ایک دن رات کو کھانا کھانے کے بعد ہم سب لاونج میں بیٹھے تھے میں ابو کے ساتھ بیٹھا تھا ارم امی کے ساتھ ابو مجھے کہنے لگے بیٹا تم اور ارم صادق آباد اپنی پھوپھی کے پاس چلے جاو آوٹنگ بھی ھوجاے گی اور اپنی زمینوں کو بھی دیکھ آو امی بولیں نہی آپ صرف کامران کو ھی بیھج دیں ارم کو ابھی نہ بھجیں میری طبیعت پہلے ھی خراب ھے ارم امی سے بولی امی ایک ہفتہ کی تو بات ھے آنٹی آتی تو ہیں صبح سے شام تک کے لیے پلیز امی جانے دیں نہ ابو بولیے بیٹا تمھاری امی ٹھیک کہہ رھیں ہیں اچھا پھر ایسا کرتے ہیں کہ ابھی کامران کو جانے دو یہ واپس آجاے گا تو تم میرے ساتھ چلنا ارم اٹھ کر ابو کے پاس آکر بولی اوکے پرامس کریں اپنا ھاتھ آگے کیا ابو نے ارم کا ھاتھ پکڑ کر اس کے ساتھ پرامس کر لیا ارم بولی ایک اور بات ابو بولے وہ کیا ارم بولی ابو یہ موبائل بھی خراب ھوگیا ھے کل مجھے نیو موبائیل بھی لادیں ابو نے ارم کو گلے لگاتے ھوے کہا ٹھیک جی آپ کی یہ بات بھی مان لی امی بولیں یہ بہت چالاک ھے نہ جانے کے چکر میں اس نے موبائیل کی فرمائش کردی ابو بولے کوی بات نہی یہ تو میری شہزادی ھے کل اس کو نیو موبائیل لادونگا میں بولا ابو یہ کیا بات ھوی یہ کوی اوپر سے اتری ھے مجھے بھی نیو موبائیل چاہہے ھے ابو میرے شہزادے تو کیوں ناراض ھوتا ھے صادق آباد سے آنا تو لےلینا ارم بولی ابو اس کو وہاں اپنے نیو موبائیل کی شوخی بھی تو مارنی ھوگی اچھا بھای تم میرا نیو موبائیل لے جاو اور مجھے اپنا موبائیل دے جانا واپس آکر اپنا موبائیل لےلینا ابو بولے دیکھا میری بیٹی کتنی سمجھ دار ھے اچھا میرا فون لاو میں شمیم سے بات کرلوں شمیم میری پھوپھو کا نام ھے میں نے ابو کو فون لا کر دیا ابو نے پھوپھو کو کال ملای کافی دیر بیل جانے کے بعد پھوپھو نے کال اٹیند کی ابو نے پھوپھو کو بتایا کہ کل میں رات کو خیبرمیل سے صادق آباد آرھا ھوں تو تم۔ اسٹیشن پر ساجد کو بیھج دینا ساجد میرا کزن یعنی میری پھوپھو کا بیٹا تھا ابو نے فون بند کیا اور بولے شمیم بہت خوش ھورھی تھی کہ اسکا لاڈلا بھتیجا آرھا ھے پھر ابو امی اٹھکر اپنے کمروں میں چلے گے میں اور ارم بھی اپنے اپنے کمروں میں آگے میں نے موبائیل پر کچھ پورن ویڈیو دیکھیں اسکے بعد میں سوگیا صبح ارم نے مجھے اٹھایا کہ بھای دس بج گے ہیں آج آپ نے جانا بھی ھے میں نے آنکھیں کھول کر ارم کو دیکھا اور بولا تم چلو میں آتا ھوں ارم کے جانے کے بعد میں بیڈ سے اٹھکر واش روم گیا فریش ھوا اور کپڑے چینج کرکے کمرے سے باھر نیکلا تو ارم مجھے دیکھ کر بولی جلدی سے ناشتہ کرلیں پھر ابو کے پاس بھی جانا ھے میں ٹیبل پر بیٹھ گیا امی بھی اپنے روم سے باھر آگیں اور میرے سامنے بیٹھ کر بولیں بیٹا خیال سے جانا تم پہلی دفہ اکیلے جارھے ھو میں نے کہا امی آپ فکر نہ کریں ارم بولی امی اب کامی بھای بچے نہی ہیں بڑے ھو گے ہیں امی پھر بھی بیٹا فکر تو لگی رھے گی ارم بولی امی آپ ٹینشن نہ لیں میں بھای سے رابطے میں رہونگی بھای سے کال پر پوچھتی رھونگی امی بولیں ہاں یہ ٹھیک ھے تم اسکو کال کرتی رہنا ارم بولی بھای وہاں جاکر اپنی اور شمیم پھوپھو کی سب کی تصوریں واٹس اپ کریے گا ہم یہاں بیٹھ کر گاوں کی لایئف انجواے کرلینگے میں نے کہا ویڈیو بھی بنا کر بھیج دونگا ارم بولی ہاں یہ بھی ٹھیک ھے میں نے ناشتہ ختم کیا ارم بولی بھای آپ ابو کے پاس چلے جایئں میں نے بائک نیکلای اور ابو کے پاس چلاگیا ابو نے مجھے دیکھ کر کہا تمھاری بکنگ رات خیبر میل سے کروادی ھے تم۔اسٹیشن پہنچ کر میرے دوست کو مل لینا وہ تم کو ٹیکٹ دے دینگے ابو نے اپنے دوست کا موبائیل نمبر مجھے دیا مجھے پیسے دے کر بولے کامران برابر موبائیل کی شاپ سے ارم کے لیے موبائیل بھی لے لو میں نے ابو سے پیسے لیے اور موبائیل شاپ سے ارم کے لیے vivo کا نیو موبائیل لے کر آگیا ابو نے موبائیل دیکھا بولے ہاں یہ تم نے اچھا موبائیل لیا ھے ابو نے مجھے میرے خرچے کے پیسے دے اور کہا ایک ہفتہ بعد آجانا میں نے کہا ٹھیک ھے ابو نے پھوپھو کے لیے کچھ سامان لیا تھا وہ بھی مجھے دیا کہ یہ پھوپھو کو دےدینا میں یہ سب چیزیں لے کر گھر آگیا گھر آکر ارم کو موبائیل دیا تو وہ خوشی سے ناچنے لگی ارم نے ابو کو کال کرکے شکریہ کہا میں نے ارم کا موبائیل کھول کر اسکی سیٹنگ وغیرہ سمجھای اس کہ سم ڈال کر اس کو دے دیا ارم بولی بھای یہ آپ لے جائیں میں نے کہا نہی ارم میرا موبائیل ٹھیک ھے میں واپس آکر لے لونگا ارم بولی ٹھیک ھے بھای جسے آپ کی مرضی ارم بولی بھای آپ کی پینٹ شرٹ اور ایک شلوار قمیض نیکال دیا ھے آپ بیگ میں رکھ لیں میں نے کپڑے اپنے بیگ میں رکھے اپنی تیاری مکمل کی رات کا کھانا کھا کر میں اسٹیشن چلا گیا وہاں ابو کے دوست کو کال کی تو وہ میرا بزنس کلاس کا ٹیکٹ لے کر آگے ابو نے میری بکنگ بزنس کلاس میں کروادی تھی خیبرمیل رات دس بجے کراچی سے روآنہ ھوی ٹرین چلتے ھی ارم کی کال آگی بھای سیٹ مل گی ٹرین چل پڑی میں نے اسکو بتایا کہ ہاں ابو نے بزنس کلاس میں بکنگ کروادی تھی اور ٹرین ابھی لانڈھی اسٹیشن پہنچ گی ھے ارم بولی ٹھیک ھے بھای اپنا خیال رکھیے گا اب میں صبح کال کرونگی ارم نے فون بند کردیا میں بھی برتھ پر آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا اور کچھ دیر کے بعد میں نیند کی آغوش میں چلا گیا موبائیل کی بیل سے آنکھ کھلی تو دیکھا ارم کی کال تھی میں نے موبائیل پر ٹائم دیکھا تو صبح کے سات بج رھے تھے میں نے کال اٹیند کی ارم بولی بھای کہاں پہنچے میں نے کہا یار پتہ نہی ٹرین کسی اسٹیشن پر رکی ھوی ھے میں نے اپنے ساتھ لوگوں سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ روہڑی اسٹیشن ھے میں نے ارم کو بتایا کہ ابھی روہڑی آیا ھے ارم بولی ٹھیک ھے بھای اور فون بند کردیا میں اب اٹھ گیا تھا کیونکہ دو تین گھنٹوں کے بعد صادق آباد آنے والا تھا میں واش روم گیا منہ ھاتھ دھوکر فریش ھوا ٹرین اب روہڑی اسٹیشن سے چل پڑی تھی ارم کا مسیج آیا بھای ناشتہ کرلینا میں نے کہا بس اب صادق آباد آنے والا ھے گھر جاکر ہی کرونگا ارم کا میسج آیا ٹھیک ھے جبھی ساجد کی کال آگی ساجد نے بتایا کہ وہ اسٹیشن آگیا ھے بس ٹرین بھی پہچنے والی ھے میں نے اپنا سامان اٹھایا اور دروازے کی طرف چلاگیا ٹرین رکتے ھی میں اپنا بیگ لے کر اتر کر ساجد کو دیکھنے لگا مجھے ایک طرف سے آواز آی کامران میں نے آواز کی طرف دیکھا تو ساجد مجھے اشارہ کر رھا تھا میں ساجد کی طرف گیا اس نے گرمجوشی سے مجھے گلے لگایا اور مجھے دیکھ کر بولا واہ جی کیا بات ھے شہری بابو اب جوان ھوگیا ھے میں نے کہا یار تو بھی تو گھبرو جوان ھوگیا ھے ساجد چل باقی باتیں گھر چل کر کرتے ہیں ہم لوگ اسٹیشن سے باھر نکلے جہاں ساجد اپنی بائک لے کر آیا تھا ساجد نے میرا بیگ آگے رکھا اور ہم لوگ گاوں کی طرف روآنہ ھوگے پھوپھی کا گھر گاوں سے تھوڑا فاصلے پر تھا جو انھوں نے اپنی زمینوں پر بنایا ھوا تھا ہم لوگ گاوں سے آگے پھوپھی کے گھر پہنچ گے ساجد نے بایئک روکر مجھے اترنے کا کہا کامران گھر آگیا ھے ساجد نے میرا بیگ لیا اور دروازہ کھول کر اندر گیا ساجد کے پیچھے میں بھی پھوپھی کے گھر میں داخل ھوا پھوپھی اور شازیہ سامنے ہنڈ پینمپ پر کپڑے دھو رھی تھیں پھوپھی نے مجھے اور ساجد کو دیکھا تو کپڑے چھوڑ کر میری طرف آتے ھوے بولیں اوہ میرا پتر آگیا اور اتے ھی مجھے گلے لگا لیا پھوپھی کے کپڑے گیلے ھورھے تھے پھوپھی نے کس کر مجھے گلے لگایا اور پہلی دفہ کسی عورت کے ممے میرے سینے سے ٹیچ ھوے کچھ دیر تک پھوپھی کے ممے میرے سینے سے ٹیچ رھے پھر پھوپھی نے میرے گالوں پر پیار کیا میری تو عجیب حالت تھی ایسا پہلی دفہ ھوا تھا پھوپھی مجھ سے الگ ھویئں تو شازیہ نے بھی مجھے اپنے گلے لگایا لیکن اس کے ممے تھوڑے سے ٹیچ ھوے پھوپھی واہ میرا پتر جوان ھوگیا چل آ بیٹھ شازیہ کامران کا بیگ کمرے میں رکھ دو پھوپھی میرا ھاتھ پکڑ کر وہاں پڑی چارپای پر بٹھ گیں میں نے پھوپھی کی طرف دیکھا تو انکی پوری قمیض مموں کی طرف سے گیلی تھی جہاں سے پھوپھی کے بڑے بڑے مموں کی جھلک نظر آرھی تھی پھوپھی کراچی میں سب کی خیر خیریت معلوم کرنے لگیں شازیہ بھی میرا بیگ کمرے میں رکھکر آگی تھی شازیہ اور پھوپھی دونوں نے کھلے گلے کی قمیضیں پہنی ھوی تھیں جس میں سے ان دونوں کے مموں کی لائین نظر آرھی تھی اور تھوڑا سا جھکنے سے مموں کا دیدار بھی ھوجاتا شازیہ بھی سب کے بارے میں پوچھنے لگی جبھی میرے موبائیل پر ارم کی کال آگی ارم مجھ سے پوچھنے لگی بھای پہنچ گے میں نے اس کو بتایا کہ ھاں پھوپھی کے گھر ھوں پھر ارم نے شازیہ اور پھوپھی سے بھی بات کی شازیہ نے بات کرکے موبائیل مجھے واپس دیا ارم بولی چلیں بھای آپ آرام کریں پھر کال کرونگی پھوپھی شازیہ سے بولیں شازیہ تم کامران کے لیے ناشتہ بناو میں ذرا یہ کپڑے دھو دوںشازیہ کیچن کی طرف چلی گی پھوپھی مجھ سے بولیں تم فریش ھوجاو جب تک میں یہ کام ختم کر لوں پھوپھی میرے پاس سے اٹھکر کپڑے دھونے چلی گیں پھوپھی کا گھر بہت بڑا تھا گھر کے ایک طرف تین کمرے بنے ھوے تھے بڑا سا برامدہ ایک طرف کیچن بنا ھوا تھا اسکے بعد بہت بڑا صحن تھا جہاں ایک طرف بھنسیں اور گاے بندھی تھیں اسکے دوسری طرف دو بکرے بھی تھے صحن میں دیسی مرغیاں بھی پھر رھی تھیں مطلب آپ لوگ اندازہ کرلیں کہ گاوں کے گھر کیسے ھوتے ہیں شازیہ کیچن میں میرے لیے ناشتہ بنانے لگی میں اٹھکر اس کمرے میں گیا جہاں میرا بیگ رکھا ھوا تھا میں نے بیگ سے ٹاول ٹوتھ برش اور پیسٹ نیکالا کمرے سے باھر آیا تو پھوپھی بولیں پتر ادھر آجا منہ ھاتھ دھولے میں پھوپھو کی طرف چلا گیا جہاں وہ کپڑے دھو رھی تھیں پھوپھو نے کپڑے سائڈ پر کیے اور ہنڈ پنمپ چلاتے ھوے بولیں پتر نہانا ھے تو نہا لو میں نے کہا نہی پھوپھو بس منہ ھاتھ دھولیتا ھوں پھوپھو بولیں چل بیٹھ میں ہنڈ پنمپ چلاتی ھوں میں پیسٹ کرنے لگا پھوپھو جب ہنڈ پنمپ چلاتی تو پھوپھو کے بڑے بڑے مموں ہلتے ھوے مزا دے رھے تھے پھوپھو نے بریزر بھی نہی پہنا ھوا تھا جسکی وجہ سے پھوپھی کے جھکنے سے مموے اندر تک نظر آجاتے میں نے جلدی جلدی منہ ھاتھ دھویا پھوپھو بولیں چلو کیچن میں میں بھی آتی ھو میں ٹاول سے منہ ھاتھ صاف کرکے کیچن کی طرف چلاگیا جہاں شازیہ دیسی گھی کے پراٹھے بنا رھی تھی شازیہ مجھے دیکھ کر بولی کامران بھای آپ یہاں بیٹھیں میں گرم پراٹھے بنارھی ھوں گاوں میں ٹیبل کرسی کا رواج نہی ھوتا سب لوگ کیچن میں ھی بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں میں بھی وہیں شازیہ کے سامنے بیٹھ گیا شازیہ بیغیر ڈوبٹے کے بیٹھی ھوی تھی اسکی سکین کلر کی بریزر قید ممے بھی شازیہ کے جھکنے سے نظر آرھے تھے میں اس ٹائم بہت مشکل میں تھا میں نے اس طرح کبھی اپنے گھر میں بھی نہی دیکھا تھا ارم گھر میں بیغیر ڈوبٹے کے گھومتی رہتی تھی امی بھی ایسے ہی رہتی تھیں لیکن میں نے اس طرح کبھی نہی دیکھا تھا یہاں کا ماحول تو کافی کھلا ڈلا تھا شازیہ گرم گرم پراٹھے بنا رھی تھی جبھی پوپھی بھی آگیں اور شازیہ سے بولیں بیٹا اٹھ میں بناتی ھوں شازیہ اٹھ کر میرے برابر بیٹھ گی میں نے کہا شازیہ تم بھی ناشتہ کر لو شازیہ بولی کامران بھای ہم۔تو صبح صبح کرلیتے ہیں پھوپھی میرے سامنے بیٹھی تھیں اور چاے نیکلاتے ھوے پھوپھی کے گورے گورے مموں کا دیدار بھی ھورھا تھا یہ میرے لیے کچھ عجیب تھا لیکن اب یہ سب دکیھنے میں مزا آرھا تھا پھوپھی کے مموں کو دیکھ دیکھ کر ناشتہ کیا ناشتہ کرنے کے بعد شازیہ بولی امی کامران بھای کو ٹیوب ویل پر لے جاوں پھوپھی بولیں لے جانا آج تو پہنچا ھے آج اسے آرام کرنے دو میں نے کہا پھوپھی آرام بھی ھوجاے گا میں زمینوں کو دیکھنے آیا ھوں تو تھوڑا چکر لگا لوںپھوپھی میری طرف دیکھ کر بولیں چل ٹھیک ھے شازیہ تم گھر کا کام کرو میں اسکو ٹیوب ویل پر لے کر جاتی ھوں جب تک تم ھانڈی روٹی کر لو پھوپھی کیچن سے نکل کر کمرے میں چلی گیں شازیہ بولی کامران بھای جاییں امی کے ساتھ یہ آپ کو ماموں کی زمینیں بھی دکھادینگی میں بھی کیچن سے نیکل کر برامدے میں بیٹھ گیا پھوپھی بھی کپڑے چینج کرکے آگی تھیں پھوپھی نے ہرنٹٹدڈ شلوار قمیض پہنی ھوی تھی اس قمیض کا گلا بھی کافی کھلا تھا پھوپھو نے ڈوبٹہ لیا اور بولیں چل پتر چلتے ہیں ساجد بھی زمینو پر ھوگا میں پھوپھی کے ساتھ انکے گھر سے باھر نیکل کر زمینوں کی طرف چل پڑے ہم دونوں کیھتوں میں سے ھوکر جارھے تھے میرے آگے آگے پھوپھی چل رھی رھیں پھوپھی کے بڑے بڑے چوٹر انکے چلنے سے ہلتے ھوے بہت مزا دے رھے تھے پھوپھی مجھے بتاتی جارھی تھیں کہ اس کھیت میں کیا اگا ھوا ھے لیکن میں تو پھوپھی کے ہلتے ھوے چوٹروں میں گم تھا کیا مست چوٹر تھے میں خاموشی سے انکے پیچھے پیچھے چل رھا تھا اچانک پھو پھی نے مڑ کر مجھے دیکھا اور بولیں اوے چپ کیوں ھے میں نے ایک دم چونک کر کہا نہی پھوپھو میں آپ کی بات سن رھا تھا پھوپھی بولیں اچھا وہ مڑ کر پھر سیدھی چلنے لگیں ہر طرف ویرانی تھی دور دور تک کوی نظر نہی آرھا تھا بس ہم دونوں ھی تھے میں نے چلتے چلتے پھوپھی سے پوچھا پھوپھو ابو کی زمینیں کدھر ہیں پھوپھی بولیں بس تھوڑا آگے ہیں پہلے وہاں چلتے ہیں پھر ٹیوب ویل پر کافی دیر چلنے کے بعد پھر پھوپھی ایک طرف مڑگیں وہاں اب باغات کا سلسلہ شروع ھوگیا تھا یہ آم کا باغ تھا گھنے درخت اور سبزہ سزہ تھا پھوپھی بولیں یہ آم کا باغ ہمارا ھے اس کے آگے تمھارے ابو کی زمینیں ہیں میں ابھی آم کے درخت پر آم پکے ھوے نہی تھے ابھی کچے تھے میں نے پھوپھی سے ہوچھا پھوپھی یہ آم کب تک پکے نگے پھوپھی بولیں بس اگلے دو ماہ میں پک کر تیار ھوجائنگے آم کے باغ سے نیکل کر ہم لوگ باھر نیکلے تو سامنے گنے کا کیھت تھا پھوپھی بولیں یہ تمھارے ابو کی زمینیں یہاں سے شروع ھوتی ہیں تمھارے ابو نے اپنی ساری زمین پر کماد(گنا) لگا یا ھوا ھے میں نے کہا واہ پھوپھی گنے کی فصل تو بہت اچھی لگ رھی ھے پھوپھی بولیں ہاں بیٹا تمھارے ابو کی فصل اس دفہ بہت اچھی ھے یہ کہتے ھوے پھوپھی گنے کے کیھت کے اندر جاتے ھوے بولیں کامران تم ذرا یہاں کھڑے ھو میں پیشاب کرکے آتی ھوں میں ایک طرف ھو کر کھڑا ھوگیا پھوپھی تھوڑا اندر کی طرف گیں میں نے دیکھا پھوپھی کافی اندر کی طرف چلی گیں تھیں اب مجھے نظر نہی آرھی تھیں میں گنے کے کیھت کے باھر کھڑا رھا گاوں دہاتوں میں اکثر ایسا ھوتا ھے کہ مرد اور خواتین کھیتوں میں ھی جاکر فارغ ھوتے ہیں مجھے اس کا اندازہ تھا کیونکہ پھوپھی کے گھر میں میں نے لیٹرین نہی دیکھی تھی اسکا مطلب یہ تھا کہ یہ لوگ کیھتوں میں ھی جاتے ھونگے جبھی پھوپھی بھی گنے کے کیھت میں پیشاب کرنے چلی گی تھیںکچھ دیر کے بعد پھوپھی کیھت سے باھر نیکل کر بولیں بیٹا ہمارے یہاں واش روم نہی ھوتے ہم لوگ کیھتوں میں ھی جاتے ہیں لیکن تمھارے لیے مشکل ھوگی میں نے کہا پھوپھی کوی بات نہی یہ بھی ایک اچھا تجربہ رھے گا پھوپھی ہاں یہ تو ھے چل بیٹا اب ٹیوب ویل پر چلتے ہیں ہم دونوں پھر وہاں سے ٹیوب ویل پر آگے ٹیوب ویل پر ساجد بھای دھوتی اور بنیان میں بیٹھے ھوے تھے ٹیوب ویل چل رھا تھا ہم دونون کو دیکھ کر ساجد بولا امی مجھے کہیہ دیتیں میں کامران کو موٹر سائکل پر لے آتا پھوپھی بولیں کوی بات نہی مجھے بھی ٹیوب ویل پر آے کافی دن ھوگے تھے اس لیے میں اس کے ساتھ آگی ساجد بھای نے ٹیوب ویل کے ساتھ درخت کے نیچے چارپائی بچھای ھوی تھی ہم دونوں چارپای پر بیٹھ گے ساجد بھای نے ٹیوب ویل سے جگ میں پانی بھرا اورہم دونوں نے ٹیوب ویل کا پانی پیا پھوپھی تو چارپای پر لیٹ کر بولیں اففف میں تو تھک گی تھوڑا آرم کرلوں ساجد ایک طرف ھوگیا پھوپھی چارپای پر سیدھی لیٹ گیں اور ساجد سے بولیں بیٹا ماموں کی فصل کی کٹائ کب شروع کرنی ھے ساجد بولا بس امی ایک دو دن میں شروع کرتا ھوں شگر مل بھی شروع ھونے والی ھےمجھے پیشاب آرھا تھا میں نے ساجد سے کہا یار پیشاب آرھا ساجد ہنستے ھوے بولا یار اتنی کھلی جگہ ھے کر لو میں نے کہا یار یہ تو مجھے پتہ ھے لیکن ایسے کہاں کروں پھر ساجد بولا یہ جو کمرہ بنا ھے اس کے پیچھے جاکر کر کر لو میں پھر اٹھکر ٹیوب ویل کے پاس جو کمرہ بنا ھوا تھا اسکی بیک سائڈ پر چلا گیا وہان بھی گنا لگا ھوا تھا میں نے ادھر ادھر دیکھا تو دور تک کوی نہی تھا میں نے پینت کی زیپ کھولی اور انڈرویر سے ابھی لن باھر ھی نیکالا تھا کہ موبائیل کی بیل بجی میں نے موبائیل دیکھا تو ارم کی کال تھی میں نے موبائیل کان سے لگایا اور ایک ھاتھ سے لن پکڑ کر پیشاب کرنے لگا ارم بولی بھای کیا ھورھا ھے میں نے کہا ابھی بتا نہی سکتا کیا ھو رھا ھے ارم بولی کیوں بھای ایسا کیا کررھے ھو کہ بتا نہی سکتے اور یہ کچھ پانی گرنے کی آواز آرھی ھے میں نے کہا میں پیشاب کر رھا ھوں ارم اففففففففف بھای اور فون بند کردیا میں نے پیشاب کیا لن کو ٹشو پیپر سے صاف کیا اور پینٹ اوپر کرکے میں ٹیوب ویل کی طرف جانے لگا ابھی میں کچھ فاصلے پر تھا کہ مجھے پھوپھی کی آواز آی پتر نہ کر کامران آجاے گا میں یہ سن کر رک گیا اور آہستہ آہستہ کمرے کی دیوار کے ساتھ چلتا ھوا آگے بڑھنے لگا اور جب میں تھوڑا سا آگے ھوا تو میرے سامنے ایک الگ ھی منظر تھا جس کو دیکھ کر میرے قدم وہیں رک گے​ میری نظروں کے سامنے جو منظر تھا وہ دیکھ کر میں حیران تھا کہ ایسا بھی ھوتا ھے میں دیوار کی اوٹ میں کھڑا اپنی آنکھوں سے دیکھ رھا تھا کہ ساجد اپنی دھوتی کھولے پھوپھی کے سامنے کھڑا تھا اور پھوپھی اس کا لن چوس رھی تھیں پھوپھی نے لن منہ سے باھر نیکلاتے ھوے کہا پتر بس اب جو کرنا رات کو کرنا کامران آجاے گا یہ سب دیکھ کر میں سکتے میں آگیا تھا اسی وقت میرے موبائیل کی بیل بج گی ساجد نے موبائیل کی بیل سنتے ھی اپنی دھوتی باندھ لی تھی میں نے بھی موبائیل جیب سے نیکا لا اور بات کرتا ھوا ٹیوب ویل کی طرف چل پڑا فون ارم کا تھا ارم بھای کر لیا میں نے کہا کیا کرنا تھا ارم افففف بھای چلیں چھوڑیں اس بات کو یہ بتائیں کہاں ہیں آپ میں نے کہا ہھوپھی کے ساتھ ٹیوب ویل پر آیا ھوں ارم بولی واو زبردست مجھے ویڈیو بنا کر بھجیں میں نے کہا اچھا بیھج تا ھوں اس نے فون بند کردیا پھوپھی اور ساجد اب الگ الگ بیٹھے تھے ساجد بولا ہلکے ھوگے میں نے کہاں ہاں یار پھوپھی بولیں اتنی دیر لگادی میں نے کہا میں تھوڑا آگے چلا گیا تھا پھوپھی بولیں اچھا میں نے کہا پھوپھی چلیں ہھوپھی بولیں ہاں بیٹا چلو گھر چلتے ہیں شازیہ بھی اکیلی ھوگی میں نے کہا ایک منٹ میں ویڈیو بنا لوں ٹیوب ویل کی میں نے اپنے موبائیل سے چھوٹی سی ویڈیو بنا کر ارم کو سینڈ کردی پھوپھی بھی اٹھکر کھڑی ھوگیں پھوپھی ساجد سے بولیں بیٹا کھانا گھر آکر کھانا ساجد بولا نہی امی آپ شازیہ کے ہاتھ یہی ٹیوب ویل پر بیھج دینا مجھے ابھی ادھر کان ھے اور ٹیوب ویل بھی چل رھا ھے پھوپھی بولیں ٹھیک ھے کھانا میں شازیہ کے ھاتھ بھیج دونگی پھوپھی مجھے دیکھ کر بولیں چل پتر پھوپھی اور میں گھر کی طرف چل پڑے پھوپھی میرے آگے آگے چل رھیں تھیں اور میرا دماغ پھر سے اس طرف سوچنے لگا کہ جو کچھ میں نے دیکھا وہ حقیقت تھی یہ میرا وہم تھا لیکن جو کچھ دیکھا وہ حقیت ھی تھی کہ ایک ماں اپنے بیٹے کا لن چوس رھی تھی میرا دماغ عجیب حالات میں تھا کہ ایسا کیسے ھوسکتا ھے اور اس پر پھوپھی کا یہ کہنا کہ رات کو کرلینا میں ان سب کو سوچ کر عجیب شششپنج میں تھا اور خاموشی سے پھوپھی کے پیچھے چل رھا تھا کہ اچانک پھوپھی چلتے رک کر میری طرف مڑی اور بولیں پتر خیریت تو ھے چپ کیوں ھو کیا سوچ رھے ھو میں نے ایک دم چونکتے ھوے کہا کچھ نہی بس ایسے ہی پھوپھی بولیں کوی تو بات ھے گھر میں سب خیریت ھے نہ میں نے کہا جی پھوپھو سب ٹھیک ھے پھوپھی بولیں اچھا پھوپھی پھر میرے آگے آگے چوٹر ہلاتے ھوے چلنے لگیں میں نے اب یہ دیکھنا تھا کہ رات کو کیا ھوتا ھے ہم لوگ گھر پہنچ گے گھر پہنچے تو شازیہ بولی اماں ھانڈی بن گی ھے بس اب آپ روٹیاں بنا لیں پھوپھی اچھا چل میں ھاتھ دھو کر آتی ھوں کامران کو بھی بھوک لگی ھوگی شازیی بولی بھای زمینیں دیکھ لیں میں نے کہا ہاں دیکھ لیں آم کا باغ اور ٹیوب ویل سب دیکھ لیا بہت اچھا لگا پھوپھی شازیہ سے بولیں پتر ساجد کو تم کھانا ٹیوب ویل پر دے کر آنا وہ ابھی گھر نہی آے گا شازیہ بولی ٹھیک ھے امی میں دے آونگی پھوپھو کیچن میں روٹیاں بنانے لگیؑں اور میں بھی پھوپھی کے سامنے بیٹھ گیا گرم روٹی کے ساتھ گرم پھوپھی کے مموں کا دیدار بھی ھو رھا تھا اب تو میں بلا ججھک مموں کو دیکھ رھا تھا یہ بات پھوپھی نے بھی نوٹ کرلی تھی کہ کھانا کھاتے ھوے میری نظر انکے مموں پر ھے پھوپھی نے مجھ سے پوچھا کامران کھانا کیسا بنا ھے میں نے پھوپھی کی طرف دیکھ کر کہا پھوپھی زبردست پھوپھی نے کہا بیٹا صیح سے کھاو شازیہ اس کی پلیٹ میں اور سالن ڈالو شازیہ میرے برابر ہی بیٹھی تھی اس نے آگے بڑھ کر ہانڈی میں سے میری پلیٹ میں اور سالن ڈال دیا سالن ڈالتے ھوے اس کے ممے میرے بازو سے ٹیچ ھوگے تھے میں نے کھانا ختم کیا تو شازیہ اور پھوپھی نے کھانا کھایا پھر پھوپھی نے ساجد کا کھانا باندھ کر شازیہ کو دیا کہ یہ ساجد کو ٹیوب ویل پر دے آوشازیہ نے کھانا اٹھایا اور ٹیوب ویل پر چلی گی​

ایک تبصرہ شائع کریں for "پھوپھی کا گاؤں"