لیکن میں شک میں پڑ چکا تھا اور میں نے یاسر سے پوچھا لیکن وہ بات کو ٹالنے لگا۔ میں بار بار اس سے بات کے لیے اسرار کرنے لگا لیکن اس کے بات بتانے سے پہلے ہی بریک ختم ہو گئی اور ہمیں کلاس میں جانا پڑا۔ یاسر کے اس رویے سے مجھے اس پہ بہت غصہ آیا اور میں اس سے ناراض ہو گیا کلاس میں بھی میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور چھٹی کے بعد گھر آ گیا ۔ اس سے ناراضگی کی وجہ سے میں کھیلنے کے لیے گراونڈ میں بھی نہ گیا اور جب شام میں وہ میرے گھر کھلینے کے لیے مجھے لینے آیا تو میں نے اسے منع کر دیا اور اسے واپس بھیج دیا یاسر نے بہت منت سماجت کی لیکن میں نے اس کی کوئی بات نا مانی اور ناراض ہی رہا تھک کہ وہ بھی واپس چلا گیا۔ اگلے دن سکول میں بھی میں نے اس سے کوئی بات نہ کی اور بریک تک وہ مجھے منانے کی کوشش کرتا رہا لیکن میں نے اس سے بات نہ کی۔ جونہی بریک ہوئی میں باہر جانے لگا تو اس نے ایک دم میرا بازو پکڑ لیا اور مجھے کہا دیکھو عمیر ناراض مت ہو میں وہ سب تمہیں بتا دیتا ہوں لیکن مجھ سے ایک وعدہ کرو پہلے۔ میں نے جب یہ دیکھا کہ وہ مجھے بات بتانے کے لیے راضی ہے تو میرا دل نرم ہوتا گیا ۔ میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے بولو کیا وعدہ کرنا ہے،؟؟ اس نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔ میں نے یاسر کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ مجھے بے بس نظر آیا اور بولا دیکھ عمیر تم ضد کر رہے ہو اور ناراض ہو لیکن یہ بات جان کہ تم اور ناراض نہ ہونے کا وعدہ کرو تو بتا دوں گا لیکن یہ وعدہ کرو کہ یہ بات کسی کو نہیں بتاو گے اور مجھ سے ناراض بھی نہیں ہو گے۔ یہ وعدہ کرنے میں مجھے تو کوئی مشکل نہ تھی اس لیے میں نے اس کا ہاتھ تھامے اس سے وعدہ کر لیا ۔ سارے بچے کلاس سے نکل چکے تھے میں اور وہ کلاس میں کھڑے تھے۔ یاسر نے میرا ہاتھ چھوڑا اور کلاس روم سے باہر جھانک کہ اندر میری طرف مڑا اس کے چہرے پہ ہوائیں اڑ رہی تھی اور وہ بار بار اپنی زبان ہونٹوں پہ پھیر رہا تھا اور بولنے کی ہمت جمع کر رہا تھا اور میں اس کی طرف مشتاق نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی مجھے کرتب دکھانے والا ہو میرا بھی سسپنس عروج پہ تھا کہ جانے اب کیا بات مجھے پتہ چلے گی میں یاسر کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ بات کرنے کی ہمت جمع کر رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا بات ہے آخر بتاو تو سہی۔ یاسر نے بے بسی سے سر ہلایا اور ہاتھ ملتے ملتے بولا یار عمیر میں کیسے بتاوں تمہیں یہ بات؟؟ میں نے کہا جس طرح تم ان سے ہنس ہنس کہ بات کر رہے تھے اسی طرح بتا دو مجھے کیونکہ مجھے بھی بہت سسپنس ہو رہا تھا کہ جانے اب بات کیا ہے ۔ یاسر نے اسی طرح الجھے ہوئے لہجے میں کہا یار ناراض نہ ہونا لیکن وہ سلیم کہہ رہا تھا کہ اس کو ٹیچر شازیہ (امی) کے دودھ بہت اچھے لگتے ہیں اور جب وہ جھک کہ پڑھاتی ہیں یا کاپی چیک کرتی ہیں تو گلے سے اندر تک نظر آتے ہیں اور پھر ان کے موٹی بنڈ میں جب قمیض پھنستی ہے تو میری للی کھڑی ہو جاتی ہے یہ سب وہ کہہ رہا تھا یاسر نے یہ ساری بات جلدی جلدی ایک ہی سانس میں کی لیکن میرے کانوں میں جیسے سائیں سائیں ہونے لگا، یہ بات مجھے بہت ہی بری لگی اور میرا سارا وجود جھنجھنا اٹھا میں ایک جھٹکے سے آگے ہوا اور یاسر کا گلہ پکڑا اس سے پہلے کہ میں اسے مارتا اس نے میرے آگے ہاتھ جوڑے اور جلدی سے بولا دیکھ عمر تو نے وعدہ کیا تھا کہ ناراض نہیں ہوگا اور کسی کو نہیں بتائے گا۔ دیکھ تو مجھے مارے گا تو بات باہر نکل جائے گی۔ اس کی بات سن کہ میں نے ایک جھٹکے سے اسے پیچھے دھکیل دیا لیکن مجھے بہت غصہ آیا ہوا تھا میرا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو چکا تھا اور مجھے اپنے کان کی لووئیں جلتی محسوس ہو رہی تھیں ۔ میں نے خونخوار نظروں سے یاسر کی طرف دیکھا تو وہ پھر بولا یار وہ یہ بات کہہ رہا تھا میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں نے خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اب اتنی سمجھ مجھے بھی تھی کہ اس بات سے امی کی بدنامی ہو گی میں نے اس لیے اپنے آپ کو کنٹرول کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ یاسر میرے سامنے کھڑا تھا اور میں کرسی پہ بیٹھ چکا تھا میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا اور کیا بکواس اس کمینے نے کی؟ یاسر میرے پاس آیا اور بولا دیکھ عمیرخود کو کنٹرول کر میں تمہیں سب بتا دوں گا اور اس نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کہ مجھے تھپکی دی اور کہنے لگا دیکھ میں جانتا ہوں یہ بہت بری بات ہے لیکن ہم اس پہ کوئی ایکشن اس طرح نہیں لے سکتے
میں عمر کے اس دور سے گزر رہا تھا جہاں ابھی ابھی جنس کے فرق کا اندازہ ہونا شروع ہوا تھا مرد اور عورت کے جسمانی اعضا میں فرق ہے یہ علم تو بچپن سے ہی دیکھے گئے کئی مناظر نے بتا دیا تھا ۔ تو مجھے یاسر کی بات انتہائی بری لگی کیونکہ اتنا تو میں جانتا تھا کہ امی کے یا ان کے جسم کے بارے میں ایسا بولنا گندی بات ہے جس پہ مجھے غصہ بھی آیا تھا لیکن بچپنا بھی تھا تو اس لیے سوچ وعدے کا پاس رکھنے کی بھی تھی اور یہ بھی کہ اگر لڑائی کی جائے تو بات نکلے گی اور جب امی کو پتہ چلے گا تو کتنا برا لگے گا تو میں غصے کے باوجود چپ ہو گیا۔ یاسر نے مجھے کہا کہ چلو آو باہر چلتے ہیں میرا موڈ تو نا تھا مگر میں یاسر کے ساتھ کینٹین کی طرف چل پڑا۔ میں خود کو نارمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس میں کامیاب بھی رہا۔ کلاس روم سے کینٹین کے راستے کئی بچے ملے لیکن میں خاموش یاسر کے ساتھ چلتا ہوا کینٹین کی طرف چل پڑا۔ ہم نئے نئے جوان ہو رہے تھے تو کینٹین کی رش میں کئی بار ہم نے کلاس کی یا دیگر لڑکیوں کے کولہوں پہ ہاتھ لگانے کی شرارت کی ہوئی تھی اور ہم اسے ایک ایڈونچر کے طور پہ کرتے تھے لیکن کبھی کسی نے اس پہ منع یا شکایت اس لیے نہیں لگائئ تھی کہ وہ چھونا بس ہلکے سے چھونے تک تھا اور کئی بار تو شائد متاثرہ لڑکی نے لمحاتی لمس کے سوا اس پہ سوچا بھی نہ ہو ۔ خیر ہم کینٹین پہ پہنچے تو ہم نے چیزیں لیں اور میرے حصے کے پیسے بھی میرے بہت منع کرنے کے باوجود یاسر نے دئیے۔ ہم چیزیں لیکر باہر گراونڈ کی طرف آئے لیکن اس سے پہلے ہم کوئی بات کرتے تو بریک ختم ہو گئی۔ امی ہماری کلاس میں دو پیریڈز لیا کرتی تھیں اور وہ بہت ہنس مکھ اور نرم دل ٹیچر تھیں کلاس کے سبھی بچے ان سے بہت خوش تھے مجھے حیرت تھی کہ کوئی بچہ ان کے بارے میں غلط بات کیسے کر سکتا ہے؟ میں عمر کے اس دور میں تھا جہاں سسپنس اور سیکھنے کی لگن زیادہ ہوتی ہے تو یہی لگن مجھے بہت کچھ سکھاتی گئی اور میرا سب کچھ بدلتا گیا جیسے ہی ہم کینٹین سے اٹھنے لگے تو یاسر نے مجھے کہا کہ عمیر پلیز خود پہ قابو رکھنا اور ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے کوئی معاملہ بگڑ جائے ۔ میں نے نا سمجھتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا مطلب ہے ؟ تو اس نے کہا دیکھو اب تمہاری امی بھی کلاس لیں گی اور کلاس کے دوران کوئی لڑکا انہیں دیکھ رہا ہوا تو اسے نارمل لینا پہلے کی طرح جیسے تمہیں علم ہی نہیں ہے پلیز خود پہ کنٹرول کرنا۔ یاسر کی بات مجھے سمجھ آ گئی اور ہم کلاس کی طرف بڑھ گئے۔ اگلی کلاس اور ٹیچر کی تھی اس کے بعد پھر جب امی کلاس میں آئیں تو ہم سب نے کھڑے ہو کہ ان کو ویلکم کیا اور پہلی بار میں نے ان کی طرف ایک ٹیچر کی طرح دیکھا۔ اس سے پہلے تو وہ صرف امی ہی تھیں ان میں عورت کبھی دیکھی ہی نہ تھی نا کبھی ایسی سوچ بنی تھی۔ باقی ٹیچرز کو ہم بھی تاڑتے تھے اور آپس میں ہلکی پھلکی گپ بھی ہو جاتی تھی اور کسی نظارے کو دیکھ کہ اپنی للی کو تنہائی میں سہلا بھی لیتے تھے لیکن امی کے بارے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ایک پیاری سی آنٹی نما ٹیچر کمرے میں داخل ہوئی ہیں جن کا دوپٹہ ان کے گلے میں ہے ان کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ اور کشش ہے اور آنکھوں میں چمک ہے جیسے آنکھیں مسکرا رہی ہوں ۔ گورے گورے پھولے ہوئے شہد سے رنگ کے گال اور سرخ ہونٹ جو کہ اوپر نیچے ایک جتنے موٹے اور شاندار شیپ کے، کالے بالوں کی ایک لٹ ان کے چہرے پہ آئی ہوئی تھی جس کو وہ اپنے خوبصورت مخروطی ہاتھوں سے کان کے پیچھے کر رہی تھیں لیکن وہ کمبخت بار بار چہرہ چومنے کو آگے بھاگ آتی تھی ۔ لمبی سفید گردن اور گردن کے نیچے دو بڑے بڑے گول غبارہ نما ممے جن کی اٹھان ان کو نمایاں کر رہی تھی اور ان کی بلندی بتا رہی تھی کہ یہاں پہنچنا آسان نہیں ہے اور ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ نیچے سڈول سا پیٹ اور گول گول گدرائی ہوئی رانیں۔ میں انہماک سے انہیں دیکھ رہا تھا کہ یاسر نے مجھے ہلکا سا ہلایا تو میں شرمندہ سا ہو کر اس کی طرف مڑا۔ یاسر نے سرگوشی کی کہ پلیز نارمل رہو اس طرح ری ایکٹ کرو گے تو انہیں بھی شک ہو جائے گا۔ یاسر کی بات سنتے ہی میں بھی سیدھا ہوا اور پڑھائی کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ امی نے بھی ہمیں پڑھانا شروع کر دیا۔ میں اور یاسر اگلے بینچ پہ سائیڈ دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے اور پڑھاتے پڑھاتے امی جب بورڈ کی طرف مڑیں تو پیچھے کا نظارہ دیکھ کہ ایک لمحے کے لیے میرا بھی منہ کھل گیا ۔ امی نے ایک پاوں پہ وزن ڈالا ہوا تھا جس سے ان کا وزن کی سائیڈ والا گانڈ کا بھاری بھر کم حصہ نیچے تھے اور دوسرا حصہ اوپر تھا لکھتے لکھتے جیسے ہی انہوں نے وزن دوسری ٹانگ پہ منتقل کیا تو کولہوں نے اسی طرح اوپر نیچے ہو کر اپنی جگہ تبدیل کی ۔ لیکن جگہ تبدیل ہوتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے کے بجائے اور دور ہوئے اور اپنی درمیان وسیع اور عریض وادی کے روبے کو بھی نمایاں کیا۔ یہ منظر دیکھ کہ میں نے فورا سلیم اور یوسف کی طرف دیکھا تو ان کی نظر بھی امی پہ تھی اور پھر میں نے غیر محسوس انداز میں دیکھا تو کلاس کا ہر لڑکا اسی نظارے میں ڈوبا ہوا تھا البتہ لڑکیاں شائد یہ نہیں دیکھ رہی تھیں ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ امی اس وقت جو کچھ پڑھا رہی ہیں وہ کلاس کا کوئی بھی لڑکا نہیں سمجھ رہا اور اس کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں ہے ۔
انسانی ذہن بھی ایک مشین کی طرح ہے اس کو جو بات بری لگے وہی سب سے زیادہ سوچتا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ جو بات بری لگے اس کو نظر انداز کر دو لیکن بچپن میں سیکھنے کے مراحل میں یہ ہوتا ہے اور بہت لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے میں بھی ان چیزوں پہ زیادہ سوچا کرتی تھی )۔ کہانی کی طرف بڑھتے ہیں تو میری نظر امی کے جسم کا احاطہ کر رہی تھی یا میں نگاہوں سے ان کا ایکسرے کر رہا تھا بلکہ کلاس کے شائد سبھی لڑکے توجہ سے ان کو دیکھ رہے تھے اور وہ ہم سب سے بے نیاز پڑھانے میں لگی ہوئی تھیں ۔ کیونکہ میں نے پہلی بار ان کو ایک عورت سمجھ کہ دیکھا تھا اس سے پہلے تو وہ صرف امی تھیں جو شائد پلاسٹک کی یا پتھر کی مورت کی طرح مقدس تھیں جن کے بارے غلط سوچنا تک حرام تھا لیکن بات جاننے کی ضد مجھے یہاں تک لے آئی تھی کہ میں ان کو ایک عورت سمجھ کہ دیکھ رہا تھا اور مجھے اصلی شرمندگی تب ہوئی کہ جب میری ننی منی للی جو اس وقت شائد ان کی انگلی سے کچھ ہی بڑی ہوئی ہو گی جھٹکا کھا کہ کھڑی ہو گئی اور اس کا اکڑاو اپنے انڈر وئیر میں محسوس ہوا تو میں نے ہل کہ خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں میری نظر یاسر پہ پڑی جو کہ نارمل لگنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ نارمل نہیں تھا۔ میں نے پھر سلیم اور یوسف کی طرف دیکھا تو وہ سب سے بے خبر بس امی پہ فوکس کیے ہوئے تھے۔ میں ساری کلاس کا جائزہ لیتا گیا ہر لڑکا تقریبا یہی کر رہا تھا سوائے دو لڑکوں کے جو کسی دیہات سے آئے ہوئے تھے اور ابھی ہمارے ساتھ اتنے فری نہیں تھے۔ امی نے کیا پڑھایا کچھ علم نہیں تھا پھر وہ کاپیاں چیک کرنے ہر ڈیسک کے پاس آتی گئیں اور ہوم ورک چیک کرنے لگیں وہ ہمارے ڈیسک کے پاس پہنچی اور جھک کہ کاپی چیک کرنے لگیں تو میری نظر ان کے گلے میں اندر گئی اور پھر وہیں کی ہو کہ رہ گئی۔ سفید رنگ کے گول مٹول بڑے بڑے تھن جن میں ایک پہ تل تھا نیلے ہی رنگ کی برا میں تقریبا آدھے ننگے نظر آ رہے تھے وہ کاپی چیک کرتے ہوئے ڈیسک پہ جھکی ہوئی تھیں کہ یوسف نے ان سے پانی پینے کا پوچھا اور ان کے پیچھے سے گزرتا ہوا باہر نکل گیا ۔ جیسے ہی اس نے پانی کا پوچھا تو میں نے بھی ان سے نظر ہٹا لی تھی۔ میری اور یاسر کی کاپی چیک کر کہ وہ پچھلی لائن میں چلی گئیں یاسر نے مجھے سرگوشی کی ایک بات بتاوں؟ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے میرے کان کے قریب ہوتے ہوئے کہا یہ ٹیچر کو پیچھے سے چھو کہ گزرا ہے اور واپسی پہ بھی ایسا کرے گا ایک کلاس میں سلیم کرتا ہے دوسرے پیریڈ میں یوسف کرتا ہے ابھی دیکھنا۔ مجھے یاسر کی بات پہ زرا یقین نہ آیا کیونکہ میرا تو یہ ماننا تھا کہ ایسی کوئی حرکت ہوئی تو امی اسے تھپڑ ماریں گی لیکن مین چپ رہا اور دیکھنے لگا کہ کب وہ واپس آتا ہے ۔ ایک دو منٹ میں ہی وہ واپس آیا تو میں نے پیچھے مڑ کہ دیکھا کہ امی کھڑی تھیں جیسے ہی اس نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو امی اسے اجازت دیتے ہوئے جھک گئین اور کاپی چیک کرنے لگیں ان کے جھکنے سے ان کی موٹی گانڈ ابھر کر واضح ہو گئی اور یوسف جب ان کے پیچھے سے گزرا تو میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ہاتھ ایک سائیڈ پہ رکھا اور چلتے چلتے درمیان سے گزارتا ہوا پیچھے لے گیا ان کی موٹی گانڈ اس ٹکراو سے تھر تھرا اٹھی لیکن انہوں نے اس پہ کوئی ری ایکشن نہ دیا اور نہ ہی مڑ کہ یوسف کی طرف دیکھا۔ مجھے یہ بات بہت بری تو لگی لیکن اس سے بھی برا مجھے امی کا چپ رہنا لگا۔ میں نے یاسر کی طرف دیکھا تو وہ بھی اپنی للی ایڈجسٹ کر رہا تھا مجھے دیکھتے ہی بوکھلا کہ اس نے وہاں سے ہاتھ ہٹا لی امی نے کلاس لی اور اسکے بعد وہ کلاس سے نکل گئیں لیکن میری سوچ میرا دماغ بدل چکا تھا میری آنکھوں کے سامنے بار بار وہ امی کی گانڈ پہ ہاتھ لگنا اور اس کا تھرتھرانا اور ہلنا اور پھر امی کا کچھ نہ کہنا مجھے دکھائی دے رہا تھا مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پہ تھی کہ امی نے اس پہ کوئی ردعمل نہ دیا تھا اور وہ یوں چپ رہی کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس حرکت پہ تھپڑ تو مارنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے یوں نظر انداز کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اسی سوچنے کے درمیان ہماری چھٹی کا وقت ہو گیا اور ہم سکول سے نکلے تو گیٹ پہ امی بھی چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی تھیں میں بھی جا کہ کھڑا ہی ہوا تھا کہ وین آ گئی اور سب بچے وین کی طرف لپکے عام طور پہ میں بھی دوڑا کرتا تھا لیکن تب میرا دل کیا کہ آج امی کو پیچھے سے دیکھوں گا۔ سب بچے وین کی طرف دوڑے تو دو تین بچے امی سے ٹکرتے ہوئے وین کی طرف لپکے ان کی دیکھا دیکھی میں بھی دوڑا اور یہ کوشش کی کہ امی کے پیچھے سے ٹکرتا ہوا گزروں لیکن کیونکہ اناڑی پن تھا تو میں نے جو ہاتھ ان کی سائیڈ پہ لگانا تھا میرے اناڑی پن کی وجہ سے ان کے بھاری چوتڑوں کے بالکل درمیان میں زور سے لگا کیونکہ میں بھاگ رہا تھا تو یوں لگا جیسے کسی نے گانڈ پہ تھپڑ دے مارا ہو۔ میرا ہاتھ ان پہ لگتے ہی تھپ کی آواز آئی اور اسکے ساتھ ان کے منہ سے اوئی نکلا اور وہ بھڑک کہ پیچھے مڑی تو وہاں سے میں دوڑ کہ گزر رہا تھا اور میرے اوسان خطا ہو چکے تھے۔ امی نے پہلے تو خونخوار نظروں سے دیکھا لیکن مجھے دیکھ کہ وہ آگے پلٹ گئیں اور چھوٹی کو اٹھا کر وین میں رکھنے لگیں۔ جیسے ہی وہ چھوٹی کو اٹھانے کے لیے جھکیں تو پیچھے ایک دلکش نظارہ تھا جو بڑی بڑی گانڈ کی وسیع پہاڑیوں کو الگ الگ کرتے ہوئے دعوت دے رہا تھا میں پھر ان کے پیچھے سے لگتا ہوا گزرا اور وین میں سوار ہونے کی کوشش کی۔ اب کی بار انہوں نے کہا عمیر زرا صبر کرو دو منٹ مجھے چھوٹوں کو پہلے بٹھانے دو۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔۔ میں نے فورا آگے بڑھتے ہوئے پاوں واپس کھینچ لیے اور پیچھے ہٹ گیا مجھے پیچھے ہٹتا دیکھ کہ وہ بولیں بیٹھ بھی جاو اب لیکن میں فورا پیچھے ہو کر نیچے اترا اور پھر سے دیدار کرنے لگ گیا۔ دل کے کسی کونے میں ہلکی سی یہ آواز ابھری بھی کہ یہ غلط بات ہے لیکن وسوسے نے یہ سمجھا دیا کہ باقی کلاس فیلوز ہاتھ بھی پھیر جاتے ہیں میں تو صرف دیکھ ہی رہا ہوں ۔ امی نے سب کو گاڑی میں سوار کیا اور پھر میری طرف مڑیں اور مجھے گاڑی میں آنے کا اشارہ کر کہ سیڑھی پہ قدم رکھا میں نے سہارا لینے کے بہانے ہاتھ اوپر کیا اور ان کے ایک موٹے چوتڑ پہ لگا دیا انہوں نے دوسرا قدم اٹھایا اور گاڑی میں داخل ہو گئیں میں نے بھی وہاں دو تین بار ہھر ان کو چھو لیا ۔ اس طرح ہم گاڑی میں بیٹھے رہے میں بار بار ان کی طرف دیکھ رہا تھا جب تین چار بار ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے بھی میری طرف دیکھا جیسے ہی ہماری نگاہیں ملی ان کی نگاہ مجھے اندر تک اترتی محسوس ہوئی جیسے میرے دل سے ہر راز کی بات نکال رہی ہوں میں نے گھبرا کہ آنکھیں چرا لیں اور ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا ۔
امی کے دیکھنے سے میں بھی کنفیوز ہو گیا اور ان سے نظر چرا لی لیکن میرا دل کر رہا تھا میں پھر ان کی طرف دیکھوں میں بار بار نظر ان کی طرف کر کہ راستے سے واپس موڑ لیتا لیکن کب تک۔ آخر میں نے امی کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھیں میں نے جیسے ہی ادھر دیکھا تو انہوں نے دانتوں سے نیچے والا ہونٹ دبایا ہوا تھا اور ان کی آنکھوں میں مسکراہٹ تھی۔ ہماری نظرین چار ہوتے ہی انہوں نے میری طرف اشارہ کیا کہ کیا بات ہے؟ میں نے نظرین چرا کہ پھر سر جھکا لیا گاڑی میں اور بچے بھی تھے سب اپنی اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے میں نے پھر اپنی طرف سے نظر بچا کہ امی کو دیکھا اور پھر دیکھتا رہ گیا انہوں نے ایک ہاتھ اوپر کر کہ وین کی چھت سے لگے ڈنڈے کو پکڑا ہوا تھا جس سے ان کے مموں کی ایک سائیڈ سے چادر ہٹ چکی تھی ان کا ایک موٹا تازہ مما دوپٹے سے بالکل باہر تھا اور ان کے گلے کے درمیان گئری لائن بالکل واضح نظر آ رہی تھی ان کی گردن سے نیچے سفید رنگ میں عجب سی کشش اور جازبیت تھی۔ چلتے چلتے جیسے گاڑی ہلتی تو اسی ردھم میں ان کے ممے میں بھی ہلکی سی تھرتھراہٹ ہوتی۔ ایک بچے کے لیے اس منظر سے الگ ہونا ناممکن ہو چکا تھا ۔ مجھے یوں لگا جیسے میں باقی دنیا سے کٹ چکا ہوں اور دنیا میں امی کے اس ممے کے سوا کچھ بھی حقیقت نہیں ہے میں شاید ایک منٹ ہی یہ نظارہ دیکھ سکا کہ امی نے مجھے دیکھے بغیر اپنی چادر ٹھیک کرتے ہوئے ممے کو ڈھانپ لیا لیکن انہوں نے میری طرف نہ دیکھا ۔ مین بھی اپنی طرف سے خوش ہوا کہ ان کو میری اس گستاخی کا علم نہیں ہوا۔ ہم گھر کے قریب سٹاپ پہ پہنچے تو گاڑی سے اترنے لگے میرے آگے جونہی امی کھڑی ہوئین تو بیچاری قمیض ان کے بھاری بھرکم چوتڑوں کے انتہائی اندر تک گھسی ہوئی تھی جس کو انہوں نے کھینچ کر باہر نکالا اور گاڑی سے نیچے اتر گئی۔ ہم گھر میں داخل ہوئے اور میں اپنے کپڑے تبدیل کرنے اپنے کمرے کی طرف چل پڑا کپڑے تبدیل کرتے بھی میرے زہہن میں یہی سب چل رہا تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کیوں نا امی کو دیکھا جائے وہ بھی تو کپڑے بدل رہی ہوں گی میں نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے اور ان کے کمرے کی طرف بھاگا میں نے بہانہ سوچ رکھا تھا کہ ان کے کمرے کا دروازہ اگر بند ہوا تو کھول کر کہوں گا مجھے بھوک لگی ہے اور جو بھی نظارہ ہو گا دیکھ لوں گا میں بھاگتا ہوا ان کے کمرے تک پہنچا تو دیکھا دروازہ کھلا تھا میں بے دھڑک اندر داخل ہوا تو امی دوپٹہ بیڈ سے اٹھا رہی تھیں اور وہ کپڑے تبدیل کر چکی تھیں مجھے دیکھ کہ ان کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی مگر انہوں نے مجھے کچھ نہ کہا اور میری طرف بڑھتی آئیں میں دروازے پہ کھڑا اپنے پلان کے ناکام ہونےپر مجھے شدید غصہ آرہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ وہ میرے پاس پہنچی میرے گال سہلائے اور کہا چلو آو کچن میں چلتے ہیں کھانا کھا لو دوسرے سب تو لاونج میں بیٹھے ہیں ۔ میں نے سر ہلا دیا اور امی میرے آگے بڑھ گئیں میں ان کے پیچھے چلنے لگا اور پیچھے چلتے چلتے میں نے جب ان کی طرف دیکھا تو میری سانس جیسے گلے میں اٹک گئی ۔
ان کی قمیض اوپر کمر تک پھنسی ہوئی تھی مطلب ان کی قمیض کا دامن ان کے چوتڑوں سے اوپر تک تھا اور بھاری بھر کم چوتڑ پہ صرف شلوار تھی اور وہ میرے آگے چل رہی تھیں ان کے چلنے سے ان کے بھاری چوتڑ اچھل کود کر رہے تھے لیکن سفر ایک دم ختم ہو گیا لاوئنج میں پہنچتے ہی انہوں نے رک کہ میری طرف مڑ کہ دیکھا میں جو ان کی گانڈ کی گہری وادی کے نظارے میں گم تھا ایک دم۔ رک گیا جیسے ہی میں نے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ تھی ۔ میں اپنی جگہ پہ شرمندہ ہوا کہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہوں لیکن امی نے ومیض درست نا کی اور نہ ہی میں نے ان کو بتایا۔ چھوٹے بہن بھائیوں نے ٹی وی لگا لیا ہوا تھا اور وہ ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔ امی ایک آدھ منٹ ان کے پاس رکیں اور پھر کچن کی طرف بڑھ گئیں میں بھی ان کے پیچھے کچن کی طرف بڑھتا گیا۔ اور میری للی پہ اس نظارے کو دیکھتے دیکھتے اپنے ہونے کا احساس دلانے لگی بچپن سے جوانی کا یہ سفر بہت انوکھا بھی تھا اور شرم بھی آ رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے لیکن جو ہو رہا تھا وہ جسم کو اچھا لگ رہا تھا۔ کچن میں پہنچ کہ امی کھانا پکانے لگ گئیں اور میں نے ڈائننگ ٹیبل پہ برتن لگانے شروع کر دئیے۔ میں برتن لگاتے ساتھ امی کی طرف بھی دیکھ رہا تھا جنہوں نے اپنا دوپٹہ اتار کہ ایک کرسی پہ رکھ دیا تھا۔ برتن رکھ کہ میں ڈائننگ ٹیبل کے پاس کرسی پہ بیٹھ گیا اور ان کو کام کرتے دیکھنے لگ گیا کچن میں بالکل خاموشی تھی ۔ امی جب روٹی پکانے کے لیے اسے ہاتھوں پہ ادھر ادھر مارتیں تو ان کا سارا جسم تو ہلتا لیکن ان کی گانڈ بھی ایک اچھا منظر پیش کرتی میں اٹھ کر ان کے پاس چلا گیا اور ان کو روٹی پکاتے دیکھنے لگا۔ امی نے ایک کھلے گلے والی قمیض پہن رکھی تھی بلکہ وہ اسی طرح کا لباس پہنتی تھیں ہم نے ہی کبھی غور نہ کیا تھا ورنہ ان کی روٹین یہی تھی ۔ روٹی پکاتے ان کے مموں کی اچھل کود پہ نظر ڈالتے ہوئے میں نے دیکھا تو ان کے ماتھے پہ پسینہ آیا ہوا تھا لیکن چہرے پہ وہی ازلی مسکراہٹ تھی۔ میں نے کبھی امی کو غصے میں نہیں دیکھا تھا وہ ہمیشہ مسکراتی رہتی تھیں۔ میں نے ان کو کہا امی آپ کو تو بہت پسینہ آ گیا ہے امی میری بات سن کہ بولیں بیٹا چولہے کے پاس گرمی ہے نا تم پیچھے ہٹ جاو تمہیں بھی گرمی لگے گی مجھے تو کام کرنا ہے ۔ میں نے کہا امی جہاں آپ گرمی برداشت کر لو گی وہاں میں بھی کر لوں گا ۔ اب یہ ایک بچے کے دل کی آواز تھی جس میں ہوس یا کچھ اور شامل نہ تھا۔ میں یہ بات کہہ کر باہر آیا اور چھوٹا تولیہ لیکر امی کے پاس گیا اور کہا امی یہ لیں پسینہ صاف کر لیں۔ امی میری طرف دیکھ کہ بولیں ارے میرا پیارا بچہ میرے ہاتھ کے ساتھ تو آٹا لگا ہے میں کیسے صاف کروں گی اور ویسے بھی بس تھوڑی دیر ہے پھر صاف کر لوں گی۔ میں ان کی بات سن کہ ان کے قریب ہوا اور ان کا چہرہ صاف کرنے کی کوشش کی ۔ امی کا قد ٹھیک ٹھاک ہے وہ ایک بھاری بھرکم مطلب بھرے بھرے جسم کی ایک خوبصورت عورت ہیں تو میں نے ہاتھ اوپر کر کہ ان کا ماتھا اور چہرہ صاف کرنے کی کوشش کی تو وہ ہنستے ہوئے میرے آگےمیری طرف مڑ کہ جھک گئیں ۔ ان کے جھکنے سے میرا ہاتھ جو ان کے چہرے سے پسینہ صاف کرنے لگا تھا سامنے کا نظارہ دیکھ کہ ایک لمحے کے لیے رک سا گیا ان کے کھلے گلے سے نرم و ملائم اور بھاری چھاتیاں تقریبا پوری ننگی میرے سامنے آ گئیں اور اگر برا نا ہوتی تو وہ مجھے پوری ہی نظر آتیں ۔ مجں نے ان کے چہرے سے پسینہ صاف کرتے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں میں ان کا چہرہ صاف کرتے ہوئے پھر ان کے کشادہ گریبان میں اندر تک جھانکا جہاں میرے بچپن کی خوراک کے برتن آب وتاب سے چمک رہے تھے امی کی بند آنکھیں دیکھ کر میں اور شیر ہو گیا اور تولیہ ان کے منہ پہ پھیرتے پھیرتے اپنی نظریں ان کے گریبان میں فوکس کر لیں ان کے ممے برا میں قید تھے اور برا سے باہر بھی مموں کے درمیان ہلکا ہلکا پسینہ چمک رہا تھا۔ امی نے ایک گہری سانس لی اور پھر آنکھیں کھول کہ مسکراتے چہرے کے ساتھ مجھے دیکھا اور بولیں میرا شہزادہ پتر کتنا خیال کرتا ہے میرا اور آگے ہو کہ میرے گال پہ ایک پیار کیا ان کے نرم ہونٹ مجھے اپنے گال پہ لگے ہی تھے کہ مجھے اپنے کندھے پہ کوئی نرم نرم چیز لگتی محسوس ہوئی میں نے ایک دم ادھر نظر کی تو ان کے ممے مجھے ہلکا سا چھو کر واپس ہو رہے تھے۔ انہوں نے مجھے پیار کرنے کی کوشش کی تو اس دوران ان کے ممے مجھ سے ٹکرا گئے تھے۔ یہ ان کے لیے نارمل بات تھی اور وہ بات جاننے سے پہلے میرے لیے بھی یہ ایک عام روٹین تھی لیکن اب پانی پلوں کے نیچے کے بجائے اوپر سے گزر چکا تھا ۔ امی کے گول سڈول مموں کے دیدار نے میری ننی منی سی للی کو اکڑا دیا تھا جو اس وقت شائد تین انچ کی ہوئی ہو گی۔ بچپنا تھا بس ان کو دیکھنا چھونا ہی سب کچھ تھا یہ جانے بغیر کہ وہ میری پہلی حرکت سے پہلی نظر سے سب کچھ جانتی ہیں میں اپنی طرف سے بہت تیز بنا ہوا تھا لیکن بعد میں علم ہوا کہ وہ تو پہلی نظر سے ہی سب جان گئی تھیں۔ ماں کے اندر برداشت کرنے کی ایک بہت بڑی صلاحیت ہے اور اپنے بچے کے لیے ہر حد سے گزرنے کی گنجائش بھی۔ خیر پھر امی نے کھانا لگایا اور کھانے کے دوران بھی ان کی قمیض گانڈ سے ہٹی رہی ان کی بڑی سی گانڈ کو ایک شلوار ڈھانپنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی اور ممے بھی تقریبا آدھے ننگے تھے۔ یہاں یہ بات کہ یہ کھلے گلے وہ پہنتی رہتی تھیں لیکن پہلے کبھی میں نے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا۔کھانا کھانے کے بعد ہم سب لاونج میں لیٹ گئے اور امی کے مختلف نظارے دیکھتے دیکھتے جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا۔ میری جب آنکھ کھلی تو شام ہو رہی تھی میں نے ہوم ورک کیا اور پھر محلے کی طرف کھیلنے نکل گیا میرا دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ میں گھر ہی رہوں اور امی کو دیکھتا رہوں لیکن پھر ایک ہچکچاہٹ کی وجہ سے میں گھر سے باہر نکل گیا اور گراونڈ میں کھیلنے پہنچ گیا۔ گراونڈ میں جاتے ہی مجھے یاسر بھی مل گیا یاسر نے مجھے گراونڈ میں آتا دیکھا تو دوڑ کہ میرے پاس آیا اور مجھے ملنے لگا وہ بہت خوش ہو رہا تھا مجھے ملتے ہی اس نے کہا یار بہت شکریہ تم آ گئے مجھے بہت فکر ہو رہی تھی کہ تم ناراض نہ ہو جاو۔ میں اس سے مل کہ الگ ہوا اور اسے چھیڑنے کے انداز میں کہا چوتیا آدمی اگر میں تمہیں کہوں کہ تمہاری امی کے ممے پیارے ہیں تو تمہیں بھی لگ پتہ جائے گا۔ یاسر نے ادھر ادھر دیکھا اور میرے قریب ہوتے ہوئے کہا ابے گدھے اگر خوبصورت ہوں گے تو تمہارے کہنے سے خراب تو نہیں ہو جائیں گے اب اچھی چیز سب کو اچھی لگتی ہے یاسر نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک آنکھ میچ کر کہا۔
میں یاسر کی یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گیا یاسر نے مجھے حیران ہوتے دیکھا تو میرے قریب ہوا اور بولا یار عمیر سب کو ہی یہ فیلنگز آتی ہیں اب ٹیچر کو دیکھ کہ تمہاری للی بھی ہلتی ہے اسی طرح اپنی امی کو دیکھ کہ میری بھی ہلتی ہے اب کیا کریں کس کو بتائیں لیکن یہ حقیقت ہی ہے۔ میں ایک لمحے میں اس کی بات سمجھ گیا مگر انجان بنتے ہوئے کہا تم بکواس کرتے ہو مجھے ایسی کوئی فیلنگز نہین آتی ہیں تم ہی گندے بچے ہو۔ یاسر نے میری اس بات پہ ایک فرمائشی
قہقہہ لگایا اور میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔ جو نظارہ سب سے اچھا لگے گا رات کو وہ سوچ کہ ہاتھ سے للی کو ہلانا اور پھر دیکھنا سکون کیا ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا اس نے کہا چلو جی اب کھیلتے ہیں اور میں سب کچھ بھول کر کھیل میں مگن ہو گیا۔ کھیل ختم کر کہ مغرب کے قریب جب میں گھر کے لیے روانہ ہوا تو دروازے پہ ہی امی ہماری پڑوسن کلثوم آنٹی کے ساتھ کھڑی تھیں جن کا رنگ بہت کالا تھا میں نے ان کو سلام کیا اور اندر داخل ہو گیا امی گیٹ پہ کھڑی ان سے گپ لگا رہی تھیں ۔ میں اندر صحن میں جا کہ بیٹھ گیا اور امی کی طرف دیکھنے لگا ۔ میری نظر بار بار امی کے جسم کا طواف کر رہی تھی اور میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ سامنے کھڑی کلثوم آنٹی یہ سب نوٹ کر رہی ہیں ۔ ان کی گپ شپ جاری تھی اور میں نظارے میں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک امی نے مجھے آواز دی اور مجں نے چونک کہ ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے کئا آؤ آنٹی کو بازار سے سبزی لا دو۔ کلثوم آنٹی کوئی چالیس سال کے قریب عمر کی ایک کالی سی عورت تھیں جن کا جسم بھرا بھرا تھا مگر ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔امی نے کہا آو آنٹی کو سبزی لا کہ ان کے گھر دے کہ آو میں جلدی سے اٹھا ان سے پیسے لیے اور بازار کی طرف نکلنے لگا تو انہوں نے کہا کہ سبزی لے کر گھر آنا میں گھر ہی جا رہی ہوں۔ یہ ایک نارمل بات تھی جس پہ مجھے کوئی حیرانی یا الجھن نہ تھی میں بازار گیا وہاں سے سبزی لی اور کلثوم آنٹی کے گھر کی طرف روانہ ہو
کلثوم آنٹی کے گھر کیونکہ کھلم کھلا آنا جانا تھا تو میں سبزی لیکر ان کے گھر کی طرف چل پڑا اور دروازہ کھول کہ اندر داخل ہوا تو وہ سامنے صحن میں لگے نل کے آگے پاؤں کے بل بیٹھی برتن دھو رہی تھیں انہوں نے مڑ کر دیکھا تو مجھے آواز دی کہ دروازہ بند کر کہ سبزی کچن میں رکھ دو۔ میں نے اچٹتی سی نظر ان پہ ڈالی اور کچن کی طرف بڑھ گیا ابھی میں سبزی رکھ رہا تھا کہ انہوں نے آواز دی علی وہاں سے گندے برتن اٹھا کر لیتے آو میں نے کچن سے گندے برتن اٹھائے اور ان کو دینے چل دیا۔ جب میں ان کے آگے برتن رکھنے لگا تو ان کے منے آدھے سے بھی زیادہ ننگے تھے اور انہوں نے کوئی چادر نہیں لی ہوئی تھی۔ برتن رکھتے میری نظر ان پہ پڑی تو ان کے ممے بناوٹ میں مجھے انی کے مموں سے بھی اچھے لگے لیکن رنگ تھوڑا کالا ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی خاص کشش نہ محسوس ہوئی۔ اور میں ان کے سامنے برتن رکھ کہ پیچھے ہٹ گیا اور صحن میں پڑے تخت پوش پہ بیٹھ گیا کہ یہ برتن دھو کہ فارغ ہوں تو بقایا پیسے دیکر گھر کی طرف نکل جاوں۔ یوں بیٹھے بیٹھے میں نے نظر گھمائی تو کلثوم آنٹی پہ میری نظر پڑی جو قمیض کا دامن پیچھے سے خاصا اونچا کیے پاوں کے بل بیٹھی ہوئی تھیں جس سے ان کی کالی سی کمر بھی نمایاں ہو رہی تھی۔ میں نے ایک نظر ان کو دیکھا اور پھر نظر ہٹا لی کیونکہ کالے رنگ میں مجھے کوئی کشش محسوس نہ ہو رہی تھی۔ میں ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا تو مجھے محسوس ہوا کوئی میری طرف دیکھ رہا ہے میں نے جب دیکھا تو کلثوم آنٹی نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں کے نیچے دبایا ہوا تھا اور وہ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ مجھے ان کے دیکھنے کا انداز بہت عجیب سا لگا اور میں نے گھبرا کہ آنکھیں نیچے کر لیں مجھے محسوس ہوا کہ وہ چلتی ہوئی میری طرف آ رہی ہیں میں نے اپنی نگاہیں فرش پہ گڑا دیں اور نیچے دیکھنے لگ گیا وہ بھی چلتی ہوئی میرے پاس آئیں اور میرے سامنے کھڑی ہو گئیں مجھے فرش پہ ان کے پاوں نظر آئے لیکن میں نے ان کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔ کلثوم آنٹی میرے سامنے کھڑی تھیں اور ان کی سانسوں کی آواز مجھے واضح طور پہ سنائی دے رہی تھی۔
میں سر جھکائے بیٹھا تھا کہ مجھے کلثوم آنٹی اپنے پاس بیٹھتی ہوئی محسوس ہوئیں ان کے ایک بار دیکھنے سے ہی میں کچھ گھبرا سا گیا تھا ورنہ بچپن سے ان کے گھر آتا جاتا تھا اور ان سے بہت پیار بھی کرتا تھا جیسا کہ بچے محلے میں کئی آنٹیوں سے مانوس ہوتے ہیں۔ لیکن آج مجھے ان کا دیکھنا کچھ عجیب سا لگا تھا جس سے میں کچھ ڈر گیا تھا۔ وہ میرے پاس جڑ کہ میرے ساتھ بیٹھ گئیں ان کی سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے اپنے ہاتھ گود میں رکھے ہوئے تھے اور اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھیں ان کے سانولے چہرے پہ پسینہ آیا ہوا تھا اور سانس لینے سے ان کے موٹے ممے اوپر نیچے ہو رہے تھے ان کے گلے میں چادر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ ان کی نگاہیں بھی فرش پہ گڑی ہوئی تھیں اور ان کی ران میری ران سے جڑی ہوئی تھی ان کی جو ران مجھ سے جڑی تھی اس کی گرمی مجھے اپنی ران پہ محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے جیب سے پیسے نکالے اور ان کی طرف بڑھا دئیے اور کہا آنٹی یہ لیں باقی پیسے رکھ لیں یہ کہتے ہوئے میں زرا ڈرا ہوا بھی تھا۔ انہوں نے میری بات سنتے میری طرف دیکھا اور اپنے چہرے پہ جبری مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا کہ تم یہ پیسے رکھ لو اور میرا ایک کام کر دو۔ میں نے کہا بتائیں نا ایسا کیا کام ہے جس کے لیے میں آپ سے پیسے لوں گا آپ بتاو میں ابھی کام کر دیتا ہوں۔ ان کی اس بات سے میرا ڈر کم ہو گیا کہ آنٹی کوئی کام بتا رہی ہیں میں تو ایسے ہی ڈر رہا تھا۔ آنٹی نے میری طرف دیکھا اور کہا لیکن تم وعدہ کرو یہ بات کسی کو نہیں بتاو گے یہ بات کرتے ان کے سانولے چہرے کے تاثرات کچھ عجیب سے ہو گئے۔ میں نے کہا آنٹی آپ بے فکر ہو کہ بولو میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا کسی کو کچھ نہیں بتاوں گا آپ کام بتاو۔ آنٹی نے مجھے ایک بازو میرے سر کے پیچھے سے گزارتے ہوئے اپنے ساتھ لگا لیا اور کہا عمیردیکھو یہ بات کسی کو بھی نا بتانا جو میں تمہیں کہہ رہی ہوں ۔ میں آنٹی کے ساتھ لگ گیا اور ان سے کہا آپ بولو تو سہی میں کسی کو نہیں بتاوں گا ۔ آنٹی نے میرے چہرے کو پکڑ کر اوپر کیا اور میرے گال کو ہونٹوں میں لیکر ایک طویل بوسہ دیا جیسے وہ میرے گال کوچوس رہی ہوں۔ آنٹی کے اس بوسے سے میرے جسم میں جیسے چیونٹیاں رینگ گئیں اور مجھے ناف کے نچلے حصے میں عجیب سنساہٹ سی محسوس ہوئی جو آج تک کبھی محسوس نہ ہوئی تھی
مجھے کلثوم آنٹی کا یوں پیار کرنا بہت عجیب سا لگا وہ میرے گالوں کو ہونٹوں کے درمیاں دبا دبا کہ چوس رہی تھیں اور میرا جسم جیسے جھنجھنا سا اٹھا تھا مجھے اپنا وجود بہت ہلکا ہلکا اور عجیب سا محسوس ہو رہا تھا اور مجھے وہ بدستور چوسے جا رہی تھیں میں حیران اور پریشان بھی تھا اور جسم کو ملتے اس سرور کو اپنی رگ رگ میں اترتا محسوس بھی کر رہا تھا۔ کلثوم آنٹی میرے گال چوستے چوستے پیچھے ہٹیں تو میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جو بہت عجیب لگ رہا تھا ان کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اور وہ ایسے ہانپ رہی تھیں جیسے کہیں سے بھاگتی آئی ہوں اور یہ دیکھ کہ میں اور الجھ سا گیا تھا کہ ان کو کیا ہو رہا ہے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا کہ آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے آنٹی آپ کو کیا ہوا ہے؟ آنٹی کے چہرے پہ ایک عجیب سی مسکراہٹ آئی اور انہوں نے میرا چہرہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کہ اپنے موٹے ہونٹ میرے ہونٹوں پہ رکھ دئیے اور میرے ہونٹوں کو کھا جانے والے انداز میں چوسنے لگیں ان کے منہ سے ہلکی ہلکی ناگوار مہک مجھے محسوس ہو رہی تھی لیکن میرے ہونٹ ان کے ہونٹوں میں جھکڑے ہوئے تھے اور میں چاہتے ہوئے بھی ہونٹ نہ چھڑا سکا آنٹی نے میرے ہونٹ چوستے چوستے ایک لمحے کے لیے گہری سانس لی اور مجھے گھورتی ہوئی بولیں ابھی تو گھر اپنی ماں کی گول مٹول موٹی بنڈ کو گھور رہے تھے اب میرے سامنے معصوم بن رہے ہو یا صرف ابھی گھورنے پہ ہی گزارا کر رہے ہو۔ میں آنٹی کی یہ بات سن کہ بہت حیران ہوا بلکہ پریشان ہو گیا اور میرے چہرے پہ ہوائیں اڑنے لگیں۔ آنٹی نے مجھے پریشان ہوتے دیکھا تو ایک بار پھر میرے منہ پہ حملہ آور ہو گئیں اور مجھے دبوچ کہ چوسنے لگ گئیں۔ آنٹی نے میرے ہونٹ چوستے چوستے اپنا ایک ہاتھ میرے ہاتھ پہ رکھا اور میرا ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنے ایک ممے پہ لے گئیں اور دوسرے ہاتھ سے میری للی کو پکڑ لیا ۔ مجھے انوکھا لطف مل رہا تھا مگر ان کے منہ سے آتی ناگوار سی مہک سارا مزہ خراب کر رہی تھی۔ آنٹی نے اس طرح میرے ہونٹ چوستے چوستے میرے لن کو یا للی کو مسلنا شروع کر دیا اور ہاتھ سے اسے آگے پیچھے مسلنے لگی۔۔
کلثوم آنٹی مجھ پہ حاوی ہو چکی تھیں اور میں ایک انوکھے سرور میں ڈوب رہا تھا۔ ان کی امی والی بات نے مجھے بہت پریشان کر دیا تھا اور میں ان سے ہونٹ چسواتے یہ سوچ رہا تھا کہ میرے دل کی بات ان کو کیسے پتہ چل گئی اور میرے اندر یہ خوف بھی پیدا ہو گیا کہ کہیں یہ امی کو بتا ہی نہ دیں اس لیے چپ چاپ ان کے گلے لگا ان سے ہونٹ چسواتا رہا۔ کلثوم آنٹی نے ٹراوزر کے اوپر سے للی کو مسلتے مسلتے ایک ہاتھ ٹراوزر مین گھسایا اور میری للی کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ مجھے بہت انوکھا سا مزہ ملا جو مجھے کبھی نہیں ملا تھا کیونکہ یہ میرا پہلا باقاعدہ سیکس تجربہ تھا اس سے پہلے میں اتنا قریب کسی سے نہیں ہوا تھا اور اس میں بھی آنٹی کی عمر کیوجہ سے مجھے جھجھک تھی اور وہ جو کیے جا رہی تھیں میں ان کے آگے چپ تھا ان کا اس طرح ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ آنٹی نے میری سائیڈ سے اٹھتے ہوئے فرش پہ میری ٹانگوں کے درمیاں بیٹھتے ہوئے پھر میری للی کو پکڑ لیا اور مجھے للی سے پکڑ کر اوپر کھینچا جس سے میں تخت پوش سے زرا اوپر ہوا تو آنٹی نے میرا ٹراوزر کھینچ کر نیچے کر دیا اور خود گھٹنوں کے بل بیٹھی میری للی کا معائینہ کرنے لگی جو اکڑ کہ میری ناف کی طرف مڑی ہوئی تھی ۔ آنٹی نے مجھے تخت پوش پہ بٹھایا کہ میری ٹانگیں پہلے کی طرح نیچے لٹکی ہوئی تھیں اور میری کمر کے پیچھے انہوں نے تکیہ رکھ کہ مجھے اس سے ٹیک لگوا دی اور پھر میری ٹانگوں کے درمیاں بیٹھ کر میری للی کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کہ مٹھی بند کر لی میری ساری للی تقریبا ان کی مٹھی میں آ گئی اور صرف اوپر سے لکی کی ٹوپی زرا سی باہر رہی۔ آنٹی نے میری طرف دیکھتے ہوئے للی کو مٹھی میں آگے پیچھے مسلنا شروع کر دیا ان کی سانسیں اسی طرح تیز چل رہی تھیں اور وہ میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولیں ارے شہزادے اتنی چھوٹی سی للی ہے اور نظر تم نے اپنی ماں کی پھدی پہ رکھ لی ہے اس کے ساتھ دو لکیاں اور بھی باندھ لو تب بھی اس کو مطمئن نہیں کر سکو گے۔ اب میری بلا جانے یہ مطمئن کرنا کیا تھا سو میں چپ چاپ للی کو ملنے والا مزہ لیتا رہا اور ہنس کہ چپ رہا۔ آنٹی نے پھر میری آنکھ میں دیکھا اور کہا مجھ سے دوستی کر لو میں تمہاری بہت مدد کروں گی جو تم چاہتے ہو تمہیں سب مل جائے گا لیکن مجھ سے دوستی کرو گے تب۔ میں تمہیں ہر وہ چیز دوں گی جو تم چاہو گے لیکن شرط رازداری ہے ۔ آنٹی نے میری للی مسلتے ہوئے کہا اور پھر للی کی نوک کو سر جھکاتے ہوئے اپنے ہونٹوں کے درمیاں لگ لیا اور اسے ہونٹوں سے ہلکا سا دبایا تو وہ مزہ اتنا انوکھا تھا کہ میں تب کچھ بھی کرنے کا وعدہ کر سکتا تھا یہ تو عام باتیں تھیں۔ میرے منہ سے بے اختیار ایک سسکی نکلی اور میں نے کہا ٹھیک ہے آنٹی جو آپ کہو گی وہی ہو گا جیسے آپ کہو گی وہی کروں گا۔ آنٹی نے للی منہ سے نکالی اور کہا اگر یہ کرو گے تو فائدے بھی بہت ملیں گے نقصان کوئی نہیں ہو گا۔ اس چھوٹی سی للی سے تم کچھ نہیں کر سکتے ابھی اسے بڑا کرنا ہے۔ آنٹی نے یہ کہتے ہوئے للی کو پورا اپنے منہ میں بھر لیا اور منہ آگے پیچھے کرتے اسے چوسنے لگیں اور مجھے یوں لگا میں اس دنیا سے کہیں اور ہوا میں اڑ رہا ہوں ۔ آنٹی نگ میری ٹانگیں پھیلاتے ہوئے اوپر اٹھا لیں اور میری للی کو جاندار قسم کے چوپے لگاتی گئیں میں لطف کی ایک نئی منزل کی طرف گامزن تھا۔
دوستی کر رہے ہو نا؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا جی آنٹی مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں ہے ۔ مجھے آپ سے دوستی کرنا اچھا لگے گا۔ مجھے زندگی میں پہلی بار یہ مزہ مل رہا تھا تو بیشک آنٹی کا رنگ کالا تھا تو کیا فرق پڑتا ہے میں نے دل کو سمجھایا کہ جو مل رہا ہے اسے غنیمت سمجھو بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ میں نے ان کے اوپر ہوتے ان سے گلے ملنے کی کوشش کی کیونکہ وہ میری ٹانگوں کے درمیان نیچے فرش پہ تھیں میں ان کے کندھے پہ سر رکھا اور کہا آنٹی محلے میں مجھے ایک آپ ہی تو اچھی لگتی ہو مجھے آپ سے دوستی کر کہ بہت اچھا لگے گا۔ آنٹی نے بھی مجھے اپنے ساتھ لگا لیا اور میری کمر کو سہلاتے ہوئے کہا یوین کرو علی تمہیں اس سے فائدہ ہی ہو گا میں تیری ہر خواہش پوری کروں گی تمہیں تمہاری ماں تک بھی پہنچا دوں گی اگر تم چاہو تو محلے کی ہر لڑکی تمہیں لا کہ دوں گی اگر تم میرے ساتھ ٹھیک رہو تو۔ یہ باتیں سن کہ میں بہت خوش ہوا کہ آنٹی اتنا کچھ کر سکتی ہیں تو مجھے ان کی بات ماننے میں کیا حرج ہے ۔ میں نے ان کے گلے لگے لگے ہی کہا کہ کوئی بات نہیں آنٹی آپ فکر مت کرو آج سے ہم پکے دوست ہیں۔ آنٹی نے پھر مجھے خود سے الگ کرتے ہوئے میری للی کو ہاتھ میں پکڑا اور بولیں تم فارغ ہوتے ہو یا نہیں،؟ میں یہ بات نہیں جانتا تھا تو میں نے پوچھا کیا مطلب آنٹی؟ آنٹی کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ سی آ گئی اور بولیں اس سے کبھی سفید پانی نکلا ہے گاڑھا گاڑھا سا؟ میں نے نا میں سر ہلایا کہ مجھے ابھی نہیں پتا یہ بات ۔ آنٹی کے چہرے پہ ایک معنی خیز سی مسکراہٹ آ گئی اور انہوں نے ایک بار پھر میری للی کو اپنے منہ میں بھر لیا
آنٹی نے میری للی منہ میں لی اور اسے چوسنے لگیں ساتھ ایک ہاتھ نیچے کر کہ انہوں نے میرے چھوٹے چھوٹے ٹٹوں کو بھی سہلانا شروع کر دیا میں تو جیسے ہوا میں اڑ رہا تھا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا کچھ دیر ایسے چوسنے کے بعد جب انہوں نے میری للی کو منہ سے نکالا تو وہ ان کے تھوک سے لت پت ہو چکی تھی انہوں نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور میری للی کو ہاتھ میں پکڑ کر مسلنے لگیں میری منہ سے سسکیاں نکل رہی تھیں انہوں نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا بہت ماں چود ہو للی دیکھو چھوٹی سی اور نظر رکھی ہوئی ہے اپنی ہی ماں پہ اور پھر ہنسنے لگ گئیں اور۔ میری للی کو سہلاتے ہوئے ہاتھ میں پھر سے بولیں تمہارا قصور ہے بھی نہیں تمہاری امی پہ محلے کا ہر مرد عاشق ہے کمینی ہے بھی اتنی دلکش کہ جو دیکھتا ہے اسی کا ہو جاتا ہے تم تو ابھی بچے ہو یہاں تو بڑے بڑے اس کی اداوں پہ مرتے ہیں۔ کلثوم آنٹی کی یہ بات مجھے بری تو لگی لیکن ان کے ہاتھوں میں للی دئیے میں چپ ہی رہا کہ ایسا نا ہو میں کچھ بولوں تو اس مزے سے بھی جاوں۔ کلثوم آنٹی نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور لن کس سہلانے کی سپیڈ تیز کر دی اور بولیں اگر شازیہ کے گورے ہاتھوں میں تمہاری یہ للی ہو تو کیسا لگے گا جو میں کر رہی ہوں اگر وہ کرے تو ؟؟ ساتھ انہوں نے للی کو سہلانے کی سپیڈ بہت تیز کر دی۔ میرا جسم بہت عجیب ہو چکا تھا ان کی یہ بات سن کر مجھے جھٹکا سا لگا لیکن میں نے شرم سے سر جھکا لیا اور کوئی جواب نا دیا۔ کلثوم آنٹی نے میری للی کو اسی طرح مسلتے ہوئے کہا مجھے یقین ہے تمہیں سن کہ ہی مزہ آیا ہو بڑے ہی ماں چود ہو فکر نہ کرو بہت جلد میں اس کی پھدی تمہارے آگے رکھوں گی بس زرا اس للی کو لن بننے دو۔ یہ کہتے ہی انہوں نے ایک بار پھر میری للی کو منہ میں بھر لیا اور تین چار زوردار چوپے لگانے کے بعد مجھے وہیں تخت پوش پہ نیچے کر کے میرے پیچھے سے تکیہ ہٹا دیا کہ میری ٹانگیں تخت پوش سے نیچے لٹکی ہوئی تھیں ۔ وہ مجھے نیچے گراتی ہوئی پاوں سے جوتیاں نکالتے ہوئے میرے پیٹ سے نیچے اکڑوں بیٹھ گئیں اور اپنی شلوار ننگی کرتے ہوئے میری للی کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔ میں نے سر اٹھا کہ ان کی ٹانگوں کے درمیاں دیکھا تو موٹے موٹے دو کالے ہونٹوں کے درمیان ایک گول سا سوراخ بنا ہوا تھا اور کلثوم آنٹی کا کالا چہرہ پسینے سے شرابور ہو چکا تھا ان کی پھدی پہ کالے کالے بال بہت عجیب لگ رہے تھے میں نے یہ کچھ تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا جو کچھ ہونے جا رہا تھا آنٹی نے اپنے دانتوں سے اپنا نچلا ہونٹ دبایا اور میری للی کو پکڑ کر اپنی پھدی کے سوراخ پہ رکھا اور اس پہ بیٹھ گئیں مجھے یوں لگا جیسے کوئی بہت گیلی گیلی اور گرم جگہ میں میری للی جا چکی ہے میرے زہہن میں یہیں تھا کہ گندی نے پیشاب کر دیا ہے لیکن للی کے ارد گرد جو گرمی اور پھسلن تھی وہ اچھی لگ رہی تھی آنٹی نے میری طرف دیکھا اور پھر پھدی کو بھینچا جس سے میری للی ان
کی پھدی میں دب گئی اور وہ اپنا بھاری وجود مجھ پہ اچھالنے لگ گئی اور للی کو اندر باہر خود ہی کرنے لگ گئیں
مجھے بہت مزہ تو مل رہا تھا لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی یہ کیا ہو رہا ہے آنٹی میری للی کو اپنے اندر سموئے اس پہ اوپر نیچے ہو رہی تھیں جب وہ اوپر ہوتی تو میری للی سلپ ہو کہ باہر نکل آتی جسے وہ پھر ہاتھ نیچے کر کہ سوراخ پہ ایڈجسٹ کرتیں اور اوپر نیچے ہونے لگتی ۔ ان کے منہ سے بھی عجیب عجیب آوازیں نکل رہی تھی پھر انہوں نے میرے سائیڈ پہ پڑے ہاتھ پکڑے اور ان کو اٹھا کر اپنے مموں پہ رکھ لیا اور اسی طرح اچھلتی گئیں۔ ماں چود ان کو پکڑ نا حرامزادے ساتھ ان کے منہ سے گالیاں نکلیں جن پہ مجھے بالکل بھی مزہ نا آیا ادھر آنٹی بھی سمجھدار تھیں فورا سمجھ گئیں اور ایک ہاتھ سے میرے گال سہلاتے ہوئے بولیں میرا شہزادہ میرا منا میرا بچہ اب گالی نہیں دیتی میری جان ۔ اور ان کے اوپر اچھلنے کی رفتار بہت تیز ہو گئی ان کی موٹی گانڈ جب میری ران پہ لگتی تو تھپ تھپ کی آواز آتی اور للی جب ان کی گیلی پھدی میں جاتی تو پچک پچک کی آواز آتی ان کا صحن انہی آوازوں سے گونج رہا تھا مجھے اپنی للی پہ بہت گیلا گیلا محسوس ہو رہا تھا میں نے آنٹھ کے چہرے کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑی ہوئی تھیں اور وہ زور سے ہانپ رہی تھیں اور میرے اوپر ایک مشین کی طرح اچھل رہی تھیں میرا جسم تو ایک نئے ہی لطف سے روشناس ہو رہا تھا لیکن آنٹی کی حالت مجھے عجیب لگ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ان کی حالت پہ ان سے کچھ پوچھتا ان کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکلنے لگیں وہ مجھ پہ مشینی انداز پہ اچھلنے لگیں اور اپنے ہاتھ میرے سینے پہ دبا کہ سارا وزن مجھ پہ ڈال دیا ان کی پھدی نے میری للی کو بری طرح دبوچ لیا اور پھر مجھے للی کے ارد گرد پانی ہی پانی محسوس ہوا اور ان کی پھدی میری للی کے ارد گرد تنگ اور کھلی ہوتی گئی اور ان کی پھدی سے پانی رستہ ہوا میری رانوں کو بھگونے لگے ان کے منہ سے ایک زوردار آہ نکلی اور وہ اپنے بھاری بھرکم وجود سمیت مجھ پہ گرتی چلی گئیں ۔ مجھ پہ گرتے ہی انہوں نے میرے چہرے کو بے تحاشہ چومنا شروع کر دیا اور میرے گال ماتھے ناک آنکھوں سبھی جگہ پہ پیار کرنے لگیں ان کے چہرے پہ ایک اطمینان اور آسودگی کے تاثرات تھے جیسے انہیں ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو ۔
کیسا لگا ؟ آنٹی نے مجھے چومتے ہوئے مجھ سے پوچھا میری للی ابھی ان کی گیلی پھدی کے درمیان ہی تھی میرے کچھ بولنے سے پہلے وہ پھر مجھے چوستی چومتی گئیں اور میرے پورے چہرے پہ پیار کرتی گئیں ۔ میں نےکہا مجھے بہت اچھا لگا اور ان کے آگے چپ لیٹا رہا وہ اسی طرح مجھے چومتی ہوئی بولیں یہ مزہ تجھے شازیہ بھی نہیں دے سکتی وہ پورا محلہ اوپر چڑھا سکتی ہے مگر تیرا کوئی چانس بہیں ہے تجھے یہ مزہ مجھ سے ہی ملے گا اور پھر میرا چہرہ چومتے ہوئے بولیں ہاں اگر تم میرے ساتھ ٹھیک رہے تو میرا وعدہ ہے ایک دن تمہیں ضرور اس کی پھدی ملے گی ۔ تمہاری ماں کی گرم گرم پھدی تمہارے لن کو یوں دبوچے گی یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی پھدی کو میرے لن پہ کس لیا اور بولی اس طرح تمہارا لن چوسے گی تمہاری ماں کی پھدی اس میں لن ڈالو گے نا؟ یہ بات سن کر میرے چہرے پہ نا چاہتے ہوئے بھی شرم کے تاثرات آ گئے ۔ کلثوم آنٹی ایک تجربہ کار عورت تھی وہ سمجھ گئے اور مسکراتے ہوئے بولی میرا اندازہ ٹھیک ہی تھا یہ میرا منا اپنی ہی ماں کی پھدی پہ گرم تھا۔مجھے ان کی بات پہ شرم بھی آئی لیکن میں ابھی ان کے سامنے کھلنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ میرے اوپر سوار ہی تھیں وہ جھک کہ میرے چہرے کی طرف ہوئیں اور میرا چہرہ ہاتھ میں پکڑ کہ بولیں ابھی تک میرا یقین نہیں ہوا تمہیں ؟؟ ساتھ ہی انہوں نے جسم کے نچلے حصے کو حرکت دی اور پھدی سے لن کو دبا کہ بولیں یہ دیکھ تیری للی اب بھی میرے اندر ہے اور تو مجھ سے شرما رہا ہے دیکھ مجھے سب پتہ ہے بس تیرے منہ سے سننا چاہتی ہوں کہ تمہیں اپنی ماں اچھی لگتی ہے نا؟ انہوں نے یہ کہہ کر سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا۔ ان کی آواز تھوڑی سرگوشی میں بدل گئی اور وہ دھیرے سے بولیں اسی طرح اس کی بھی پھدی میں ڈالنا چاہتے ہو؟ میں نے ایک بار پھر ہاں میں سر ہلا دیا۔ کلثوم آنٹی یہ دیکھ کر مسکرائی اور ہاتھ آگے بڑھا کہ میرا ہاتھ پکڑا اور بولی یہ ایک دوست کا وعدہ ہے تمہیں اس کی پھدی ضرور ملے گی بس تم مجھ سے دھوکا نا کرنا کبھی ۔
میں نے کلثوم آنٹی کا ہاتھ تھام لیا انہوں نے میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھو تم صرف وہی کرو گے جو میں کہوں گی تو تمہیں اس کی پھدی ضرور ملے گی لیکن تم اس سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کرو گے۔ میں سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ انہوں نے پھر بات جاری کی عمیر تمہاری کامیابی تبھی ممکن ہے تم اسے یہ شک نہ ہونے دو کہ تمہیں اس کے جسم سے دلچسپی ہے اسے ایک فیصد بھی شک ہو گیا تو تمہاری منزل آسماں تک دور ہو جائے گی۔ تم ابھی چھوٹے ہو اور تمہاری یہ للی بھی ابھی اس جیسی عورت کو مطمئن نہیں کر سکے گی۔ وہ میرے للی اپنے اندر لیے مجھ پہ سوار مسلسل بولے جا رہی تھیں۔ اب تم یہ سوچو گے کہ آنٹی خود تو اوپر چڑھی ہے لیکن امی کا کہہ رہی ہے کہ مشکل ہے ایسا کام آسان نہیں تو میرے بچے ممکن ہے اور کسی کے لیے وہ مجھ سے بھی آسان ہو لیکن تم اس کے بیٹے ہو تمہیں ایک ترتیب سے اپنی جائے پیدائش تک پہنچنا ہو گا۔ اور تم میرے کہے پہ چلتے رہے تو ضرور پہنچو گے۔ میں مسلسل ان کی طرف دیکھ رہا تھا میں نے کہا جی جیسا آپ کہو گی ویسا ہی کروں گا آپ کو کبھی کوئی شکایت نہ ہو گی۔ ان کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور وہ مجھے اسی طرح دیکھتے ہوئے بولیں بچے غلطی کرو گے تو ماں کی پھدی سے دور ہوتے جاو گے نقصان تمہارا ہی ہے اس کے ساتھ وہ اوپر ہوئیں اور تخٹ پوش کی چادر کو ایک کونے سے پکڑ کہ کھینچا اور میری للی کو پھدی سے نکال کہ چادر سے اپنی پھدی صاف کرنے لگیں اپنی پھدی صاف کرنے کے بعد انہوں نے پھر میری للی کو پکڑ کہ پھدی کے سوراخ پہ رکھ کہ اندر لے لیا اور ایک آہ بھرتی ہوئی میری للی پہ بیٹھ گئیں اور بولیں ۔ اس ہفتے کو لوہاروں کے شادی ہے ( ہمارے محلے دار) رات کو مہندی پہ جب تم آو گے تو دس کے بعد گیارہ بجے کے قریب تم عورتوں والی سائیڈ گھس آنا اور گیارہ بچے سے پہلے تم ہمارے قریب رہنا گیارہ بجے جیسے ہی بجلی جائے گی تو ہم تمہاری ماں کا ایک ٹیسٹ لیں گے کہ وہ کتنے پانی میں ہے یہ کہتے ہوئے انہوں نے پھدی کو میری للی پہ اوپر نیچے کرنا شروع کر دیا۔ مجھے ایک انوکھا سا مزہ مل رہا تھا جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا میرے منہ سے بھی ان کے ساتھ سسکیاں نکلنے لگیں اور میں نے پوچھا کیسا ٹیسٹ آنٹی؟ آنٹی نے میری للی پہ اچھلتے ہوئے کہا دیکھنا ہے کہ تمہاری ماں ایک شریف عورت ہے یا کہ ٹھرکی ہے اس کی شرافت چیک کرنی ہے زرا۔ اور میری للی پہ وہ تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگیں اور دونوں ہاتھ میرے سینے پہ رکھ دئیے اور اپنے بھاری چوتر۔ اٹھا کہ میری للی پہ مارنے لگیں۔ ان کے چہرے پہ شدید مزے کے تاثرات تھے ۔ مجھے بھی بہت مزہ آ رہا تھا لیکن زہہن امی کی طرف ہی تھا کہ جانے اب آنٹی اور کیا بات کریں گی اور دل یہی کر رہا تھا کہ آنٹی امی کی ہی باتیں کرتی جائیں۔ میں نے کہا یہ کیسے پتہ چلے گا کہ وہ شریف ہیں یا نہیں،؟ میرے منہ سے ساتھ سسکیاں بھی نکل رہی تھیں آنٹی نے اسی طرح میری للی پہ اچھلتے ہوئے کہا یہ وہیں بتاوں گی کہ کیسے چیک کرنا ہے بس تم وقت پہ پہنچنا اور ہاں ابھی گھر جا کہ اس کے جسم کو بالکل مت تاڑنا اسے شک نہ ہونے دینا بالکل نارمل ہو جاو جیسے تمہیں اس کے جسم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو آنٹی اسی طرح میرے لن پہ اچھلتی کودتی بولیں عمیر بیٹا عورت کو جب شک ہو جائے کہ مرد اس سے ہوس پوری کرنا چاہتا ہے تو اس مرد سے میلوں دور بھاگ جاتی ہے لیکن جب مرد اسے یہ یقین دلا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے تو عورت خود بھی لن پہ چڑھ کہ بیٹھ جاتی ہے اور تم نے اسے یہ یقین دینا ہے اس کے لیے مدد مں کروں گی ساتھ تیری اس للی کو لن بھی بناؤں گی۔ آنٹی کی سانسیں اور حرکتیں تیز ہوتی گئیں اور پھر وہ اوپر سے میرے اوپر گرتی ہوئی مجھے بے تحاشہ چومنے لگیں اور پھدی کو دو تین بار زور سے میری للی پہ مارتے ہوئے اسے بھینچنے لگیں اور ایک بار پھر ان کا پانی میری للی اور رانوں کو بھگونے لگا
آنٹی ایک بار پھر فارغ ہو چکی تھیں انہوں نے میرا چہرہ چومنے اور چوسنے کے بعد ایک آسودہ سی نظر سے میری طرف دیکھا اور بولیں اب گھر جاو بہت دیر ہو گئی ہے لیکن یہ بات یاد رکھو کہ اس کا جسم نہیں گھورو گے تم اسے پیچھے سے بھی دیکھو گے تو اسے پتہ چل جائے گا یہ عورت میں صلاحیت ہوتی ہے وہ مرد کی نظر پہچان سکتی ہے۔ میں نے کہا آنٹی ایک بات پوچھوں؟ آنٹی میرے اوپر سے اٹھیں اور پہلے کی طرح چادر سے اپنی پھدی کو صاف کرتے ہوئے میری للی سے نیچے اتریں جو ان کی پھدی سے نکل کہ میرے پیٹ پہ اسی طرح اکڑی ہوئی پڑی تھی۔ آنٹی نے اسی چادر سے میری للی اور رانوں سے پانی کو صاف کیا اور بولیں ہاں پوچھو کیا بات ہے کیا پوچھنا ہے؟ اس کے ساتھ ہی وہ اپنی شلوار اوپر کر کہ کھڑی ہو گئیں۔ میں بھی اوپر اٹھا اور اپنا ٹراوزر اوپر کیا اور کہا آنٹی اگر کوئی آپ کی گانڈ پہ ہاتھ پھیرے اور آپ چپ رہو تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ آنٹی کے چہرے پہ ایک معنی خیز مسکراہٹ آ گئی اور بولیں لمبی بات ہے تفصیل کا وقت نہیں ہے ہاتھ پھیرنے والے کی عمر جگہ موڈ اور حالات سے جواب دیا جاتا ہے کہیں خاموش رہا جاتا ہے لیکن سب حالات پہ منحصر ہے تم کل آنا پھر یہ بات بتاوں گی اب تم جاو کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔ میں بھی آنٹی کی بات سمجھ گیا اور اٹھ کھڑا ہوا آنٹی نے مجھے کھڑا ہوتے دیکھا تو بازو کھول کہ اپنے ساتھ لگا لیا میں نے بھی اپنے بازو ان کی بھاری گانڈ پہ رکھتے ہوئے دبا دئیے اور منہ ان کے مموں کے درمیان گھسا دیا۔ آنٹی نے ایک زوردار انگڑائی لیتے ہوئے میرے جسم کو اپنے ساتھ دبایا اور پھر ہنستے ہوئے مجھے چھوڑ دیا اور میں نے آگے ہو کہ ان کے ایک ممے کو ہلکا سا دبایا اور پھر باہر کی طرف بھاگ گیا ان کے قہقہے کی آواز مجھے ان کے دروازے تک آتی رہی ۔
میں آنٹی کے گھر سے نکلا اور گھر آ گیا لیکن زندگی بدل چکی تھی مجھے آنٹی کی باتیں ساری یاد تھیں اور مجھے اں باتوں پہ چلنا تھا۔ سب سے مشکل بات امی کو نہ دیکھنا تھا جو مجھے بہت مشکل لگ رہا تھا لیکن جو مزہ مجھے آنٹی نے دیا تھا اور جس مزے کی پیشن گوہی کی تھی وہ میری سوچ سے بڑھ کہ تھا میری زندگی میں یہ کسی بھی عورت کی طرف کا پہلا قدم تھا میری نظر امی پہ پڑتی لیکن اگلے ہی لمحے مجھے کلثوم آنٹی کی بات یاد آ جاتی اور میں نظریں چرا لیتا۔ شادی تک کے دنوں میں بہت بار ایسا ہوا سکول اور گھر بھی جب بھی نظرین امی کی طرف جاتیں میں خود کو کنٹرول کر لیتا ۔ پھر شادی کا دن آ پہنچا جس دن شادی تھی تو میں باہر کھیلنے کے بعد گلی سے واپس آ رہا تھا کہ مجھے کلثوم آنٹی اپنے دروازے میں کھڑی نظر آئیں میں ان کے پاس پہنچا اور انہیں سلام کیا تو وہ سلام کا جواب دیتی ہوئی دروازے سے پیچھے ہٹ گئیں اور مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ میں بے دھڑک ان کے گھر داخل ہو گیا۔ ان سے سیکس کے بعد یہ ہماری پہلی ملاقات تھی مین ان سے ملنے پھر نہیں آیا تھا اور نا ہی ان سے سامنا ہوا تھا میں ان کے گھر داخل ہوا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی انہوں نے آگے بڑھ کہ دروازہ بند کیا تو میں نے ان کی کمر پہ ہلکا سا ہاتھ پھیرا ۔ وہ چونک کہ پیچھے مڑیں اور بولیں وقت کم ہے تو جیسے سمجھایا تھا ویسے ہی کرنا میں نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولیں گیارہ سے پہلے اس کو میں سٹیج پہ دولہن کے پیچھے لے آوں گی اور تم بھی سٹیج پہ آنا اور ہمارے پیچھے کھڑے ہو جانا میں وہاں اس کی گانڈ پہ ہاتھ پھیروں گی تو وہ مڑ کر دیکھے گی تو میں ہوں گی تم تب اس کی طرف نا دیکھنا میں بار بار اس کے ساتھ یہی کروں گی اور پھر جب گیارہ بجے بجلی جائے گی تو جنریٹر آن ہونے تک تم اس پہ ہاتھ پھیر لینا اس کو محسوس تو ہو جائے گا کہ یہ میرا ہاتھ نہیں لیکن اس کے ری ایکشن سے مجھے ضرور پتہ چل جائے گا وہ کس طرح کی عورت ہے پھر اگلی بات طے کریں گے۔ میں ان کی بات سن اور سمجھ رہا تھا میں نےان کی بات میں کوئی مداخلت نا کی وہ جب بولتے بولتے چپ ہوئیں تو میں ان کی طرف دیکھنے لگ گیا اور پوچھا مجھے کتنا چھونا ہے؟ آنٹی کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور بولیں تم ہلکے سے اس کے گانڈ کے درمیان ہاتھ مارنا اگر چپ رہی تو پھر زرا زور سے دبانا میں نے کہا کیا مطلب آنٹی؟ میں سمجھا نہیں ۔ تو آنٹی نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ماتھے پہ مارا اور بولی ارے میرے انجان ماہیا تجھے تو سب کچھ سکھانا پڑے گا اور مسکراتے ہوئے مجھے پکڑ کر گلے سے لگایا اور میرا ایک ہاتھ پکڑ کہ اپنے بھاری چوتڑون پہ رکھا اور بولی کہ پہلے بار ایسے ٹچ کرنا ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کہ اپنی بھاری گانڈ کے درمیان ہلکا سا پھیرا اور پھر بولیں اگر تمہاری مما جانی چپ رہی نا ہلی تو پھر یوں کرناساتھ ہی میرا ہاتھ اپنی گانڈ کی دراڑ میں اچھے سے پھیرا اور مسکرا کہ مجھے دیکھتے ہوئے بولیں سمجھ گئے منے؟؟ میں نے مسکرا کہ اثبات میں سر ہلا دیا ان کی اس حرکت سے میری للی جھٹکا کھا کہ کھڑی ہو گئی تھی۔ آنٹی نے اس کو فورا محسوس کر لیا اور ایک ران میری للی سے رگڑ کہ بولیں اگر تیری امی اس پہ بھی چپ رہی تو اگلی بار ایسے کرنا اور میرا ہاتھ انگلیوں سے پکڑ کر اپنی گانڈ کے سوراخ پہ رگڑنے لگ گئیں اور پھر بولیں اگر تیری امی صوفے پہ جھک گئی جس کے چانس تو بہت ہی کم ہیں پھر تم اس کی یہ جگہ مسلنے لگ جانا اور میرا ہاتھ پیچھے سے نیچے کر انہوں نے اپنی پھدی پہ رکھا لیکن ان کے بھاری وجود کی وجہ سے میرا ہاتھ ان کی پھدی پہ نہیں پہنچ رہا تھا۔ وہ تھوڑا آگے ہوئیں اور مجھے چھوڑتے ہی صحن میں پڑی چارپائی پہ جھکتے ہوئے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا میں جب ان کے پیچھے پہنچا تو انہوں نے کہا کہ وہ اگر جھکی تو ایسے جھکے گی تو تم اس کی ٹانگوں کے درمیان پھدی مسلتے رہنا لیکن عین ممکن ہے وہ تمہیں دیکھے اور اس کے چہرے پہ غصہ ہوا تو دیکھتے ہی بھاگ جانا۔ امی کے چہرے پہ غصہ بھی ہو گا یہ بات سنتے ہی میری ہوا نکل گئی اور میں نے ڈرتے ہوئے آنٹی سے کہا آنٹی وہ مجھے بہت ماریں گی اگر انہوں نے دیکھ لیا تو۔ آنٹی سیدھی ہوئیں اور سنجیدہ ہوتے ہوئے بولیں دیکھو مین اس لیے اسے پہلے سٹیج پہ لیکر جاوں گی اور اسے خود چھو کہ عادی کروں گی کہ اس کو یہی لگے کہ میں کر رہی ہوں لیکن اس بات کا بھی چانس ہے کہ وہ تمہارے اور میرے ہاتھ کا فرق پہچان لے اور ہل جائےتو وہ پہلے یا دوسری بار چھونے پہ تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ اندھیرے میں بھی اس کا ری ایکشن کیا ہے اور سخت ری ایکشن دیکھتے ہی تم بھاگ جانا میں سنبھال لوں گی اور یہ کہتے ہوئے آنٹی نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور کہا ڈرو نہیں بالکل بھی میں ہوں نا میرے ہوتے تمہیں کچھ نہیں ہو گا اور میرا سر سہلانے لگیں۔
آنٹی نے میرا سر سہلاتے ہوئے کہا اب تم جاو اور جیسا کہا ہے ویسا ہی کرنا اس سے ہٹ کہ کچھ نہ کرنا میں نے آنٹی کی طرف دیکھا اور ہاتھ اوپر کر کہ ان کے دونوں ممے پکڑنے کی ناکام کوشش کی آنٹی میری اس کوشش پہ ہنس پڑیں اور بولیں بدمعاش اتنے دن آیا نہیں اور جب وقت نہیں ہے تو اب کھینچنے لگا ہے اتنے دن کیوں نہیں آیا ماں چود ۔ میں شرمندہ سا ہو کہ ہنس پڑا کیونکہ مجھے آنٹی کی طرف آنے میں ایک جھجھک تھی اور اگر وہ نا بلاتیں تو شائد میں آج بھی ان کی طرف نا آتا۔ وہ خود ہی بولیں اچھا اب جاو دیر ہو رہی ہے رات شادی پہ ملتے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا آنٹی بس خیال رکھنا مجھے مار نا پڑے ایسا نا ہو مجھے امی ماریں تو وہ ہنس پڑیں اور بولیں اس عورت کے حسن کے لیے لوگ کیا کیا کر جائیں اور تم مار سے ڈرتے ہو اور ڈرنے والے کو کچھ نہیں ملتا اور ہنسنے لگیں۔ پھر بولیں کچھ نہیں ہو گا ابھی تو یہ پہلا ٹیسٹ ہے اس پہ دیکھ کہ آگے عمل کریں گے اور میرے گال اپنے ہاتھ میں لیکر کھینچنے لگیں ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے جیسا آپ کہتی ہو وہی ہوگا میں ویسا ہی کروں گا۔ وہ بولیں تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے تم بھی یاد کرو گے مجھے کہ کس سے دوستی کی تھی اور پھر بولیں اب جاو گھر جلدی سے مجھے بھی دیر ہو رہی ہے میں پھر ان سے مل کہ گھر کی طرف نکل پڑا۔ گھر پہنچا تو امی نے کھانا وغیرہ تیار کیا ہوا تھا مجھے گھر آتے دیکھ کہ انہوں نے کہا کہ جلدی آو کھانا کھا لو پھر ہم نے شادی پہ بھی جانا ہے میں ان کی آواز سن کہ کچن کی طرف بڑھ گیا اور امی نے مجھے کھانا دیا اور میں کھانا کھانے لگا امی مجھے کھانا دے کر کچن سے باہر نکل گئیں ۔ کھانا کھانے کے بعد میں نے برتن واش بیسن میں رکھے اور باہر نکلا تو دیکھا امی لاونج میں نہ تھیں تو میں ان کے کمرے کی طرف چل پڑا کہ اپنے کپڑون کا ان سے پوچھ لوں کہ کون سے پہنوں ۔ میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو ایک لمحے کے لیے مجھے سکتہ ہو گیا امی نے ہلکے گلابی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور ان کے بال کھلے ان کی کمر تک تھےاور وہ شیشے کے آگے جھکی میک اپ کر رہی تھیں ۔ دروازہ کھلنے سے انہوں نے شیشے میں ہی مجھے آتے دیکھا اور پھر میک اپ میں مشغول ہو گئیں ۔ میں نے شیشے میں انہیں دیکھا تو ان کے کھلے گلے کی وجہ سے ان کے ممے آدھ ننگے شیشے میں سامنے نظر آ رہے تھے اور میں ان کے پاس کھڑا تھا ان کے جسم سے ہلکی ہلکی مہک نکل رہی تھی۔ انہوں نے اسی طرح برش چہرے پہ چلاتے ہوئے پوچھا ہاں کیا مسئلہ ہے ؟ میں نے شیشے میں انہیں دیکھا اور پھر نظر جھکا کہ کہا وہ میرے کپڑے کون سے ہیں میں کون سے کپڑے پہنوں تو امی نے ایک ادا سے سر کو جھٹکا جس سے ان کے بال ایک سائیڈ پہ ہوئے اور کندھے کے دوسری طرف سے اپنا تھا کرتے ہوئے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں بالوں کو پکڑا اور سیدھی کھڑی ہوئیں تو ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ ابھی امی کی قمیض پھٹ جائے گی اور یہ ممے اچھل کر باہر آ جائیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ امی نے مجھے یوں تاڑتے دیکھا تو اسی انداز میں بولیں مجھے ہی دیکھتے رہو گے یا اب جا کہ تیار بھی ہو گے؟ میں نے ان کی طرف ایک ستائش بھری نظر ڈالی اور کہا امی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں ماشااللہ کہیں نظر ہی نا لگ جائے۔ میرے انداز میں اتنی بے ساختگی تھی کہ امی بھی ہنس پڑین اور مڑ کہ خود کو شیشے میں دیکھنے لگ گئین اور میں نے کہا دیکھ لیں آپ کتنی پیاری لگ رہی ہیں آج، انہوں نے ماتھے پہ ہلکی سی سلوٹ ڈال کر کہا کیا مطلب آج پیاری لگ رہی ہوں کیا میں روز پیاری نہیں ہوتی؟؟ میں نے جلدی سے کہا ارے نہیں آپ تو روز ہی پیاری لگتی ہو آج بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو میں نے اس لیے جلدی جلدی کہا کہ وہ ناراض نا ہو جائیں لیکن اس بات کو وہ پکڑ کر بولیں تو اچھا جناب مجھے روز پھر اسی طرح دیکھتے ہیں کہ میں پیاری لگ رہی ہوں یا نہین اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ کے گرد رکھ لیے مطلب اپنی سائیڈوں پہ جیسے بندہ لڑائی کے لیے تیار ہو رہا ہو
میں امی کی بات سن کر بوکھلا گیا کیونکہ آنٹی کلثوم نے کہا تھا کہ امی کو شک نہ ہونے دینا کہ تم اس کو دیکھتے ہو جب کہ یہاں معاملہ ہاتھ سے نکل گیا تھا میں نے امی کی طرف دیکھا تو مجھے اور تو کچھ نا سوجھا میں نے سر کھجاتے ہوئے کہا وہ آپ اتنی پیاری لگ رہی ہوتی ہو کہ بس خود ہی پیاری لگ جاتی ہو میں جان کہ تو نہیں دیکھتا۔ امی نے سنجیدہ ہونے کی کوشش کی لیکن ان کے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا اور وہ ہنستے ہوئے دوہری ہوتی گئیں ان کے اس طرح جھکنے سے ان کے گول مٹول ممے آدھے سے زیادہ ان کے گلے سے جھانکنے لگے اور میں سب کچھ بھول کر ان کے موٹے رسیلے ممے دیکھنے لگ گیا وہ اسی طرح ہنستے ہنستے اوپر ہوئیں اور میری آنکھوں میں دیکھا اور بولیں ارے میرا منا تو جوان ہو گیا ہے اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ میں شرمندہ ہو گیا اور میں نے آنکھیں جھکا لین وہ اسی طرح مسکراتے چہرے سے بولیں چلو جاو اور سٹور سے کپڑے پہنو پھر ہم چلتے ہیں ۔ میں نے ایک نظر امی کی طرف دیکھا اور ان کے بھرپور سراپے سے اپنی نظر سینکتا ہوا واپس باہر کی طرف مڑ گیا اور سٹور کیطرف چل پڑا۔ سٹور سے کپڑے تبدیل کر کہ میں باہر نکلا تو ابو بھی لاوئنج میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے میں نے ان کو سلام کیا اور ان کے پاس ہی بیٹھ گیا اتنے میں امی کمرے سے نکلیں تو اب انہوں نے گلے میں دوپٹہ ڈالا ہوا تھا لیکن اس سے انہوں نے کچھ بھی چھپایا ہوا نہیں تھا۔ ابو نے امی کی طرف دیکھا اور بولے بیگم اطمینان سے آ جانا میں بچوں کو دیکھ لوں گا اور علی کا دھیان رکھنا۔ امی نے تشکر بھری نظروں سے ان کو دیکھا اور کہا چلیں یہ تو اچھا ہے اب میں اطمینان سے شادی میں شرکت کر لوں گی ویسے بھی بچے سو جائیں گے ۔ ابو نے کہا بیگم تم ان کی فکر مت کرو میں گھر ہوں بس علی کا دھیان رکھنا اور پھر مجھ سے بھی مخاطب ہوتے ہوئے بولے بیٹا باہر آوارہ مت پھرنا اور ماں کے پاس ہی رہنا اور اکھٹے گھر آنا ماں کے ساتھ اور ایسا نا ہو کہ آوارہ گردی کرتے رہو۔ میں نے سعادت مندی سے سر ہلا دیا اور کہا ٹھیک ہے ابو ایسا ہی ہو گا۔ ابھی ہم بات کر ہی رہے تھے کہ باہر گھنٹی بجنے کی آواز آئی تو میں اٹھ کر باہر کی طرف گیا اور دروازہ کھولا تو سامنے کلثوم آنٹی کھڑی تھیں ۔ میں نے ان کو سلام کیا اور اندر آنے کا راستہ دیا تو وہ میرے سلام کا جواب دیتی ہوئی مجھے نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئیں میں حیران سا رہ گیا اور دروازہ بند کرتے ہوئے پیچھے مڑا تو وہ امی سے گلے مل رہی تھیں اور اس طرح کہ ان کا چہرہ اور امی کی کمر میری طرف تھی۔ انہوں نے امی کے کندھے پہ چہرہ رکھتے ہوئے مجھے آنکھ ماری اور امی سے مخاطب ہوتے ہوئے بولیں اف بنو آج تو محلے والوں کی خیر نہیں ہے اتنی پیاری لگ رہی ہو اور ایک ہاتھ نیچے کرتے ہوئے ان کے کولہوں کو ایک سائیڈ سے دبایا امی ان کے ایسا کرنے سے ایک دم ان سے الگ ہوئیں اور ان کے بازو پہ ایک مکا مار کہ پیچھۓ مڑ کہ مجھے دیکھا اور پھر ان کی طرف مڑ کہ بولیں بدتمیز کچھ شرم کرو بچہ سامنے کھڑا ہے ۔ کلثوم آنٹی ہنستے ہوئے بولیں ارے یہ تو بچہ ہے قیامت تو جوانوں پہ گزرے گی جانے کتنے کو صبح اٹھ کہ نہانا پڑے گا امی ان کی بات پہ شرمندہ سی ہو گئیں اور وہیں سے تھوڑا آگے ہو کر ابو کو آواز لگائی کہ ہم جا رہی ہیں اور پھر دروازے کی طرف چل پڑیں اور مجھے بھی چلنے کا اشارہ کیا اور میں ان کے پیچھے پیچھے دروازے کی سمت چل پڑا جیسے ہی امی دروازے سے باہر نکلنے لگیں کلثوم آنٹی نے میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھ ماری اور ہاتھ آگے بڑھا کہ امی کے کولہوں کے درمیان ہلکا سا گھسا دیا اور ان کے پیچھے ہو گئیں۔ امی دروازے سے باہر نکلین اور ان کو گھور کہ میری طرف اشارہ کیا مگر کلثوم آنٹی ہنس کہ آگے چل پریں اور میں بھی ان کے ساتھ چلنے لگا
میں امی اور کلثوم آنٹی چلتے ہوئے شادی والے گھر کی طرف بڑھتے گئے بلکہ وہ دو چلتی گئیں میں ان کے ساتھ چلتا گیا ان کی آپس میں گپ شپ لگی ہوئی تھی اور میں ان کے ساتھ چپ چپ چل رہا تھا اسی طرح ہم شادی والے گھر میں پہنچے تو اس گھر میں داخل ہوتے ہی امی نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور اس سے پہلے وہ کچھ بولتیں تو کلثوم آنٹی نے ان سے پہلے کہا عمیر تم یہیں کہیں بیٹھ جاو اور دور نہ جانا رات کا معاملہ ہے بچے تم ادھر عورتوں والی طرف ہی کہیں بیٹھ جاو اور پھر یہ کہتے ہوئے انہوں نے امی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو امی نے بھی ان پہ ایک ستائشی نظر ڈالی اور کہا ہاں بیٹا کلثوم ٹھیک بول رہی ہے تم باہر کہیں نا جانا یہیں بیٹھ جاو اور ادھر ادھر نا گھومنا ہم بھی جلدی نکلنے کی کوشش کریں گی ۔ مجھے پتہ تو تھا کہ یہ جلدی اتنی بھی جلدی نہیں ہو گی اور کلثوم آنٹی کیونکہ ساری پلاننگ ڈسکس کر چکی تھیں اس لیے میں دل ہی دل مین سب سمجھ گیا اور اوپر سے ایک معصوم شکل بنا لی اور کہا ٹھیک ہے امی میں ادھر ہی بیٹھ جاتا ہوں ۔ مجھے پتہ تھا کہ تھوڑی دیر میں یاسر بھی آئے گا تو اس سے گپ شپ ہو جائے گی اور پھر مجھے سٹیج پہ بھی جانا ہے ۔ امی اور کلثوم آنٹی اندر کی طرف بڑھ گئیں اور میں ادھر ہی پڑی کرسیوں میں سے ایک پہ بیٹھ گیا ۔ تھوڑی ہی دیر میں یاسر بھی اپنی امی اور بہنوں کے ساتھ آیا اور مجھ پہ نظر پڑتے ہی وہ میری طرف آ گیا میں نے اس کی امی اور بہنوں کو سلام کیا اور پھر یاسر سے ملنے لگا اور مل کہ ہم وہیں بیٹھ کر گپیں لگانے لگے۔ میں وقت پورا ہونے کا انتظار کر رہا تھا اور پھر جب میں نے دیکھا کہ گیارہ بجنے میں پندرہ منٹ رہ گئے ہیں تو میں نے یاسر سے کہا کہ یار مجھے امی نے کہا تھا گیارہ سے پہلے اندر آنا تو میں ان کی بات سن کہ آتا ہوں اگر ہم گھر گئے تو یہیں سے تمہیں ملتا چلوں گا۔ یاسر نے بھی کہا ٹھیک ہے اب اس کے وہم و گماں میں بھی اصلی بات تو نہیں ہو سکتی تھی تو مین اندر گھستا گیا جہاں رنگے برنگے لباس میں ہر عمر اور ہر سائز کی لڑکیاں اور عورتیں اپنے ادھ ننگے وجود لیے گھوم رہی تھیں میں سٹیج کر قریب پہنچا تو دیکھا امی اور کلثوم آنٹی سٹیج پہ ہی صوفے کے پیچھے کھڑی تھیں ان کے ساتھ اس گھر اور محلے کی کچھ اور خواتین بھی تھیں اور وہ سب ہنسی مزاق کر رہی تھیں میں کیونکہ بچہ تھا اس لیے کسی نے میری طرف توجہ نہ دی اور میں آرام سے چلتا ہوا سٹیج پہ ان کےپیچھے پہنچ گیا اور کلثوم آنٹی اور امی کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ ان کو کیسے متوجہ کروں اور پھر دیکھا کہ جب کوئی میری طرف متوجہ نہیں تو آگے ہو کہ میں نے کلثوم آنٹی کے بھاری بھرکم چوتڑوں کو ہلکا سا دبایا وہ تھوڑی سی ہلیں لیکن پیچھے نہ مڑیں میں پھر پیچھے ہٹ گیا کوئی پندرہ بیس سیکنڈ بعد انہوں نے ترچھی سی نظر سر گھماتے ہوئے پیچھے کی اور مجھے دیکھ کر اگے مڑ گئین ۔ پھر وہ تھوڑا سا کھسک کہ پیچھے ہوئیں اور میرے اور امی کے درمیان اس طرح کھڑی ہو گئیں کہ امی کا آدھا جسم ان کے آگے چھپ گیا اور انہوں نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے امی کو دیکھنے کا کہا۔ میں کیونکہ ان کے پیچھے کھڑا تھا اور ان کی ساری حرکات دیکھ رہا تھا ۔ کلثوم آنٹی نے ہلکا سا ہاتھ امی کی بنڈ پہ پھیرا تو امی نے ایک دم ان کی طرف مڑ کہ دیکھا کیونکہ میرا قد بھی کلثوم آنٹی سے چھوٹا تھا تو مجھے امی کی حرکت سے اندازہ ہوا کہ وہ پیچھے مڑی ہیں لیکن وہ مجھے نہ دیکھ سکیں۔
کلثوم آنٹی آگے ہوئیں اور امی نے تھوڑا پیچھے مڑتی ہوئے ان سے کوئی سرگوشی کی جو مجھے سمجھ نہ آئی لیکن کلثوم آنٹی نے بھی ان کے کان میں کوئی سرگوشی کی اور اس دوران ان کا ہاتھ امی کی گانڈ کو سہلاتا رہا انہوں نے امی کے بھاری چوتڑوں کو سہلاتے ہوئے ایک ہاتھ ان کی گانڈ کی دراڑ میں رکھ کہ دبایا اور ادھر ادھر دیکھا اور کسی کو متوجہ نا پا کر پھر سے گانڈ کی دراڑ میں ہاتھ پھیرنے لگیں امی بھی چوکنا ہو کہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں ساتھ دولہن کے سامنے کھڑی خواتین سے باتیں بھی کیے جا رہی تھین اور کلثوم آنٹی بھی ان کے ساتھ باقی عورتوں سے ہنسی مزاق میں مصروف تھیں لیکن ان کا ایک ہاتھ اپنی کاروائی میں لگا ہوا تھا۔ وہ امی کے گانڈ کی گلی میں ہاتھ گھسا کر اسے رگڑ رہی تھیں جس سے ان کی قمیض ان کی دراڑ میں پھنس چکی تھی میں ان کے پیچھے کھڑا ہوا یہ سب دیکھ رہا تھا کلثوم آنٹی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پیچھے میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھ مارتے ہوئے قریب ہونے کا اشارہ کیا اور میں دبے پاوں ان کے قریب ہوا۔ میں امی کے قریب پہنچا تو انہوں نے امی کی گانڈ کو ہلکا سا تھپتپھایا اور ہاتھ قمیض کے دامن میں سے سائیڈ کی طرف سے اندر گھسا کہ ان کی گانڈ کو ٹٹولنے لگیں اس سے ان کا ہاتھ تو امی کی قمیض میں چھپ گیا لیکن گانڈ کے اوپر ایک شلوار ہی تھی۔میں اس نظارے کی خوبصورتی میں ڈوبا ہوا تھا اور مجھے حیرت امی پہ تھی جو بالکل نارمل انداز میں کھڑی باتیں کر رہی تھیں ۔ کلثوم آنٹی نے ایک نظر مجھے پھر دیکھا اور قریب ہونے کا اشارہ کیااور اپنا ہاتھ امی کی گانڈ سے نکال لیا تو میں ان کے قریب ہوا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کہ امی کی گانڈ سے ہلکا سا ٹچ کیا مجھے بہت مزہ آیا اور مجھے امی کے جسم کی نرمی اور ملائمت اپنے ہاتھ پہ محسوس ہوئی انہوں نے میرا ہاتھ بار بار پکڑ کہ امی کی گانڈ پہ لگانا شروع کر دیا۔ انہوں نے تین چار بار یہ حرکت کی اور پھر اچانک لائٹ چلی گئی جیسے ہی لائٹ گئی تو کلثوم آنٹی نے میرا ہاتھ زور سے امی کی گانڈ میں دبایا اور پھر میرے ہاتھ کو ہلکا سا دبا کر چھوڑ دیا اور میں اپنا ہاتھ ان کی گانڈ میں پھیرنے لگا۔ میں نے ہاتھ گلی میں اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر پھیرا اور کلثوم آنٹی کی طرح ہی امی کے بھاری چوتڑوں کو درمیان سے ٹٹولا اور انگلی پھیرنی چاہیئ تو اندھیرے میں مجھے امی آگے اچھلتی محسوس ہوئیں اور انہوں نے بے ساختہ اونچی آواز میں کہا اوئے کون بدتمیز ہے اور انہوں نے پیچھے مڑ کہ دیکھنے کی کوشش کی لیکن کلثوم آنٹی ایک دم ان کے پیچھے ہو گئیں اور ہنسنے لگ گئیں اور ساتھ اپنی ٹانگ پیچھے کر کہ مجھے پیچھے دھکیلا میں سمجھ گیا کہ اب بھاگ جانا ہی بہتر اور مناسب ہے کیونکہ مجھے امی کی آواز میں شدید غصہ محسوس ہوا تھا میں فورا بھاگتا ہوا باہر نکل گیا اور ایک جگہ جا کر اپنی سانس بحال کرنے لگ گیا اور سوچنے لگا کہ غلطی کہاں ہوئی ہے ۔ میں ابھی وہاں کھڑا سانس ہی بحال کر رہا تھا کہ بجلی بھی آ گئی اور بجلی کے آتے ہی مجھے امی اندر سے تیز تیز چلتی ہوئی نظر آئیں جن کے چہرے پہ بہت سنجیدگی تھی۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا چلوعمیر گھر چلیں ان کا سنجیدہ موڈ دیکھ کر میں بھی کان دبائے ان کے ساتھ ہو گیا اور پھر میں نے تھوڑا سا چل کہ پوچھا امی وہ کلثوم آنٹی؟؟ مگر میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ غصے سے بولیں دفع کرو اس لعنتی عورت کو اور چل چاپ چلتے جاومیں ان کی اس گھرکی سے سہم گیا اور چپ چاپ چلتا ہوا ان کے ساتھ گھر کی طرف رواں ہو گیا
میں امی کے ساتھ چلتا ہوا گھر کی طرف روانہ ہوا اور امی بھی سنجیدہ موڈ میں چل رہی تھیں میں سمجھ گیا وہ سٹیج پہ ہوئی حرکتوں کی وجہ سے موڈ میں ہیں اور انہیں برا لگا ہے لہزا چور کی داڑھی میں تنکا تھا تو میں بھی چپ چاپ چلتا ہوا ان کے ساتھ گھر داخل ہوا گھر داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنے اوپر سے چادرین اتار دیں اور اپنے بھاری کولہے مٹکاتی ہوئی اندر کی طرف چلنے لگیں ان کے اوپر سے چادر اترتے ہی میں نے دیکھا کہ ان کی گانڈ میں اسی طرح قمیض پھنسی ہوئی تھی اور ان کی گانڈ ہچکولے کھا رہی تھی میں کلثوم آنٹی کی نصیحت کو بھول کر ان کو تکنے لگ گیا اور انہوں نے چار پانچ قدم اٹھائے اور ایک دم پلٹ کر مجھے دیکھا تو ان کا بھاری سینہ بھی ادھ ننگا مجھے نظر آیا میں نے فورا ان کی گانڈ سے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو ہماری نگاہین چار ہوئیں تو مجھے ان کی نگاہ مین ناگواری سی محسوس ہوئی ۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا چلو جاو چینج کرو اور کمرے میں جا کہ سو جاو ان کے انداز میں سختی تھی تو میں ان کے کہنے پہ سر جھکائے تیزی سے سٹور روم میں گیا اور کپڑے تبدیل کر کہ کمرے میں سونے چلا گیا۔ کلثوم آنٹی کا یہ مشن کامیاب رہا یا ناکام میں اتنا تو سمجھ نہیں سکا تھا بس مجھے یہ تھا کہ امی کو غصہ تھا اور اس کے بعد کچھ دن مجھے کلثوم آنٹی نظر نا آئیں اور ہم بھی سکول اور گھر کی روٹین میں مشغول ہو گئے اس کے بعد بھی کلاس میں امی کو تاڑنا اور دوسرے لڑکوں کا تاڑنا بھی میں دیکھتا اور برداشت کرتا رہا تو اس واقعہ کے کوئی بیس دن بعد یا زیادہ دن سمجھ لیں میں کھیل کر گراونڈ سے واپس آ رہا تھا تو کلثوم آنٹی اپنے گھر کے دروازے میں کھڑی تھیں مجھے دیکھتے ہی وہ کھل سی اٹھیں اور میرے سلام کرنے پہ گھر کے اندر کی طرف داخل ہو کر مجھے گھر میں آنے کا راستہ دیا۔ میں جیسے ہی ان کے گھر داخل ہوا تو انہوں نے مجھے دروازہ بند کرتے ہوئے فورا جپھی ڈال لی اور مجھے چومتے ہوئے بولیں کدھر رہ گئے تھے تم اتنے دن سے؟؟ میں نے کہا وہ مجھے ڈر لگ رہا تھا اس دن امی اتنے غصے میں تھیں تو مجھے لگا وہ کسی کو مارنے نا لگ جائیں ۔ کلثوم آنٹی نے اسی طرح مجھے چومتے ہوئے کہا ارے اس کنجری کی فکر ہی نہ کرو اس گشتی کو تیرے نیچے نا لٹایا تو میرا نام بھی کلثوم نہیں بس تم دیکھتے جاو میں کیا کرتی ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے وہ پاوں کے بل فرش پہ بیٹھ گئیں اور میرے ٹراوزر کو نیچے کرتے ہوئے میری للی کو نکال کر دیوانہ وار چومنے لگ گئیں میری للی کا اچھی طرح چوپا لگانے کے بعد انہوں نے اپنی شلوار اتاری اور صحن میں پڑی چارپائی پہ ہاتھ رکھ کہ نیچے جھک گئیں اور مجھے پیچھے مڑ کہ دیکھتے ہوئے کہا چل پھر ڈال دے ابھی ادھر پھر دیکھ تجھے ماں کی پھدی کیسے لیکر دیتی ہوں میرا دل تو ان کو دیکھ کر نہیں چاہ رہا تھا لیکن امی کا سن کہمیں ان کے قریب ہوا تو انہوں نے ایک ہاتھ سے اپنی گانڈ کو کھولا جس سے ان کی پھدی کے کالے ہونٹ سامنے نظر آئے اور میں نے اپنی للی ان کی پھدی میں گھسا کہ جھٹکے مارنے شروع کر دئیے اور وہ سیکس انجوائے کرنے لگیں اور میں بھی یہ ناگوار فریضہ سرانجام دینے لگا کچھ ہی دیر میں وہ فارغ ہو گئیں اور سیدھی ہو کر مجھے چومنے لگیں اور پھر بولیں کل چھٹی ہے کل صبح میں تم لوگوں کے گھر آوں گی اور تمہیں ایک سرپرائز دوں گی۔
کیسا سرپرائز؟ میں نے آنٹی کی طرف دیکھا تو وہ کچھ سوچتے ہوئے بولیں دیکھو بتا رہی ہو لیکن تم بیچ میں کچھ بھی نہ کرنا اور صرف مجھے دیکھ کر بتا دینا میں نے ان سے پوچھا کہ مجھے کیا دیکھنا ہے؟ وہ بولیں دیکھو کل صبحیہ کے گھر سے تمہاری امی کو لسی بھیجی جائے گی اس کا ایک گلاس اگر وہ پی لے تو تم مجھے فورا آ کر بتا دینا ۔ میں جو کچھ اور سوچ رہا تھا میرے ارمان پہ تو پانی پھر گیا کہ یہ کیا بکواس ہوئی بھلا؟ اب لسی پینے کا بھی آ کر اس کلموہی کو بتاؤں گا۔ مجھے دل ہی دل میں یہ بات بہت بری لگی لیکن میں نے اوپری دل سے ہاں کر دی کہ چلو آپ کو بتا دوں گا۔ آنٹی جاہندیدہ عورت تھی ایک دم یہ بات سمجھ گئی اور بولی دیکھو پوری بات تمہیں کل سمجھ آئے گی تم یہ لازمی کرو اگر وہ لسی پی جائے تو سمجھو تمہاری کل عید ہے اور تم بھول کہ بھی لسی نہ پینا۔ مجھے سمجھ تو کچھ نہ آئی لیکن آنٹی سے وعدہ کر کہ گھر آ گیا اور کھانا کھا کر سو گیا صبح چھٹی تھی میں جاگا ناشتہ کیا اور پھر گھر میں ہی بیٹھ گیا کہ کب لسی آتی ہے اور اسی انتظار میں گھر ادھر ادھر بیٹھتا اور گھومتا رہا آخر کوئی گیارہ بجے کے قریب صبحیہ آنٹی کے گھر سے لسی کی بوتل آ گئی اور پھر میں کچن میں امی کے آس پاس ہی گھومنے لگا امی نے بھی کھانا پکایا اور تقریبا بارہ کے قریب انہوں نے کھانا خود بھی کھایا اور ہمیں بھی کھلایا اور ساتھ لسی کے دو گلاس بھی پی لیے ۔ کھانا کھانے کے بعد امی نے مجھے کہا کہ برتن اٹھا دو مجھے ہمت نہیں لگ رہی ہے میں نے برتن اٹھائے اور کچن میں رکھے تو جب واپس آیا تو امی کا سر دائیں بائیں جھوم رہا تھا اور ان کی آنکھیں کھل اور بند ہو رہی تھیں ۔ میں ان کے پاس سے گزرا تو وہ بالکل اپنے حواس میں نہیں لگ رہی تھیں میں نے چھوٹے بہن بھائیون کو امی کے کمرے میں کارٹون لگا کہ دئیے اور خود بھاگ کر کلثوم آنٹی کو بتانے چلا گیا۔ میں نے کلثوم آنٹی کو بتایا کہ امی نے دو گلاس پیے ہیں تو وہ بہت خوش ہوئیں اور مجھے کہا تو گھر پہنچ تو میں آتی ہوں ۔ مین دوڑتا ہوا گھر پہنچا اور اندر داخل ہواتو امی لاونج میں پڑی ہوئی تھیں جیسے مدہوش سو رہی ہوں میں امی کے پاس پہنچا اور ان کو ہلکے سے آواز دی مگر وہ کچھ نہ بولیں تو پھر میں نے بازو سے پکڑ کر ہلایا تو امی نے کوئی حرکت نہ کی میں ابھی ان کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی اور میں دروازے پہ گیا تو کلثوم آنٹی دروازے پہ تھی ۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بولیں کدھر ہے وہ نیک پروین کمینی؟ میں نے کہا وہ لاوئنج میں بے ہوش ہو گئی ہیں میرے چہرے پہ پریشانی کے تاثرات تھے کلثوم آنٹی یہ دیکھ کر مسکرائی اور بولی فکر نہ کرو تم سے دوستی نبھا رہی ہوں اسے بھی کچھ نہیں ہو گا اور ہم باتیں کرتے کرتے لاوئنج میں پہنچے تو آنٹی نے باقی بہن بھائیوں کا پوچھا تو میں نے بتایا کہ ٹی وی دیکھ رہے ہیں آنٹی نے اس کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر دیا اور پھر امی کی طرف متوجہ ہوئیں جو نیچے قالین پہ بے سدھ سو رہی تھیں امی بالکل سیدھی لیٹی ہوئی تھیں اور ان کے اوپر دوپٹہ ایک سائیڈ سے ان کے ممے اور پیٹ کور کر رہا تھا
بہن چود کتی بڑی شریف بن رہی تھی تیری ماں حرامزادی ۔۔ پروین آنٹی نے امی کی طرف دیکھ کر مجھے دیکھتے ہوئے کہا اور اپنی چادر اتار کہ سائیڈ پہ پھینک دی۔ میں نے جلدی سے ان کے قریب ہوتے ہوئے ان سے سرگوشی میں کہا او آہستہ بولیں امی جاگ جائیں گی ۔وہ بولیں فکر مت کرو اس پہ پورا محلہ بھی چڑھا دو تو یہ نہیں جاگے گی لسی میں شراب ملی ہوئی تھی۔ میں نے کہا آنٹی ایسا کیوں کیا آپ نے امی کو شراب کیوں پلوا دی مجھے یہ بات بہت بری لگی تھی اور میں نے آنٹی سے سخت لہجے میں یہ بات کی ۔ آنٹی نے میری طرف حیرت اور غصے سے دیکھا اور کہا ماں چود حرامی میں یہ سب تیرے لیے کر رہی ہوں اور تو مجھ پہ ہی غصہ کر رہا ہے ۔ مجھے آنٹی پہ پہلے ہی غصہ تھا جو وہ امی جو گالیاں دے رہی تھیں اور امی کو شراب پلانے والی بات تو مجھے اور بھی بہت بری لگی کہ انہوں نے کسی اور کے ساتھ مل کہ امی کو شراب پلا دی ہے۔میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن آپ بول کس طرح رہی ہین کیونکہ میں گھر میں لاڈلہ بھی تھا اور اس طرح کی بات مجھ سے کسی نے نا کی تھی اور شراب والی بات نے مجھے اور تپا دیا دیا یہ ایک بچے کی چاہت تھی جو اپنی فطری کشش کی وجہ سے ماں کے وجود میں دلچسپی تو رکھتا تھا لیکن ماں کی تزلیل بھی اسے برداشت نہ تھی۔ یہ انسانی فطرت بھی عجیب ہے کہ کچھ لمحے قبل ماں کے جسم کی طلب اب بدل چکی تھی اور مجھے کلثوم آنٹی ایک ڈائن کی طرح لگ رہی تھیں جو امی کا خون چوسنے کو تیار کھڑی ہو ۔ میں نے ان کی بات سن کہ کہا یہ آپ کس طرح بات کر رہی ہو اور امی کو گالیاں کیوں نکال رہی ہو یہ کون سا طریقہ ہے؟؟ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس بات پہ وہ اور تپ گئین اور غصیلے لہجے میں بولیں ارے او گشتی کے بچے تو مجھے تمیز سکھائے گا اب اپنی ماں کی پھدی پہ لن کھڑا کرنے والے کنجر تیری اتنی اوقات کہ مجھ سے یوں بات کرے۔ مجھے ایک لمحے کے لیے ان کی بات سے ڈر بھی لگا کہ اگر یہ کسی سے یہ بات کر دیں تو میں تو پھنس جاؤں گا اور میں ایک لمحے کے لیے ڈر گیا اور اگلے لمحے میرے زہہن میں خیال آیا کہ اگر کسی نے پوچھا تو میں یہ کہہ دوں گا یہ مجھ سے تجوری کا پوچھ رہی تھیں میں نے نہیں بتایا تو مجھ پہ غصہ کرنے لگ گئیں ۔ یہ بات سوچتے ہی میں نے ان کی طرف تھوڑا غصے سے دیکھا اور کہا آپ یہ گھٹیا انداز میں بات مت کرو اپنا بدلہ لینا چاہتی ہو اور مجھے احمق بنا رہی ہو ساتھ ہماری تزلیل بھی کر رہی ہو میں نے آپ سے دوستی زلیل ہونے کے لیے تو نہیں کی تھی ۔ آپ ایک گندی عورت ہو مجھے تھوڑا ان کے بات کرنے سے غصہ تھا تو میں یہ سب بول گیا کلثوم أنٹی آگے بڑھی اور میرے پاس پہنچ کر مجھے ایک زوردار تھپڑ دے مارا اور دانت کچکچاتے ہوئے بولی رہے نا رنڈی کے بچے تم اور میرے سر کے بال پکڑ کر مجھے زور سے جھٹکا دیا اور ایک اور تھپڑ مار کہ بولی تم حرامزادے اس عزت اور مزے کے لائق تھے ہی نہیں ۔ اور مجھے زوردار دھکا دیا جس سے میں امی کے اوپر جا گرا ۔ کلثوم آنٹی نے ایک قہر اور نفرت بھری نگاہ مجھ پہ ڈالی اور اپنی چادر اٹھاتے ہوئے نفرت انگیز انداز میں بولی اب ساری عمر مٹھ لگاتے رہنا اس کنجری نے تم پہ تھوکنا بھی نہیں ہے ورنہ آج تمہیں جو مزہ کرواتی تم بھی سمجھ جاتے کہ مزہ کیا ہوتا ہے لیکن تم اس قابل نہیں تھے۔ میں کیونکہ آنٹی سے بہت چھوٹا تھا مجھے بہت غصہ تو تھا لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہاں فرش پہ پڑے پڑے ہی میں نے اس کی طرف دیکھتےہوئے کہا دفع ہو جاو اپنی کتی شکل لیکر میرے گھر سے تم دوستی کے لائق نہیں تھیں میں ہی غلط تھا اس لیے تم دفع ہو جاو ، کلثوم آنٹی نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولی ماں کی پھدی میں وڑ میری طرف سے کتے کے بچے اور اٹھ کر باہر کی طرف چل پڑی۔ وہ جیسے ہی دروازے سے باہر نکلی میں دوڑ کہ باہر گیا اور دروازہ بند کر کے جلدی سے اندر آ گیا اور اندر داخل ہوتے ہی مجھے ایک جھٹکا سا لگا اور اندر کا منظر دیکھ کر مجھے بے اختیار چکر آ گئے ۔
امی اٹھ کہ بیٹھی ہوئی تھیں اور انہوں نے اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھاما ہوا تھا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے انہوں نے میری طرف دیکھا اور مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا میری تو جیسے جان نکل گئی میں سمجھ گیا کہ امی سب جان گئی ہیں اور آنے والے لمحات کا تصور ہی جان لیوا تھا میری حالت تو یوں ہو گئی تھی کہ میں تھر تھر کانپنے لگا ۔ میں کانپتے ہوئے امی کے سامنے کھڑا ہوا تو انہوں نے مجھے فرش پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود فرش کی طرف نظرین جھکائے دیکھتی رہیں میں بھی ان کے سامنے چپ چاپ بیٹھ کر فرش کو دیکھنے لگ گیا۔ کمرے میں ایک گھمبیر خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔ کچھ دیر اسی چپ کے بعد امی نے خاموشی کو توڑا اور اسی طرح سر جھکائے بولنا شروع ہوئیں مین کچھ تو سمجھ گئی ہوں کہ معاملہ کیا ہے لیکن ایک بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میری تربیت میں کہاں کمی رہی جو تم مجھ سے بات کرنے کے بجائے اس کلموہی کے قریب ہوئے؟؟ مجھے ساری بات شروع سے بتاو اور کوئی جھوٹ مت بولنا سچ بولو گے تو تمہاری جان بچ جائے گی ورنہ مجھے ستر فیصد بات تو پتہ چل ہی چکی ہے امی نے سر نیچے جھکایا ہوا تھا لیکن ان کی آواز میں بہت سختی تھی میں نے ان کی طرف ڈرتے ڈرتے ایک نظر ڈالی اور پھر شروع سے آخر تک تمام بات ان کو بتا دی جس میں سکول میں ان کو یاسر والی بات پتہ چلنے سے لیکر کلثوم آنٹی تک بتانے والی ہر بات شامل تھی لیکن کلثوم آنٹی کی چودائی والی بات میں گول کر گیا امی اس دوران ناخن سے فرش پہ لکیریں لگا کر کھرچتی رہیں اور میری بات سنتی رہیں میری ساری کہانی سنانے کے دوران انہوں نے ایک بار بھی میری طرف نہ دیکھا اور نا کوئی تبصرہ کیا بس چپ چاپ میرے سے ساری بات سنتی رہیں ۔ میں جب بول کہ چپ ہوا تو انہوں نے میری طرف دیکھا اور میرے چہرے پہ انگلیوں کے شائد نشان تھے جس کو انہوں نے انگلیوں کی پوروں سے سہلایا میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی طرف دیکھا لیکن ان کا چہرہ سپاٹ تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا عمیر جو بات بھی آج ادھر ہوئی ہے وہ سمجھو کہ یہیں دفن ہو گئی تم کسی سے اس بات کا زکر مت کرنا اور بالکل چپ ہو جاو میں اپنی طرف سے معاملات کو ہینڈل کر لوں گی۔
میں ڈرتے ڈرتے امی کی طرف دیکھ رہا تھا مجھے تو لگ رہا تھا بہت مار پڑے گی لیکن امی کچھ کھوئی کھوئی کسی اور ہی سوچ میں گم تھیں میں امی کے پاس بیٹھا ان کو دیکھتا رہا کہ اب وہ کیا کہتی ہیں لیکن وہ چپ بیٹھے کچھ سوچتی رہیں کافی دیر اسی طرح گزر گئی میں بھی ان کے سامنے بیٹھا رہا اب ان کو بلانے کی یا ان سے بات کرنے کی ہمت مجھے بھی نہ تھی میں ابھی تک صورتحال سے اچھی طرح واقف ہی نا ہو سکا تھا کہ ہوا کیا ہے ۔ کلثوم آنٹی کا اتنے یقین سے کہنا کہ وہ بے ہوش ہوں گی اور پھر اتنا تزلیل بھرا رویہ رکھنا اور ایسی باتیں کرنا اور پھر اٹھ کر چلی جانا اور امی کا تمام واقعہ سے واقف ہو جانا، یہ سب باتیں مجھے کنفیوز کر رہی تھیں اور میں نے بھی سب امی کو بتا دیا تھا۔ کچھ دیر بعد پھر امی نے ایک گہری سانس لی اور میری طرف دیکھا تو میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے کہا امی مجھے معاف کر دیں مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ امی نے میری آنکھوں میں کھوجتی آنکھوں سے دیکھا اور کچھ دیر میری آنکھوں میں دیکھتی رہیں ہھر بولیں تمہاری یہ پہلی غلطی ہے بیٹا اور غلطی بھی بہت بڑی ہے کوئی بھی بات ہو تمہیں یہ بات مجھے بتانا چاہیے تھی کسی اور کو نہیں ۔ ٹھیک ہے تمہاری عمر میں ایسا ہوتا ہے لیکن تم مجھے بتاتے تو میں تمہیں اچھے طریقے سے سمجھا دیتی کہ ایسا ممکن نہیں اور ہم اس کا بہتر حل نکالتے۔ وہ بول رہی تھیں اور میں ان کی طرف دیکھ رہا تھا وہ پھر بولیں ۔ دیکھو تم نے کلثوم کو موقع دیا تو وہ کس طرح کی باتیں کر رہی تھی اور اس نے تمہیں تھپڑ بھی مارا اور سوالیہ نظر سے میری طرف دیکھا اور بولیں یہ فرق ہے ماں کا اور باہر کے لوگوں کا اور یہ تمہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ میں تمہاری بڑی غلطی بھی معاف کر رہی ہوں اور اس نے تمہیں مارا ہے۔ میں ان کی باتیں سن رہا تھا اور بولنے کو کچھ نہیں تھا تو وہ پھر بولیں اس کا تو میں اچھا بندوبست کروں گی لیکن تم اب ایسی کوئی بھی بات کوئی بھی بندہ کرے سکول میں یا کہیں بھی تو مجھے بتاؤ گے اور کسی سے کسی بات کا زکر نہیں کرو گے۔ میں نے ان سے اس بات کا وعدہ کر لیا اور کہا ٹھیک ہے امی اب ایسا ہی ہو گا میرے چہرے پہ شرمندگی کے تاثرات تھے امی نے آگے ہو کہ میرے ماتھے پہ پیار دیا اور کہا جاو اب زرا سو جاو اور یہ بات اب بھول جاو کہ ایسا کچھ ہوا تھا۔ میں امی کی بات سن کر کمرے کی طرف چلا گیا اور سوچتے سوچتے سو گیا ۔ شام میں آنکھ کھلی پھر اس کے بعد روٹین کے معاملات چلتے رہےصبح جب ہم سکول کے لیے تیار ہوئے تو میں نے دیکھا کہ امی نے ایک بڑی سی چادر سے اپنا جسم چھپانے کی کوشش کی ہے میں نے ان کی طرف حیرانی سے دیکھا اور پوچھا امی یہ کیا اتنی بڑی چادر کیوں رکھ لی ہے آپ نے؟؟ تو وہ زرا سا ہنس کہ بولیں اب چھپاوں نہیں تو تم گندے بچوں کی نظر سے کیسے بچوں گی میں ان کی بات پہ شرمندہ سا ہو گیا اور پھر ہم سکول چلے گئے سکول میں بھی جا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ جب امی نے ہماری کلاس کو پڑھانا چھوڑ کر چھوٹی کلاس کو پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ پھر اسی روٹین میں کئی دن گزر گئے ایک دن ہم سکول سے لوٹ رہے تھے جب اپنی گلی میں داخل ہوئے تو کافی رش اور پولیس کی دو گاڑیاں بھی کھڑی تھیں ہم رش سے نکل کہ آگے آئے تو امی نے محلے کی ایک عورت سے پوچھا کیا ہوا ہے تو اس نے بتایا کہ کلثوم اپنے گھر میں کسی مرد کے ساتھ پکڑے گئی ہے اور اس کے گھر سے کوئی چرس افیون وغیرہ بھی برامد ہوئی ہے ۔ امی نے میری طرف دیکھا تو ایک لمحے میں مجھے ان کے چہرے پہ خوشی کے تاثرات نظر آئے اور پھر وہ نارمل ہو گئیں اور ہم لوگ گھر کی طرف بڑھ گئے
گھر میں داخل ہوتے ہی امی نے اپنی چادر اتار پھینکی اور دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کر کے یاہو کا ایک نعرہ لگایا ان کی خوشی دیدنی تھی انہوں نے باقی بچوں کو کہا کہ جاو بچو کپڑے تبدیل کرو سب اور پھر میری طرف متوجہ ہوئی جو ان کے چادر سے بے نیاز جسم کو دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے مجھ پہ ایک نظر ڈالی اور میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے گھول گھول گھومنے لگ گئیں اور پاؤں کے بل اچھلتی بھی جا رہی تھیں میں نے دیکھا تو ان کے چہرے پہ بہت خوشی تھی وہ اسی طرح ناچتے ناچتے بولیں بڑی آئی تھی کتی مجھے خراب کرنے اب اسے پتہ چلے گا کہ کیا ہوتا ہے مجھے کچھ معاملے کی سمجھ آ گئی کہ وہ کلثوم آنٹی کے پکڑے جانے سے خوش ہیں لیکن اس وقت میرے سامنے امتحان ان کے اچھلنے سے ان کے خربوز نما ممے تھے جو ہر قدم کے ساتھ ان سے زیادہ اچھل کر اپنی موجودگی اور نرمی کا احساس دلا رہے تھے جیسے ہی ایک دو بار میں نے ان کو دیکھ کر امی کی طرف دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھیں اور پھر انہوں نے وہ سوال کیا جو مجھے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا تھا۔ وہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولیں عمیرکتنی بار کلثوم سے لڑائی پہ افسوس ہوا ہے کیونکہ اس لڑائی سے تمہارا مجھے ننگا دیکھنے کا خواب تو ادھورا رہ گیا تھا۔ مجھے سوال کی توقع تو نا تھی لیکن جواب میرے پاس تو میرے دل کی آواز تھی ۔ میں نے کہا امی ایک بار بھی افسوس نہیں ہوا کوئی آپ کے بارے میں بکواس کرے تو مجھے کیسے اچھا لگ سکتا ہے میں اتنا بھی نہیں سن سکتا تھا جو انہوں نے کہا مجھے افسوس اس کا ہے کہ میری وجہ سے ان کو اس بکواس کا موقع ملا۔ امی نے میرا چہرہ اوپر کیا اور میری آنکھوں میں دیکھ کر کہا سچ کہہ رہے ہو ؟؟ میں نے بھی ان کی آنکھ میں دیکھ کر کہا امی سو فیصد سچ کہہ رہا ہوں امی نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور میری کمر کو سہلانے لگیں میرا چہرہ ان کے مموں سے زرا اوپر ان کی گردن کے پاس جا لگا اور مجھے ان کے جسم کی مہک اپنی ناک کے راستے روح تک اترتی محسوس ہوئی ان کے نرم جسم کی نرمی مجھے انگ انگ تک سرشار کر گئی اور ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں مجھے اپنی للی میں تناو محسوس ہوا ۔
جیسے ہی میری للی امی کی ٹانگ سے ٹکری انہوں نے اپنی ٹانگ پیچھے کر لی میں بھی سنبھل گیا اور دل ہی دل میں خود کو کوسا اور اپنا نچلا بدن ان سے الگ کر لیا لیکن اوپر میں ان کے سینے پہ منہ رکھے ان سے جڑا رہا ان کے دونوں بازو میرے گرد لپٹے ہوئے تھے میں نے منہ اوپر کر کہ ان کے چہرے پہ دیکھا جہاں مسکراہٹ اور خوشی کے تاثرات تھے میں نے جب منہ نیچے کیا تو میرئ نظر ان کے کھلے گلے سے ان کے مموں پہ پڑی تو مجھے جیسے سکتہ ہو گیا بھاری بھاری سفید ممے اور ان کو پنک کلر کی برا نے ہلکا سا چھپایا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود ممے آدھے سے زیادہ ننگے تھے اور مجھے واضح نظر آ رہے تھے۔ میں نے ایک گہری سانس خارج کی تو میری بدقسمتی کہ وہ سانس سیدھا ان کے مموں سے ٹکرائی ۔ میرے اناڑی پن کی وجہ سے میری گرم سانس ان کو جیسے ہی چھاتی پہ محسوس ہوئی تو وہ اچھل کہ پیچھے ہوئیں اور مجھے چھوڑ دیا اور پیچھے ہٹتے ہی اپنے گریبان میں جھانکا اور پھر شرمندہ سی زیر لب ہنسی میں بولیں بدتمیز نہ ہو تو ۔۔ اس کلموہی نے زیادہ ہی آوارہ کر دیا تھا تمہیں اچھا ہوا دفع ہوئی کنجری عورت۔ میں نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا نا جی مجھے انہوں نے کوئی آوارہ نہیں کیا تھا میں تو بس ۔۔ اب میں بے ساختگی میں یہ کہنے لگا تھا کہ مین آپ کو دیکھ کر خراب ہوا مگر پھر آدھی بات کر کہ لگا کہ امی اس پہ ناراض ہوں گھ تو میں چل کر کہ بات سوچنے لگا کہ اب کیا بات کروں؟ میرے اس طرح چپ ہونے پہ امی نے دونوں ہاتھوں سے ایک تالی بجائی اور پھر پیٹ پہ ہاتھ رکھ کہ ہنسنے لگ گئیں اور بولیں ہاں ہاں بولو نا رک کیوں گئے اس نے خراب نہیں کیا تو کس نے کیا ہے ؟؟ وہ ہنستے ہنستے دوہری ہوئیں اور میری نظر ایک بار پھر ان کے مموں پہ پڑی جو ان کے جھکنے سے واضح نظر آ رہے تھے ۔ وہ نیچے جھکی جھکی ایک دم اوپر ہوئیں اور میری نگاہ میں دیکھتے ہوئے اپنے گریبان کو دیکھا اور پھر مجھ سے بولیں باز آ جاو لڑکے میں تمہیں پیار سے سمجھا رہی ہوں میں ان کی بات سے شرمندہ تو ہوا مگر جب میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے پہ غصہ نہیں ہے تو میرا بھی خوف ختم ہو گیا میں نے کہا میں تو آپ سے بہت دور کھڑا ہوں میں نے تو کچھ نہیں کیا امی ۔ امی نے پھر اسی لہجے میں کہا ہاں یہ سامنے میرا باپ کھڑا مجھے تاڑ رہا ہے پھر ۔ میں شرمندہ ہو گیا تو وہ اور ہنسنے لگیں اور بولیں چلو اس خوشی کے موقع پہ آج تمہیں فری ہینڈ ہے میری طرف سے اور ہنس کہ سیدھی کھڑی ہو گئیں اور مجھے دیکھنے لگیں
اب میری بلا جانے فری ہینڈ کس معاملے میں ہے تو میں سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگ گیا امی کے چہرے پہ شرارتی مسکراہٹ تھی مجھے یوں دیکھتے ہوئے دیکھ کر ایک بار پھر ہنس پڑیں اور بولیں بندہ وہی کام کیا کرے جو عمر کی مناسبت سے ہوں اپنے سے بڑے کام کرو گے تو ایسے ہی سوچتے رہ جاو گے ۔ اب مجھے یہ تو لگا کہ وہ مجھے چھونے سے دیکھنے سے نہیں روکیں گی لیکن یہ بھی کنفرم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ یہی کہہ رہی ہیں یا کچھ اور کہہ رہی ہیں تو میں نے ایک جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا اور بازو کھول کہ امی سے لپٹ گیا ۔ میں نے سوچا تھا کہ اگر امی نے ڈانٹا یا روکا تو پیچھے ہٹ جاؤں گا ورنہ نہیں ہٹوں گا اور یہ سوچتے ہی میں ان سے چپک گیا اور اپنے بازو میں ان کو بھرنے کی کوشش کی لیکن ان کا بھاری وجود ظاہر ہے مجھ سے اس طرح کدھر سنبھالا جا سکتا تھا۔ میں نے جیسے ہی امی کو اپنے بازو میں پکڑا تو وہ زیر لب بولیں اففف بدتمیز بچے اتنا بھی فری ہینڈ نہیں دیا ہے مت۔ میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں سراپا شفقت اور محبت تھی اور ناراضگی کا کوئی شائبہ تک نا تھا میں یہ دیکھ کر شیر ہو گیا اور ان کے گال کو چوم لیا ان کا گال چومنے کے لیے مجھے اپنے پاؤن پہ کھڑا ہونا پڑا مگر وہ گال تھا یا جیسے مکھن اور شہد سے بنی ہوئی کوئی کریم ۔۔ میں نے ان کے گال کو چوم کہ ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ وہی بہترین مسکراہٹ تھی اب میرا ڈر کسی حد تک ختم ہو چکا تھا اور ان کا رویہ دیکھتے ہوئے مجھے بھی حوصلہ مل رہا تھا ۔ میں نے ایک بار پھر ان کے نرم گال کو چوما اور ہاتھ ان کی کمر کے نچلے حصہ پہ لگا دئیے اور گانڈ کے اوپری حصے کو ہلکا سا دبایا اور ان کی گردن پہ ایک پیار کر دیا۔ میں بغیر کچھ بولے یہ سب کر رہا تھا اور وہ چپ چاپ میرے آگے کھڑی تھیں اور ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا امی مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نا اب ۔امی نے ایک بھرپور نظر مجھ پہ ڈالی اور بولیں ناراض جو ہوتا ہے وہ اتنے قریب کبھی نہیں جاتا اور بس جو ہو گیا وہ ہو گیا اب آگے کیا کرنا ہے یہ اہم ہے۔
آگے کیا کرنا ہے امی؟ میں نے خوش ہوتے ہوئے امی کی طرف دیکھا اور ندیدوں کی طرح ان کو تکنے لگا ۔ آگے یہ کرنا ہے کہ اب تمہیں بچا کہ رکھنا ہے کہ کلثوم جیسی کوئی ڈائن تمہارا خون نا پی جائے امی نے مسکراتے ہوئے کہا اور ایک ہاتھ میرے سر سے گزارتے ہوئے میری گردن پہ رکھ دیا میں نے ان کے بھاری جسم سے خود کو جوڑتے ہوئے ان میں پیوست کر لیا اور کہا آپ کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی اور کچھ نہیں کہہ سکتی امی کوئی ڈائن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ وہ ہلکی سی ہنسیں تو ان کے جسم کی لرزش مجھے اپنے سارے وجود پہ محسوس ہوئی اور وہ بولیں شکر ہے کہ مجھے وقت پہ پتہ چل گیا ورنہ تو حالات بڑے خراب ہو رہے تھے میرا بچہ مجھے ہی ننگا کروانے کے چکر میں تھا ۔ میں امی کی یہ بات سن کہ شرمندہ ہوا اور میری گرفت ان سے ڈھیلی ہو گئی ۔ انہوں نے بھی مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگیں چلو اب میں کپڑے تبدیل کر لوں میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اب مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں۔ امی نے ایک بھرپور نظر مجھ پہ ڈالی اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑیں میں نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر امی کے پیچھے ان کے کمرے کی طرف چل پڑا باقی بہن بھائی لاوئنج میں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ میں امی کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا تو امی بھی الماری سے کپڑے نکالنے لگیں میں ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا امی نے کپڑے نکال کہ میری طرف دیکھا اور سوالیہ نظروں سے بولیں اوئے بدتمیز کیا بات ہے ؟؟ میں نے جب دیکھا امی غصے میں نہیں ہیں تو میں نے دل بڑا کر کہ کہا وہ میں فری ہینڈ کا مطلب پوچھنے آیا تھا ۔ امی نے سر کو جھٹک کر زیر لب کہا چل بدتمیز نا ہو تو اور اپنی قمیض کے دامن اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے اور اوپر کرنے لگیں لیکن اوپر کرتے کرتے رک گئیں اور میری طرف دیکھنے لگیں اور پھر بولیں ویسے یہ بہت بدتمیزی والی بات ہو جائے گی چلو بھاگو یہاں سے ۔ میں جو خوش ہو رہا تھا ایک دم میرا چہرہ اداس ہو گیا کیونکہ سارے ارمانوں پہ پانی پڑ چکا تھا میں مرے ہوئے قدموں سے اٹھا اور باہر نکلنے لگا میں دروازے سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ امی کی آواز آئی عمیر۔ میں پیچھے مڑا اور دیکھا کہ امی دوسری طرف مڑی ہوئی ہیں اور ان کی قمیض اتری ہوئی ہے البتہ نچلے جسم پہ شلوار تھی میں نے امی کی گوری چکنی کمر کو دیکھا تو مجھے بہت انوکھا سا احساس ہوا بہت الگ کہ جس کےلیے کوئی الفاظ نہیں تھے۔ میں نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جی امی؟؟ امی کی آواز تھوڑی بھاری لگی انہوں نے پیچھے دیکھے بغیر مجھے کہا عمیر یہ برا کے ہک کھول دو اور اپنے ہاتھ سے ان کی کمر پہ لگی برا کی طرف اشارہ کیا ۔ میں تھوڑا کنفیوز ہو چکا تھا کہ امی یہ کیا کہہ رہی ہیں کیونکہ اس سے پہلے تو ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہوا تھا اور نا ہی مجھے یہ توقع تھی مین حیران سا ان کے پیچھے پہنچا اور ان کی گوری سفید کمر کو دیکھا اور کمر سے نیچے ان کے بھاری چوتڑوں پہ بھی نظر ڈالی۔ میں نے ان کی برا کے ہک کو پکڑنا چاہا تو میرا ہاتھ ان کی ننگی کمر سے ہلکا سا مس ہوا تو میرے جسم میں بجلی کی ایک لہر دوڑ گئی میں ان کے قریب ہوتے ان کی گردن کے اوپر سے ان کے ادھ ننگے مموں کو دیکھنے لگا اور برا کے ہکس کو مخالف سمت میں کھینچا جس سے ان کی برا ایک جھٹکے سے کھل گئی۔ امی سامنے کی طرف دیکھ رہی تھیں اور ان کے موٹے ممے ان کی سانس کے ساتھ ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ برا کے ہکس کھلتے ہی ان کی برا ڈھیلی ہوئی اور ان کے ممے آدھے سے زیادہ ننگے ہو گئے اور گورے گورے گول مموں کے اوپر براون رنگ کے نپلز پہ میری نظر پڑی تو مجھے ایک عجیب اور میٹھا سا احساس ہوا۔ امی نے برا کے اترتے ایک گہری سانس لی اور نظریں ترچھی کر کہ مجھے دیکھا اور برا کو سامنے بیڈ پہ چھوڑتے ہوئے قمیض کو اٹھانے کے لیے جھک گئیں۔ میں امی کے پیچھے کھڑا تھا تو ان کے جھکنے سے ان کی موٹی گداز گانڈ میری ٹانگوں کے ساتھ ٹکرائی اور میری للی اپنی ناتوانی کے باوجود ان کی گانڈ کے درمیان زور سے رگڑنے ہوئی جتنی اس میں ہمت تھی اور للی تقریبا ساری ان کی گانڈ کی گولائیوں کے درمیاں غائب ہو گئی۔ امی نے اسی طرح جھکے ہوئے اپنی گانڈ کی گولائیوں کو بھینچا تو میری ساری للی کو ان کی گانڈ کی نرمی اور گرمی محسوس ہوئی لیکن اپنے اناڑی پن کی وجہ سے میں کوئی بھی مزید حرکت نا کر سکا
امی نے قمیض اٹھائی اور بازووں میں لیکر اسے پہننے لگیں تو میں ان کے پیچھے سے سائیڈ سے ہو کر ان کے ممے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا جو ان کے بازو کے نیچے سے سائیڈ سے نظر آ رہے تھے مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا لیکن امی کے چپ ہونے کی وجہ سے ایک ہمت بھی مل رہی تھی کہ وہ کچھ بھی نہیں کہہ رہی ہیں انہوں نے جب قمیض پہننی شروع کی تو وہ سیدھی کھڑی ہو گئیں اور میری للی ان کی گانڈ سے باہر نکل گئی اور میں ان کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ امی نے قمیض پہنی لیکن اس کا دامن پیچھے سے مکمل نیچے نہ کیا اور ان کی کمر کا کچھ حصہ ننگا رہ گیا کمرے میں بالکل خاموشی تھی صرف امی کے کپڑے بدلنے کی سرسراہٹ کمرے میں گونج رہی تھی یا پھر امی کی سانسیں مجھے محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھائے اور پیچھے سے امی کی کمر کو پکڑا ان کے جسم کو ہلکا سا جھٹکا لگا اور انہوں نے اپنی شلوار کو سائیڈوں سے پکڑ کہ نیچے کیا اور جھک کہ شلوار اتارنے لگیں ۔۔۔ افففف امی کے اس طرح جھک کہ ننگا ہونے کا تو میں نے کبھی سوچا تک نا تھا ان کی بھاری سفید گول گانڈ ایک دم ایک جھٹکے سے اچھل کر سامنے آئی اور گانڈ کی سفید گہری پہاڑیوں کے درمیان (. ) شیپ کا گہرے براون رنگ کا سوراخ اور اس کے بالکل نیچے موٹے گہرے گلابی ہونٹوں والی پھدی جس پہ ہلکے ہلکے بال نمایاں تھے سامنے نظر آئی ۔ میں تو اس قاتلانا نظارے کی تاب نا لاتے ہوئے ایک طرح سے کومے کی حالت میں جا چکا تھا امی اسی طرح جھکی ہوئی آگے ہوئیں اور شلوار اٹھا کر پہننے لگیں اور میں پیچھے ہونق بنا ہوا ان کو دیکھتا رہا ۔ امی نے شلوار پہنی اور قمیض کا دامن کھینچ کر سیدھا کیا اور میری طرف دیکھ کہ بولیں چل ڈرپوک کہیں کا۔ اور اپنے بالوں کو ٹھیک کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکلتی گئیں اور مجھے سمجھ ہی نہ آ رہی تھی میرے ساتھ یہ سب ہوا کیا ہے۔ امی کچن کی طرف چل پڑیں اور میں بھی کچھ لمحے سوچنے کے بعد ان کی طرف چل پڑا اور کچن میں انہیں کام کرتا دیکھنے لگ گی
میں امی کے پاس کچن میں چلا گیا اور جا کر ان سے باتیں کرنے لگا پھر ہم نے کھانا کھایا اور اس کے بعد عام روٹین چلتی رہی ۔ اس واقعہ کے بعد میری اور امی کی دوستی ہو گئی ہم کھل کہ بات کرنے لگے امی بھی مجھ سے مختلف باتیں شئیر کر لیتیں اور ہمارے درمیان ہنسی مزاق بھی چلتا رہتا ۔ کچھ دن بعد ہی مجھے پتہ چلا کہ ہم یہ گھر بیچ کر کسی اور جگہ منتقل ہو رہے ہیں اور ایسا ہی ہوا کہ امی ابو نے گھر تبدیل کر لیا اور اس طرح ہمارا محلہ بدل گیا اور نئے محلے میں امی مجھے زیادہ باہر نہیں گھومنے دیتی تھیں اسی طرح وقت گزرتا گیا اور ہمارے پیپر آ گئے امی اسی طرح چادر لیکر جاتی تھیں اور بڑی کلاسسز کو نہیں پڑھاتی تھیں میرے پیپرز کے بعد امی نے میرا سکول تبدیل کروا دیا اور ہم سب ایک نئے سکول میں داخل ہو گئے اس طرح میرے وہ کلاس فیلو بھی بدل گئے ۔ اب ہم ایک نئے ماحول میں تھے اسی طرح عام روٹین میں امی سے ہنسی مزاق میں سال اور گزر گیا اب میری للی بھی بڑی ہو کہ لن کی شکل اختیار کر چکی تھی اور اس کی سائیڈوں پہ ہلکے ہلکے بال بھی نمودار ہو چکے تھے اور مجھے دو تین بار اختلام بھی ہو چکا تھا اور سکول فیلوز سے بہت کچھ ہنسی مزاق میں پتہ بھی چل چکا تھا ۔ امی کے جسم سے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ بھی چلتی رہتی تھی لیکن ایک حد ہمارے درمیان قائم تھی ایک پردہ درمیان میں حائل تھا۔ پھر کرتے کرتے گرمیوں میں ہمارا پروگرام مری جانے کا بن گیا اور ہم سب اپنی گاڑی میں مری روانہ ہو گئے ۔ ہمارا ارادہ وہاں تین دن رہنے کا تھا۔ ایک لمبے سفر کے بعد ہم لوگ مری پہنچے اور وہاں ایک ہوٹل میں قیام کیا ۔ تھکاوٹ کی وجہ سے پہلے دن تو ہم پہنچتے ہی مشکل سے کھانا کھا کہ لیٹ گئے اور آرام کیا۔ صبح جب ہم جاگے تو ایک حسین منظر ہماری نگاہوں کے سامنے تھا سر سبز پہاڑ اور آسمان کو چھوتے ہوئے درخت اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ایک عجیب سماں باندھ رہی تھی۔ امی ابو بھی بہت خوش تھے اور ہم بچے بھی سب بہت خوش تھے۔ ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد ہم لوگ پیدل ہی پہاڑوں میں گھومنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ۔ ہمارے ہوٹل کے قریب سے ہی ایک واکنگ ٹریک جنگل کی طرف بنا ہوا تھا جو اوپر پہاڑی کی طرف جا رہا تھا ہم نے اس ٹریک پہ چلنا شروع کر دیا اور سب اس ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ باقی بہن بھائی ابو کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے چلتے جا رہے تھے جبکہ امی کی رفتار بھاری ہونے کی وجہ سے کچھ کم تھی اور میں ان سے آگے مگر ان کے قریب قریب چل رہا تھا۔ وہاں ٹریک کے ارد گرد جو چیز ہمیں حیران کر رہی تھی وہ بندروں کی موجودگی تھی جہاں بندر درختوں پہ اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ ابو لوگ ہم سے آگے آگے چل رہے تھے ہم نے پاس پانی اور دیگر سامان بھی رکھا ہوا تھا اور ہم پہاڑی پہ چڑھ رہے تھے امی بھی میرے ساتھ ماحول درختوں کی باتیں کرتی اوپر چڑھی جا رہی تھیں ان کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے ابو لوگ ہم سے کافی آگے نکل چکے تھے۔ ہم اوپر جنگل میں ایک جگہ پہنچے تو امی کچھ بے چین نظر آنے لگیں میں تھوڑی دیر تو چپ رہا لیکن پھر ان سے پوچھاکہ کیا ہوا ہے کیوں پریشان ہیں تو امی کے چہرے پہ مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بولیں ایویں شودا نا بنا کرو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے اور میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے میرے بازو پہ ہلکا سا مکا مارا اور پھر خود بولیں یار مجھے سُوسُو آیا ہے یہی سوچ رہی تھی کہ کدھر کروں یہاں تو ٹائلٹ مشکل ہی ہو اس جنگل میں۔ میں ان کی بات پہ ہنس پڑا اور کہا ارے امی یہ پورا جنگل ہی ٹائلٹ سمجھ لیں یہاں کون ہے اور رک کر پیچھے کی طرف دیکھا تو واکنگ ٹریک بالکل ویران تھا اسی طرح میں نے پھر اوپر نظر دواڑائی اور پھر دائیں بائیں دیکھا تو صرف پرندوں اور ان کی چہکار کے سوا کوئی انسان نظر نا آیا ۔ امی نے بھی میری نظر کے تعاقب میں نظریں دوڑائی اور کہا ہاں کہتے تو تم ٹھیک ہو یہاں تو کوئی نہیں ہے۔
یہاں کوئی نہیں ہے آپ ادھر سائیڈ پہ کر لیں میں یہاں کھڑا ہو جاتا ہوں میں نے امی کو تجویز پیش کی انہوں نے ایک بار پھر چاروںطرف دیکھا اور مطمئن ہو کر سائیڈ کی طرف چل پڑیں اور میں نے ان سے پشت کر لی اور دوسری طرف دیکھنے لگ گیا جدھر وہ گئی تھیں میں نے اس طرف اپنی کمر کر لی تا کہ ان پہ نظر نا پڑے۔ ابھی انہیں گئے ایک یا دو منٹ ہی ہوئے تھے کہ مجھے امی کی تیز چیخ سنائی دی ان کی چیخ سنتے ہی میں بجلی کی تیزی سے مڑا اور امی کی طرف دیکھا تو دوسری طرف ایک عجیب منظر تھا ایک موٹا تازہ بڑے قد کا بندر امی کے پیچھے تھا اور امی جھک کہ پاؤں سے شلوار اوپر کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور بندر ان کے پیچھے لگا ہوا دھکے مار رہا تھا جیسے انہیں چود رہا ہو امی چیختے ہوئے شلوار اوپرکرنے کی کوشش کر رہی تھیں میں یہ منظر دیکھ کر ان کی طرف دوڑا اور بندر کو مارنے کے لیے کوئی چیز بھی ساتھ ڈھونڈنے لگا اور ساتھ شش شش کرتا ہوا ان کی طرف بھاگا۔ بندر نے مجھے اپنی طرف بھاگتے دیکھا تو امی کے پیچھے سے ہٹ گیا اور مجھے دیکھ کر دانت نکالتا ہوا ایک طرف اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے بھاگ گیا۔ میں جلدی سے امی کے قریب پہنچا جو بندر سے جان چھوٹنے کے بعد اپنی شلوار اوپر کر رہی تھیں اور ایک بات پھر بہت مدت بعد مجھے امی کے جسم کا دیدار حاصل ہوا موٹی تازی سفید گانڈ دن کے اجالے میں اپنی بھرپور آب وتاب کے ساتھ چمک رہی تھی اور ان کے حصوں کے درمیان گئرے براون رنگ کی کھلی سی موری خود میں گزرے ہوئے لن کی داستان سنا رہی تھی اور سامنے ہی میری جائے پیدائش کہ جس کے ہونٹ بھی شدت استعمال سے موٹے ہو چکے تھے لیکن کمال کی بات یہ تھی کہ ان پہ کوئی بال نہیں تھا۔ میں نے ایک طویل نظر ان کے جسم پہ ڈالی جس وقت تک نظارہ سامنے تھا پھر امی نے جلدی سے شلوار اوپر کر لی ان کے بال بکھر چکے تھے انہوں نے میری طرف دیکھا اور شرمندہ ہوتے ہوئے اپنا حلیہ درست کرنے لگ گئیں اور بولیں پتہ نہیں یہ جنگلی کدھر سے آ گیا تھا افففف یہ کتنا گندہ جانور ہے۔ میں اس صورتحال پہ پہلے بوکھلایا ہوا تھا لیکن جب دیکھا کہ امی شرمندہ ہیں تو مجھے بھی ہمت مل گئی میں نے بھی امی کی طرف دیکھا اور کہا قصور جانور کا نہیں ہے اور اتنی بات کر کہ چپ ہو گیا۔ امی نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولیں تو؟؟ میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ساری غلطی آپ کے حسن کی ہے آپ کی خوبصورتی کی ہے کہ انسان تو فدا ہوتے ہیں جانور بھی نہیں رہ سکتے۔ بدتمیز انسان چپ کرتے ہو یا لگاؤں ایک امی نے مصنوعی غصے سے میری طرف آنکھیں نکالیں تو میں نے دل پہ ہاتھ رکھ کہ کہا اے خدا یہ بھی کیا انصاف ہے کہ بندر تو حسن کے نظارے سے جسم کی نرمی سے فیضیاب ہو کہ بھی بچ نکلا اور یہاں تعریف پہ بھی مار پڑنے والی ہے ۔ امی اس بات پہ پھر ہنس پڑیں اور بولیں بدتمیزی مت کرو تم بیوقوف اب ماروں گی لیکن ان کے غصے میں کوئی اصلیت نہ تھی بلکہ وہ بناوٹی غصہ کر رہی تھیں
ہم نے پھر آگے کی طرف چلنا شروع کر دیا اور امی میرے آگے چلنے لگیں میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا پیچھے چلتے چلتے میری نظر جب ان کی کمر اور چوتڑوں پہ پڑی تو واپس پلٹنا جیسے بھول ہی گئی درمیانی سی کمر کے نیچے اچانک انتہائی پھیلی ہوئی چوڑی گانڈ اور اس کے موٹے الگ الگ حصے ان کے پہاڑی پہ چڑھنے کی وجہ سے باہر کو ابھرے ہوئے تھے بلکہ الگ الگ نظر بھی آ رہے تھے۔ میری نظر میں ابھی کچھ لمحے پہلے کا منظر یوں واضح ہوا کہ مجھے لگنے لگا کہ امی نے شلوار ہی نہیں پہنی ہوئی ہے ۔ میں اس نظارے میں ڈوبا ہوا ان کے پیچھے چلنے لگا اور میری نگاہ مسلسل انہی پہ تھی امی نے شاہد چلتے ہوئے کوئی بات کی لیکن میں جس نظارے میں کھویا ہوا تھا وہ میرے لیے سب سے اہم تھا اور اس سے ہٹ کر مجھے کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا مجھے دنیا کی سبھی رنگینیاں امی کے وجود سے لگ رہی تھیں اور میں جسم کی کشش میں کھویا ہوا تھا۔ امی چلتے چلتے رکیں اور فورا پیچھے ہی مڑیں ان کے اس طرح پیچھے مڑنے سے میں ان کو دیکھتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گیا امی نے میری طرف دیکھا اور ماتھے پہ بل ڈالتے ہوئے بولیں اوہے مار کھانی ہے کیا مجھ سے؟؟ میں نے امی کی طرف دیکھا اور کہا اگر میری اوقات بندر سے بھی گئی گزری ہے تو بیشک مار لیں ۔ بدتمیز انسان کچھ شرم کرو کیوں خود کو بندر سے ملا رہے ہو امی نے اسی لہجے میں کہا۔ بندر تو مجھ سے اچھا ہے وہ اتنا کچھ کر بھی گیا مجھے دیکھنے پہ بھی ڈانٹ پڑ رہی ہے میں نے چہرے پہ مظلومیت طاری کرتے ہوئے کہا دیکھیں نا میری آنکھوں کے سامنے وہ کیا کچھ کر گیا اور اسے کچھ نہیں کہا جب کہ میں تو صرف ایک نظر دیکھتے ہی مجرم بن جاتا ہوں ۔۔ ہائے یہ کتنا ظلم ہے میرے ساتھ میں نے ڈرامہ کرنا شروع کر دیا
بس ڈرامہ ہی کرتے رہنا اور کچھ نا سوچنا کبھی یہ دماغ سوچنے کے لیے ہوتا ہے نا کبھی اسے استعمال بھی کیا کرو امی نے مجھے زرا تیز لہجے میں کہا۔ کیا سوچا کروں آپ ہی بتا دو نا مجھے میں نے بھی ہلکی ٹون میں کہا۔ امی نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور بولیں اپنا اور بندر کا مقابلہ تو کر رہے ہو کہ میں نے بندر کو کچھ نہیں کہا لیکن یہ بھی غور کرو کہ کیوں کچھ نہیں کہا ۔ میں نے نا سمجھنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھا تو امی نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا بندر نے مجھ سے کوئی اجازت نہیں لی تھی اور میری طرف دیکھ کر نظر جھکا لی۔ اب یہ صورتحال بہت عجیب تھی میں سوچ میں پڑ گیا کہ امی کیا کہنا چاہتی ہیں کیا میں ان سے نا پوچھا کروں؟؟ کیا مجھے سب کرنے کی اجازت دے رہی ہیں لیکن یہ وہ سوال تھے جن کا جواب میرے پاس نہیں تھا اور نا ہی میں امی سے پوچھ سکتا تھا اپنی تمام تر فرینکنس کے باوجود امی سے یہ بات پوچھنی آسان نا تھی ہلکی پھلکی چھیڑ خانی تو ہو بھی جاتی تھی اور مزاق بھی مگر اس حد تک کیا میں جا سکتا ہوں یہ مجھے یقین نہیں تھا ۔ میں نے امی کی طرف دیکھا اور سر جھکا کہ چلنے لگا امی بھی ہلکی سی مسکرا کہ چلنے لگیں اور ہماری درمیان ایک چپ سی چھا گئی۔ کچھ دیر چلنے کے بعد امی بولیں یہ بندر والی بات کسی کو نا بتانا بس اپنے تک رکھنا میں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا ۔تھوڑا ہی آگے جا کہ دیکھا تو ابو لوگ بھی کھڑے تھے اور چھوٹی بہن کو الٹیاں ہو رہی تھیں ہم جلدی سے ان کے پاس پہنچے اور امی اس کے پاس بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر میں جب اس کی طبعیت سنبھلی تو ابو نے ہوٹل چلنے کا کہا کہ سب ہوٹل چلتے ہیں تو امی نے انہیں منع کر دیا اور کہا کہ نہیں آپ بچوں کے ساتھ انجوائے کرو میں اس کو ہوٹل لے جاتی ہوں لیکن ابو امی کو اکیلے بھیجنے پہ راضی نہ ہوئے تو میں نے کہا ابو میں بھی ہوٹل چلا جاتا ہوں امی کے ساتھ اور امی کی طرف دیکھا۔ ابو یہ بات سن کہ چپ ہوئے تو امی نے بھی ان کو کہا کہ آپ انجوائے کرو میں اور عمیر چلے جاتے ہیں اس کی طبعیت سنبھلی تو پھر نکل آئیں گے ۔ اس بات پہ ابو نے اتفاق کر لیا اور ہم واپس ہوٹل کی طرف لوٹ آئے ۔ ہوٹل تک پہنچتے پہنچتے چھوٹی سو چکی تھی ہم باری باری اسے اٹھا کر ہوٹل کے کمرے میں پہنچ گئے ہم نے کمرے کی چابی لی اور کمرے میں داخل ہو کہ میں نے دروازہ بند کر دیا اور امی چھوٹی کو بیڈ پہ لیٹا کر اس کے ساتھ بیڈ پہ لیٹ گئیں
امی چھوٹی کے ساتھ بیڈ پہ لیٹ گئیں اور میں جوتے اتار کر کمرے میں سنگل صوفے پہ بیٹھ گیا ہمارے درمیان ایک چپ سی چھائی ہوئی تھی میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کا لباس بے ترتیب ہو رہا تھا اور وہ چپ لیٹی ہوئی تھیں میں بھی تھوڑی دیر چپ رہا اور پھر اٹھ کر کمرے کی کھڑکی کی طرف چلا گیا اور پردہ ہٹا کر باہر دیکھنے لگ گیا۔ ہوٹل ایک پہاڑی پہ بنا ہوا تھا اور کھڑکی کھولتے ہی ایک حسین منظر سامنے تھا اونچی اونچی پہاڑیاں درختوں اور سبزے سے ڈھکی ہوئی تھیں اور نیلے نیلے آسمان پہ ہلکے ہلکے بادل تیر رہے تھے اور انتہائی تازہ تازہ مہکی ہوا چل رہی تھی ۔ میں نے اس تازہ ہوا کو اپنے منہ پہ محسوس کیا اور گہری سانس لینے لگا۔ اسی دوران مجھے پیچھے کمرے میں ہلکی سی آواز آئی تو میں نے دیکھا کہ امی اٹھ کر باتھ کی طرف جا رہی ہیں اور ان کی قمیض ان کے بھاری چوتڑوں میں پھنسی ہوئی ہے میں نےجب دیکھا تو وہ باتھ کے دروازے سے اندر ہو رہی تھیں اور باتھ میں داخل ہوتے انہوں نے دروازے کو پیچھے دھکیل دیا لیکن انہوں نے دروازے کو کنڈی نا لگائی ۔ انہوں نے شائد یہی سوچا ہو گا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں لیکن میں نے دیکھا کہ جب انہوں نے دروازہ نہیں بند کیا تو میرے ذہن میں شرارت آ گئی ۔ میں دبے قدموں سے باتھ کی طرف بڑھا اور اس سے پہلے ایک نظر سوتی ہوئی چھوٹی بہن کو دیکھا اور پھر قدم بڑھاتا باتھ کی طرف بڑھتا گیا اور باتھ کے دروازے کو ہلکا سا پش کیا اور دروازہ نے آواز کھلتا گیا ۔ دروازے کے بالکل قریب ٹوائلٹ سیٹ تھی اور امی اس پہ بیٹھی خود کو دھو رہی تھیں ان کی پشت میری طرف تھی اور ان کی شلوار نیچے تھی اور قمیض بھی چوتڑوں سے بہت اوپر تھی اور وہ پاوں کے بل بیٹھی ہوئی تھیں ان کا منہ دوسری طرف تھا میں نے دروازہ بغیر کوئی آہٹ پیدا کیے بہت احتیاط سے کھولا تھا اور چپکے سے ان کو دیکھا لیکن میری نظر پڑتے ہی وہ میری طرف دیکھے بغیر بولیں سچ ہی کہا تھا کسی سائنسدان نے کہ انسان پہلے بندر تھا اور بندر سے انسان بنا لیکن تم انسان سے اب بندر والی حرکت کر رہے ہو بدتمیز اور یہ بھول گئے کہ میں تمہاری ماں ہوں ۔ میں یہی سمجھ رہا تھا کہ ان کو میرے دیکھنے کا علم نہیں ہو گا لیکن اس بات نے میرا ذہن فورا بدلا دیا اور میں نے دیکھا کہ ان کی بات میں غصہ نہیں ہے تو میرا بھی ڈر ختم ہو گیا۔ میں نے بھی وہیں کھڑے کھڑے ان کے ننگے بدن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے کوئی افسوس نہیں ہے نا ہی شرم ہے جس چیز کو دیکھ کر جانور نا صبر کر سکیں تو میں کیسے کروں۔ امی نے اوپر اٹھتے ہوئے کہا یہی تو فرق ہوتا ہے ایک انسان اور جانور میں کہ انسان خود کو قابو میں رکھے اور وہ اوپر اٹھیں اور پھر نیچے جھک کہ اپنی شلوار کو اوپر کرنے لگیں اور انہوں نے اپنی گانڈ ساری میری طرف موڑ کر ہاتھ نیچے شلوار کی طرف کئیے تو ان کی گول موٹی گانڈ ان کے جھکنے سے اس طرح کھلی کہ گانڈ کے سوراخ کے ساتھ مجھے ان کی پھدی کا بھی اچھے سے دیدار ہو گیا ۔ امی نے جب شلوار اوپر کرنے میں تاخیر کی تو میں کچھ سمجھتے کچھ نا سمجھتے ہوئے اندر داخل ہو گیا امی نے میرے قدموں کی چاپ سن کر میری طرف مڑ کہ دیکھا تو ان کے چہرے پہ شرم کے تاثرات تھے لیکن یہ بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ شلوار پوری اوپر کیوں نہیں کر رہی ہیں انہوں نے شلوار ایسے اوپر کر کہ چھوڑ دی تھی کہ ان کی گانڈ کی ادھ ننگی پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں وہ میری طرف مڑیں تو ان کے سینے پہ میری نظر پڑی جو کہ ادھے سے زیادہ گلے سے باہر جھانک رہے تھے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئین اور میری کنپٹیاں سلگنے لگیں
امی نے میری طرف دیکھا اور بولیں مجھ میں اور کلثوم میں فرق ہے اور ہمارا کوئی رشتہ بھی ہے یہ بات ہم دونوں اگر یاد رکھیں تو فائدے کی ہے لیکن یہ بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پہ کوئی غصہ نہیں تھا۔ کلثوم آنٹی کے حوالہ سے مجھے ایک دم شرمندگی سی محسوس ہوئی اور میری آنکھیں ایک لمحے کو جھک گئیں اور مجھے تھوڑی چپ سی لگ گئی۔ میں نے کچھ پلان تو کیا ہوا نہیں تھا بس وقت کے ساتھ ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا اسے گزار رہا تھا ہم باتھ میں اتنے قریب کھڑے تھے کہ مجھے امی کی بدن کی مہک محسوس ہو رہی تھی۔ امی نے پھر بات شروع کی اور بولیں ۔ دیکھ عمیر میں جانتی ہوں تم جوان ہو چکے ہو اور یہ بھی سمجھتی ہوں کہ جوانی کے بہت تقاضے ہوتے ہیں لیکن ہم پہ بھی کچھ زمہ داریاں ہوتی ہیں میں تمہاری ابھی شادی کرا سکتی ہوں جہاں تم چاہو گے وہیں پہ لیکن اس کے لیے تمہیں خود پہ قابو رکھنا ہو گا اوراب تم بچے تو ہو نہیں کہ یہ باتیں نا سمجھ سکو میں ایک دوست بن کہ تمہارا ساتھ تو دے سکتی ہوں لیکن ہم کچھ حدود کے پابند بھی تو ہیں جہاں ہمیں اس رشتے کی لاج رکھنی ہے میں سر جھکائے ان کی باتیں سن رہا تھا اور میرے دل میں جو امیدوں کے چراغ تھے ایک ایک کر کہ بجھتے جا رہے تھے کبھی مجھے لگتا تھا امی مجھے اپنا آپ سونپ دیں گی اور اگلے ہی لمحے وہ مجھ سے ہزاروں میل دور ہو جاتیں تھیں۔ زبانی کلامی یہ باتیں سوچنا تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی خونی رشتے سے جسمانی تعلق بنا لینا ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے جس کے لیے تو سالوں گزر جاتے ہیں ۔ میں نے امی کی طرف دیکھا تو شائد میرے چہرے پہ لکھی ہوئی مجبوری واضح نظر آ رہی تھی میں نے ایک طرح ٹوٹے دل سے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ عجیب سی مسکراہٹ تھی امی واش بیسن کی طرف مڑیں اور جھک کر منہ دھونے لگیں ۔ میں نے ایک نظر امی کے پیچھے سے جھانک کر امی کا چہرہ شیشے میں دیکھا تو وہ منہ پہ صابن لگا رہی تھیں ان کی قمیض چوتڑوں سے ہٹی ہوئی اور چوتڑ بھی ادھے ننگے تھے اور میں اب ان کے پیچھے کھڑا تھا ۔ میں نے جب دیکھا کہ امی منہ پہ صابن لگا رہی ہیں تو میں فورا پاوں کے بل امی کے پیچھے نیچے بیٹھا اور ان کی شلوار کو پکڑ کر ان کے گھٹنوں تک اتار دیا اور ان کے بھاری چوتڑ سائیڈوں سے پکڑ کر اپنا منہ ان پہ رگڑنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی میں نے ان کی شلوار اتاری ان کے منہ سے بے ساختہ ہلکی سی چیخ نکلی اور بولیں اوئے بدتمیز ابھی اتنا کچھ سمجھایا تھا مگر تمہیں کوئی اثر نہیں ہے لیکن یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا آپ مجھ سے چھڑانے کی کوئی کوشش نہ کی اور ہاتھ آگے واش بیسن پہ رکھ کہ جھک گئین میں نے اپنا منہ ان کے چوتڑوں کے ساتھ رگڑتے ہوئے کہا بس امی جتنی دیر آپ منہ دھو رہی ہیں اتنی دیر دیکھنے دو پلیز ۔۔ میری سانس اکھڑ چکی تھی اور جزبات کی شدت سے میں ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔ انہوں نے کچھ بولے بغیر اپنا منہ دھونا شروع کر دیا میں نے اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹانگوں کے درمیاں سے گزارتےہوئے ان کی پھدی کے موٹے ہونٹوں پہ رکھ دیا اور وہاں رگڑنے لگا جو کہ گیلی ہوئی تھی امی کے جسم کو ایک جھٹکا لگا مگر وہ کچھ نا بولیں اور اپنا منہ دھونے میں مصروف رہیں میں نے بھی نیچے سے ہاتھ گھسا کہ ان کی پھدی کو ہاتھ سے مسلنے کے عمل کو تیز کر دیا اور ان کی موٹی گوری گانڈ کو چومتا اور دانتوں سے ہلکا ہلکا کاٹنے لگ گیا
میں نے امی کے چوتڑوں پہ ہلکا ہلکا کاٹنا شروع کیا تو امی کے منہ سے سسکی نکلی اور انہوں نے جسم کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور بولیں اوئے کنجر اب اس عمر میں ماں کو طلاق دلوایا گا کمینے ۔۔مجھے ان کی یہ بات بالکل سمجھ نہ آئی میں نے پھر ہلکا سا کاٹا اور چومتا گیا وہ پھر بولیں عمیر بیٹا کاٹو نہیں نا دانت کے نشان پڑ جائیں گے اور تیرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دینا ہے مجھے پھر ان کی اس بات کی سمجھ آئی اور مین ان کی کمر کو پکڑے چوم رہا تھا کہ وہ سیدھی ہو گئین اور اپنی شلوار کھینچ کر اوپر کر لی اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ مجھے دیکھنے لگیں میری حالت یوں ہو گئی جیسے بچے سے اس کا من پسند کھلونا چھین لیا گیا ہو میں نے اسی طرح پاؤں کے بل بیٹھے ان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی مجھے اپنی طرف دیکھتا ہوا پا کر وہ بولیں گندہ بچہ ماں اور رکھیل کے فرق کو ہی بھول گیا ہے بدتمیز انسان ۔ امی آپ میری رکھیل کیسے ہو سکتی ہو میں نے اس طرح ظاہر کیا کہ مجھے ان کی بات بری لگی ہو اور واقعی مجھے ان کی بات بہت بری لگی تھی مجھ میں ان کے لیے ہوس یا پیار تو تھا لیکن اس گندے الفاظ کے ساتھ تو بالکل بھی نہین ۔ میرے ردعمل پہ وہ ہنس کہ بولیں یہ گندے کام کوئی اپنی ہی ماں سے کرتا ہے جو جناب کر رہے ہیں اور شرما بھی نہیں رہے بدتمیز۔ میں اوپر اٹھا اور اپنے بازو ان کے کندھوں پہ رکھ دیئے اور ان کی آنکھوں میں دیکھنے لگا ان کی بڑی بڑی جھیل سی آنکھوں میں محبت اور ممتا کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا ان کے موٹے موٹی سرخ ہونٹ اور پھولے ہوئے گلابی گال بہت ہی پیارے لگ رہے تھے ۔ میں نے آگے ہو کر ان کے گال پہ پیار دینے کی کوشش کی تو وہ چہرہ پیچھے کرتے ہوئے ہنستی ہوئی بولیں گندے ابھی بنڈ چاٹ رہے تھے ابھی وہی ہونٹ میرے چہرے پہ مت لگاو بدتمیز اور ہنسنے لگ گئیں ۔ میں بھی تھوڑا شرمسار ہوا اور ان کو چھوڑ دیا اور واش بیسن کے پاس جا کہ منہ دھعنے اور کلی کرنے لگ گیا وہ بھی باتھ میں کھڑی مجھے دیکھتی رہیں جب میں منہ دھو کر فارغ ہوا اور ان کی طرف دیکھا تو وہ وہیں خاموش کھڑی تھیں اور میری جانب دیکھ رہی تھیں میں نے بھی ان کی طرف دیکھا اور ان کے قریب ہونے لگا انہوں نے مجھے پاس آتا دیکھا اور بھاگ کر کمرے میں چلی گئیں ان کے اس طرح بھاگنے سے ان کے گداز وجود میں جو ہلچل ہوئی اس نے میرے سارے وجود کو ایک تازگی کا احساس دے دیا اور میں بھی ان کے پیچھے چلتا ہوا کمرے میں آ گیا۔ وہ صوفے پہ گرنے کے انداز میں بیٹھ گئیں اور ایک انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں اوئے بدتمیز خبردار میرے قریب نا آنا لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ ان کے چہرے پہ غصے کا نام و نشان تک نا تھا
میں ان کی طرف دیکھتے ان کی طرف بڑھتا گیا اور ان کی بات کا کوئی جواب نا دیا مجھے اپنے طرف بڑھتا دیکھ کر وہ پھر بولیں اوئے بے شرم میں نے تجھے منع کیا ہے مجھ سے دور رہو ورنہ میں ماروں گی انہوں نے پھر انگلی میری طرف کرتے ہوئے تنبہیہ کی لیکن میں ان کی طرف بڑھتا گیا انہوں نے جب دیکھ کہ میں ان کی طرف مسلسل بڑھا چلا جا رہا ہوں تو وہ صوفے پہ پاوں اوپر کر کہ کھڑی ہو گئیں اور صوفے کا چھوٹا کشن ہاتھ میں اٹھا لیا اور دھمکی بھرے انداز میں بولیں بدتمیز اب مجھ سے مار کھائے گا جو مجھے ہاتھ لگایا تو ۔ لیکن مجھے ان کا غصہ بناوٹی لگ رہا تھا تو میں ان کی طرف بڑھتا گیا اور ان کے قریب پہنچ کر ان کی طرف دیکھا وہ صوفے پہ کھڑی تھیں اس لیے وہ مجھ سے کافی اونچی لگ رہی تھیں میں نے آنکھیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور اپنے بازو وا کرتے ہوئے ان کی گانڈ کے گرد لپیٹ لیے میری کوشش تو کمر سے پکڑنے کی تھی لیکن کیونکہ وہ صوفے پہ تھیں تو میرے ہاتھ ان کی گانڈ کے گرد کس گئے اور میرا منہ سیدھا ان کےمموں کے درمیان لگ گیا میں نے اپنا منہ مموں کے درمیان رکھتے ہی ان کے مموں کو چومنا شروع کر دیا اور زبان درمیانی جگہ پہ رکھ کہ پھیری اور پھر ایک مما قمیض کے اوپر سے منہ میں لینے کی کوشش کی جیسے ہی میں نے ان کا مما منہ میں لیا وہ اچھل پڑین اور بولی گدھے اس عمر مین اب ماں کا طلاق دلوا کے رہے گا کیوں میرے کپڑے خراب کر رہا ہے اس سے تمہارے باپ کو ایک دم شک ہو جانا ہے ۔ سچ تو یہ کہ میں ہوش سے بیگانہ ہو چکا تھا اور اگر ہوش ہوتا بھی تو یہ باریکیاں ایک جوان ہوتے بچے کی پہنچ سے بہت باہر کی بات تھی تو میں نے منہ پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا امی تو قمیض اتار دو پھر خراب نہیں ہو گی نا اور ان کی آنکھ میں دیکھا تو انہوں نے ہاتھ میں سے کشن پھینکا اور بولی توبہ بدتمیزی کی بھی انتہا ہو گئی ہے امی بھی کہتے ہو اور ڈیمانڈ بھی دیکھو اپنی او لڑکے کچھ تو حیا کر لے ۔ میں نے کہا اب میرا اور کون ہے میں سبھی فرمائشیں آپ سے نا کروں اور کس سے کرون یہ کہتے ہوئے میں نے ایک ہاتھ سے ان کی موٹی گانڈ کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ظاہر ہے بہت موٹی تھی اس کوشش میں ناکسمی کے بعد میں نے ہاتھ کو ان کی گانڈ کی دراڑ میں گھسایا اور منہ اوپر کر کہ ممے کو پھر منہ میں لینے کی کوشش کی انہون نے پھر اپنا مما میرے منہ سے چھڑا لیا اور بولیں بدتمیز سمجھا کرو نا کپڑے خراب ہو رہے ہیں ان کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے ان کی قمیض کا دامن اوپر کرناچاہا لیکن انہوں نے ہاتھ آگے کر کہ میری اس کوشش کو ناکام کر دیا اور بولیں عمیر بیٹا نہیں تمہارے ابو کسی بھی وقت آ سکتے ہیں اور پھر یہ چھوٹی بھی سوئی ہے یہ بھی اٹھ گئی تو مسئلہ بن سکتا ہے پلیز حد پار مت کرو ان کے لہجے میں لاچاری تھی ۔ میں نے امی کی طرف دیکھ کر کہا جتنی دیر آپ روکنے میں لگا رہی ہیں اتنی دیر میں تو میں دیکھ بھی لیتا ۔ میری یہ بات سن کر انہوں نے ایک ہاتھ اپنے منہ پہ رکھ لیا اور بولیں ہائے او ربا یہ لڑکا تو انتہائی گندہ ہو گیا ہے اس نے تو شرم و حیا ہی اتار کہ رکھ دی ہے میں نے ایک بار پھر ان کو گانڈ کے زرا نیچے سے بازو ڈال کر پکڑا اور اٹھانے کی کوشش کی انہوں نے توازن بگڑتے ہی میرے کندھوں پہ ہاتھ رکھ لیے اور بولیں اوئے بدتمیز کچھ حیا کر میرے بازو ان کی گانڈ کے گرد تھے اور ممے منہ پہ رگڑ کھا رہے تھے میں نے ان کو صوفے سے اٹھایا اور نیچے اس طرح چھوڑا کہ ان کی قمیض کا اگلا پچھلا دامن اوپر اٹھتا ان کے پیٹ اور کمر تک پہنچا اور میں نے بجلی کی تیزی سے ان کے دامن پکڑے اور ان کو اوپر اٹھانے کی کوشش کی مگر امی نے بازو اوپر نا کیے اور پھر بولیں عمیر بچے یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے بہت غلط ہے پلیز رک جاو لیکن میں کیسے رکتا اس وقت تو مجھے یہی لگا اب کچھ نا کیا تو ساری عمر کچھ نہیں ملے گا
میرے مما پکڑنے اور پیار کرنے سے امی نے ایک سسکی بھری اور میرے سے چپک گئیں نیچے میرے لن نے بھی ان کی ران سے گلے ملتے ان کو سلامی پیش کی میرا لن جیسے ان کی ران سے ٹکرایا انہوں نے ایک جھٹکے سے اپنی ران پیچھے کی میں ان کے گال ہونٹوں کے درمیان بھر کہ باری باری چوس رہا تھا اور ایک ہاتھ سے انکا مما باری باری دباتا جا رہا تھا امی کی آنکھیں بند تھیں ۔ انہوں نے اپنا ایک ہاتھ غیر محسوس انداز میں نیچے کیا اور میرے لن کو ہاتھ سے ٹٹول کر پکڑا انہوں نے جیسے ہی میرے لن کو ہاتھ میں پکڑا تو میرے ساتھ ساتھ ان کے جسم کو بھی ایک جھٹکا لگا اور انہوں نے پکڑتے ہی میرے لن کو چھوڑ دیا لیکن مزے کی اس لہر نے میرے سارے وجود کو جکڑ لیا مجھے بے انتہا مزہ ملا تھا۔ میں نے ان کے گال چومتے ان کے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کی مگر انہوں نے اپنے ہونٹ آپس میں جوڑ کر سختی سے بند کر لیے لیکن میں نے ہونٹوں کے اوپر اپنے ہونٹ رکھ کر چوسنے شروع کر دئیے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن کی طرف کرنے کی کوشش کی جیسے ہی ان کا ہاتھ میرے لن سے ٹکرایا انہوں نے اپنا ہاتھ مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی تا کہ میرا لن اس سے ٹچ نا ہو۔ ان کی حالت عجیب تھی وہ مجھے کچھ کرنے بھی نہین دے رہی تھیں مگر مجھے اس طرح روک بھی نہیں رہی تھیں مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ چاہتی کیا ہیں مگر میں یہ سوچنے کے بجائے جو مل رہا ہے اس سے لطف لو کی تھیوری پہ عمل پیرا ان کے ہونٹ چوستا جا رہا تھا اور ان کے ممے مسل رہا تھا ان کے جسم پہ شلوار اور برا تھی اور میں بھی مکمل لباس میں تھا اور مجھے جو مسئلہ درپیش تھا وہ لباس سے چھٹکارہ پانے کا تھا مجھے یہ خطرہ تھا کہ ایسا نا ہو وہ بے لباس ہونے سے منع کر دیں اور مجھے جو مل رہا ہے اس سے بھی جاؤں لیکن وہ کہتے ہیں کہ انسان زیادہ سے زیادہ کی طلب کرتا ہے تو میں نے بھی ان کے ہونٹ اور گال چومتے چومتے دونوں ہاتھ ان کی سائیڈز سے شلوار کو پکڑا اور ایک دم نیچے بیٹھتے ہوئے شلوار کو نیچے کرتا گیا اس طرح نیچے ہوتے ہوئے میں ان کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتا گیا اور ان کی گوری سڈول رانیں اور بالوں سے صاف ستھری پھولی ہوئی پھدی دیکھ کر میں اپنے ہواس کھو بیٹھا اور پھدی کو سامنے پا کر میں نے اپنے ہونٹ پھدی کے ہونٹوں سے ملا دئیے۔ امی ابھی شلوار اترنے کے حملے سے نہیں سنبھلی تھیں اوپر سے اس وار نے تو ان کو چاروں شانے چت کر دیا ان کے منہ سے تیز سسکی نکلی اور انہوں نے میرا سر اپنی ٹانگوں میں دباتے ہوئے کہا افففف عمیر یہ کیا کر رہا ہے گندے پیچھے ہٹو لیکن ان کے ہاتھ میرے سر کو اپنی ٹانگوں کے درمیان دبا رہے تھے اور میں ان کی پھدی سے ہونٹ جوڑے یہ سوچ رہا تھا ان کی کس بات پہ یقین کروں اب جو اوپر والے ہونٹوں سے کہہ رہی ہیں یا جو نیچے والے لب بول رہے ہیں
وہ سامنے کھڑی تھیں اور میں ان کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا ان کی پھدی کے اوپر حصے پہ پیار کیے جا رہا تھا اور یہ مجھ سمجھ آ گئی تھی کہ یہاں سے جڑے رہنے سے ہی کچھ ملنے کی امید ہے کیونکہ ان کا ری ایکشن پہلی بار ساتھ دینے والا بن رہا تھا اور وہ میرا سر اپنی ٹانگوں میں دبا رہی تھیں میں نے ہاتھ ان کی گانڈ کی گرد کستے ہوئے ان کی پھدی کے اوپری حصے کو چومنا اور زبان سے چاٹنا شروع کر دیا اور ایک ہاتھ سے ان کی گانڈ کے ایک حصے کو کھولتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے گانڈ کی گلی کے درمیانی حصہ کو ٹٹولنے لگ گیا امی کے منہ سے اففففف ہائےےےے اففف عمیرررررررر نہینننننن کی آوازیں نکل رہی تھیں اور وہ میرے سر کو اپنی ٹانگوں میں دبا رہی تھیں مجھے ان کی پھدی کے اوپری حصے کو چومتے اور ان کی گانڈ سے کھیلتے دو سے تین منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ امی کی سسکیوں اور آہوں کے درمیان ان کی لرزتی ہوئی آواز آئی عمیررررر پلیز مجھے بیڈ پہ بیٹھنے دو میری ٹانگوں سے جان نکل رہی ہے میں نے ان کی پھدی کو چومتے ہوئے ان کی شلوار کو پکڑا اور ان کے پاوں اوپر اٹھاتے ہوئے شلوار کو ان کے پاؤں سے نکال باہر کیا اور ان کی رانوں اور پھر پیٹ پہ پیار کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے ان کی کمر کے گرد بازو ڈال کر انہیں دیکھا۔ میری پیاری امی کےمنہ پہ پسینہ چمک رہا تھا اور ان کی پلکیں اور ہونٹ لرز رہے تھے ان کا چہرہ گلابی ہو رہا تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے ہی انہوں نے زیر لب کہا گندہ بدتمیز اور پھر شرما کہ آنکھیں بند کر لیں میں نے امی کو اسی طرح پکڑے بیڈ کے قریب کیا اور انہیں کہا کہ بیڈ پہ بیٹھ جائین اور ان کو چھوڑ دیا امی گرنے والے انداز میں بیڈ پہ بیٹھیں اور پھر بیڈ پہ لیٹتی چلی گئیں کہ ان کی گانڈ بیڈ کے کونے پہ تھی لیکن اوپری حصہ سارا بیڈ پہ اور ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں امی نے گہرے گہرے سانس لینا شروع کر دئیے اور سانس کے ساتھ ہی ان کے موٹے ممے اوپر نیچے ہونے لگےمیں نے اپنا لباس جلدی سے اتارا اور ننگا ہوتے ہی ان کے اوپر چڑھ گیا جیسے ہی امی نے مجھے اپنے اوپر محسوس کیا ان کے جسم کو ہلکا سا جھٹکا لگا اور وہ بولیں عمیر پلیز اپنی حد مت پار کرنا ایک حد میں ہی رہنا ۔ مجھے ان کی بات پہ ہنسی تو بہت ہوئی لیکن میں نے فرمانبرداری سے کہا اچھا امی بس تھوڑا ساپیار اور کرنا ہے اور یہ کہتے ہوئے ان کے مموں کے اوپری حصے پہ پیار دیا اور ساتھ ایک ہاتھ سے ان کے چہرے کو سہلانے لگا امی کے جسم پہ ایک برا تھی اور میرا سارا جسم ننگا تھا میں نے ہاتھ سے برا کو پکڑکر اوپر کیا تو مجھے یقین تھا وہ اوپر نہیں ہو گی لیکن مجھے حیرت کا جھٹکا لگا کہ برا ایک دم اترتی چلی گئی اور میں ایک لمحے کو حیران ہوا کہ اس کے ہک کیسے کھلے لیکن وقت کا تقاضا تھا کہ اسے حیرت میں ضائع نا کیا جائے تو میں نے ایک نظر مموں پہ ڈالی جو گنبد کی طرح امی کے سڈول پیٹ پہ اکڑے ہوئے تھے اور ان کے درمیان نپل پوری طرح اکڑے ہوئے تھے میں نے بھوکوں کی طرح جھپٹ کر ان کے ممے کی ایک نپل کو منہ میں بھرا تو امی نے ایک زوردار سسکی بھری اور بولیں عمیر پلیز کوئی نشان نا ڈالنا میرے جسم پہ فورا نشان پڑ جاتے ہیں اور میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں میں نے ان کی بات کا جواب نا دیا اور مما اسی طرح چوستا گیا وہ پھر بولیں بدتمیز میں کہیں بھاگی تو نہیں جا رہی آرام سے کرو ان کی اس بات نے مجھے حوصلہ دیا کہ اب معاملات کسی حد تک قابو میں آ چکے ہیں میں نے مما منہ سے باہر نکالا اور ان کے چہرے کی طرف دیکھا جو کہ سرخ ہو رہا تھا اور انہوں نے نچلے ہونٹ کو دانتوں کے نیچے دبا رکھا تھا مجھے اپنی طرف دیکھتے وہ شرما گئیں اور بولیں بدتمیز کچھ تو حیا کر لو تمہاری ماں ہوں میں ۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا امی یہ شرم ہی تو کر رہا ہوں ساتھ ہی میں نے اپنے لن کو جو ان کی نرم رانوں کے درمیان دھنسا ہوا تھا ہلکا سا دھکا لگایا کیونکہ وہ بیڈ کے کونے پہ تھیں اور ان کی ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں اور میں ان کے اوپر تھا تو وہ مجھے بولیں عمیر میں تھک گئی ہوں اس طرح اور مجھے بھی احساس ہوا کہ وہ آرام دہ پوزیشن میں نہیں ہیں تو میں ان کے اوپر سے کھسکتا ہوا نیچے ہوا اور ان کے کچھ کرنے سے پہلے ان کی دونوں ٹانگیں پنڈلیوں کے پاس سے پکڑ کر اوپر اٹھائیں اور ان کے گھٹنے فولڈ ہوتے ہوئے ان کے پیٹ سے لگے اور امی کے منہ سے نکلا اوئے بدتمیز بیغرت یہ کیا کر رہا ہے ۔ ان کی ٹانگیں اوپر ہوتے ہی ان کی رسیلی پھدی کا دلکش نظارہ میرے سامنے آیا اور ان کے دونوں سوراخ کھل کر سامنے آ گئے میں نے ان کی بات کا جواب دئیے بغیر اپنا منہ بجلی کی سی تیزی سے نیچے کیا اور ان کی پھدی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر کہ چوسنے لگ گیا امی کے منہ سے ایک زوردار سسسسسی پورے کمرے میں گونجی اور ان کا جسم لرز اٹھا میں نے اس ردعمل کو دیکھتےہوئے ان کی پھدی کے چوسنے کو تیز تر کر دیا اور پھدی کے ہونٹ چوستے چوستے زبان باہر نکالی اور پھدی کے ہونٹ پہ پھیری امی کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا اور ان کی گانڈ اور اوپر اٹھ گئی میں نے زبان پھدی کے دونون ہونٹوں پہ رگڑی اور پھر زبان کو گانڈ کے سوراخ پہ پھیرا جدھر سوراخ کا دہانہ تھا اس پہ زبان کو زور سے پھیرتے ہوئے پھدی کے سوراخ تک لایا امی کا جسم زور سے کانپا اور انہوں نے گانڈ کو اور اوپر اٹھا دیا اور سسکتے ہوئے بولیں عمیر یہ کیا کر رہا ہے گندے بچے کدھر زبان گھسا رہا ہے یہاں سے کیا پیار کر رہا ہے ایسا مت کر ۔ لیکن ان کا جسم یوں ردعمل دے رہا تھا کہ ان کو بہت مزہ مل رہا ہے۔
میں نے زبان باہر نکالتے ہوئے اسے تھوڑا گول کیا اور امی کی پھدی کے سوراخ پہ رکھتے ہوئے اندر دھکیلا تو زبان پھسلتی ہوئی ان کی پھدی میں اترتی گئی اور ان کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا اور وہ کانپ اور لرز اٹھیں اور لرزتی آواز میں بولیں اففف گندے یہ کیا کر رہے ہو میری جان نکل جائے گی اور ان کے ہاتھ میرے سر کے پیچھے سے مجھے اپنی پھدی پہ دباتے گئے اور ان کی ٹانگیں اور اوپر اٹھتی گئیں اور ان کا جسم کمان کی طرح مڑتا گیا میں نے ہاتھ ان کی گانڈ کی سائیدزپہ رکھے اور ان کی پھدی میں زبان کو اندر باہر کرتا گیا میری ناک ان کی پھدی کے اوپری حصے سے لگتی اور ٹھوڑی ان کی گانڈ کی موری پہ لگتی اور زبان پھدی کے لبعں سے رگڑ کھاتی ان کے اندر گھس جاتی ان کی پھدی گیلی ہو رہی تھی اور مجھے اس کا بہت مزہ آ رہا تھا میں نے جب دیکھا کہ امی اس کو بہت انجوائے کر رہی ہیں تو میں اور تیزی سے زبان کو حرکت دینے لگا اور ان کی پھدی کو چاٹنے لگا اور زبان کو پھدی کے اندر سے باہر نکالتا اور پھر پھدی کے ہونٹوں پہ پھیرتے ہوئے پھر پھدی میں گھسا دیتا اسی طرح کرتے میں نے زبان کو باہر نکالا اور پھر گانڈ کے سوراخ کے دھانے پہ رکھ کہ زبان کو دبایا تو زبان کی نوک گانڈ کی موری کو کھولتی ہوئی تھوڑی سی اندر گئی امی نے جیسے ہی زبان کو اپنی گانڈ کی موری میں اترتے محسوس کیا تو ان کے بھاری وجود میں ایک بھونچال آ گیا اور وہ زور سے بولیں افففف عمیر گندے بدتمیز ادھر تو زبان نا ڈال اب گندے۔ میں نے زبان کو اور زور سے ان کی موری میں گھسیڑنے کی کوشش جاری رکھی اور ان کی بات کا کوئی جواب نا دیا ۔ میں نے گانڈ کو چاٹتے ہوئے پھر پھدی پہ حملہ کیا اور چاٹنے لگا امی نے اب اپنی ٹانگیں خود اٹھا رکھی تھیں اور وہ مجھے کسی کام سے نہیں روک رہی تھیں میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور وہ پسینے سے بری طرح بھیگ چکی تھیں ۔ میں پھدی چوستے چوستے ان کے پیٹ کی طرف بڑھا اور اس پہ پیار کرتے کرتے ان کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھیں بند تھیں میں نے اپنا لن ان کی پھدی پہ رکھا اور امی کے پاوں کو اپنے چہرے کے قریب کیا اور پاوں کے تلوے چاٹنے لگ گیا امی مدہوش ہو چکی تھیں میں نے اپنا لن ان کی پھدی پہ رکھا اور امی کے چہرے کی طرف دیکھ کر پھدی پہ لن کا دباو ایک دم بڑھا دیا اور میرا لن ان کی گیلی پھدی کی دیواریں کھولتا ہوا آدھے سے زیادہ اندر دھنس گیا امی کا جسم ایک دم لرزا اور ان کے منہ سے نہیں کی چیخ نکلی اور انہوں نے تڑپ کر میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کی لیکن ان کی ٹانگیں میرے ہاتھ میں تھیں اور ان کے چوتڑ بیڈ کے کونے پہ تھے ان کو اس کوشش میں کوئی کامیابی نا ملی
امی کی آنکھیں پوری طرح کھل گئیں ان کے چہرے پہ درد اور کرب کے تاثرات تھے اور انہوں نے میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا اور کپکپاتی آواز میں بولیں عمیر بہت غلط ہو گیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا پلیز اسے باہر نکال لو میں ماں ہوں تمہاری ۔ ان کی بات سن کہ میں نے صورتحال کا جائزہ لیا تو وہ اگر چاہتیں تو میرے نیچے سے نکل بھی سکتی تھیں لیکن انہوں نے لن اندر جاتے ہوئے مزاحمت تو کی تھی لیکن اب ان کی پھدی مجھے اپنے لن کے گرد کھلتی اور بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی اور ان کے ہاتھ بھی میرے کندھوں پہ تھے جب کہ ان کے چہرے سے تھوڑی پشیمانی جھلک رہی تھی میں نے ان کی بات سن کر لن کو تھوڑا پیچھے کھینچا جس سے ان کی پھدی کی دیواروں سے لن رگڑ کھاتا ہوا باہر کی طرف نکلا اس سے پہلے کہ لن کی ٹوپی باہر نکلتی میں نے پھر ایک زوردار دھکا لگا کہ لن ان کی پھدی میں اتار دیا میرا یہ دھکا لگنے سے ان کے ممے اوپر کی طرف اچھل کر واپس جگہ پہ آئے اور ان کے منہ سے بھی ہلکی سی سسکی نکلی میں نے مموں کی اچھل کود کے نظارے کو بہت انجوائے کیا اور پھر ایک دھکا لگایا ممے پھر اسی طرح اچھلے تو مجھے بہت مزہ آنے لگا میں نے پھر دھکوں کی سپیڈ تیز کرنا شروع کر دی اور ہر دھکے پہ ممے اچھلتے جاتے مجھے یہ منظر اتنا دلکش لگا کہ میں کچھ بولے بغیر ان کے مموں کو دیکھتے جھٹکے لگانے لگا امی ہلکی ہلکی سسک رہی تھیں اور ان کے ممے ہر دھکے پہ اچھلتے جا رہے تھے مجھے سرور کی ایک نئی منزل مل چکی تھی جس کی مجھے کوئی توقع نہ تھی اور برسوں پہلے امی کے جسم سے لزت کشید کرنے کا خواب اب جا کر شرمندہ تعبیر ہوا تھا سچ کہتے ہیں کہ لگن سچی ہو تو منزلیں خود قدم چومتی ہیں یہ الگ بات کہ لن کی لگن کو یہاں پھدی چوسے جا رہی تھی اور ماں بیٹا ایک نئے رشتے کے بندھن میں جکڑے جا چکے تھے لزتوں کی ایک انوکھی منزل تھی جس نے میری روح تک کو سرشار کر دیا تھا کلثوم آنٹی کے ساتھ جو مزہ ملا تھا وہ مجھے اس مزے کے مقابلے کچھ نہیں لگ رہا تھا یہ تو شائد روح کی تکمیل تھی ادھر امی کی سسکیاں تیز ہو چکی تھی ان کے گھٹنے فولڈ ہو کر ان کے پیٹ سے لگے ہوئے تھے اور میں کی پھدی میں لن گھسائے انہیں چودتا جا رہا تھا شائد اس چودائی کو پانچ منٹ گزرے یا اس سے بھی زیادہ کہ مجھے یوں لگا میرے جسم جا سارا خون سمٹ کر میری ٹانگوں کے درمیان جا رہا ہے ابھی میں اس سرور کو سوچ ہی رہا تھا کہ امی کے منہ سے کچھ بے معنی غراہٹین نکلنے لگیں اور انہوں نے مجھے اپنی ٹانگوں میں کس لیا اور بازو میرے گلے میں ڈالتے ہوئے مجھے اپنے اوپر دبوچ لیا ادھر میری بھی بس ہو گئی اور میں بھی ایک جھٹکا لگاتے ہوئے ان کی پھدی میں فارغ ہوتا گیا
میں فارغ ہوتے ہی امی پہ گرتا گیا اور ان کا جسم بھی ڈھیلا پڑتا گیا مجھے لن کے ارد گرد ان کی پھدی کی چکناہٹ واضح محسوس ہو رہی تھی میں نے امی کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہاں ایک شرمیلی سی آسودگی رقص کر رہی تھی اور ان کی بند آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں ۔ میں نے چھوٹی بہن کی طرف دیکھا تو وہ سو رہی تھی میں ابھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ امی بولیں بڑی جلدی خیال آیا ہے کہ کوئی اور بھی اس کمرےمیں ہے اگر وہ دیکھ لیتی تو ۔ان کی آنکھیں بند ہی تھیں اور سانس نارمل انداز سے چل رہی تھی میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھی نہیں یاد رہا نا اور اگر دیکھ بھی لیتی تو یہی سمجھتی کہ میں آپ سے پیار کر رہا ہوں اور اس میں کوئی جھوٹ تو نہیں ہے ۔ امی نے شرمیلی مسکان سے کہا بدتمیز بس باتیں ہی بناتے ہو چلو اب نیچے اترو میں نہا لوں تمہارے ابا بھی آتے ہوں گے میرا لن ابھی ان کی پھدی میں تھا اور آہستہ سے سکڑ رہا تھا۔ میں نے ان کے چہرے کو ہاتھ میں تھام کر کہا کیا اب بھی آپ یہی کہو گی کہ مجھے کچھ نہیں آتا؟ امی نے میری طرف دیکھا اور ہنستے ہوئے بولیں بدتمیز کنجر زیادہ باتیں نا کرو اور نیچے اترو اب گدھے کہیں کے۔ میں بھی ہنس پڑا اور ہاتھ آگے بڑھا کر ان کے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلکا سا دبا دیا اور ان کے اوپر سے نیچے اترنے کے لیے لن کو ان کی پھدی سےباہر کھینچا جیسے ہی میرا لن ان کی پھدی سے باہر نکلا انہوں نے تیزی سے ایک ہاتھ نیچے کر کہ اپنی پھدی پہ رکھا اور جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئیں میں نے ان کی طرف دیکھا تو بولیں اب جلدی سے نہا لو اور دیکھو کوئی نشان تو نہیں اور خود بھی مڑ کہ بیڈ کی طرف دیکھنے لگ گئیں ۔ان کے ننگے وجود کو دیکھتے میرا پھر موڈ بن رہا تھا جیسے ہی میں نے ان کی طرف اس نظر سے دیکھا وہ ایک دم میرھ طرف مڑتے ہوئے بولیں بدتمیز چلو بس اب اور کچھ بھی نہیں کرنا اور باتھ کی طرف دوڑنے کے انداز میں گھس گئیں میں بھی ان کے پیچھے پیچھے باتھ کی طرف بڑا تو انہوں نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے باتھ کا دروازہ بند کرنے کی کوشش کی مگر میں نے آرام سے وہ کوشش ناکام بنا دی اور دروازہ کھول کر اندر جانے کی کوشش کرنے لگا لیکن وہ دروازے کے پیچھے کھڑی ہو کہ ہنستے ہوئے دروازہ بند کرنے کی کوشش کرنے لگیں اور بولین بے شرم سب کچھ تو کر چکے ہو اب مجھے نہانے دو مجھے تنگ کرو گے تو اگلی باد کچھ نہیں دوں گی۔ میں نے دروازہ اندر کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا امی تنگ کون حرامی کر رہا ہے میں تو سب کچھ کھولنے کے چکر میں ہوں ۔ اندر سے امی نے ہنستے ہوئے کہا اففف کتنا بدتمیز بیٹا ہے کاش اس رات میں چوپا لگا لیتی یا گانڈ ہی مروا لیتی تو آج یہ دن نا دیکھنا پڑتا ۔ میں نے دروازے کو زور لگاتے ہوئے کہا افسوس کیوں کر رہی ہیں یہ دونوں کام آپ اب بھی کر سکتی ہو اور میں پوری مدد کروں گا
امی دروازے کو دھکیل کر بند کرنے کی کوشش کر رہی تھیں اور میں دروازے کو اندر دھکیل کر کھول رہا تھا دروازے کو دھکا دیتے دیتے میں نے کہا امی کھول دو نا اب اندر آنے دو میری مراد دروازہ کھولنے سے تھی امی نے جواب دیا کھول بھی دی ہے اور ایک بار اندر بھی لے لیا ہے اب اور نہیں کرنے دوں گی اور بات ختم کر کے ہنسنے لگ گئی اور دروازے کو بند کرنے کے لیے اسی طرح دھکا لگانا جاری رکھا ۔ میں نے دروازے کو دھکیلتے ہوئے کہا امی جتنی دیر ادھر لگا رہی ہیں اتنی دیر میں پھر کام ہو بھی گیا ہوتا دروازہ کھول دیں نا پلیز میں نے باہر سے پھر آواز دی ۔ انہوں نے کہا بدتمیز اب بس بھی کر دو ایک بار بہت ہے پھر جب موقع ملے گا تو دیکھیں گے ۔ میں نے پھر منت بھرے لہجے میں کہا امی پلیزصرف دیکھنے دیں میں اور کچھ بھی نہیں کروں گا انہوں نے کہا مجھے پتہ ہے سب کچھ تم نہیں رہ سکو گے اور پھر انہوں نے دروازہ کھول دیا میں تیزی سے اندر داخل ہوا کہ ان کا ارادہ نا بدل جائے انہوں نے جب مجھے دوڑ کہ باتھ میں گھستے دیکھا تو منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگ گئیں اور بولیں عمیر بہت احتیاط کرنا کسی کو شک ہو گیا تو ہم جیتے جی مر جائیں گے اپنی کسی بھی حرکت سے ہماری یہ بے تکلفی کبھی ظاہر نا ہونے دینا میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں پریشانی کے آثار تھے اور کیوں نہ ہوتے کہ یہ کوئی عام بات تو نا تھی کہ مان اور بیٹے کا یوں تعلق بن جائے میں ان کے قریب ہوا اور ان کے ننگے جسم سے لپٹ گیا اور ان کے بھاری بھرکم متناسب بدن کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں بھر لیا اور ان کے گال چومتے ہوئے کہا امی جیسا آپ کہو گی ویسا ہی ہو گا آپ بالکل بے فکر ہو جائیں کبھی کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں چلے گا اور نا میری حرکت سے ایسا کچھ ظاہر ہو گا وہ میرے بازوں میں کسمساتے ہوئے بولیں میرا بچہ میرے لرل مجھے تم سے امید بھی یہی ہے کہ ماں کی لاج رکھو گے اور یہ راز راز ہی رہے گا جیسے میں نے تمہارا اور کلثوم کا رکھا تھا ۔میں نے امی کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی میں نے منہ اوپر کرتے ہوئے ان کے ہونٹ چوسنے چاہے تو انہوں نے اپنا چہرہ نیچے کرتے ہوئے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں میں پیوست کر دیے اور میرا نچلا ہونٹ اپنے سرخ میٹھے موٹے ہونٹوں میں بھر بھر کہ چوسنے لگیں میں نے بھی ان کے اوپری ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور اسے آب حیات سمجھ کر چوسنے لگ گیا اور ہونٹ چوستے چوستے میں ان کے گورے ننگے بدن کو سہلاتا گیا میں اپنے ہاتھ ان کے کندھوں کے نیچے تک لاتا اور پوری کمر پہ پھیرتے ہوئے ان کی گانڈ کی پہاڑیوں تک لے جاتا اور گانڈ کی پہاڑیوں کو ہاتھ میں دبا کر دبوچتا ان پہ ہلکا سا تھپڑ مارتا اور پھر دونوں ہاتھ اوپر لے آتا انہوں نے بھی اپنے بازو میرے گرد حائل کیے ہوئے تھے اور مجھے بے تحاشہ چومے جا رہی تھیں ان کی آنکھیں بند تھیں اور چہرے پہ ہلکا ہلکا پسینہ آیا ہوا تھا اور ان کے ممے تیز سانس لینے کی وجہ سےمجھے اپنی چھاتی پہ پھولتے محسوس ہو رہے تھے یہ وہ لزت کی ابتدا تھی کہ جس کی کوئی انتہا نہ تھی یہ وہ سرور تھا جس کے آگے تمام نشے ہار مان چکے تھے میں دیوانوں کی طرح ان کے ہونٹ چوستا جا رہا تھا اور وہ میرا ساتھ دئیے جا رہی تھیں کافی دیر ہونٹ چوسنے کے بعد میں نے ان کے ہونٹوں سے ہونٹ الگ کئیے اور ان کے مموں پہ ٹوٹ پڑا میں نے ان کا ایک مما منہ میں بھرنے کی ناکام کوشش کے بعد جتنا بھی منک میں آیاتھا اسے چوسنے لگ گیا اور دوسرے ممے کو ہاتھ میں لیکر مسلنے لگ گیا۔ امی کے ممے کلثوم آنٹی کی نسبت ٹھوس اور اچھی حالت میں تھے شائد ایک ہاتھ میں رہنے والی عورت کے جسم پہ کبھی خزاں نہیں آتی اس میں ایک کشش ہمیشہ رہتی ہے امی کی سسکیاں تیز ہوتی گئیں اور وہ مجھے اپنے ممے چوستے ہوئے بھاری پلکوں سے دیکھ رہی تھیں ان کی آنکھوں میں ایک خماری ایک مستی سی چھائی ہوئی تھی اور وہ میرا سر سہلاتی جا رہی تھیں اور تیز تیز سسکیاں بھر رہی تھیں اور میں ہوش ہ ہواس سے بےگانہ ہو کر ان کے ممے چوستا جا رہا تھا۔ اففف اب بس بھی کرو میرے دیوانے امی نے سسکتے ہوئے میرے سر پہ ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے آپ سے جوڑنے کی کوشش کی میں سمجھ گیا کہ اب وہ گرم ہو چکی ہیں میں نے ممے کی نپل کو دانت سے ہلکا سا کاٹا اور پھر دونوں ہونٹوں کے درمیاں ہلکا سا دبا کہ اپنے ہاتھ ان کے گانڈ کے گرد رکھتے ہوئے کہا امی جی ۔۔ اور گانڈ کو ہلکا سا دبا دیا ۔ امی نے ہلکی سی سسکی بھری اور بولیں بیٹا یہ بہت سکون کا کام ہے یہ گھر جا کہ دوں گی ابھی پلیز یہ گانڈ نہیں دے سکتی ۔ میں ان کی بات سے حیران رہ گیا کہ وہ میرے کہے بغیر ہی میری بات سمجھ گئی ہیں ۔ میں نے امی کو بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا جیسے میری امی کہیں گی ویسا ہی ہو گا اور میں نے اوپر ہوتے ہوئے ان کے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے اور انہوں نے بھی میرے ہونٹوں کو اپنے نرم ہونٹوں میں دبا لیا۔
میں نے ان کے ہونٹ چوستے ہوئے پھر ان کی کمر کو سہلانا شروع کیا تو ان کی سانسیں تیز ہوتی گئیں تھوڑی سی مزید لپس کسنگ کے بعد وہ اپنا منہ مجھ سے چھڑاتے ہوئے بولیں چھوٹی جاگ جائے گی اب بس بھی کر دو میرے دیوانے اور ان کے چہرے پہ عجیب سی مسکان تھی میں نے ان کی طرف دیکھا اور پھر اپنے اکڑے ہوئے لن کی جانب دیکھا اور ان کی طرف دیکھا تو وہ بھی میرے اکڑے ہوئے لن کو دیکھ کر مسکرا رہی تھیں ۔ میں نے کہا وہ ابھی سوئی ہوئی ہے آپ بھی دیکھ لیں امی نے اپنا نچلا ہونٹ ایک سائیڈ سے دانتوں کے نیچے دبایا اور دونوں بازو گردن کے پیچھے کر کہ بالوں کو سیٹ کرنے لگیں ان کے اس انداز سے ان کے ممے ابھر کر اور سامنے آ گئے میں نے جلدی سے آگے ہوتے ہوئے ان کا مما منہ میں بھر لیا ان کے منہ سے ہلکی سی سسکی نکلی لیکن ان کے چہرے پہ غصے کے بجائے مسکراہٹ تھی میں ان کا مما چوسنے لگا تو وہ بولیں ٹھہرو زرا اب مجھے چھوٹی کو دیکھنے دو اور اپنا مما میرے منہ سے نکالتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئیں اور دروازے کو ہلکا سا کھول کر باہر جھانکنے لگیں انہوں نے صرف چہرہ ہی دروازے کی جھری سے باہر نکالا اور باقی وجود دروازے کے پیچھے چھپاتے ہوئے باہر دیکھنے لگیں ان کے اس طرح دیکھنے سے وہ تھوڑی سی جھک گئیں اور میری نظر ان کے بھاری سڈول چوتڑوں پہ پڑی جو ان کی متناسب کمر سے نیچے پھولے ہوئے تھے اور اپنی حشر سامانیاں سامنے رکھے دعوت نظارہ دے رہے تھے میں امی کے قریب ہوا اور ان کے پیچھے سے ساتھ چپکتے ہوئے لن کو ان کی گانڈ میں پھنسا کر بازو ان کے بغلوں کے نیچے سے گزارتے ہوئے ان کے ممے ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا ہو گیا امی کے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور وہ دروازے سے پیچھے ہوتے ہوئے بولیں اففف میرے عاشق اب بس بھی کر دے لیکن یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے بھاری چوتڑ میرے لن پہ اس طرح دبائے کہ لن ان کی گانڈ کی گہرائی میں لگتا ہوا نیچے پھدی کے ہونٹوں کی طرف بڑھا اور پھدی کے ہونٹوں سے ٹکرتا ہوا ان کی رانوں میں دب گیا لن کی اس حرکت سے ان کے ساتھ ساتھ میرے منہ سے بھی سسکی نکل گئی اور میں نے جزبات میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا امی جی ایک بار پھر پلیز ۔۔ انہوں نے کچھ جواب دئیے بغیر آگے سے نیچے جھکنا شروع کر دیا اور بھاری وجود میرے بازوں سے چھڑواتے ہوئے اپنے گھٹنے زمیں پہ ٹیک کر اپنی گانڈ ہوا میں اٹھا دی اففففف کیا غضب کا نظارہ تھا گوری موٹی پھولی ہوئی گانڈ کے دو الگ الگ حصے اور درمیاں میں گہرا براون گول شکل کا سوراخ اور نیچے پھدی کے موٹے موٹے گہری گلابی ہونٹ اور اس پہ ہلکی ہلکی نمی ۔ میرے لن نے یہ منظر دیکھ کر ایک زوردار جھٹکا لیا اور مجھے لعن طعن کرنے لگا کہ اتنا حسین نظارہ سامنے ہے اور تم پھدو کھڑے دیکھ رہے ہو جلدی سے مجھے اپنی جائے پیدائش میں گھساو میں نے بھی لن کی فریاد پہ آگے ہوتے ہوئے اسے پھدی کے دہانہ پہ رکھ کر ہلکا سا دھکیلا تو وہ دیوانہ وار پھدی کی نرمی اور گرمی میں اترتا چلا گیا اور پورا اندر جا کہ مجھے بھی ساتھ اندر گھسنے کی ترغیب دینے لگا ادھر امی نے بھی جب لن کو پورا اپنے اندر محسوس کیا تو مڑ کر ایک قربان ہونے والے نظر سے میری طرف دیکھا اور مسکرا دیں اور آنکھ سے اشارہ کیا جیسے پوچھ رہی ہوں کیسا لگا؟؟ میں نے ان پہ صدقے واری ہوتے ہوئے لن کو باہر کھینچا اور پھر ایک زوردار جھٹکے سے پھدی میں اتار دیا میرا لن اندر جانے سے پچک اور میرا جسم ان کی گانڈ سے ٹکرانے سے تھپ کی آواز آئی اور ساتھ امی کی منہ سے اوئی کی آواز نکلی مجھے تو یہ آوازیں سن کر جیسے کچھ نشہ ہو گیا میں نے لن کو باہر کھینچا اور پھر اندر کیا تو پھر وہی پچک تھپ کی آواز گونجی اور ساتھ امی کی رسیلی آواز میں اوئی ۔۔ میں نے تو سب کچھ فراموش کرتے ہوئے امی میں دھکوں کی مشین چلا دی اور باتھ پچک تھپ اوئی پچک تھپ اوئی کی آوازوں سے گونجنے لگا میں سرور کی اس منزل پہ تھا جہاں سارے لطف ختم ہو جاتے ہیں وہ ایک انوکھا مزہ تھا میری امی گھٹنوں کے بل فرش پہ تھیں اور انہوں نے ہاتھ فرش پہ ٹیکے ہوئے تھے اور میں گھٹنوں کے بل ان کی کمر پکڑے ان کی پھدی میں لن اندر باہر کر رہا تھا ان کے گانڈ کی موری کھل اور بند ہو رہی تھی اور میرے جھٹکا لگانے سے ان کی موٹی گانڈ کی پھاڑیاں لرز اٹھتیں امی کی سسکیاں بھی جاری تھیں اور ہر جھٹکے پہ ان کے منہ سے اوئی اوئی نکل جاتا میں بھی لن کو لگاتار ان کی پھدی میں گھسائے جا رہا تھا لیکن کب تک۔۔ آخر کار مجھے اپنا سارا خون ٹانگوں کے درمیان سفر کرتا محسوس ہوا اور اس سے پہلے ہی امی کے منہ سے ہلکی سی غراہٹ نکلی اور ان کی گانڈ اچھل کر میرے ساتھ لگی اور ان کی پھدی نے میرے لن کو اپنی اندرونی دیواروں سے بھینچنا شروع کر دیا اور ان کے منہ سے مسلسل غراہٹیں نکلتی گئیں میرا لن بھی ان کی پھدی کے دباو سے ہار مان بیٹھا اور اس نے بھی امی کی پھدی کے اندر پچکاریاں مارنی شروع کر دیں اور میں ان کی پھدی میں فارغ ہوتا گیا
امی نے میرے فارغ ہوتے ہی مڑ کر میری طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں بولیں اففف بدتمیز زرا بھی لحاظ اور شرم نہیں کی کہ تمہاری ماں ہو مجھے تو ایسے چود رہے تھے کہ جیسے تمہاری ہی بیوی ہوں ان کی آنکھوں سے چھلک رہا تھا کہ وہ بہت مزے میں ہیں میرا نیم اکڑا لن ان کی پھدی کے اندر موجود تھا جس کے گرد اب چپچپاہٹ ہو چکی تھی میں نے ان کی کمر کو پکڑتے ہوئے لن کو پھر ان کی پھدی میں ہلایا اور ہلکا سا دھکا مارا اور کہا آپ پہ ہزار بیویاں قربان مجھے آپ کی چاہت ہے مجھے اور کوئی نہیں چاہیے ہے ۔ امی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا اوئے اب بس اب نا ہلانا یہ پھر کھڑا ہو جائے گا اور آگے ہو کر لن کو پھدی سے نکال دیا لن پھدی سے باہر نکلتے ہی مجھے امی کی پھدی کا کھلا سوراخ نظر آیا جس سے ہلکا ہلکا سفید پانی رس رہا تھا اور میرا لن بھی اسی پانی سے لتھڑا ہوا تھا امی نے لن کو باہر نکالا اور اوپر اٹھ گئیں میں نے بھی ان کی گانڈ پہ ہلکا سا تھپڑ مارا اور اٹھ کھڑا ہوا امی اٹھ کر میری طرف مڑیں اور بے ساختہ مجھے گلے سے لگا کر میرے گال پہ ایک پیار دیا اور پھت مجھ سے الگ ہوتے ہوئے بولیں چلو اب دیر ہو گئی ہے جلدی سے نہا لو باقی لوگ آ جائیں گے اور جلدی سے اپنے آپ کو صاف کرنے لگیں میں نے بھی شاور چلا دیا اور پھر خود کو صاف کرنے لگا ساتھ ان کے ہلکی چھیڑ چھاڑ بھی کرتا رہا نئا دھو کر ہم باہر نکلے اور کمرے میں آ گئے اور امی تولیہ سے بال خشک کرنے لگیں اور میں فرش پہ بچھے گدے پہ لیٹ گیا اور لیٹتے ہج میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو شام کا اندھیرا چھا چکا تھا اور باقی لوگ بھی آ چکے تھے میں اٹھ کر فریش ہوا اور سب سے گپ لگانے لگ گیا اور گپ لگاتے میں نے ایک دو بار امی کی طرف دیکھا لیکن وہ بالکل نارمل تھیں اور میں بھی نارمل انداز میں بیٹھا باتیں کرتا رہا اسی طرح ہمارا مری کا ٹرپ بہت شاندار رہا اور ہم گھوم پھر کر اپنےشہر واپس آ گئے اور پھر وہی روٹین شروع ہو گئی ۔ میں اور امی جب گھر اکیلے ہوتے تو ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ میں ان سے کر بھی لیتا لیکن کھل کر کچھ کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا اسی کشمکش میں مہینے سے اوپر ہو گیا کہ مجھے امی سے کھل کر کچھ کرنے کا موقع نا ملا ہونٹ چوس لینا ممے دبا لینا یا ان کے جسم کو چھو لینا اب یہ عام سی بات تھی جو ہم ہر روز موقع دیکھ کر کر لیا کرتے تھے لیکن کھل کر سیکس کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ پھر ایک دن ابو جب شام کو دفتر سے گھر واپس آئےتو انہوں نے بتایا کہ وہ دفتری کام کے سلسلہ میں کل کراچی جا رہے ہیں اور تین دن وہاں رہنا ہو گا تو یہ بات سنتے ہی میرے من میں لڈو پھوٹنے لگے لیکن میں اوپر سے معصوم بنا چپ چاپ ان کی باتیں سنتا رہا کھانا کھانے کے بعد امی نے ان کے کپڑے وغیرہ ایک بیگ میں ڈال دئیے اور پھر ہم سو گئے صبح سویرے جب میں جاگا تو ابو تیار تھے اور ناشتہ بھی کر چکے تھے مجھے دیکھ کر انہوں نے مجھے گھر اور امی کا خیال رکھنے کی ہدائت کی اور اسی دوران ان کی گاڑی اور باقی دفتری لوگ گیٹ پہ آ گئے اور ابو ان کے ساتھ گھر سے نکل پڑے۔
ہم نے ابو کو گیٹ سے الوداع کیا اور جب وہ گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے تو ہم اندر کی طرف مڑے میں نے گیٹ بند کیا تو امی چلتی ہوئی اندر کی طرف جا رہی تھیں میں گیٹ بند کر کہ دوڑا اور ان کے پیچھے سے جپھی ڈال لی اور اپنے بازو ان کے پیٹ کے گرد باندھ لیے میرا نیم اکڑا لن ان کی گانڈ کی گئرائی میں رگڑ کھانے لگا امی ہنستے ہوئے بولیں بدتمیز کچھ حیا کر باقی بچے بھی گھر ہیں سب اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنا آپ میری گرفت سے نکالنے کی کوشش کی حالات کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے میں نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور کہا امی ابھی تو دن ہے رات کے بارے میں کیا خیال ہے میں نے ان کے پیچھے چلتے ہوئے ان کی گانڈ پہ ہلکی سی تھپکی دی ۔ امی نے مسکراتے ہوئے میری طرف مڑ کہ دیکھا اور بولیں اوئے بچت کا کوئی زریعہ نہیں ہے ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی میں نے بھی سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا جی بالکل بھی کوئی بچت نہیں ہو سکتی ۔ امی نے کہا اچھا چلو ابھی تو سب ناشتہ کرو اور نکلو شام میں دیکھیں گے کیا کرنا ہے اس کے بعد ہم نے ناشتہ کیا اور سکول کیطرف نکل گئے ۔ سکول سے واپسی پہ ہم نے کھانا کھایا اور پھر میں نے امی کے ساتھ برتن اٹھائے اس دوران ان سے چھیڑ چھاڑ چلتی رہی لیکن کوئی قابل زکر بات نا ہوئی کیونکہ امی نے کہا رات جب باقی بچے سو جائین گے تو پھر دیکھا جائے گا مجھے بھی امید تھی کہ ایسا ہی ہو گا اور میں بہت خوش تھا اسی طرح شام ہو گئی میں نے سکول کا کام کیا اور پھر شام میں ٹی وی دیکھتا امی اور باقی بہن بھائیوں سے روٹین کی گپ ہوتی رہی پھر ہم نے رات کا کھانا کھایا اور میں اپنے کمرے میں آ گیا اور امی کا انتظار کرنے لگا میرے زہہن میں یہی تھا کہ باقی بہن بھائی سو جائیں گے تو پھر امی کےپاس چلا جاؤں گا اور میں بستر پہ لیٹ کر امی کے فری ہونے کا انتظار کرنے لگا لیکن میری بدقسمتی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا رات کے کسی پہر میری آنکھ کھلی تو میں تیزی سے اٹھا اور وقت دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے میں جلدی سے امی کے کمرے کی طرف گیا اور ان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ بے سدھ سو رہی تھیں ان کی ایک سائیڈ پہ چھوٹی اور دوسری سائیڈ پہ میرے دوسری بہن سوئی ہوئی تھیں امی بیڈ کے کونے پہ تھیں اور کروٹ کے بل لیٹی ہوئی تھیں پہلے تو میرا دل کیا کہ ان کو نا چھیڑوں مگر لن نے مجھے مجبور کیا اور میں نے ہاتھ آگے بڑھا کہ ان کی بھاری گانڈ کے اوپر رکھا اور اسے تھپتپھایا امی کے جسم میں ہلکی سی لرزش ہوئی اور وہ نیند میں ہی بولیں نہیں کریں نا مجھے سونے دیں اور اسی طرح کروٹ کے بل لیٹی رہیں میں سمجھ گیا کہ وہ نیند میں ابو کا سمجھ رہی ہیں میں ان کے پیچھے بیٹھا اور ان کے چوتڑوں سے شلوار اتار کر نیچے کرنے کی کوشش کی شلوار کچھ تو اتری کچھ ان کے بھاری وجود کے نیچے دب گئی اور میں نے جب شلوار کھینچی تو انہوں نے اسی طرح بند آنکھوں سے کہا افف نہیں کریں نا یار سونے دیں مجھے نیند آئی ہوئی ہے لیکن انہوں نے اپنا وجود اوپر اٹھایا تا کہ میں شلوار کو اتار سکوں میں نے شلوار ان کے گھٹنوں تک اتار دی اور کچھ بولے بغیر ان کی گانڈ اور کمر پہ ہاتھ پھیرنے لگ گیا انہوں نے کروٹ بدلی اور الٹی لیٹ گئیں اور پھر بولیں نہیں کریں نا یار اب سونے بھی دیں مجھے ۔ میں نے ان کی ٹانگوں کو تھوڑا پھیلایا اور ان کی گانڈ کے بھاری چوتڑوں کو ہاتھ سے کھولا اور زیروبلب کی روشنی میں ان کے حسین سراپے پہ ایک نظر دالتے ہوئے ان کے ایک چوتڑ کو چوم لیا اور پھر چوتڑوں کو کھولتے ہوئے منہ ان کی گانڈ کے درمیان گھسا کر زبان باہر نکالی اور ان کی پھدی اور گانڈ کے درمیانی حصہ پہ لگا دی میری زبان اپنے جسم پہ لگتے ہی امی ایک جھٹکے سے اوپر ہوئیں اور انہوں نے مجھے دیکھا اور اوپر اٹھ کر بیٹھ گئیں اور سرگوشی میں بولیں بدتمیز ادھر کیا کر رہے ہو ؟؟ میں نے ان کی طرف دیکھا اور ہونٹوں پہ زبان پھیری اور ساتھ اپنے اکڑے ہوئے لن کی طرف دیکھ کر کہا امی وہ میں سو گیا تھا کہیں ۔ انہوں نے اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کے لیے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا اور بولیں تو اچھا ہو گیا تھا نا میں آگے ہوا اور ان کے ممے پکڑنے کی کوشش کی امی نے مصنوعی غصے سے میری طرف دیکھا اور پھر سوئی ہوئی بہنوں کی طرف اشارہ کیا اور بیڈ سے نیچے اترنے لگیں میں ان کو نیچے اترتا دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا۔
میں نے امی کو بیڈ سے نیچے اترتے دیکھا تو پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا وہ بیڈ سے نیچے اترتے ہوئے بہنوں کی طرف دیکھ کر سیدھی ہوئیں اور اپنی گھٹنوں تک اتری ہوئی شلوار کو اپنے پاوں سے باہر نکالتی ہوئی بیڈ سے نیچے اتر آئیں مجھے ان سے یہ توقع بالکل بھی نا تھی کہ وہ اتنی اسانی سے یہ سب کریں گی امی میرے پاس سے گزریں اور ڈریسنگ ٹیبل سے ایک شیشی اٹھا کر میری طرف دیکھا اور بولیں اے مسٹر اب وہاں کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو چلو باہر آو میں تھوڑا شرمندہ بھی ہوا اور امی کے پیچھے چلتا ہوا باہر نکل آیا وہ لاونج میں کھڑی تھیں میں جیسے ہی ان کے کمرے سے باہر نکلا انہوں نے کمرے کو باہر سے کنڈی لگا دی میں نے امی کو کنڈی لگاتے دیکھا تو جھپٹ کر ان کو پیچھے سے جھپی ڈال لی اور ہاتھ ان کے پیٹ کے گرد باندھتے ہوئے ان کی گردن پہ پیار کرنے لگا امی نے ہلکی سی سسکی بھری اور بولیں بدتمیز صبر تو کرو میں بھاگ تو نہیں رہی اور ہاتھ میں پکڑی شیشی سائیڈ ٹیبل پہ رکھنے لگیں وہ شیشی کو ٹیبل پہ رکھنے لگیں تو میں نے ان کو چھوڑا اور جلدی سے اپنا لباس اتار دیا امی نے مجھے بے لباس ہوتے دیکھا تو شرماتے ہوئے ہونٹ کاٹنے لگیں اور نظریں کمرے کے فرش پہ گاڑھ دیں ۔ میں نے لباس اتارنے کے بعد ایک نظر انہیں دیکھا اور ان کے قریب ہوتے ہوئے انہیں بانہوں میں بھر لیا وہ بھاری بھرکم وجود ہونے کے باوجود ایک موم کی گڑیا کی طرح میرے سینے سے لگ گئیں ان کی سانسیں تیز ہو چکی تھیں میں نے ان کی لرزتی پلکوں کو ہونٹ سے زرا سا چھوا اور آنکھوں کے اوپر ہونٹ رکھتے ہوئے پیار کر دیا ۔ بدتمیز شرم کرو انہوں نے ہلکی سی سرگوشی کرتے ہوئے مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا میں نے ان کے گال چوستے ہوئے کہا اب تو شرم تبھی آئے گا جب یہ پورا آپ کی پھدی میں چلا جائے گا یہ کہتے ہوئے میں نے اپنا اکڑا ہوا لن ان کی قمیض کے دامن کو اٹھاتے ہوئے ان کی رانوں کے درمیان رگڑ دیا ۔ بےشرم بے حیاان کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور وہ مجھ سے چپکتی گئیں۔ میں نے ان کی قمیض کے دامن پکڑ کر آگے سے اوپر کیا تو انہوں نے بازو اوپر کر کہ قمیض نکالنے میں میری پوری مدد کی۔ قمیض اترتے ہی ان کا مہکتا بدن پوری آب وتاب سے میرے سامنے آ گیا گول گول موٹے ممے سڈول پیٹ اور بھری بھری رانیں دیکھ کر میں نے ابو کے ساتھ اپنی قسمت پہ بھی رشک کیا اور آگے بڑھ کر ان کے ننگے وجود کو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور ان کے رسیلے ہونٹ چوسنے لگ گیا ہمارے ننگے وجود آپس میں جڑتے ہوئے ہمیں ایک کرنٹ سا لگا اور میرا اکڑا ہوا لن ان کی پھدی سے رگڑ کھاتا ہوا ان کی رانوں کے درمیاں دھنس گیا کہ لن کے اوپری حصے پہ مجھے ان کی نرم پھدی کے ہونٹ اور ن کا گیلا پن واضح محسوس ہوا جہاں لن نے ان کی پھدی کے ہونٹوں کو چھوا وہیں ان کی پھدی کے ہونٹ بھی جوش سے میرے لن کے اوپر لگے اور اوپر ہمارے چہرے پہ لگے ہونٹ بھی جوش سے ایک دوسرے میں پیوست ہوتے چلے گئے۔ امی بیتابی سے میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیئے جا رہی تھیں اور میں بھی اس میں ان کا ساتھ دینے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ امی کے ہونٹ چوسنے کا انداز بہت ہی نرالا تھاوہ میرے اوپر والے ہونٹ کو اپنے دونوں ہونٹوں مین رکھ کہ چوستیں اور پھر اسے بالکل چھوڑ کر نچلے ہونٹ کو اپنے دونوں ہونٹوں سے چوسنے لگ جاتیں ان کا ایک ہاتھ میری گردن میں تھا دوسرا ہاتھ نیچے کرتے ہوئے انہوں نے میرا لن پکڑ لیا اور لن کو پکڑ کر مٹھی بند کر لی اور اسے آگے پیچھے کرتے ہوئے لن کو ہلانے لگیں ان کی اس حرکت نے تو میرے ہوش اڑا دئیے مجھے امی کے نرم ہاتھوں کے لمس نے ایک عجیب سا مزہ اور سرور دیا میں نے ایک کے بھاری چوتڑوں کو ہاتھ سے مسلتے ہوئے ایک ہاتھ کو گانڈ پہ رکھا اور دوسرا آگے لاتے ہوئے ان کا ایک مما ہاتھ میں پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے دبانے لگ گیا امی کے منہ سے سسکی نکلی لیکن نکلنے سے پہلے ہی ہمارے ہونٹوں کے درمیان دب گئی ہم دنیا و مافیا سے بے خبر ایک دوسرے کے ہونٹوں سے مزہ کشید کر رہے تھے اور ہم ایک دوسرے کے جسموں میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ کم از کم مجھے تو یہ یاد نہیں تھا یہ عورت میری ماں ہے اس وقت بس صرف جسم تھے جن میں ہوس کی آگ پوری طرح جل چکی تھی وہاں کوئی رشتہ نہ تھا اور جب ہوس بیدار ہوتی ہے پھر کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا پھر صرف لن اور پھدی کا رشتہ ہوتا ہے اور وہی رشتہ قائم بھی رہتا ہے باقی رشتے پیچھے رہ جاتے ہیں
امی کے اس انداز کے پیار اور مدہوشی نے مجھے سکون اور مزے کی ایک دنیا سے روشناس کروا دیا تھا امی کے جسم سے ہلکی ہلکی مہک آ رہی تھی جو میری مستی اور سرور کو اور بڑھا رہی تھی میں نے امی کو بازوں میں لیا ہوا تھا اور ان کے بازو مجھے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھے۔ میں نے ایک ہاتھ اوپر کرتے ہوئے ان کا ایک مما ہاتھ میں بھرا تو ان کے منہ سے ہلکی سی سسکی نکلی لیکن اسے میں نے ان کے ہونٹ چوستے ہوئے اپنے ہونٹوں میں دبا لیا ان کے چہرے پہ پسینے کے ہلکے ہلکے قطرے نمودار ہو چکے تھے جن کو میں چوستا جا رہا ہے پیار کرتے کرتے ان کی سانس بھی تیز ہو چکی تھی انہوں نے مجھے پکڑے ہوئے پیچھے ہٹنا شروع کیا اور لاونج میں لگے صوفے پہ بیٹھ کر اس پہ لیٹتی گئیں اور میں ان کے ہونٹ چومتا ہوا ان کے اوپر صوفے پہ لیٹتا گیا اور میرا لن ان کے اوپر سیدھا لیٹنے سے ان کی گداز ٹانگوں کے درمیان سے ان کی پھدی سے رگڑ کھانے لگا رگڑ تو کیا وہ ایک نرمی اور ملائمت کا احساس تھا ایک نرمی اور گیلا پن مجھے اپنے لن پہ محسوس ہوا ادھر ان کے ہونٹوں نے میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر رکھے تھے میرے ہونٹ چوستے وہ تھوڑا کسمسائی اور میرے منہ سے اپنا منہ الگ کرتے ہوئے بولیں عمیر زرا بات سن ۔ میں ان کی بات سن کہ ان کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا اور ان کے چہرے پہ آئے بال اپنا ہاتھ آگے کر کہ ہٹائے اور ان کی خوبصورت جھیل سی آنکھوں میں دیکھنے لگا میری دیوانگی وارفتگی محسوس کرتے ہوئے وہ شرما سی گئیں اور بولیں عمیر مجھ میں ایسا کیا ہے جو تم میرے دیوانے بن گئے ہو اور اپنی عمر کی کوئی لڑکی تمہں کیوں اچھی نہیں لگتی؟ انہوں نے یہ سوال کرنے کے بعد اپنے ہونٹوں پہ زبان پھیری اور میری طرف دیکھنے لگ گئیں۔ میں نے دونوں ہاتھ آگے کیئے اور ان کے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے کہا امی مجھے کچھ پتہ نہیں ہے بس مجھے آپ کے سوا اور کوئی اچھا نہیں لگتا بس میرا دل کرتا ہے میرے سامنے صرف آپ ہوں اور کوئی نا ہو اور میں آپ کو دیکھتا جاوں پیار کرتا جاوں ۔ یہ کہتے ہوئے میں نے ان کا گال چوم کر ہونٹوں پہ ایک پیار کیا اور انہوں نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے چھڑواتے ہوئے کہا پھر بھی میری اور تمہاری عمر میں بہت فرق ہے نا اس کے ساتھ انہوں نے اپنی رانیں جوڑ لیں جس سے میرا لن ان کی سڈول رانوں میں اور پھنس گیا
میں نے کہا امی مجھے اور باتیں تو نہیں آتی بس میرا دل کرتا ہے آپ ہی میرے سامنے ہوں اور کوئی ہمارے درمیان نا ہو اور میں بس آپ کو دیکھتا اور پیار کرتا جاؤں یہ کہتے ہوئے میں نے ان کے بھاری مموں کو الگ الگ ہاتھ میں پکڑ کر ہلکا ہلکا مسلنا اور دبانا شروع کر دیا انہوں نے بھی میری طرف دیکھتے ہوئے چہرہ اوپر کیا اور میرے ہونٹ چوسنے لگیں اور نیچے سے ان کی گداز اور نرم رانیں میرے لن کو جھکڑتی اور پھر چھوڑ دیتیں امی کی سانس بہت تیز ہو چکی تھی اسی طرح کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد انہوں نے اپنا آپ مجھ سے چھڑایا اور مجھے اوپر سے ہٹنے کا اشارہ کیا میں ان کے اوپر سے نےچے اترا تو وہ بھی صوفے سے نیچے اتریں اور مجھے صوفے پہ لیٹنے کا اشارہ کیا میں ان کی بات تو نا سمجھا لیکن میں صوفے پہ لیٹ گیا انہوں نے مجھے تھوڑا اور سیٹ کیا اور پھر صوفے پہ اس طرح سوار ہوئیں کہ انہوں نے اپنے گھٹنے میرے سر کے دائیں بائیں رکھے اور آگے میرے پیٹ پہ جھکتی گئیں مجھے ابھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ امی کیا کر رہی ہیں انہوں نے اپنا بھاری وجود میرے منہ سے کچھ اوپر رکھتے ہوئے نیچے جھک کر میرا لن پکڑا ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ یہ کیا ہے کہ لن کے ارد گرد مجھے گیلی اور نرم چیز کے احساس نے ہلا کر رکھ دیا اور اگلے ہی لمحے میں سمجھ گیا کہ میرے لن کو امی نے منہ میں لے لیا ہے میرا آدھا لن ان کے منہ میں تھا اور وہ اسے ہونٹوں میں رکھ کر چوسے جا رہی تھیں مزے کی ایک لہر سے میں اوپر ہوا اور میرا منہ میرے چہرے پہ موجود ان کی ہھدی سے لگ گیا اور میں نے بے ساختہ ان کی پھدی کے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دئیے میرے ہونٹ اپنی پھدی پہ لگتے ہی ان کے منہ سے کچھ آوازیں نکلیں اور لن پہ ان کے چوپوں کی رفتار بہت تیز ہو گئی میں نے تو اس بات کا سوچا تک نا تھا کہ امی یوں میرے لن کو چوسیں گی یہ ایک انوکھا مزہ تھا ادھر وہ میرے لن کو چوسے جا رہی تھیں اسھر مین اپنے چہرے پہ موجود ان کی پھدی چاٹ رہا تھا ان کی پھدی چاٹتے ہوئے میں نے اپنے ہاتھ ان کی نرم پھیلی ہوئی گانڈ پہ رکھ دئیے اور ان کی پھدی کا رس چاٹنے لگا ادھر امی کے لن چوسنے کی رفتار بھی بہت تیز ہو رہی تھی میں زبان کو پھدی کے ہونٹوں سے رگڑتے ہوئے پھدی کے سوراخ پہ گھماتا اور پھر پھدی کے موٹے ہونٹ چوسنے لگ جاتا پھر میں نے سانس لینے کے لیے منہ پیچھے کیا اورپھدی کے ہونٹوں سے زرا اوپر میری نظر امی کے گانڈ کے سوراخ پہ پڑی تو میں نے منہ اوپر کرتے ہوئے زبان باہر نکالی اور ان کی گانڈ کے سوراخ پہ رکھ کہ دبائی تو حیرت انگیز طور پہ زبان ان کی گانڈ کی موری کی بیرونی دیوار کھولتی ہوئی اندر اتر گئی اور گانڈ کی اندرونی دیوار مجھے اپنی زبان کے گرد محسوس ہوئی امی کے منہ سے اففففف ہائےےےےے نکلا اور انہوں نے بھاری گانڈ میرے منہ پہ دباتے ہوئے میرا لن پورا منہ میں بھرنے کی کوشش کرتے ہوئے چوسنا شروع کر دیا مجھے لن چوسنےسے بہت مزہ مل رہا تھا ادھر جب میری زبان ان کی گانڈ میں اتری تو وہ مزہ اور دوبالا ہو گیا میری ٹھوڑی سے ان کی پھدی رگڑ کھا رہی تھی اور میری زبان ان کے گانڈ کی اندرونی دیواریں چاړٹ رہی تھی مزہ اپنی انتہا پہ تھا ایک ایسا سرور جس کی کوئی انتہا نا تھی
امی کی گانڈ شہد کی طرح چاٹ رہا تھا اور وہ دیوانہ وار میرے لن کو چوسے جا رہی تھیں میرے گانڈ کے عمل سے ان کی سپیڈ بہت تیز ہو گئی تھی اور وہ تیزی سے سر اوپر نیچے کرتے ہوئے میرے لن کو منہ میں بھر اور چوس رہی تھیں میرا آدھا لن ان کے منہ میں جاتا اور باقی نچلے حصے کو وہ ہاتھ کی مٹھی سے مسل رہی تھیں وہ لن کی ٹوپی سے چوستے ہوئے ادھا لن چوستی اور ادھے ٹٹوں سے اوپر ہاتھ سے مسلتی جا رہی تھیں میں ان کی گانڈ کے سوراخ کی اندرونی دیواروں کو چاٹتے ہوئے ان کے چوتڑوں کو ہاتھ سے پکڑے ہوئے تھا امی کے منہ سے غوں غوں کی آواز نکل رہی تھی اور میرے منہ سے تھوک نکلتی ہوئی ان کی گانڈ کے سوراخ اور سائیڈوں پہ لگ رہی تھی اور ان کی پھدی سے رستا ہلکا ہلکا پانی مجھے اپنی ٹھوڑی پہ بہتا ہوا محسوس ہو رہا تھا کچھ دیر امی اسی طرح لن کو چوستی اور مجھ سے پھدی گانڈ چٹواتی رہیں اور پھر اچانک میرا لن منہ سے نکال کر وہ آگے ہوئیں اور چہرہ میری طرف کر کہ پلٹیں اور میرے لن کو ہاتھ میں پکڑے میرے پیٹ سے نیچے ہوتے ہوئے میرے لن کو ہاتھ میں پکڑے اپنی پھدی کے سوراخ پہ رکھتے ہوئے اس پہ بیٹھ گئیں غپ کی ہلکی سی آواز کے ساتھ ان کے منہ سے سسکی نکی اور انہوں نے ہونٹ کو دانت سے دباتے ہوئے میری طرف دیکھا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے ممے پکڑے اور بولیں گندے بچے سکون مل گیا ماں کی پھدی مار کہ یا ابھی رہتا ہے؟ میں مزے میں ڈوبا ہوا تھا میں نے بھی اسی سرور میں کہا امی اگر اس پھدی کا مزہ بھی نا آئے تو کس کا آئے گا اور نیچے نظر کر کہ اپنا لن دیکھنے لگا جو ان کی پھدی کے موٹے ہونٹوں میں غائب ہو چکا تھا میں نے ہاتھ اوپر کر کہ امی کے ممے پکڑنے چاہے تو وہ آگے کو جھکیں جس سے ان کے موٹے ممے میرے منہ پہ آ گئے اور انہوں نے اپنی گانڈ اٹھا کر میرے لن پہ مارنی شروع کر دی جس سے لن ان کی پھدی میں اندر باہر ہونے لگا میں نے بھی ان کے ممے کا ایک نپل منہ میں لے لیا اور اسے تیزی سے چوستے ہوئے دوسرے ممے کے نہل کو ہاتھ میں لیکر مسلنے لگ گیا امی میرے سر اور ماتھے پہ پیار کر رہی تھیں کیونکہ میں ان کا مما چوس رہا رہا تھا اس لیے وہ مجھے چہرے پہ پیار نہیں کر پا رہی تھیں میں ان کے ممے بدل بدل کر چوستا اور مسلتا گیا اور وہ اپنی گانڈ اٹھا کر میرے لن پہ مارتی گئیں ۔ تھوڑی دیر ایسا کرنے کے بعد وہ میرے لن سے اوپر اٹھ گئیں اور نیچے اتر کر کھڑی ہو گئیں میں بھی تیزی سے نیچے اتر کر کھڑا ہوا اور ان کو بانہوں میں بھر لیا امی زرا سی ہنسی اور بولیں اوئے گندے ابھی تیرا دل نہیں بھرا کیا
میں نے ان کے رسیلے گال کو چوستے ہوئے کہا آپ سے کب دل بھر سکتا ہے امی میرا بس چلے تو صبح شام آپ کو پیار کرتا رہوں آپ پیاری ہی اتنی ہیں جیسے مکھن اور شہد سے بنی ہوں یہ بات کر کے میں نے ان کے دوسرے گال کو چومنا چاہا تو مجھے لگا امی کے چہرے پہ زرا سا سوگ اور اداسی چھا گئی ہے میں نے اپنے بازو ان کی ننگی کمر پہ پھیرتے ہوئے کہا امی جانو کیا ہوا کیوں چپ ہو گئی ہو آپ اور ان کے چہرے پہ بوسے دینے لگا ۔۔ امی تھوڑا چپ ہوئیں اور پھر تھوڑی اداس ہوتے ہوئے بولیں تم سچ نہیں کہہ رہے میں اتنی خوبصورت نہیں ہوں ۔ میں نے ان کے چہرہ نیچے کرتے ہوئے ان کے ممے پہ پیار کیا اور ایک ہاتھ سے مما پکڑتے ہوئے کہا یہ دیکھیں امی آپ کتنی گوری ہیں کتنی پیاری ہیں آپ سے کب دل بھر سکتا ہے ؟؟ میرا تو دل کرتا ہے میں بس آپ کے سارے جسم کو پلکوں سے چومتا جاؤں ۔ امی نے بازو میری گردن کے پیچھے سے گزارے اور اداسی بھرے لہجے میں کہا تم بچوں کا پیار ہی مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے ورنہ تو بس۔۔ اور اس کے ساتھ انہوں نے ایک گہری سانس لیکر اپنا جسم میرے ساتھ جوڑ دیا اور اپنا تھوڑا وزن مجھ پہ ڈال کر ہچکیاں لینے لگیں مجھے کچھ صورتحال کا اندازہ ہو گیا کہ شائد وہ ابو سے خوش نہیں ہیں لیکن یہ بھی ایک بات تھی کہ ہم نے کبھی ان کے تعلقات میں کمی یا لڑائی نہیں دیکھی تھی لیکن میں نے کہا امی آپ حوصلہ کریں میں ہوں نا آپ کے ساتھ ہر لمحہ ہر پل ۔۔ اور ساتھ ان کے جسم کو سہلاتا گیا میں نے جب امی کو پریشان دیکھا تو میری توجہ سیکس سے خود بخود کم ہو گئی اور میں نے ان کا چہرہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ان کی آنکھوں میں دیکھا تو ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور آنسو ان کی پلکوں پہ لرز رہے تھے۔ میں نے ہونٹوں سے ان کی پلکیں اور آنسو چوس لیے اور انہیں دل سے لگاتے ہوئے تھپکنے لگا اور کہا امی آپ کو جو بھی دکھ جو بھی پریشانی ہے مجھے بتا دیں میں ہوں نا میں ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہوں ۔وہ میرے ساتھ چمٹ گئیں اور اپنا منہ میرے کندھے پہ رکھ کر رونے لگ گئیں میں ان کی کمر کو سہلاتا رہا اور ان کو تھپکنے لگا مجھے بہتر یہی لگا کہ وہ کھل کر رو لیں تو پھر ان سے وجہ پوچھی جا سکتی ہے تھوڑی دیر امی جب روتے روتے چپ ہوئیں تو میں نے ان کا چہرہ جو آنسووں سے بھیگا ہوا تھا چومنا شروع کر دیا اور ان کے آنسو اپنے ہونٹوں سے چنتا گیا میرے اس والہانہ پیار سے ان کے چہرے پہ دھیمی سی مسکراہٹ آ گئی اور مجھے جوابی پیار کرتے ہوئے انہوں مے میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا جو کہ نیم کھڑا تھا اور بولیں سوری عمیر میں زرا جزباتی ہو گئی تھی تم چلو اب اپنی خواہش پوری کر لو اور میرے لن کو مسلتے ہوئے میرے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دئیے ۔ میں نے ان کو ایک پیار کیا اور منہ پیچھے کر کہ کہا پہلے مجھے اب وہ وجہ بتائیں گی پھر کوئی اور بات کریں گے پہلے آپ بتاو آپ روئی کیوں؟؟ میری بات سنتے ہی وہ زور سے میرے سینے سے لگیں اور ان کے نرم ممے زور سے میری چھاتی پہ لگے اور بولیں کیا کرو گے وہ سب جان کر ؟؟ اور میں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتی سو وہ بات چھوڑو اور بس یہاں تک بول کر وہ چپ ہوئیں اور میرے لن کی مٹھ مارتے ہوئے زرا سا مسکرا کہ بولیں چلو اس کو اس کی منزل تک پہنچاو تا کہ اس کا وقت برباد نا ہو ۔ میں نے ان کی گانڈ کو ہلکا سا تھپڑ مارا اور کہا اگر آپ چاہتی ہو کہ میں پریشان نا ہوں تو مجھے وہ وجہ بتاو جس سے آپ روئی ہو ۔ امی نے میری طرف سوچتی نظر سے دیکھا اور سنجیدہ ہوتے ہوئے بولیں عمیرکچھ باتیں بچوں کے جاننے کی نہیں بھی ہوا کرتیں نا۔ میں نے امی کا مما پکڑ کر ہلکا سا دبایا اور کہا اب اس کے بعد تو مجھے آپ بچہ نا سمجھو امی ۔ انہوں نے میرے سر پہ ہلکی سی چپت لگائی اور بولیں عمیر بات بتانے کی نہیں ہے وہ راز جان کر شائد خود سے جڑے کچھ رشتوں سے تم مخلص نہیں رہ پاو گے میں یہ نہیں چاہتی کہ تمہاری آئندہ کی زندگی دوسروں سے نفرت کی نظر ہو جائے شائد یہ بات تم نا برداشت کر سکو مجھے یہی خطرہ ہے تمہاری کوئی حرکت تمہارے اور میرے لئیے پریشانی کا باعث نا بن جائے ۔ میں امی کے گلے لگا ہوا یہ سب سن اور سوچ رہا تھا آخر ایسا بھی کیا راز ہو گا۔ میں نے کہا امی مجھ پہ اعتماد رکھیں دیکھیں آج تک ہم پہ کسی کو شک نہیں اور میری کوشش یہی رہے گی کہ آپ پہ کوئی حرف کوئی الزام نا آئے ۔ امی نے کہا پھر مجھ سے وعدہ کرو یہ بات سن کر تم اس بات کے کرداروں سے نارمل رہو گے کبھی اپنے جزبات کا اظہار نہیں کرو گے کہ تمہیں یہ بات پتہ چل چکی ہے اور اپنا ملائم ہاتھ میری طرف بڑھادیا ۔ میں نے امی کو کس کہ بازوں میں بھرا ان کا چہرہ چوما اور ان کا ہاتھ تھام کر کہا امی جی پکا وعدہ ہے آپ بولو کیا بات ہے وہ ہمیشہ راز رہے گی۔
میں نے امی کے جسم کو بازووں میں بھرا ہوا تھا ان کا ہاتھ ایک ہاتھ سے تھاما اور دوسرے بازو سے ان کو خود سے لپٹاتے ہوئے کہا امی بولیں کیا بات ہے ۔ وہ ایک لمحے کو چپ ہوتی ہوئی پھر بولیں عمیر ایسے نہیں بتایا جائے گا مجھ سے اور پھر مجھ سے الگ ہوتے ہوئے صوفے پہ پیچھے ہٹ کر سیدھی لیٹ گئیں میں نے ان کی طرف دیکھا اور ان کے اوپر چڑھتا ہوا ان کے اوپر لیٹا اور اپنا لن ان کی رانوں کے درمیان رکھنے کی کوشش کی تو انہوں نے ٹانگیں کھول کر مجھے اپنی بھاری ٹانگوں کے درمیان کر لیا اور مجھے ماتھے پہ چوم لیا ۔ میں نے ان کے گال چومتے ہوئے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ان کی پھدی کے لبوں سے رگڑا جو کہ گیلے ہو چکے تھے اور میں نے پھدی کے سوراخ پہ رکھتے ہوئے دھکا لگایا تو میرا لن بہت آرام سے ان کی پھدی میں آدھا دھنس گیا امی نے ہلکی سی سسکی بھری اور مجھے اپنے اوپر کھینچ کر بازو میں دبوچ لیا ۔ میں نے امی کی طرف دیکھا تو انہوں نے شرما کہ آنکھیں بند کر لیں میں نے لن کو پیچھے کھینچ کر ایک اور دھکا دیا تو پورا لن ان کی پھدی میں اتر گیا اور میں نے لن کو پورا ان کے اندر رکھتے ہوئے ان کے چہرے کو چومنا شروع کر دیا اور ان کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوسنا شروع کر دیا میں ان کے ہونٹ چوستا اور پھر زبان نکال کر ان کے گال چاٹتا اور پھر چاٹی ہوئی جگہ کو ہونٹوں کے درمیان رکھ کر چوستا اور پھر نیچے سے دھکا لگا دیتا امی میرے اس عمل سے مست ہوتی جا رہی تھیں ان کی ٹانگیں کھلتی جا رہی تھیں اور ان کے ہاتھ دیوانہ وار میری کمر کو سہلا رہے تھے۔ میں نے امی کو چومتے پیار کرتے ہوئے کہا امی آپ کچھ بتانے لگی تھیں نا ۔ امی نے اپنی آنکھیں کھولیں جن میں عجیب سی خماری چھائی ہوئی تھی اور مجھے دیکھتے ہوئے بولیں اس وقت کیا سوچ رہے ہو ؟؟ میں نے کہا امی اس وقت کیا سوچ سکتا بھلا؟؟ اس وقت تو آپ سے پیار سے ہٹ کر مجھے اور کچھ سوجھ بھی کیسے سکتا ہے؟ ساتھ ہی مین نے ان کے چہرے کو چومنا چاٹنا اور پھدی میں لن اندر باہر کرنا جاری رکھا ہوا تھا ۔ امی نے اپنے نچلے ہونٹ کو دباتے ہوئے اپنی ٹانگیں اور اوپر اٹھا لیں اور نیچے سے بھاری گانڈ اٹھا اٹھا کر لن کو اپنے اندر سمونے لگیں ان کی آواز بھاری ہو گئی اور سسکیاں انتہائی تیز ہو گئیں اور وہ اس بھاری آواز میں بولیں جیسے تم مجھے پیار کر رہے ہو اور تمہارے زہہن میں میرے سوا کوئی اور نہیں ہے لیکن تمہارے باپ نےکبھی مجھے اس طرح پیار نہیں کیا وہ مجھے چودتا تو ہے مگر زہہن میں کوئی اور رکھ کر کسی اور کا سوچ کر ۔ امی نے یہ کہتے ہوئے اپنا بھاری وجود اور اوپر اٹھایا اور لن کو مزید اپنی پھدی میں لیتے ہوئے دبانے لگیں ۔ مجھے یہ بات بہت عجیب لگی مجھے مزہ تو بہت آیا ہوا تھا اور سانس پھولی ہوئی تھی اور میں ان میں لن ڈالے جھٹکے لگا رہا تھا میرے جزبات سے بھرے لہجے میں یہ نکلا اففف ابو بھی کتنے احمق ہیں آپ سے خوبصورت جسم اور کس کا ہے بھلا جو کسی اور کا سوچا جائے اس کے ساتھ میں نے ان کے چہرے پہ آئے ہوئے بال ہٹاتے ہوئے وارفتگی کے عالم میں انہیں دیکھا اور جھپٹنے والے انداز میں ان کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسا اور کہا اففف امی جان آپ کے جیسا مہکتا اور رسیلا بدن بھلا اور کسی کا کب ہو سکتا ہے؟؟امی نے بھی نیچے سے میرا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے کہا لیکن تیرے پھدو باپ کو یہ سمجھ نہیں آتی اور وہ تیری کتی پھوپھی مصباح کی گانڈ اور مموں پہ مرتا ہے جانے اس کتی میں اسے کیا نظر آتا ہے؟ امی کی یہ غیر متوقع بات سن کر مجھے ایک دھچکا لگا اور میں ایک لمحے کے لیے جیسے رک سا گیا اور حیران نظروں سے امی کی طرف دیکھتا گیا امی یہ کیسے ممکن ہے میرے منہ سے ہکلاتے ہوئے نکلا۔
یہ ایسے ہی ممکن ہے جیسے تم میرے اوپر چڑھ کہ مجھے چود رہے ہو امی نے زرا ہنستے ہوئے اپنے بھاری وجود کو نیچے سے ہلایا اور پھر بولیں میں بھی تو تمہاری ماں ہوں مگر اس وقت تمہارا وہ پورا میرے اندر ہے جہاں سے تم نکلے تھے ان کا ناممکن کیسے ہو گیا؟ امی کی بات سن کر مجھے تھوڑی شرم بھی آئی اور میں نے لن کو ان کی پھدی میں محسوس کرتے ہوئے ہلایا اور ان کے چہرے کی طرف دیکھا اور پوچھا امی کیا وہ دونوں بھی اس حد تک جا چکے؟؟ امی نے ہونٹوں کو دباتے ہوئے سسکی لی اور کہا ایسا کر چکا ہوتا تو مجھے کم افسوس ہوتا وہ کتی تو اسے حد پار نہیں کرنی دیتی بس یہ ہاتھ پھیر کر خوش ہو لیتا اور وہ کنجری یہ سب جانتے ہوئے مزے لیتی ہے اور جب دل کرے اپنی خواہشیں پوری کروا لیتی ہے کبھی پیسے مانگ لیتی تو کبھی کوئی اور چیز۔ امی کی بات سنتے ہی لاتعداد واقعات میرے زہہن میں گھومے کہ جب ابو نے ہماری خواہشات یا بات کو نظر انداز کرتے ہوئے مصباح پھپھو کی بات مانی تھی ۔ مصباح پھپھو کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی اور وہ ایک بھاری وجود کی عورت تھیں اور سچ پوچھو تو مجھ ان میں کشش کی کوئی چیز نہیں لگتی تھی لیکن وہ کہتے کہ حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا تو میں نے اپنے جزبات میں ڈوبے ہوئے کہا افف امی ابو کی پسند بھی کتنی گھٹیا اور تھرڈ کلاس نکلی ۔ یہ بات میرے دل کی آواز تھی اور میں نے بغیر لگی لپٹی یہ بات کہتے ہوئے امی کی طرف دیکھا تو وہ کھوجتی ہوئی نگاہوں سے مجھے ہی دیکھ رہی تھین ۔ میں نے یہ بات کی اور منہ آگے کرتے ہوئے ان کے گال چومتے کہا امی آپ جیسا تو کوئی نہیں ہے آپ تو لاکھوں میں ایک ہیں میری امی اور ساتھ ہی لن کو ان کی پھدی میں دھکیلنا جاری رکھا امی نے مجھے دبوچتے ہوئے میرے ہونٹوں میں ہونٹ دال لئیے اور میرا ساتھ اپنے آپ کو اچھال کر دینے لگیں اور بولیں مجھے تو اب پتہ چلا ہے میرا بھی کوئی وجود ہے میں تو شروع دن سے اس کتی کا نام ہی سنتی آئی ہوں میں نے ان کی آنکھوں کو پیار کرتے ہوئے کہا امی پلیز اب اس کا نام نا لیں مجھے خود سے پیار کرنے دیں یہ بات ہم پھر کبھی کریں گے اور تھوڑا اوپر ہوتے ہوئے ان کے دونوں مموں کی نپلز کو انگلی اور انگوٹھے کے درمیان ہلکا سا دبایا امی نے ایک سسکی بھری اور مسکراتے ہوئے کہا اچھا میرے راجا ابھی تو اپنی مرضی کر لے اور چہرہ اوپر کرتے ہوئے میرے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ دئیے ۔ میں نےبھی ان کے ہونٹ چوستے ہوئےپھدی میں دھکے لگانا جاری رکھے ۔ کوئی دو منٹ بعد انکی سسکیاں تھوڑی تیز ہوئیں اور وہ مجھے دبوچتے ہوئے بولیں عمیر بیٹے زرا رک جا میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا جو پسینہ پسینہ ہو چکا تھا اور ان کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی ۔ میں نے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے مجھے اوپر سے اٹھنے کا اشارہ کیا میرا دل تو بالکل نہیں کر رہا تھا مگر میں نے پیچھے ہٹتے ہوئے لن ان کی پھدی سے باہر نکالا تو دیکھا کہ لن ان کی پھدی کے پانی سے لتھڑا ہوا ہے امی نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور اپنی نیچے پڑے ہوئئ شلوار اٹھاتے ہوئے اپنی پھدی پہ پھیری اور صاف کرتے ہوئے میرے لن کو بھی اسی شلوار سے صاف کر دیا اور پھر صوفے سے نیچے اترتے ہوئے صوفے کے بازو پہ اس طرح جھکیں کہ صوفے کا بازو ان کے پیٹ کے نیچے آ گیا اور چہرہ صوفے کی سیٹ پہ چلا گیا اور ان کی موٹی گانڈ اور پھدی پیچھے سے ابھر کر باہر آ گئی اور انہوں نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور اپنی گانڈ ہلا کر مجھے دیکھنے لگیں
میں ان کے پیچھے چلا اور اور ان کے پیچھے کھڑا ہونے سے پہلے میں نے لائٹ آن کر دی جس سے پورا لاوئنج اچھی طرح روشن ہو گیا امی نے اسی طرح جھکے ہوئے میری طرف دیکھا اور بولیں اوئے بے شرم سارا کچھ تو دیکھ لیا اب یہ لائیٹ کیوں جلائی ہے میں ان کے پیچھے کھڑا ہوا اور ان کی موٹی سفید ابھری ہوئی گانڈ کے درمیان دیکھنے لگا جس کی درمیانی گلی میں گانڈ اور پھدی کے سوراخ نمایاں تھے میں نے ان کی گانڈ کی ایک سائیڈ پہ ہلکا سا تھپڑ مارا اور کہا مجھے سب کچھ واضح اور صاف دیکھنا ہے کہ کیسے کیا ہوتا ہے کیسے اندر جاتا ہے میرا تھپڑ اپنی گانڈ پہ لگتے ہی امی نے ہلکی سی اوئی کی اور اپنی موٹی گانڈ کو میرے آگے لہرانے لگیں اور بولیں افففف کتنا کنجر بچہ ہے ماں کی پھدی میں لن جاتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے میں ان کی بات سنتے ہوئے ان کی گانڈ اور پھدی کا معائینہ کرنے لگا ان کی رانوں کے درمیان ان کی پھدی کے موٹے پھولے ہوئے ہونٹوں سے اوپر پھدی کا سوراخ تھا اور وہ بھی گول سوراخ بنا ہوا تھا اس سے زرا سا اوپر ان کی گانڈ کا گہرا براون سوراخ تھا جو پھدی کے سوراخ کی نسبت بہت چھوٹا تھا میں نے ان کی گانڈ کے حصے دونوں ہاتھوں میں بھرتے ہوئے ان حصوں کو مخالف سمت میں کھینچ کر الگ کیا تو ان کے دونوں سوراخ اور واضح ہو گئے ان کے جسم پہ کہیں بال نا تھے میں نے ہاتھ ان کی رانوں کے درمیان سے گزار کر ان کی پھدی پہ پھیرا تو مجھے انتہائی نرمی اور ملائمت کے ساتھ ہلکے گیلے پن کا احساس ہوا امی اس طرح صوفے پہ جھکی ہوئی تھی یا یوں کہنا مناسب کہ الٹی لیٹی ہوئی تھیں کیونکہ ان کے پیٹ کے نیچے صوفے کے بازو کا سہارا تھا۔ میں نے ہاتھ پھدی کے ہونٹوں سے رگڑتے ہوئے اوپر لایا اور پھر ایک انگلی پھدی کے سوراخ میں گھسائی تو وہ آرام سے اندر گھس گئی میں نے انگلی کو کچھ دیر اندر باہر کیا اور پھر گیلی انگلی کو باہر نکال کر ان کے گانڈ کے سوراخ پہ رکھا اور اندر دبا دیا انگلی گانڈ کے سوراخ کی دیواروں سے رگڑ کھاتے ہوئے اندر گئی تو مجھے بہت اچھا لگا کیونکہ پھدی میں تو انگلی آرام سے اتر رہی تھی لیکن گانڈ میں وہ سوراخ کی دیوار سے رگڑ کھا کہ گئی تھی ۔ میں نے انگلی کو گانڈ میں اندر باہر کرنا شروع کیا تو امی نے اوئی اوئی کرتے ہوئے کہا عمیر بچے تیل لائی ہوئی ہوں وہ لگاو خشک انگلی اندر مت کرو مجھے جلن ہو گی بعد مین ۔لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ انہوں نے مجھے روکا نہیں تھا اور نا آگے سے ہلنے کی کوشش کی
میں پیچھے ہوا اور میں نے تیل کی بوتل اٹھائی اور اس سے تیل ہتھیلی پہ لگاتے ہوئے امی کی گانڈ کے سوراخ پہ لگایا اور پھر کچھ تیم سے انگلیا لتھڑتے ہوئے وہ تیل ان کی گانڈ کے سوراخ پہ رکھ کر انگلی اندر باہر کرنے لگا تیل لگنے سے ان کی گانڈ کا سوراخ نرم کو گیا اور اس کا منہ تھوڑا سا کھل گیا میں نے پھر تیل کی بوتل اٹھائی اور تیل کی دھار اوپر سے ان کی گانڈ کے سوراخ پہ گرائی دھار پہلے سوراخ کی سائیڈ پہ گری تو میں نے بوتل اور دھار کو ایڈجسٹ کیا اور تیل کی دھار ان کے سوراخ کے درمیان گرنے لگی انہوں نے تیل اپنی گانڈ میں گرتا اور جاتا محسوس کیا تو سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولیں اوئے بدتمیز بس بھی کر دے ساری بوتل اندر گراو گے اب ۔ میں نے بھی ہنستے ہوئے تیل کی بوتل ٹیبل پہ رکھی اور اپنا اکڑا ہوا لن لیکران کے پیچھے کھڑا ہو گیا امی نے اپنی گانڈ میرے سامنے ہلا کر اوپر اٹھائی اور شرماتے ہوئے بولیں بدتمیز مجھے یوں گھور رہا ہے جیسے میں اسی کی ملکیت ہوں ۔ میں نے ان کی گانڈ پہ ہلکی سی چپت لگائی اور کہا میری ہی ہیں اور آپ پہ میرا ہی حق ہے کسی اور کی ہو کر تو دیکھیں اس کی جان لے لوں گا ۔۔ امی یہ بات سن کر ہنس پڑیں اور زیر لب بولیں میرا دیوانہ عاشق ۔ پاگل ہو گئے ہوجاو کوئی اپنی عمر کی دیکھو مجھ بڈھی میں کیا ڈھونڈ رہے ہو تمہارے باپ نے اب چھوڑا ہی کیا ہے ؟ میں نے لن کو ان کی گانڈ کے تیل سے لتھڑے ہوئے سوراخ پہ رکھا اور کہا امی آپ جیسی اور کون ہے بھلا ؟؟ پورے خاندان میں ہمارے پورے محلے میں آپ جیسی خوبصورت عورت اور کوئی نہیں ہے یہ کہتے ہوئے میں نے لن کی نوک ان کی گانڈ کے سوراخ پہ دبائی جیسے ہی ان کو دباو محسوس ہوا وہ ایک دم اچھلیں اور گانڈ کو ہلا دیا اور میری طرف مڑ کہ دیکھنے لگیں میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا تو وہ بولیں پہلے آگے ڈالو پیچھے بعد میں ڈالنا۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا میں نے لن کی ٹوپی پھدی کے منہ پہ رکھی اور اندر دبائی میرا لن سلپ ہوتا ہوا تھوڑا سا اندر اترا ہی تھا کہ امی نے ایک جھٹکے سے اپنی بھاری گانڈ میرے ساتھ مار دی جس سے میرا پورا لن ان کی پھدی میں اترا اور ان کی گانڈ میرے لن پہ لگتے ہی تھپ کی آواز گونجی اس تھپ کے ساتھ امی کے منہ سے ایک زوردار آہ نکلی میں نے بھی لن کو کھینچ کر باہر نکالنا چاہا تو امی نے پھدی کو انتہائی ٹائیٹ کر لیا اور میرا لن پھنستا ہوا باہر نکلا اس سے پہلے کہ میرے لن کی ٹوپی باہر نکلتی انہوں نے پھر اپنی گانڈ زور سے میرے لن پہ ماری۔ میں نے جب ان کو اس طرح رسپانس دیتے دیکھا تو میں نے لن اندر باہر کرنے کی مشین چلا دی اور تیز جھٹکے لگاتے ہوئے لن ان کی پھدی میں اندر باہر کرنے لگ گیا پہلے میں نے دونوں ہاتھ ان کے بھاری کولہوں سے زرا اوپر رکھتے ہوئے ان کی کمر پکڑتے ہوئے جھٹکے لگانا شروع کیے تو ان کے منہ سے غوں غوں افففف ہائے اوئی کی آوازیں نکلنے لگیں ہر بار جب لن ان کی پھدی میں اترتا تو پھدی اپنی دیواریں کھولتی ہوئی لن کو اپنے اندر آنےکا راستہ دیتی اور جیسے میں لن باہر کھینچتا تو وہ پھدی کو بھینچ لیتیں مزے اور سکون کی ایک پوری لہر میرے وجود میں تھی اور امی بھی مزے سے سسک رہی تھیں ہمارے جسم پسینے سے شرابور ہو چکے تھے اسی طرح جھٹکے لگاتے لگاتے امی نے دونوں ہاتھ پیچھے کیے اور اپنا چہرہ صوفے پہ رکھتے ہوئے اپنے دونوں چوتڑ ھاتھ سے کھول دئیے اور تیز تیز سسکیاں لینے لگیں میں نے جھٹکے لگاتے ہوئے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ہوچھا امی کیا ہوا ہے تو وہ اسی طرح جزبات میں ڈوبے لہجے میں بولیں عمیر میری جان اور زور لگا شاباش ایسے ہی اپنی ماں کی پھدی مار میرے لعل میرے سوہنے ماہیا اپنی امی کو چودو میری جاں افففف شاباش اور زور لگاو میرے ہر جھٹکے پہ وہ سسکیاں بھر کر یہی کہنے لگ گئیں میری جان میرے لعل اپنی ماں کو اچھے سے چود میرا بچہ شاباش اسی طرح زور لگا میری جان ۔۔ میں یہ سن کر اور زیادہ مزے میں ڈوب گیا اورتیز دھکے لگانے لگا کچھ ہی دیر کے جھٹکوں کے بعد امی کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی جو پورے گھر میں گونجی اور ان کا پورا جسم اکڑا جیسے ان کی جان نکل رہی ہو انہوں نے جسم کو پورا اوپر اٹھایا اور کانپتے ہوئے اوئی اوئی کرتے ہوئے ڈھیلی ہوتے ہوئے صوفے پہ گر گئیں اور اس کے ساتھ ہی مجھے ان کی پھدی میں لن کے ارد گرد جیسے چشمہ ابلتا ہوا محسوس ہوا امی فارغ ہو چکی تھیں ۔ میں نے ان کی گانڈ پہ ہلکا سا تھپڑ مارا میرا لن اکڑا ہوا ان کی پھدی میں موجود تھا انہوں نے ہلکی آواز میں اوں کیا اور بولیں کیا ہے میرے لعل ابھی تو فارغ نہیں ہوا ہے ؟ میں نہیں کہا نہیں امی ابھی تو نہیں ہوا وہ ہلکی سی کسمسائیں اور بولیں اچھا پھر جاری رکھو جب تک تم فارغ نہیں ہو جاتے میں نے ان کی بات سن کر لن کو پھدی کے اندر ہلایا لیکن وہ گیلی ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی خاص مزہ نا آیا میں نے تین چار بار لن اندر باہر کیا لیکن مجھے بالکل مزہ نا آیا میں نے لن کو ان کی پھدیسے باہر نکالا تو ان کی پھدی سے ہلکا ہلکا سفید پانی رسنے لگا
امی نے مڑ کہ پیچھے دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر سائیڈ پہ پڑی اپنی قمیض اٹھائی اور اس اپنی ٹانگوں کے درمیان سے ہاتھ گزار کہ اپنی پھدی صاف کرنے لگ گئیں اور پھدی صاف کرتے میری طرف دیکھا میرا لن ان کی پھدی کے پانی سے گیلا ہو چکا تھا انہوں نے ایک نظر لن پہ ڈالی اور بولیں بیغرتی کی انتہا دیکھو ماں کی پھدی مار کہ بھی پیچھے کھڑا ہے اور اس کے چہرے پہ کوئی شرم کے آثار نہیں ہیں بالکل باپ پہ گیا ہے یہ بات کرتے ان کے چہرے پہ ہلکی مسکراہٹ تھی وہ مذاق کر رہی تھیں میں ان کی بات سمجھ گیا اور ہلکا سا تھپڑ ان کی گانڈ پہ مارا میرا ہاتھ لگنے سے ان کے بھاری کولہے لرز کر ایک دوسرے سے ٹکرائے اور سفید پہاڑیاں آپس میں جڑ کر الگ ہوئیں وہ نظارہ کسی کے بھی ہوش اڑانے کے لیے کافی تھا ۔ میں نے اس نظارے کی گہرائی میں ڈوبتے ہوئے کہا میں تو پیار کی انتہا دیکھ رہا ہوں جہاں ایک ماں نے اپنا خوبصورت بدن اپنے بیٹے کے آگے رکھ دیا ہے اس سے زیادہ محبت اور کیا ہو سکتی ہے یہ کہتے ہوئے میں نے پھر ہلکا سا تھپڑ ان کی گانڈ پہ مارا ۔ امی نے ہلکی سی سسکی لی اور اپنا منہ آگے صوفے پہ ٹیکتے ہوئے بولیں بے شرم ماں کو مکھن لگا رہا ہے ؟؟ میں نے اپنے ہاتھ کی بڑی انگلی ان کی گانڈ کی موری پہ رکھ کر دبائی تو پوری انگلی بغیر کسی رکاوٹ کے اندر گزر گئی اور انگلی اندر ڈالتے ہوئے بولا نہیں مکھن تو نہیں تیل لگایا ہے امی جانو کی گانڈ پہ اگلی بار تو مکھن لگا کر چاٹوں گا۔ میری بات سن کر وہ ہنس پڑیں اور بولیں اب ماں کی جان کب چھوڑو گے بڈھی میں اتنی ہمت تو نہیں ہے اب بس کر دو لیکن یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی گانڈ اور اوپر اٹھائی جس سے ان کی پھدی اور گانڈ کے ہونٹ واضح ہو گئے میری نظر ان کی پھدی کے ہونٹوں کے نیچے پھدی کے سوراخ پہ پڑی جو میری چودائی سے کھلا ہوا تھااور اس کے ساتھ گانڈ کا سوراخ جو تیل لگنے سے چمک رہا تھا میں نے انگلی ان کی گانڈ میں اندر باہر کی اور پھر باہر نکالی اور لن کی نوک کو گانڈ کی موری پہ رکھ کر ہلکا سا دبایا امی کے منہ سے تیز سسکی نکلی اور بولیں اپنی ماں کو گانڈو بنانا لازمی ہے کیا بیٹا؟؟ میں نے کہا امی جی میری تکمیل اسی سے ہو گی نا ادھر لن کی ٹوپی نے ان کی گانڈ کی موری کو کھولا تو سکون کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑی میرے منہ سے بھی بے اختیار افففف نکلا
میرے منہ سے اففف نکلتے ہی امی نے تیزی سے میری طرف مڑ کہ دیکھا اور بولیں کیا ہوا میری جان اففف کیوں کیا؟؟ ان کے چہرے پہ پریشانی کے تاثرات تھے۔ میں نے ہاتھ سے ان کی کمر کو سہلاتے ہوئے کہا ارے امی بس مزے کی وجہ سے نکلا ہے اور کچھ نہیں امی نے سر کو دائیں بائیں ہلایا اور ہنستے ہوئے اسی طرح جھک کر گانڈ کو ہلایا اور پوری گانڈ کو پیچھے زور سے دھکیلا میرے لن کی ٹوپی ان کی گانڈ کے سوراخ میں دھنسی ہوئی تھی ان کے یوں کرنے سے وہ پچک کر کہ سارا لن ان کی گانڈ میں اتر گیا امی نے ایک زوردار آہ کی اور مڑ کہ میری طرف دیکھا اور بولیں دیکھو سارا اندر گیا ہے یا نہیں۔ میں نے نیچے دیکھا تو میرا سارا لن ان کی گانڈ کی سفید پہاڑیوں کے درمیان سے اندر ہو چکا تھا اور گانڈ کی موری نے اسے یوں جکڑا ہوا تھا جیسے یہ لن بنا ہی اسی گانڈ کے لیے ہے مجھے بہت مزہ آ رہا تھا میں نے ایک نظر گانڈ میں گھسے لن کو دیکھا اور پھر امی کو دیکھا جن کے چہرے پہ ممتا ہی ممتا تھی پیار ہی پیار تھا اور اپنا سب کچھ بیٹے پہ وار دینے کی ہمت اور جزبہ ان کے چہرے سے عیاں تھا۔ میں نے ان کے اوپر جھکتے ہوئے جزبات سے ڈوبے لہجے میں کہا امی لو یو امی اور ان کی گردن کے پیچھے چومنے لگا اور ہاتھ نیچے لے جا کر ان کے بھاری ممے مسلنے لگ گیا ۔ امی نے ہلکی سی سسکی بھری اور جزبات سے ڈوبے لہجے میں کہا لو یو بیٹا میرا سارا کچھ تم ہی تو ہو میری جوانی کا احساس میرے جسم کی خوبصورتی کا احساس دلانے والے تم ہی تو ہو ورنہ میں تو خود کو ختم سمجھ رہی تھی۔ میں نے ان کے ممے تھامے ہوئے لن کو تھوڑا پیچھے کھینچا اور پھر اندر گھسایا تو ان کی گانڈ کی موری مجھے پوری طرح لن کے ارد گرد کستی ہوئی محسوس ہوئی تو میں نے کہا اففف میری ماں دیکھو تو سہی آپ کتنی جوان اور رسیلی ہو اففف کتنی ٹائیٹ گانڈ ہے امی جان اففف امی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور مجھے ان کی گانڈ کی موری مزید ٹائیٹ ہوتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ سوراخ تنگ ہو رہا تھا کولہے اسی طرح الگ الگ تھے وہ اپنی گانڈ میں میرے لن کو بھینچ رہی تھیں۔
سب کچھ تمہارا ہے بچہ تم سے آگے تو کچھ بھی نہیں مجھے ۔ امی نے جزبات سے ڈوبے لہجے میں کہا اور میری طرف پیار بھری نظروں سے دیکھا ۔۔ مجھے یوں لگا کہ کیسے میری تکمیل ہو گئی ہے میں شائد مکمل ہو چکا ہوں میں نے اوپر ہوتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ ان کے بھاری کولہوں سے زرا اوپر ان کی کمر پہ رکھے اور لن کو جھٹکے لگانے لگ گیا میں لن کو کھینچ کر گانڈ کی موری تک باہر لاتا اور پھر اسے پورا ٹٹوں تک اندر گھسا دیتا امی اسی طرح آگے جھکی اوں اوں کر رہی تھیں میں کوئی دو سے تین منٹ ان کی گانڈ کی لگاتار چودائی کرتا رہا پھر امی نے میرے ایک جھٹکے پہ خود کو آگے کیا جس سے میرا لن ان کی گانڈ سے پچک کی آواز کے ساتھ باہر نکلا میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا کیونکہ میرا تو کام ہونے والا تھا امی کی سانس تیز چل رہی تھی انہوں نے ہاتھ پیچھے کیا اور میرے لن کو پکڑ کہ پھدی پہ رکھا اور بولیں بچہ تھوڑا سا اور کرو ادھر اور لن کو پھدی میں لیتے ہوئے نیچے جھکتی چلی گئیں پھدی اور گانڈ کے سوراخ کی تنگی میں بہت فرق تھا مجھے مزہ تو وہ نا ملا لیکن پھر بھی میں ان کے کہنے پہ جھٹکے مارتا گیا امی بھی اپنی موٹی گانڈ پیچھے دھکیلتے ہوئے لن کو اپنی پھدی میں لینے لگیں اور اس کے ساتھ ہی ان کے منہ سے اوں اوں کے ساتھ گالیوں کا طوفان نکلا اور بولیں اففف مادر چود کتے حرامی کنجر باپ کی اولاد حرامزادے کمینے ماں کی بنڈ مارنے والے کسی گشتی کی اولاد اوئی اوئی اوئی کرتے ہوئے انہوں نے اپناآپ اوپر اٹھایا ادھر بھرپور چدائی سے میں اور میرا لن بھی فل جوبن پہ تھے پسینے سے میرا جسم بھیگ چکا تھا اور ہماری سانسوں سے کمرہ گونج رہا تھا میرا لن ان کی پھدی کی نرم گیلی دیواروں سے رگڑا جا رئا تھا اور پھر ان کی پھدی مجھے بھینچتے ہوئے گیلی ہوتی چلی گئی اور پھدی کا پانی محسوس کرتے ہی میرے لن نے بھی ان کی پھدی میں اپنا سارا کچھ ان کی پھدی میں نکالنا شروع کر دیا اور ہزاروں لاکھوں پوتے پوتیاں اپنی دادی ماں کی پھدی میں اترتی چلی گئیں اور میں بے سدھ ہو کر ان کے اوپر گر گیا اور انہیں بے تحاشا چومنے لگا۔
لن امی کی پھدی میں تھا اور اور وہ صوفے پہ جھکی ہوئی تھیں ہم دوبوں فارغ ہو چکے تھے وہ تھوڑا سا ہلیں اور کہا بیٹا اب اوپر سے اٹھ جاو ورنہ تمہارا یہ پھر کھڑا ہو جائے گا اور مجھ میں اب ہمت نہیں ہے میں ان کے اوپر سیدھا کھڑا ہوا اور اپنے ہاتھ ان کی کمر پہ رکھ کر ان کے ننگے بدن پہ ایک نظر دوڑائی میری نظر ان کے گورے چکنے بدن سے پھسلتی ہوئی ان کی گانڈ تک پہنچی بھرے بھرے جسم کے نیچے موٹی تازی گانڈ کا براون سوراخ جس کا منہ تھوڑا کھلا ہوا اور اور اس کے نیچے میرا لن پھدی میں تھا لن کے اوپر ان کی پھدی سے نکلا ہوا پانی تھا اور پھر میری نظر گانڈ سے ان کے چہرے کی طرف گئی جہاں سکون ہی سکون تھا ۔ میں نے لن کو آہستہ سے کھینچ کر باہر نکالنا شروع کر دیا اور دھیرے دھیرے سارا لن باہر نکال دیا میرے لن باہر نکالتے ہی وہ اوپر ہوئیں اور سیدھی کھڑی ہو گئیں اور میری طرف مڑ کہ میرے لن پہ ایک نظر ڈالی جو ان کی اور میری منی سے لتھڑا ہوا نیم مرجھایا ہوا تھا امی نے ایک نظر مجھے دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر انہیں اپنے بازووں میں لے لیا اور دونوں ہاتھ ان کی کمر کے گرد کس کے باندھتے ہوئے ان کے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دئیے میرا نیم مرجھایا ہوا گیلا لن ان کی گیلی پھدی کے اوپر رگڑ کھانے لگا۔ امی نے بھی میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لیے اور بے تحاشا چومنے لگیں تھوڑی سی کسنگ کرنے کے بعد وہ ہنستی ہوئی پیچھے ہٹیں اور بولیں بس کر دو عمیر اب مجھ میں اور ہمت زرا بھی نہیں رہی ہے ۔ میں نے پیاسی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا اور کہا امی آپ سے کب دل بھر سکتا ہے میرا دل کرتا ہے اور کوئی کام نا کروں بس آپ کو چومتا رہوں آپ کو پیار کرتا رہوں بس اور کوئی بھی کام نا کروں امی میری بات سن کر مسکرائیں اور بولیں میں کہیں بھاگ تو نہیں رہی میری جان اب جب موقعہ ملے گا تو کر لینا جو تمہارا دل کرے گا۔ میں نے امی کوپھر سینے سے لگایا اور کہا امی جانو بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اتنا پیار کیا ہے امی نے میرا ماتھا چوما اور کہا تم میری جان ہو میرا بچہ بس اب تھوڑا سا آرام کر لو آرام بھی تو ضروری ہے ۔ نا چاہتے ہوئے بھی میں ان سے الگ ہوا اور واش روم چلا گیا اور وہ بھی واش روم چلی گئیں ۔ اس کے بعد نہا کر میں سو گیا صبح جب اٹھا تو دس بج چکے تھے میں کمرے سے باہر نکلا تو امی صحن میں صفائی کر رہی تھیں انہوں نے میری طرف دیکھا تو ان کے چہرے پہ خوشی کے تاثرات تھے وہ کھلی کھلی ہوئی لگ رہی تھیں ۔ میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے میری طرف دیکھا اور پھر دیکھتی ہی گئیں ان کی آنکھوں میں ممتا پیار اور محبت کی ان گنت لہریں تھیں اور ہر ایک لہر کا اپنا رنگ تھا ۔ میں ان کی آنکھوں میں دیکھتا ہی چلا گیا اور وہ بھی وارفتگی کے عالم میں مجھے دیکھ رہی تھیں مجھے دیکھتے دیکھتے ان کے لب زرا سے ہلے اور وہ بولیں میرا ماہیا جاگ گیا ہے ؟؟ مجھے ان کے ہونٹوں سے اپنے لیے لفظ مائیا بہت اچھا لگا اور میں نے ان کے سامنے کھڑے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جی امی جان جاگ گیا۔۔ خون کے رشتے کی محبت سب سے انوکھی ہوتی ہے اور اس محبت میں جب جسم شامل ہو جائیں تو یہ دو آتشہ ہو جاتی ہے محبت اور ہوس جب مل کہ ٹکراتے ہیں تو جسم کے طوفان سب کچھ بہا لے جاتے ہیں جو لوگ انسسٹ سے گزرے وہ سمجھ سکتے کہ خونی رشتے سے محبت کیا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ بولتے کہ انسسٹ غلط ہے تو ان کی معلومات کے لیے کہ نسل انسانی کی بقا انسسٹ سے ہی ممکن رہی کہ شروعاتی دور میں بہن بھائی کی شادی ہی ہوا کرتی تھی جس میں قصہ ہابیل و قابیل انسسٹ کو ہی بیان کرتا ہے یعنی دنیا میں پہلے قتل کی بنیاد ایک بہن ہی بنی تھی۔ اس کے بعد پھر امی سے میری محبت اور تعلق بڑھتا گیا ۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ میں شام کے وقت کھیل کر گھر آیا تو دیکھا پھپھو آئی ہوئی ہیں ۔۔۔ جی وہی پھپھو جن کے دیوانے ابو تھے جو مجھے امی کی زبانی علم ہوا تھا
میں نے ابو کو اور انہیں سلام کیا وہ صوفے پہ بیٹھی ہوئی تھیں اور انہوں نے ایک ٹانگ دوسری ٹانگ پہ رکھی ہوئی تھی جس سے ابو والی سائیڈ سے ان کے بھاری بھر کم کولہے اور ان کی درمیانی لائن واضح تھی اوروہ ابو سے باتیں کر رہی تھیں میں نے ان کو سلام کرتے ہوئے ان پہ نظر ڈالی اور پھر باقی بہن بھائیوں کو دیکھنے اندرونی کمروں کی طرف بڑھ گیا تو دیکھا وہ سب مل کہ کھیل رہے تھے۔ میں پھر واپس آیا اور ان کو دیکھ کر کچن میں چلا گیا جہاں امی کھانا بنا رہی تھیں ۔ میں نے جا کر ان کو سلام کیا اور باہر دیکھتے ہوئے ان کے چوتڑوں پہ ہلکا سا تھپڑ مارا اور کہا باہر آپ کی سوتن آئی ہے اور آپ اسے ابو کے پاس چھوڑ کر کچن میں گھسی ہوئی ہیں ۔ امی میری طرف مڑیں تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی انہوں نے دروازے سے باہر دیکھا تو باہر سے اندر کچھ نظر نہیں آ رہا تھا کہ کچن کی سیٹنگ ایسی تھی امی میری طرف مڑتے ہوئے باہر کو دیکھتے ہوئے میرے سینے سے لگیں اور مجھے اپنے ساتھ لگا لیا ان کے بھاری اور نرم ممے مجھے اپنی چھاتی پہ محسوس ہوئے اور وہ میری کمر سہلاتے ہوئے بولیں اپنی سوتن تو میں خود لاؤں گی تیرے لیے اور اپنا ہاتھ اوپر کر کے میرے نیچے والے ہونٹ کو انگلی سے مسلنے اور دبانے لگیں ۔ میرا موڈ ان سے کچھ مذاق کرنے کا تھا لیکن ان کی اس بات نے مجھے لاجواب سا کر دیا میں نے بھی پھر ان کا گال چوم لیا اور ہاتھوں سے ان کی کمر سہلانے لگا امی نے میرے گال پہ پیار کیا اور مجھے ہونٹ پہ ایک تیز کس کر کہ پیچھے ہٹیں میرا لن تو ان کے ساتھ لگتے ہی اکڑ چکا تھا امی دروازے کی طرف گئیں اور دروازے کی چوکھٹ سے لگتے ہوئے باہر جھانکنے لگیں جہاں ابو اور پھپھو کی باتیں جاری تھیں امی دروازے کی چوکھٹ سے یوںلگی ہوئی تھین کہ ان کا سارا بدن دیوار کے پیچھے اور چہرہ اوپر دروازے سے باہر تھا میں امی کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور کہا امی کیا دیکھ رہی ہیں امی نے اسی طرح کھڑے سرگوشی میں کہا کچھ نہیں تیرے باپ کی بیغرتی دیکھ رہی ہوں کیسے باتوں میں لگا ہے اور اس کتی کو دیکھو کیسے جلوے دکھا رہی ہے مجھے امی کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ انہیں غصہ ہے میں پیچھے سے ان کے ساتھ جڑا اور کہا امی ان کو دفع کریں میں ہوں جو آپ کے پاس اور ان کے ساتھ جڑنے سے میرا اکڑا ہوا لن ان کی گانڈ کے درمیان لگا اور وہاں اپنا راستہ بنانے لگا امی نے ہلکی سی سسکی لی اور اپنی گانڈ پیچھے دباتی ہوئی بولیں عمیر۔۔ میں نے کہا جی امی ،؟؟ وہ اسی طرح دروازے سے باہر دیکھتی ہوئی تھوڑی سی جھکیں اور سرگوشی میں بولیں جب وہ باز نہیں آ رہا تو نا سہی مجھے ان کی بات کچھ سمجھ نہ آئی لیکن دوسرے ہی لمحے جب امی نے اپنے چوتڑوں سے جھکتے ہوئے قمیض اوپر کی تو میں ساری بات سمجھ گیا کہ امی کیا چاہتی ہیں اور مرد ہوتے ہوئے بھی صورتحال کو محسوس کر کے میری ٹانگیں کانپ گئیں لیکن کہتے ہیں ہوس جب طاری ہو پھر کچھ سمجھ نہیں آتا میں نے بھی ان کی شلوار کو کھینچ کر ان کے چوتڑوں کو ننگا کر لیا اور نیچے بیٹھ کر ان کو چومنے لگ گیا امی نیچے جھکی دروازے سے باہر دیکھ رہی تھین اور انہوں نے اپنی گانڈ اوپر اٹھائی ہوئی تھی جسے میں پاگلوں کی طرح چومے جارئا تھا اور باہر لاونج میں ابو بھیٹھے پھپھو سے باتیں کر رہے تھے
میں نے امی کے بھاری سفید کولہوں پہ پیار دینے شروع کر دئیے اور ان کے کولہوں کے گوشت کو ہونٹوں کے درمیاں دبا کہ ہلکے ہلکے کاٹنے لگ گیا جس سے کہ میرے دانت ان کے گوشت سے نہ ٹکرائیں بلکہ ہونٹوں کے درمیان گوشت کو دباتا اور پھر چھوڑ دیتا اسی طرح جس جگہ کو ہونٹوں میں دباتا مڑ کہ اسی جگہ پہ زبان نکال کہ پھیرتا امی اسی طرح جھکی ہوئی دروازے سے باہر جھانک رہی تھیں میں نے پیار کرتے کرتے ایک ہاتھ ان کی ٹانگوں میں گھساتے ہوئے ان کی پھدی کو اپنے ہاتھ کہ نیچے رکھ کر مسلنا شروع کر دیا امی نے آواز تو کوئی نا نکالی لیکن اپنی گانڈ کو مزید چوڑا کرتے ہوئے پیچھے کی طرف دھکیل دیا میں نے دوسرے ہاتھ سے ان کی گانڈ کے ایک حصے کو پکڑ کر باہر کی طرف کھینچا اور منہ گانڈ میں گھسا کر زبان گانڈ کے سوراخ پہ رکھی اور اسے چاٹنے لگ گیا اور دوسرے ہاتھ سے ان کی پھدی کو جو گیلی ہو رہی تھی مسلنے لگ گیا میری زبان اپنی گانڈ پہ لگتے ہی امی کے جسم کو جھٹکا لگا لیکن وہ بدستور باہر دیکھتی رہیں مجھے ان کی گانڈ چاٹتے کوئی دو منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ امی آگے سیدھی ہوئیں اور اوپر اٹھ کر کھڑی ہو گئیں میں بھی ان کے پیچھے اٹھ کر کھڑا ہو گیا امی نے شلوار اوپر نا کی اور میری طرف مڑیں اور میرا چہرہ اپنے ئاتھوں میں تھام کر مجھے دیکھنے لگیں ان کی آنکھوں میں کچھ عجیب سا تاثر تھا جو میں بلکل نا سمجھ سکا میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے انہوں نے سرگوشی میں پوچھا عمیر میں کون ہوں اور اسی طرح نم آنکھوں سے میری آنکھوں میں جھانکتی رہیں ۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھائے اور ان کی کمر کو پکڑ کر ساتھ لگایا اورکہا میری امی ہو میری جان اور کون ہو سکتی بھلا؟؟ امی نے میرا جواب سنتے ہی مجھے کس کہ جپھی ڈالی اور میرے کندھے پہ سر رکھتے ہوئے بولیں یہ باہر جو بیٹھا ہے نا تیرا باپ یہ اپنی بہن کے جسم سے آنکھیں سینک رہا ہے کمینہ اور پھر رات بھر مجھے بہن بنا کر نوچے گا میری تزلیل کرے گا اور ان کا جسم ہچکیاں لینے لگا ۔ میں نے اپنے ہاتھ ان کی کمر پہ رکھے اور ان کو تھپکیاں دینے لگا اور ان کے کان کی لو چوم کر کہا امی جانو میری جان تو آپ ہو اور آپ کو کسی اور سے کیا لگا؟؟ میں جو ہوں آپ سے پیار کرنے کے لیے تو آپ کو کسی اور کی کیا ضرورت ہے؟؟ امی ایک پل کے لیے چپ سی ہو گئیں اور پھر بولیں ہاں یہ بھی ٹھیک کہہ رہا ہے تو اور پھر پیچھے ہٹتے ہوئے بولیں کچھ سزا تو اسے بھی ملنی چاہیے نا جو مجھ سے بیوفائی کر رہا ہے اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر مجھ سے الگ ہوئیں اور فریج سے مکھن کا پیکٹ نکال کر مجھے دیا اور کہا میں دروازے سے باہر دیکھتی رہوں گی تم یہ مکھن لگاو اور میری گانڈ مارو اس کتے کو بھی تنگ سوراخ کا مزہ نہیں دوں گی ۔ میں نے ان کے ہاتھ سے مکھن پکڑا اور کہا امی ان کو شک نہیں ہو گا کہ سوراخ کیسے کھلا ہوا ہے؟ وہ بولیں بس یہ فکر تم چھوڑو میں سنبال لوں گی تمہیں جو کہا ہے وہ کرو اور یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف مڑ گئیں اور دروازے کی چوکھٹ سے لگ کر کھڑی ہو گئیں میں ان کے پیچھے گیا ان کی شلوار تو نیچے ہی تھی مجھے اپنے پیچھے محسوس کر کہ امی نے اپنی قمیض کا پچھلا دامن اٹھاتے ہوئے خود کو جھکا لیا اور مجھے ہاتھ کے اشارے سے کرنے کو کہا۔ میں نے اپنا ٹراوزر تھوڑا نیچے کیا اور اپنے اکڑے ہوئے لن کو محسوس کیا اور پھر مکھن کے پیکٹ سے کچھ مکھن انگلیوں پہ لگاتے ہوئے پیکٹ کو کچن کی شیلف پہ رکھا اور ان کی گانڈ کھولتے ہوئے ان کی گانڈ کے سوراخ پہ مکھن لگا دیا امی بدستور آگے جھکی ہوئی باہر دیکھ رہی تھیں
میں نے امی کی گوری سفید گانڈ کے درمیاں ہلکے براون رنگ کے سوراخ پہ مکھن لیپ کرتے ہوئے ایک نظر امی پہ ڈالی اور امی کو دیکھا جو دروازے کی چوکھٹ سے لگی باہر جھانک رہی تھیں اور ابو اور پھپھو کی طرف دیکھ رہی تھیں جو باہر بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے ان کی باتوں کی اور قہقہوں کی آواز ہمیں کچن تک آ رہی تھی میں نے ایک نظر امی پہ ڈالی تو ان کی قمیض ان کے کندھوں سے اوپر تک تھی برا کے سٹریپ سامنے نظر آ رہے تھے اور شلوار گھٹنوں تک اتری ہوئی تھی مجھے ایک لمحے کے لیے امی بہت قابل رحم لگیں کہ اپنے شوہر سے بدلہ لینے کے چکر میں وہ اپنے ہی بیٹے کے آگے ننگی جھکی ہوئی تھیں اور اپنے سگے بیٹے سے اپنی گانڈ خود مروانے کو تیار ہیں ۔ سیانے سچ کہتے جب عورت انتقام پہ اتر آئے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے وہ اپنی جان دے بھی سکتی ہے اور کسی کی جان لے بھی سکتی ہے تاریخ اور ہمارے ارد گرد ایسے کئی واقعات ہیں جہاں عورت نے پسند کی شادی کے لیے اپنے بچے تک قتل کر دئیے اور آشنا کیساتھ مل کر اپنے ہی گھر والے مار دئیے ۔ (بحیثیت ایک عورت میں سمجھتی ہوں کہ عورت کے اندر بھی ایک عورت ہے جو اپنے احساس کرنے والے اسے توجہ دینے والے کے لیے جاگتی ہے اور پھر اس کی غلامی میں عمر گزار دیتی ہے)۔ میں نے امی کی طرف ایک بار پھر دیکھا اور اپنے لن کو پکڑ کر باقی بچا ہوا مکھن اس پہ لگا دیا اور لن کو پکڑ کر ان کی گانڈ کی موری کے اوپر رکھا امی نے لن کو گانڈ کی موری پہ محسوس کرتے ہوئے اپنے گانڈ کو ہلا کر ایڈجسٹ کیا اور اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر اٹھایا اور ہاتھ اپنے گھٹنوں پہ رکھ دئیے میں نے لن کو موری پہ رکھ کر ہلکا سا زور لگایا تو مکھن لگا ہونے کی وجہ سے لن کی نوک باآسانی سلپ ہوتی ہوئی ان کی گانڈ کے سوراخ میں اتری اور مجھے گانڈ کے گرد ایک نرم اور تنگ گرپ محسوس ہوئی امی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھ سے لن کو اور اندر کرنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ہاتھ ان کے دبیز نرم چوتڑوں پہ رکھتے ہوئے لن کو دھکیلنا شروع کر دیا اور لن بڑی نرمی اور روانی سے ان کی گانڈ کی موری میں اترتا گیا اور جڑ تک ان کی گانڈ میں اتر گیا ۔ امی نے لن کو اپنی گانڈ میں محسوس کیا اور پھر آگے مڑ کر باہر جھانکنے لگ گئیں میں نے ان کے چوتڑوں پہ ہاتھ رکھے لن کو ان کی گانڈ میں آرام سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا اور امی نے بھی اگے سے اپنی بھاری گانڈ ہلا کر ساتھ دینا شروع کر دیا میں جب لن کو اندر گھساتا تو وہ گانڈ کو کھولتے ہوئے باہر میری طرف دھکیلتیں اور جب میں لن کو باہر کھینچتا تو وہ اپنی گانڈ کو ٹائیٹ کر لیتیں۔ امی کے اس طرح ساتھ دینے سے جلد ہی میں ہمت ہار بیٹھا اور میرے دھکوں کی رفتار بڑھتی گئی ادھر میرے دھکے تیز ہوئے ادھر باہر بھی ایک فرمائشی قہقہہ گونجا اور امی نے اس قئقہے کو سنتے ہی اپنا آپ پیچھے دھکیلا اور اففف کیا اور ان کے اس طرح کرنے سے میں ان کی گانڈ میں ہی فارغ ہوتا گیا
میرے فارغ ہوتے ہی امی نے اپنی گانڈکو ٹائیٹ کر لیا اور مسکراتی نظروں کے ساتھ مڑ کر مجھے دیکھا ان کے چہرے پہ عجیب تاثرات تھے میں نے لن کو پیچھے کھینچ کر باہر نکالنا چاہا لیکن انہوں نے مجھے اشارے سے منع کر دیا اور ایک نظر پھر باہر دیکھنے لگ گئیں میں نے امی کو باہر دیکھتے ہوئے دیکھا تو ہاتھ ان کی ننگی کمر پہ پھیرنے لگ گیا اور ان کے جسم کو اپنے ہاتھ کے نیچے محسوس کرنے لگ گیا ۔ امی نے باہر دیکھتے ہوئے ہلکی سی سسکی بھری اور پھر مجھے ان کی گانڈ اپنے لن پہ تنگ ہوتی ہوئی محسوس ہوئی میرا نیم اکڑا لن ان کی گانڈ کے اندر تھا۔ امی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور لن کو آہستہ سے کھینچ کر باہر نکالا میرا لن ان کی گانڈ سے باہر نکلا تو میری نظر ان کی گانڈ کے سوراخ پہ پڑی جس کا منہ کھلا ہوا تھا اور اس کے نیچے پھدی سے بھی ہلکا پانی رسا ہوا تھا۔ میں نے امی کی طرف دیکھا تو وہ اوپراٹھیں اور اپنی شلوار ٹھیک کرتے ہوئے میرے سینے سے لگ گئیں میں نے بھی اپنا ٹراوزر اوپر کرتے ہوئے ان کے گالوں کو چوما اور ان کے ہونٹوں پہ ایک زوردار کس کی۔ اور پھر کچن سے باہر نکل گیا ۔ پھر امی کا اور میرا یہ تعلق بن گیا جب بھی موقع ملتا تو ہم آپس میں یہ سب کچھ کرتے رہتے میں کالج سے یونیورسٹی اور پھر نوکری پہ لگ گیا باقی بہن بھائی بھی بڑے ہو گئے اور یہ سب کچھ چلتا ہی رہا ۔ پھر امی نے اپنی بھانجی سے میری شادی کروا دی اور ہم سب ہنسی خوشی رہنے لگ گئے ۔۔(ختم شد)
ایک تبصرہ شائع کریں for "امی اور میرا پیار"