.
میں اسے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں کیونکہ میری رائے میں یہ ایک خوبصورت کہانی ہے۔
لیکن
اگر آپ کو ٹرانس جینڈر لوگوں سے کوئی مسئلہ ہے تو آپ اسے نہ پڑھیں۔
.
کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ اس سٹوری کی وجہ سے کوئی ٹرانسجینڈر لوگوں پر نیگیٹو کامنٹس شروع کر دے۔
.
مگر
اگر آپ کو کوئی پرابلم نہیں تو میرے خیال سے آپ اسے انجوائے کریں گے۔
.
.
آدھی عورت
.
آج کے دور میں انڈیا کے بہت سے دور دراز کے علاقے جیسے ہریانہ، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، بہار، راجستھان کے چھوٹے چھوٹے شہروں اور گاؤں میں سب سے بڑا مسئلہ لڑکوں کی شادی کا ہے۔ شہر اور گاؤں کنوارے لڑکوں سے بھرے پڑے ہیں، جوان لڑکے آہستہ آہستہ بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں، لیکن ان کا ویاہ نہیں ہو رہا۔ شادی کے لئے لڑکیوں کا تو جیسے اکال سا پڑ گیا ہے۔ اس کی اکیلی وجہ یہ ہے کے لوگ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی بچے کی جنسیت کا پتہ لگوا لیتے ہیں اور اگر لڑکی پیدا ہونے والی ہو تو بغیر کسی وجہ کے ابورشن کروا دیتے ہیں۔ لوگ اب پیسہ دیکر دلالوں/میرج بیورو کے ذریعے اپنے بیٹوں کا ویاہ کر رہے ہیں لیکن یہ دلال کبھی کبھی سیدھے سادھے لوگوں کے ساتھ دھوکہ بھی کر دیتے ہیں۔ اسی دھوکے سے ہوئی شادی کے بعد اس لڑکے کے ساتھ کیا ہوا اسی پر یہ کہانی ہے۔
.
مدھیہ پردیش کے ایک شہر میں وشال عمر 35 سال، اپنی بہن شلپا عمر 25 سال کے ساتھ رہتا ہے۔ وشال نے دلال کے ذریعے شادی کی۔ سہاگ رات کی رات کے دوران اسے پتا چلا کہ جس لڑکی (سونیا) کے ساتھ لڑکی سمجھ کر اس نے شادی کی وہ ایک ٹرانسجینڈر تھی۔ وشال ایک سمجھدار انسان تھا، اس نے رات بھر بغیر کوئی ہنگامہ کیے صبح ہونے کا انتظار کیا۔
.
صبح جب اپنی بہن اور رشتہ داروں کے بیچ اس نے اپنی بیوی کے بارے میں سبھی کو بتایا تو کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، وہ دلال جس نے شادی کرائی تھی اسے پولیس نے گرفتار کر لیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا اپنی بیوی سونیا کے ساتھ وہ کیا کرے۔۔۔۔ ساتھ رکھے یا چھوڑ دے۔۔؟؟
.
وشال سمجھدار تھا اس نے کوئی بھی فیصلہ جلدبازی میں نہ لیتے ہوئے کچھ دن بیت جانے کا انتظار کیا دیکھتے دیکھتے ایک مہینہ نکل گیا۔۔۔۔۔۔ شلپا جانتی تھی کہ اسکے بھائی نے ایک ٹرانسجینڈر سے شادی کی ہے۔ شروع شروع میں تو اسے بہت عجیب لگا تھا۔ اس نے کبھی سونیا سے بات بھی نہ کی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے غور کیا کہ سونیا انتہائی معصوم طبیعت کی تھی۔ اور ویسے بھی دیکھنے میں ایسی ویسی نہیں بلکہ اسکی سونیا بھابھی بہت ہی پیاری تھی۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنے بھائی اور سونیا کے رشتے کو قبول کر لیا تھا۔ اب اسے اپنے بھائی-بھابھی کے بیچ صرف میاں بیوی کا پیار دکھائی دیتا تھا۔۔۔ انکے جنسی اعضاء نہیں۔ لیکن معاشرے کا کیا کریں۔
.
بھلے سونیا ایک ٹرانسجینڈر تھی پر وشال کی نظر میں وہ اب بیوی ہی تھی۔ ایک عورت ہی تھی وہ۔ فرق تو دیکھنے والے کی نظر میں ہوتا ہے۔ وشال اور سونیا چونکہ ایک ساتھ ہی سوتے تھے اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنا اور حال چال پوچھنا لازمی سی بات تھی۔ کچھ دنوں میں ہی وشال کو اندازہ ہو گیا کہ سونیا کی پرسنیلٹی بہت ہی پیاری تھی اور وہ دل و جان سے اپنے شوہر کو خوش رکھنا چاہتی تھی۔ سونیا کے بوبس کافی بڑے تھے اور سونیا کا فگر بھی کمال تھا۔ وشال اس حسینہ سے زیادہ دیر تک دور نہ رہ پایا اور دونوں نے مکمل طور پر اپنے آپ کو ایک دوسرے کے حوالے کر دیا۔ وشال نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ کبھی کسی کے لنڈ سے کھیلے گا۔
.
مگر وشال کو تو اب سونیا کا لن بھی پیارا لگتا تھا کیونکہ وہ بھی اسی کا حصہ تھا۔ اس کی نظر میں سونیا کا لن ایک عورت کا ہی لن تھا۔۔۔ اور وشال کو سونیا کے لن کو چھوکر ہلانا، چومنا اور چوسنا بھی پسند تھا۔ گھر میں اکثر شلپا ہوتی، وشال تو شام کو کام سے گھر آتے ہی اپنی بیوی کی ساڑھی اُٹھا کر اور اُسکی پتلی سی لیس والی پینٹی اُتار کر اُسکے ساتھ سیکس کرنے لگتے۔ وشال سونیا کو ایک پرفیکٹ عورت مان چکا تھا۔ وہ سونیا کو پورا پیار اور عزت دیتا تھا جو سماج میں ایک بیوی کو ملنا چاہیے۔ سونیا بھی اپنے شوہر کے پیار سے خود کو بڑی خوش قسمت مانتی تھی۔
.
شوہر کے جانے کے بعد بھی ایک بیوی کے لیے گھر میں بہت سے کام ہوتے ہیں۔۔۔ سونیا کو بھی بہت کچھ کرنا تھا۔ سب سے پہلے تو شلپا کے لیے ٹفن پیک کرنا تھا۔ اسلئے سونیا شلپا کے کمرے کی طرف بڑھی تاکہ اُس سے پوچھ سکے کہ آج کتنے بجے جاب کے لیے نکل رہی ہے وہ۔
.
شلپا کے کمرے کے باہر سے ہی سونیا نے آواز دی۔۔۔ “شلپا۔”
.
“اندر آ جاؤ بھابھی”, شلپا نے جواب دیا۔
.
جسے سن کر سونیا دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔ اندر آتے ہی اُسنے دیکھا کہ شلپا صرف پینٹی پہنی ہوئی ہے اور پوری طرح سے ننگی ہے۔ اُسے ایسی حالت میں دیکھتے ہی سونیا پیچھے مڑ گئی اور بولی, “اوہو شلپا۔۔۔ کیا کرتی ہو، کپڑے پہن کر رہا کرو۔”
.
پر شلپا نے مڑتی ہوئی سونیا کا فوراً ہاتھ پکڑا اور اپنی باہوں میں کھینچ لائی۔ شلپا کے ننگے ممے اسکی بھابھی کے مموں سے اب لگ رہے تھے۔ “بھابھی اب تم سے کیا شرمانا۔ ہم دونوں عورتیں ہی تو ہیں۔ اور ویسے بھی میرے بوبس اور آپکے بوبس میں زیادہ فرق کہاں ہے؟”
.
“چل ہٹ۔ بہت بے شرم ہے تو۔ عورتوں کے بیچ بھی کچھ پردہ ہوتا ہے۔”, سونیا نے شلپا کو اپنے سے دور دھکیلتے ہوئے کہا جس سے شلپا کے ممے سونیا کے ہاتھوں سے اور دب گئے۔
.
“بھابھی تم بھی نا بہت شرماتی ہو۔ رکو میں ایک منٹ میں کپڑے پہنتی ہوں۔”, شلپا بولی اور اپنی برا پہننے لگی۔ اور پھر اس نے ایک چھوٹی سی اسکرٹ پہنی اور اُپر سے ایک سیکسی ٹاپ جس میں اسکا کلیویج کافی گہرا لگ رہا تھا۔
.
“آج آفس نہیں جاؤگی؟”, سونیا نے پوچھا۔
.
“نہیں بھابھی۔ آج تو میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سنیما جاؤں گی۔”, شلپا مسکراتے ہوئے بولی۔
.
شلپا تیار ہو چکی تھی۔ لپ گلاس لگائے آج اسکے ہونٹ بہت رسیلے لگ رہے تھے۔ کافی خوبصورت لڑکی تھی شلپا۔ تیار ہوکر وہ اپنی ٹرانسجینڈر بھابھی کے قریب آئی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر بولی, “بھابھی تم اگر شرماؤ نہ تو ایک بات کا جواب دوگی؟”
.
“کیا۔۔۔ سوال۔۔۔ ہے؟”, سونیا تو سوال سننے کے پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھی۔
.
“کیا تم لنڈ چوستی ہو؟”, شلپا نے بنا جھجھک کے اپنی بھابھی کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
.
“آہائے۔۔۔ ایسا نہیں بولتے”, سونیا نے شِلپا سے منہ پھیر کر اپنی ساڑھی کے پلو کو پکڑ کر گھمانے لگی۔
.
اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ شلپا اس سے ایسا سوال پوچھے گی۔
.
وہ بہت نروس تھی۔
.
“ٹھیک ہے۔۔ ٹھیک ہے۔۔ تو یہ بتاؤ کیا آپ میرے بھائی کو بلو جاب دیتی ہو؟”, شِلپا ہنستے ہوئے بولی۔
.
“بہت بدتمیز ہے تو شِلپا۔”, سونیا نے بِنا شِلپا کی طرف دیکھے کہا۔
.
سونیا نے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی ہلکی سی کوشش کی اور کہا: “کیا کر رہی ہو، کوئی ایسی باتیں بھی کرتا ہے اپنی بھابی سے؟”
.
شلپا سمجھ رہی تھی کہ سونیا کو اچھا نہیں لگ رہا مگر پھر بھی وہ اپنی بھابی کو تنگ کرنے کے موڈ میں تھی۔
.
شلپا نے پھر بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے کہا : “ارے بھابھی۔۔۔ پلیز بتاؤ نا۔۔۔”
.
سونیا تھوڑی ریلیکس ہو گئی۔
.
“ہاں، چوستی ہوں میں انکا وہ۔”, تھوڑی شرماتی تھوڑی مسکراتی سونیا نے اپنی ساڑھی سے منہ چھپاتے ہوئے کہا۔ تو شِلپا بھی مسکرا دی۔ “پر تو کیوں پوچھ رہی ہے؟”, سونیا نے شِلپا سے پوچھا۔
.
“بھابھی۔۔۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اب سے اپنے بوائے فرینڈ کو خوش کرنے کے لیے اس کے لنڈ کو چوسوں۔ آخر اس سے حمل ہونے کا ڈر نہیں رہتا نا؟”
.
“شِلپا!!۔۔ شادی سے پہلے یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔”, سونیا نے ایک بھابھی کے نظریے سے کہا۔
.
“اوہو بھابھی۔۔ اب تم بھی بوڑھی آنٹیوں کی طرح لیکچر نہ دینا شروع کر دو۔
.
شِلپا کی بات سے سونیا چپ رہ گئی۔
.
“اچھا بھابھی۔۔۔ آپ مجھے سکھاؤگی کہ لنڈ کیسے چوستے ہیں؟”, شِلپا نے پوچھا۔ تو سونیا نے نٹکھٹ آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا اور بولی، “چُپ کر بے شرم۔۔۔ کچھ بھی کہتی رہتی ہے۔ میں نہیں سکھانے والی تجھے۔”
.
“بھابھی۔۔۔ کیوں اتنے نخرے دکھا رہی ہو؟ زرا سکھا دوگی تو تمہارا کچھ بگڑ جائے گا کیا؟”, شِلپا نے سونیا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور سونیا نے بستر پر بیٹھ کر اپنے آنچل کو سنوارا اور آنکھیں بند کر بولی، “ٹھیک ہے تو تو سن۔۔۔”
.
“پر آنکھیں کیوں بند کر رہی ہو بھابھی؟”
.
“میں آنکھیں کھول کر تیرے سامنے نہیں کہ سکتی۔ تجھے سننا ہے تو سن۔”, سونیا بولی۔
.
“ٹھیک ہے۔ تم آنکھیں بند کر کے ہی سکھا دو۔”, اور شِلپا اپنی بھابھی سے چپک کر بیٹھ گئی۔
.
“سب سے پہلے انکے بہت قریب جانا۔۔۔ اتنے قریب کہ تمہارے بوبس انکی چھاتی سے لگ جائے۔ پھر انکی باہوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر انکے جسم سے لگ کر کھڑی ہو جانا۔ اور پھر انکی نظروں میں دیکھتے ہوئے انکے ہونٹوں کو چومنا”
.
سونیا کی بات سن شلپا نے سونیا کی بلاوز کی آستین پر سے اسکی دونوں بازوں کو پکڑا اور اسے بستر سے اٹھایا اور سونیا کے ممے سے چپک گئی۔ سونیا کی آنکھیں اب بھی بند تھیں اور اسے سمجھ نہیں آیا کہ شِلپا کیا کر رہی ہے۔ پر شِلپا اپنی بھابھی کے بوبس سے اپنے بوبس دباکر بہت قریب آ گئی اور اپنی بھابھی کے ملائم ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں سے ہلکا سا کس دیکر بولی، “ایسے؟”
.
شِلپا کی گرم سانسیں اور بوبس کو اپنے ممے پر محسوس کر سونیا ایک بار پھر نروس ہونے لگی۔ اور وہ اپنی آنکھیں بند کی رہی۔ شِلپا اپنی بھابھی کے ساتھ کچھ ایسا ویسا تو نہیں کریگی؟ اسی یقین کے ساتھ سونیا گہری سانسیں لینے لگی۔
.
“اس کے بعد کیا کرنا ہے بھابھی؟”، شِلپا نے جب کہا تو سونیا جیسے واپس ہوش میں آتے ہوئے بولی، “۔۔۔ اور پھر۔۔۔ اور پھر۔۔۔ آہستہ آہستہ انکے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انکی پینٹ کے اس حصے پر لے جانا اور اسے اوپر سے ہی پکڑنے کی کوشش کرنا۔ اس وقت انکا لنڈ آہستہ آہستہ کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا۔”
.
تو شِلپا بھی اپنی بھابھی کی ساڑھی پر سے ہی انکے تن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انکی کمر کے نیچے اس حصے تک لے گئی جہاں پلیٹ کے پیچھے سونیا کا لنڈ چھپا ہوا تھا۔ اسکے اوپر ہاتھ پھیرتے ہوئے شِلپا نے آہستہ سے سونیا کے لنڈ کو ساڑھی کے اوپر سے ہی پکڑنے کی کوشش کی۔ سونیا بھابھی کا لنڈ اس وقت ملائم سے تھوڑا سخت ہونے لگا تھا۔ “اور آگے بھابھی۔۔۔”، شِلپا آہ بھرتی ہوئی بولی۔
.
“۔۔۔ اور آہستہ آہستہ اپنے بوبس کو انکے جسم سے دباکر پورے جسم کو چھوتے ہوئے نیچے اپنے گھٹنوں پر چلی جانا۔” اور شِلپا نے ویسا ہی کیا سونیا کی ساڑھی پر شِلپا کے پھسلتے ہوئے بوبس آہستہ آہستہ اسکے لنڈ کے پاس پہنچ گئے۔
.
اب انکے لنڈ کو پھر سے اپنے ہاتھوں سے انکی پینٹ کے اوپر سے ہی سہلانا۔۔ جب تک وہ تھوڑا اور سخت نا ہو جائے۔” بھابھی کی بات سن شِلپا نے ایک بار پھر بھابھی کی ساڑھی کی پلیٹ کے بیچ ہاتھ ڈالا اور اوپر سے ہی انکے لنڈ کو سہلانے لگی۔ سونیا کا لنڈ اب اور سخت ہو چلا تھا۔ آج تک سونیا کو اس سے پہلے کسی لڑکی نے اس طرح چھوا نہیں تھا۔ وہ تو ہمیشہ سے ہی اپنے شوہر کی ہی تھی۔ پر اُسکی نند شِلپا آج اُسے بہت اکسا رہی تھی۔ شِلپا کو بھی اپنی بھابھی کی ساتین ساڑھی کو چھونے میں مزہ آ رہا تھا۔ وہ بھی بے صبری تھی جاننے کے لیے کہ اُسکی بھابھی کا لنڈ آخر کیسا ہے۔ چھونے پر تو سونیا کا لنڈ شِلپا کو بڑا ہی لگ رہا تھا پر اُسنے اب تک اُسے دیکھا نہیں تھا۔ وہ تو جیسے اُسے دیکھنے کو بیتاب ہو رہی تھی۔ ساڑھی میں اُسکی بھابھی کے لنڈ کی ابھرتی ہوئی آس سونیا اُسے اُکسا رہی تھی۔
.
سونیا اور شِلپا۔۔۔ ان دونوں عورتوں کو احساس ہی نہیں رہا کہ یہ جو وہ کر رہی تھی انہیں اس طرح مدہوش کرنے لگے گا۔ اسکے پہلے نا کبھی سونیا کا اور نا ہی شِلپا کا کسی عورت میں انٹریسٹ تھا۔۔۔ پھر بھی دونوں اس طرح مدہوش ہو رہی تھیں۔
.
“۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ اپنے بوبس کو انکے جسم سے دبا کر پورے جسم کو چھوتے ہوئے نیچے اپنے گھٹنوں پر چلی جانا۔” اور شِلپا نے ایسا کیا۔ سونیا کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور پھر ساڑھی ہٹا کر اپنے ہونٹوں سے انکی ناف کو چوم لیا اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے بھابھی کی کمر کو پکڑ کر انھیں بستر پر لیٹا دیا۔ جہاں اس نے اپنی بھابھی کی ناف اور ہلچلاتی کمر کو خوب چوما۔
.
سونیا نے اپنے لنڈ کے اتنے قریب شِلپا کو چومتے ہوئے محسوس کیا تو وہ اور مچل اُٹھی۔۔۔ اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بلاؤز پر سے اپنے بوبس کو مسلنے لگی۔
.
اب انکی پینٹ کی زپ کھول کر انکی لنڈ کو آہستہ سے باہر نکالنا۔”, سونیا آگے شِلپا کو بتاتی رہی۔
.
سونیا بھابھی نے تو پینٹ پہنی نہیں تھی اسلئے شِلپا انکی ساڑھی کے نیچے سے ہاتھ لے جاتے ہوئے انکی ساڑھی کو اوپر اُٹھانے لگی اور انکی مخملی پیروں کو چھونے لگی اور پھر انکی جانگھوں پر اپنے ہاتھ پھیرنے لگی۔ سونیا اب پوری طرح مچل اُٹھی تھی۔۔۔ وہ تڑپ رہی تھی کہ کب شِلپا اُسکے لنڈ کو پکڑے، مگر شِلپا اپنی بھابھی کو اور اکساتی رہی۔ کچھ دیر جانگھوں کو چھونے کے بعد شِلپا نے سونیا کی ساڑھی کو اور اُوپر اُٹھایا اور انکی پینٹی پر ابھرے ہوئے لنڈ کو اپنے ہاتھوں سے چھونے لگی۔ اب تو انکے لنڈ کا اکھڑ اس پینٹی میں صاف دکھ رہا تھا۔ شِلپا خود اب اُسے نکال کر چھونے کو بے چین ہو گئی تھی۔ اُس نے اپنی بھابھی کی پینٹی کو نیچے کر اپنی بھابھی کا لنڈ باہر نکال دیا۔۔۔ جسے دیکھ کر شِلپا کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔
.
یہ لنڈ بہت خاص تھا۔۔۔ گلابی اور صاف ستھرا۔۔ جسکے گرد ایک بھی بال نہ تھا۔ چمکدار، گلابی، اور بہت ہی خوبصورت لنڈ تھا وہ۔۔۔ اتنا صاف تو اُسے کوئی سونیا کی طرح کی عورت ہی رکھ سکتی تھی۔ شلپا اُسے فوراً چوس لینا چاہتی تھی پر اُسے تو ابھی اپنی بھابھی کو اور تڑپانا تھا۔
.
“اب وہ لنڈ تمہارے ہونٹوں کے لیے بیتاب ہو رہا ہوگا۔ پر تم اُسے کچھ دیر اپنے ہاتھوں سے چھونا۔۔۔” سونیا بند آنکھوں سے مدمست ہوتے ہوئے بولی اور اپنے ہونٹوں کو خود ہی کانٹنے لگی۔
.
شلپا نے بھی ویسا ہی کیا اور اُسکی آنکھوں کے سامنے وہ لنڈ اور مچلنے لگا۔
.
اُوف۔۔۔ شلپا کے لیے خود کو اُس لنڈ کو چوسنے سے روک پانا بہت مشکل ہو رہا تھا پر اُسنے صرف اُسے چوما۔ تو وہ لنڈ اور مچل کر ہلور مارنے لگا۔
.
شلپا خود بیچین ہو گئی تھی۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ خود کو اُکسا رہی ہے یا بھابھی کو؟ “۔۔ اب اپنے ہاتھوں سے اُسے پکڑ کر اپنی گرم سانسیں اُس پر چھوڑنا اور پھر آہستہ آہستہ اپنے ہونٹوں کو اُس پر لپیٹ دینا۔ اور پھر اپنے ہونٹوں کو آہستہ آہستہ اُس لنڈ کو اپنے منہ میں لینا شروع کرنا۔۔۔۔ پر صرف اُوپر کا حصہ۔۔۔ ایک اچھی عورت ابھی اُس لنڈ کو اسی طرح سے اور اُکساتی ہے۔”
.
پھر شلپا نے اپنے لپ گلاس لگے رسیلے ہونٹوں سے اُس لنڈ کو لپیٹا اور پھر اُسے آہستہ آہستہ منہ میں لینے لگی۔ اُسکی بھابھی کا لنڈ شلپا کے منہ میں جانے کو بیتاب ہونے لگا۔ اتنے نرم ہونٹ کبھی اُسنے اپنے لنڈ پر محسوس نہیں کیے تھے۔ اور پھر شلپا نے اپنی بھابھی کے لنڈ کو تھوڑا سا چوس کر اپنے منہ سے باہر نکال دیا۔
.
اور اب۔۔۔ اور اب۔۔۔”, سونیا بدہواس ہو رہی تھی, “۔۔۔ اب اپنی زبان سے اُس لنڈ کی لمبائی کو نیچے سے اوپر تک چاٹنا۔۔۔” شلپا بھی اپنی بھابھی کی مدہوشی سے مچل کر اُس لنڈ کو زبان سے نیچے سے اوپر تک چاٹنے لگی۔
.
“۔۔۔ اور اب۔۔۔ اور اب۔۔۔ ایک بار پھر۔۔۔۔”, سونیا سے اپنے بوبس کو مسلتے ہوئے بولا بھی نہ جا رہا تھا “۔۔۔ اُسکی بھابھی بیچین ہوئے جا رہی تھی۔
.
سونیا کی سانسیں بہت تیز ہوتی جا رہی تھیں۔۔۔ مچلتی ہوئی سونیا کے پورے جسم میں آگ لگ چکی تھی اور اُسکا بدن لہرانے لگا۔۔۔ اور اُسکے پیر بھی سرکنے لگے۔۔ کمر تھرکنے لگی۔۔۔ اب اُس سے رہا نہیں جا رہا تھا اور وہ جوش میں لگبھگ چیخ اُٹھی۔۔”اب چستی کیوں نہیں ہے سالی! کتنا تڑپائیگی مجھے۔۔۔؟” اور اُسنے شلپا کا سر پکڑ کر دبا دیا کہ وہ پورے لنڈ کو منہ میں لے لے۔
.
بھابھی کو اس طرح تڑپتے دیکھ شلپا بھی اب پورے جوش سے بھابھی کے گلابی لنڈ کو چوسنے لگی اور اپنے منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔۔۔ اُسے بہت مزہ آ رہا تھا۔ اُسکے ہر اسٹروک پر اُسکی بھابھی آہیں بھرتی اور مدہوشی بھری آوازیں نکالتی۔ ان دونوں عورتوں کو بہت مزہ آ رہا تھا۔۔۔ پر اس بہت لذت بھرے وقت کا آخر بھی جلدی آتا ہے۔۔۔ اور جلدی ہی اُسکی بھابھی کے لنڈ سے رس باہر آنے لگا۔ شاید ہارمون کی وجہ سے اُس لنڈ سے رس کم آتا تھا جو پانی کی طرح شفاف ہوتا تھا۔ جسے شلپا نے اپنی بھابھی کے پیٹیکوٹ سے ہی پونچ لیا۔ دونوں عورتیں اب تھک چکی تھیں اور خوشی کے مارے وہیں ایک دوسرے پر نڈھال ہو گئیں۔
.
تھوڑی دیر بعد شلپا اپنی بھابھی کی باہوں سے باہر نکل کر بستر پر اُٹھ بیٹھی اور بھابھی کی طرف مسکراتی ہوئی دیکھ کر بولی, “بھابھی اب سچ مچ بہت اچھے سے سکھاتی ہو۔”
.
شلپا کی بات سن سونیا شرما گئی۔ آج نند اور بھابھی کا رشتہ ہی بدل گیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں ایک چمک دیکھ سکتی تھی۔
.
“اچھا بھابھی۔۔۔ میں شام کو ملوں گی تم سے۔”, شلپا بستر سے اُٹھنے لگی تو سونیا نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روک لیا۔۔۔ “اتنی جلدی کیا ہے؟
.
“بھابھی۔۔۔ میرا بوائے فرینڈ میرا انتظار کر رہا ہے۔ میں شام کو جلدی آؤں گی۔۔۔ پکا۔”, شلپا نے کہا اور جھٹ سے پرس اُٹھا کر کمرے سے باہر چل دی۔
.
اور سونیا اس کمرے میں بستر میں ویسے ہی لیٹی رہی۔۔۔ وہ سوچ میں پڑ گئی تھی کہ یہ سب کیا ہوا؟ اسے اپنے شوہر وشال کا خیال آنے لگا۔۔۔ یہاں تک کہ ان کو معلوم نہ لگا تو کیا کریں گی وہ؟ اسی دوہرے میں سونیا وہیں سوچتی رہ گئی۔
.
بے چین ہوکر الٹتی پلٹتی سونیا کی دوپہر کیسے بیت گئی پتہ بھی نہیں چلا۔ اتنی دیر بستر پر بتانے کے بعد بھی وہ تھکی ہوئی تھی۔ اٹھتے ہی اس نے ایک سفید رنگ کی سیٹن ساڑھی نکالی جسکی ہرے رنگ کی بارڈر تھی اور ہرے رنگ کے ہی پول-پتّیوں کے پرنٹ تھے۔ اس ساڑھی سے میچ کرتا ہوا ایک نیٹ کا ٹرانسپیرنٹ بلاؤز تھا جسکے اندر سب کچھ دیکھتا تھا۔
.
تیار ہوکر سونیا کچن آکر کھانا بنانے میں بزی ہو گئی۔ کریب ایک گھنٹے بعد گھر کا دروازہ کھلا۔ سونیا کی ننند شلپا دوڑی چلی آئی اور پورے جوش کے ساتھ آکر اپنی بھابھی کو پیچھے سے پکڑ لی۔ بہت خوش لگ رہی تھی وہ۔
.
سونیا بھی اس وقت خوش تھی تو اس نے پوچھا، “کیا بات ہے؟ بڑی خوش لگ رہی ہو؟”
.
شلپا نے سونیا کے کان کے پاس اپنے ہونٹ لاکر دھیمی آواز میں کہا، “بھابھی۔۔ دھیریندر تو آج بہت خوش ہو گیا۔” نا جانے کیوں سونیا کا دل ایک بار پھر تیز دھڑکنے لگا۔ “کون دھیریندر؟”، سونیا نے روکھی آواز میں کہا۔
.
سونیا جانتی تھی کہ دھیریندر کون ہے اور شلپا بلو جاب کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ نا جانے کیوں شلپا اور اس کے بوائے فرینڈ کے بارے میں سوچکر ہی سونیا کے من میں تھوڑا سا غصہ آنے لگا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کیوں سوچ رہی ہے۔ کیا اسے جلن ہو رہی تھی شلپا کو کسی اور کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے سوچ کر؟ مگر کیوں؟ وہ تو خود اپنے شوہر کے ساتھ خوش تھی۔۔۔ پھر شلپا جسکے ساتھ جو چاہے کرے۔۔ اسے کیا؟
.
شلپا کی بات کو اگنور کر سونیا نے بڑی بیروکھی سے کہا، “جاکر کھانے کی میز سجاؤ۔ تمہارے بھائی آ گئے ہیں اور کھانے کا انتظار کر رہے ہیں۔”
.
شلپا اپنی بھابھی کے منہ سے ایسی بات سن کر عجب میں تھی۔ بھابھی اسکی خوشی میں شامل کیوں نہیں ہو رہی تھی؟ سوچتے ہوئے شلپا کھانا میز پر لگانے لگی۔
.
تھوڑی دیر بعد سبھی بغیر زیادہ کچھ بولے کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
.
شلپا کو اگنور کر کے سونیا اپنے بیڈ روم آ گئی جہاں اسکے شوہر وشال اسکا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ انکی آنکھوں کی خماری دیکھ سونیا مسکراتے ہوئے بولی، “زرا رکو میں ابھی آتی ہوں۔” اور شوہر کو تڑپاتی ہوئی سونیا کمر مٹکاتے ہوئے کمرے سے لگے باتھروم چلی گئی۔
.
باتھروم میں آتے ہی سونیا نے بلاؤز میں لگی ہوئی پن کو کھولکر اپنے پلو کو اتارا اور پھر اپنا بلاؤز اتارنے لگی۔ بلاؤز کو کنارے میں رکھ سونیا نے اپنی برا اتار دی۔ اور پھر سے بلاؤز پہننے لگی۔ بلاؤز پہنکر سونیا نے خود کو آئینے میں دیکھا۔ اسکے ٹرانسپیرنٹ بلاؤز میں اسکے بڑے بڑے نپل صاف جھلک رہے تھے۔ پھر سونیا نے اپنے ہاتھوں کو بلاؤز کے اندر ڈال کر اپنے مموں کو بلاؤز میں صحیح طرح سے ایڈجسٹ کیا کہ اسکے نپل پوائنٹ کر ابھرے ہوئے دکھے۔ تسلی ہونے پر سونیا نے ایک بار پھر اپنی سیٹن ساڑھی کے پلو کو اپنے کندھے پر چڑھایا اور پھر اپنی بندی کو ماتھے پر صحیح جگہ پر لگایا۔ سونیا اس وقت بہت ہاٹ دکھ رہی تھی۔ اور پھر اس نے اپنے ہونٹوں پر لپ گلاس لگایا تاکہ اسکے ہونٹ چومتے وقت اور رسیلے لگے۔ سونیا نے ایک بار پھر اپنے آنچل کو سنبھالا اور مسکراتی ہوئی باتھروم سے نکل کر بیڈروم آ گئی۔
.
بستر پر لیٹے ہوئے اندر آتی اپنی بیوی کی بلاؤز میں کھلی ہوئی پیٹھ اور سیٹن ساڑھی میں لپٹی ہوئی خوبصورت بڑی سی گانڈ دیکھ وشال اور بیچین ہو اُٹھے۔ سچ مچ سونیا کو اپنے شوہر کو ریجھانا بخوبی آتا تھا۔
.
وشال اب اپنے ہاتھ سونیا کے بلاؤز پر پھیرنے لگے اور اسکے ممے دبانے لگے۔ سونیا بھی مسکراتی ہوئی اپنے ہاتھ پیچھے کر اپنے شوہر کے سر کو اپنے اور کریب لانے لگی تاکہ وہ اسے گردن پر اچھی طرح چوم سکے۔
.
“آج تو تم نے برا بھی نہیں پہنی ہے ڈارلنگ۔ اب مجھ سے اور رکا نہیں جائیگا۔”, وشال نے کہا۔
.
“تو آپ کو روک کون رہا ہے جانو۔۔۔ میں تو آپکی ہی ہوں۔”, سونیا نے مدہوشی بھری آواز میں کہا۔
.
وشال اب اور جوش سے سونیا کے بوبس کے بیچ ہاتھ ڈالکر دبانے لگے اور پھر اسکی پیٹھ پر چومنے لگے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے ہاتھوں کو نیچے لے جاکر سونیا کی ساڑھی کی چنوٹوں کے بیچ لے گئے جہاں انہوں نے سونیا کے لنڈ کو پکڑ لیا اور اسے سہلانے لگے۔
.
سونیا کا لن بھی کھڑا ہو رہا تھا پر اسکے دل میں کچھ اور تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ آج وشال اسکے لن کو چوس کر پیار کرے۔
.
وشال اب بھی سونیا کے لنڈ کو اسکی ساڑھی پر سے ہی سہلارہے تھے تو سونیا نے اپنے ایک ہاتھ سے اسے ہٹایا۔ اور اپنے ہاتھ کو اپنے پیچھے لپٹے ہوئے شوہر کے پجامے میں ڈالا اور انکا کھڑا لنڈ اپنے کومل ہاتھوں سے باہر نکال کر اسے ہلانے لگی۔ ہلتے ہاتھوں کے ساتھ اسکی کانچ کی چوڑیوں کی کھنک بہت موہک لگ رہی تھی۔ سونیا نے پھر اس لنڈ کو اپنی گانڈ پر دبایا۔ وشال کا لنڈ سونیا کے نرم ہاتھوں اور گانڈ کے بیچ مچل اُٹھا۔
.
بغیر برا کے تو ویسے بھی سونیا کے ممے آزاد ہی تھے۔ سونیا کی بلاؤز کی ساری ہک کھلتے ہی وشال نے ان دونوں ہلتے ہوئے مموں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے زور سے مسل دیا تو سونیا ایک میٹھے درد بھری آہ نکال کر مچلنے لگی۔ مدمست ہوتی سونیا نے بھی اپنے ہاتھوں سے وشال کے سر کو اپنے بوبس پر اور زور سے دبایا اور انکے سر کو اپنی سیٹن ساڑھی کے آنچل سے ڈھانک دیا۔
.
کچھ دیر تک اپنی بیوی کے مموں کا لطف اٹھانے کے بعد وشال نے اپنی بیوی کو پلٹاکر اٹھایا اور اسے ڈوگی پوزیشن میں بستر میں تیار کیا اور خود بیوی کی گانڈ کے پیچھے آ گئے۔ اس وقت سونیا کے بال بکھر گئے تھے، بلاؤز کھلا ہوا تھا جس میں سے اس کے ممے اس پوزیشن میں لٹک کر جھول رہے تھے۔
.
سونیا تو جیسے اب مدہوش ہو چکی تھی۔ اب وہ اپنی گانڈ کو مدہوشی میں لہرانے لگی اور اپنے شوہر کے لنڈ کو اور ترسانے لگی۔ پر وہ تو خود ترس رہی تھی۔ اپنی بیوی کی تڑپ دیکھ کر وشال نے جلدی سے ساتھ پڑی لبریکنٹ کی بوتل سے اپنے لنڈ کو تر کیا اور پھر جھٹ سے اپنے لنڈ کو سونیا کے اندر ڈال دیا۔ اس ایک جھٹکے میں سونیا تو جیسے جھوم اُٹھی اور اس کے منہ سے ایک آواز ایک آہ نکل پڑی۔ خماری میں ڈوبی سونیا اپنے ایک ہاتھ سے اپنے مموں کو چھوکر دبانے لگی۔ اور وشال بھی اپنے ایک ہاتھ سے سونیا کی ڈوگی پوزیشن میں جھولتے ہوئے مموں کو پکڑ کر دبانے لگے۔
.
“اور زور سے دباؤ نا!”، سونیا مدہوشی میں لگبھگ چیخ اُٹھی۔
.
تو بیوی کی بات سن کر وشال اور زور سے دبانے لگے اور زور زور سے اپنے لنڈ کو اندر باہر کرنے لگے۔ اس دوران سونیا کے منہ سے نکلنے والی آہیں اور تیز ہو گئی تھی۔
.
اکثر سونیا ایسی آوازیں نہیں نکالا کرتی تھیں کیونکہ اُس کی نند شلپا ساتھ والے کمرے میں ہی سویا کرتی تھی۔ پر آج نہ جانے سونیا کو کیا ہو گیا تھا، اُسے بالکل پرواہ نہیں تھی کہ اُس کی یہ لذت سے بھرپور آوازیں کس کس کو سنائی دیتی ہیں۔ وشال اپنی بیوی کے بڑے مموں کو اور زور زور سے مسل مسل کر اُسے اور لطف دے رہے تھے، اور وہیں گانڈ میں لنڈ کو بھی بڑے تیزی سے اندر باہر کر رہے تھے۔ کبھی وہ اپنا ہاتھ آگے لے جا کر سونیا کے جھولتے ہوئے لن کو بھی پکڑ کر سہلا دیتے۔ کچھ دیر بعد اپنے شوہر کی چدائی کے نتیجے میں سونیا کے لنڈ سے بنا چھوئے ہی شفاف رس نکل آیا۔
.
سونیا کے لنڈ نے کچھ جھٹکے کھائے اور اس کی گانڈ نے بھی وشال کے لنڈ کو جھکڑنا شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں وشال بھی جلدی سے اپنی منزل کو پہنچ گئے۔ انہوں نے فورا اپنے لنڈ کو سونیا کی گانڈ سے باہر نکالا اور ساری منی ساتھ رکھے ہوئے کپڑے میں انڈھیل دی۔
.
وشال سونیا کی گانڈ میں فارغ نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کی بیوی کو بعد میں صفائی کرنے میں تھوڑی دقت ہوتی تھی، خاص طور پر جب یہ روز کا کھیل ہو۔ وشال نے اسی کپڑے سے اپنی بیوی کی گانڈ کو پیار سے صاف کیا اور ساتھ ہی اس کی کمر پہ ایک کس کی۔ اور پھر اپنے مرجھاتے ہوئے لنڈ کو بھی صاف کیا اور سونیا کو بازوؤں میں بھر کے اس کے بغل میں لیٹ گئے۔
.
اور فی الحال کچھ وقت میں شوہر اور بیوی کے درمیان یہ کھیل مکمل ہو گیا۔ دونوں کے چہرے پر ایک اطمینان کا احساس تھا۔ آج سونیا دیگر دنوں کی مقابلے بہت زیادہ ہاٹ تھی۔ چاہے جو بھی وجہ ہو اس کے پیچھے، وشال بہت خوش تھے۔
.
اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ جانے کب صبح ہو گئی دونوں کو پتا بھی نہ چلا۔ سونیا بستر میں اب بھی شوہر کی باہوں میں لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے بلاؤز تو پہنا ہوا تھا پر اس کے ہوک کھلے ہوئے تھے اور ممے باہر نکلے ہوئے تھے۔ کتنے خوبصورت اور نرم لگ رہے تھے وہ ممے۔ سونیا کی کمر کے نیچے اب بھی ساڑھی لپٹی ہوئی تھی۔ ساڑھی پہننے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے بغیر اُتارے ہی پیار کرنے کا لطف لیا جا سکتا ہے۔ اور پھر اُس ساڑھی کا موہک کپڑا اگر سیٹن ہو تو شوہر بیوی دونوں ہی اس کے لمس سے اور مدہوش ہو جاتے ہیں۔
.
سونیا نے اپنی ساڑھی جو اُٹھ کر گھٹنوں کے اوپر تک آ گئی تھی، اُسے سرکا کر نیچے کیا۔ اور پھر اپنے بلاؤز کے ہوک لگانے لگی۔
.
مسکراتی ہوئی سونیا جب کچن پہنچی تو اس نے دیکھا کہ اُس کی نند شلپا جاگ چکی تھی اور بریڈ ٹوسٹ کا ناشتہ کر رہی تھی۔
.
اُسنے شِلپا کو اگنور کرتے ہوئے کِچن میں جاکر اپنے کام کرنے لگی۔ سب سے پہلے تو اُسنے اپنے بالوں کو باندھکر جوڑا بنایا اور پھر شوہر کے لیے چائے بنانے لگی۔
.
اس وقت شِلپا کا چہرہ بھی کچھ اُکھڑا ہوا تھا۔
.
“لگتا ہے کل رات شوہر-بیوی کے بیچ بہت پریم لیلا ہوئی ہے۔”، شِلپا نے اپنی بھابھی سے کہا۔
.
اُسکی آواز میں ایک غصہ ساف جھلک رہا تھا۔ آخر اُسے رات کو شوہر-بیوی کے پیار کے دوران آوازیں سنائی پڑ ہی گئی تھیں۔ پر کیوں ناراض تھی وہ سونیا سے؟ آخر سونیا بھابھی نے تو اُسے وہ سیکھایا تھا جو کل اپنے بوائے فرینڈ دھیریندر کے ساتھ آزما سکی تھی۔ کل شام کو تو اپنی بھابھی کو یہ سب بتاتے ہوئے بڑی خوش تھی وہ۔ پھر کیوں آج وہ اتنی ناراض تھی، یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
.
“ہاں۔۔ ہم نے کل رات پیار کیا ہے۔ تجھے کیا کرنا ہے؟”، سونیا نے بھی لگبھگ اُکھڑے رویے میں جواب دیا۔
.
اپنی بھابھی سے روکھا جواب ملنے پر شِلپا بِنا کُچھ کہے اُٹھ کر کِچن سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ اور سونیا بھی اپنے شوہر کے لیے کھانا بنانے میں بزی ہو گئی۔
.
کل دن میں جب سونیا کی نند شِلپا نے سونیا کے لن کو چوس کر بلو جاب دیا تھا، اسکے بعد سے ہی اسکے دل میں ایک پچھتاوا سا تھا۔ کل کے پہلے سونیا کے جسم کو اسکے شوہر وِشال کے علاوہ کسی نے نہیں چھوا تھا۔ نا کسی آدمی نے اور نا ہی کسی عورت نے۔ پر کل؟ کل سونیا نے اپنے شوہر کے پیچھے اُنہیں دھوکا دیا اور وہ بھی اُنکی بہن کے ساتھ۔ اسکے من میں پچھتاوا تو ہونا ہی تھا۔ پر اسکے علاوہ بھی کچھ اور بات تھی۔
.
کل تک جو نند بھابھی کے بیچ ایک پیار بھرا رشتہ تھا، وہ ایک بار میں ہی جسم کی آگ میں جھلستے ہوئے کہی بکھر گیا تھا۔
.
بھلے ہی سونیا ایک سیدھی سادھی گھریلو لڑکی تھی پر اُسے بھی اپنے روپ پر فخر تھا۔ شِلپا کی فکر چھوڑ کر سونیا نے اپنی بلاؤز کو اپنی ساڑھی سے ڈھانکا اور اب نہانے کے لیے باتھروم آ گئی۔ باتھروم میں آکر سونیا نے آہستہ آہستہ خود کو آئینے میں دیکھ اپنی ساڑھی اُتارنی شروع کی۔ اور پھر اُسکے بعد اپنی بلاؤز کو کھولنے لگی۔ بِنا برا کے اُسکے ممے بلاؤز سے فورن باہر نکل آئے۔ اور سونیا نے اپنے نپل کو پکڑ کر مسلنا شروع کر دیا۔ جلدی ہی سونیا کا لنڈ کھڑا ہو چکا تھا اور اُسکی وجہ سے اُسکا پیٹیکوٹ اُٹھ چکا تھا۔ آخر اُسنے اندر پینٹی تک نہیں پہنی تھی۔
.
سونیا نے اپنا پیٹیکوٹ اُتارا اور پھر اپنے کھڑے لنڈ کو اور سہلانے لگی۔ کٹھور نپل اور کھڑے لنڈ کے ساتھ وہ آئینے میں بڑی سیکسی لگ رہی تھی۔ خود کے لنڈ کو دیکھ وہ بڑی خوش ہوئی۔ گلابی چمچماتا ہوا اور بالکل صاف ستھرا لن تھا سونیا کا جسکے ارد گرد ایک بال تک نہیں تھا۔ اور پھر مسکراتی ہوئی سونیا شاور میں جاکر نہانے لگی۔ وہ چاہتی تو مدہوشی میں وہ خود کو اور سہلا سکتی تھی۔ پر اتنی خوبصورت عورت ایک پریمی کے ہوتے ہوئے بھلا خود کو خوش کرے؟ یہ تو عجیب ہی ہوگا نا؟
.
وشال کے پیار نے اسے پکا یقین دلا دیا تھا کہ وہ دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے، اور کوئی بھی اسے اپنی زندگی میں پا کر بہت خوش نصیب ہو گا۔ جب پوری دنیا میں کوئی بھی اُسکے جسم کو چھوکر اُسے خوش کرنے کو بیتاب ہوگا تو وہ کیوں بھلا خود محنت کرے؟ ہنستی مسکراتی ہوئی سونیا نہا کر باہر نکلی اور اُس نے ایک پیاری سی لیس والی برا پہنی۔ بھیگے بالوں میں بہت ہی سیکسی لگ رہی سونیا کی برا نے جب اُسکے بوبس کو اپنے اندر قید کیا تب جاکر اُسکا خود کے جسم پر تھوڑا سا کنٹرول واپس آنے لگا تھا۔ اور پھر سونیا نے آہستہ سے اپنے کومل پیروں پر ایک ہلکی سی سیٹن پینٹی کو سرکایا اور خود کے چکنے پیروں کو اپنی انگلیوں سے چھوتے ہوئے سونیا نے وہ پینٹی پہن لی۔ اور پھر اُسکے بعد ایک میچنگ پیٹیکوٹ میں اپنی کمر کو لہراتی ہوئی ناڑھا باندھ کر سونیا اب ساڑھی پہننے کو تیار تھی۔
.
ویسے تو سونیا کو اپنی برا کے اوپر بلاؤز پہننا چاہیے تھا پر آج اُس نے بنا بلاؤز کے ہی ساڑھی پہننے کی سوچی۔ گھر میں ویسے بھی صرف شلپا تھی آج سونیا کو اُسکے رہنے نہ رہنے سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ اور پھر سونیا نے اپنے بڑے بڑے کولہو پر اپنی ساڑھی کو لپیٹا اور اپنی ساڑھی میں ایک ایک پلیٹ سلیکے سے بنانے لگی۔ بھیگے لمبے بالوں میں اتنے کرینے سے پلیٹ بنتی ہوئی سونیا کو اس وقت کوئی دیکھ لیتا تو یقیناً ہی اُسکا خود پر قابو نہیں رہتا۔
.
اور اگر وہاں شلپا ہوتی تو؟ کیا شلپا اپنی بھابھی کے مموں کو دباتی ہوئی اپنے گھٹنوں پر بیٹھکر اپنی بھابھی کی ساڑھی اُٹھاتی اور انکے لنڈ کو باہر نکال کر اپنے رسیلے ہونٹوں سے چوستی؟ ہائے، یہ کیسا خیال آ رہا تھا سونیا کے من میں؟ یہ خیال آکر اُسکے جسم میں آگ لگا رہے تھے۔
.
جہاں ایک اور سونیا اپنے من سے لڑ رہی تھی وہیں اُسکی ننند شلپا کی صورتحال کچھ الگ ہی تھی۔ اپنے کمرے میں بستر میں نائٹی پہنی شلپا لیٹی ہوئی تھی اور اُسکے من میں ایک غصہ بھرا ہوا تھا۔ کروٹیں بدلتی ہوئی شلپا کے من میں اپنی بھابھی کے اوپر کیوں اتنا غصہ تھا وہ خود سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ اگر اُسکی بھابھی نے اپنے شوہر کے ساتھ رات کو سیکس کیا تو شلپا کو اس بات سے کیوں فرق پڑ رہا تھا؟ آخر وہ بھی تو اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سیکس کرکے خوش تھی؟ رہ رہ کر اُسکے من میں کل دوپہر کو اپنی بھابھی کے ساتھ کیے سیکس کی تصویریں آ رہی تھیں جب وہ اپنی بھابھی کا گلابی لنڈ چوس رہی تھی۔ ایسا کیوں ہو رہا تھا اسکے ساتھ؟ دھیریندر کو چھوڑ وہ بھابھی کے بارے میں کیوں سوچ رہی تھی؟ خود کے من کو شلپا خود ہی نہیں سمجھ پا رہی تھی۔ ایسے ہی نا جانے کیا کیا سوچتی ہوئی شلپا نہ تو آج نہائی تھی اور نہ آج آفس گئی تھی۔
.
پھر شلپا بنا کچھ سوچے سمجھے اپنی گھٹنوں تک کی نائٹی پہنے ہوئے ہی اپنے کمرے سے باہر آ گئی۔ باہر آ کر اُسنے دیکھا کہ اُسکی بھابھی سوفے پر بیٹھی ہوئی اپنے گھٹنوں کو موڑے ہوئی میگزین پڑھ رہی تھی۔ اُسکی بھابھی نے تو آج بلاؤز بھی نہیں پہنا تھا۔ بس کھلے پلے کے ساتھ برا کو ڈھانک کر ساڑھی پہنی ہوئی اُسکی بھابھی اُسے بہت ہی ہاٹ بھی لگ رہی تھی۔
.
اسکی بھابھی کی گوری کمر میں سافٹ سی ناف کے نیچے ساڑھی کی خوبصورت پلیٹس کے پیچھے اسکی بھابھی کا لنڈ چھپا ہے، یہ خیال اسکے من میں کیوں آ رہا تھا؟ پر شلپا کی طرف زیادہ دھیان نا دیتے ہوئے سونیا نے اپنے ایک پیر کو دوسرے پیر پر رکھا اور اپنی ناف کو ساڑھی سے ڈھانکتے ہوئے ہاتھ میں رکھی میگزین کو کھول کر دیکھنے لگی۔ سونیا شلپا کو اگنور کرنے کا ڈرامہ کر رہی تھی۔ وہ اسے سچ میں اگنور کرنا چاہتی تھی پر کر نہیں پا رہی تھی۔ اسلئے اپنی میگزین میں دھیان دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ پر وہاں بھی اسکا دل کہاں لگ رہا تھا؟
.
اپنی بھابھی کی ایسی حرکت دیکھ کر ایک بار پھر شلپا کے دل میں غصہ بڑھ گیا۔ اور وہ غصے میں ہی اپنی بھابھی کے بغل میں آکر بیٹھ گئی۔ سونیا کی نظر اب شلپا کے گوری چکنی ٹانگوں پر تھی۔ اسے پتا تھا کہ بنا نہائی ہوئی شلپا کے بکھرے بال اور اس نائٹی میں اسکی گوری چکنی ٹانگیں سبھی کچھ سونیا کو اکسا رہی تھی۔
.
سونیا نے شلپا کو اگنور کیا تو اس سے رہا نہیں گیا اور وہ غصے سے اپنی بھابھی پر چیخ پڑی، “کیوں بھابھی رات کو اپنے شوہر کے ساتھ بیتانے کے بعد بھی تمہارے جسم کی آگ نہیں بھجی جو تم اب بھی اس طرح سے اپنے ممے نکالے بے شرموں کی طرح بیٹھی ہو؟”
.
بہت کڑوی بات کہ دی تھی شلپا نے۔ تو سونیا بھلا کیسے چپ رہتی؟ “میرے جسم کی آگ سے تجھے کیا کرنا ہے؟ ہاں میں سوئی تھی اپنے شوہر کے ساتھ۔ کم سے کم اپنے شوہر کے ساتھ ہی کر رہی تھی نا۔ کسی ایرے غیرے آدمی کا لنڈ تو نہیں چوس رہی تھی نا میں؟ اور ویسے بھی تجھے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں کیا کرتی ہوں؟”، سونیا نے بھی غصے میں میگزین کو بندکر پٹکتے ہوئے کہا۔
.
“بھابھی!”, “مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ جاننا چاہتی ہو مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟”, شلپا نے اور بھی غصے میں کہا تو سونیا بس اسکی طرف دیکھتے ہی رہ گئی۔ اور پھر ایک جھٹکے میں شلپا نے اپنی بھابھی کے بازو کو زور سے اپنی طرف ایسے کھینچا کہ دونوں کے ممے ایک دوسرے سے دب گئے۔۔۔ اور دونوں کے چہرے بہت قریب آ گئے۔ اتنے قریب کہ جب شلپا نے سونیا کے ہونٹوں کو زور سے چوما تو سونیا اسے روکنے کے لئے کچھ کر بھی نہیں سکی۔ دونوں کے ممے اور نپل فوراً ہی پھول کر ایک دوسرے کو دبانے لگے۔ شلپا اپنی بھابھی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہوئی اپنی بھابھی کو مدہوش ہوکر چومنے لگی۔۔۔ اور ایک ہاتھ سے بھابھی کی ساڑھی پر سے انکے مموں کو دبانے لگی۔
.
جب دو خوبصورت عورتوں کے جسم ایک دوسرے کے لئے بے کابو ہو، تب غصے کو پیار میں بدلنے میں بہت وقت نہیں لگتا ہے۔ اب شلپا کے کس میں غصہ نہیں پیار اور پیشن تھا۔ لیکن سونیا اب بھی اپنے دل کی بات کہ دینا چاہتی تھی۔ اور اپنے انسلٹ کا بدلہ لیتے ہوئے سونیا نے شلپا سے کہا، “تجھے لنڈ چوسنے کا بڑا شوق ہے نا؟ تو آج اپنے بھابھی کے لنڈ سے چود کر بھی دیکھ لے۔”
.
“تو تمہیں روک کون رہا ہے بھابھی؟”، شِلپا بولی ۔
.
اور اُس نے اپنے دونوں پیروں کو پھیلا دیا اور اپنی نائٹی اُٹھا کر اپنی پینٹی کو سرکا کر اپنی پھدی کو اپنی بھابھی کے لیے کھول دیا۔ مدہوشی میں سونیا نے اپنی ساڑھی سے اپنے لنڈ کو نکالا اور فوراً ہی شِلپا کی پھدی میں ایک جھٹکے میں ڈال دیا۔ سونیا کے لیے یہ پہلا تجربہ تھا پر شِلپا کی پھدی کے اندر اُسکے لنڈ کے جاتے ہی اُسے ایک دم مدہوشی محسوس ہوئی۔ اور خماری میں بدحواس سونیا اپنے لنڈ کو شِلپا کی پھدی میں اندر باہر کرنے لگی۔ سونیا کے ممے ایسا کرتے ہوئے جھولنے لگے اور اُسکے لمبے بال شِلپا کے ممے پر لہرانے لگے۔
.
ننند اور بھابھی کے بیچ یہ پل بہت لذتی تھا۔ دونوں کبھی ایک دوسرے کے ہونٹوں کو زور سے چومتی، کبھی کاٹتی تو کبھی ایک دوسرے کے مموں کو دباکر چوستی اور پھر نپل کو دانتوں سے کانٹتی۔ آخر دونوں عورتیں تھیں تو جانتی تھی کہ کیسے ایک دوسرے کے مموں کو مسل کر اُنہیں مزا دینا ہے۔ ایسا پل ایسی لذت ایسی بے خودی تو اُنہوں نے کبھی کسی آدمی کے ساتھ محسوس نہیں کی تھی۔ کچھ تو خاص تھا اس پل میں جو اِن لہراتے ہوئے کمال جسموں کو اتنا گرم بنا رہے تھے۔
.
وہیں سونیا زندگی میں پہلی بار اپنے لن کا اس طرح ایک عورت کی پھدی میں کر رہی تھی۔ اُسکے لیے بلکُل نیا تجربہ تھا یہ۔ شِلپا کے مموں کو دباکر اور اُسکی پھدی میں اپنے لن کو ڈال کر اتنا سواد ملیگا اُسے، ایسا تو اُسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
.
یہ سچ تھا کہ اُسکے شوہر وِشال اُسکا لن بڑے پیار سے چوستے تھے، کبھی خود اپنا لن سونیا کی گانڈ میں ڈالتے تھے، اُسکا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔ پر یہ پل سونیا کے لیے اُس سے زیادہ تو نہیں مگر ایک بالکل مختلف قسم کی لذت کا باعث تھا۔ اور پھر لپٹتے رگڑتے اُن دونوں عورتوں کے نرم جسم ایک دوسرے میں سما کر تھوڑی دیر میں پرسکون ہو گئے۔ دونوں عورتوں کے چہرے پر ایک الگ سی خوشی تھی۔ اور دونوں ایک دوسرے کی باہوں میں ایک دوسرے کو دیکھتی رہ گئی۔
.
“بھابھی، اب ہم دونوں کیا کریں گے؟ ان سب کا کیا مطلب ہے؟ ہمارے رشتوں کا کیا ہوگا اب؟”، شِلپا نے اپنے مموں پر لیٹی ہوئی سونیا کے بالوں کو انگلیوں سے سہلاتے ہوئے پوچھا۔ ایک ہی لائن میں بہت کٹھن سوال کر دیے تھے شِلپا نے۔
.
یہ سوال اُسکے من کو بھی جھنجھوڑ رہے تھے۔ اگر سونیا اپنی نند کے ساتھ یہ رشتہ بنائے رکھتی ہے تو اُسکے شوہر وِشال کا کیا ہوگا؟ اپنے شوہر کو چھوڑ کر وہ شِلپا کے ساتھ جینے کا سوچ سکتی تھی؟ پر وہ تو غلط ہوگا۔ آخر وِشال اُس سے نا جانے کتنا ہی پیار کرتے ہیں۔ اور پھر اُنہوں نے اُسے ایک عورت ہونے کا احساس دلایا ہے جو شاید ہی اِس سماج میں سونیا جیسی عورت کو کوئی دلاتا۔ اُسے احساس تھا کہ ایک بیوی ہونے کا جو سکھ اُسے ملا ہے وہ اُسکے جیسی عورتوں کے لیے بس ایک خواب ہوتا ہے۔
.
نہیں، وہ وِشال کو نہیں چھوڑ سکتی چاہے اُسے شِلپا کے ساتھ جیسا بھی لگا ہو۔ وشال کے لیے اس کے پیار میں کبھی کمی نہیں آئے گی۔
.
پر شِلپا کے لیے اپنے پیار کا کیا کریگی وہ؟
.
“ہم کچھ نہ کچھ کریں گے شِلپا۔” اور پھر اس نے شِلپا کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوستے ہوئے اُسے دلاسہ دلانے کی کوشش کی۔
.
پر سونیا کا کس شِلپا کو دلاسہ نہ دلا سکا۔ سونیا کا لن اب نرم ہو چکا تھا اور اب بھی شِلپا کی پھدی میں ہی تھا۔ اپنی بھابھی کی ساڑھی کو پکڑ کر اُسکے مخملی کپڑے پر خوبصورت پھولوں کے پرنٹ کو نہارتی ہوئی شِلپا بھی کچھ وچاروں میں کھو گئی تھی۔ اُسکے دل میں اب ایک چاہت گھر کر گئی تھی کہ اب سے اُسکی بھابھی صرف اور صرف اُسکی ہوں، کسی اور کی نہیں۔ پر وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے؟ جس بھائی اور بھابھی نے اُسے اتنا پیار دیا تھا انہیں کا گھر اُجاڑ کر وہ کیسے رہ سکتی ہے۔
.
ویسے بھی اپنے بھائی کی زندگی اگر اُس نے برباد کر دی تو یہ سماج اُسکے اور سونیا بھابھی کے رشتے کو قبول نہیں کریگا۔ اور پھر سونیا کو بھی سماج میں عزت نہیں دلا سکے گی وہ جو اُسکے بھائی کے ساتھ سونیا کو رہتے ہوئے ملتی تھی۔ اُف ہاے۔۔ یہ کیسی صورتحال میں پھنس گئی تھی یہ دونوں عورتیں۔ کریں تو کریں بھی کیا یہ دونوں اب؟ پھر بھی جب تک ان سوالوں کا جواب نہیں مل جاتا تب تک دونوں ایک ہی گھر میں ساتھ میں خوش تو رہ ہی سکتی ہے۔ شاید دونوں یہی سوچ رہی تھی اور دونوں ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھنے لگیں۔
.
دن گزرتے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ سونیا اور شِلپا ایک دوسرے کے بہت قریب آتے جا رہے تھے۔ اور وِشال ان سب سے غافل تھے۔ کیونکہ اپنے شوہر کے لئے شکریہ کی ادائیگی کرنے والی سونیا اپنے شوہر کی بھرپور خدمت کرتی اور وہ سب کچھ کرتی جو ایک بیوی سے متوقع تھا۔
.
شِلپا کا دل بھلے دھیریندر پر پوری طرح سے نہیں آیا تھا پر وہ اپنی بھابھی کی مجبوری جانتی تھی، اسلئے جب دھیریندر نے اُس سے شادی کی بات کی تو اُس نے ہاں کر دی تھی۔
.
سونیا سے بہت محبت کرنے لگی تھی شِلپا اور شاید اسلئے اُس نے اپنی شادی کے ایک ہفتے پہلے ایک رات اُسنے سونیا کے ساتھ اپنی سہاگ رات منائی تھی۔
.
پھر قسمت نے ایسا کھیل کھیلا کہ شِلپا کو پتہ چلا کہ وہ ماں نہیں بن سکتی۔ ڈاکٹر نے اُسے بتایا تھا کہ دھیریندر میں ہی کچھ کمی ہے۔ پر یہ بات وہ دھیریندر کو بتاتی تو وہ بلکل ٹوٹ جاتا۔ اسلئے اُس نے اپنی پیاری سونیا بھابھی کے ساتھ ملکر طے کیا کہ وہ سونیا کے حصے سے اپنی کوکھ میں بچہ پیدا کرے گی۔ اور آخر میں ان دونوں کی کوششیں رنگ لائیں اور سونیا نے اپنے لنڈ کے رس سے شِلپا کو حاملہ کر دیا تھا۔ سونیا اور شِلپا کے سوا اس راز کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ پھر شلپا نے نو مہینے بعد ایک پیارے سے بچے کو پیدا کیا۔
.
شِلپا جانتی تھی کہ اگر سونیا اس پر یہ احسان نہ کرتی تو وہ ہمیشہ ایک ماں بننے کے سکھ سے محروم رہتی، اس لیے اُس نے دل ہی دل میں پکا ارادہ کر لیا کہ یہ سکھ سونیا کو بھی ملنا چاہیئے۔ اس لیے اس نے دھیریندر کو اس بات پہ راضی کر لیا کہ اگر ان کا ایک اور بچہ ہوا تو وہ ضرور سونیا کو اس کی ذمہ داری سونپیں گے۔
.
نئے بچے کے انے سے شِلپا کو کم وقت ہی ملتا کہ وہ سونیا سے مل سکے مگر پھر بھی ہفتے میں دو تین مل کر گھٹنوں ایک دوسرے کی باہوں میں پڑی رہتیں۔ کچھ مہینوں بعد شِلپا پھر سے سونیا کی وجہ سے حاملہ ہو گئی اور پھر اس نے ایک چھوٹی سی بچی کو جنم دیا۔ جب انہوں نے سونیا کے ہاتھوں میں اسے تھمایا اور بتایا کہ وہ اس کی ماں ہو گی تو اس نے بے اختیاری میں شِلپا کو گلے لگا کر اتنا پیار کیا کہ باقی سب بھی مسکرا دیے۔ وہ اسے صرف ایک بھابھی کا اپنی نند کے لیے پیار سمجھ رہے تھے مگر اس پیار کی گہرائی کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔
.
ایک وقت تھا جب، سونیا کو بھی خواب میں نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی ایک ماں بن سکے گی، اس کا خود کا حصہ اس کی گود میں کھیلے گا۔ لیکن شاید قسمت نے ان دونوں کے درمیان رشتہ اسی وجہ سے بنایا تھا کہ سونیا ایک عورت کے ساتھ ساتھ ایک ماں بھی بن سکے۔ اور کتنے خوش نصیب تھے ان کے بچے کیونکہ ان کی دو مائیں تھیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "آدھی عورت ۔ (ٹرانس جینڈر لو سٹوری)"