سلطانہ۔۔۔۔۔۔لڑکی نہیں چڑیل تھی۔۔۔وہ تائی عفت کی بھتیجی تھی۔۔۔۔۔اپنی خوامخواہ کی اکڑ۔۔۔زہریلی زبان اور لگائی بجھائی اور اپنی امارت کا شو مارنے کی وجہ سے وہ پورے خاندان میں مشہور تھی۔۔۔لیکن اسکے باجود بھی اگر سب اس سے دبتے تھے تو اسکی اہم وجہ اسکے شوہر کا باہرلے ملک یعنی اٹلی ہونا تھا۔۔۔وہ خود باہرلے ملک موجیں مار رہا تھا اور مصیبت ہم جھیل رہے تھے۔۔۔۔سلطانہ کے بارے میں مونا چاچی کا تجزیہ سب سے منفرد تھا
ایک رات ۔۔۔۔جب مونا چاچی پوری موج میں تھیں انہوں نے سلطانہ کا بھید کھولا تھا۔۔۔۔مونا چاچی بھی بہت عجیب تھیں۔۔۔۔۔کبھی کبھی ان پہ ایک مخصوص کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔۔۔۔اس کیفیت میں وہ ایک کے بعد ایک سگریٹ پھونکتیں اور بےلاگ تبصرے کرتی تھیں
تمہیں کیا لگتا ہے سلطانہ اتنی زہریلی کیوں ہے ؟؟ مونا چاچی کے سوال پر میرا دھیان ٹوٹا۔۔
ککیا ؟؟ میں جو انہیں تاڑ رہا تھا بوکھلا کر بولا
کچھ نہیں۔۔۔۔تمہیں کتنی بار کہا ہے میری باتوں پر دھیان دیا کرو میرے جسم پہ نہیں۔۔۔انہوں نے پہلو بدلتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔
جججی میں نے پھنسی پھنسی آواز میں جواب دیا۔۔۔۔۔انکا شکوہ سچا تھا لیکن اس میں میرا خاص قصور نہیں تھا۔۔انکے بیٹھنے کا انداز ہی ایسا تھا۔۔۔۔دونوں ٹانگوں کو سمیٹ کر کرسی پہ ترچھا بیٹھی مونا چاچی دور سے ہی جھلسا رہی تھیں۔۔۔۔ٹانگیں سمیٹ کر گھٹنے جوڑ کر بیٹھنے سے انکی گداز رانیں اور سیکسی کولہے۔۔۔یہ سائیڈ پوز غضب کا تھا۔۔۔۔لیکن اس میں انکا بھی اتنا قصور نہیں تھا۔۔۔وہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر انداز میں سیکس بمب تھیں۔۔۔انکے جسمانی جادو سے بچنے کے لیے اندھا ہونا ضروری تھا۔۔۔۔وہ ان چند خواتین میں سے تھیں جن پہ ہر سوٹ ہر رنگ اور ہر انداز جچتا تھا۔۔۔مکمل ڈیشنگ لیڈی۔۔۔۔انکے وجود میں عجیب سی جنسی کشش تھی۔۔۔اسی وجہ سے جلنے والے انہیں جادوگرنی کہتے تھے ۔۔۔۔لیکن میرے لیے وہ جادوگرنی نہیں بلکہ پریوں کی ملکہ تھی۔۔۔۔ایسی ملکہ جس نے میری مشکلات بھری زندگی کو پرستان کی طرح پرسکون کر دیا۔۔۔
ویسے تم نام نہاد روایت پسند لوگ بہت منافق ہوتے ہو۔۔۔۔دیکھتے بھی ہو مانتے بھی نہیں۔۔۔۔مجھے فیشنی چڑیل
پر کٹی کبوتری ۔۔۔بےحیا ۔۔۔دیسی فرنگن جیسے نام دینے والیاں تمہارے خاندان کی سب عورتیں مجھ سے جلتی تھیں۔۔۔کیا قصور ہے میرا بس یہی کہ میں منافق نہیں ہوں۔۔۔۔تم جنہیں بڑا شریف اور حیادار سمجھتے ہو انکے دل کی حسرتیں بتاوں تو تم حیران ہو جاو۔۔۔تمہاری یہ سلطانہ آپا۔۔۔۔۔جانتے ہو اسکے اندر اتنا زہرکیوں بھرا ہوا۔۔۔کیوں وہ پیسوں کا دولت کا رعب جھاڑتی ہے جانتے ہو ۔۔۔۔؟ مونا چاچی بھڑک کر بولیں
نننہیں۔۔۔آپ بتائیں ۔۔میں نے آہستگی سے پوچھا
میں کیوں بتاوں تم گھامڑ ہو تمہیں نظر نہیں آتا ؟؟ مونا چاچی اچانک بھڑکیں۔۔۔انکا مزاج ایسا ہی تھا پل میں تولہ پل میں ماشہ۔۔۔۔۔لیکن اب میں انکے مزاج کو جان چکا تھا اسلیے ڈھٹائی سے نظریں جھکائے انکے بولنے کا منتظر رہا
وہ ٹھیک کر رہی ہے ۔۔۔اسکے گھر والوں نے اسکی شادی پیسہ دیکھ کر کی تھی مرد دیکھ کر نہیں۔۔۔۔
تیری ملاقات ہے نا سلطانہ کے خاوند سے ؟؟۔۔۔۔انہوں نے مجھ سے پوچھا
ججی ملا ہوں ایک آدھ بار میں نے آہستگی سے جواب دیا
تو۔۔۔۔میاں بیوی کی عمروں کا فرق جانتے ہو گے۔۔۔۔سلطانہ ابھی تیس کی نہیں ہوئی اور وہ پچاس سے اوپر ۔۔۔وہ شادی کے وقت پنتالیس کا تھا۔۔۔۔پہلاں یورپ کے پیپیرز کا مسلہ۔۔۔پیپر بنے تو تین تین بہنوں کا فرض ادا کرتے اسکے سارے ارمان یورپ کی ٹھنڈ میں برف بن گئے۔۔۔شادی کےوقت اسکے پلے صرف یورو تھے ۔۔۔۔سلطانہ بھرپور جوان ۔۔۔۔اور جوان عورت کو صرف یورو نہیں چاہیےہوتے سمجھے۔۔۔۔یورو کے ساتھ ساتھ سال کےسال ایک مہینہ چدائی تو اسکا حق بنتا ہے نا۔۔۔۔۔۔اب سوچ پورا سال ڈرائی فروٹ کھا کھا کر عورت چھٹیوں کا انتظار کرئے اور بندہ ہو جاوئے ٹھس تو بتاو عورت نمانی کی کرئے۔۔یورو کی بتی بنا لے ؟؟چاچی نے تلخی سے پوچھا
لیکن ہم نے تو سنا ہے وہ اپنے بندے کو دبا کر رکھتی ہے جیسے ہی وہ آنےکا پروگرام بنائے سلطانہ کسی نا کسی بہانے اسے روک دیتی ہے میں نے گڑبڑاتے ہوئے اپنی معلومات دہرائیں ۔۔۔
ہاہاہا یہ تو اسکی نندیں کہتی ہیں نا۔۔۔۔یہ ادھورا سچ ہے ؟؟ بھئی جب بندے کے آنے سے فائدہ کوئی نا ہو تو خالی ٹینشن بڑھانے اور لاڈ اٹھانےکا فائدہ۔۔۔۔۔۔اوپر سے وہ آتا بھی دسمبر کی سالانہ چھٹیوں میں ہے۔۔۔۔۔ آدھی رات تک جوان ننگا جسم رگڑ رگڑ کر اسکی شرلائی اٹھتی ہے اور دو منٹ میں ٹھس۔۔۔حاصل حصول صرف جسم گندا ۔۔۔ساری رات وچاری اپنی آگ میں جلتی دانہ رگڑتی رہتی اور وہ بڈھا خراٹے لیتا سکون سے سوتا رہتا۔۔۔۔تے سویرے سویرے نہانے کا حکم سب سے مشکل۔۔۔۔اسی وجہ سے وہ اب پاس نہیں آنے دیتی ۔۔۔۔اسکے اندر بھانبھڑ ہیں اسلیےجب وہ ہنستے بستے میاں بیوی بچے دیکھتی ہے تو ساڑ بولتی ہے اسکے اندر یہی دکھ یہی زہر ہے۔۔۔۔اسکی زہریلی زبان کے ڈر سے کوئی بندہ ہمت نہیں کرتا ورنہ۔۔۔۔۔جتنی گرمی اسکےاندر ہے ۔۔۔۔منٹ نا لاوے لمی لیٹ جائے۔۔۔۔سلطانہ جیسی اتھری گھوڑیوں کا سوتر (علاج) ایک ہی ہے۔۔۔جم کے چدائی۔۔۔اسکے اندر کی گرمی جس نے نکال دی وہ اسکی کنیز ہو جائےگی۔۔۔۔۔ایویں ڈرتے ہیں لوگ کہ کپتی عورت ہے چیر کےرکھ دےگی۔۔۔کوئی کوشش تو کرئے وہ چیر نہیں بلکہ چوس کے رکھ دے گی ۔۔۔بیشک تم آزما لینا ۔۔مونا چاچی نے آنکھ مارتے ہوئے کہا
جی نہیں میری توبہ۔۔۔۔۔میں نے گھبرا کر کہا۔۔۔۔۔۔سلطانہ سے میری پرانی دشمنی تھی
اور اب وہی سلطانہ آ رہی تھی۔۔۔۔ایکبار تو میرا دل کیا کہ اس کے آنے سے پہلے میں کھسک جاوں ۔۔۔۔لیکن ایک کمینہ خیال مجھے رکنے پہ مجبور کر رہا تھا۔۔۔کیوں نا جانے سے پہلے سلطانہ آپا کو تھوڑا سا سلگا دیا جائے۔۔۔۔پورے جہان میں اگر انہیں کسی سے خوامخواہ کا بیر تھا تو وہ مجھ سے تھا
شائد اسلیے کہ میں انکے سامنے دب کہ نہیں رہتا تھا۔۔۔۔وہ امیر تھیں تو میں کیا کرتا۔۔۔آج تک انہوں نے ایک دھیلہ تک کسی کو نہیں دیا تھا۔۔۔۔اور بنا مفاد بنا غرض خوامخواہ کے لاڈ اٹھانا میری عادت نہیں تھی۔۔۔سلطانہ کو کیسے سلگانا تھا میں بخوبی جانتا تھا۔۔۔۔
اب مجھے شدت سے سلطانہ کے آنے کا انتظار تھا۔۔۔۔۔کچھ دیر گزری تھی کہ نیچےگلی میں کسی رکشے کی آواز سنائی دی۔۔۔شائد سلطانہ آپا آ گئی میں فورا منڈیر کی طرف بڑھا۔۔۔جالی دار منڈیر سے باہر گلی کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔رکشے سے اترتی سلطانہ کو دیکھ کر میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیلی اور میں نے بٹوہ نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا
آگے کیا ہونے والا تھا میں جانتا تھا
کھلے پیسے دیں باجی۔۔۔میرے پاس اتنا چینج نہیں ہے۔۔۔۔۔رکشہ والے کی آواز سن کر میں مسکرا اٹھا۔۔
لو ۔۔۔۔تو جاو بھائی کہیں سے پکڑ لو۔۔پانچ ہزار کا کڑکڑاتا نوٹ لہراتی سلطانہ آپا قدرے نخوت سے بولیں
میں کہاں سے لاوں باجی۔۔۔۔۔رکشہ والا پریشانی سے بولا
تب تک سلطانہ آپا گھنٹی بجا چکی تھیں۔۔۔۔وہ گھنٹی نا بھی بجاتیں انکی پاٹ دار آواز انکی آمد کا اعلان کر چکی تھی
میں پھرتی سے نیچے اترتا دروازے کی طرف بڑھا
یہ سلطانہ آپا کی پرانی عادت تھی۔۔۔گلی میں کھڑے ہوکر پہلے بڑا نوٹ نکالنا۔۔رکشہ والے سے بحث کرنا۔۔۔۔۔تائی عفت سے کرایہ ادھار مانگنا۔۔۔یہ سب انکی فنکاریاں تھیں۔۔۔۔
ارے لائیں میں دیتا ہوں نا چینج۔۔۔۔۔میں نے دروازہ کھولتے ہی انکے ہاتھ سے نوٹ اچکا
ہااائیں ۔۔۔۔۔تم کب آئے۔۔۔۔ ؟ سلطانہ آپا مجھے اچانک وارد ہوتے دیکھ کر بدک اٹھیں
ہاں بھئ کتنا کرایہ ہوا ۔۔۔میں انکےسوال کو اگنور کرتے ہوئے رکشہ والے سے پوچھنے لگا
چار سو روپے ۔۔۔رکشہ والے کے بولتے ہی میں نے اسے چار سو پکڑائے اور سکون سے واپس گھر میں گھس گیا
ہااائیں سنو تو۔۔۔۔او بھئی چار سو کس بات کے ۔۔۔۔۔ڈھائی سو دیتی ہوں۔۔۔روز آنا جانا ہے میرا۔۔۔۔۔سلطانہ آپا گڑبڑا کر بولیں لیکن رکشہ والا شکریہ باجی کہتا یہ جا وہ جا
نا تیرے پاس بڑے پیسے آگئے۔۔۔۔خدا کی پناہ ۔۔۔۔چار سو روپیہ لے گیا کلمونہا۔۔۔۔۔اور تو مجھ سےتو پوچھ لیتا جھٹ پیسے پکڑا دئیے۔۔۔سلطانہ آپی رکشہ والے کو صلواتیں سناتی جلتی کلستی اندر گھسیں اور میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی
اوہو کیا ہو گیا ہے آپا۔۔۔۔اتنا ہی کرایہ بنتا ہے میں نے سکون سے جواب دیا
پراں مر۔۔۔۔۔۔لا مجھے بقایا دے۔۔انہوں نے اپنا پرس میز پہ پٹختے ہوئے کہا۔
دیتا ہوں ایک منٹ۔۔۔پہلاں تائی سے تو مل لیں۔۔۔اوئے ناصر۔۔۔یاسر ۔۔۔کدھر ہو دیکھو تمہاری سلطانہ آپا آئی ہیں میں نے فورا بچوں کو آواز دی اور خود سکون سے کرسی پہ بیٹھ گیا
اوہو بھئی پیچھے ہٹو۔۔۔توبہ کتنی گرمی ہے سلطانہ آپا نے یاسر کی پرجوش جھپی سے گھبراتے ہوئے اسےپرے ہٹایا
اففف عفت خالہ کہاں ہیں۔۔۔توبہ بندہ اے سی نا سہی لاہوری کولر ہی لگوا لیتا ہے ۔۔۔سلطانہ آپا اپنی چادر جھلاتے ہوئے عفت تائی کو پکارتی کچن کی طرف بڑھیں
توبہ۔۔۔۔کتنی گرمی ہے یہاں۔۔۔۔۔توبہ توبہ ایگزاسٹ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔سلطانہ آپا کے گلے شکوے شروع ہو گئے تھے۔۔۔۔وہ کچن میں تائی عفت سے ملتی اپنے پہنے سوٹ کی قیمت بتانے میں مصروف تھیں جبکہ میں باہر انکے حساب کتاب میں مصروف تھا۔۔۔۔کوئی ساڑھے سولہ سو روپے تو عفت تائی کے بنتے تھے اور ڈھائی سو میرے۔۔۔۔۔یہ ہوئے انیس سو ۔۔۔میں نے کئی سالوں میں لیے گئے پیسوں کو دل ہی دل میں جوڑا۔۔۔کئی سالوں بعد اگر چینج مل ہی گیا تھا تو سارے حساب کتاب ہو جانے چاہیے تھے ( ہمیشہ بڑا نوٹ ہے کے بہانے پیسے اینٹھنا اور جاتے ہوئے بچوں کو ٹرخانا انکی پرانی عادت تھی)
اففف اے یاسر ۔۔۔پنکھے کا منہ میری طرف کر دے ۔۔۔سلطانہ آپا واپس برآمدے میں آتے ہوئے بولیں
ہیلو ہیلو۔۔۔۔۔میں نے یاسر کو فورا روکا۔۔۔۔اسے پھیرواں کر دو گرمی سب کو لگتی ہے۔۔۔میرے ٹوکنے سے سلطانہ آپا تنک اٹھیں
تم زیادہ مشورے نا دو۔۔۔اور
فٹا فٹ پیسے نکالو شاباش وہ جھٹ میری طرف مڑیں
یہ لیں جناب۔۔۔میں نے فورا ستائیس سو روپے انکی طرف بڑھائے
ہیں۔۔۔۔یہ تو کم ہیں انہوں نے جھپٹ کر پیسے پکڑے اور فورا گنتے ہوئے بولیں
ارے کب۔۔۔۔۔چار سو آج کا کرایہ اور پچھلے حساب کتاب کےبنے انیس سو۔۔۔۔۔ٹوٹل تئیس سو۔۔۔۔میں نے انہیں پورا حساب کتاب سمجھایا
ہیں ہیں۔۔۔۔۔کونسے انیس سو سو۔۔۔۔سلطانہ آپا میرےحساب کتاب سے بوکھلا اٹھیں
ساڑھے سولہ سو تائی کے اور ڈھائی سو میرے۔۔۔ یاد کریں جب آپ نے بازار سے جرسی خریدی تھی اور دکاندار کے پاس چینج نہیں تھا۔۔۔۔اور وہ جب آپ عید پر آئی تھیں۔۔۔میں نے دندیاں نکالتے ہوئے پورا روزنامچہ ہی کھول لیا
ہااائے توبہ نکے نکے حساب رکھتا ہے چچ چچ۔۔۔۔سلطانہ آپا نے کھسیائے ہوئے انداز سے کہا
ارے چھوڑیں ۔۔۔سوٹ بڑا اچھا ہے کب لیا ؟؟ میں نے فورا انکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا
ہیں نا۔۔۔۔۔ابھی پچھلے ہفتے ہی خریدا ہے۔۔۔اچھا ہے نا ؟؟ وہ چمک کر بولیں
ہاں پیارا ہے لیکن۔۔۔۔۔میں بولتے بولتے رکا
لیکن کیا۔۔۔۔وہ یکدم ٹھٹھکیں
لیکن پچھلے سیزن کا ہے۔۔۔۔۔آپ نیو سیزن کے کپڑے لیا کریں ؟؟؟ میرے طنزیہ فقرے پہ وہ تڑپ اٹھیں۔۔۔۔انکے کپڑوں کی تعریف ہر شخص پر واجب ہوتی تھی۔۔۔۔خاندان کی اکثر خواتین انکی اترن کی منتظر رہتی تھیں۔۔۔۔اور میں نے انکے کپڑوں کو پرانے سیزن کا کہہ دیا تھا
کیا مطلب ہے تیرا۔۔۔۔شکل دیکھی ہے اپنی۔۔۔۔اصلی چکن کی لان ہے
اوئے یاسر جا ۔۔۔بھاگ کر چار میٹھی بوتلیں پکڑ لا شاباش میں نے پاس کھڑے یاسر کو سو کا نوٹ پکڑایا۔۔۔۔شاباش کھسک
یاسر نے جلدی سے نوٹ اچکا اور باہر کو بھاگا
افففف آپا۔۔۔۔اونچا بول کر کیوں سب کو سناتی ہیں۔۔۔۔۔میری بات غور سے سنیں۔۔۔۔۔۔میں نے کب کہا چکن کی لان نہیں ہے۔۔۔۔غور سے سنیں۔۔۔آپکے فائدےکی بات ہے میں نے یاسر کے جاتے ہی انہیں سمجھایا
توووو ؟؟ انہوں نے قدرے حیرت سےپوچھا
بتاتا ہوں ۔۔۔پہلاں آپ یہ مان لو کہ سوٹ پچھلے سیزن کا ہے
بکواس نا کر۔۔۔۔۔تمہیں جیسے بڑا پتہ ہے نا۔۔۔۔میرے منہ نا لگ دفع ہو۔۔۔۔۔سلطانہ آپا نے انتہائی ڈھٹائی سے مجھے پھٹکارا
اچھا مرضی ہے۔۔۔۔میں تو آپکے بھلے کے لیے کہہ رہا تھا میں نے میٹھی چھری پھیری
تو رہن دے۔۔۔میرے بھلے کی کسی کو پرواہ نہیں سلطانہ آپا کے نروٹھے جواب سے میں چونکا
یہ بظاہر عام سا فقرہ تھا۔۔۔۔لیکن میں چونک اٹھا تھا۔۔۔۔شائد میرے ذہن میں ہی خناس بھرا تھا یا ۔۔۔۔۔۔۔یہ سب مونا چاچی کی باتوں کا اثر تھا۔۔۔۔مونا چاچی بڑے طریقے سے میری ذہن سازی کر چکی تھیں۔۔۔۔یہ میں تب نہیں جانتا تھا
میں نے کن انکھیوں سے سلطانہ آپا کو دیکھا ۔۔۔۔یہ دیکھنا ذرا الگ قسم کا تھا۔۔۔۔یہ خالص مردانہ نظر تھی۔۔۔ایکسرے کرتی نظر۔۔۔۔۔۔۔اور یہی نظر خطرناک ثابت ہوئی
گرمی سےتنگ آکر بڑی چادر اتارے کرسی پہ بیٹھی سلطانہ آپا پہ ڈالی وہ نظر آفت انگیز تھی۔۔۔۔لان کے باریک سوٹانکا گداز بدن۔۔۔۔پنکھے کی تیز ہوا سے اڑتے بال اور سرکا ہوا دوپٹہ۔۔۔وہ گریبان کا پسینہ سکھاتی مجھے پسینہ پسینہ کر گئیں۔۔۔چپکی قمیض کا گریبان اور گریبان سے جھلکتے گورے مومے اور کلیویج۔۔۔افففف۔۔۔۔۔۔میرےکان تک سرخ ہو گئے انکی بھری بھری چھاتیاں اور گورا سینہ۔۔۔۔واقعی وہ آتش جوان تھیں۔۔۔
خیررر ایسا بھی نہیں۔۔۔۔سب کو آپکے بھلے کی پرواہ ہے فکر ہے میں نے سر جھکائے آہستگی سےکہا
کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔توبہ یاسر کدھر رہ گیا۔۔۔اففف سلطانہ آپا نے کرسی سےقدرے اٹھ کر پیچھے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا
میری چور نظریں انہی پہ گڑی تھی۔۔۔ایسے اوپر ہو کر پیچھے مڑنا کمال کا سین تھا۔۔۔۔نائلون کی کرسی پر بیٹھنے اور پسینے سے چپکی شلوار۔۔۔ ٹانگ پہ چڑھی ٹانگ۔۔۔۔چوتڑوں کا نظارہ میرے ہوش ہی اڑا گیا۔۔۔۔اففف کیا چوتڑ تھے کیا رانیں تھیں۔۔۔۔میری شلوار میں سرسراہٹ ہوئی
آجاتا ہے ۔۔۔۔آپ میری بات سنیں اس سے پہلے کہ یاسر آجائے۔۔۔۔میرے پراسرار لہجے پہ وہ چونکیں
کونسی بات ؟؟ بتا تو۔۔۔۔وہ تڑخ کر بولیں
ایسےزور سے نا بولیں۔۔۔۔۔کیوں اپنی بزتی کرواتی ہیں۔۔۔۔میں آپکو کچھ دکھاتا ہوں ۔۔میں نے مدہم آواز میں کہا
کیا دکھانا ہے ؟؟ میرےٹوکنےپہ وہ قدرے دھمیی ہوئیں۔۔۔۔۔شائد آج تک کسی نے انہیں ٹوکا ہی نہیں تھا۔۔۔۔میں بھی نا ٹوکتا اگر میرے پاس انکا بھید نا ہوتا۔۔۔۔یا میرا بھی ان سے مفاد ہوتا تو میں کبھی نا ٹوکتا
نئے فیشن کا رسالہ میں نے دیسی انداز میں انہیں سمجھایا
آپ کو دکھاوں گا۔۔۔۔۔میرا ایک جگاڑ ہے آپ نے خریدنےہوئے تو مدد بھی کرونگا۔۔آپکے بھلے کا مشورہ ہے باقی تمہاری مرضی میں نے بڑے سکون سے اپنا جملہ مکمل کیا
ہیں ۔۔تجھے میری کب سے پرواہ ہونے لگی ؟؟ سلطانہ آپا نے قدرے حیرت سے پوچھا
یہ اہم نہیں ہے ۔۔۔۔اہم یہ ہے کہ مجھے آپکے بھلے کی فکر ہے۔۔۔۔اب سوچیں آپ نے یہ سوٹ چار ہزار کا لیا ہوگا ہے نا ؟؟؟ میں نے اندازےسے تکہ لگایا
بیالیس سو کا۔۔۔لیکن میں نے یہاں پانچ ہزار بتائے ہیں وہ آہستگی سے بولیں
حالانکہ یہی سوٹ تین ہزار میں ملتا ہے ۔۔۔۔چار ہزار میں تو اس سال کا سوٹ مل جائے گا میں نے انکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا
ہاااائے مر جاواں ۔۔۔تین ہزار کا۔۔۔سلطانہ آپا کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھیں
ششششش چپ ۔۔۔۔۔۔یاسر آ گیا ہے میں نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
یہ لیں ٹھنڈی ٹھار بوتلیں۔۔۔۔یاسر نے شیزان کی بوتل میز پر دھرتے ہوئے کہا
لیں شیزان پئیں۔۔۔۔۔اور ٹھنڈے دماغ سے سوچیے گا۔۔۔۔آپکا بھلا ہے باقی آپکی مرضی ۔۔میں اپنی بوتل اٹھا کر واپس چھت پر آگیا
مجھے پورا یقین تھا سلطانہ آپا میرے پیچھے ضرور آئیں گی۔۔۔نئے سوٹ۔۔۔۔میرا جگاڑ اور سب سے بڑھ کر مناسب قیمت۔۔۔۔یہ وہ چیزیں تھیں جن سے وہ منہ نہیں موڑ سکتی تھیں
وہی ہوا۔۔۔۔کچھ دیر گزری ہوگی کہ سیڑھیوں پر قدموں کی آہٹ ابھری اور چند لمحوں بعد وہ مجھے آواز دیتی کمرے میں آگھسیں
توبہ۔۔۔۔۔تمہیں حبس نہیں لگتا اس کوٹھڑی میں۔۔۔انہوں نے اندر گھستے ہی نخوت سے کہا
لگتا ہے لیکن مجبوری ہے میں نے کندھے اچکائے۔۔۔
اچھا سن۔۔۔۔تیرے پاس واقعی کپڑوں والے رسالے ہیں۔۔۔وہ جھٹ مطلب پر آئیں
ہاں ۔۔۔کیوں آپکو دیکھنے ہیں میں نے کن انکھیوں سے انہیں دیکھا۔۔۔گرمی کی شدت سےتمتاتا گورا چہرہ۔۔۔۔غضب ڈھا رہا تھا
ہاں دکھاو تو بھلا۔۔۔انہوں نے ظاہرا بےنیازی دکھائی۔
میں فورا اپنے شاپر کی طرف بڑھا اور فیشن میگزین انکی طرف بڑھایا
یہ دیکھیں ۔۔۔۔اس سال کے ڈیزائن میں نے جتاتے ہوئے کہا
ہااائے کتنا سوہنا سوٹ ہے وہ ٹائٹل کو دیکھتے ہوئے بولیں
سکون سے دیکھیں ۔۔۔۔اور پھر بتائیں میں نے نرمی سے جواب دیا
یہ بھلا کتنےکا ہوگا ؟؟ انہوں نے ایک سوٹ ہاتھ دھرا
کونسا یہ انگوری۔۔میں نے کھڑے کھڑے پوچھا۔۔۔۔یہ ساڑھے چھ ہزار کا میں نے فورا ریٹ بتایا
ہااائے اتنا مہنگا۔۔۔۔۔سلطانہ آپا دہل کر بولیں
اففف سلطانہ آپا۔۔۔۔فیبرک بھی تو دیکھیں نا۔۔۔۔نرم ملائم کپڑا۔۔۔۔آپ پہنو تو اس ماڈل سے بھی سوہنی لگو۔۔۔۔میں نے ہمت کر کے بول ہی دیا
دفع مر میں کیوں ماڈل بنوں۔۔۔سلطانہ آپا تنک کر بولیں
افففف ماڈل بننےکا کس نےکہا۔۔۔۔میں نے کہا ہے کہ آپ اسےپہنو تو زیادہ جچے۔۔۔۔اس چھپکی پر ذرا نہیں جچ رہا میں نے سلم سمارٹ ماڈل پہ تنقید کی
ہاہاہا ۔۔نہیں تو اچھا خاصی ہے ۔۔۔میری طرح موٹی نہیں۔۔۔خلاف توقع سلطانہ آپا کے نرم جواب سے میں چونکا۔۔۔۔مجھے امید تھی کہ وہ مجھے سخت ڈپٹیں گی۔۔۔ہاا یہ کس نے کہا آپ موٹی ہیں۔۔۔آپ موٹی نہیں پرفیکٹ ہیں۔۔۔بس اپنا خیال رکھا کریں نا۔۔۔۔میں نے انکی نرم مزاجی سے ہمت پکڑ کر انہیں مشورہ دیا۔۔۔انکا بھرابھرا جسم مجھے آنچ دے رہا تھا۔۔
چھڈ۔۔۔۔میں کس واسطے خیال رکھنا۔۔۔۔تو یہ بتا۔۔۔۔۔تیرے پاس یہ رسالے کہاں سےآئے۔۔۔سلطانہ آپا کے اس سوال کا مجھے انتظار تھا
ارے آپکو نہیں پتہ۔۔۔۔میری نوکری لگ گئی۔۔۔۔فیصل آباد شہر۔۔۔۔میں نے رٹی رٹائی سٹوری سنائی
اسی لیے تجھے فیشن کا پتہ چل گیا ورنہ عفت نے بڑی تعریف کی۔۔۔وہ دھیمے سے بولیں
ہاں انہیں کیاپتہ سلطانہ آپا۔۔۔یہ لوگ آپکے لیول کے نہیں۔۔۔۔آپکا لیول ذرا بلند ہے ۔۔۔میں جانتا ہوں۔۔۔۔میں نے انکے جھلکتے برا سٹریپ کو تاڑا۔۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔سچ کہہ رہا ہے۔۔۔اچھا ادھر بیٹھ اور یہ بتا کہ۔۔۔۔؟ انہوں نے بےتکلفانہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ چارپائی پہ بٹھایا
کیا بتاوں۔۔۔۔۔میں انکے قرب سے سلگ اٹھا۔۔۔۔ڈھیلی چارپائی پر ہم دونوں ساتھ ساتھ دھنسے بیٹھے ہوئے تھے
مجھے یہ سوٹ لینا ہے انہوں نے ایک سوٹ پہ انگلی دھری۔۔۔
ارے چھوڑیں۔۔۔میں نے بےتکلفانہ رسالہ کھینچا اور ورق پلٹتا آخر میں سردیوں والے کپڑوں تک پہنچا
گرمیاں تو ختم ہونے والی ہیں۔۔۔۔اب کیا فائدہ۔۔۔۔آپ یہ ونٹر کلیکشن دیکھیں۔۔۔۔یہ سوٹ کتنا ملائم ہے نا آپکی طرح میں نے شوخی سے جملہ دیا
پراں ہٹ بدتمیز۔۔۔۔۔۔۔وہ میرے شوخ جملے سے کھسیا اٹھیں۔۔۔انکا صرف کھسیانا اور کچھ نا کہنا۔۔۔۔۔مونا چاچی کی خبر کو سچا ثابت کر رہا تھا۔۔۔۔واقعی ذرا سی ہمت کی بات ہے میں نے دل ہی دل میں سوچا
اچھا سنیں۔۔۔۔۔یہ بات ہمارے درمیان خفیہ ہوگی ۔۔۔۔۔ورنہ عفت تائی بھی کہیں گی میں نے جھجھکتے ہوئے کہا
آہو۔۔۔میں کوئی پاگل ہوں اور خبردار جو تو نے ان میں سے کسی کو سوٹ دیا۔۔۔۔یہ میری اترن پہننے والی۔۔۔نئے فیشن کا سوٹ خریدیں۔۔۔میں زہر نا کھالوں۔۔۔۔سلطانہ آپا کی زہریلی آواز میرا دل خوش کر گئی۔۔۔۔۔یہ رازداری کا سلسلہ بہت آگے تک جا سکتا تھا
آئے ہائے آپا جی۔۔۔انکی کہاں اوقات۔۔۔۔انکے لیے فیصل آباد کا لنڈا بازار میں نے انکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
واہ ۔۔۔یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔چل یہ سوٹ دیکھ۔۔۔۔یہ خریدنا ہے مجھے سلطانہ آپا نے کھدر کے گرم تھری پیس سوٹ پہ انگلی رکھی
نہیں یہ تھوڑا سا کھردرا ہے۔۔۔۔آپ یہ ویلوٹ کا سوٹ دیکھیں۔۔ملائم ملائم آپکو بڑا مزہ آئےگا۔۔۔۔۔۔میں نے ذومعنی انداز میں انہیں ورغلایا
توبہ نومی۔۔۔۔۔تو بڑا ہوشیار ہو گیا ہے پکا سیلزمین۔۔۔چل تو اپنی مرضی سے لے آنا۔۔۔۔پیسوں کی فکر نا کرنا۔۔۔انہوں نے فیاضی سے کہا
بےفکر رہیں۔۔۔۔پیسے کہیں نہیں جاتے۔۔۔ ایسا سوٹ لاونگا کسی نے دیکھا تک نہیں ہوگا میں نے فورا وعدہ کیا۔۔۔۔۔میرا کونسا جیب سے جانا تھا۔۔۔سارا خرچہ مونا چاچی کا تھا
ہااائے سچی۔۔۔۔لیکن سن۔۔۔۔؟ سوٹ بھیجے گا کیسے ؟؟؟ وہ رسالہ چارپائی پر رکھ کر اٹھتے ہوئے بولیں
جیسے آپ کہیں۔۔۔۔۔ویسے میرے ذہن میں اک نیا آئیڈیا آیا ہے میرا شیطانی دماغ پوری سپیڈ سے دوڑ رہا تھا
کونسا آئیڈیا۔۔۔۔سلطانہ آپا کھڑے کھڑے میری طرف گھومیں۔۔۔یہ بڑا ہی دلفریب منظر تھا۔۔۔۔میں چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ وہ میرے سامنے پورے جلووں سے کھڑی تھیں۔۔۔۔نیچےسے اوپر کو۔۔۔۔انکی چھاتیوں کی اٹھان۔۔۔انکی ہلکی گداز کمر اور سیکسی گانڈ۔۔۔۔۔میرے لہو میں شرارے دوڑنےلگے۔۔۔۔۔
اتنا اچھا سوٹ ۔۔۔۔اور محلے کی درزن۔۔۔۔۔سارے سوٹ کا کباڑہ ہوجانا ہے۔۔۔۔میرا مشورہ مانو تو بوتیک سے سلواو۔۔۔۔بلکل ایسے ہی ڈیزائن سے پھر دیکھنا اپنا جلوہ۔۔۔۔۔پوری ملکہ سلطانہ لگیں گی۔۔۔میں نے لوہا گرم دیکھ کر آخری ضرب لگائی
بوتیک سے۔۔۔۔۔۔سلطانہ آپا کا منہ حیرت سے کھلا۔۔۔۔۔۔۔
ہاں فیصل آباد کی بوتیک سے۔۔۔میں سلواوں گا کیا کہتی ہیں۔۔۔۔میں نے انہیں اکسایا
چل ٹھیک ہے لیکن تجھے ناپ کا کیسے پتہ چلےگا۔۔۔وہ میرے جھانسےمیں آ چکی تھیں
اسکا مسلہ نہیں۔۔۔۔۔میں کچھ جگاڑ کر لونگا میں نے اپنے کسمساتے لن کو رانوں میں دباتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
نہیں نہیں جگاڑ سے اونچ نیچ ہوگئی تو۔۔۔۔سلطانہ آپا جلدی سے بولی
ہممم تو ایک سوپر حل ہے۔۔۔آپ فیصل آباد آجانا مرضی سے سوٹ لینا اور مرضی کا سلوانا۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے صلاح دی
ہااائے نومی۔۔۔۔۔۔اتنا آسان نہیں ہے ۔۔۔فیصل آباد کافی دور ہے ۔۔۔۔تو ایک کام کر ۔۔۔۔۔تم آجانا میرے گھر۔۔۔۔سلطانہ آپا کی دعوت پہ میں ٹھٹکا۔۔۔میں ایک آدھ بار انکے گھر جا چکا تھا
آپکے گھر ؟ اور جو آپکی نندوں نے کپڑےدیکھ لیے تو ؟؟؟ میں نے طریقے سے ٹیسٹر لگایا
اوہ نہیں۔۔۔میں تجھے بتاونگی نا۔۔۔۔تب آنا۔۔۔۔
اچھاااا کوشش کرونگا میں نے جان بوجھ کر تھوڑا بہت نخرہ دکھایا۔۔۔۔اگر میں فورا سب کچھ مانتا جاتا تو سلطانہ آپا چوکنی ہو سکتی تھیں۔۔۔۔
دیکھا۔۔۔۔تم بھی نری باتیں ہو۔۔۔۔اب کدھر گیا تیرا بھلا اور خیال کرنا ؟؟ انہوں نے تنک کر کہا
اچھاااا۔۔ناراض تو نا ہوں۔۔۔۔۔آپ بتا دینا کب آوں۔۔۔
شاباش۔۔۔۔یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔۔ایسا کرنا جس دن کپڑے خریدے مجھے بتانا۔۔۔۔میں تمہیں بلا لونگی۔۔۔پھر سکون سے صلاح کریں گے۔۔۔۔۔ویسے بھی مجھے شادی کے لیے کپڑے بنانے ہیں۔۔۔۔
شادی کسکی ؟؟ میں نے حیرت سے پوچھا ؟؟
ارے وہ میری نند ہے نا نزہت ۔۔۔۔۔اسکے دیور کی شادی ہے۔۔۔۔ابھی تاریخ نہیں رکھی ۔۔۔لیکن ہوگی نومبر دسمبر میں۔۔۔۔وہ آہستگی سے بولیں۔۔۔۔
یہ سپر ہوگیا۔۔۔۔بس تینوں فنکشنز کے کپڑے ہم دونوں ملکر بنائیں گے۔۔۔۔دیکھنا آپ کے ششکے میں نے ہنستے ہوئے کہا
قسم سے جو دیکھے گا پاگل ہوجائے گا میں نے ذومعنی انداز میں تبصرہ کیا
اوہ چھڈ نومی۔۔۔۔۔مجھے کس نے دیکھنا میں بیاہی بڈھی ۔۔۔۔سلطانہ آپا کی اداس آواز میرے دل کے تار ہلا گئی
ہیں ہیں۔۔۔۔بڈھی۔۔۔اور آپ۔۔۔۔توبہ سلطانہ آپا ۔۔۔ایسے ظلم تو ناکریں۔۔۔۔۔میں نے تڑپ کر کہا۔۔
تو ؟ بڈھی نہیں تو کونسا بالکڑی ہوں ۔۔۔۔۔سلطانہ آپا آہستگی سے بولیں
نا بڈھی اور نا ہی بالکڑی۔۔۔۔آپ تو۔۔۔۔۔میں بولتے بولتے رکا
کیا ؟؟ بول رک کیوں گیا۔۔۔۔سلطانہ آپا کی تیز آواز سے میں گڑبڑایا۔۔۔۔انکے مزاج کا کچھ پتہ نہیں تھا۔۔۔وہ کب کسی کی اتار کر رکھ دیں ؟؟
چھوڑیں۔۔۔۔ایویں آپ نے غصہ کرجانا ۔۔۔۔میں نے جھجھکتے ہوئے کہا
چل بتا نا۔۔۔۔؟ نہیں کرتی غصہ۔۔۔جلدی کر۔۔۔۔وہ جلدی سے بولیں
نہیں۔۔۔۔مجھے پتہ ہے آپ نے غصہ کرنا ہے سوری۔۔۔ میں نے سہمی آواز میں جواب دیا
اففف نہیں کرتی غصہ ۔۔۔پکا وعدہ۔۔۔سلطانہ آپا کا سسپنس عروج پر تھا
اچھا تو سنیں۔۔۔میں چارپائی سے اٹھا اور انکے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔۔آپ بڈھی اور بالکڑی نہیں بلکہ بھرپور جوان لڑکی ہے۔۔۔میرے جملے پہ سلطانہ آپا بری طرح ٹھٹھکیں۔۔۔۔انکے گورے چہرے پہ سرخی دوڑی۔۔۔۔ایک لمحے کو تو میری گانڈ ہی پھٹ گئی۔۔۔وہ تیز نظروں سے مجھے گھور رہی تھیں
ددیکھا۔۔آپکو غصہ آ گیا نا ؟؟ میں نے گھبراتے ہوئے کہا
تجھے پتہ ہے تو کیا کہہ رہا ہے ؟؟ انہوں نے قدرے حیرت آمیز سختی سے پوچھا
ہاں۔۔۔اور میں نے سچ کہا ہے۔۔۔آپ بھرپور جوان لڑکی ہیں۔۔۔۔ان چھپکلی جیسی ماڈلز سے ہزار گنا سوہنی۔۔۔۔۔۔۔میں نے دل مضبوط کر کے کہہ ہی دیا
ہااائے قسمے۔۔۔۔۔میری واضح تعریف سے انکا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھا
ہاں۔۔۔۔بس تھوڑی سی چینجنگ کی ضرورت ہے پھر دیکھنا آپکے خاوند صاحب آئے تو انکے ہوش اڑ جانے جیسے تیز بجلی سے بلب اڑ جاتا ہے میں نے شرارتی انداز میں انہیں چھیڑا
دفع دور۔۔۔۔اسکے فیوز ہونگے تو اڑیں گے نا۔۔۔۔ایویں موڈ خراب نا کر۔۔۔۔۔سلطانہ آپا نے منہ بناتے ہوئے کہا
اچھااااا سوری۔۔۔۔میں نے تو ویسےکہہ دیا۔۔۔دسمبر کی چھٹیوں میں شادی ہے وہ نہیں آئیں گے کیا ؟
توبہ کر۔۔۔۔ابھی تو کبھی نا آنے دوں۔۔۔۔پہلے ہی اسکے آتے تینوں نندیں ٹپک پڑتی ہیں۔۔۔۔ اس بار تو نزہت کےدیور کی شادی ہے اسکی فرمائشیں ہی پوری نہیں ہونی
وہ باہر ہی رہے تو اچھا ہے خوامخواہ کی روک ٹوک اور خرچے ۔۔۔سلطانہ آپا کلس کر بولیں
اچھا چھوڑیں۔۔۔۔شکر ہے آپکو غصہ نہیں آیا۔۔۔میں نے فورا موضوع بدلا
لو ۔۔۔ایسی بھی کپتی نہیں کہ تعریف پہ غصہ کروں لیکن نومی ۔۔۔۔ایک بات بتا۔۔۔پہلاں تو مجھے بل بتوڑی چڑیل کہتا تھا۔۔۔۔اور اب ۔۔۔۔خیر ہے نا ؟؟ سلطانہ آپا کے تیکھے سوال سے میں ہلکا سا گڑبڑایا۔۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔۔ اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا۔۔۔اب میں سارا دن زنانیوں میں ہوتا ہوں۔۔۔۔بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر آنے والے بیگمات ۔۔۔بڑے سیٹھوں اور فیکٹری مالکان کی بیگمات۔۔۔۔مجھے شہر جا کر پتہ چلا ہے کہ خوبصورتی کیا ہوتی ہے
اوے ہوئے۔۔۔۔اسی لیے۔۔۔۔پھر تیری تو موجیں ہیں۔۔۔دن بھر فینسی کپڑے اور فینسی زنانیاں۔۔۔سلطانہ آپا نے جھینپتے ہوئے کہا
ہاں لیکن شہری زنانیاں نرا میک اپ۔۔۔۔سوکھی سڑی۔۔۔مجھے دلچسپی نہیں ۔۔میں نے آہستگی سے جواب دیا
اچھاااا۔۔۔۔ تو تجھے موٹی زنانیاں اچھی لگتی ہیں ۔۔حیرت ہے۔۔۔وہ بےساختگی سے بولیں
موٹی نہیں۔۔۔۔لیکن بھرےبھرے جسم والی۔۔۔۔۔اب پتہ تو چلے نا زنانی ہے کھسرا نہیں ۔۔۔۔۔
ہاااے نومی۔۔۔۔تو بڑا ہشیار ہوگیا ہے چل آ نیچے چلتے ہیں ادھر گرمی میں کیوں بیٹھا ہے وہ گڑبڑاتے ہوئے بولیں
ہاں چلیں میں بھی کھانا کھا کر واپس نکلوں گا صبح ڈیوٹی بھی کرنی ہے میں نے شاپر سنبھالا اور انکے ساتھ باہر نکلتے ہوئے بولا
بڑا سیانا ہوگیاہے ۔۔۔۔۔سلطانہ آپا نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا
سیانا نہیں بڑا ہوگیا ہوں دیکھیں آپ سے لمبا ہو گیا۔۔۔میں نے انکے ساتھ لگ کر کہا۔۔۔۔۔یوں ساتھ لگنے سے ہمارے جسم آپس میں ٹکرائے۔۔۔۔سلطانہ آپا کا نرم بازو۔۔اور اسکی گرم حدت۔۔۔
پاگل پیچھے ہٹو۔۔۔۔۔سلطانہ آپا میرے ساتھ لگتے بوکھلا کر پیچھے ہٹیں۔۔۔
انکا گھبرانا میرےحق میں بہتر تھا۔۔۔۔یقینا انہون نے میرے جوان لمس کو محسوس کیا تھا
نیچےجا کر۔۔۔۔سب سے باتیں کرتے۔۔۔بچوں کو چھیڑتے ۔۔میں چھپ چھپ کر انہیں دیکھتا رہا۔۔۔۔وہ بھی تھوڑا سا جھینپتی چپ چاپ ایک طرف بیٹھی رہیں
اے سلطانہ۔۔۔تو بڑی چپ ہے آج کیا ہوا ؟؟ عفت تائی نے انکی خاموشی نوٹ کی
ارے نہیں بس ویسے ہی میرے سر درد ہو رہا ہے سلطانہ آپا نے ماتھے کو سہلاتے ہوئے کہا
ارے ہاں ۔۔۔تیرا تو چہرہ بھی سرخ ہو رہا ہے۔۔۔۔لگتا ہے گرمی لگ گئی۔۔۔۔ اے یاسر پنکھا آپا کی طرف کر۔۔۔۔۔عفت تائی کےدل میں بھتیجی کی محبت تھی یا کوئی لالچ میں نہیں جانتا تھا۔۔۔۔میں سلطانہ کی خاموشی اور چپ سے پریشان تھا۔۔۔۔کہیں انہیں کچھ برا تو نہیں لگ گیا ؟؟
جاری ہے
ایک تبصرہ شائع کریں for "مونا چاچی قسط نمبر تین"