ابو جان شہر میں رہتےتھے اور ہفتے میں صرف دو دن گاؤں ہمارے پاس آتے تھے ، یہاں گاؤں میں ہمارے کافی کھیت ہیں جو کے گھر سے بالکل ہی ملتے ہیں ، میری عمر صرف 16 سال ہے ، گاؤں کی خالص غذا اور آب و ہوا نے مجھے ورزشی جسم اور چمکتا ہو رنگ دیا ہے جو دیکھنے والوں کو مرعوب کر دیتا تھا ۔ہمارے گھر میں امی ، چچا جان اور ان کی بیوی ، میری دو چھوٹی بہنیں اوربڑے بھائی کی بیوی رہتی ہیں ۔ بڑے بھائی تعلیم کے لئے شہر میں ہاسٹل میں رہتے تھے ، ان کی شادی چچا کی بیٹی سے ہی ہوئی تھی۔ہمارے گھرانے میں آپس میں ہنسی مذاق اور انڈراسٹینڈنگ بہت ہی اچھی تھی ، ہر کوئی مذاق مستی کے ماحول میں رہتا تھا ۔۔ مجھے بچپن سے ہی ورزش کا شوق تھا ، میں روزانہ رات کو تیل سے مالش کر کے ایسے ہی سو جاتا تھا اور صبح اٹھ کر دوڑ لگاتا اور پھر واپس آ کر نہا کر ناشتہ کرتا تھا ، ناشتہ چچی جان بنایا کرتی تھیں ، اور بھابھی دوپہر کا کھانا ، جبکہ میری دونوں بہنیں رات کا کھانا بناتی تھی ،
دن ایسے ہی گزررہے تھے ، میں نے اسکول کی تعلیم مکمل کی اور کالج کی تعلیم کے لئے شہر آ گیا ، یہاں آ کر مجھے اندازہ ہوا کہ جوانی کیا چیز ہوتی ہے ، گاؤں میں ہر چیز پاک صاف تھی ، کوئی گندہ خیال ذہن میں نہیں آتا جبکہ ہمارا گاؤں کے دوسرے گھروں میں بھی آنا جانا نہیں تھا ، یہاں شہر میں تو ہر طرف ہر لڑکا لڑکی کو ایسے گھورتا جیسے وہ اس کی اپنی ملکیت ہو ، میری بد قسمتی کے مجھے بھی کچھ ایسے ہی دوست ملے جو کہ سیکس کے بھوکے تھے اور ہفتے میں اک بار کسی لڑکی کی چدائی کرتے تھے ، انہوں نے مجھے بھی ساتھ شامل کرنا چاہو مگر ابھی میرا ٹائم نہیں آیا تھا ، اس لئے میں بچتا رہا ۔ اسی دوران مجھے انٹرنیٹ کی دنیا کی لت پڑی ،جہاں مختلف پورن ویب سائیٹس دیکھنے میں گزرتی تھیں اور انہیں نے مجھے آہستہ آہستہ پورنوگرافی کا عادی بنانا شروع کر دیا ۔یہ پورنوگرافی میں مزے لینے کے بجائے ایک تجربے کے طور پر دیکھ رہا تھا،اور انہوں نے مجھے لڑکیوں کو الگ رخ سے روشناس کروایا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کی مجھے باہر کی کسی بھی لڑکی سے عجیب سے شرم محسوس ہوتی تھی ، وہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتی بھی تو مجھ سے ہو نہیں پاتی تھی ، لڑکی کے قریب جاتے ہیں عجیب سا رعب مجھ پر طاری ہو جاتا تھا ، ۔ میں کالج میں رہتے ہوئے سب سے شریف لڑکا تھا ، اس اثنا میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوئی اور میں اپنے بھیا کے ساتھ گاؤں واپس آگیا ، راستے میں بھیا مجھ سے مذاق کرتے رہے اور پوچھا کہ کوئی گرل فرینڈ بنائی یا نہیں ، میں نے کہا بھائی آپ مجھے ایسا سمجھتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ تو شریف ہے مگر شہر کی لڑکیا ں تو شریف نہیں ، کیا کوئی بھی پسند نہیں آئی ۔ پھر میں نے بھائی کو اپنا ڈر بتا دیا کہ میں لڑکیوں کے قریب جانے سے جھجکتا ہوں ۔ آپ کچھ حل بتائیں ۔ بھائی نے کہا کہ جب واپس شہر آئیں گے تو میں اپنی کچھ دوستوں سے ملواؤں گا وہی تیری شرم دور کریں گے ۔ ایسے ہی باتیں کرتے ہم گھر پہنچے ، سب لوگ بے صبری سے انتظار کر رہے تھے ۔ کھانے کی ٹیبل پر ہنسی مذاق ہوتا رہا ۔ ہم تھکے ہارے تھےاسی لئے جلد ہی سونے کے لئے لیٹ گئے ۔
رات کو قریب دو بجے میری آنکھ کھلی اور میں پانی پینے نیچے کچن میں آنے لگا ۔ گھر کی سیٹنگ کچھ یوں ہے کہ میں بھائی بھابھی اور چچا چچی کا کمرہ اوپر فرسٹ فلور پر ہے ، جبکہ نیچے والے فلور پر امی ، بہنیں اور کچن بناہے ۔
اوپر بھائی کے کمرے کے سامنے سے گذرتے ہوئے مجھے عجیب سی آوازیں سنائی دینے لگی۔۔۔ سرگوشیوں میں باتیں اور ہنسی مذاق کی آوازیں ۔۔ میں سمجھ تو گیا تھا مگر پھر بھی کوشش کر کے دروازے کی جھر ی سے جھانکنے لگا۔۔ اندر جھانکا تو دیکھا کہ بھیا بیڈ سے ٹیک لگائے لیٹے ہوئے ہیں (بیڈ دروازے کے بالکل سامنے ہی تھا) اور بھابھی ان کی طرف منہ کر کے ان کی ٹانگوں پر بیٹھی ہوئی ہیں ، دونوں فل ننگے تھے ، اور بھیابھابھی کی چھاتیوں کو مسل رہے تھے ،اور بھابھی کے دونوں ہاتھ بھیا کے سر پر گھوم رہے تھے وہ آہستہ آہستہ بھیا کے بالوں کو کھینچ رہیں تھی ۔ بھیا بھابھی کے ننگے مموں کو گول گول مسل رہے تھے ، بھابھی کی پتلی کمر اور نیچے بھاری بھرکم گانڈ دیکھ کر میری حالت خراب ہو گئی تھی ، میری جو حالت پورن موویز دیکھ کر نہیں ہوئی تھی ، وہ بھابھی کوننگا دیکھ کر خراب ہو چکی تھی ، میرا لنڈ پوری جوش سے کھڑا ہو چکا تھا ۔ اور میں بالکل مست ان دونوں کے دیکھے جا رہا تھا ۔ رات کافی تھی ، کسی کے آنے کی امید نہیں تھی اس لئے بھیا بھابھی بھی پورے مست تھے اور میں نے بھی اپنا ٹراؤزر نیچے کھسکا دیا تھا ۔بھابھی ابھی بھیا کے اوپر جھک چکی تھی اور ان کے ہونٹوں کو چوم رہیں تھیں ۔ ان کے چومنے کا انداز بڑا عجیب تھا ، آگے کو جھکی ہوئی اور پیچھے سے اپنی گانڈ کوگول گول گھماتے ہوئے۔یہ دیکھ کر میرے خون کی گردش بہت بڑھ چکی تھی ،بھابھی اب اپنی زبان بھیا کے منہ میں ڈال رہی تھیں اور وہ اسے بڑے مزے سے چوس رہے تھے ۔بھابھی کا گندمی رنگ ٹیوب لائیٹ کی روشنی میں چمک رہا تھا۔اور ان کے لمبے بال جیسے کمر پر گرے ہوئے تھے وہ کسی کو بھی پاگل بنانے کے لئے کافی تھے ۔ بھابھی اب تھوڑا نیچے کی طرف ہوئیں اور بھائی کا لنڈ جو کہ نیم کھڑا تھا اسے سہلانے لگی ۔ اور پھر تھوڑی دیر میں اسے منہ میں ڈال کر چوسنے لگی ۔ بھائی کا لنڈ 7 انچ لمبا تھا جو کہ
جلد ہی اپنی اصل لمبائی میں آگیا ۔ کچھ ہی دیر گذری تھی کہ بھابھی نے اپنا سر اٹھایا اوراوپر کی طرف آ کر بھائی کے ہونٹوں کو چومنے لگیں ،اسی طرح چومتے چومتے وہ اپنے دونوں اپنےمموں کو مسل رہیں تھیں اور انہیں بھیا کے سینے پر رگڑ رہی تھیں۔دس منٹ گزرے ہی تھےکہ پھر اچانک انہوں نے دروازے کی طرف منہ کر لیا میں تو سمجھا شاید انہیں میرا پتا چل گیا ہے ، مگراب ان کا ارادہ گھوڑے کی سواری کا تھا ، انہیں نے دروازے کی طرف منہ کر لنڈ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور آہستگی سے اسے اپنی چوت کی سیدھ میں رکھ کر آرام سے بیٹھنے لگی ۔ اور یہی وقت تھا کہ جب میں نے ان کے سینے کا ابھاروں کو دیکھا ان کے لمبے کالے بال دونوں ابھاروں پر گرے ہوئے تھے ، ۔ اوپر کی طرف اٹھے ہوئے ان کے ابھار جو کے سخت اور گول مٹول سے ٹیبل ٹینس کی بال کی طرح تھے ۔ بھابھی کے چہرے پر بہت ہی لذت آمیز تاثرات تھے اور صاف پتا چلتا تھا کہ وہ بہت مزے میں ہیں ۔ بھابھی نے بھیا کا لنڈ ایک بار پورا اندر لینے کے بعد اب آرام آرام سے اوپر نیچے ہونا شروع کردیا تھا ، بھیا کے ہاتھ اب بھابھی کی گانڈ کی سائیڈز پر تھے اور وہ انہیں اوپر نیچے ہونے میں مدد کر رہے تھے ۔ بھابھی کے اوپر ہوتے ہوئے ان کے ممے بھی اوپر کی طرف باؤنس ہورہے تھے ۔ میرا ہاتھ اپنے لنڈ پر آگے پیچھےحرکت کررہا تھا ، میں نے کبھی پورن مووی دیکھ کر مٹھ نہیں ماری تھی ، مگر آج بھابھی کو ایسے دیکھ کر میں بے خود ہو گیا ۔ میرے آس پاس ہر چیز سلو موشن میں حرکت کر رہی تھی۔اور عجیب خوابیدہ ماحول کے اثر تھا ۔۔بھابھی نے ابھی اچھلتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں سے مموں کو مسلنا شروع کر دیا تھا ، اور ان کی سسکیاں اور آہیں بڑھتی جا رہی تھیں ۔۔۔بھائی بھی اپنے ہاتھوں سے بھابھی کی گانڈ کو دبوچ رہے تھے اور اوپر اٹھنے میں مدد دے رہے تھے ،اسی طرح 5 منٹ ہو چکے تھے ، میری آنکھیں بھاری ہوتی جارہی تھیں اور میں کسی خواب کے زیر اثر لگ رہا تھا ۔۔۔ بھابھی کا چہرہ سرخ ہوتا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی منزل قریب ہی ہے ۔ ان کی آوازیں اب تیز ہوتی جا رہیں تھیں ۔ اور بھائی بھی اب نیچے سے جھٹکے دینا شروع کر رہے تھے ۔ کئی بار تو بھابھی کافی اوپر اچھل جاتیں تھیں اور پھر نیچے آتیں ۔بھابی اور تیز ہوتی گئیں اور اونچی سسکیوں اور آہوں کے ساتھ ہی فارغ ہو گئی ۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی بیٹھی رہیں اور پھر آہستہ سے اٹھیں اور بھیا سے لپٹ گئیں ۔ وہ بہت جذباتیت سے ان کے منہ کو چوم رہیں تھیں اوران کے سینے پر ہاتھ پھیر رہیں تھیں ۔ بھائی کا لنڈ ابھی بھی کھڑا تھا وہ بھابھی کے ساتھ فارغ نہیں ہوئی تھے۔ بھابھی کی کمر پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے جو کہ ان کی گرمی اور محنت کا ثبوت تھے۔ بھابھی ابھی بھی گرم لگی رہیں تھیں وہ بہت تیزی سے بھیا کے چہرے اور ہونٹوں کو چوم رہیں تھیں ۔ کچھ ہی دیر میں بھابھی دوبارہ گرم ہو چکی تھیں ۔ وہ اٹھیں اور دوبارہ سے دروازے کی طرف منہ کر کے گھوڑی بن گئیں اور بھیا کو پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔ بھیا بھی اٹھ کر گھٹنوں کے بل بیٹھے اور اپنے تنے ہوئے لنڈ کو سہلانے لگے ۔ ان کا لنڈ جلد ہی پھنکاریں مارنے لگا تھا ۔ وہ آگے کو جھکے اور بھابھی کی کمر کو چومتے ہوئے گردن کی طرف آنے لگے۔بھابھی نے نیچے سے ہاتھ بڑھایا اور بھیا کا لنڈ تھام لیا۔ کھڑے کھڑے میری ٹانگیں تھک چکی تھیں اب میں بھی اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر دوبارہ نظریں جما لی تھیں ۔بھابھی نے بھائی کا لنڈ تھام کر اسے اپنی چوت کو راستہ دکھا دیا تھا ۔ بھیا کا پہلا جھٹکا ہیں بھابھی کو ہلانے کے لئے کافی تھی ۔ وہ آگے کو جھکیں ان کے ممے تیزی سے اوپر نیچے ہوئے اور پھر بھیا نے دھکوں کا ایک طوفان چلا دیا تھا ۔ بھابھی اپنی پوری کوشش کے باوجود اپنی پوزیشن پر قائم نہیں رہ پا رہی تھی ، ان کی سسکیا ں تو اوپر کی پوری منزل پر ہی گونج رہیں تھیں ۔ان کے ممے تیزی سے ہل رہے تھے جیسے کسی کپڑے کی تھیلی میں گیند ڈال کر تیزی سے ہلایا جائے ۔بھیا تو ایسے لگ رہا تھا جیسے کچھ دیر پہلے بھابھی کی من مانیوں کا بدلا لے رہیں ہیں ۔۔۔ بھابھی کئی بار آگے کو گرتیں اور پھر دوبارہ گھوڑی بنتیں ، ان کی سسکیاں اب بڑھ کر ہلکی چیخوں اور آہو ں میں تبدیل ہو چکی تھیں ۔ بھیا نے اب آگے جھک کر بھابھی کے دونوں مموں کو تھام لیا ، اور اب بھابھی کے لئے ایک اور امتحان تھا کیوں کی بھیا کی مموں پر پکڑ بہت ہی سخت تھی اور وہ بھابھی کے ساتھ آگے پیچھے نہیں ہو پارہے تھے ، جس سے ممے اور کھینچتے اور بھابھی کو اور درد ہو رہی تھیں ۔۔بھیا کو اس بری طرح سے چودتے ہوئے بلکہ بھابھی کی بجاتے ہوئے اورپانچ منٹ ہو چکے تھے۔ بھابھی نے بھی ابھی اپنا سر بیڈ پر ڈال دیا تھا اور پیچھے سے گانڈ اوپراٹھا دی تھی۔ان کے ہاتھ بیڈ کی چادر کو بھینچ رہے تھے جیسے وہ اپنا غصہ اس پر اتار رہیں ہوں ۔۔۔۔بھیا بھی اب فارغ ہونے کے قریب ہی تھے ایک تیز آواز کے کی ساتھ ہی وہ بھابھی پر گرے ، یہی وقت تھا کہ میرے لنڈ سے ایک فوارہ نکلا جو کہ سیدھا دروازے پر جا گرا ۔ میرے پورے بدن پر ایک میٹھی سی کیفیت طاری تھی اور اس کے ساتھ ہی میں دروازے کھلنے کی آواز سنی
میں نے انتہائی تیزی سے اپنے بائیں جانب دیکھا تو چچی جان اپنے کمرے کے باہر کھڑی مجھے حیرت سے دیکھ رہیں تھی ، مجھ میں ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور میں جلدی سے اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا ۔اندر آ کر پہلے تو میں سوچتا ہی رہا کہ یہ مجھ سے کیا ہوا ہے ۔ ایک تو بھیا کو دیکھنا اور پھر چاچی کا مجھے دیکھ لینا ۔۔۔ خود پر حیران ہو رہا تھا کہ یہ کیا کر دیا ہے میں نے ۔۔۔ کچھ دیر تک ایسے ہی بستر پر لیٹے سوچتا رہا۔ پھر یہی ٹھیک لگا کہ صبح اٹھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے ۔۔۔ اپنے پرانا معمول یاد آیا تو سرسوں کا تیل اٹھا کر نیچے چادر بچھا کر بیٹھا اور مالش شروع کر دی۔۔پورے بدن کی مالش کرتے ہوئے اب میں اپنے لنڈ کو خصوصی توجہ دے رہا تھا ۔ اور مجھے حیرانگی بھی ہو رہی تھی کہ میرا لنڈ اپنے بڑے بھائی سے کافی بڑا تھا ، شاید بچپن سے کی گئی مالش کا اثر تھا ۔۔۔ میں نے کوئی ایک گھنٹہ لگایا اور پورے بدن کی نرمی اور سختی سے مالش کی اور وہی چادر اپنے بیڈ پر بچھا کر لیٹ گیا ۔بیڈ پر لیٹتے ہیں دوبارہ سے بھابھی میرے سامنے آگئیں ، ان کی وہ دونوں پوزیشن مجھے یاد آرہی تھیں ان کا گندمی بدن ،اور گول گول ممے ، پتلی کمر اور پیچھے کو نکلی ہوئی گانڈ ، اور بھری بھری رانیں مجھے پھر سے گرم کر رہیں تھی ۔ان کا گھوڑی بننے کا انداز مجھے کبھی نہیں بھول سکتا تھا ۔ ان کے جھولتے ہوئے چھوٹے سنگترے نما ممے ۔ کمر پر بکھر ے ان کے کالے بال ۔۔۔اور جان لٹا دینے والے ان کے چہرے کے تاثرات۔۔میں خود کو بھابھی کے پیچھے بیٹھا دھکا دیتے سوچتے ہوئے میں نیند کی وادیوں میں گرتا چلا گیا ۔۔صبح دیر سے آنکھ کھلی ، جلدی سے نہا کر نیچے اترا تو سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے ۔۔۔میری ڈائننگ ٹیبل پر نظر پڑی تو چچی جان کو وہاں بیٹھے دیکھ کرمیری نظریں نیچے جھک گئی اور میں خاموشی سے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ بھابھی ابھی تک نہیں آئیں تھیں شاید رات کی تھکان اب تک نہیں اتری تھی۔۔۔بھیا ویسے ہی ہنستے مسکراتے ہوئے سب سے حال چال پوچھ رہے تھے ۔۔چچی جان مجھے دیکھ کر مسکرا رہیں تھیں اور میری حالت خراب ہورہی تھی ، امی سے کہنے لگیں کہ دیکھیں یہ شہر جاکر کتنا کمزور ہو گیا ہے لگتا ہے اپنے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتا ۔۔اور یہ کہ کر میری پلیٹ میں کھانا ڈالنے لگیں۔۔۔میری بہنیں میں مجھے چڑانے لگیں تھیں کہ اب ان کی شادی کر دیں تاکہ کوئی خیال کرنے والی آجائے ۔۔ ناشتہ کے بعدچاچا تو کھیتوں کی طرف جانے لگے اور کہا کہااگر دل کرے تو چکر لگا لینا۔۔۔ اپنی زمینیں بھی دیکھ لو ۔۔۔تھوڑی دیر میں ہی چاچی چائے لے آئیں اور مجھے پکڑاتے ہوئے میرے ہاتھ کو ٹچ کیا۔ٹچ کیا تھا کہ میرے پورے بدن میں سنسنی سے پھیل رہیں تھی ۔۔۔ چاچی بہانے بہانے سے مجھے تنگ کر رہیں تھیں ۔ میں نے جلدی سے چائے ختم کی اور اپنے کھیتوں کی طرف چلا گیا ، وہاں پرانے دوست بھی آئے ہوئے تھے ، ان کا ساتھ اچھا ٹائم پاس ہو گیا ، دوپہر کا کھانا باہر کھایا اور شا م کو گھر آیا ۔ بھابھی اب نظر آرہی تھیں ، ان کی آنکھوں کی چمک بتا رہیں تھیں کہ وہ بہت خوش ہیں ۔۔۔ بھیا بھی اپنے دوستوں کی طرف گئے ہوئے تھے ، وہ بھی واپس آئے اور شام کا کھانا ہم نے ساتھ کھایا ۔ اس کے بعد امی اور بہنوں سے کچھ باتیں کی اور پھر سونے کے لئے اوپر آ گیا ۔۔۔
کھانا کھائے ہوئے مجھے تین گھنٹے ہو چکے تھے تو میں نے اپنا معمول شروع کر دیا ۔۔ مالش کر کے بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔ بھابھی کا آج پورا بدن میری نگاہوں میں پھرتا رہا تھا ،بے شک وہ کپڑوں میں بے حد حسین لگتی تھیں۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اس نظر سے انہیں دیکھا ہی نہیں تھا ۔۔۔
اور اسی طرح سوچتے ہوئے مجھے چاچی کی حرکتیں بھی یاد آگئیں ، مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں ، ان کی بے باک نگاہیں اور بہانے بہانے سے ٹچ کرنا کچھ اور ہی اشارہ کر رہا تھا۔ مجھے کچھ عجیب ہی لگ رہا تھا ، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ خوبصورت نہیں تھی، وہ ان عورتوں میں سے تھیں جو عمر کے ساتھ ساتھ اور خوبصورت ہوتی جاتیں ہیں ۔ ان کا لمبا قد ، گورا رنگ ، ہلکےسرخی مائل بال ، اوربہت ہی گول اور باہر کو نکلے ہوئی پستان جوکہ قمیض سے باہر آنے کو زور لگاتےنظر آتے تھے ، اور اس کے ساتھ ہی چوڑی کمر اور اس پر پیچھے کو نکلی ہو گول گانڈ جو کہ چلتے ہوئے دعوت دیتی ہوں ۔۔۔ یہ سب سوچ کر میں دوبارہ گرم ہوتا جا رہا تھا ۔میں نے بڑی مشکل سے خود کو کنٹرول کیا اور لائٹ بند کر کے سونے لیٹ گیا ۔
سوتے ہوئے بھی مجھے خواب میں بھابھی ہی نظرآرہیں تھیں ، اور مجھے ایسے لگا رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ ہی لیٹی ہیں او ر بھیا کی طرح مجھے بھی چوم اور میرے ہونٹ چوس رہیں ہیں ۔۔۔۔ میں انہیں ہاتھ لگانے کی کوشش کر رہا تھا اسی اثنا ء میں مجھے لگا کہ میرا ہاتھ کسی سے ٹچ ہوا ہے ۔۔ میری آنکھ کھلی تو اندھیر ے میں کوئی بدن میرے ساتھ ہی تھا۔ اور مجھے چوم رہا تھا ۔ جبکہ اس کا ہاتھ میری ٹانگوں اور پورے بدن پر آہستہ آہستہ پھر رہا تھا۔پہلے تو مجھے سمجھ ہیں نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا ہے ، خواب ہے یا حقیقت ۔۔۔ میرا حلق خشک ہو چکا تھا ۔۔۔ اور دونوں ہاتھ سن لگ رہے تھے ۔۔۔پھر آہستہ آہستہ اس ہاتھ کی گرمی میرے جسم پر اثر انداز ہونے لگی۔۔اس کے ساتھ ہی میرے کان میں ایک سرگوشی ہوئی ، کل رات اپنے بھیا کے کمرےمیں کیا دیکھ رہے تھے ؟ لگتا ہے شہر جا کر بہت جلد جوان ہوگئے ہو ۔۔۔اور میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے کیونکہ وہ چاچی کی آواز تھی ۔۔۔۔ میں کچھ کہنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ چاچی کی ہونٹ میرے ہونٹ پر ٹک گئے ۔ اور ایک بار تو میرے پسینے ہی چھوٹ گئے ، ان کی قمیض اتری ہوئی تھی اور ان کی گرم نرم چھاتیا ں میرے سینے سے ٹکرائیں ۔۔۔۔
مجھے واقعی میں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا تھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ میں چچی کے سامنے بچہ سا ہوںاور وہ مجھے سے کھیل رہیں ہیں۔ ان کا بدن مجھ سے چوڑا اور بھرا بھرا تھا ، اور میں ان کے نیچے دب سا گیا تھا ۔۔میرے ہونٹ چومتے چومتے وہ پھر بولیں ہاں بھئی کل کیا کیا دیکھا تھا اپنے بھیا کے کمرے میں ۔۔۔ ان کی آوازیں تو باہر تک آرہی تھیں ، لگتا ہے بہت مزا آیا تمہیں دیکھ ۔۔۔آج میں تمہیں اصل مزا چکھاتی ہوں ۔۔۔یہ کہ انہوں نے اپنی ایک ٹانگ میرے اوپر رکھ دی ۔۔ مجھے وہ ساری موویز یاد آرہی تھیں جن میں بڑی عمر کی عورتیں کم عمر لڑکوں سے چدواتی تھیں ۔۔۔۔اب میرے پسینے خشک ہو چکے تھے اور جسم میں گرمی بڑھی رہی تھی ۔۔۔ سنسنی اور ایک کرنٹ پورے بدن میں گردش کر رہا تھا ۔۔۔چاچی کے سرخی مائل بال جہاں جہاں مجھے لگ رہے تھے ایک کرنٹ دوڑتا جا رہا تھا ۔۔۔ اور میرا ہتھیار ایک انگڑائی لے کر کھڑے ہونے کی تیاری میں تھا ۔۔۔چاچی کا ہاتھ اب تک اس پر نہیں پڑا تھا ، وہ بس میری ٹانگوں پر ہی ہاتھ پھیر رہیں تھی ۔۔۔۔چاچی کے موٹے موٹے بھرے بھرے ممے میرے سینے پر دبے ہوئےتھے ، شاید مجھے اٹھنے سے منع کر رہے تھے ۔۔۔۔ چاچی نے ہونٹ چومتے چومتے اپنی زبان میرے منہ میں ڈالنے لگیں جو کہ میری بھی خواہش تھی ، میں نے ان کی زبان اپنے ہونٹوں سے پکڑنے کی کوشش کی اور چوسنے لگا ۔۔ اب میں سوچ رہا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو بھی حرکت دے ڈالوں کہیں چاچی کا بدن برا نہ مان جائے ۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا بائیاں ہاتھ بڑھا کر چاچی کی کمر پر رکھ اور دائیاں ہاتھ ان کےنیچے دائیں طرف سے گزار کر ان کی موٹی گانڈ پر رکھ دیا ۔۔۔ گوشت سے بھرا ہوئے ان کے جسم کا یہ حصہ سب سے زیادہ پر کشش تھا ۔۔۔ میرے دونوں ہاتھ چاچی کی گانڈ کو دبوچ رہے تھے ، مسل رہے تھے ،۔۔ میں نے ہلکا سازور لگا کر انہیں مکمل اپنے اوپر کر دیا ، بے شک انکا وزن زیادہ تھا مگر میرا ورزشی جسم بھی پوری طرح تیا ر تھا ۔۔۔ میرا ہتھیار پورا تن چکا تھا مگر اب تک ٹانگوں کی سیدھ میں ہی تھا ۔ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان میں چاچی کی ٹانگیں تھیں ، ان کے ممےمیرے سینے پردبے ہوئے تھے اور ان کے نپلز مجھے صاف محسوس ہورہے تھے ۔ میں نے چاچی کی زبان اپنے منہ سے نکالی اور اور اپنی زبان ان کے منہ میں ڈال دی ، وہ بھی بڑے مزے سے چوسنے لگیں ۔۔۔۔چاچی کے بالوں کی بھینی بھینی خوشبو مجھے مدہوش کر رہیں تھیں ۔۔۔ ان کی آنکھوں کی چمک مجھے اندھیرے میں کسی بلی کی طرح چمکتی دکھائی دے رہی ہوں جیسے وہ اپنے شکار پر جھپٹنے کو تیار ہوں ۔۔۔ میرے دونوں ہاتھ چاچی کی گانڈ کو پورے طریقے سے چیک کر چکے تھے اور اب اوپر کمر کی طرف آ گئے تھے ۔۔۔۔۔ ساتھ ساتھ میں ایک ہاتھ ان کے بالوں میں بھی مار رہا تھا جو بار بار میرے چہرے پر گر رہے تھے ۔۔۔اچانک انہوں نے سرگوشی کی کہ پہلے کبھی کیا ہے یا پہلی بارہے ۔۔۔ میں نے ان کی کمر پر اپنی انگلی کو ایک مرتبہ چھوا اور آہستہ سے کہا کہ پہلی بار ہے ۔۔۔چاچی کی مسکراہٹ مجھے صاف محسوس ہو رہی تھیں اور ان کی گرم گرم سانسیں مجھے تیزی سے چارج کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ چاچی تھوڑا اٹھتے ہوئے کہنے لگیں میرے اوپر آ جا میرے راجہ ۔۔۔ میرے لئے اشارہ ہی کافی تھا ۔۔۔کہنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔۔میں بھی اب کشتیاں جلا چکا تھا ۔۔۔۔اور میری اندر کی آگ اب خود ہی میری رہنمائی کر رہی تھی ۔۔۔۔میں اٹھ کر چاچی کو بیڈ کے درمیان لٹا دیا اور صحیح سے ان کے ان کے ممے دیکھنے لگا ، ممے کیا تھے چھوٹے چھوڑے خربوزے تھے جو ہلکے ہلکے سختی سے ہل رہے تھے ۔ میں نے ایک ہاتھ اپنے ہتھیار پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے ان کا ایک خربوزہ تھام لیا۔۔تھوڑی دیر مسلنے کے بعد اپنے منہ اس پر رکھ دیا اور مزے سے چوسنے لگا ۔۔چاچی کی آنکھیں اب بند ہو رہیں اور کھل رہیں ۔۔ لائٹ بند تھی مگر اتنی قربت تھی کہ میں ان کے نقوش صاف دیکھ رہا تھا ۔۔۔چاچی کا دوسرا ہاتھ اپنے دوسرے ممے پر تھے اور وہ بھی نپلز کو مسلز رہیں تھیں ۔۔۔ ان کاہاتھ پورے جڑ سے ممے پر پھرتا ہو ا نپلز تک آتا جیسے دودھ نکالنے کی کوشش کر رہیں ہوں، اور پھر واپس سے ایساہی کرتیں ۔۔۔۔چاچی مستی میں آہیں بھر رہیں تھیں اور ان کی گرم گرم سانسیں مجھ سے ٹکرا رہیں تھیں ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں ان کو اندازہ ہو گیا کہ کچھ چیز مسنگ ہے ۔۔۔۔اور پھر چاچی نے پوچھ ہی لیا ۔۔راجہ تیرا ہتھیار کدھر ہے محسوس نہیں ہو رہا ۔۔۔میں بھی مسکرا اٹھا اور کہا چاچی وہ سرپرائز ہے ۔۔۔۔۔تھوڑا ٹہر جاؤ خود ہی سامنے آ جائے گا ۔۔ مگر ان کی بے چینی اب بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔انہوں نے اپنے ممے کو چھوڑا اور اپنا ہاتھ نیچے کر کے ہتھیار کو ٹٹولنے لگیں میں نے دوسرے ہاتھ سے اپنے ہتھیار کو سنمبھالا ہوا تھا چاچی کا ہاتھ میرے ہاتھ سے ٹکرا یا تو کہنے لگیں چھوڑو تو سہی ، ذرا میں بھی دیکھوں کیسا ہے۔۔۔۔۔۔میں مسکرا دیا تو اور تیزی سے ٹٹولنے لگیں ، میں نے جلدی سے ان کے اک نپلز پر ہلکا سا کاٹا تو ان کی ایک شش نکلی ۔۔۔۔ اور انہوں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔۔اب میں نے اپناہتھیا ر چھوڑا اور ان کے دونوں ہاتھوں کو اوپر کر ان کو بے تحاشا چومنے لگا ۔۔۔۔چاچی کی کسمساہٹ بڑھ رہیں تھی ۔۔۔ اور آہیں اور سسکیاں بھی اونچی ہوتی جا رہیں تھی ۔۔۔۔۔۔میں اب ان کے دونوں مموں پر ندیدوں کی طرح پل پڑا تھا ۔۔۔ اور ساتھ ساتھ ہلکا کاٹ بھی رہا تھا جس پر ان کی اف نکلتی اور ساتھ ہی ہلکی سی کمر اوپر جھٹکا کھاتیں ۔۔۔۔۔میرا ہتھیار اب پورا تن چکا تھا اور سامنے والی چوت پر دستک دے رہا تھا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ آج چاچی کی جو حالت ہونے والی ہے وہ انہیں ہمیشہ یادرہے گی ۔۔۔ چاچی کی اب گرمی بڑھ رہی تھی اور وہ نیچے سے اپنی کمر کو جھٹکے مار میرے ہتھیا ر کو آواز دے رہیں تھیں۔۔۔۔اور پھر مجھے ان پر ترس آ ہی گیا ۔۔۔۔۔میں نے آہستہ آہستہ اپنے چہرہ اور زبان پھیرتے ہوئے نیچے کی طرف آنے لگا ۔۔۔۔ دونوں مموں کے درمیان سے ہوتے ہوئے ناف تک پہنچا اور وہاں زبان گول گھما تا رہا ۔۔۔چاچی کی کمر اوپر کی طرف مسلسل جھٹکے مار رہی تھی ۔۔۔ اور سسکیا ں آہیں مجھے اور انرجی دے رہیں تھی ۔۔میں بھی دیکھی گئی ساری فلموں کا تجربہ کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔اورپھر میری زبان ایک لکیر بناتی ہوئی ان کی چوت کے اوپر آ کر رک گئی ۔۔۔چاچی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا تھا ، وہ ایک نئے اور اجنبی اموشن سے گزر رہیں تھیں ۔۔۔۔میرے ہاتھ اب چاچی کے دونوں بازوں کو چھوڑ کر ان کے مموں کو مسل رہے تھے اور زبان چوت کی لکیر کے بالکل اوپر تھی ۔۔۔۔اورچاچی کے دونوں ہاتھ میرے سر پر گھوم رہے تھے ۔۔۔ان کی بھری بھری رانیں بار بار میرے چہرے کو دائیں بائیں ہلا رہیں تھیں ، مگر میں پہلے سے زیاد ہ جوش سے ان کی چوت پر زبان رکھ رہا تھا ۔۔۔ اب میں نےزبان کا سرا ان کی چوت میں داخل کیا اور ہلکا ہلکا آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔ان کی آہیں اور سسکیا ں بلند ہوتی جارہیں ۔۔۔۔۔۔ان کے ہاتھ میرے بال کھینچ رہے تھے۔۔۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ چاچی کی چوت نے ہمت ہار دی ایک زبردست آہ کے ساتھ پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔ میں اب دوبار اوپر آ چکا تھا ۔۔۔ اور ان کے منہ کوچوم رہا تھا ۔۔۔۔چاچی کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ زیر ہو چکی ہیں ان کی نگاہوں میں حیرانگی بھی تھی۔۔۔۔ شرماہٹ بھی تھی ۔۔۔۔ اور اک پیاس بھی ۔۔۔۔۔۔چاچی اب اٹھ کر بیٹھنے لگی تھیں کہ میں نے انہیں دوبارہ لٹا دیا اور ان کے ساتھ ہی لیٹ گیا ۔۔۔میرا ہتھیاران کی رانوں کے اوپرہل رہا تھا ۔۔۔چاچی نے اپنا ایک ہاتھ میرے ہتھیا ر کی طرف بڑھایا ۔۔میرے دونوں ہاتھ ان کے مموں پر تھے ۔۔۔۔انہوں نے میرے ہتھیار کو پکڑ کر کہا کہ راجہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ ۔۔پلیز مجھے پکڑنے دو ۔۔۔ اور ایک ہی سیکنڈ میں انہیں اندازہ ہو چکا تھا کہ میرے دونوں ہاتھ تو اوپر ہیں ۔۔۔۔۔ اب کی بار ان کے دونوں ہاتھ نیچے کی طرف لپکے تھے ۔۔۔اور جب انہوں نے ہتھیار تھاما ۔۔۔تو ان کی ایک چیخ نکل چکی تھی ۔۔۔۔وہ بجلی کی تیزی سے اٹھ کر بیٹھیں اورکہنے لگیں یہ کیا ہے راجہ ۔۔۔۔۔۔ میں مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔انہوں نے بار بار میرےلنڈ کو تھاما ۔۔۔۔مگر بے یقینی کی کیفیت میں تھیں ۔۔۔پھر اپنی کلائی لنڈ کے ساتھ لگا کر دیکھنے لگیں ۔۔۔دونوں میں زیادہ فرق نہیں تھا ۔۔۔نہ موٹائی میں ۔۔اور نہ ہی لمبائی۔۔۔۔۔ چاچی کو گھبراہٹ شروع ہو چکی تھی۔۔۔ اور وہ دونوں ہاتھوں سے اس کولڈ ڈرنک کی ایک لیٹر والی بوتل کی موٹائی جیسے لنڈ کو دونوں ہاتھوں میں تھام رہیں تھیں ، کھینچ رہیں تھیں ۔۔۔اور اوپر کی طرف زور لگار ہیں تھی ۔۔۔۔وہ ایک ہاتھ کو جڑ کی طرف سے رکھتی ،اور دوسرے ہاتھ کواس کے اوپر ، پھر پہلےوالے ہاتھ کو دوبارہ اٹھا کر آگے رکھتی تو آگے ٹوپی بچتی ۔۔۔جسے ٹوپا کہنا ہی ٹھیک تھا ۔۔۔۔چاچی کو ہکلاہٹ ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ اور وہ کہنے لگی راجہ یہ لینا بہت مشکل ہے ، رات کے اس پہر کہیں آواز نہ نکل جائے ۔۔۔میں نےانہیں اپنے اوپر کھینچ لیا اور کہا چاچی فکر نہ کرو ۔۔۔۔میں اپنی جان کوبہت پیار سے کروں گا ۔۔۔۔۔۔چاچی کے کان میں ایک سرگوشی کی کہ پہلے کس پوزیشن میں لو گی ۔۔۔۔ چاچی نے میری آنکھوں میں دیکھا اور راجہ تیری مرضی ہے ، ۔۔۔۔جیسے کرنا ہے ۔۔۔میں تجھ پر قربان ۔۔۔۔۔میں بھی جوش میں آ چکا تھا ۔۔۔قریب سے تیل کی بوتل اٹھائی اور چاچی سے کہا کہ اسے اچھے سے لنڈ پر لگا دے ۔۔۔۔چاچی نے پھرتی دکھائی اور تیزی سے اسے تیل میں لت پت کر دیا ۔۔۔۔میں نے چاچی کے کان پر کاٹا اور کہا سرگوشی کی کہ چاچی گھوڑی بن جاؤ ۔۔۔۔۔گھوڑا تیا ہے ۔۔۔۔چاچی فورا ہی اپنے چاروں ہاتھ پیروں پر آ گئیں۔۔۔۔آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ جب سے میں نے بھابھی کو اس انداز میں چدتے ہوئے دیکھا تھا یہ میرا فیورٹ اسٹائل بن چکا تھا ۔۔۔۔چاچی کے بال کالے تو نہیں تھے مگر سرخی مائل بھی کم نہیں تھے ۔۔۔۔۔ میں نے چاچی کی کمر کوہلکا نیچے کو دباتے ہوئےان کے چہرے کی طرف جھکا ۔۔۔میں ہلکا ہلکا ان کی کمر کو چوم رہا تھا ۔۔۔اور ساتھ ساتھ ہی اپنے ہتھیا ر کو ہلا رہا تھا ۔۔۔جو کہ اپنی زندگی کی پہلی جنگ کھیلنے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔چاچی کا چہرہ پیچھے کی طرف مڑا ہوا تھا اور مسلسل میری آنکھوں میں دیکھ رہیں ۔۔۔۔ اور بے شک کہ رہیں تھیں کہ جان خیال رکھنا ۔۔۔۔میں نے اپنے ہتھیار کا ٹوپا دوبارہ سے لبریکیٹ کیا اور اسے چوت کی لائن پر رکھ دیا ۔۔۔چاچی کوئی کنواری نہیں تھی ۔۔۔مگر اپنے بھتیجے کے اس ہتھیار نے ان کے بھی پسینے نکال دیئے تھے ۔۔۔۔میں نے ان کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے ۔۔۔۔ہلکا سے پیچھے کو دباؤ دیتے ہوئے اپنے لنڈ کے ٹوپے کو آگے بڑھانے لگے ۔۔۔۔باوجود میری کوشش کے چاچی کی گانڈ آگے کو کھسک رہیں تھی ۔۔۔میرا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا ۔۔مگر ساتھ ساتھ ہی چاچی بھی آگے ہوتی جا رہیں تھیں ۔۔۔۔میں نے تھوڑا زور لگایا تو لنڈ نیچے کی طرف پھسل گیا ۔۔۔میرے ہاتھ چاچی کی کمر پر تھے تو ۔۔۔چاچی نے خود ہی نیچے سے ہاتھ بڑھا کر لنڈ تھا ما اور دوبار اسے چوت کی لائن پر رکھا اور کہا۔۔۔۔۔راجہ آرام سے آہستہ سے ۔۔۔۔۔۔ میں دوبارہ زور لگانے لگا ۔۔۔۔ مگر لنڈ بار بار نیچے نکل رہا تھا ۔میں نے ایک مرتبہ زیادہ زور لگایا تو چاچی آگے کی طرف لیٹ گئیں۔۔۔آخر چاچی نے خود ہی کہا کہ راجہ میں نیچے آتی ہوں ۔۔ تو اوپر آ جا ۔۔۔میں نے بھی مجبورا پوزیشن بدلی اور۔۔۔۔ چاچی بیڈ پر لیٹ چکی تھی ۔۔۔۔اور میں ان کی دونوں ٹانگوں کے درمیان پوزیشن سمبھال چکا تھا ۔۔۔۔ایک مرتبہ پھر چاچی کو چوما ۔۔۔ اور ان کی ٹانگیں تھوڑی سی اٹھا کر اپنا ہتھیار چوت کے اوپر رکھ دیا ۔۔۔چاچی کے دونوں ہاتھ میرے سینے پر گھوم رہے تھے ۔۔۔۔میں آہستہ آہستہ ٹوپا اوپر رکھ کر زور دینے لگا ۔۔۔۔تھوڑا زور لگایا ہی تھا کہ ٹوپا چوت کی دونوں دیواروں کو دائیں بائیں دھکیلتا ہوں اندر داخل ہو گیا ۔۔۔۔چاچی کے منہ سرخ ہو چکا تھا اور ان کے منہ سے نکلے والی آہ اور گرم سانس مجھ اپنے سینے پر محسوس ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔چاچی کی حرکت بالکل بند ہو چکی تھی ۔۔۔بالکل ساکن تھیں وہ اور میرے لن کا ٹوپا انہین اچھے سے محسوس ہو رہاتھا ۔۔۔۔۔۔ ان کا ہاتھ میرے سینے سے ہٹ چکے تھے اور وہ بہت ہی تیزی سے اپنے ممے کھینچ رہیں تھیں ۔۔۔نپلز کو مروڑ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ان کی آواز شاید بند تھی ۔۔۔۔اور وہ اپنے تمام محسوسات سے میرا ٹوپا محسوس کر رہی تھیں ۔۔میں نے سوچا کہ ان کو ہونٹ چوم کر تسلی دوں ۔۔۔۔۔۔مگر جیسے ہی ہلکا سا آگے بڑھا ۔۔چاچی کی ایک چیخ اور نکلی اور وہ تیزی سے میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر روکنے لگی تھیں ۔۔۔۔میں رک گیا ۔۔۔۔اور اپنے ہاتھوں سے ان کے دونوں ممے تھام لئے ۔۔۔اور انہیں بھینچنے لگا ۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ ان کی چوت کو اوپر ی حصے کو بھی مسلتا جا رہا تھا ۔۔۔۔قریب پانچ منٹ ہوگئے تو چاچی ریلکیس ہو چکی تھی ۔۔۔میں نے اب دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ۔۔۔چاچی کی سانسیں رکی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔ان کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں ۔۔۔ ان کی سسکیاں شاید انکے دل میں ہیں گونج رہیں ۔تھی۔۔۔میرا زور بڑھتا جا رہا ہے ۔۔۔ٹوپے کے بعد ایک انچ ڈالنے کے بعد میں رکا تو چاچی نے گہرا سانس ایک آہ کے ساتھ نکالا ۔۔۔۔اف راجہ یہ کیا ہے ۔۔۔میں نے اپنی زندگی میں ایسا مزہ نہیں محسوس کیا ۔۔۔۔ رونا اور ہنسنا بھی ساتھ ہی آ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں بس ان کے ممے مسل رہا تھا ۔۔۔۔اور وہ اپنے دونوں ہاتھ میرے بازووں پر پھیرتے ہوئے ہاتھ تک آ رہی تھی ۔۔۔کچھ دیر اور ٹھہرنے کے بعد میں نے دباؤ بڑھا دیا ۔۔۔جیسے دباؤ بڑھ رہا تھا ۔۔چاچی کے ہاتھوں کو دباؤ بھی میرے بازووں پر بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تقریبا ایک انچ لن اور اندر گھسا دیا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر ان کے ممے بھینچنے کے بعد میں نے لن ہلکا سے باہر نکالا اور دوبارہ اندر گھسادیا ۔۔۔چاچی ایک مرتبہ پھر سسک اٹھی ۔۔۔۔۔۔میں اسی طرح اندر باہر کرتا رہا اور چاچی کی آہیں گونجتیں رہیں ۔۔۔۔ اس طرح کرتے ہوئے میں ایک انچ اور گھسا چکا تھا ۔۔۔۔اب ٹوپے سمیت تین انچ لنڈ اندر گھس چکا تھا ۔۔۔میں اسی طرح جگہ بناتا رہا اور اور تھوڑی دیر بعدہی ایک انچ اور اندر جا چکا تھا ۔۔۔ اب بھی آدھے سے زیادہ لنڈ باہر تھا ۔۔۔چاچی نے ہاتھ بڑھا کر میرے لنڈ کو باہر سے تھاما اور ۔۔۔بڑی ہی لجاجت سے کہنےلگی راجہ آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔۔۔۔۔مجھے ان کا یہ انداز دیکھ کر بے اختیار پیار آیا ۔۔۔ میں نے اپنے انگلی اور انگوٹھا کو ان کے ہونٹوں پر پھیرا اور چوم لیا ۔۔۔۔ اب میں اسی طرح ہلکا ہلکا ہلنے لگا ۔۔۔چاچی کی سسکیا ں ابھی بھی گونج رہیں تھیں ۔۔۔۔ ان کی آہ ایسی تھی کہ میرا دل کر رہا تھا کہ اور گھسا ؤں ۔۔۔مگر پھر ان کا چہرہ دیکھ کر رک جاتا ۔۔۔جس پر پسینہ آیا ہوا ۔۔۔۔میں نے اسی طرح اپنا لن ان کی چوت کے اندر رہنے دیا ۔۔۔اور ان کی سائیڈ پر کروٹ لے لی ۔۔۔اب ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف کروٹ لی ہوئی اور اور میرا لن ان کی چوت میں ہل رہا تھا ۔۔۔۔ چاچی مجھے دیکھ کر کہنے لگی کہ کل اپنی بھابھی کیسی لگی ۔۔۔۔میں نے کہا بہت ہی خوبصورت تھی۔۔۔۔۔چاچی نے مسکرا کر کہا کہ آخر اپنی ماں پر ہی گئی ہے ۔۔۔میں یہ سن کر مسکرایا اور دوبارہ انہیں چومنے کے لئے آگے بڑھا تو ان کی دوبارہ سے سسکی نکل گئی ۔۔۔۔۔چاچی پھر پوچھنے لگی کہ تیرا بھائی اسے چود رہا تھا یا وہ تیرے بھائی کو ۔۔۔۔۔مجھے یہ بات عجیب لگی ۔۔۔۔۔میں نے ان کو مموں کو بھینچتے ہوئے کہا کہ اس کا کیا مطلب ہوا ۔۔چاچی نے بھی سسکی لی اور کہا کہ تیرے ابو اور چاچا نے تیرے بھائی کی مرضی کی بغیر اس کی اپنی بیٹی سے شادی کی ۔۔اب تیرا بھائی اسے ٹھیک سے خوش بھی نہیں کرتا ہے ۔۔۔اکثر ہاسٹل میں رہتا ہے ۔۔اس مرتبہ تیرے ساتھ کیسے آ گیا ۔۔۔۔اپنے بھائی کے بارے میں یہ بات سن کر سارا سین میرے سامنے گزر گیا ۔۔بھابھی خود ہیں بھائی سے مزے لینے کی کوشش کر رہی تھیں اور بھیا نے جب گھوڑی بنایا تب بھی مزے دینے کے لئے نہیں بلکہ تکلیف دینے کے لئے چود رہےتھے ۔۔میں سب سمجھ چکا تھا ۔۔میں نے چاچی کو ایک ہلکا سے جھٹکا دیااور کہا کہ میں بھیا سے پوچھوں گا ۔۔۔۔چاچی کی ایک اور آہ نکلی اور کہنے لگی راجہ اب جلدی سے فارغ ہو جاؤ ۔۔۔ صبح ہونے والی ہے ۔۔۔۔۔۔چاچا کہیں نہ اٹھ جائے ۔۔۔۔میں سمجھ گیا اوردوبارہ ان کے اوپر آ گیا ۔۔۔۔اوراسی انداز میں آہستہ آستہ جھٹکے دینے لگا۔۔۔۔اور اپنا ایک ہاتھ ان کے منہ میں ڈال دیا جسے چاچی مزے سے چوسنے لگی اور دوسرے ہاتھ سے ان کی چوت کے دانے کومسلنے لگا ۔۔۔چاچی کی آہیں اب ان کے تھوک کے ساتھ میرے ہاتھ کو گیلا کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔میرا بھی ٹائم پورا ہو چکا تھا ۔۔میرے جھٹکے اب تھوڑے تیز ہو رہے تھے ۔۔۔اور ان ؎ پر قیامت کے گذر رہے تھے ۔۔۔۔وہ اپنی دانتوں سے میری انگلیاں چبا رہیں تھیں ۔۔۔اور ان کی سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہیں تھیں ۔۔۔۔میرے جھٹکے تیز ہوتے گئے ۔۔۔اور پھر یوں لگا کہ پورے جسم کا خوں اکھٹا ہو کر لن کی ٹوپے کی طرف آ رہا ہے ۔۔۔۔۔ میں نے جلدی سے آخری جھٹکا مارااورٹوپا باہر نکالا اور ہاتھ مارنے لگے ۔۔تھوڑے ہی دیر میں ایک فوارہ چھوٹا ۔۔۔۔۔جو چاچی کے دونو ں مموں کو ہلا چکاتھا ۔۔۔۔نہلا چکا تھا ۔۔۔۔چاچی نے دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں پر ملنا شروع کردیا ۔۔۔۔میں چاچی پر گر چکا تھا اور ایک مرتبہ پھر طوفانی چوما چاٹی شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔
چاچی اور میں ایک دوسرے کو رگید رہے تھے جیسے کشتی کے میدان میں پہلوان دوسرے کو چت کرنے کی کوشش میں ہو ۔۔ چاچی پوری مجھ میں سمانا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔چاچی کا منہ میرے منہ اور سینے پر پھر رہا تھا اور پورا گیلا کر رہا تھا ۔۔ صبح کے چاربج چکے تھے ۔۔۔چاچی دو مرتبہ فارغ ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔اور پھر اٹھ کہ کہنے لگیں راجہ اب میں چلتی ہوں ۔۔میں بھی تھک چکا تھا ۔۔میں اٹھا تو اچانک ایسے لگا جیسے کہ میرے کمرے کے دروازے سے کوئی ہلا ہے ۔۔۔ہماری لائٹ بند تھی مگر باہر کی لائٹ آن تھی جس کی وجہ سے ہلکاسایہ ہلا تھا ۔۔۔۔چاچی اپنے کپڑے پہننے میں مصروف تھی ۔۔۔۔ اور کپڑے پہننے کے بعد دوبارہ مجھ سے لپٹ گئیں ۔۔اورکہا کہ راجہ یہاں سے جانے کا دل نہیں کر رہا پھر
بھی جا رہیں ہوں ۔۔۔۔میں انہیں باہر چھوڑ کر آیا ۔۔اور بیڈ پر لیٹ کر سو گیا
میں رات کو سوتے ہوئے بھی عجیب طرح کے خواب دیکھ رہا تھا ۔۔بھابھی میرے آگے بھاگ رہیں تھیں ۔۔اور میں انہیں پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔اور کبھی میں ان کے آگے بھاگ رہا ہوں اوروہ میرے پیچھے ۔۔۔میں مڑنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مڑ نہیں پاتا ۔۔اس طرح کے اوٹ پٹانگ خواب دیکھ کر صبح اٹھا تو بہت زیادہ دیر ہو چکی تھی ۔۔۔تمام گھر والےناشتہ کر چکے تھے ۔۔۔۔۔ میں نہا کر باہر نکلا تو امی میرے کمرے میں آئی ہوئی تھیں اور بڑی فکر مندی سے میراحال چال پوچھ رہیں تھیں ۔۔میں نے بتایا کہ سب خیریت ہے ۔۔بس رات دیر سے نیند آئی ۔۔۔امی نے بتایا کہ تمہارے بھیا کو شہر سے تمہارے ابو کی کال آئی تھی اور وہ جلدی میں وہاں چلے گئے ہیں ۔۔۔میں بھی کچھ پریشان ہو گیا ۔۔امی سے کہاکہ آپ ناشتہ بھجوائیں ۔۔۔اور ابو کا کال ملا کر بات کرنے لگا ۔۔ابو نے بتایا کہ شہر میں ایک نیا اسکول خرید رہاہوں تو اس کے لئے پیسے چاہئے تھے ۔۔اس لئے پیسوں اور لکھت پڑھت کے لئے تمہارے بھیا کو بلوایا ہے ۔۔۔میں نے کہا کہ ابا اگر میری ضرورت ہو تو بتائیں میں آ جا تا ہوں۔۔۔ابا مسکرا کر کہنے لگے نہیں بیٹا ۔۔۔ تم زرا گاؤں کی دیسی چیزیں دل بھر کر کھا ؤ ۔۔۔کیوں کہ پھر چھٹیوں ختم ہو جائیں گی ۔۔میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے ابا جان ۔۔آپ خوش رہیں ۔۔۔۔ فوں بند کر میں رات والے واقعے کی طرف سوچنے لگا ۔۔۔۔جب دروازے کے باہرکوئی سایہ حرکت کر رہا تھا ۔۔۔میں ڈرا کہ کہیں چاچا نہ اٹھے ہوں اور انہوں نے نہ دیکھ لیا ہو ۔۔۔۔اتنے میں چاچی مسکراتی ہوئی ناشتہ اٹھائی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں اور کہنے لگیں ۔۔۔میرا راجہ اٹھ گیا ہے ۔۔۔۔ چل اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرواؤں ۔۔۔میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ کل راجہ کی خواہش تو پوری کی نہیں ہے ۔۔۔چاچی تھوڑی سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی کہ راجہ کے لئے جان بھی حاضر ہے مگر تھوڑا آہستہ ہاتھ رکھو ۔۔۔۔۔ میں نے ناشتہ شروع کیا تو چاچی بھی بڑی گہری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔۔میں نے پوچھا تو کہنے لگی کہ رات واقعی قیامت کی تھی ۔۔۔۔۔ میں تو سوچ رہیں ہوں کہ تیری بیوی کا کیا حال ہو گا ۔۔۔میں نے کہا وہی حال ہو گا جو رات کو آپ کو ہوا تھا ۔۔۔۔چاچی کی باتوں سے نہیں لگ رہا تھا کہ رات چاچا باہر تھے ۔۔۔اگر چاچا باہر ہوتے تو وہ لازما چاچی سے ضرور پوچھتے ۔۔۔۔۔چاچا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مجھےایسی چھوٹ ہوتی ۔۔۔۔۔میں سوچ ہی رہا تھا کہ چاچی بول اٹھی آج رات چاچا باہر کھیتوں میں رہے گیں تو میں جلد ہی آ جاؤں گی ۔۔۔میں بھی مسکرا اٹھا اور کہا ٹھیک ہے میں انتظار کروں گا ۔۔۔ناشتے کے بعد میں باہر نکل آیا اور نیچے جا کر ڈائننگ ٹیبل پر چائے پینے لگا ۔۔۔میری دونوں بہنیں مجھ سے بالترتیب ایک ایک سال چھوٹی تھیں ۔۔۔ایک نویں کا امتحان دے رہی تھی اور ایک دسویں کا ۔۔۔۔نیچے گیا تو ان کے قہقہے سن کر ان میں گم ہو گیا ۔۔۔ہم عمر ہونے کی وجہ سے ان میں جھڑپیں ہوتی رہتیں تھیں جس سے پورے گھر میں رونق رہتی تھی ۔۔۔۔میں بہنوں کے ساتھ کچھ دیر ہنس کھیلتا رہا اور پھر باہر کھیتوں کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔ وہاں چاچا حسب معمول کام میں مصروف تھے۔۔۔ آج رات کھیتوں میں پانی کی باری تھی جس کی وجہ سے ٹیوب ویل ابھی سے چل رہے تھے ۔۔۔چاچا نے مجھے آواز دی اور کہاکہ بیٹا شہر جا ٹیوب ویل میں نہانا تو مس کیا ہو گا ۔۔میں نے کہا جی چچا جان بالکل ۔۔۔۔ اور پھر ان کے اشارے پراپنے کپڑےاتارے اور انڈر وئیر پہنے ٹیوب ویل میں اتر گیا ۔۔۔میرا کسرتی بدن دیکھ کر چاچا بھی حیران رہ گئے تھے کیوں کے میں نے اتنی محنت کا کام نہیں کیا تھا مگر بدن بتا رہا کہ بہت محنت کش کا ہے ۔۔۔خوبصورتی سے تنا ہوں ۔۔ایک ایک مسلز ابھرے ہوئے ، پیٹ نہ ہونے کے برابر اور چوڑا سینا ۔۔۔ میں نے پوچھا چاچا کیا ہوا ۔۔چاچا کہنے لگے کہ بڑا خوبصورت جسم ہے تیرا اگر میں ایک اور بیٹی ہوتی تو تجھ سے شادی کر دیتا ۔۔۔۔اچانک مجھے چاچی کی بات یاد آ گئی اور میں کہ اٹھا کہ چاچا پہلی بیٹی کی شادی پربھیا کی مرضی تو پوچھ لیتے ۔۔۔چاچا ایک دم گم سم ہو گئے اور کہنے لگا بیٹا ۔۔۔ہم بھائیوں میں بڑی محبت تھی اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ باہر شادی کریں ۔۔۔۔اسی لئے یہ قدم اٹھایا تھا ۔۔مگر افسوس کے تیرے بھائی کو پسند نہیں آیا ۔۔۔۔میں باتیں کرتے ہوئے نہا بھی رہا تھا ۔۔چاچا کی بات سن کر میں بھی افسوس محسوس کرنے لگا اور چاچا سے کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں اب یہ میری ذمہ داری ہے ، میں بھائی کو خود مناؤں گا۔۔۔اور اس گھر میں دوبارہ خوشیوں کی بہار آئی گی ۔۔۔میں نہا کر باہر آیا تو ہمارے کھیتوں میں کام کرنے والے لوگ بہت سا گنے کا خالص رس جو کہ گڑ بنانے کا کام آتا تھاایک بالٹی بھر کے لے آئے ۔۔میں نے بالٹی منہ سے لگائی اور خالی کر دی ۔۔۔ اس طرح میں شام تک وہیں مصروف رکھا اوررات کا کھانا کھانے گھر واپس آ گیا ۔۔۔۔ ڈائننگ ٹیبل پر سب بیٹھے تھے ۔۔بھابھی حسب معمول چپ چاپ تھیں ۔۔۔ان کو گوری کلائیوں میں گولڈن چوڑیوں کی کھن کھن میرے دل کی دھڑکن کو بھی تیز کر رہیں تھیں ۔۔۔۔ان کے چہرے کی اداسی انہیں اور بھی حسین بنا رہیں تھیں۔۔۔۔دل کر رہا تھا کہ ان کے چہرے کو ہاتھوں میں بھر کر چوم لوں ۔۔۔۔ کھانا کھا کر کچھ میٹھا کھایا اور بہنوں کے ساتھ کچھ دیر ٹی وی پر ڈرامے دیکھے ۔۔پھر امی کو شب بخیر کہ کر اوپر آ گیا ۔۔۔۔۔۔ اوپرپہنچا تو تھوڑی ہی دیر میں چاچی بھی دودھ کا گرم گلاس لے کر اوپر پہنچ گئیں ۔۔۔کہنے لگیں یہ لو دلہے راجہ گرم دودھ پیو ۔۔۔میں بھی ہنس پڑا اور کہا کہ کل رات تک صرف راجہ تھا اور آج دلہا بھی ہو گیا ۔۔۔کہنے لگیں کہ آج ہماری سہاگ رات ہے دلہے راجے ۔۔۔۔میں مسکرا کر دودھ کا گلاس منہ سے لگا لیا ۔۔۔ دودھ بادام اور خشک میوہ جات سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔۔میں بھی مزے میں آ گیا تھا ۔۔چاچی نے کہا کہ تھوڑا آرام کرو۔۔میں کچھ دیر میں آوں گی جب تک سب سو جائیں گے ۔۔۔میں نے کہ جیسے سرکار کی مرضی ۔۔۔۔۔
میں بستر پر جا کر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔اور سوچتے سوچتے نیند میں چلا گیا ۔۔۔۔قریبا دو گھنٹے میں مجھے لگا کہ کوئی میرے سینے پر ہاتھ پھیر رہا ہے ۔۔۔۔آنکھ کھولی تو چاچی اپنی نائٹی میں دونوں ہاتھوں میں تیل لگائے مالش کر رہیں تھی ۔۔میں اٹھنے لگا تو چاچی کہنی لگی ، لیٹے رہو دلہے راجہ ۔۔۔۔۔آج کے بعد آپ کی مالش میں ہی کیا کروں گی ۔۔۔میں چپ چاپ ان کو دیکھتا رہا ۔۔۔آج چاچی نے نے نائٹ بلب آن کیا ہوا اور اس کی بلیو روشنی میں چاچی کا پورا بدن چاندی کی طرح چمک رہا تھا ۔۔۔چاچی میرے سائیڈ پر بیٹھ کر مالش کر رہیں تھیں ۔۔۔۔میں نے کہا کہ چاچی نائٹی اتار کر اوپر ہی آ جائیں ۔۔۔۔۔۔ چاچی نے مسکرا کر دونوں ہاتھ اٹھا دئیے اور کہ دلہے راجہ خود ہی ہمیں آزاد کردیں ۔۔۔میں نے بھی دیر نہ کی اور چاچی کی نائٹی اتار دی ۔۔چاچی نے نیچے کچھ نہیں پہنا تھا ۔۔۔نائٹی اتارتے ہی ان کی دودھ کی تھیلیاں میرے سامنے آن گری ہوئیں ۔۔۔سخت تنی ہوئی ۔۔اور دودھ سے بالکل بھری ہوئی لگی رہی ہوئی تھی ۔۔۔۔میرے منہ میں پانی آ گیا ۔۔۔۔بے اختیار چومنے کا دل ہو ا مگر آج چاچی کا ارادہ مجھے ستانے کا لگ رہا تھا ۔۔۔۔مجھے ہاتھ لگانے نہیں دیا ۔۔۔کہنے لگیں کہ پہلے دلہے راجہ کی مالش کریں گے اس کے بعد کچھ اور ۔۔۔۔۔ میں نے جلدی سے اپنی انڈر وئیر بھی اتار دی ۔۔۔چاچی میرے دائیں بائیں پاؤں رکھ کر اوپر بیٹھ گئیں اور دونوں ہاتھوں سے میرے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگیں ۔۔ان کے اوپر سے نیچے پھرتے ہوئے ہاتھ مجھے بہت الگ مزہ دے رہے تھے اور ان سب سے بڑھ کر ۔۔۔۔۔۔ایک گرم سی آگ تھی جو ان کےہاتھوں کے اندر سے مجھ میں داخل ہو رہی تھی ۔۔۔اور پھر یہ آگ نیچے اتر کر تھانیدار کو جگا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ چاچی کے دونوں ہاتھ میرے سینے پر تھے اور ان کے خربوزوں کے خوبصورت کلویج مجھے دعوت دے رہے تھے ۔۔۔۔ دونوں ممے جب ایک خاص انداز سے اوپر کی طرف اٹھتے تومیرے منہ میں پانی آ جا تا ۔۔۔چاچی بھی دیکھ ہی رہی تھیں اور بار بار اپنے سینے کو ہلکا سا باؤنس کر رہیں تھیں ۔۔۔اور پھر وہیں ہوا جو ہونا تھا۔۔۔تھانیدار نے کھڑے ہوتے ہیں چاچی کو ہلا دیا ۔۔۔سیدھا ان کی چوت پر دستک دی اور وہ بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔۔ان کی تمام بد تمیزیوں کا جواب دینے والا کھڑا ہو چکا تھا ۔چاچی نے اس کا توڑ سوچا اور میرے اورلیٹ گئیں اور اپنے مموں کو میرے سینے پر دبانے لگیں ۔ان کا خیال تھا کہ میرا تھانیدار نیچے کی طرف نکل جائے گا۔اور ان کی چوت کو ٹچ نہیں ہو گا ۔۔مگر میرا تھانیدار بھی اپنامرضی کا مالک تھا وہ چاچی کی چوت کے ساتھ ہی میرے بد ن کے ساتھ ٹچ ہو رہا تھا اور میں تھوڑی سی حرکت دے کر چاچی کی چوت کے منہ پر ایک حرارت دوڑ ا دیتا تھا ۔۔چاچی نےتنگ آ کر کہا اب الٹے ہو جاؤ پیٹھ پر بھی مالش کر دیتی ہوں ۔۔۔میں نے کہا ٹھیک ہے ۔۔میں الٹا ہو کر لیٹ گیا ۔۔۔تھانیدار کو دوبارہ سونے کا اشارہ کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ بھابھی اب میری چوتڑوں پر بیٹھی ہوئی تھی اور دونوں ہاتھوںسے کمر مل رہیں تھی ۔۔۔وہ آگے کو جھک اپنی گرم سانسیں گردن سے نیچے کی طرف پھینکتی ہوئی آتیں اورساتھ ساتھ ہاتھ بھی پھرتیں ۔۔۔۔۔۔ان کی چوت کی لائن مجھے باقاعدہ اپنے چوتڑ پر محسوس ہو رہیں تھیں ۔۔۔کچھ دیرایسا ہی چلاتا رہا اور پھرچاچی پیٹھ پر بھی جھک گئیں اور اپنے سخت اور نرم گرم مموں سے میرا مساج کرنے لگیں ۔۔۔۔۔یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ کسی عورت نے مجھے اس طرح سے ٹچ کیا تھا ۔۔۔۔ ساتھ ساتھ چاچی اپنی چوت کا منہ بھی میری چوتڑوں پر رگڑ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔اور اسی سے ہی ان کی آہیں نکل رہیں ۔۔۔اب میری بس ہو چکی تھی ۔۔۔۔میں نے چاچی سے کہا کہ اب آپ لیٹ جائیں میں آپ کی مالش کرتا ہوں ۔۔۔۔چاچی میری آنکھوں میں دیکھتی رہیں اور کہنے لگیں کہ آؤ دلہے راجہ آپ کی دلہن حاضر ہے ۔۔۔۔۔چاچی بیڈ پر سیدھ لیٹ چکی تھیں ۔۔۔۔۔میں نے کچھ سوچا اور نیچے جا کر مکھن کا کٹورا لے آیا ۔۔۔چاچی حیران ہو کر دیکھ رہیں تھیں کہ یہ کہا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔آخر تھا تو شہری بابو ۔۔۔کچھ نہ کچھ تو نیا کرنے والا تھا ۔۔۔۔ میں نے مکھن لیا اور سیدھا ان کے ہونٹوں پر رکھ دیا ۔۔ اور ساتھ ہی اپنے ہونٹوں بھی ان کے ہونٹوں پر رکھ دئیے ۔۔چاچی یہ کھیل سمجھ چکی تھیں اور انہوں نے جلدی سے مکھن اندر کرنا چاہا مگر یہ کیا مکھن کے بجائے میرے ہونٹ ان کے ہونٹ میں جا چکے تھے اور مکھن میرے منہ میں تھا۔۔۔۔میں نے چاچی کو آنکھ ماری اور کہا کو دوبارہ ٹرائی کریں ۔۔۔اور دوبارہ مکھن کا ایک ٹکڑا ان کے ہونٹوں پر رکھا ۔۔۔اب کی بار وہ ہوشیار تھیں اور نتیجہ ۔۔۔۔۔۔ان کے ہونٹ میرے ہونٹوں میں دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نےبھی کسر نہ چھوڑی اور باہر کو لگا ہو مکھن کا ایک ایک زرہ چوس لیا ۔۔۔چاچی کے نرم نرم ہونٹ اور مکھن میں کوئی فرق نہیں لگ رہا تھا ۔۔اب کی بار ایک پیس چاچی کے ماتھے پر رکھا اور اسے چاٹنے لگا ۔۔۔نیچے سے چاچی کے ہاتھ جذباتی ہو کر مجھےچھونے لگے ہی تھے کہ میں نے منع کر دیا ۔۔۔یہ کہ فاؤل ہے ۔۔آپ نے بھی مجھے ہاتھ لگانے سے منع کیا تھا ۔۔۔۔چاچی بے بسی سے مجھے دیکھ رہیں تھی ۔۔۔۔اور آہیں بھر رہیں تھیں ۔۔۔ اب میں نے ایک پیس ان کی ٹھوڑی پر رکھا اور ان کا چہرہ تھوڑا سا نیچے جھکا دیا۔۔۔۔مکھن ان کے جسم کی گرم سی پگھلتا ہوں ایک لکیر بناتا ہوا ان کی دودھ کی تھیلیوں کے درمیان جا رکا ۔۔۔بس پھر کیا تھا میں نے بھی اپنی زبان سے مکھن کا تعاقب کیا اور تیزی سے جا لیا اس کو ۔۔۔چاچی کی گرم گرم سسکیا ں شروع ہو چکی تھیں ۔۔۔ان کی ٹانگیں بار بار بھنچ رہیں تھی اور کھل رہیں تھیں ۔۔۔مگر مجھے ہاتھ لگانے کی آزادی انہیں نہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلا ٹکڑا میں نے ان کے ایک ممے پر رکھا اور پھر زبان اور ہونٹوں کی مدد سے چوسنے اورچاٹنے لگا ۔۔۔چاچی کے ممے بار بار میرے منہ سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔مگر اتنا آسان نہیں تھا ۔۔۔میں بھی اپنے ہونٹوں اورچہرے کی مدد سے ان کے ممے کو نیچے سے اوپر کی طرف اٹھا تا ۔۔یہاں تک کہ وہ بالکل اوپر جا کران کے کندھے کے قریب پہنچ جاتے اور پھر ان کی آنکھوں میں دیکھتا ہوئے ایک زبردست سی چکی کاٹتا اور چاچی کے منہ سے بے اختیار سسس نکلتا ۔۔۔۔چاچی کی زبان آزاد تھی اور وہ اس کا بہترین استعمال کررہیں تھیں ۔۔۔ہائے دلہے راجہ ۔۔۔۔۔اف دلہے راجہ ۔۔۔۔۔۔اف میں مر گئی ۔۔۔۔۔۔ہائے اتنا مزہ ۔۔۔۔میں نے دوسرے ہاتھ میں مکھن لیا اور ان کے دوسرے ممے پر ملنا شروع کر دیا ۔۔۔۔شروع میں وائٹ رنگ دینے کا بعد اب مکھن آہتہ سے پگھل رہا تھا کہ میں بائیں ہاتھ اور منہ کی مدد سے اس پر پل پڑا ۔۔۔وہیں انداز تھا ۔۔نیچے سے ممے کو پکڑ کر اوپر تک لے کے جانا کہ چاچی بھی اس دیکھ لے او ر پھر چاچی کو دیکھتے اور زور سے چوسنا کہ چاچی کی آہیں نکلنا شروع ہو جائیں ۔۔۔۔۔ اس طرح میرے سیدھا ہاتھ ان کے سیدھے ممے کو بھنبور رہا تھا ۔۔۔۔۔ان کی گولائیوں کو ناپ رہا تھا ۔۔۔۔۔ان کے دودھ کو بے دردی سے مسل رہا تھا۔۔۔۔۔چاچی اب بری طرح سے مست ہو چکی تھیں ۔۔۔۔ان کی ٹانگیں بھی بار بار میرے گرد لپٹتی اور کھل رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔اب میں نے چھاتیوں سے نیچے کا سفر شروع کیا اور مکھن کا ایک پیس ان کے پیٹ پر رکھا اور پوری فرمانبرداری سے ایک ایک زرہ چاٹ لیا ۔۔۔جیسے جیسے میں نیچے آ رہا تھا ۔۔چاچی کی گرماہٹ بڑھ رھی تھی اور ان کی ٹانگیں حرکت بڑھا رہیں تھیں ۔۔۔میں اب ان کی مخملی چوت پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔اور ایک مکھن کا ٹکڑا اوپر رکھ کی چاچی کی طرف دیکھا ۔۔۔وہ مجھے ہی تک رہیں رہیں ۔۔۔۔ان کو آنے والا مزہ مجھے صاف ان کی آنکھوں میں دکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں نے وقت ضائع کیے بغیر اپنے ہونٹ ان کی چوت پر رکھ دئے ۔۔چاچی ایک دم تڑپ اٹھیں ۔۔آہ راجہ ۔۔۔۔میں مرگئی ۔۔۔۔آہ ۔۔۔سس ۔۔۔۔میں نے بھی چاٹنا شروع کیا اور پوری چوت اپنے ہونٹوں میں بھرنے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔چاچی کی سسکاریا ں اب بڑھتی جا رہیں تھی ۔۔۔۔میں نےمکھن کا ایک پیس اپنی زبان پر رکھا اور زبان ان کی چوت میں داخل کردی ۔۔۔۔چاچی کا دونوں ہاتھ میرے سر پر آئے اور انہوں نے مجھے اپنی چوت پر دبا دیا۔۔۔میں بھی بڑے سلیقے سے اپنی زبان ان کی چوت کے اند ر باہر کر رہا تھا ۔۔۔دونوں ہاتھ میرے چاچی کی ہاتھوں میں تھے اور وہ باقاعدہ اس پر زور لگا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ہاتھ چھڑوائے اور ۔۔۔۔دائیں اور بائیں سے ان کے گول گول چوتڑ تھام لیے ۔۔۔میں بتا چکا تھا کہ چاچی کا سب سے پرکشش حصہ ان کے چوتڑ ہی تھے ۔۔۔گول گول ۔۔موٹے موٹے اور باہر کی طرف ابھرے ہوئے ۔۔۔۔میرے ہاتھ مکھن سے بھرے تو تھے ہیں ۔۔۔۔میں نے ان کو چوتڑوں کو تیزی سے مسلنا اور بھنبھورنا شروع کر دیا ۔۔۔اب وہ ڈبل مزے میں آ چکی تھی ۔۔۔۔ان کی چوت پر میرا منہ اپنی من مانیا ں کر رہاتھا اور ان کے گانڈ میرے ہاتھوں میں کسک رہیں تھی ۔۔۔جبکہ ان کے ممے انہیں کے ہاتھو ں میں مسلے جا رہے تھے ۔۔۔میری زبان کی حرکت جاری تھی۔۔۔۔کہ چاچی کی ایک دم چیخ نکلی اور انہوں نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔ میں واپس اوپرآ کر ان کے ہونٹ چومنے لگا ۔۔۔۔۔ان کو کانو ں کو چوسنے لگا ۔۔۔اور اپنے ہاتھوں کو ان کی چھاتیوں کو مسلنے لگا۔۔۔۔ چھاتیاں بالکل مکھن کے آئل میں بھیگی ہوئیں تھیں اور چاچی خود بھی انہیں چاٹنے کی کوشش کرتی ۔۔۔مگر ایسا نہ ہو پاتا ۔۔۔۔چاچی اب میرے اوپر آنے کا ارادہ باندھ رہیں تھیں ۔۔۔۔میرا ہتھیار اب پوری طرح سے ہوشیار ہو چکا تھا ۔۔۔چاچی نے بھی میری نقل کی اور مکھن لے کر میرے لن پر مل دئیے ۔۔۔۔ اور پھر اسے منہ میں لینے کی کوشش کرنےلگی مگر۔۔۔۔۔۔ وہ منہ میں لے لیتی تو میں کہاں کا راجہ تھا ۔۔۔۔۔وہ پوری کوشش کے باوجود صرف ٹوپی ہی اندر لے سکیں ۔۔۔اور اس پر ان کا پورا منہ کھلا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں بے بسی دکھ رہیں تھی ۔۔۔۔وہ اس پر ہی اپنی زبان ملنے لگیں ۔۔۔۔۔اور باہر نکال کر چاروں طرف سے قلفی کی طرح چاٹنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ اب کی بار انہیں کیا سوجھی ۔۔۔دوبارہ سے ناپ لینا کا سوچا ۔۔۔مگر حیرت کی بات تھی کہ میرا ہتھیا ر کل کی نسبت آج زیادہ لمبا لگ رہا تھا ۔۔۔اور موٹا بھی ۔۔۔چاچی دوبارہ سے حیرانگی میں گم ہو گئی ۔۔۔۔۔۔چاچی دونوں ہاتھوں سے اسے قابو میں کرنے لگی ہوئی تھیں ۔۔۔مگر ہتھیار تھا کہ سنسناتا ہوا یک سانپ ۔۔۔۔۔چاچی نے قریب رکھا ہوا ایک شیشے کا گلاس اٹھا یا اور اس کو لن پرچڑھانے لگی تو بے مشکل لن پر آدھا بھی نہیں آ پایا تھا ۔۔۔۔صرف ٹوپی اور ایک ڈیڑھ انچ گلاس میں کے اندر پھنسا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔چاچی اب دوبارہ سے رونے والی ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ان کا منہ خشک تھا ۔۔۔۔۔آج تو چاچا بھی نہیں تھے ۔۔۔۔رہیں بھابھی تو میں چاہتا تھا کہ وہ بھی میری آواز سن لیں ۔۔۔۔میں نے چاچی سے کہا کہ اچھی طرح مکھن مل لیں لن پر ۔۔۔۔۔چاچی نے ایسا ہی کیا اور پھرمیں نے انہیں گھوڑی بنا دیا ۔۔۔ ان کے سرخی مائل بال ان کی کمر پر آئے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے بال دائیں بائیں کر دئیے اور ان پر جھکتے ہوئے ان کے دونوں کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دئے ۔۔۔۔اب چاچی کے آگے جانے کی امید کم تھی ۔۔۔۔کل رات تین انچ تک تو جاچکا تھا ۔۔۔آج بس اس سے آگے کوشش کرنی تھی ۔۔۔۔۔میں نے مکھن کا ایک بڑا سا ٹکڑا لیا اور ان کی چوت میں بھرنے لگا ۔۔۔وہ آہیں بھرنا چاہ رہیں تھیں ۔۔۔مگر منہ خشک تھا ۔۔۔۔۔چاچی بار بار عجیب نگاہوں سے مجھے دیکھ رہیں تھی ۔۔۔۔۔میں نے دوبارہ ان کے کندھے پر ایک ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سےلنڈ کا ٹوپا ان کی چوت پر سیٹ کرنے لگا ۔۔۔۔چاچی اب بھی اداس لگ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔بس یہی کہ رہی تھیں ۔۔۔۔دلہے راجہ ۔۔۔۔آرام سے کرنا ۔۔۔۔جلد بازی نہ کرنا ۔۔۔۔ابھی آدھی رات پڑی ہے ۔۔۔جلدی نہ کرنا ۔۔۔میں تمہاری ہی ہوں ۔۔۔۔میں بھی انہیں تسلی دے رہا تھا ۔۔۔میں نے لن کا ٹوپا ان کی چوت کی لائن میں پھنسانے کی کوشش کی ۔۔۔مگر وہی پچھلی رات والا ہی سین ۔جانے سے انکار ۔۔۔مجھے بھی اب جلدی ہو رہی تھی ۔۔۔۔میں نے چوت کی لائن پر رکھتے ہوئے اک ہلکا سے جھٹکا دیا ۔۔۔۔لن کا ٹوپا تو پورا کا پورا سلپ ہو گیا اور چاچی آگے کی طرف گر گئیں اور ۔۔۔۔۔۔انہیں اندازہ ہوا تھا کہ میں نے جھٹکا مارنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔وہ بے اختیار رونے لگ گئی ۔۔۔۔کہنے لگی کہ تم یہ ٹھیک نہیں کررہے ۔۔میں نے جلد بازی سے منع کیا تھا ۔۔۔۔۔میری چوت پھٹ جائے گی ۔۔۔۔میں نے انہیں کہا کہ رات کو یہاں تک تو لے لیا تھا آپ نے اس لیے میں یہ کیا ۔۔۔اور پھران کو اوپر ہی لیٹ گیا ۔۔۔ان کے گرم گرم چوتڑ مجھ اور بھی گرما رہے تھے ۔۔۔میں ان کی کمر کو چومنے لگا ۔۔۔۔۔اور اسی طرح اپنا ہاتھ بڑھا کر اپنا لن ان کی چوت پر سیٹ کرنے لگا ۔۔۔اب پوری پوزیشن درست تھی ۔۔۔۔۔۔میں پچھلی طرف سے اچھا خاصا دور تھا ان سے ۔۔میرا صرف ٹوپا ہی کی چوت کو ٹچ ہو رہا تھا ۔۔۔میں نے آرام آرام سے مستقل زور لگانا شروع کیا ۔۔۔۔چاچی کی۔۔۔آئی ۔۔۔آئی ۔۔افف ۔افف کی آوازیں نکل رہیں تھیں ۔۔۔راجہ آرام سے۔۔۔۔راجہ آرام سے ۔۔۔مکھن چاچی کی چوت کو نرم اور ملائم کر چکا تھا ۔۔۔لن کا ٹوپا اندر داخل ہو چکا تھا ۔اور اب چاچی کی گرما گرم آہیں پورا کمرہ گرم کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔میں نے آہستگی سے لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔لن اتنا ٹائٹ تھا کہ آگے دھکیلتے ہوئے چاچی بھی تھوڑا سے آگے کھسک رہیں تھیں ۔۔۔۔۔اور ان کی آوازیں ۔۔۔۔۔افف ۔۔میں مرگئی ۔۔۔۔۔افف ۔۔۔آہ ۔۔آہ میں مر گئی۔۔۔راجہ دھیان سے ۔۔۔ میں تین انچ تک اندر گھسا چکا تھا ۔۔۔۔چاچی بار بار دونوں ہاتھ پیچھے کیطرف کر کے اپنے چوتڑوں کو کھولنے کی کوشش کررہیں تھیں ۔۔۔شاید کوئ آسانی ہو جائے ۔۔۔مگریہاں درد تھا ۔۔۔۔۔۔کسک تھی ۔۔۔تڑپ تھی ۔۔۔۔۔۔اور ان سب کے درمیان سے ابھرتا ہوا مزا تھا ۔۔۔۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا لن کسی مشین کی اندر بند ہے اور پوری طرح سے جکڑا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس طرح تین انچ کو ہی آگے پیچھے دھکا دیاتا ۔۔۔۔۔لن کسی پسٹن کی طرح اندر گھستا اور وہ اس کی رگڑ کی عجیب سی آواز۔۔۔اور اوپر سے چاچی کی ہائے میں مر گئی کی آواز ۔۔۔۔۔۔میں نے اب آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اورایک انچ اور آگے کی طرف کی گھسایا ۔۔۔چاچی کی دوبارہ سسکیا ں شروع تھیں ۔۔۔۔۔ان کے بس میں ہوتا تو میرے نیچے سے نکل جاتی ۔۔۔۔مگر یہ بھی مشکل تھا۔۔۔۔۔۔ میں دس منٹ تک پھر آگے پیچھے ہلاتا رہا ۔۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ تھانیدار نے اپنی جگہ بنا لی ہے ۔۔اور ایک انچ کا دھکا اور لگا یا ۔۔۔۔۔۔چاچی نے ایک مرتبہ پھر آگے کو زور لگایا اور نکلنے کی کوشش کی مگر یہ ناممکن تھا ۔۔۔چاچی ایک مرتبہ ہاتھ سے نکلتی تو دوبارہ بہت مشکل سے تیار ہوتیں ۔۔۔۔میں نے صرف ٹوپا اندر رکھا اور باقی لن نکال کر ایک مرتبہ پھر جھٹکا مارا۔۔۔۔۔۔اور چاچی کی چیخ گونج اٹھی۔۔۔۔ہائے میں مر گئی ۔۔۔ہائے مجھے بچاؤ۔۔۔میں نے جلدی سےآگے ہو کر ان کے منہ پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔اور ان کے کانوں کو چوسنے لگا۔۔۔بلاشبہ یہ آواز بھابھی کے کمرےمیں جا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔میں چاچی کے سر کو کو چومنے لگا ۔۔۔اور تسلی دی کہ بس تھوڑا ہی رہ گیاہے ۔۔پھر مزہ ہی مزہ ہے ۔۔۔۔۔حالانکہ ابھی تک صرف پانچ انچ ہی اندر تھا ۔۔۔اور آدھے سے کچھ زیادہ باہر تھا۔۔۔۔۔میں اسی پانچ انچ کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد آگے پیچھے کرتا رہا ۔۔۔۔چاچی اب مطمئن ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں نے ان کہ چہرے سے ہاتھ ہٹا دیا ۔۔۔۔۔ان کا چہرہ پسینے میں بھگویا ہوا تھا ۔۔۔۔۔اور درد کی شدت ان کے چہرے سے ظاہر تھیں ۔۔۔۔۔۔میں پیچھے کو ہٹ کر گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا ۔۔۔۔اور آرام سے آگے پیچھے کو لن ہلا رہا تھا ۔۔۔۔چاچی کی سسکیوں میں اب مزے کا تاثر تھا ۔۔۔۔چاچی پیچھے دیکھتی اور ہلکے سا اٹھ کر اپنے دونوں مموں مسلتی اور پھر آگے لیٹ جاتی ۔۔۔۔۔راجہ آج تو تونے مار ہی ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔اتنا بھی خیال نہیں کرتا میرا ۔۔۔۔میں چاچی پر جھک گیا اوران کو بے اختیار چومنے لگا ۔۔۔۔۔۔
چاچی اب اس پوزیشن سے تھک چکی تھیں ۔۔۔اور میرے لن کی سواری کرنا چاہ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔میں بیڈ پرتکیہ رکھ کر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔اور چاچی کو اوپر آنے کا کہا ۔۔۔۔چاچی نے دوبارہ سے مکھن لےکر تھانیدار کو نہلا دیا ۔۔۔اور اپنی چوت میں بھر دیا تھا ۔۔۔۔۔اور میری طرف منہ کر ٹانگیں دونوں طرف رکھ دیں ۔۔۔چاچی گھٹنے کے بل بیٹھ نہیں پارہیں ۔۔۔کیونکہ میرا لن ان کی چوت کے اندرآدھا داخل ہو جاتا تھا ۔۔۔۔اور پھر ہلنا جلنا ان کےلئے ناممکن تھا ۔۔۔۔۔خیر وہ ٹانگوں کے بل بیٹھ کر لن کے ٹوپے کو اوپر چوت رکھ کر زور دینے لگیں ۔۔۔۔اسی اثنا ء میں کمرے کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔بھابھی کا سایہ وہاں آ چکا تھا ۔۔۔۔اور وہ اپنی ماں کو اپنے دیور سے چدتے ہوئے یقینا دیکھ رہیں ہو گی ۔۔۔۔۔چاچی کی آخری ہائے میں مر گئی کی آواز نے نہ صرف بھابھی کو اٹھایا ۔۔۔۔۔۔بلکہ میرے دروازے تک بھی پہنچا دیا ۔۔۔۔۔میں نے دروازے سے نظر اٹھا ئی تو عجب نظارہ تھا ۔۔۔چاچی ٹوپا اندر لے چکیں تھی ۔۔۔۔ ان کے دودھ سے بھرے ہوئے ممے اپنے پورے غرور سے تنے ہوئے اور سر اٹھائے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔اور مجھے تھامنے کی دعوت دے رہے تھے ۔۔۔۔ چاچی ابھی مجھ سے فاصلے پر تھی ۔۔۔جب تک وہ آدھ لن نہیں لیتی میں ان کے ممے نہیں تھام سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور چاچی کا چہرہ ۔۔۔۔۔۔۔سرخی سے بھرا ہوا ۔۔۔۔آنکھیں شرابیں ۔۔۔۔۔اور دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو کو مسلتی ہوئی ۔۔۔۔۔اپنے دانتوں سے اپنے ہونٹوں کو کاٹتی ہوئیں ۔۔۔۔آہ ۔۔۔آہ ۔اففف کی آوازیں نکالتی ہوئیں ۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چوتڑوں کو تھام لیا اور مسلنے لگا اور آہستہ آہستہ نیچے لانے لگا ۔۔۔۔چاچی کا چہرہ دوبارہ سے پسینے چھوڑنے لگا تھا ۔۔۔۔ان کی آہیں اور سسکیاں بڑھی رہی تھی۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔راجہ ۔۔۔۔کتنا بڑا ہے تیرا ہتھیار ۔۔۔۔۔۔۔میں مرگئی راجہ ۔۔۔۔۔ہائے راجہ ۔۔۔۔میں ان کے چوتڑوں کو مسلسل بھینچ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔چاچی اب آدھے لنڈ اپنی چوت میں لے چکی تھین۔۔۔اور ان کی حرکت بند ۔۔۔۔آنکھیں باہر تھیں ۔۔۔اور بس ساکن حالت میں تھیں ۔۔۔۔۔۔اٹھنے اور دوبارہ بیٹھنے کی ہمت اب ان میں نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔ ۔میں نے انہیں اشارہ کیا کہ میرے اوپر آ جائیں ۔۔۔۔۔وہ بڑی احتیاط سے لن کو نیچے سے پکڑتی ہوئی آرام سے آگے آتی گئیں ۔۔۔ اور اپنے ممے میرے سینے پر رکھتے ہوئے ڈھیر ہو گئیں ۔۔۔۔۔میں نےبھی ان کے مموں کو چوسنا شروع کر دیا اور نیچے سے ہلکا ہلنا بھی شروع کردیا ۔۔۔ساتھ اپنے ہاتھوں سے چاچی کی گول گول ڈبل روٹیوں کو بھی مسل رہا تھا ۔۔۔چاچی اب یہ تھری ایکشن برداشت نہیں کر پار ہیں تھیں ۔۔۔۔وہ کبھی ہنستی ۔۔۔کبھی چیخ پڑتی تھیں ۔۔۔۔ہائے میں مر گئی ۔۔۔۔افف ۔۔۔۔۔ چاچی اب میرے سر کو چوم رہیں تھیں ۔۔۔۔میرے ہونٹ چوم رہیں تھیں اور میں بھی جوابی کاروائی بخوبی کر رہا تھا ۔۔۔اچانک چاچی نے کہ کہ میں چھوٹنے والی ہوں ۔۔۔تھوڑی رفتار بڑھا دیا ۔۔۔بس پھر کیا تھا ۔۔۔میرا راکٹ ایک دم بوسٹ مار گیا ۔۔۔اور چاچی کی چیخیں پورے فرسٹ فلور پر گونجنے لگی ۔۔۔ہاے میں مرگئی ۔۔۔۔۔اففف ۔۔میں مرگئی ۔۔۔۔راجہ میں گئی ۔۔۔۔۔۔میرا پسٹن اپنے آدھے سائز کے مطابق پورا کام دکھار ہا تھا ۔۔۔۔۔چاچی کی درد بھری چیخوں نے یقینا اس کی بیٹی کو بھی گیلا کر دیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ چاچی کی سسکیاں بڑھتی جارہی تھیں اور پھر ایک زور دار جھٹکے سے چاچی فارغ ہوئیں اور ان کا پانی میں لن پر گرتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔اور وہ مجھ پر گرتی چلی گئیں ۔۔۔میں ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔مگر چاچی اب مجھے مزید نہیں جھیل پا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔وہ جلدی سے اٹھیں اور دونوں ہاتھوں سے میرے ہتھیار کو تھام لیا ۔۔۔۔۔اور تیزی سے ہاتھ اوپر نیچے کرنے لگیں ۔۔۔۔۔پانچ منٹ میں ہی میں بھی فارغ ہونے والے تھا ۔۔۔چاچی کو میں نے نہیں بتایا ۔۔۔مگر بے چینی سے انہیں اندازہ ہورہا تھا ۔۔۔۔اور پھر وہی ہوا ایک فوارہ نکلا اور ان کے پورے منہ اور چھاتیوں کو بھگونے لگا۔۔۔۔چاچی نے ایک دم گہرا سانس لیا اور شرارتی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ میں نے بھی انہیں اپنے اوپر گرا لیا ۔۔۔۔اور ان کے ہونٹوں کو رس پینے لگا ۔۔۔۔۔چاچی گھبرا گئی کہ۔۔۔۔راجہ دوبارہ کرنا ہے کیا ۔۔۔۔۔میں مسکرایا اور کہا نہیں بس آج کے لئے اتنا کافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچی کے بڑے بڑے ممے پورے میری منی سے بھیگے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔میری منی بھی عام لوگوںسے بہت زیادہ نکلتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اب دوبارہ سے ہم بیڈ پر ایک دوسرے کیطرف منہ کر لیٹ گئے ۔۔۔ٹائم وہی تھا رات کے چار بج رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچی میرے منہ اور چہرے کو چوم رہی تھیں ۔۔۔۔ہمارے درمیاں ایک عجیب سا رشتہ قائم ہو چکا تھا ۔۔۔اعتبار کا ۔۔۔۔محبت کا ۔۔۔۔۔احساس کا ۔۔۔اور ایک دوسرے پر مکمل بھروسے کا ۔۔۔ میں چاچی سے بھابھی کے بارے بات کرنا چاہ رہاتھا ۔۔۔۔۔۔میں نے چاچی سے کہا کہ میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔چاچی نے کہا کہ کہو ۔۔۔۔میں نے کہاکہ آج جب آپ چیخیں تو بھابھی بھی آواز سن کر دروازے پر آگئیں تھیں ۔۔۔اور کافی دیر تک رکیں رہیں تھیں۔۔۔۔۔چاچی کچھ دیر چپ رہیں اور پھر کہنے لگیں ۔۔۔راجہ ایک بات بتاوں! میں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ میری بیٹی آ جائے گی ۔۔۔۔۔۔میری آواز سن کر ۔۔۔۔اور ایک بات اور ۔۔۔جب تمہارے چاچا کبھی کبھار مجھے چودتے تھے ۔۔۔تو بھی یہ آواز سن کر دروازے پر آ جاتی تھی ۔۔۔۔۔اس کا شوہر تو اسے بیوی مانتا ہی نہیں ۔۔۔اور یہ یہی حرکت کر کے خود کو سکون پہنچا تی ہے ۔۔۔یہ سن کر میں حیران رہ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر میرے ذہن میں ایک آئیڈیا پلنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں راجہ کی بھابھی اور اس گھر کی سب سے بڑی بہو صوفیہ ہوں ۔۔۔کہنے کو تو خوشحال ہنسی خوشی رہنے والی۔۔ہر چیز میرے ایک حکم پر موجود ہوتی ہے ۔۔۔۔جتنا چاہوں خرچ کروں کوئی پوچھنے والا
نہیں۔۔مگر جو ایک چیز
صرف میری ہونی تھی ۔۔۔وہی میری نہیں تھیں ۔۔یعنی میرا شوہر شہریار۔۔۔۔۔شادی کی پہلی ہی رات انہوں نے میرا گھونگھٹ اٹھائے ہوئے کہ دیا تھا کہ تم میری محبت نہیں ۔۔۔میں کسی اور سے محبت
کرتا ہوں اور اسی سے شادی کروں گا یہ میرا مجبوری کا فیصلہ ہے۔۔۔۔ان کے الفاظ میرا بھرم ،میرا غرور توڑنے کے لئے کافی تھے ۔۔۔ اس سے پہلے بھی مجھے اپنے حسن پر ناز نہیں تھا مگر ایسے صاف انکار
نے میری نسوانیت کو بری طرح سےتوڑ ڈالا تھا ۔۔۔۔۔اس کے بعد میں بجھ سے گئی تھی ، ہنسنا مسکرانا تو جیسے بھول گئی تھی ۔۔۔۔راتیں دن کیسے گذرتے مجھے پتا بھی نہیں چلتا ۔۔۔۔امی کے کہنے پر کبھی تیار ہو
جاتی مگر اپنے کمرے میں آتے ہی کپڑے تبدیل کر لیتی تھی ۔۔۔۔۔۔تائی امی ( راحیلہ ) بھی مجھے دیکھ کر بجھ سی جاتی تھیں ۔۔۔مگریہ فیصلہ دونوں بھائیوں یعنی میرے ابو اور میرے تایا جان کاتھا ۔۔۔۔اور
انہوں نے اپنی گہری بھائی بندی کو ہمیشہ کے لئے مستقل کرنے کا سوچا تھا ۔۔شادی کے 3 دن بعدہی شہریار اپنی تعلیم کے لئے شہر چلے گئے جہاں ان کا پیار ان کے ساتھ دینے کے لئے موجود تھا ۔۔۔۔۔تائی
امی کو پتا چل چکا تھا کہ انہوں نے اب تک مجھے ہاتھ بھی نہیں لگایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دن ایسے ہی گزر رہے تھے ۔۔۔۔شادی کو چھ مہینے گزر چکے تھے ۔۔اور ان چھ مہینوں میں وہ صرف دو مرتبہ ہی گھر آئے تھے
۔۔۔۔اور اس پر بھی مجھے صوفے پر سلاتے اور خود بیڈ پر آرام سے سوتے تھے ۔۔۔۔ میری پہلی تفریح میری دونندیں مناہل اور ربیعہ، جو میری کزن بھی تھی۔۔۔۔۔۔وہی مجھےہنسانے کی ناکام کوشش
کرتی رہتیں تھیں ۔۔۔۔انہیں بھی ان سب باتوں کاپتا تھا ۔۔وہ اکثر کہتی رہتی تھی کہ ایک دن شہریار بھیا کو آپ سے بہت سارا پیار ہو گا ۔۔۔۔ آپ اتنی خوبصورت جو ہیں ۔۔بالکل کسی یونانی شہزادی کی
طرح ۔۔۔۔۔ایک نازک سیپی کی طرح ۔بس ایک مرتبہ انہیں شہر سے اپنی پڑھائی مکمل کر کے آنے دیں ۔ پھر تو آپ کے پیار میں ضرور گریں گے۔میں ان کی بچگانہ باتوں پر بے اختیار مسکرا اٹھتی تھیں
۔۔۔۔۔ہمارا روزانہ کا معمول تھا کہ رات دیر تک میں انہیں کے کمرے میں رہا کرتی اور جب وہ نیند میں ڈوبنے لگتی تو اپنے کمرے میں آ جاتی تھی۔۔۔۔۔۔
میری دوسری تفریح اپنی امی کے پاس بیٹھ کر ابا اور ان کے بچپن کی البم دیکھنا تھی ۔۔۔اور اپنی امی سے ان کے بچپن کے سارے واقعات سننا تھی ۔۔۔جس میں بہت ساری مستیا ں تھیں ۔۔۔شرارتیں
تھیں اور قہقہے ہی قہقہے تھے ۔۔۔۔۔۔ہمارے داد ا ابو کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھیں ۔۔۔بڑے بیٹے راحیل یعنی تایا ابو کے دو لڑکے تھے جن میں سے ایک میرے شوہرشہریار اور ایک دیوررضوان
تھےجنہیں پیار سے راجہ کہتے تھے ۔۔۔اور چھوٹے بیٹےنبیل سے ایک ہی اولاد یعنی میں صوفیہ ہی تھی ۔۔پھپھو کی دو بیٹیاں تھیں راحیلہ اور انیلہ ۔۔۔۔بڑی بیٹی راحیلہ سے تایاابو کی شادی ہوئی ۔اور چھوٹی
بیٹی انیلہ ا پنے والدین کے ساتھ جرمنی شفٹ ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔جبکہ میری امی نازیہ دادا ابو کے قریبی دوست کی بیٹی تھیں جن کا گھر بھی ہمارے خاندانی گھر سے ملا ہوا تھا ۔۔۔اوریہ سب ساری شرارتوں
میں شامل رہتے تھے ۔۔۔امی بھی اسکول سے آتے ہی اس گھر میں آ جاتیں تھیں ۔۔کھانا کھانا اورسب کھیل کود ساتھ میں ہی کرتی تھیں ۔۔۔۔۔دادا سے سب ڈانٹ بھی ایک ساتھ کھاتے تھے اور خوب
ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے ۔۔۔۔ہمارے ابا جان شروع سے ہی ہنس مکھ تھے ، جبکہ تایا ابو بڑے اور زمہ دار طبیعت کے تھے ۔۔خاموش مزاج اور کم بولنے والے ۔۔۔۔اور تائی امی(راحیلہ)
جو کہ بعد میں میری ساس بنی وہ بہت زندہ دل اور ہر وقت موج میلا کرنے والی تھیں ۔۔۔۔۔ابا جان اور تائی اماں میں جانے کب آنکھ مچولی شروع ہوئی اور وہ دونوں ایک دوسر ے کو دل بیٹھے ۔۔۔۔اس
طرح ان کی محبت پروان چڑھ رہیں تھی ۔۔کہ شادی کی عمر قریب آتی گئی اور دادا جان نے وہی فیصلہ کیا جو بالکل عجیب تھا ۔۔۔تایا ابو اور تائی امی کی عمر ایک جیسی تھی ، اس لئے ان کی شادی طے کر دی جبکہ ابا
جان جو کے 3 سال چھوٹے تھے ۔۔ان کی شادی اپنے دوست کے بیٹے یعنی میر ی امی سے طے کی ۔۔ابا جان فورا تایا ابو کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ وہ شادی سے انکار کریں کیونکہ وہ تائی امی کوچاہتے تھے مگر
تایا ابو نے کہا کہ وہ دادا کا بھرم نہیں توڑنا چاہتے ہیں ۔۔ اس طرح یہ شادیاں ہو گئی ۔۔۔۔تایا ابو راحیل اور تائی اماں راحیلہ کو نیچے کا پورشن دیا گیا تھا ۔۔۔۔اور میری امی نازیہ کو اوپر کا پورشن ۔۔۔۔جہاں
پھر بعد میں شہریار اور میری شادی ہوئی اورمیں بھی اوپر ہی شفٹ ہوئی ۔۔۔۔۔میٹرک تک میں ، راجہ ا ور شہریار اکھٹے ہی پلے بڑھے تھے ۔۔۔۔۔ شہریار حد سے زیادہ سنجیدہ تھا ۔۔۔۔اور راجہ شوخ تھا
۔۔۔شرارتیں اور مستیاں کرتا رہتا تھا اور اسی طرح سے پورے گھر میں ایک رونق رہتی تھی ۔۔۔۔۔۔میری شادی ہوئی تو راجہ اس وقت میٹرک پاس کر چکا تھا ۔۔۔ تایا ابو نے حسب معمول شہریار اور
میری شادی کم عمری میں ہی کر دی تھی ۔۔۔۔۔ میڑک کے بعدراجہ بھی آگے پڑھنے کے لئے شہر چلا گیا ۔۔۔اور گھر میں سب ویسے ہی چلتا رہا ۔۔۔ابا کو روزانہ ناشتے کے بعد کھیتوں پر جانا ہوتا تھا ۔۔۔جبکہ
تایا ابو شہر میں ہی دکانیں سنمبھالتے تھے ۔۔۔۔ ناشتہ امی بناتی تھیں ۔۔۔۔۔دوپہر کاکھانا میں بناتی تھی ۔ اور رات کا کھانا میری نندیں مناہل اور ربیعہ بناتی تھیں ۔۔۔۔بس یہی ہماری روٹین تھی
۔۔۔۔۔شادی کے پانچ مہینے بعدجب شہریار پہلی مرتبہ گھر آئے تو تایاابو نےتائی امی کے کہنے پر شہریار سے کہاکہ ہمیں اس گھر میں بچے چاہئے ۔۔۔۔ کچھ گھر میں رونق ہونی چاہئے ۔۔۔۔شہریار نے اپنے ابا
جان کی بات پر آمین کہی ۔۔۔۔اور رات کو سہاگ رات منانے میرے پاس آ گئے ۔۔سہاگ رات تھی یا عذاب کی رات تھی ۔۔۔۔انہیں بس اپنے ابا کی خواہش پوری کرنی تھی ۔۔۔میری کیا پرواہ کرتے
۔۔۔۔۔میں صوفے پر حسب معمول سوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔کہ ایک ہاتھ میری چوتڑوں سے نیچے آیا اور ایک ہاتھ میرے کمر کے نیچے سے ۔اور میں ہوا میں اٹھتی چلی گئی ۔۔۔گڑیا جیسی جو تھی ۔۔میری آنکھ
کھلی تو وہ مجھے اٹھا کر بیڈ پر لے کر جا رہے تھے ۔۔۔بیڈ پر جا کر انہوں نے مجھے لٹا دیا ، انہوں نے اپنے پورے کپڑے پہلے ہی اتار دئیے تھے ۔۔۔۔۔میرا دوپٹہ پہلے ہی صوفے پر رہ چکا تھا ۔۔۔شہریار نے
میرے سر کے نیچے تکیہ رکھ دیا اور میں اپنی مور جیسی حسین گردن اٹھائے ان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔۔۔جہاں صر ف ایک فرض کو پورا کرنا تھا ۔۔۔کوئی محبت کوئی چاہت نظر نہیں آ رہیں تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔میں ان کی کی طرف دیکھ ہی رہی تھی کہ انہوں نے میری قمیض اتارنی چاہی ۔۔۔۔میں نے تھوڑا اٹھ کر ان کا کام آسان کیا اور ہاتھ اوپر کر دئیے ۔۔۔میری چاندنی کی چوڑیوں کی کھنکناہٹ سی
گونج گئی ۔۔۔قمیض اترتے ہیں ان کی نظر میری مخروطی چٹانوں پر پڑی جو بڑی شان سے سر اٹھائے کھڑی تھی ۔۔۔۔کسی اپنے کے چھونے کے انتظار میں تھی ۔۔۔۔۔۔شہریار نے دونوں ہاتھوں سے انہیں
تھاما اور بری طرح رگیدنے لگے ۔۔۔۔۔شاید دودھ نکالنے لگے تھے ۔۔۔۔۔میری سسکیاں نکلنا شروع ہو چکی تھی ۔۔آہ ۔۔۔افف شہریار ۔۔آہ۔۔۔۔میری آنکھیں بند ہو رہی تھیں ۔۔۔اور چہرہ
شدت جذبات سے لال ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد میرےممے سخت ہونا شروع ہو گئے تھے ۔۔میری سرخ نپل اور زیادہ لال ہو چکے تھے ۔۔۔۔شہریار نے اب ان پر اپنا منہ رکھ دیا اوردودھ پینے کی
کوسشش کرنے لگے ۔۔۔۔۔کبھی ایک ممے پر ان کے دانت گڑتے اور دوسرا مما ان کے ہاتھ کے نیچے دبا ہوتا ۔۔۔اور ددسرا مما ان کے منہ میں ہوتا اور پہلے والا مما ان کے ہاتھوں کے دباؤ کو برداشت کر رہا
ہوتا ۔۔۔میری سسکیاں اب آہوں میں تبدیل ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔میری چوت بھی گیلی ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ پورے بدن میں کرنٹ دوڑتا جا رہا ہے ۔۔۔۔مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ پورے بدن سے
خون اکھٹا ہو کر چوت میں اکھٹا ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب شہریار کا ایک ہاتھ میرے پیٹ سے گزرتا ہوا میری شلوار میں داخل ہو چکا تھا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کی ایک انگلی میری چوت میں داخل
ہونے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔میں ایک دم سے اوپر کو اچھلی تھی اور ایک زور دار آہ نکلی تھی۔۔۔۔۔۔ شہر یار نے وہی انگلی میرے منہ میں ڈال دی اور مجھے چوسنے کو کہا ۔۔۔۔۔۔جب انگلی اچھے سے گیلی
ہو گئی تو دوبارہ سے وہ میری چوت میں داخل کرنے لگے۔۔۔۔۔۔میری چوت کی سلطنت میں پہلی بار کوئی باہر کا مہمان داخل ہو رہا تھا ۔۔۔۔تو یقینا اسے بھی مشکل کا سامنا کرنے پڑنا چاہئے تھا ۔۔۔۔میں بار
بار اپنی چوت کو اٹھاتی اور ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتی ۔۔۔مگر شہریار اپنے پورے وزن سے میر ی ٹانگوں پر بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔اسی اثنا ء میں میری نظر اس کے کیلے کی طرف پڑ چکی تھی ۔۔۔۔لا ل سرخ
۔۔۔گول سی ٹوپی لئے وہ کسی سانپ کی طرح پھن اٹھا ئے کھڑا تھا ۔۔۔میں نے ایک نظر شہریار کی انگلی کی طرف ڈالی جوکہ اس لن کی موٹائی کا چوتھا حصہ تھی ۔۔۔اور چوت میں کتنی مشکل سے داخل ہو رہی
تھی ۔۔۔۔۔جب ایک انگلی نے میری آہیں نکال دی تھی تو یہ موٹا سات انچ کاسانپ میرا کیا حال کرنے والا تھا ۔۔۔۔شہریار نے اپنی پوری انگلی میری چوت میں داخل کر دی تھی اور اب اسے تیزی سے
آگے پیچھے کر رہا تھا ۔۔۔۔میں تڑپ کر رہ گئی تھی ۔۔۔۔اور تیزی سے اس کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر وہ کہاں قابو آنے والا تھا ۔۔۔۔میری تکلیف زدہ آہیں پورے کمرے میں گونج رہیں تھی
۔۔۔۔آہستہ آہستہ میری چوت نے شہریار کی انگلی کو جگہ دینی شروع کر دی تھی ۔۔۔۔۔ میری چوت سے بہتا ہو پانی بھی اسے آسان بنا رہا تھا ۔۔۔۔ اچانک ہی میری ایک چیخ نکلی اورمیں اچھل پڑی
۔۔۔نیچے دیکھا تو شہر یار نے اب اپنی دو انگلیاں داخل کر دی تھیں ۔۔۔۔میری گرم گرم آہیں جو بڑی مشکل سے تھمی تھی اب دوبارہ گونجنے لگی تھی ۔۔۔۔اف ۔۔ آہ ۔۔شہریا ر آرام سے ۔۔۔۔۔کچھ ہی
دیر گزری تھی کہ میرے پورے بدن کا خون چوت کی طرف روانہ ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔میری آہیں اور تیز ابھرنے لگی تھیں ۔۔۔۔۔اور میں تیزی سے شہریار کی انگلیوں پر اپنی چوت مار رہی تھی ۔۔۔اور
ایک زوردار آہ کے ساتھ میں نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔ شہریا ر نے اپنی دونوں انگلیاں باہر نکالی تو وہ میرے آرگزم سے بھری ہوئی تھیں ۔۔۔۔شہریار نے وہی انگلی میرے منہ میں ڈالی اور چوسنے کا کہنے لگے
۔۔۔اورمیں بھی سوچے سمجھے بغیر چوسنے لگی ۔۔۔۔۔مجھےکیا پتا تھا کہ اب اس کے بعد کچھ اور بھی چوسنا تھا ۔۔۔۔شہریار نےاپنی انگلی صاف ہوتے ہیں مجھے اٹھا کر بٹھا دیا ۔۔۔۔۔میں بیڈ پر بیٹھی حیرت سے
اب اگلے مرحلے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔شہریار نے اپنا ایک ہاتھ میرے سر کےپیچھے رکھا اورتیزی سے مجھے اپنے لن پر جھکا دیا ۔۔۔شہریار نے ایک جھٹکے میں وہ سات انچ لمبا لن میرے منہ ڈالنے کی
کوشش کی ۔۔۔۔۔جو سیدھا میرے حلق سے ٹکرایا اور مجھے کھانسی آنے لگی ۔۔۔اس نے دوبارہ اسے باہر نکالا اور ایک مرتبہ پھر اندر گھسا یا ۔۔۔۔اور کہااسے چوسو ۔۔۔۔۔۔میں چوستی جا رہی تھی
۔۔۔۔۔۔اور وہ لن سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے ۔۔۔اس کے نیچے کی رگیں مجھے اپنی زبان پر محسوس ہو رہی تھیں ۔۔۔۔۔ قریب دس منٹ چوسنے کے بعد شہریار نے اسے میرے منہ سےنکالا اور میرے
دونوں ٹانگوں کھول کر ان کے درمیان بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ اس کا لن میرے تھوک سے بھرا ہوا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر وہ چوت کو دیکھتا رہا اور پھر اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گیا اور ویزلین کی ڈبی اٹھا کر لے آیا
۔۔۔اور کافی ساری ویزلین اپنی لن کی ٹوپی پر لگائی اور کچھ میری چوت کے لبوں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں بھی تیار ہو رہی تھی ۔۔۔اک ایسے درد کے لئے جو مجھے ہر حال میں برداشت کر نا ہی تھا
۔۔۔۔۔۔شہریار نے میری ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھا لی تھیں جو کہ اس کے بازووں کے نیچے سے اس کی بیک پر جا رہیں تھی ۔۔۔۔شہریار نے ایک مرتبہ مجھے دیکھا اور کہا ۔۔۔صوفیہ درد ہو گا ۔۔۔اسے
برداشت کرنا ۔۔۔۔یہ کہ کر اس نے لن کی ٹوپ میری چوت کے لبوں پر رگڑی ۔۔۔۔مستی کی ایک لہر میرے بدن پر لہرائی اور کچھ دیر تک تک شہریار ایسا ہی کرتا رہا ۔۔اور پھر اچانک اس نے اپنی ٹوپی
اندر داخل کر دی ۔۔۔۔تکلیف کی ایک پور ی لہر میری چوت میں داخل ہوئی ۔۔۔اور ایسے لگا کہ جیسے میری چوت چیرنے والی ہو۔۔۔۔میں نے اٹھنے کی کوشش کی مگر شہریار نے برق رفتاری سے میرے
دونوں سنگترں کو پکڑ کر نیچے کی طرف کھینچا اور ۔۔۔اب میں درد برداشت نہیں کر پائی ۔۔ایک چوت کا درد کیا کم تھا کہ اس نے پور ے مموں کو کھینچ کر مجھے روکا تھا ۔۔۔ میں نے چیخنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا
کہ شہریار نے اپنا وہی ہاتھ ایک بار پھر منہ میں ڈال دیا۔۔۔۔۔۔میں بے اختیار ہو کر اس کا ہاتھ چوسنے لگی ۔۔۔میرے دونوں ہاتھ میرے مموں کا مساج کر رہے تھے کہ ان کا درد کچھ کم ہو ۔۔۔۔۔۔شہریار
نے کچھ دیر اور ٹہرنے کے بعد تھوڑ ا دباؤ بڑھایا اور ایک انچ لن اور اندر گھسا دیا ۔۔۔۔میری چوت یقینا چیر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ اس کے لب بری طرح پھڑپھڑا رہے تھے ۔۔۔۔ شہریار کچھ دیرایسے ہی ساکت
رہا تھا ۔۔۔میں نے اپنے مموں سے ہاتھ ہٹا کر اس کے بازو پر رکھے تو وہ دوبارہ دباؤ ڈالنے کے لئے تیار ہو چکاتھا ۔۔۔۔ایک اور زور دار تکلیف کی لہر میری چوت میں گونجی اور ایک انچ اور لن اندرداخل ہو چکا
تھا ۔۔۔۔۔۔اب شاید پردہ بکار ت کی رکاوٹ آچکی تھی ۔۔۔۔۔شہر یار آگے کو جھکتے ہوئے میرے ہونٹوں کو چوسنے لگا تھا ۔۔۔۔میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔۔۔اس نے میرے منہ کو اپنے لبوں
سے بند کرتے ہوئے ایک دھکا اورلگایا اور منہ بند ہونے کے باوجود میری چیخ کمرے میں گونج چکی تھی ۔۔۔۔آہ شہریار میں مر گئی ۔۔۔۔۔۔۔میری چوت پھٹ گئی ہے ۔۔۔۔اسے باہر نکالو ۔۔۔۔میں مر
جاؤں گی ۔۔۔ مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی چاقو میں چوت میں مارا گیا ہو ۔۔۔میں بری طریقے سے تڑپ رہی تھی ۔۔۔اور شہریار میرے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھا ۔۔۔ قریب دس منٹ تک شہریار
میرے ہونٹ چوستا رہا ۔۔۔۔اور اس کے بعد میرا درد کم ہو چکا تھا اور اب یقینا میری چوت کو دھکے چاہئے تھے ۔۔۔شہریار نےلن باہر کھینچا اور ٹوپی اندر ہی رکھ کر ایک دھکا مارا ۔۔۔اوئی ماں میں مر گئی
۔۔۔۔میری چوت میں دوبارہ سے جلن شروع ہو چکی تھی ۔۔۔اب شہریار آہستہ آہستہ آگے پیچھے کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں میری چوت اسے سمبھال چکی تھی ۔۔میں نے آہستہ سے اس کی کمر
پر ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔وہ میرا اشارہ سمجھ چکا تھا ۔۔۔اور تھوڑا تیزی سے آگے پیچھے کرنے لگا۔۔۔خون کی ایک پتلی تہہ اس کے لن کے گرد تھی ۔۔۔۔۔۔۔میری آہیں اور سسکیاں اب بڑھتی جارہی اور مجھے
کائنات کا سب سے زیادہ مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔میرے منہ سے بے اختیار آؤں ۔۔۔۔آؤں۔۔۔۔ آؤں کی آواز نکل رہیں تھی ۔۔ہر لڑکی کے موننگ کرنے کا اندازہ الگ ہوتا ہے ۔۔۔کچھ صرف سسکیاں
بھرتی ہیں اور کچھ آوازیں نکالتی ہیں ۔۔۔۔میری منہ سے آؤں ۔۔۔۔آؤں کی آوازیں نکل رہیں تھی ۔۔۔جو شاید شہر یار کو اور دعوت دے رہیں تھی ۔۔۔کچھ دیر بعد ہی میں فارغ ہونے کے قریب ہو گئی
۔۔۔شہر یار نے اپنے اسپیڈ اور بڑھا دی تھی ۔۔۔اس کا لن اب صرف دو انچ ہی باقی تھا ۔۔۔باقی پانچ انچ میں لے چکی تھی ۔۔۔۔۔میری آہ ۔۔۔۔ آہ سے پورا کمرہ گونج رہا تھا ۔۔اور ایک زبردست
وائبریشن کے ساتھ میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔اور میں بے اختیار ڈھیلی ہوتی گئی ۔۔۔۔۔میں نے شہریار کو اپنے سینے سے لگا دیا اور وہ بھی میرے بچے کی طرح مجھ سے لپٹتا گیا ۔۔۔کچھ دیر بعد اس
نے اپنا لن باہر نکالا ۔۔۔اوراٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔اس کا لن ابھی تک کھڑا ہی تھا ۔۔۔شاید اس کی مرضی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔شہریار نے فریج سے ایک جوس کا گلاس نکالا اور میرے لبوں کو لگا دیا
۔۔۔۔مجھے کچھ اطمینان ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔شہریار نے کچھ دیر بعد مجھے اٹھایا اورباتھ روم لے گیا ۔۔۔باتھنگ ٹب میں مجھے لٹا کر گرم پانی کا نل کھول دیا اور ٹب میں آ کر میرے ساتھ ہی لیٹ
گیا۔۔۔۔۔ساتھ ہی شاور کا رخ بھی ہماری طرف ہی تھا ۔۔۔میں بے اختیار ہو کر اس سے لپٹ رہی تھی ۔۔۔۔اس کے ہونٹوں کو چوم رہیں تھی ۔ ۔۔۔۔۔اس نے گرم پانی سے میرے پورے بد ن کو دھویا
۔۔۔۔۔میری چوت اب کچھ سکون میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھی طرح خود کو دھونے کا بعد اس نے مجھے اٹھایا ۔۔۔۔میں خود سے چلنے کے قابل نہیں تھی اب تک ۔۔۔ مجھے صوفے بٹھا کر کر بیڈ شیٹ
تبدیل کی اور ہم پھر دوبارہ بیڈ پر آگئے تھے ۔۔۔۔شہریار کا لن ابھی تک تنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔شہریار میرے پہلو میں لیٹا میرے ہونٹوں سے رس کشید کر رہا تھا ۔۔۔۔۔میرا ہاتھ رینگتا ہوا اسے کے لن تک جا پہنچا
اور میں نے پہلی بار اس موٹے سانپ کو چھوا جو کچھ دیر پہلے میری اور میری چوت کی چیخیں نکال چکا تھا ۔۔۔۔۔میں اسے آہستہ آگے پیچھے ہلانے لگی ۔۔۔۔۔۔شہریار اب میرے ہونٹ چوسنے کا ساتھ ساتھ
اپنے ہاتھوں سے میرے ممے بھی مسل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔مموں کا پورا حصہ لال سرخ ہوکر پورے جسم سے الگ نظر آرہا تھا ۔۔۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں میری چوت پھر گیلی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔اور میں
دوبارہ تیار ہونے لگی ۔۔۔۔میرے ہاتھ اب تیزی سے شہریار کے لن پر گھوم رہے تھے ۔۔۔۔۔۔وہ بھی جلدی سے اٹھااورمجھے گھوڑی بنا بتانے لگا ۔۔۔۔ میں اپنے ہاتھوں اور گھٹنے کے سہارے جھکی ہوئی تھی
کہ ۔۔۔۔۔۔پیچھے سے شہریار کا موٹا تازہ لن سنسناتا ہوں میری چوت کے اندر گھس گیا ۔۔۔۔۔میری ایک چیخ نکلی اور میں آگے کی طرف گرنے لگی ۔۔۔۔شہریار نے جلدی سے میری کمر پکڑ لی ۔۔۔۔اور
دوبارہ سے ایک اور جھٹکا مارا ۔۔۔اب کی بار اس کا پورا سات انچ کا لن میری چوت میں گھس کر تباہی پھیلا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میں دوبارہ آگے کی طرف گری اور میرا سر تکیہ پر جا لگا ۔۔۔۔شہریار نے اسی پر
بس نہیں کی بلکہ میرے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر پورا وزن ڈال دیا اور ۔۔۔۔۔۔پور ی تیز سے دھکے مارنے شروع کر دئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔درد کی ایک تیز لہر دوبارہ سے پیدا ہو رہی تھی
۔۔۔۔اور میرے منہ سے بے اختیار آؤں۔۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔۔آؤں کی آوازیں آرہی تھی ۔۔۔۔شہریار اب مجھے کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔میرا اٹھنے کی کوشش کرنا بیکار ہی تھا
۔۔۔۔اس کے ہر دھکے کے ساتھ میں بیڈ کے اندر گھستی اور میرا سر تکیہ میں جا دبتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میرے چوتڑوں پر بیٹھے ہوئے لن کو تیزی سے دھکے دے رہاتھا اور آگے کی طرف جھکتے ہوئے اس
کا پورا وزن میرے کندھوں پر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 7 منٹ تک اس طرح طوفانی جھٹکے مارتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔وہ رکا اور مجھے سیدھا کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔اور پھر بغیر موقع دئیے میری ایک ٹانگ پر بیٹھتے
ہوئے دوسری ٹانگ بالکل کمری کی چھت کی طرف اٹھا دی ۔۔۔۔۔میرے منہ سے ایک کراہ نکلی ۔۔۔۔۔اور پھر اس کا سات انچی سانپ میری چوت میں گھس چکا تھا ۔۔۔۔۔میری تکلیف دہ آہیں پورے
کمرے میں گونج رہیں تھی ۔۔۔۔۔مگر شہریار کے کان شاید بند ہوچکے تھے ۔۔۔۔۔۔میری آنکھوں سے آنسو بہ رہےتھے ۔۔۔۔۔۔یہ درد بے شک قابل برداشت تھا ۔۔۔۔مگر اصل درد شہریار کا رویہ
دے رہا تھا ۔۔۔۔اس کی ساری محبت اڑ چکی تھی ۔۔ اس نے میری ٹانگ سے وزن ہٹا دیا اور دوسری ٹانگ کو نیچے کرتے ہوئیں دائیں بائیں پھیلا دیا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنی پوری طاقت سے ٹانگوں کو دائیں بائیں دبارہا
تھا ۔۔۔۔۔۔۔اور دوبارہ ایک ہی جھٹکے دوبارہ لن اندر گھسا دیا ۔۔۔۔میں اوپر کی طرف اچھلی ۔۔۔۔میں بری طرح سے تڑپ رہی تھی ۔۔اور میری آہیں میرے ہی کانوں میں واپس آ رہی تھی
۔۔۔۔۔اور وہ اس سارے منظر کو انجوائے کر رہاتھا ۔۔۔۔میں دو مرتبہ فارغ ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ اب تک میری بجانے میں لگا ہواتھا ۔۔۔۔۔اور پھر اس نے تیزی سے ٹانگیں
واپس موڑیں اور مجھے اپنے اوپر سوار کرنے لگا ۔۔۔۔۔میں ابھی اس کے لن کو دیکھ کر اندر ڈالنے کاسوچ ہی رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ شہریار نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور اس کے لن کی ٹوپی میری بچہ دانی
سے جا ٹکرائی ۔۔۔۔۔۔۔میں ایک جھٹکے سے شہریار کے سینے پر گری ۔۔۔۔۔اور اس نے اسی طرح سے میری کمر کے گرد ہاتھ باندھ لیے اور نیچے سے دھکوں کی مشین چلا دی ۔۔۔۔میری آہیں اور سسکیا
ں گونج رہیں تھی ۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔۔۔۔اور میرے دونوں ممے اس کے سینے پھر گھسٹ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ اس کی تیز ہوتی اسپیڈ بتا رہی تھی کہ وہ بھی فارغ ہونے والا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے کچھ دھکے تھے تو ایسے تھے کہ میں بالکل ہوا میں اچھل جاتی تھی ۔۔۔۔۔اور پھر وہ ایک زبردست چنگھاڑ کے ساتھ فارغ ہونے لگا ۔۔۔۔اس کی منی کا فوار میری چوت کا اندر پھوٹ
چکا تھا ۔۔۔۔اور اسی کے ساتھ ہی میں بھی ایک مرتبہ پھر چھوٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔میں بے دم ہو کراس کے اوپر گر گئی ۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر میں سانس بحال کرنے کے بعد شہریار اٹھا اور مجھے دوبارہ صوفے
پر پٹخ دیا اور میرے کپڑے میرے اور پھینک کر کہنے لگا ۔۔۔کہ میں نےاپنا فرض پورا کیا اب میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں نےا پنے کپڑے اٹھا ئے اور خاموشی سے باتھ روم چلی گئ اور
چینج کر کے صوفے پرلیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔ میری آنکھوں سے اب تک آنسو بہ رہے تھے ۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں شہریار سو چکا تھا ۔۔۔۔اور میں اسی طرح کروٹیں بندلتی رہیں ۔۔۔۔۔۔۔
صبح اٹھی تو پتا چلا کہ شہریار شہر جا چکا تھا ۔۔۔امی کو میری حالت سے اندازہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔انہوں نے مجھے ناشتہ میرے کمرے میں دیا اور پین کلر دے کر سلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ گذری تھی میری سہاگ رات ۔۔۔۔۔۔جس میں محبت اور چاہت کے علاوہ سب کچھ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو دنوں کے بعد میں نیچے اترنے کے قابل ہوئی اور پہلے کی طرح اپنے معمول میں لگ گئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دن ایسے ہی گذ ر رہے تھے کہ ایک دن میں مناہل اور ربیعہ کے کمرے سے رات گئے باتیں کرتے کرتے اپنے کمرے میں آرہی تھی ۔۔۔۔۔تائی اماں راحیلہ یعنی میری ساس کے کمرے
کے سامنے گزرتے ہوئے کچھ ناموس سی آوازی سنائی دیں اور میں ٹھٹک کر رک گئی ۔۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں ان کے دروازے سے آنکھ لگا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے سے نظر اندر ڈالتے ہیں میں حیران رہ گئی تھیں ۔۔۔۔میرے ابو جی اندر صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔انہیں اس وقت تو امی کی کمرے میں ہونا چاہئے تھے یہ اس وقت یہاں کیا کررہے ہیں ۔۔۔۔میں نے خود
سے سوال
کیا ۔۔اور کمرے میں تائی امی بھی نہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں اندر کے باتھ روم کا دروازہ کھلا اور تائی امی اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔اور میں اب حیرت سے اچھل ہی پڑی تھی ۔۔۔۔تائی امی نے ریڈ کلر کی صرف برئیزر اور پینٹی ہی پہنی تھی ۔۔۔اور تائی امی مسکراتی ہوئی باہر نکلی تھی اور بڑے ہی سیکسی انداز میں چلتے ہوئے ابو کیطرف جانے لگیں ۔۔۔ تائی امی کی موٹے اور گول ممے پوری شان سے کھڑے تھے ، چلتے ہوئے وہ ہلکے ہلکے باؤنس ہو رہے تھے ۔۔۔۔ اور تائی امی کی پیچھے کو نکلی ہوئی گانڈ بلاشبہ بے حد حسین ۔۔۔۔۔ان کی نرم و ملائم اورگوشت سے بھری ٹانگیں جن پر بالکل مناسب گوشت تھا ۔ان کی پتلی اور اندر کی طرف ٹرن ہوتی ہوئی کمر ۔۔بلا شبہ وہ کروی بوڈی کی ایک شاندار مثال تھیں ۔۔۔۔اور مموں کی طرف باہر کو کرو ۔۔۔۔کمر سے اندر کی طرف کرو اور پھرگانڈ سے باہر کی طرف ایک زبردست کرو جو کسی بھی سو سالہ بوڑھے لن میں کرنٹ دوڑا دے ۔۔۔۔۔اور سب سے بڑھ کر تائی امی کی کیٹ واک تھی ۔۔۔۔جو میرے بھی دلوں کو دھڑکا رہیں تھی ۔۔۔۔۔تائی امی مسکراتی ہوئی ابو کیطرف گئیں اور دونوں ٹانگیں ان کے ارد گرد رکھ کر ان کی گود میں بیٹھ گئی ۔۔۔۔ ابو کی چمکتی ہوئی آنکھو ں میں مجھے تائی امی کا پیار صاف دکھ رہا تھا ۔۔۔۔یہ تو مجھے پتا تھا کہ یہ دونوں آپس میں محبت کرتے ہیں اور تایا ابو ایسے ہی ان کے درمیاں آ گئے تھے ۔۔۔۔مگر یہ محبت یہ گل دکھائی گی یہ میری سوچ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو نے بغیر وقت ضائع کیے بغیر تائی امی کے ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔اور اپنے دونوں ہاتھوں سےتائی امی کے چوتڑ کو سہلانے لگے ۔۔۔۔۔۔۔گول گول موٹے چوتڑ جب باؤنس ہو رہے تھے تو میرے اندر بھی گد گدی مچ رہی تھی ۔۔۔۔۔ابو نے مسکراتے ہوئے تائی امی کو کہاکہ جان آج ٹائم کم ہے ۔۔۔ نازیہ کمرے میں انتظار کررہی ہے اس لئے جلدی جلدی کرنا ہو گا ۔۔۔یہ کہ کر ابو نے برئیزر کا ہک کھول دیا ۔۔۔۔اور میں نے تائی امی یعنی اپنی ساس کے مموں کی سائڈ نیچے کو گرتی اور باؤنس ہو تی دیکھی ۔۔۔ان کی کمر میری طرف تھی اور صرف سائڈ سے ہی ممے نظر آرہے تھے ۔۔۔۔تائی امی کے ممے بہت ہی بڑے تھے ۔۔۔۔ایک ایک ممے دونوں ہاتھوں سے سنمبھالنے کا قابل تھے ۔۔۔۔۔ابونے تائی امی کی کمر میں ہاتھ ڈال کر انہیں اٹھایا اور دوسر ے ہاتھ سے ان کی پینٹی کی اتارنے لگے ۔۔۔تائی امی نے بھی ان کی ہیلپ کی اور جلد ہی اپنی پینٹی سے آزاد ہو گئیں ۔۔۔۔۔ابو جی نے اب جلدی سے تائی امی کو اٹھایا اور صوفے پر ہی لٹا دیا ۔۔۔تائی امی کی ایک ٹانگ صوفے کے اوپر تھی جبکہ دوسری ٹانگ صوفے سے نیچے لہرا رہی تھی ۔۔۔۔ابو جی نے جلدی سے ان ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر اپنا منہ ان کی چوت کے لبوں پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔اور تائی امی کی منہ سے ایک لذت آمیز آہ نکلی ۔۔۔جو مجھے بھی گیلا کرنے لگی تھی ۔۔۔۔میں نے بھی اپنی قمیض میں ایک ہاتھ ڈال کر اپنے ممے مسلنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔اور دوسرا ہاتھ اپنی شلوار میں ڈال دیا ۔۔۔۔ابو کی زبان اب تائی امی کی چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی ۔۔۔ اور ان کے دونوں ہاتھ اب تائی امی کی سینے کی گولائیاں ناپ رہے تھے ۔۔۔۔تائی امی کے منہ سے جتنی سیکسی آوازیں نکل رہی تھی وہ میرے لئے بہت ہی حیران کن تھیں ۔۔۔۔۔۔بلا شبہ تائی امی بہت ہی گرم خاتون تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ابو نے بھی اب اپنی زبان کی حرکت بڑھا دی اور پانچ منٹ میں تائی امی کو فارغ کر دیا ۔۔۔۔۔تائی امی اب اٹھیں اور ابو کی شرٹ اتارنے لگیں مگر ابو نے اشارہ کیا کہ ٹائم کم ہے اور اپنی پینٹ کا بٹن کھول کرتھوڑی سی نیچے سرکا دی ۔۔۔۔۔۔۔تائی امی اب ابو کے قدموں میں بیٹھ کر قلفی کی طرح ان کے لن کو چوس رہیں تھیں جو کہ اپنے اصل سائز میں آتا جا رہا تھا ۔۔۔۔ابو کا لن کوئی آٹھ انچ لمبا اور ڈھائی انچ موٹا تھا ۔۔۔۔یعنی کے شہریا ر سے تھوڑا بڑا ۔۔۔۔مگر ابوکے لن کا کالا رنگ اسے تھوڑا خوفناک بنا رہے تھے ۔۔۔۔۔تائی امی اب ابو کا پورے لن کو اپنے حلق میں اتارتی تھیں اور پھر باہر نکالتی ۔۔۔۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں ابو کا لن تھوک سے لبا لب بھر چکا تھا ۔۔۔۔۔اور تائی امی اپنے دونوں ہاتھوں سےاس جڑ سے ٹوپی کی طرف مسلتی اور پھر ٹوپی سے جڑ کی طرف ۔۔۔۔۔ابو کو شاید بہت ہی جلدی تھی اس لئے ابو نے تائی امی کو کھڑا ہونے کا اشارہ کیا اورانہیں کھڑے کھڑے ٹانگو ں سے اس طرح اٹھایا کہ ان کی چوت ابو کو سامنے آگئی ۔۔۔۔تائی امی نے جلدی سے ابو کے لن کو اپنی چوت کے لبوں پر رکھا۔۔۔اور ابو نے نہیں تیزی سے بھینچ لیا ۔۔۔۔۔تائی امی کی منہ سے آہ نکلی اور پھرابو اپنے ہاتھو ںسے تائی امی کی پورے بدن کو اپنے لنڈ پر دے مارتے ۔۔۔۔تائی امی کی گرم گرم آہیں کمرے میں گونج رہیں تھی ۔۔۔۔ابو کچھ دیر تائی امی کو ایسے ہی چودتے رہے ۔۔کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں گونج رہیں تھیں ۔۔۔۔۔پانچ منٹ تک ایسے ہی چودتے ہوئے ابو تھکنے لگے تو تائی امی کوصوفے پر لٹا دیا ۔۔۔۔تائی امی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی ٹانگو ں کو اوپر کر کر پکڑ لیا ۔۔۔۔ابو سیدھےصوفے پر چڑھ گئے اور سیدھے ایک ہی جھٹکے ان کی چوت میں لن گھسا دیا ۔۔۔۔۔تائی امی کی سسکیا ں اب بڑھتی جا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ابو کے جھٹکے تیز ہوتے جا رہے تھے ۔۔۔۔اور تائی امی کی آہیں بھی اب تیزی سے نکل رہی تھی ۔۔۔دونوں اپنی منزل کے قریب تھیں اور یہاں میں بھی اپنی درمیان انگلی اپنی چوت میں ڈال کر ہلا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔دس منٹ تک ابو ایسے ہی تائی امی کو چودتے رہے اور تائی امی کے اندر ہی فارغ ہوگئے ۔۔۔۔اور اور پھر تائی امی کو چومنے چاٹنے لگے ۔۔۔۔میں جلدی سے اوپر اپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔۔۔ اور اپنی انگلی کی مدد سے خود کو فارغ کیا ۔۔۔ساتھ ساتھ میرے تصور میں تائی امی کا گرم اور سیکسی بدن آرہا تھا ۔۔ان کے بدن میں عجب کشش تھی اور میں لڑکی ہونے باوجود اس سے بچ نہیں پا رہیں تھیں ۔۔۔ایسی عورتوں کو شاید رسیلی یا نمکین عورت کہنا مناسب ہو گا ۔۔جن کے چہرے پر فخر اور غرور کے ساتھ سیکس سے بھرپور ہوٹ نیس بھی ہو ۔۔۔۔۔میں اب اپنے ابو اور تائی امی کے تعلق کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔پتا نہیں یہ تعلق کب سے چل رہا تھا ۔۔۔۔ایسی ہی باتیں سوچتے ہوئے ۔۔۔میں نیند کی وادی میں گرتی چلی گئی ۔۔۔اگلے دن اٹھی توا می نے ناشتہ بنایا ۔۔۔۔نیچے ڈائننگ ٹیبل پر پہنچی تو خوب گہما گہمی تھی ۔۔۔۔پتا چلا کہ میرے شوہر شہریار اور دیور راجہ اپنی کالج کی چھٹیوں میں گھر آ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ سن کر میں ایک دم خوش ہو گئی ۔۔۔۔رات والا واقعہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا تھا ۔۔۔۔شام تک میں بھرپور تیاری کرچکی تھی ۔۔اپنی جسم سے ایک ایک بال صاف کر چکی تھی ۔۔۔آج پھر میری چوت چدنے والی تھی ۔۔۔۔۔۔بے شک شہریار پچھلی بار مجھے صاف منع کر کے گیا تھا ۔۔مگر میں پھر بھی امید میں تھی۔۔۔۔۔شام ہوتے ہی وہ پہنچ چکے تھے ۔۔سب نے مل کر کھانا کھایا اور پھر کچھ دیر ہنستے مسکراتے رہے ۔ میرا دیور راجہ سب کو ہنسارہا تھا ۔۔۔مناہل اور ربیعہ بھی اپنی بھائی کے آنے سے بہت خوش تھیں اور دونوں بھائی کے آس پاس بیٹھی اپنے تحفے لے رہی تھی ۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد شہریار اوپر کی طرف چل پڑا تو میں بھی سب کو شب بخیر کہ کر اوپر کیطرف چل پڑی ۔۔۔۔۔۔ کمرے میں پہنچ کر میں شہریار کے قریب بیٹھ گئی اور اس سے اس کا حال پوچھنے لگی ۔۔۔۔وہ بے دلی سے میرےسوالات کا جواب دے رہا تھا ۔۔ میں نے اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے کہا کہ آپ کو کوئی احساس بھی کہ میں کس طرح دو مہینے آپ کی یاد میں تڑپی ہوں ۔۔وہ مجھے حیرانگی سے دیکھتا ہوا بولا کہ میں کیا کروں ۔۔۔۔مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔میں انہیں منانے کی کوشش کرنے لگی اور ساتھ خود کو بے لباس کرنے لگی ۔۔۔کل ابو اور تائی امی کا سیکس دیکھ کر میری گرمی حد سے بڑھ چکی تھی اور آج میں سب کچھ خود ہی کرنے پر راضی تھی ۔۔۔۔میں نے جلد ہی اپنے سارے کپڑے اتار کر اس کی گود میں آ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔اور ان کے ہونٹوں کو چومنے اور چوسنے لگی ۔۔۔۔۔۔ان کا ایک ہاتھ میری کمر پر پھر رہا تھا ۔۔۔ وہ بھی مرد تھے اور میں ان کی بیوی تھی ۔۔۔۔ان سے برداشت نہیں ہو سکا ۔۔۔اب وہ ابھی اٹھے اور جلدی سے اپنے سارے کپڑے اتار نے لگے ۔۔۔۔۔جلدہی وہ پورے بے لباس تھے ۔۔۔۔۔میں دوبارہ ان کے لنڈ کو اپنی چوت کے نیچے دبا کر ان کی گود میں بیٹھ گئی ۔۔۔اب وہ بڑے مزے سے میرے سینے کے گول ابھاروں کو مسل رہے تھے ۔۔۔اور میرے منہ سے آہیں اور سسکیاں نکل رہی تھی ۔۔۔میں بڑی بے چینی سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔جیسے جیسے ان کے ہاتھ میرے مموں پر حرکت کررہے تھے ۔۔۔میرے سامنے تائی امی کے بڑے بڑے گول گول سرخ و سفید ممے نظر آنے لگے جن پر ابو کے ہاتھ تیزی سے گھوم رہے تھے ۔۔۔۔میری چوت اب تیزی سے گیلی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔میں نے بھی جلدی سے رخ موڑا اور ان کے لن کو سیدھ کر کے اس پر بیٹھنے لگی ۔۔شہریار کی طرف پیٹھ کر کہ میں نے آہستگی سے ان کے لن کی ٹو پی کو چوت میں پھنسائی اور ان کی ٹانگیں پکڑ کر آہستہ آہستہ بیٹھنے لگی ۔۔۔۔میں ابھی بیٹھ ہی رہی تھی کہ میں نے باہر کے دروازے کے باہر سایہ حرکت کرتے دیکھا ۔۔۔۔یہ اچانک اتنی تیزی سے ہوا کہ میں فورا شہریار کے پورے لن پر بیٹھ گئی اور میرے منہ سے ایک بے اختیار آہ نکلی ۔۔۔۔میں نے تھوڑا اور غور کیا تو واقعی میں باہر کوئی تھا ۔۔۔۔ میرا ساتھ والا روم راجہ کا تھا ۔۔۔وہ بھی ہو سکتا تھا۔۔۔۔یا پھر کوئی اور ۔۔۔؟
میں اب تیزی سے شہریا ر کے لن پر اوپر نیچے ہو رہیں تھی ۔۔ میرے دونوں ہاتھ میرے سنگترے جیسے گول گول مموں پر گھوم رہے تھے اور نیچے شہریار کا مضبوطی سے میری گانڈکو پکڑا ہوا ہاتھ مجھے اوپر اچھال رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میرے منہ سے آہیں اور سسکیاں نکل رہیں تھی ۔۔۔۔اور میں باہر اپنے دیور کا خیال کرتے ہوئے اپنی مشہورہآہ ۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔۔آؤں کرنے لگی ۔۔۔۔جو سامنے والے کوہیجان میں مبتلا کر دیتی تھی ۔۔۔۔باہر پتا نہی کیا نتیجہ تھا ۔۔مگر شہریار پورے جوش میں آ چکا تھا ۔۔۔اس نے ان نیچے سے جھٹکے مارنے شروع کے دئیے ۔۔کئی بار تو وہ مجھے ہوا میں اچھا دیتا تھا ۔۔۔۔ اور پھر میرے فارغ ہونے کا ٹائم آ چکا تھا ۔۔۔۔میں نے ایک تیز چیخ ماری اور جھڑتی چلی گئی ۔۔۔۔۔ شہریار کا لن ابھی تک کھڑا تھا ۔۔میں اس کی طرف پلٹی اور دیوانہ وار چومنے لگی۔۔۔کچھ بھی تھا وہ میرا شوہر تھا ۔۔ میں اٹھی اور دروازے کی طرف منہ کر گھوڑی بن گئی اور شہریار تیزی سے اپنے لن کو سہلاتا ہوئے میرے پیچھ آیا اور گھٹنے کے بل بیٹھ کر پوزیشن سمبھال لی ۔۔۔میں نے نیچے سے ہاتھ بڑھا کر اس کا لن تھا ما جو پہلے سے سخت اور لمبا لگ رہا تھا ۔۔۔۔اور اس اپنی چوت کی دڑار میں پھنسا دیا اور دونوں ہاتھ بیڈ پر رکھ کر تیار ہو گئی ۔۔۔۔مگر یہ میری خام خیالی تھی کہ میں تیار تھی ۔۔۔شہریار کے ایک دھکے سے میں آگے کی طرف گری اور ساتھ ہی میری ایک چیخ نکلی ۔۔۔۔ شہریار نے دوبارہ مجھے پکڑا اور دھکوں کی ایک مشین چلا دی ۔۔۔۔۔میری آہوں کا بھی ایک نہ رکنے والا طوفان شروع ہو چکا تھا ۔۔۔۔ میرے چھوٹے چھوٹے گول گول ممے بار بار اوپر نیچےٹکرا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اور پھر شہر یار کو یہ شاید اچھا نہ لگا ۔۔اس نے آگے کو جھک کر انہیں تھا م لیا ۔۔۔۔۔ہمارا دھکا اور شہریار کے میرے ممے پکڑے ہوئے ہاتھ میں تھوڑا بھی گیپ آتا تو میری چیخ نکل جاتی ۔۔۔۔ایک تو چھوٹے چھوٹ گو ل ممے اور اوپر اسقدر تیز کھنچاؤ ۔۔۔۔میری جان نکلنے والی ہو گئی تھی ۔۔۔شہریار کےدھکے اب نان اسٹاپ ہو گئے تھے اور اسی طرح وہ دھکے مارتے ہوئے فارغ ہوگئے ۔۔۔۔۔۔میں آگے کی طرف گری اورایک بار پھر جھڑ گئی ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے امی کے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی اور پھر میرے کمرے کے باہر والا سایہ تیزی سے اٹھا اور پھر میں نے اپنے دیور راجہ کا دروازہ بندہونے کی آواز سنی ۔۔۔۔۔۔ میں بے حد تھک چکی تھی ۔۔۔۔۔مین سیدھی ہو کر لیٹی اور اسی طرح شہریا ر کی بانہوں میں سوتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن جب اٹھی تو شہریار وہاں نہیں تھا ۔۔۔۔۔ تائی امی نے آ کر بتایا کہ وہ نیچے ناشتہ کر چکا ہے۔۔تائی امی نے ناشتہ میرے کمرے میں بھجوا دیا تھا ۔ناشتہ کر کے میں لیٹ گئی ۔۔رات کی چدائی اب تک بھاری پڑ رہی تھی میں نے پین کلر لی اور ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں سو چکی تھی ۔۔شام کو اٹھی اور کھانا وغیرہ بنا یا ۔۔۔اور حسب معمول کھانا کھا کراپنے کمرے میں آگئی ۔۔۔دیور راجہ اپنی بہنوں کے ساتھ نیچے ہنسی مذاق کر رہا تھا ۔۔۔۔شہریار کو تایا ابو کی کال آئی تھی ، انہوں نے اسے بلایا تھااور وہ رات کو ہی جانے کی تیاری کرنے لگے ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں کمرے میں اکیلی تھی ۔۔۔۔ اسی طرح میں دوبارہ سے نیند کی آغوش میں چلی گئی ۔۔۔رات کے کوئی تین بجے تھے کہ گھٹی گھٹی چیخوں کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی ۔۔۔امی اور ابو کی آوازیں اتنے دور سے نہیں آتیں ۔۔۔یہ یقینا میرے دیور کے کمرے سے آرہی تھی ۔۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہاں کون ہو سکتی ہے ۔۔۔۔چیخیں ایسی تھی کہ جیسے کوئی سخت اذیت میں ہو ۔۔۔۔میں جلدی سے اٹھی اور اپنا دروازہ آہستگی سے کھول کر دیور کے دروازے کے باہر آ کر اپن آنکھیں دروازے پر ٹکا دی ۔۔افف ۔۔۔۔کیا منظر تھا ۔۔لائٹ بالکل مدھم تھی مگر میں اپنی امی کو پہچان چکی تھی اور یہ اذیت بھری آوازیں انہیں کی تھی ۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آیا کہ یہ اتنی تکلیف میں نہیں ہے۔۔۔ امی راجہ کے سامنے ٹانگیں پھیلائیں لیٹی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔۔راجہ کا ایک ہاتھ امی کے منہ میں تھا ۔۔۔۔او ر دوسر ا ہاتھ امی کی چوت پر مسل رہا تھا ۔۔۔۔۔امی درد کی شدت میں راجہ کے ہاتھ کو بری طریقے سے کاٹ رہیں تھی ۔۔۔ان کےبھاری بھرکم ممے ہر جھٹکے کا ساتھ اوپر کو اچھلتے اور پھر نیچے کو گرتے ۔۔۔۔۔میں ابھی تک امی کی آوازوں کو سمجھ نہیں پائی تھیں ۔۔۔۔۔ان میں اذیت کیوں تھی ۔۔۔مزے تو بہت ہی کم تھا ۔۔۔۔۔راجہ کی اسپیڈ تیز ہورہی تھی اور ساتھ ساتھ امی کی آہیں اور بھی تکلیف دہ ہو گئیں ۔۔۔میں اب تک راجہ کا لنڈ دیکھ نہیں پا رہی تھی ۔۔۔روشنی بہت ہی کم تھی ۔۔۔۔اور پھر راجہ نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور امی کے اوپر منی کی بارش کردی ۔۔۔اس کی منی بہت ہی زیادہ ۔۔۔۔۔شہریار کی چار دفعہ کی منی ملائی جائے تو یہ ایک دفعہ کی منی بنتی تھی ۔۔۔۔۔امی کی آہیں اب کچھ تھم چکی تھیں اور وہ اب راجہ سے گتھم گتھا ہوئی تھیں ۔۔۔اور پھر امی نے راجہ سے کہا کہ اب چلنا چاہئے کہیں تمہارے چچا نہ اٹھ جائیں ۔۔۔۔امی کپڑے پہن کر اٹھنے لگی تو ایسے لگا جیسے لہرا رہیں ہوں ۔۔راجہ انہیں سہا را دے کر باہر لانے لگا تو میں بجلی کی تیزی سے اپنے کمرے میں گھس گی۔۔۔۔
اس پور ے نظارے نے مجھے ایک بار پھر گرم کر دیا تھا ۔۔۔۔مگر میرا شوہر ۔۔۔۔۔مجھے سے بہت دور تھا ۔۔۔ میں انہیں خیالوں میں سو گئی ۔۔۔اگلا دن بھی حسب معمول گذرا تھا ۔۔۔امی بڑی چاہت سے راجہ کو دودھ بھرے گلاس پلا رہی تھی ۔۔۔۔مجھے شک ہو ا کہ کہیں آج رات بھی ان کا ارادہ نہ ہو ۔۔۔۔۔اور وہیں ہوا رات کے دو سے تین کے درمیان کاٹائم تھا ۔۔۔۔امی کی اذیت بھری چیخ مجھے دوبارہ اٹھا چکی تھی ۔۔آج تو میں سوچ چکی تھی کہ ان چیخوں کا راز کھولوں ۔۔اسی چیخیں تو میں زندگی میں کبھی نہیں سنی تھی ۔۔۔۔میں تیزی سے باہر آئی اور دیور کے دروازے پر نظر یں لگا دیں ۔۔۔۔راجہ بیڈ پر لیٹا ہوا تھا ۔۔۔اور امی کے ہاتھ میں برتن میں کوئی سفید سی چیز تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور امی نے و ہ سفید چیز لے کر اپنی چوت میں گھسیڑ دی تھی ۔۔۔دوبارہ ایک مٹھی بھری اور راجہ کےدرمیان بیٹھ گئی ۔۔۔۔دوسرے ہاتھ سے انہوں نے جو چیز پکڑی تھی وہ میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی ۔۔۔۔۔امی نے جب اس پر پر وہ سفید سی چیز ملی تو مجھے اندازہ ہو ا کہ وہ مکھن تھا ۔۔۔۔۔مگر وہ جس چیز پر مل رہیں تھیں وہ ۔۔۔۔۔کیا تھی ۔۔۔۔اور پھر جب میں نے غور کیا تو میں آنکھیں پھٹنے والی ہو گئیں تھی ۔۔۔۔۔وہ ایک عدد لن ٹائپ کی چیز تھی ۔۔۔۔۔امی ہی کی بھری ہوئی کلائی کے جیسا ۔۔۔۔کوئی دس سے بارہ انچ تک لمبا ۔۔۔اور موٹائی کا میں اندازہ نہیں لگا پا رہیں تھی ۔۔۔امی نے اچھے سے اس گھوڑے جیسے لن پر مکھن مل دیا تھا اور اس پر سواری کرنے کو تیار تھیں ۔۔۔۔امی آدھے سے زیادہ کھڑی ہوئی تھی اور لن کا ٹوپا ان کی چوت کے سرے پر تھے ۔۔امی نے آہستہ آہستہ بیٹھنا شروع کیا ۔۔۔ابھی ٹوپا اندر ہی گیاتھا کہ امی کے دوبارہ اذیت بھری چیخیں نکلنا شروع ہو گیں ۔۔۔۔امی نے تیزی سے اپنے مموں کو مسلنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔وہ بار بار اپنے نپلز کو اوپر کی طرف کھینچ رہیں تھی ۔۔۔۔ان کا پورا بدن نیچے سے کانپ رہاتھا ۔۔۔۔۔اور بلاشبہ ان کی چوت سے مکھن تیرتا ہوا باہر آرہا تھا ۔۔۔۔امی اب آہستہ آہستہ آدھا لن لے چکی تھیں ۔۔۔۔ان کے پیر بری طریقے سے کانپ رہے تھے ۔۔۔۔ان کے منہ سے افف ۔۔۔ہائے میں مرگئی راجہ ۔۔۔کی سسکاریاں نکل رہیں تھی ۔۔۔۔۔میں نے نیچے سے راجہ کا ہاتھ امی کی بھری ہوئی گول مٹول گانڈ پر ٹکتے ہو ئے دیکھا اور ۔۔جو امی کی گانڈ کو بڑی بے دردی سے مسل رہا تھا ۔۔۔۔۔امی کی سسکاریاں اب باہر تک آرہی تھیں ۔۔۔بلکہ میرا خیال تھا کہ نیچے بھی جارہیں تھی ۔۔۔۔۔اتنے میں راجہ نے امی اپنی طرف بلایا ۔۔۔امی نے ایک ہاتھ اپنی چوت کے نیچے سے لنڈ کو پکڑا اور آہستگی سے آگے ہوتے ہوئے راجہ کے سینے سے لگی گئیں تھی ۔۔۔۔۔اس کے بعد میں نے راجہ کے لن کو کسی پسٹن کیطر ح اندر گھستے ہوئے دیکھا ۔۔مکھن تیرتا ہوا اس کے لن کو پورا تر بتر کر چکا تھا ۔۔۔۔امی کی آہوں نے مجھے بھی ہلا دیا تھا ، وہ مزے سے زیادہ تکلیف میں تھیں ۔۔۔۔۔اور پھر راجہ نے اپنے دونوں ہاتھ سے امی کی بھری ہوئی گانڈ کو پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔میری امی کی گانڈبہت ہی گول اور گوشت سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔شاید میری بھی اتنی خوبصورت اور گولائی میں نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔تائی امی کےگوشت سے بھرے ممے خوبصورت ۔۔۔۔اور میری امی کی اسپیشل چوتر اور میری ۔۔۔۔۔۔شاید سسکیوں اور آہوں کی آوازتھی ۔۔۔۔جو سامنے والے کے جذبات میں طوفان برپا کر دیتی تھی۔۔۔۔ہم تینوں میں ایک ایک کوالٹی موجود تھی ۔۔۔اور ہم تینوں اس کا عنقریب نظارہ پیش کرنے والے تھے ۔۔۔۔امی شاید ایک زبردست سسکی کے ساتھ فارغ ہو چکی تھی ۔۔۔۔وہ جلدی سے اٹھیں اور راجہ کے لن کو دونوں ہاتھوں سے مسلنے لگی ۔۔۔۔۔۔مگر وہ دو کیا چار ہاتھوں میں بھی بے مشکل سماتا نظرآرہا تھا۔۔۔۔۔امی نے جلدی ہی راجہ کو جھڑنے پر مجبور کردیا تھا ۔۔۔اور پھرایک جھٹکے سے ایک فوارہ چھوٹا ۔۔۔۔منی کاایک خوب بڑا سا چھینٹا امی کے منہ پر گرا تھا ۔۔۔۔اس کے پیچھے دوسرے چھینٹا ان کے مموں کو گیلا گر گیا ۔۔۔ایسالگ رہا تھا جیسے کوئی جگ سے پانی پھینک رہا ہے ۔۔۔ راجہ نے آگے بڑھ کر امی کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔ اورپھر راجہ نے جب امی کو بتایا کہ میں باہر دروازے پر کھڑی ہوں ۔۔۔تو پہلے تو میں حیران رہ گئی اور پھر میری چوت سے پانی کا گرم گرم قطرہ نیچے گرنے لگا۔۔۔۔۔ کیونکہ میں راجہ کے چہرے پر اپنی محبت صاف دیکھ رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
امی کی اپنے بارے میں رائے سن کر میں کافی سے زیادہ حیران تھی ۔۔۔۔اس رات امی کو دیکھ کر میری بھی حالت بھی عجیب سی تھی ۔۔۔۔ میں بھی راجہ سے چدوانا چاہ رہی تھی ۔۔مگر کب اور کیسے ۔۔یہ پتا نہیں تھا ۔۔۔۔میں امی کے اٹھنے سے پہلے ہی میں اپنے کمرے میں واپس آ چکی تھی ۔۔۔آ کربستر پر لیٹی تو دوبارہ سے ساری فلم میرے آنکھوں کے سامنے چلنے لگی ۔۔۔۔امی کو کبھی ایسے دیکھنا ہو گا یہ تو میں سوچا نہیں تھا ۔۔۔۔۔مگر پچھلے دو دنوں سے کچھ الگ ہی ہو رہا تھا ، پہلے تائی امی اور ابو کو دیکھا ۔۔۔اس کے بعد امی اور راجہ کو ۔۔۔۔ یہی سب سوچتے ہوئے میں نیند کی گہرائیوں میں جا چکی تھی ۔۔۔۔۔ اگلی صبح اٹھی اور تیار ہو کر ناشتے کے لئے نیچے آ گئی ۔۔۔ڈائننگ ٹیبل پر سارے ہیں موجود تھے ۔۔۔سوائے تایا ابو اور شہریار کے ۔۔۔۔امی بھی اب خوب تیار ہو کر نیچے آتی تھیں ۔۔۔اور قمیض سے ان کی گہرائیاں اب پہلے سے کافی نمایاں ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ناشتہ کرنے کے بعد راجہ اور ابو تو کھیتوں کی طرف چلے گئے اور میں نیچے برتن سمیٹ کر اپنے کمرے میں آ چکی تھی ۔۔۔۔ کمرہ سیٹ کرنے کے بعد کچھ کام بچا نہیں تو میں دوبارہ سے بیڈ پر لیٹ گئی ۔۔۔۔اور راجہ کا لن میری آنکھوں کے سامنے تھے ۔۔۔اب تک میں نے ابو اور شہریار کا ہی دیکھا تھا ۔۔۔۔ابو کا آٹھ انچ سے کچھ زیادہ تھا اور شہریا ر کا صرف 7 انچ تھا ۔۔۔۔۔مگر شاید ان دونوں کے لنوں کو ملایا جائے تو ایک راجہ کا بنتا تھا ۔۔۔۔اور پھر امی کی تکلیف سے بھری ہوئی چیخیں اور آہیں یاد آئیں تو مجھے لگا کے راجہ سے دور رہنا ہی بہتر ہو گا ۔۔۔۔امی تو شادی شدہ تھی ان کی عمراور باڈی دونوں بہت ہی تجربے دار تھی ۔۔مگر ان کی یہ حالت تھی تو میرا کیا ہونے والا تھا ۔۔۔۔یہی سوچ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔دروازہ کھولا تو سامنے امی کھڑی تھیں ۔۔۔میں انہیں اندر لے آئی ۔۔۔بیڈ پر بیٹھ ہم دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔۔۔۔شاید رات والی بات کے بارے میں ہی کوئی بات کرنے والی تھی ۔۔۔میں نے ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور کہا امی جو کہنا چاہتی تھی ، کہیں۔۔ میں تیار ہوں ۔۔۔۔امی نے دوبارہ سے وہی کہانی سنائی کہ تمہارے دادا کے ایک غلط فیصلے نے ہماری پور ی زندگی عجیب ڈگر پر ڈالی دی ہے ۔۔۔تمہارے ابا کی پہلی اور آخری محبت تمہاری تائ امی تھیں ۔۔۔۔اس لئے ان کی مجھ سے کبھی اتنی نہ بن سکی ۔۔۔نہ وہ مجھے ٹھیک سے پیار کر سکے ۔۔۔۔ان کا پورا پیار تمہاری تائی کے لئے وقف تھا ۔۔۔اسی وجہ سے بڑے بھائی اور تمہارے تایا شہر میں ہی رہتے تھے ۔۔۔اور کم ہی یہاں آتے تھے ۔۔۔یہ سب تو ایسے ہی چل رہا تھا مگر اب تمہار ی شادی کے بعد بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے ۔۔میں نہیں چاہتی کے تم بھی ایسے ہی سسک سسک کر پوری زندگی محبت کو ترسو ۔۔۔۔میں نے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔۔کہ میں شہریار کے ساتھ بہت خوش ہوں وہ مجھے سے بہت پیار کرتے ہیں ۔۔۔۔امی کہنے لگی کہ بیٹی مجھے سب پتا ہے ایک تو راجہ نے بھی تمہاری پچھلی رات کی کہانی سنائی ہے ۔۔۔۔اورمیں تمہاری ماں ہوں ۔۔تم مجھ سے کچھ نہی چھپا سکتی۔۔۔اور شہریار میرے بہت زیادہ قریب ہے ۔۔وہ تمہاری شادی سے پہلے ہی میرے پاس آیا تھااور کہا کہ اس شادی کو روکیں میں شہر میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں ۔۔۔میں نے تمہاری تائی امی سے بھی بات کی تھی ۔۔۔مگر اس گھر کے مردوں کو سمجھانا بڑا مشکل ہے ۔۔یہ شادی کے فیصلے خود ہی کرتے تھے ۔۔۔۔اس لئے میں سوچ رہی ہوں کہ شہریار سے بات کروں اور وہ تمہیں طلاق دے دے ۔۔۔تاکہ ہم کہیں تمہاری کہیں اور شادی کریں ۔۔۔میں یہ سن کر ایک دم گھبرا گئی اور انہیں سختی سے منع کردیا کہ جیسا بھی ہے اب میں یہی رہوں گی ۔۔۔میں نے کسی اور سے شادی نہیں کرنی ۔۔۔میں اب شہریار کے علاوہ کسی کا نہیں سوچ سکتی ۔۔۔۔امی کہنے لگی کہ شہریار تو اب کئی سالوں تک نہیں آیا کرے گا ، شاید وہیں شادی بھی کے لے ۔۔۔تم کیسے رہوگی ۔۔۔جسم کو کھانے پینے کے علاوہ اور بھی طلب ہے ۔۔میں نے کہا کےاس کا بھی کوئی نہ کوئی حل نکال لوں گی ۔۔۔۔آپ یہ بتائیں کہ آپ کو پتا ہے کہ ابو بھی تائی امی کے کمرے میں جاتے ہیں ۔۔۔دو دن پہلے میں انہیں وہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ امی کہنے لگیں ہاں بیٹی میں جانتی ہوں ۔۔۔ہماری شادی کے کچھ دن بعد سے ہی شروع ہے ۔۔۔۔امی کا اداس چہرہ دیکھ کر میرا بھی دل اداس ہو رہا ہے ۔۔۔امی کہنے لگیں کہ تم اداس نہ ہو گڑیا ۔۔۔بس جو ہونا تھا ہو گیا ۔۔۔امی پوچھنے لگیں کہ تم نے تائی امی کے کمرے میں کیا دیکھا اور پھر میں نے ابو کی جلد بازیاں اور تائی کےجھٹکے سب سنا دئیے ۔۔۔۔ امی کے چہرے پر اشتیاق کی جھلک رہا تھا ۔۔۔۔امی نے ان کا لائیو پرو گرام اب تک نہیں دیکھا تھا ۔۔۔پھر امی کہنے لگیں کو تم تو بڑی تیز نکلی مجھے بھی دیکھ لیا اور اور اپنی تائی کو بھی ۔۔۔۔زیادہ مزہ کس میں آیا ۔۔۔میں نے کہا کہ ابو اب بھی کافی جوان ہیں ۔۔۔مگر جو مزہ آپ کو دیکھنے میں آیا وہ اپنی والی سہاگ رات میں بھی نہیں ملا ۔۔۔۔۔آپ کی آہوں اور سسکیوں نے مجھےگہر ی نیند سے دو بار اٹھایا ۔۔۔اور پھر جو میں نے دیکھا اس نے تو مجھے دہلا ہی دیا تھا ۔۔۔امی بھی مسکراتے ہوئے کہنی لگیں ۔۔۔بیٹی اس راجہ نے تو دو راتوں میں ہی میرے پچھلے بیس سالوں کی کسر نکال دی ہے ۔۔۔پہلی رات تو میں کھڑے ہونے کے قابل ہی نہیں تھی ۔۔۔۔اس کا لن ہے یا گھوڑے کا ۔۔۔میں خود بھی ابھی آدھے سے زیادہ نہیں لے پاتی ۔۔۔۔۔۔امی کی باتیں سن کر مجھ پر بھی گرمی چڑھی رہیں تھی ۔۔۔امی کے بھی میرے ہاتھوں میں گرمی بڑھ رہی تھی ۔۔۔اور ان کے آنکھوں کی سرخی مجھے اور زیادہ ہوٹ کر رہی تھی ۔۔۔میں نے اس سے پہلے لیزبین کا سنا ہی تھا مگر اپنی ہی امی کے ساتھ ۔۔۔۔میں بہت زیادہ جھجک رہی تھی ۔۔۔مگر دل کر بھی بہت رہا تھا ۔۔۔کہ امی کے جسم کو چھو لوں ۔۔۔جسے رات کو میں نے بے لباس دیکھا تھا ۔۔میں نے امی سے پوچھا کہ امی آپ مجھ سے کتنا پیار کرتی ہیں ۔۔۔امی نے کہا کہ کوئی اپنی اکلوتی بیٹی کو کتنا پیار کرتا ہو گا ؟؟؟ ۔ میں نے امی سے کہا کہ میں آپ کی گود میں سر رکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔امی نے جلدی سے مجھے کھینچ کر میرا سر اپنی رانوں پر رکھ دئیے ۔۔میں نے اپنی ٹانگیں سیدھ کر لیں ۔۔۔اور سوچ رہی تھی کی آگے کیا کروں ۔۔۔امی بھی پھر امی ہی تھی انہوں نے میری آنکھیں پڑھی لی تھی ۔۔۔۔۔اور میرے ہاتھوں کو پکڑ کر چوم لیا ۔۔۔۔میں امی کی گود میں سر رکھ کر لیٹی سوچ ہی رہی تھی کہ امی نے اپنے گرم گرم ہونٹ میرے ماتھے پر رکھ دئیے ۔۔۔۔میں نے جلدی سے انہیں دیکھا اور اور اپنے ہاتھ ان کے سر پر رکھ کر بالوں میں انگلیاں پھیرنے لی ۔۔۔۔۔ امی کے ہونٹ تھے بہت ہی گرم اور نرم تھے ۔۔۔۔۔بالکل گلاب کی پتیوں جیسے ۔۔۔امی میرے ماتھے کو چوم رہیں تھی ۔۔۔پھر آنکھو ں کو چومتی ہوئی میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دئیے ۔۔۔ایک لذت آمیز لہر میرے پور ےجسم میں دوڑ گئی ۔۔۔۔ایک عجیب سا سسپنس اور سنسنی ہو رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔ امی کے سرخی مائل بال میرے چہرے پر لہرا رہے تھے ۔۔۔اور امی کے بدن کی مہک ۔۔۔۔۔ وہ تو مجھے پاگل کر رہی تھی ۔۔۔ گلاب کی پتیوں کی طرح کی مہک جو قریب آنے والے کو اپنے حصار میں لے ۔۔۔ساتھ ہی شہوت سے بھرا ہو ایک ایسا بدن جو دیکھنے والوں کے دلوں میں جولانیا ں بڑھکا دے ۔۔۔۔پھر چھونے والا کیسے بچ پاتا ۔۔۔۔ان کے ہونٹوں کی ٹچ سے میرے پورے بدن میں لذت کے فوارے چھوٹ رہے تھے اور ۔۔۔۔۔اب میں نے بھی جوابی کاروائی کا سوچا اور دونوں ہاتھ امی کے سر کے پیچھے رکھ کر اپنے ہونٹوں سے سے امی کے ہونٹو ں کو چومنے لگی ۔۔۔۔افف کیا نرم نرم سرخ گلابی ہونٹ تھے اور میرے ہونٹوں سے کچھ بڑے بھی ۔۔۔۔میرے ہونٹ انہیں قابو کرنے میں بالکل ناکام تھے ۔۔ چومنے کے بعد پھر چوسنے کا نمبر تھا ۔۔اور کمرے میں چس چس کی آوازیں گونجنے لگیں ۔۔۔میں کبھی امی کے اوپری ہونٹ کو چوستی ۔۔۔۔اور کبھی نیچے والے ہونٹ کو ۔۔۔۔۔امی کے چہرے پر لالی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔اور پھرامی کے ہاتھ آہستگی سے حرکت کرتے ہوئے میرے سینے پر آئے تو میں اچھل پڑی ۔۔۔۔میں امی کے ہونٹ چوس رہی تھی اور امی میری مموں کا سائز چیک کر رہیں تھی ۔۔۔امی کے ہاتھ میرے مموں کو ٹچ ہوتے ہیں میری کسنگ میں اور شدت آ چکی تھی ۔۔۔اب میں امی کوہونٹوں کو کاٹ بھی رہی تھی ۔۔۔۔امی نے بھی جوابی کاروائی کرنے کے لئے بھرپور حملہ کردیا ۔۔ان کوبڑے اور موٹے کے درمیان میرے پتلے اور چھوٹے ہونٹ کپکپا رہے تھے ۔اور امی اسے بری طرح سے چوس رہیں ۔۔۔۔۔امی نے جب ہلکا سا کاٹا تو میں ایک زبردست سی آہ نکلی ۔۔۔جس کے بعد امی نے میرے مموں پر دبا ؤ بڑھا دیا ۔۔۔۔۔۔ہونٹ چوستے چوستے امی نے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کردی ۔۔۔افف کیا مزہ تھا ان کی زبان کو ۔۔بالکل نرم اور تھوک سے بھری ہوئی ۔۔۔۔میں نے بھی پوری شدت سے ان کی کی زبان چوسنے لگی ۔۔۔اور امی نے اسی شدت سے میرے مموں کو دبانا شروع کر دیا ۔۔وہ میری ناف سے اپنے ہاتھوں کو رگڑتی ہوئی آتیں اور دونوں مموں کو پکڑتی ہوئی باہر کی طرف ہلکا سا کھینچتی ۔۔۔۔۔اور پھر دوبار ہاتھ میری ناف تک لے جاتیں ۔۔۔۔۔۔میرا امی کی زبان چوسنے سے رکنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔مگر امی نے امی واپس کھینچ لی اوراپنے ہونٹوں سے میرے ہونٹوں کو باہر کھینچا ۔۔۔اور کہااپنی زبان کو نکالو ۔۔۔اور جب میری زبان امی کے منہ میں داخل ہوئی تو میری تڑپ اور بڑھ گئی ۔۔۔کیا مزہ تھا ۔۔کیا لذت تھی ۔۔۔امی جتنے پیار سے میری زبان چوس رہیں تھی ۔۔۔مزے کا ایک دریا بہہ رہا تھا ۔۔۔۔اور میں اس میں تیرتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔امی کےچہرہ مجھ پر جھکا ہوا تھا ۔۔۔۔اور ان کے بڑے اور سخت ممے میرے سر سے ٹکرا رہے تھے ۔۔۔دل تو بہت کر رہا تھا کہ انہیں تھام لوں اور اتنا کھینچوں کے ان کا سائز بڑا ہو جائے ۔۔۔اتنا چوسوں کے سارا دودھ ختم ہو جائے ۔۔۔۔۔مگر ایک عجیب سے جھجک ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔امی نے میری زبان چوستے ہوئے اپنے ہاتھوں سے میرے ہاتھوں کو پکڑا اوراپنے گول گول مموں پر رکھ دئیے ۔۔۔۔میں بھی تو یہی چاہتی تھی ۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے ان کا ایک خربوزہ پکڑا اور زور سے مسل دیا ۔۔۔۔۔امی کی ایک زبردست سسکی نکلی ۔۔۔۔۔اور کہا بیٹی آرام سے ۔۔۔۔۔۔درد ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔اب ہو یہ رہا تھا کہ امی میری زبان چوس رہیں تھیں اور ان کے ہاتھوں میرے گول گول مموں کو شامت آئی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور میں اس کا بدلہ امی کے ایک ایک ممے کو دونوں ہاتھوں میں دبوچ کر لے رہیں تھی ۔۔۔۔۔جب امی کے ایک مما چھوڑ کر دوسرے ممے کو پکڑتی تو پہلے والا کافی دیر تک ہلتا رہتا تھا ۔۔اور اتنی دیر میں میں اسے دوبارہ تھام لیتی تھی ۔۔۔آہستہ گرمی بڑھ کر ناف سے نیچے بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔اور میرے دل کر رہا تھا کہ امی کا ہاتھ میری ناف سے نیچے بھی جائے ۔۔۔۔۔۔۔امی جو اب تک بیٹھیں ہوئی تھی۔۔۔۔میں نے انہیں کہا کہ آپ بھی پاؤں سیدھے کر لیں ۔۔۔مگر امی نے جو حرکت کی وہ حیرت انگیز تھی ۔۔۔۔انہوں نے ایک تکیہ میرے سر کے نیچےرکھ کر گھوم کر میرے اوپر لیٹ چکی تھی ۔۔۔ان کا بھر ا بھرا بدن جب مجھے ٹچ ہوا اور سب سے بڑھ کر ان کے بھاری بھرکم ممے میرے سینے پر دب ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔امی اب پوری شدت سے میرے ہونٹوں کو چوم اور چوس رہیں تھی ۔۔۔۔اچانک ہی میرے ذہن میں پچھلی رات کا سین آگیا ۔۔۔۔جب امی راجہ کے لن پر سوار آہستہ آہستہ ہل رہی تھی ۔۔۔اور ان کو موٹے موٹے گول گول چوتر ہلکے ہلکے باؤنس ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔امی کے چوتڑ کی خاص بات یہی تھی کہ وہ بڑے اور چوڑے ہونے کے ساتھ ساتھ پوری گولائی کے ساتھ باہر بھی کو نکلے ہوئے جو کہ ان کے چوتڑ کو پرفیکٹ شیپ دیتےتھے ۔۔۔۔۔بس مجھے اور کیا چاہئے تھا میں نے امی کے دونوں چوتڑوں کو تھام اور ایسے زور سے بھینچا کہ امی کی ایک زوردار آہ نکلی ۔۔۔۔۔جیسے کسی بچے کو بڑے عرصے بعد کھیلنے کا کوئی کھلونا ملا ہے ۔۔۔میں ایسی بے صبری سے ان کے دونوں چوتڑوں کو مسل رہی تھی دبا رہی تھی ۔۔۔۔ امی کے بدن کی گرمی پور ی طاقت سے مجھے ٹرانسفر ہوتی تھی ۔۔۔ان کے مموں سے آتی ہوئی مہک مجھے اور بھی تڑپا رہی تھی ۔۔۔اور یہ دونوں چیزیں میری چوت کو گیلا سے گیلا کرنے میں مصروف تھی ۔۔۔۔۔۔۔میں اب ان کے چوتڑوں کو مسلتی ہوئی نیچے سے ہلکا ہلکا اپنی چوت کو جھٹکا بھی دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔امی نے اب تھوڑا سا نیچے ہو کر میرے مموں کے اوپر ہی اپنا منہ رکھ دیا ۔۔۔۔۔ان کو ہونٹوں کی گرمی مجھے اپنے اندر تک محسوس ہورہی تھی ۔۔میرا منہ آزاد ہوتے ہیں میری گرما گرم آہیں نکلنا شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔میں اپنے ہاتھوں سے امی کی کمر کو سہلار ہی تھی اور وہ کپڑوں کے اوپر سے میرے مموں کو چوس رہیں تھی ۔۔۔۔ان کے ہونٹوں کے تھوک سے میری قمیض گیلا ہونی شروع ہوچکی تھی ۔۔۔۔میں نے اب ان کی قمیض کو اوپر کرنا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔وہ تھوڑی ہی اوپر ہوئی تھی کہ امی اٹھی اور میرے دائیں بائیں گھٹنے رک کر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ اور پھر انہوں نے اپنی قمیض اتار دی ۔۔۔۔۔۔ان کے ریڈ برئر میں ان کے بڑے بڑے ممے پورے پھنسے ہوئے تھے اور باہر آنے کو بے تاب تھے ۔۔۔۔میں نے اپنے ہاتھ پیچھے کر برزئیر کا ہک کھولا اور امی کے گول گول ممے میرے سامنے ڈھیر ہو گئے ۔۔اب میری برداشت سے باہر ہو چکا تھا ۔۔۔میں نے امی کو اپنے اوپر سےنیچے گرا اور ان کے اوپر ویسے ہی بیٹھ گئی ۔۔۔امی میری شدت دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔۔۔میں ان کے اوپر بیٹھی اوران کے چہرے پرجھک گئی ان کو ہونٹوں ۔۔۔ٹھوڑی کو چومتے ہوئے نیچے آتی گئی اور ان کے بڑے اور بھاری بھرکم مموں کے درمیان آ گئی ۔۔۔۔۔میں نے اپنے ہاتھوں سے ان کے دونوں مموں کو آپس میں جوڑا اورباری باری اپنی زبان پھیرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اپنے ہونٹوں سے ان کے نپلز کو پکڑتی اور باہر کی طرف کھینچتی ۔۔۔۔۔امی کی بھی اب سسکیاں نکل رہیں تھی ۔۔۔۔۔اور بیچ میں جب زیادہ نپلز کھینچتے تو ایک آہ بھی نکلتی جو مجھے اور بھی گیلا کرنے لگتی تھی ۔۔۔۔میں نے اب پوری شدت سے ان کے گول مٹول مموں کو چوس رہیں تھی ۔۔۔ساتھ ساتھ اپنے تھوک سے اسے پورا بھگو رہی تھی اور وہی تھوک دوبارہ چوس رہی تھی ۔۔۔۔امی بھی اب حیرانگی سے میری شدتیں دیکھ رہیں تھی ۔۔۔۔۔امی نے نیچے سے اپنے ہاتھ میری کمر پر پھیرنے شروع کردئے تھے ۔۔۔۔میرے ہاتھ اب امی کے پورے سینے پر گھوم رہے تھے اور مموں پر لگا ہوا تھوک بھی ساتھ ساتھ پھیلتا جا رہا تھا ۔۔۔۔امی کی آہیں اور سسکیاں بڑھتی جا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔اور میری شدتیں بھی اس کے ساتھ بھی بڑھتی جا رہی تھیں ۔۔۔میں اب مموں کا جوس نکال کر نیچے ناف کی طرف آ چکی تھی ۔۔۔۔ میرے دونوں ہاتھ اب امی کے مموں پر گول گول گھوم رہے تھے اور میں اپنی زبان کو ان کی ناف کے اندر گھمار ہی تھی ۔۔۔۔اور ان سب کے اوپر سے مجھے امی کی چوت کا گیلا پن بھی محسوس ہو رہا تھا ۔۔امی اپنی کمر کو ہلکا اٹھا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔امی کی بھی بس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔امی نے مجھے کھینچ کر اوپر کر لیا ۔۔۔اور میری قمیض اتارنے لگیں ۔۔۔۔میں نے بھی بازو اوپر کر کے قمیض اتار دی ۔۔۔۔اب میرے اسکن کلر کے بریزئر میں میرے گول مٹول سے ممے امی کے سامنے تھے ۔۔۔۔ امی انہیں ستائش کی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے بریزئر بھی اتار دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور امی نے میرے ممے تھام لیے ۔۔۔۔امی میرے ممے دباتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان بھی پھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میرے ممے زیادہ بڑے نہیں تھے ۔۔۔۔مگر گول مٹول ، ٹیبل ٹینس کی طرح اور چھونے پر سخت اور اس پر لال گلابی نپلز ۔۔۔۔۔ امی نے مجھ خود پر سے گرا دیا اور مجھے پر دوبار ہ آگئیں ۔۔۔۔کیا سین تھا ۔۔۔ماں بیٹی کی قمیض اتری ہوئی تھی ۔۔۔اور ماں اپنی بیٹی کے مموں کارس پی رہی ہے تھیں ۔۔۔۔۔۔۔اب کی بار امی میرے اوپر آئیں تو مجھے صاف محسوس ہوا کہ ان کی شلوار کافی سے زیادہ گیلی ہوئی تھی مگر اب تک ہم ماں بیٹی اوپر کے مزے سے ہی سیراب نہیں ہوئے ۔۔۔۔میں نے امی کے بھاری بھرکم مموں اور نپلز کے ساتھ جو حشر کیا تھا وہ امی کو اچھے سے یاد تھا ۔۔۔۔اور اب امی اس کا بدلہ لینے میں مصروف تھیں ۔۔۔۔۔امی کا گیلا گیلا تھوک میرے مموں پر بہہ رہا تھے ۔اور امی بڑے ہی مزے سے اسے چوس رہی تھی ۔۔۔۔میں نے امی کی کمر پر ہاتھ پھیررہی تھی ۔۔۔۔ اور امی میری بچے کی طرح میرے مموں کی چوس رہیں تھیں۔۔۔امی اپنے ہاتھ سے میرے ایک ممے کو دبوچتی اور گول کرتے ہوئے اپنے منہ میں ڈال لیتی ۔۔۔۔۔مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔۔امی میرے اوپر الٹی لیٹی ہوئیں تھیں ۔میں نے اپنے ہاتھوں سے امی کی شلوار نیچے کھسکائی اور۔میں نے اپنی ایک ٹانگ باہر کو نکالی اورامی کی باقی شلوار کو نیچے کو دھکیلتی ۔۔۔میں نے دوسری ٹانگ بھی نکال لی تھی اور دوسر ی سائڈ سے بھی ایسا ہی کر رہی تھی ۔۔۔میرے پاؤں جب امی کے ننگ چوتڑ پر رگڑتے ہوئے جا رہے تھےتو مجھے بہت مزا آ رہا تھا ۔۔۔۔تھوڑی دیر میں ہی امی شلوار نیچے پاؤں تک پہنچ چکی تھی جسے امی نے اپنے پاؤں سے مزید اتار کر پھینک دیا ۔۔اسی طرح میں نے امی کی پینٹی بھی اتار دی ۔۔اب امی کے ننگے ، گول مٹول سے چوتڑ میرے نشانے پر تھے ۔۔۔میں بھی جی بھر کر اسے مسل رہی تھی ۔۔۔دبوچ رہی تھی ۔۔۔امی جو میرے ممے چوسنے میں مصروف تھی ۔۔۔۔اب آہیں بھی ساتھ ساتھ نکال رہیں تھی ۔۔۔۔اور انہیں آہوں کے ساتھ میرے مموں پر زور دیتی ہے ۔۔۔اور اسی وقت ہم دونوں کے منہ سے ایک ہی وقت آہ نکلتی تھی ۔۔۔۔ہم ماں بیٹی ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے آہیں بھر رہے تھے ۔۔سسکیاں لے رہیں تھی ۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنا ہاتھ امی کی چوتڑ پر مسلتے ہوئے ان کی گولائیوں کے درمیان سے ان کی طرف لے جانے لگی ۔۔۔۔ایک دفعہ تو امی اچھل ہی گئی تھیں ۔۔میں نے دوبارہ کوشش کی ۔۔۔اورمیں جہاں تک ہو سکتا تھا ان کی چوت کے نچلے حصے کو سہلا رہی تھی ۔۔۔امی کی چوت کو نچلا حصہ پورا گیلا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔امی اب میرے چہرے کے اوپر آ چکی تھی ۔۔۔۔۔ان کی گرم اور گیلی چوت مجھے اپنی چوت پر محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔امی کچھ دیر میری آنکھوںمیں دیکھتی رہیں ۔۔۔۔اور پھر اپنی زبان میرے ماتھے پر رکھ دی ۔۔۔اس کے ساتھ ہی امی نیچے کو ہوتی گئیں اور زبان سے لائن بناتی ہوئے میرے مموں تک پہنچی اور اس کے بعد ناف پر جا رکیں ۔۔۔ناف کو اچھے سے گیلا کرتے ہوئے نیچے جانے لگیں ۔۔۔اور اس وقت ان کے ہاتھ حرکت میں آئے اور ان کے نیچے پہنچنے تک میری شلوار بھی نیچے ہو چکی تھی ۔۔۔۔میں نے پینٹی نہیں پہنی ہوئی تھی ۔۔امی نے سیدھا میری چوت کو اپنے ہونٹوں کی ذد پر رکھ دیا ۔۔۔میری ایک زور دار آہ نکلی ۔۔۔۔اور میں نے اپنی کمر کو اوپر کی طرف جھٹکا دیا ۔۔ امی نے دوبارہ سے اپنے ہونٹ سے چوت کے دانے کو پکڑنا اور دبانا شروع کر دیا ۔۔۔میں اپنے مزے کی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور ساتھ ہی اپنےمموں کو مسلنا اور نپلز کو کھینچنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔میری پوری چوت گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔۔میں اپنے دونوں ہاتھوں سے امی کو سرکو اپنی چوت پر دبا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ساتھ ساتھ اپنی کمر کو بھی اوپر کی طرف اٹھاتی۔۔۔۔امی نےاپنےدونوں ہاتھوں سے میری چوتروں کے نیچے ہاتھ ڈال کر انہیں بھی دبا اور مسل رہیں تھی ۔۔۔میری چوت پر امی کے ہونٹ ۔۔۔چوتڑ پر امی کے ہاتھ ۔۔۔۔۔اور مموں پر میرے اپنے ہاتھ ۔۔۔۔۔اور منہ سے میری زور دار آہیں اور سسسکیاں ۔۔۔۔۔۔۔ امی لیٹنے کے بجائے اب تھوڑا بیٹھ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔انہوں نے میرے چوتڑ اور زیادہ اٹھا دئے تھے ۔۔۔میں نے بھی اپنے پیر بیڈ پر رکھ کر ۔۔۔۔۔اپنی کمر کو اٹھا دیا ۔۔۔۔اب میں ایک کمان کی شکل میں تھی ۔۔۔اور میری چوت میری امی کے چہرے کے بالکل سامنے تھی ۔۔۔۔۔اور امی نے اب میری چوت میں اپنی زبان داخل کر دی تھی ۔۔۔۔۔۔اور یہی وہ وقت تھا کہ میرے منہ سے بے اختیار آؤں ۔۔۔۔آؤں کی آواز نکلی ۔۔۔۔۔امی نے اپنی نظریں اٹھا کر مجھے حیرت دیکھا ۔۔۔میری یہ آواز تھی ہی تنی سیکسی اور شہوت سے بھرپور ۔۔۔۔۔۔اور دوبارہ سے اپنی زبان میری چوت میں گھسا دی ۔۔۔اب یہ کمرہ تھا کہ میری آؤں ۔۔آؤں۔۔۔آؤں کی آوازوں گونج رہا تھا ۔۔۔اسی کے ساتھ ساتھ امی کی زبان کی حرکت بھی تیز ہوتی جا رہی تھی ۔اور۔۔وہ چار پانچ بار زبان اندر کرنے بعد باہر نکالتی اور اپنے ہونٹوں سے چوت کے دانوں کو بھینچتی اور دوبارہ زبان اندر ڈال دیتی ۔۔۔۔۔امی کی زبان کی تیزی کے ساتھ ساتھ آؤں آوں بڑھتی جا رہی تھی اور پھر مجھے لگا کہ سارا خوں میری چوت کے طرف اکھٹا ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔میں نے ایک زور دار چیخ ماری اور پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔امی نے میرے پانی کو منہ میں اکھٹا کیا اور باہر تھوک دیا ۔۔۔۔۔۔امی میرے چوتڑ کو نیچے رکھ کر میرے برابر میں آکر لیٹ گئیں اور محبت پاش نظروں سے دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔۔میں بھی ان سے لپٹ گئی اورایک بھرپور کسنگ شروع کر دی ۔۔۔۔میری ایک ٹانگ ان کی چوت کے درمیان تھی ۔۔جہاں سے مجھے امی کی مخملی گرم گرم چوت محسوس ہو تھی ۔۔۔۔۔میں اب پوری شدت سے امی کے ہونٹ چوس بلکہ نوچ رہی تھی ۔۔۔پور ی قوت سے امی کو میں نے بھینچا ہوا تھا جیسے خود میں سمانا چاہتی ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی ٹانگ ان کی چوت پر رگڑ رہی تھی جو کہ گیلی ہوتی جا رہی تھی ۔۔امی کے گول مٹول اور بھاری بھرکم خربوزے میرے ممے کے ساتھ دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔امی نے جب اپنی کمر اٹھا کر مجھے ہلانا شروع کیا تو میں بھی نیچے کو متوجہ ہوگئی ۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی ٹانگیں امی کے سر طرف کر دی اور خود ان کی چوت کیطرف منہ کر لیٹ گئی ۔۔میر ی ٹانگیں امی کے چہرے کے دائیں اور بائیں تھی اورچوت عین ان کے زبان کے سامنے ۔۔۔امی سمجھ چکی تھی ۔۔۔۔۔انہوں نے اپنے ہاتھ میرے کمر کے گرد گھما کرچوتڑ تھام لئےتھے ۔۔۔میں نے اپنے ہاتھوں کی مدد سے امی کی چوت کو تھا ما اور بے اختیار چومنے لگی ۔۔۔ان کی چوت کے دانہ بھی کافی بڑا تھا ۔۔۔میں اپنے ہونٹوں سے اسے بری طرح چوس رہی تھی ۔۔۔۔اور ساتھ میں نے چوت میں زبان داخل کر دی ۔۔۔افف کیا سواد تھا ۔۔۔کیا لطف تھا ۔۔چوت کی دیوارں میری زبان کو دبار ہی تھی ۔۔۔۔اور میں زبان کو گول گول گھمار ہی تھی ۔۔۔امی کی آہیں نکلی اور امی نے بھی اسی تیزی سے میری چوت میں زبان ڈال دی ۔۔۔۔۔امی کا ایک ہاتھ میرے چوتڑوں کےدرمیان چھید پر حرکت کر رہا تھا۔۔۔۔میرا مزہ سو گنا بڑھ چکا تھا ۔۔۔۔۔اور ہماری سسکیا ں اب زبان کی اسپیڈ میں تبدیل ہوتی گئی ۔۔۔۔جتنا مجھے مزہ آ رہا تھا میں امی کی چوت میں اپنی زبان کی اسپیڈ تیز کرتی ۔۔۔۔امی کا مزہ بڑھتا تو وہ میری چوت میں اپنی زبان کی اسپیڈ تیز کر دیتی ۔۔۔۔۔یہ کھیل اب تیزی سے شروع تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں امی کی چوت کو زبان سے چود رہی تھی اور ایک ہاتھ سے ان کی چوت کے دانوں کومسل رہی تھی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔یہی وقت تھا کہ جب امی نے ایک انگلی کو اپنے منہ میں ڈال کر گیلا کیا اور میری گانڈ کے چھید میں داخل کر دی ۔۔۔تکلیف کی ایک لہر میری کمر میں گونجی اور میں نے بے درد سے امی کی چوت پر اپنے دانت گاڑ لئے ۔۔۔۔امی کی بھی ایک زوردار چیخ نکل گئی ۔۔۔۔۔۔ابھی اب آہستہ آہستہ سے اپنی انگلی کو میری گانڈ کے چھید میں گھمارہیں تھی ۔۔اور میں انتہائ برق رفتاری سے امی کی چوت کو چودنے لگی ۔۔۔۔امی کی آہوں سے کمرہ گونج رہا تھا ۔۔۔۔۔اور میں ہلکے ہلکے درد سے کراہتی ہوئی ان کی چوت چود رہی تھی ۔۔۔اسی پوزیشن میں ہمیں دس منٹ ہو چکے تھے ۔۔امی کی آہیں اب اور بھی بلند تھی اور ایک زوردار آواز کے ساتھ فارغ ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔۔میں ان کو سارا پانی اپنے منہ میں اکھٹا کیا اور پھر سیدھی ہو کر ان کے اوپر دوبارہ بیٹھ گئی ۔۔۔۔میں نے ان کےپانی اور اپنا تھوک مکس کر کےان کے گول مٹول مموں پر پھینک دیا تھااور اب چاٹ رہی تھی ۔۔امی حیرانگی سے میری اس حرکت کو دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔امی کے بڑے اور گول مٹول ممے دیکھ کر مجھے تائی امی کے ممےیاد آگئے جو اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھے امی کے ممے تھوڑے نرم پڑ گئے مگر تائی امی کے کسی پرغرور چوٹی کی طرح بلند اور موٹے تازے تھے ۔۔۔جب وہ ابو کے جھٹکے سے اچھل رہے تھے یا یو ں کہ لیں کہ ابو کو اپنے جھٹکوں سے انہیں اچھالنا پڑ رہا تھا تو کیا نظارہ تھا ۔۔۔۔اور اس کے بعدمجھے امی کے راجہ کے اوپر بیٹھنے کا منظر یاد آگیا ۔۔۔مجھے سے رہا نہیں گیا اور میں نے امی کو مموں کو دبوچتے ہوئے ان کی آنکوں میں دیکھا اور اپنی ایک خواہش کا اظہار کر دیا ۔۔پہلے تو امی کا منہ حیرت سے کھل گیا اور پھر امی جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔
میں گھر سے چچاکے ساتھ ناشتہ کر کے نکل چکا تھا۔ کھیتوں پر پہنچے کے بعد چچا تو اپنے روزمرہ کے کاموں کی طرف متوجہ ہو گئے اور میں کھیتوں کے ساتھ بنے ایک چھوٹے مکان میں داخل ہو گیا ۔۔یہ ہمارا ہی مکان تھااور۔جب چچا کو رات بھر کھیتوں کی طرف رہنا پڑتا تھا تو چچا ادھر ہی رہتے تھے ۔۔یہاں دو کمرے ، ایک چھوٹا کچن اور باتھ روم وغیرہ بنے ہوئے ہیں ۔ ۔۔۔۔ جب کی اسی مکان کی بیک سائیڈ پر کھیتوں پر کام کرنے والے مزارعوں کے گھر بھی ہے ۔۔۔جو کہ اسی گھر کی طرز پر بنے ہوئے ہیں۔یہ سب ابا جی نے ان لوگوں کے لئے بنوائے تھے کہ یہ کھیتوں کے قریب ہی رہیں اورکام بھی دل لگا کر کریں ۔۔۔۔میں کچھ دیر تک وہیں بیٹھا ٹی وی دیکھتا رہا ، بوریت زیادہ ہونے لگی تو میں چچا کے پاس گیا اور کہا کہ میں اپنے کچھ پرانے دوستوں کی طرف جانا رہا ہوں ۔۔۔۔۔چچا نے پوچھا کہ کب تک آو گے میں دوپہر کے کھانے کا بندوبست کرواؤں یا نہیں ۔۔۔میں نے انہیں منع کر دیا کہ میں شام تک دوستوں کے پاس رک کر گھر چلا جاؤں گا ، وہیں رات کا کھانا ساتھ کھائیں گے ۔۔۔چچا نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔میں نے ان سے بائک کی چاپی لی اور اپنے پرانے دوستوں کی طرف چل پڑا ۔۔میرے دوست احباب کا حلقہ محدود ہی تھا ۔۔مگر ہر کسی کی طرح میرا بھی ایک جگری دوست تھا ۔۔۔۔وقار ہمارے اسکول کے ہیڈماسٹر کا بیٹا تھا ۔۔ہم شروع سے ہی ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے ۔۔اور اسکول کے بعد بھی ہرجگہ ساتھ ہی پائے جاتے تھے ۔۔ہم دونوں اک دوسرے سے کوئی بات نہیں چھپاتے تھے ۔۔میں اپنےبچپن کی ساری یادیں تصور میں دیکھتا ہوا ، اس کے گھر کے باہر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔گیٹ پر دستک دی تو ایک لڑکی نے دروازہ سے جھانکا ، میں اسے دیکھتے ہی پہچان چکا تھا ، وہ وقار کی چھوٹی بہن
ثنا ء تھی جو ہم سے ایک کلاس پیچھے تھی ، اور میری بڑی بہن مناہل کی کلاس میں پڑھتی تھی ۔۔۔۔ بچپن سے ہی ہمارے درمیان پسندیدگی کا تعلق موجود تھا ۔۔۔مگر میری شرماہٹ اور خود میں مصروف رہنے کی وجہ سے یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ پایا تھا ۔۔۔۔۔ثناء بھی مجھے پہچان چکی تھی ، اس کی آنکھوں کے چراغ جل اٹھے تھے ۔۔۔۔وہ مجھے دیکھ کر اندر دوڑ گئی ۔۔اور تھوڑی دیر میں ہی وقار باہر آیا اور بڑے پرتپاک انداز میں گلے ملا ۔۔ہم کافی دیر تک گلے لگے رہے ، پھر حسب توقع اسکے شکوے شروع ہو گئےتھے کہ یار شہر جا کر بڑا آدمی ہو گیا ہے ، ہمیں تو بھول ہی گیا ہے ۔۔۔میں نے کہا اندر بھی بٹھائے گا یا باہر ہی سب پوچھ لے گا ۔۔۔۔وقار مجھے لے کر گھر میں داخل ہوا تو خالہ بھی میرا انتظار کر رہی تھی ، میں نے انہیں سلام کیا اور وہ مجھے بلائیں دینے لگیں ۔۔۔ان کا شکوہ بھی وہی تھا کہ تمہار ے شہر جانے کے بعد نہ تمہاری امی نے چکر لگایا اور ہی تمہاری بہنوں نے ۔۔۔میں نے انہیں مطمئن کیا کہ جلد ہی میں ان کے ساتھ دوبارہ آؤں گا ۔۔۔۔خالہ نے ثناء کو چائے کی آواز لگائی اور وقار مجھے لے کر ڈرائنگ روم میں آگیا ۔۔۔۔میں نے مختصرا اسے اپنا سارا احوال سنایا کہ شہر جا کر کیا کیاتبدیلی آئی ۔۔۔اور پھر اس سے پوچھنے لگا کہ وہ آج کل کیا کر رہا ہے ۔۔۔وقار نے بتایا کہ آ ج کل اسکول اس کے پاس ہے ۔۔میٹرک کے بعد ہی ابو کا انتقال ہو گیا تھا ، اور فورا بعد اس نے اسکول سنمبھال لیا ۔۔اور ساتھ ہی پرائیوٹ امتحان کی تیار ی کر رہا تھا ۔۔۔۔۔میں اسے دیکھ رہا تھا کہ وقار کی شوخیا ں اور طنزو مزاح اب سنجیدگی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔۔۔اور میں جب اسے بتایا کہ یار تو کتنا بدل چکا ہے ۔۔۔تو وہ یہی کہنے لگا کہ تیرے جانے کے بعد سب تبدیل ہو گیا ۔۔۔اب کس کو تنگ کیا جائے اور کس سے مذاق کیا جائے ۔۔ اتنی دیر میں ثناء چائے اور بسکٹ لے کر آ چکی تھی ۔۔۔ وہ بھی بہت بدل گئی تھی ، اسکول میں سر پر دو دو چٹیاں باندھنے والی اب بہت خوبصور ت لمبے بال کی مالک تھی ۔۔۔۔جس چہرے پر ہر وقت تیل بہتا رہتا تھا ، اب وہ چمکدار ، بڑی بڑی آنکھوں ، پتلے پتلے ہونٹ اور ایک خوبصورت سی ناک میں تبدیل ہو چکا تھا ۔۔اور اس کے اوپر ہلکے مہندی کلر کے فٹ قمیض کے ساتھ چوڑی دار شلوار اسے مزید غضب ناک بنا رہے تھے ۔۔۔میں نے وقار سے مزاق کیا کہ یار تمہارے گھر میں ایک لڑکی ہوتی تھی جسے ہم روتو کہتے تھے ، ہر چھوٹی بات پر رو پڑتی تھی ، کبھی ہو م ورک زیادہ ملنے پر کبھی ٹیسٹ میں فیل ہونے پر۔۔۔۔وقار یہ سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑا ۔۔۔ثناء میری بات سن غصے میں لال پیلی ہونے لگی تھی ۔۔کہنے لگی کہ بڑا اچھا مذاق ہے یہ ، اتنے عرصے بعد آنا ہوا اور شروع ہو چکے ہیں ۔۔۔خالہ کو آنے دیں پھر آپ کی شکایت لگاتی ہوں ۔۔۔میں نے کہا فکر نہ کرو میں کل ہی امی اور بہنوں کے ساتھ آؤں گا ۔۔جتنی مرضی ہو شکایت لگا لینا ۔۔۔وقار بھی میری اور ثناء کی پسندیدگی کو جانتا تھا ، ۔۔۔۔۔ثناء مجھے غصے میں گھورتی ہوئی باہر جا چکی تھی ، ۔۔۔ثناء کے جانے کے بعد میں نے وقار سے کہا کہ یہ تو پہلے سے زیادہ غصے میں لگتی ہے ۔۔۔اس کے بعد ہمارا موضوع اسکول کی طرف چھیڑ چکا تھا ۔۔۔۔میں نے اس سے مس زبیدہ کا پوچھا جو کہ ہماری فزکس کی ٹیچر تھی اور اسکول کے ہی ایک سر سے ان چکر چل رہا تھا ۔۔۔وقار چونکہ ہیڈ سر کا بیٹا تھا اس لئے اس کے پاس سب کی انفارمیشن ہوتی تھی ۔۔۔وقار ہی مجھے بتایا کرتا تھا کہ کون کون سی مس اور لڑکیاں مجھ میں دلچسپی لیتی ہیں ، مگر میں اس وقت سر جھکائے دنیا کا سب سے شریف لڑکا ہوا کرتاتھا ۔۔۔کئی بار وقار نے بھی مجھے چکر چلانے کا مشورہ دیا ہے ، مگر میں نے اسے منع کر دیا ۔۔۔پھر میں نے اس سے پوچھا کہ صائمہ کا کیا حال ہے ۔۔۔۔صائمہ ہماری کلاس میں ہوتی تھی ، اور گرل پریفکٹ تھی ۔۔۔جبکہ وقار بوائز میں پریفکٹ تھا ۔۔۔شروع میں تو دونوں کی خوب نونک جھونک ہوتی رہتی تھی ، مگر پھر آہستہ آہستہ پیار میں تبدیل ہو گئی ۔۔۔میں ہی اس کا پروپوزل لے کر صائمہ کے پاس پہنچا تھا ۔۔۔ اور کچھ ہی دنوںمیں یہ دونوں حضرات کہ کیمسٹری لیب کے اندر کسنگ کر تے ہوئے پکڑ چکا تھا ۔۔۔وقار مسکراتے ہوئے مجھے بتانے لگا کہ یار تیرے جانے کے بعد کچھ عرصے اور چکر چلتا رہا تھا ۔۔۔اس کے بعد اس کی فیملی شہر میں شفٹ ہو گئی تو اسے جانا پڑا ۔۔اب ایک اور ہے جو کہ اسی کے اسکول میں ہے اور ہماری ٹیچر بھی رہ چکی ہیں ۔۔۔میں نے اس سے پوچھا کہ صائمہ سےصرف کسنگ ہوئی تھی یا چدائی بھی کر لی تھی ۔۔۔وقار میری بات سن کر اچھل پڑا تھا ، کہنے لگا کہ شہر جا کر بڑا چیتاہو گیا ہے تو ۔۔۔یہاں تو تجھے میری بات سمجھ ہی نہیں آتی تھی ۔۔۔۔میں بھی ہنس پڑا تھا اور کہا بس بس وقت وقت کی بات ہے ۔۔۔اور اس وقت کا بدلہ میں اب اتار رہا ہوں۔۔۔۔وقار نے یہ سنتے ہی کہا کہ تو کل پھر اسکول کا چکرلگا ، سمر کیمپ چل رہا ہے ،،اپنے سارے پہلے والے ٹیچر بھی ہوں گے ، سب سے ملواؤں گا ۔۔میں نے بھی جلدی سے حامی بھر لی ۔۔۔اس کے بعد میں نے اس سے محلے والوں کا پوچھا ۔۔۔۔اس نے کہا محلے کو چھوڑ ، ایک ایسی نیوز دیتا ہوں کہ تو بھی دنگ رہ جائے ، نیوز ہے تیرے گھر کے بارے میں ، بس میری بات کا یقین کرنا ہوگا ۔۔۔۔ایک مرتبہ تو میں بھی پریشان ہی ہو گیا ۔۔میں نے کہا نیوز بتا کس کے بارے میں ہے ؟ وقار نے کچھ سوچا اورگھڑی دیکھ کر کہا کہ چل تجھے خود جا کر دکھواتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں ایک مرتبہ پھر پریشان ہو چکا تھا ، اس نے مجھے تسلی دی کہ چل ساتھ چلتے ہیں ۔۔۔ہم ڈرائنگ روم سے باہر آئے اور خالہ کو بتایا کہ ہم تھوڑی دیر جارہے ہیں ۔۔۔دوپہر کا کھانا یہیں کھائیں گے ۔۔۔ثناء بھی ساتھ ہی کھڑی تھی ،کہنے لگی کہ آنے کی ضرورت نہیں ہے ، ایسے ہی ہمارا کھاناضائع ہوجائے گا۔۔۔ہم سب مسکرادئیے ۔۔۔اور پھر گھر سے باہر آگئے ۔۔وقار میرے ساتھ بائک پر بیٹھ گیا اور راستہ بتانے لگا ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں مجھے پتا چل چکا تھا کہ راستہ جاناپہچانا ہے ،،،،میں نے اس سے دوبارہ پوچھا تو کندھے دبا کر کہنے لگا کہ خود اپنی آنکھو ں سے دیکھ لینا ۔۔۔۔اس کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ کر میں نے بائک اسٹینڈ پر لگائی اور اس کے ساتھ چل پڑا ۔۔اب مجھے صرف حیرانی تھی کیانظارا دیکھنے والا ہوں ۔۔۔۔اور تھوڑی ہی دیر میں وقار مجھے ایک کھڑکی کے پاس لے کر جا چکا تھا،اور دیکھتے ہوئے مجھے اشارہ کیا کہ تم بھی آ جاو ۔۔۔ اور میں نے آگے بڑھ کر آنکھ لگا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندر ایک چارپائی پر ایک درمیانی عمر کا آدمی اور ایک بیس بائیس سالہ لڑکی ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوئے وے تھے ، لڑکی کی قمیض اوپر کو اٹھی ہوئی تھی اور وہ آدمی بڑی بے صبری سے اس کے مموں کو چوس رہا تھا ۔۔۔۔۔آپ شاید سمجھے چکے ہوں گے کہ یہ آدمی کوئی اور نہیں ہمارے محبوب چچا جان تھے ۔۔وقار مجھے اپنے ہی کھیتوں کی طرف لا رہا تھا۔۔۔اور وہ لڑکی پچھلی طرف کے کسی مزارع کی بیٹی تھی ۔۔۔۔لڑکی کی حرکتیں بتا رہی تھیں کہ اس کے گرمی بہت ہی زیادہ تھی جو اس سے کنٹرول نہیں ہو پارہی تھی جو ہمارے چچا کو دعوت دے بیٹھی تھی ۔۔۔۔لڑکی سانولے رنگ کی تھی ،،نین نقوش پتلے پتلے تھے ، ناک پر چکتی ہوئی نتھ اتنی دور سے لشکارے مار رہی تھی ، اور لمبے بال جو کہ اس کی پتلی سی کمر تک پہنچتے تھے ، ، لڑکی بلاشبہ خوبصورت تھی ، جبھی تو چچا کی رال ٹپک رہی تھی ، مطلب دن میں یہاں بھی چدائی اور رات میں میری ہی امی کی لے رہے تھے ۔۔۔۔۔چچا کی ہمت کو داد دینی چاہئے تھی ۔۔۔۔ چچا اب لڑکی کو گود میں بٹھا چکے تھے ، اور پہلے سے زیادہ شدت سے ممے چوس رہے تھے ، لڑکی کی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔اور سر تھوڑا پیچھے کو جھکا ہوا تھا اور اس کے بال پوری چارپائی پر بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔چچا اب ممے چوستے ہوئے اس کی قمیض بھی اتار رہے تھے ۔۔۔۔اور قمیض اتارتے ہی اس کے گرما گرم دودھ سے بھرے ہوئے پیالے پوری طرح سے ہمارے سامنے تھے ،،،نیچے کوئی بریزئر نہیں تھا ۔۔۔۔۔لڑکی واقعی میں متناسب بدن کی مالک تھی ،،،،اس کے پتلے بازو ، پتلی کمر کے ساتھ اتنے زبردست سائز کے گول گول ممے کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔۔۔۔اتنا خوبصورت نظارہ دیکھ کر مجھے ہوشیاری آئی اور میں اپنا موبائل نکال کر ویڈیو بنانا شروع کر دی ۔۔۔اور موبائل کو کھڑکی میں ہی ایسا پھنسا دیا کہ پوری چارپائی اس کے فوکس پر تھی ۔۔۔۔۔۔لڑکی بھی اب کافی زیادہ مست ہو چکی تھی ،، ،اسکی آہیں اب کمرے میں گونج رہیں تھی اور ساتھ ساتھ چچا کے بال بھی نوچنے لگی تھی ۔۔اس کے مموں پر تھوڑے سے لمبے نپلز بھی کھڑے ہوچکے تھے ۔۔اور وہ لڑکی بار بار جھٹکے کھا رہی تھی جیسے کوئی کرنٹ سا اس کے مموں سے ہو کر نیچے کر طرف جاتا ہو۔۔۔چچا کا والہانہ انداز دیکھ کرہمارے بھی جذبات جاگ رہے تھے ، ایک بار تو دل کیا سیدھا اندر جا گھس جاوں اورساتھ ہی شروع ہو جاؤں ۔۔۔مگر پہلے چاچا کو ٹریپ کرنا ضروری تھی ،ورنہ وہ کہانی الٹی بھی گھما سکتے تھے ۔۔۔۔خیرچاچااب اس کا دودھ اچھے سے پی چکے تھے ۔۔۔اور آہستگی سے اس لڑکی کو چارپائی پر لٹا یا اورٹانگوں پر پڑی اس کی شلوار اتارنے لگے ۔۔۔۔لاسٹک والی شلوار جس آہستگی سے اتر رہی تھی ، اتنا ہی خطرناک نظارہ ہمارے سامنے تھے ۔۔۔۔۔دونوں ٹانگوں کے درمیان ایک اوپر کی جانب پھولی ہوئی چوت جس پر تھوڑے تھوڑے بال ۔۔۔اور چوت کا دانہ باہر کو ابھرا ہوا ۔۔۔۔اور اس پھر بھری بھری رانیں ۔۔۔۔۔۔چچا نے شلوارنکالنے کے لئے اس کی ٹانگیں اٹھائیں تو اس کے چوتڑ بھی نظارہ کرواگئے ۔۔۔خوب پھیلے ہوئے اورنرم گرم لگ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔لڑکی خود کو ننگا دیکھ کر شرما گئی اور اٹھ کر چاچا کی قمیض پر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔۔بڑی محبت سے قمیض اتار کر ناڑہ پکڑ لیا اور شلوار بھی اتار دی ۔۔۔۔۔اور ان کا سنسناتا ہوا لن باہر آ چکا تھا ۔۔۔۔۔لڑکی اب چچا کے سامنےدونوں پاؤں پھیلا کر اسطرح بیٹھ چکی تھی کہ اس کے ٹانگیں چچا کی کمر کے دائیں اور بائیں سے ان کے پیچھے جارہی تھی اور چچا بھی اسی انداز ۔۔دونوں بالکل قریب تھے، ایک دوسرے کو سونگھ سکتے تھے ۔۔۔محسوس کر سکتے تھے ۔۔لڑکی اب دائیں ہاتھ سے چچا کے لن کو کھینچ رہی تھی ۔۔یا جگانے کی کوشش رہی تھی ۔۔۔لڑکی کی ایک اور خاص بات سامنے آچکی تھی ۔۔۔۔چچا کو چوسائی کرتے وقت اس کی آہیں اور اب اس کی باتیں ۔۔۔۔۔مطلب ہمیں دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کان بھی وہیں لگانے تھے ۔۔۔۔۔اور مزے کی بات وہ بھی انہیں چاچا کہ کر بلا رہی تھی ۔۔۔۔۔چاچا اس لنڈ کو ایسا کیاکھلاتے ہو ۔۔۔ہر وقت اتنا ہوشیار رہتا ہے ۔۔۔چاچی کو بھی خوش کرتا ہے ، مجھے بھی خوش کرتا ہے اور نادیہ کو بھی ۔۔۔۔چاچا مسکرا کر کچھ جواب دے رہے تھے مگر میں سوچ رہا تھا کہ یہ نادیہ کون ہے ۔۔۔پھر وقار نے ہی مجھے بتایا کہ نادیہ ایک بچے کی ماں ہے اور انہیں گھر وں میں رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔اس کا صاف مطلب یہی تھا کہ چاچا کی چاروں انگلی گھی میں تھی اور سر کڑھائی میں تھا ۔۔۔۔مجھ سے زیادہ تو یہ جوانی کاحق ادا کر رہے تھے ۔۔۔خیر لڑکی اب تک چاچا کے لن کو جگا چکی تھی ۔۔۔۔اور پھرچاچا کے سامنے گھوڑی بن چکی تھی ۔۔۔۔منہ چاچا کی طرف ہی تھا جہاں لن کو چوس کر اور سخت کیا جا رہا تھا ۔۔۔۔پیچھے کی طرف اٹھی ہوئی گانڈ دیکھ کر ہم بھی حیران تھے ۔۔۔بہت گرم اور سیکسی لڑکی تھی ۔۔۔۔۔۔لن چوسنے ہوئے دو چار چوپے مارنے کے بعد لڑکی چاچا کی آنکھوں میں دیکھتی ، ایک دو اآہیں بھرتی اور دوبارہ چوپے شروع کردیتی تھی ۔لڑکی کی آہیں بھی غضب کی تھی ۔۔۔اوہ ۔۔آہ ۔۔آہ ۔۔اور پھر دوبارہ لن پھر جھک جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔چاچا اب اس کے بالوں کوپیچھے کرتے ہوئے اس کی کمر کو سہلا رہے تھے ۔۔۔۔۔اور ہاتھ بڑھا کر اس کے چوتڑوں کو بھی مسل رہے تھے ۔۔۔پھر چچا کو کیا ہوا کہ لڑکی کو سیدھ لٹا کر اس کی چوت کی طرف منہ کر کے اس کے اوپر الٹا لیٹ گئے ۔۔۔اب لڑکی ویسے ہی چاچا کے لن چوس رہی تھی ، اور چاچا اس کی چوت کوگرم کر رہے تھے ۔۔۔اس کی دونوں رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے چاچا اس کی چوت کو دانے کو بری طرح سے مسل رہے تھے ۔۔۔اور لڑکی ویسے ہی دو چار چوپے مارنے کو بعد لن منہ سے باہر نکالتی اور ایک دو زور دار آہیں بھرتی۔۔اوہ ۔۔آہ ۔۔۔۔ اور دوبارہ سے چوپے شروع ۔۔۔۔۔۔وقار بھی یہ دیکھ کر بہت گرم ہوا وا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر تک وہ شلوار کے اوپر سے ہی لن مسلتا رہا ۔۔۔مگر اب وہ شلوار کا ناڑہ ڈھیلا کر کہ لن باہر نکال چکا تھا ۔۔۔۔ 6 انچ کے اس لن میں اگر کوئی خاص بات تھی تو وہ اس کی موٹائی تھی ۔۔۔خوب اچھا خاصا موٹا ۔۔کسا ہوا لن تھا ۔۔۔۔مٹھی میں بامشکل آنے والا ۔۔۔میں اسے دیکھ کر مسکرایا اور دوبارہ کھڑکی کیطرف نظر جما دی ۔۔۔۔۔69 پوزیشن زیادہ دیر نہ چلی اور چاچا اس لڑکی کے ساتھ جھڑ چکے تھے ۔۔۔اس کے بعد لڑکی جلدی سی اٹھی اور چاچا کی طرف منہ کر لیٹ گئی ۔۔۔۔اپنی دونوں ٹانگیں اوپر اٹھائیں اوردونوں ہاتھو ں میں پکڑ لی ۔۔۔اس کی کھلی ہوئی چوت اب سامنے تھی ۔۔۔چاچا بھی اپنا بیٹ سمبھال کر بیٹنگ شروع کرنے والے تھے ۔۔۔ چاچا نے ایک تکیہ لے کر اس کی کمر پر رکھا اور نظریں فیلڈ پر جما دی ۔۔چاچا اپنے بیٹ کا موٹا حصہ اس کی چوت پر رگڑ رہے تھے ۔۔۔اور لڑکی ۔۔۔اس کی آنکھوں کی چمک اور آہیں ابھی سے بڑھ چکی تھی ۔۔۔وہ بھی اوہ ۔۔۔۔آہ ۔۔۔اور زبان باہر نکال کر دعوت دے رہی تھی ۔۔۔۔چاچا نے بیٹ اس کی چوت پر رکھا اور پہلی ہی بال پر چھکا لگا دیا ۔۔۔۔۔چاچا کا پورے کا پورا بیٹ اندر جا چکا تھا ۔۔۔لڑکی تھوڑا اوپر کو اچھلی اور او ر ایک زوردارہ آہ کمرے میں گونج گئی ۔۔۔۔چاچا نے دوبارہ بیٹ باہر نکالا اور ایک اور چھکا جما دیا ۔۔۔لڑکی کا منہ ایکدم کھلا اور بند ہوا ۔۔۔چاچا پورا بیٹ اندر لے کر جا کراب محسوس کر رہے تھے ۔۔۔۔لڑکی نے اپنی ٹانگیں خود ہی سمبھالی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔چاچا نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کی دونوں بالز پر رکھ دئیے ۔۔۔اور آگے کو جھکتے ہوئے دھواں دار بیٹنگ شروع کردی ۔۔۔چچاکے ہر شاٹ کے ساتھ لڑکی کی آہ ۔۔۔نکلتی اور زبان باہر نکال کر اممم امم کرتی ۔۔۔۔چاچا کا ہر شاٹ جچا تلا اور ماہرانہ تھا ۔۔۔۔فل پاور اسٹروک اوراندر تک گھستا ہوا ۔۔۔۔چاچا کے اسٹروکس کے ساتھ ساتھ چارپائی بھی اپنی آوازوں سے ان کا ساتھ دے رہی تھی ۔۔۔چاچا اسٹروک بڑے جاندار تھے ۔۔لڑکی کے پورا جسم اوپر کو اٹھتااور پھر نیچے کو ۔۔۔۔اور اس کی اممم۔۔افف۔۔آہ ۔۔۔آہ کی آہیں اس کے مزے کو بیان کر رہی تھیں ۔۔۔۔ادھر وقار کا ہاتھ بھی اپنے لن پر اتنی ہی تیزی سے حرکت کر رہا تھا ۔۔۔۔چاچا کوئی پانچ چھ منٹ تک دھواں دار بیٹنگ کرتے رہے ۔۔۔۔لڑکی کی اب بس ہونے لگی تھی ۔۔۔اس کی آہیں اب کراہوں اور چیخوں میں بدل رہی تھی ۔۔۔اس کے آؤٹ ہونے کا پورا خطرہ تھا ۔۔۔۔اورپھر ایک زوردار آہ کے ساتھ ہی وہ جھڑ گئی ۔۔۔۔۔چاچا نے دو چار اسٹروک اور مارے ۔۔۔۔اور اپن بیٹ سمبھال کر لڑکی کے منہ کی طرف بیٹھے اور لن اس کے منہ پر ڈال دیا ۔۔لڑکی نے خوب چوس کر اور اپنے تھوک لگا کر اسے چکنا کر دیا تھا۔چاچا نے اٹھ کر اب اسے گھوڑی بنا دیا تھا ۔۔۔۔میں سمجھا کہ اب پیچھے سے چدائی کریں گے ۔۔۔مگر نہیں ۔۔۔لڑکی کی ایک درد بھری کراہ نکلی اور چاچا اس کی گانڈ میں لن گھسا چکے تھا ۔۔۔۔تھوڑی دیرکراہنے کے بعد لڑکی کی اب مزے سے آہیں ۔۔۔۔کمرے میں گونج رہی تھی ۔چاچا کو موٹا تازہ بیٹ یہاں بھی اپنے کرتب دکھا رہا تھا ۔۔لڑکی بھی پیچھے کو ہو کر چاچا کا ساتھ دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے موبائل کو دیکھا تو ویڈیو بنتے ہوئے آدھا گھنٹہ ہو چکا تھا ۔۔چاچا اپنی پوری طاقت سے اس پر زور جوانی کو قابو میں کر رہے تھے ۔۔۔لڑکی اپنی بھرپور آہوں اور سسکیوں کے ساتھ چاچا کا ساتھ دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔چاچاکے جھٹکے بتا رہے تھے کہ ان کا ٹائم پورا ہو چکا ہے ۔۔۔ان کے جھٹکے تیزی سے بڑھتے جا رہے تھے ۔۔۔اور ایک تیز جھٹکے کے ساتھ وہ لڑکی آگے کو گر ی ۔۔۔اور چاچا بھی اس کے اوپر لیٹنے ہانپنے لگے ۔۔۔۔شاید فارغ ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔ادھر وقار بھی فارغ ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔لڑکی اب سیدھی ہوئی اور چاچا کے لن کو صاف کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور منہ میں ڈال کر چوسنے لگی ۔۔۔۔۔شاید ایک اور راؤنڈ کا ارادہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔مجھے سمجھ آ چکا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے ۔۔۔میں نے وقار کو شلوار بند کرنے کا کہا ۔۔۔موبائل ہاتھ میں پکڑا اور اندر کمرے میں کود پڑا ۔۔۔۔دوسری آواز وقار کی تھی جو میرے پیچھے ہی کودا تھا۔۔۔۔چاچا اور اس لڑکی نے ہمیں ایک ساتھ دیکھا اور ان کر رنگ پھیکے پڑ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں موبائل ہاتھ میں لے کر سیدھا ایسے بڑھا چلا جا رہا تھا جیسے کسی نیوز رپورٹر نے چھاپا مارا ہو۔۔۔۔۔۔۔اور وقار مجھے تیزی سے فالو کر رہا ہوں ۔۔۔۔لڑکی مجھے دیکھ کر چیخ مار کر ایک سائڈ پر ہو کر بیٹھ چکی تھی
۔۔۔کبھی کیمر ے سے منہ چھپاتی اور کبھی اپنے سینے پر ہاتھ رکھتی ہے ۔۔۔۔۔ میں سیدھا جا کر ان کی چارپائی کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔۔چاچا بھی قمیض پہن رہے تھے اور شکل سے فل پریشان لگے
رہے تھے ، کہنے لگے کہ راجہ بیٹا یہ کیا ہے ۔۔۔تم یہاں کیسے ۔۔تم تو دوستوں سے ملنے گئے تھے ۔۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ گیا تو دوست کی طرف تھا ، مگر وہ مجھے دوبارہ آپ کی طرف لے آئے
۔۔۔۔۔۔چاچا کچھ دیر تک گہرے سانس لیتے رہے ۔۔۔پھرلڑکی سے کہا کہ تم اپنے گھر جاؤ میں ان سے بات کر لوں ۔۔۔۔میں نے زور سے کہا کہ لڑکی کہیں نہیں جائے گی ۔۔یہی ہمارے سامنے بات ہو گی
۔۔۔لڑکی چاچا کی طرف دیکھنے لگی تو انہوں نے کہا کہ بیٹھ جاو ۔۔۔۔۔چاچا نے موبائل بند کرنے کا کہا کہ ویڈیو بند کردو ۔۔۔۔میں نے کہا کہ ایک شرط ہے کہ آپ کو میری ساری بات ماننی ہو گی ، ورنہ میں یہ
ویڈیو ابھی ابا جان کو بھیج کر خاموشی سے چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔چاچا نے کہا کہ ایک منٹ اور شلوار پہن کر میرے ساتھ دوسر ے کمرے میں آگئے ۔۔۔ادھر وقار کی رال اس لڑکی پر ٹپک رہی تھی
۔۔۔۔۔میں چاچا کے ساتھ دوسرے کمرے میں آیا اور پوچھا کہ کیا چکر ہے ، شروع سے بتائیں ۔۔اس لڑکی کا نام فوزیہ ہے ، برابر والے گھر میں رہتی ہے ۔۔ایک رات میں یہاں سو رہا تھا ، اور یہ خود ہی
میرے پاس آگئی ۔۔۔۔۔اس کے بعد 5 مہینے سے یہ تعلق چل رہا ۔۔۔۔چاچا بتانے لگے ۔۔۔۔میں نے پوچھا کہ نادیہ سے کب سے چکر ہے ۔۔۔۔وہ حیران ہوئے کہ مجھے کیسے پتا ۔۔۔۔اورپھر بتانے لگے کہ
ایک سال سے تھا ۔۔مگر جب سے فوزیہ آتی ہے تو اس نے آنا کم کر دیا ۔۔۔۔۔اب میں نے چاچا کو رگیدنا شروع کر دیا ۔۔۔۔میں نے کہا کہ آپ نے چاچی سے شادی کی ۔۔۔۔۔اور شادی کو بعد چند مرتبہ
ہی ان کے پاس گئے ۔۔۔۔۔۔اپنی بیوی کو توٹائم نہیں دیتے مگر دوسری لڑکیوں کے لئے ٹائم ہے آپ کے پاس ۔۔۔۔۔۔وہ چپ چاپ بیٹھے تھے کہنے لگے کہ میں بہک گیا تھا ۔۔اب ایسا نہیں ہو گا ۔۔تم پلیز
اپنے ابا کو نہیں بتانا ۔۔ورنہ وہ مجھے پورے خاندان میں بدنام کردیں گے ۔۔۔۔میں نے کہا کہ آپ کو پتا ہے میں بھی اب بڑا چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔اور مجھے بھی ایسی چیزوں کی خواہش ہے ۔۔۔چاچا مجھے حیرت
سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔ٹھیک ہے اگر تم چاہو تو تم بھی شامل ہو سکتے ہو ۔۔۔۔فوزیہ کی ایک دوست اور بھی ہے ۔۔وہ آ جایا کرے گی تمہار ے لئے ۔۔۔۔میں نے کہا مجھے یہ نہیں چاہیے کچھ اور ۔۔۔۔مگر
پہلے آپ کو میری ہر بات ماننی ہو گی بغیر کسی انکار کے ۔۔۔اور جہاں آپ نے رکاوٹ ڈآلی ، میں یہ ویڈیو ابا جان کو بھیج دوں گا ۔۔چاچا کچھ تذبذب کا شکار تھے ۔۔۔۔مگر کوئی اور حل نہیں تھا ۔۔ابا جان نے
انہیں سیدھا سیدھا اس خاندانی گھر سے نکال دینا تھا اور زمین سے کوئی حصہ بھی نہیں دینا تھا ۔۔۔۔۔۔۔آخر چاچا مان گئے ۔۔میں نے انہیں کہا کہ آخری بات اگر ہم دوستوں کی طرح رہیں تو ٹھیک ہے
۔۔ورنہ یہ بار بار کی بلیک میلنگ مجھے اچھی نہیں لگتی ۔۔۔چاچا نے کہا ٹھیک ہے ۔۔مگر تم بھی مجھ سے ہر بات شئیر کیا کروگے ۔۔۔۔۔میں نے بھی اثبات میں سر ہلادیا۔۔۔چاچا نے کہا کہ ان سب باتوں
کاصوفیہ کو پتا نہیں چلنا چاہئے ۔۔میں نے کہا کہ ٹھیک ہے چچی جان کو نہیں پتا چلے گا۔۔۔۔۔۔پھر میں نے کہا کہ وقار کو یہ لڑکی اچھی لگ رہی ہے ۔۔میں چاہتا ہوں کہ آپ دونوں اسے ملکر چودیں ۔۔۔چاچا
میری طرف دیکھتے رہے ۔۔۔۔پھر ایک گہری سانس لے کر بولے کے ٹھیک ہے میں پہلے فوزیہ سے بات کروں گا ۔۔۔۔۔۔میں چاچا کے ساتھ واپس کمر ے میں گیا تو وقار اپنے کپڑے اتار چکا تھا اورلڑکی
اسے خوف زدہ انداز سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں مسکر ا دیا ۔۔وقار بھی آخر میرا دوست اور ہمراز تھا ۔۔اسے پتا تھا کہ میں اندر جا کر کیا بات کرنے والا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔چاچا فوزیہ کے پاس جا کر بیٹھ گئے
اور دبی دبی آواز میں بات کرنے لگے ۔۔۔۔۔فوزیہ بات سنتے سنتے مجھے دیکھتی ، پھر ایک نظر وقار پر ڈالتی اور پھر چاچا کی بات سننے لگتی ۔۔۔۔۔میں سکون سے کرسی پر جا کربیٹھ گیا اور وقار کی پیٹھ پر ایک
دھپ ماری کہ جا شروع ہو جا ۔۔۔۔۔۔وقار تو تیار بیٹھا تھا مگر چچا کے اشارے کا انتظار تھا ۔۔۔آخر کچھ دیر بعد فوزیہ مان چکی تھی ۔۔۔۔۔۔چارپائی ڈبل سائز کی تھی ۔۔۔وقار بھی اپنا لن سمبھالتے ہوئے
فوزیہ کیطرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔فوزیہ جو شروع سے ہی بہت گرم اور سیکسی لگ تھی۔۔۔اس سچوئشن کو بھی انجوائے کر رہی تھی ۔۔اس کی نگاہیں وقار کے لن پر گڑی ہوئی تھیں۔۔شاید سائز دیکھ رہی ہوں
۔۔وقار کا لن چاچا سے تھوڑا چھوٹا تھا ۔۔۔۔مگر موٹائی میں اچھاخاصا تھا ۔۔۔پہلے تو تینوں ایک ساتھ جا کر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور ایک ٹرائی اینگل بنا لی ۔۔۔۔فوزیہ کے ایک طرف وقار اور دوسری
طرف چاچا تھے ۔۔۔فوزیہ کا ایک ہاتھ چا چا اور دوسرا ہاتھ وقار کے لن کو سہلا رہا تھا ۔۔۔۔ساتھ ساتھ وقار ایک سائیڈ کے ممے کو ہاتھوں میں دبار رہا تھا ۔۔۔اور دوسرا مما چاچا کےہاتھوں کے نیچے
تھا۔۔۔فوزیہ وہی ساتھ ساتھ آہیں بھررہیں ۔۔۔افف۔۔۔آہ۔۔۔امم ۔۔۔فوزیہ نے اپنے ایک ہاتھ پر تھوک گرا یا اور اچھے سے وقار کے لن کا مساج کرنے لگی ۔۔۔وقار کے لن بالکل سرخ گلابی تھا
۔۔۔اور جتنا موٹا تھا ۔۔۔اس سے کہیں زیادہ اس کا ٹوپی موٹی تھی ۔۔۔۔جبکہ چاچا کا سیاہ رنگ کا8 انچ کا تھا ۔۔مگر وقار سے کافی پتلا تھا۔۔۔۔۔۔ادھر وقار اپنی انگلیوں سے فوزیہ کے لمبےنپلز کو اور لمبا کرنے
میں مصروف تھا ۔۔۔جس کا پتا فوزیہ کی آہ ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔اممم سے بخوبی ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔وقار کا لن تھوڑی دیر میں فل تن چکا تھا ۔۔۔فوزیہ کی آنکھوں کی چمک بڑھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔وہ بھی آنے
والے مزے کا سوچ کر اپنی زبان باہرنکالتی اورامم کی آواز کے ساتھ پھیرنے لگتی ۔۔۔۔۔وقار نے ایک نظر چاچا کی طرف دیکھا جیسے پہلے راؤنڈ کی اجازت مانگ رہا ہوں ۔۔چاچا تھوڑا آرام کر نا چاہ رہے
تھے ، اس لئے انہوں نے وقار کو اشارہ دے دیا ۔۔۔۔۔وقار فوزیہ کو لے کر چارپائی سے اتر چکا تھا ۔۔۔ چاچا ابھی اوپر ہی تھے ۔۔۔۔۔وقار نے فوزیہ کو چارپائی کی سائیڈ پر کھڑا کیا اور اس کا سیدھا پاؤں اٹھا
کر چارپائی پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔اب فوزیہ کی پچھلا حصہ بالکل واضح تھا ۔۔اس کی سیدھے سائیڈ کی ران سامنے تھی ۔۔۔۔اور الٹا پاؤں پر کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔اس کے بعد وقار نے اسے آگے کی طرف جھکا دیا
،،اور وہ اپنے الٹا ہاتھ چارپائی پر رکھ کر آگے جھک چکی تھی ۔۔جہاں چاچا گھٹنوں کے بل بیٹھے اپنا بیٹ اس کے منہ میں ڈالنے کو تیار بیٹھے تھے ۔۔۔۔وقار نے پوزیشن سمبھال لی ۔۔۔۔فوزیہ اپنا سیدھ ہاتھ اپنی
سیدھی ران پر رکھ کر تیار تھی ۔۔بار بار اس کی نگاہیں وقار لے لن پر جاتیں ، اور وہ اپنے ہاتھ پر تھوک گرا کر اس کو مزید چکنا کر دیتی ۔۔۔۔وقار کے ذہن پر یقینا اسکی پچھلی چاچا سے چدائی پھر رہی ہو گی
۔۔اس لئے اس نے لن کی ٹوپ اس کی چوت پر رکھی اور ایک زوردار جھٹکا دے مار ا ۔۔۔۔فوزیہ ایک چیخ مارتی ہوئی آگے کو ہوئی جہاں چاچا کا لن اس کے منہ میں تھا ۔۔۔۔۔وقار نے اس کی کمر پکڑ کر دوبار ہ
کھینچا اور ایک جھٹکا اور دے مارا ۔۔۔فوزیہ کی ایک زور دار ۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔افف۔۔امم نکلی اوراسے ایک قاتلانہ نگاہوں سے پیچھے وقار کو دیکھا ۔۔۔۔اس کے بعد کیا تھا ۔۔وقار دھکے پر دھکے دیتا گیا
۔۔۔۔۔۔اور فوزیہ آہوں سے پورا کمرہ گونجنے لگا ۔۔۔آہ ۔۔۔آہ ۔۔۔افف۔۔۔۔کیا زور کا جھٹکا مارتا ہے ۔۔۔افف۔۔آہ ۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔ وقار کا بھی موٹا لن تھا ۔۔۔فوزیہ کے لئے تھوڑا مشکل بھی
تھا ۔۔۔مگر وقار کے جھٹکے اسے سمبھلنے نہیں دے رہے تھے ۔۔۔اور آگے سے چاچا بھی اس کے منہ کو چود رہے تھے ۔۔۔۔۔۔فوزیہ کے گول مٹول ممے بھی آگے پیچھے جھول رہے تھے ۔۔۔۔۔جسے میں
سے ایک وقار نے پکڑ لیا اور دوسرے کو چاچا نے سمبھال لیا۔۔۔۔۔فوزیہ کو دونوں سائڈ سے مزے آ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔وقار کے جھٹکے تیز سے تیز تر ہو رہے تھے ۔۔۔۔ادھر چاچا بھی اپنا حق پورا کر
رہے تھے ۔۔۔۔وقار کے جھٹکوں سے چارپائی بھی ہل رہی تھی ۔۔۔فوزیہ نے سیدھ پیر چارپائی پر ہی رکھا تھا ۔۔اور لگنے والے کو دھکے کو سمبھالتے ہوئے وہ آگے کو دھکا لگا تی تھی ۔۔۔۔۔وقار نے تو
جھٹکوں کی مشین ہی چلا دی دی ۔۔۔فوزیہ کئی بار آگے چاچا پر گری ۔۔۔پھر اس کی بس ہوئی اس نے وقارسے پوزیشن بدلنے کا کہا ۔۔۔۔چاچا کا لن اب تیار ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔چاچا اب چارپائی پر لیٹ گئے اور
۔فوزیہ ان کے اوپر آنے لگی ۔۔۔۔۔فوزیہ اپنی چوت کو سہلاتےہوئے اور اونچی آہیں نکالتی ہوئی چاچا کے لن کے اوپر آ گئی اور لن پکڑ کر ابھی چوت پر رکھ رہی تھی کو چاچا نے نیچے سے ایک جھٹکا دے مارا
۔۔۔۔فوزیہ کی ایک لمبی درد بھری چیخ نکلی اور وہ آگے کو جھک گئی ۔۔۔۔۔اتنے میں وقار بھی اوپر چڑھ آیا تھا ۔۔۔فوزیہ کے برابر میں کھڑے ہوتے ہوئے اس نے اپن لن فوزیہ کے منہ میں ڈال دیا تھا
۔۔۔۔فوزیہ اب نیچے سے چاچے کا لن پر سوار ی کر رہی تھی اور اوپر سے وقار اس کے منہ میں مزے کر رہا تھا ۔۔۔چاچا نے ہاتھ بڑھا کر اب فوزیہ کے ممے تھا م لئے ، جو کہ ڈھیلے ہوئے وے تھے۔چاچا کے
جھٹکے اب بڑھ رہے تھے ۔۔۔مگر فوزیہ اب فارغ ہو نے والی تھی ۔۔۔ایک تو وقار کے طوفانی جھٹکے اور اب چاچا بھی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے ۔۔۔۔۔ آخر ایک تیز آہ کے ساتھ فوزیہ فارغ ہو گئی ۔۔فوزیہ کا
چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ گرم اور انجوائے کر رہی ہے اس ڈبل کمبینشن سے ۔۔۔۔۔دھڑا دھڑ جھٹکے ۔۔۔۔اور نان اسٹاپ ایکشن ۔۔۔۔ وقار اب فوزیہ کی چوت کو آرام دینے کا سوچ رہا تھا ۔۔۔۔اس
نے فوزیہ کو گھوڑی بنایا اور پیچھے کی طرف آ گیا ۔۔۔۔جبکہ چاچا نے آگے سے گھٹنے کے بل ہو کر اپنا لن اس کہ منہ میں ڈالنے لگے ۔۔۔فوزیہ نے وقار کا رخ اپن گا نڈ کی طرف دیکھ لیا تھا ۔۔۔کہنے لگی کہ پہلے
اس پر کچھ لگا لو ۔۔یہ بہت موٹا ہے آگے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔وقار نے اپنے ہاتھ سے پر تھوک کا گولا پھینکا اورلگاتے ہوئے کہا یہ لے ہو گیا ۔۔۔۔فوزیہ اپنے ممے مسلتی ہوئی زبان باہر کو نکال رہی
تھی۔۔۔وقار اس کے قریب آ کر لن گانڈ کے چھید میں گھسانے لگا ۔۔۔فوزیہ کی درد سے کراہ نکلی ۔۔لن کا ٹوپ کافی موٹا تھا اور چھید بہت تنگ ۔۔۔۔وقار نے اس کے چوتڑ کو دائیں بائیں دھکیلا اور دوبارہ
زور لگانے لگا ۔۔۔لنڈ کا ٹوپ جیسے ہی اندر گھسا ۔۔فوزیہ کی ایک چیخ نکلی ۔۔۔وہ آگے کو ہوئی اورنکالنے کی کوشش کی ۔۔۔چاچا آگے ہوشیار کھڑے تھے ۔۔۔۔انہوں نے کندھے سے اس اور پیچھے دھکیل
اور اب فوزیہ کی چیخ پورے مکان میں گونج چکی تھی ۔۔۔۔۔لن آدھے سے زیادہ گانڈ میں پھنسا ہوا تھا ۔۔۔وقار بھی ایک دم تھم گیا ۔۔۔فوزیہ کی اس چیخ نے اسے بھی سہما دیا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ رک گیا اور
۔۔۔آگے سے چاچا اس کے ممے مسلنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔فوزیہ کی آہیں اور سسکی بڑھ رہیں تھی ۔۔۔چارپائی کی ہلکی سی حرکت سے اس کی ایک بلند آہ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔سسس۔۔۔۔نکلتی تھی ۔۔۔۔کچھ دیر
ایسے ہی ساکت رہنے کے بعد وقار آہستہ آہستہ آگے پیچھے ہونے لگا ۔۔۔فوزیہ کی آوازوں میں اب بھی تکلیف کی شدت تھی ۔۔۔۔وقار آہستہ سے اسے نارمل کرنے لگا ۔۔اور چاچا بھی اسے کے ممے مسل
کر اسے شاد کر رہے تھے ۔۔۔۔۔کچھ دیر گزری تھی کہ وقار نے پیچھے کو لن کھینچ کر دوبارہ آگے لے گیا۔۔۔فوزی کی ایک اور سسس ۔۔۔آہ نکلی اور ۔۔۔کچھ دیر ایسا ہی ہوتا رہا اور پھر ۔۔۔۔۔وقار شروع
ہوتا گیا ۔۔۔۔۔۔اس کے جھٹکے اور کمر کی گولائی۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ اس کی آہیں ۔۔۔میں خود بھی گرم ہو چکا تھا ۔۔۔۔مگر میں وقار کے سامنے ابھی چاچا سے تھوڑا پردہ کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔فوزیہ
اب دونوں ہاتھ چاچا کی رانوں پر رکھے ان کے لن پر جھکی ہوئی تھی ۔۔۔اور پیچھے سے اس کی اٹھی ہوئی گانڈ پر وقار سواری کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔فوزیہ بالکل مزے میں تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے ممے
بھی ہوامیں لہراتے ہوئے بالکل پرجوش تھے ۔۔۔۔۔اچانک کمرے میں ایک آہٹ ہوئی اور ایک نسوانی آواز گونجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہو رہا ہے ؟؟
آواز سنتے ہیں میں نے پیچھے دروازے کی طرف دیکھا تو ایک قبول صورت سانولے رنگ کی ایک عورت کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔ادھر وقار ، فوزیہ اور چاچا بھی فریز ہو چکے تھے ۔۔۔فوزیہ نے جب پلٹ کر دیکھا تو امی کی آواز نکال کر آگے کو ہوئی ۔۔۔فوزیہ نے وقار کا لن نکالنے کی کوشش کی مگروقاراپنی آخری حد پر تھا ، اس نے فوزیہ کی کمر تھامے رکھی ۔۔۔اور میری آنکھوں میں دیکھا وہ مجھے صاف کہ رہا تھا کہ سنمبھالو اسے راجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جلدی سے اٹھا اور آنٹی کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔۔ان کا گھر ہمارے گھر سے ملا ہوا ہی تھا ۔۔۔۔اور وہ چاچا کے لئے دوپہر کا کھانا بنانے آتی تھیں ۔۔۔۔فوزیہ کو ان کے آنے سے پہلے جانا تھا ۔۔۔مگر ہماری انٹری کی وجہ سے ان کی بھی دیر ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے آنٹی سے کہا کہ آئیے آپ کو بتاتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔میں نے وقار کو اشارہ کیا کہ لگے رہو ۔۔۔اور دروازہ بند کر دیا ۔۔۔۔
آنٹی کے ساتھ میں دوسرے کمرے میں تھا جو ڈرائنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا ۔۔۔۔میں نے انہیں صوفے پر بٹھایا اور فریج سے پانی نکال کر پلایا ۔۔۔۔۔وہ بہت پریشان اور پسینے میں بھیگی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔ وہ مجھے جانتی تھیں ، کہنے لگیں کہ راجہ بابو یہ سب کیا ہے ۔۔۔میں تو کھانا بنانے آئی تھی اور یہاں یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔میں نے کہا آنٹی میں آپ کو بتاتا ہوں ۔۔۔میں نے اپنا موبائل نکال لیا اور کہا کہ میں بھی آج ہی یہاں آیا ہوں اپنے دوست کے ساتھ ۔۔۔۔۔کچھ دیر پہلے ہی آیا تو یہاں پر یہ سب چل رہا تھا،،،،، یہ کہہ کر میں نے وہی ویڈیو پلے کر دی ۔۔۔چاچا بری طریقے سے فوزیہ کے ممے مسل رہے تھے ۔۔۔۔فوزیہ کی امی نے مجھے چونک کر دیکھا اوردوبارہ موبائل کی طرف نظر جما دی ۔۔۔میں اپنے معصومانہ انداز میں خود کو بے قصور ظاہر کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں نے آنٹی کے کپڑوں کی طرف دیکھا تو قمیض کا دامن درمیان سے قدرے مسلا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔اس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ آنٹی کچھ دیر سے وہ منظر دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اب ویڈیو دیکھتی آنٹی کو دیکھنا شروع کیا ۔۔۔سانولے رنگ کے ساتھ ، موٹی موٹی کالی آنکھیں ،جن میں بے تحاشہ سرمہ ڈلا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ فوزیہ کی طرح ہی ان کی ناک پر بھی چاندی کی نتھ تھی ۔۔تھوڑا سا لمبوترا چہرہ تھا ۔۔۔اور ٹھوڑی باہر کہ نکلی ہوئی ۔۔۔بات کرتے ہوئے گالوں پر ڈمپل پڑرہے تھے ۔۔۔۔۔گلابی رنگ کے اچھے پرنٹ کی قمیض تھی ، اور نیچے بلیک کلر کی فٹنگ والی شلوار جس میں ان کے رانیں بری طرح سے پھنسی ہوئی تھی۔۔۔۔ان کے سینے کی طرف دیکھے تو دودھ کی دکانیں کھلی ہوئی تھی ۔۔۔۔ویڈیو دیکھتے ہوئے ان کے سینہ بری طریقے سے دھڑک رہا تھا ۔۔اور منہ تھا کہ دوبارہ خشک ہو چکا تھا ۔۔۔۔بار بار زبان ہونٹوں پر پھیر رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔میں ان کی حالت سمجھ چکا تھا ۔۔اور یہ بھی کہ اگر چاچا اور وقار کو بچانا ہے تو ان کی ٹھیک ٹھیک بجانی ہے ۔۔۔۔۔
میں آنٹی کے پاس نیچے بیٹھا ہوا تھا ، اور وہ صوفے پر بیٹھی دونوں ہاتھوں میں میرا موبائل تھامے ویڈیو دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔فوزیہ اب چاچا کے لنڈ کو تھام کر کہ رہی تھی کہ کتنا جوان ہے ، مجھے ، چاچی اور نادیہ کو بھی ٹھنڈا کر تا ہے ۔۔۔آنٹی ایک دم اچھل پڑی تھی شاید نادیہ کو جانتی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔کمرے میں گرمی بڑھ رہی تھی ۔۔۔آنٹی کو پسینے آ رہے تھے ۔۔۔جس میں سے اٹھتی ہوئی شہوت میں صاف سونگھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ میں ان کے سامنے بیٹھے ہوئے انہیں تسلی دے رہے تھا کہ یہ سب تو کافی پہلے سے چل رہا ہے ۔۔۔میں تو ابھی آیا ہوں ۔۔۔آگے دیکھیں کیا ہورہا ہے ۔۔یہ کہ کر ویڈیو تھوڑی آگے کر دی ۔۔اب چاچا فوزیہ کو اوپر آ چکے تھے ۔۔۔آنٹی چاچا کے لن کو بھی حیرانگی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔کہ فوزیہ کی چیخ نکلی اور چاچا کا لن اندر گھسا ۔۔۔۔اور اتنے میں ساتھ کمرے سے ایک اور آواز آئی جو کہ یقینا فوزیہ ہی کی تھی ۔۔۔فوزیہ لگتا ہے دوبارہ شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب دیکھنا یہ تھا کہ اس کی امی کتنی ہوٹ تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ویڈیو دوبارہ آگےکی ۔۔۔اگلا نظارہ ان کے سامنا تھا ۔۔چاچا فوزیہ کو گھوڑی بنا کر گانڈ کا سوراخ کھول رہے تھے ۔۔آنٹی کی اب بس ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔انہوں نے دوبارہ مجھے دیکھا تو ان کی پیاس مجھے نظر آچکی تھی ۔۔۔میں نے آہستہ سے ان کی دونوں رانوں پر ہاتھ رکھ دئیے اور مسلتے ہوئے کہنے لگا ۔۔آنٹی میرا کوئی قصور نہیں ہے ۔۔یہ سب تو پہلے سے چل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ویسے آنٹی نے مجھے پر یقین تو کر لیا تھا ۔۔مگر اب آگے ۔۔۔۔۔میں نے آنٹی کی آنکھوںمیں دیکھا اور کہا کہ آنٹی میں نے چاچا سے یہی کہا تھا کہ آپ وقار کو بھی شامل کریں ورنہ میں یہ ویڈیو سب جگہ پھیلا دوں گا۔۔۔۔۔۔۔میری آواز ٹہری ہوئی اور اس میں ایک فیصلہ تھا ۔۔۔۔۔اور میرا لہجہ جو تھا وہ آنٹی کو کہ رہا تھا کہ یہ کہ تم بھی مان جاو ورنہ تمہاری بیٹی کی ویڈیو پھیل جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی کی آنکھوں میں پیاس تو تھی ہے ۔۔۔مگر ایسے ڈائریکٹ ماننے والی کہانی نہیں تھی ۔۔۔۔۔انہوں نے میرا موبائل دبوچ لیا اور کہا کہ میں یہ موبائل ہی توڑ دوں گی ۔۔۔۔میں نے کہا موبائل تو توڑ سکتی ہیں مگرویڈیو تو میموری کارڈ میں ہے ۔۔۔۔اور اتنا موقع تو میں آپ کو دے نہیں سکتا ۔۔۔۔۔آنٹی دونوں ہاتھو ں میں موبائل جکڑ کرچھاتی سے لگا کر جھک چکی تھی ۔۔۔ان کا خیال تھا کہ میں بھی زور آزمائی کروں گا ؟؟؟
میں بڑے اطمینان سے ان کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔ان کو ایک جھٹکا لگا۔۔انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور کہا کہ یہ کیا کررہے ہو ۔۔۔میں نے کچھ نہیں کہا اور ان کی قمیض کی پیچھے والی زپ کھول دی۔۔زپ ان کی کمر تک جا رہی تھی ۔۔۔بریزئر کی سرخ پٹی صاف نظر آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔آنٹی اب اٹھیں تو میں نے کندھے پر ان کی قمیض پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔۔نتیجہ ۔۔ان کے اٹھتے ساتھ ہی ان کے کندھے سے قمیض سامنے آگئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔میں نے تھوڑا اور زور لگا کر آگے سے قمیض پوری آگے کی طرف کر دی تھی ۔۔۔ان کے دودھ سے بھرے ہوئےسانولے ممے میرے سامنے تھے ۔۔جس کے بڑے بڑے نپلز مجھے دعوت دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قمیض اتنی آگے آئے ہوئی تھی کہ ان کے اپنے ہاتھ اس میں پھنسے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے نہایت اطمینان سے ان کی ٹانگیں اٹھائیں اور انہیں صوفے پر لٹا دیا ۔۔۔۔۔اب ان کی قمیض آگےسے آدھی اتری ہوئی تھی ۔۔ان کی ناف کا سوراخ نظر آ رہا تھا ۔۔مگر وہاں کوں دیکھتا ۔۔۔۔آگے دودھ سے بھرے ہوئے دو جام انتظار میں تھے ۔۔ ۔۔۔۔میں نے موبائل ان کے ہاتھ سے لے کر ساتھ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔اور ان کے ہونٹوں پر جھک گیا ۔۔۔۔سانولے چہرے پر یہ لائٹ براؤن ہونٹ بڑے ہی پرکشش تھے ۔۔اور اوپر ہونٹ پر لگا ہو تل ۔۔۔۔وہ تو اخیر ہی تھا ۔۔۔ہونٹ چوستے ہوئے میں ان کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ،جہاں میری کاریگری پر تعریف چھپی ہوئی تھی ۔۔۔۔میں صوفے پر ان پر جھکا ہوا تھا ۔۔اور ان کے ہاتھ قمیض کے بازو میں پھنسے ہوئے آگے کی طرف تھے ۔۔۔۔کچھ دیر بعد ان کے ہونٹ چوس کر میں نیچے کی طرف آیا ۔۔۔بریزئر کھول کر اتارے توتو کیا عالی شان ممے سامنے تھے ۔۔۔۔سانولے رنگے کے دودھ سے بھرے ہوئے اور خوب کالے کالے لمبے نپلز ۔۔۔میں نے پورے جی جان سے انہیں چوسنا شروع کیا ۔۔۔۔ساتھ والے کمرے سے فوزیہ کی لذت آمیز آوازیں اس کی امی کو اور بھی ہوٹ کر رہی تھی ۔۔۔یہی وقت تھا کہ میرے ہتھیار پر کچھ ٹچ ہوا اور میں اچھل گیا ۔۔۔۔۔آنٹی نے اپنے پھنسے ہوئے ہاتھوں سے میرے ہتھیار کو پکڑنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔میں نےا ن کو دیکھا تو وہ سسکیاں لے رہیں تھی ۔۔۔دونوں ماں بیٹی بہت ہی پیاسی تھی ۔۔۔۔۔میں اٹھ گیا اور ان کو بٹھاتے ہوئے قمیض اتار دی اور ساتھ ہی شلوار بھی ۔۔۔۔۔۔۔آنٹی کی آہیں اب بڑھ چکی تھیں ، وہ بار بار مجھ سے لپٹنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔۔۔۔میں نے اپنی بھی شرٹ اتار دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی میرے جسم کو تعریف کی نگاہوں سے دیکھنے لگیں ۔۔۔جسم کا ایک ایک مسلز الگ الگ نظر آتا تھا ۔۔۔۔ان کی نگاہیں میری پینٹ کی طرف بھی گئیں ۔۔مگر میں نےزیادہ موقع نہیں دیا ۔۔۔۔۔۔اور ایک مرتبہ پھر ان کے اوپر جھک گیا اور ان کے بڑے مموں سے دودھ پینے لگا ۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ہی ٹانگیں گھیٹ کر اپنی طرف کر دی ۔۔۔اب صورتحال یہ تھی کہ آنٹی صوفے کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں ۔۔۔اور میں ان کے ساتھ گھٹنوں کے بل بیٹھا ،۔۔آنٹی کی ٹانگیں میری کمر سے لپٹی ہوئی تھی، اور میں ان کے مموں کے دودھ کا دہی بنا رہا تھا ۔۔۔۔۔آنٹی کی آہیں بھی فوزیہ کی طرح بڑی دلکش تھی ۔۔۔۔ساتھ ساتھ یہ بڑی فارورڈ بھی تھی ۔۔ہرکام جلدی جلدی کر نا چاہ رہیں تھی ۔۔۔ساتھ ساتھ والے کمرے سے فوزیہ کی آوازیں اب بھی آہ رہی تھی ۔۔۔آہ ۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔اور آنٹی کی آنکھیں مجھے بلا رہیں تھیں کی بیٹا جلدی کرو ۔۔۔۔۔۔مجھ سے بھی اب برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔۔میں نے اسی حالت میں پینٹ کا بٹن کھول کر آدھی پینٹ نیچے کر دی تھی ۔۔۔نیچے میرا گھولن (گھوڑے کا لن) پورا تیا ر تھا ۔۔۔۔۔۔آنٹی کی اب تک نظر نہیں پڑ ی تھی ۔۔۔۔۔آنٹی کی چوت پوری کی پوری گیلی ہوئی وی تھی ۔۔۔اور بار بار کھل بند ہو کر بلا رہی تھی ۔۔۔۔میں نے آنٹی کی ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں اٹھا لیا ۔۔۔۔۔آنٹی کے بڑے بڑے دودھ کے جام میرے سینے ٹکرا رہے تھے ۔۔۔اور نیچے سے پوری چوت کھلی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔آنٹی نےمیرے سر کے گرد بانہیں ڈالی لی تھی ۔۔۔میں نے کہا کہ یہ لن کیا آپ کی بیٹی آ کر ڈالے گی ۔۔۔۔آنٹی نے مسکرا کر کہا کہ نہیں میں خود ڈالوں گی ۔۔۔۔آنٹی نے ایک ہاتھ نیچے کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔میرا گھولن فل تنا ہوا سنسنا رہا تھا ۔۔وہ آنٹی کے نیچے سے نکلتا ہواان کی گانڈ کے درمیان سے ان کی آدھی کمر تک آرہا تھا ۔۔۔۔پہلے تو آنٹی نے سائڈ سے ہاتھ نیچے کیا تھا ۔۔مگر جب انہوں نے پیچھے سے گھولن کو پکڑنے کی کوشش کی تو۔۔پہلے تو ان کا ہاتھ ٹچ ہوا ۔۔۔پھر ٹوپے پر پڑا اورپھر وہ اس کے ساتھ نیچے آتی گئیں ۔۔۔۔انہوں نے اپنی آدھی کمر سے گھولن کو پکڑا تھا ۔۔۔اور نیچے آتےہوئے ان کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا ۔۔۔۔پہلے تو انہوں نے اچھل کر اٹھنےکی کوشش کی ۔۔۔مگر راجہ کی بانہوں میں تھیں ۔۔۔۔۔اس کے بعد پھر رونا دھونا شروع کر دیا ۔۔۔ٹائم ضائع ہو رہا تھا ۔۔۔میں نے ایک پاؤں صوفے پر رکھا اور ایک ہاتھ کا آنٹی کا آدھا وزن اپنی ران پر شفٹ کی اور وہ ہاتھ نیچے بڑھا کر اپنے گھولن کا ٹوپا ان کی چوت کے منہ پر رکھ دیا جو کہ فل گیلی ہوئی وی تھی اور پان ٹپک رہا تھا نیچے ۔۔۔۔۔ایک ہاتھ سے میں نے ٹوپا اندر رکھتے ہوئے دباؤ ڈال دیا تھا اور آدھا ٹوپا اندر گھسا دیا تھا ۔۔اس کے بعد دوبارہ آنٹی کو ہاتھوں پر اٹھا لیا ۔۔۔آنٹی اچھی خاصی اوپر اٹھی ہوئی تھی ، ان کے بڑے بڑے ممے میرے سر کوچھو رہے تھے۔۔۔ میں نے آہستہ سے ان کو نیچے کیا ۔۔۔ان کی منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی ۔۔۔اوئی امی ۔۔۔۔مر گئی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی نے تڑپ کر دوبارہ اٹھنا چاہا ، مگر دوبارہ تو نہ اٹھ سکیں الٹا پورے کا پورے ٹوپ ان کے اندر گھس چکا تھا۔۔۔آنٹی کی ایک اور چیخ نکلی ۔۔۔اففف میں مرگئی ۔۔۔۔کوئی بچائو مجھے۔۔آئ اماں میں مر گئی۔۔۔۔ساتھ والے کمرے میں فوزیہ بھی یہ سن چکی تھی ۔۔مگربچانے کے بجائے وہ خود چد رہی تھی ۔۔۔میں نے آہستہ آہستہ گھولن کو ہلانا شروع کر دیا ۔۔۔آنٹی کے ممے اب بھی میرے سر پر جھول رہے تھے ۔۔۔میں نے اپنے سر کو پیچھےکیا اور ان کی نپلز کوتھام لیا ۔۔۔۔آنٹی کی زوردار کراہیں گونج رہیں ۔۔تھی ۔۔۔۔میں نے آنٹی کو تھوڑا سا اٹھا کر دوبارہ زور دیا تو ایک انچ اور اندر جا چکا تھا ۔۔آنٹی کی دوبارہ سے ہائے نکلی ۔۔۔۔افف میں مرگئی ۔۔۔۔۔کتنا بڑا لن ہے ۔۔۔۔مار ڈالا ۔۔۔۔۔۔افف میں مرگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے انہیں تھوڑا اور نیچے دبایا اور ایک انچ اور اندر جا چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔آنٹی کی دوبارہ کراہیں نکل رہیں تھی ۔۔۔۔اس طرح مجھے مشکل ہو رہی تھی ۔۔۔میں نےآنٹی کو دوبارہ صوفے پر ڈال دیا ۔۔۔۔۔گھولن ایک انچ تک ابھی اندر ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔اب لیٹی حالت میں آنٹی پورے لن کو دیکھ رہیں تھی ۔۔جس کا ٹوپا وہ لے چکی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی کے چہرے سے بہتا ہوا پسینا ان کے مموں تک آ رہا تھا ۔۔۔۔میں نے انہیں صوفے پر رکھا اور ان کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ دیں اور فل آگے کو جھک گیا ۔۔۔۔۔اور جتنا لن جا چکا تھا اتنا ہی آگے پیچھے ہلانے لگا ۔۔۔۔۔آنٹی کی زور دار چیخیں سن کر وقار اور چاچا بھی جوش میں آچکے تھے ۔۔۔۔۔۔ اور انہوں نے فوزیہ کو ہلاڈالا تھا ۔۔وہ وہاں سے افف امی ۔۔۔۔ہائے امی پکار رہیں تھیں ۔۔۔۔۔اور اس کی امی بھی اپنی ۔۔۔۔۔۔ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے آہستہ سے ہلاتے ہوئے ایک انچ تک اور گھسا دیا تھا ۔۔آنٹی اب بھی منتیں کررہیں تھیں ۔۔۔راجہ بابو ۔۔۔تھورا رک جاو ۔۔۔۔بہت درد ہے ۔۔۔۔۔آرام سے کرو ۔۔میری چوت پھٹ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔راجہ بابو آرام سے ۔۔ساتھ ساتھ میری سینے پر بھی ہاتھ پھیر رہی تھیں ۔۔۔۔۔میں نے کچھ دیر اور ایسے ہی ہلاتا رہا جب ان کا واویلا کچھ کچھ ہوا تو تھوڑا دباؤ اور بڑھا کر ایک انچ اور گھسا دیا ۔۔۔اور ایک مرتبہ پھر کمرے میں سسسس۔۔۔افف میں مر گئی ۔۔۔۔میں اب دونوں ہاتھوں سے ان کے بڑے بڑے ممے سمبھالنے لگا ۔۔اور انہوں نے خود ہی اپنی ٹانگیں پکڑ لیں جو ہلکی ہلکی کانپ رہی تھی ۔۔۔۔ممے مسلتے ہوئے بھی میں کوئی کمی نہیں چھوڑ رہا تھا ۔۔۔۔تا کہ آنٹی کا دھیان اور درد تھوڑا ادھر ٹرانسفر ہو ۔۔۔کچھ ہی دیر میں آنٹی کے سانولے ممے سرخ ہو چکے تھے ۔۔۔میں دوبارہ سے ایک گھسا اور مارا اور ایک انچ اور گھسا دیا ۔۔۔۔۔آنٹی کی پھر سے ۔۔۔اف میں مر گئی ۔۔۔راجہ بابو دھیان سے ۔۔۔۔۔بہت تنگ ہے یہ ۔۔۔۔۔میں نے اسی تین انچ پر دھکے دینا شروع کر دئیے تھے ۔۔۔۔۔ٹوپے تک باہر نکالتا اور پھر دوبار ہ اندر گھسا دیتا ہے ۔۔۔۔۔آنٹی کی سسکیا ںاور کراہیں دوسرے کمرے میں جا کر اس کی بیٹی کو اور گرم کر رہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔وہاں سے بھی اف امی ۔۔۔ہائے امی کی آوازیں تھی ۔۔۔۔۔ میں اسی طرح دھکے لگا تا رہا ۔۔۔کچھ دیر بعد میں اس پوزیشن میں بور ہو چکا تھا میں نےگھولن کو باہر کھینچا ۔۔۔۔۔اور آنٹی کو اٹھنے کاکہا ۔۔۔۔آنٹی اب گھولن کو حیران نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نےانہیں گھوڑی بننے کا کہا ۔۔۔۔۔وہ صوفے پر گھوڑی بن گئیں ۔۔مگر میں نے ان کا سر تھوڑا او ر نیچے کر کر صوفے کی بیک سے پھنسا دیا ۔۔اب ان کا آگے جانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔۔۔۔۔پیچھے ان کی گانڈ اتنی اٹھ چکی تھی کہ میں زمیں پر کھڑا اپن گھولن نہیں گھسا سکتاتھا ۔۔۔۔لہذا میں بھی صوفے پر دائیں بائیں پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ آیا ۔۔۔۔۔۔پھر میں نے اپنےپیر ان کی نیچے کو پھیلی ہوئی ٹانگیں کے درمیان اس طرح رکھیں کہ وہ پیچھے کو بھی نہ جا سکیں ۔۔۔۔اور پھر گھولن کے ٹوپے کومسلتا ہوا ایک تھوک کو گول اس پر پھینکا ۔۔۔۔اور چوت پر رکھ کر دباؤ ڈالا۔۔۔۔آنٹی اب بھی نیچے کو جا رہیں تھی ۔۔۔میں نے پھرایک زور دار دباؤ ڈال اور تین انچ تک اندر گھسا دیا ۔۔۔۔۔آنٹی درد سے بلبلا اٹھی تھی ۔۔۔ان کی تکلیف دہ آوازیں گونج رہیں تھیں۔۔۔۔میں نے سوچ لیا تھا کہ پانچ انچ تو اس مرتبہ ضرور گھساؤں گا ۔۔۔میں نے ٹوپا رکھا اور ایک اور جھٹکا مار کے باقی دو انچ بھی گھسا دیا ۔۔آنٹی کی اس چیخ نے ساتھ والے کمرے میں فوزیہ کو بھی ہلا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے گھولن واپس کھینچا اور دوبارہ اتنا گھسا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لن کے ساتھ خون کی ہلکی سی آمیزش میں نے دیکھ لی ۔۔۔۔۔اب میں آہستہ آہستہ دوبارہ آگے پیچھے کرنے لگاتھا ۔۔۔۔آنٹی کی آوازیں اب ۔۔۔۔اوہ۔۔۔آہ۔۔۔مر گئی ۔۔۔۔افف۔۔۔۔آہ ۔۔میں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔قریب پانچ منٹ تک میں ایسے ہی ان کی چوت کھودتا رہا ۔۔۔اس کے بعد آنٹی کو مزے آنا شروع ہو گئے تھے ۔۔۔۔ان کی سسکیا ں اب اور بلند ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔سس۔۔۔۔۔آنٹی اب تقریبا فارغ ہونے کے قریب تھی ۔۔۔۔اور کچھ ہی دیر ان کی گانڈ نے اوپر کر جھٹکا کھایا اور وہ پانی چھوڑ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ جلدی سے اٹھیں ۔۔۔اور مجھے دیکھنے لگیں جہاں ڈو مور کو بورڈ لگا ہوا تھا ۔۔۔۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ہاتھ جوڑ دئیے کہ اب بس باقی پھر کبھی کر لینا ۔۔۔۔اب میری بس ہو چکی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں تھوڑی دیر انہیں دیکھتا رہا ۔۔۔اور پھر اپنا گھولن دیکھا جہاں خون لگا ہوا تھا ۔۔۔میں نےکہاں کہ اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔اور انہیں کے کپڑے سے گھولن صاف کر کے ان کے منہ میں ڈال دیا کہ اس کو فارغ کریں ۔۔۔۔۔۔وہ اپنا منہ کھول چکی تھیں جہاں ٹوپا بھی جانے سےا نکار کر رہاتھا۔۔۔۔آنٹی نے پھر اچھے سے اس پھر تھوک پھینکا اور دونوں ہاتھوں سے اس پر مساج شروع کر دیا۔۔۔۔۔میری بھی سسکیاں نکل رہی تھی ۔۔ساتھ ساتھ آنٹی کی دودھ کی دکانیں بھی بری طریقے سے ہل رہیں تھی ۔۔۔آنٹی کو ئی دس منٹ کوشش کرتی رہیں اور پھر میرے لن نے ایک جھٹکا کھا یا اور ان کے منہ پر پہلا چھینٹا پڑا ۔۔۔وہ سانس کھینچ کرسمبھلی تھیں کہ ایک اور چھینٹا ۔۔۔اور اس کے ان کے منہ کو اور پوری چھاتیوں کو اچھے سے نہلا دیا ۔۔۔۔۔۔آنٹی یہ سب حیرانگی سے دیکھ رہی تھیں ۔۔میں دوبارہ ان سے لپٹ گیا اور کسنگ شروع کر دی ۔۔۔وہ پوری پسینہ میں ڈوبی ہوئی تھی جہاں اب میری منی بھی نہلا چکی تھی ۔۔۔۔۔آنٹی کی آنکھوں میں میرے لئے درد بھرا پیار نظر آ رہا تھا ۔۔۔اس کے بعد میں نے انہیں کپڑے پہنائے ۔۔۔۔ کپڑے پہن کر وہ مجھے لپٹ کر ہونٹ چوسنے لگی ۔۔۔راجہ بابو آج تو تم نے برسوں کی آگ کو بجھا دیا ۔۔دوبارہ کب چکر لگاؤ گے ۔۔میں نے کہا کہ جلد ہی آوں گا اور یہ نادیہ کے بارے میں بھی پوچھوں گا۔۔۔۔اس کے بعد ہم پہلے کمرے میں آئے جہاں فوزیہ بھی کپڑے پہن رہی تھی ۔۔۔۔۔اور کچھ دیر بعد دونوں ہاتھ تھامے اپنے گھر جا رہی تھیں ۔۔۔چاچا بھی پورے لباس میں تھے ۔۔۔۔اور وقار بے حد خوش تھا ۔۔۔چاچا میری جانب تشکر سے دیکھ رہے تھے جس طرح میں نے فوزیہ کی امی سے ان کی جان بچائی تھی ۔۔۔۔۔میں شام کو ان سے گھر پر ملنے کا کہ کر نکل آیا ۔۔۔بائک اسٹارٹ کر کے وقار کے گھر آ گیا جہاں کھانا ہمارا منتظر تھا ۔۔۔۔۔۔۔
بائک پر میں واپس وقار کے گھر ہی آیا تھا جہاں کھانا ہمارا منتظر تھا ۔۔۔۔ہم ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھے اور دونوں باری باری نہا کر فریش ہو چکے تھے ۔۔۔۔اس کے بعد باہر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے گئے جہاں بھرپور اہتمام کیا ہوا تھا ۔۔۔۔میں اور وقار ٹیبل کے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے اور سامنے کی طرف ثناء اور خالہ بیٹھی ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔کھانا کھاتےہوئے ہماری نونک جھونک جاری تھی ۔۔۔ثناء کہہ رہی تھی نہ آتے تو کتنا اچھا ہوتا ، ہمارا اتنا کھانا بچ جاتا ۔۔۔۔میں نے کہا کہ اتنا سار ا تم اکیلا کھا لیتیں تو پھر پہلے اسکول والی ہو جاتی ۔۔۔موٹی اور بھدی ۔۔۔۔ اس کے بعد اپنی امی کو کہنے لگی کہ دیکھیں کیسے کھا رہے ہیں لگتا ہے شہر میں کوئی ان کو کوئی اچھا کھلانے والا نہیں ، میں بس مسکرائے جا رہا تھا ۔ اس کی امی نے اسے ڈانٹا کہ بس کر دو اب کیا نظر لگانی ہے ۔۔۔۔ کھانا واقع ہی مزے کا تھا ۔۔۔ہم نے جی بھر کے کھانا کھایا اور پھر واپس ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئے ۔۔۔وقار کہنے لگا کہ یار آج تو مزہ ہی آگیا ۔۔۔تیرے آتے ہی وہ پہلا والا موڈ واپس آگیا ہے ۔۔۔چاچا کے سر پر تو آج بم پھاڑ دیا ہم نے ۔۔۔اب آگے کا کیا پلان ہے ۔۔میں نے کہا کہ کل تیرے اسکول چکر لگاتا ہوں اور اپنی پرانی ٹیچرز سے ملتے ہیں ، اسی کے بعد آگے کا پلان رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس نے بھی کہا کہ ٹھیک کل تو آ جا ۔۔۔اس کے بعد ہم کچھ دیر لیٹ گئے ۔۔۔۔۔مجھے کچھ نیند آ رہی تھی ۔۔۔وقار اور میں کچھ دیر کے لئے سو گئے ۔۔۔۔کوئی دو گھنٹے کے بعد میری آنکھ کھلی توشام کے 5 بج چکے تھے ۔۔۔میں اٹھا ، ڈرائنگ روم کی لائٹ آن کی تو وقار غائب تھا ۔۔۔اٹھ کر باہر آیا تو خالہ اور ثناء باہر بیٹھے بات کر رہے تھے ۔۔۔۔اٹھ گئے آپ ؟ اندر جا کر فریش ہو جائیں میں چائے لاتی ہوں ۔۔۔۔۔ثناء نے کہا۔۔میں نے پوچھا کہ وقار کہا ں ہے اس نے کہا کہ اسکول کی طرف گیا ہے ۔۔۔شایدہمارے چائے بننے تک آ جائے ۔۔۔میں ڈرائنگ روم میں واپس آ گیا ۔۔۔اور ہاتھ منہ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ثناء چائے لے کر آچکی تھی ۔اورسامنے ہی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔۔ اسکی جھکی جھکی نظریں بتا رہی تھی کہ اس نے ابھی تک مجھے دل میں بسایا ہوا ہے ۔۔۔۔۔میں نے پوچھا کہ اتنے عرصے یاد آئی تھی میری یا جاتے ہی شکر کیا کہ اچھا ہوا جان چھوٹ گئی ؟ اس نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں اٹھائیں اور کہا کہ آپ ہمیں کیا ایسا سمجھتے ہیں ؟ کیا آپ کو ہماری یاد نہیں آئی تھی ۔۔۔۔۔۔جو اتنے عرصے بعد چکر لگایا ہے ۔۔۔۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا یاد آئی ہے تو آیا ہوں ورنہ تمہارے بھائی نے تو آنا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔۔پھر وہ شہر کے حالات پوچھنے لگی کہ اپنے کالج میں تو کوئی لڑکی پسند نہیں آ گئی ، کوئی شہری لڑکی میں ۔۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ لڑکیا ں تو بہت ملیں ۔۔۔۔مگر ۔۔۔ مگر کیا ؟ ثناء سے صبر نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔مگر میرے دوست کی ایک بہن تھی ۔۔۔ہر وقت ناک بہتی رہتی ہے ۔۔۔رونے کا اسے بہت شوق تھا ۔۔۔۔ ہر وقت کسی نہ کسی ٹینشن میں رہتی تھی ۔۔۔۔۔اس سے اچھی مجھے کوئی اور نہیں ملی ۔۔۔۔۔۔ وہ اٹھ کر میرے سامنے آ گئی تھی اور باقاعدہ ہاتھ ہلا ہلا کر لڑنے والی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔غور سے دیکھیں ، کہاں سے ناک بہہ رہی ہے ؟ کون رو رہا ہے ؟ وہ روہانسی ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے کہا اے لڑکی اب بس کرو ۔۔۔۔اتنا عرصہ ہوا ہے اور تم ہو کہ لڑنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ۔۔۔۔اس نے گیلی آنکھوں سے شکوہ بھری نظروں سے دیکھااور کہا کہ لڑ کون رہا ہے ۔۔۔۔میں نے اسکے ہاتھ پکڑ کر اسے قریب کر لیا ۔تم اور کون۔۔وہ ایک دم گھبرا کر اٹھ گئی کہ بھائی آ جائیں گے ۔۔۔۔۔میں نے اسے دوبارہ بٹھایا کہ کچھ نہیں ہوتا بس پانچ منٹ ۔۔۔۔۔۔اس کی بڑی بڑی کالی آنکھیں کسی ہرنی کی مانند چمک رہی تھی ۔۔میری تھوڑی سی حرکت کے بعد ایسے چونک جاتی تھی جیسے ابھی اٹھ کر بھا گ جائے گی ۔۔۔چہرہ کسی دودھ اورشہد کی آمیزش سے بنا لگ رہا تھا ، اور اس پر کاجل لگی کالی کالی آنکھیں ، لمبی پتلی غرور سے کھڑی ہوئی ناک ،،،اور اس کے نیچے دعوت دیتے ہوتے اس کے گلابی ہونٹ ۔۔۔۔وہ کسی معصوم شہزادی کی طرح تھی ۔۔جس کے حسن کو ابھی تک باہر کی نظر نہ لگی ہو ۔۔۔بال میری توقع کے عین مطابق کالے سیاہ تھے ، جس سے ہلکی ہلکی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی ، اور بازہ بالکل متناسب ۔۔۔۔اور کلائیاں انگلیوں تک بالکل گوری چٹی اور نزاکت سے بھرپور تھی ۔بلیک کلر کی میکسی میں پورا جسم ایسے فٹ ہو ا تھا جیسے کپڑا اسکے اوپر رکھ کر سلائی کیا ہوا ہوا۔۔۔۔بالکل نفاست سے بازو اس جالی دار میکسی میں پھنسے ہوئے اورسامنے سے اس کے سینے کی اٹھتی منہ زور چٹانیں ۔۔۔اس ماہ جبیں کو کسی اور سیارہ کی شہزادی بنارہے تھے ۔۔۔۔۔وہ ابھی بھی گھبرائی ہو ئی ہرنی کی طرح میری نظروں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔کیا پہلے نہیں دیکھا ہے آپ نے ؟ دیکھا تو تھا مگر ایسے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔اچھا اب تو نہیں کہیں گے کہ میری ناک بہتی ہے ۔۔۔۔۔۔جواب میں مجھے اپنے کانوں پر ہاتھ لگانے پڑ گئے ۔۔۔میری توبہ جو آئندہ ایسا کہا ۔۔۔۔۔بس خوش ۔۔وہ ایک دم ہی خوش ہوگئی ۔۔۔اور اس کے چمکتی ہوئی مسکراہٹ کی روشنی پورے کمرے میں پھیل گئی ۔۔۔ کہنے لگی کہ اچھا آپ کل اپنی امی کے ساتھ آئیں ، مناہل اور ربیعہ کو بھی ساتھ لائیں ۔۔۔میں بہت سارا کھانا بناؤں گی ۔۔۔۔میں اس کی معصومیت کو کافی دیر تک تکتا ہی رہا ۔۔۔۔۔شہر اور گاؤں کی لڑکی میں یہی فرق تھا ۔۔۔شہر میں اب ایسی معصومیت کم ہی نظر آتی ہے ۔۔۔اور اس پر چہر ے پر آرٹیفیشل تھپے ہوئے پاؤڈڑ ۔۔۔۔ میں نے پوچھا مجھے سے اب تک پیار کر تی ہو یا پھر ۔۔۔۔۔ کیا پھر ؟ وہ کوئل کی طرح کوکی تھی ۔۔۔۔۔۔بھائی نے کوئی اور ڈھونڈا ہے تمہارے لئے ۔۔۔۔۔اور غصے میں اس کی ناک لال ہوچکی تھی ۔۔میرے ہاتھوں کی انگلیوں کو مروڑتے ہوئے کہنے لگی ، آپ کو بھی ایسی ہی باتیں کرنی آتیں ہیں ۔۔۔۔شہر سے یہی سیکھ کر آئیں ہیں ؟ پھر کیا باتیں کروں جو آپ کو پسند آئیں ؟ میں نے اس کی انگلیوں کو ہونٹوں سے لگالیا تھا ۔۔۔۔ اور اس کی آنکھوں میں بھی محبت اور تسکین دوڑ چکی تھی ، جو اپنے محبوب کو اپنے پاس دیکھ کر ہوتی تھی ۔۔۔مگر تھی تو مشرقی ہی لڑکی ۔۔۔۔۔ہاتھ چھڑوا کر کہنے لگی کہ ایسے نہیں کریں ۔۔۔۔۔مجھے شرم آ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔اور کوئی آ جائے گا ۔۔۔۔میں اٹھتے ہوئے بولا کہ اگر یہ بات ہے تو میں چلتا ہوں ، یہ نہ ہو کہ کوئی آ جائے ۔۔۔۔۔ابھی اٹھنے لگا ہی تھا کہ وہ کہنے لگی اچھا اچھا بیٹھیں ۔۔۔بس پانچ منٹ اور پھر چلے جائیے گا ۔۔۔۔۔میں بیٹھ گیا اور اس نے بھی میرا ہاتھ تھام کر اپنی ہونٹوں سے لگا لیا ۔۔۔وعدہ کریں کہ آپ میرے علاوہ کسی کی طرف نہیں دیکھیں گے ۔۔۔۔اور مجھے سے ہی شادی کریں گے ۔۔میں نے اسے دیکھا ، اس کی آنکھوں میں یقین اور غرور بھرا ہوا تھا ۔محبت اور چاہت کے دریا کی لہریں امڈ رہی تھی ۔۔۔ایک دل تو کیا کہ اسے بانہوں میں بھر کر جی بھر کر چوموںاور جسم کے ایک حصے پر اپنی ملکیت کی مہر لگاؤں ۔۔۔۔۔مگر وقار کے آنے کا ٹائم بھی تھا اور خالہ بھی کسی ٹائم آسکتیں تھی ۔۔۔میں نے اس کے گالوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور کہا کہ نہ تم سے پہلے کسی سے پیار کیا اور نہ تمہارے بعد ، تم ہی میری پہلی اور آخری محبت ہو ۔۔۔۔۔۔تصدیقی جملے کے بعد وہ واپس موڈ میں آ چکی تھی ۔۔الٹے ہاتھ سے اپنا گال صاف کرتے ہوئے بولی ۔۔کتنے گندے ہیں آپ۔۔میں کوئی بچی ہوں جو ایسے کررہے ہیں ۔۔۔۔آپ ۔۔۔اب میں کیا کہتا اسے ۔۔۔۔بس ٹھنڈی چائے حلق میں اتار کر اٹھ گیا ۔۔۔وہ میرا ہاتھ پکڑے باہر آ رہی تھی ۔۔۔۔ساتھ ساتھ قدم اٹھاتی ہوئی اور ایک ادائے ناز سے میری آنکھوں میں جھانکتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔ڈرائنگ روم سے باہر آکر اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا ۔۔۔۔ خالہ ابھی تک باہر ہی تھیں ۔۔۔میں نے کہا اچھا خالہ وقار تو آیا نہیں ، میں پھر چلتا ہوں ۔۔۔۔آپ ثناء کے ساتھ پھر چکر لگائیں ۔۔۔۔۔۔۔پیچھے سے ثناء کی آواز آئی ، ایسے نہیں پہلے آپ لوگوںکو آنا پڑے گا۔۔۔میں پیچھے مڑا تو وہ شرارتی نگاہوں سے مجھے ہی تک رہی تھی ۔۔۔۔میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے ہم جلد ہی آتےہیں ۔۔۔باہر آ کر بائک اسٹارٹ کی اور گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔ گھر میں داخل ہو کر امی کی طرف چلا گیا ۔۔۔انہیں خالہ کا بتا یا ، انہوں نے کہا کہ ہا ں چکر لگانا ہے وہاں بھی ۔۔۔۔پہلے مناہل اور ربیعہ ان کے ہاں ٹیوشن کے لئے جا رہیں تھیں تو ملاقات ہو جاتی تھی ۔۔اب تو کافی ٹائم ہو گیا ۔۔۔ایک دو دنوں میں چلتے ہیں ۔۔۔۔۔امی مجھے کہنے لگیں کہ اتنا باہر نہ پھر و ۔۔چہرے کا رنگ ہلکا پڑ گیا ہے ۔۔۔۔گھر میں ہی رہو ۔۔۔میں نے کہا بس تھوڑے دن ہیں دوستوں سے مل لوں ، پھر گھر ہی رہوں گا ۔۔۔۔۔یہ کہ کر میں اوپر آ گیا ۔۔بھابھی باہر کھڑی تھیں ، مجھے دیکھ کر کمرے میں ایسی بھاگیں جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔۔۔۔۔۔۔اور زور دار آواز سے کمرہ کے دروازہ بند ۔۔۔مجھے ہنسی آ گئی ۔۔۔۔میں سیدھا چاچی کے کمرے میں گھس گیا ۔۔ وہ الماری سے کپڑے نکال رہی تھیں ، میں جا کر پیچھے سے ان کو لپٹ گیا ۔۔۔۔۔اور ان کی گردن کو چومنے لگا ۔۔ ۔۔۔۔کیا ہو گیا راجہ ۔۔بہت خوش لگ رہے ہو ۔۔میں نے کہا کہ خوشی کی ہی تو بات ہے ۔۔۔آج آپ کے شوہر نامدار کے ساتھ سین کر دیا ہے ۔۔۔۔۔میں نے موبائل نکالا اور اور ویڈیو الماری کے کپڑوں پر ان کی نگاہوں کے سامنے رکھ دی ۔۔۔وہ دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔فوزیہ کو دیکھ کر اچھل پڑیں کہ یہ کون ہے ۔۔۔میں نے کہا کہ کہ کھیتوں کے قریب ہی رہتی ہے بہت گرم لڑکی ہے ۔۔۔۔آج چاچا کو رنگے ہاتھے پکڑا ہے ، اب ان سے جو کہا جائے گا وہی کریں گے ۔۔۔۔۔چاچی اپنے شوہر کے کارنامے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔کہنےلگیں کہ گھر میں بھی مزے کر رہے ہیں اور باہر بھی۔۔۔۔۔۔میں نے پوچھا گھر میں کس سے ، کیونکہ دودن پہلے ہی چاچی بتا چکی تھی کہ چاچا عرصے سے ان کے پاس نہیں آئے۔۔۔چاچی گڑبڑا گئیں کہنے لگیں میرے ساتھ ہی اور کس کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔اور پھر غور سےویڈیو دیکھنے لگیں ۔۔۔میں نے بھی ہاتھ بڑھا کر ان کے ممے تھام لئے اور اوپر سے ہی مسلنے لگا ۔۔۔۔۔انہیں تھوڑا سا آگے کیطرف جھکا دیا ۔۔انہوں نے بھی اپنی گانڈ پیچھے کی طرف نکال لی تھی ۔۔۔۔۔۔ایک ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو سہلانے لگیں جو کہ پینٹ میں قید تھا ۔۔۔۔۔اتنے میں بھابھی دروازہ کھول کر اندر گھسیں ۔۔۔امی سنیں زرا ۔۔۔۔۔اور پھر ہمیں دیکھ کر ٹھٹک کر رک گئیں ۔۔۔۔پہلے اس کی نظر اپنی امی کے ہاتھ پر پڑی جو میری پینٹ کے اوپر تھا ۔۔۔اور ہمارے چہرے پر ۔۔۔اور پھر اسی اسپیڈ سے واپس دوڑ گئیں کہ اچھا میں آتیں ہوں ا بھی ۔۔۔۔۔۔ میں نے چاچی سے کہا کہ آج کی رات آپ کی سہاگ رات ہے دوبارہ سے ۔۔۔۔۔چاچا اور میرے ساتھ ۔۔۔۔میں چاچا سے بات کرلوں گا ۔۔۔۔۔جب وہ آپ کو کہیں تو آپ نے ماننے سے انکار کر دینا ہے ۔۔۔۔۔اور جب وہ بہت زیادہ اصرار کریں تو اس شرط پر ماننا ہے کہ آپ باہر کسی سے نہیں کریں گے ۔۔۔اور ہر ہفتے چاچی کو ہی چودا کریں گے ۔۔۔۔۔چاچی کے چہرے پر خوشی دوڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔جو مزہ اپنے شوہر میں تھا وہ باہر کس میں تھا ۔۔۔۔۔۔شاید اسی بہانے ان کی محبت دوبارہ جاگ جاتی ۔۔۔۔۔۔چاچی پورے جوش میں آ چکی تھی کہنے لگی کہ اچھا ٹھیک ہے مگر تم تھوڑا ہلکا ہاتھ رکھنا۔۔۔۔۔میں انہیں سمبھال لوں گی مگر تم کو نہیں ۔۔۔۔۔۔تم زیادہ ان کو کرنے دینا ۔۔۔۔۔۔باقی میں بعد میں تمہیں ٹائم دے دوں گی ۔۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ ٹھیک ہےجیسے رانی کی مرضی ۔۔۔۔اور پھرانہیں سیدھا کر کے الماری کے اندر جھکا کر ہونٹوں پھر جھک گیا ۔۔۔چاچی بھی میرے کمر اور چوتڑ سہلانے لگیں ۔۔۔۔۔۔اور اسی وقت بھابھی دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔امی سنیں زرا ۔۔۔۔۔۔اور ہمیں دیکھ کر حیرت سے کہا کہ ابھی سے ؟؟؟اور پھر دوبارہ باہر نکل گئیں ۔۔۔چاچی نے کہا کہ اسے بھی ابھی آنا تھا ۔۔۔خیر میں جلدی سے الگ ہوااور کہا کہ چلیں آپ بھی تیار ہو جائیں ۔۔۔۔رات کو آپ کے دو دو شوہر ہوں گے دیکھتے ہیں کیسے سمبھالتی ہیں ۔۔۔۔۔۔اور پھر میں اپنے کمرے میں آ کر فریش ہونے لگا ۔۔۔۔شام کاکھانا لگنے میں تھوڑا ہی ٹائم باقی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راجہ کے جانے بعد میں کچھ دیر بیٹھ کر سوچنے لگی تھی کہ یہ سب کیا ہوا ۔۔۔اتنے میں صوفیہ بھی کمرے میں آگئی اور آتے ہی شرارتی انداز میں کہنے لگی کہ واہ بھئی ، آپ کے تو مزے ہی ختم نہیں ہو رہے ۔۔۔صبح میرے ساتھ اور اب راجہ کے ساتھ بھی شروع تھیں ۔۔۔۔۔میں نے اسے اپنے ساتھ بیڈ پر لپٹا دیا ۔۔۔اور کہا کہ ایک خوشخبری ہے تمہارے لئے ۔۔۔تم ایک مرتبہ پھر سے لائیو سین دیکھ سکتی ہو ۔۔۔۔راجہ کے ساتھ ؟؟؟ ہاں اور ۔۔۔۔۔تمہارے ابو کے ساتھ بھی ۔۔تینوں ایک ساتھ ۔۔۔صوفیہ ایک دم اچھل پڑی کہ یہ سب کیسے ہو گیا ابو کیسے راضی ہو سکتے ہیں ۔۔۔پھر میں نے پوراقصہ مختصر سنا دیا ۔۔۔۔۔۔صوفیہ یہ سن کر ابھی سے گرم ہونا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اتنے میں کھانا کی آواز آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔اور ہم دونوں ماں بیٹی نیچے چل پڑی ۔۔۔۔نیچے اس کے ابو پہلے سے پہنچے ہوئے تھے ۔۔۔ان کے چہرے پر کچھ پریشانی اور تھکاوٹ صاف نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔ہم بھی جا کر کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔۔راجہ بھی نیچے آ چکا تھا ۔۔مناہل اور ربیعہ نے آج بریانی اور وائٹ کڑاہی بنائی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔اس کے بعد کھیر کا دور چلا ۔۔۔۔اورمیں صوفیہ کو چائے اوپر لانے کا کہہ کر اوپر آ گئی ۔۔۔۔۔آخر تیاری بھی تو کرنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔میرے پیچھے پیچھے ہی ان کے ابو بھی اوپر آ رہے تھے ۔۔۔۔۔میں کمرے میں داخل ہو کر الماری کی طرف چلی گئی ، نبیل اوپر آ کر سیدھے میرے پاس آئے اور کہنے لگے نازیہ ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔ادھر آؤ ۔۔میں ان کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔۔وہ تھوڑی دیر سوچتے رہے کہ اور پھر شروع ہوئے کہ نازیہ مجھے سے ایک غلطی ہو گئی امید ہے کہ تم مجھے معاف کرو گی ۔۔۔میں بھی پوری ایکٹنگ کر رہی تھی ۔۔کیسی غلطی اور آپ مجھ سے کیوں معافی مانگ رہے ۔۔۔۔۔ نازیہ سنو تو سہی ایک بڑی بھاری غلطی ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔بتائیں گے تو سنو گی ۔۔۔ آج میں کھیتوں کیطرف تھا ۔۔۔تو ایک لڑکی کے ساتھ راجہ نے مجھے دیکھ لیا ۔۔۔۔۔۔ تو اس میں معافی والی کیا بات ہے ، کسی کام سے آئی ہو گی وہ لڑکی ۔۔۔۔۔۔نبیل صاحب کسمسا رہے تھے ، سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے ، مگر جو خود نہ سمجھنا چاہا اسے کو ن سمجھائے ؟؟ نازیہ صرف دیکھا نہیں ہے نا ہم قابل اعتراض حالت میں بھی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے تھے ۔مجھے آپ سے ایسی امید نہیں تھی ۔میں ایک دم اٹھ کھڑی ہوگئی ۔۔۔انہوں نے میرا ہاتھ تھا م لیا کہ سنو تو سہی ، اس نے ویڈیو بھی بنا لی ہے اور اب وہ بڑے بھائی کو دکھانے والا ہے ۔۔۔میری عزت تمہارے ہی ہاتھ میں ہے ۔۔۔پلیز بچا لو مجھے ۔۔۔۔۔۔مگر اس معاملے میں میں کیا کرسکتی ہوں ۔۔۔۔جو مانگتا ہے آپ اس کو دے دیں ۔۔۔۔۔نازیہ سنو تو سہی ۔۔وہ تمہارے ساتھ ایک رات گذارنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔نبیل کے منہ سے یہ بات سنتے ہیں میں بیڈ پر گر سی گئی ۔۔۔افف میں نے یہ بات کیسی سن لی ۔۔۔۔۔۔آپ نے اسے کچھ کہا نہیں ایسی بات کرتے ہوئے ، اس کی ہمت کیسے ہوئی یہ سب سوچنے کی ، وہ ہمارا بھتیجا ہے وہ کیسے ہمارے ساتھ یہ سب کر سکتا ہے ۔۔۔۔ جو ہوتا ہے ہونے دے ، میں یہ سب نہیں کر سکتی ۔۔۔۔نبیل پھر میرا ہاتھ پکڑ کر منت کرنی شروع کردی ۔۔۔تم بڑے بھائی کو جانتی تو ہو ،انہوں نے مجھے گھر سے نکال دینا ہے ۔۔۔۔ نبیل اب باقاعدہ میرے پیر پکڑنے کو ہو چکے تھے ،میں ان کا روتا منہ دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ ۔میں نے کبھی راجہ کو اس نیت سے دیکھا تک نہیں ہے ۔اور آپ اچانک ایسی بات کر رہے ہیں ۔۔۔۔اب نبیل کی حد ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔ انہوں نے رونا شروع کر دیا تھا ۔۔نازیہ بس ایک بار میری خاطرمان جاؤ ، اس کے بعد کبھی نہیں ہو گا یہ سب ۔۔۔میں باہر کبھی منہ نہیں ماروں گا ۔۔۔ہمیشہ گھر میں آؤں گا ، اور تمہیں پورا پورا پیارد وں گا ۔۔اتنے عرصے میں جو کمی کوتاہی ہوئی سب کا ازالہ کروں گا۔۔۔۔۔بس ایک بار یہ کر لو ۔۔۔۔میں نے اپنے چہرے پر سوچنے کا انداز لگا دیا ۔۔۔۔۔اچھا میں سوچ کر بتاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نازیہ سوچنے کا ٹائم نہیں ہے ۔۔راجہ نے آج کا ہی کہا ہے ۔۔۔۔۔اچھا تو پھر میں اکیلے میں راجہ کے ساتھ کر لوں گی ۔۔۔۔۔آپ کے سامنے مجھ سے یہ سب نہیں ہوگا۔۔۔۔پلیز ۔۔۔۔۔نبیل نے دوبارہ سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔نہیں راجہ کی شرط یہی ہے اور ہمیں بھی کتنا عرصہ ہو گیا ہے ایک ساتھ پیار کیے ہوئے۔۔۔۔بس تم جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔۔۔جو بھی ہو گا اچھا ہی ہو گا۔۔۔۔۔میرے چہرے پر نیم رضامندی دیکھ کر وہ اٹھے کہ میں نیچے سے چائے پی کر آتا ہوں۔اور ہاں وہ کپڑے پہننا جو تم شادی کی شروعات میں پہنتی تھی ۔۔۔۔۔ نبیل کے جانے کے بعد میں مسکر ا اٹھی اور جلدی سے تیاری شروع کر دی۔۔۔صوفیہ کو اس کے کمرے سے بلا کر لے آئی ۔۔۔اور الماری سے سرخ کام والی ساڑھی نکال کر اسے استری کرنے کو دے دی ۔۔وہ بھی مجھے بار بار چھیڑ رہی تھی ۔۔۔۔باتھ روم میں جا کر باتھنگ ٹب میں جا کر گرم پانی کو نلکہ کھول دیا ۔۔اور واپس آ کر بہت ساری گلاب کی پتیاں پانی میں ڈال کر کر اس میں لیٹ گئی ۔۔۔۔۔آنے والی رات کی بہت ساری یادیں ذہن میں آ رہی تھی ۔۔۔۔راجہ اور نبیل دونوں کے ساتھ ۔۔۔صوفیہ کپڑے استری کر کے کمرہ اندر سے بند کر کے آ چکی تھی ۔۔۔باتھ روم کے دروازے پر پہنچ کر اس نے بھی کپڑے اتارنے شروع کر دئے ۔۔۔میں اسے دیکھ کر مسکرا دی ، بیٹی جو میری تھی ۔۔صبر اس سے بھی نہیں ہو رہا ۔۔۔۔کپڑے اتار کر اس نے بیڈ پر پھینکے اور دھیمی چال سے چلتی ہوئی اندر ٹب میں داخل ہو گئی ۔۔۔۔کیا چمکیلا اور گورا بدن تھا ۔۔۔نازک اور نفاست میں لپٹا ہوا ۔۔۔ میری بیٹی آ کر میرے اوپر لیٹ چکی تھی ۔میں نے اس کی جگہ بنانے کے لئے اپنی ٹانگیں پھیلا لیں تھیں۔۔۔۔۔اس کا سلکی بدن میرے اوپر سے سلپ ہو رہا تھا ۔۔۔وہ اوپر کی طرف ہو کر میرے ہونٹوں پر جھک گئی اور بے صبری سے چوسنے لگی ۔۔۔نیچے سےاس کے بازوؤں نے مجھے دبوچ لیا ۔۔۔امی آپ کتنے مزے کرنے والی ہیں نہ ۔۔اکیلے اکیلے ۔۔۔۔۔اس کی شدت اس کی گرمی کو ظاہر کر رہی تھی ۔۔۔اس کے چھوٹے گول سخت ممے پانی لگے اب اور بھی چکی رہے تھے ۔۔۔۔۔میں نے اسکی بالوں کو پیچھے کیا اور اس کی نازک بے داغ کمر پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔۔۔۔اس کے پورے بد ن پر بالوں کا ایک ذرہ نہیں تھا ۔۔اور گلاب کی پتی کی طرح ہی بالکل نازک تھا ۔۔۔نرم ملائم اور گرمی میں پگھلتا ہوا ۔۔۔۔۔صوفیہ بڑی تیزی سے میرے ہونٹ چوم رہی تھی ۔۔۔اس کی گرمی دیکھ کر میری چوت ابھی سے گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ہم دونوں کی زبانیں آپس میں ٹکرا رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ماں بیٹی میں مقابلہ جاری تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد اس کے ہاتھ میرے مموں پر آگئے ۔۔۔آج ممے بھی پورے جوبن پر تھے ۔۔۔۔۔پہلے سے زیادہ باؤنس ہوتے ہوئے اور خوشی سے جھوم رہے تھے ۔۔۔صوفیہ تیزی سے اس کا دودھ نکالنے میں مصروف تھی ۔۔۔۔۔میں نے سوچا کہ میری تو رات باری آ رہی ہے ۔۔۔۔کیوں نہ صوفیہ کو ابھی فارغ کر دیا جائے ۔۔میں نے صوفیہ کو اٹھنے کاکہا اور سیدھا اپنے لیٹنے کا کہا ۔۔۔اب باتھنگ ٹب میں پہلے میں لیٹی ہوئی تھی ۔۔میر ی ٹانگیں پھیلی ہوئی تھی اور ان کے درمیان میری بیٹی لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔میں نے ٹب سے تھوڑی ٹیک لگا کر اپنا سر اٹھا دیا اورصوفیہ کا سر اپنی چھاتی سے لگا لیا ۔۔۔۔۔میں نے ٹب سے ٹیک لگائی ہوئی تھی اور صوفیہ نے مجھے پر۔۔۔۔۔۔میں نے اس کی گردن کوپیچھے سے چومتے ہوئے اس کی دونوں سنگتروں کو تھام لیا ۔۔اور تیزی سے مسلنے لگی ۔۔۔۔۔۔صوفیہ کی آہیں باتھ روم میں بھرنے لگیں ۔افف امی ۔۔۔آہ امی ۔۔۔آہ۔۔میں اپنے ہاتھ سے اس کے مموں کو جڑکی طرف سے دبوچتی اور آہستہ آہستہ نپلز کی طرف لاتی ۔۔۔جیسے دودھ باہر کو نکال رہی ہوں ۔۔۔۔صوفیہ اب بہت گرم ہو چکی تھی ۔۔نیچے سے اس کی ٹانگیں بار بار اٹھ رہیں تھیں ۔۔۔میں نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر اس کی ٹانگوں کے اندر رکھ کر اسے قابو کر لیا اور دوبارہ سے اس کے مموں کو مساج شروع کردیا ۔۔۔۔۔اب میں ایک ہاتھ سے اس کی دونوں مموں کو مسل رہی تھی اور ایک ہاتھ نیچے بڑھ کر اس کے پیٹ اور ناف پر پھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ افف امی ۔۔نیچے آگ لگ رہی ہے ۔۔۔۔وہ زیادہ اچھل کود کرنے لگی تو میں نے ہاتھ اور بڑھا کر کر اس کی چوت کے لبوں پر رکھ کر اسے سہلانے لگی ۔۔۔۔اس کے دونوں لب آپس میں ایسے جڑے ہوئے تھے جیسے ابھی تک کنواری ہو ۔۔۔۔میں نے اس کی چوت کے دانے کو مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔اس کی آہیں اب بڑھ چکی تھیں ۔۔۔افف ۔۔آہ ۔۔۔۔ساتھ ساتھ وہ ٹانگوں کو بھی اوپر اچھا ل رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ۔۔۔۔اپنی بڑی انگلی اس کی چوت میں داخل کردی ۔۔۔صوفیہ کے منہ سے ایک سسس نکلی ۔۔۔آہ ۔۔۔امی کیا کردیا ۔۔۔۔۔۔اور پھر زبان باہر کو نکال کر میری طرف مڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔جیسے چاٹنا چاہتی ہو ۔۔۔میں نے بھی اپنی زبان نکال کر اس سے ٹکرا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں زبانوں کی لڑائی جاری تھی اور وہاں میری انگلی اس کی چوت میں پھنستی ہوئی گھس رہی تھی ۔۔۔۔۔ابھی تک اس کی چوت بہت ٹائٹ تھی ۔۔۔۔۔میں نے دوسری انگلی بھی اندر ڈآل کر انگوٹھے سے چوت کا دانہ مسلنا شروع کر دیا ۔۔صوفیہ کی ایک اور آہ نکلی ، اس نے اپنی پیٹھ سے مجھے پیچھے دھکیلا ۔۔۔۔۔اور پھر آہیں بھرنے لگیں ۔۔۔۔۔میں بھی اپنی انگلی کی حرکت تیز کرنے لگی۔۔۔۔۔اس کی آہیں اب اور بلند ہو چکی تھی ۔۔۔۔اور پھر ایک زور دار چیخ کے ساتھ وہ فارغ ہونے لگی ۔۔اس کے جسم مستقل جھٹکے کھا رہا تھا ۔۔۔۔میں تھوڑی دیرتک انگلی اند رباہر کرتی رہی ۔۔۔۔صوفیہ اب پلٹ کر پھر مجھے سے لپٹ چکی تھی ۔۔۔۔وہ بہت بے صبری سے میرے پورے چہرے کو چوم اور چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔امی آپ کتنی اچھی ہیں ۔۔میرا کتنا خیال رکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے خود سے اٹھایا اور کہا کہ چلو اٹھو اب ٹائم کم ہے ۔۔تمہارے ابو ابھی آتے ہیں ہوں ۔۔گے وہ بھی جلدی سے اٹھی ۔۔۔باتھنگ فوم اٹھا کر مجھ پر شرو ع ہوگئی ۔۔۔۔پیچھے پوری کمر اورآگے سے چھاتیاں ، ٹانگوں کے درمیان سے ہر جگہ سے مجھے چمکا دیا تھا ۔۔۔۔میں نے ایک بار پھر پانی بہا کر اندر آگئی اور ۔۔۔۔صوفیہ نے میری بلیک بلاؤز اور پینٹی نکال لی تھی ۔۔۔بڑے چاؤ سے وہ مجھے پہنانے لگی ۔۔۔بلیک بلاؤز کے ساتھ سرخ رنگ کا لہنگا تھا ۔۔۔اور ساتھ ہی لال رنگ کا دوپٹہ ۔۔۔۔بلاؤز مجھے قدرے تنگ تھا ۔۔۔۔کافی سال پہلے کا جو تھا ۔۔۔صوفیہ نے کسی طرح مجھے وہ پہنا ہی دیا تھا ۔اس کے بعد اس نے میرے بال بھی ایک ریڈ پراندے میں باندھ دیے کچھ دیر بعد جب میں نے شیشے میں دیکھا تو حیراں رہ گئی ۔۔میرے آدھے سے زیادہ ممے باہر کی طرف ابھرے ہوئے ۔۔۔۔خوب موٹے موٹے ۔۔۔اور باہر کی طرف دائرے بناتے ہوئے ۔۔۔۔اس بلاؤز پر کافی سارے جھانجھر سلے ہوئے تھے ۔۔۔اور چلتے ہوئے جیسے ممے باہر کو باؤنس کرتے ، ویسے ہیں چھن چھن کی آوازیں بھی گونج جاتیں تھی ۔ صوفیہ نے کاجل اور لپ اسٹک لگا کر میرے حسن کو اور چمکا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ نے ایک پائل نکال کر وہ بھی میرے پاؤں میں باندھ دی تھی ۔۔اب میں چلتا پھرتا ہتھیار بن چکی تھی ۔۔۔۔۔اور راجہ نے آج جو حال کر ناتھا ، وہ بھی مجھے ہی پتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں کمرے میں بیڈ کے درمیان بیٹھ چکی تھی ۔۔۔۔۔۔صوفیہ نے کہا کہ ابھی آتی ہوں ۔۔۔اور نیچے کچن سے دودھ اور میوہ جات سے بھر ا ہو گلا س لے آئی ۔۔۔یہ میری پیاری امی کے لئے ۔۔۔۔۔۔جلدی سے پی لیں ۔۔۔۔ابو اورراجہ بھی آنے والے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔میں اس کی طرف مسکر ا کر دیکھا اور گلاس منہ سے لگا دیا۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد اس نے میرے گالوں پر کس کی اور نائٹ بلب آن کرتے ہوئے باہر چلی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کے کوئی گیارہ بجے ہوئے تھے۔۔۔۔کوئی دس منٹ بعد ہی صوفیہ کے ابو اندر داخل ہوئے اور کسی اور کو بھی اندر آنے کا کہا ۔۔۔۔جو کہ راجہ ہی تھا ۔۔۔۔ اس کے بعد دروازہ اندر سے بند کر لاک کردیا ۔۔۔۔۔۔دروازہ بند ہونے کے آدھا گھنٹا بعد ہی صوفیہ نے ہی دروازے پر آ جانا تھا ۔۔۔۔۔۔صوفیہ کے ابو آ کر میرے سیدھے ہاتھ پر بیٹھ چکے تھے ۔۔۔۔۔وہ بھی حیرانگی سے مجھے دیکھ رہے تھے ۔۔۔شادی کے اتنے سالوں بعد ہمارا ملاپ ہونے جا رہا تھا ۔۔اور انہوں نے کافی عرصے سے مجھے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔کبھی بھابھی کے کمرے میں جاتے تھے اور کبھی باہر ہی منہ مارتے تھے ۔۔۔آج کے بعد میرا شوہر ہمیشہ میرا ہونے جا رہا تھا ۔۔۔ ان کے ابو نے اب میرے ہاتھ تھا م لئے تھے اور اس سہلا رہے تھے ۔۔۔راجہ اب تک کھڑا تھا ۔۔۔۔بڑی معصومیت سے ۔۔۔۔جیسے اس سے زیادہ شریف کوئی نہ ہو ۔۔۔۔۔مگر وہ کیا تھا یہ ابھی تک ان کے ابو کونہیں پتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے انہیں کہا کہ بیٹا آ جاؤ ، اوپر سکون سے بیٹھو ۔۔۔۔راجہ بھی اوپر آ کر میری بائیں طرف بیٹھ چکا تھا ۔۔۔۔نبیل نے میرے سیدھا ہاتھ لے کر اسے چومنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔راجہ نے بھی ان کی نقل کی اور دوسرا ہاتھ تھا م کر چومنے لگا ۔۔۔۔میں نے ہلکی سی نظر اٹھائی ۔۔۔وہ بہت ہی پر جوش تھا ۔۔اور بڑے ہی شرارتی انداز سے مجھے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔میں بھی شرمانے لگی ۔۔۔۔۔۔راجہ نے میری ہاتھ کی انگلی لے کر اپنے منہ میں ڈال لی اور چوسنے لگا ۔۔۔۔۔میرے پورے جسم میں بجلیاں سی کوند رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔اور چوت ابھی سی گیلی ہونے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ کے ابو نے بھی انگلیاں چوسنی شروع کر دی تھیں ، لگتا ہے آج کی رات راجہ ان کو بہت کچھ سکھانے والا تھا ۔۔۔۔۔۔۔صوفیہ کے ابو کا دوسرا ہاتھ اب میری رانوں کے اوپر حرکت کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میرے جسم کی آگ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔اور ایسا لگ رہا تھا کہ میں بہت جلدہی فارغ ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔نبیل نے میری ایک ٹانگ سیدھی کر لی تھی ۔۔۔۔۔اور لہنگا سے ہاتھ اندر ڈال کرٹانگوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔۔۔۔۔۔۔راجہ نے اوپر کیطر ف حملہ اور ۔۔۔۔اور میرے موٹے اور باہر کو نکلنے کو بیتاب مموں کے اوپر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔۔۔۔یہ ممے وہ پچھلی رات والے ہرگزنہیں تھے ۔۔ جوش میں پہلے سے زیادہ تنے ہوئے اور اور باہر کو نکلنے کو بری طرح مچل رہے تھے ۔۔۔۔راجہ نے بھی اب میری ٹانگ سیدھی کر کے ایک ہاتھ اندر ڈال دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ایک ٹانگ پر نبیل کا ہاتھ اور دوسری پر راجہ کا ۔۔۔اور میں دونوں کا ٹچ الگ الگ محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔۔اور پھر ان دونوں نے مجھے کھینچ کر لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔نبیل کی آنکھوں میں دودھ کی پیاس تھی ، وہ اوپر کیطرف آ گئے اور راجہ نیچے کی طرف جا کر دونوں ہاتھو ں سے میری ٹانگوں کا مساج کر رہاتھا ۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے اب ایک ہاتھ میرے مموں پر رکھ کر میرے چہرے پر جھک چکے تھے ۔۔افف کتنے عرصے یہ چاہ تھی اور آج پوری ہونے جا رہی تھی ۔۔۔۔ان کے نرم ہونٹ میرے ہونٹوں سے ٹکرائے تو ہم دونوں کوایک جھٹکا لگا ۔۔۔۔اور اس کے بعد تو وہ میرے ہونٹوں پر پل پڑے تھے ۔۔۔بھنبھور رہے تھے ، کاٹ رہے تھے ۔۔۔ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ میرے دودھ کو تھام رہے تھے ۔۔۔۔۔ہلا رہے تھے ، ۔۔۔گرما رہے تھے ۔۔۔۔۔۔راجہ اب ٹانگوں سے آگے بڑھ کر رانوں پر آچکا تھا ۔۔۔۔اس نے پورا لہنگا اٹھا کر کمر تک اٹھا دیا تھا ۔۔۔اور اپنے زبان اور ہونٹوں سے پوری رانوں کو چمکانے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔صوفیہ کے ابو جیسے ہی سانس لینے کے لئے اپنا منہ ہٹاتے ، بے اختیار میری ایک آہ نکلتی اور پور ے کمرے میں گونج جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبیل نےاب میری زبان اپنے منہ میں لے کر چوسنی شروع کر دی ۔تھی ۔۔۔۔۔۔میں ایک ہاتھ ان کے کمر پر سہلا رہی تھی ۔۔۔۔اوردوسرے ہاتھ سے راجہ کے سر کو ،،،، جو پوری شدت سے میری رانوں کو دبوچ رہا تھا ۔۔چوم رہا تھا ۔۔۔چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔گلاب کی خوشبو سے مہکتی ہوئی میری ران اسے بھی گرم کر رہیں تھی ۔۔۔۔۔نبیل نے اب مجھے اٹھا کر بٹھانا چاہا ۔۔۔اور میرے بلاؤز کی ڈوری کھولنے لگے ۔۔۔۔۔میں نے ان کی مدد کی اور تھوڑی ہی دیر میں مہکتی ہوئے دودھ کی دکانیں سامنے تھی ۔۔۔۔۔میں نے صوفیہ کے ابو کو بھی کہا کہ آپ بھی قمیض اتار دیں ۔۔انہوں نے بھی جھٹ کہنا پورا کر دیا ۔۔۔۔۔اب ہم دونوں اوپر سے بالکل ننگے تھے ۔۔۔۔۔۔میرے ممے نائٹ لائٹ میں چمک رہے تھے ، مہک رہے تھے ۔۔۔۔صوفیہ کے ابو کی اب بس ہو چکی تھی ۔۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں اور چہرے کو لے کر میرے اوپر ٹوٹ چکے تھے ۔۔۔۔میرے سر کے نیچےدو تکیے رکھے ہوئے تھے اور میں کبھی ان کے ابو کو دیکھتی اور کبھی ۔۔۔راجہ کی طرف ۔۔۔۔جو ابھی تک رانوں کو چاٹ رہا تھا ۔۔اور اب میری گیلی چوت کو مسل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔نبیل کی حرکتیں اس بچے جیسی تھی جسے بہت عرصے بعد اس کاپسندیدہ کھلونا ملا تھا ۔۔وہ پوری شدت سے ان موٹے موٹے مموں کو مسل رہے تھے ۔میری آہیں تھیں کہ گرما گرم ۔۔شہوت سے بھری ہوئی آہ۔۔۔۔امم۔۔اففف۔۔آہ ۔۔۔مدہوشی کا ایساعالم تھا کہ میں بے ہوش ہوئے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔راجہ نے اب میرا لہنگا بھی اتار دیا تھا ۔۔۔اور پینٹی کو نکالنے کےدرپے تھا ۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے اپنا سارا تھوک میرے مموں پر پھیلا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔اور اب اس چاٹنے میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔ساتھ ہی انہوں نےا پنی شلوار کا ناڑہ بھی کھول دیا ۔۔۔۔اور ایک ہاتھ سے اتار کر نیچے کی طرف پھینک دی ۔۔۔۔میں نے ان کی یہ حرکت دیکھی تو ایک ہاتھ بڑھا کر ان کا لن تھا م لیا ۔۔۔۔۔گرمی میں تپا ہوا اور سختی پر آمادہ ۔۔۔۔۔۔جیسے جیسے میرے ہاتھ کا ٹچ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔وہ کھڑا ہو کر سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔او ر پھر صوفیہ کے ابومیرے اوپر آ گئے ۔۔میرے مموں کو آپس میں جوڑ دیا اور اس کے درمیاں اپنے موٹا اور لمبا لن گھسا دیا ۔۔۔۔کالے رنگ کا یہ لن میرے تھوک سے گیلے ہوئے مموں کے درمیان کسی پسٹن کی طرح حرکت کر رہا تھا۔۔۔۔میں نے بھی اپنا منہ تھوڑا سا نیچے کر اوپر آنے والے لن کیطرف منہ کر دیا ۔۔اب وہ لن کو آگے کو دھکیلتے تو اگے سے میرا منہ اس کا استقبال کر اپنے اندر بھر لیتا ۔۔۔۔۔۔راجہ بھی اب بے چین نظر آ رہا تھا ۔۔شاید اپنا لن نکالنے کا ارادہ کر رہا تھا ۔۔مگر میری توجہ تو اپنےشوہر کی طرف تھی ۔۔۔۔۔۔نبیل نے اب بالکل ردھم بنا لیا تھا ۔۔۔۔۔وہ تیزی سے جھٹکے مار رہے تھے ۔۔اور لن مموں کے درمیاں سے ہوتے ہوئے میرے منہ میں جا رہا تھا ۔۔۔۔اور ادھر راجہ نے اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا تھا ۔۔۔میرے منہ سے ایک زور دار آہ نکلی اور اور میں نے اپنی کمر کو اچھال دیا تھا ۔۔۔اس کے بعد راجہ نے بالکل رعایت نہیں دی ۔۔۔اس نے اپنی زبان اندر چوت کو اند ر گھسا دی تھی ۔۔۔اور بہت غصے سے اندر باہر کر رہا تھا ۔۔۔۔باہر سے اس کی انگلی اور انگوٹھا میری چوت کے دانے کو مسل اور کھینچ رہا تھا ۔۔۔۔قریبا پانچ منٹ تک وہ ایسے ہی کرتا رہا ۔۔۔ادھر صوفیہ کے ابو کے جھٹکے بھی بڑھ رہے تھے ۔۔۔۔۔لگتاہے دونوں ایک ساتھ ہی فارغ ہونے والے تھے ۔۔۔۔۔۔اور پھر ایک جھٹکے سے نبیل نے اپنا پانی میرے مموں پر نکال دیا اور ساتھ ہی میری چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔راجہ نے منہ ہٹا کر اپنی دونوں انگلیاں اندرڈال رکھیں تھیں۔۔۔۔۔اور آگے پیچھے کرنے لگا تھا ۔۔۔صوفیہ کے ابو نے اب اپنا لن دوبارہ میرے منہ میں ڈال دیا تھا ۔۔۔اور میں دوبارہ سے اسے سخت کرنے لگی ۔۔۔میرا ایک ہاتھ ان کی بالز پر گھوم رہا تھا جو ایک بار پانی چھوڑنے کے بعد دوبارہ سے بھرنے لگی تھی ۔۔کچھ ہی دیر میں نبیل کا لن دوبارہ سے تنا ہوا تھا اورمیری چوت میں گھسنے کو تیار تھا ۔۔میں ان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جہاں شہوت اور میر ی محبت ٹھاٹھے مار رہی تھی ۔۔۔۔۔۔راجہ ان کے موڈ کو سمجھ چکا تھا ۔۔ویسے بھی یہی بہتر تھا ورنہ راجہ کے لئے مشکل ہونی تھی ۔۔۔۔۔۔راجہ نے کہا کہ چاچا آپ نیچے آ جائیں ۔۔۔۔نبیل بھی نیچےکوکھسک چکے تھے ۔۔۔انہوں نے میری بھر ی بھری رانوں کو چوما اور پھراٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ دیں ۔۔میں ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔راجہ میرے الٹے ہاتھ کی طرف بیٹھا میری اٹھی ٹانگیں دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ہاتھ بڑھا کر اپنے چاچا کا لن تھا اور چاچی کی چوت پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔میری چھاتیا ں بھی اوپر کی طرف کھڑی ہو کر نظارہ کر رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔نبیل نے میری آنکھوں میں دیکھا اور ایک زوردار جھٹکا مارا ۔۔۔۔میرے منہ سے ایک زور دار سسکی نکلی ۔۔۔سسسس۔۔آہ ۔۔۔آہ ۔۔۔افف۔۔۔۔راجہ بھی فل گرم ہو ا وا تھا ۔۔۔وہ میرے اوپر جھک کر میرے ممے چوس رہا تھا اور ساتھ ہی ایک ہاتھ نیچے لے جا کر چوت کو دانے کو مسل رہا تھا۔۔۔۔۔نبیل نے ایک اور زوردار جھٹکا مارا اور میں اوپر نیچے سے لرز کر رہ گئی اور ایک زبردست لذت بھری آہ نکالی ۔۔۔۔جو کہ باہر کھڑی صوفیہ نے بھی سنی جو اپنے امی کو اپنے ابو کے نیچے لیٹے ہوئے بڑے شوق سے چدتا دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔راجہ نے اب میرے مموں کو نوچنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔میں اسے آنکھو ں ہی آنکھو ں میں تسلی دے رہی تھی ۔۔۔کہ تمہار ا نمبر بھی آئے گا ۔۔۔نبیل کے جھٹکے اب ردھم میں آ چکے تھے ۔۔۔میری آہوں او ر سسکیوں کے ساتھ میرےپاؤں میں بندھی پائل بھی کھنک رہی تھی ۔۔۔۔۔شاید وہ بھی میری چوت کی طرح فل مزے میں تھی ۔۔۔۔نبیل کے ہر دھکے کے ساتھ میرے میرے ممے راجہ کے منہ سے نکل کر اوپر کی طرف لپکتے ۔۔۔جسےراجہ پھر پکڑ کر واپس لاتا ۔۔۔۔۔۔مگر نبیل کے دھکوں نے بھی قسم کھائی تھی کہ راجہ کو ممے چوسنے نہیں دینے ۔۔۔آخر میں ان کی بیوی تھی ۔۔۔کسی اور کاحق تھوڑی تھا مجھ پر ۔۔۔۔۔۔۔نبیل اور راجہ کے درمیان لڑائی جاری تھی ۔۔۔۔دونوں ہار ماننے کو تیار نہیں تھے ۔۔۔۔۔۔اور پھر نبیل بھی فل جوش میں آگئے ، ان کے جھٹکے مجھے اندر بچہ دانی پر محسوس ہورہے تھے ۔۔۔میری آہیں بڑھتی جا رہیں تھی ۔۔آہ ۔۔۔آہ۔۔۔افف۔۔امم ۔۔راجہ ہارنےلگا تو نیچے سے ہاتھ ہٹا کر میرے دونوں ممے تھا م لئے اور اب باری باری چوس رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میری تو یہی خواہش تھی کے دھکے ایسے ہوں کہ راجہ بھی ساتھ اٹھتا جائے ۔۔۔اور شاید نبیل بھی یہی سوچ کر دھکے پر دھکے لگائے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔پورا کمرہ میرا آہوں سے گونج رہا تھا ۔۔۔۔۔اور نبیل کے پسینے نکلنے لگے تھے ۔۔۔ساتھ ساتھ میری چوت اور ان کے لن کی گھسٹنے کی آواز چپ چپ کر بلند ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے راجہ کو ہٹانے کی کافی کوشش کی تھی مگروہ تھا کہ میرے مموں سے چپک سا گیاتھا ۔۔۔۔۔آخر نبیل نے رکتے ہوئے کہا کہ گھوڑی بن جاؤ ۔۔۔۔میں تھک گیاہوں ۔۔۔۔راجہ بھی اٹھ سا گیا تھا ۔۔۔اس کی آنکھیں سلگ رہی تھی ۔۔۔میں نے اسے آنکھوں آنکھوں میں تسلی دی اور الٹی ہو کر گھوڑی بن گئی ۔۔۔۔۔میرا جسم اب میرے ہاتھ اور گھٹنے کے بل پر تھا ۔۔۔۔اورکمر تھوڑی نیچے کو جھکتی ہوئی، اور
اندر کی طرف کو دائرہ بناتی ہوئی میرے
چوتڑ کو اٹھا رہی تھی ۔۔۔۔۔اور چوتڑ اوپر کر خوب اٹھی ہونے کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں اور پیچھے کی جانب بھی پورے طریقے سے پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور یقینا صوفیہ کے ابو کا جوش اب پہلے سے زیادہ بڑھ چکا تھا۔۔جس کا اندازہ پہلے ہی جھٹکے سے ہوا تھا۔۔۔۔ میں ایک چیخ مار کر بری طریقے سے آگے کو گری تھی ۔۔۔راجہ بھی سائیڈ پر ہو گیا تھا جیسے کہ رہا ہو کہ اور مرو ۔۔۔۔۔۔ میں اٹھی اوردوبارہ سے پوزیشن سمبھال لی ۔۔۔اور پیچھے مڑ کر اشارہ کیا کہ اب کریں ۔۔۔اس کے بعد نبیل نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔۔میری آہیں اور سسکیا ں بلند ہونے لگے تھی۔۔۔۔۔۔ادھر راجہ بھی اپنی قمیض اتار چکا تھا ۔۔۔۔۔۔شاید کچھ ہی دیر میں اس کا ہتھیار سامنے آنے والا تھا ۔۔۔۔میری آہیں اور بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔نبیل بھی بڑھ چڑھ کر جھٹکے دے رہے تھے ۔۔۔۔۔اور میں خو د کو بخوبی سمبھال پا رہی تھی ۔۔۔۔ان کے جھٹکے تیز سے تیز ہوتے جا رہے تھے ۔۔صاف لگ رہا تھا کہ فارغ ہونے والے ہیں اور میرا بھی یہی حال تھا کہ کچھ ہی دھکوں کی مار تھی ۔۔۔۔اور پھر یہی ہوا ایک زور دار جھٹکے سے میں پھر آگے کو گری اور وہ بھی میرے اوپر ۔۔۔۔ہم دونوں ہی جھٹکے کھا رہے تھے اور فارغ ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ ادھر راجہ نے اپنی شلوار اتار دی تھی۔۔۔۔۔اس کا غصہ صاف ظاہر ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر تک ہم جھٹکے کھا تے رہے او ر پھر وہ آگے کو ہو کر میرے برابر میں لیٹ گئے ۔۔۔۔۔۔پورے کمرے میں ایک دل آویز سے بو پھیل چکی تھی ۔۔میرا اور ان کا پانی دونوں مل کر بیڈ پر گرے ہوئے تھے ۔۔۔کچھ دیر تک ہم دونوں ایکدوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے ہے ۔۔محبت واپس آ رہی تھی ۔۔۔۔۔چاہت اپنا رنگ جما چکی تھی ۔۔۔۔۔راجہ کا یہ احسان تو تھا مجھ پر ۔۔۔۔اور اب یہ احسان اتارنے کا ٹائم بھی آ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔راجہ نے شلوار اتارکر اپنا ہتھیار تھام لیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ سہلاتا ہوا میرے قریب آ کر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔میں تھکی ہوئی تو تھی ۔۔مگر اصل امتحان تو اب شروع تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔راجہ کا ہتھیار فل تنا ہوا تھا ۔۔۔اسے کسی چوسائ کی ضرورت نہیں تھی ۔۔۔۔۔میرے ممے کی طرح اس کا ہتھیار بھی آج پورے جوش میں لہرا رہا تھا ۔۔۔۔نبیل میرے برابر میں لیٹے سانس برابر کر رہے تھے کہ ۔۔۔۔۔ راجہ میری ٹانگو ں کے درمیان بیٹھ گیا۔۔۔میں اس کے بازو پر ہاتھ رکھے التجائیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔اور وہ سلگتی ہوئی نگاہوں سےمجھے گھور رہا تھا ۔۔۔۔۔اس نے میری چوت کے برابر اپنے پاؤں رکھے اورمیری ٹانگوں کے نیچے ہاتھ ڈال کر مجھے اپنی گود میں سوار کر لیا ۔۔۔اس کاہتھیار جیسے ہی میرے پیچھے ٹچ ہو ا۔۔۔میں ایک دم اچھل گئی تھی ۔۔۔گرم اور سخت لوہے کی راڈ کی مانند تنا ہوا تھا ۔۔۔۔میں روہانسی ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔نبیل کو بھی کچھ نہیں کہ پا رہی تھی ۔۔۔کہتی بھی تو کیا کہتی ۔۔۔۔اور ادھر میری بیٹی میری حالت دیکھ کر کانپ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اس کی انگلیاں بھی شاید چوت میں ڈلی ہوں گی ۔۔۔۔۔میں نے کوشش کی کہ راجہ کے سینے کے طرف بیٹھوں تاکہ اس کے ہتھیار سے فاصلہ زیادہ سے زیادہ ہو جائے ۔۔۔اتنے میں نبیل بھی لپک کر آگئے تھے ۔۔انہیں اب نظر آیا تھا کہ یہ گھوڑے کا لن ان کی بیوی کے اندر گھسنے جا رہا تھا ۔۔۔۔پہلے وہ راجہ کی طرف گئے ۔۔۔راجہ بیٹا یہ کیا ہے ۔۔۔۔اتنا بڑا ۔۔شاید انہیں فوزیہ کی امی کی چیخیں اب دوبارہ سنائی دی ہوں گی ۔۔مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔۔۔راجہ نے اب اپنا ٹوپا میری چوت کے نیچے ٹکا دیا تھا ۔۔۔۔اس کےپہلے جھٹکا ہی ایسا تھا کہ میری لرزہ خیز چیخ گونج گئی ۔۔۔۔۔ایسا لگا تھا جیسے کوئی خنجر اندر جا گھسا ہے ۔۔۔۔۔۔میں اٹھنے لگی مگر کیسی اٹھتی ۔۔۔میری دونوں ٹانگیں راجہ کے ہاتھ میں پھنسی ہوئی تھی۔۔۔۔نبیل مجھے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ترس بھری نگاہوں سے ۔۔۔۔پھر میرے پیچھے آگئے اور میری کمر پر ہاتھ پھیر نے لگے۔۔۔۔۔بس نازیہ تھوڑی دیر ہے ۔۔۔تھوڑا برداشت اور کر لو ۔۔۔۔راجہ کا ٹوپا اندر گھس چکا تھا ۔۔اس نے سمبھل کر دوسرا جھٹکا مارا اور ایک انچ گھسا دیا ۔۔۔میں دوبارہ سے کراہی ۔افف۔۔۔۔امی ۔۔مر گئی ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔۔۔راجہ کا لن اسقدر بری طرح سے پھنسا ہوا تھا کہ باہر آنے کو بھی مشکل ہو رہی تھی ۔۔۔راجہ نے وہیں رکے ہوئے ایک جھٹکا اور دے مارا۔۔۔۔میں پوری قوت سی اس کی سینے پر گری تھی ۔۔۔۔۔میرے بڑے بڑے دودھ سے بھرے ممے اس کے سینے سے ٹکرائے تھے۔۔۔۔۔۔۔نبیل نے مجھے تھاما ۔۔اور دوبارہ سمبھال کر میرے چہرے کو چومنے لگے جہاں پسینہ چمکنے لگاتھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ا ن کی مجھے سے محبت اب ظاہر ہورہی تھی ۔۔۔۔۔۔وہ بےاختیار چوم رہے تھے ،اور تسلی دے رہے تھے ۔۔۔بس نازیہ تھوڑا سا باقی ہے ۔۔بس تھوڑا درد اور ہو گا۔۔۔کچھ اور برداشت کر لو ۔ان سے زیادہ تو مجھے پتا تھے کہ کتنا اندر گیا ہے اور کتنا باقی ہے۔۔راجہ بغیر کسی رکاوٹ کے مسلسل دباؤ ڈالے جا رہے تھا ۔۔۔اور اس کے ہتھیار کا ٹوپا اندر قیامت مچاتا ہوا گھسا چلا رہا تھا۔۔۔۔ راجہ کافی اندر تک گھسا چکا تھا ۔۔۔اب وہ اپنے سینے سے مجھے نیچے اتارنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔۔۔اگر یہ گیپ کم ہوتا تو ابھی آدھالن ابھی باہر تھا ۔۔جو میرے بس سے باہر تھا ۔۔۔۔میں نے صوفیہ کے ابو کو پیچھے ہٹا یا ۔۔۔اور راجہ سے لپٹ گئی ۔۔۔۔۔اس کے سر کو میں نے اپنی چھاتیوں میں دبا لیا تھا ۔۔۔کہ اس کا غصہ کم ہو جائے ۔۔۔۔راجہ نے ٹوپے تک باہر کھینچ کر دوبارہ ایک جھٹکا مارا ۔۔۔اور میں ایک مرتبہ پھر چیخ اٹھی ۔۔۔افف میں مر گئی ۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔نبیل ابھی بھی پیچھے سے میری کمر کو چوم رہے تھے اور تسلیاں دے رہے تھے ۔۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ راجہ کو ہی رکنے کا کہ دیں ۔۔۔۔میرے منہ سے بے اختیار راجہ نکل رہاہے ۔۔راجہ بس۔۔۔میرے راجہ ۔۔۔راجہ بس کرو ۔۔۔راجہ اب وہیں رکا ہوااندر باہر ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اور مجھے صاف لگ رہا تھا کہ چوت بری طریقے سے چر رہی تھی اور واپس مل رہی تھی ۔۔۔۔۔نبیل کو پتا نہیں کیا سوجھی وہ مجھے راجہ کے اوپر سے اٹھانے لگے۔شاید منہ پر سے پسینہ پونچھنا چاہ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔اور راجہ نے اسی وقت ایک جھٹکا اور مارا ۔میں کچھ انچ اور دھنس چکی تھی۔۔۔اور اب میری چیخیں اب رکنے کا نام نہیں لے رہی رھی ۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔افف۔۔۔میں مر گئی ۔۔۔۔۔اوہ ۔۔آہ ۔۔۔۔۔راجہ بس ۔۔۔۔۔میں مر گئی ۔۔۔۔۔۔اوئی ۔۔۔راجہ اب میری ٹانگوں کو اٹھا کر مجھے نیچے لٹا چکا تھا ۔۔۔۔۔ایک پاؤں وہ بائیں طرف نکال چکا تھا اور دوسرے پاؤں کو اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنا ٹوپا باہر نکال کر ایک مرتبہ پھر میری لرزتی کانپتی چوت کے سر پر رکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔نبیل کو ابھی تک سمجھ نہیں آرہی تھی یہ سب کیا ہوا ۔۔۔۔اب وہ مجھے ہی تسلیاں دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔راجہ نےآگے کو بڑھے کر ٹوپا اندر گھسا دیا ۔۔۔میں اوپر ہو کر درد سے کراہی ۔۔۔۔۔۔۔افف ۔۔۔آہ ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔۔اور یہ نبیل کو بھی پتا نہیں کیا ہونے لگتا ہے ۔۔۔وہ میرے اوپر جھک کر میرے میرے دونوں ہونٹوں کو چوسنے اور اپنے منہ میں بند کرنے لگے ۔۔۔۔اور نیچے راجہ کو کھلی آزادی ملی ۔۔۔اس نےایک مستقل پریشر لگا کر 9 انچی تک لن اندر گھسا دیا تھا ۔۔۔دو تین انچ ہی اب باہر تھا ۔۔۔۔میں بری طریقے سے تڑپ رہی تھی ۔۔۔۔مجھے اپنی آخری رات یہ لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔اپنی چوت کے درمیان مجھےایک آگ میں جلتا ہوا لوہے کا راڈ لگ رہا تھا ۔۔۔۔جو آگے پیچھے ہو کر چوت کے دونوں سروں کو پھاڑ نے کی کوشش میں تھا ۔۔۔۔۔۔میری تڑپ بری طریقے سے بڑھ رہی تھی اور سسکیا ں اور کراہیں نبیل کے منہ میں دم توڑ رہی تھی ۔۔۔۔اور نیچے سے راجہ دھکے پر دھکے دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ پوراہتھیار باہر نکالتا اور 9 انچ دوبارہ اندر گھسا دیاتا ۔۔۔۔۔۔چوت اتنا درد برداشت کرنے کے بعد اب سن ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔راجہ کی ٹائمنگ کا مجھے اندازہ تھا ۔۔وہ 20 منٹ سے پہلے فارغ نہیں ہوتا ۔۔اور ابھی تک صرف 7 سے 8 منٹ ہی ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔راجہ اب پوری شدت سے پورے پورے جھٹکے مار رہا تھا ۔۔۔اور میری کراہیں بری طریقے سے میرے منہ سے نکل رہی تھی ۔۔اب میں کافی حد تک راجہ کا لن سمبھال چکی تھی ۔۔۔۔چوت چر توچکی تھی مگر اس کا لن اپنی جگہ بھی بنا چکا تھا ۔۔۔۔کسی پسٹن کی طرح اس کا لن چسس کی آواز نکالتا ہوا اندر گھستااور پھر واپس ٹوپے تک باہر آتا اور دوبارہ سے گھس جاتا تھا ۔۔۔۔میری سمبھلی حالت دیکھ کر نبیل سائیڈ پر اتر چکے تھے ۔۔۔۔اور ان کا لن بھی اب سنسنا رہا تھا ۔۔۔آخر ان کی بیوی ان کے بھتیجے کے نیچے تڑپ رہی تھی اور یہ سب انہی کی حرکتوں کی وجہ سے تھا ۔۔۔۔نبیل نے اپنا لن سہلانا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں وہ دوبارہ تیار ہو چکا تھا ۔۔۔۔راجہ کی طرف انہوں نے کچھ دیکھا ۔۔۔۔اور راجہ میری ٹانگیں اٹھائی دوبارہ سے کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔۔میں اپنی ٹانگیں اس کی کمر کے گرد لپیٹ چکی تھی اور گردن پر اپنے ہاتھ سے سے دائرہ بنا لیا ۔۔۔۔۔۔۔راجہ پر مجھے بے حد پیار آ رہا تھا ۔۔میں اس کا کافی حد تک لن لے بھی چکی تھی اور سہہ بھی ۔۔اور اب اسے میرے ہاتھوں سے فارغ ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔نبیل مجھے مزے سے آہیں بھرتے ہوئے دیکھ رہے جس کے درمیان کراہ بھی گونج اٹھتی تھی ۔۔۔افف۔۔آہ۔۔۔سسس۔۔۔ وہ بیڈ سے اتر کر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ چکے تھے ۔۔۔۔اور ویزلین کی ڈبی لے کر واپس آچکے تھے ۔۔۔۔۔مجھے کچھ دیر تک تو سمجھ نہیں آیا ۔۔۔مگر جب ان کی ایک انگلی ویزلین میں لت پت میری گانڈ کے چھید میں گھسی تو میں چیخ اٹھی ۔۔۔۔۔نبیل یہ کیا ہے ۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں جانو ۔بس ایک اور نیا مزہ آنے والا ہے ۔۔۔شادی کے اتنے عرصے میں وہ چند بار ہی میرے پاس ہی آئے تھے اور آج ایک ہی رات میں چوت سے گانڈ تک بھی پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔۔میں بری طریقے سے چلا رہی تھی ۔۔نہیں نبیل میں یہاں نہیں لے سکتی ۔۔۔۔۔پلیز مجھ پر ترس کھائیں ۔۔۔۔وہ مجھے تسلی دے رہے تھے کہ بس آرام آرام سے ہو گا۔۔۔۔پہلے انہوں نے ایک انگلی ڈالی ۔۔۔۔۔۔ویزلین سے پورا چھید بھر چکا تھا ۔۔۔اور میری گانڈ کا چھید کھل رہا تھا بند ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔آگے سے بھی تکلیف کم نہیں تھی ۔۔راجہ کو تنا ہوا لن سیدھ میری بچہ دانی سے ٹکرا رہا تھا ۔۔۔اور میری کراہیں سیدھی اس کے چہرے سے ٹکرا رہی تھی ۔۔۔میں اپنے چہرہ اسکے کے کندھے پر ڈال کر بے حس سی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں مجھے لگا کہ شاید دوانگلیاں اندر گھسی ہیں اور پھر وہ اسے بھی اندر گھمانے لگے ۔۔۔کچھ دیر میں گانڈ کا چھید نرم ہوچکا تھا ۔۔۔۔۔باہر بیٹی اپنی ماں کی حالت دیکھ رہی تھی جو اب بے ہوش ہونے قریب تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی نے تو دودھ پلا کر تیار کیا تھا ۔۔۔۔۔نبیل نے اب آدھی ویزلین اپنے لن پر مل لی تھی ۔۔۔۔۔اور اس کے بعد وہ میرے قریب آگئے ۔۔۔۔اور میری کمر کو چومنے لگے ۔۔۔میں کچھ ہوش میں آئی تو انہوں نے مجھے اپنے سینے پرٹیک لگوادی ۔۔۔اب میری ٹانگیں راجہ کے بازووں میں اور نبیل کے سینے پر ٹیک لگائی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔نبیل نے دونوں ہاتھوں سے میرے تنے ہوئے ممے تھام لئے جو اچھل اچھل اب تھک چکے تھے ۔۔۔۔کچھ دیر تک وہ ممے مسلتے رہے اور پھر ایک ہاتھ نیچے کی طرف بڑھا دیا ۔۔۔میں بری طریقے سے کراہ اور تڑپ رہی تھی ۔۔مگروہاں میری کوئی سننے والانہیں تھا ۔۔۔ایک بیٹی تھی وہ لاک کمرے کے باہرتھی ۔۔۔۔۔اور نبیل کا لن میری گانڈ کے چھید سے ٹکرایا ۔۔۔۔مجھے صاف اس کی ٹوپی اپنی ٹانگوں کے درمیان لگ رہا تھا اور اور پھر دباؤ بڑھتے ہوئے اس کی ٹوپ نے اندر سر گھسا دیا ۔۔میری ایک درد بھری کراہ نکلی ۔۔۔افف۔۔۔آہ ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر دباؤ بڑھتا گیا ۔۔۔مجھے ایسے لگا کہ گانڈ چیر چکی ہے ۔۔۔۔۔۔اور اس سے خون بہ رہا ہے ۔۔۔میں نبیل کو پیچھے ہٹانے لگی ۔۔۔۔۔مگر وہ کہاں ہٹنے والے تھے ۔۔میرے ناخن پوری قوت سے راجہ کے سینے پر گڑ چکے تھے اس کی بھی ایک کراہ نکلی ۔۔۔اور اس نے ایک جھٹکے سے مجھے اوپر اچھا ل دیا۔۔۔۔۔اور جب میں نیچے آئی تو نبیل اور راجہ دونوں کے موٹے موٹے لن اندر تک پھنس چکے تھے ۔۔۔میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔۔۔راجہ مجھے دیکھ کر رک چکے تھے ۔۔مگر صوفیہ کے ابو اب بھی آہستہ آہستہ ہل رہے تھے ۔۔ان کا لن پورا ندر پھنسا ہوا تھا ۔۔۔۔اور برے طریقے سے گانڈ چیرتا ہوا آگے پیچھے کو ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔میں آہیں اور کراہیں اب بلند ہی ہو رہی ۔۔۔آگے سے میری چوت پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔۔اور میرااصل دشمن راجہ اب تک اپنے کھڑے ہوئے لن کو تھامے ہوئے کھڑا تھا ۔۔۔۔نبیل کچھ دیر تک آگے پیچھے کرتے رہے پھر وہ بھی فارغ ہو گئے ۔۔۔۔۔شاید میری گانڈ کی تنگ موری نے انہیں جلد ہی پانی جھڑنے پر مجبور کر دیا تھا ۔۔۔۔اور پھر وہ اپنا لن نکال کر بیڈ پر ہی لیٹ گئے اور لمبے سانس لینے لگے ۔۔۔۔۔اور راجہ مجھے اسی طرح اٹھا ئے ہوئے بیڈ سے نیچے اتر گیا ۔۔۔۔۔۔وہ مجھے لے کر صوفے پر پہنچا اور مجھے الٹا لٹا دیا ۔۔۔۔۔۔میرے چوتڑ نبیل کا لن لینےکا بعد اب لال سرخ ہوئے تھے ۔۔اور مٹک مٹک کر مست ہو رہے تھے ۔۔۔۔گولائی میں نکلے ہوئے چوتڑ ہل ہل کر راجہ کو بلا رہے تھے ۔۔۔۔میں الٹی ہو کر لیٹ چکی تھی اور اپنی گانڈ اٹھا کر اونچی پہاڑی بنا چکی تھی ۔۔۔راجہ پیچھے سے آیا تھا ۔۔۔اور بدمست گھوڑے کی طرح اندر گھسا تھا ۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی گانڈکو پھیلایا ہوا تھا ۔۔۔اور میری چوت کی زبردت پٹائی جاری تھی ۔۔۔۔۔۔راجہ کے دھکے ایسے تھے کہ میں صوفے میں گھسی جار ہی تھی ۔۔اور آہیں تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں تھی ۔۔۔۔۔راجہ کا موٹا سے ٹوپا مجھے اپنے پیٹ میں محسوس ہوتاتھا ۔۔۔اور اس کے زوردار جھٹکے میری مموں کو میرے منہ پر لا کر مارتے تھے ۔۔۔۔۔ادھر نبیل بیڈ پر لیٹے میری ہمت کو سلام دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ان کی بس ہو چکی تھی ۔۔مگر ان کی بیوی کو تو احسان اتارنا تھا دلہے راجے کا ۔۔۔۔۔راجہ کے جھٹکے تھے کہ رکنے کا نام لے رہے تھے ۔۔اب میری بس ہونے لگی تھی ۔۔۔میں بار بار آگے کو گرتی اور وہ دوبارہ مجھے اٹھا تا تھا ۔۔۔۔۔۔میرے آنسو بہ بہ کر خشک ہو چکے تھے ۔۔۔۔راجہ بھی میرے آگے گرنے سے تنگ آ چکا تھا ۔۔۔۔وہ صوفے سے اتر ا اور مجھے گھسیٹ کراپنی طرف کیا ۔۔۔۔میری دونوں ٹانگوں کو کھینچ کر دونوں طرف کر دیا اور دوبارہ سے ٹوپا اندر گھسا دیا ۔۔۔۔۔۔اس کے ہر جھٹکے کے ساتھ میری کراہ نکلتی ۔۔۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ میرا منہ کھل اور بندہو رہا تھا ۔۔۔۔مگر وہ تھا کہ ترس کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔اور میری ٹانگیں اچھے سے چیرنے کے بعد میرے دودھ سے بھرے ممے تھام کر دوبارہ جھٹکے شروع کر دئیے تھے ۔۔۔۔ایک مرتبہ درد سے میرا منہ کھلا تو راجہ نے اپنی انگلیاں اندر گھسا دی اور میں کراہنے کے ساتھ وہ بھی چبانے لگی ۔۔۔۔۔راجہ کےدھکے اب طوفانی ہو چکے تھے ۔۔۔اور ہمارا صوفہ ہل ہل کر الٹنے والا ہونے لگا تھا ۔۔۔۔۔یہی وقت تھا کہ راجہ کا ایک نیا روپ میرے سامنے آیا تھا ۔۔۔۔جب اس کے جھٹکے طوفانی ہو جاتے تھے تو اس کی غراہٹیں بھی نکلنے لگتی تھیں ۔۔۔وہ کسی شیر کیطرح غرا رہا تھا اور دھکے پر دھکا لگا رہا تھا ۔۔۔پورے کمرے میں اب میری کراہوں سے زیادہ اس کی غراہٹ گونج رہی تھی ۔۔۔نبیل بھی ایک دفعہ تو کانپ ہی گئے تھے ۔۔۔راجہ کی غراہٹیں جاری تھی اور نیچے سے طوفانی دھکے ۔۔۔۔۔میں تیسری مرتبہ فارغ ہو چکی تھی ۔۔اور اس کی پہلی باری تھی ۔۔۔۔۔میرا پورا جسم اچھے سے بج چکا تھا ۔۔۔اور اب اس میں کوئی ہمت نہیں باقی تھی۔۔۔بس ایک بے جان سی پڑی میں اسے سمبھال رہی تھی ۔۔۔۔اور پھر اس کے طوفانی دھکے بڑھنے لگے اور ایک زور دار چنگھاڑ کے ساتھ وہ فارغ ہوا ۔۔۔۔۔اس کاپانی میرے اندر تک جا چکا تھا ۔۔۔پوری چوت بھر چکی تھی ۔۔اورباہر بھی گر رہا تھا ۔۔۔۔اور وہ جھٹکے پر جھٹکے کھا رہا تھا ۔۔۔۔۔اور کچھ دیر میں یہ شیر تھک کرمیرے اوپر گر چکا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور کپڑے اٹھا کر باہر کو نکلتا چلا گیا ۔۔۔نبیل آئے اور مجھے اٹھانے لگے ۔۔۔میں برے طریقے سے کانپ رہی تھی ۔۔۔۔۔پورا بدن لہرا رہا تھا ۔۔۔۔۔نبیل مجھے سہارا دے کر باتھ روم لے کر گئے ۔۔۔اور گرم پانی سے اچھے سے دھو کر بیڈ پر لٹا دیا ۔۔۔میں چندھیائی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہیں تھی ۔۔پھر وہ نیچے کچن گئے اور دودھ کا گلاس اور پین کلر دینے لگے ۔۔۔۔۔آخر شادی کے بیس سالوں بعد میرا شوہر میرا ہوچکا تھا ۔۔۔۔اس
کے لئے میں نے کتنی قربانی دی تھی آپ تو جانتے ہی ہیں نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاچی کے کمرے سے کپڑے اٹھا ئے میں سیدھااپنے کمرے میں نکلتا گیا تھا ۔۔آ کر بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔اور کچھ دیر سانس برابر کرنے کے بعد نہانے چلا گیا ۔۔ واپس آ کر بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔۔چاچا نے چاچی کو مناتے ہوئے جو جو وعدے کئے تھے ، انہوں نے چاچی کے موڈ اور انداز پر کافی بہتر اثرات مرتب کئے تھے ، اور ان کی سوچ کے مطابق چاچا باہر کے سب تعلق توڑ چکے ہیں اور اب گھر میں آیا کریں گے ۔۔۔۔اگر یہ سب ہو جاتا تو بہت ہی اچھا تھا ۔۔۔۔دیکھتے ہیں کہ چاچا اپنے وعدے پر قائم رہتے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔۔اور اس کےبعد ثناء میرے خیالوں میں چھن سے آ گئی ۔۔۔مسکراتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ پوچھتی ہوئی کہ مجھے یاد کئے بغیر کیسے سو پاؤ گے راجہ ۔۔۔میں کل کا پلان سوچنے لگا کہ امی اور بہنوں کو لے کر خالہ کا چکر ضرور لگا ؤں گا ۔۔۔اور پھر نیند کی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا گیا ۔۔۔
صبح اٹھا اور نہا دھو کر ناشتے کے لئے نیچے آ گیا ۔۔۔۔ آج کا ناشتہ بھابھی نے بنایا تھا ۔۔۔۔چاچی آرام کے موڈ میں تھیں ۔اورچاچا انہی کے ساتھ اوپر تھے۔۔۔۔میں بھی خاموشی سے بیٹھ گیا ۔ امی اور بہنیں بھی آ چکی تھیں ۔۔۔۔مجھے کل ہی امی نے بتایا تھا کہ مناہل وقار کے ہاں ٹیوشن پڑھنے جا تی رہی تھی ۔۔۔میں نے مناہل اور ربیعہ کو بھی بتا دیا کہ کل میں ثناء کے ہاں گیا تھا وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہے ۔۔۔۔امی بول پڑیں کہ آج تم گھر پر ہیں رہنا ، شام میں ہم سب ساتھ میں چلیں گے ۔۔۔میں نے بھی کہا کہ ٹھیک ۔۔۔۔بھابھی مجھے اگنور کرنے کی ایکٹنگ میں مصروف تھیں ۔۔۔میں امی سے باتیں کرتا تو وہ مجھے دیکھ رہی ہوتیں اور جب میں ان کی طرف دیکھتا تو نظریں دائیں بائیں ایسی گھماتیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہو ۔۔میں دل ہی دل میں مسکر ارہا تھا ۔۔۔میں نے بھابھی سے کہا کہ ایک گلاس پانی پکڑائیے گا ۔۔۔پانی کا گلاس بڑھاتے ہوئے وہ حسب معمول دائیں بائیں نظر گھمار رہی تھی ۔۔۔۔میں نے گلاس تھامتے ہوئے ان کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔گلاس چھوڑا تو میں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا اور گلاس ٹھاہ کرٹیبل پر گر چکا تھا ۔ وہ جلدی سے اٹھ گئیں اور اسفنج لے کر پانی خشک کرنے لگی ، میرے قریب ہی کھڑی تھیں ، میں نے بھی چپل سے پیر نکال کر ان کے پیروں کے اوپر رکھ دئیے ، انہوں نے دوبارہ مجھے چونک کر دیکھا۔ اور پاؤں کو نیچے سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔کچھ دیر ایسےہی کرنے لگیں ۔۔۔پھر میں نے پاؤں اٹھا دئے تو وہ کچن کی طرف چل پڑی تھیں ۔۔۔واپس پر وہ مجھے بری طریقے سے گھور رہیں تھیں ناشتہ ختم کر کے میں نیچے ہی بہنوں کو پاس بیٹھ گیا تھا ، ٹی وی آن کر کے ہم کچھ پروگرام دیکھنے لگےکچھ ہی دیر میں بھابھی چائے لے کر آچکیں تھیں ، چائے دے کر ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئیں ، مناہل اور ربیعہ آگے کی طرف تھے ،اور ان کے منہ ٹی وی کی طرف تھے ،، بھابھی کہنے لگیں کہ یہ سب نہیں چلیں گے ، میں نے پوچھا کہ کونسے۔۔۔یہی مجھ پر لائن مارنے والے ، مجھے یہ سب پسند نہیں ہیں ۔۔۔توپھر کونسے کام پسند ہیں ؟ ۔۔۔بھابھی نے نظریں دوبارہ گھما لی ۔۔۔میں نے پوچھا کہ رات کو مزہ آیا تھا دیکھنے میں ؟ وہ غصیلی نگاہوں سےمجھے دیکھنے لگیں اور پاؤں پٹختی ہوئی اپنی چائے لے کر چلی گئیں ۔۔۔۔ میں مناہل اور ربیعہ کی طرف متوجہ ہوا انہیں آوا ز دی تو وہ لپکتی ہوئی آگئیں اور آ کر میرے صوفے کے دائیں بائیں ٹک گئیں ، ۔۔میں پہلے بتا چکا تھا کہ مناہل میڑک کے امتحان اور ربیعہ نہم کے امتحان کے بعد اب فارغ تھیں ، چھٹیوں کے بعد ہی ان کی اگلی کلاسز شروع ہونی تھی ۔۔مناہل دھیمے مزاج کی اور ذمہ دار لڑکی تھی ، اور ربیعہ شوخی اور چنچل سے بھرپور تھی ۔۔۔اکثر غلطیوں پر مناہل اور امی سے ڈانٹ کھاتی رہتی مگر کرتی اپنی مرضی ہی تھی ۔۔۔۔ربیعہ نے اپنے بازو میرےکندھوں کے گرد رکھتے ہوئے بولی ، بھیا آپ شہر جا کر کتنا بدل چکے ہیں ، آپ کو اپنی بہنیں یاد ہی نہیں آتیں ، سارا دن باہر رہتے ہیں اور پھر اوپر اپنے کمرے میں ۔۔ہم کتنا انتظار کرتیں ہیں آپ کےجلدی آنے کا۔۔۔۔۔مگر آپ ہیں کے آتے ہیں نہیں ۔۔۔میں نے کہا کہ اچھا بابا جو ہو گیا سو ہو گیا ، اب میں ٹائم پر آ جایا کروں گا ۔۔۔اور اس کے بعد ان کے فرمائشی پروگرم شروع تھے ، جس میں ایک عدد شہر لے جا کر شاپنگ تھی ، ایک دن وہاں ان کے ساتھ سی سائیڈ دیکھنی تھی ، انہیں ایک اچھے والا موبائل اور لیپ ٹاپ بھی چاہئے تھے ۔بہت سارے دھی بڑے اور گول گپے کھانے تھے۔۔اور شہر میں رہنے والی ایک دوست سے ملوانا تھا ، ۔۔۔ابا کے پاس بھی لے کر جانا تھا ۔۔۔اور یہ فرمائشیں جاری ہی تھی کہ میرے موبائل کی بیل بجی ، نمبر دیکھاتو وقار کا تھا۔۔۔میں نے کال ریسیو کی تو کہنے لگا کہ راجہ تو پھر آج اسکول آ رہا ہے نا ۔۔۔میں نے کہا کہ بس آدھے گھنٹے بعد آتاہوں ۔۔فون بند کیا تو ربیعہ منہ بسور کر بیٹھی ہوئی تھی ، پھر سے آگیا آپ کے دوست کا فون ،، اب رات سے پہلے تو آپ نے نظر نہیں آنا ۔۔۔میں اس کے سر کو سہلاتا ہوا بولا ، بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں ، تم تیار رہنا پھر خالہ کے ہاں چلیں گے ۔۔وہ خوش ہو گئی تھی۔۔مناہل ہمیں خاموشی سے دیکھ رہی تھی ، میں نے اس سے پوچھا کہ تمھیں کچھ چاہئے ، وہ کہنے لگی کہ بھائی آپ بس ٹائم پر جلدی آ جائیے گا ، یہ نہ ہو کہ ہم انتظار کرتے رہیں ۔۔میں نے ہاں میں سر ہلایا اور اوپر اپنے کمرے کی طرف آیا ، ، کمرے میں داخل ہونے کے پہلے بھابھی کے دروازے پر دستک دی اور اپنے کمرے میں آ گیا ۔۔۔کچھ دیر بعد بھابھی کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔۔۔۔اور پھر ایک زوردار آواز کےبند ہو گیا ، ۔۔میں مسکرا کر چینج کرنے لگا۔۔۔اور وقار کے اسکول کی طرف نکل گیا ۔۔۔
اسکول میرا جانا پہچانا تھا، اس کے ہر حصے سے ہماری یادیں وابستہ تھیں ۔۔حد سے زیادہ مستیاں کرنا ۔۔۔ٹیچرز کو تنگ کرنا۔۔۔سب سے زیادہ مارنے والی مس کو کسی سر کی طرف سے لو لیٹر لکھی کر دے آنا ۔۔آفس کا کہ کر اسکول سے باہر نکل جانا ۔۔۔کیمسٹری کی مس کو لیب میں تنگ کر نا ۔۔اور بائیولوجی کی مس کے مینڈک کے جار کھول دینا ۔۔۔میں اسکول میں داخل ہوا تو بہت سی یادیں تازہ ہو گئیں تھی۔۔آفس میں آیا تو نظارہ ہی دوسرا تھا ، وقار نے کافی اچھا انٹیرئیر سجا یا تھا ۔۔۔۔سامنے کی طرف ایک بڑی ایل سی ڈی لگی ہوئی جس میں اسکو ل کے اندر کے منظر چل رہے تھے ۔ایک طرف صوفہ جس کے سامنے ایک بڑی سی میز کے پیچھے وقار بیٹھا تھا۔۔وقار سے مل کر میں صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔اور وہ مجھے اسکول میں کی گئی تبدیلیوں کے بارے میں بتا نے لگا ۔۔۔جس میں سے ایک اچھے ٹیچرز کو شہر سے بلوا کر یہیں رہائش دینا تھی، انہیں شہر سے دگنی تنخواہیں دینی تھیں ، اور شارٹ سرکٹ کیمرے جس سے وہ تمام ٹیچرز کو مانیٹر کرتا رہتا تھا۔۔میں سب سن رہا تھا ، کچھ دیر میں چائے آ گئی۔۔۔میں نے کہا یہ سب تو ٹھیک ہے مگر سمر کیمپ کا بتاؤ کہ کیاکیا ہےاس میں ۔۔۔۔سمر کیمپ میں سوئمنگ کی کلاسز تھیں ، ساتھ ہی کراٹے کی کلاسز ۔۔۔اسپیچ کمپیٹیشن اور لڑکیوں کے ہینڈی کرافٹ کی کلاسز تھی۔ ساتھ ہی جنرل نالج کے بھی مقابلے تھے ۔۔۔۔میں نے چائے پیتے ہوئے سامنے ایل سی ڈی کی طرف نظر جما دی تھی ۔۔جہاں ایک طرف گراؤنڈ میں کراٹے کی ورزشیں ہو رہی تھیں ۔۔۔ اور باقی مناظر میں ہینڈ کرافٹ اور دوسری کلاسز تھیں ۔۔۔۔اتنے میں وقار نے بیل بجائی اور ماسی سے کہا کہ مس سعدیہ کو بلائیں ۔۔۔۔۔میں نے وقار کی طرف سوالیہ نظروں سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ بھی شہر سے ہی بلوائی تھی سمر کیمپ کے لئےکراٹے کی ٹیچر ہے، کافی غصیلی اور نک چڑھی ہے ۔۔اپنے کام سے کام رکھتی ہے ۔۔۔کسی آرمی والے کی بیٹی ہے اور کافی میڈل بھی جیت چکی ہے ۔۔۔اور کچھ ہی دیر میں وہ آفس میں آ چکی تھی ۔۔۔آرمی ٹراؤز میں بلیک ٹی شرٹ پہنے ، سر پر پی کیپ جمائے ہوئے ۔ایتھیلیٹ باڈی تھی ۔۔سر آپ نے بلایا ۔۔۔۔وقار نے ایک پیپر اس کی طرف بڑھا دیا ہے ، جی یہ مقابلوں کا نوٹس ہے ۔۔۔آج آپ لوگوں کا پہلا مقابلہ ہے ، دو بجے تک گاڑی آ جائے گی لینے کے لئے ۔۔۔آپ لوگ تیار رہئے گا ۔۔۔۔مجھے سعدیہ پسند آ چکی تھی ۔اس نک چڑھی حسینہ کو کون نہیں قابو میں کرنا چاہے گا۔۔۔ساتھ ہی میں وقار کو میسج کرچکا تھا ۔۔۔۔اس نے بات کرتے ہوئے میسج پڑھا اور سعدیہ سے کہنے لگا کہ یہ آپ کے نئے اسٹوڈنٹ ہیں ۔۔کسی اسکول سے ٹرانسفر ہوئے ہیں اور انہیں سمر کیمپ میں شمولیت کو بڑا شوق ہے ۔آپ ان کو ٹرین کریں ۔۔۔۔سعدیہ نے ایک نظر میرے طرف دیکھا اور کہنے لگی سر ابھی تو تمام کلاسز ختم ہو چکیں ہیں اب ہم صرف مقابلوں کی ریہرسل کر رہے ۔۔۔ان کے سیکھنے کے لئے تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔۔ وقار نے کچھ سختی سے کہا کہ آپ انہیں اپنے ساتھ شامل کریں ، ۔۔اگر چل سکا تو ٹھیک ہے ورنہ نکال دیجئے گا ۔۔۔۔سعدیہ جی سر کر کے مڑی اور مجھے کہنے لگی کہ آ جائیں میر ے ساتھ ۔۔۔میں نے وقار کو آنکھ ماری اور سعدیہ کے پیچھے چل پڑا ۔ باہر نکل کر وہ مجھے گھورنے لگی کہ آپ مجھے اسٹوڈنٹ تو نہیں لگتے ۔۔۔میں نے دنیا جہاں کی معصومیت چہر ے پر لا کر کہا کہ مس اسکول میں ہی پڑھتا تھا بس کھاتے پینے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ۔۔وہ مجھے لے کر گراؤنڈ میں آ گئی جہاں ایکسرسائز ہو رہی تھی ۔۔اس نےنوٹس پڑھ کر سب کو سنایا ۔۔۔لڑکے سب مقابلے کا سن کر خوش تھے ۔۔۔اور شاید ان کا اسکول پچھلے سال اسی اسکول سے ہار کر بھی آیا ہوا تھا ۔۔۔خیر میں بھی لائن میں لگ گیا۔میں ڈریسنگ روم سے چینج کر کے آگیاتھا۔۔سامنے ایک چھوٹا اسٹیج بناہوا تھا ۔۔۔جہاں سعدیہ کھڑی ایکسرسائز کروارہی تھی ۔۔۔ہمارے وقت میں تو ایک آرمی کے ریٹائر ہوتے تھے اور بڑی گندی ایکسر سائز کرواتے تھے اور یہاں ۔۔۔مس سعدیہ ۔۔۔۔کافی اچھی تبدیلی آئی تھی ۔۔۔مس سعدیہ نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے ۔۔۔میں نے کہا کہ راجہ ؟ سعدیہ کا منہ غصے میں لال ہو گیا تھا ، کہنے لگی کہ کس ریاست کے راجہ ہو ۔۔۔اصل نام کیاہے ۔۔۔میں نے جواب دیا کہ رضوان ۔۔
آئندہ سے یہاں کے تمام اصول کے آپ پابندی کریں گے ، اور کسی بھی رولز کو توڑنے پر سخت سزا دی جائے گی ۔۔۔میں نے زور سے کہا ۔۔یس ٹیچر۔۔
اس کے بعدایکسرسائز شروع ہوئی ۔۔میں نہایت اطمینان سے تمام ایکسر سائز دیکھ رہا تھا ۔کہ مس کی آواز آئی ۔۔اؤ ے صرف دیکھنے آئے ہو کیا ۔چلو تم بھی کرو ساتھ ۔
میں سعدیہ کو کچھ دیر دیکھتا رہا اور پھر ڈپس کے لئے جھک گیا۔۔۔۔باقی لڑکے ٹھیک کر رہے تھے ۔۔اور میں تھوڑا سا اٹھ کر واپس جھک جاتا تھا ۔۔۔کچھ ہی دیر میں سعدیہ آئی اور اپنے شوز میری پیٹھ پر رکھ کر زور دے دیا ۔میں مٹی پر لیٹ گیا ۔۔صحیح سے کرو ، ورنہ اوپر دوسرے لڑکے بٹھا دوں گی ۔۔۔۔میں جی مس کہ کر اٹھا اور اب پاؤں کے بل ڈپس لگانے کے بجائے اپنےگھٹنے ٹکا کر ڈپس لگانا شروع کردئیے ۔اب میں پوری طرح سے اوپر اٹھ رہا ، سعدیہ دوبارہ میری طرف آئی تھی اور میرے گھٹنے پر ایک لات پڑی ۔۔اس اوپر اٹھاؤ ۔۔۔۔۔تمام لڑکے ہنس رہے تھے ۔۔۔۔اب سعدیہ میرے قریب آ کر بیٹھ چکی تھی ۔۔اس کا ایک ہاتھ میرے کندھے سے کچھ اوپر تھا ۔۔۔یہاں تک آپ نے اپنے شولڈر کو ٹچ کرنا ہے ۔۔ٹھیک سے اٹھیں۔۔۔۔میں چہرے پر بیزاریت اور تکلیف کے آثار پیدا کر کے اٹھنے لگے ۔۔۔جب اسپیڈ تھوڑی اور کم ہوئی تو اس نے میرے سینے کے نیچے ہاتھ رکھا اور مجھے اٹھانے میں ہیلپ کرنے لگی ۔۔۔باقی لڑکے اس کی آواز پر ساتھ ساتھ ڈپس لگا رہے تھے ۔۔۔۔میں تھوڑا تھکنے لگا تو اس نے تھوڑا اور قریب آ کر زور لگایا اور اس وقت اس کے بدن کی مست خوشبو میرےنتھنوں میں گھسی تھی ۔۔۔کیا غضب کی مست گرم مہک تھی ۔۔۔۔سعدیہ نے بھی میرے سونگھنے کو محسوس کرلیا تھا ۔۔وہ اٹھ کر سامنے اسٹیج پر چلی گئی ۔۔اور اگلی ایکسرسائز شروع کر تھی ۔۔۔جمپنگ میں باقی لڑکے تو اپنی جگہ پر جمپ کر رہتے تھے اور میں تھا کہ جمپنگ کرتے ہوئے پورے گراؤنڈ میں گھوم رہاتھا ، سعدیہ بار بار آتی اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی جگہ پر کھڑا کرتی ۔۔اسے بھی اندازہ ہو رہا تھا کہ میں اسے تنگ کر رہا ہوں ۔۔۔مزید غصے اسے میرے گھورنے پر تھا ۔جو میں بڑی عاشقانہ انداز سے کر رہا تھا ۔۔۔۔قریب ڈیڑھ گھنٹا بعد ایکسرسائز ختم ہوئی اور شو فائٹنگ کی ریہرسل شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔سعدیہ کو مجھ پر غصہ اتارنے کا ایک موقع مل گیا تھا ۔۔اس نے کلاس کے سب سے اچھے فائٹر کے ساتھ میری فائٹ کا نام لیا ۔۔۔۔وہ لڑکا بھی حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔فائٹ شروع ہوئی تو اس کے تابڑ توڑ حملے شروع تھے ۔۔پہلی لات میری پسلیوں کی طرف آئی تھی ۔۔۔اور میں بلاک کرتے ہوئے زمیں پر بیٹھ چکا تھا ۔۔۔سعدیہ کی دوبارہ آواز ابھری ۔۔۔کیا لڑکیوں کی طرح لڑ رہے ہواٹھو مقابلہ کرو ۔۔میں سمبھلتا ہوا اٹھا توایک گھومتی ہوئی لات منہ پر کھا کر دوبارہ لیٹ گیا ۔۔۔۔سعدیہ مجھے غصیلی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔جیسے کہ رہی ہو ۔دیکھا مجھے گھورنے کا انجام ۔۔۔ میں دوبارہ اٹھا ۔۔۔مجھے سے پہلے ہی وہ لڑکا اچھل چکا تھا اور اب کی بار سر پر پڑنے والی لات نے مجھے دن میں تارے دکھا دئے ۔۔۔اور میں دوبارہ سے لیٹ گیا تھا ۔۔۔۔اور اٹھ کر دونوں ہاتھ اٹھا دئے ۔۔۔اور مقابلے سے پیچھے اٹھ گیا ۔۔۔۔میرے بال بکھر چکے تھے ، ایک گال پر سرخ نشان بنا ہوا تھا ۔۔۔۔اور سرکے ایک طرف ہلکا سا گومڑ نکل رہا تھا ۔۔۔میں اٹھا اور ہاتھ منہ دھو کر واپس وہیں آگیا ۔۔جہاں باقی لڑکوں کی فائٹس ہو رہی تھی ۔۔سب کی اچھی تیار ی تھی ۔۔۔۔۔سب پرجوش تھے ، سوائے میرے جو درد سے کراہ رہا تھا ۔۔۔سعدیہ مجھے طنزیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے بھی اسے گھورتے ہوئے آنکھ مار دی ۔ ۔۔۔خیر فائٹس ختم ہوئی اور ہلکا سا ریفریشمنٹ کا دور چلا ۔۔۔میں نے وقار کو میسج کر دیا تھا کہ میں بھی انہی کے ساتھ دوسرے اسکول جاؤں گا اور واپس پر ملاقات ہو گی ۔۔۔ریفریشمنٹ کے بعد ایک کوسٹر آ گئی تھی۔۔۔ہم سب تیار ہو کر اندر جا کر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔مجھے سب سے پیچھے لمبی سیٹ پر بٹھا یا گیا اور سعدیہ آگے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔کچھ دیر میں ہم مقابلے والے اسکول پہنچ چکے تھے ۔۔۔گراؤنڈ میں تین طرف سے کیمپنگ ہوئی وی تھی اور سامنے ہی ایک رنگ بنایا ہوا تھا۔۔۔ہمیں ایک کیمپ مل گیا تھا اور ہم سامان رکھ کر آرام کرنے لگے ۔۔سعدیہ تمام لڑکوں کو پوائنٹس اور فائٹ کی ٹپس دے رہی تھی ۔۔۔اور میں اس کےجسم کے پوائنٹس گن رہا تھا ۔جوکہ سو سے کم ہرگز نہیں تھے۔۔۔۔وہ میرے گھورنے سےڈسٹرب ہو رہی تھی ۔۔۔مجھے دیکھنے کر کہنے لگی کہ اور آپ مسٹر رضوان ان کو پانی وغیرہ پلائیں گے ۔۔۔۔اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ پوری کریں گے ۔۔میں نے کہا جی ٹیچر ۔۔۔مقابلے شروع ہو چکے تھے ۔۔کل پانچ مقابلے ہونے تھے جن میں پتا چلنا تھا کہ کوں اگلے راؤنڈ کے لئے کوالیفائی کرے گے ۔۔۔۔اور ہارنے والا اسکول مقابلے سے باہر ہو جانا تھا۔۔سعدیہ نے نمبرنگ کر دی تھی ۔۔جس فائٹر نے مجھے ہرا یا تھا اسے سب سے آخر میں رکھا گیا تھا ۔۔۔۔پہلی فائٹ ہمارا اسکول ہار گیا تھا ۔۔لڑکا رنگ میں گھبرا گیا تھا ۔میں وہیں رنگ کے برابر میں اسے پانی پلا رہا تھا ۔۔۔دوسری فائٹ ہمارا اسکول جیتا تھا ۔۔تیسری فائٹ ہم دوبارہ ہار چکے تھے ، ۔۔چوتھی فائٹ میں سعدیہ نے لاسٹ والے نمبر کو بھیج دیا تھا ، اور وہ جیت کر آ گیا ۔اب دو اور دو سے فائٹس برابر تھیں ۔۔اور لاسٹ فائٹ پر پورے میچ کا انحصار تھا ۔۔۔۔۔لاسٹ والے اسکو ل نے اپنا سب سے بیسٹ فائٹر اتار ا جو عمر میں بھی بڑا لگتا تھا ۔۔اور شکل سے بھی خوفناک لگ رہا تھا ۔۔۔۔سعدیہ اب گھبرائی ہوئی تھی ۔۔بیسٹ فائٹر وہ پہلے بھیج چکی تھی ۔۔اور پیچھےسب نارمل تھے جو صرف ڈیفنس ہی کر سکتے تھے ۔۔ان کا اسکول پہلے ہی مقابلے میں باہر ہونے والا تھا ۔۔اس نے جس لڑکے کو سیلیکٹ کیا تھا وہ رنگ تک بمشکل آیا تھا ۔۔صاف لگ رہا تھا کہ مقابلہ ان فئیر ہو رہا ہے ۔۔۔سعدیہ اس لڑکے کو رنگ میں بھیج کر زرد چہرے سے کیمپ کی طرف جا کر بیگ پیک کرنے لگی تھی ۔۔۔میں کچھ دیر تک یہ سب دیکھتا رہا ۔اور پھر حرکت میں آنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔اس لڑکے کو روک کر میں رنگ میں اتر چکا تھا ۔۔ہمارے لڑکے سب پریشان تھے ۔۔۔۔وہ میری ہار دیکھ چکے تھے ۔۔۔۔اور اب وہی دوبارہ ہونے والا تھا ۔۔۔سامنے والا لڑکا کافی اچھل کود کررہاتھا ۔۔۔ریفری نے ہمارے ہاتھ ملائے اور فائٹ شروع ہو گئی ۔۔۔لڑکے نے شروع میں ہی جمپ بیک کک رسید کی تھی ۔۔وہ ہوا میں اچھلا اور اس کی لات گھومتی ہوئی میرے چہرے کی طرف آئی تھی ۔۔میں نہایت اطمیناں سے بیٹھتا ہوا اس کے قدموں کو زمین پر گرتا دیکھ رہا ہے ۔جیسے ہی اس کے پیر زمین کے قریب پہنچے۔میں ایک تیز سوئپ کک کی مدد سے اس کے پیروں کو زمین پر لگنے سے پہلے ہی گھسیٹ چکا تھا ۔۔وہ اپنے پورے زور سے نیچے گرا تھا ۔۔۔جلد ہی دوبارہ اٹھ کر کینہ توز نگاہوں سے گھورنے لگا۔۔۔۔وہ دوبارہ جمپنگ کرتا ہوںمیرے دائیں بائیں حرکت کر رہا تھا ۔۔۔۔اس کی دو چار سائیڈ ککس میں نے بلاک کی تھیں۔اب میں اس کی طرف سائیڈ کک کے لئے بڑھ رہا تھا۔میری کک اس کے چہرے کی طرف بڑھی تھی اور اس نے بلاک کرتے ہوئے مجھے ہی میرا داؤ مارا تھا نیچے جھک کر سوئپ کک۔۔۔میرا ایک پاؤں ہوامیں اور ایک زمین پر تھا ۔۔اگر یہ کک مجھ لگ جاتی تو میں بھی اس کی طرح زمین پر گرتا۔۔۔اس سے پہلے کہ اسکی کک مجھے چھوتی ، میں اپنے اسی پیر کو ہوا میں اچھالتا ہوااس کے سینے پر رسید کر چکا تھا ۔۔وہ لڑ کھڑا کر پیچھے کو گیا تھا ۔۔۔ہم دونوں دوبارہ سے ایکدوسرے کے سامنے تھے ۔۔ہمارے لڑکے اب حیرانگی سے ہماری فائٹ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔وہ لڑکا اب کافی غصے میں تھے اور ڈیفنس بھول کر صرف اٹیک کرنے کے چکر میں تھا جو کہ میری مشکل ہی آسان کر رہا تھا ۔۔ایک دفعہ وہ اٹیک کے لئے قریب آیا تومیری راؤنڈ ہارس کک اس کے چہرے پر پڑی تھی ۔وہ سنمبھل ہی رہا تھا کہ کہ میں اس کی طرف پشت کر کے کھڑا ہوا اور ایک اونچی جمپ کی ، میں ہوا میں گھوما تھا اور میرے دونوں پیر ہوا میں گھومتے ہوئے اس کی کنپٹی پر پڑے تھے ۔۔۔وہ تیورا کر گرا تھا ۔۔۔یہ فائنل کک تھی ۔۔اس کے بعد اس کا اٹھنا مشکل تھا ۔۔۔۔اور وہی ہو ا ، ریفری نے میرے جیت کا اعلان کیا ۔۔۔ہمارے لڑکے رنگ میں داخل ہوئے اور اور مجھے کندھوں پر اٹھا لیا ۔۔ہم پہلا راؤنڈ جیت چکےتھے ۔۔سب کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی ۔۔وہ مجھے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہی کیمپ کی طرف چلے گئے جہاں سعدیہ بیگ پیک کئے بیٹھی تھی ۔۔شور سن کر وہ باہر آئی اور حیرانگی سے مجھے ان کے کندھوں پر دیکھنے لگی ۔۔لڑکوں نے شور مچا دیا تھا کہ ہم جیت گئے ہیں ، ہم جیت گئے ۔۔۔وہ خاموشی سے مجھے دیکھتی رہی ۔۔۔لڑکے سب خوش تھے اور اب مجھے سے فری ہو چکے تھے ۔۔کچھ ہی دیر میں ہمیں اگلی فائٹ کی ڈیٹ ملی اور ہم واپسی کے لئے کوسٹر پر بیٹھے گئے ۔۔ایک دو لڑکوں نے میری فائٹ کی ویڈیو بنائی تھی وہ انہوں نے سعدیہ کو دکھائی ۔۔سعدیہ نے میری طرف نظر بھر کر دیکھا اور شیشے سے باہردیکھنے لگی ۔۔اب اس کی نظروں میں سے طنز ختم ہو چکا تھا ۔۔۔۔میں نے بس سے ہی وقار کو ایک میسج کردیا تھا ۔۔۔۔اسکول کے قریب لڑکے تو گھر جانے کے لئے اتر گئے اور سعدیہ آفس کی طرف چلی گئی وقار کو بتانے کے لئے ۔۔۔میں بھی پیچھے ہی تھا ۔۔وقار کو آفس میں نہ پا کر وہ مڑنے ہی لگی تھی کہ میں نے آگے بڑھ کراسے تھام لیا ۔۔۔اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیتے ہوئے میں اس کی بیک کو ٹیک لگا چکاتھا ۔۔۔وہ کسمسائی اور چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔مگر میری گرفت مضبوط تھی ۔۔میں نے اس کی پشت سے لپٹتے ہوئے اپنا چہرہ اس کے بالکل قریب کر چکا تھا ۔۔کچھ ہی دیر میں اس کی کوشش تھک چکی تھی ۔۔۔کون ہو تم اور یہ سب کیوں کیا تم نے ۔۔۔۔میں نے اس کے کانوں میں بتا یاکہ میں وقار کا دوست تھا اور اسے آفس میں دیکھا وہ مجھے اچھی لگی تو میں اسٹوڈنٹ بن گیا ۔۔۔۔اور وہ جو تم نے یہاں مارکھائی تھی وہ ؟؟مس سعدیہ آپ کا پیار پانے سے پہلے مار کھانا بھی ضروری تھا۔۔بس وہ سب وہی تھا ۔۔وہ دھیمی آواز سے بولی اگر سب پہلے بتا دیتے تو زیادہ اچھا تھا ۔۔میں نے کہا کہ کم اچھا تو اب بھی نہیں ہے ۔اور اس کے کانوں کو اپنے ہونٹو ں کو دبا کر چومنے لگا ۔۔اس نے ہلکا سےچہرہ میری طرف موڑا ۔۔اس کی نگاہوں میں بھی اب میرے لئے پسند کی لہریں نظر آرہی تھی ۔۔اگر وقار آگیا تو۔۔میں نے اسے سیدھا کرتے ہوئے اس کے گرد بازو لپیٹ چکا تھا ۔۔۔وہ نہیں آئے گا۔۔اور ساتھ ہی اس کے ہونٹ چومنے لگا ۔۔۔اس کاجسم جس طرح ورزشی اور کسا تھا ، ہونٹ اتنے نرم اور ملائم تھے ۔۔۔۔اس کی بیک آفس کی ٹیبل سے لگی ہوئی تھی اور ہاتھ میرے کمر کے گرد ۔۔۔۔اور میری پوری شدت سے اس کے ہونٹوں کا رس کشید رہا تھا ۔۔۔۔کھلی ڈلی ٹی شرٹ میں سینے کی دونوں چٹانیں سختی سے تنی کھڑی تھی ۔۔۔۔۔میں پورے دل جمعی سے اس کے چہروں کو تھام کر اس کے ہونٹ چوم رہے تھے ۔۔۔۔ساتھ ساتھ آگے کیطرف زور بھی دے رہا تھے ۔۔جہاں اس کی بیک ٹیبل سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔اس نے اپنی ٹانگیں قدرے پھیلا دی تھی ۔۔۔اور ہاتھ میری کمر پر حرکت کر رہے تھے ۔میں ہونٹ چومتے ہوئے اس کی ناک اور گالوں کو کاٹ بھی رہا تھا ۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ اٹھ کر میرے سر پر پھسلنے لگے۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں ہی اس کی آنکھیں بھی نشیلی ہونے لگی تھیں ۔۔۔اس نے بھی آگے بڑ ھ کر میرے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے ۔۔۔۔ہم دونوں باری باری ایک دوسرے کے ہونٹ چوس رہے تھے ۔۔۔اس مرتبہ وہ خود میرے مقابلے میں آئی تھی اور شاید ہارنے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ۔۔۔اس کے ہونٹ چوسنے میں شدت آئی تو میں نے بھی زور بڑھا دیا۔۔ساتھ ہی اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اٹھایا اور ٹیبل پر بٹھایا دیا۔۔۔اس کی پھیلی ہوئی دونوں ٹانگو ں کے درمیان میں کھڑا اسکی شدتوں کا سامنا کر رہاتھا ۔۔۔اس کی ناک سےنکلنے والی گرم گرم سانسیں میرے چہرے سے ٹکرائے ہوئے تھی ۔۔وہ پلٹ پلٹ کر جھپٹ رہی تھی ۔۔۔اور میرا اس سے ہارنے کو کوئی ارادہ نہیں تھا ۔۔وہ جتنا شدت سے میری چہرے پر لپک رہی تھی ، جوابی حملہ اس سے کہیں زیادہ شدت والا تھا ۔۔اب میں نے اپنی زبان نکال کر کر اس کے منہ میں ڈال لی تھی ۔۔جسے وہ بڑے مزے سے چوس رہی تھی ۔۔ساتھ ہی اپنی زبان کا رس بھی مجھے پلا رہی تھیں ۔۔۔میرا ایک ہاتھ اب اس کے سینے پر گردش کر رہا تھا۔۔جہاں ٹی شرٹ میں پھنسے ہوئے دو سختی سے تنے ہوئے ، اٹھے ہوئے ممےمجھے بلا رہے تھے۔ میں اوپر سے ہی انہیں دبا رہا تھا ۔۔۔۔سعدیہ اب میرے بالوں کو کھینچ رہی تھی ۔۔اس کی آہیں آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میری بھی برداشت جواب دینے لگی ۔۔۔میں اس کی ٹی شرٹ پر ہاتھ ڈال چکا تھا ۔۔اس نے اپنے ہاتھ اٹھا دیا اور کچھ ہی سیکنڈ میں بلیک کلر کی اسپورٹس برا میں پھنسے ہوئے دودھ کے پیالے میرے سامنے تھے ۔۔۔سختی میں تنے ہوئے تھے ، صاف پتا چل رہ تھا کہ وہ کافی سخت ورک آؤٹ کی عادی ہے ۔۔مموں کی رگیں ابھری ہوئی تھی ۔۔ جلد ہی میں نے اس کی برا بھی اتار دی ۔۔۔۔۔نہایت متناسب ، فل مسلز سے تنے ہوئے ، کوئی ایکسٹرا فیٹ نہیں ۔۔۔اوراپنی پوری اٹھا ن کے ساتھ اٹھے ہوئےممے سامنے تھے ۔۔۔۔میں سعدیہ کو ٹیبل پر لٹا چکا تھا ۔اس نے میری کمر کے گرد اپنی ٹانگیں لپیٹ دی تھیں ۔۔۔۔اورمیں اب اس کے دونوں سخت مموں کو باری باری مسل دبا رہا تھا ۔۔۔اور یہ میرا پہلے تجربہ تھا ۔۔اس قسم کے سخت سخت مموں کو چھونے کا ۔۔۔۔اور میں اس کو پورا فائدہ اٹھا رہا تھا ۔۔۔اس کی سسکیاں نکلنا شروع ہو گئی تھی ۔۔۔۔اس کے نپلز چھوٹے چھوٹے اور نوکیلے تھے ۔۔۔۔میں نے بھی وقت ضائع کیے بغیر انہی اپنے منہ میں سمبھال لیا ۔۔۔ممے چوسنے میں مجھے مشکل کا سامنے تھا ۔۔۔ممے اتنے نرم نہیں تھے کہ منہ میں سما جاتے ۔۔۔سختی کے وجہ سے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتا تو دانتوں سے ٹکرا رہے تھے ۔۔۔میں بھی تنگ آکر ٹیبل پر چڑھ گیا ۔۔۔وہ بھی مسکرا کر مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔جیسے دعوت دے رہی ہو کہ قابو کر کے دکھاؤ ۔۔۔۔میں اوپر چڑھ کر اس کا سر اپنی رانوں پر رکھ دیا اور مموں پر دوبارہ حملہ کرنے لگا ۔۔میں اپنے ہاتھ کی پوری گولائی سے اس کا ایک مما پکڑتا ہے اور اسے دباتا ہوا منہ کی طرف لے جاتا مگر صرف اپنے ہونٹ ہی ٹھیک سے پھیر پاتا ۔۔۔باقی ممے ایسے ہی باہر رہتے ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں اس کے دونوں ممے میرے تھوک سے گیلے ہو چکے تھے ۔۔۔میں اپنا ایک ہاتھ اس کے پیٹ پر پھیرنے لگا جہاں سکس پیک مجھے کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے ۔۔۔۔اس کی پوری بوڈی شریڈڈ تھی ۔۔۔کہیں پر ایک انچ بھی ایکسٹرا فیٹ نہیں چھوڑا تھا جوان کی بچی نے ۔۔۔ایک بار تو مجھے لگا تھا کہ کوئ مشینی جسم ہے مگر اس کے گرمی اور شہوت سے بھری آوازیں بتا رہیں تھیں کہ اندر سے وہ بھی ایک عام لڑکی کی طرح جذبات رکھتی ہے ۔۔۔۔میں اس کے سکس پیک اور تنے ہوئے ممے دیکھ کر ایک مرتبہ پھر جذباتی ہو چکا تھا اور اس کے اوپر بیٹھتے ہوئے اس کو ہونٹوں پر ٹوٹ پڑا تھا ۔۔اس کے چہرہ کا کوئی حصہ باقی نہیں بچا تھا جسے میں نے چوسا اور چوما نہ ہو۔۔۔۔وہ بھی اپنی ہاتھوں کو میری کمر پر رکھ کرنیچے کی طرف پھیرتی ۔۔۔۔اب اس نے اپنے ہاتھ بڑھا کر کراٹے کی بیلٹ کھولی اور میری شرٹ اتارنے لگی ۔۔۔۔کچھ یہ دیر میں میرا چوڑا سینہ اس کے سامنے تھا ۔۔۔۔وہ تعریفی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ، پھر مجھے اشارہ کرتے ہوئے نیچے لٹا دیا ۔۔اور میرے اوپر بیٹھ گئی ۔۔۔۔وہ بھی اتنی ہی شدت سے میرے چہرے کو چوم اور چاٹ رہی تھی ۔۔۔اوریہاں تک میں اپنے کانوں کو بھی اس کے تھوک سے گیلا محسوس کر رہا تھا ۔۔۔میں بڑی بے دردی سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا تھا ، جہاں سختی اور ابھرے ہوئے مسلز نمایاں محسوس ہو رہے تھے ۔۔۔وہ تھوڑا نیچے ہو کر میرے سینے کو چومنے لگی تھی ۔۔اور کچھ ہی دیر میں میرے نپلز بھی چوس رہی تھی ۔۔مجھے گدگدی کے ساتھ کے ایک انرجی نیچے کو جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔۔میرا ہتھیار اس ٹراؤز میں پھنسا ہوا تھا ، اورنکلنے کے لئے پھڑپھڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔سعدیہ نے میرے پورے سینے کو چوم چوم کر گیلا کر دیا ، سیکس اور شہوت میں وہ کچھ بھی کم نہیں تھی ۔۔اپنا حصہ وصول کرنے والی ، خود کو اس میدان میں بھی منوانے والی تھی ۔۔وہ اب نا ف سے اور نیچے جانا چاہ رہی تھی ، مگر میں نے اس کے ہاتھ پکڑے اور اپنے اوپر کھینچ لیا ۔۔اس کے سخت ممے پوری فورس سے میرے سینے میں کھبے تھے اور وہ میرے سر کے گرد اپنے ہاتھ لپیٹ کر دوبارہ چومنے لگی ۔۔۔۔میں نے نیچے ہاتھ لے جا کر اس کے ٹراؤزر کی ڈوری کھولی اور نیچے کرنے لگا ۔۔۔۔اس نے میں بھی میری مدد کی اور کچھ دیر میں پینٹی سمیت اتار چکا تھا ۔۔۔اس کے دونوں چوتڑ اسی طرح سختی سے ابھرے ہوئے ، ایک ایک چوتڑ کسی خربوزے کی طرح گول مٹول اور سختی میں بھرئے ہوئے تھے ، بے اختیار میرے ہاتھ کا ایک ایک ہلکا سے تھپڑ اس کے چوتڑ پر پڑا تھا ۔۔۔۔جس نے ایک ہلکا نشان چھوڑ دیا ۔۔۔سعدیہ کچھ کم تو تھی نہیں اس نے میرے ہونٹوں کو اس زور سے کاٹا کہ میں بلبلا اٹھا ۔۔۔اب میں اس کے دونوں چوتڑوں کو دباتا اور رانوں پر ہاتھ پھیرتا ۔۔اور پھر ہاتھ واپس لا کر اس کی کمر پرگول گول دائرے بنا رہا تھا ۔۔۔۔۔نیچے سے میرا ہتھیار کھڑا ہو کر سلامی دینے لگا تھا ۔۔۔۔۔جس کا اسے بھی احساس تھا ۔۔۔۔وہ اٹھی اور الٹی ہو کر بیٹھ گئی ۔۔۔اب اس کاچہرہ میرے نچلے حصے کی طرف تھا ۔۔اور میں اس کی بیک کو بغور دیکھ رہا ۔۔۔کسی ایتھلیٹ کی طرح ابھرے ہوئے مسلز ، پتلی سی کمر اور نیچے متوازن اور گول سی گانڈ میرے سامنے تھے ۔۔۔جو میرے دونوں ہاتھوں میں دبی ہوئی تھی ۔۔۔سعدیہ میرا ٹراؤز اتارنے لگی تھی ،۔۔اور کچھ ہی دیر میں اس کی حیرت میں ڈوبی ہوئی چیخ میرے سامنے تھے ۔۔۔افف۔۔اتنا بڑا ۔۔۔اس نے بے اختیار اسے منہ میں لینے کی کوشش کی مگر بامشکل ٹوپا ہی لے پا رہی تھی ۔۔۔۔۔اس نے دوبارہ سے اپنی کلائی میرے ہتھیار کے ساتھ لگا ئی۔۔۔دونوں میں کچھ خاصی کمی نہ تھی ۔۔۔اس کی کلائی تھوڑی پتلی تھی ۔۔اور میرا ہتھیار گول مٹول ، گوشت سے بھرا ہوا ۔۔۔لمبائی میں قدرے برابر ۔۔۔۔وہ اب تھوڑی اٹھ کر اپنی چوت میرے چہرے کی طرف اٹھا چکی تھی ۔۔۔جہاں مہکتے ہوئے دو ریشمی لب میرے سامنے تھے ۔۔۔میں نے اس کی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے اور اس تھوڑ ا جھکا کر اپنی زبان اس کی چوت پر رکھ دی ۔۔۔اس کی ایک سسکاری نکلی اور اس نے بھی ایک بڑا سا تھوک کا گول میرے ہتھیار پر پھینکا اور اپنے دونوں ہاتھو ں سے ملنے لگی ۔۔میرا ٹوپا اس نے دوبارہ اپنے منہ میں پھنسا لیا تھا ۔۔۔۔اوراسی سے اپنا تھوک گرا رہی تھی جو تیرتا ہوا نیچے تک آ جاتا تھا۔۔اور ادھر میں اس کے چوت کے دانے کو ہونٹوں میں دبا رہا تھا ۔۔۔۔کبھی زبان سے چاٹتا۔۔کچھ دیر میں میں نےاپنی زبان کی نوک بھی اندر داخل کردی ۔۔اس کی چوت بھی اس کی طرح ٹائیٹ تھی ۔۔۔۔میں بھی چہرہ اٹھا اٹھا کر زبان اندر باہر کر رہا تھا ۔۔اور دوسری طرف اس نے پورا لن اپنے تھوک سے نہلا دیا ۔۔شرر شرر ۔۔۔امم امم کی آوازیں پورے آفس میں گونج رہیں تھی ۔۔۔۔اس کا انداز جارحانہ ہوتا جا رہاتھا تو میں نے بھی اس کے چوتڑ پر ہاتھ رکھے اور دبا کر اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔ہمیں اسی پویشن میں پانچ منٹ ہو چکے تھے ، اب اس کی چوت تھوڑی دیر بعد اوپر اٹھنے لگتی اور میں دوبارہ اسے دباتا ۔۔۔۔کچھ دیر اور گذری تھی ۔۔۔۔کہ اس کے زوردار سسکیاں نکلی اور وہ اٹھتی ہوئی سائیڈ پر ڈھیر ہو گئی ۔۔۔۔میں اٹھا اور اسے بانہوں میں اٹھا کر صوفے پر بٹھا چکا تھا ۔۔۔میرا ہتھیار ابھی تک کھڑا ہوا ہوشیاری سے لہرا رہا تھا ۔۔۔اس کا کمر تک جسم صوفے پر تھا اور اس سے نیچے ٹانگیں نیچے کی طرف تھی ۔۔میں سعدیہ کے ہونٹوں پر جھک کراس کے ہونٹوں کو چوم رہا تھا ۔۔۔اس کے بال پوری طرح سے بکھر چکے تھے ،،آنکھیں لال نشیلی ہوئی تھیں ۔۔۔اور جسم سے اٹھنے والی گرمی مجھے بھی تپا رہی تھی ۔۔۔۔۔کچھ دیر ہونٹے چوسنے کے بعد مموں پر مساج شروع کر دئیے جن پر تھوک خشک ہو چکا تھا ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں اس کی سسکیا ں دوبارہ سے بلند ہونے لگیں ۔۔۔ٹانگیں اٹھانے کا ٹائم آ چکا تھا۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے دونوں ہاتھوں میں سمبھال لیں تھیں ۔۔۔اس کی نگاہیں مجھ پر جمی ہوئی تھی ۔۔۔ساتھ ہی اس نے تھوک اکٹھا کر کے لن کے ٹوپے پر مل دیا تھا ۔۔۔میں نے اسے ہی اشارہ کیا تو اس نے اپنے ہاتھ سے ٹوپا پکڑ کر اسے اپنی چوت پر رگڑنے لگی ۔۔۔۔اس کی سسکیاں نکل رہی تھیں ۔۔۔اس نے کچھ دیر بعد ٹوپا اپنی چوت کے لبوں پر پھنسانے کی کوشش کی ، مگر چوت کے لب پورے طریقے سے آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔ ٹوپا اوپر کی طرف سلپ ہو گیا ۔۔۔وہ دوبارہ سے اوپر رگڑنے لگی ۔۔۔۔کچھ دیر بعد پھر ٹوپ رکھ کر مجھے دیکھا ، میں نے ہلکا سا دباؤ بڑھایا ۔۔۔چوت کے لب چیرتے ہوئے میں صاف دیکھ رہا تھا ۔۔ساتھ ہی اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہونے لگے تھے ۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں اپنی کمر کے گرد کیں اور ایک ہاتھ اس کے سینے پر رکھے کر دبانے لگا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے ٹوپے کر اور فکس کر دباؤ بڑھانے لگا ۔۔۔۔ساتھ ہی میں نے تھوک اکھٹا کر اوپر کی طرف سے پھینکا ۔۔۔چوت کافی ٹائٹ تھی ۔ اور درد اسے برداشت کرنا تھا ۔۔۔۔وہ سس سس کی آوازوں سے لرز رہی تھی اور کبھی لن کی طرف نظر ڈالتی اور کبھی میرے چہرے پر دیکھ کر زبان باہر نکالنے لگتی ۔۔۔۔ میں دباؤ بڑھاتے جا رہا تھا ، اور اب ٹوپا اندر داخل ہو چکا تھا ۔۔اس نے ایک گہر ی سانس لی اور اس کے سختی سے تنے ہوئے ممے نیچے کو لہراے اور دوبارہ سے جم گئے ۔۔۔۔میں نے اب دونوں ہاتھ سے ان نوکیلے دودھ کے پیالوں کو تھام لیا تھا۔۔۔اور ٹوپے کوساتھ ساتھ ہلکا ہلاتا جا رہا تھا ۔۔۔وہ منہ اٹھا اٹھا کر سسکیاں لے رہی تھی۔۔۔اس کی برداشت کمال کی تھی ۔۔ورنہ اب تک تو چیخیں نکل گئی ہوتیں تھی۔کچھ دیر میں اس کی سسکیاں کم ہوئیں تو میں نے دباؤ بڑھا دیا ۔۔اس نےکچھ اوپر ہونا چاہا مگر میں بھی اس کے ساتھ ہی اوپر ہوا تھا ۔۔۔میں اس کے مموں کوپورے دباؤ سے مسل رہا تھا ۔۔۔اس کی مموں کی سختی میرے ہاتھ کی ہتھیلی پر محسوس ہورہے تھے ۔۔میں نے دونوں مموں پر پوری ہتھیلی کو پھیلایا اور اس کے نپلز کو انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے تھام لیا اور مروڑنے لگا ۔۔۔۔۔ساتھ ہی نیچے سے دباؤ بڑھاتا گیا ۔۔۔۔سعدیہ سانس روک کر لیٹی تھی ۔۔میں بھی دباؤ بڑھاتا گیا ۔۔کچھ ہی دیر میں آدھا ہتھیار میں اندر اتار چکا تھا ۔۔۔سعدیہ نےسانس باہر پھینکی اور اس کی ساتھ ہی اس کی آہیں بھی نکلنے لگیں ۔۔۔آہ۔۔آہ۔۔۔افف۔۔۔۔اس نے نیچے نظر ڈالی تو ابھی آدھا ہتھیار باہر ہی تھی ۔۔کچھ دیر اس کی سسکاریں سننے کے بعد میں اس کے اوپر جھک گیا تھا ۔۔۔اس کے ہونٹوں کو چوما تو لرزنے کے ساتھ ساتھ وہ خشک بھی تھی۔۔۔میں نے دوبارہ سے اپنی تھوک نکالی اور اس کامنہ تر کر دیا ۔۔۔۔میرے آگے جھکنے کے ساتھ ساتھ ہتھیار کچھ اور بھی داخل ہو چکا تھا ۔۔۔میں نے اب نیچے سے کمر ہلانی شروع کر دی تھی ۔۔میرا ہتھیار بری طریقے سے اس کی چوت میں پھنسا ہوا تھا ۔۔۔اور مجھے بھی اتنی ہی مشکل سے اندر باہر کرنا پڑرہا تھا ۔۔سعدیہ کی سسکیوں میں اف اف کی آوازیں زیادہ تھیں ۔۔۔۔ہر ایک کا الگ تجربہ ہو رہا تھا مجھے ۔۔۔میں نے لن ٹوپے تک باہر کھینچا اور دوبارہ پسٹن کی طرح اندر دھکیل دیا ، وہ دوبارہ سے اوپر کو اٹھی اور افف کی آواز کےساتھ ایک سسکاری نکلی ۔۔۔۔میں اب اتنا ہی لن کو اندر باہر کررہا تھا ۔۔اب میں دو تین بار آگے پیچھے کرنے کے ساتھ ایک جھٹکا بھی دے رہا جس سے سسکاریاں نکالتی سعدیہ کے منہ سے افف کی آوازیں نکلتی ۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے اس کی ٹانگیں اٹھائی اور صوفے کے اوپر چڑھ آیا، اسے اس کے سر اور کندھے کے بل کھڑا کرتے ہوئے ٹانگیں دائیں بائیں کھول دیں ۔ اور عین اس کی چوت کے اوپر آتے ہوئے لن کو سیدھ اندر اتار دیا ۔۔۔۔سعدیہ کے دونوں ہاتھ صوفے پر تھے جہاں وہ گردن اور سر کوٹکا ئے پورا بدن ہوا میں اٹھائے کھڑی تھی ۔۔میرا لن اب بالکل سیدھ میں نیچے اتر رہا تھا ۔۔۔کچھ دیر میں میری اسپیڈ تیز ہو گئی تھی ۔۔۔۔سعدیہ کی اب برداشت والی اسٹیج ختم ہو چکی تھی اور اب وہ پورا منہ کھول کر آہیں اور سسکیاں بھر رہیں تھیں ۔۔آہ۔۔۔افف۔۔۔آہ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں سار ا خون اس کے سر کی طرف جمع ہونے لگا۔۔اس کا منہ بالکل سرخ ہو چکا تھا ۔۔۔میں نے اسے اٹھایا اور خود صوفے پر ٹانگیں نیچے کر کے بیٹھ گیا ۔۔۔اور وہ منہ دوسری طرف کئے اپنی ٹانگیں دائیں بائیں پھیلا کر میرے ہتھیار پر سواری کرنے لگی ۔۔۔اس کی ٹانگوں میں غضب کی اسٹرینتھ تھی ۔۔وہ درد اور کراہ کے ساتھ ساتھ تیزی سے اوپر نیچے ہورہی تھی ۔۔میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے سخت سخت چوتڑ دبا رہا تھا ۔۔۔۔۔پانچ منٹ اسے ہی گذر ے تھےکہ اس کی اسپیڈ کم ہونے لگی تو میں نے اسے چوتڑ سے سمبھال کر اٹھا لیا اور سامنے ٹیبل پر اس کے ہاتھ جما دئے اور اسکی رانوں کو پکڑ لیا ۔اس کے دونوں ہاتھ ٹیبل کے سرے پر جمے ہوئے تھے ۔۔۔اور رانیں میرے ہاتھوں میں تھیں ۔باقی پوری باڈی ہوا میں جھول رہی تھی ۔۔۔۔ہتھیار ابھی تک اندر ہی تھا ، میں نے ٹوپا اندر رکھتے ہوئے ایک زور دار جھٹکا مارا ۔۔۔اس کے منہ سے اوئی کی آواز نکلی اور پھر آہ ۔۔۔۔افف شروع ہو گئی ۔۔۔اس کے بعد میں جھٹکے پر جھٹکا مارتا گیا ۔۔۔جب تک اس کے بازوؤں میں ہمت تھی وہ جمی رہی تھی ۔۔پھر تھکنے لگی تو میں اسے اٹھا کر ٹیبل پر آ گیا ۔۔سیدھ لٹاتے ہوئے اس کی دونوں ٹانگوں کو جوڑ کر سیدھا ہوا میں اٹھا دیا ۔۔۔۔اب وہ الٹے ایل شیپ میں تھی ، دونوں ہاتھ اس کی رانوں کے گرد گھما کر پیچھے سے لن اس کی چوت میں گھسا دیا ۔۔اس کی پھر آئی ۔۔۔آہ ۔۔۔افف کی زور دار آواز نکلی تھی ۔۔۔۔چوت پہلے سے تنگ ہو چکی تھی ۔۔۔اس لئے مجھے بھی اتنا ہی زور لگا نا پڑ رہا تھا ۔۔۔میں بھی جھٹکے پر جھٹکےدے رہا تھا ۔۔اورپانچ منٹ مزید گزرے تھے کہ اس کی آہیں اب تیز ہو کر پورے کمرے میں گونجنے لگیں ۔۔تھی ۔۔۔افف ۔۔آہ ۔۔۔اور بیچ میں جب جھٹکا زیادہ پڑتا تو اوئی کی ایک سریلی آواز نکلتی ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں سعدیہ کی کمر اوپر کو جھٹکا کھانے لگی تھی ۔۔۔۔۔اور ایک زور دار آواز کے ساتھ فارغ ہونے لگی ۔۔۔۔۔میں اس کے پیر ٹیبل پر رکھ کر اس کے برابر میں لیٹ چکا تھا ۔۔۔وہ بھی میری طرح پسینے پسینے ہوئی تھی ۔۔۔۔میں لیٹا تو وہ مجھ پر لپٹ چکی تھی ۔۔۔۔۔اب اس کے منہ سے بھی راجہ ہی نکلا تھا ۔۔۔وہ بے اختیار میرے منہ کو چوم رہی تھی ، جس پر پسینہ بھی چمک رہا تھا ۔۔۔ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر نیچے سے ہتھیار کو تھام لیا جو اب تک فارغ نہیں ہو ا تھا ۔۔۔۔۔۔میرا ارادہ اب اسکے پچھلی جانے جانے کا تھا ۔۔۔مگر کوئی لبریکیٹ دور دور تک نہیں تھا ۔۔۔اور مجھے بھی شام میں امی کے ساتھ خالہ کے ہاں جانا تھا ۔۔۔اس لئے ارادہ بس کرنے کا تھا ۔۔۔سعدیہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی،میں نے اسے کہا کہ مجھے فارغ کر دو ۔۔۔۔وہ پہلے تو تھوک لگا کر ہاتھ اوپر نیچے کر نے لگی ۔۔ پھر نجانے کیا سوجھی ، اپنی ٹانگیں دائیں بائیں کر کے لن کو اپنی چوت پر سیٹ کیا اور بیٹھتی چلی گئی ۔۔آدھے سے زیادہ لینے کے بعد آگے کو جھکی اور میرے دائیں بائیں ہاتھ رکھ دی ۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس کی کمر ہلنے لگی ۔۔۔وہ تیزی سے اوپر نیچے ہو رہی تھی ۔۔۔اور تین چار بار اوپر ہونے کےساتھ لن اندر لئے ہوئے دائیں بائیں کمر کو گھماتی ۔۔۔ساتھ ساتھ اس کی گرم گرم سسکیاں میرے منہ پر چھوٹ رہی تھی ۔۔میں نے بھی اس کے دونوں ممے تھام لئے اور انہیں مسلنے لگا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر گذری تھی کہ میں نے بھی نیچے سے جھٹکے شروع کردئے ۔۔۔۔ہمارا ردھم بن چکاتھا ۔۔۔وہ جب نیچے کو آرہی ہوتی تو میں اوپر کو جھٹکا مار رہا ہوتا تھا ۔۔۔اس کی سسکیاں کے ساتھ ساتھ اس کا بہنے والا پسینہ بھی مجھ پر گر رہاتھا ۔۔میرے جھٹکے تیز ہوئے تو اس سے برداشت نہیں ہونے لگے ۔۔وہ میرے سینے پر لیٹ کر میرے ہونٹ چوسنے لگی ۔۔۔میں نے بھی دونوں ہاتھ اس کے چوتڑ پر جما کر جھٹکوں کی مشین چلا دی ۔۔۔۔وہ اب میرے اوپر برے طریقے سے اچھل رہی تھی ۔۔۔اور لن کے طوفانی جھٹکے جاری تھے ۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ میں فارغ ہونے لگا ۔۔تو میں نے اپنی اسپیڈ دھواں دار کردی ۔۔۔جھٹکوں میں ہی وہ میرے ہونٹوں کو چومنے کی کوشش کرتی جو کبھی ناک سے ٹکراتے کبھی میری ٹھوڑی سے ۔۔۔۔اس کے دونوں ہاتھ میرے سر کے دائیں بائیں تھے ۔۔۔میرے جھٹکے اب اورطوفانی ہوتے جا رہے تھے ۔۔ساتھ ساتھ میرے منہ سے غراہٹ نکلنی شروع ہوگئی ۔۔۔۔سعدیہ یہ دیکھ کر تھوڑی اٹھ کر پیچھے کی طرف ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔میرا خون نیچے کی طرف اکھٹا ہونا شروع ہو چکا تھا ۔۔اور ایک زور دار جھٹکے سے سعدیہ میرے اوپر آ کر گری تھی ۔۔۔۔میں نے جلدی سے اپنا ہتھیار تھا م لیا جس نے بارش شروع کر دی تھی ۔۔۔پہلا جھٹکا باہر گرا تھا کہ میں نے ہتھیار اس کی طرف کردیا ۔۔سعدیہ اپنی ہتھیلی پرمنی اکھٹی کرنے لگی جو اس کی ہتھیلی کو بھرتی ہوئی نیچے کو گرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ٹائم دیکھا تو پانچ بج چکے تھے ۔۔جلدی جلدی اٹھ کر صفائی کی اور کپڑے پہننے لگا ۔۔۔ دوبارہ کب ملو گے ۔۔میں نے کہا کہ جلد ہی اور ہاں میں وقار سے تمہار ا نمبر لے کر کال کروں گا۔۔۔۔۔ جلد ہی کہیں اور ملیں گے ۔۔۔۔یہ کہہ کر میں نے وقار کو میسج کیا کہ آفس فارغ ہے ۔۔آکر سمبھالو ۔۔۔۔اور بائک لے گھر کی طرف چل پڑا
میں وقار کے اسکول سے نکل کر گھر پہنچا تو یہی ارادہ تھا کہ کھانا کھا کر شام میں خالہ کے ہاں جاؤں گا ۔۔۔گھر پہنچا تو سامنے ہی امی اور بہنیں تیار بیٹھیں تھی ، میں ان کے سامنے پہنچا تو ایک دم کھڑی ہو گئیں ۔۔یہ کیا ہوا ہے کیا کر کے آئے ہو ! ۔۔۔۔ایک دم تو میں بھی پریشان ہی ہو گیا تھاکہ ایسا کیا ہوا تھا ۔۔۔۔شیشے کی طرف بڑھا تو چہرے پر کافی خراشیں پڑی ہوئی تھیں۔۔میں نے بتایا کہ بائک سلپ ہو گئی تھی ، بس کچھ چوٹ لگ گئی ۔۔امی قریب آ گئیں تھی ، پہلے تو مجھے سر سے تھام کر اپنے سینے سے لگا لیا ، جہاں انہیں ابھرا ہو ا گومڑ بھی محسوس ہو گیا ۔۔۔اور پھر انہوں نے بھابھی کو آواز دی کہ دودھ میں ہلدی ڈال کر لے آؤ ، بھابھی جلدہی لے کر آ گئیں اور پھر مجبورا مجھے یہ بھی پینا پڑا تھا میں بار بار کہتا جا رہا تھا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں یہ بس چند خراشیں ہی ہیں ، اور کچھ نہیں ہے ۔۔ آپ لوگ تیار ہیں دیر ہو رہی ہے ۔چلیں خالہ کی طرف چلتے ہیں ۔۔مگر امی نے منع کر دیا کہ تم گھر میں آرام کرو ۔ ہم ہو کر آ جاتے ہیں ۔۔۔میں نے پھر کہا تو انہوں نے زور دے کر کہا اور بھابھی کو کہا کہ اسے پین کلر بھی کھلا دینا ، کھانے کے بعد ۔۔۔۔۔اور مناہل اور ربیعہ کو لے کرخالہ کی طرف چلی گئیں ۔۔۔میں بھی اوپر آیا اور اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔۔یہ سعدیہ کے چکر میں چہرے پر نشان پڑگئے تھے جس نے اچھا خاصا بکھیڑا ڈال دیا تھا ۔۔۔بھابھی کچھ ہی دیر میں اوپر آ گئیں تھی ۔۔۔۔ان کے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار تھے ، ۔۔پوچھنے لگی کہ کیا زیادہ چوٹیں آئیں ہیں ۔۔میں نے کہا کہ نہیں بس چہرے پر ہی نشان ہی پڑے ہیں ۔۔۔پھر میں نے معصومانہ چہرہ بنا کر کہا کہ ایک کپ چائے مل جائے گا ۔۔سر میں بہت درد ہے ۔۔۔وہ جلدی سے اٹھیں کہ ابھی لائی ۔۔۔بھابھی نیچے چائے بنانے کے لئےچلی گئیں ۔۔۔میں اٹھا اور چاچی کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔وہ بیڈ پر آنکھیں بند کئے ہو لیٹی ہوئی تھیں ۔۔۔میں ان کے قریب جا کر پیشانی چومی اور ساتھ ہی بیٹھ گیا ۔۔۔چاچی نے آنکھیں کھول دی تھیں ۔راجہ تم یہاں ۔۔مجھے دیکھ کر اٹھنےلگیں تو میں نے لٹا دیا ۔۔چاچی تھکی تھکی لگ رہی تھیں۔۔رات والی تھکن ابھی تک اتری نہیں تھی ۔۔۔میرے چہرے کا پوچھا تو میں نے بتا دیا ۔۔کہ بائک سلپ ہو گئی ۔۔۔ان کی آنکھو ں میں تشویش تھی ۔۔میں نے بتایا کہ کچھ خاص نہیں ۔۔بس ایسے ہی خراشیں ہیں ۔۔ ۔۔۔انہوں نے آگے کو کھسک کر مجھے جگہ دی اور میں ان کر برابر ہی لیٹ گیا ۔۔۔۔اور ان کو بھی اپنی طرف کروٹ دے دی تھی ۔۔۔اپنےدائیں بازو پر ان کا سر رکھ کران کا چہرہ اپنے قریب کردیا ۔۔۔ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھو ں میں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ان کی آنکھو ں میں میری محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا ۔اور ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹ چھپی ہوئی تھی ۔۔۔ہم ایک ہی تکیے پر تھے جہاں ان کا سر میرے دائیں ہاتھ کے نیچے تھے ۔۔۔اور ہمارے درمیاں اتنا ہی فاصلہ تھا کہ ایک دوسرے کے جسم کی گرمی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔میرا دل ان کو چومنے کا کر رہا تھا ۔۔۔میں انہیں بے اختیار چومنے لگا تھا ۔۔۔پھر میں نے پوچھا کہ رات کو میں نے آپ سے زیادتی کر دی تھی ، مجھ سے آپ کی ایسی حالت دیکھی نہیں جا رہی ۔۔۔چاچی نے کہا دھت ۔۔مجھے کچھ نہیں ہوا ۔۔میں نے زندگی میں پہلی بار اتنا مزہ پایا تھا ۔۔۔۔تو پھر ابھی تک آپ بستر پر ہی لیٹی ہوئی ہیں ۔۔۔اور اتنی گرم بھی لگ رہی ہیں ۔۔۔شاید بخار بھی ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔ارے نہیں راجہ یہ سب تو تمہارے چاچا کے نخرے اٹھانے کے لئے تھا ۔۔ورنہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔آج وہ سارا دن میرے ساتھ ہی رہے تھے ۔۔۔میرا پورا خیال رکھ رہے تھے ۔۔چاچی بھی میری کمر پر ہاتھ پھیر رہی تھی ، جن سے گرمی نکلتی ہوئی صاف مجھے محسوس ہو رہی تھی ۔ہم دونوں اک دوسرے کے ساتھ لیٹے ہوئے ایک دوسرے کی روح تک محسوس کر رہے تھے ۔۔اور شاید یہ سچ بھی تھا کہ اب تک مجھے سب سے زیادہ مزہ چاچی کے ساتھ ہی آیا تھا ۔۔۔ان کی گرماہٹ ۔۔ان کی شدت ۔۔۔۔ان کے طوفانی چاہت ۔۔۔۔ان کے مجھے میں ڈوب جانا اور میرا ان میں ۔۔یہ سب مجھے کہیں اور نہیں ملا تھا ۔۔۔۔کہیں تو وہ مجھے اپنےبچے کی طرح ڈھانپ لیتی تھی ۔۔جیسے مجھے ہر پریشانی سے دور بچا لینا چاہتی ہوں ۔۔میں ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا اور میری آنکھوں میں ان کی محبت کی لائٹس پورے جوبن پر تھیں اور ان کی چمک چاچی کے چہرے پر بھی پڑ رہی تھی ۔کہنے لگی کہ راجہ کیا سوچ رہے ہو ۔۔میں نے انہیں بتا دیا کہ آپ سے مجھے سب سے زیادہ مزہ اور سکون ملتا ہے ۔۔۔میری کوئی بھی ضد ہو ، ، کوئی بھی چاہت ہو ، کوئی بھی ضرورت ہو ۔ایسا لگتا ہے کہ آپ پوری کر دیں گی ۔۔جتنی بھی ٹینشن ہو آپ کے قریب آ کر سکون میں آ جاتا ہوں ۔۔۔جیسی بھی تپتی ہوئی گرمی ہو ۔۔آپ میں مجھے سب ٹھنڈک مل جاتی ہے ۔۔چاچی نے بھی میرا منہ چوم لیا ۔۔میرے راجہ میری بھی یہی کیفیت ہے ۔۔۔ایسا لگتا ہے کہ میں تمہارے پیار میں ڈوبتی جارہی ہوں ۔۔اور شاید تم پر مرنے بھی لگی ہوں ۔۔میں نے ان کو ہونٹ پر اپنے ہونٹ رکھ کر بند کر دئیے ۔۔ایسا نہیں بولتے ۔۔۔اتنے میں دروازہ کھلا ۔۔۔بھابھی اندر داخل ہوئیں تھی ۔اور نظارہ دیکھ کے انکا منہ لال ہوچکا تھا ۔۔۔انہوں نے زور سے اپنے پاؤں زمیں پر پٹخےاور کہا
۔۔۔آج ہی چوٹ کھا کر آئے ہو اور جناب کو رومانس سوجھ رہا ہے ۔ایک دن آرام نہیں ہو سکتا کیا۔۔میں نے چائے تمہارے کمرے میں رکھ دی ہے ۔۔۔چاچی بھی جھینپ چکی تھی ۔۔کہنےلگی کہ جاؤ راجہ آرام کرو ۔۔۔کل ملتے ہیں ۔۔میں نے انہیں آنکھ ماری اور اٹھ گیا ۔۔۔۔بیڈ سے اترتے ہوئے میں نے اپنا سر پکڑ لیا جیسے درد ہو رہا ہو ۔۔۔اور ایکٹنگ کرنے لگا جیسے چکر آ رہا ہے ۔۔۔چاچی اٹھ کر بیٹھ گئی تو میں نے ان کی طرف دیکھ کر آنکھ ماری ۔۔وہ سمجھ گئیں اور بھابھی سے کہنے لگیں ۔۔جاؤ صوفیہ اسے روم تک چھوڑ آؤ ۔۔۔بھابھی نے ایک نظراپنی امی پر ڈالی اور بڑبڑائی کہ یہ کام بھی مجھے ہی کرنا ہوگا ۔۔۔اور ساتھ آ کر میرا ہاتھ تھام لیا اور کہا چلیں راجہ صاحب !۔۔۔۔میں اٹھا اور اسکے ساتھ چلتا ہوں اپنے کمرے تک آ گیا ۔۔۔اپنے بیڈ تک پہنچا تو مجھے دوبارہ چکر آ چکا تھا ۔۔۔۔بھابھی نے میرے کندھے پکڑ کر مجھے تھام لیا اوربیڈ پر تکیے رکھ کر بٹھا دیا ۔۔ساتھ ہی چائے لا کر سامنے رکھ دی ۔۔۔ایک پلیٹ پر بسکٹ بھی رکھے ہوئے تھے ۔۔میں نے دوبارہ سے اپنا سر تھام لیا ۔۔افف ۔۔چکر آرہے ہیں ۔۔۔بھابھی کچھ اور قریب آ گئی تھیں ۔۔اور کہنے لگیں کہ بہت درد ہے کیا ۔۔۔میں نے کہا کہ بہت زیادہ ہے ۔۔۔کہنے لگی کہ یہ بسکٹ کھا لو پھر پین کلر دیتی ہوں ۔۔۔۔میں نے کہا کہ خود ہی کھلا دیں ۔۔مجھے سے تو نہیں کھایا جا رہا ۔۔۔وہ مجھے دیکھنے لگی کہ میں ایکٹنگ تو ہیں کر رہا ۔۔مگر میں دونوں ہاتھو ں سے سر تھامےایسا معصوم بیٹھا تھا کہ جسے کچھ پتا ہی نہ ہو ۔۔۔۔بھابھی نے ایک بسکٹ اٹھایا اور چائے میں ڈبو کر منہ میں ڈالنے لگی ۔۔۔میں آہستہ آہستہ کھانے لگا ۔۔میری نظریں نیچے ہی تھیں ۔۔ڈر تھا بھابھی کو دیکھا تو ہنسی چھوٹ جائے گی ۔۔۔۔بسکٹ ختم کر کےمجھے چائے پلانی لگیں ۔۔جو میری حرکتوں کی وجہ سے پینٹ پر گر چکی تھی ۔۔۔بھابھی اب شاید سمجھ چکی تھیں کہ میں ڈرامہ کر رہا ہوں ۔ اس کے بعد مجھے پین کلر دے دی ۔۔۔میں نے ان سے کہاکہ تھوڑا سر بھی دبا دیں ۔۔بہت درد ہے ۔۔۔وہ کچھ دیر مجھے دیکھتی رہیں پھر قریب آ کر بیٹھ گئی اور سر دبانے لگی ۔۔۔میں نے اب نظریں اٹھا کر ان کے چہرے پر جما دی تھیں ۔۔۔وہ خاموشی سے
سر دبانے لگیں تھیں ۔۔۔کچھ ہی دیر میں میرا سر بھی بھاری ہونے لگا ۔۔۔اور میں نیند کی وادیوں میں ڈوبتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے کوئی 2 بجے تھے کہ میری آنکھ کھلی تھی ۔۔۔چاچی میرے ساتھ ہی لیٹی ہوئی تھی ۔۔میں بھی اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔چاچی جاگ رہی تھیں ۔۔۔اٹھ گئے راجہ ۔میں نے کہا جی۔۔۔آپ یہاں کیسے ۔۔کہنے لگی کہ ٹھہرو ۔۔تم نے کھانا نہیں کھایا تھا ، میں کھانا لے کر آتی ہوں ۔۔اور اٹھ کر نیچے چلی گئیں ۔۔۔میں اٹھ کر ہاتھ منہ دھو کر بیڈ پر واپس آ گیا ۔۔۔یہ چوٹیں بھی کتنی عجیب ہوتیں ۔۔درد اتنا دیں یا نہ دیں ۔۔مگر اپنوں کو حد سے قریب لے آتے ہیں ۔۔۔جو عام حالات میں بہت مشکل ہوتے ہیں ۔۔۔چاچی کھانا لے کر آچکی تھیں ۔۔اور اب میرے سامنے بیٹھیں مجھے کھلا رہی تھیں ۔۔۔میں نے امی کا پوچھا توکہنے لگیں کہ رات خالہ کے ہاں سے سیدھی یہیں آگئیں تھیں ۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے تمہارے ابو بھی آگئے ہیں تو ان کے ساتھ نیچے گئیں تھیں ۔۔۔کل تک شاید شہریار بھی آ جائے ۔اورتمہارے چاچا آج کھیت پر ہی ہیں ۔۔۔میں نے پوچھا کہ یہ سب کس لئے ؟ میرے لئے ہے کیا ؟ کہنے لگیں تمہارے لئے بھی ہے اور ایک سرپرائز بھی ہے جو کل ملے گے تمہیں ۔۔۔میں نے کہا کہ آپ بتا دیں ، کل کا کون انتظار کرے گا ۔۔۔مگر چاچی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بات کچھ ایسی ہے کہ بڑے بھائی خود ہی بتائیں گے تمہیں۔۔سب کو سختی سے منع کیا ہے ۔۔ کھانے کے بعد چائے آ گئی تھی ۔۔۔چائے پی کر ہم وہیں ایکدوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر لیٹ گئے تھے ۔۔۔چاچی میرے بالوں میں انگلیا ں پھیر رہی تھیں ۔۔۔۔میں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہا تھا ۔۔۔چاچی بھی موڈ میں تھیں ۔۔راجہ کچھ چاہئے تو نہیں ۔۔۔۔میں نے کہا نہیں کچھ خاص نہیں ۔سب کچھ تو ہے میرے پاس۔اور یہ آپ کو کیا ہوا جو مجھ سے میری خواہشیں پوچھ رہی ہیں ۔۔بس آج دل کر رہا ہے کہ سب کچھ تم پر لٹا دیا جائے ۔۔۔پھر بھی کوئی خواہش ہو جو پوری کرنے چاہتے ہو۔۔میرےبس میں جوہوا کروں گی ۔۔۔میں انہیں دیکھ رہا تھا ۔۔ان کا انداز دلبرانہ تھا ۔۔۔دل لٹا دینے والا تھا ۔۔ میں کچھ دیر دیکھتے رہا اور پھر ان سے لپٹ گیا کہ آپ ہیں تو میرے ساتھ ،مجھے اور کیا چاہئے ۔۔۔وہ ایک ہاتھ کی انگلیاں میرے سر پر پھیر رہی تھیں اور دوسرے ہاتھ سے میرے کمر کو سہلا رہی تھی ۔۔۔میں ان کے سینے پر چہرہ چھپا کر ان میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد ان کی آواز ابھری ۔۔۔میری بیٹی صوفیہ کیسی لگتی ہے تمہیں ۔۔۔۔میں ایک دم تو اچھل ہی گیاتھا ۔۔۔سر اٹھا کر ان کو دیکھا تو ان کی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں ۔۔ٹھیک ہے ، اچھی ہیں ۔۔۔خوبصورت ہیں ۔۔۔۔میرا خیال بھی رکھتی ہیں ۔۔مگر آپ کیوں پوچھ رہی تھیں ۔۔۔میں کسی اور طرح سے پوچھ رہی ہوں ۔۔۔۔اور پھر میرے تصور میں وہ منظر چھم سے آگیا تھا ۔۔۔جب پہلی بار میں نے انہیں بھیا کے ساتھ دیکھا تھا ۔۔۔ان کے اوپر بیٹھتے ہوئے ۔۔ان کے آگے گھوڑی بنے ہوئے ۔۔۔ان کی آواز ۔۔۔ان کا انداز سب کچھ تو میرے دل میں بسا ہوا تھا ۔۔۔چاچی میری آنکھوں میں میری تصور کو شاید پڑھ رہیں تھیں ۔۔۔کہنے لگیں ہاں راجہ اب صحیح سوچ رہے ہو ۔۔۔میں نے کہا کہ آپ کو کیسے پتا ۔۔۔۔بس پتا چلا گیا ۔۔اس رات کو جب تم باہر ان کے دروازے پر تھے ۔۔ کچھ نہ کچھ تو تمہارے دل بھی کر رہا ہو گا۔۔میں نے ایک سانس کھینچی ۔۔ہاں چاہتا تو میں بھی ہوں ، مگر وہ مجھ سے الرجک ہیں شاید ۔۔جہاں میں جاؤں وہاں سے بھاگ جاتی ہیں ۔۔شاید مجھے پسند نہیں کرتیں ۔۔۔چاچی نےکہاکہ اس کے دل میں بھی تمہارے لئے چاہت جاگ چکی ہے ۔۔۔اسی لئے تو وہ یہ سب کرتی ہے ۔۔چلو چھوڑو ۔۔تم نے کرنا ہے یا نہیں ۔۔۔میں کہنے لگا کہ بھابھی تو مجھے بھی بہت اچھی لگتی ہیں ۔۔مگر یہ سب کیسے ہوگا ۔۔انہوں نے کہا کہ تمہاری رانی ہے نا ۔۔بس دیکھتے جاؤ ۔۔تم چینج کر لو ۔میں برتن رکھ کر ابھی آئی ۔۔چاچی نیچے برتن رکھنے چلی گئیں اور میں سوچنے لگا کہ یہ سب کیسے ہوگا۔۔۔کچھ دیر میں چاچی اوپر آئیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگیں ۔۔کچھ دیر میں ہم بھابھی کے دروازے پر تھے ۔۔چاچی نے آرام سے دروازہ کھولا ۔۔اور اندر جھانکا ۔۔۔اور پھر مجھے اندر آنےکا اشارہ کر دیا ۔۔۔بھابھی بیڈ پر سو رہی تھیں ۔۔۔دروازہ بند کر چاچی نے مجھے صوفے پر بٹھا دیا ۔۔۔اور خود بیڈ پر چلی گئیں تھیں۔۔۔میرے سامنے بھابھی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں ۔۔۔بکھرے ہوئے کالے بالوں کے درمیان سے کسی چاند کی طرح روشن چہرہ تھا ۔۔قاتلانہ بڑی بڑی آنکھیں ۔۔لمبی پرغرور ناک ۔۔۔پتلے پتلے گلابی ہونٹ ۔۔۔گالوں پر بننے والے ڈمپل ۔۔۔چاچی اب بیڈ پر بھابھی کے برابر لیٹ چکی تھیں ۔۔۔چاچی ان کے ماتھے کو چوم کر ایک ہاتھ سے ان کے بال سہلا رہی تھیں بھابھی کی کروٹ بھی چاچی کی
طرف تھی ، اور جب تک کروٹ نہ بدلتیں ، تب تک مجھے نہ دیکھ پاتیں ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں بھابھی نے آنکھیں کھول دی تھی ۔۔۔امی آپ یہاں ۔۔۔چاچی نےکہا کہ بس اپنی جان کی یاد آ رہی تھی ۔۔۔۔کیوں وہ راجہ نہیں آپ کے پاس ۔۔۔۔بھابھی سخت روٹھی ہوئی تھی مجھ سے بھی اور اپنی امی سے بھی ۔۔۔۔چاچی نے ایک ہاتھ بھابھی کے سر کے گر گھمائے اور ان کے ہونٹوں کو چومنے لگیں ۔۔۔بھابھی نے بھی ان کی ٹانگوں پر ٹانگیں رکھ کر ان کا ساتھ دے رہی تھیں ۔۔۔چاچی بھابھی کے اوپر جھک سی گئی تھیں ۔۔اور ان کے ہونٹوں کو چوس رہی تھی ۔۔۔بھابھی دونوں ہاتھوں سے ان کی کمر کو سہلا رہی تھیں۔۔۔کمرے کی گرمی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں چاچی نے بھابھی کی قمیض کے اوپر سے ہی ان کے ممے تھام لئےاور دبانے لگی ۔۔۔بھابھی کے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔وہ بھی اب بڑھ کر چاچی کے ممے تھامنا چاہتی تھی ۔۔۔۔ساتھ ہی انہوں نے لیٹے لیٹے چاچی کی قمیض اوپر کی اور اتارنے لگی۔۔۔چاچی نےاپنے ہاتھ اوپر کئے اور بھابھی نے قمیض اتار دی ۔۔اب بلیک کلر کی برا میں ان کے بڑے بڑےممے سامنے تھے ۔۔۔بھابھی نے چاچی کی برا بھی اتار دی تھی اور اب چاچی کے ایک ممے کو ہاتھ سے دباتے ہوئے ،دوسرے ممے کا دودھ پینے لگیں ۔۔میرا جسم بھی گرم ہوتا جا رہا تھا ۔۔میں نے بھی نہایت آہستگی سے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دئے تھے ۔۔۔چاچی کی بھی اب آہیں نکل رہی تھی۔۔۔انہوں نے بھی بھابھی کو اٹھاتے ہوئے ان کی قمیض اتارنا چاہی ۔۔۔اور کچھ دیر میں ہی ان کا چاندی جیسا چمکتا ہوا جسم میرے سامنے تھا،سفید کلر کی برا میں مچلتے ہوئے ممے بھی میں صاف دیکھ رہا تھا۔۔۔چاچی ان کے اوپر جھکی ہوئی ان کے ہونٹ چوس رہی تھیں ۔۔اب نیچے کو کھسک کر ان کے مموں پر آچکی تھیں ۔۔۔۔کیا خوبصورت ممے تھے ۔۔۔چاندی سے رنگ کے چمکتے ہوئے ، چھوٹے چھوٹے سے ۔چاچی اب بھابھی کی برا بھی کھول چکی تھی ۔۔۔۔اور سفید و سرخ مموں پر گلابی رنگ کے نپلز میرے سامنے تھے ۔۔۔چاچی نے پہلے تو انہیں بڑے پیار سے چوما اور پر ہاتھ سے تھامتے ہوئے ایک نپل کو منہ میں ڈال لیا ۔۔۔بھابھی کا منہ اوپر کی طرف اٹھا ۔انہوں نے ایک سسکی لی اور دونوں ہاتھ اپنی امی کے سر پر رکھ دئیے ۔۔چاچی اب انصاف کے ساتھ دونوں سنگترے جیسے مموں کو چوس رہی تھیں ۔۔۔۔۔چاچی نے اب ان کے ممے چوستے ہوئےایک ہاتھ سے ان کی شلوار اتارنی شروع کر دی تھی ۔۔اور کچھ ہی دیر میں بھابھی لباس فطرت میں تھیں ۔۔۔۔ان کی گوشت سے بھری ہوئی مست رانیں ۔۔متناسب ٹانگیں ۔۔۔اور گورے گورے پاؤں ، سب میرے سامنےہی تھا ۔۔۔۔چاچی اب بھابھی کے سر کے گرد اپنے بازو لپیٹتے ہوئے انہوں اپنے اوپر سوار کروا چکی تھی ۔۔۔بھابھی کا سر ابھی بھی چاچی کی بانہوں کے درمیان تھا اور ہونٹ اسی طرح چاچی کے ہونٹوں سے ملے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔چاچی کے بڑے بڑے دودھ سے بھرے ممے بھابھی کے چھوٹ اور گول مموں میں دھنسے ہوئے تھے ۔۔۔بھابھی اب چاچی کے دونوں مموں کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے ان کے ہونٹوں کو چوس رہی تھی ۔۔۔اوربھابھی کی اوپر کو اٹھی ہوئی گول گول گانڈ مجھے کھینچ رہی تھی ۔۔۔۔۔بھابھی گھٹنے کے بل چاچی کے اوپر تھیں ۔۔اور پیچھے کو دائرہ بناتی ہوئی گانڈ ۔۔۔۔کیا منظر تھا ۔۔۔چاچی نے بھی ہاتھ بڑھا کران کی کمر کو تھام لیاتھا ۔۔ساتھ ساتھ ان کے چوتڑ کو بھی مسل رہی تھی ۔۔۔میں شرٹ تو اتار ہی چکا تھا ۔۔۔اب آہستہ سے پینٹ کے بٹن بھی کھولنے لگا ۔۔۔۔اور کچھ دیر میں پینٹ بھی اتر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔میرا دل بھی بھابھی پر ٹوٹ پڑنے کا ہو رہا تھا مگر میں صرف چاچی کے اشارے کامنتظر تھا ۔۔۔۔اور پھر میری برداشت جواب ہی دے گئی میں اٹھا اور بھابھی کے پیچھےسے بستر پر چڑھ گیا ۔۔۔۔بھابھی کو شاید احسا س ہو گیا تھا ۔۔۔۔انہوں نے مجھے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔ان کی آنکھیں پھیل گئیں تھیں ۔۔۔ان کے منہ سے چیخ کے ساتھ نکلا ، امی یہ کیا ہے ؟ اور انہوں نے تیزی سے چاچی کے اوپر سے اترنے کی کوشش کی ۔مگر چاچی نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر انہیں اپنےاوپر سے ہلنے نہیں دیا ۔۔کچھ نہیں بیٹا ۔۔۔راجہ ہی تو ہے ۔۔کوئی غیر تھوڑا ہی ہے ۔۔۔میں بھی پیچھے سے بھابھی کے اوپر جھکتے ہوئے ان کی کمر کو چومنے لگا ۔۔ان کے کالے لمبے بالوں کو سمیٹا اور لپیٹتا ہوا ان کی کمر پر رکھ دئے اور بالوں کے ساتھ ساتھ ان کی کمر کو بھی چومتا رہا ۔۔۔۔بھابھی کچھ دیر تک مچلتی رہیں تھی ، مگر چاچی نے ان کی ایک نہ چلنے دی ۔۔۔۔میں بھابھی کی نرم نرم گوری کمر کو چوم رہا تھا ۔۔۔چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ساتھ ساتھ ان کے چوتڑوں کو سہلا بھی رہا تھا ۔۔اور چاچی نیچے سے ان کے ہونٹوں کو چوم چوم کر تسلیاں دے رہی تھیں ۔۔ مگر بھابھی کی بے قراری بتارہی تھی کہ انہیں چین نہیں ہے ۔۔وہ بار بار چاچی کے بازوؤں کے گھیرنے سے نکلنے کی کوشش کرتیں تھیں ۔۔۔۔میں ان کے پیچھے ہو گیا اور ان کی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں ، پچھلی طرف سے ان کی چوت کے لب نظر آرہے تھے ۔۔میں نے انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے ان کی چوت کے دانے کو سہلانا شروع کیا ۔۔۔بھابھی کی لات پیچھے بڑی تیزی سے آئی تھی ۔۔وہ مجھے نیچے گرانا چاہ رہی تھی ۔۔مگر ایسا نہ ہوسکا ۔۔میں نے انکی وہ لات پکڑ لی تھی ۔۔۔دوسری لات حرکت میں آئی اور اسے بھی دوسرے ہاتھ سے پکڑ لیا ۔۔۔۔اور اب اپنے منہ کو اپنی چوت پر رکھنے لگا ۔۔وہ برے طریقے سے دائیں بائیں ہل رہی تھی ، مگر ان کی کوئی کوشش کامیا ب نہیں جا رہی تھی ۔۔۔چاچی نے بھابھی کو سائیڈ پر گرا یا اور ان کے اوپر آ گئیں تھی ۔۔۔بھابھی اب بھی مچل رہی تھیں ۔۔۔چاچی ان کے اوپر بیٹھے ہوئے ان کے مموں کو دبا رہی تھی ۔۔اور میں پیچھے سے ان کو چوت کے لبوں پر اپنے ہونٹ رکھ چکا تھا ۔۔بھابھی کی ایک سس نکلی ۔۔وہ پھر سے مچلنے لگیں تھی ۔۔۔۔میں نے اپنی زبان ان کی چوت کے دانے پر رگڑنا شروع کردی ۔۔۔بھابھی کی اب سسکیاں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔میں اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کی گوری گوری رانوں کو دبا رہا تھا ۔۔۔۔۔جو نرمی اور گوشت سے بھرپور تھیں ۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے چاچی کو نیچے آنے کا کہا اور خود اوپر آ گیا ۔۔۔۔اف کیا
نظارہ تھا ۔۔بھابھی کی آنکھیں کسی خوف ذدہ ہرنی کی طرح چمک رہی تھیں ۔۔۔۔میرے دونوں ہاتھ ان کے دائیں بائیں بازوؤں پر رکھے ہوئے تھے ۔۔۔وہ بار بار سر دائیں بائیں کرتی ہوئی نیچے سے ہلتی تھیں ۔۔۔میں ان کے چہرے پر جھک گیا ۔۔اف ان کے بالوں کے درمیان ان کا چہرہ کسی خوشبودار پھول کیطرح نرم تھا ۔۔۔میں نہایت نرمی سے ان کے ماتھے پر اپنے ہونٹ رکھ دئے ، پھر ان کی آنکھوں پر ۔۔پھر ان کے دونوں گالوں کو چومتا رہا اور پھر ٹھوڑی کو چومتا ہوا ان کے ہونٹوں پر آ گیا ۔۔۔ہونٹ کیا تھا ، ریشم کا کوئی ٹکڑا تھے ۔۔۔۔۔گرم گرم ، لرزتے ہوئے ۔۔میں نےان کے ہونٹوں کو چومنا شروع کردیا ۔۔ساتھ ساتھ ان کی آنکھوں کو اور پورے چہرے کو پھر سے چومتا ۔۔یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا ۔۔۔بھابھی کی مزاحمت اب دم توڑ چکی تھی ۔۔ان کی آنکھیں اور چہر ہ بھی شہوت اور مزے سے لال ہو چکا تھا ۔۔۔۔میرے ہونٹوں سے نکلنے والا محبت اور چاہت کی لہروں نےانہیں بھی گرما دیا تھا ، نرما دیا تھا ۔۔۔۔میں اپنی زبان اب ان کے منہ میں ڈالنے لگا تھا ۔۔۔کچھ دقت کے بعد بھابھی نے اندر گھسانے کی اجازت دے ہی دی ۔۔۔میں پوری شدت سے ان کی زبان کو چوس رہا تھا ۔۔۔۔۔بھابھی اب بے چین سی ہونے لگیں تھیں ۔۔میں نے ان کے ہاتھ چھوڑ دئے جو میرے سر پر آ جمے اور مجھے سہلانے لگے ۔۔۔۔میں نےان کے چہرے کو تھام لیا اور ان کی زبان کو اور مزے سے چوسنے لگا ۔۔۔چوس چوس کی آوازیں آ ہی رہی تھیں کہ نیچے سے چاچی نے بھابھی کی
چوت میں اپنی زبان داخل کر دی ۔۔۔۔۔بھابھی کی افف۔۔آئی ۔۔۔۔۔آہ نکلی اور پھر وہ سسکاریاں لینے لگیں ۔۔میں بھی تھوڑا سا نیچے ہو کر ان کے مموں کو دیکھنے لگا ۔۔کیا گول گول نرم و ملائم ممے تھے ۔۔۔اتنے نازک کہ ایسے لگتا تھا کہ اگر زور سے پکڑا تو کہیں پگھل نہ جائیں ۔۔میں نیچے چومتا ہوا آیا اور ان کے ایک ممے کے نپلز پر اپنے ہونٹ رکھ دئے ۔۔بھابھی کا منہ اوپر کو اٹھا اور ایک زوردار سسکاری لی ۔۔۔۔۔۔چاچی نے اب نیچے سے اپنی زبان کو حرکت دینی شروع کر دی تھی ۔۔۔۔بھابھی کی سسکاریں بڑھتی جارہی تھیں اور ساتھ ساتھ میرے سر پر رکھے ہوئے ان کے ہاتھوں کو بھی ۔۔۔۔میرا ہتھیار بھی اب پھنکاریں مارنے لگا ۔۔خون کی زیادتی اور جوش سے پھول چکا تھا ۔۔۔اور ٹوپے پر مجھے ہلکا درد بھی محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔میں نے بھابھی کے مموں کو چوسا ، اور چوسا ۔۔اور چوسنے کی حد کر دی۔۔میں بڑی شدت اور جذبات سے اپنے ہونٹوں سے ان کے مموں کو دبوچتا اوراوپر کو کھینچتے ہوئے نپلز پر رک جاتا ۔۔اور پھر نپلز کو کچھ دیر تک اپنی زبان سے مسلتا رہتا ۔۔۔۔بھابھی کا جسم اب جھٹکے کھا رہا تھا۔۔ان کی سسکیاں بڑھتے جا رہی تھیں ۔۔چاچی لگتا ہے زبان سے ان کی چوت کو چود رہی تھیں ۔۔۔اور کچھ دیر بعد بھابھی کی سسکاری اور تیز نکلی اور آہیں بھرتیں ہوئی وہ جھڑنے لگیں ۔۔۔۔چاچی نے نیچے سے میرا انڈر وئیر اتار دیا تھا ۔۔اور میرا ہتھیار بھی اب بھابھی کی پیٹ کو چھو رہا تھا ۔۔۔۔اس سے بھی بھابھی کو جھٹکے لگ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔میرا ہتھیار اب پھٹنے والا ہو گیا ۔۔۔۔نیچے سے چاچی بھی یقینا گرم ہو چکی تھی ۔۔۔۔میں نے ٹائم ضائع نہ کیا اور چاچی کو اوپر آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔چاچی اوپر آ کر بھابھی کے برابر میں لیٹ چکی تھیں ۔۔۔میں نے چاچی کی ٹانگیں اٹھائیں اور نیچے سے ٹوپے کو چوت پر سیٹ کر دیا ۔۔۔چاچی اور بھابھی دونوں میرے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔بھابھی بڑی عجیب نگاہوں سے مجھے اور اپنی امی کو دیکھ رہی تھیں ۔۔میں نے ہلکا سے دباؤ بڑھا کر چاچی کی چوت میں لن گھسا دیا ۔۔۔چاچی کی آہ نکلی ۔۔۔۔وہ تھوڑا سا اٹھیں۔۔۔۔میں نے تھوڑا سا زور اور دیا اور لن آدھا اندر گھسا دیا ۔۔چاچی کی پھر افف ۔۔۔آہ ۔۔۔ اوئی نکلی ۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ہی وہ بھابھی کو اپنے اوپر لانے لگیں ۔۔بھابھی بھی اب اٹھیں اور چاچی کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے ان کے دونوں دودھ سے بھرے ممے تھام لئے ۔۔نیچے سے میں شروع ہو چکا تھا ۔۔۔۔چاچی کی ہمت تھی کہ کل کی کمر توڑ چدائی کے بعد ابھی بھی چد رہی تھیں ۔۔اور یہ سب ان کی بیٹی کے لئے ہی تھا کہ وہ بھی تھوڑی ہمت پکڑے ۔۔۔میں نے آدھے لن کو ہی آگے پیچھے کرنا شروع کر دیاتھا ۔۔چاچی بھی اب افف۔۔آہ ۔۔کر رہی تھی۔۔۔میری اسپیڈ تیز ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔۔بھابھی بھی پوری شدت سے اپنی امی کے ہونٹ چوس رہی تھی ۔۔ساتھ ساتھ اس کی امی کے ہاتھ اس کو گول گول مموں کو بھی مسل رہے تھے ۔۔۔کچھ پانچ منٹ ہوئے تھے کہ میں رکنے لگا۔۔چاچی سے میں نے کہا کہ آپ الٹی ہو جائیں ۔۔چاچی الٹی ہو کرلیٹ گئیں اور میں نے پیچھے سے ان کی چوت کے لب پر لن سیٹ کیا اور اندر دھکیل دیا ۔۔چاچی کی پھر سے آہ نکلی تھی ۔۔۔۔میں اب لن گھسا کر دھکے لگائی جا رہا تھا ۔۔۔۔بھابی اب پیچھے آ کر میرے برابر میں گھٹنوں پر کھڑی تھی ۔۔ایک ہاتھ وہ میرے سینے پر پھیرنے لگیں ۔۔۔اور پھر انہیں کیا سوجھی کہ میرے چہرے سے لپٹ گئیں۔۔ان کے ہونٹ میرے پورے چہر ے کو گیلا کر رہے تھے ۔۔مجھے سے یہ کیفیت برداشت نہیں ہو ئی ۔۔اور میں نے چاچی پر دھکے بڑھا دیا ۔۔چاچی کی سسکیاں اب بڑھ کر زوردار کراہوں میں تبدیل ہو گئی تھی ۔۔صاف پتا چل رہا ہے کہ وہ تکلیف میں ہیں ۔۔بھابھی اب بھی میرے پورے چہرے کو چومتی جا رہی تھی ۔۔۔پانچ منٹ اور گزرے ہوں گے کہ چاچی کی زوردار آہوں میں ان کی چوت نے پانی چھوڑ
دیا ۔۔میں نے انہیں سیدھا کیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آئے ہوئے ۔۔میں ان سے لپٹ گیا، ان کے چہرے کو چومنے لگا ۔۔۔ان کے سارے آنسوؤں کو میں پی چکا تھا ۔۔۔بھابھی بھی میری جذباتیت دیکھ رہی تھی ۔۔میرا فوکس اب بھابھی کی طرف ہو چکا تھا ۔۔بھابھی کا ہاتھ پکڑ کر میں نے انہیں چاچی کے برابر میں لٹا دیا تھا ۔۔۔وہ بھی سہمی ہوئی لیٹی ہوئی تھی۔۔چاچی بھی خود کو سمبھال کر اٹھ بیٹھی تھی ۔۔۔بھابھی کو میں نے لٹا کر ان کی دونوں ٹانگیں پھیلا دی تھی۔۔۔۔چاچی ان کے پاس بیٹھی ان کے ممے سہلا رہی تھیں ۔۔میرا ہتھیار فل تنا ہوا تھا ۔۔ میں اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل پر گیا اور ویزلین اٹھا لیا ۔۔۔ویزلین اچھے سے لن پر مل کر اسے چمکا دیا تھا ۔۔۔اور کچھ ویزلیں بھابھی کی چوت پر بھی مل دی تھی ۔۔۔۔بھابھی چاچی کے ہاتھوں کو پکڑ کر خوب دبا رہی تھی ۔۔۔شاید منع کر رہی ہوں ۔۔۔مگر ۔۔رکنا اب مشکل ہی تھا۔۔۔بھابھی کی چوت کے لب بالکل آپس میں ملے ہوئے تھے ۔۔۔میں ان کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔ہتھیار سمبھال کر میں نے ٹوپا چوت کے لب پر رکھ دئیے اور دباؤ بڑھانا شروع کیا ۔۔بھابھی اپنی ٹانگیں دائیں بائیں کئے ہوئے مجھے دیکھ رہی تھی ۔چہر ہ رونے والا ہواوا تھا ۔۔۔میں نے دباؤ بڑھایا تو ٹوپا اوپر کی طرف پھسل گیا ۔بھابھی کے منہ سے اوئی کی آواز نکلی ۔چاچی اب بھابھی کے منہ کو چوم رہی تھیں ۔۔جیسے تسلیاں دے رہیں ہو ں ۔۔۔میں اب ٹوپا چوت کے لب پر رکھ کرزور لگاتا اور وہ چوت کے دانے کو مسلتا ہوا ااوپر کی طرف سلپ ہو جاتا ۔۔کچھ دیر میں ایسا ہی کرتا رہا ۔۔پھر اس کے اوپر سلپ ہونے کے بجائے اندر سلپ ہونے کا وقت آگیا ۔۔۔لن چوت پر رکھ کر زور بڑھادیا تھا ۔۔اورٹوپے کی نوک اندر گھس چکی تھی ۔۔تھوڑا اور زور دیا اور ٹوپا چوت کو چیرتا ہوا اندر گھس چکا تھا ۔۔۔بھابھی کی چیخ نکلی تھی ۔۔اوئی امی مر گئی ۔۔۔آہ۔۔۔۔افف مر گئی ۔۔۔چاچی تیزی سے اس کے چہرے کو چوم رہی تھی ۔۔۔۔ساتھ ہی نیچے ہاتھ بڑھا کر چوت کے پر ہاتھ پھیرنی لگی ۔۔جہاں میرا لن برے طریقے سے پھنسا ہوا تھا ۔۔۔چاچی ساتھ ساتھ اس کے دانے کو بھی
مسل رہی تھی ۔۔۔۔بھابھی بار بار درد سےکراہتی اور اوپر اٹھ کر لن نکالنے کی کوشش کرتی تھیں ۔۔مگر ان کا اوپر کو جسم چاچی کے ہاتھ میں تھا اورنیچے سے ٹانگیں میں نے تھامیں ہوئی تھی۔۔۔میرے لن کی ٹوپ اندر چوت میں پھنسی ہو ئی پھڑک رہی تھی ۔۔خون کا زور مجھے ٹوپ میں محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔کچھ دیر بعدمیں نےتھوڑا سا زور اور دیا ۔۔چوت تھوڑی اور چری تھی ۔۔۔بھابھی اب دونوں ہاتھ چوت پر رکھے اٹھنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔نہیں امی ۔۔۔۔یہ نہیں ہوسکتا ہے ۔۔بہت درد ہے ۔۔۔میں مرجاؤں گی ۔۔۔چاچی اسے تسلیاں دے رہی تھیں ۔۔چوم رہی تھیں ۔۔۔مگر بھابھی کے آنسو بہنے لگے تھے ۔۔۔وہ بار بار ترس بھری نگاہوں سے اپنی امی کو دیکھتی مگر چاچی کو ترس نہیں آ رہا تھا ۔۔۔چاچی اب نیچے کو جھک کر اس کی چوت کے دانے کو چوم رہی تھیں ساتھ ساتھ میرے لن پر بھی تھوک پھینک رہی تھیں۔۔۔۔میں نے تھوڑا اور زور لگا یا
تو بھابھی کی پھر افف میں مر گئی ۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔سس ۔۔۔آہ ۔۔۔اوہ ہ ۔۔۔۔نکلی ۔۔۔چاچی پوری ذمہ داری سے کبھی بھابھی کے منہ کو چومتی ، ساتھ ساتھ ان کے مموں کو مسلتی اور کبھی نیچے آ کر چوت کے دانوں کو چومنے لگتی ۔۔کچھ دیر ٹہرنے کے بعد میں نے زور بڑھا دیا ۔۔۔اور تین انچ تک اندر گھسا دیا
۔۔۔افف۔۔۔آہ۔۔۔اوئی۔۔۔۔چاچی پھر اسے سمبھالتی ۔۔۔۔امی آپ بولیں راجہ کو ۔۔۔کہ بس کردے ۔۔آگے جگہ نہیں ہے ۔۔۔میں اور نہیں لے سکتیں ۔۔چاچی پھر
ان کو چومتی اور تسلیاں دیتی ۔۔۔۔۔پھر مجھے کیا ہوا تھا ۔۔۔مجھے لگا کہ ایک مرتبہ ہی گھسا دینا بہتر ہے ۔۔میں نے لن کو پیچھے سے پکڑا اور تھوڑا سے آگے کو جھکتاہو ا آدھے سے زیادہ لن گھسا دیا ۔۔۔بھابھی کی ایک زور دار چیخ نکلی ۔۔۔۔امی میں مر گئی ۔۔۔۔اور پھر انہوں نے رونا شروع کردیا ۔۔امی روکیں اس راجہ کو ۔۔میں نے نہیں کرنا ہے ۔۔۔چاچی باربار اسے چوم رہی تھی ۔۔۔کچھ دیر میں ایسے ہی رک رہا اور پھر آہستہ آہستہ باہر نکالنا لگا ۔۔۔۔باہر کا سفر بھی اتنا ہی پھنس پھنس کر ہو رہا تھا ۔۔۔ٹوپے تک باہر نکال کر میں آہستہ آہستہ دوبارہ گھسانے لگا ۔۔۔اور وہیں تک پہنچا کرپھر باہر کھینچا اور دوبارہ گھسا دیا ۔۔۔۔۔چاچی نے اب بھابھی کے مموں پر اچھا خاصا تھوک پھینک کر اسے چوس رہی تھی۔۔جتنی شدت سے وہ نپلز کو کھینچتی ہوئی اٹھتی تھی۔۔اس سے بھابھی کا دھیان اس طرف ہو چکا تھا ۔۔۔۔میں نے بھی آہستہ آہستہ سے ہتھیار کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد بھابھی کی چوت پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔۔۔جس پوری چوت بھی گیلی ہو رہی تھی اور ساتھ ساتھ میرا ہتھیار بھی گیلا ہو ا وا تھا ۔۔۔۔۔جب جب
میرا ہتھیار آگے کو جاتا ۔۔بھابھی اوپر کی طرف ہوتیں ۔۔۔منہ کھولتا اور بند ہو تا ۔اور ساتھ ہی اوئی ۔۔۔افف کی سریلی آواز گونج جاتی ۔۔۔۔میں پھر کھینچتا اور دوبارہ سے گھسا دیتا ۔۔۔۔بھابھی کی افف ۔۔آہ ۔۔۔سس بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے لن پورا باہر نکال دیا تھا ۔۔اور بھابھی کی ٹانگیں جو دائیں بائیں پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔انہیں جوڑ کر بھابھی کے سینے لے لگا دی تھی ۔۔۔بھابھی نے ہاتھ بڑھا کر اپنی ٹانگیں پکڑ لی تھی ۔۔۔۔اور میں ان کے اوپر چھا چکا تھا ۔۔چاچی میرے پیچھے ہی آئی تھی ۔۔میرے ہتھیار پر بہت سارا تھوک لگا کر گیلا کیا اور ٹوپے کو اپنی بیٹی کی چوت پر رکھنے لگیں ۔۔۔۔۔اور دوسرے ہاتھ سے بھابھی کی چوت کو مسل رہی تھی ۔۔۔چاچی نے ٹوپا اوپر رکھا ہی تھی کہ میں نے جھٹکا دے دیا ۔۔۔۔ٹوپا اندر گھس چکا تھا۔۔بھابھی کی پھر اوئی ۔۔۔اوہ ۔۔۔۔سس۔۔۔۔آہ ۔۔نکلی تھی ۔۔۔انہوں نے اپنے ہونٹوں پر دانت گاڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں پھر آہستہ آہستہ زور بڑھا تا چلا گیا۔۔۔۔چاچی میرے پیچھے آ کر میری پشت سے لپٹ چکی تھی ۔۔۔۔ان کے بڑے بڑے دودھ سے بھرے ممے مجھے اپنی کمر میں گھسے ہوئے صاف محسوس ہور ہے تھے ساتھ ساتھ وہ میرے سینے پر بھی ہاتھ پھیر رہی تھی ۔۔۔۔میں نے گھسایا ہو لن پھر نکالا اور دوبارہ گھسا دیا ۔۔اور اب ہلکی اسپیڈ میں ایک ردھم کے ساتھ ساتھ اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔بھابھی کی سسکیوں اور آہوں سے کمرہ گونج رہا تھا ۔۔۔۔وہ بڑی ہی سریلی آواز سے گا رہی تھی ۔۔۔افف۔۔آہ۔۔۔۔اوئی
۔۔۔۔اوہ ہ۔۔۔۔۔کچھ دیر اور میں اسی ردھم سے مشین چلاتا رہا ۔۔۔۔بھابھی نے اب ٹانگیں اٹھی چھوڑ کر اپنے دونوں ممے تھامے لئےتھے ۔۔ساتھ ساتھ اپنی زبان بھی باہر ہونٹ پرپھیرتی ۔۔۔اور پھر اوئی ۔۔۔افف۔۔۔۔آہ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔سسکیاں لینے لگتیں ۔۔ان کی کمر بھی اب اوپر کی طرف جھٹکے مار رہی تھی۔۔۔میں نے بھی اپنے لن کے اسپیڈ تھوڑی بڑھا دی تھی ۔۔۔۔۔بھابھی کی سسکیا ں اب زور دار ۔اوہ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔آہ۔۔۔میں تبدیل ہو گئی ۔۔۔تھی ۔۔۔۔
ان کا رونا دھوناختم ہو گیا ۔۔۔اور مزا شروع تھا ۔۔۔۔جسے وہ پورے دل جان سے انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔ادھر چاچی بھی مجھے بھرپور مزہ دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔بھابھی کی اوہ ۔۔آہ ۔۔۔۔اب اور تیز اونچی ہو چکی تھی ۔۔۔ان کے جھڑنے کا وقت آ چکا تھا ۔۔۔۔اور ادھر میری بھی حالت کچھ ایسی ہی تھی ۔۔۔۔میں نے لن باہر نکالا اور اوربھابھی کو الٹا گھوڑی بننے کا کہا ۔۔۔بھابھی بھی جلدی سے گھوڑی بن گئی ۔۔۔افف ۔۔ان کو وہی گول گول گانڈ میرے سامنے تھی ۔۔۔چھوٹی سی ۔۔۔اور پوری پیچھے کو گول ہوئی وی ۔۔۔۔یہ دیکھ کر میرا ہتھیار بھی جھٹکے کھانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔چاچی آگے کو آئیں اور لن کو ایک دو دفعہ آگے پیچھے کیا اور پھر بھابھی کی گانڈ سے گزار کر چوت پر ٹکانے لگی ۔۔۔۔۔۔جیسے ہی مجھے محسوس ہو ا ۔۔میں نے دبا ؤ بڑھا دیا۔۔۔بھابھی کی ایک اور سریلی آواز گونج گئی ۔۔۔اوئی ۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔اس کے بعد میں نے آدھا لن اندر گھسا دیا ۔۔۔بھابھی کی سریلی آوازیں اب اور زیادہ گونجنے لگیں ۔تھی ۔۔۔ہم دونوں جھڑنے کے قریب ہی تھے مگر پوزیشن تبدیل ہونے سے ہمیں اور ٹائم مل گیا ۔تھا ۔۔بھابھی اپنے کہنی نیچے ٹکا کر پیچھے سے اٹھی ہوئی تھی ۔۔۔میں نے لن گھساتے ساتھ ہی اسپیڈ بڑھا دی تھی ۔۔۔۔اور ساتھ ہی ان کے بال پیچھے کو کرتے ہوئے تھام لیے تھے ۔۔۔بھابھی کی آوازیں بڑھی رہی تھی ۔۔۔او ر کچھ ہی دیر میں ان کے منہ سے آؤں ۔۔۔۔۔آؤں کی سریلی آواز نکلی ۔۔۔یہ وہی آواز تھی جو میں نے پہلی مرتبہ میں سنی تھی ۔۔۔شہوت اور لسٹ میں ڈوبی ہوئی ایسی آواز ۔۔۔۔جس میں مزے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کی لالچ بھی تھی ۔۔جذبہ بھی تھا ۔۔اور وہی ہوا یہ آواز سن کر میرے جھٹکے پہلے سے طوفانی ہونے لگے ۔۔۔مجھے آس پاس کچھ سنائی اور دکھا ئی نہیں دے رہا تھا ۔۔بس بھابھی کی پتلی کمر کے نیچے سے گول ہوتی گانڈ اور ان کی آؤں ۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔۔آؤں ۔۔۔۔۔میں پوری اسپیڈ سے دھکے مار رہا تھا ۔۔۔۔۔بھابھی ہر جھٹکے کے ساتھ آگے کو جھکتیں ۔۔۔پھر واپس پیچھے کو اٹھتی ۔۔۔۔۔اور میرا گلا جھٹکا انہیں دوبارہ آگے جھکا دیتا ۔۔۔آؤں ۔۔۔۔آؤں۔۔۔سننے کے بعد میری آنکھیں بند سی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اور جھٹکے پوری شدت کے ساتھ ۔۔۔جو درمیان میں بھابھی کی آؤں ۔۔۔۔۔آؤں کے ساتھ آہ۔۔۔۔افف بھی نکال رہے تھے ۔۔بھابھی نے اب کہنی سے اٹھ کر ہاتھ کے زور پر گھوڑی بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔بھابھی کی افف اوہ ۔۔۔۔بڑھ رہی تھی ۔۔۔اور کچھ دیر میں ایک زور دار آہ کے ساتھ پانی جھڑنے لگی ۔۔۔میں نے بھی دھکوں کی مشین چلا دی ۔۔۔۔۔اور ایک سیکنڈ میں تین چار دھکے مارتاہوں ایک زوردار جھٹکے سے ان کے اندر فارغ ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔میرا آخری جھٹکا بہت زور کا تھا اور میں خود بھی بھابھی کے اوپر لیٹتا چلا گیا ۔۔وہ بھی مجھے محسوس کر کے نیچے کو لیٹتی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔میرا لن ابھی بھی ان کے اندر فارغ ہو رہا تھا ۔۔۔۔چاچی آگے آ کر لیٹ چکی تھیں ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد میں بھی لن نکال کرساتھ میں لیٹ گیا ۔۔۔۔۔بھابھی اٹھی تھی۔۔اور مجھے پر لیٹ چکی تھیں ۔۔وہ میرے منہ کو چوم رہی تھی ۔۔۔۔۔چاٹ رہی تھی ۔۔۔۔پھر سینے کی طرف آئیں اور پورے سینے کوچومنے لگی ۔۔چاچی بھی گھسٹ کر قریب آ گئیں اور بھابھی کی کمر پر ہاتھ
پھرینے لگیں ۔۔۔۔بھابھی کی چوت کو اپنے قریب محسوس کر کے ہتھیار پھر سے تننے لگا۔۔۔اور اوپر کو اٹھتے ہوئے بھابھی کی چوت سے ٹکرایا تھا۔۔۔۔۔بھاھی ایک دم اوپر کو اچھلی ۔۔۔اور لن کو تیار ہوتے دیکھ کر گھبرا گئیں۔۔۔اور بے اختیار بولیں ۔۔راجہ اسے سمبھالو۔۔آج کے لئے بس ۔۔۔۔۔میں بہت تھک گئیں ہوں ۔۔آج ہمت نہیں اور ۔۔۔۔پھر قریب آ کر اسے تھامنے لگی ۔۔۔ان کے پتلےپتلے خوبصور ت ہاتھ میں میرا ہتھیار اپنی پوری شان سے تنا ہوا کھڑا تھا ۔۔اور وہ بھی اس حیرانگی سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اورساتھ ہی اسے چومنے لگیں ۔۔۔۔ہم سب بہت تھک چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔صبح کے چار بج چکے تھے اور ابا جان بھی گھر آئے ہوئے تھے ۔۔۔اور پتا نہیں کہ سرپرائز کیا تھا ۔۔۔میں نے چاچی سے جانے کا کہا اور اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا ۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "خونی رشتے"