Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

باپ کی عاشق جوان بیٹیاں



یہ کہانی ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جو ایک سلجھا ہوا اور پڑھا لکھا تھا گاؤں کے ماحول کے زیر اثر۔ لیکن جب سے دنیا بدلی اور ترقی کے نام پر دنیا نے سپیڈ پکڑی تو گاؤں بھی بدل گیا اور اس تبدیلی نے اس خاندان کی اقدار کو بھی بدل دیا دنیا کی تیز زندگی میں جہاں حرام حلال کی تمیز ختم ہوئی وہیں خاندانی رشتوں کا تقدس بھی پامال ہونا شروع ہوا گاؤں کی زندگی یکسر بدل گئی پرانی رسم و روایت دم توڑ گئی اور نئے اصول ضابطے جنم لے گئے تو اس سب نے اس خاندان کو بہت ہی دور کا کھڑا کیا جہاں سے واپس آنا ناممکن تھا۔ خاندان کے سربراہ کا نام ندیم خان تھا وہ کافی عرصہ پہلے اپنی بیوی صوبیہ کو بھگا لایا صوبیہ ندیم کی ہمسائی تھی وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اس نے اپنے باپ سے بات کی اس کا باپ کٹر مذہبی آدمی تھا جو پیار اور محبت کا دشمن تھا ندیم خان کا گاؤں شہر کے قریب تھا وہ وہاں کام کرنے جاتا تھا جہاں اس کی ملاقات شاہد سے ہوئی شاہد کا شہر میں کھوکھا تھا چائے کا دونوں جلد ہی گہرے دوست بن گئے اور انہوں نے مل کر ایک چائے کا ہوٹل بنا لیا جو ترقی کرنے لگا شاہد کا گاؤں شہر سے خاصہ دور تھا وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اس کی ماں اسکی پیدائش کے تھوڑے عرصے بعد مر گئی شاہد کا باپ اسے چاہتا تھا اس لیے اس نے دوسری شادی نا کی اور اپنے بیٹے کی پرورش پر ساری توجہ دی جو اسکی بیوی کی آخری نشانی تھا شاید کی گاؤں میں کچھ زمین تھی جہاں اسکا باپ کام کرتا شاہد بڑا ہوا اور شہر پڑھنے آیا تو یہیں کا ہوکر رہ گیا پڑھ تو نا سکا لیکن باپ نے اسکی خواہش پر اسے شہر میں کاروبار بنا دیا جو اب شاہد اور ندیم دونوں دیکھ رہے تھے اور کاروبار ترقی کر رہا تھا لیکن شاہد کا باپ اب بوڑھا ہوگیا تھا اور وہ کچھ دن بیمار رہنے کے بعد مر گیا تو گاؤں کی زمین کی دیکھ بھال کرنے میں شاہد کو تھوڑی پریشانی ہوتی تھی اس وقت زمین ٹھیکے یا بوائی پر دینے کا رواج کم تھا اس لیے اس نے زمین چھوڑی اور شہر میں کاروبار کو دیکھنے لگا ادھر صوبیہ کے ساتھ ندیم کی محبت تھی جو اسے پانے کی پوری کوشش میں تھا اس نے اسکا ذکر شاہد سے کیا کہ کسی طرح اسکی مدد کرے شاہد کو یہ سن کر آئیڈیا آیا ایک تو اسکا گاؤں دور بہت تھا جہاں اس وقت پہنچنا مشکل تھا اسلیے اس نے ندیم سے کہا کہ وہ صوبیہ کو بھگا کر میرے گاؤں لے کر چلاجائے ندیم کو یہ بات پسند آئی اس نے اور صوبیہ نے ضرورت کی کچھ چیزیں جمع کرنا شروع کیں اور پھر وہ ایک دن صوبیہ کو بھگا کر لے کر چلا گیا جہاں شاہد نے اسے اپنے گاؤں پہنچا دیا جو ندیم کے گاؤں سے کوسوں میلوں دور تھا اور کسی کو خبر نا ہوئی کہ وہ کہاں گئے ندیم کے اور صوبی کے گھر والوں نے بڑا تلاش کیا لیکن وہ نا ملے ندیم اور صوبہ کو لے شاہد گاؤں پہنچا اور گاؤں والوں کو یہی بتایا کہ اس نے زمین بیچ دی ہے ادھر شاہد اور ندیم میں یہ بات ہوئی کہ شاہد ہوٹل چلائے گا اور ندیم اسکی زمین کی دیکھ بھال کرے گا اور دونوں برابر تقسیم کریں گے لہذا ندیم اور اسکی بیگم جو اپنے گاؤں میں بھی زمین کی دیکھ بھال کرتے تھے لہذا انہیں کام آتا تھا وہ گاؤں میں شاہد کی زمین پر بے فکر ہوکر کام کو جت گئے شاہد کی زمین گاؤں سے تھوڑی دور تھی جہاں اسکا گھر اور ڈیرہ تھا وہاں ندیم اور اسکی بیوی کام میں مگن رہتے کچھ عرصہ بعد انہوں نے وہاں کچھ جانور بھی پال لیے اور ہنسی خوشی رہنے لگے وقت گزرتا رہا اور ندیم اور اس کی بیوی کے ہاں اوپر تلے دو بیٹیاں پیدا ہوئی بڑی بیٹی کا نام علشبہ اور چھوٹی کا نام سدرہ تھا دونوں اپنی بیٹیوں کی پرورش میں مگن ہو گئے ندیم صوبیہ سے بہت پیار کرتا تھا اس لیے اس نے کبھی بیٹے کی خواہش نا کی ہمیشہ بیٹیوں کو ہی بیٹے سمجھے پھر وقت نے رفتار پکڑی اور ندیم کی بیٹیاں جوان ہوتی چلی گئیں جہاں وقت گزرنے کے ساتھ گاؤں میں سکول بھی بن گیا اور علشبہ گاؤں کے سکول میں پڑھ کر شاہد کے پاس شہر پڑھنے چلی گئی جہاں اب اسنے بھی شادی کر لی تھی وہاں علشبہ کالج میں بی اے تک پڑھتی رہی اور پھر واپس گاؤں آگئی علشبہ گاؤں سے شہر میں گئی تھی جہاں وہ شہر کی چکا چوند میں بہت کھل سی گئی تھی اس کی سہیلیاں اسے نے نئی باتوں اور فیشن سے روشناس کراتی۔ لیکن وہ گاؤں کی سادہ زندگی کی دلدادہ تھی اور ویسے بھی سلجھی ہوئی اور سمجھدار لڑکی تھی وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ شہر کی رنگینیوں سے خوب واقف تھی اسکی ایک سہیلی ناجیہ اسے گھر بھی کے جاتی جہاں اسکے گھر میں ان دنوں سی ڈی پلئیر آئی تھی نئی نئی جس پر وہ فلمیں دیکھتی تھی پھر اس نے علشبہ کو وہ والی گندی فلم بھی دکھائی جو اسکا بھائی چوری دیکھتا تھا اور ناجیہ بھی چھپ کے دیکھتی تھی الشبہ پہلے تو گھبرائی لیکن پھر وہ بھی ناجیہ کے ساتھ یہ سب دیکھنے لگی لیکن وہ اپنے جذبات قابو میں رکھتی دیکھ کر دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کو فروغ کرتی اور پھر بات وہیں ختم ہو جاتی کچھ عرصہ بعد ناجیہ نے لڑکے دوست بنانے شروع کیے لیکن علشبہ اس سے دور رہی وہ ناجیہ کو لڑکوں کے ساتھ دیکھتی اس کا اپنا بھی دل کرتا لیکن اس نے خود کو قابو میں رکھا شاید اس کی سوچ یہ نہیں تھی پھر وہ بی اے کے بعد گھر واپس گئی اس کی دوسری بہن سدرہ بھی ایف اے تک پڑھتی تھی علشبہ گاؤں واپس آکر اپنے ابو امی کے ساتھ گاؤں میں رہنے لگی صوبیہ کو اپنی بیٹی کی شادی کی فکر ہوئی لیکن کوئی مناسب رشتہ انہیں نہیں ملا سدرہ بھی تب تک بی اے مکمل کر چکی تھی علشبہ اور سدرہ دونوں بھرپور جوان ہو چکی تھیں دونوں میں ایک سال کا ہی فرق تھا لیکن دونوں ایک جیسی لگتی تھیں وقت کا پیا گھومتا رہا علشبہ کی عمر 28 سال ہو چکی تھی تب تک وہ گاؤں کی الہڑ مٹیار بھرپور جوان ہو چکی تھی سدرہ کی عمر27 سال تھی دونوں کی جوانی بھرپور اور مٹکنے لگی تھی لیکن دونوں گھر میں ہی رہتیں ہا کبھی کبھار حویلی میں جا کر کام کاج کرتی دونوں کےلیے مناسب رشتے کی تلاش جاری تھی لیکن صوبیہ اور ندیم کسی پر مطمئن نہیں ہوتے تھے اسلیے علشبہ اور سدرہ اپنی بے قابو ہوتی جوانی کو سنبھالے بیٹھی تھیں اب وقت گزرنے کے ساتھ گاؤں کا ماحول بھی بدل رہا تھا گاؤں بھی شہر کی طرح ماڈرن ہو رہا تھا جہاں لڑکی لڑکے کی دوستی اب عام سی ہونے لگی تھی گاؤں کی ہر لڑکی کا کسی نا کسی لڑکے سے چکر ضرور تھا گاؤں بھی زیادہ بڑا تو نا تھا لیکن جدید سہولتوں موبائل ٹی وی ڈش کے آنے سے بگاڑ ضرور آ رہا تھا لیکن اس سب کے باوجود علشبہ اور سدرہ پر گاؤں کے ماحول کا ابھی اثر نہیں ہوا تھا وہ اب بھی اپنے ماں باپ کی عزت کا بھرم رکھے ہوئے تھیں گویا ان کی جوانی اب قابو سے باہر ہو رہی تھی ندیم نے علشبہ کی ضد پر اسے موبائل دلایا تھا جس پر دونوں بہنیں پورن موویاں اور کہانیاں پڑھ کر خود کو ٹھنڈا رکھ لیتی تھیں گاؤں میں علشبہ اور سدرہ ہی واحد تین جو میٹرک سے آگے پڑھیں تھیں اس لیے گاؤں کے بچوں اور بچیوں کو جو میٹرک کر جاتیں علشبہ اور سدرہ ان دونوں کو آگے پڑھاتی تھیں اس لیے جلدی ہی علشبہ اور سدرہ دونوں گاؤں کی بچیوں کو ٹیوشن پڑھانے لگیں ان کے گھر اب اکثر رش رہتا ادھر ندیم اور صوبیہ جو سارا دن کھیتیوں میں کام کرتے تھے رات کو ندیم اپنی تھکاوٹ بھرپور اتارتا تھا ندیم کی عمر اب 50 کے قریب تھی لیکن اچھی خوراک اور سخت کام کی وجہ سے اس کا جسم ابھی مضبوط تھا مردانگی بھی اسکی ابھی بھرپور تھی لیکن صوبیہ اب اس کی طاقت سہ نا پاتی تھی وہ اکثر ایک بار کی چدائی کے بعد ہفتہ ہفتہ ندیم کو نزدیک نہیں آنے دیتی تھی لیکن ندیم تو بھرپور جوان تھا صوبیہ نے اپنے شوہر کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اسے باہر منہ مارنے کی اجازت دے رکھی تھی کیونکہ ندیم کی ہمت اسکی زور سے زیادہ تھی ندیم بھی اکثر اب باہر سے منہ مار کے آتا تھا گاؤں کی اکثر لڑکیاں اپنے ماں باپ کے ساتھ کھیتوں میں کام کاج کرتی تھیں اس لیے روز کہیں نا کہیں ندیم کا دا لگ جاتا اور کوئی نا کوئی لڑکی اسے مل جاتی جسے وہ چود کر ٹھنڈا ہو جاتا ادھر ندیم فل مزے میں تھا اپنی تگڑی مردانگی کی وجہ سے جلدی ہی گاؤں کی عورتوں اور لڑکیوں میں مشہور ہو چکا تھا ہر لڑکی اور عورت دیمی کے پاس سونے کی خواہش کرتی تھی تو ادھر اسکی بیٹیاں جو روز دن کو تو مصروف رہتی۔ لیکن رات کو جب بستر پر آتیں تو اپنی سلگتی جوانی کو ٹھنڈا کرنے کےلیے دونوں ایک دوسرے کو مسل رہی ہوتیں جبکہ ان کا باپ باہر رنگ رلیاں منا رہا ہوتا صوبیہ کو فکر تو تھی پر وہ کچھ کرنا پا رہی تھی علشبہ روز رات کو اپنی سلگتی جوانی کو ٹھنڈا کرتی وہ رات بھر آہیں ہی بھرتی جب بھی آنکھ کھلتی علشبہ گرمی سے نڈھال ہوتی اس کی عمر بھی اب وہاں پہنچ چکی تھی جہاں اس کی جوانی کی آگ پوری بلندی پر تھی جو جوان سے جوان مرد جو جلا کر رکھ دے لیکن وہ دل پر پتھر رکھے برداشت کر رہی تھی انہی دنوں میں ایک دن ایسا بھی آیا جس نے علشبہ کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ علشبہ کے پاس اکثر 16 17 سال کی لڑکیوں پڑھنے آتی تھیں انہیں میں ایک لڑکی تھوڑی بڑی عمر کی تھی اسے پڑھنے کا شوق تھا اور وہ بڑی شوق سے علشبہ کے پاس پڑھنے آتی تھی وہ فرسٹ ائیر کے پیپر دے چکی تھی اور اب علشبہ کے پاس سیکنڈ ائیر کی تیاری کر رہی تھی اس کی بڑی بہن کا علشبہ کے باپ ندیم سے چکر بھی تھا اور اکثر اس نے علشبہ کے باپ اور اپنی بڑی بہن کو سیکس کرتے دیکھا تھا ندیم کی نظر اس پر بھی تھی اور وہ موقع کی تلاش میں تھا ایک دن دیمی گھر آیا تو وہ لڑکی واشروم سے نکل رہی تھی اس نے دوپٹہ اتار کر گلے میں ڈال رکھا تھا جس سے اس کے اٹھے ممے تن کر کھڑے تھے اور اوپر اپنی گت ڈال رکھی تھی بڑا پی سیکسی منظر تھا جسے دیکھ کر دیمی مچل گیا اور آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھنے لگا دیمی کی نظر سیدھی اس لڑکی کے اٹھے مموں پر تھی وہ بیسن پر ہاتھ دھو رہی تھی کہ اسی لمحے علشبہ کی نظر پڑی تو وہ چونک گئی اپنے سگے باپ کو پرائی لڑکی کے تنے ممے غورتا دیکھ کر علشبہ شرم سے لال پہلی ہو گئی علشبہ نے آج تک یوں کسی لڑکی کو مرد کے تاڑنے کا منظر لائیو نہیں دیکھا تھا آج اپنے آگے باپ کو ایک لڑکی کو تاڑتے دیکھ کر علشبہ ہکا بکا اپنے باپ کو غور رہی تھی دیمی اس لڑکی کے انگ انگ جو تاڑ رہا تھا اسے کوئی خبر نہیں تھی کہ اسکی بیٹی اسے دیکھ رہی ہے علشبہ جو خود آگ میں سلگ رہی تھی اپنے باپ جو یوں تاڑتا دیکھ کر انجانے میں اسکے دل نے آواز لگا کاش کوئی میرے جسم کو بھی ایسے تاڑتا یہ سوچ آتے ہی علشبہ آگ سے بھڑک اٹھی اور اس نے گھونٹ بھر کر اپنے باپ کو ایک مست نظر سے دیکھا جو دوسری لڑکی کے جسم میں مگن تھا علشبہ کے ذہن نے اسے جنجھوڑا کہ پاگل لڑکی کیا کر رہی ہے سگا باپ ہے تیرا یہ سوچ کر علشبہ کانپ گئی اور خود کو کوسا کہ شہوت میں اتنا بھی آگے نا نکل کہ سگے رشتوں کو ہی روند دے یہ سوچ کر اسنے منہ نیچے کیا اور اپنے کام میں مگن ہو گئی لیکن علشبہ کے دل کو بے سکونی ہوئی ناجانے کیوں اسے مزہ آیا تھا دل نے اسے مجبور کیا کہ وہ جو چاہ رہی ہے اگر اسے باپ سے مل جائے تو یہ سوچ کر روز رات کو پڑھنے والی کہانیاں جس میں باپ بیٹی بھائی بہن کے ساتھ سیکس کو پڑھ کر وہ انجوائے کرتی تھی وہ دوڑنے لگیں کہ کیسے ایک باپ اپنی بیٹی سے تعلق قائم کرکے اسے سکون دیتا ہے یہ سوچ کر علشبہ کانپنے لگی اس کے نیچے چڈوں میں سلگتی جوانی آگ چھوڑنے لگی جس سے وہ بے قابو ہونے لگی علشبہ کا چہرہ لال ہونے لگا اور بے اختیار علشبہ نے آنکھ اٹھا کر اپنے باپ ہو دیکھا تو تب تک وہ لڑکی چلتی ہوئی علشبہ کے پاس ا کی تھی اور دینی اور اس لڑکی کی نظریں ملنے پر دونوں مسکرا رہے تھے دیمی بھی مسکراتا ہوا اس لڑکی کی مٹکتی گانڈ کو تاڑ رہا تھا کہ اسی لمحے دیمی کی نظر اپنی بیٹی علشبہ کی طرف گئی تو وہ چونک گیا علشبہ مست نظروں سے اپنے باپ کو غور رہی تھی دیمی اپنی بیٹی کی آنکھوں میں اتری مستی دیکھ کر چونک گیا اس بات کا تو علشبہ کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی آنکھوں میں اپنے باپ کےلیے مستی اتری ہوئی ہے جسے دیمی پہچان چکا تھا اور اپنی بیٹی کا گلابی چہرہ دیکھ کر وہ تھوڑا پریشان ہونے لگا وہ سمجھ گیا کہ اس لڑکی کو تاڑتے ہوئے اسکی بیٹی اسے دیکھ چکی ہے جس سے بے اختیار وہ گھبرا گیا اور جلدی سے علشبہ سے آنکھیں چرا کر اندر کی جانب چل دیا وہ خود کو کوستا جلدی سے اندر جا گھسا اور سر پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگا کہ یہ کیا غلطی کردی تو نے اپنی سگی بیٹی کے سامنے لڑکیوں کو تاڑنے لگا یہ تو بہت غلط ہوا علشبہ اب میرے بارے میں کیا سوچے گی یہ سوچتے ہوئے وہ لیٹ گیا دیمی اب تک گاؤں کی ہر جوان لڑکی کو چود چکا تھا جو مزہ اسے کنواری لڑکیوں کو چودنے میں آتا تھا اسے عورتوں میں نہیں ملتا تھا لیکن آج تک اس نے کبھی اپنی بیٹیوں کے بارے کبھی نہیں سوچا تھا وہ لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ علشبہ اے ایسے غور رہی تھی جیسے میں اس لڑکی کو شہوت زدہ آنکھوں سے غور رہا تھا کہیں میری بیٹی مجھ پر پی تو یہ سوچ کر وہ لیٹا ہوا اٹھ بیٹھا اور بولا نہیں یہ نہیں ہوگا وہ ناہ چاہتا ہوا بھی انجانے میں علشبہ کے جسم کا سوچنے لگا جاتا علشبہ 28 سال کی بھرپور جوان لڑکی تھی اسکا جسم ہلکا سا پھولا ہوا اور چوڑا جسم تھا بلکل صوبیہ کہ طر۔ علشبہ کا قد بھی اچھا خاصا لمبا تھا علشبہ کا لمبا قد آور چوڑا جسم پھیلا ہوا سینہ بالکل گھوڑی کی طرح تھا دیمی اپنی بیٹی کے بارے میں سوچ کر مچل بھی رہا تھا اور ہلکان بھی ہورہا تھا اس نے اپنے آپ کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ روک نہیں پا رہا تھا عجیب سی کیفیت تھی وہ لیٹ کر سو گیا اس کے اندر ایسی آگ بھڑکی تھی کہ سوتے ہوئے دیمی فارغ ہوگیا ادھر اسکی بیٹی علشبہ بھی تڑپ رہی تھی اپنے باپ کو یوں تاڑنے پر وہ بھی شرمندہ تھی کہ ابو کیا سوچیں گے لیکن اسکے دل کو عجیب سی خوشی بھی ہو رہی تھی اسے چین نہیں مل رہا تھا علشبہ بچوں کو پڑھا کر فری ہوئی تو دیمی جاگ گیا اسے احساس ہوا کہ وہ فارغ ہوا ندامت سے اس کی حالت خراب تھی وہ اٹھا نہا کر کھانا کھایا اور نکل گیا شام کو وہ آیا تو علشبہ اس سے نظر نہیں ملا پارہی تھی ناوہ دونوں خاموش تھے لیکن اندر دونوں کے چور تھا کھانا کھا کر علشبہ اور سدرہ نے برتن وغیرہ دھونے لگیں آج علشبہ کو چپ دیکھ کر سدرہ مسکرا دی دونوں بہنیں ایک دوسرے سے بہت فرینک تھیں رات کام سے فارغ ہوکر جب دونوں اندر کمرے میں جاتی تو کنڈیاں لگا کر دونوں فل ننگی ہوکر ایک دوسرے کی گرم جوانی کو سکون دیتی تھی لیکن اب اکثر باہر سوتی تھیں تو موقع کم ملتا تھا اس لیے اکثر گھر میں جب دونوں اکیلی ہوتیں تو ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی رہتی تھیں جو دونوں انجوائے کرتی تھیں اور ویسے دونوں ایک دوسرے کو ٹھنڈا بھی کرلیتی اس لیے گرمیوں میں زیادہ موقع نا ملنے سے دونوں گرم ہی رہتیں آج علشبہ اپنے باپ کے ساتھ ہوئے منظر کی وجہ سے گرم بھی تھی اور تھوڑی کشمکش میں تھی اس لیے اس کا سینہ پہلے سے زیادہ پھیل رہا تھا علشبہ کے ممے جو پہلے ہی بہت موٹے اور صحت مند تھے آج تن کر آگے کو مزید ابھرے ہوئے تھے اور علشبہ کے منہ تک جا رہے تھے علشبہ نے دوپٹہ اتار رکھا تھا جس سے تنے ممے صاف سدرہ دیکھ کر سمجھ گئی کہ آج باجی کو زیادہ آگ چمڑی ہوئی ہے لیکن علشبہ جو چپ دیکھ کر اسے بھی تجسس ہوا کیونکہ پہلے جب علشبہ گرم ہوتی تو خود ہی سدرہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی اسے اتنا تنگ کرتی کہ سدرہ کے ناک میں دم کر دیتی لیکن آج الٹ تھا باجی گرم گرم بھی تھی اور چپ یہ سوچ کر سدرہ کو شرارت سجھی اس نے علشبہ کے جسم کو ایک نظر دیکھا اور نیچے علشبہ کی چوڑی پھیلی ہوئی باہو کو نکلی گانڈ کر دیکھ کر اپنا ہاتھ آگے لے جا کر اپنی ہاتھ کی درمیان والی انگلی علشبہ کے قمیض کے اندر سے شلوار کے اوپر سے علشبہ کے چڈوں میں گھسا کر دبا کر اوپر گانڈ کی لکیر میں پھیرتی ہوئی بولی باجی کی گل اے کیوں چپ ایں علشبہ جو آج ہوئے خیالوں میں گم تھی سدرہ کی انگلی اپنے چڈوں میں آگ اگلتی پھدی پر محسوس کرکے تڑپ کر چونک کر بوکھلا کر بولی افففف سسسسسسہیییی سدررووووو اور شہوت بھری نظروں سے سدرہ کو غورا سدرہ کی انگلی جو علشبہ کی گانڈ میں موری پر جا کر رک گئی جسے علشبہ نے اپنی گانڈ میں دبوچ لیا ایک لمحے میں سدرہ سمجھ گئی کہ علشبہ باجی کو آج زیادہ ہی گرمی چڑھی ہے علشبہ کی آنکھوں میں شہوت دیکھ کر بولی ہالنی اماں مر جاواں باجی آج کی ویکھ لیا ہئی جہڑی ایڈی آگ لگی اے تینوں علشبہ مسکرا کر منہ نیچے کرکے برتن دھونے لگی اس کا منہ لال ہوگیا وہ اب کیا بتاتی کہ ابو کے بارے میں سوچ کر اتنی شہوت زدہ ہورہی ہے اور مسکرا کر بات بدل کر بولی نی کجھ نہیں ویکھیا او ہی ویکھیا جہڑا توں روز ویکدھی ایں سدرہ کمینی سی ہنسی ہنس کر بولی ہاہاہاہ باجی کہا نہیں تیری اکھیاں سب دس رہیاں۔ باجی کسی چھوار نال تے آکھ مٹکا نہیں لا لیا علشبہ نے نیچے دیکھتے ہوئے کہا بکواس نا کر سدرہ کر بولی ناجی نا اور یہ کہ سدرہ نے علشبہ کی گانڈ میں اتری انگلی ہلاتی ہوئی قریب ہوئی اور اپنا سینہ سائیڈ سے علشبہ کے ساتھ لگا کر اپنا منہ علشبہ کے منہ کے قریب کیا اور اپنا ایک ہاتھ علشبہ کے مموں پر رکھ کر ایک مما پکڑ کر دبا کر سرگوشی سے بولی باجیییی وت اے سلامیاں کیوں دے رہے ہینڑ علشبہ سدرہ کے مما دبانے پر تڑپ کرسسک کر بولی اااااااہۃہہ سدررووووو آج بڑی آگ لگی اے دونوں بہنیں بہت ہی فرینک تھیں اور جب قریب ہوتیں تو اپنی شہوت کا بھرپور اظہار کرے پورا مزہ لیتیں کبھی شرماتی نہیں تھیں اب بھی علشبہ وہی کر رہی تھی علشبہ سسک کر اپنا منہ قریب کیا اور سدرہ کے ہونٹوں کو دبا کر چوسنے لگی سدرہ علشبہ کی گرمی بھانپ گئی اور سمجھ گئی کہ کچھ ہوا ہے دونوں کافی عرصے سے قریب تھیں اور ایک دوسرے کی آگ بجھاتی تھیں سدرہ کچھ پوچھنا چاہتی تھی لیکن علشبہ تو آگ میں جل رہی تھی سدرہ اپنا منہ چھڑوانا چاہا تو علشبہ نے سدرہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور اور دبا کر اپنا منہ سدرہ کے منہ میں گھسا کر چوستی ہوئی سدرہ کی زبان اپنے منہ اتنے زور سے کھینچ کر چوسنے لگی کہ سدرہ کو لگا کہ باجی اس کی زبان کھینچ کر اکھیڑ کر اندر کے جا رہی ہے جس سے سدرہ کانپ کر کراہ گئی علشبہ دبا کر سدرہ ک چوستی تڑپ رہی تھی بے اختیار علشبہ کے سینے سے مزے سے بھرپور آوازیں نکل رہی تھیں علشبہ مزے سے ہانپتی ہوئی سدرہ کو چوستی ہوئی ایک ہاتھ سے اسکا سر دبا کر چوس رہی تھی تو دوسرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ممے دبوا رہی تھی علشبہ پہلے بھی بہت گرم ہوتی لیکن آج علشبہ کو انتہائی شہوت زدہ دیکھ کر سدرہ حیران ہوئی لیکن علشبہ سدرہ کو کچھ سوچنے نہیں دے رہی تھی سدرہ علشبہ کا ساتھ دے رہی تھی لیکن علشبہ کا منہ بہت ہی گرم تھا سدرہ پریشان بھی تھی لیکن اسے بھی مزہ آنے لگا تھا بے اختیار علشبہ نے سدرہ کو چوستے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ممے اٹھایا اور نیچے لے کر اپنی شلوار میں ڈال کر اپنی پھدی پر رکھ کر دبا دیا علشبہ کی پھدی آگ ے جل رہی تھی جسے محسوس کرکے سدرہ کانپ گئی اور آنکھیں کھول کر باجی کو دیکھا جو ہانپتی ہوئی اسے مسلسل چوس رہی تھی پہلی اتنی گرم پھدی علشبہ کی نہیں ہوئی تھی وہ سمجھ گئی کہ علشبہ نے کچھ ایسا ضرور دیکھا ہے جو اسے اتنا گرم کر رہا ہے یہ پوچھنے کا اب وقت نہیں تھا اسے اب فوری اپنی بہن کو ٹھنڈا کرنا تھا اسلیے اس نے جلدی سے درمیان والی انگلی علشبہ کی پھدی کے دانے ہر رکھ مسلتی ہوئی نیچے پھدی کے دہانے تک علشبہ کی پھدی کو مسلنے لگی جس سے علشبہ تڑپ کر کرلا گئی سدرہ نے تیزی سے انگلی چلاتے ہوئے پھدی کو مسلا تو علشبہ تھر تھر کانپتی کانپنے لگی اور کراہنے لگی علشبہ کی پھدی پھڑکنے لگی اور وہ سدرہ کے اوپر گر کر اسے دونوں باہوں میں بھر رک سینے سے لگا کر مسلتی ہوئی چوسنے لگی اور کراہنے لگی سدرہ نے اپنے پیچھے والے ہاتھ کو پیچھے سے ہی علشبہ کی شلوار میں ڈالا اور نیچے چڈوں میں لے جا کر اپنی انگلی علشبہ کی پھدی کے دہانے پر رگڑتی ہوئی دوسری انگلی سے علشبہ کی پھدی کا دانہ مسلنے لگی علشبہ جو پہلے ہی آگ میں جل بھن رہی تھی ایک منٹ میں اپنی بہن کی انگلیوں کی رگڑ سے جھٹکے کھاتہ فارغ ہونے لگی سدرہ رک کر علشبہ کو فارغ ہوتا دیکھنے لگی علشبہ کا۔جسم پہلے سے بھی زیادہ بڑے جھٹکے کھاتا فارغ ہونے لگا آج علشبہ کا پانی بھی بہت نکلا تھا علشبہ کو سکون سا آگیا وہ مچل کر بے سدھ ہوکر سر سدرہ کے کاندھوں پر رکھ کر ہانتپی ہوئی اپنا سانس بحال کرنے لگی سدرہ کا ہاتھ علشبہ کے پانی سے بھر چکا تھا جسے سدرہ نے علشبہ کی پھدی پر مل دیا اور دو منٹ میں سانس بحال کرکے علشبہ اوپر ہوئی تو سدرہ نے اپنا ہاتھ کھینچ کر نکال لیا جو علشبہ کے پانی سے لیس تھا سدرہ نے ہاتھ اٹھا کر اپنے ناک سے لگایا اور سونگ کر مچل کر بولی اففففف باجیییی تیرے پانی اچ تے نشہ اے دل کردا منہ کا کے پی لواں سدرہ کی بات پر علشبہ مچل گئی اور مسکرا کر بولی نی گندی نا ہووے تے اے کون پیندا سدرہ شرارتی انداز میں ہنس کر بولی کیوں انگریزنیاں کالیاں دے وڈے وڈے ہتھیار منہ وچ لئے کے چوس چوس کے پی نہیں جاندیاں میں اپنی بھین دا پانی نہیں پی سگدی سدرہ کچھ زیادہ ہی بے جھجھک تھی علشبہ بھی کم نہیں تھی لیکن آج وہ خاموش تھی اس کی گرمی اتر چکی تھی اور وہ یہ سوچ کر نادم ہو رہی تھی کہ اس نے ابو کے بارے میں کیوں سوچا ایسا اس لیے اس کا سدرہ کی باتوں کی طرف دھیان کم ہی تھا ویسے بھی دونوں بہنیں ملکر موبائل پر روز پورن مووی بڑے شوق سے دیکھتی خاص کر وہ سین تو بہت پسند تھا انہیں جب لڑکی کالے کا ہتھیار منہ میں لے کر چوستی اور پھر پانی پی جاتی علشبہ کا ندامت سے چہرہ سرخ ہو رہا تھا اسے سدرہ کے ساتھ یہ سب کرنے پر کوئی ندامت نہیں تھی یہ تو روز کا معمول تھا لیکن ابو کے بارے سوچنا شاید اسے نادم کر رہا تھا سدرہ بولی باجی میں ہتھ دھو لواں کہ ہلے ہور موڈ ہے سدرہ کی یہ بات اسے اپنے خیالوں کی دنیا سے واپس لائی اور علشبہ ہنس کر بولی دھو لئے میری جان ہنڑ واسطے اتنا کافی ہے کجھ ٹھنڈ پئے گئی سدرہ ہنس کر بولی شکر ہے باجی آج تے تیرا انداز قاتلانہ ہا علشبہ بولی کیوں کی کیتا میں سدرہ بولی باجیییی کی نہیں کیتا توں میری تے زبان ایسے زور نال چھکی مینوں تے لگا آج توں باہر ہی چھک لیسیں علشبہ اس بات پر ہنس کر بولی سوری میری جان آج کجھ ڈھیر ہی آگ لگی ہا ویسے توں اپنی واری لاہ تے لینی ہے وت کیوں شکوہ کر رہی ہیں سدرہ بولی باجی واری تے لاہ لیساں پر انج ظلم میتھو نہیں ہونا جہڑا توں کیتا۔ علشبہ ہنس دی اور بولی میری جان توں وی کر لئے یہ کہ کر علشبہ نیچے سے کچھ اٹھانے کےلیے جھکی تو علشبہ کہ پھیلی ہوئی موٹی گانڈ باہر کو نکل کر سدرہ کے سامنے آگئی جسے دیکھ کر سدرہ ہنس دی اس کے ذہن میں پورن فلموں کا ایک سین دوڑ گیا جس سے وہ مچل گئی اور آگے ہوکر علشبہ کے پیچھے گئی اور ایک زور دار تھپڑ کس کر علشبہ کی گانڈ پر کھینچ کر مارا جس جس سے ایک زوردار چٹک کی آواز کی ن میں گونجی اور ساتھ ہی علشبہ تڑپ کر سیدھی ہور بولی اوئے ہالنی اماں مر جاواں اور سسسسسییی سسسسی کرتی ہوئی کھڑی ہوکر اپنی گانڈ کو ملتی بولی افففف سدرو تیرا ککھ نا رووے اڑا کے رکھ دتا ہئی جا پر سدرہ ہنس دی اور بولی باجی مزہ آیا کہ سن کر علشبہ بولی حرامدیے میری تے چت اڑا دتی ہئی اور ہاتھ اٹھا کر مارنے کے انداز میں سدرہ کی طرف بڑھی پر اسی لمحے سدرہ دوڑ کر باہر نکل گئی اور ہنسنے لگی علشبہ بھی باہر نکلی پر سامنے اس کا باپ دیمی گھر میں ہوا اور اپنی بیٹی علشبہ کو سدرہ کے پیچھے دوڑتا دیکھنے لگا علشبہ دوپٹے کے بغیر تھی جس سے علشبہ کے موٹے ہوا میں اتن کر کھڑے ممے علشبہ کے دوڑنے سے تیزی سے اوپر نیچے ہوکر ہلتے ہوئے اودھم مچا رہے تھے دیمی اپنی بیٹی علشبہ کے موٹے تنے ممے دیکھ کر مچل کر رک گیا علشبہ کی نظر سامنے ابو پر پڑی تو وہ ابو کو اپنے ممے تاڑتے دیکھ کر چونک کر رک گئی اور جلدی سے ابو کی نظروں کو غورتی ہوئی دیکھتی پلٹی اور جلدی سے چلتی ہوئی اندر کیچن کی طرف چل دی واپس مڑنے پر دیمی کی نظر نیچے علشبہ کی مٹکتی ہوئی باہر کو نکلی گانڈ پر رک سی گئی جس پر دیمی مچل گیا آج پہلی بار اس نے اپنی بیٹی کا جسم گندی نظر سے دیکھا تھا جس سے اس کے دل میں بھی ہلچل سی مچ گئی ادھر دوسری طرف سدرہ کی نظر پڑی اور ابو کو علشبہ باجی کو دیکھتا پا کر سدرہ چونک کر رک گئی علشبہ کو تاڑتا دیکھ کر سدرہ کو شک ہوا کہ ابو ایسی نظر سے کیوں دیکھ رہے ہیں لیکن اسی لمحے علشبہ اندر چلی گئی دیمی کو اندازہ ہوا کہ سدرہ بھی اس پاس ہے تو اس نے جلدی سے سدرہ کو دیکھا تب تک سدرہ بھی سوچوں میں گم تھی دیمی تھوڑا گھبرایا کہ کہیں اس نے دیکھ نا لیا جس پر وہ نادم تو ہوا لیکن اپنی گھبراہٹ چھپانے کےلیے اور سدرہ کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر وہ بولا صوبیہ کدے ہے سدرہ چونک کر ابو کو دیکھا اور بولی امی اندر ہے وہ بولا خیریت سدرہ بولی ہاں امی بس آرام کر رہی وہ بولا اچھا وہ اندر گیا تو صوبیہ سو رہی تھی اس نے اسے جگانا مناسب نا سمجھا اور سدرہ سے بولا سدرہ ڈنگراں نوں پٹھے ہوا مینوں سدرہ اسوقت دوپٹے میں تھی صرف سر ننگا تھا دونوں بہنیں پہلے بھی ماں باپ کے ساتھ ڈنگروں کے کام۔کاج میں ہاتھ بٹاتی تھیں اس لیے سدرہ ابو کے ساتھ چل دی اور اسے پٹھے ڈلوانے لگی علشبہ اندر کیچن میں تھی وہ یوں بغیر دوپٹے کے ابو کے سامنے جانے پر بہت شرمندہ تھی پھر ابو کی نظر بھی ایسی تیکھی تھی جو سیدھی علشبہ کے دل کے پار اتر گئی وہ ابو کی طرف کھینچی چلی جا رہی تھی پتا نہیں کیوں پر اسکا ضمیر اسے بار بار جنجھوڑ رہا تھا کیونکہ وہ اسکا سگا باپ تھا باپ کے ساتھ ایسا تعلق بنانا کہاں کی عقلمندی تھی وہ شدید کشمکش میں تھی اس کا۔دل اسے یہ سب کرنے پر مجبور کرہاتگا لیکن اس کا ضمیر اسے روک رہا تھا وہ کام کرکے نکلی اور باہر صحن میں چارپائیاں ڈال کر جگہ بنانے لگی امی اندر سے نکلی اور اسکا ہاتھ بٹانے لگی چارپائیاں ڈال کر جگہ بنا کر سونے کی تیاری کرنے لگیں سدرہ اور ابو بھی آگئے اور سب سونے لگے لیکن نیند علشبہ اور اسکے باپ کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی باپ بیٹی کے بارے میں اور بیٹی باپ کے بارے میں سوچ رہی تھی دونوں بیچ منجھدار میں تھے کریں تو کیا کریں دل تو دونوں کا تھا لیکن بیچ میں باپ بیٹی کا تختہ دیوار بنا ہوا تھا علشبہ بار بار ان کہانیوں کے بارے میں سوچ رہی تھی جو اس نے باپ بیٹی کے تعلق کی پڑھ رکھی تھی آج اسے معلوم ہو رہ تھا کہ یہ کہانیاں بنانا کتنا آسان ہے لیکن حقیقت میں یہ سب سوچنا بھی کتنا مشکل ہو رہا ہے لیکن جو بھی تھا علشبہ کو ندامت ہو رہی تھی یہ سوچ کر بھی اس نے کہانیوں کو کہانیاں سمجھ کر اگنور کیا اور یہ سوچ ذہن سے نکال کر لیٹ گئی کہ وہ اب یہ سب نہیں سوچے گی باپ کے ساتھ رشتہ ایسا ہے جس کے بارے سوچنا بھی غلط ہے کرنا تو دور علشبہ نے ضمیر کی آواز پر عمل کرنے کا سوچ لیا اور اس سوچ کو ہی اپنے سے دور کردیا وہ آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی تھی پچھلی رات کی نمی سے ٹھنڈ بن جاتی تھی جس سے سب اندر چکے جاتے کچھ دیر آنکھ لگی تو سدرہ نے علشبہ کو اٹھایا کہ اندر چلیں اب اٹھ کر اندر چلے گئے دیمی اور صوبیہ دوسرے کمرے میں سوتے تھے علشبہ اور سدرہ الگ کمرے میں چل گئیں۔ اس کا ذہن اب کسی سوچ میں نہیں تھا وہ سب بھول چکی تھی اور سو گئی اگلے دن صبح صبح دونوں اٹھیں اور کام کاج میں مصروف ہو گئیں۔ ناشتہ وغیرہ کھا کر سدرہ اور علشبہ روز اپنی کے ساتھ ڈنگروں کےلیے پٹھے بناتی تھیں دیمی صبح صبح دوسرے کام وغیرہ کر لیتا تھا آج بھی دونوں پٹھے کاٹنے چلی گئیں جو گھر سے تھوڑی ہی دور تھا علشبہ فریش تھی کیونکہ وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ ایسی کوئی سوچ نہیں سوچے گی لیکن سدرہ رات والی بات پر تھوڑی پریشان تھی اس نے ابو کو تاڑتے دیکھا تھا لیکن اس کا ذہن بھی مان نہیں رہا تھا کیونکہ ہو سکتا ہے ابو کی ایسے ہی نظر پڑ گئی ہو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جتنی بھی فرینک تھیں لیکن گھر تک تھیں دونوں نے کبھی گھر سے باہر کبھی کسی سے تعلق بنانے کا نہیں سوچا دونوں ایک دوسرے کو ہر حد تک نچوڑتی تھی لیکن کبھی اپنے ماں باپ کی عزت جو داغدار کرنے کا نہیں سوچا شاید انہیں اس لیے بھی ایسا تھا کہ ان کے ماں باپ نے انہیں کوئی کمی نہیں ہونے دی ان کی ہر خواہش پوری کی شادیوں میں لیٹ بھی اسی وجہ سے تھی کہ ماں باپ چاہتے تھے کہ ایسے مرد بیاہ کے کے جائیں جو انہیں خوش رکھیں جو ابھی تک ماں باب کو ملے نہیں تھے سدرہ بھی کشمکش میں رہی آہستہ آہستہ شام تک اس نے بھی خود کو مطمئن کر لیا کہ ایسی کوئی بات نہیں تھی ابو کی ایسے نظر پڑ گئی ہو کھانا کھا کر دونوں نے برتن دھوئے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی ہو رہی تھی آج تھوڑا موسم ٹھنڈا تھا اس لیے صوبیہ نے کہا کہ آج اندر ہی سونا برتن وغیرہ دھو کر دونوں بہنیں اندر چلی گئیں علشبہ اندر جا کر جھک کر جگہ بنا رہی تھی سونے کے سدرہ علشبہ کو جھکا دیکھ کر مچل گئی اور آگے چلتی ہوئی علشبہ کی گانڈ کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر پیچھے کھڑی ہو کر کھینچ کر جھٹکا مارا جس سے جھسا لگنے سے علشبہ آگے جا گری سدرہ ہنسنے لگی علشبہ بولی نی کوئی بہوں حرامدی ہیں یہ سن کر سدرہ آگے ہوئی اور بولی باجی کاش آج ساڈے کول وی ہوئی کالے آلا ہتھیار ہوندا تیری پھدا مار مار کے کچومر کڈھ دیواں ہاس اور کھلکھلا کر ہنستی ہوئی آگے ہوئی اور علشبہ کی گانڈ پر پڑی علشبہ کی گت کو ہاتھ ڈال کر کھینچ لیا علشبہ گت کھینچنے سے کراہ کر مچلتی اور بولی دھر دھر گندی آااااہہہہ کمینییی گت پٹدی پئی ہیں سدرہ نے آج گینگ بینگ والی فلم دیکھ رکھی تھی جس وہ شہوت سے بھری ہوئی تھی باجی کو بھی ویسے ہی نچوڑنا چاتی تھی سدرہ ہنس کر مسکرا دی اور بولی باجی آج تیرا میں گینگ بینگ کرنا اے علشبہ اوپر اٹھتی ہوئی اس کے سامنے جھک کر بولی دھر دھر کنجری نا ہووے تے سدرہ ہنس کر اس کی گت کو کھینچتے ہوئے ہلکے ہلکے دھکے مارتی علشبہ کو چودنے کے انداز میں بولی باجی تینوں وی کدی انج ہی کوئی کرسی علشبہ ہنس کر بولی گندی ہا نا کر میری گت پئی پٹدی ہیں یہ سن کر سدرہ نیچے ہوئی اور نیچے ہوکر پیچھے سے علشبہ کو کا کر جپھی ڈال کر دبا کر سینے سے لگا کر اپنے ممے علشبہ کی کمر میں دبا کر مسلتی ہوئی علشبہ کے ہونٹ چوسنے لگی علشبہ بھی دبا کر سدرہ کے ہونٹوں کو چوستی ہوئی اس کے ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر دبا دیے سدرہ علشبہ کے مموں کو دبا کر مسلتی ہوئی سسک کر چوستی پیچھے سے چودنے کے انداز میں علشبہ کو جھٹکے مارنے لگی جس سے سدرہ جو پہلے ہی گرم تھی اس انداز سے مچل کر جھٹکے کھاتی فارغ ہو کر نڈھال ہو گئی اس پر علشبہ ہنس دی اور بولی واہ میری جان توں تے بڑی گرم ہیں سدرہ سسکتی ہوئی سر علشبہ کی کمر پر رکھ کر سسکتی ہوئی ہانپنے لگی علشبہ اوپر ہوئی اور سدرہ کو چارپائی پر لٹا کر خود پیچھے ہوئی اور باہر نکل کر واشروم چلی گئی واشروم سے نکل کر علشبہ دوسرے کمرے کے پاس سے گزری تو اسے سرگوشی سی سنائی دی علشبہ رک کر سننے لگی اندر اس کی ماں اس کے باپ سے کچھ کہ رہی تھی اس نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو دروازہ ہلکا سا کھلا تھا اس نے اندر دیکھا بلب ان تھا اس کا باپ ننگا تھا اور اس کی ماں صوبیہ کو پکڑے ہوئے تھا صوبیہ بول رہی تھی دیمی وے نا کر تیرا ہتھیار بڑا ڈھاڈھا اے دیمی بولا میری جان بس آتے آتے ہی کرساں گیا کجھ نہیں آکھدا صوبیہ مسکرا دی اور بولی وے لعنتیا توں ہر ویری اے ہی آکھدا ایں کہ آتے کرساں تے وت میرے کڑاکے کڈھ دیندا ایں دو دن ہلیا ہی نہیں جاندا دیمی بولا میری جان کی کراں تینوں پیار ہی بڑا کردا صوبیہ ہنس دی اور بولی تینوں آکھیا تے ہے باہر جو مرضی کر میرے اچ ہنڑ تینوں برداشت کرنے دی ہمت نہیں دیمی بولا ہلا میری جان آج آخری وار صوبیہ ہنس دی دیمی اسے پکڑ کر سائیڈ پر لٹانے لگا صوبیہ بھی لیٹتی ہوئی دیمی کے سامنے لیٹ گئی دیمی صرف شلوار میں تھا علشبہ اپنی ابو امی کی باتیں سن کر مچل رہی تھی پہلی بار لائیو سیکس اس کے سامنے ہونے جارہا تھا اپنی ماں باپ کو تیاری کرتے دیکھ کر وہ ہٹ گئی اچانک اس کے دل نے کہا کہ دیکھوں تو سہی امی ابو کو یہ سوچ کر اس نے اندر جھانکا تو اس کا باپ اپنا نالا کھول کر لن باہر نکال کر مسل رہا تھا جیسے ہی علشبہ کی نظر ابو کے لن پر پڑی علشبہ بے اختیار چونک کر منہ پر ہاتھ رکھ کر دل ہی دل میں حیرانی سے بولی اففف اممماااں اتنااااا وڈڈڈاااا۔ علشبہ اپنے باپ کا کہنی جتنا لمبا موٹا لن دیکھ کر مچل کر بوکھلا گئی وہ ہکا بکا اپنے باپ کا لن دیکھ رہی تھی اتنا بڑا تو آج تک فلموں میں حبشیوں کا بھی نہیں ہوتا علشبہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی اتنا بڑا لن دیکھ کر علشبہ کے منہ میں پانی بھر آیا علشبہ پھٹی آنکھوں سے اپنے باپ کا لن دیکھے جا رہی تھی جس سے علشبہ کا دل تیزی سے دھک دھک کرتا منہ کو آنے لگا امی کی قسمت پر علشبہ عش عش کر رہی تھی کہ کتنی خوش قسمت ہے جو ابو جیسا تگڑا مرد ملا ہے اسے اسی لمحے امی کی شلوار بھی اتر چکی تھی امی کہ پھدی کھل کر سامنے آگئی دیمی نے لن صوبیہ کی پھدی پر رکھا اور ہلکا سا دھکا مار کر ٹوپہ اندر کردیا جس سے صوبیہ کراہ گئی علشبہ امی کی پھدی میں لن اترتا دیکھ کر مچل کر بے اختیار سسک گئی اس کی پھدی بھی بے اختیار کھلتی بند ہوتی پانی چھوڑنے لگی ابو نے ٹانگیں کاندھوں پر رکھیں اور اوپر آکر دھکا مارا اور آدھا لن اندر کردیا علشبہ کی آنکھوں کے سامنے اس کے باپ کا لن یک لخت آدھا اس کی ماں کی پھدی میں اتر گیا جس سے صوبیہ کرلا کر تڑپ کر بولی ہالیوئے بسس بسس جس پر وہ رک گیا علشبہ تڑپ کر سسک گئی اور بے اختیار ہانپنے لگی علشبہ کا انگ انگ تھر تھر کانپنے لگا اس کی عجیب ہی کیفیت تھی اپنے باپ کا لن اپنی ماں کی پھدی میں اندر باہر ہونے لگا جس سے علشبہ سسک کر کراہنے لگی اس کی پھدی پانی چھوڑنے لگی علشبہ ابو کے لن کی موٹائی کو دیکھ کر تڑپ رہی تھی دیمی تیز تیز جھٹکے مارتا ہوا بے اختیار سسک کر ہانپ رہا تھا صوبیہ لن کے جھٹکوں سے تڑپ کر کرلانے لگی آج پہلے سے زیادہ طاقتور کھٹے دیمی مار رہا تھا جس سے لن صوبیہ کو اندر سے چیر رہا تھا جس سے صوبیہ تڑپ کر کرلانے لگی دیمی بھی آج اپنی بیٹی علشبہ کے جسم کو دیکھ کر بے قابو تھا جس سے اس کے اندر آگ جل رہی تھی اور وہ بے اختیار کس کس کر دھکے مارتا صوبیہ کی پھدی چیر رہ تھا علشبہ اپنے باپ کے زبردست جھٹکوں سے مچل کر کانپے لگی بے اختیار اس کا ہاتھ خلوت میں چلا گیا اور اپنی پھدی پر جا کر پھدی کو مسلنے لگا صوبیہ کی کراہیں نکل کر علشبہ کے کا نوں کو بجا رہی تھی جس سے بے اختیار علشبہ تڑپ رہی تھی اس کی آنکھوں کے سامنے ابو کا لن امی کی پھدی مسل کر چیر رہا تھا جسے دیکھ کر علشبہ بھی پھڑک رہی تھی اسکا ہاتھ تیزی سے۔ ل رہ تھا جس سے وہ مچل رہی تھی دیمی کے ذہن میں اسکی بیٹی کا جسم دوڑ رہا تھا جسے سوچ کر وہ بھی نڈھال تھا اس کے جھٹکوں سے صوبیہ نڈھا تھی اور امی اور ابو کی زبردست چدائی سے علشبہ نڈھال تھی دو سے تین منٹ میں ہی دیمی علشبہ کے سیکسی بدن کا سوچتا تڑپ کر نڈھال ہوگیا اور کراہ کر بے اختیاری جھٹکے مارتا کراہتا ہوا رک کر فارغ ہونے لگا علشبہ آنکھوں کے سامنے ابو کے لن نے جھٹکا مار کر منی کی پچکاری مار کر فارغ ہوتا دیکھ کر کراہ گئی اور وہ یہ منظر برداشت نا کر پائی اور جھٹکے مارتی فارغ ہوکر کراہ کر دوہری ہو گئی دیمی بے اختیار ہانپتا فارغ ہوتا صوبیہ کے اوپر گر گیا علشبہ بھی یہ دیکھ کر مچل کر کراہ گئی علشبہ اپنے باپ کا لن دیکھ کر آگ میں بھڑک اٹھی تھی اس کے ذہن میں عجیب انتشار پھیل گیا جو بھی تھا ابو کا لن دیکھ کر وہ رہ نا پائی تھی فار غہوکر وہ وہاں سے ہٹ کر کمرے میں جانے لگی کمرے میں جاتی ہوئی علشبہ کچھ سوچ رہی تھی ابو کا تگڑا لن دیکھ کر اس کا ذہن بدل چکا تھا وہ چلتی ہوئی اندر گئی سدرہ لیٹی تھی باجی کو دیکھ کر بولی باجی کی موڈ ہے علشبہ ابھی ابھی ابو کا لن دیکھ کر آئی تھی وہ کچھ نا بولی اور لیٹتے ہی بولی سدرہ آج موڈ نہیں سیں جا سدرہ بھی گرمی نکال چکی تھی اس لیے وہ بھی لیٹ گئی علشبہ لیٹ کر سوچنے لگی کہ جو بھی اب گزارہ نہیں ہوتا شادی سے وہ مایوس تھی کہانیوں میں وہ جو پڑھتی تھی وہی وہ سوچ رہی تھی کہ باہر منہ مارے گی تو بدنامی ہوگی کیوں نا ابو سے ہی تعلق بنا لوں یہ سوچ کر وہ تڑپ اٹھی اور مچلنے لگی اس کا ذہن اتنا بدل چکا تھا کہ اسے ندامت نہیں بلکہ وہ پرجوش تھی اس کی پھدی اب ہر حال میں لن مانگ رہی تھی چاہے باپ کا ہی کیوں نا ہو یہ سوچ کر علشبہ تڑپ رہی تھی وہ ابو کو اپنی طرف کھینچنے کے پلان بنا رہی تھی اس کو ڈر بھی تھا کہ ابو ناراض نا ہوں لیکن ابو کی نظر میں اپنے لیے شہوت دیکھ کر وہ پر امید تھی جس سے اس کا حوصلہ بڑھ رہا تھا آخر اس نے سوچ لیا کہ وہ کس طرح اپنے باپ کو اپنی طرف اٹریکٹ کرکے اس کے ساتھ تعلق بنا کر اپنی جوانی کو ٹھنڈا کرے گی یہ سوچ کر علشبہ کا دل دھک دھک کرتا پھڑکنے لگا اور ایک عجیب سی خوشی اور ایکسائٹمنٹ سے علشبہ کانپنے لگی علشبہ یہ سب سوچتی ہوئی نئی زندگی کی شروعات کا سوچتی سو گئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "باپ کی عاشق جوان بیٹیاں"