میرا نام زوبیہ ہے پیار سے سب زوبی کہتے ہیں میں پچیس سال کی اک خوبصورت لڑکی ہوں میرا فیگر 34 بوبز 30 کمر اور 36 ہپ ہے رنگ سفید دودھ جیسا جو سٹوری آپ کو سنانے جا رہی ہوں یہ آج سے 5 سال پہلے کی سٹوری ہے جب میں بیس سال کی تھی میں اک ہسپتال میں نرس تھی بہت سے لوگ میرےلٸے تڑپتے تھے مگر میں کسی پر توجہ نہیں دیتی تھی کیونکہ میں اک بہت شریف لڑکی تھی جو کسی بھی نظر سے مجھے دیکھے مجھے فرق نہیں پڑتا ۔
مگر اک دن میں جیسے ہی میں ہسپتال پہنچی میرے جانے سے پہلے وہاں اک لڑکا بیٹھا تھا جس کے ہاتھ پہ چوٹ لگی تھی خون نکل رہا تھا مجھے ڈاکٹر صاحب نے کہا زوبی ڈریس چینج بعد میں کر لینا جلدی سے اس کے ہاتھ پے پٹی کر دو ۔
میں جیسے ہی اس لڑکے کے پاس پٹی کرنے کے لٸے پہنچی تو وہ لڑکا بہت غور سے میری طرف دیکھنے لگا میں نے اس کو متوجہ کرتے ہوے کہا سر پہلے پٹی کروا لیں اس نے میرے آگے ہاتھ کیا تو اس کے ہاتھ سی کافی خون نکل رہا تھا جیسے ہی میں نے اس کاہاتھ پکڑا وہ کہنے لگا پلیز پٹی رہنے دیں درد غاٸب ہو گیا آپ کا ہاتھ لگنے سے ہی ۔مجھےاُس کی اس بات پر بہت غصہ آیا میں نے جان بوجھ کر زخم کو بہت سختی سے صاف کیا مگراُس کے چہرے پہ وہی مسکراہٹ رہی میں پٹی کر کے ڈاکٹر صاحب کو پیسوں کا بول کر یونیفارم چینج کرنے کے لٸے چلی گٸ ۔۔۔
پھر سارا دن وہی روٹین سےکام میں لگی رہی چھٹی کے وقت جب میں ہسپتال سے گھر کے لٸے نکلی تو وہ لرکا کار کے اندربیٹھا مجھےدیکھ رہا تھا میں چپ چاپ گزر گٸ گھر جاتےوقت مجھے پھر بہت غصہ آیہ میں گھر پہنچی تو گھر کے کام میں لگ کر وہ خیال زہن سے نکل گیا اگلے دن مجھے ہسپتال پہنچے ابھی 5 منٹ ہی ہوے ہوں گے کہ وہ لڑکا پھر ہسپتال آ گیا پٹی کروانے کے لیے مجھے تب ہی یقین ہو گیا کہ یہ جہاں صرف میرے لیے آیا ہے مگر میں کچھ کر نیں سکتی تھی ڈاکٹر کے کہنے پر میں نا چاہتے ہوے بھی پٹی کرنے لگی پٹی کہ بعد میں نے کہا پلیز سر اب تین دن بعد آنا یہ بات سنتے ہی اس لڑکے نے کہا کہ کیوں ۔
میں نےغصے میں جواب دیا کہ سر اس زخم پر پٹی تین دن بعد ہی ہو گی وہ لڑکا چپ چاپ چلا گیا ۔۔
مگر جب میں اگلے دن ہسپتال پہنچی تو اُس لڑکے کو پھر ہسپتال میں موجود پایا میں نے غصے سے کہا ک سر آپ کو تین دن بعد آنے کا ابھی اتنی بات میری زبان پر تھی کہ اُس لڑکے نے اپنا دوسرا بازو میرے آگے کر دیا میں چپ ہو گٸ اُس کے بازو پر کافی زیادہ چوٹ تھی میں چپ کر کے زخم سے خون صاف کرنے لگی میں نے نہ چاہتے ہوے بھی اُس سے پوچھ لیا سر آپ کو یہ چوٹ کیسے لگی وہ میری طرف دیکھتے ہوے بولا آپ کی نظروں سے ۔میں خاموش ہو گٸ وہ لڑکا مجھے متوجہ کرتے ہوے بولا کہ آپ کو دیکھنے کا بہانہ ہے یہ چوٹ۔میں نے کہا سر آپ نے تین دن بعد آنا تھا تو دیکھ لیتے مگر ایسی حرکت نہیں کرتے کہ جس کا الزام مجھ پر ہے وہ کہنے لگا اک دن پتہ نٸیں کیسے گزرا تین دن میں اگر آپ کو نہ دیکھتا تو مر جاتا۔میں نے چپ کر کے پٹی کر دی ۔
اور
مزاق کے موڈ میں کہنے لگی کل تو کوٸ چوٹ نہیں لگے گی آپکو مجھے بتا دو میں کل چھٹی کر لوں گی ۔۔۔۔وہ میری بات کاٹتے ہوے بولا پلیز آپ نا آنے کا ظلم نہیں کرنا۔۔۔اب چوٹ تو روز لگے گی کیوں کے جب تک میری سانس چلے گی آپ سے بات کرنے کا یہ بہانہ تو ہے چوٹ میں نے کہا پلیز سر آپ پاگل مت بنو خود کو تکلیف دینا گناہ ہے وہ اچانک بولا اگر آپ کو کو اتنا احساس ہے تو پلیز اپنا نمبر دے دو روز صرف موباٸل پہ آپ کی آواز سن لوں گا ورنہ میں روز یہاں آپ سے بات کرنے کے لٸیے آٶں گا خود کو زخم دے کر میں نا جانےکیوں نہ چاہتے ہوے بھی اُس کو اس شرط پر اپنا موباٸل نمبر دے دیا کہ آپ صرف روز سلام لے کر فون بند کر دو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن کوٸی دس بجے کے قریب مجھے اک نمبر سے کال آٸی میں نے فون رسیو کیا تو آواز آٸی اَلسَلامُ عَلَيْكُم
میں نے جواب میں وَعَلَيْكُم السَّلَام کہا اور پوچھا کون وہ بولا عبدالرحمان جس نے پٹی کروانے آنا تھا تو آپ نے روک دیا میں نے فون بند کر دیا اور اک میسج کر دیا کے آواز سن لی آپ نے اب چوٹ نٸیں لگانی ۔پھر وہ روز فون کرتا سلام لے کر فون بند کر دیتا کچھ دنو کے بعد اک رات اُس کا کوٸی دو بجے کے قریب میسج آیا کے آپ جاگ رہی ہے یا سو گٸی مگر میں سوٸی ہوٸی تھی
اگلے دن جب اس کی کال آٸی تو اس نے سلام لیا میں نے جواب دے کر کہا ک آپ شرط بھول رہے ہیں ہماری شرط میں صرف آواز سننا تھا میسج کرنا نہیں تھا وہ بولا سوری رات کو دل نہیں لگ رہا تھا تو میسج کر دیا آپ کو….
میں نے کہا رات کو ایسی کیا بات تھی وہ بولا بس آپ کا چہرا آنکھو ں کے سامنے تھا وہ اس طرح باتیں کرنے لگ گیا ۔
کوٸ دس منٹ بات کے بعد میں نے فون بند کر دیا
مگر مجھے اب بار بار اس کا خیال آ رہا تھا پھر چھٹی کے بعد گھر گٸی گھر کے کام کاج کے بعد رات کو لیٹ کر میں نے اس کو میسج کیا حال چال پوچھا وہ بہت خوش ہوا کے میں نے اس سے خود بات کی اب ہر رات اس سے بات کر کے سونا میری عادت بن گٸی اک رات بات کرتے کرتے اس نے کہا زوبی اک بات پوچھوں برا نا ماننا میں نے کہا پوچھو وہ کہنے لگا اپنا بوبز ساٸز بتاٶ میں نے کہا نہیں رحمان ہم صرف اچھے دوست ہیں ایسی باتیں ہم نہیں کریں گے مگر وہ منتیں کرنے لگا میں نے بتا دیا اب ہر رات وہ کوٸ نا کوٸ ایسی سیکسی بات کرتا میں کچھ نہ کہتی مگر اک رات اس نے کہا زوبی اک کِس دو مجھے میں نے غصے میں فون بند کر دیا وہ کال کرتا رہا مگر میں نے اٹینڈ نہیں کیا سو گٸ جب آنکھ کھلی تو اس کے بہت میسج تھے سوری کے میں نے پھر ریپلاٸی کیا مگر وہ سو گیا تھا ۔اگلے دن جب میں جاب پہ گٸ تو رحمان وہاں اپنے بازو پے پٹی کروانے آیا میں نے جب دیکھا تو اس نے جان بوجھ کر اپنے بازو پر بلیڈ سے زخم بنایے تھے مجھے غصہ بھی بہت آیا دیکھ کر میں نے پٹی کرتے وقت پوچھا یہ کیا ہوا تو وہ بولا زوبی رات کو تم نے معاف نہیں کیا تھا تو میں نے خود کو سزا دی ہے یہ۔مجھے بہت دکھ ہوا میری آنکھوں میں نہ جانے کیوں آنسوں آ گٸے میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اوپر کس کر دی وہ پٹی کروا کے چلا گیا میں نے اس کو میسج کیا پلیز رحمان اب ایسا مت کرنا کبھی مجھے بہت دکھ ہوتا ہے تم بیشک روز رات کو فون پر سو کس کر لو مجھے اس نے ریپلاٸی کیا سچ میں تم کہہ رہی ہو میں نے آنسوں سے بھری آنکھوں سے جواب دیا ہاں رحمان ۔
اس نے ریپلاٸی کیا
آٸی لو یو زوبی
میں نے کہا آٸی لو یو ٹو رحمان ۔
وہ بہت خوش ہوا پھر میں کام میں لگ گٸی پھر ہر روز رات کو وہ مجھے کس کرتا مجھے عجیب سا لگتا مگر اچھا بھی لگتا اک دن کس کرتے کرتے اس نے کہا موباٸل اپنے بوبز پہ رکھو میں نے رکھ دیا وہ جہاں جہاں کہتا گیا میں رکھتی گٸی مدہوش سی ہوتی گٸی جب اس نے کہا اپنی چوت پہ رکھو میں کانپ گٸی میں انکار کرنے لگی اس نے کہا پلیز رکھو میں نے رکھا تو اس نے چوت پہ کس کی مجھے اجیب سی فیلنگ ہوٸی ایسے کرتے کرتے میری چوت گیلی سی ہو گٸی مجھے سکون سا ہوا پھر ہم سو گٸے ۔پھر ہر رات ایسے کرنا ہم دونوں کی عادت بن گٸی ۔اک دن جب میں ہسپتال سے نکلی تو رحمان کار پہ کھرا تھا مجھے میسج کیا کے آج آٹو پہ مت جانا مجھے تم سے کام ہے اک چپ کر کے تھورا آگے آٶ اور کار میں بیٹھ جاٶ۔
میں جا کر کار میں بیٹھی تو نظریں نیچی کر لی میں نے رحمان بولا زوبی ناراض ہو کیا میں نے کہا نیں ڈر لگ رہا ہے کے کوٸی دیکھ نہ لے اس نے ڈراٸونگ شروع کی تو مجے اک چھوٹا سا بیگ پکراٸہ میں نے پوچھا یہ کیا تو کہتا تمہارے لٸے گفٹ لایہ ہوں گھر جا کر دیکھ لینا اس نے مجھے ہمارے گھر کی گلی کی نکر پہ اتار دیا میں گھر پہنچی تو چھوٹی بہن سے پتہ چلا کے امی خالہ کے گھر گٸی ہے میں نے پانی پیا پھر کمرے میں آکر شاپر بیگ کھولا تو اس میں اک سفید رنگ کی برا اور پینٹی تھی جو بہت سیکسی تھی اک بلیک کلر کا سوٹ تھا مجھے حیرانگی بھی ہوٸی اور خوشی بھی میں نے رحمان کو میسج کیا کے یہ سب کیوں تو اس نے ریپلاٸی کیا اچھا نہیں کیا میں نے کہا بہت اچھا ہے بس شرم سی آ رہی ہے ۔
میں نے تھینکس بول دیا پھر کام کاج میں لگ گٸی رات کو ہم بات کرتے رہے وہ مجھے کس کرتا ایسے ہی کچھ دن گزرے تو اک دن جیسے ہی میں ہسپتال کے لٸے نکلی تو اچانک ڈاکٹر صاحب کا فون آیا کے آج ڈیوٹی پر نا آنا آج ایمرجینسی کی وجہ سے اک چھٹی ہے ۔میں گھر واپس آگٸی امی ساتھ والوں کے گھر گٸی تھی میں نے رحمان کو فون کیا کے آج ہماری دن کو بات نہیں ہو سکتی کیوں کے آج ہسپتال سے چھٹی ہے سر نے ابھی بتایا ۔تب رحمان بولا کے زوبی تمہں دیکھے بن دن نہیں گزرتا پلیز آ جاٶ میں نے کہا پلیز میری جان آج کا دن گزار لو کل دیکھ لینا میں نے بھی تو دن نکالنا ہے تمہں دیکھے بنا ۔تب رحمان بولا کیوں نہ آج ہم دن اکٹھا گزار لیں
میں نے کہا کیسے مطلب رحمان نے کہا تم گھر سے ہسپتال کے لٸے آٶ ہم تیری ڈیوٹی ٹاٸم تک اکٹھے رہے گے میں نے انکار کر دیا مگر وہ بار بار کہتا رہا میں مان گٸی میں نے کہا ٹھیک میں آتی ہوں تب امی بھی گھر آگٸی امی نے کہا زوبیہ تم گٸ نہں میں نے کہا امی ابھی نکلی ہی تھی کہ سر کا فون آگیا کہ آج ان کی بیوی نے اک چھوٹا سا فنکشن رکھا ہے آج ہسپتال بند رہے گا میڈم نے مجھے بھی بلایا ہے مگر میں سوچ رہی ہوں کہ میں نہ جاٶں امی فوری بولی نہیں زوبی بیٹی میڈم نے اتنی چاہت سے بلایا ہے تم لازمی جاٶ ۔
میں نے اک سوٹ نکالا شلوار بلیک اور قمیض سرخ تھی جو مجھے بہت فٹ تھا میں نے کپڑے چینج کیے اور گھر سے نکل آٸی آٹو پہ بیٹھی مگر آج ہسپتال سے پیچھے ہی اتر گٸی
تب تک رحمان گاڑی پہ وہاں کھرا تھا جس نے سفید رنگ کے کپڑے پہنے تھے وہ بہت پیارا لگ رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گٸی اس نے میرے ساتھ ہاتھ سے سلام لیا اور بولا زوبی آج تو تم اک پری لگ رہی ہو دل کر رہا تمیں اپنے سینے سے لگا لوں میں نے کہا جہا سے چلو کوٸی دیکھ نہ لے پھر ہم وہاں سے نکلے گاڑی چلاتے چلاتے رحمان نے میرا ہاتھ پکر کر اوپر کس کر دی ۔ہم تھوڑی دیر گھومتے رہے پھر رحمان بولا زوبی میرا دل کر رہا تم میرے سینے سے لگی رہو بس ۔میں نے مسکراتے ہوے جواب دیا گاڑی میں ساتھ بیٹھی ہوں یہ کافی نہیں کیا ۔رحمان بولا اچھا تو اگر میں کہوں نیں کافی تو پھر سینے سے لگ جاٶ گی میں چپ ہو گٸی رحمان بولا پلیز لگ جاٶ نہ میری جان میں نے کہا رحمان گاڑی میں کیسے سینے سے لگ سکتی ہوں آپ کے۔اتنے لوگ بھی ہیں آس پاس تب رحمان نے فون نکالا اور کسی کو فون کیا اور بولا کہ شاہد تیری بھابھی میرے ساتھ ہے ہم نے گھر بیٹھنا ہے پھر فون بند کیا اور میں نے پوچھا یہ کون ہے تو کہتا میرا بچپن کا دوست ہے کوٸی دس منٹ تک ہم اک گھر پہنچے جو بہت ہی پیارا بنا ہوا تھا ۔رحمان نے گاڑی گیٹ کے اندر کی تو اک لڑکا آیا جو کوٸی پچیس سال کا تھا ۔رحمان اس سے گلے ملا اس نے مجھے کہا سلام بھابھی میں نے چپ سی ہو کر جواب دیا رحمان نے مجھے کہا زوبی اتر آٶ یہ میرا دوست بھی ہے بھاٸی بھی ۔ہم چلتے اندر روم میں چلے گٸے وہ لڑکا کولڈ ڈرنک لے کر آ گیا ہم نے کولڈ ڈرنک ختم کی تو وہ برتن لے کر چلا گیا اس کے جاتے ہی رحمان نے دروازہ لاک کر دیا اور مجھے کھڑا کر کے اپنے سینے سے لگا لیا اور آنکھوں پہ کس کر دی میں نے کہا بس اب خوش نہ اب لگا لیا سینے سے بھی اب چلیں رحمان بولا ابھی سارا دن ہے ہمارے پاس ہم سکون سے یہاں بیٹھتے ہیں رحمان ایسے ہی بیڈ پر لیٹ گیا ساتھ مجھے لٹا کر پھر سینے سے لگا کر میرے ہونٹوں پہ کس کرنے لگا مجھے عجیب سا ہونے لگا میں نے روکنا چاہا مگر وہ نا رکا مجھے چومتا رہا مجھے بھی اچھا لگنے لگا میں بھی اس کے ہونٹ چوسنے لگی ہم کوٸی دس منٹ کس کرتے رہے پھر رحمان نے میری قمیض اوپر کی میں نے بھی بازواوپر کر دیے رحمان نے قمیض اتار کر میرے بوبز برا کے اوپر سے دبانے شروع کر دیے مجھے بھت اچھا لگ رہا تھا وہ کبھی میرے گلے میں چومتا کبھی آنکھوں کو کبھی کانوں پر زبان پھیرتا میں مدہوش ہونے لگ گٸی اچانک اس نے میری شلوار بھی اتار دی میں اب صرف برا اور پینٹی میں تھی وہ مھجھے چومتا رہا میں بھی بہت گرم ہو رہی تھی میں نے رحمان کی قمیض اتار دی بنیان بھی اتار دی رحمان نے میری برا اتار دی میرے 34 ساٸز کے دودھ دبانے لگا ان پر کس کرتا نپل چوسنے لگ پڑا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا پھر وہ میرے پیٹ پر کس کرتا کرتا میرے چوت کو پینٹی کے اوپر سے مسلنے لگا میرے جسم میں جیسے کرنٹ دوڑنے لگا اس نے میری پینٹی بھی اتار دی اب میں بلکل ننگی تھی اس کے سامنے میری چوت پر ہلکے ہلکے بال تھے اس نے جیسے ہی اپنے ہونٹ میری چوت پر رکھے مجھے جھٹکا لگا میں اس کا سر چوت پہ دبانے لگی میرے منہ سے سسکیاں نکلنے لگی وہ جیسے زبان پھیرتا میری سسکاریاں تیز ہوتی میں مدہوش سی ہو گٸ اچانک اس نے مجھے چاٹتے چاٹتے اپنی شلوار اتار دی جیسے ہی میرٕی نظر اس کے لن پر پڑی میں ڈر گٸی آج پہلی بار میں نے لن دیکھا تھا اس نے میرا ہاتھ پکر کر لن پہ رکھ دیا وہ کوٸی سات انچ لمبا اور کافی موٹا تھا میں لن کو مسل رہی تھی اس نے مجھی کہا زوبی اس پہ کس کرو میں نے انکار کیا تو اس نے مجھے 69 پوزیشن میں کر کہ میری چوت چاٹنے لگا میں نے لن پر کس کی مجھے عجیب سا لگا مگر وہ جیسے چوت چاٹ رہا تھا میں پاگل ہو رہی تھی پھر وہ اٹھا میری ٹانگوں کے درمیان آ گیا لن کو چوت پہ رگھڑنے لگا میری سسکیاں نکلنے لگی اس نے کہا زوبی اندر ڈال دوں میں خاموش رہی اس نے میری ٹانگوں کو اوپر کر کے لن چوت پہ رکھا ہلکا سا زور دیا تو آدھی ٹوپی ہی اندر گٸی کہ میں مچل گٸی مجھے بہت درد ہوا میں نے کہا رحمان اندر نہیں جایے گا میں مر جاٶں گی پلیز اوپر اوپر ہی رکھو ۔اس نے اوپر رگھرنا شروع کر دیا میرا دل چاہنے لگا کہ اندر کرے اب اس نے پھر میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر لن کو چوت پے رکھ کر دبایا ٹوپی انر گٸی تو میری جان نکلنے لگی درد سے میں ہاتھ پیر مارنے لگی میری آنکھو ں میں آنسوں آ گٸے میں رونے لگ گٸی رحمان ویسے ہی رک گیا میرے دودھ چوسنے لگا نپل پے کاٹنے لگا ایسے کرتے کرتے اس نے اک جھٹکا مارا آدھا لن چوت میں چلا گیا میری چیخ نکل گٸی میں رونے لگی پلیز میں مر جاٶں گی نکال لو اس کو رحمان رک گیا پھر مجھے چومنے لگا کٸی دو منٹ بعد ہی اس نے پھر زور کا جھٹکا مارا مجھے ایسے لگا جیسے کسی چیز سے مجھے نیچے سے چیڑ دیا گیا ہو میری آنکھوں میں بہت آنسوں تھے رحمان رک گیا مجھے چومنے لگا پھر ایسے ہی کوٸی پانچ منٹ بعد میرا درد کم ہوا رحمان آہستہ آہستہ آگے پیچھے کرنے لگا مجھے درد کم ہو کر مزہ آنے لگا رحمان نے جھٹکے تھوڑے تیز کیے میں اب گانڈ اٹھا اٹھا کر مزہ لینے لگی میری سسکیاں سے کمرہ گونج رہا تھا رحمان مجھے تیز تیز چودنے لگا کوٸی پندرہ منٹ چودنے کے بعد اس نے بہت جوش سے جھٹکے مارے اور کچھ گرم گرم میری چوت میں جانے لگا اتنے ٹاٸم میں میں دو بار فارغ ہوٸی پھر رحمان فارغ ہو کر میرے اوپر لیٹ گیا اور مجھے چومنے لگا میں بھی اس کو چومنے لگی مگر جب وہ اوپر سے اٹھا تو دیکھا کہ میری ٹانگوں پہ خون لگا ہے بیڈ شیٹ کو بھی کافی خون لگا ہے ہم دونوں اٹھے اور واش روم میں اکٹھے نہانے لگے اور چومنے لگے مگر میری چوت پہ درد بھی بھت تھا مجھ سے ٹھیک چلا نا جاٸے پھر ہم نے کپڑے پہنے اور خون والی بیڈ شیٹ رحمان نے پکڑ کر گاڑی میں رکھ دی اور وہا ں سے نکل پڑے اور بیڈ شیٹ جلاہ دی پھر ہم نے گاڑی میں کس کی اور اس نے مجھے گھر تک چھوڑ دیا اور میں گھر آکر سو گٸی جب آنکھ کھلی تو سات بجھ رہے تھے موباٸل دیکھا تی رحمان کی بہت کال تھی میں نے اس کو آٸ لو یو کا میسج کیا اور رات کو بات کریں گے کہہ کر کھانا پکانے لگ گٸی ۔۔۔اس کے بعد اب تک ہم نے بہت بار سیکس کیا ہے ۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "زوبیہ نرس"