کہانی شروع کرنے سے پہلے اپنا تعارف کروا دوں۔۔ میرا نام شیراز ہے, عمر ہے 28 سال۔۔
جسمانی طور پر مضبوط اور مناسب وزن کے ساتھ دراز قد بھی ہوں اور رنگت صاف ہے۔۔ سیکس کا تعارف میرے ساتھ بھی اسی طرح ہوا جیسےعموماً ہم سب کا ھوتا ہے… جی ہاں کسی دوست کی وجہ سے.. اب عمر کے اس حصے میں بس سوچ سوراخ
سے شروع ہوتی ہے اور سوراخ پر ہی ختم ہوتی ہے کہ بس کوئی نرم گرم سا سوراخ ھو اور میرا ہتھیار ہو۔۔۔ خیر بات ہو رہی تھی دوست کی۔۔ تو اس وقت میں کوئی آٹھویں کلاس میں ہوں گا۔۔ جب میں نے محسوس کیا کہ میرے کچھ دوست بریک کے وقت اپنا الگ گروپ بنا کر کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔ اور راز و نیاز کی باتیں چل رہی ہوتی ہیں۔۔۔ اور جب میں پاس جاتا ہوں تو سب خاموش ہو جاتے ہیں۔۔۔ پہلے تو میں اپنا وہم سمجھا۔۔۔ لیکن کچھ ہی دنوں میں یہ وہم یقین میں بدل گیا۔۔۔ شاید میں اس بات کو اتنی اہمیت نہ دیتا
اگر اس گروپ میں میرا بہت قریبی دوست سلیم بھی شامل نہ ہوتا ۔۔۔۔ سلیم میرا ہمسایہ بھی تھا اور
اگر اس گروپ میں میرا بہت قریبی دوست سلیم بھی شامل نہ ہوتا ۔۔۔۔ سلیم میرا ہمسایہ بھی تھا اور
کلاس فیلو بھی تھا۔۔ ہم سکول بھی اکٹھے آتے جاتے تھے۔۔۔ اور سکول کے بعد بھی زیادہ تر ایک دوسرے کے گھر پائے جاتے تھے۔۔۔ کہنے کو وہ مجھ سے بس ایک سال بڑا تھا ۔۔۔۔
لیکن میرے پر رعب ایسے ڈالتا تھا جیسے11 سال کا فرق ھو۔۔۔ مجھے اس بہن چود پر
زیادہ غصہ تھا ۔۔۔۔۔ کہ سارا دن مجھے بہن پیش کرتا ہے ۔۔۔ اور سکول جا کر دوسروں کی گانڈ میں گھس جاتا ہے۔۔ اور جب میں سب پر غصہ کرتا ہوں۔۔۔ کہ مجھ سے چھپ کر باتیں کیوں کرتے ہو۔۔۔ تو سب کو منع بھی یہی بہن چود کرتا ہے۔۔کہ شیراز ابھی چھوٹا ہے اسکو کچھ نہیں بتانا۔۔۔ جب یہ سب میری برداشت سے باہر ہو گیا۔۔۔ تو ایک دن سکول سے واپسی پر میں سلیم سے لڑ پڑا۔۔۔ کہ یہ کیا بہن چودی لگائی ہوئی ہے ۔۔۔ یا تو آج مجھے بات بتا ۔۔۔۔ یا آج سے تیری میری دوستی ختم ۔۔۔ اس نے مجھے پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ تھوڑے اور بڑے ہو جاؤ پھر بتا دوں گا۔۔۔ میں نے کہا جا دفع ہو اور آج کے بعد اپنی شکل نہ دیکھانا۔۔۔ سلیم نے جب دیکھا میں زیادہ تپ گیا ہوں۔۔ تو بولا۔۔۔ اچھا یار غصہ نہ کر شام کو گھر پر بات کریں گے۔۔۔ میں نے کہا وعدہ وہ بولا پکا وعدہ ۔۔
اور ہم گھر کی طرف چل پڑے ۔۔۔ شام کو میں وقت سے پہلے اس کے گھر پہنچ گیا ۔۔۔ وہ
لاؤنج میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رھا تھا ۔۔۔ اور اس کی امی لاؤنج کے ساتھ کچن میں تھیں۔۔۔
میں نے آنٹی کو سلام کیا اور سلیم کے پاس جاتے ہی کہا۔۔۔ چل شروع ہوجا اور بتا کیا چکر ہے؟ اس نے مجھے گھورا ۔۔۔ اور بولا۔۔۔ چل چھت پر چلتے ہیں ۔۔۔ تو کیا ادھر امی کے سامنے ہی شروع ہو گیا ہے۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ اچھا یار سوری ۔۔ چل چھت پر چلتے ہیں۔۔ اور ہم اوپر آ گئے۔۔۔ سلیم بولا ۔۔۔ اسی لیے میں تجھے نہیں بتانا چاہ رہا تھا۔۔۔ کہ تجھ میں عقل تو ہے نہیں کہ کونسی بات کدھر کرنی ہے۔۔۔ میں نے کہا ۔۔۔ اچھا یار
سوری ۔۔۔ اب بتا بھی دے ایسی کونسی بات ہے جو کسی کے بھی سامنےنہیں ہو سکتی۔۔۔ ؟؟ سلیم بولا ۔۔۔ پہلے وعدہ کر کسی سے بھی یہ باتیں نہیں کرے گا۔۔۔
میں نے کہا پکا وعدہ ۔۔۔ سلیم سرگوشی میں بولا۔۔۔ تجھے پتہ ہے کہ بچہ کیسے ہوتا ہے؟
میں بولا نہیں مجھے نہیں پتا۔۔۔ وہ اپنی للے کی جگہ پر ہاتھ رکھ کربہت سنجیدہ شکل بناکر بولا۔۔ یہ جدھر ہماری نونو ہوتی ہے ۔۔۔ اس جگہ پر لڑکیوں کا سوراخ ہوتا ہے ۔۔۔
اور شادی کے بعد جب لڑکا اپنی نونو لڑکی کے سوراخ میں ڈالتا ہے تو بچہ ہوتا ہے۔۔۔
میں بولا۔۔۔ چل جھوٹا۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہمارے امی ابو اتنا گندہ کام کیسے کرسکتے ہیں؟ سلیم بولا۔۔ الو ایسا ہی ہوتا ہے۔۔ اور ایسا سب کرتے ہیں۔۔۔ میں نے کہا تم کوکس نے بتایا؟
ظفر نے۔۔۔ سلیم نے بڑی کلاس کے ایک لڑکے کا نام لیا۔۔۔ جس سے سلیم کی دوستی تھی ۔۔۔ پھر سلیم بولا۔۔۔ اصل بات تو سن لے۔۔۔ میں نے کہا وہ کیا؟
سلیم بولا۔۔۔
ظفر نے۔۔۔ سلیم نے بڑی کلاس کے ایک لڑکے کا نام لیا۔۔۔ جس سے سلیم کی دوستی تھی ۔۔۔ پھر سلیم بولا۔۔۔ اصل بات تو سن لے۔۔۔ میں نے کہا وہ کیا؟
سلیم بولا۔۔۔
ظفر کہتا ہے کہ لڑکی کے سوراخ میں ڈالنے کے لیے نونو کو بڑا اور پکا کرنا پڑتاہے۔۔۔ اسکے لیے روزانہ نونو کی تیل سے مالش کرنی ہوتی ہے ۔۔۔ تم اب بڑے ہو رہےہو۔۔۔ ابھی سے مالش نہ شروع کی تو تمہاری نونو کچی رہ جائے گی۔۔۔ اور بچہ نہیں ہوگا۔۔۔
میں نے سلیم سے حیران ہو کر پوچھا ۔۔۔۔ تو تم نے مالش شروع کر دی ہے؟
وہ بولا
میں نے سلیم سے حیران ہو کر پوچھا ۔۔۔۔ تو تم نے مالش شروع کر دی ہے؟
وہ بولا
ہاں تو اور کیا ۔۔۔۔ میرا تو اب پکا بھی ہونا شروع ہو گیا ہے۔۔۔
میں ناراضگی سے بولا۔۔۔
میں ناراضگی سے بولا۔۔۔
اور مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔
سلیم بولا۔۔۔ اب بتا تو رہا ہوں ۔۔۔۔ تم بھی شروع کر دو۔۔۔
میں بولا۔۔۔۔
مجھے تو مالش کرنی بھی نہیں آتی ۔۔۔
سلیم بولا ۔۔۔ ٹہرو میں کر کے دیکھاتا ہوں۔۔۔ تم ادھر رکو میں تیل لےکرآیا۔۔۔ اور بھاگتا ہوا نیچے چلا گیا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیااور پینٹ کی جیب سے تیل کی بوتل نکالی ۔۔۔ سلیم کا گھر ڈبل سٹوری تھا ۔۔۔ اورارد گرد والے قریبی گھر سنگل سٹوری ۔۔۔ اس لیے سلیم کی چھت پر کسی کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی ۔۔۔
بوتل نکال کر ۔۔۔ سلیم نے اپنی پینٹ اتاری ۔۔۔ اسے ننگا دیکھ کر مجھےبڑی شرم آئی ۔۔۔ لیکن مالش سیکھنا بھی ضروری تھا ۔۔۔ تو میں اسکو دیکھنے لگ گیا۔۔۔
سلیم بولا۔۔۔ اب بتا تو رہا ہوں ۔۔۔۔ تم بھی شروع کر دو۔۔۔
میں بولا۔۔۔۔
مجھے تو مالش کرنی بھی نہیں آتی ۔۔۔
سلیم بولا ۔۔۔ ٹہرو میں کر کے دیکھاتا ہوں۔۔۔ تم ادھر رکو میں تیل لےکرآیا۔۔۔ اور بھاگتا ہوا نیچے چلا گیا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیااور پینٹ کی جیب سے تیل کی بوتل نکالی ۔۔۔ سلیم کا گھر ڈبل سٹوری تھا ۔۔۔ اورارد گرد والے قریبی گھر سنگل سٹوری ۔۔۔ اس لیے سلیم کی چھت پر کسی کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی ۔۔۔
بوتل نکال کر ۔۔۔ سلیم نے اپنی پینٹ اتاری ۔۔۔ اسے ننگا دیکھ کر مجھےبڑی شرم آئی ۔۔۔ لیکن مالش سیکھنا بھی ضروری تھا ۔۔۔ تو میں اسکو دیکھنے لگ گیا۔۔۔
سلیم کی نونو لٹک رہی تھی ۔۔۔ اس نے نونو پر تیل ڈاال ۔۔۔ اور مسلنا شروع کیا۔۔ اسکی نونو کھڑی ہو گئی ۔۔۔
سلیم نے فخر سے میری طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔ جب ایسے کھٹراہو جائے ۔۔۔ توہاتھ پر تیل لگا کر۔۔۔ اس کا سوراخ بنا کر۔۔۔ اس میں نونو ایسے آگےپیچھے کرتے ہیں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اپنا ہاتھ اپنی نونو پر چلانے لگا ۔۔۔
اس کو ایسا کرتے
سلیم نے فخر سے میری طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔ جب ایسے کھٹراہو جائے ۔۔۔ توہاتھ پر تیل لگا کر۔۔۔ اس کا سوراخ بنا کر۔۔۔ اس میں نونو ایسے آگےپیچھے کرتے ہیں ۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اپنا ہاتھ اپنی نونو پر چلانے لگا ۔۔۔
اس کو ایسا کرتے
دیکھ کر ۔۔۔۔ میرا دل بھی مچلنا شروع ہو گیا ۔۔۔ اور میری نونو اکڑنے لگ گئی ۔۔۔ یہ
محسوس کرکے میں سلیم کو بڑے جوش سے بولا۔۔۔ اوئے ۔۔۔ میرا بھی کھڑا ہو گیا ہے۔۔۔
سلیم بولا ۔۔۔ جلدی سے تیل ڈال اور مالش شروع کر دے ۔۔۔
میں نے بھی اپنی پینٹ اتاردی۔۔۔ اور اپنی نونو دیکھی جو سخت ہورہی تھی ۔۔۔ میں نے سلیم کی طرح اس پرتیل ڈالا ۔۔۔
میں نے بھی اپنی پینٹ اتاردی۔۔۔ اور اپنی نونو دیکھی جو سخت ہورہی تھی ۔۔۔ میں نے سلیم کی طرح اس پرتیل ڈالا ۔۔۔
اور ہاتھ چلانا شروع کیا ۔۔۔ یہ تھی میری زندگی کی پہلی مٹھ۔ ۔۔ جو میں مزہ لینے کی
بجائے نونو کو بڑا اور پکا کرنے کے لیے لگا رہا تھا۔۔مجھے تب پتہ بھی نہیں تھا کہ اب یہ کبھی نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔۔۔ خیر اب میں دوبارہ اس گروپ کاحصہ بن گیا ۔۔ جس میں روزانہ نونو کو پکا اور بڑا کرنے پر باتیں ہوتی تھیں۔ اور سب اپنے تجربے بتاتے تھے۔۔۔ وقت گزرا۔۔۔۔ میں اور سلیم اپنی اپنی نونو پکی کرتے رہے۔۔۔
اس دوران پہلی دفعہ جب سلیم کی سفید گاڑھی منی نکلی ۔۔۔۔ تو اسے پہلی دفعہ مٹھ مارنے
کا مزا آیا ۔۔۔ اسے ظفر نے پہلے ہی منی کا بتایا ھوا تھا ۔۔۔ کہ جب سفید مادہ نکلنا شروع ہو جائے ۔۔۔ سمجھ تیری نونو پکی ھو کر لن بن گئی ہے۔۔۔۔ اس لیے منی نکلتی دیکھ کر
سلیم بڑا خوش ہوا۔۔۔ اگلی صبح جلدی میرے گھر آیا ۔۔۔ بڑے جوش سے مجھے خبر دی ۔۔۔
کہ اسکی نونو اب سے لن ہے۔۔۔۔۔ سکول میں بریک ٹائم اس خوشی میں سلیم نے سارے
گروپ کو کولڈرنک پلائی۔۔۔ آخر اس گروپ میں سب سے پہلے اسکی نونو پکی ھو کر لن
بنی تھی۔۔۔ مجھ سمیت باقی سب ابھی کچی نونو والے تھے۔۔۔ شام کو سلیم کی چھت پر جا
کر میں اسکے پیچھے پڑ گیا۔۔۔۔ مجھے منی دیکھنی ہے۔۔۔ آپس میں ہمارے شرم تو
تھی ہی نہیں۔۔۔ وہ فورا تیل لے آیا۔۔۔ پینٹ اور انڈر ویر اتارا۔۔۔ لن کو پکڑا۔۔۔ تیل ڈالا۔۔۔ اور
شروع ھو گیا۔۔۔ اسکے اور میرے لن کا سائز برابر ہی تھا۔۔ بلکہ میرا موٹا تھوڑا زیادہ
ہی تھا۔۔۔ سلیم لگا ہوا تھا۔۔۔ آخر کار تھوڑی دیر بعد۔۔۔ وہ چھوٹنے کے قریب ہوا تو۔۔۔ اسکے منہ سے عجیب و غریب آوازیں نکلنے لگیں۔۔۔ رنگ اسکا لال ہو گیا۔۔۔۔ میں اسکی حالت
دیکھ کر ڈر گیا۔۔۔ ادھر وہ چھوٹنا شروع ہوگیا۔۔۔ اور اس کی منی کے فوارے نکلنے لگے
۔۔۔ اور اس حرامی نے اپنے لن کا رخ میری طرف کر دیا۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کی
منی کے کچھ قطرے میرے ہاتھ پر گرے۔۔۔ اور میں نے اس کی ماں بہن ایک کرنی
شروع کر دی ۔۔۔۔ جبکہ وہ بہن چود میری حالت دیکھ کر قہقہے لگاتا رہا۔۔۔ میں غصے
سے بولا۔۔۔ یہ کیا بہن چودی ہے۔۔۔۔ سلیم ہنستے ہوئے بولا۔۔۔ بیٹا بڑا شوق تھا تجھے منی
نکلتی دیکھنے کا ۔۔۔ لے اب غور سے جی بھر کر دیکھ لے۔۔۔۔ میں نے جلدی سے چھت
پر لگی ٹونٹی کی طرف دوڑ لگائی اور رگڑ رگڑ کر اپنے ہاتھ دھوئے۔۔۔۔ اور سلیم کی
طرف دیکھا ۔۔۔ وہ اپنی پینٹ کی جیب میں سے ٹشو پیپر نکال کر اپنا لن صاف کر رہا
تھا۔۔۔۔ میں نے کہا بہن چود تو پورا انتظام کرکے آیا ہے۔۔۔ وہ ہنس کر بولاا۔۔۔ لن رکھنا ہے
تو انتظام بھی سارے ہونے چاہئیں۔۔۔ میں نے سلیم سے پوچھا۔۔۔ اچھا منی نکالتے وقت کیا بہت
درد ہوتا ہے ۔۔؟ اس نے کہا۔۔۔ نہیں بلکل بھی نہیں ہوتا۔۔۔ کیوں ۔۔۔؟ میں نے کہا۔۔ پھر تم وہ
عجیب عجیب آوازیں کیوں نکال رہے تھے؟ اورتمہارا رنگ بھی اتنا لال کیوں ھو رھا
تھا۔۔؟ سلیم بولا۔۔۔ بہن چود ۔۔۔ وہ آوازیں تو مزے کی وجہ سے نکل رہی تھیں اف تجھے کیا بتاؤں جب تیرا وقت آئے گا۔۔۔ تب تجھے پتہ لگےگا۔۔۔۔ اس کے تین چار مہینے بعد
۔۔۔۔ ہی دن رات کی مالش سے۔۔۔ آخر وہ دن آ ہی گیا۔۔۔۔ میں واش روم میں شاور کے نیچے
کھڑا نیم گرم پانی سے نہا رہا تھا۔۔۔۔ پانی لن پر گرنے سے آج عجیب مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ ایسا
مزہ پہلے کبھی نہ آیا تھا۔۔۔۔ میں نے شاور فل کر دیا اور مکسر سے گرم پانی زیادہ کرنا
شروع کیا۔۔۔ ادھر تک کہ قابل برداشت رہے۔۔۔ میرا لن فل ٹائٹ ہوا کھڑا تھا۔۔۔ اس پر شاور
سے تیز اور گرم پانی گر رہا تھا۔۔۔ میں نے لن کو پکڑ کر ہلانا شروع کیا۔۔۔ اور ایک نئی دنیا میں پہنچ گیا۔۔۔۔ میں جتنا ہلاتا ۔۔۔ اتنا مزہ آتا۔۔۔ آہستہ آہستہ میں اپنی سپیڈ بڑھاتا ہی
چلا گیا۔۔۔ یہاں تک کہ مجھے لگنے لگا ۔۔۔۔ کہ میری ساری جان میرے لن میں آ گئی
ہے۔۔۔ میری آنکھیں خودبخود مزے سے بند ہو گئیں۔۔۔ اور میرے لن نے پہلی منی کے
فوارے نکل دیے۔۔۔۔۔ اس کے بعد مجھے ایسا سکون ملا۔۔۔ کہ اس کے بعد کی ساری
مٹھیں۔۔۔ وہ سکون ڈھونڈتے ماریں لیکن وہ سرور نہیں ملا ۔۔۔ خیراب میں بھی پکے لن کا
مالک بن چکا تھا۔۔۔۔ وقت گزرا میٹرک میں پہنچ کر مجھے اپنا الگ کمرہ مل چکا تھا۔۔۔
اور پڑھائی کے بہانے کمپیوٹر بھی کمرے میں آ چکا تھا۔۔۔ اب سلیم اور میں مٹھیں
مارنے کے علاوہ کمپیوٹرپر گیمزبھی کھیلتے تھے۔۔۔۔ ان دنوں سلیم کا ایک نیا دوست بنا۔۔۔
جس نے سلیم کو ٹرپل ایکس موویز کا بتایا۔۔۔ اور سلیم نے مجھے۔۔۔۔۔ اس کے بعد ہمارا
مشن شروع ھوا۔۔۔ ٹرپل ایکس موویزکی تلاش کا۔۔۔ اس میں بھی کامیابی سلیم گانڈو کو
ملی۔۔۔ ایک دوپہر وہ دوڑتا ہوا ۔۔۔ میرے کمرے کے دروازے کو روندتا ہوا کمرے میں آیا
۔۔۔ میں نے پوچھا ۔۔۔ اوئے کیا ہو گیا ہے؟؟ گانڈو اتنا بھاگ کس سے رہا ہے؟ سلیم نے
ڈرامائی انداز میں جیب سے ایک سی ڈی نکالی ۔۔۔ اور۔۔۔ میری طرف اچھالی۔۔۔ جومیں
نے کیچ کی اور کہا۔۔ بہن چود پھر کوئی نیو گیم لے آیا ہے۔۔؟ سلیم نے کمرے کا دروازہ
بند کرتے کہا۔۔۔ یہ وہ گیم ہے جو ہماری زندگی بدل دیےگی۔۔۔ میں بولا ۔۔۔ ڈرامے نہ کر
اور بتا یہ کیا ہے۔۔؟ سلیم بولا۔۔۔ باتیں کم اور کام زیادہ ۔۔۔ چپ کر کے سی ڈی لگا۔۔۔۔ میں
نے سی ڈی کمپیوٹر میں ڈالی۔۔۔ اور چلا دی۔۔۔ آگے کوئی فلم چلنا شروع ہوئی۔۔۔ میں بولا
اوئے گانڈو۔۔۔ یہ کونسی فلم ہے؟ سلیم بولا۔۔۔ وہی جس کے لیے تو اپنی بنڈ بھی دینے کو
تیار تھا۔۔۔۔ بلیو فلم۔۔۔۔ میں نے خوشی سے اچھل کر پوچھا ۔۔۔ واقعی ۔۔؟؟؟ سلیم اکڑ کے
بولا۔۔۔ تیری بہن کو لن ۔۔۔ جس کے پیچھے سلیم ہو۔۔۔ اور وہ نہ ملے۔۔۔۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتامیں نے
سکرین کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔ جس پر ابھی کسی نارمل فلم جیسا سین چل رھا تھا۔۔۔
کہا۔۔ یہ تو کوئی سادہ فلم لگ رہی ہے۔۔۔۔ اس کی سکرین بلیو تو نہیں ہے۔۔۔ ) اسوقت تک
ہمارے خیال میں یہی تھا۔۔۔ کہ بلیو فلم میں سارا کچھ ہلکی نیلی لائٹ میں ہوتا ھوگا۔۔۔
بمشکل کچھ نظر آتا ھو گا۔۔۔( سلیم بولا۔۔۔ گانڈو صبر کر لے۔۔۔ جب وہ والا سین شروع
ھوگا سکرین بلیو ہو جائے گی۔۔۔۔ اسی وقت سکرین پر موجود گورے نے گوری کو
پکڑا۔۔۔ اور۔۔۔ کسنگ شروع کی۔۔۔۔ ہم دونوں کی بولتی بند ہو گی۔۔۔۔ کسنگ کرتے گوری
نے گورے کی جینز اتاری۔۔۔ اور۔۔۔ اس کا لن اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی۔۔۔۔ اس
فلم نے تو واقعی میری زندگی بدل کر رکھ دی تھی ۔۔۔۔ ایک تواس سے پہلے مجھے نہیں
پتہ تھا۔۔۔ کہ ایسے چوپا بھی لگواتے ہیں۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "زندگی کا سفر"