Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

سالی پورے گھر والی


دوستو آج میں آپکو ایک انتہائی خوبصورت سیکس کہانی سنانے جا رہی ہوں۔ یہ کہانی میری زندگی کے پہلے سیکس کی ہے میں اپنی جوانی کے جوبن پر تھی اور میرا حسن دیکھ کر ہر لڑکا مجھے چودنے کی خواہش کرتا تھا۔ کہانی شروع کرنے سے پہلے میں اپنے بارے میں آپ دوستوں کو تھوڑا بتانا چاہوں گی۔میرا نام فائزہ ہے عمر 22 سال اور میں ملتان شہر کی رہنے والی ہوں۔ ہم 2 بہنیں ہیں، بڑی بہن کا نام صائمہ ہے اور انکی شادی ہو چکی ہے اور میری بھی عنقریب شادی ہونے والی ہے۔ میرا 1 بھائی ہے جو مجھ سے چھوٹا ہے اور ابھی بی اے کے امتحانات دے رہا ہے۔ ۔ میری منگنی بھی ہو چکی ہے منگیتر کا نام رضوان ہے جواب اپنا بزنس چلاتے ہیں۔ ہم دونوں ایکدوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔تو دوستو یہ اس وقت کی بات ہے جب میری عمر 19 سال تھی، یعنی آج سے 3 سال پہلے۔ تب میں گورنمنٹ ڈگری کالج ملتان میں پڑھتی تھی جو کچہری چوک کےساتھ واقع ہے۔ اس زمانے میں مجھ پر نئی نئی جوانی آئی تھی اور میرا حسن اپنے جوبن پر تھا۔ 34 سائز کے گول اوپر کو اٹھے ہوئے ممے ، 29 کی پتلی کمر اور 34 سائز کے میرے چوتڑ ہر دیکھنے والے کو ایک بار مٹھ مارنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ کالج کا زمانہ تھا ہم لڑکیاں کالج میں آپس میں سیکس کے بارے میں بات بھی کرتی تھیں اور چند ایک گندی فلمیں بھی دیکھرکھی تھیں۔تو دوستو آج سے تین سال پہلے میری بہن اپنے شوہر یعنی میرے بہنوئی کے ساتھ میکے رہنے کے لیے آئیں تھیں۔ میرے بہنوئی ایک نہایت شریف اور اچھے انسان ہیں ہر کسی سے بہت پیار محبت اور اخلاق کے ساتھ ملنے والے ۔ اور میری بہن انکے ساتھ بہت اچھی ازدواجیزندگی بسر کر رہی ہے۔ صائمہ یعنی میری بہن کبھی کبھی میرے ساتھ سیکس کی باتیں بھی کرتی تھی اور بتاتی تھی کے اسکے میاں کیسے اسکی جم کے چودائی کرتے ہیں۔ میں اپنے بہنوئی کا نام ہی بتانا بھول گئی آپ دوستوں کو۔ میرے بہنوئی کا نام عمران ہے جو لاہور میں ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتے ہیں۔ ہمارا گھرانہ تھوڑا بولڈ ہے اور میں اپنے بہنوئی عمران کے ساتھ بھی خاصی فری تھی اور ان سے رضوان کے بارے میں بھی بات کر لیا کرتی تھی۔ جب صائمہ عمران کے ساتھ ہمارے ہاں رہنے کے لیے آئی توان دنوں رضوان بھی پڑھائی کے لیے ملتان آئے ہوئےتھے جو اس وقت بہاوالدین زکریا یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ اسی بہانے انکو بھی گھر آکر مجھ سے ملنے کا موقع مل گیا۔ صائمہ اور عمران کی موجودگیمیں رضوان آتے اور ہم سب مل کر خوب شغل کرتے اور باہر سیر کرنے بھی جاتے۔ جب رضوان یونیورسٹی میں ہوتے تو میرا رابطہ ان سے موبائل پر ہوتا تھا ہم لمبی باتیں کرتیں اور ایکدوسرے کو اپنی سیکسی تصویریں بنا کر بھی بھیجتے تھے۔اس دن جب صائمہ اور عمران دونوں شاپنگ کے لیے شام کے ٹَائم کینٹ چلے گئے اور امی ابو بھی گھر پر موجود نہیں تھے تو میں نے رضوان کو کال کی اور کافی دیر ہم نے ایکدوسرے سے پیار محبت اور پھر سیکس کے بارے میں باتیں کیں۔ پھر رضوان نے مجھے کہا کہ میں انہیں کچھ سیکسی تصاویر بنا کر ایم ایم ایس کروں۔ میں فورا راضی ہوگئی۔ میں نے اپنا فیورٹ نیلے رنگ کا برا پہنا جس میں فوم بھی لگا ہوا تھا اور وہ مموں کو اور بھی بڑا کر کے دکھاتا تھا، اسکے ساتھ اسی رنگ کی پینٹی پہنی اور اوپر سے ایک ٹائٹ شرٹ جو لمبائی میں میری ناف تک تھی اور نیچے ایک سکن ٹائٹ جینز جس میں میرے گول چوتڑ باہر نکلے ہوئے تھے۔ ابھی میں تیار ہی ہوئی تھی کے باہر مجھے کارکا ہارن سنائی دیا۔ یہ عمران یعنی میرے بہنوئی کی کار تھی۔ مجھے اس وقت انکے واپس آنے کی بالکل خوشی نہیں ہوئی لیکن کیا کرتی دروازہ کھولا تو پتا لگا کہ وہ اکیلے آئے ہیں صائمہ کو کینٹ میں اپنی کوئی پرانی دوست مل گئی تھی اور وہ اسکے ساتھ اسکےگھر چلی گئی تھی اس لیے عمرانجلدی واپس آگئے۔ اندر آکر انہوں نے میرا اوپر سے نیچے تک بغور جائزہ لیا اور پھر ہنس کر بولے رضوان کے ساتھ ڈیٹ پر جانے کا تو ارادہ نہیں کیا تمہارا؟؟؟ میں بھی ہنس دی کہ نہیں ایسی قسمت کہاں ہماری کے اکیلے گھومنے جا سکیں باہر۔ یہ کہ کر میں کچن میں چلی گئی کہ رات کے لیے کھانے کا کچھ بندوبست کروں کیوں کہ تصویریں بنانا تو اب مشکل تھا اور ساتھ ہی میں نے رضوان کو بھی میسج کر کے بتا دیا کہ آج میں تصویریں نہیں بھیج سکتی۔جب میں کچن میں کام میں مصروف تھی تو عمران کچن میں آئے اور مجھ سے پانی مانگا، میں نے گلاس میں پانی ڈال کر دیا اور خود دوبارہ چولہے کی طرف منہ کر کے کھانا بنانے میں مصروف ہوگئی۔ کچھ دیر گزرنے کے بعدمجھے احساس ہوا کہ عمران ابھی تک کچن میں موجود ہیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ میرے پیچھے ہی کھڑے تھے اور انکی نظزیں میرے چوتڑوں پر تھیںیہ دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور شرمندگی بھی۔ خوشی اس لیے کہ مجھے اپنی خوبصورتی پر فخر ہونے لگا جس نے میرے بہنوئی کو بھی تھوڑا بہکا دیا تھا اور شرمندگی اس لیے کہ عموماً میں گھر میں ایسا لباس نہیں پہنتی تھی اور یہ والا کچھ زیادہ ہی ٹائٹ تھا جسمیں میرے جسم کے تمام ابھار بڑے واضح نظر آرہے تھے۔ میں نے عمران کو مخاطب کر کے پوچھا کہ عمران بھائی کیا ہوا؟ کچھ اور چاہیے کیا آپکو؟ وہ ایک دم چونکے اور میرے چوتڑوں سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھ کر بولے نہیں کچھ نہیں۔ بس ایسے ہی کمرے میں اکیلا بیٹھے بور ہورہا تھا تو سوچا کچھ دیر اپنی سالی سے گپ شپ ہی لگا لی جائے۔ میں بھی مسکرا دی اور کہا جی ضرور۔ ہم دونوں نے باتیں شروع کر دیں ادھر ادھر کی۔ کچھ دیر بعد عمران نے میری تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تم تو ان کپڑوں میں قیامت ڈھا رہی ہو۔ میرا چہرہ خوشی اور شرم سے سرخ ہوگیا۔ مجھے اپنی تعریف سننا بہت اچھا لگتا تھا۔پھر عمران بولے کے رضوان تو بڑا خوش قسمت ہے جسکو تم جیسی سیکسی لڑکی ملی ہے۔ انکے منہ سے”سیکسی” کا لفظ سن کر میں ہکا بکا رہ گئی کیونکہ ہم نے پہلے کبھی ایسی بات آپس میں نہیں کی تھی۔ مگر حالات کو نارمل رکھنے کے لیے میں نے کہا کہ میری بہن بھی کچھ کم خوبصورت تو نہیں۔ جس پر وہ مسکرا دیے کہ ہاں تم دونوں بہنیں بہت خوبصورت ہو، مگر صائمہ اب کچھ موٹی ہو چکی ہے اور اسمیں وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی جبکہ تم ابھی جوان ہو اور بہت خوبصورت بھی۔ یہ کہ کر وہ میرے تھوڑا قریب آگئے اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میرے لیے یہ حیران کن بات تھی اور میں پریشان بھی ہوگئی کیونکہ عمران کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ اور اسی وقت میری نظر عمران کی پینٹ پر پڑی تو وہاں ناف سے کچھ نیچے ایک ابھار نظر آرہا تھا۔ میں سمجھ گئی کہ مجھے ایسے ٹائٹ کپڑوں میں دیکھ کر میرے بہنوئی کا لن بھی کافی ٹائٹ ہوگیا ہے۔ میں تھوڑا پیچھے ہٹتے ہوئے بولی کہ مجھے ان کپڑوں میں الجھن ہورہی ہے میں شلوار قمیض پہن کر آتی ہوں۔ مگر انہوں نے میرا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا اور کہا کہ نہیں تم ان کپڑوں میں بہت پیاری لگ رہی ہو کچھ دیر ٹھہر کر چینج کر لینا۔ میں اور بھی پریشان ہوگئی اور مجھے ڈر لگنے لگا کہ آج میرا کنوارہ پن ختم ہوجائے گا۔مجھے ڈرتا دیکھ کر عمران نے اپنے اوپر تھوڑا قابو پایااور مجھے ریلیکس کرنے کے لیے بولے کہ ڈرو نہیں تم میری بیوی نہیں سالی ہو۔ بس میں ان کپڑوں میں تمہاری کچھ تصویریں بنا لوں پھر چینج کر لینا۔ مجھے تھوڑا حوصلہ ہوا۔ اور میں نے شکر کیا کہ عمران کا کچھ غلط ارادہ نہیں۔ یہ کہ کر وہ مجھے میرے کمرے میں لے گئے اور اپنا موبائل نکال کر میری ایک تصویر بنائی۔ پہلے انہوں نے کچھ تصویریں دور سے بنائیں مگر پھر ایک تصویر موبائل میرے مموں کے قریب کر کے انکی بھی تصویر بنا ڈالی۔ میں نے منع کیا اور کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں تو عمران بولے کہ کچھ نہیں تم نے کونسا بعد میں ایسا ڈریس پہننا ہے تو ابھی تمہاری خوبصورتی کو محفوظ کرلوں تاکہ بار بار دیکھ سکوں۔ پھر انہوں نے میرا منہ دوسری طرف کر کے میرے چوتڑوں کی بھی تصویر بنائی اور میں پریشان کھڑی تھی کہ آخر یہ سب کیا ہورا ہے۔پھر عمران نے میری شرٹ کا اوپر والا بٹن کھول دیا میں نے مزاحمت کرنا چاہی تو عمران بولے بس کچھ سیکسی تصویریں بنانی ہے تمہاری۔ انہوں نے زبردستی میرا اوپر والا بٹن کھولا اور میرے کندھے سے شرٹ ہٹا کر میری تصویر بنائی۔ پھر دوسرے کندھے سے بھی شرٹ ہٹا دی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں، نظریں جھکائے چپ چاپ کھڑی تھی میں کہ عمران نے اپنا موبائل ٹیبل پر رکھا اور میرے قریب آکر میرہ چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ میرے تن بدن میں جیسے آگ سی لگ گئی مگر میں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی کہ عمران بھائی یہ سب ٹھیک نہیں یہ غلط ہے۔ مگر انہوں نے دوبارہ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور انکو چوسنے لگے۔ وہ بڑے پیار اور آہستگی کے ساتھ میرے ہونٹ چوس رہے تھے ، میں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ میری کمر پر رکھ کر مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ میرے ممے زور سے عمران کے سینے میں دھنس گئے، یہ پہلا موقع تھا جب مجھے کسی مرد نے چوما تھا اور مجھے اپنے گلے سے لگایا تھا۔ میں نے فلموں میں تو سب کچھ دیکھا ہوا تھا مگر کبھی کسی مردکے اتنا قریب نہیں گئی تھی یہاں تک کہ رضوان سےبھی کبھی اتنی قربت نہیں ہوئی تھی۔عمران مسلسل میرے ہونٹ چوس رہے تھے اور اب انکا ہاتھ میری کمر سے ہوتا ہوا میرے چوتڑوں پر جا چکا تھا۔ ٹائٹ جینز سے باہر نکلتے ہوئے چوتڑوں کو انہوں نے زور سے اپنے ہاتھ سے دبا لیا تھا جیسے کبھی چھوڑنے کا ارادہ نہ ہو۔ میری ہلکی سی مزاحمت اب بھی جاری تھی مگر عمران کے ہونٹوں کا لمس مجھے مدہوش کر رہا تھا۔ اب وہ اپنی زبان میرے منہ میں ڈال چکے تھے اور ہماری زبان آپس میں ٹکرا رہی تھی۔ پھر انہوں نے میری زبان کو اپنے منہ میں لے کر زور زور سے چوسنا شروع کر دیا جس نے میرے پورے جسم میں آگ لگا دی اور میری مزاحمت بالکل ختم ہوگئی اور اب میں بھی کسنگ میں عمران کا ساتھ دینے لگی۔ اور انکی زبان کو چوسنا شروع کردیا ۔ کافی دیر ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان چوستے رہے کبھی عمران کی زبان میرے منہ میں ہوتی تو کبھی میری زبان عمران کے منہ میں۔ مجھے یہ سب کچھ اچھا لگنے لگا تھا۔ پھر عمران نے میرے اوپر والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں سے چوسنا شروع کر دیا۔ عمران کبھی اوپر والے ہونٹ کو اپنے منہ میں لیتے تو کبھی نیچے والے ہونٹ کو۔ ہونٹوں سے دل بھرا تو عمران نے میرے کندھوں کو چومنا شروع کر دیا جو وہ پہلے ہی ننگے کر چکے تھے۔ پہلے تو اپنے ہونٹوں سے میرے کندھے چومتے رہے پھر زبان پھیرنا شروع کردی۔ جبزبان سے بھی دل نہیں بھرا تو اپنے دانت میرے کندھوں پر گاڑھ دیے۔ اور ساتھ میں میرے چوتڑ بھی دباتے رہے۔ پھر میری گردن پر بھی یہی مشق دہرائی، ہونٹوں سے زبان سے اور دانتوں سے کاٹ کر میریگردن پر پیار کیا۔ جب وہ میری گردن پر زبان پھیرتے اور کاٹتے تو جیسے مجھے 240 وولٹ کا جھٹکا لگتا۔ میں تڑپنے لگی اور میرے منہ سے خود بخود سسکیاں نکلنے لگیں جن سے عمران کو اور حوصلہ ملا اور پھر آہستہ آہستہ وہ میرے مموں تک پہنچ گئے اور میری شرٹ اتار دی۔ شرٹ اتارنے کے بعد وہ کچھ دیر مجھے ایسے ہی دیکھتے رہے اور بولے کہ فائزہ تم قیامت ہو یہ پتلی کمر اور بڑے بڑے ممے میں نے آج تک نہیں دیکھے۔ اسکے بعد انہوں نےمیری جینز کا بٹن اور زپ کھول کر میری جینز بھی اتار دی۔ اب میں صرف برا اور پینٹی میں تھی۔عمران نے مجھے چوتڑوں سے پکڑ کر اپنی گود میں اٹھا لیا اور میری دونوں ٹانگیں عمران کی کمر کے گرد تھیں۔ وہ کبھی میرے ہونٹ چوستے کبھی کندھے پراپنی زبان اور ہونٹ پھیرتے تو کبھی برا کے اوپر سے ہی میرے ممے چومتے۔ کافی دیر یہ سلسلہ جاری رہا پھر انہوں نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور خود میرے اوپر آکر میرے دائیں ممے پر سے برا ہٹا دیا۔ میرے گول اور بڑے ممے دیکھ کر تو عمران جیسے اپنے آپ میں نہیں رہے انہوں نے فورا میرے دوسرے ممے سے بھی برا ہٹایا اور پاگلوں کی طرح میرے مموں پر پیار کرنے لگے۔ میرے نپل بہت سخت ہورے تھے جو عمران نے اپنے منہ میں لیے ہوئے تھے اور ان پر زور زور سے اپنے دانتوں سے کاٹ رہے تھے۔ میرا ایک نپل انکے منہ میں تھا تو دوسرا نپل اپنے ہاتھ سے مسل رہے تھے۔ میں اس مزے کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی جو اس وقت مجھے آرہا تھا، میری ہلکی سسکاریاں نکل رہی تھیں، آہ ہ ہ ہ ۔اف آہ آہ آہ او یاہ۔۔۔ عمران آرام سے کرو پلیز درد ہوتا ہے۔ عمران بولے جان ابھی تمہیں ایسا مزہ دوں گا کہ تم ساری عمر یاد رکھو گی۔ اور دوبارہ وحشیوں کی طرح میرے مموں کو کاٹنے لگے۔میں بھی پاگل ہو چکی تھی میں نے عمران کو اپنے اوپر سے ہٹایا اور انہیں لٹا کر خود انکے اوپر بیٹھ گئی۔ جیسی ہی میں انکے اوپر بیٹھی مجھے اپنے نیچے ایک موٹی سی چیز کا احساس ہوا۔ میں عمران کے لن کے بالکلاوپر بیٹھی تھی جس سے مجھے سرور سا ملا۔ میں نے اپنی برا کی ہک کھول کر برا کو اپنے جسم سے علیحدہ کیا اور عمران کی شرٹ اتار کر انکے سینے پر پیار کرنے لگی۔ بالوں سے بھرا ہوا سینہ مرد کی شان ہوتا ہے اور عمران کا سینہ کچھ ایسا ہی تھا۔ سینے پر پیار کرتی ہوئی میں نیچے ناف تک آئی اور عمران کی بیلٹ کھول کر پینٹ کا بٹن اور زپ کھولی اور پینٹ اتارنے میں عمران کی مدد کی۔ عمران نے نیچے سفید رنگ کا انڈر ویئیر پہنا ہوا تھا جس میں سے لن کا تناو اور موٹائی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔پینٹ اتار کر میں پھر سے عمران کے اوپر لیٹ گئی اور ہم ایکدوسرے کو پیار کرنے لگے۔ ایکدوسرے کے جسم کیگرمی ہم دونوں کو بہت سکون دے رہی تھی۔ کبھی میں اوپر ہوتی اور عمران نیچے تو کبھی عمران اوپر اور میں نیچے۔ پھر عمران نے اپنا انڈر ویئر بھی اتار دیا اور انکا 7 انچ کا لمبا اورموٹا لن میرے سامنے تھا۔ میں نے فلموں میں ایسے لن دیکھے ہوئے تھے مگر آج یہ لن دیکھ کر مجھے ڈر لگنے لگا کہ اتنا موٹا لن میری کنواری اور چھوٹی سی پھدی میں کیسے جائے گا؟؟ عمران نے اپنا لن میرے ہاتھ میں پکڑایا جو میں نے بغیر جھجک کے پکڑ لیا اور اسکی مٹھ مارنے لگی جیسے میں نے فلموں میں دیکھا ہوا تھا۔ عمران نے شاید 2 یا 3 دن پہلے ہی نیچے کی شیو کی تھی لن کے ارد گرد باریک باریک بال تھے جب میں ان باریک بالوں پے ہاتھ پھیرتی تو عمران کو بڑا مزہ آتا۔ کچھ دیر مٹھ مارنے کے بعد عمران نے مجھے کہا کہ اب اسکو منہ میں لے کر چوسو۔ میں نے لن منہ کے قریب کیا تو مجھے اس سے نفرت آنے لگی اور میں نے انکار کیا۔ لن سے پانی بھی نکل رہا تھا تھوڑا اور ٹوپی پوری گیلی تھی جسکی وجہ سے مجھے نفرت آ رہی تھی۔ مگر عمران نے کہا کہ یہ بہت مزے کا ہوتا ہے صائمہ بھی بڑے شوق سے چوستی ہے تم بھی چوسو مزہ آئے گا۔ پھر میں نے اپنی زبان لن کی سائڈ پر پچھلے حصے پر پھیرا جہاں پانی نہیں تھا۔ لن کی گرمی میری زبان پے محسوس ہوئی تو مجھے بہت اچھا لگا۔ میں نے لن کے نچلے حصے پر خوب زبان پھیری اور آہستہ آہستہ اوپر کی طرف جانے لگی کے اچانک مجھے اپنے منہ میں کچھ نمکین سے ذائقہ محسوس ہوا۔ یہ لن سے نکلنے والا پانی تھا جو لن کوگیلا کر رہا تھا اور میری زبان اس گیلے حصے تک پہنچ چکی تھی۔مچھے کچھ ہی دیر میں یہ پانی اچھا لگنے لگا اور میںنے اس پر بھی زبان پھیرنا شروع کر دی اور پھر لن کے ٹوپے پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اور آہستہ آہستہ آدھا لن میرے منہ میں تھا۔ عمران کو میرے لن چوسنے سے شاید تکلیف بھی ہورہی تھی کیونکہ مجھے چوپا لگانے کا تجربہ نہیں تھا صرف فلموں میں چوپا لگاتے دیکھا تھا۔ عمران نے مجھے سمجھایا کے دانت لن پر زور سے مت پھیرو زیادہ زبان اور ہونٹوں کا استعمال کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا اور کچھ ہی دیر میں عمران کو مزہ آنے لگا۔ 3 سے 4 منٹ تک چوپا لگانے کے بعد عمران نے میرے منہ میں اپنی سپیڈ تیز کر دی اور زور زور سے لن اندر باہر کرنے لگے، میں سمجھ گئی کہ منی نکلنے والی ہےمیں نے لن منہ سے باہر نکالنے کی کوشش کی مگر عمران نے مجھے بالوں سے پکڑ رکھا تھا اور مجھے لن باہر نہیں نکالنے دیا اتنے میں منی کا فوّارہ میرے منہ میں ہی نکل گیا۔ منی کا ذائقہ بھی نمکین تھا اور مزیدار تھا مگر وہ بہت گاڑھی اور زیادہ مقدار میں تھی جسکی وجہ سے مجھے بہت زیادہ کھانسی آئی اور میرا چہرہ سرخ ہوگیامیرا سانس لینا مشکل ہوگیا تھا۔ میں نے ساری منی کارپٹ پر تھوک دی اور فوران اپنی شرٹ اٹھا کر منہ میں ڈالی اور منہ کی صفائی کی پھر کلی کی اور عمران نے مجھے پانی پلایا۔ کچھ دیر کے بعد جب میں نارمل ہوئی تو میں نے عمران سے پوچھا کہ صائمہ تو کہتی تھی آپ اسکی ساری رات چدائی کرتے ہو مگر آپ تو 5 منٹ میں ہی فارغ ہوگئے۔ یہ سن کر وہ بولے کہ صائمہ کو ماہواری ہے جسکی وجہ سے 6 دن سے چدائی نہیں کی اس لیے جلدی فارغ ہوگیا لیکن تم فکر نہیں کرو ابھی تمہاری جم کے چدائی کروں گا۔ میں نے اپنی پینٹی اتار دی اور عمران کو دعوت دی کہ اب وہ اپنی زبان سےمیری پھدی چاٹیں اور مجھے بھی مزہ دیں۔ مگر عمران نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے انکو پھدی کے پانی سے نفرت آتی ہے۔ یہ سن کر مجھے بہت غصہ آیا اور میں زور سے چلائی مادر چود تیرے لن سے بھی تو نفرت آتی تھی میں نے بھی چوسا ہے چل اب تو بھی میری پھدی چاٹ اور مجھے مزہ دے۔ مگر عمران نہ مانے اور مجھے لٹا کر میرے ممے اپنے منہ میں لے لیےاور اپنی بڑی انگلی میری پھدی پر پھیرنے لگے۔ پہلے تو میں غصے میں گالیاں دیتی رہی کہ اب میری پھدی چاٹو مگر پھر آہستہ آہستہ انگلی پھرنے سے میری پھدی گیلی ہونے لگی اور مجھے مزہ آنے لگا۔ پھر عمران نے اپنی آدھی انگلی میری کنواری پھدی میں ڈال دی تو میری جیسے جان ہی نکل گئی۔ مجھے انگلی جانے سے بہت تکلیف ہوئی تھی اور آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے عمران اپنی پوری انگلی اندر ڈال چکے تھے اور انگلی سے میری چدائی کر رہے تھے۔ 3 سے 4 منٹ کی چدائی کے بعد مجھے انگلی کا مزہ آنے لگا اور میں نے اپنی گانڈ اوپر نیچے ہلانی شروع کر دی۔ 10 منٹ تک مجھے انگلی سے چودنے ک بعد جب انگلی روانی سے پھدی میں جانے لگی تو مزہ اور بڑھ گیا اور مجھے اپنے جسم میں عجیب سے سرور محسوس ہوا۔ میرے منہ سے مسلسل آوازیں نکل رہی تھیں اور مزے سے مدہوش ہو رہی تھی۔ آہ آہ آہ او و، یس۔۔۔ آ آ آ اف آہ آہ آہ کی آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا اور ساتھ ہی میری آوازوں میں تیزی آنے لگی تو عمران نے بھی اپنی انگلیسے میری چدائی کی سپیڈ بڑھادی اور اگلے 2 منٹ میں ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ۔ جب چوت نے پانی چھوڑا تو اس وقت جو مزہ آیا وہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ جب میں فارغ ہوگئی تو عمران میری ٹانگیں کھول کر درمیان میں آگئے ۔عمران نے اپنے لن کا ٹوپہ میری پھدی کے اوپر رکھا اور آہستہ آہستہ رگڑنے لگے۔ لن کو پھدی کے اوپر دیکھکر تو میری ویسے ہی پھٹ گئی کہ ایک انگلی نے اتنی تکلیف دی تو اس لن سے کیا ہوگا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے میری پھدی کے اندر لوہے کا راڈ گھسا دیا ہوا میری زور دار چیخ نکلی مگر عمران نے فورا اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور میری چیخ کو دبا دیا۔ عمران کا آدھا لن میری پھدی میں جا چکا تھا اور تکلیف کے مارے میں کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی اور عمران کی منتیں کر رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دو مجھے نہیں چدوانا۔ مگر وہ کہاں چھوڑنے والے تھے کنواری پھدی کو۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی میرے اوپر لیٹے رہے اور آہستہ آہستہ لن کو ہلانا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد جب میرا رونا بند ہوا تو ساتھ ہی ایک اور زور دار دھکا لگا اور میری کنواری چوت کو عمران کا لن چیرتا ہوا مکمل گہرائی میں جا چکا تھا۔ پورا کمرہ میری دبی دبی چیخوں سے گونج رہا تھا اور عمران میرے اوپر لیٹے میرے ہونٹوں کو دبائے ہوئے تھے۔ 5 منٹ تک انہوں نے پھدی میں لن کو حرکت نہیں دی، اور میرے ہونٹوں پر میرے گالوں پر پیار کرتے رہے ساتھ میں ایک ہاتھ سے میرے ممے بھی دباتےرہے اور نپل کو بھی دانت سے کاٹتے رہے۔ 5 منٹ بعد آہستہ آہستہ لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کیا تو میریہلکی ہلکی سسکاریاں نکلنے لگیں، آنکھیں ابھی بھی بھیگیں ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے لن اندر باہر ہو رہا تھا میری خشک پھدی دوبارہ سے گیلی ہونے لگی۔ گیلی پھدی میں لن آسانی سے اندر باہر ہونے لگا اور مجھے مزہ آنے لگا۔عمران ابھی بھی میرے اوپر لیٹے تھے اور لن میری پھدی کو چیرتا ہوا کبھی اندر جاتا تو کبھی باہر آتا یہ سلسلہ مزید کچھ دیر جار رہا اور میں اب چدائی کے مزے لینے لگی تھی۔ میں نے آہستہ آہستہ اپنی گانڈ ہلانی شروع کی اور چدائی میں تھوڑی سی سپیڈ کا اضافہ ہوا۔ اب عمران کا منہ میرے ہونٹوں پر نہیں بلکے میرے مموں پر تھا، وہ میرے نپل بھی کاٹ رہے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے موٹے اور لمبے لن سے میری گیلی پھدی کی چدائی بھی کر رہے تھے۔ 20 منٹ کی چدائی کے بعد اب میں مکمل مزے میں تھی اور عمران کا خوب ساتھ دے رہی تھی۔ میری ٹانگیں تھک چکی تھیں۔ میں نے عمران کو بتایا تو وہ خود نیچے لیٹ گئے اور مجھے اپنے اور بیٹھنے کو کہا۔ میں جب اٹھی تو مجھے بیڈ پر سرخ رنگ کی کوئی چیز نظر آئی۔ غور سے دیکھنے پر پتا لگا وہ خون تھا جو میری پھدیپھٹنے پر نکلا تھا۔ تھوڑی دیر کو خیال آیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا مگر اس وقت تو لن کی پیا سی پھدی نے کچھ اور سوچنے نہیں دیا اور میں عمران کے اوپر بیٹھ کر لن کو اپنی پھدی کے سوراخ پر رکھ کار آہستہ آہستہ لن اندر لینے لگی۔ ایک بار پھر تکلیف ہو رہی تھی مگر مجھے پتہ تھا کہ ابھی یہ تکلیف مزے میں تبدیل ہوجائے گی۔ وہی ہوا کچھ ہی دیر بعد میں عمران کے لن کے اوپر اچھل رہی تھی۔ عمران نے اپنے دونوں ہاتھ میرے چوتڑوں کے نیچے رکھے ہوئے تھے اور مجھے اچھلنے میں مدد کر رہے تھے۔ کمرہ جو پہلے چیخوں سے گونج رہا تھا وہ اب ہمارے جسم کے ٹکرانے کی آواز سے اور ہماری مزے میں ڈوبی ہوئی سسکاریوں سے گونج رہا تھا۔ لن کا اندر جانا اور باہر آنا مجھے بہت مزہ دے رہا تھا۔ پھر عمران نے مجھے اپنے اوپر لٹا لیا، میرا ایک مما اپنے منہ میں لیا اور میری گانڈ اوپر اٹھا کر خود دھکے مارنے لگے پھدی میں۔اب عمران کی سپیڈ بہت اچھی تھی اور میرے منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں۔۔۔۔۔ آآ آآہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔ ۔ اُف۔۔۔ آہ آہ آہ ۔ ۔ زورسے چودو عمران اور زور سے۔۔۔ جیسے ہی میں عمران کو زور سے چودنے کا کہتی عمران کی سپیڈ بڑھ جاتی اور میری پھدی بھی ساتھ دیتی۔ اب تک میری پھدی 2 بار اپنا پانی چھوڑ چکی تھی، مگر ابھی تک دل نہیں بھرا تھا۔اب ہم صوفے پر تھے عمران صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اور میں انکی گود میں لن کی سواری کر رہی تھی میرے اچھلتے ہوئے ممے کبھی عمران کے منہ میں ہوتے تو کبھی انکے ہاتھوں میں۔ میری پھدی پھٹے ہوئے ایک گھنٹا گزر چکا تھا اس ایک گھنٹے میں 10 سے 15 منٹ آرام سے لن میری پھدی میں ٹِکا رہا اور باقی کا وقت میری پھدی کو چودتا رہا۔ ایک گھنٹے کے بعد لن کی سپیڈ حیرت انگیز طور پر تیز ہونے لگی اور عمران نے مجھے دوبارہ سے بیڈ پر لٹا کر چودنا شروع کیا ۔ میری ٹانگیں کھلی ہوئی تھیں اور7 انچ لمبائی کا موٹا لن فل سپیڈ کے ساتھ میری چدائی کر رہا تھا عمران فارغ ہونے والے تھے۔ میں نے عمران کو کہا کہ پلیز اندر مت فارغ ہونا عمران نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنی سپیڈ اور بڑھا دی ساتھ ہی عمران کی آوازیں بھی اونچی ہوتی گئی اور اچانک عمران نے اپنا لن میری پھدی سے نکال کر ہاتھ میں پکڑا، 2 جھٹکے مارے اور اپنی منی میری ناف کے اوپر نکال دی۔ منی فوارے کی طرح نکلی میری ناف سے ہوتی ہوئی میرے مموں تک منی کی لائن بن گئی۔ کچھ سیکنڈ تک لن کوجھٹکے لگتے رہے اورمنی نکلتی رہی۔ جب ساری منی نکل گئی تو عمران میرے اوپر لیٹ گئے۔ انکا جسم ڈھیلاپڑ چکا تھا۔ میں نے پیار سے انکو اپنے سینے سے لگا لیا اور انہیں چومنے لگی۔ 5 منٹ ہم یونہی ایکدوسرے کے اوپر لیٹے رہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "سالی پورے گھر والی"