گاؤں کی گوری اور اُسکا پہلوان بھائی
میں گاؤں سے دور ہردوار کے پاس ایک گروکل میں پڑھتا تھا۔ وہاں شروع سے ہی بچوں کو کبڈی اور کشتی جیسے کھیلوں کو سکھایا جاتا ہے۔ میری دھوم کشتی میں بہت زیادہ تھی۔ روز صبح اور شام کو میں گروکل کے اکھاڑے میں لنگوٹ باندھ کر ڈنڈ پیلتا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی کی پریکٹس کرتا جس سے میری بادی بہت سالڈ ہو گئی۔ گروکل کی پڑھائی کمپلیٹ کرنے کے بعد مجھے ایک سپورٹس کالج میں ایک کوچ کی نوکری مل گئی اور میں نے فون پہ گھر والوں کو بتایا۔ امی نے جوائن کرنے سے پہلے گاؤں آنے کو کہا کیونکہ گروکل جوئن کرنے کے بعد سے میں گھر نہیں گیا تھا۔ شام کو میں گاؤں پہنچا۔ اتنے عرصے میں گاؤں کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔ کافی وکس کا کام ہو چکا تھا۔ گھر پر امی ابا نے مجھے گلے لگایا۔ گھر میں عید جیسا ماحول تھا، پھر مجھے کچھ یاد ایا اور میں نے پوچھا کہ میری چھوٹی بہن سیما کہاں ہے؟ اچانک ایک خوبصورت لڑکی لہنگا چولی ( ہماری گاؤں کی ڈریس ) میں نظر آئی۔ میں اس کے روپ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ جوانی سے لدی ہوئی تھی۔ اُس کے بوبز جیسے چولی کے بٹنز کو توڑ کر باہر آنے کو مچل رہے تھے۔ چولی اور لہنگے کے درمیان کے مخملی گورے پیٹ میں گہری ناف اور اُس کے نیچے ابھرے پیڑوں پہ ٹھیک پُھدی کے اوپر لہنگے کا نارا۔۔۔ اُف! میرا وجود ہل گیا۔۔ خوبصورت ناری کو دیکھ کر نر کا قدرتی کھنچاوٴ تھا۔۔۔من ڈول گیا۔۔پتا نہیں کون قسمت والا اس ناڑے کو کھولیگا۔ میں پاگل کی طرح اُسے دیکھے جا رہا تھا۔ اصل میں گاؤں کی ہر ایک چیز دیسی ہوتی ہے۔ کھُلی اور صاف آب و ہوا نے اُسے دیسی پٹاخا بنا دیا تھا۔
امی بول پڑی۔۔ارے یہ سیما ہے تمہاری لاڈلی بہن، دیکھا کتنی بڑی ہو گئی ہے جب تو پڑھنے گیا تھا تب زرا سی بچی تھی۔۔۔
سیما شرماتی ہوئی دوڑ کر میرے پاس آئی اور بھائی!!! کہ کر میرے سینے سے زور سے لپٹ گئی۔ میں نے بھی اُسے زور سے بھنچ لیا اور اُس کے کڑے ممے میری چھاتی سے پس رہے تھے۔ مجھے مزہ آ رہا تھا، اسلئے میں نے اُسے اپنے سینے سے اور زیادہ چپکا لیا اور پھر میرے دونوں ہاتھ اُس کے بھاری چُتڑوں پر کس گئے۔ جیسے ہی میرا لنڈ اُسے اپنی پھدی پہ گھسنے لگا محسوس ہوا تو اُس نے میری انکھوں میں دیکھا اور شرما کر پیچھے ہٹنے لگی لیکن میں نے اُس کے گدڑے چُتڑوں کو زور سے کولی میں بھر کر اٹھا لیا اور گھما دیا جیسے بچپن میں گھماتا تھا۔ سیما میرے سے ۴ سال چھوٹی ہے لیکن وہ بھاری ہو گئی تھی۔ وہ 11ویں میں تھی۔ وہ مشکل سے 18 سال کی تھی لیکن زبردست مال تیار ہو چکا تھا۔ میں کبھی ایسے الفاظ میں نہیں پڑا لیکن سیما نے تو میرا دل ہی لوٹ لیا۔ وہ میری سگی بہن تھی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ میں نے کپڑے بدلے اور امی اور بہن سیما کے پاس آگیا جہاں وہ کھانا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔ سیما نے پوچھا بھائی آپ بولو آج کیا بنایا جائے۔ میں نے کہا امی میری پسند جانتی ہیں، وہ بنا دیں گی۔ ماں سیما سے بولی کہ چل کھانا تو میں اور بہن بنا لیں گی تو جا اپنے بھائی سے بات چیت کر اور پوچھ شہر اور گاؤں میں کیا-کیا فرق ہوتا ہے۔
میں اور سیما بات چیت میں مست ہو گئے پر میرا دھیان بار-بار اُس کے اُٹھتے چڑھتے مموں پر جا رہا تھا، سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔۔۔ سیما کے پاس تو ڈھیر سارے سوال تھے، مثلاً شہر کی لڑکیاں زیادہ تر کون سی ڈریس پہنتی ہیں، لڑکوں کو گاؤں کی لڑکیاں پسند ہیں یا شہر کی۔ میں بھی اُس کے ساتھ بات چیت انجوائے کر رہا تھا، سیما نے پوچھا اچھا بھائی ایک بات بتاؤ گے سچھی-سچھی میں نے کہا پوچھو وہ بولی آپ نے کالج میں کوئی گرل فرینڈ بنائی کیا؟ میں نے سنا ہے شہر میں یہ آج کل گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا چلنا بہت عام ہے۔ میں نے کہا یہ چکر تو گاؤں میں بھی عام ہے کیا تیرا بھی کوئی بوائے فرینڈ ہے تو بتا۔۔۔ ہاں کوئی ایسے بات کرتا ہے اپنی بہن سے۔۔ میں نے کہا اس میں غلط کیا ہے؟ ہم دوست کی طرح ہیں۔۔۔اور دوستی کسی کے بھی ساتھ ہو سکتی ہے۔۔ مثلاً تو میری دشمن تو نہیں ہے نا تو کیا ہوئی دوست۔۔ اور لڑکی ہے اسلئے کیا ہوئی گرل فرینڈ۔۔ ؟
اہو تم بڑے بدمعاش ہو گئے ہو شہر جا کر، کوئی ایسے بھی اپنی بہن سے بولتا ہے۔۔
آرے پاگل کیا بہن دوست نہیں ہو سکتی۔
وہ چھپ ہو گئی۔
چل آج سے ہم پکے دوست ہیں چل ہاتھ ملا۔
میں نے ہاتھ ملا کر ایک انگلی سے اُس کی ہتھیلی کو کھجایا اور آنکھ مار دی۔ اُس نے بھی میرے ہاتھ کو ہلکا سا دبایا اور آنکھ ماری اور شرم سے مُنہ چھپا لیا۔ میں نے اُسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا۔۔ حائے اُس کے ممے۔۔۔پھر میں نے اُس کے گال کو زور سے منہ میں بھر لیا۔۔۔
ہائے۔۔ بھائی۔۔۔چھوڑو آپ۔۔ بڑے وہ ہو۔۔۔ کوئی ایسے بھی کرتا ہے اپنی سگی بہن سے۔
میں ہنستے ہوئے کہا فرینڈ سے تو کر سکتا ہے۔۔ تو تو میری دوست بھی ہے نا۔۔ چلو زیادہ باتوں میں نہ الجھاؤ۔۔ اور چلو کھانا کھانے چلو۔۔ میں نے کہا میری ورجس کا وقت ہو گیا ہے، بعد میں کھا لونگا۔ میں نے کمرے میں جا کر کپڑے اُتارے اور لنگوٹ کس لیا۔ پھر میں کمرے میں ہی ڈنڈ پیل رہا تھا کھانے پہ بلانے کے لئے سیما آگئی اور دروازے پہ کھڑی ہو کر مجھے دیکھنے لگی۔ اُسکی پرچھائی کو دیکھ کر میں کھڑا ہو گیا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی کہ بھائی آپ کی بادی تو بہت سالڈ ہو گئی ہے۔ پھر اُسکی نظر نیچے پھسلتے ہوئے میرے لنگوٹ پہ اٹک گئی۔ میرے جوان لنڈ اور بڑے بڑے انڈکوش سے لنگوٹ پوٹلی کی طرح لگ رہا تھا۔ پھر جیسے سپنے سے جاگتے ہوئے سیما بولی کہ بھائی میری ایک بات منوگے؟ میں نے کہا بولو تو اُس نے کہا کہ جسم کے کسی عضو کو زور سے باندھنے سے نسیں ٹوٹ جاتی ہیں، آپ لنگوٹ نہ باندھا کرو نہیں تو میری ہونے والی بھابھی کے لائق بھی نہیں رہو گے اور پھر یہ بادی بھی بھابھی کو بیکار ہی لگے گی۔ میں نے کہا کہ میں سمجھا نہیں۔ سیما بولی بعد میں سمجھا دونگی۔ ہم نے کھانا کھایا اور سونے چلے گئے۔ گرمیوں کے دن تھے اسلئے ہم اُوپر چھت پر سوئے۔۔ وہ میرے ساتھ لیٹ کر دیر رات تک میرے سے باتیں کرتی رہی۔۔ امی سو چکی تھی۔ پھر باتیں کرتے-کرتے میں نے پوچھ ہی لیا کہ سیما تم لنگوٹ باندھنے کے نقصان کے بارے میں بتاؤ رہی تھی۔ سیما میری اور سرکتے ہوئے میرے کان میں آہستہ سے بولی “لڑکوں کا وہ جو ہوتا ہے نا۔۔ میں نے سنا ہے لنگوٹ باندھنے سے اسکی نسیں کمزور ہو جاتی ہیں اور۔۔۔”
یہ بول کر سیما چُپ ہو گئی تو میں نجان بن کر کہا وہ کیا۔۔کس کی بات کر رہی ہو تم؟ سیما بولی اتنے بھولے نہ بنو۔۔وہی جو شادی کے بعد لڑکیوں کے کام آتا ہے۔۔نسیں کمزور ہونے سے وہ پورا سخت نہیں ہوتا۔۔اور۔۔اور ۔۔اب تمہیں کیا سمجھاؤں۔۔گروکل میں رہ کر نیر بدھّو ہی رہ گئے۔شہر میں رہ کر تو آجکل کے لڑکے ساری باتیں سیکھ جاتے ہیں۔اتنی سی بات سے ہی میرے لنڈ میں کرنٹ آنا شروع ہو گیا۔میں ناٹک کرتے ہوئے کہا ‘ اب میں کیا کروں، مجھے تو لنگوٹ باندھتے ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں۔ہمارے گورو جی کہتے تھے کہ طاقت بڑھانے کے لیے لنگوٹ کسنا ضروری ہے۔سیما بولی ک اپکے گورو شادی شدہ ہیں؟ میں نے کہا ک نہیں وہ ان میرڈ ہیں۔ سیما بولی ” تبھی تو نہیں جانتے ک جس چیز کو زبردستی روکنے کی کوشش کروگے وہ نقصان بھی کر دیتی ہے۔مجھے تو شک ہے ک کہیں تمہیں بھی لنگوٹ کا نقصان نہ ہو گیا ہو۔ ” میں نے کہا ک پلیز سیما بتاؤ نا اب میں اسکو کیسے ٹھیک کروں؟ سیما بولی ” امّی ابّا کو نہ بتانا، نہیں تو انہیں اپکی شادی کی بہت فکر ہو جائے گی۔ بھائی مجھے شرم آرہی ہے لیکن اپکی بھلائی کے لیے پوچھنا پڑ رہا ہے۔۔اچھا ایک بات بتاؤ کیا اپکا وہ لڑکی کو دیکھ کر کھڑا اور سخت ہوتا ہے یا نہیں؟” میں جھوٹ بولتے ہوئے کہا ک نہیں، میرا تو تھوڑا سا پھولتا ہے پر کبھی سیدھا کھڑا نہیں ہوتا۔ سیما نے کہا ک ہاں تھوڑا سا تو پھولتا ہے جو مجھے پہلے دن ہی جب اپکے گلے ملی تو پتا چل گیا تھا لیکن پہلی رات کو عورت کا قلعہ فتح کرنے کے لیے وہ بہت سخت ہونا چاہیے۔میں نے کہا ک تم نے یہ سب کہاں سے سیکھا؟
سیما بولی “میری 2-3 سہیلیوں کی شادی ہو چکی ہے، وہ مجھے ساری باتیں بتلاتی ہیں۔” پھر کچھ سیریئس ہوتے ہوئے بولی کہ اپنے بھائی کی زندگی بچانے کے لیے مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ مجھے تھوڑا وقت دو، میں ضرور اپنے بھائی کی مدد کروں گی۔ دھیان رہے، کہ امّی ابّا کو اس کی بھانک تک نہیں لگنی چاہیے ورنہ وہ بہت دکھی ہو جائیں گے۔” بیچاری سیما کو کیا پتہ کہ میرا لنڈ تو اسی وقت طوپ کی طرح کھڑا ہو چکا تھا۔ باتیں کرتے کرتے سیما کی آنکھ لگ گئی اور نیند میں ہی اس نے میری کمر میں ہاتھ ڈال کر ایک ٹانگ میرے اوپر رکھ دی۔ میں بھی کولہے پہ ہاتھ کا دباو دیکر اُسے اپنے سے چپکا لیا۔ ہماری سانسیں ایک دوجے میں مل گئی۔ چاندنی رات میں اسکا خوبصورت مُکھڑا بڑا پیارا لگ رہا تھا۔ میں آہستہ سے اُسکے ہونٹوں اور گالوں کی چُمیاں لی۔ اُف، میرا لنڈ کھڑا ہوکر اُسکے پیٹ پہ جا لگا پر وہ سو چکی تھی۔
میرے اوپر چڑھنے کی وجہ سے اُسکی ایک مسل ران سے لہنگا سرک گیا تھا اور چاندنی میں نہائی ہوئی دودھیا ران کو دیکھ کر میرا لنڈ پھٹنے کو ہو رہا تھا۔ پہلا موقع تھا اسلئے میں کوئی خطرہ نہیں لینا چاہتا تھا۔ میں نے اُسکے گال سے گال سٹایا اور کمر میں ہاتھ ڈال کر مدھر خیالوں میں کھو گیا۔
صبح سیما اُٹھی تو مجھے لگا وہ کچھ پریشان تھی۔ ناشتے پر سیما نے مجھے دیکھا تو میں بھی بہت اُداس اور پریشان ہونے کا ناٹک کرنے لگا جیسے میرے پاس اُس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔
میں ایک حسین لڑکا تھا اور قد سیما سے لمبا اور خوب چوڑے سینے کا مالک تھا۔ بھرے بھرے بازو اور چوڑی چھاتی میری مردانگی میں اضافہ کر رہی تھی۔ لڑکیوں کے قدرتی علم کی حسیات سے سیما جانتی تھی کہ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کوئی بیماری نہیں ہے۔ اس بیماری میں دوسری وجہ بھی ہوتی ہیں ایسا نہیں ہوتا کہ اچانک آدمی اپنی جنسی قوت کھو دے اور نامراد بن جائے۔ لیکن میرے ساتھ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا، میں تو سیما کے سامنے صرف ناٹک کر رہا تھا۔
خیر میں نے موقع ملتے ہی ایک طرف بلا کر سیما کو کہا کہ میں کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ سیما بولی کہ آج رات کو دیکھتی ہوں ک کیا کیا جا سکتا ہے۔ سارا دن سیما پریشان رہی اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں اُسکا سگا بھائی پریشان تھا اور کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن کون کیا کرے۔
سیما نے بہت سوچا اور کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلا۔ اُسی رات کو سیما اپنے کمرے میں تھی اور سوتے وقت خیر کیا بس لیٹی ہوئی تھی۔ امّی نے سیما کو کہا ” ارے او سیما۔۔ایک ہی دن میں ساری باتیں کرلی کیا؟ جا اپنے بھائی سے باتیں کر۔ بیچارا اتنے دن اکیلا رہا ہے ۔۔جا اُسکا بھی دل بہل جائے گا۔ سیما کو تو جیسے اشارے کا انتظار تھا۔ وہ میرے پاس آئی جہاں میں دوسرے کمرے میں تھا اور سیما سمجھ رہی تھی کہ میں کس قدر پریشان ہوں گا اور کیا کیا سوچ رہا ہوں۔ سیما بولی ” چلو بھائی چھت پر ہی باتیں کرتے ہیں۔۔چاندنی رات میں کھلے آسمان کے تحت مجھے مزا آتا ہے۔ اُس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اُٹھایا اور مجھے چھت پر لے گئی۔ اُس نے نائٹی پہنی ہوئی تھی اور میں صرف بنیان اور لونگی میں تھا۔ وہ میرے ساتھ لیٹ گئی اور چاند کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔آہ کتنا پیارا لگ رہا ہے ۔۔بلکل میرے بھائی جیسا۔ مینے اُسے پھر یاد دلایا ” سیما میں تجھے اتنا ہی پیارا لگتا ہوں تو میری پریشانی کا بھی تو کچھ حل نکالو۔ پھر اچانک سیما کو ایک واقعہ یاد آیا جب ایک لڑکے نے شادی سے ایک دن پہلے اسی وجہ سے خودکشی کر لی تھی۔
اُس واقعے نے تو سیما کو بے چین کر دیا اور سیما اور گھبرا گئی۔ وہ بولی کہ بھائی آپ ایسا ویسا کچھ دماغ میں نہ لانا، خدا نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ سیما نے دیکھا کہ میں بنیان اور لونگی پہنے ہوئے ہوں اور آسمان کو تاک رہا ہوں تو سیما بہت ہی گھبرائی تھی۔ نیچے امّی ابّا سو رہے تھے۔
لیٹے لیٹے سیما نے کہا کہ میری طبیت خراب ہو رہی ہے اور سانس پھول رہی ہے۔ میں نے امّی ابّا کو بلانے کے لیے کہا تو سیما نے کہا کہ ابھی رہنے دو بس مجھے پانی پلادو۔ میں پانی لینے گیا اور واپس آیا تو دیکھا کہ سیما اپنا سینہ مسل رہی تھی۔ سیما نے پانی پی کر پھر سے سینے کو سہلانا شروع کر دیا۔ میں نے پوچھا تو وہ بولی کہ بھائی کبھی میری چھاتی میں بہت درد ہوتا ہے، بھاری پن محسوس ہوتا ہے، میرے ہاتھ دکھنے لگے ہیں، پلیز تھوڑا سا سہلا دو، بہت درد ہو رہا ہے۔ میں بیڈ پر اُسکے برابر لیٹ کر اسکا سینہ سہلانے لگا تو میرا ہاتھ اسکی ممے کو بھی چھو رہا تھا۔ میں اور تیزی سے سینے کے ساتھ ساتھ اسکے ممے بھی سہلانے لگا۔ لنڈ سر اُٹھنے لگا تو میں نے سانس روک لی تاکہ میرے ناٹک کا بھنڈا نہ پھٹے۔ سیما کی سانسیں تیز ہو گئی تھیں۔ میں ہسپتال لے جانے کے لئے کہنے لگا۔ سیما نے کوئی جواب نہیں دیا اور مسلسل اپنے سینے کو مسلتے ہوئے بے قرار ہونے لگی۔
میں سیما کے سینے کو سہلا رہا تھا اور اسی دوران سیما کے سینہ سے نائٹی اتر گئی۔ نائٹی کے لیسیز شاید اُس نے پہلے ہی کھولے ہوئے تھے اس وجہ سے سیما کے ممے بالکل باہر ہو گئے۔ یہ دیکھ کر میں ذرا سا رکا تو سیما بولی کہ دباو نا بھائی، رک کیوں گئے، مجھے بہت درد ہے۔ اُسکی بے قراری کو دیکھ کر میں زور زور سے ممے کو سہلانے لگا۔ سیما نے اپنی نائٹی کے دونوں پلو ہٹا دیئے اور گرمی کی شکایت کرنے لگی اور اسکے ساتھ ہی نائٹی پوری طرح اُتر گئی۔ اوہ میرے خدا! کیلے کے تنے جیسی گڑری رانیں اور ڈبل روٹی کی طرح پھولی ہوئی پھدی چاندنی رات میں لسکار مار رہی تھیں۔ میں نے چادر سیما پر ڈالی تو سیما نے گرمی کی رات لگا کر چادر پھر ہٹا دی اور پھر سے ننگی ہوگئی۔ میں نے پھر چادر ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے سیما کی ٹانگوں کو سہلانا شروع کر دیا۔ سیما کی نائٹی بیڈ شیٹ بن چکی تھی اور وہ بالکل ننگی ہو چکی تھی۔ میں سیما کی رانوں پہ ہاتھ پھیر رہا تھا کہ سیما نے اپنا دایاں ہاتھ آہستہ سے لونگی سے ڈھاکے میرے لنڈ پر رکھ دیا اور پھر اسکے منہ سے نکلا ” ہے خدایا! یہ تو اب بھی نہیں کھڑا ہوا، اب کیا کروں “۔ میں نے پرانایم کی طرح سانس روک کر لنڈ کو کھڑا نہیں ہونے دیا تھا۔ پھر سیما اُٹھ بیٹھی اور میری ٹانگوں کی طرف چہرہ کرکے لنڈ پر سے لونگی ہٹا دی۔ انڈروئیر میں نے پہلے ہی اُتار دیا تھا اور سیما بڑی دلچسپی سے لنڈ دیکھ رہی تھی۔ پھر سیما بولی ” بھائی تھوڑی دیر کے لئے اپ کو میرا کہنا مننا پڑے گا، کچھ دیر کے لئے آپ بھول جاؤ کہ میں آپکی بہن ہوں، آپ صرف یہ خیال میں لاؤ کہ ہم دو پریمی ہیں اور میں آپکی ایک جوان اور خوابوں میں آنے والی پریمیکا ہوں۔۔ میں ایک لڑکی ہوں اور کچھ نہیں، آپ کے دل میں شاید بہن کی تصویر ہے جس سے یہ کھڑا نہیں ہو رہا ہے۔” میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اُسکا ہاتھ رفتہ رفتہ میرے لنڈ کی طرف بڑھ رہا تھا اور وہ میرے لنڈ کو لگاتار دیکھ رہی تھی۔
سیما نے لنڈ کو اپنے ملائم ہاتھ میں لیا اور بولی “بیٹھی حالت میں بھی کتنا موٹا اور لمبا ہے، کھڑا کرنے کی کوشش کرتی ہوں” یہ بول کر اس نے لنڈ کو پہلے تو چوما اور پھر منہ میں لے کر ممے کی طرح پینے لگی۔ جب وہ ہیلمیٹ کی گردن کو زبان سے گٹار بجانے کی طرح تیزی سے چھیدنے لگی تو لنڈ میرے کنٹرول سے باہر ہو گیا اور لنڈ پھنکار کے ساتھ اسکے گلے میں پھنس گیا۔ اس نے کھانستے ہوئے لنڈ کو منہ سے باہر نکالا اور بولی “شکریہ خدا، میری دعا قبول ہو گئی۔” پورے 10 انچ کا لوڈا پھن اٹھایا کھڑا تھا، اسکے منہ رس سے لنڈ کا ہیلمیٹ چاندنی میں چمک رہا تھا۔ اور سیما اسے بڑے پیار سے نہار رہی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ سے لنڈ کو تھام رکھا تھا لیکن لنڈ کی موٹائی کی وجہ سے موٹھی میں سما نہیں رہا تھا۔ پھر یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ لنڈ پہ جھک گئی ک اسکا اسٹمینا بھی دیکھنا پڑیگا۔ سیما لنڈ کے موٹے ہیلمیٹ کو منہ میں لے کر چوسنے لگی اور منہ کو اوپر نیچے کرنے لگی۔ میں حیران تھا کہ ایک کنواری لڑکی ہوتے ہوئے بھی اسکو سب پتا تھا کہ لنڈ کا کونسا حصہ زیادہ حسین ہوتا ہے۔ وہ بڑی لگن سے لنڈ چوس رہی تھی اور میں اسکی ریشمی زلفوں کو چہرے سے ہٹا رہا تھا جو بار بار اسکے گورے مُکھڑے پہ ڈھلک آتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں میرے صبر کا بندھ ٹوٹ گیا اور وریے کی پہلی تیز دھار اسکے گلے سے ٹکرائی تو وہ کچھ سنبھل گئی، لنڈ سے پچھکریاں چھٹ رہی تھی لیکن اس نے لنڈ کو منہ سے باہر نہیں نکالا۔ اس نے لنڈ کو پوری طرح نچوڑ کر سارا وریے پی لیا اور مرجھایا ہوا لنڈ باہر نکال کر بولی “آپکا پہلوانی پانی تو بہت گاڈھا ربڑی جیسا ہے۔۔ پتا نہیں کتنے دنوں سے اکٹھا کیا ہوا تھا۔۔ میرا تو پیٹ بھر گیا۔ لیکن پانی زرا جلدی چھٹ گیا۔۔ ۔۔ یہ کمزوری بھی شاید لنگوٹ باندھنے سے ہی ہوئی ہے۔۔ آپ فکر نہ کرنا۔۔ ابھی پورا ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔”
میں نے پوچھا کہ تم نے اسکا پانی کیوں پیا؟
سیما بولی کہ بیڈ پہ گر جاتا اور امی کو پتا لگ جاتا تو؟ اور سچ کہوں تو بھائی مجھے اسکا پہلوانی پانی بہت اچھا لگا۔ اب سو جاؤ آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے باقی کل دیکھتے ہیں۔
اگلے دن میں سیما کے آس پاس منڈرانے لگا تو اس نے مجھے یاد دلایا کہ اب دن ہے اور دن میں آپ میرے بھائی ہیں، رات کی بات الگ ہے، رات کا انتظار کرو۔ میں نے سیما کو اپنے پاس لایا اور اسکا چما لیا اور
“thank you”
کہا۔ رات کو ڈنر کے بعد ہم پھر چھت پہ ایک ہی بیڈ پہ ساتھ ساتھ لیٹے ہوئے تھے۔ سیما نے کہا کہ بھائی میرے ٹریٹمنٹ کا کل اچھا نتیجہ نکلا کہ شروعات تو ہوئی۔ آج آپ خود کوشش کریں اور دیکھیں کہ کتنا فائدہ ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ کیسے دیکھوں؟ سیما بولی کہ کل کی طرح خیال کرو کہ میں آپکی گرل فرینڈ ہوں اور آپ مجھے پٹانے کی کوشش کر رہے ہیں یعنی وہ چیز مانگ رہے ہیں۔ میں بولا کہ کون سی چیز؟ سیما خج کر بولی “ہائے خدایا! کتنا بدھو ہے۔ ارے اتنا بھی نہیں پتا کہ لڑکا لڑکی سے کیا مانگتا ہے۔ اب تجھے کیا سمجھاؤں؟” میں بولا کہ میں کچھ سمجھ تو گیا لیکن میں وہ چیز تم سے کیسے مانگ سکتا ہوں؟ سیما جھلا کر بولی کہ کتنی بار کہا کہ ٹریٹمنٹ کے وقت آپ مجھے صرف ایک لڑکی کے نظریے سے دیکھیں گے اور بہن والی سوچ دماغ سے نکال دیں۔ زیادہ وقت ویسٹ نہ کرتے ہوئے میں لنگوٹی اُتار دی۔ اب ہم دونوں پوری طرح ننگے تھے۔ میں سیما پر جھک گیا اور اسکے خوبصورت مُکھڑے کو چمنے لگا۔ پھر ہمارے ہونٹھ مل گئے اور میں پاگلوں کی طرح اسکی مموں کو مسل رہا تھا اور اسکے ہونٹ چوس رہا تھا۔ ہماری زبان ایک دوسرے کے منہ میں اندر باہر ہو رہی تھی۔ میں سیما کو پیار کرتے ہوئے اسکے اوپر چھا گیا۔
وہ بھی مجھ سے چمٹ گئی اور ہم دونوں ایک دوسرے کو پیار کرنے لگے۔ پیار کرتے ہوئے سیما نے نیچے ہاتھ بڑھا کر محسوس کیا کہ میرا لنڈ اس کی ٹانگوں کے درمیان مچل رہا ہے۔ سیما نے اپنا ہاتھ میرے لنڈ پر لگایا تو وہ ایک پتھر کی طرح سخت ہو چکا تھا۔ سیما خوشی سے پاگل ہو گئی کہ اس کے بھائی کا لنڈ جگا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر سیما بہت خوش ہوئی اور اتنی کہ سیما نیچے سے نکل کر میرے اوپر لیٹ گئی اور میرے ہونٹوں کو پیار کرنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میں بہت بڑی مشکل سے نکل چکا ہوں۔ میں تو اپنی سگ پیاری بہن کو اپنے اوپر ننگی پا کر بے قابو ہو رہا تھا۔ سیما پیار کرتے کرتے میرے مضبوط سینے پر آ گئی اور میرے سینے کو اپنے دانتوں سے کٹنے لگی۔ وہ مجھے پیار کر رہی تھی اور اس کا شرمیلا پن نہ جانے کہاں جا چکا تھا۔ سیما میرے اوپر تھی اور میرے سخت ترین لنڈ کو اپنی ٹانگوں کے درمیان فڈی کے پاس محسوس کر رہی تھی۔ سیما پیار کرتے ہوئے میرے برابر لیٹ گئی اور میرا لنڈ اب اسے صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ تقریباً 10 انچ لمبا اور خوبصورت موٹا ہے۔
میں اسکی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا اور اسکی ٹانگوں کو پھیلا کر پھدی چاٹنے لگا۔ میں بھول چکا تھا کہ سیما میری سگی بہن ہے اور سیما تو خوشی سے یہی سوچ رہی تھی کہ اس کے بھائی کی سیریئس اُلجھن ختم ہو چکی ہے۔ پھر میں نے سیما کو نیچے دبوچ لیا اور اسکی ٹانگیں کندھوں پہ رکھ کر اسے پیار کرنے لگا۔ میرا لنڈ اسکی پھدی کے اوپر جیسے ہی ٹکا تو وہ ایک دم پیچھے ہٹ گئی اور بولی “نہ بھائی۔۔ اس سے آگے نہیں۔۔ آپکی پریشانی کریب-٢ سلجھ گئی ہے۔” میں بولا کہ ابھی جلدی پانی چھوڑنے والا مسئلہ تو رہ ہی گیا۔ سیما نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولی کہ ہاں وہ مسئلہ تو باقی ہے۔۔ لیکن شادی سے پہلے وہ ٹریٹمنٹ میں اپنے اوپر نہیں کروا سکتی، ہاں منہ سے کر کے دیکھ لیتی ہوں کہ کچھ فرق پڑا یا نہیں۔ میں بولا کہ اصلی اسٹمینا کا پتا تو لڑکی کے اوپر چڑھ کر پتہ چلتا ہے، کہیں میں تمہاری بھابھی کے اوپر چڑھتے ہی خلاص ہو گیا تو کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہوں گا۔ سیما پھر سیریئس ہو گئی اور بولی کہ ہاں یہ بات تو ہے۔ پھر کچھ سوچ کر بولی کہ ایسا کرو آپ پیچھے سے میرے اوپر چڑھ جاؤ، میرا کنواراپن بھی بچ جائے گا اور اُس سے بھی پتہ چل جائے گا۔ میں بولا کہ آگے اور پیچھے سے کیا فرق پڑتا ہے؟، راستہ تو ایک ہی ہے۔
سیما نے میرے گال کی چٹکی کاٹ کر بولی “بدھو کہیں کا، راستہ ایک نہیں دو ہوتے ہیں، میں پچھلے راستے کی بات کر رہی ہوں۔” یہ کہ کر وہ گھوڑی بن گئی اور اپنے چوڑے چھتروں کو اُنچا کرکے منہ تکیے پہ لگا لیا اور میری طرف دیکھ کر بولی کہ “اب میرے اوپر چڑھ جاؤ اور کرکے دیکھو کتنی دیر تک میدان میں ٹکتا ہے۔” چاندنی رات میں اس کے گورے گورے چتڑ مجھے بہت اچھے لگ رہے تھے۔ میں نے اس کی کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اکڑے ہوئے لنڈ کا ہیلمیٹ اسکی گانڈ کے سوراخ پہ جیسے ہی ٹکا یہ سیما مُڈ کر بولی “بھائی اگر آرام آرام سے کرو اور پورا اندر نہ ڈالو تو میں کرنے دیتی ہوں لیکن پلیز بلکل آرام سے کرنا اور پورا اندر مت ڈالنا۔ جہاں تک آسانی سے جائے وہاں تک ڈالنے دوں گی اور اگر مجھے درد ہونے لگا تو میں تمہیں اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دوں گی پھر تم اس سے آگے نہیں ڈالنا وہیں تک ڈال کر آہستہ آہستہ اندر باہر کر لینا۔” میں خوش ہو گیا اور کہا “ٹھیک ہے میری پیاری بہنا، میں آرام سے کروں گا۔ اور ہاں، پہلے اسے چکنا کر لو، میں پہلی دفا مروا رہی ہوں اور اپکا بہت موٹا ہے۔” میں نے کہا “یہاں تو کریم بھی نہیں ہے، سُوکھا پیچھے سے کیسے اندر جائے گا؟”
پھر سیما بولی “میری ہپ پر اپنی زبان سے تھوک لگا لو اور اپکے اوپر بھی تھوک لگا لو۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ تمہارا اتنا موٹا لمبا کیسے اندر جائے گا۔” میں لنڈ اندر ڈالے بغیر اسکے اوپر چڑھ گیا اور اس کے گردن پر اور سائیڈ سے گال اور ہونٹوں پر کس کرتے ہوئے بولا “سیما، میں تیری گانڈ ماروں گا، تو ایک بار تھوڑا سا درد برداشت کر لینا اپنے بھائی کے لیے۔” میرا لنڈ اس وقت فل کھڑا تھا۔ اور سیدھا ڈنڈا ہو کر اسکی بیک سے چپکا ہوا تھا۔ ایک بار اور میں نے سیما کو کس کیا، پیچھے آ کر چوتادوں کو چوما اور گانڈ کو زبان سے گیلا کیا۔ پھر کمر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر لنڈ کا ہیلمٹ گانڈ پر ٹکایا تو سیما پریشان پریشان دکھ رہی تھی۔ “بھائی، پلیز۔ دیکھو۔ میں تمہاری بھلائی کے لیے بات مان رہی ہوں۔ مگر آرام سے کرنا۔ مجھے درد نہیں ہونا چاہئے۔” یہ کہ کر اس نے ٹانگیں اور چوڑائی کر لی اور گانڈ باہر نکال لی۔ میں بولا “سیما، بس تو فکر نہ کر۔ تو میری اتنی پیاری بہن ہے۔ میں تو تجھے کوئی تکلیف کیسے دے سکتا ہوں۔ میں تو صرف تجھے مزہ ہی دونگا نا۔ آج کے بعد دیکھ لینا تو خود کہے گی۔ کہ میری گانڈ مارو۔” اور میں نے اپنے لنڈ کا ٹاپ اس کی گانڈ کی موڑی پر رکھا اور زور لگایا۔
سیما: “بھائی آہ، آرام سے کرو پلیز، مجھے ڈر لگ رہا ہے، آرام سے اندر ڈالو۔”
اب میں نے دونوں ہاتھ آگے بڑھا کر سیما کے ممے پکڑے۔ اور زور لگا کر اپنا لنڈ سیما کی گانڈ کے اندر کرنے لگا۔ تھوک کی چکناہٹ کی وجہ سے لنڈ آرام سے اندر جا رہا تھا۔ اور سیما آگے آگے ہو رہی تھی تاکہ لنڈ اس کی گانڈ میں زیادہ نہ گھسے۔ میں آرام سے زور دینے لگا اور میرا لنڈ اسکی گانڈ کو دھیلا کرکے اندر جانے لگا۔ ابھی تھوڑا سا ہی گیا تھا کہ سیما کو درد ہونے لگا اور اس نے مجھے روک دیا۔ “بھائی تمہارا لنڈ پہلے سے زیادہ موٹا لگ رہا ہے، مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔ آہ۔۔۔ آرام سے بھائی۔۔۔ آئی ما۔۔۔ بھائی میں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتی ہوں لیکن پلیز بلکل آرام سے کرو آہ آرام سے بھائی آہ درد ہوتا ہے تھوڑا پیچھے کرو ہاں اب آرام سے اندر کرو اُمم بھائی آہ آرام سے ہم بھائی آرام آرام سے کرو بھائی مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میری گانڈ پھٹ رہی ہو آہ ہمم۔” میں نے آرام سے اپنا لنڈ اندر بھیا باہر کرنا شروع کر دیا، میں تھوڑا سا لنڈ باہر نکالتا پھر اندر ڈال دیتا، میرا لنڈ 2، 4 جھٹکے مارنے کے بعد تھوڑا سا سیما کی گانڈ میں پہلے سے زیادہ اندر چلا جاتا۔
سیما: “بھائی آرام آرام سے زور دو اور آج اپنی سیما کی گانڈ کا مزہ لو آہ بھائی زور دو آرام سے ہاں بھائی آرام سے زور دو تھوڑا تھوڑا اندر جا رہا ہے آہ بھائی آہ آرام سے کرو۔”
بھائی تھوڑا اور تھوک لگا ک پھر ڈالو لیکن بھائی اپنی سیما کی گانڈ میں آرام سے ڈالو اپنا لنڈ۔
میں نے آرام سے اپنا لنڈ سیما کی گانڈ سے نکالا اور کافی سارا تھوک سیما کی گانڈ کے سوراخ پر لگا دیا اور پھر اپنا لنڈ پکڑ کر سیما کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر زور دیا تو میرا لنڈ پہلے سے کافی آرام سے سیما کی گانڈ میں چلا گیا۔ سیما کی گانڈ بہت ٹائٹ تھی مجھے بہت مزہ آیا جب لنڈ سلپ ہو ک اندر گیا میں نے لنڈ باہر نکال ک دوبارہ اندر زور دیا تو لنڈ دوبارہ آرام سے سیما کی گانڈ میں چلا گیا مجھے مزہ آ رہا تھا میں بار بار ایسا کرنے لگا اور کچھ دیر میں میرا آدھا لنڈ سیما کی گانڈ میں گھس گیا تھا۔
سیما: بھائی اب درد کم ہو رہا ہے تھوڑا اور تھوک لگاؤ اس سے چکنا ہو ک جاتا ہے تو مجھے درد نہیں ہوتا۔
میں نے اپنا لنڈ سیما کی گانڈ سے نکال لیا اور پھر کافی تھوک سیما کی گانڈ پر لگایا۔ سیما نے مڑ کر میرا لنڈ اپنے منہ میں لیکر گیلا کیا اور میں نے دوبارہ لنڈ سیما کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر زور دیا واہ میرا لنڈ بڑے پیار سے آرام سے سلپ ہو ک سیما کی گانڈ میں چلا گیا میں نے تھوڑا زور دیا تو میرا لنڈ پہلے سے زیادہ سیما کی گانڈ میں گھس گیا۔
میں نے لنڈ باہر نکال ک کافی سارا تھوک لگایا اور پھر سیما کی گانڈ میں ڈال دیا اور زور دیتا گیا اس بار میرا پورا 10 انچی لنڈ سیما کی گانڈ میں آسانی سے گھس گیا۔
میں نے اس کے مماؤں سے پکڑا، اور ایک جھٹکا دیا۔ میرے تتے اس کی گانڈ سے چپک گئے۔ میں اس کے ساتھ پیچھے سے لپٹ گیا۔ سیما کی چیخ نکل گئی۔ “بھائییییییییی۔۔۔ آاااااااہ۔۔۔ بس۔۔۔ بس۔۔۔ براہ کرم۔۔۔ رک جاؤ۔۔۔ میری گانڈ پھٹ گئی ہے۔ براہ کرم بھائی۔۔۔ ” میں سیما کو کس کرنے لگا۔ گردن پر۔۔۔ کمر پر۔۔۔ اور ایک ہاتھ سے اس کے مماؤں دبا رہا تھا۔ اور دوسرا ہاتھ اس کی پھدی کے ٹینٹ پر لے گیا اور رگڑنے لگا۔ اور لنڈ کو آرام آرام سے اندر باہر کرنے لگا۔ “سیما بس۔۔۔ آہستہ بولو کہیں امی ابا نہ جاگ جائیں۔۔۔ اب تو جتنا درد ہونا تھا ہو گیا ہے۔۔۔ اب تو تو مزے میں جھولا جھولے گی۔۔۔ ” اور وہی ہوا۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد۔۔۔ سیما اپنی گانڈ مروانے کا مزہ لینے لگی۔۔۔ میں آرام آرام سے strokes مار رہا تھا۔ آہ بھائی آرام سے کرو نہ مزہ آتا ہے آرام سے کرنے میں آہ ہاں بھائی کرو اب ٹھیک ہے ہاں بھائی اندر باہر کرو پورا لنڈ نکال ک پھر اندر ڈال دو چھوڑو اپنی بہن کی گانڈ میں اور کرو بھائی تھوڑا تیز تیز کرو مزہ آ رہا ہے آہ بھائی مزہ آ رہا ہے ہمم۔
میرا پورا لنڈ تمہاری گانڈ میں چلا گیا ہے میں پورا لنڈ باہر نکال ک دوبارہ تیری گانڈ میں ڈال رہا ہوں بہنا مجھے بہت مزہ آ رہا ہے آپ کی گانڈ بہت ٹائٹ ہے مجھے اور میرے لنڈ کو بہت مزہ آ رہا ہے۔
سیما: آہ بھائی۔۔۔ مجھے بھی بہت مزا آتا ہے میں بہت ڈرتی تھی کہ گانڈ میں ڈالوانے سے بہت درد ہو گا لیکن بھائی تم نے اتنا پیار سے ماری ہے کہ مجھے اتنا درد نہیں ہوا اب مجھے مزا بھی آ رہا ہے،
جھٹکے نہ مارو بھائی بس سپیڈ تیز کر دو مجھے مزا آ رہا ہے بھائی میں فارغ ہونے والی ہوں۔۔ آہ بھائی میں گئی ۔،میں جھڑ رہی ہوں، ہائے نیچے میری کنواری پھدی سے ٹپ ٹپ پانی گر رہا ہے۔۔ آہ۔
سیما فارغ ہو گئی مجھے بھی بہت مزا آ رہا تھا میں نے اُسکی گانڈ میں جھٹکے مارے اور سیما میرے آگے اپنی گانڈ کو بڑے پیار سے تال سے تال ملا رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اُووووف۔۔۔ ۔اور یکدم ۔ ۔۔ میں اُس کی گانڈ کے اندر ہی چوٹ گیا ۔۔ ۔ ۔۔ ۔اُس کی گانڈ میں فارغ ہو گیا میرا لنڈ جھٹکے مار رہا تھا جب سیما کی گانڈ کو کم سے بھر رہا تھا مجھے اُس کی گانڈ میں فارغ ہونے میں بہت مزا آ رہا تھا میرا لنڈ خوش تھا ہارد تھا میں تھوڑا تھوڑا لنڈ کو ہلا رہا تھا سیما کی گانڈ بہت ٹائٹ تھی مجھے سچ میں بہت مزا آ رہا تھا۔
میں نے آرام سے اپنا لنڈ سیما کی گانڈ سے نکالا تو سیما فوراً واپس گھومی۔ ۔اور گھٹنوں پر بیٹھ کر میرا لنڈ چوسنے لگی۔ ۔ ۔ ۔اور ایک ایک ڈراپ صاف کر لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ “بھائی۔ ۔ ۔ واقعی ۔۔ ۔ گانڈ مروانے میں تو بہت مزہ ہے ۔۔ ۔ ۔ میں تو ایسے ہی ڈر رہی تھی ۔ ۔۔ ۔” میں اپنی 18 سال کی آدھی کنواری بہنا کے معصوم چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ آدھی کنواری اسلئے کیونکہ اُسکی گانڈ کی سیل ٹوٹ چکی تھی۔ وہ میرا لنڈ چوس رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ کسی لالی پاپ کی طرح ۔ ۔۔ ۔ اُف ۔ ۔ کتنی سیکسی ہے میری بہن ۔ ۔۔ ۔ میں اُس کے ممے دبانے لگا۔ وہ مجھ سے لپٹ کر بولی کہ میرے بھائی کا اب بالکل ٹھیک ہو گئے ہیں، بھائی رات بہت بیت چکی ہے اب سو جاتے ہیں ۔ ۔۔ ۔۔
اگلے دن وہ مجھے گاؤں گھمانے لے گئی اور سب سے میرا انٹراڈکشن بڑے گرو سے دیتی تھی اُسکی سہیلیاں مجھے بڑی چاہت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں، سیما بولی بھائی ان گاؤں لڑکیوں کے چکر میں مت آنا یہ سب بہت چالو ہیں۔ میں نے کہا چل میں کسی کے چکر میں نہیں آؤں میں تو صرف تیرے چکر میں ہی آؤں گا۔۔ میری محبوبہ۔ وہ آہستہ سے بولی اچھا میرے محبوب زیادہ اُنچا نہ بولو۔ گھر واپس آئے تو امی نے سیما کو کہا کہ کھانا کھا کر اپنے بھائی کو کھیتوں کی بھی سیر کرا دے۔ سیما نے مجھ سے کہا کہ بھائی کھانا کھا کر آج اپنے کھیتوں میں چلتے ہیں۔ ہم کھیتوں کی طرف چل پڑے۔
لہنگا چولی پہنی ہوئی سیما میرے آگے آگے پگ ڈنڈی پر چل رہی تھی۔ چلتے ہوئے اُسکے کولہے 61-62 کر رہے تھے، وہی گانڈ جو میں نے کل رات ہی ماری تھی، میرے دل پہ پھر سے چھریاں چلانے لگیں۔ میں نے سیما کی گانڈ پہ ہاتھ پھیر کر چھیڑتے ہوئے کہا ” کتنی سیکسی لگ رہی ہے، جی کرتا ہے یہیں راستے میں ہی گھوڑی بنا کر مار لوں۔” سیما نے کہا کہ آپکو مذاق سجھ رہا ہے اور میری ابھی تک دَرد کر رہی ہے، میں نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے اور اب اپکا ٹریٹمنٹ ختم، اب مجھے چھیرہ تو امی کو بتا دوں گی۔ میں چپ ہو گیا۔ ہمارے کھیت میں ایک پانی کا پکا ٹینک ہے جسے نہانے کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں، میں نے کہا سیما میں تو پانی میں نہونگا اور میں اپنے کپڑے اُتار کر پانی میں کود گیا۔ میں نے کہا سیما تو بھی آجا۔ نہیں بھائی میرے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ میں نے کہا میں پیٹھ کر لیتا ہوں تو اپنے کپڑے اُتار کر نیچے آ جا اور پانی تو ویسے بھی گردن-2 تک تھا۔۔۔ سیما بولی ٹھیک ہے آپ اُس طرف پیٹھ کرو اور اپنی آنکھیں بند کر لو، میں نے کہا ٹھیک ہے۔۔۔
میں پوچھا آنکھیں کھول لو ؟
۔۔ابھی نہیں۔۔۔
میں نے پھر پوچھا اب کھول لو۔۔
وہ بولی ابھی نہیں۔۔۔
میں آہستہ سے آنکھیں کھولی تو دیکھا سیما اپنی چولی اُتار چکی تھی اور اپنے لہنگے کا ناڈا کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ہائے۔۔۔۔کیا ممے تھے ۔۔۔۔ کیا ناف کا گڑھا تھا۔۔ رات کو گانڈ مارتے وقت اچھی طرح نہیں دیکھ سکا تھا۔
میں تو مر ہی گیا اُسکی نظر نیچے تھی اس لئے میں جلدی سے پیٹھ کر لی کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے۔۔ میں نے پہلی بار کسی لڑکی کی ممے دن کے اُجالے میں دیکھی تھی وہ بھی اپنی بہن کی۔۔ میرا لنڈ ڈیوٹی پر کھڑا تھا اور وہ انڈر ویئر کو پھاڑنے کو ہو رہا تھا۔۔
میں نے پھر پوچھا ہو گیا ہو تو آنکھیں کھول لو۔۔ ؟
بس 1 سیکنڈ۔
میں جھٹ سے آنکھیں کھول کر مڑا تو دیکھا سیما اپنا لہنگا اُتار چکی تھی اور صرف کالی برا اور سفید پینٹی میں تھی۔ پینٹی کے ابھار سے ہی لگ رہا تھا کہ پھدی کافی گڑائی ہوئی ہے۔ آپ لوگ گاؤں کی لڑکیوں کی برا تو جانتے ہی ہونگے کس کوالٹی کی ہوتی ہیں جنکے پہننے سے بھی نپل تک دکھائی دیتے ہیں۔ سارے ممے باہر آنے کو ہی تھے۔
وہ مجھے اپنی طرف دیکھتا پا کر ایکدم سے شرما گئی۔۔ اور بولی اے اُدھر منہ کرو چیٹنگ نہیں۔۔
میں نے کہا سوری بابا تم نے کہا تھا نہ ہو گیا اس لئے۔۔ چلو اب جلدی سے پانی میں آ جاؤ۔۔ وہ پانی میں کود گئی پانی اُسکی گردن-2 تک تھا لیکن پھر بھی پانی میں اُسکے ممے صاف-2 دکھ رہے تھے۔ اور سفید پینٹی بھی پھدی سے چِپک گئی تھی۔ جس سے گوری پھدی صاف نظر آرہی تھی۔ میرا برا حال تھا۔۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔
ہائے ظالم اگر بہن نہیں ہوتی تو ابھی یہاں پٹک کے چود دیتا۔۔ لیکن معاملہ بہن کا تھا تو میں کوئی جلدبازی نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ میرے سے کچھ دوری بنائے ہوئے تھی۔ ہم پانی میں مستی کر رہے تھے وہ میرے اوپر پانی پھینک رہی تھی اور میں اس پر۔۔ تالاب میں تھوڑی بہت مچھلیاں بھی تھیں۔ اچانک ایک مچھلی سیما کے برا میں گھس گئی۔۔ سیما چلّائی بھائی بچائو میں نے کہا کیا ہوا اُس نے ممے کے درمیان اشارہ کرتے ہوئے کہا کے ایک فش یہاں گھس گئی ہے۔۔ مجھے تو اسی موقع کی تلاش تھی میں سیما کے پاس گیا فش اُس کی ممے کی دراڑ میں تھی میں نے اُسے اپنے ہاتھ اُپر اُٹھانے کو کہا اور پیچھے سے کمر کو پکڑ کر اپنا ایک ہاتھ ممے کے پاس لے گیا میرا ہاتھ اُس کی ممے سے ٹکرایا تو ایک کرنٹ سا دور گیا بادی میں۔۔ سیما کا بھی چہرہ لال ہو گیا تھا۔۔ میں جیسے ہی ہاتھ بڑھایا تو چھوٹی سی مچھلی اور اندر چلی گئی۔۔ میں اور اندر ہاتھ ڈالا میرا ہاتھ سیما کی ممے پہ اِدھر اُدھر گھم رہا تھا۔ میںے لطف لیتے ہوئے کہا “جائے گی کہا ,ابھی نکلتا ہوں ” پھر میں نے ایک پوری ممے میرے ہاتھ میں تھام لی۔۔ فش اس ممے سے سٹک کے دوسری طرف چلی گئی۔۔ تو میں نے دوسری ممے کو یہ کہ کر زور سے مسل دیا کہ میں اس مچھلی کو یہاں مار ڈالوں۔ اسی بہانے سے دوسری ممے کو بھی مسل دیا۔
سیما کا بُرا حال تھا، میرا لنڈ بھی پورا کھڑا تھا جو سیما کی رگڑ سے اور بھڑک گیا اور سیما کو بھی میرے لنڈ کا پورا احساس ہو گیا۔ کیونکہ پیچھے سے میرا منہ اُسکی گردن پہ اور لنڈ اُسکے بھاری چُتروں کے درمیان گڑ رہا تھا۔ میں نے کہا ایسے نہیں منیگی یہ، میں سیما کو گھما کر اپنے سینے سے لگایا تو لنڈ بھی پینٹی کے اوپر سے پھدی پہ گڑنے لگا۔ میں نے پیچھے ہاتھ کر کے اُسکی برا کھول کے پھینک دی ممے آزاد تھے۔ سیما کی سانس میں سانس آئی۔ فش نے سیما کی کمال-2 ممے پر اسکریچ کر دئیے تھے۔ میرے بھینچنے سے ممے پھول کر تن گئے تھے۔ سیما کا بُرا حال تھا۔ میں نے کہا ارے یہاں سے تو لال ہو گئی ہے، یہ کہ کر میں اُس جگہ کو زبان سے چٹنے لگا اور پھر نپل کو منہ میں بھر کر چوسنے لگا تو سیما کی سسکی نکل گئی اور بولی رہنے دو، ٹھیک ہے بھائی اُس نے شرماتے ہوئے اپنی ممے پر ہاتھ رکھ لیا اور میری طرف پیٹھ کر لی کیونکہ اب ہم کمر-2 پانی میں تھے ممے پانی سے کافی اُوپر تھیں اور بے پردہ تھیں، سیما کو میں نے اپنے کھڑے لنڈ کا احساس تو کرا ہی دیا، تھا۔
سیما پیٹھ کر کے پانی سے باہر جانے لگی، میں نے پوچھا باہر کیوں جا رہی ہو، وہ بولی نہیں تم بدمعاشی کرتے ہو اور میرے انڈر وئر کے تمبو کو دیکھتی ہوئی بولی اب آپ نارمل لڑکے بن گئے ہو، اب تو آپ سے دور ہی رہنا پڑیگا۔ میں نے ہمت کر کے اُسکا ہاتھ پکڑا اور اُسے پانی میں کھینچ لایا۔ نہیں بھائی۔۔ پلیز مجھے چھوڑ دو میں نے اُسے بانہوں میں بھر لیا اور اُسکی کھلی ممے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔
ہائے بھائی یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔ میں مر جاؤں گی۔۔۔
میں نے کہا سیما، میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔ اور میں تمہیں ایک لڑکی کے رُوپ میں ہمیشہ کے لیے پانا چاہتا ہوں۔۔۔۔
اُس نے پھٹیں-2 آنکھوں سے مجھے دیکھا۔۔
کیا؟؟؟–
– میں نے کہا ہاں۔
سیما: نہیں بھائی ۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔ ہائے مجھے نہ جانے کیا ہو رہا ہے؟
میں: کیون؟
سیما: میں بھی اپکو پیار تو کرتی ہوں پر پتہ نہیں یہ ٹھیک ہے یا نہیں کیونکہ میں اپکی سگی بہن ہوں۔۔
میں: اب بھی کچھ کسر باقی ہے۔۔۔ کل رات تمہاری پچھلی سیل میں توڑ چکا ہوں اور اب تیرے کھلے ممے میرے ہاتھ میں کھیل رہےہیں، ویسے سچ بتا اندر سے تو بھی یہی۔۔۔ چاہ رہی ہے نا۔۔اور تو جانتی ہے کہ میں تجھے کتنا چاہتا ہوں۔۔ سیما! پلیز مان جا ہم دونوں کو بہت مزا آئے گا۔۔
میں لگاتار اُسکی ممے کو سہلانہ رہا اور اُنکے نپلوں کو گھما رہا تھا۔
اُسکے ممے پہ لزت کی وجہ سے لال-لال دانے سے اُبھر آئے تھے۔ میں نے اپنا لنڈ کھول کر سیما کی گانڈ میں ٹکا دیا اور پینٹی کے اوپر سے ہی دھکے مارنے لگا، میری لڑکی کا بُرا حال تھا۔ اُسکے ممے کی چونچ پوری طرح کھڑی تھی، میں نے آہستہ سے اُسے اپنی طرف گھمایا اور اپنا منہ اُسکے ممے پر لگا دیا اور اُنہیں چوسنے لگا۔
سیما نے پھر ریکوئیسٹ کی۔۔۔ نہیں بھائی پلیز مجھے جانے دو
اور مجھے دھکّا دے کر میرے لنڈ کی طرف دیکھتی ہوئی پانی سے باہر آ گئی۔۔ واہ اُسکے چوڑے چُتڑ ! اور اپنے کپڑے لے کر کوٹھری میں چلی گئی۔
جب وہ باہر آئی تو لہنگا چولی پہنی ہوئی تھی۔ میں نے بھی اپنے کپڑے پہن لیے۔ اُس نے گِلّی پینٹی میرے ہاتھ دیتے ہوئے کہا کہ بھائی ایک بار پکڑنا میں اپنے بال تھیک کر لوں۔ پینٹی کو نچوڑتے ہوئے میں نے کہا کہ زیادہ گِلّی تھی اب گھر پہنچنے تک سُوکھ جائے گی۔ اور دونوں گھر کی طرف چل دیے، راستے بھر میں اُسکے کمر کی لچک اور بِنا پینٹی کے لہنگے سے جھانکتے مٹکتے قاتل چُتڑوں کو دیکھتا رہا۔۔ آہ۔۔جی کرتا تھا کہ لہنگا اٹھا کر راستے میں ہی گھوڑی بنا کر چود ڈالو اور یہ سفر کبھی ختم نہ ہو۔
کوئی کسی سے کچھ نہیں بول رہا تھا۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچے تو آہستہ سے مسکراتے ہوئے اُس نے میرے ہاتھ سے پینٹی لے لی۔ گھر کے اندر داخل ہوتے وقت مینے سیما کے چُتڑوں پہ چٹکی کاٹ لی تو اُس نے غصے سے میری طرف گھورہ تو میں بھی اُس سے ناراض ہو گیا۔
ماں بولی کہ ارے بچو تم نے بہت دیر کر دی، ارے ہم اور تمہارے ابا ماموں کے ہاں جا رہے ہیں اُنہوں نے سیما کے لیے کوئی بہت اچھا رشتہ بتایا ہے، ویسے تو کہیں نکل نہیں پاتے اب تو تم ہو گھر پر سیما کی دیکھ بھال کرنے کے لیے۔۔ امی ابا چلے گئے گھر پہ میں اور سیما اکیلے تھے۔ میں ناراضگی سے اپنے روم میں اکیلا بیٹھا تھا تبھی سیما آئی بھائی چلو کھانا کھا لو میں نے کہا مجھے بھوک نہیں ہے تو کھا لے۔
وہ بولی کھانے سے کیا غصہ وہ مجھے ہاتھ پکڑ کے لے جانے لگی، اُسکے چھوٹے ہی مجھے کرنٹ سا لگا میں نے اُسے پھر پکڑ لیا اور بہوں میں بٹھایا ہوئے اُسکے ہونٹوں پر ایک لمبا فرنچ کس کیا۔ وہ بولی اچھا کر لیا اب خوش ہو نا چلو اب کھانا کھا لو۔۔میں نے کہا ایک اور۔ ہائے خدایا ! کتنے بیصبر ہو۔۔یہ بول کر اُس نے آنکھیں بند کرکے مُکھرا اُپر اُٹھا لیا،اور ہمارے ہونٹ ایک دوسرے سے سل گئے۔ اور اُسکی زبان نکل کر میرے منہ میں آگئی۔ ہم سدھ بدھ کھو بیٹھے۔ تھوڑی دیر میں اُسے ہوش سا آیا اور بولی کہ پہلے کھانا تو کھا لو اور اپنے کو چھوڑ کر چلی گئی۔ ہم نے ساتھ کھانا کھایا میں سیما کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے لگا۔۔ وہ بولی ارے بابا اتنا پیار مت کرو بھائی میں کوئی بچی نہیں ہوں کھانا کھا لونگی۔۔ میں پھر بھی نہیں مانا میں کور تود-٢ کر اُسے کھلاتا رہا پھر وہ بھی مجھے کھلانے لگی۔۔ ہمارے درمیان اب کوئی ناراضگی نہیں تھی۔۔ مجھے لگا کہ شاید اب بات بن سکتی ہے۔۔اب سونے کی تیاری شروع ہوئی۔۔ سیما نے میرا بستر ٹھیک کر دیا اور خود اُپر والے روم میں جانے لگی۔۔۔میں نے کہا اُپر اکیلے کہاں سوئے گی وہاں بھوت آ جائے گا۔۔ وہ بولی بھائی مجھے بھوتوں سے ڈر نہیں لگتا۔۔ ڈر لگتا ہے تو آپ جیسے لڑکوں سے۔۔ اور ہنسنے لگی۔۔ میں نے اُسے پیچھے سے پکڑ لیا اور اُسکی ممے پہ ہاتھ پھیرنے لگا، اچھا چھوڑو بھی آ چھوڑو بھی آتی ہوں زرا کِچن ٹھیک کر آؤں، پر پلیز سونے دینا پریشان مت کرنا۔۔۔۔
میں نے کہا ٹھیک ہے۔۔تھوڑی دیر میں وہ متھکتی ہوئی آئی اور فولڈنگ بیڈ لانے لگی، میں نے کہا اسکی کیا ضرورت ہے اتنا بڑا ڈبل بیڈ پڑا ہے۔۔ بولی آپکو پریشانی ہوگی۔۔۔ میں بولا کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ وہ بولی کہ ٹھیک ہے پر بدمعاشی نہ کرنا، مجھے سونے دینا۔ میں نے کہا اوکے۔۔ میں نے لائٹ آف کیا اور اُسے بیڈ پر لے گیا۔ وہ میری طرف پیٹھ کر کے لیٹ گئی۔ میں نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اُس کی طرف بڑھا کر اُس کی ممےوں پر رکھ دیا، سیما سہر گئی لیکن بولی کچھ نہیں وہ میرے ارادے اچھی طرح سے بھانپ چکی تھی۔۔۔ میں نے آہستہ سے اُس کی چولی کی ڈوری پیچھے سے ڈھیلی کر دی، ممے آزاد ہوگئی۔۔ میری لڑکی سہر گئی۔۔ بھائی پلیز۔۔ سونے دو نا۔۔ میں بولا۔ دیکھ کل کے دن تو پرائی ہو جائے گی تیری شادی کی بات چل رہی ہے۔۔ کسی انجانے سے چھڑے گی۔۔ میں تیرا بھائی تجھے کتنا چاہتا ہوں۔۔ تیرا کتنا دھیان رکھتا ہوں۔۔ اب کے بعد نہ جانے ہم کب ملے۔۔ تیرے اس روپ رنگ پر میرا بھی تو کچھ حق بنتا ہے سیما۔ وہ چپچاپ سن رہی تھی۔۔۔ دیکھ آج میں کتنا تڑپ رہا ہوں پلیز میری بات مان جا۔۔ اوہ! بھائی آپ تو لگتا ہے کہ بگڑ گئے ہو، کاش میں اپکا ٹریٹمنٹ نہ کرتی۔۔۔ اب تو لڑکی کو دیکھ کر آپ سے ذرا بھی کنٹرول نہیں ہوتا۔ وہاں تلاب میں بھی اپکا وہ کیسے ڈنڈے کی طرح کھڑا تھا۔ میں نے کہا کہ صرف تمہیں دیکھ کر ہی میرا دل بےکابو ہو جاتا ہے۔ سیما بولی کہ دل ہی کیوں اب تو یہ بدمعاش بھی تو مجھے چھوتے ہی پھن اُٹھا لیتا ہے۔۔۔ کہہ کر اندھیرے میں ہی میرے طنے ہوئے لنڈ کو دبا دیا۔”ہائے خدایا ! یہ تو اب بھی کھڑا ہے۔۔۔کتنا لمبا اور موٹا ہے۔
پھر بولی “بھائی کسی کو پتا چل گیا تو؟” میں نے کہا “نہ تو میں کسی کو کہنے والا اور نہ ہی تم کہ ہم بہن بھائی اپس میں چدائی کرتے ہیں، کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔”
” دیکھ لو بھائی۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ اگر آپ مجھے اتنا ہی پیار کرتے ہیں تو۔۔ جیسی آپ کی مرضی۔۔ ۔ چلو میں دن میں آپ کی بہن اور رات میں پریمیکا کا رول نبھاؤں گی۔۔پلیز بھائی آپ اوپر اوپر سے پیار کر لو۔۔لیکن اندر نہ ڈالنا۔
میں نے اسکا ایموشنل بلیک میل کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ابھی پورا اعتماد نہیں ہے کہ شادی کے بعد جب میں اصلی چیز میں ڈالوں تو کتنی دیر ٹھہر پاؤں گا۔۔پتہ نہیں میں کچھ کر بھی پاؤں گا یا نہیں کیونکہ لڑکی کی اگلی میں نے کبھی ڈال کر نہیں دیکھا، پلیز یہ میری زندگی کا سوال ہے۔
سیما بولی کہ بھائی میں کنواری ہوں، مجھے ڈر لگتا ہے، اتنا موٹا کیسے جائے گا اگر ڈالنا ہی ہے تو آہستہ آہستہ آرام سے اندر ڈالنا، اپکا بہت موٹا ہے، میں نے بھی یہ سب پہلے نہیں کیا ہے۔”
اتنا سنتے ہی میرا من جھوم گیا۔ میں نے لائٹ جلا دی اور جلدی سے اُسکے لہنگے کا ناڑا کھول دیا اور اپنا انڈر ویئر بھی اُتار دیا۔۔۔۔ سیما کی ڈبل روٹی جیسی پھدی پر ایک بھی بال نہیں تھا۔
میں نے پوچھا “تم تو بالکل صاف رکھتی ہو” وہ بولی کہ بھائی جس دن آپ آئے تھے اُسی دن میں نے صاف کی تھی۔
سیما کی مچھلتی ننگی جوانی میری بہوں میں مچل رہی تھی۔ میں نے اُس کے بھاری چوتڑوں کے نیچے تکیہ لگایا اور سدول رانوں کو چوڑائی کرکے اُس کی پھدی کو جی بھر کے چوما اور زبان سے چاٹا۔ جب اُس کی سسکیاں بڑھ گئی تو اُس کی دونوں ٹانگوں کو کندھوں پر رکھ کر میں نے جلدی سے اپنا لنڈ اُس کی پھدی پر ٹکا دیا اور ایک زور سے جھٹکا دیا۔۔۔ موٹے ہیلمیٹ نے میری لڑکی کی پھدی کے پٹ کھول دئیے۔۔۔ پھدی سے خون بہ نکلا۔۔بھائی۔۔۔ اُس کی آنکھوں سے آنسوں چھلک آئے میں نے اُسے پیار کر کر کے سمجھایا۔
میری لڑکی نے بڑی ہی ہمت سے کام لیا اور شروع کا درد پی گئی۔۔۔ اب تو لنڈ اور پھدی کا کھیل شروع ہو گیا۔۔۔۔پہلے چدائی سے سے سک۔۔سک،سک کی آواز ہو رہی تھی پھر جلدی ہی اُس کی چوت پریم رس سے سراب ہو گئی۔۔۔۔ اور مدھر چدائی کی آواز بدل گئی۔۔۔فچ،فچ گپ،گپ۔۔اوئی ماں۔۔۔سیہما نیچے سے چوتڑ اچھلنے لگی۔۔۔اہ۔۔اور زور سے۔۔یا۔۔یا۔۔اور تیز۔۔بھائی پورا۔۔جد تک گھسا دو۔۔یا۔۔یا۔۔ آئی۔۔آئی۔۔ہائے میں گئی۔۔سیما بری طرح جھڑ کر مجھ سے چپک گئی تو میرے لنڈ سے بھی پیار کا جھرنا پھٹ پڑا۔ ہم ساتھ ہی منزل پر پہنچے۔۔۔
اُس رات میں نے سیما کی کوئی 5 بار لی۔ ہم صبح 9 بجے تک ایک دوجے سے لپٹے سوئے رہے۔ پھر فریش ہو کر ناشتے کے بعد اُس نے مجھے اپنی پھدی دکھائی جو کہ بری طرح سے سوج چکی تھی۔ میں نے کاٹن روئی کو گرم پانی میں بھگو بھگو کر اُسکی پھدی کو دھویا۔ گرم پانی کی سیکائی کرتے کرتے اُسکی پھدی کا ٹنٹ ٹن گیا اور اُسکی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بھیگے ہوئے تازہ گلاب جیسی پھدی کو دیکھ کر میں پھر بے کابو ہو گیا اور اُسکی پھدی پر منہ ٹیکا کر زبان سے چاٹنے لگا۔ سیما کا ہاتھ میرے سر پہ آگیا، میں پھدی کے کھڑے ٹنٹ کو منہ میں لے کر چوسنے لگا تو سیما میرے بالوں میں انگلیاں پھیرانے لگی۔ توا گرم دیکھ کر میں پھر سے اُس کے اُوپر چڑھ گیا اور پورا لوڈا ایک ہی دھکے میں پھدی میں گھسا دیا۔ سیما نے میرے منہ میں زبان ڈال دی، اُسکی ٹانگیں میری کمر پہ آگئی۔ اُسکی زبان چوستے ہوئے میں دھکے لگانے شروع کر دیے۔ ڈنڈ پیلنے کی پریکٹس اب کام آ رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں مزے سے اُسکی سسکیاں نکلنے لگیں، وہ سارا درد بھول گئی کہ اُسکی پھدی سوجی ہوئی ہے اور نیچے سے چتڑ اچھال اچھال کر میرا ساتھ دینے لگی۔
سیما سسکیوں کے درمیان بول رہی تھی۔” اوہ۔۔میرے بھائی۔۔میرے ساجن۔۔زرا اور تیز۔۔اہ۔۔اُئی ما۔۔کتنا مزا آ رہا ہے۔۔بھائی۔۔میں گئی۔۔یہ کہ کر وہ مجھ سے چھپکلی کی طرح چپک گئی اور میں نے بھی ایک زوردار آخری شاٹ مارا اور لنڈ کو جد تک گھسا کر اسکی بچیدانی میں پیار کی برسات کر دی۔ سیما کی آنکھیں لذت سے بند تھیں۔ ہمارا ہنی مون پریئڈ کوئی 7 دن تک چلا، میں نے سیما کو جم کے چودا۔ ہمارے پیرنٹس آنے کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔۔ پھر سیما کے پریئڈز رک گئے، اس نے جب یہ بتایا تو میرے پیر کے نیچے سے زمین ہی کھسک گئی۔۔ ادھر میرے جانے کا ٹائم بھی آ گیا۔۔ میں نے ایک ترکیب نکالی، میں نے ماں کو سمجھایا کہ میں نئے شہر میں جا رہا ہوں وہاں مجھے کھانے پینے کی کتنی پریشانی ہوگی، میں سیما کو ساتھ لے جاتا ہوں، یہاں گاؤں میں پڑھائی بھی کوئی زیادہ اچھی نہیں ہے،۔ شہر کی پڑھائی سے اسکا کیریئر بن جائے گا۔ اور آپ ابھی شادی کی فکر چھوڑ دو وہ میں مینج کر لوں گا۔
ماں مان گئی۔۔سیما میرے ساتھ شہر آ گئی۔۔ اب تو دن بھی ہمارے اور رات بھی ہماری۔۔ میں نے سیما کا ابورشن کرا کے اُس کے لیے دھیر ساری پریگننسی روکنے کی گولیاں لے آیا۔۔
شہر میں ہم دونوں ایک کپل کی طرح رہنے لگے، بلکہ ہمارے گھر کے آس پاس کے لوگ ہمیں میاں بیوی ہی سمجھتے ہیں۔
کچھ مہینوں بعد مجھے کسی کام کی وجہ سے گھر آتے کافی رات ہو گئی تو سیما ایموشنل ہو کے کہنے لگی “بھائی آپکا تو پتا نہیں لیکن مجھے اب آپ سے ذرا سی بھی دوری برداشت نہیں ہوتی، اور اب مجھے آپ کو چھوڑ کے کسی اور سے شادی کرنے کی سوچ ہی مار دیتی ہے، میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی، پلیز مجھے اپنے سے دور مت کرنا، کبھی بھی، چاہے مجھے ایک رکھیل کی طرح ہی کیوں نہ رکھو”۔۔
حال اب میرا بھی ویسا ہی تھا۔ میں شروع میں صرف اس کے نشیلے جسم پہ فدا ہوا تھا، اس کی محبت میں گرفتار ہونا میرا پلان نہیں تھا۔
مہینوں بھر ایک دوسرے کی باہوں میں سونے اور ہر رات پیار کے کھیل کھیلنے کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا، اس لیے میں بھی اُسے اتنا ہی چاہنے لگا تھا، لیکن میرے پاس وہ الفاظ نہیں تھے جو اس نے کہے تھے۔
میں نے اسے اپنے اوپر کھینچ کر لپٹایا اور کہا، “تو پھر ٹھیک ہے آج کے بعد اگر تمہیں بیڈروم سے باہر میری بیوی بننا منظور ہو، تو پھر میں تمہیں اپنے بیڈروم میں اپنی رکھیل بنا کر رکھنے کو تیار ہوں۔”
اس نے خوش ہو کر جواب میں مجھے ہنستے ہوئے ایک تھپڑ مارا اور دوبارہ میری باہوں میں آ گئی۔
خیر ابھی کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ گھر والوں کو کیسے منائیں۔ گھر والوں سے رابطہ ختم کر کے روپوش ہونے کا خیال بھی آیا لیکن ہم ایسا بھی نہیں کرنا چاہتے، کہ ان کو پتہ ہی نہ ہو کہ ہم زندہ بھی ہیں کہ نہیں، جو ان کے لیے زیادہ دردناک ہوگا۔
دوسری طرف پریگننسی روکنے والی گولیوں کا کافی خرچہ ہو رہا ہے، تو اگر گھر والوں کو منانے کے لیے ہم اپنے ساتھ ایک چھوٹا سا سفارشی لے کے جائیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
Yessss…..! ️
۔*۔ختم شد۔*۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "گاؤں کی گوری اور اُسکا پہلوان بھائی"