Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

لرزہ خیز قتل کا معمہ


یاسمین نے ٹیکسی سے اتر کر اپنے گھر کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر پر حیرت اور پریشانی کے آثار نمودار ہوگئے۔ اس کے گھر کے باہر کافی لوگ جمع تھےاور ان کے درمیان ایک پولیس کی گاڑی بھی کھڑی تھی۔ وہ تیز قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی اپنے گھر کی طرف بڑھی۔ گھر کے دروازے پر موجود پولیس والے نے اسے روک لیا۔ جب اس نے بتایا کہ اس کا گھر ہے تو اسے اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ گھر کے اندر داخل ہو کے اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا رو رہا ہے۔ وہ تقریبا بھاگ کر اس کے پاس پہنچی اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ پولیس کیا کر رہی ہے؟ تم کیوں رو رہے ہو؟ اس کے شوہر انور نے اس کے کسی سوال کا جواب نہ دیا البتہ ایک کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔ یہ ان کی بیٹی ثمرین کا کمرہ تھا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہونے لگی تو ایک پولیس والے نے اسے اندر جانے سے منع کردیا، وہ پولیس والے کی بات کو نظر انداز کر کے آگے بڑھی تو اس نے ہاتھ سے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر آگے بڑھی۔ اب وہ دروازے کے اندر پہنچ چکی تھی اور یہاں سے اندر کا منظر واضح دکھائی دے رہا تھا۔ جب اس نے اندر کا منظر دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور اس کے قدموں نے اس کا ساتھ دینا چھوڑ دیا۔ سامنے بیڈ پہ اس کی بیٹی کی لاش پڑی تھی جسے بہت ہی بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ ثمرین کے گلے پر گہرےکٹ کا نشان تھا اور بیڈ خون آلود تھا۔ یاسمین جہاں تھی وہیں ڈھے گئی اور دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ وہ ابھی بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی بیٹی کی لاش کو دیکھ رہی تھی، اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی بیٹی اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ کمرے میں اس وقت تین پولیس والے موجود تھے جن میں ایک تفتیشی افسر راشد علی اور دو سپاہی شامل تھے۔ پولیس والوں کے علاوہ فرانزک ٹیم کے دو اہلکار بھی کمرے میں موجود تھے جن میں سے ایک کے ہاتھ میں میں کیمرہ تھا جس کی مدد سے وہ وہ تصویریں لے رہا تھا جبکہ دوسرا کمرے میں موجود ہر چیز کا باریک بینی سے جائزہ لے رہا تھا۔ اس دوران تفتیشی افسر راشد علی علی ثمرین کی لاش کے پاس بیٹھ کر اسے گھورنے میں مصروف تھا۔ دیکھنے میں تو راشد علی لاش کا پنچنامہ کر رہا تھا لیکن حقیقت میں وہ ثمرین کے مردہ جسم کو ہوس سے بھرپور نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ راشد علی ایک نہایت نیچ، کمینہ اور بد فطرت انسان تھا۔ پیسوں کی ہوس کے ساتھ ساتھ عورت کی ہوس بھی اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس کا شمار ان پولیس والوں میں ہوتا تھا جو مجبور عورت کو تو کسی طور پر چھوڑتے نہیں لیکن جو مجبور نہیں ہوتی اسے بھی ہوس پوری کرنے کے لئے مجبور کر دیتے ہیں۔ ثمرین 21 سال کی جوان لڑکی تھی اور اس وقت اس کے جسم پر ایک مہین سی نائیٹی تھی جس میں سے اس کا جسم چیخ چیخ کر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ اس کا گورا رنگ، ننگے بازو، تنی ہوئی چھاتی، گہری ناف اور گول سڈول ٹانگیں یہ راشد علی کو یہ سوچنے پہ مجبور کر رہی تھی کہ کاش وہ اسے مردہ کی بجائے زندہ حالت میں ملتی۔ راشد علی پورے انہماک کے ساتھ ثمرین کے مردہ جسم کو تاڑنے میں مصروف تھا تبھی بوڑھے سپاہی بھائی مقبول حسین کی نظر اس پر پڑی۔ اسے غصہ تو بہت آیا لیکن چونکہ وہ سپاہی تھا اس لئے افسر کے آگے زبان درازی یا دست درازی سے باز رہا۔ اسی دوران روتی بلکتی یاسمین کی نظر بھی اس پہ پڑ گئی اور اسے اندازہ ہوگیا کہ تفتیشی افسر اس وقت تفتیش کی بجائے اس کی بیٹی کے ساتھ آنکھوں کا زنا کرنے میں مصروف ہے۔ تبھی اس نے غصے سے دوسرے سپاہیوں اور فرانزیک ٹیم کو دیکھا۔ سب اپنے کاموں میں مصروف تھے سوائے سپاہی مقبول حسین کے جس کی نظر اس وقت یاسمین کے اوپر تھی۔ جب اس نے محسوس کیا کہ یاسمین نے راشد علی کی گندی نظروں کو بھانپ لیا ہے تو اس نے بھاگ کے ایک چادر لے کر ثمرین کے اوپر ڈال دی۔ چادر ڈالنے سے راشد علی اپنے گندے خیالات سے باہر آیا اور اسے یاسمین کی موجودگی کا بھی احساس ہوگیا۔ یاسمین کی حالت کچھ سمبھلی تو وہ اٹھ کر اپنی بیٹی کی جانب بڑھنے لگی لیکن ابھی بھی اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور وہ چلتے چلتے لڑکھڑا گئی۔ راشد علی نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا اور بیٹی کے پاس جانے سے منع کیا۔ یاسمین اس کی بات ماننے کو تیار نہیں تھی اور مسلسل زور لگا کر اپنی بیٹی کی جانب بڑھ رہی تھی۔ راشد علی نے اسے سمجھایا کہ ابھی فرانزک والے اپنا کام کر رہے ہیں آپ ابھی لاش کے قریب نہیں جاسکتیں۔

اپڈیٹ نمبر 2

یاسمین اس کی ہدایات کو نظر انداز کر کے آگے بڑھی تو اس نے اپنا بازو اس کی کمر کے پیچھے سے پھیلا کے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا۔ یاسمین نے اس کے بازو کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کی تو نیچے کی جانب پھسل گئی۔ راشد نے اپنا ہاتھ نیچے لے جا کے اسے مزید مضبوطی سے اپنے بازو کے شکنجے میں جکڑ لیا۔ اس لمحاتی دو طرفہ تگ ودو میں راشد کا ہاتھ غیر ارادی طور پہ یاسمین کے بائیں ممے کو چھو گیا جس کو یاسمین تو شاید محسوس نہ کر سگی کیونکہ وہ اس وقت کسی اور کیفیت میں تھی البتہ راشد کو اس لمحاتی لمس نے ایک بار پھر جنسی طور پہ مشتعل کر دیا۔ اس کی آنکھیں فوری طور پہ اس جگہ کا جائزہ لینے کیلئے یاسمین کے مموں پہ ٹک گئیں، جہاں چند لمحے پہلے اس کا ہاتھ لگا تھا۔ راشد اسے لے کے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا اور جاتے ہوئے کیمرے والے لڑکے کو ہدایت کی کہ وہ ثمرین کے ہاتھ کی ایک تصویر ذرا قریب سے لے ۔ دروازے تک پہنچ کے اس نے یاسمین کو لیڈی کانسٹیبل کے حوالے کیا اور اسے کہا کہ انہیں باہر بٹھاؤ۔ اس دوران وہ ایک اور مرتبہ یاسمین کے ممے کو چھو چکا تھا اور اس بار اس نے یہ حرکت ارادتاً کی تھی جسے شاید یاسمین نے بھی محسوس کر لیا تھا لیکن خاموش رہی۔ اس کے بعد راشد واپس کمرے میں گیا اور کیمرے والے سے ہاتھ کی تصویر کے بارے میں پوچھا، اس نے بتایا کہ تصویر لے لی ہے۔ راشد ثمرین کے ہاتھ کے پاس گیا اور ہاتھ پہ لگے ایک بال کو محفوظ کر لیا، اس کے علاوہ اسے کمرے سے ایک پین بھی ملا اسے بھی محفوظ کر لیا گیا۔ ٹی وی لاؤنج میں گھر کے لوگ موجود تھے، راشد نے باہر آ کے بتایا کہ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیجا جا رہا ہے، اس کے بعد لاش آپ لوگوں کے حوالے کر دی جائے گی۔ اس کے بعد اس نے پوچھا کہ لاش کو سب سے پہلے کس نے دیکھا تو ایک عورت نے روتے ہوئے جواب دیا کہ لاش کو سب سے پہلے اس نے دیکھا تھا۔ راشد نے پوچھا تم کون ہو؟ اس نے اپنا نام ماریہ بتایا اور کہا کہ میں ثمرین کی آیا ہوں، بچپن سے اب تک میں نے ہی اسے پالا اور اس کا خیال رکھا ہے۔ راشد نے اس سے پوچھا کہ کتنے بجے لاش کو دیکھا؟ اس نے بتایا قریب 9 بجے جب وہ اسے صبح کی چائے دینے گئی۔ اس نے پوچھا باقی گھر والے اس وقت کہاں تھے؟ تو ماریہ نے بتایا کہ صاحب اپنے کمرے میں سو رہے تھے اور میڈم شہر سے باہر تھیں، ابھی آپ کے سامنے لوٹ کے آئی ہیں۔ راشد نے پوچھا آپ تینوں کے علاوہ اس گھر میں کوئی اور بھی ہوتا ہے؟ ماریہ نے جواب دیا کہ ایک اور لڑکا بھی ہوتا ہے سجاد جو تین سال سے یہاں ملازم ہے لیکن وہ صبح سے غائب ہے۔ اس نے پوچھا سجاد کو آخری بار کب دیکھا تھا؟ ماریہ نے کہا کل رات سونے سے پہلے قریب 9 بجے۔ سجاد کے ذکر پہ انور مشتعل ہو کے کھڑا ہو گیا اور راشد سے کہا کہ اسی نے ثمرین کو قتل کیا ہے اور اس کے بعد فرار ہو گیا ہے، آپ اسے ڈھونڈیں، یہاں فضول سوالات پہ وقت نہ ضائع کریں۔ راشد نے اسے یہ کہہ کہ چپ کروا دیا کہ آپ کو بھی بولنے کا موقع ملے گا، پولیس کو اپنے طریقے سے کام کرنے دیں۔ اس کے بعد راشد علی نے ان سب کو سہ پہر 3 بجے تھانے پہنچنے کی ہدایت کی اور مقتولہ کے کمرے سے دور رہنے کی تنبیہہ بھی کر دی۔ جانے سے پہلے اس نے ایک نظر بھر کہ یاسمین کے سراپے پہ ڈالی اور دل ہی دل میں اس کے متناسب جسم کی تعریف کرتے ہوئے چلا گیا۔ گھر سے نکل کے راشد نے فرانزک ٹیم کو جلد از جلد رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی اور سپاہیوں کو تھانے پہنچنے کی تنبیہہ کی جبکہ خود رکشہ لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے میں وہ اس کیس کے بارے میں سوچنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار ثمرین کا گورا جسم اور اس کی ماں کے ممے گھوم رہے تھے۔ انہیں سوچوں میں گم وہ گھر پہنچا تو اس کی بیوی صائمہ کچن میں کھڑی برتن دھو رہی تھی۔ اس نے پیچھے سے جا کے اسے بانہوں میں دبوچ لیا۔

اپڈیٹ نمبر 3

صائمہ کے ہاتھ سے پلیٹ چھوٹ کے گری اور ٹوٹ گئی۔ اس نے نظر گھما کے دیکھا تو راشد کو دیکھ کے کچھ نارمل ہو گئی لیکن راشد نے اس کے سنبھلنے سے پہلے ہی اپنے ہاتھوں کو حرکت دی اور پیٹ سے اوپر آتا ہوا مموں پہ رکا اور اتنی زور سے ممے دبائے جیسے کھینچ کے اتارنا چاہ رہا ہو۔ اس کی اس حرکت سے صائمہ نے ایک درد بھری آہ بھری اور اس کے شکنجے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن راشد اسے کہاں چھوڑنے والا تھا، اس کے ذہن میں ثمرین اور اس کی ماں یاسمین کے جسم گھوم رہے تھے۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ صائمہ کے گریبان میں ڈالے اور زور لگا کے اس کی قمیض پیٹ تک چاک کر دی۔ صائمہ نے زور لگا کے خود کو اس سے چھڑایا اور دور کھڑی ہو کے غصے سے پھنکارنے لگی۔ اس نے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو تم، میں تمہاری بیوی ہوں یا کوئی کرائے کی گشتی جسے تم اس طرح ذلیل کر رہے ہو۔ تم جو کرنا چاہو پیار سے بھی کر سکتے ہو، اس طرح میری تذلیل کر کے تمہیں کیا سکون ملتا ہے؟ راشد نے آگے بڑھ کے ایک زور دار تھپڑ صائمہ کے چہرے پہ دے مارا اور غضبناک لہجے میں بولا کہ تجھے کتنی دفعہ بکواس کی ہے کہ میرے سامنے زبان نہ چلایا کر، تو میری پراپرٹی ہے اور میرا حق ہے کہ میں جیسے چاہوں تمہیں استعمال کروں۔ صائمہ اب شاید اس روز روز کی اذیت سے تھک چکی تھی اس لیے وہ آج دفاعی انداز اختیار کیے ہوئی تھی۔ دونوں کی شادی کو 6 سال گزر چکے تھے اور پہلے دن سے ہی راشد کا اس سے جانوروں جیسا سلوک تھا۔ سیکس میں وہ بس پورا ہی تھا لیکن سیکس کے دوران گالی گلوچ اور مار پیٹ اس کا معمول تھا۔ صائمہ کو ان چھ سالوں میں اس سے جنسی تسکین تو کبھی ملی نہیں تھی البتہ اس کے جسم کے ہر حصے پہ اس کے دیے ہوئے زخموں کے نشان واضح تھے۔ شادی کے شروع کے دنوں میں اس نے بہت واویلا کیا کہ کسی طرح اس جانور سے اس کی جان چھوٹ جائے لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔ راشد کی وردی کا رعب و دبدبہ ہمیشہ صائمہ کی آزادی کے آڑے آگیا۔ لیکن آج اس میں نہ جانے کہاں سے آزاد ہونے کی ایک تازہ خواہش جاگ اٹھی۔ اس نے چیختے ہوئے کہا کہ تم ایک جانور ہو جسے انسانوں اور چیزوں میں فرق نظر نہیں آتا۔ میں کوئی بے جان شے نہیں ہوں جس کو تم اپنی پراپرٹی سمجھتے ہو۔ میں تم جیسے جانور کے ساتھ ایک لمحہ مزید نہیں رہ سکتی، میں ابھی اور اسی وقت اس جہنم کو چھوڑ کے جا رہی ہوں۔ راشد نے آگے بڑھ کے اسے بالوں سے پکڑا اور زور سے کھینچ کے اس کا منہ چھت کی طرف اٹھا دیا۔ وہ بولا لگتا ہے کوئی نیا یار بنا لیا ہے تو نے جس کی شہ پر اتنا پھڑپھڑا رہی ہے کیونکہ تیرے گھر والوں میں تو اتنی جرأت نہیں ہے کہ میرے خلاف کھڑے ہو سکیں۔ صائمہ بولی تم جیسا انسان اس غلیظ خیال کے علاوہ سوچ بھی کیا سکتا ہے؟ تمہیں لگتا ہے جیسے تم دوسری عورتوں کے ساتھ منہ کالا کرتے پھرتے ہو باقی سب بھی ویسے ہی ہوں گے۔ مجھے تمہارے سامنے صفائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میں جتنی بھی پاکباز ہوں تمہاری گندی سوچ تمہیں میرے اندر تمہارے جیسا بد کردار انسان تلاش کرنے پہ اکساتی رہے گی۔ مجھے اب بس تم سے نجات چاہیے، تم مجھے طلاق دو تا کہ مجھے اس اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا مل سکے۔ میں اس جہنم میں رہنے کی بجائے سڑکوں پہ دھکے کھانے کو ترجیح دوں گی۔ ایک اولاد کا سکھ تو تم مجھے دے نہ سکے، اولاد ہوتی تو شاید میرے زخموں کا مرہم بن جاتی۔ اولاد کا طعنہ سن کے راشد بپھر گیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے کمرے میں لے گیا اور بیڈ پہ پٹخ دیا۔ وہ بولا تجھے آزادی چاہیے تو آج میں تجھے اس زندگی سے ہی آزاد کر دوں گا۔ اتنا کہہ کہ اس نے الماری میں سے ایک دوپٹہ نکالا اور صائمہ کے ہاتھ بیڈ کی ٹیک کے ساتھ باندھ دیے۔ پھر اس نے آگے بڑھ کے صائمہ کی پہلے سے ہی چاک قمیض کو مکمل چاک کیا اور اس کی گردن سے اوپر کے جا کے اس کے چہرے پہ لپیٹ دی۔ اس دوران صائمہ اسے واسطے دیتی رہی کہ اسے چھوڑ دے لیکن وہ تو جیسے بہرا ہو چکا تھا، اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ صائمہ کو بخوبی اندازہ تھا کہ وہ اب کس اذیت سے گزرنے والی ہے اس لیے وہ مسلسل منتیں کر رہی تھی۔ اس کی یہ منت سماجت شاید راشد کو ناگوار گزر رہی تھی اس لیے اس نے قمیض کا ایک پلو اس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ پھر اس نے اسے گھما کے پیٹ کے بل لٹا دیا اور اس کے کالے برا کی ہک کھول دی۔ صائمہ کی گوری کمر پہ مار کے بے شمار نشان تھے جنہیں دیکھ کے راشد کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے وقت ضائع کیے بغیر ایک زور دار تھپڑ زخمی کمر پہ دے مارا جس کا درد صائمہ کی گھٹی گھٹی چیخ میں نمایاں تھا۔ پہلے تھپڑ کے بعد اس نے لگاتار دو تین تھپڑ ایک ہی جگہ پہ لگائے جن کے درد سے صائمہ نے زور لگا کے اپنے بازو کھینچے اور ٹانگیں اکٹھی کر کے کروٹ لے لی۔ اس کی آنکھیں درد کی شدت سے پھیل گئیں اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ راشد نے اس کی ٹانگیں پکڑ کہ سیدھی کیں اور جھٹکے سے اس کی شلوار بھی اتار دی۔ اب صائمہ گردن سے لے کے پاؤں تک مکمل ننگی الٹی لیٹی ہوئی تھی۔ جتنا خوبصورت اس کا جسم تھا اگر کسی انسان کے ساتھ اس کا جنسی تعلق ہوتا تو وہ اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ چومے بغیر نہ چھوڑتا۔ اس کی کمر اور اور کولہے اتنے خوبصورت تھے کہ انہیں چاٹ چاٹ کہ لال کرنا چاہیے تھا لیکن راشد اسے مار مار کے لال کرتا تھا کیونکہ اس سے اسے سکون ملتا تھا۔ اس نے اپنا بیلٹ اتارا اور صائمہ کی ننگی کمر، کولہے اور ٹانگیں نشانے پہ لے لیں۔ وہ اس وقت تک اسے مارتا رہا جب تک اس کا سانس نہیں پھول گیا۔ صائمہ اب چیخ چیخ کے اور تڑپ تڑپ کے نیم غنودگی میں جا چکی تھی۔ اس کے بعد راشد نے پینٹ اتاری اور صائمہ کی ٹانگوں پہ بیٹھ گیا۔ پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے صائمہ کی گانڈ کو کھولا اور ایک تھوک کا گولا اس کی گانڈ کے سوراخ پہ پھینکا۔ پھر اس نے اپنا لن سوراخ پہ سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے اندر اتار دیا۔ صائمہ کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا لیکن وہ ایسے ہی بے جان پڑی رہی۔ اس کے جسم پہ کئی تازہ اور پرانے زخم چمک رہے تھے جن میں سے ہلکا ہلکا خون بھی رس رہا تھا۔ چند منٹ کے جھٹکوں کے بعد وہ اس کی گانڈ میں ہی چھوٹ گیا اور اس کے اوپر ہی گر کے ہانپنے لگا۔

اپڈیٹ نمبر 4

جب اس کا سانس تھوڑا بحال ہوا تو وہ صائمہ کے اوپر سے اٹھا اور نہانے کے لیے باتھ روم میں گھس گیا۔ نہا کے نکلا تو اس نے صائمہ کے ہاتھ کھول دیے جو ابھی بھی درد سے کراہ رہی تھی۔ اس میں اتنی بھی سکت نہیں تھی کہ وہ سیدھی ہو کے لیٹ سکے۔ اس کے دل و دماغ مسلسل اس کے ماں باپ کو کوس رہے تھے جنہوں نے اسے اس جانور کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا۔ اور اس کا اکلوتا بھائی تو صرف اپنی بیوی کا ہو کے رہ گیا تھا۔ اس کی ابھی تک کوئی اولاد نہیں تھی جس کی وجہ شاید راشد کی کوئی پوشیدہ بیماری تھی۔ بظاہر تو وہ بالکل نارمل تھا اور سیکس میں غیر معمولی نہ سہی لیکن کر لیتا تھا البتہ ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا کہ وہ ماں بن سکتی ہے کیونکہ اسے کوئی بیماری نہیں تھی لیکن ساتھ ہی اس نے کہا تھا کہ اپنے شوہر کو بھی معائنے کے لیے لائے، ہو سکتا ہے اس میں کوئی مسئلہ ہو۔ جب اس نے راشد کو ڈاکٹر کے پاس جانے کا کہا تو اس نے اس دن بھی اسے خوب پیٹا تھا اور وجہ یہ بتائی تھی کہ یہ بات کر کے اس نے اس کی مردانگی کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ ابھی وہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ راشد کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ بولا میں تھانے جا رہا ہوں اور خبردار جو تم نے گھر سے باہر پاؤں نکالنے کے بارے میں سوچا بھی، میں تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو ایسے کیس میں اندر کروں گا کہ ساری زندگی جیل میں سڑتے رہو گے۔ اتنا کہہ کہ وہ گھر سے نکل گیا۔ صائمہ نے فون کر کے اپنی اکلوتی دوست شمائلہ کو بلایا جو ایک نجی ہسپتال میں نرس تھی۔ جب بھی صائمہ راشد کے عتاب کا شکار ہوتی تو شمائلہ ہی اس کی مرہم پٹی کرتی تھی۔

راشد علی کو تین بجے اطلاع دی گئی کہ انور اور اس کی بیوی یاسمین پہنچ چکے ہیں، اس نے دونوں کو باری باری اندر بھیجنے کا کہا۔ پہلے انور آیا اور رونی صورت لے کے راشد کے سامنے بیٹھ گیا۔ راشد نے اس کے آنسوؤں کو نظر انداز کیا اور سوال کرنے شروع کر دیے۔ اس کے ہاتھ میں ایک قلم اور کاغذ بھی تھا جس پہ وہ انور کے جوابات تحریر کر رہا تھا۔ اس نے چند سوالات ایک ساتھ پوچھے اور پھر جوابات نوٹ کرنے لگا۔ سوالات یہ تھے۔ آپ کا پورا نام؟ کیا کرتے ہیں؟ اس شہر میں کب سے رہ رہے ہیں؟ کسی پہ شک؟ کوئی دشمنی وغیرہ؟ انور نے جو جوابات دیے ان کا خلاصہ یہ تھا۔ اس کا پورا نام ڈاکٹر انور بیگ ہے۔ وہ پیشے سے ایک ڈاکٹر ہے۔ وہ لاہور کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں 25 سال سے کام کر رہا ہے۔ اس وقت اس کا شمار ہسپتال کے سینیئر ڈاکٹرز میں ہوتا ہے۔ اس کا اپنا پرائیویٹ کلینک بھی ہے جہاں وہ شام 6 بجے سے رات 11 بجے تک ہوتا ہے۔ اس کو شک ہے کہ اس کی بیٹی ثمرین کا قتل ان کے ملازم سجاد نے کیا ہے کیونکہ وہ قتل کے بعد سے غائب ہے۔ راشد نے اس سے پوچھا کہ ملازم کس کے ریفرنس سے رکھا تھا؟ اس نے بتایا کہ جس دھوبی سے وہ پچھلے کئی سال سے کپڑے کلین کرواتے ہیں اس کے ریفرنس سے رکھا تھا۔ اس کا نام پرویز ہے اور وہ ان کی سوسائٹی کے قریبی محلے میں رہتا ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ سجاد اس کا کزن ہے اس لیے ہم نے اسے ملازم رکھ لیا۔ راشد نے پوچھا اس کی کوئی شناختی دستاویز آپ کے پاس ہے؟ انور نے سجاد کے شناختی کارڈ کی کاپی اسے دے دی جو وہ ساتھ ہی لے کے آیا تھا۔ راشد نے اسے ویٹنگ ایریا میں بیٹھنے کا کہا اور یاسمین کو بلوا لیا۔ یاسمین کو دیکھتے ہی وہ کرسی سے اٹھتا اٹھتا رہ گیا۔ انور کے برعکس یاسمین کپڑے بدل کے آئی تھی اور کپڑے بھی ایسے پہن کے آئی تھی جیسے بیٹی کی موت کی تفتیش کے لیے نہیں بلکہ سیکس کی دعوت دینے کے لیے آئی ہو۔ ٹائٹ شارٹ شرٹ کے نیچے ٹائٹ جینز اور ساتھ اونچی ہیل پہنے یاسمین کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے کپڑے اس کے جسم کو چھپانے کی بجائے اسے مزید عیاں کر رہے تھے۔ جیسے ہی وہ داخل ہوئی راشد کی بھوکی نظریں اس کے مموں پہ ٹک گئیں۔ جیسے ہی وہ بیٹھنے لگی اسے اچانک کچھ یاد آیا اور وہ “معاف کیجیے میں ابھی آئی” کہہ کہ واپس مڑ گئی۔ اس سے پہلے کہ راشد کچھ کہتا اس کی نظر یاسمین کی گانڈ پہ پڑ گئی۔ اس کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے اور یاسمین کمرے سے نکل گئی۔ چند لمحوں بعد ہی وہ لوٹی تو اس کے ہاتھ میں بیگ تھا جو وہ شاید پہلے باہر ہی بھول آئی تھی۔ اس بار راشد کچھ سنبھل کے چور نظروں سے اس کے ممے دیکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ اس نے کم و بیش وہی سوالات اس سے بھی پوچھے جو پہلے اس کے شوہر سے پوچھ چکا تھا۔ یاسمین نے اسے بتایا کہ وہ ایک آرتھو پیڈک سرجن ہے اور اسی ہسپتال میں ہوتی ہے جہاں اس کا شوہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مختلف ہسپتالوں میں آپریشنز کے لیے بھی جاتی ہے جن میں لاہور کے علاوہ دیگر شہروں کے ہسپتال بھی شامل ہیں۔ جب اس کی بیٹی کا قتل ہوا تو وہ ایک سرجری کے لیے راولپنڈی گئی ہوئی تھی۔ جب وہ واپس آئی تو اس کی بیٹی کی لاش اس کی منتظر تھی۔ اتنا کہہ کہ وہ رونے لگی اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کے اس کی جھریوں سے پاک گالوں پہ تیرنے لگے۔ راشد علی جو پہلے اس کے مموں کو تاڑ رہا تھا اب مسلسل اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت اور ستائش کی آمیزش تھی۔ یاسمین ایک جوان لڑکی کی ماں تھی لیکن اس کے چہرے کی تازگی اور اس کا متناسب جسم ایسے تھا جیسے وہ خود ایک جوان لڑکی ہے۔ راشد کے دل میں اسے چودنے کی شدید خواہش جاگ اٹھی۔ اس نے اچانک باہر سے کسی کو بلانے کے لیے گھنٹی بجائی۔

اپڈیٹ نمبر 5

ایک سپاہی کمرے میں داخل ہوا تو راشد نے سپاہی مقبول حسین کو بلانے کا کہا۔ مقبول حسین آیا تو راشد نے اسے پرویز اور اس سیکیورٹی والے کو بلانے کا کہا جس کی قتل کے وقت سوسائٹی کے گیٹ پہ ڈیوٹی تھی۔ مقبول حسین ہدایات لے کے چلا گیا تو راشد دوبارہ یاسمین کی طرف متوجہ ہو گیا۔

مقبول حسین نے انور سے پرویز کا پتہ سمجھا اور دوسرے سپاہی کو ساتھ لے کے تھانے سے نکل گیا۔ وہ دونوں پرویز کی دوکان پہ پہنچے اور اسے فوراً تھانے پہنچنے کی ہدایت کی۔ اس نے وجہ جاننا چاہی تو انہوں نے بتایا سجاد کے بارے میں کچھ پوچھ تاچھ کرنی ہے۔ وہاں سے وہ دونوں سیدھے سوسائٹی کے سکیورٹی آفس پہنچے اور مطلوبہ سکیورٹی گارڈ کے بارے میں پوچھا۔ سیکیورٹی مینیجر نے انہیں اس گارڈ کا نمبر اور پتہ بتایا جو قتل کے وقت ڈاکٹر انور کی گلی کے باہر تعینات تھا۔ مقبول حسین نے سکیورٹی مینیجر سے اس سے رابطہ کرنے کا کہا اور پیغام دیا کہ وہ فوراً تھانے پہنچے۔ اس کے بعد دونوں سپاہی واپس تھانے پہنچ گئے۔ مقبول حسین نے راشد علی کو بتایا کہ دونوں تھانے پہنچ جائیں گے۔ یاسمین ابھی وہیں راشد کے پاس بیٹھی تھی۔ راشد نے انور کو بھی بلوا لیا۔ اس نے ان دونوں سے کہا کہ آپ کا گھر ہم سیل کر رہے ہیں اس لیے آپ دونوں عارضی طور پہ کہیں اور منتقل ہو جائیں لیکن جب تک تفتیش مکمل نہیں ہوتی آپ شہر سے باہر نہیں جا سکتے۔ آپ جہاں شفٹ ہوں وہاں کا ایڈریس ہمیں بتا دیں تا کہ آپ کی بیٹی کی لاش پوسٹ مارٹم کے بعد آخری رسومات کے لیے وہاں پہنچا دی جائے۔ انور نے اسے اپنے دوست ڈاکٹر تجمل بھٹی کا ایڈریس لکھوا دیا اور بتایا کہ جب تک ہمارا گھر سیل ہے ہم لوگ یہیں رہیں گے۔ ڈاکٹر تجمل کا گھر انور کے گھر کے پاس ہی تھا۔ اس کے بعد دونوں میاں بیوی وہاں سے چلے گئے۔

پرویز اور سکیورٹی گارڈ پہنچے تو راشد نے دونوں سے باری باری ملاقات کی۔ پرویز نے بتایا کہ سجاد اس کا کزن ہے جو تین سال پہلے گاؤں سے نوکری کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ ڈاکٹر انور کو گھر کے لیے ایک ملازم کی ضرورت ہے تو اس نے سجاد کو وہاں لگوا دیا۔ ان تین سالوں میں اس کی کوئی شکایت نہیں ملی اور نہ ہی کبھی اس کا کسی سے جھگڑا ہوا۔ وہ کل شام کو ان سے ملنے ان کے گھر آیا تھا اس کے بعد وہ کہاں گیا اسے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ راشد نے اسے کہا کہ اسے جب بھی بلایا جائے فوراً تھانے پہنچے اور بتائے بغیر شہر سے باہر نہ جائے۔ اگر سجاد اس سے رابطہ کرے یا اس کی کوئی اطلاع ملے تو وہ فوراً پولیس کو اطلاع دے۔

سکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ اس کی ڈیوٹی رات 8 بجے سے صبح 8 بجے تک ہوتی ہے۔ راشد نے اس سے پوچھا کہ اس دوران انور کے گھر آنے اور جانے والوں کی تفصیل بتائے۔ اس نے بتایا کہ 11 بجے رمیض یونس نامی لڑکا ان کے گھر آیا تھا جو اکثر ان کے گھر آتا ہے۔ اس کا بات ایک مشہور وکیل ہے اور اسی سوسائٹی میں ان کی رہائش ہے۔ ساڑھے گیارہ بجے ڈاکٹر انور اپنے گھر پہنچے اور اس کے دس منٹ کے بعد رمیض قریباً بھاگتا ہوا ان کے گھر سے نکلا۔ اس کا سر پھٹا ہوا تھا اور سر سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں آیا گیا۔

اپڈیٹ نمبر 6

راشد نے اس سے پوچھا کہ 8 سے 11 کے درمیان کیا ہوا تھا؟ اس نے بتایا کہ 8 سے 11 کے درمیان کچھ غیر معمولی نہیں ہوا۔ 9 بجے کے قریب ڈاکٹر انور اور اس کی بیٹی ثمرین آگے پیچھے گھر سے نکلے تھے۔ آدھے پونے گھنٹے کے بعد دونوں ایک ہی گاڑی میں واپس آئے اور تھوڑی ہی دیر بعد ڈاکٹر صاحب پھر کہیں چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد رمیض آیا اور اس کے بعد کی کہانی میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ راشد نے اسے واپس بھیج دیا اور پرویز کو بلوایا اور ساتھ سپاہی مقبول حسین کو بھی بلوایا۔ راشد نے مقبول سے گاڑی اور ٹیم تیار کرنے کا کہا اور بتایا کہ ہمیں ابھی ایڈووکیٹ یونس بٹ کے گھر جانا ہے۔ سپاہی جی سر کہہ کے چلا گیا تو راشد پرویز کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے پرویز کو کہا کہ جب اور جہاں اسے اس کی ضرورت پڑے اسے موجود ہونا چاہیے۔ اگر وہ اس کیس میں اندر ہونے سے بچنا چاہتا ہے تو جیسے میں کہوں ویسے کرتے رہنا۔ پرویز سے فرمانبرداری سے کہا جی سر جیسے آپ کا حکم۔ اس کے بعد پرویز کو بھی بھیج دیا گیا۔

راشد دو تین سپاہیوں کو ساتھ لے کے رمیض کے گھر پہنچا تو چوکیدار نے بتایا کہ گھر والے فارم ہاؤس گئے ہیں وہاں کوئی پارٹی ہے۔ راشد نے اس سے فارم ہاؤس کا پتہ پوچھا اور ڈرائیور کو بیدیاں روڈ کی طرف جانے کا کہا جہاں فارم ہاؤس واقع تھا۔ جب وہ لوگ فارم ہاؤس پہنچے تو وہاں ایک عالی شان پارٹی چل رہی تھی۔ شہر کے کاروباری افراد اور کچھ سیاستدان بھی پارٹی کے شرکاء میں شامل تھے۔ سیکسی کپڑے پہنے لڑکیاں اور عورتیں بھی پارٹی کا حصہ تھیں، ان میں سے کچھ تو پارٹی کے شرکاء کی فیملی ممبرز تھیں اور کچھ کو پارٹی کی رونق بڑھانے کے لیے بلایا گیا تھا۔ راشد کو ایک کمرے میں بیٹھ کے انتظار کرنے کا کہا گیا۔ کچھ ہی دیر میں ایڈووکیٹ یونس اور اسکی بیوی بھی آ گئی۔ راشد نے رمیض کے بارے میں پوچھا تو اس کی ماں نے بتایا کہ وہ تو کل رات سے گھر نہیں آیا۔ یونس نے کہا کہ اس میں کوئی پریشانی والی بات نہیں، ہمارے برخوردار اکثر رات کو گھر نہیں آتے۔ جوان بچہ ہے، دوستوں کے ساتھ انجوائے کر رہا ہو گا کہیں۔ راشد نے پوچھا کیا آپ لوگ رمیض اور ثمرین کے تعلق کے بارے میں جانتے ہیں؟ یونس نے پوچھا کون ثمرین؟ ہم تو اس نام کی کسی لڑکی کو نہیں جانتے۔ راشد نے بتایا ڈاکٹر انور کی بیٹی ثمرین انور اور آپ کے صاحبزادے کا آپس میں تعلق تھا۔ یونس نے کہا تو اس میں کونسی بڑی بات ہے؟ دونوں جوان اور بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے تعلق بنا سکتے ہیں۔ راشد نے کہا کہ بڑی بات یہ نہیں کہ دونوں کا آپس میں تعلق ہے بلکہ بڑی بات یہ ہے کہ اس لڑکی کا کل رات قتل ہو گیا تھا۔ اور جس وقت قتل ہوا اس وقت آپ کے صاحبزادے اس کے گھر میں موجود تھے۔ اس طرح آپ کے صاحبزادے اس کیس میں مرکزی ملزم بن کے سامنے آتے ہیں۔ اور قتل کے بعد سے اب تک اس کا غائب ہونا اسے مزید مشکوک بناتا ہے۔ خیر اب میں چلتا ہوں، جیسے ہی آپ کا رابطہ آپ کے بیٹے سے ہو اسے لے کر فوراً پولیس اسٹیشن آئیں۔

وہاں سے نکل کر راشد نے ڈرائیور کو گاڑی ایک نجی یونیورسٹی کی طرف لے جانے کا کہا۔ یہ یونیورسٹی شہر سے باہر ایک کم گنجان آباد علاقے میں واقع تھی اور یہاں پڑھنے والوں میں زیادہ تعداد امیر خاندانوں کے بچوں کی تھی۔ یونیورسٹی کے قریب پہنچ کر راشد نے ڈرائیور سے گاڑی کی رفتار کم رکھنے کا کہا اور خود گہری نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اسے اپنی مطلوبہ گاڑی نظر آگئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے ڈرائیور کو گاڑی تھوڑے فاصلے پہ ہی روکنے کا کہا اور دو لوگوں کو ساتھ لے کے پیدل اس گاڑی کی جانب بڑھا۔ گاڑی کے قریب پہنچ کے اس نے دیکھا کہ گاڑی کے شیشوں پہ بلائنڈر لگا ہوا تھا۔ اس نے اپنی جیب سے ایک چابی نکالی اور ساتھ والے سپاہی کو پکڑا دی۔ سپاہی نے چابی پکڑ کے غیر محسوس انداز میں گاڑی کے فرنٹ ڈور کی طرف پیش قدمی جاری رکھی۔ اس دوران راشد نے اپنا موبائل نکال کے کیمرہ آن کر لیا۔ جیسے ہی سپاہی نے دروازہ کھولا راشد کے موبائل کے فلیش سے اندر کا منظر واضح ہو گیا۔ گاڑی کے اندر حسب توقع ایک جوڑا رنگ رلیاں منا رہا تھا۔ لڑکی ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھی تھی اور اس کا منہ لڑکے کے لن پہ تھا جو ساتھ والی سیٹ سیدھی کر کے اس پہ نیم دراز تھا۔ لڑکے کی پینٹ گھٹنوں تک اتری ہوئی تھی جبکہ لڑکی کی شرٹ اتر کے پچھلی سیٹ پہ پڑی تھی۔ جیسے ہی موبائل کی لائٹ پڑی دونوں نے چونک کے موبائل کی طرف دیکھا۔ پہلے تو ان کو سمجھ نہیں آئی کہ ان کی ویڈیو بن رہی ہے لیکن جیسے ہی انہیں ہوش آیا لڑکے نے فوراً اپنی پینٹ اوپر چڑھا لی اور لڑکی اپنے ہاتھوں سے اپنا منہ چھپانے کی کوشش میں لگ گئی۔ راشد نے گرجدار آواز میں کہا یہ کیا کنجر خانہ چل رہا ہے یہاں؟ اس کام کے لیے تمہارے ماں باپ تمہیں یونیورسٹی بھیجتے ہیں؟ پھر اس نے لڑکے کو گاڑی سے باہر نکلنے کا کہا۔ لڑکا باہر آیا تو اس نے رعب دار آواز میں پوچھا، کیا نام ہے تمہارا؟ لڑکے نے اپنا نام آفتاب بتایا۔ راشد نے پوچھا یہ گاڑی تمہاری ہے؟ آفتاب نے کہا نہیں سر یہ انعم کی گاڑی ہے، وہی مجھے یہاں لے کے آئی تھی۔ اتنا کہہ کہ وہ رونے لگا اور کہنے لگا سر پلیز مجھے معاف کر دیں، مجھ سے غلطی ہو گئی۔ اگر میرے ابو کو پتہ چل گیا تو وہ تو مجھے جان سے ہی مار ڈالیں گے۔ راشد نے کہا بیٹا یہ تو تمہیں پہلے سوچنا چاہیے تھا، اب تو تمہیں جیل جانا پڑے گا۔ آفتاب نے گڑگڑا کے معافیاں مانگنی شروع کر دیں۔ راشد اس کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا تھا یہ کسی غریب خاندان کا لڑکا ہے اور اس یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ بھی نہیں ہے۔ راشد نے اسے تھوڑی دیر دھمکایا پھر اسے ایک آفر دی کہ وہ دس ہزار دے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔ آفتاب نے کہا ٹھیک ہے میں انعم سے لے کے دے دیتا ہوں، اس کے بعد آپ ہمیں جانے دیں۔ راشد نے اسے کہا بیٹا یہ دس ہزار تیری خلاصی کا ہے اور اس کا بندوبست تو نے خود کرنا ہے، انعم اپنا تاوان خود بھرے گی۔ آفتاب نے کہا اتنے پیسے تو میرے پاس نہیں ہیں، مجھے اپنے دوست کو بلانا پڑے گا۔ راشد نے سپاہی سے کہا اسے تھانے لے جاؤ اور جب اس کا دوست پیسے لے آئے اسے چھوڑ دینا، لڑکی کو میں دیکھ لیتا ہوں۔

اپڈیٹ نمبر 7

آفتاب کو بھیجنے کے بعد راشد نے دوبارہ انعم کی گاڑی کا رخ کیا اور فرنٹ سیٹ پہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ انعم اپنی شرٹ پہن چکی تھی اور اتنا وقت گزرنے کے بعد کچھ سنبھل بھی گئی تھی۔ راشد نے اس کا جائزہ لینے کے لیے اسے غور سے دیکھا۔ اس کی عمر 26 کے لگ بھگ تھی۔ رنگ گورا اور جسم دبلا پتلا تھا۔ اس کے مموں کا سائز 34 تھا جو اس کے جسم سے مطابقت رکھتا تھا لیکن اس کے کولہے کچھ زیادہ باہر کو نکلے ہوئے تھے۔ راشد نے ہاتھ آگے بڑھا کے اس کے مموں کو چھونا چاہا تو اس نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور تیز لہجے میں بولی، دیکھو مسٹر میں کوئی ایسی ویسی لڑکی ………. ابھی اس کا جملہ پورا نہیں ہوا تھا کہ راشد نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اس کا بازو موڑ کے اس کی کمر کے ساتھ لگا دیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے بال گردن سے ہٹا کے اس کی گردن کو ہلکا سا کاٹ لیا۔ انعم درد بھرے لہجے میں بولی کہ تمہیں یہ بدتمیزی بہت مہنگی پڑے گی، تم جانتے نہیں کہ میرے بابا اس شہر کے بہت بڑے بزنس مین ہیں اور ان کی پہنچ بہت اوپر تک ہے۔ راشد نے منہ اس کے کان کے قریب کیا اور دھیمے لہجے میں بولا، تمہارے باپ کی پہنچ جتنی بھی اوپر تک ہو وہ تمہاری چوپے لگانے کی ویڈیو وائرل ہونے سے پہلے اپنی پہنچ کا استعمال نہیں کر سکے گا کیونکہ میرے ایک کلک سے تمہارا یہ ٹیلنٹ ساری دنیا دیکھ لے گی۔ اس لیے چپ چاپ ویسے کرو جیسا میں کہہ رہا ہوں۔ انعم کی ساری اکڑ نکل گئی اور اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ راشد نے اس کا بازو چھوڑا اور خود ساتھ والی سیٹ سیدھی کر کے لیٹ گیا۔ انعم سمجھ گئی کہ وہ اسے چودے بغیر جانے نہیں دے گا اس لیے اس نے آگے بڑھ کے اس کی پینٹ کھولنی شروع کر دی۔ پینٹ کھول کے اس نے راشد کا لن باہر نکالا اور اسے پکڑ کے سہلانے لگی۔ پھر وہ بولی، سنو تم اس کے بعد وہ وڈیو ڈیلیٹ کر دو گے نہ؟ راشد نے کہا اگر تم اسی طرح میری بات مانتی رہو گی تو یہ ویڈیو کسی کے پاس نہیں جائے گی۔ وہ بولی کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ جب میں بلاؤں تو چپ چاپ چلی آنا ورنہ ……. ورنہ کیا؟ انعم نے پوچھا۔ وہ بولا مجھے مجبوراً یہ ویڈیو وائرل کرنی پڑے گی۔ انعم نے لجاجت سے کہا کہ تم نے ابھی جو کرنا ہے کر لو لیکن پلیز وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دو۔ راشد اب اس کی منت سماجت سے عاجز آ چکا تھا اس لیے ذرا سخت لہجے میں بولا، اتنی گزارش کبھی میں نے اپنی بیوی کی نہیں سنی جتنی تم مجھے سنا چکی ہو حالانکہ تم ایک گشتی ہو جس نے پتہ نہیں کس کس کا لن لیا ہوا ہے۔ ابھی میرے پاس وقت بھی کم ہے اور یہ جگہ بھی مناسب نہیں ہے اس لیے ابھی صرف تم سے چوپے لگوانے کا ارادہ ہے، باقی کام میں تمہارے ساتھ اپنے فلیٹ پہ کروں گا اور اس کے لیے تمہیں کل رات آنا پڑے گا۔ انعم بولی کل رات کیوں، ابھی چلتے ہیں تمہارے فلیٹ پہ، تم سب کچھ کر لو لیکن میری ویڈیو ڈیلیٹ کر دو۔ راشد بولا بڑی جلدی ہے تجھے میرے فلیٹ پہ جانے کی لیکن اگر تم ایک بار وہاں چلی گئی تو وحشت زدہ ہو کے بھاگنا چاہو گی۔ کیوں؟ ایسا کیا ہے تمہارے فلیٹ میں؟ انعم نے تجسس سے پوچھا۔ راشد بولا عجیب گشتی عورت ہو تم، باتوں میں وقت برباد کیے جا رہی ہو۔ جب فلیٹ پہ جاؤ گی تو خود ہی دیکھ لینا۔ آج میں نے وہاں کسی اور کو بلایا ہوا ہے اس لیے تمہیں کل تک انتظار کرنا پڑے گا، چلو اب لن منہ میں لو۔ انعم نے لن کی طرف دھیان دیا تو وہ اس کے ہاتھ میں تن کے کھڑا تھا۔ انعم نے اپنی زبان نکالی اور لن کے سوراخ پہ لگی مزی کو چاٹ لیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی زبان سے لن کو چاٹنا شروع کر دیا۔ راشد نے سرور سے آنکھیں موند لیں اور سر سیٹ سے ٹکا کے لیٹ گیا۔ انعم بڑی مہارت سے اس کا لن چوس رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ کو بھی اوپر نیچے کر رہی تھی۔ راشد مزے سے لیٹا لن چسوا رہا تھا کہ اچانک انعم اپنی سیٹ پہ سیدھی ہو کے بیٹھ گئی۔ راشد نے آنکھیں کھول کے پوچھا کیا ہوا؟ انعم نے کہا تم لیٹے رہو اور اپنی شرٹ اتارنے لگی۔ راشد نے کہا میں نے تمہیں بتایا ہے نہ کہ آج میں نے تم سے صرف ……… انعم نے اس کی بات کاٹی اور بولی کہ میں یہاں چدنے کے لیے آئی تھی اور جس سے چدنا تھا اسے تم نے بھگا دیا اور خود بھی چوپے لگوا کے نکلنے کے چکر میں ہو۔ تم نے اگر کسی اور کو چودنے کے لیے بلایا ہوا ہے تو اس میں میری چوت کا کیا قصور؟ اسے تو لن چاہیے، آفتاب کا نہیں تو تمہارا سہی۔ باتیں کرتے کرتے اس نے اپنی پینٹ بھی اتار دی۔ پینٹ کے نیچے اس نے انڈر ویئر نہیں پہنا ہوا تھا اس لیے اب اس کے جسم پہ برا کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ راشد کچھ اور بولتا وہ دوبارہ جھکی اور اس کا لن منہ میں لے لیا۔ راشد نے مزے سے ایک سسکی کی اور ڈیش بورڈ سے اپنا موبائل اٹھا کہ ویڈیو بنانے لگا۔ موبائل کی لائٹ آن ہوئی تو انعم نے حیرت اور غصے سے راشد کی طرف دیکھا اور بولی ایک ویڈیو کافی نہیں ہے جو تم ایک اور ویڈیو بنا رہے ہو۔ راشد نے اس بار ذرا نرم لہجے میں اسے سمجھایا کہ یہ اس کا شوق ہے اور وہ یہ ویڈیوز صرف اپنے لیے بناتا ہے اس لیے اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ اپنا کام جاری رکھے۔ انعم کو اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی فوری راستہ نظر نہ آیا تو اس نے سیکس پہ فوکس کرنے کا سوچا اور دوبارہ چوپے لگانے لگی۔ راشد اس کے چوپوں سے محظوظ تو ہو رہا تھا لیکن اسے ڈر بھی تھا کہ وہ جلدی فارغ ہو جائے گا اس لیے وہ اب چاہ رہا تھا کہ انعم لن منہ سے نکال کہ چوت میں لے لے۔ لیکن انعم تو ایسے لن چوسنے میں مگن تھی جیسے راشد نے ٹائمنگ والی گولی کھائی ہوئی ہے۔ راشد نے اس کا دھیان ہٹانے کے لیے اس کی کمر کو ناخنوں سے کھروچنا شروع کر دیا۔ اس نے انعم کے برا کی ہک کھول دی اور ناخنوں کی حرکت تیز کر دی۔ اس نے ناخن زور سے چلائے تو انعم کو بھی تکلیف کا احساس ہوا۔ اس کی کمر پہ نشان پڑنے لگے۔ وہ اٹھی اور ٹانگیں پھیلا کے راشد کی گود میں بیٹھ گئی، اس کا لن پکڑ کے اپنی چوت پہ سیٹ کیا اور دباؤ بڑھا کے اندر لے گئی۔ اس کی چوت اتنی تنگ نہیں تھی تو اتنی کھلی بھی نہیں تھی۔ راشد کو چوت کی گرمی سے اندازہ ہوا کہ وہ زیادہ دیر ٹک نہیں پائے گا۔ انعم نے اوپر نیچے ہلنا شروع کر دیا اور راشد نے اس کا برا ہٹا کہ اس کے ممے چوسنے شروع کر دیے۔ انعم تیزی سے ہل رہی تھی اور راشد اس کے ممے چوس اور کاٹ رہا تھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ انعم کے منہ میں ڈال دیا جسے وہ دلجمعی سے چوسنے لگی۔ جب اس کا ہاتھ اچھی طرح گیلا ہو گیا اس نے اسے انعم کے منہ سے نکالا اور پیچھے لے جا کے ایک انگلی اس کی گانڈ میں ڈال دی۔ ساتھ ہی اس نے اپنا موبائل سائیڈ پہ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے انعم کے ممے مسلنے لگا۔ انعم کی حرکت تیز ہوئی تو راشد نے اسے بتایا کہ وہ چھوٹنے والا ہے۔ انعم نے کہا کہ وہ اس کے اندر ہی چھوٹ جائے۔ چند لمحوں بعد راشد اس کی چوت کے اندر ہی چھوٹ گیا لیکن انعم نے تیزی سے ہلنا جاری رکھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی فارغ ہو گئی۔ جیسے ہی اس کے حواس کچھ بحال ہوئے اسے اپنی کمر پہ جلن کا احساس ہوا، راشد نے فارغ ہوتے ہوئے مزے کی شدت سے اپنے ناخن اس کی کمر میں گاڑ دیے تھے تبھی اسے اپنے مموں پہ بھی جلن کا احساس ہوا تو اس پہ انکشاف ہوا کہ راشد کے دانت اس کے مموں پہ گڑے ہوئے تھے۔ اس نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کہ ڈرائیونگ سیٹ کے نیچے سے دو کپڑے نکالے، ایک راشد کے ہاتھ میں پکڑایا اور دوسرا اپنی چوت پہ رکھ کہ اس کے لن کے اوپر سے اٹھ گئی۔ دونوں نے اپنا لن اور چوت صاف کی اور کپڑے پہن لیے۔

8اپڈیٹ نمبر

انعم بولی تم انسان ہو یا جانور؟ زخمی کر دیا ہے مجھے اپنے ناخنوں سے۔ راشد بولا یہ تو ٹریلر ہے، فلم تو ابھی باقی ہے۔ کل آؤ میرے فلیٹ پہ تمہیں پوری فلم دکھاؤں گا۔ پھر اس نے انعم سے کہا مجھے فلیٹ پہ چھوڑ دو اور کل رات پہنچ جانا۔ ابھی انہوں نے آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ راشد کے فون کی گھنٹی بجی، اس نے کال اٹینڈ کی تو دوسری طرف نسوانی آواز میں کسی نے ہیلو کہا۔ راشد بولا، تم اتنی جلدی پہنچ گئی؟ ابھی تو 9 بھی نہیں بجے اور میں نے تمہیں 10 بجے آنے کا کہا تھا۔ دوسری طرف سے جواب ملا کہ میں نے یہ بتانے کے لیے کال کی تھی کہ میں آج نہیں آ سکتی، کسی وجہ سے مجھے آج گھر ہی رکنا پڑے گا۔ راشد کے تیور اچانک بدل گئے اور وہ غصے سے بولا بہن چود میں نے تمہیں کہا تھا نہ کہ مجھے چکر دینے کی کوشش کرو گی تو تمہارے ساتھ بہت برا ہو گا۔ اب دیکھو میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ دوسری طرف سے جواب ملا کہ پلیز تم میری بات سمجھنے کی کوشش کرو، میں کل لازمی تم سے ملنے آؤں گی پھر تم جیسا کہو گے ویسا ہی ہو گا۔ راشد بولا ٹھیک ہے لیکن کل اگر تم نے پھر کوئی ڈرامہ کیا تو تمہیں کوئی نہیں بچا سکے گا، اتنا کہہ کہ اس نے کال کاٹ دی۔ انعم نے تجسس سے پوچھا یہ کون تھی؟ راشد نے خونخوار آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور بولا تم میری بیوی بننے کی کوشش نہ کرو، گشتی ہو گشتی ہی رہو۔ اگر تم نے دوبارہ ایسا فضول سوال کیا تو تمہارا وہ حال کروں گا کہ لن لینے کے قابل بھی نہیں رہو گی۔ انعم نے متوحش نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور بولی آئی ایم سوری، میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا۔ راشد بولا آئندہ بولتے وقت احتیاط کرنا۔ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ راشد کے فلیٹ پہ پہنچ گئے۔ راشد بولا کہ جس کو میں نے آج بلایا تھا وہ تو آ نہیں رہی اس لیے اب تمہیں رکنا پڑے گا۔ انعم انکار کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی اس لیے چپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑی۔ چلتے چلتے اس نے کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے، پہلے کچھ کھا نہ لیں؟ راشد نے کہا جو بھی کھانا ہے فلیٹ پہ منگوا لو۔ باتیں کرتے کرتے وہ لوگ فلیٹ پہ پہنچ گئے۔ یہ ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا جس میں دو کمرے اور ایک ٹی وی لاؤنج تھا۔ ٹی وی لاؤنج کے ساتھ ہی اوپن کچن تھا۔ راشد ٹی وی لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا اور انعم کو کھانا آرڈر کرنے کا کہہ دیا۔ انعم نے پیزا منگوا لیا جو دونوں نے مل کے کھا لیا۔ کھانا کھا کہ انعم نے سگریٹ سلگا لیا اور راشد کو بھی پیشکش کی۔ راشد نے بھی ایگ سگریٹ سلگا لیا۔ انعم بولی تم تو کہہ رہے تھے تمہارا فلیٹ وحشت زدہ ہے لیکن دیکھنے میں تو یہ بالکل ٹھیک لگ رہا ہے۔ راشد بولا کمرے میں چلو گی تو خود ہی دیکھ لینا۔ سگریٹ ختم کرکے راشد نے ایک کمرے کا دروازہ کھولا اور انعم کو اندر چلنے کا کہا۔

جاری ہے

ایک تبصرہ شائع کریں for "لرزہ خیز قتل کا معمہ"