یہ میری اپنی سچی کہانی ہے اس کے سارے کردار بھی حقیقی ہیں جو میں آپ دوستوں کے ساتھ شئیر کر رہی ہوں جو آپ میرے بوائے فرینڈ کی زبانی سنیں گے بس تھوڑا بہت مصالحہ لگایا ہے کہانی کو مزیدار بنانے کےلئے، امید ہے پسند آئے گی
میرا نام رضوان ہے میرا تعلق سرگودھا سے ہے میری عمر 28 سال ہے میں غیر شادی شدہ ہوں میری شکل و صورت پوری سی ہے رنگی بھی کالا ہے جس کی وجہ سے کوئی اچھا رشتہ نہیں مل سکا روپے پیسے کی کمی نہیں میرے 2 بھائی کینیڈا ہوتے ہیں اس کے علاوہ شہر میں گودام اور دکانیں بھی ہیں جن کا کرایہ لاکھوں میں آتا ہے اس کے علاؤہ شہر کا سب سے بڑا مال بھی میرا ہے اس لیے کسی چیز کی کمی نہیں بس زندگی میں ایک ہی چیز کی کمی ہے اور وہ عورت ،، جس کو مجھے خریدنا پڑتا تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرا لن حد سے زیادہ بڑا تھا جو اکثر عورتیں مشکل سے لے پاتی تھیں اس لیے بھی کھوٹے کی عورتیں بھی مجھ سے دور بھاگتی تھیں اب اصل کہانی کی طرف چلتے ہیں ابو کا ایک دوست تھا جس کا نام اسلم تھا اسلم اور ابو نے مل کر محلے میں ایک جنرل سٹور کھولا اس وقت میں بہت چھوٹا تھا اسلم ابو کا دوست اور بزنس پارٹنر بھی تھا اسلم کے چار بچے تھے اسلم کی بیوی کا نام عشرت تھا اسلم کی دو بیٹیاں سب سے بڑی تھیں بڑی بیٹی کا نام نصرت جبکہ چھوٹی کا نام سعدیہ تھا نصرت میری ہم عمر تھی وہ اور میں پڑھتے بھی اکھٹے ایک سکول میں تھے جس سے ہمارے درمیان دوستی بھی تھی اور ہمارا گھر آنا جانا بھی تھا جس سے ایک تعلق سا بنا ہوا تھا اسلم کے دو بیٹے بھی تھے جو کافی چھوٹے تھے اسلم کی بیوی عشرت کافی کھلی ڈلی اور فیشن والی عورت تھی اسے بن سنور کر رہنے کا اور اپنے اوپر خرچ کرنے کا بہت شوق تھا اس کے علاؤہ بھی اس کے بارے میں محلے کے لوگ غلط رائے ہی رکھتے تھے اس کا محلے میں کئی لوگوں سے چکر تھا عشرت اسلم کا کافی خرچہ کرواتی تھی اسلم بھی عشرت پر مرتا تھا کیونکہ وہ خوبصورت بھی کافی تھی اسلم کے انتقال کے بعد تو عشرت کو چھوٹ مل گئی ابو کے ساتھ کاروبار میں حصہ تھا وہ بھی عشرت نکال کر کھا گئی یہ بھی نا سوچا کہ اسے بچوں کی پرورش بھی کرنی ہے کچھ ہی عرصے میں اس کی جمع پونجی ختم ہوئی تو اس نے جسم فروشی شروع کردی عشرت جوان بھی تھی اور خوبصورت بھی محلے کے سبھی لوگ اس پر مرتے تھے اس دوران ابو بھی عشرت کے گاہکوں میں شامل ہو چکے تھے میں بھی ان دنوں پڑھائی چھوڑ کر ابو کے ساتھ دکان پر بیٹھا کرتا تھا انہی دنوں بھائیوں کو بھی ابو نے کینیڈا بھیج دیا تھا اور وہاں سے اب ڈالر آرہے تھے اس لیے ابو نے کاروبار پھیلایا بھی عشرت پر بھی نچھاور کیے عشرت اب پیسے لے کر اپنی عزت بیچتی تھی اس لیے اس کے گھر میں اب کسی چیز کی کمی نہ تھی میں بھی اب جوان ہو رہا تھا اور میرے ذہن میں اب سیکس کی باتیں بھر رہی تھیں اکثر صبح کے وقت جب عشرت کے بچے سکول ہوتے تو ابو عشرت کے گھر جاتے اور اپنا کام کر آتے جب کبھی میں عشرت کے گھر سودا سلف دینے جاتا تو کوئی نا کوئی مرد اس کے گھر ضرور ہوتا تھا عشرت محلے میں مشہور تھی اس سب کے باوجود عشرت محلے میں ٹکی ہوئی تھی اس کی وجہ تھی کہ عشرت کا ہر چھوٹا بڑا دیونہ تھا اور کوئی اسے نکالنا نہیں چاہتا تھا شروع میں تو کچھ لوگوں کو برا لگا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سب کو برا نہیں لگتا تھا باہر سے بھی عشرت کے ہاں لوگ آتے لیکن کسی کو اعتراض نہیں تھا شاید محلے کے لوگ اپنی رونق ختم نہیں کرنا چاہتے تھے وقت گزرتا رہا ہم بھی اس دوران بڑے ہوتے گئے اس دوران عشرت کی عمر بھی ڈھک رہی تھی اوپر سے تو کافی ٹوپ ٹاپ تھی لیکن اندر سے وہ ختم ہو رہی تھی اس کا اندازہ اس دن ہوا جب ایک دن میں اس کے گھر سودا دینے گیا میں بھی اب بھرپور جوان اور عشرت پر مر مٹنے کو تیار تھا عشرت اکیلی تھی میں نے موقع دیکھ کر عشرت پر ہلا بول دیا عشرت بغیر کسی مزاحمت کے دو منٹ میں میرے نیچے لیٹ چکی تھی میں نے اس فن پہلی بار کسی عورت کو چودا تھا اس کے بعد تو چل سو چل میں بھی موقع دیکھ کر عشرت کو خوب چودتا تھا میرا لن بہت بڑا اور مضبوط تھا جو عشرت کی کراہیں نکال دیتا عشرت کی بیٹیاں عشرت سے بہت ہی مختلف تھی گھر کا یہ ماحول ہونے کے باوجود نصرت اور سعدیہ بہت با حیا اور پردہ دار تھیں سکول کے بعد کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم بھی مکمل کر چکی تھیں لیکن نصرت کی میرے ساتھ دوستی آج بھی قائم تھی وہ مجھے اپنے بھائی سے بڑھ کر سمجھتی تھی سعدیہ بھی بہت با حیا اور عزت دار تھی عشرت تو اب ڈھل چکی تھی اس کا جسم آب لٹک کر بھدا سا ہو چکا تھا جس کی وجہ سے اب کوئی اس کے قریب نہیں آتا تھا اس لیے اب گھر کا نظام نصرت اور سعدیہ چلا رہی تھیں دونوں بہنیں شہر کے سکول میں پڑھاتی تھیں جس سے تھوڑا بہت خرچ نکل آتا تھا عشرت کا بڑا بیٹا جس کا نام ذیشان تھا وہ بجائے ماں بہنوں کا سہارا بننے کے بگڑ چکا تھا ظاہر بات ہے ماں کی جسم فروشی کی کمائی سے جو پلا تھا اس نے آوارہ ہی بننا تھا وہ سارا دن آوارہ گردی ہی کرتا تھا چھوٹا بیٹا ابھی بہت چھوٹا تھا جو اب آٹھویں کلاس میں تھا اس کی عمر 14 سال تھی اس لیے وہ ابھی اس قابل نہیں تھا کہ اپنے گھر کا سہارا بنتا ۔نصرت اور سعدیہ ابھی تک کنواری تھیں اور ان کے شادیوں کی بھی امید اب بالکل ختم تھی کیونکہ شروع میں اچھے رشتے آئے لیکن گھر میں غریبی دیکھ کر واپس چلے جاتے آہستہ آہستہ رشتے آنے ہی بند ہو گئے ان دنوں ابو کا بھی انتقال ہو چکا تھا اور سارا کاروبار میرے ہاتھ میں تھا میری اب بھی نصرت سے دوستی تھی کہ میرا اس گھر کے ساتھ گہرا تعلق تھا نصرت میری بڑی عزت کرتی تھی کبھی کبھار جب زیادہ مجبوری ہوتی تو میں کچھ مدد کردیتا تھا نصرت بھی اپنی ماں کی طرح بہت خوبصورت گوری چٹی تھی اس کا جسم بہت خوبصورت تھا نصرت بھرے سے جسم کی ایک لمبے قد کی بہت خوبصورت لڑکی تھی مجھے وہ بہت پسند تھی لیکن میری عزت کرنے کی وجہ سے میں اس کو کچھ کہنے اور کرنے سے ڈرتا تھا میں اکثر اس کے گھر جب جاتا تو وہ میرے ساتھ گھنٹوں باتیں کرتی تھی جیسے اس کا میں کچھ خاص دوست تھا وہ مجھے اپنا بھائی کہتی تھی اور اس رویہ بھی میرے ساتھ بہنوں والا تھا لیکن وہ بہت خوددار اور غیرت مند تھی نصرت جب چھوٹی تھی تو اس کی بہت سی خواہشات تھیں جن کا وہ مجھ سے ذکر کرتی تھی ہمارے گھر جب پہلی گاڑی آئی تو نصرت اس وقت چھوٹی تھی وہ
نصرت میرے ساتھ گھر گاڑی دیکھنے آئی اور مجھے چیلنج کیا کہ ایک دن وہ بھی گاڑی لے گی نصرت اب بڑی ہو چکی تھی وہ اب اپنی خواہشات کا برملا اظہار تو نہیں کرتی تھی لیکن اس کا چہرہ صاف بتاتا تھا لیکن وہ کچھ کہتی نہیں تھی لیکن ایسے ہی دن گزر رہے تھے کبھی کبھار دل تو کرتا کہ نصرت کے ساتھ تعلق بنا لوں لیکن پھر ڈرتا بھی تھا ایک دن حسب معمول میں نصرت کے گھر گیا سامنے نصرت ٹوٹی پر بیٹھی برتن دھو رہی تھی نصرت اس وقت دوپٹے کے بغیر تھی نصرت آج شاید سعدیہ کے لباس میں تھی جو اس کو چھوٹا اور تنگ تھا جس نے نصرت کے جسم کو کس کر واضح کر رکھا تھا میں نے آج پہلی بار نصرت کو اس لباس میں دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا اسے دیکھتے ہی میری تو لاٹری نکل آئی میں نے ایک گہری نظر نصرت کے جسم پر پھیری جس سے نصرت کا کسے ہوئے تن کر کھڑے موٹے ممے ہوا میں لہرا تے نظر آرہے تھے نصرت کی شلوار میں کسے ہوئے موٹے پٹ صاف نظر آ رہے تھے نصرت کی پھیلی ہوئی کسی ہوئی گانڈ بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی میں تو سمجھا کہ شاید نصرت خود ہی مجھے یہ سب دکھا رہی تھی میری نظر نصرت سے ملی تو نصرت بھی مجھے بھی دیکھ رہی تھی جس سے نصرت کے چہرے پر لالی پھیل سی گئی اور وہ شرم سے لال ہونے لگی میں وہیں کھڑا نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت جلدی سے برتن اٹھا کر اندر کی ن میں چلی گئی شاید وہ میرے یوں دیکھ ے پر گھبرا سی گئی میں جب نصرت کو دیکھ رہا تھا تو عشرت نے مجھے نصرت کو تاڑتا دیکھ لیا تھا نصرت کے جانے پر آنٹی بولی رضو کدی ساڈے کول وی بہ لیا کر اور ہنس دی میں آنٹی بات سن کر چونک کر شرما سا گیا آنٹی صحن میں پڑی چارپائی پر بیٹھ گئی اور بولی رضو اوراں آ جا یا اوتھے ہی بت بن کے کھلوتا رہسیں میں مسکرا کر آنٹی کے پاس جا کر بیٹھ گیا نصرت اتنے میں شاید کام ختم کر کے اندر کمرے میں چلی گئی وہ اس وقت دوپٹے میں تھی لیکن دوپٹہ نصرت کی کمر کے اوپر تھا جس سے نصرت کی ہلتی گانڈ نظر آرہی تھی میں نے ایک نظر نصرت کی گانڈ پر ڈالی تو نصرت بے اختیار اپنا قمیض ٹھیک کرتے اندر جانے لگی میں نصرت کی گانڈ کو دیکھ رہا تھا آج نصرت میرے ساتھ بات کیے بغیر ہی چلی گئی کیونکہ اکثر وہ میرے پاس ہی بیٹھ جاتی تھی لیکن آج وہ شاید میرا اسے دیکھنا اچھا نہیں لگا جس پر میں بھی تھوڑا سا شرمندہ سا ہوا کہ مجھے یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا نصرت اندر چلی گئی تو آنٹی بولی رضو کے تینوں نصرت چنگی لگدی تے اس نال گل کیوں نہوں کردا میں نے چونک کر آنٹی کو دیکھا آنٹی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں بولا نہیں آنٹی ایسی گل نہیں نصرت تے میری بھین ہے آنٹی ہنس کر بولی سکی بھین تے کوئی نہیں ناں میں بولا او تے سمجھدی ہے نا نالے آنٹی تینوں پتا تے ہے نصرت ایو جئی لڑکی نہیں آنٹی ہنس کر بولی کملیا تینوں لگدا اے ساریاں چھوریں ہی اندرو انج دیاں ہوندیاں ہین میں بولا آنٹی پر نصرت انج دی نہیں مینوں پتا اے آنٹی بولی کملیا توں ہک واری نصرت نوں پھرول تے سہی میں ہنس دیا اور بولا پر آنٹی نصرت کڑی نا جاوے آنٹی بولے وے کجھ نہیں ہوندا توں اس تے کجھ خرچہ کر اسدا دل کے لئے تے نصرت تیری ہو سگدی اے میں بولا پر آنٹی ویکھ پئیں تیرے کجھ ہو نا جاوے آنٹی بولی رضو بہوں ڈرپوک ہیں نصرت جوان ہے اس ٹائم اس اندر آگ بل رہی اے نصرت اپنی جوانی دی آگ دی پیک تے ہے رضو لوہا گرم ہے سٹ مار دے میں بولا آنٹی تیرے پتر ناں کجھ آکھن آنٹی ہنس کر بولی رضو او میرے پتر ہین ہن تک اپنی ماں دی کمائی تے عیش کیتی ہینے اوہنا نوں عادت اے بغیر کم کیتیاں مال لبھے تے اوہناں ہور کی منگنا ،، شانی دی فکر نا کر اس نوں بس خرچہ دتی رکھیں اوہ نہیں بولدا آگے مینوں وی تے سیدھا ہا لوگاں کو ستا پیا ہن بھین نوں وی ویکھ لیسی میں یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا تھا نصرت تو مجھے بھی بہت اچھی لگتی تھی میں بھی سوچتا تھا کہ کاش نصرت بھی اپنی ماں کی طرح کھلی ڈلی ہوتی آج مجھے آنٹی مجھے خود کہ رہی تھی میں بولا آنٹی وت میں آندا آں کوئی شے کے کے آنٹی بولی لئے ا میں وی تیری سفارش کرساں یہ سن کر ہم دونوں ہنس دیے میں وہاں سے نکل کر ایک مہنگی بوتیق میں گیا اور نصرت کےلیے سپیشل کافی مہنگے برینڈ کے چار سوٹ خریدے ساتھ میں آنٹی اور سعدیہ کے لیے بھی ایک ایک سوٹ لیا ساتھ میں نصرت کے لئے کچھ جیولری وغیرہ بھی خرید کر سیدھا نصرت کے گھر پہنچ گیا میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو سامنے آنٹی کھڑی تھی نصرت اور سعدیہ بچوں کو سیکنڈ ٹائم ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں جو اس وقت نکل رہے تھے آنٹی میرے ہاتھ میں شاپر دیکھ کر مسکرا دی اور مجھے اشارہ کیا کہ وہ کمرے میں ہے میں سیدھا کمرے میں چلا گیا تو نصرت بیڈ پر بیٹھی سکول کا کام کر رہی تھی نصرت کے ہاتھ میں پیپر تھے نصرت مجھے دیکھ کر چونکی اور میرے ہاتھ میں شاپر دیکھ کر مجھے غورا اور منہ نیچے کرکے اپنا کام کرنے لگی میں نے شاپر جا کر نصرت کے گورے قدموں میں رکھ دیے جسے دیکھ کر نصرت چونک کر پیچھے ہو گئی اور بولی اے کی اے میں بولا اے تیرے واسطے تحفے ہین نصرت کے منہ پر لالی سی پھیل گئی میں نصرت کے پاس کی بیٹھ گیا نصرت بولی مینوں اہناں دی لوڑ نہیں میں بولا کیوں نہیں لوڑ وہ بولی بس مینوں اہناں دی لوڑ نہیں میں کچھ نا بولا میرے پاس تو الفاظ کی نہیں تھے میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ نصرت کے ساتھ یہ سب بھی کروں گا جس سے میں شرما رہا تھا نصرت نے پیپر رکھے اور پیچھے بیڈ کے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور بولی رضو امی تے ہے ہی ایو جئی پر تینوں تے پتا اے میں ایو جئی نہیں ہاں امی تے اپنے لحاظ نال سوچدی اے پر میں اے نہیں کر سگدی میں نے چونک کر اسے دیکھا میں سمجھ گیا کہ آنٹی نے اس سے بات کی ہے بارے میں جس سے مجھے بھی حوصلہ ہوا اور میں بولا نصرت وت کی اے توں وی سوچ لے نصرت نے گہری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بولی میں تینوں ایو جئی لگدی آں میں بولا تے ایو جہی بن جا نصرت نصرت کچھ نا بولی اور گہری آنکھوں سے مجھے دیکھا نصرت شرما کر لال ہو گئی اور ایک لمحے کےلئے مجھے دیکھا میں نصرت کو دیکھ کر بولا نصرت میں تینوں بہوں پسند کردا آں توں میری بن جا تیری ہر خواہش پوری کرساں
نصرت میری بات پر شرم سے لال ہو گئی تھی اور مجھے گہری نظر سے دیکھ کر بولی رضو میں تے ہن تک تینوں بھرا سمجھدی ہاس توں تے میرے تے کجھ ہور نظر رکھی بیٹھا ہائیں میں اس بات پر تھوڑا سا شرما گیا میں بولا نصرت میں کہڑا تیرا سکا بھرا ہاس ہن توں نا سمجھ مینوں بھرا نصرت بولی رضو بھرا تے بھرا ہوندا اے میں بولا نصرت ہک موقع تے دے تینوں راجی کر دیساں تیری ہر خواہش پوری کرساں نصرت منہ نیچے کرکے بیٹھی تھی وہ کچھ نا بولی میں نصرت کی چپ کو دیکھ کر اپنا ہاتھ آگے کیا اور نصرت کا نرم ملائم گورا ہاتھ پکڑ لیا نصرت جس پر تھوڑی سی کانپ کر گھبرا سی گئی اور اپنا ہاتھ اپنی کھینچتی ہوئی چھڑوانے کی کوشش کرتی بولی رضو بندے دا پتر بن نا کر تینوں پتا ہے میں ایو جئی نہیں ہاں ، نصرت کا ہاتھ میں نے کس کر پکڑ رکھا تھا جو وہ چھڑوا تو نا سکی لیکن چھڑوانے ی کوشش کرتی رہی میں نے ہلکا سا نصرت کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا نصرت ہک موقع تے دے تینوں میں دنیا دی ہر شئے دیساں گیا نصرت میرے کھینچنے سے میری طرف ہلکا سا لڑھک آئی جس سے نصرت گھبرا کر تھوڑے غصے سے بولی وے رضو حرامدیا چھڈ دے مینوں میتھو کجھ ہو جاسیا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے مجھے چھڑوانے لگی میں نے بھی اپنا دوسرا ہاتھ نصرت کی طرف بڑھایا اور نصرت کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا جس سے نصرت خود کو چھڑوانے کا زور لگانے لگی لیکن وہ میری ہمت کے آگے کچھ نہیں تھی میرے زور لگانے سے میری طرف لڑھکتا چلی آئی اور میرے قریب آکے میرے اوپر ڈھے سی گئی نصرت اس دھینگا مشتی میں گھبرا کر ہانپ رہی تھی جس سے نصرت بلکل میرے قریب ہو کر میرے ساتھ لگ چکی تھی نصرت کا منہ میرے منہ کے بالکل قریب تھا جس سے نصرت کی تیز تیز چلتی سانس میری سانس سے ٹکرا کر مجھے مدہوش کر رہی تھی میں نصرت کو اتنا قریب دیکھ کر بے اختیار سا ہو گیا میں آگے ہو کر نصرت کا منہ چومنے لگا جس سے نصرت نے اپنا منہ پھیر لیا اور بولی رضو نا کر میں مر ویساؤں گئی پر میں نہیں رکا نصرت ہے جسم کا لمس میرے ساتھ لگ کر مجھے بے حال کر رہا تھا جس میرا زور کم ہوا تو نصرت نے اپنا آپ چھڑوانا چاہا جس سے میں نے پھر اس کو قابو کر لیا لیکن نصرت کے پیچھے کو زور لگانے پر میں اس بار نصرت کی طرف کھینچتا چلا گیا نصرت کے ہاتھ میری گرفت سے چھوٹ گئے لیکن میں نے ہاتھ پھیلا کر نصرت کو جلدی سے اپنی جپھی میں بھر لیا نصرت میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر ابھی سنبھلی ہی نہیں تھی کہ اگلے لمحے نصرت میری باہوں میں میری جپھی میں تھی اس بار میں نصرت کے اوپر ڈھے گیا اور نصرت پیچھے بیڈ پر لڑھک گئی میں نے نصرت کو باہوں میں کس لیا جس سے میرا تنا ہوا موٹا لن نصرت کے موٹے پٹ سے لگ کر نصرت کو چبھ گیا جس سے نصرت کانپ کر کراہ گئی جب کہ میں نصرت کے نرم پڑ کا لمس اپنے لن پر محسوس کرکے مچل کر سسک گیا اور بے اختیار نصرت کو دبا کر اپنا منہ نصرت کی طرف بڑھایا لیکن نصرت نے منہ پھیر لیا۔جس سے نصرت کی گال میرے منہ کے سامنے آگئی میں نے منہ کھول کر نصرت کی نرم گوری گال اپنے ہونٹوں میں بھر کر چوس لی جس سے میں نڈھال ہو کر کرا سا گیا جبکہ نصرت کانپ آواز میں زور لگا کر خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی بولی لکھ لعنت ہی حرامدیا دفعہ ہو جا بدھ دے مینوں تینوں واسطہ ہئی رضو میرے مگروں کہ جا اور کانپ کر آہ سی بھر کر رہ گئی نصرت میری باہوں میں بھر کر دوہری سی ہوگئی اس کے گھٹنے سینے سے لگ کر نصرت کی موٹی شلوار میں کسی گانڈ باہر کو نکلی کر واضح ہو گئی میرا نصرت کے پٹ میں چبھا لن نصرت کے جسم کی گرمی سے نڈھال ہو چکا تھا میں نے نصرت کی گال کس کر چوستا ہوا اپنی گانڈ ہلا کر آہستہ آہستہ لن نصرت کی پٹ پر دبا کر مسلتا ہوا مزے لینے لگا نصرت میرا لن اپنے پٹ پر محسوس کرکے کراہت محسوس کرنے لگی تھی میں نصرت کے اوپر چڑھا نصرت کی گال چوستا ہوا نصرت کے پٹ پر لن رگڑ رہا تھا جس سے میں بس نڈھال ہونے ہی والا تھا کہ اتنے میں دروازہ کھلا اور کوئی اندر آگیا دروازے کی آواز سے میں چونکا اور نصرت کی گال پچ کی آواز سے چھوڑ کر دیکھا تو دروازے پر نصرت کا بھائی شانی کھڑا ہمیں حیرت سے دیکھ رہا تھا میں شانی کو دیکھ جلدی سے نصرت کو چھوڑ کر بجلی کی سی تیزی سے پیچھے ہٹ کر نصرت سے اٹھ گیا اور بیڈ پر بیٹھ گیا نصرت بھی جلدی سے میرے نیچے سے نکل کر اوپر سیدھی بیٹھ کر خود کو سنبھالنے لگی میں شانی مجھے اور اپنی بہن نصرت کو قابل اعتراض حالت میں پکڑ چکا تھا اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی بہن کے اوپر چڑھے مجھ کو اپنی بہن نصرت کی گال چوستے میرا لن اپنی بہن نصرت کے پٹ پر مسلتا صاف دیکھ چکا تھا میرے پیچھے ہٹتے ہوئے میرا کھڑا لن بھی شانی دیکھ چکا تھا جبکہ اپنی بہن کی گال پر میرا تھوک اور گال سے منہ ہٹاتے وت پچ کی آواز بھی شانی صاف سن چکا تھا نصرت پیچھے ہٹ کر اپنی گال سے میرا تھوک صاف کرکے اپنا لال سرخ نیچے کر کے بیٹھ گئی وہ بھی اپنے بھائی کے سامنے میرے ساتھ یوں قابلِ اعتراض حالت میں خود کو پا کر گھبرا سی گئی تھی میں بھی ایک لمحے کےلئے ڈر کے مار گھبرا کر لال پیلا ہو چکا تھا نصرت کی بھی شاید یہی حالت تھی مجھے لگا کہ پتا نہیں شانی اب کیا کہے گا لیکن پھر مجھے آنٹی بات یاد آئی کہ شانی کچھ نہیں کہے گا جس سے مجھے بھی حوصلہ ہوا کہ شانی کچھ نہیں کہے گا شانی ہمیاری ساری کاروائی دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ میں اس کی بہن نصرت کے اوپر چڑھا ہوا نصرت سے مزے لے رہا تھا ہم پیچھے ہٹ کر ایک لمحے کےلئے پیچھے ہو کر پر سکون ہو گئے تو شانی بولا باجی کوئی شئے کھاون آلی ہے تے آکے مینوں دے مینوں بڑی بھک لگی ہوئی اے نصرت ایک لمحے کےلئے بھائی کی بات سن کر کانپ گئی جیسے وہ شانی سے کچھ اور ہی ایکسپیکٹ کر رہی تھی لیکن شانی کی آواز میں نرمی اور التجا محسوس کر کے مجھے لگا جیسے شانی نے کچھ دیکھا ہی نہیں اس نے یہ سب ایسے اگنور کردیا ہو جیسے معمولی سی بات ہو اس پر نصرت بھی پرسکون سی ہوگئی اور ہلکی آواز میں بولا ہلا دیندی آں شانی یہ بات کہ کر مڑ گیا جبکہ میں دل ہی دل میں یہ سوچ کر مچل گیا کہ واقعی ماں کے جسم کی کمائی کی پرورش نے شانی
کو بیغیرت بنا دیا تھا کہ ایک غیر مرد کے ساتھ اپنی بہن کو دیکھ کر اس نے کچھ بھی نہیں کہا میرے ذہن میں پھر یہ بات آئی کہ شانی تو اپنی ماں کو لوگوں کے ساتھ چدواتا دیکھ چکا ہے تو پھر یہ کونسا بڑی بات ہے میں ان سوچوں میں تھا کہ نصرت جلدی سے بیڈ سے نیچے ٹانگیں لڑکا کر جوتا ڈھونڈنے لگی میں نے آگے ہو کر نصرت کو قریب ہو گیا جس سے نصرت گھبرا کر جلدی سے اٹھنے لگی میں نے نصرت کو پھر پکڑ کر باہوں میں دبوچ لیا نصرت کا منہ پہلے ہی لال تھا نصرت آنکھیں بند کر کے پیچھے ہو کر بولی رضو حرامدیا بس کر آگے بھائی ویکھ لیا ہئی ہن اس ویکھ لیا تے پتا نہیں کی کرسی چھڈ مینوں میں نصرت کو سینے سے دبا کر بولا ایڈا تیرا غیرت مند بھرا نصرت اس بات پر کچھ نا بولی اس کے چہرے کے آثار سے لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے تنگ ہو رہی ہے وہ بولی شانی چھوڑ مینوں ۔اور بولی اسے توں تے تینوں بھرا بنایا ہا کہ سکا بھرا بے غیرت ہے پر توں تے غیرت مند ہوسیں پر توں تے اس توں وی لگھدا ایں نصرت کی یہ بات اس وقت تو مجھے اتنی نہیں لگی لیکن اس کے لہجے میں ایک اکتاہٹ اور افسوس ضرور تھا میرے ذہن پر اس وقت فل شیطان سوار تھا میں نے نصرت کو پکڑ کر جھسا مارا جس سے نصرت کانپ سی گئی اور میری باہوں میں مسلی گئی جس سے وہ پیچھے لڑھک گئی اور بے اختیار مجھے گالیں نکال دیں میرا لن پٹ کو مسلتا ہوا نصرت کے چڈے میں گھس گیا جس سے میں کراہ کر کانپ سا گیا نصرت کے گرم چڈوں کا لمس میرا لن سہ۔نا پایا اور میں دو تین جھٹکے مار کر لن نصرت کے چڈوں میں مسلا جس سے میری کراہ نکلی اور میرا لن نصرت کے چڈوں میں ہمت ہار گیا جس سے میں کراہ مار کر ایک لمبی منی کی دھار مار کر نصرت کے چڈوں میں فارغ ہونے لگا تھا میرے ان دوتین جھٹکوں نے نصرت کی پھدی کو بھی ہلکا سا چھو لیا تھا جس سے ایک لمحے کےلئے نصرت کانپ کر کراہ سی گئی اسی لمحے دروازہ کھلا اور اس بار پھر کوئی اندر آیا وہ نصرت کا سب سے چھوٹا بھائی طلحہ تھا جسے سیکس کا تھوڑا بہت ہی پتا تھا پر مجھے نصرت کے اوپر کراہ کر جھٹکے مارتا دیکھ کر سمجھ گیا کہ میں کیا کر رہا ہوں اپنی بہن کے چڈوں میں گھسا میرا جھٹکے مار کر چھوٹتا لن اسے بھی نظر آ رہا تھا وہ ایک لمحے کے رکا اور پھر حیرت سے ہمیں دیکھ کر بولا باجی بھائی پیا سددا ہئی نصرت میرے نیچے پڑی کانپ رہی تھی وہ یہ بول کر بڑے انہماک سے اپنی بہن پر جھکا مجھے دیکھ رہا تھا میں سمجھ گیا کہ وہ بھی جوان ہو رہا ہے اور سیکس کو دیکھنے کی خواہش اس کے اندر بھی ابھر رہی ہے میں نصرت کے چڈوں میں فارغ ہو کر ہانپ رہا تھا نصرت کا بھائی اپنی بہن کو میرے نیچے پڑا دیکھ رہا تھا نصرت اپنے بھائی کو بڑے انہماک سے خود کو میرے نیچے پڑا دیکھ کر شرم سے لال ہو کر بولی طلحہ توں جا میں آندی پئی آں طلحہ ہمیں دیکھنے میں فل مگن تھا وہ نصرت کی آواز سن کر چونکا اور بولا ہلا باجی اور نکل گیا اس کے جانے پر نصرت بولی بہوں ہی بے غیرت ہیں رضو توں میں سوچیا وی ناہ کے توں میرے نال۔انج کرسسیں اور میرے نیچے سے نکل کر بیٹھ گئی میں نصرت کے چڈوں میں سے نڈھال ہو کر پڑا تھا مجھ سے تو ایک بار اٹھا نا گیا میں نے نصرت کو پکڑنا چاہا تو وہ مجھ سے چھڑوا کر اٹھی اور بولی دفعہ ہو پراں آج توں میں تیری کجھ نہیں لگدی مینوں نا بلاویں میرا تے سارا مان ہی ترڑ دتا توں جس سے نصرت کی آواز بھر سی گئی اور وہ جلدی سے باہر نکل گئی میں نصرت کی بات سے چونک گیا کہ وہ واقعی مجھے اپنے بھائیوں سے آگے سمجھتی تھی لیکن میں نے شیطان کے۔ بہکاوے میں آکر اس کا مان توڑ دیا تھا وہ مجھ سے اب سارے ناطے ختم کر کے جا چکی تھی اور میں بیڈ میں منہ دبائے افسوس ہی کرکے رہ گیا اور خود کو کوسنے لگا کہ میں نے یہ غلط کیوں کیا وہ مجھے کیا سمجھتی تھی میں نے اس کو کیا بنا دیا خیر میں ملامت کرتا ہوا باہر نکلا تو سامنے آنٹی اور شانی بیٹھے تھے آنٹی مجھے دیکھ کر مسکرا دی دھینگا مشتی میں ہینمیرا کام تمام ہو گیا تھا جس سے میرے کالے رنگ کے سوٹ پر اوپر قمیض پر بھی منی کے داغ صاف نظر آ رہے تھے آنٹی نصرت اور شانی دونوں ان داغوں کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ میں نصرت کے ساتھ گیم ڈال کر آیا ہوں میرا ضمیر اب مجھے ملامت تو کر رہا تھا لیکن آنٹی عشرت ہے چہرے پر سجی مسکراہٹ سے میں سمجھ گیا کہ وہ کیا سوچ رہی جبکہ شانی کے چہرے پر بھی ہلکی سی لالی تھی جیسے وہ بھی خوش تھا کہ چلو اب روزی تو لگ جائے گی بہن کے جسم کی کمائی تو آئے گی میں ایک لمحے کےلیے نصرت کی باتیں بھول گیا اور واشروم جا کر خود کو صاف کیا واپس آیا تو آنٹی بولی رضو ہلے شروع شروع ہے نصرت کجھ آکھ لوے تے اگنور کریں آپے ہولی ہولی سیٹ ہو جاسی شانی نے کوئی بات نا کی میں بولا ٹھیک اے شاید وہ نصرت کے کمرے سے نکلتے وقت اس کے چہرے کے آثار دیکھ کر بولی تھی آنٹی بولی رضو ویسے میں تے سمجھیا ہا کہ تیتھو پتا نہیں نصرت قابو ہونی کہ نہیں ہر توں تے آئے کجھ کر آیا ہیں اور ہنس دی میں نے ہنس کر جیب سے کچھ پیسے نکالے اور 5000 کے دو نوٹ آنٹی پکڑا دیے اور ایک نوٹ شانی کی طرف بڑھا دیا شانی نے بغیر کسی حجت کے پیسے پکڑ لیے جس سے وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ پیسے اس کی بہن کے جسم سے آئے ہیں وہ پیسے دیکھ کر آنٹی اور شانی کے چہرے جگمگا گئے جبکہ کیچن سے چائے لے کر نکلتی نصرت نے بھی مجھے پیسے دیتے دیکھ لیا تھا جس سے وہ بھی سمجھ گئی کہ اس کی ماں اور بھائی اس کے جسم کی پہلی کمائی وصول کر چکے ہیں جس سے اس کے چہرے پر ہلکی سی لالی اور ندامت سے پھیل گئی میں بھی نصرت سے نظر نا ملا پایا اور آنٹی سے اجازت لے کر نکل آیا آنٹی نے چائے کا کہا لیکن میں سمجھ چکا تھا کہ نصرت نے میرے لیے چائے نہیں بنائی اس لیے میں شرم سے لال وہاں سے نکل آیا وہاں سے نکل کر میں کافی دیر ملامت کرتا رہا میرے ذہن میں بار بار نصرت کا شکوہ اور مان توڑنے والی بات گھوم کر مجھے شرمندہ کر رہی تھی سارا دن میں یہ سوچ سوچ کر ہی کوستا رہا کہ میں نے یہ کیوں کیا شام کو شانی کا فون آیا وہ بولا کدھر ہے میں بولا مال تے آں وہ بولا گھر آ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے بلا رہا ہے
میں اس کی بہن کے ساتھ وقت گزاروں لیکن میرا دل نہیں تھا اس لیے میں نے کوئی بہانہ کر دیا کیونکہ مجھ میں نصرت کا سامنا کرنے کی ہمت نا تھی رات کھنا بھی نا کھا سکا اور جلد ہی سو گیا صبح میری آنکھ کھلی تو میں فریش تھا میرے ذہن میں نصرت کے ساتھ گزرے لمحات مجھے ایک بار پھر ترو تازگی کر رہے تھے میرے ذہن میں بات آئی کہ اب جو ہو گیا ہے اس کو بھول کر آگے کی طرف جانا چاہیے میں اٹھا نہا کر ناشتہ کرکے مال ہر چلا گیا کام وام سے فارغ ہوا تو تب تک نصرت کا بھی سکول سے آنے کا وقت ہو چکا تھا میں سیدھا گھر گیا اور کھانا کھا کر نصرت کے گھر چلا گیا میں گھر گیا تو جیسے ہی دروازہ کھول کر اندر گیا تو سامنے نصرت نہا کر نکل رہی تھی نصرت اس وقت گیلے بالوں پر روپیہ باندھ کر اندر آ رہی تھی جس سے اس کے باہر کو نکلے ہوئے ممے صاف نظر آ رہے تھے نصرت مجھے دیکھ کر شرما سی گئی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے اور تیز تیز قدم اٹھاتی اندر چل دی نہانے سے نصرت کا گورا رنگ مزید نکھرا ہوا تھا میں نصرت کو دیکھتا ہوا آنٹی ہے پاس جا کر بیٹھ گیا آنٹی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں پاس بیٹھ گیا تو آنٹی بولی ماں صدقے جاوے آگیا ایں میں ہنس دیا آنٹی بولی کوئی گل بات ہوئی ہئی فون تے نصرت نال میں بولا نہیں او تے میرے نال بہوں ناراض ہو گئی اے آنٹی بولی وے چھڈ وے اے ایویں اپنا دیاں گلاں ہوندیاں ہین میں کجھ پھرولیا ہے کل نصرت بڑی کوڑ اب ہا آج میٹھی اے پھرولیا رکھ تیرے نال پھس جا سی میں نے چونک کر آنٹی کو دیکھا تو آنٹی بولی ہنس دی اور بولی تے ہور کی نصرت کوئی اتو تے نئیں لتھی جہڑا اس دا مرد واسطے دل نہیں کردا بس کدی کدی کجھ چھوریاں اچ جھجھک ہوندی اے نصرت وی جھجھکدی اے پر کے توں پھساون دی کوشش کریں تے پھس ویسی تیرے نال اتنے میں اندر سے سعدیہ نکلی جو میرے لائے ہوئے کپڑوں تھی جو میں ان کےلیے کل لایا تھا وہ مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بھائی میرے واسطے ہکو سوٹ تے باجی واسطے 3 3 او کی تیری ڈھیر لگدی میں ہنس دیااور بولا نہیں ایسی گل نہیں بس ایویں ہی تیرے واسطے ہور لئے آسان وہ ہنس دی اور بولی رہن دے میں بولا آج ہی تیرے واسطے وی لئے آساں امی بولی سعدو چاہ بنا جا کے وت فرمائشوں کریں سعدو بولی امی توں وی نا اور ایک نظر مجھے دیکھ کر چل دی آنٹی بولی نصرت نوں پھسا لئے اتو اسدی واری اے وی تینوں دے چھڈنی میں نے چونک کر آنٹی کو دیکھا تو آنٹی ہنس دی اور بولی رضو سعدو تے تیار اے پر میں آکھیا کہ پہلے نصرت دی واری میں یہ سن کر دل ہی دل میں خوش سا ہو گیا دو دو جوان لڑکیاں میری جھولی میں گر رہی تھیں میں تو خوش قسمت تھا جن لڑکیوں کے پیچھے پورا محلہ گھومتا تھا وہ میری جھولی میں پڑی تھیں اتنے میں اندر سے نصرت نکلی اور بولی امی سعدو کدے آنٹی بولی چاہ پکا رہی وہ سعدیہ سے بولی سعدو میں چھت تے جا رہی آں میری چاہ آتے ہی دے جائیں اور وہ سیڑھیاں چڑھتی اوپر جانے لگی میں نیچے سے اسے دیکھنے لگا وہ شاید چھت پر بیٹھ کر بال چھڑوانا چاہ تھی نصرت چھت پر چلی گئی آنٹی بولی رضو کے توں نصرت نوں پھسا لویں تے ساڈا کم بن جاسی تینوں تیر پسند دی چھویر کبھی جانی تے سانوں ساڈی مرضی دا گاہک لبھ جانا میں اس بات آنٹی کو دیکھا تو آنٹی ہنس دی میں بولا اس دا مطلب تیرا دل اے ہن اپنی جاہ تے نصرت نوں لیاون تے آنٹی بولی رضو ہن ہور چارہ جے کوئی نہیں میرا دل ہا کہ میں اہناں نوں اس کم توں دور رکھاں اسے واسطے ہن تک اپنا نوں پڑھا لکھا کے تے اس قابل بنایا کہ اے شادی کر کے اپنا گھر وساون پر او تے گل بنی نہیں ہن وت اہناں کولو ایو کم ہی لینا اے میں ہنس دیا اور بولا آنٹی وت نصرت دا کی ریٹ ہے آنٹی ہنس دی اور بولی پہلے نصرت نوں پھسا تے لئے وت تینوں نصرت دا مل لاون دا وی سواد آسی میں ہنس کر بولا وت وی کوئی اندازہ تے ہووے تا کہ میں تیاری رکھاں آنٹی ہنس دی اور بولی اے ویکھ پئیں کہ نصرت کنواری اے میں ہنس دیا اتنے میں اندر سے سعدو چائے لے کر نکلی اس نے چائے مجھے اور آنٹی کو دی اور بولی باجی وی آتے وگ گئی بھلا اپنی چاہ لیندی جاندی آنٹی بولی رضو نوں دے اے دے آندا اور مجھے مسکرا کر دیکھا سعدیہ نے چائے مجھے پکڑا دی اور خود چلی گئی میں اٹھا تو آنٹی بولی ٹھہر اور اپنی پراندی سے کالا دھاگا لے کر مجھے دیا اور بولی آج اے کالا دھگا نشانی بنھ کے آنا توں نصرت دے پیر تے وت تینوں منساں میں آنٹی کے ہاتھ سے دھاگہ کے کر مسکرا کر اوپر چل دیا اوپر نصرت آگے پاؤں پھیلا کر بال چھڑوا رہی تھی میں اوپر گیا تو نصرت مجھے دیکھ کر سمٹ کر دوپٹہ لے کر ایک بار چونک سی گئی میں نے چائے اس کے سامنے رکھ دی وہ بولی توں کدے آیا ایں سعدو کدے ہے میں بولا کیوں میں نہیں آ سگدا نصرت مجھے دیکھ کر بولی نہیں سنجے آکھیا میں بھی چائے لے کر اس کے سامنے بیٹھ گیا وہ بولی توں کیوں ایتھے بیٹھا ایں توں جا ہن میں بولا کیوں جاواں نصرت کے چہرے پر ہلکی سی لالی پھیل گئی میں بولا میں نہیں بہ سگدا وہ بولی نہیں میں ایویں آکھیا میں بیٹھ کر چائے پینے لگا کچھ دیر بعد میں بولا نصرت مڑ کی خیال اے نصرت بولی کسدا میں بولا اوہ ہی جہڑا تینوں پتا اے نصرت بولی ویکھ رضو مینوں تنگ نا کر ایتھے تیری دال نہیں گلنی میں نے نصرت کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ہلکی سی لالی پھیل چکی تھی میں بولا میں دال نوں ابالا ہی ایڈا دیساں کہ او آپے ہی گل جاسی نصرت شرما سی گئی اور بولی بک بک نا کر میں ہنس کر بولا نصرت میں تیرے تے بہوں مردا آں نصرت نے آج پہلی بار نظر اٹھا کر مجھے دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی پھیلی ہوئی تھی اور اس کی آنکھوں میں گلابی ڈورے پھیل چکے تھے میں نصرت کے چہرے پر سجی مسکراہٹ دیکھ کر خوش ہو گیا مجھے لگا کہ کام بن رہا ہے نصرت بھی مجھے دیکھتی ہوئی اپنی آنکھیں میری آنکھوں میں گاڑھ دیں نصرت کی آنکھوں سے پیار چھلک رہا تھا میں نصرت کو دیکھتا ہوا بولا نصرت خیر ہے آج ایڈا پیار نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور منہ نیچے کرکے کچھ نا بولی میں نصرت کے تھوڑا قریب ہو گیا نصرت مجھے قریب دیکھ کر بولی رضو ایتھے کجھ نا کریں
اے چھت ہے تے کوئی ویکھ لیسیا میں ہنس دیا اور بولا کجھ نہیں کردا پر اپنی جان کول بہواں وی نا نصرت ہنس کر شرما سی گئی مجھے نصرت پر پیار سا آگیا میں بولا ویسے نصرت اے تبدیلی کیویں آ گئی کل تے بڑی ٹپدی پئی ہائیں نصرت ہنس دی اور بولی رضو زندگی دا اتنا حصہ شریف بن کے ویکھ لیا پر نیا کجھ نہیں زندگی دیاں اتنیاں خواہشاں ہان جہڑیاں محرومیاں بن گئیاں میرا دل ہا شادی کرکے تے اپنے بندے کولو خواہشات پوریاں کرساں پر رضی راتی تیری آفر تے میں بڑا غور کیتا مینوں لگا کہ ہن ہک اے ہی طریقہ رہ گیا اے اتنی شرافت اچ وی کجھ نہیں ملیا ہن اپنی زندگی نوں آپ ہی انجوائے کرنا ہے رضی توں میں اپنا آپ سارا تینوں دے رہی آں توں میری تے میرے گھر دیاں دی ہر خواہش پوری کرسیں گیا میں نصرت کی بات سن کر بولا میری جان توں مینوں ہر شئے توں ودھ ہیں مینوں ہر شئے تو توں پیاری ہیں نصرت میری اس بات پر ہنس کر منہ نیچے کر گئی میں بولا نصرت اے میرا نام توں کیویں سردی پئی ہیں نصرت ہنس کر بولی میرے واسطے آج تو توں رضی ہیں اور ہنس دی نصرت بولی رضی ہک گل یاد رکھیں اے گل کسے نوں باہر پتا نا لگے کہ میں تیری رکھیل آں رکھیل کا نام سن کر میں مچل سا گیا میں بولا میری جان توں فکر ہی نا کر کسے نوں پتا نا لگسی تے ہک میری وی خواہش اے کہ اے نک اچ کوکا وی پا لئے کوکے آلیاں چھوریں مینوں بہوں چنگیاں لگدیاں ہین نصرت ہنس گئی اور بولی ٹھیک جو تیرا حکم میرے عاشقا میں بولا ہلا اس گل دا آنٹی نوں پتا ہے نصرت بولی جی نہیں ہلے امی نوں نہیں دسیا ہن دس دیساں کے رضی نال میرا ریٹ مکا لئے اور کھل کر ہنس دی میں بھی ہنس دیا اور کالا دھاگہ نکال کر بولا نصرت اپنی کر باہر کڈھ نصرت مجھے دیکھ کر بولی اے کی میں بولا اپنی جان نوں اپنے پیار دی نشانی پا لواں یہ کہ کر میں نے ہاتھ ڈال کر نصرت کا گورا پاؤں کھینچ لیا جس سے نصرت کی اچانک ہلکی سی چیخ نکلی اور نصرت پیچھے لڑھک کر لیٹ سی گئی اتنے میں نصرت کا بھائی شانی اوپر سیڑھیوں کے دروازے پر آگیا اور سامنے میری ہاتھوں میں اپنی بہن کا پاؤں دیکھ کر وہ رک گیا اور مجھے اپنی بہن نصرت کے پاؤں میں دھاگہ باندھتا دیکھ کر مسکرا دیا میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا اور دھاگہ باندھ کر اس کی بہن کا پاؤں چوم لیا نصرت بولی ہلا ہن بنھ لیا ہئی تے بس کر جو وی کرنا ہئی تھلے کریں ایتھے کوئی ویکھدا ہئی میں اس کی بات سن کر نصرت کا پاؤں کھینچ کر اپنے کاندھے پر رکھا اور پیچھے دبا کر نصرت کے اوپر جھک گیا جس سے کی ٹانگ ہوا میں کھڑی ہو گئی اور نصرت میرے نیچے دب گئی نصرت زور لگا کر بولی وے رضو کی رڑا کڈھو ہیں کوئی ویکھدا ہئی نا کر نصرت کا بھائی شانی اپنی بہن کی ٹانگ میرے کاندھے پر کھڑی دیکھ کر مجھے اپنی بہن نصرت پر جھکا دیکھ رہا تھا میرا لن نصرت کی پھدی سے جا لگا تھا میں نیچے ہوا اور نصرت کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر دبا کر چوسنے لگا نصرت بھی سسک کر میرا ساتھ دیتی ہوئی میرے ہونٹ کھینچ کر دبا کر چوسنے لگی میں ایک منٹ تک نصرت کے اوپر جھکا نصرت کے ہونٹ چوستا رہا نصرت بھی میرا ساتھ دیتی گئی اور میری زبان کھینچ کر دبا کر چوستی گئی شانی اپنی بہن کو مجھے چومتا دیکھ رہا تھا میں نصرت کو چوم کر اوپر اٹھا تو نصرت بھی ہانپتی ہوئی مسکرا کر مجھے دیکھنے لگی ہمیں الگ دیکھ کر شانی بولا باجی تھلے آ کجھ کراہنے ہین چاہ بنا دے نصرت شانی کو سن کر چونک گئی وہ سمجھ گئی کہ شانی نے ہمیں ایک دوسرے کو چومتا ہوا دیکھ لیا ہے میں نصرت کو دیکھا تو وہ شرما سی گئی اور بولی ہلا اور جلدی سے اٹھ گئی شانی بھی چلا گیا تو نصرت بولی رضی کجھ ویکھ وی لیا کر ہن شانی سانوں ویکھ لیا ہونا میں ہنس کر بولا نصرت وت کی ہویا مزے وی تے اوہناں ہی کرنے ہین نصرت ہنس کر بولی بہوں بے حیا ہیں اور نیچے چلی گئی کچھ دیر میں بھی نیچے چلا گیا سامنے آنٹی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی سنا وت کجھ کم بنیا میں بولا آنٹی توں تیاری کر انج سمجھ تیرا کم ہو گیا آنٹی ہنس کر اندر چلی گئی شانی کے کچھ مہمان تھے نصرت ان کےلئے چائے بنا رہی تھی مجھ سے بھی اب رہا نہیں جا رہا تھا میں کیچن میں چلا گیا تو نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی نصرت سنک پر کھڑی چائے بنا رہی تھی میں نصرت کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا کر بولی رضی کجھ صبر کر جا توں تے ہر جا تے شروع ہو جاندا ایں میں بولا میری جان ہن رہیا نہیں جا رہیا یہ کہ کر میں پیچھے سے نصرت کے ساتھ لگ کر نصرت کو باہوں میں بھر کر نصرت کو اپنے ساتھ دبا کر نصرت کی گال پیچھے سے چوم لی نصرت نے اپنا منہ میری طرف کیا اور میرے ہونٹ چومتی ہوئی بولی رضی ہن میں تیری ہی ہاں پر جدو گھر اب شانی نا ہویا کرے وت میرے نال جو مرضی کر لیا کر میں بولا کیوں نصرت بولی رضی شانی میرا بھرا اے تے توں میرے بھرا دے سامنے مینوں اے سب کجھ کردا ایں تے مینوں شرم اوندی اے میں ہنس کر بولا نصرت پر تیرے بھرا نوں تے کوئی اعتراض نہیں نصرت ہنس کر بولی او تے ہے ہی ایو جیا پر مینوں تے آندی اے میرا لن تن کر فل کھڑا ہو کر نصرت کے چڈوں میں گھس چکا تھا جسے نصرت دبا چکی تھی میں نے منہ آگے کرکے نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوسنے لگا نصرت بھی میرا ساتھ دینے لگی میں نے بے اختیار ہو کر اپنے ہاتھ نصرت کے مموں پر رکھ کر دبا دیے جس سے نصرت کی سسکی نکل کر میرے منہ دب گئی میں نے ہلکا سا لن کھینچ کر نصرت کے چڈوں میں آگے پیچھے کر کے رہنے لگا جس سے میرا لن نصرت کی پھدی سے ٹکراتا ہوا آگے پیچھے ہونے لگا جس سے میں نصرت کے گرم چڈوں میں لن محسوس کرکے کراہ سا گیا میرے مزے سے چودہ طبق روشن ہو چکے تھے میں نصرت کے ممے کس کر دباتا ہوا تیز تیز لن نصرت کے چڈوں میں پھیرنے لگا میں نصرت کے ہونٹ چوستا نصرت کے ممے دباتا نصرت کی پھدی پر لن پھیرتا نڈھال سا ہونے لگا نصرت کے چڈوں کی گرمی میرے لن سے جان کھینچ رہی تھی نصرت بھی میرے لن کی رگڑ سے کراہ کر مچل رہی تھی میرے گھسے اب تیز تیز جھٹکوں میں تبدیل ہو گئے میں نصرت کے اوپر نڈھال ہوتا ہوا گرنے لگا نصرت بھی کراہ کر کانپتی ہوئی آگے سنک پر گر گئی
میں نصرت کے اوپر نڈھال ہوتا ہوا لڑھک کر نصرت کو چومتا تیز تیز دھکے مارتا نصرت کے چڈوں میں پھیرنے لگا جس سے نصرت بھی کراہ کر مچل گئی میں لگاتار دھکوں سے نصرت کے اوپر ڈھیر ہو گیا اسی دوران نصرت کا بھائی شانی اندر آگیا اور سامنے اپنی بہن کو سنک پر پڑا میرے دھکوں کو اپنی بہن کے چڈوں میں دیکھنے لگا میں نصرت کی پھدی پر تین چار دھکے مار کر کراہ کر رہ گیا نصرت کے گرم چڈوں نے میرے اندر سے جان کھینچ لی اور میں کراہ کر ایک لمبی منی کی پچکاری نصرت کے چڈوں میں مارتا نصرت کے چڈوں میں فارغ ہوتا نڈھال ہوتا گیا نصرت بھی میری زبان کھینچتی ہوئی کانپتی مزے سے فارغ ہو گئی میں سسک کر رہ گیاشانی کھڑی مجھے اپنی بہن کے چڈوں میں فارغ ہوتا دیکھنے لگا جس سے وہ بھی مچل گیا میں نصرت کو چوستا ہوا اوپر ہوا نصرت بولی رضی تھوڑا وی صبر نہوں کردا اور میرے ہونٹ چوس کر آگے ہوئی تو دروازے میں کھڑے شانی کو دیکھ کر چونک کر اسے دیکھا اور منہ آگے کرکے چائے ڈالنے لگی نصرت سمجھ گئی کہ اس کا بھائی سب کچھ دیکھ چکا ہے وہ چائے ڈالنے لگی ہلکی سی لالی اس کے چہرے پر پھیل گئی شانی چائے لے کر چلا گیا نصرت مجھ سے بولی میرا بھرا تے بے حیا ہے توں اس تو لگھدا ایں میں نصرت کی بات سن کر ہنس دیا نصرت باہر نکل گئی میں آنٹی کے پاس جا کر بیٹھ گیا نصرت بھی آکر ہمارے پاس بیٹھ گئی میں نصرت کو دیکھ کر بولا آنٹی وت نصرت من گئی ہئی آنٹی یہ سن کر چونک کر بولی ہنی نصرت سچی نصرت شرما کر ہنس دی اور بولی امی میں وی سوچیا کہ بڑا شریف بن کیا ہن اپنی مرضی دی زندگی گزارنی چاہی دی امی ہنس دی اور بولی نصرت اے تے چنگا کیتا ہئی نصرت بولی امی رضی نال میرا ریٹ مکا لئے تے مینوں اس دے حوالے کر اتنے میں شانی بھی آگیا اور مجھے دیکھ کر بولا رضو سنا وت ہن تے تیرا کم بن گیا ہونا مینوں لگدا باجی تیری گل من گئی ہے میں ہنس دیا نصرت بھی ہنس دی نصرت بولی بھائی ہن اس نال ریٹ مکا لئے پتا تے تینوں پگ گیا اے تے ہن رضو نہں اس نو رضی آکھنا اے تیرا بہنوئی اے ہن تے اسدا احترام لازم اے تیرے تے شانی ہنس دیا اور بولا جو حکم ہن تے اسی احترام کی اس نوں پوجساں وی گئے اور ہنس دیا نصرت ہنس دی آنٹی بولی وت کتنا ہک دیسیں گیا میری دھی دا میں بولا جو تساں منگو میں دیون نوں تیار آں آنٹی نے شانی کو دیکھا شانی نصرت سے بولا باجی توں سیل پیک تے ہیں ناں نصرت ہنس کر بولی بھائی بالکل بھائی انٹچ ہاں بے شک رضی نوں وکھا کئے میں ہنس دیا اور بولا نہیں ویکھن دی کی لوڑ اے مینوں پتا شانی بولا نہیں رضی توں اگر باجی نو چیک کرنا ہے ہے کر لئے آخر توں وی پیسے بھرنے ہین باجی نوں مل خریدنا ہے تے مال۔چیک کرنا تیرا بندا اے میں ہنس دیا بولا تسی ریٹ لاؤ مینوں پتا اے نصرت مجھے دیکھ کر ہنس دی اور اٹھ کر میری جھولی میں بیٹھ گئی شانی بولا رضی باجی دی سیل دا اسی 5 لکھ لساں گئے میں بولا بس 5 لکھ نصرت دی بہوں تھوڑی قیمت اے توں نصرت مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی تے توں آپ دے چا جہڑے توں دینے ہین میں بولا میں تیرا 10 دس لاکھ دیندا صرف تیری سیل دا نصرت میرہ بات سن کر چہک کر ہنس دی اور میرے سینے سے آلگی شانی بولا رضی یار اے تیری مرضی اے جو دیویں میں ہنس دیا آنٹی بولی پر اس دے نال ساڈے سارے گھر دا خرچہ وی سنبھالنا اے سانوں جو چیز دی وی کوڑ ہوئی توں پوری کرسیں۔میں ہنس کر بولا جو مرضی تسی آکھسو میں کرساں نصرت واسطے تے جان وی حاضر اے نصرت بولی رضی تینوں میری وی ہر خواہش پوری کرنی ہوسی میں جو آکھساں پورا کرسکیں میں بولا تیری تے ہر خواہش پوری کرساں شانی بولا رضی تینوں نصرت مبارک ہووے بے شک ہن جے توں اس نوں جدے وی لے کے جانا لے جا سانوں کوئی اعتراض نہیں آج تو نصرت تیری رکھیل اے جس ٹائم مرضی آکے توں نصرت نوں جدے مرضی لئے جا ساڈے آلو تیری اے جے ہن توں نصرت نوں لئے جانا تے لئے جا میں بولا نہیں نصرت ایتھے ہی رہسی بس میں ایتھے ہی نصرت کول آکے اپنی خواہش پوری کرساں جس ٹائم میں نصرت کول ہوواں کوئی سانوں تنگ نا کرسی شانی ہنس کر بولا جو حکم میرے بہنوئی صاحب نصرت مجھے دیکھ کر بولی رضی تینوں ڈھیر ساری نصرت مبارک اور میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر چومنے لگی میں نصرت کو چومنے لگا شانی اور آنٹی ہمیں دیکھنے لگے میں کچھ دیر نصرت کو چومتا رہا اتنے میں میری کاروباری کال آ گئی میں پھر آنے کا وعدہ کرکے وہاں سے نکل آیا
ایک تبصرہ شائع کریں for "بہنوں کا دلال"