.
اس کا سہرا اصل مصنف کو جاتا ہے۔
“Unknown Writer”
لیکن میں نے اس میں اختتام کو تبدیل کردیا ہے۔کیونکہ اصل کہانی میں اختتام
تھوڑا افسوسناک تھا۔
اس لیے میں نے چینج کر کے ہیپی اینڈنگ کی ہے۔
مجھے امید ہے کہ آپ کو یہ بہتر لگے گی۔
.
میری زندگی میں وہ آئی
میری عمر 40 سال ہے۔ اور میرے 3 بچے ہیں۔ پہلے ہے اشفاق 21 سال کا لڑکا، گریجویشن کر چکا ہے اور آگے ماسٹرز کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اُس سے چھوٹا ہے نعمان۔ 20 سال کا ہے اور گریجویشن فائنل ائیر میں ہے۔ اور سب سے چھوٹی ہے ہم سب کی لاڈلی سائرہ۔ 18 سال کی، اس نے ابھی گریجویشن کے لیے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا ہے۔ میرے شوہر کی 2 سال پہلے ڈیتھ ہو چکی ہے۔ جس کے بعد میں کافی ٹوٹ گئی۔ لیکن بچوں کے لیے میں نے خود کو نارمل کر لیا۔
گھر کے حالات کا بتا دوں تو ہمیں کھانے پینے کی کوئی فکر نہیں۔ میرے شوہر نے اس سٹی میں کئی جگہ 8 شاپس خرید کے رینٹ پر دے رکھی ہیں۔ اور ساتھ ہی ایک بہت بڑی کوٹھی رینٹ پر دے رکھی ہے۔ ان سب سے ہمارا گزارا بھی آرام سے ہو جاتا ہے بلکہ بچت بھی اچھی خاصی ہو جاتی ہے۔ گھر میں ایک کار ہے جو میرے استعمال میں رہتی ہے۔ جبکہ میرے دونوں بیٹے اپنی بائیکس استعمال کرتے ہیں۔ ایسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپر مڈل کلاس کی زندگی کو انجوائے کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں اوپر والے کمرے میں سب چیزیں دستیاب ہیں۔ پہلے میں نیچے رہتی تھی۔ لیکن اب ہمارے گھر کے نیچے کے پورشن کو میں دونوں بیٹوں کو دے رکھا ہے۔ نیچے ایک ہال ہے اور تین کمروں میں سے دو کمرے میرے بیٹوں کے استعمال میں ہیں۔ جبکہ ایک کمرہ خالی ہے جو گیسٹ روم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ مجھے نیچے کے پورشن میں شوہر کی یاد آتی ہے۔ تو میں اور میری بیٹی، ہم دونوں اوپر کے پورشن میں الگ الگ کمروں میں رہتے ہیں۔ اور نیچے کی طرح اوپر بھی ایک کمرہ خالی ہے۔ میرے روم کے برابر والا۔ اُس روم کا اور میرا باتھ روم ایک ہی ہے۔ اس تیسرے کمرے کو اسٹڈی روم کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ کچن کا اپشن اوپر اور نیچے دونوں جگہ دستیاب ہے۔ جبکہ سب سے اوپر چھت ہے۔ جہاں پر دو کمرے ہیں۔ اور ان کمروں کو ہم نے اسٹور روم بنا رکھا ہے۔
عمر میں تو 40 سال کی ہوں، لیکن دکھنے میں 32-33 سے زیادہ کی نہیں لگتی۔ کیونکہ میں نے خود کو کافی مینٹین کیا ہوا ہے۔ ایکسرسائز، یوگا اور ڈائیٹ پلان کے چلتے میں اپنی عمر سے کافی کم دکھتی ہوں۔ میرا فیگر اس عمر میں بھی جوانوں کا پانی نکال دے۔ وہیں بوڑھوں کے لنڈ بھی کھڑے کر دیں۔ میرا فیگر 36DD-30-38 ہے۔ میں زیادہ تر پاجامہ سوٹ پہنتی ہوں۔
میری کہانی شروع ہوتی ہے کچھ مہینے پہلے جب ہماری زندگی میں ایک نیا انسان آیا۔ یا کہیں آئی۔ اس کا نام ہے شمائلہ۔ جس کو پیار سے سب شمی کہتے ہیں۔ اس کا ایڈمیشن ہوا میری بیٹی کی کلاس میں۔ جو آئی تھی انگلینڈ سے۔ اس کو رکنے کے لئے جگہ چاہئے تھی تو میری بیٹی نے مجھ سے بات کی۔ میں نے اس شرط پر اجازت دی کہ وہ اسٹڈی روم میں رہے گی۔ اور زیادہ کہیں آنے جانے سے یا میرے دونوں بیٹوں کے ساتھ گھل ملنے سے پرہیز کرے گی۔
شمائلہ جس دن آئی، اُسی دن اُس نے میرے دل میں جگہ بنا لی۔ اُس کا قد تقریباً 6 فٹ، ممے ذرا نارمل سائز کے۔ شاید 34C سائز کے تھے۔ کمر 30 اور چھاتر 36 سائز کے تھے۔ اُس کی ہائیٹ مجھ سے 4 یا 5 انچ زیادہ تھی۔ لیکن اُس کی معصومیت اور اُس کی نظر جیسے پہلی بار میں میری روح میں اتر گئی۔
خیر، شمائلہ کے آنے کے بعد ہماری روٹین میں تھوڑی سی تبدیلی آ گئی۔ پہلے 4 لوگوں کا کھانا بنتا تھا اور اب 5 لوگوں کا۔ شمائلہ نے کبھی بھی میرے بیٹوں کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔ بلکہ ایسے کہیں کہ ان کے ساتھ اُس کا ریسپانس سخت ہی رہا۔ جس کی مجھے خوشی تھی کہ وہ میری بات پر عمل کر رہی ہے۔ جب کہ اُس کی نظریں ہمیشہ میرے جسم کی طرف کرتیں۔ وہ میرے ساتھ اور سائرہ کے ساتھ گھل مل کر رہتی۔ شمائلہ کے والد کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔ جب کہ اُس کی ماں بھی اُس کو چھوڑ چکی ہیں۔ وہ اس دنیا میں اکیلی ہیں۔ اُس کی باتوں سے پتہ چلا کہ اُس کے والد نے اُس کے لیے کافی پیسے چھوڑے ہیں۔ وہ پاکستانی تھے اس لئے وہ بھی پاکستان دیکھنے کے بہانے یہاں آ گئی۔ اور یہاں ایڈمیشن لے لیا۔
مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اُس کو بہت اچھی اُردو آتی ہے۔ وہ ہم سے زیادہ بہتر انداز میں اردو بول رہی تھی۔ جس پر مجھے حیرت تو ہوئی لیکن خوشی بھی کہ ایک لڑکی ہم سب کے کلچر کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں اپنے شوہر کے مرنے کے بعد ایک طرح سے خود کو مار لیا تھا۔ اپنی چدائی کی خواہش کو ختم کر لیا تھا۔ کیونکہ میں جانتی تھی کہ اب ایسا کچھ ممکن نہیں۔ میرے لئے اب میرے بچے ہی میری دنیا ہیں اور انہیں کے لئے مجھے جینا ہے۔ لیکن شمائلہ کے آنے کے بعد سب کچھ بدلنے لگا۔ پتہ نہیں کیسے اور کب؟ کیونکہ اُس کے آنے سے مجھے ایسے لگنے لگا کہ میرے اندر سیکس کی خواہش جاگ رہی ہے۔ میں جتنا اُس کو دبانے کی کوشش کرتی، لیکن فیلنگ بڑھتی جا رہی تھی۔
اور یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب ایک روز وہ میرے ساتھ کِچن میں مدد کروا رہی تھی۔ پتہ نہیں کیوں لیکن اُس کے جسم سے آتی خوشبو مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ اُس سے لپٹ جاؤں۔ میں جانتی تھی کہ یہ غلط ہے۔ خاص طور پر میرے لئے۔ میری بیٹی کی سہیلی ہے وہ… اور اُس سے بھی خطرناک بات، جس کو لوگ قبول نہیں کرتے، وہ ہے لڑکیوں کا اپس میں پیار۔ خیر میں کیا کہ رہی تھی؟ ہاں! کِچن میں مدد کرواتا ہوئے کئی بار اُس کا ہاتھ میرے ہاتھ سے ٹچ ہوا، ایسے لگا جیسے مجھے کوئی کرنٹ لگا ہو۔ میرے ہاتھ ٹھنڈے ہونے لگے، چہرے پر پسینہ آنے لگا۔ ویسے تو کِچن میں گرمی ہی تھی۔ لیکن اُس روز مجھے ٹھنڈے پسینے لگے۔
اُس رات میں نے اپنے شوہر کو بہت یاد کیا۔ تکیے کو اپنے آنسو سے گیلا لیا۔ اگلے روز سب کالج اور یونیورسٹی چلے گئے۔ میں جلدی جلدی کھانا بنا لیا۔ پھر میں سب بچوں کے کمروں کی صفائی کرنے لگی۔ اشفاق اور نعمان سب چیزیں پھیلا کر رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے مجھے ہر دو یا تین دن بعد اُن کے کمروں کی صفائی کرنی ہوتی ہے۔ اُس کے بعد باری آئی سائرہ کے کمرے کی۔ جہاں مجھے زیادہ وقت نہیں لگا۔ سائرہ کو اکثر چیزیں اپنی جگہ کر ہی رکھنے کی عادت ہے۔ ان سب کاموں سے فری ہو کر سوچا کے کیون نہ شمی (شمائلہ) کے کمرے کو بھی ارینج کر دوں۔
جب میں کمرے میں انٹر ہوئی تو مجھے اُسی خوشبو کا احساس ہوا۔ جو مجھے بار بار اپنی طرف بلا رہی تھی۔ کمرے کی ہر چیز اپنی جگہ پر تھی۔ اس لئے مجھے کوئی صفائی کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ میں کمرے سے باہر نکلنے لگی، تبھی میری نظر اسٹڈی ٹیبل پر پڑی۔ وہاں کچھ بُکس رکھی ہوئی تھیں۔ اور لیپ ٹاپ جو ابھی آن تھا۔ میں نے جا کر لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کیا اور بُکس کو رکھنے لگی۔ تبھی میری نظر ایک لائن پر پڑی جس کو دیکھ کر میری چوت میں اچانک ہلچل شروع ہو گئی۔
“میں اس کے لنڈ سے چودتے ہوئے اپنے شوہر اور اپنے گھر کو بھول گئی۔”
میں نے اُس بُک کو فوراً بند کر کے ایک طرف رکھ دیا۔ اور کمرے سے باہر آ گئی۔ بار بار میری آنکھوں کے سامنے یہ لائن آ رہی تھی۔ آخر میں رہ نہ سکی اور جلدی سے وہ کتاب اٹھا کر اپنے کمرے میں رکھ دی۔ میرے مائنڈ میں تھا کہ میں اسکو فرصت سے پڑہوں گی۔ اس کے بعد باقی دن ایسے ہی گزرا۔ میں بار بار کہیں خیالوں میں کھو جاتی، رات ہونے تک وہ لائن بار بار میرے ذہن میں آتی رہی۔
آخر شام کو مجھے اپنی پینٹی بھی بدلنا پڑی۔ رات کو میں اپنے کمرے میں آ گئی۔ اور اُس بُک کو نکال کر پڑھنے لگی۔ مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ یہ ایک سیکس کہانی کی کتاب تھی جس میں لڑکیوں اور شادی شدہ عورتوں کو ٹرانسجنڈر لڑکیاں (شیمیلز) سیڈوس کرتی ہیں۔ اُنکو اپنے بڑے بڑے لنڈوں سے چود کر انکو اپنے لنڈ کا چسکا لگا دیتی ہیں۔ اس کے بعد کوئی بھی عورت اپنے شوہر سے خوش نہیں رہتی۔ بلکہ اُس ٹرانسجنڈر لڑکی کی غلام ہو جاتی ہے۔
یہ سب پڑھتے ہوئے کب میں نے اپنی شلوار اور پینٹی اُتار دی، کب اپنی چوت میں اُنگلی کرنے لگی، مجھے پتا ہی نہیں۔ خیر ٣ کہانیاں پڑھنے کے بعد میں ٢ بار فارغ ہو چکی تھی۔ اس سے زیادہ میرے اندر ہمت نہیں تھی۔ نہ پڑھنے کی اور نہ جا جھرنے کی۔ میں چپ چاپ سو گئی۔ خواب میں بھی مجھے موٹا ٹھگرا لنڈ نظر آتا رہا جو بار بار میری چوت میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خیر اگلی صبح میں اپنے وقت پر جاگی اور فریش ہو کر سب کے لئے ناشتہ بنانے لگی۔ تبھی میرے پیچھے کسی کا احساس ہوا۔ یہ شمی تھی جو پانی پینے آئی تھی۔
شمی:- ہیلو آنٹی…!
میں:- ہائے بیٹا۔
شمی:- کل آپ میرے کمرے میں گئی تھیں۔
میں:- ہاں! وہ صفائی کے لئے گئی۔ لیکن جب دیکھا کہ تمہارا روم تو پہلے سے ہی ترتیب سے ہے تو واپس آ گئی۔
شمی:- (مسکرا کر) اچھا…! لیکن مجھے یاد ہے کہ میرا لیپ ٹاپ چل رہا تھا۔ شام کو جب آئی تو لیپ ٹاپ بند تھا۔
میں:- ہاں! وہ میں نے بند کیا….
شمی:- اچھا… ابھی کیا بنا رہی ہو آپ!
میں:- اوملیٹ… جیسا ہر دن۔
شمی:- آج میرے لئے پراٹھا بنا دو گے پلیز؟؟؟؟
میں:- ہاں کیوں نہیں۔
یہ کہ کر وہ وہاں سے چلی گئی لیکن جاتے جاتے مجھے اپنی گانڈ پر کسی کے ہاتھ کا احساس ہوا۔ جیسے کسی نے میری گانڈ کو ہلایا ہو۔ لیکن میں نے اگنور کر دیا۔
شمی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اور میں سب کے لیے ناشتہ سرو کرنے لگی۔ پھر سب تیار ہو کے آۓ۔ آج شمی مجھے دیکھ کر الگ طریقے سے مسکرا رہی تھی۔ جیسے میرا کوئی راز اس نے پکڑ لیا ہو۔ اس نے لیپ ٹاپ کا تو کہ دیا کہ لیپ ٹاپ بند ملا اس کو۔ لیکن اس نے کسی بک کا ذکر نہیں کیا مجھ سے۔ میں بھی خاموش رہی کہ شاید اس کو پتا نہ چلا ہو۔
سب کے جانے کے بعد جب شمی جانے لگی تو میرے پاس آئی۔
شمی: پراٹھے کے لیے شکریہ انٹی۔ ویسے ایک کام ہے۔ آپ کر دیں گی؟
میں:- ہاں بیٹا۔ بولو۔
شمی:- میرے بیڈ کی چادر خراب ہو رہی ہے۔ مجھے آج وقت نہیں ملا۔ کیا آپ بدل دیں گے؟
میں:- کوئی اشوو نہیں۔
شمی:- شکریہ انٹی۔
یہ کہ کر وہ چلی گئی۔ جب کہ میں گھر کے کاموں میں بزی تھی۔ الموسٹ ایک گھنٹے بعد میں اس کے کمرے میں گئی۔ تو اسکا لیپ ٹاپ کھلا ہوا تھا۔ میں اس کو بند کرنے لگی۔ تو اس پر ایک پیپر لگا ہوا تھا۔ جس پر لکھا تھا۔
“میں جانتی ہوں کہ کل آپ میرے کمرے سے بک لے گئی ہو۔ اب تک شاید آپ نے 3-4 کہانیاں پڑھ بھی لی ہوں گی۔ اس بک میں صرف 5 کہانیاں ہیں۔ آج دن میں باقی پڑھ لینا۔ اگر نئی کہانیاں چاہیے تو میرے بیڈ پر یلو بیڈ شیٹ بچھا دینا جو اس وقت آپ کے کمرے میں ہے۔
ENJOY….!”
میں ہل کر رہ گئی۔ یعنی وہ جانتی تھی کہ میں یہ کتاب لے گئی ہوں۔ میں شرم کے مارے زمین میں گاڑی جا رہی تھی۔ میں نے کبھی زندگی میں اتنی شرم محسوس نہیں کی تھی۔ ساتھ ہی مجھے اسکا طریقہ اچھا لگا۔ اس نے میری انسلٹ کرنے کے بجائے مجھ سے کمیونیکیشن کا نیا طریقہ نکالا تھا۔ سچ میں وہ ایک میچور لڑکی تھی۔ جس کو بات کرنا آتا تھا۔ اس نے میری عزت کا بھرم رکھا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ میں اکیلی ہوں اور میرا ساتھ دینے کے لئے، مجھے چودنے کے لئے میرا شوہر نہیں ہے۔ اور میرے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے خود اپنی آگ بجھانے کا۔
میں تھوڑی دیر سوچتی رہی کہ شمی کی اس بات کا کیا مطلب ہے؟ میں اپنے کمرے میں آ گئی اور لیٹ کر باقی کی دو کہانیاں پڑھ لیں۔ یہ کہانیاں بھی ٹرانسجنڈر لڑکیوں کے بارے لنڈ کے بارے میں تھیں۔ مجھے اتنا مزا آیا کہ میں نے پھر سے ایک بار انگلی سے اپنا پانی نکالا۔ مجھے اب بڑا، موٹا اور ٹھوس لنڈ چاہئے تھا۔ جو کسی کا بھی ہو، جو میری پیاس بجھا سکے۔ میں نے شمی کے بیڈ پر یلو بیڈ شیٹ بچھا دی اور اسکی وہ کتاب بیڈ پر ہی رکھ دی۔ تاکہ وہ دیکھ سکے۔ مجھے اب اس کے اگلے قدم کا انتظار تھا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کرے گی! ہاں یہ تو تھا کہ ہمارے درمیان جو پردہ، جو شرم کی دیوار تھی، وہ گرتا جا رہا تھا۔
باقی کا دن ایسے ہی گزر گیا۔ شام کو ہم سب نے مل کر مووی دیکھی۔ جس کے بعد سونے کے لیے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ میں اپنے بستر پر لیٹی یہ سوچ رہی تھی کہ شمی نے ابھی تک کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا۔ حالانکہ اس کے کہنے پر میں نے بیڈ شیٹ بھی بدل دی تھی۔ لیکن اس نے واپس آنے کے بعد کوئی ہنٹ نہیں دیا تھا۔ یہ چیز مجھے پریشان کر رہی تھی۔ بہت دیر تک میں بے چین رہی۔ اور اپنی چوت مسلتے مسلتے کب مجھے نیند آئی، پتہ نہیں۔ اگلے روز میں صبح سب کے لیے ناشتا بنا رہی تھی۔ شمی اٹھ کر میرے پاس آ گئی۔ اسکو دیکھ کر میں تھوڑی کنفیوز ضرور ہوئی۔ لیکن پھر بھی اپنے کام میں مصروف رہی۔ آج وہ میرے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی۔
اس نے میرے بالوں کو ایک طرف میں کیا اور جیسے کوئی لڑکا لڑکی کو ہگ کرتا ہے، ویسے مجھے ہگ کر لیا۔ اور میرے کانوں میں بولی۔
شمی:- کیا بنا رہی ہیں آپ؟
میں:- (اپنی بہکتی سانسوں کو سنبھالتے ہوئے) آملیٹ اور پراٹھا بنا رہی ہوں۔ تمہیں پسند ہے نا۔
شمی:- بہت زیادہ۔ اور ہاں! میرے جانے کے بعد دیکھ لینا۔ مینے کچھ رکھا ہے آپ کے لیے۔
یہ کہ کر اس نے میری گردن پر ایک کس کر دی اور مجھے چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ادھر اسکی ایک کس سے میری حالت پتلی ہو چکی تھی۔ میری آنکھیں کچھ دیر خماری میں بند رہیں۔ اس کے بعد میں ہوش میں آئی اور جلدی جلدی ناشتا بنانے لگی۔ میری چوت شمی کی ایک کس سے ہی گیلی ہو گئی تھی۔ میں اپنی اندر جاگتی ان فیلنگز کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
ہم سب نے بیٹھ کر ناشتہ کیا جس کے بعد مینے گھر کے کام ختم کیے۔ تب مجھے یاد آیا کہ شمی نے کچھ کہا تھا مجھ سے۔ میں اس کے کمرے میں گئی تو وہاں ہمیشہ کی طرح لیپ ٹاپ کھلا ہوا تھا۔ جب کہ اس میں کچھ پیجز اوپن تھے۔ اور لیپ ٹاپ پر اسٹکی نوٹ لگا ہوا تھا۔
“بک سے پڑھنے کا فائدہ نہیں۔ یہ سٹوریز میں نے لکھی ہیں۔ انکو پڑھو، امید ہے آپ کو مزہ آۓ گا۔ یہیں میرے کمرے میں ہی ریلیکس ہو کر پڑھ لو سٹوری.
ENJOY…!”
اسکی آفر نے جیسے میری چوت میں آگ لگا دی۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ کوئی لڑکی سٹوری بھی لکھ سکتی ہے؟ اور وہ بھی سیکس سٹوری…! آج تک مینے جو سنا، وہ یہ کہ لڑکیوں کو سب سے زیادہ شوق شاعری کا ہوتا ہے۔
اس کے بعد مینے شمی کی سٹوری پڑھنا شروع کی۔ ہمیشہ کی طرح اسکو پڑھ کر میں خاصی ہاٹ ہو گئی۔ اور اپنی شلوار میں انگلی کرنے لگی۔ یہ سٹوری تو جیسے جسم میں آگ لگانے والی تھی۔ کیون کہ اس میں ایک ٹرانسجنڈر لڑکی اپنی سہیلی کے گھر رہنے جاتی ہے اور اپنا لنڈ دکھا کر اپنی سہیلی کی ماں کو سیڈیوس کرتی ہے اور اس سے شادی کے لیتی ہے۔ اس نے اس قدر گرم انداز سے یہ سٹوری لکھی تھی کہ مینے دو بار پانی چھوڑ دیا۔ میری پینٹی پوری طرح گیلی ہو گئی تھی۔ سٹوری ختم ہونے کے بعد میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی اور اپنی پینٹی چینج کر کے ریلیکس کرنے لگی۔
اگلے روز سنڈے تھا اور سب کو چھٹی تھی۔ اس لیے ہم نے رات تک اینجوائے کیا۔ ہم سب نے مل کر 2 فلمیں دیکھیں۔
حال کی لائٹ تو بند تھیں، صرف ٹی وی کی روشنی جگمگا رہی تھی۔ میرے دونوں بیٹے نیچے فرش پر تکیے رکھ کر لیٹے ہوئے تھے جب کہ ہم تینوں ٹی وی کے سامنے سوفے پر تھے۔ میں درمیان میں تھی جب کہ میری میرے بائیں طرف شمی تھی اور میری بیٹی سائرہ میری دائیں طرف بیٹھی تھی۔ کچھ دیر بعد سائرہ میری ایک ٹانگ پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔ اس کا فوکس سامنے کی طرف تھا۔ آہستہ آہستہ شمی بھی میرے ساتھ چپک گئی۔ اس نے اپنا سر میرے کندھے پر رکھ لیا۔ اگر کوئی دیکھ بھی لیتا تو زیادہ غور نہیں کرتا کیونکہ شمی اتنی بے تکلف تو ہو چکی تھی مجھ سے۔ لیکن اب پچھلے دو تین دنوں سے ہمارے بیچ جو کچھ بدلہ تھا، اسکا کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا تھا۔
شمی میرے کندھے پر سر رکھ کر میرے بازو کو سہلانے لگی۔ اس کے ٹچ سے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔ میری بے چینی بڑھنے لگی۔ تھوڑی دیر تک وہ میرے بازو سے کھیلتی رہی۔ اس کے بعد اُس نے اُسی طرح میرے پیٹ کو سہلانا شروع کر دیا۔ قمیض کی پتلی سی لیئر اُس کے ہاتھ اور میری جلد کے بیچ میں تھی لیکن مجھے ایسے لگا تھا جیسے وہ میرے ننگے پیٹ کو ہی سہلا رہی ہو۔ میری سانسیں بے کابو تھیں۔ اُس کے ہاتھ میرے جذبات اور زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔ میں خود کو سنبھالنا چاہتی تھی۔ شمی کو روکنا چاہتی تھی۔ لیکن پتا نہیں کیوں؟ جب بھی وہ میرے پاس آتی، میں بہک جاتی۔ نہ میں زبان سے اُسکو کچھ کہہ سکتی تھی اور نہ ہی اُس کے کسی بڑھتے قدم کو روک پاتی تھی۔ اور آج!! آج وہ کھلم کھلا میرے جسم کو چھیڑ رہی تھی۔
مجھے اسکو روکنا چاہیے تھا، یہ غلط ہے۔ بہت غلط…..! وہ میری بیٹی کی سہیلی ہے۔ اسکو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی سہیلی کی ماں سے تعلق بنائے۔ اور میں! میں نے بھی اب تک کسی لڑکی کے ساتھ کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا۔ کبھی نہیں! لیکن شمی کے سامنے میری ساری ہمت، ساری طاقت ختم ہو جاتی تھی۔
ایسے ہی میرے پیٹ کو سہلاتے ہوئے اس نے میری قمیض کے اگے سے ہاتھ اندر ڈال دیا۔ اسکا ہاتھ میرے پیٹ پر تھا۔ ایک بار تو جیسے میرے جسم میں بجلی سی کود گئی۔ میں نے ایک بار سر گھما کے اسکی طرف دیکھا، لیکن وہ تو سامنے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ یا شاید ایکٹنگ کر رہی تھی۔ اس نے میری طرف دھیان ہی نہیں دیا۔ وہ اس سب کے دوران میرے پیٹ سے کھلتی رہی۔ میں کبھی مستی میں اپنی آنکھیں بند کر لیتی، کبھی آنکھیں کھول لیتی۔ میں اپنی ساری طاقت لگا کر اپنی سانسوں پر قابو پا رہی تھی کہ مستی میں میرے منہ سے کوئی آآآہ نہ نکل جائے۔ جب پہلی فلم ختم ہونے کو تھی تب وہ میرے کان کے پاس آ کر بولی۔
شمی:- فلم ختم ہونے کے بعد واشروم جاؤ اور اپنی پینٹی اُتار کے آؤ۔
اور ساتھ ہی میرے کان کو چاٹ لیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے اسکی زبان میرے کان پر نہیں بلکہ میری چوت پر چلی ہے۔ ایک دم سے میری چوت نے 2-3 پانی کے قطرے چھوڑ دیئے، جو میری پینٹی کو بھیگو گئے۔
اس کے بعد وہ ٹھیک ہو کر بیٹھ گئی۔ میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ جان چھوٹی۔ لیکن ابھی اس نے جو کہا تھا وہ میں کرنا تھا یا نہیں! یہ میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کے کہنے پر میں پینٹی کیسے اتار دوں! مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ فلم ختم ہونے کے بعد میں وہیں بیٹھی رہی۔ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔ میرے اس قدم کو دیکھ کر اس کو شاید اچھا نہیں لگا۔ لیکن میں مجبور تھی۔ میں خود کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہ سب جو ہو رہا ہے، ہمیں اس کو اگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ اس نے دو تین بار مجھے ہلکے سے چھو کر جانے کا اشارہ کیا لیکن نہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھی۔ آخر ہم نے دوسری مووی لگا لی۔ اب کی بار وہ میرے جسم سے نہیں کھیل رہی تھی۔
شاید وہ ناراض ہو گئی تھی۔ اس لئے میں بھی سکون سے بیٹھ گئی۔ لیکن میرا یہ سکون کچھ ہی دیر کا تھا۔ کیونکہ اب کی بار اس نے میرے مموں سے کھیلنا شروع کر دیا تھا۔ میں شروع سے ہی بغیر پیڈز کے برا پہنتی ہوں۔ یعنی ایسی برا جس سے آپ میرے نپلز آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ جیسے نیٹ والی براس یا پینٹیز، ہیلف کٹ وغیرہ۔ یعنی کپڑوں کے نیچے میں موڈرن اسٹائل کے ہی اننر پہنتی ہوں۔ خیر کچھ دیر شمی میرے نپلز سے کھیلتی رہی، کبھی وہ انہیں ہلکے سے سہلاتی تو کبھی چٹکیوں میں لے کر مسلتی۔ میں ایک بار پھر مدہوش ہو رہی تھی۔ میری چوت کا گیلاپن کافی حد تک بڑھ چکا تھا۔
ایسے ہی وقت گزر گیا اور دوسری مووی کے ختم ہونے کا وقت بھی ہو گیا۔ سچ میں آج پہلی بار تھا کہ میں نے مووی کا کوئی سین دھیان سے نہیں دیکھا تھا۔ بلکہ میں اپنی مستی میں کھوئی ہوئی تھی۔
شمی:- (میرے کان میں) ملتے ہیں صبح ۸ بجے کچن میں ناشتے کے وقت۔ اگر آپ آگے بڑھنا چاہتی ہو تو بغیر برا یا پینٹی کے ملنا۔ ورنہ….!
یہ کہ کر اس نے ایک بار پھر میرے کان پر زبان چلا دی۔ اسکی گرم زبان سے میری آنکھیں بند ہو گئیں لیکن میں نے کسی نہ کسی طرح اپنے منہ سے نکلنے والی آآآہہ… کو روک لیا۔ مووی ختم ہونے کے بعد ہم سب اٹھ کر اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میری چوت کے آس پاس میری پینٹی کیا پوری شلوار گیلی تھی۔
میں اپنے کمرے میں آ گئی اور سوچنے لگی کہ کیا ہو گیا ہے مجھے؟ میں کیوں بہکتی جا رہی ہوں؟ میں اب تک ایک بار بھی شمی کو روکنے کی کوشش نہیں کی…! کیوں؟ کیا اس کے ہاتھوں کا احساس اتنا اچھا لگتا ہے مجھے کہ میں ایک بار بھی نہیں روک سکی….!
میں کمرے میں آ کر اپنا ڈریس بدل کر نائٹی پہن لی۔ اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ میرے جسم کی گرمی مجھے سونے نہیں دے رہی تھی۔ میں سوچا کیوں نہ جا کر پانی بہا لوں تاکہ جسم کی آگ کچھ کم ہو سکے۔ میں یہ فیصلہ کر کے بیڈ سے نکلی اور واشروم کی طرف قدم بڑھا دیے۔ (میرا اور شمی کا واشروم کامن جو ہے۔)
جیسے ہی میں واشروم میں انٹر ہوئی، مجھے زبردست شوک لگا۔ کیونکہ اندر شمی کھڑی تھی۔ جو پوری ننگی تھی اور وہ نہانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اس کی بداغ پیٹھ اور چوتڑ میری آنکھوں کے سامنے تھے۔ اسکی جلد اتنی چکنی تھی کہ میں اسے چھونا چاہتی تھی۔ میں گھبرا کر واپس پلٹنے لگی، تبھی میرا ہاتھ کسی چیز سے ٹکرایا۔ شمی نے پیچھے مڑ کر دیکھا، تو ہم دونوں کی نظریں آپس میں ٹکرا گئیں۔ نا جانے کیوں، میں اس کی آنکھوں میں کھو سی گئی۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا جیسے مجھے بلاء رہی ہو۔ میں نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔ اس نے اچانک سے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ کچھ ہی سیکنڈز میں ہمارے جسم ایک دوسرے سے مل گئے۔ میرے مموں پر اس کے ممے ٹکرانے سے ایک الگ سا احساس ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سوچتی، شمی نے میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دیے۔ میرے لئے یہ کسی شوک سے کم نہ تھا۔ شمی میرے ہونٹوں کو چوم رہی تھی۔ ہم دونوں کے نرم نرم ہونٹ آپس میں جب ملے تو جیسے میری چوت میں بجلیاں سی کودنے لگیں۔ آہستہ آہستہ میں بھی اس کا ساتھ دینے لگی۔ کچھ دیر میں ہماری زبانیں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں۔
شمی اس دوران دونوں ہاتھوں سے میرے چوتڑ مسل رہی تھی۔ کچھ دیر بعد اُس نے میری چوت سے کھیلنا شروع کر دیا۔ اُس کی اس حرکت سے میں اپنی منزل کو پہنچ گئی۔ میرے جسم میں عجیب سی ہلچل ہوئی اور میں نے اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں سے ہٹا کر ایک زوردار سسکی لی۔ اور میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔
جیسے ہی میری چوت نے پانی چھوڑا میں ایک دم سے ہوش میں آ گئی۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ میں اپنے بستر پر ہوں۔ میرا بایاں ہاتھ میری چوت پر ہے جو کہ پورا گیلا ہے اور میرا دایاں ہاتھ میرے ہی چوسنے سے لال تھا۔ میں نے خود کو سنبھالا اور واش روم جا کر خود کو صاف کیا۔ جس کے بعد میں نے اپنے کپڑے تبدیل کئے اور سو گئی۔
اگلے روز صبح میں اپنے وقت پر جگی۔ نارمل دن ہو یا ویکنڈ، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ میں اپنے وقت پر اٹھتی۔ آج بھی اُسی وقت پر میں کِچن میں تھی۔ لیکن آج فرق یہ تھا کہ شمی کے کہنے کے مطابق میں نے پینٹی نہیں پہنی تھی۔ میں کِچن میں ناشتہ بنا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد شمی کِچن میں آ گئی۔ میں اُس وقت ناشتہ ہی بنا رہی تھی۔ وہ میرے پیچھے آ گئی۔ آج شاید اُس کو کوئی جلدی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ باقی سب لوگ دیر سے اٹھیں گے۔ میں ابھی پراٹھا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔
اُس نے پیچھے سے مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ اور دونوں ہاتھوں سے میرے ممے کو پکڑ لیا۔ میری تو سانس جیسے بند ہونے لگی۔ شمی پہلی لڑکی تھی جو میرے ساتھ یہ سب کر رہی تھی۔
میں: (ہمت اکٹھی کر کے) شمی…! پلیز…
شمی: (میرے مموں سے کھیلتے ہوئے) کیا پلیز آنٹی…!
میں: آئییی… پلیز ہمیں یہ سب نہیں کرنا چاہیے۔
شمی: (میرے دونوں نپلز کو مسلتے ہوئے) کیا نہیں کرنا چاہیے؟
میں: سس… نہیں کیرو نا۔ میں بہک جاؤں گی۔
شمی: تو بہک جاؤ نا۔
میں: نہیں…! یہ غلط ہے…!
شمی: کچھ غلط نہیں ہے۔ آپ بس انجوائے کیرو۔
میں: آہہہ… لیکن تم میری بیٹی کی سہیلی ہو۔ ہماری مہمان ہو۔
شمی: تو کیا ہوا؟
میں: پلیز نہیں کرو نا شمی۔ میں کئی سالوں سے اکیلی ہوں۔ اس آگ کو میں نے جلنے نہیں دیا۔ میں نے خود کو مشغول کر لیا ہے، گھر میں، بچوں میں۔ اس آگ کو نہ جلاؤ۔ ورنہ یہ مجھے مار ڈالے گی۔
شمی: کوئی بات نہیں آنٹی۔ میں ہوں نا، میں بجھاؤں گی تمہاری آگ کو۔
شمی اب آہستہ آہستہ میرے مموں سے نیچے آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں اُسکا ہاتھ میری چوت سے کھیلنے لگا۔ شلوار کے اوپر سے۔ میری شلوار پہلے ہی گیلی ہو چکی تھی۔ پینٹی نہ ہونے سے شمی میری چوت کی شیپ کو اچھے سے محسوس کر پا رہی تھی۔ ادھر وہ میری گردن پر لگاتار زبان چلا رہی تھی۔ پہلی بار تھا کہ کوئی میری گردن کو چاٹ رہا تھا۔ آج تک میرے شوہر نے کبھی میری گردن کو نہیں چوما تھا۔ ہاں! وہ کافی رومانٹک تھے۔ لیکن وہ میرے چہرے کو چومتے یا پھر میرے ہونٹوں کو۔ شمی کے ساتھ رومانس سے مجھے پتہ چل رہا تھا کہ میرے کانوں کے نیچے نیک والا حصہ میرا سب سے حساس حصہ تھا۔ میں اب آنکھیں بند کئے خود کو شمی کے حوالے کر چکی تھی۔
ادھر اب وہ میری شلوار میں ہاتھ ڈال کر میری ننگی چوت سے کھیل رہی تھی۔ کچھ دیر میں میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ شمی نے اپنا ہاتھ باہر نکالا اور اپنی اُنگلیوں کو چاٹ لیا۔
شمی: ہمممم… مزیدار پانی ہے۔ کاش میں روزانہ اس کو ڈائریکٹ پی سکوں۔
اُسکی بات سن کر میری چوت میں بے چینی سی پیدا ہوئی۔ لیکن میں نے خود پر کنٹرول کر لیا۔ ادھر وہ بھی فریج کے پانی نکال کر پینے لگی۔ اس کے بعد وہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ ہاں! ایک چیز نے ضرور مجھے پریشان کیا۔ وہ تھا شمی کے ٹراوزر کے آگے کا حصہ۔ جو کافی پھولا ہوا لگ رہا تھا۔ ایک لڑکی کے ٹراوزر میں بھلا کیا ہو سکتا ہے؟ شاید اُس کا موبائل ہو گا یا کچھ اور۔۔۔! میں نے وہم سمجھ کر اُسکو ذہن سے نکال دیا۔ میں اپنا کام چھوڑ کر واپس واش روم گئی اور ایک بار پھر کپڑے بدل لیے۔
جب تک میں ناشتہ بنایا، ایک ایک کر کے سب لوگ جاگنے لگے۔ ہم نے بیٹھ کر ناشتہ کیا اور پھر سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ آج سنڈے صفائی کا دن تھا، ہم سب نے مل کر پورا گھر ایک بار پھر صاف کیا۔ اور پھر سب باری باری فریش ہوئے۔ اس دوران شمی نے ایک بار بھی کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے کسی کو شک ہو یا مجھے کسی طرح کی پریشانی ہو۔
ہماری سیکرٹ لائف ایسے ہی چل رہی تھی۔ اگلے کچھ دن یہی روٹین رہی! ہلکی پھلکی چھیر چھار اور شمی کی عدم موجودگی میں اُس کے لیپ ٹاپ پر کہانیاں پڑھنا۔ میں اب ٹرانسجنڈر کہانیوں کی دیوانی ہو چکی تھی۔ ایک دن لیپ ٹاپ چلاتے چلاتے میرے ذہن میں آیا کہ دیکھیں کہ کہانیوں کے علاوہ کچھ ہے یا نہیں۔
تبھی مجھے ایک فولڈر نظر آیا۔ جس کا نام تھا “پرسنل فائلز”۔ جیسے ہی میں نے اس پر کلک کیا تو اندر جو تھا اُسکو دیکھ کر میرا گلا سوکھنے لگا۔ جی ہاں! اس فولڈر میں موویز رکھی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی میں نے پہلی مووی کو چلایا، میری حالت وہی ہونے لگی جو کہ کہانیاں پڑھتے ہوئے ہوتی تھی۔ میری چوت گرم ہو گئی اور رس چھوڑنے لگی۔
مووی کے ابتداء سے میں نے دیکھا کہ دو لڑکیاں آپس میں کس کر رہی ہیں۔ دونوں کے بڑے بڑے ممے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اُن کے جسم پر صرف برا پینٹی ہے، اس علاوہ کچھ نہیں۔ کس کرتے کرتے وہ لڑکی نیچے بیٹھ جاتی ہے، اور دوسری لڑکی کا انڈر وئیر اُتارنے لگتی ہے۔ ایک دم سے چوت والی جگہ سے کوئی چیز ہوا میں لہرانے لگتی ہے۔ لمبی سی، موٹی سی۔ جی ہاں! یہ اُس لڑکی کا لنڈ تھا۔ جو اب ہوا میں سانس لے رہا تھا۔ میں ایک دم سے اُس سین کو روکا اور اپنی چوت کو مسل دیا۔ میری چوت سے 2-3 قطرے پانی نکل کر پینٹی میں جذب ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے اُس سین کو پھر سے چلادیا۔ انڈر وئیر اُتارنے کے بعد اُس لڑکی نے لنڈ کو منہ میں بھر لیا اور چوسنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد وہ کھڑی ہوئی اور اپنی برا پینٹی اُتار کر بیڈ پر لیٹ گئی۔ اُس لڑکی کی گیلی چوت کیمرے میں صاف نظر آنے لگی۔ وہ ٹرانس گرل جھُکی اور اُس لڑکی کی چوت کو چھاتنے لگی۔ چوت کو اچھے سے گیلا کرنے کے بعد اُس نے لڑکی کو ۵-۶ اسٹائلز میں چودا اور پھر اپنا پانی اُس کے مموں پر نکال دیا۔ اس مووی کو دیکھ کر میری حالت خراب ہو چکی تھی۔ میں اب تک ٣ بار جھڑ چکی تھی۔
مووی کے ختم ہوتے ہی میں نے لیپ ٹاپ کو بند کیا اور اپنے کمرے میں آ گئی۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایسا کچھ حقیقت میں بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے اب تک یہی لگتا تھا کہ کہانی ایک طرح سے فینٹیسی ہوتی ہے۔ اس کا ریئل لائف سے تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن اب مووی دیکھ کر مجھے سمجھ آ رہا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
میری آنکھوں کے سامنے بار بار مووی کے سین آ رہے تھے۔ وہ چُدائی، لڑکی کی مستی بھری آہیں، اُسکا اورگیزم، اُسکی تڑپ، سب بار بار آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔ میں چاہ کر بھی اِن سب سینز کو ذہن سے نہیں نکال پا رہی تھی۔ کھانا بنانے کے دوران بھی میں بے چین رہی۔ دو بار میں نے اپنا ہاتھ جلایا۔ جب سب بچے گھر آ گئے تو ہم سب نے اِکٹھے کھانا کھایا۔ آج میں بالکل خاموش تھی۔ جس کو سب نے نوٹ کیا۔ اُن کے پوچھنے پر میں نے بتایا کہ طبیت ٹھیک نہیں ہے میری۔ پھر رات کو سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
اگلی صبح میں بہت مشکل سے جگی۔ کیونکہ میں ساری رات نہیں سو سکی تھی۔ میری بے چینی مجھے سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔ صبح کے وقت بنا پینٹی کے کپڑے پہننا اور ناشتہ بنانا اب میری روٹین کا حصہ بن چکا تھا۔ بطور عادت شمی میرے پاس آ گئی۔ اُسی طرح مجھے پیچھے سے ہگ کر کے کھڑی ہو گئی۔
شمی: تو مزا آیا کل مووی دیکھ کے؟
میں: ککک… ککک… کیا؟؟؟؟ کون سی مووی؟
شمی: وہی جو کل دیکھی تھی آپ نے! لنڈ اچھا لگا اس کا؟
میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ شمی میری چوری پکڑ چکی تھی۔ میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ وہ میرے جسم کو مسلتی رہی۔ اور میں آاااہہہہ… اوووہہہہ… کرتی رہی۔ تب اُس نے میرا چہرہ اپنی طرف گھمایا اور پہلی بار۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں!۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں پہلی بار ہمارے بیچ کس ہوا۔
شمی نے ۴-۵ سیکنڈ ہی میرے ہونٹوں کو چوسا اور پھر الگ ہو گئی۔ لیکن جانے سے پہلے اُس نے ایک کام اور کیا۔ اُس نے میرا ہاتھ کسی موٹی سی لمبی سی چیز کے اوپر پھیر دیا۔ اور وہاں سے چلی گئی۔
میں جب تک اپنی بے ترتیب سانسوں کو ٹھیک کرتی، کچھ سمجھتی، وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔ مجھے ابھی بھی اپنے ہاتھ پر اُس چیز کا احساس ہو رہا تھا۔ جیسے!!!!! جیسے کوئی لنڈ ہو۔ لیکن شمی تو ایک لڑکی ہے۔ اُس کے پاس لنڈ کیسے ہو سکتا ہے؟ میرا وہم ہو گا۔ میں نے یہ سوچ کر اپنا ذہن جھٹک دیا اور گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی۔
میرے لیے آج کل کافی مشکل ہوتا جا رہا تھا کہ میں اپنی روٹین پر فوکس کروں۔ رہ رہ کر میرے ذہن میں کہانیاں اور مووی کے سین چل رہے تھے۔ ہر روز شمی میرے ساتھ چھیر چھیر کرتی، میرے جذبات کو بھڑکا رہی تھی۔ اور اِدھر میں کنفیوز ہو رہی تھی کہ میں کیا کروں! کیسے اپنے جذبات پر قابو کروں؟ ہر بار میری سوچ ہوتی کہ میں شمی کو روک دوں گی۔ لیکن پھر اُسکو اپنی منمانی کرنے دیتی۔ کبھی میں نے اُسکو روکنے کی کوشش نہیں کی۔
مجھے ایسے لگتا جیسے کوئی انجانی طاقت میری زبان روک لیتی ہے۔ میرے ذہن کو کچھ بھی کہنے سے روک لیتی ہے۔ میں اُس کے سامنے کچھ بھی نہیں بول سکتی۔ کبھی اُسکا ساتھ مجھے اچھا لگتا، کبھی اُسکا ساتھ مجھے خوشی دیتا۔ تو کبھی میں اُس کے لمحوں کو ترسیتی۔ میرا دل کرتا کہ اُس کی باؤں میں زندگی گزر جائے۔ کبھی اُس سے دور رہنے کا وعدہ میں خود سے کرتی۔ تو کبھی فرسٹریشن کا شکار ہو جاتی کہ اُس کے ساتھ مجھے زیادہ وقت کیوں نہیں ملتا۔
دو تین دن بعد شمی اور سائرہ کو چھٹیاں ہو گئیں۔ کیونکہ اب ان کے امتحانات ہونے تھے جس میں ابھی ایک مہینے کا وقت تھا۔ اب میں کیا کروں؟ مجھے اپنی آگ بجھانے کا وقت نہیں مل رہا تھا۔ مجھے اب فلمیں دیکھنے کی عادت لگ چکی تھی۔ میں نے اب تک کوئی ۱۰ فلمیں ایسی دیکھ لی تھیں جس میں ٹرانس گرلز، لڑکیوں کو چودتی ہیں۔ میری پریشانی بھی شمی نے خود ہی حل کر دی۔
شمی: میں جانتی ہوں کہ آپ کو فلمیں دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ اور آپ چاہتی ہوں کہ روزانہ یہ فلمیں دیکھ کر انجوائے کرو۔ لیکن اب سائرہ بھی گھر پر رہے گی اور ہم مل کر اسٹڈی کریں گے۔ تو آپ کا فلم دیکھنا دن میں تو ممکن نہیں ہو گا۔
میں خاموشی سے سر جھکا کر رہ گئی۔ جیسے کوئی معصوم بچہ اپنی من پسند چیز کو دور جاتے دیکھ کر چپ ہو جاتا ہے۔
شمی: آپ رات کو 10 بجے لیپ ٹاپ لے لیا کرو۔ اور 11 بجے واپس کر دیا کرو۔ اس کے لیے باہر کا دروازہ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم واش روم والا راستہ استعمال کریں گے۔
اس کے بعد وہ وہاں سے چلی گئی۔ میں سوچنے لگی کہ شمی نے کتنا ٹھیک اندازہ لگایا ہے میری کیفیت کا۔ اگلی دو رات ہم نے ایسے ہی کیا…! میں اُسکا لیپ ٹاپ لے کر آئی اور مووی دیکھ کر اُسکو واپس کر دیا۔ تین چار دن ایسے ہی چلا لیکن پھر ایک دن جب میں اُس کے روم میں انٹر ہونے لگی تو مجھے ایسی آوازیں آئیں جیسے دو لوگ آپس میں بات کر رہے ہوں۔ یہ سائرہ اور شمی کی آوازیں تھیں۔ میں نے اپنے قدم فوراً روک لیے اور واش روم سے ہو کر واپس آ گئی۔ اب میں انتظار کرنے لگی کہ کب شمی فری ہو گی۔
رات ۱۲ بجے کوئی میرے کمرے میں انٹر ہوا۔ تب تک میں نا اُمید ہو کر سونے کی تیاری کرنے لگی۔ یہ شمی تھی جو میرے کمرے میں آئی تھی اپنا لیپ ٹاپ لے کر۔ میں اُسکو دیکھ کر خوش ہو گئی۔ میری چہرے کی یہ خوشی اُس کی آنکھوں سے چھپی نہیں رہ سکی۔
شمی: سوری! آج دیر ہو گئی۔ شکر ہے آپ نہیں آئی کمرے میں۔ ورنہ پکڑے جاتے۔ ہی ہی…
اُسکی بات سن کر میری بھی ہنسی نکل گئی۔ وہ ایسے کہ رہی تھی جیسے ہم لوورز ہیں اور ہمیں ڈر ہو کہ ہمارے والدین ہمیں نہ پکڑ لیں۔
وہ لیپ ٹاپ لے کر آج میرے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ میری بائیں اور اُسکی دائیں طرف آپس میں ٹچ ہو رہے تھے۔
شمی: آج وقت کم ہے۔ اس لئے اکٹھے بیٹھ کے دیکھتے ہیں۔ اگر آپکو کوئی اعتراض نہیں ہو تو۔
میں: تم بھی دیکھتی ہو یہ سب؟
(ویسے مجھے یہ سوال بچوں والا ہی لگا۔ ظاہر ہے اُس کے لیپ ٹاپ میں یہ موویز ہیں تو وہ ضرور دیکھتی ہو گی۔)
شمی:- ظاہر ہے۔ میں اپنے دیکھنے کے لیے ہی رکھتی ہوں لیپ ٹاپ میں۔ اور اب آپ کے ساتھ دیکھوں گی۔
وہ شاید جانتی تھی کہ میں کتنی موویز دیکھ چکی ہوں۔ (10 موویز) اس لیے اُس نے 11 نمبر مووی چلا دی۔ ہم دونوں مووی انجوائے کرنے لگے۔ وہ میرے بازو اور پیٹ سے کھیل رہی تھی۔ کبھی میرے مموں کو سہلا دیتی۔ لیکن کچھ دیر بعد وہ اپنے اپ میں مست ہو گئی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ شاید اپنی چوت سے کھیل رہی تھی۔
شمی:- (مجھے دیکھ کر) آپ بھی کھیل لو اپنی چوت سے۔ شرماؤ نہیں۔۔۔!
اور مجھے آنکھ مار دی۔ لیکن میں نے پھر بھی کوئی حرکت نہیں کی۔ اُس کے 5 منٹ بعد میں اپنے پجامے کے اوپر سے اپنی چوت سے کھیلنا شروع کر دیا۔
میرے چہرے کے ایکسپریشنز بدلنے لگے۔ اِدھر مووی ختم ہوئی، اِدھر میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ مستی کی وجہ سے کچھ دیر کے لیے میری آنکھیں بند ہو گئیں۔ آہستہ آہستہ میں اپنی سانسوں پر قابو پانے لگی۔ جب میں نے آنکھیں کھول کر دیکھ تو شمی مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔ شرم کی وجہ سے میری آنکھیں جھک گئیں۔
شمی نے آگے بڑھ کر میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ چپکا دیے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو کس کرنے لگے۔ کچھ دیر ایک دوسرے کے ہونٹوں کا رس چوسنے کے بعد ہم الگ ہوئے۔
شمی:- تم بہت پیاری ہو۔ خاص طور پر جب تم فارغ ہونے لگتی ہو تو تمہارا چہرہ اتنا سیکسی لگتا ہے کہ کیا بتاؤں۔۔۔! (شمی اب مجھے آپ کی جگہ تم بلا رہی تھی۔)
میں کچھ بولتی اُس سے پہلے ایک بار پھر اُس نے میرے ہونٹوں کو چم لیا۔ اور پھر بیڈ سے اُتر کر کھڑی ہو گئی۔ اُس کے پجامے کے اگے کافی بڑا سا اسپاٹ بن چکا تھا۔ اُس نے اپنا لیپ ٹاپ اُٹھایا اور واپس اپنے کمرے میں جانے لگی۔
شمی:- کل میرا انتظار کرنا۔ جب سائرہ اپنے روم میں جائے گی، تو میں لیپ ٹاپ یہاں لے آیا کروں گی۔ پھر دونوں مل کے انجوائے کریں گے۔
اور مجھے آنکھ مار کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں کچھ دیر بعد جا کر فریش ہوئی اور سو گئی۔ صبح اپنے وقت پر میں جاگی۔ ناشتہ بناتے ہوئے شمی کی وہی چھڑ چھڑ چلتی رہی۔ وہیں مجھے اپنے چُھترُوں پر وہی موٹی سی لمبی سی چیز محسوس ہوتی رہی۔ لیکن میری ہمت نہیں ہوئی کہ میں شمی سے اس بارے میں بات کروں۔ وہ میرے مموں سے کھیلتی رہی۔ میرے ہونٹوں اور گردن کو چاٹنے کے ساتھ ساتھ میرے نپلز کو مسلتی رہی۔
مجھے اب اس سب کو عادت ہو چکی تھی۔ میں شمی کی چھڑ چھڑ کو انجوائے کرتی۔ بلکہ مجھے انتظار رہتا کہ کب وہ میرے پاس آ کر مجھے چھوے گی، میرے جسم سے کھیلے گی، مجھے سہلائے گی۔ ہم یہ سب چوری چوری کر رہے تھے، گھر میں کسی کو اس کی خبر نہیں تھی۔ جیسے آپ کی نئی نئی شادی ہوئی ہے اور آپ کے شوہر آپکو پیار کر رہے ہیں۔ مجھے وہی فیلنگ آ رہی تھی۔ شمی کا ڈومینینٹ بہیویئر مجھے اچھا لگ رہا تھا۔
اُس روز رات کو میں اپنے بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ 10 بجے شمی میرے کمرے میں آ گئی۔ اُس کو دیکھ کر میں شرما گئی۔ پتا نہیں کیوں؟ پہلے جو گِلٹ ہوتا تھا یا اُس کو آگے بڑھنے سے روکنے کا جو فیصلہ ہوتا تھا۔ اب اُس کی جگہ شرم آتی تھی۔ مجھے خود کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ میں کیوں اُس کی طرف اٹھرا رہی ہوں۔ شمی میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی اور ہم دونوں مووی دیکھنے لگے۔ آج فرق یہ تھا کہ شمی نے مجھے اپنے آگے بٹھا رکھا تھا۔ جب کہ لیپ ٹاپ میری گود میں تھا۔ وہ مجھے پیچھے سے پکڑے ہوئے تھی۔ میرے مموں سے کھیل رہی تھی۔
مجھے شرم آ رہی تھی کہ اُس کے سامنے میں اپنی چوت سے کیسے کھیلوں۔ اُس نے خود ہی کچھ دیر بعد میرا ہاتھ پکڑ کر میری چوت پر رگڑنا شروع کر دیا۔ اُوپر نیچے۔ میرے منہ سے آاااہہہ۔ نکل گئی۔ شمی واپس اپنے کام میں بزی ہو گئی۔ یعنی میرے مموں کو مسلنے میں اور میرے نپلز کو کھینچنے میں۔ اِدھر مووی میں وہ ٹرانس گرل جس کا لنڈ 10 انچ کے قریب تھا، وہ 35-40 سال کی عورت کو زور زور سے چود رہی تھی۔ کبھی اُسکی چوت تو کبھی اُسکی گانڈ۔ یہ دیکھ کر میری چوت پوری گیلی ہو چکی تھی۔ بلکہ آج تو لگ رہا تھا جیسے بیڈ شیٹ بھی گیلی ہو گئی تھی۔
میں اپنی منزل کے قریب ہی تھی۔ اِدھر اُس ٹرانس گرل نے ماڈل کے چہرے پر اپنا لنڈ رس چھوڑنا شروع کیا۔
اِدھر شمی نے میرے نپلز کو چومیوں میں پکڑ کر زور سے مسل دیا۔ یہ درد میری مستی کو کئی گنا بڑھا گیا۔ اور میں آآآآہہہہہ… کی آواز کے ساتھ فارغ ہو گئی۔
کچھ دیر کے لیے میری آنکھیں بند ہو گئیں۔ شمی نے مجھے ویسے ہی بیڈ پر لٹا دیا۔ اُسکی ٹانگوں کے درمیان آج کافی بڑا تنبو بنا ہوا تھا۔ جو بار بار جھٹکے کھا رہا تھا۔ میری نظر اُس پر ٹھہر گئی۔ شمی بھی کچھ پل کو رکی اور مجھے دیکھنے دیا۔ میں نے کچھ دیر بعد اپنی نظریں اُٹھا کر شمی کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اُس نے جیسے میری آنکھوں میں چھپے سوال کو پڑھ لیا تھا۔
شمی:- میں ویسی ہی ہوں جیسے تم نے موویز میں دیکھی ہے۔ فی الحال اپنے ذہن پر زور نہ ڈالو اور سو جاؤ۔ باقی باتیں کل کریں گے۔
یہ کہ کر وہ چلی گئی۔ میں شمی کی باتوں کا مطلب سوچتے ہوئے سو گئی۔ میں ابھی تک الجھی ہوئی تھی کہ مینے شمی کی ٹانگوں کے بیچ کیا دیکھا تھا…!
اگلی صبح وہی روٹین۔ ناشتا بناتے وقت وہی چھیڑ چھاڑ، وہی رومانس، اُسی طرح لمبی موٹی سی چیز مجھے میرے چُتڑوں کے بیچ محسوس ہوتی رہی۔ اب مجھے کل رات والی بات سمجھ آ رہی تھی۔
“میں ویسی ہی ہوں جیسے تم نے مووی میں دیکھا”
یعنی شمی عام لڑکی نہیں بلکہ ایک ٹرانس گرل ہے۔ جس کے ٹانگوں کے بیچ چوت نہیں بلکے موٹا ٹھوس لنڈ ہے۔ اور وہی لنڈ پچھلے کئی دنوں سے مجھے میرے چُھتروں کے بیچ محسوس ہوتا ہے۔ جب وہ جانے لگی تو میں نے ایک دم سے اُسکو روک لیا۔
میں:- شمی بات سنو۔۔۔
شمی:- کیا ہوا؟
میں:- مجھے کچھ پوچھنا ہے تم سے۔
شمی:- کیا پوچھنا ہے؟
میں:- تم ایک۔۔۔۔ لڑکی ہو یا۔۔۔؟
(میں نے جھجکتے ہوئے پوچھا کہ کہیں اسے برا نہ لگے)
شمی:- دیکھنے میں ایک ریگولر لڑکی۔ لیکن میں پیدا لڑکوں کے اوزار کے ساتھ ہوئی، مگر باقی ہر چیز لڑکیوں والی ہی ہے۔
میں:- مطلب؟
(اس کو سمجھ لگ گئی تھی کے میری نالج اس بارے بالکل بھی نہیں ہے)
شمی میرے بالکل قریب آ کر، مجھے اُسکی سانسیں اپنی سانسوں میں گھلتی محسوس ہو رہی تھیں۔ اُس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ ہم دونوں کے سامنے کے حصے مل گئے۔ میرے ممے اُسکے مموں سے ٹکرا رہے تھے جب کہ نیچے وہی موٹی لمبی چیز میری ناف کو چھو رہی تھی۔
شمی:- میں ویسی ہوں جیسے تمہیں رات کو بتایا۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میرے پاس صرف ایسی ہی موویز کیوں ہیں؟ کیونکہ میں خود بھی ایسی ہی ہوں۔ میرے جیسے لوگوں کو ٹرانسجنڈر یا ٹرانس کہا جاتا ہے، کچھ لوگ شیمیل اور ٹرینی بھی کہتے ہیں لیکن وہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔
میں اُسکی بات سن کر ویسے ہی کھڑی رہی۔ اُسکی گرم سانسیں، اُسکی نازک باہیں جو میرے گرد پھیلائی رکھی تھیں، میں چاہ کر بھی ہٹ نہیں پا رہی تھی۔
شمی:- آج رات کو تیار رہنا۔ میرے پاس جو ہے، تمہیں پسند آئے گا۔
یہ کہ کر اس نے میرے ہونٹوں کو چوما اور چلی گئی۔ میں بہت دیر تک اسکی کس میں کھوئی رہی۔ اس کے بعد میں نے سب کے لئے ناشتہ بنایا۔ سب اپنی روٹین میں بزی ہو گئے۔ جب کہ میں سارا دن خیالوں میں کھوئی رہی۔ مجھے ابھی بھی یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اصل لائف میں کوئی ٹرانس گرل ہوتی ہے۔ حالانکہ میں اس کے لنڈ کو محسوس کر چکی تھی، اس کی شلوار میں بنے تمبو کو بھی دیکھ چکی تھی۔ پھر بھی مجھے یقین نہیں تھا۔
کب دن گزرا، کب رات ہوئی۔ پتا ہی نہیں چلا۔ آج میں نے ہم سب کے لئے باہر سے کھانا آرڈر کیا۔ سب اپنے کمروں میں چلے گئے۔ سائرہ اور شمی کافی دیر تک اسٹڈی کرتے رہے۔ رات کو ۱۱ بجے شمی میرے کمرے میں آئی۔ روم میں آتے ہی اس نے پہلی بار اپنے کپڑے اتار دئے۔ جی ہاں! پہلی بار اس نے خود کو ننگا کیا۔ اس کا جسم ہر طرح سے پرفیکٹ تھا۔ لمبی گردن، اس سے نیچے بڑے بڑے تنے ہوئے نیچرل ممے، پتلی سی کمر۔ فرق تھا تو صرف اس لنڈ کا۔ جس کی لمبائی کم سے کم ١٠ انچ اور گولائی ایک چھوٹے ٹن کین جتنی تھی۔ اور ابھی پوری طرح سے کھڑا نہیں تھا۔ جس کے بعد اسکی پرفیکٹ شیپ میں ٹانگیں۔ اس نے مجھے گھوم کر اپنا پورا جسم دکھایا۔ اتنا پرفیکٹ جسم تو میرا بھی نہیں تھا۔ حالانکہ میں ڈائیٹنگ، ایکسرسائز اور یوگا کی شوقین ہوں۔
اس کے بڑے بڑے ممے اور پرفیکٹ چوتڑ مجھے اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ میں کبھی کسی کی طرف اتنی اٹریکٹ نہیں ہوئی تھی۔ کچھ دیر میں اس کے جسم کے نظارے کرتی رہی۔ اس کے بعد وہ اُسی طرح پوری ننگی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اور اس نے مووی چلا دی۔ یہ اس لیپ ٹاپ کی آخری مووی تھی۔ آج وہ مزید کھل کر میرے جسم سے کھیل رہی تھی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیا اور مجھے سہلانے کا اشارہ کیا۔ میں آہستہ آہستہ اس کے لنڈ سے کھیلنے لگی۔ جب کہ وہ میرے جسم کو مسلنے لگی۔
لاپ ٹاپ اسکرین پر جو لڑکی تھی، وہ اپنی چوت کے ساتھ ساتھ اپنی گانڈ میں بھی لنڈ لے رہی تھی۔ شمی پہلے میرے مموں کو مسلتی رہی۔ اس کے بعد اس نے میری شلوار میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور میری ننگی چوت سے کھیلنے لگی۔ میرے منہ سے آآآ… آآآ… کی آوازیں نکلنے لگیں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں ابھی جھڑ جاؤں گی۔ کیونکہ شمی کی ایکسپرٹ فنگرز مجھے جنت کا مزہ دے رہی تھیں۔ لیکن اس نے مجھے جھڑنے نہیں دیا۔ ادھر مووی اپنے کلائمیکس کو پہنچی، یعنی اس ٹرانس گرل نے لڑکی کے منہ میں اپنا پانی نکالا۔ ادھر شمی نے میری چوت کے دانے کو عجیب طرح سے پنچ کیا اور چوت میں ایک انگلی ڈال کر ۲-۳ بار اندر باہر کی اور میں ہلکی سی چیخ کے ساتھ فارغ ہو گئی۔
آج پہلی بار میں اتنی شدت سے فارغ ہوئی تھی۔ کچھ دیر تک تو میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ادھر شمی کے لنڈ سے ابھی پانی نہیں نکلا تھا۔ اور شاید اسکا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا فارغ ہونے کا۔ اس لئے اس نے کپڑے پہن لیے۔ کب تک میں نے ہوش سنبھالا، وہ اپنے کپڑے پہن چکی تھی۔ اس کے جانے کے بعد میں فریش ہوئی لیکن آج مجھے بیڈ شیٹ بدلنا پڑی۔ کیونکہ میرا بستر پورا خراب ہو چکا تھا۔ میرے کپڑوں کے ساتھ ساتھ آج سارا پانی بیڈ پر بھی پھیل گیا تھا۔
مجھے اس رات بہت اچھی نیند آئی۔ اگلی صبح میں کافی دیر سے اٹھی۔ سالوں میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میں دیر سے جاگی۔ آج کسی نے مجھے جگایا بھی نہیں۔ جب میں کمرے سے باہر نکلی تو گھر پر کوئی نہیں تھا، سواۓ شمی کے۔
میں: سب لوگ کہاں گئے؟
شمی: اشفاق، نعمان دوستوں کے پاس گئے اور سائرہ یونی گئی ہے۔
میں کِچن میں جانے لگی کہ اپنے لیے ناشتہ بناوں۔
شمی: تم بیٹھو۔ مینے ناشتہ بنا لیا تھا سب کے لیے۔ تمہارے لیے بھی لاتی ہوں۔
یہ کہ کر شمی ناشتہ لے آئی۔ میں ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی تھی۔ اس نے میرے سامنے سب چیزیں رکھ دیں۔ اور اس کے بعد مجھے اُٹھا کر خود کرسی میں بیٹھ گئی اور مجھے اپنی گود میں کھینچ لیا۔ میں ایک دم سے سمٹ کر رہ گئی۔ آج تک ایسا میرے شوہر نے بھی نہیں کیا تھا۔
شمی: سالن ڈالو پلیٹ میں۔ ہم دونوں اکٹھے کھائیں گے۔ کیونکہ مینے بھی کھانا نہیں کھایا…!
مجھے اُسکی بات سُن کر تھوڑی خوشی بھی ہوئی کہ کوئی تو ہے جو میرا ساتھ دے رہا ہے۔ ورنہ میرے سب بچوں کی تو اپنی روٹین ہے۔ رات کے کھانے کے علاوہ کوئی میرا ویٹ نہیں کرتا۔
شمی اور میں ایک ہی پلیٹ سے کھانا کھانے لگے۔ اس دوران شمی کبھی مجھے نوالہ کھلا دیتی تو کبھی میں اُسکو کھلا دیتی۔ آج میں خود کو پہلے سے زیادہ تروتازہ اور جوان محسوس کر رہی تھی۔ اس رومانٹک طریقے سے کبھی میں نے اپنے شوہر کے ساتھ بھی کھانا نہیں کھایا تھا۔ کھانے کے بعد وہ برتن دھونے لگی۔ آج اُس نے مجھے کوئی بھی کام نہیں کرنے دیا۔ اُس نے میرے بالوں میں تیل کی مالش کی اور مجھے نہانے کے لیے بھیج دیا۔
شمی: اچھے سے جا کر نہا لو۔ تاکہ تیل صاف ہو جائے۔ اور ہاں! تمہارے لیے واش روم میں سب سامان رکھا ہے۔ اُسکو استعمال کر لینا۔ مجھے اس کی سمجھ نہیں آئی لیکن واش روم میں جاتے ہی سب سمجھ آ گیا۔
واش روم میں ویکسنگ کٹ رکھی ہوئی تھی اور ۲-۳ طرح کے بادی لوشن بھی۔ میں نے پورے جسم کو ویکس کیا۔ اچھے سے نہا دھو کر واپس آئی تو وہ کِچن کے کاموں میں لگی ہوئی تھی۔
آج کا دن شاید کچھ الگ تھا۔ شمی مجھے ایسے ٹریٹ کر رہی تھی جیسے میں کوئی شہزادی ہوں۔ اور میں اس سب کو انجوائے کر رہی تھی۔ شام کو سب نے پلان بنایا کہ ڈنر کہیں باہر کرتے ہیں۔ سو ہم سب ڈنر کے لیے چلے گئے۔ آج شمی کے کہنے پر ہی میں نے ٹائم باد لال رنگ کا ڈریس پہنا۔ میں نے اپنے شوہر کے مرنے کے بعد کبھی شوق رنگ نہیں پہنے تھے۔ لیکن شمی میرے لیے یہ ڈریس لائی اور مجھے زبردستی پہنا دیا۔ جب ہم سب ہوٹل پہنچے تو مجھے زبردست سرپرائز ملا۔
کیونکہ آج میرا برتھڈے تھا۔ میں تو اپنی برتھڈے بھول ہی چکی تھی۔ لیکن شمی کو نہ جانے کیسے پتا تھا۔ اور آج کا سارا پلان شمی نے سیٹ کیا تھا۔ شمی پر مجھے بے انتہا پیار آ رہا تھا۔ میں نے اُسکو گلے لگا کر ہلکا سا کس بھی کر دیا جیسے میں اپنے باقی بچوں کو کرتی ہوں۔ ویسے تو میں اُسکے ہونٹوں کو چمنا چاہتی تھی لیکن اپنے بچوں کی وجہ سے ایسے نہیں کر سکی۔ خیر! سیلبریشن کے بعد ہم گھر آ گئے۔ سب بچے نے مجھے گِفٹ بھی دیا، سواۓ شمی کے۔
دیر رات کو ہم سب گھر واپس آ گئے۔ آہستہ آہستہ سب اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ میں بھی اپنے کمرے میں آئی تو وہاں ایک پارسل رکھا ہوا تھا۔ جس پر ایک کارڈ لگا ہوا تھا۔
“ہیپی برتھڈے جان”
اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھا تھا۔ میں سمجھ گئیں کے یہ شمی نے رکھا ہے۔ میں نے پارسل کھولا تو اس میں ریڈ کلر کی نائٹی تھی۔ جو سی تھرو تھی اور اُس کے ساتھ ربن والی پینٹی تھی۔ جس نے میرے جسم کو چھپانا کم اور دکھانا زیادہ تھا۔ مجھے یہ نائٹی دیکھ کر شرم آ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد میرے موبائل پر میسج آیا جو شمی کا تھا۔ “میرا انتظار کرنا۔”
میں سمجھ گئی کہ وہ کیوں انتظار کرنے کا کہ رہی ہے۔ اور آج اسکا یہ نائٹی دینے کا کیا مقصد ہے۔ وہ چاہ رہی تھی کہ میں یہ نائٹی پہن کر اس کا انتظار کروں تاکہ اُس کے آنے کے بعد ہم مل کر مووی انجوائے کریں۔ میرے دل کی دھڑکن تو ویسے ہی بے ترتیب ہو چکی تھی۔ میں نے وہ نائٹی پہن لی اور شمی کا انتظار کرنے لگی۔ شمی رات 11 بجے میرے کمرے میں آئی۔ میری نظریں اُس سے ملی تو کچھ دیر کے لیے ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر میری نظریں خود بخود جھک گئیں۔ شمی میرے قریب آنے لگی۔ میں اُس کی مسکراہٹ کو دیکھے بغیر بھی محسوس کر سکتی تھی۔
وہ میرے قریب آئی اور اپنے سب کپڑے اُتار دئے۔ اُس کا موٹا لمبا لنڈ ابھی آدھا کھڑا تھا۔ اس کے بعد وہ میرے پیچھے آ کر بیٹھ گئی۔ اور مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اب سیچویشن یہ تھی کہ میری پیٹھ اُس کے سینے پر تھی۔ اُس کے موٹے موٹے ممے اور ان پر اکڑے ہوئے نپلس میری کمر پر صاف محسوس ہو رہے تھے۔ اُس نے لیپ ٹاپ میری گود میں رکھا۔
آج اُس نے نیو مووی چلا دی۔ کل ہم اِس فولڈر کی آخری مووی دیکھی تھی لیکن اب اُس نے 3 موویز ایڈ ہو چکیں تھیں۔ اِدھر میری گود میں رکھی مووی شروع ہوئی، اِدھر شمی میرے بازو سہلانے لگی۔
شمی:- (میرے کان میں) شکریہ میری جان۔ میری بات ماننے کے لیے۔
میں:- (بہکتی آواز میں) کون سی بات!
شمی:- ہر بات ماننے کے لیے۔
اس کے بعد ہم میں تھوڑی دیر خاموشی رہی۔
شمی:- (میرے کانوں کو چومتے ہوئے) ویسے آج کے سرپرائز کیسا لگا؟
میں:- بہت اچھا۔ ویسے ایک بات پوچھوں؟
شمی:- یہی نا کہ تمہارا برتھ ڈے مجھے کیسے پتا چلا؟
شمی کی بات پر میں نے ہاں میں سر ہلادیا۔
شمی:- مجھے اپنی جان کے بارے میں ہر ایک چیز کا پتا ہے۔ برتھ ڈے تو بلکل چھوٹی سی چیز ہے۔۔۔!
میں:- اور کیا پتا ہے؟
شمی:- یہی کہ تمہارے یہ ممے کتنے سائز کے ہیں! (یہ کہ کر اُس نے میرے مموں کو نائٹی کے اوپر سے سہلا دیا) اور تمہاری کمر کتنی پتلی ہے! (اُس نے میری کمر کو ہلکے سے سہلا دیا) اور تمہاری یہ چٹ… (وہ میری چوٹ کو چھونے والی تھی کہ میں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا)
میں نے نہ میں سر ہلا کر اُسکو نہ چھونے کا اشارہ کیا۔
شمی:- تمہاری ہر بات کا مجھے پتا ہے۔ کیونکہ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔ اور جس سے آپ پیار کرتے ہو، اُسکی ہر چھوٹی چھوٹی چیز کا پتا ہوتا ہے۔
یہ کہ کر اُس نے پھر سے میری گردن کو چم لیا۔ میں سسکی بھر کر رہ گئی۔ کچھ دیر تک ہم دونوں نے حرکت نہیں کی۔ ہم دونوں خاموشی سے مووی دیکھتے رہے۔ جہاں آج ایک یونگ ٹرانس گرل ایک 35-40 سال کی عورت کو چود رہی تھی۔ یہ سب دیکھ کر اُسکا لنڈ پوری طرح سے کھڑا ہی چکا تھا۔ جو مجھے اپنی کمر پر محسوس ہو رہا تھا۔ پھر اُس نے مجھے تھوڑا سے اوپر اُٹھایا، میں اُسکا اشارہ سمجھ کر اوپر ہوئی۔ تو اُس نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اب حالت یہ تھی کہ میری چوت ننگی تھی اور اُس کے گرم لنڈ پر رگڑ کھا رہی تھی۔
اُس کے لنڈ کی رگڑ سے میرا پورا جسم کمپ رہا تھا۔ میں خود کو اُس کے لنڈ سے دور کرنا چاہا لیکن میں ایسا نہیں کر سکی۔ میں چاہ کر بھی وہاں سے ہٹ نہیں پا رہی تھی۔ وہیں دوسری طرف شمی نے میری نائٹی کے اندر دونوں ہاتھ ڈال کر میرے مموں پکڑ رکھا تھا۔ اب آپ میری حالت کا اندازہ اچھے سے کر سکتے ہیں۔ اِدھر میری چوت ڈھیلی ڈھیلی تھی اور اِدھر شمی میرے ننگے مموں کو مسل رہی تھی، میرے نپلس کو کھینچ رہی تھی۔ میری کمر خود بخود حرکت کرنے لگی تھی۔ میں ہواوں میں اُڑ رہی تھی۔ میرے منہ سے اُس وقت آآآہہ… آآآہہ… کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ وہیں سامنے اسکرین پر وہ عورت بھی ٹرانس گرل کی گود میں اُسی طرح بیٹھی تھی جیسے میں بیٹھی تھی۔ فرق یہ تھا اُسکی چوت میں لنڈ تھا جب شمی کے لنڈ میری چوت سے باہر تھا۔
شمی:- (میری گردن کو چومتے ہوئے) میرا لنڈ بھی پکڑو نا جان۔
میں نے کچھ دیر حرکت نہ کی تو اُس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے لنڈ پر رکھ دیا۔ ہم دونوں کے جسموں کو ایک جھٹکا لگا۔ جیسے دونوں کو مزا آیا تھا۔ اُسکا لنڈ بہت گرم لگ رہا تھا۔ اِدھر میری چوت کی گرمی سے شمی کا لنڈ بھی جل رہا تھا۔ میری چوت سے نکل رہا پانی اُس کے لنڈ کو گیلا کر رہا تھا۔ شمی کا لنڈ رہ رہ کر تھمکے لگا رہا تھا جیسے ناچ رہا ہو۔ اِدھر شمی نے میرے جسم پر سے آخری کپڑا میری نائٹی بھی اُتار دی۔ اب میں بالکل ننگی اُسکی بہو میں اُس کے لنڈ پر بیٹھی تھی۔ اِدھر لیپ ٹاپ پر چل رہی مووی ختم ہو چکی تھی۔ اب تک ہم نے 21 موویز دیکھ لو تھیں۔
شمی نے ہاتھ بڑھا کر لیپ ٹاپ بند کر دیا۔ اور میرا چہرہ اپنی طرح گھما کر مجھے کس کرنے لگی۔ ہم دونوں کے پتلے پتلے نازک ہونٹھ آپس میں جڑ گئے۔ اور ہم ایک نہ ختم ہونے والی کس میں کھو گئے۔ شمی کے دونوں ہاتھ میرے مموں سے کھیل رہے تھے۔ میرے نپلس تن کر پوری طرح سے کھڑے ہو چکے تھے۔ ہم دونوں کی سانس بھری تھی۔ میری کمر خود بخود حرکت کر رہی تھی۔ ایک ہاتھ سے میں اُس کا لنڈ تھام رکھا تھا اور میں اپنی چوت اُس کے لنڈ پر رگڑ رہی تھی۔
کچھ دیر بعد اس نے میرے مموں سے ہاتھ ہٹایا اور آہستہ آہستہ میرے پیٹ سے نیچے لے جانے لگی۔ میری سانس بھری ہو رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں اس کا ہاتھ میری چوت پر پہنچ گیا۔ اس کے ہاتھ کو محسوس کرتے میرے جسم نے ایک جھٹکا کھایا۔ اب وہ میری چوت سے کھیلنے لگی۔ ادھر ہماری زبانیں ایک دوسرے سے جنگ کر رہی تھیں۔ ایسے ہی کھیلتے، اپنا جسم مسلوط جانے کتنا وقت بیت گیا۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا جب میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ میری چوت سے نکلے پانی سے اسکا لنڈ پورا گیلا ہو گیا۔ میں کچھ دیر تک ویسے ہی بیٹھی رہی اور اپنی سانسیں ٹھیک کرتی رہی۔ شمی بھی اب سب کچھ چھوڑ کر میرے سر کو سہلانے لگی تھی۔
کچھ تھکاوٹ کا اثر تھا تو کچھ اورگزارم کا، شمی کے سر سہلانے سے مجھے سکون ملنے لگا۔ کچھ ہی پل میں میں ویسے ہی سکون کی نیند سو گئی۔ ننگی، شمی کی باہوں میں۔ شمی نے مجھے ویسے ہی بستر پر لٹا دیا اور مجھے بلینکٹ سے کور کر کے سونے چلی گئی۔ میں اگلے روز صبح وقت پر اٹھی اور سب کے لئے ناشتہ تیار کرنے لگی۔ آج میں کچھ زیادہ خوشی محسوس کر رہی تھی اس لئے بنا بات کے مسکرا رہی تھی۔ مجھے اپنا اپ کافی ہلکا پھلکا محسوس ہو رہا تھا۔
کچھ دیر بعد روز کی طرح شمی وہاں پر آ گئی۔ آج اس کو دیکھ کر مجھے شرم محسوس ہو رہی تھی۔ کل پہلی بار، اس نے مجھے پورا ننگا کیا تھا۔ آج تک ہمارے درمیان چر چڑ چلتی تھی۔ وہ سلسلہ جو کپڑوں کے اوپر سے ہلکی پھلکی چر چڑ سے شروع ہوا۔ کل رات کو ہمارے پوری طرح سے ننگے ہونے پر ختم ہوا۔ ہاں! یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بیچ چدائی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن کل رات کے بعد ہمارے بیچ کچھ چھپانے کو بھی نہیں بچا تھا۔
شمی نے فریج کو پانی پیا اور چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ مجھے امید تھی کہ وہ میرے ساتھ ہمیشہ کی طرح چر چڑ کرے گی۔ لیکن اس کے یوں چلے جانے سے مجھے مایوسی ہوئی۔ بلکل بھی اچھا نہیں لگا۔ لیکن ابھی ایک منٹ ہی گزرا تھا کہ کسی نے چپکے سے مجھے بہوں میں بھر لیا۔ یہ شمی ہی تھی جو میرے لیے واپس آئی تھی۔ اس نے مجھے اپنی طرف گھمایا اور میرے ہونٹوں کو چومنے لگی۔ ہم دونوں ایک لمبی رومانٹک کس میں کھو گئے۔ کبھی وہ میرے نیچے والے ہونٹ کو چوستی تو کبھی اوپر والے ہونٹ کو۔ ہم دونوں کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ہم ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔
شمی: تم بہت پیاری ہو حرا۔ تمہارا جسم پورا تراشا ہوا ہے۔ تمہارے جسم کا ایک ایک حصہ مجھے اپنی طرف بلاتا ہے کہ میں تمہیں پیار کروں۔ تمہیں چھو کر دیکھوں…! تم بہت خوبصورت ہو۔
I am in Love with you!
یہ پہلی بار تھا کہ اس نے مجھ سے کھل کے اظہار کیا تھا۔ اپنے پیار کا۔ شاید یہ اس کی ہوس تھی۔ یا سچ میں اسکا پیار تھا۔ میں سمجھ نہیں سکی…! کچھ دیر تک میں وہاں کھڑی رہی۔ ہم دونوں کچھ نہیں بولے۔
شمی: حرا! میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ تم سے پیار کرتی ہوں۔ کیا تم میری گرل فرینڈ بنو گی؟ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے؟؟؟
اس کی بات میرے لئے کسی شاک سے کم نہیں تھی۔ وہ مجھے پروپوز کر رہی تھی۔ میرے لئے یہ سب بہت عجیب تھا۔ میں ایک اکیلی عورت، جس کا شوہر مر چکا ہے۔ تین بچے ہیں، مجھے میری بیٹی کی ٹرانس گرل سہیلی پروپوز کر رہی تھی۔ اور میں وہیں کھڑی کھڑی بٹ بن چکی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اس لئے میں وہاں سے چلی گئی اور کمرے میں جا کر خود کو بند کر لیا۔
صبح سے شام ہو گئی، لیکن میں کمرے سے نہیں نکلی۔ نہ میں کھانا کھایا۔ رہ رہ کر میری آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کے چہرے آ رہے تھے کہ میرے ایک قدم سے انکی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟ اگر میں شمی کا پروپوزل قبول کرتی ہوں تو میرے بچے مجھ سے نفرت کریں گے۔ مجھے یہ چیز قبول نہیں تھی۔ لیکن وہیں دوسری طرف! مجھے ایک ایسے پارٹنر کی ضرورت تھی جو مجھے جی بھر کے پیار دے۔ میری تنہائی مٹا دے۔ خوشی اور غمی میں میرا ساتھ دے۔ میرے لیے شمی سے زیادہ پرفیکٹ پارٹنر کوئی بھی نہیں تھی۔ وہ مجھے ہر طرح سے سمجھتی تھی، میری آنکھوں کے سامنے اس کے ساتھ بِتایا ہوا ہر پل بار بار آ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔
شام ہوئی اور میرے کمرے میں میری بیٹی سائرہ آئی۔
سائرہ:- کیا کر رہی ہو مما؟
میں:- کچھ نہیں بیٹا۔
سائرہ:- (میری گود میں سر رکھ کر) تو آپ اتنی اُداس کیوں ہو؟ اور کھانا کھانے بھی نہیں آئی۔
میں:- بس بھوک نہیں ہے مجھے۔
سائرہ:- ویسے ایک بات کہوں مما؟
میں:- ہاں بولو۔
سائرہ:- کچھ چیزیں انسان کو وقت پر چھوڑ دینی چاہیے۔ کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔
میں:- تم کہنا کیا چاہتی ہو؟
سائرہ:- میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ اپکو سب کچھ بھول کر اپنی خوشیاں ڈھونڈنی چاہیے۔ کون کیا سوچے گا، کون کیا کہے گا! ان سب کو بھول جاؤ۔ اور خوش رہو۔ اپنے لئے بھی ہر وہ کام کرو، جس سے اپ خوش رہتی ہو۔ بالکل اُسی طرح جیسے اپ ہمیں خوش رکھنے کے لئے ایفرٹ کرتی ہو۔
میں ایک دم خاموش ہو کر اُس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ اُسکی آنکھیں بالکل میری طرح تھیں۔ گہری اور کالی آنکھیں۔ وہ بھی میری آنکھوں میں دیکھتی رہی، پھر جیسے اُس نے میری آنکھوں میں سوال پڑھ لیا تھا۔
سائرہ:- میں جانتی ہوں مما۔ شمی اپکو پسند کرتی ہے، یہ بھی میں جانتی ہوں۔ اور پچھلے کئی دنوں سے اپ دونوں کے درمیان جو رومانس چل رہا ہے، اس کو بھی جانتی ہوں۔ اور میں دل سے یہی چاہتی ہوں کہ اپ خوش رہو۔ میں شمی کی نیچر سے واقف ہوں۔ شمی ہر لحاظ سے اپ کے لئے پرفیکٹ پارٹنر ہے۔
میں:- لللل… لیکن… تتتتتوووومممم….
سائرہ:- کب… کیسے…. ان سب باتوں کا جواب نہیں دے سکتی میں اپکو۔ بس اتنا سمجھ لو کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میں آپ کے لئے کھانا لے کر آتی ہوں۔ اپ کھانا کھا لو۔
یہ کہنے کے بعد، وہ کمرے سے چلی گئی۔
سائرہ ویسے تو میری چھوٹی سی گڑیا تھی مگر ساتھ میں وہ میری سہیلی بھی تھی۔ ہمیشہ سے وہ میری کیئر کا خاص دھیان رکھتی تھی جبکہ کسی کام کے لیے مجھے اپنے بیٹوں کو بتانا پڑتا تھا۔
وہ میرے کھانا لے کر آئی۔ اور مجھے کھانا کھلانے لگی۔ پیٹ بھر کھانا کھلانے کے بعد وہ میرے وارڈروب سے کچھ نکالنے لگی۔ اُس نے میرے لیے لال رنگ کا ڈریس نکالا، ساتھ میں اُسی طرح کی برا پینٹی، چوڑیاں۔
میں اُسکو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
سائرہ:- چلیں اُٹھیں اور یہ ڈریس پہنیں۔ میں 10 منٹ میں آتی ہوں کے۔ پھر اپکا میک اپ کرتی ہوں۔
میں:- یہ سب کس لئے؟
سائرہ:- (میرے پاس آ کر) آپکو تیار کرنا ہے۔ آپکی دوسری سہاگ رات کے لئے۔
میں کچھ سمجھ پاتی اس سے پہلے وہ ہہہہہ… کرتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔ جب مجھے اُسکی بات سمجھ آئی تو میں شرما گئی۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی آگے بڑھنے کی۔ اس لئے میں وہیں بیٹھی رہ گئی۔ کچھ دیر بعد سائرہ واپس میرے کمرے میں آئی۔ مجھے اُسی طرح بیٹھے دیکھ کر وہ بولی۔
سائرہ:- مما! ابھی بھی اپ اُسی طرح بیٹھی ہو۔ اُٹھیں نااا! جائیں کپڑے پہنیں۔
میں:- سائرہ پلیز… بیٹا بات کو سمجھو۔ میں ایسا نہیں کر سکتی، میری جان۔
سائرہ:- کیوں نہیں کر سکتیں؟ میں آپکو خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔ چلیں اُٹھیں اور یہ ڈریس پہن کر آئیں۔
میں کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سائرہ نے کچھ بھی نہیں سنا اور مجھے ڈریس چینج کرنے کے لیے بھیج دیا۔
میں واشروم گئی اور ناچاہتے ہوئے ہی بالوں کو کور کر کے جلدی سے شاور لیا اور پھر دانت برش کر کے وہ ڈریس پہن لیا۔
باہر آئی تو وہ میک اپ کرنے لگی۔ میرے بار بار منع کرنے پر بھی وہ نہیں رکی۔ اور مجھے دلہن کی طرح سجا دیا۔ میرا میک اپ کرتے ہوئے اس نے مجھے بتانا شروع کیا۔
سائرہ: مما! مجھے کچھ دن پہلے پتا چلا جب ایک روز میں نے شمی کو آپ کے ساتھ کِچن میں رومانس کرتے ہوئے دیکھا۔ تب میں نے اُس پر نظر رکھی۔ ہمارے گھر آنے کے بعد وہ مجھے کافی خوش نظر آنے لگی۔ اور یہ خوشی مجھے آپ کے چہرے پر بھی نظر آئی جب اُسکی پریزنس میں آپ کا چہرہ کھل جاتا۔ آپ بیشک ظاہر نہیں کرتی تھیں لیکن آپکی آنکھوں سے خوشی جھلکتی تھی۔ پھر وہ مووی نائٹ… اس کے بعد جب شمی اور میں دونوں ایک ساتھ اسٹڈی کرتے، ان سب کے بعد مجھے اندازہ ہونے لگا کہ آپ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ اور پھر کل رات جو کچھ ہوا آپ دونوں کے بیچ، اُس کا بھی مجھے اندازہ تھا۔ آج جب صبح شمی نے آپکو پروپوز کیا تو مجھے یقین تھا کہ آپ مان جاؤ گی لیکن جب آپ چپ چاپ کمرے میں چلی گئیں تو مجھے برا لگا۔ آپ دونوں کے لیے۔ کیونکہ شمی بہت چاہتی ہے آپکو۔ اس لیے میں فیصلہ کیا کہ کچھ بھی کر کے آپکو تیار کرنا ہے اُس کے لیے۔
میں: لیکن بیٹا یہ غلط ہے۔
سائرہ: کچھ غلط نہیں ہے مما۔
میں: اگر کسی کو پتا چل گیا تو قیامت ہو جائے گی۔
سائرہ: پہلے تو کسی کو پتا چلے گا نہیں۔ اگر چل بھی گیا تو مجھے پروا نہیں۔ آپ بھی اتنا فکر نہیں کیا کرو۔
میں: تیرے بھائی۔
سائرہ: انکو فرصت کہاں ہے؟ وہ اپنی لائف میں بزی ہیں۔ جب انکو پتا چلے گا تو ہینڈل کریں گے۔ ویسے بھی انکو شک نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ تو ویسے بھی نیچے کے پورشن میں رہتے ہیں۔
میں: اور ہمارے رشتے داروں کو کیا کہیں گے؟
سائرہ: پچھلے 6 مہینوں سے کون یہاں آیا ہے؟
میں: پھر بھی بیٹا…!
سائرہ: دیکھیں مما! مجھے کسی کی پروا نہیں۔ ہماری خوشی کس چیز میں ہے، ہمیں صرف وہی کرنا ہے۔ رہی بات رشتے داروں کی، پہلے تو کوئی شک کرے گا نہیں۔ اگر کسی نے جواب مانگا تو تب سوچیں گے کیا کرنا ہے۔
میں: لیکن بیٹا پھر بھی۔ تیرے بھائی کیسے سمجھیں گے اس بات کو۔
سائرہ: مما! جب کسی کو پتا چلا تو دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔ ابھی کے لیے آپ چپ چاپ انجوائے کرو۔
اور یہ کہ کر اس نے مجھے آنکھ مار دی۔ مجھے اُس نے پورا دلہن کی طرح سجا دیا اور بیڈ پر گھونگھٹ نکال کے بیٹھا دیا۔ مجھے بے انتہا شرم آ رہی تھی۔ لیکن میں چپ رہی۔
سائرہ: اچھا مما میں جاتی ہوں۔ اور ہاں! میں نے اپنے ہونے والی دوسری ممی کو کہہ دیا ہے کہ آپ اُنکا ویٹ کر رہی ہو۔ وہ 10 منٹ میں آ رہی ہیں۔
ہی ہی ہہہہ۔۔۔۔
سائرہ کی یہ بات سن کر میں حیران رہ گئی اور منہ کھولے اُسکو دیکھتی رہی۔ کچھ سیکنڈز میں وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔ جب کہ میں پوری کوشش کر رہی تھی کہ اپنی دھڑکن کو سنبھالوں۔ لیکن میرا دل آج میرے قابو میں نہیں تھا۔ میری شادی کی رات پر بھی میری ایسی حالت نہیں تھی جیسے اب تھی۔ کیونکہ آج میری چوت بھی خود بخود کھل اور بند ہو رہی تھی۔ جیسے اُسکو انتظار ہو کسی کے آنے کا۔ میرے لیے اگلے 10 منٹ 10 گھنٹے کے برابر ہو چکے تھے۔ بار بار میں کلاک کو دیکھ رہی تھی۔ وقت جیسے تھم سا گیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد میرے کمرے میں کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی۔ میں ایک دم سے سمٹ گئی۔ یہ شمی تھی۔ جو آج واش روم کے راستے کمرے میں آنے کے بجائے فرنٹ ڈور سے آئی تھی۔ سائرہ نے ہی اُسکو میرے پاس بھیجا تھا۔ عجیب سی صورتحال تھی۔ میری بیٹی سب کچھ جانتے ہوئے آج مجھے اپنی سہیلی کے ساتھ رشتہ بنانے کا کہ گئی تھی۔ یہ نہیں! اُسی نے مجھے تیار بھی کیا۔ اور اپنی سہیلی کو بھی میرے پاس اُسی نے بھیجا۔
شمی میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور میرا گھونگھٹ اُوپر کر دیا۔ شرم سے خود بخود میری آنکھیں بند ہو گئیں۔ شمی کچھ دیر تک میرے چہرے کو دیکھتی رہی پھر اُس نے کہا۔
شمی: تم بہت پیاری ہو میری جان۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے تم ملی ہو۔
شمی کے منہ سے یہ سن کر میں شرما گئی۔ میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔ بلکہ اب تو ایسا لگ رہا تھا کہ میرا دل باہر نکل آئے گا۔
شمی: اجازت ہے تو تمہیں پیار کر سکتی ہوں؟
میں: (شرماتے ہوئے) ایک شرط پر۔۔۔
شمی: کیا شرط ہے؟
میں: (اپنی ہتھیلی آگے کر کے) میری منہ دکھائی۔۔۔؟
شمی تو پہلے سے تیار تھی۔ اُس نے ایک چھوٹا سا باکس کھولا اور اُس میں سے رنگ نکال کر میرے ہاتھ میں پہنا دی۔ یہ ایک ڈائمنڈ رنگ تھی۔ جس کو دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔
شمی: منگنی مبارک ہو میری جان۔
میں: تو کیا منگنی کے بعد سیدھا سہاگ رات مناؤ گی؟
شمی: کیا کریں؟ ہماری شادی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہم گرل فرینڈز کی طرح تو رہ سکتے ہیں۔
میں: صرف گرل فرینڈز؟
شمی: حقیقت تو تمہیں پتا ہے۔ لیکن دنیا کی نظر میں ہم دو گرل فرینڈز ہی ٹھیک ہیں۔
یہ کہ کر اُس نے مجھے آنکھ مار دی۔ میں بھی مسکرا کر سر جھکا کر رہ گئی۔ پھر اُس نے میرے چہرے کو اُوپر کیا۔ اور آہستہ آہستہ میرے قریب آنے لگی۔ اُسکی سانسوں کی گرمی میری سانسوں میں سما گئی۔ اور میری آنکھیں بند ہو گئیں۔
تبھی اُس کے نرم نرم ہونٹ میرے ہونٹوں سے چپک گئے۔ ویسے تو ہم نے کئی بار کس کی تھی لیکن آج کی کس میں عجیب سا نشہ محسوس ہو رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ میرے ہونٹ چوسنے لگی۔ میری سانس بھاری ہونے لگی۔ ہم دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے سر کے پیچھے تھے۔ جو ہمیں اپنی طرف کھینچ رہے تھے۔ جیسے ایک لمحے کے لیے بھی الگ نہ ہونا چاہتے ہوں۔
ابھی ہم کس میں ہیں کہ دروازہ نوک ہوا۔ میں فوراً پیچھے ہٹ گئی اور پریشانی میں شمی کو دیکھنے لگی۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا کرنا چاہیے۔ اتنی دیر میں پھر سے دروازہ نوک ہوا۔
میں: (ہمت کر کے) کون؟
باہر سے: امی میں ہوں، سائرہ۔ ذرا دروازہ کھولیں۔
سائرہ کی آواز سن کر ہماری جان میں جان آئی۔ میں نے اشارہ کیا تو شمی نے جا کر دروازہ کھولا۔ باہر سائرہ کوئی چیز لیے کھڑی تھی۔ اُس نے وہ شمی کو دی۔
سائرہ: (شمی سے) لگتا ہے آپکا پروگرام شروع ہو گیا تھا اور میں نے ڈسٹرب کر دیا۔ سوری!۔۔۔ نائو انجوائے یور نائٹ، لوو برڈز !!!۔ اور ہاں! میری امی کو زیادہ تنگ نہیں کرنا۔ کافی وقت سے اکیلی ہیں بیچاری۔ ہی ہہہہ۔
اُسکی یہ بات سُن کر میرے چہرے پر شرمیلی مسکان آ گئی۔ کیون کہ میں جانتی تھی کہ اُسکا اشارہ کس طرف ہے۔ خیر! دور بند کر شمی میرے پاس آ گئی۔ اُس کے ہاتھ میں دو گلاس تھے۔ جن میں گرم دودھ تھا۔ شمی نے ایک گلاس مجھے دیا اور دوسرا گلاس خود پینے لگی۔ دودھ پینے سے پتا چلا کہ اس میں ڈرائی فروٹ ملا ہوا تھا۔ دودھ پینے سے ہمارا پیٹ فل ہو گیا۔ ساتھ ہی جسم میں ایک الگ سی تازگی محسوس ہونے لگی۔
شمی نے ایک بار پھر مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور کس کرنے لگی۔ میں اسکی کس سے مدہوش ہونے لگی۔ کچھ ہی پل میں میری چنی میرے سر سے اُتر کر سائیڈ میں پڑی تھی۔ اس کے بعد اُس نے میری قمیض کو بھی اُتار دیا۔ برا میں چھپے میرے ممے کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں عجیب سی چمک آ گئی۔ اس نے فوراً میرے ممے کو چمنا شروع کر دیا۔ میرے آدھے ممے برا سے باہر ہی تھے، جو کچھ ہی دیر میں شمی کے تھوک سے گیلے ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی وہ میری چوت کو مسلنے لگی۔ میری حالت بُری ہونے لگی۔ میری پینٹی کا پتلا سا کپڑا میری چوت سے نکلنے والے پانی کو کہاں سنبھال پاتا، کچھ دیر میں میری شلوار بھی گیلی ہو گئی۔
میں اب بستر پر لیٹ چکی تھی۔ شمی اب آہستہ آہستہ نیچے میرے پیٹ کو چومنے لگی۔ اس نے میری ناف کے اندر تک زبان ڈال کر چاٹنا شروع کر دیا۔ میرے منہ سے آہ… آؤوو… کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ میری چوت گیلی ہو کر ایک بار پانی بھی چھوڑ چکی تھی۔ ایسا مزا مجھے کبھی نہیں ملا تھا جتنا آج شمی کی زبان سے مل رہا تھا۔ میں تو اُس پر فدا ہو گئی تھی۔ میری ناف تو چاٹتے ہوئے اس نے میری شلوار کو بھی اُتار پھینکا۔ اب میں اُس کے سامنے صرف برا اور پینٹی میں لیٹی ہوئی تھی۔
میرے دونوں ہاتھ اُس کے بالوں کو سہلا رہے تھے۔ جیسے اُسکو آگے بڑھنے کا اشارہ کر رہے ہوں۔ اور وہ بھی اپنی زبان سے میرے جسم کے ہر حصے کو چاٹ رہی تھی۔ اس نے میری پینٹی اُتارے بغیر نیچے کا سفر شروع کر دیا اور میری جانگھوں کو چاٹنے لگی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی مجھے اس طرح چوم چاٹ رہا تھا۔ ایک بار پھر سے مستی میں میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ میری دونوں ٹانگوں کو چاٹنے کے بعد وہ میرے اوپر آئی اور میرے ہونٹوں کو چومنے لگی۔ میں نے بھی اُسکا بھرپور ساتھ دیا۔
ہم دونوں کی سانسیں بھری تھیں۔ لیکن ہم دونوں میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ ہم دونوں ہر لمحے کو کھل کر جینا چاہتے تھے۔ کچھ دیر بعد اُس نے میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے اور بولی۔
شمی: حراء! کیا میں تمہارے کپڑوں کو تمہارے جسم سے دور کر سکتی ہوں؟
میں: آآآہ… میری جان مجھ سے اجازت کیوں مانگ رہی ہو۔ جو چاہو مرضی کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔
شمی: ایسے نہیں! تمہاری اجازت سے ہی میں آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ تمہیں میری کوئی حرکت بُری لگے۔ اس لئے تمہاری اجازت ضروری ہے۔
میں: (شمی کو اپنے پاس کھینچ کر اُس کے کان میں بولی) میری جان شمی! یہ بات اچھے سے جان لو۔ حراء، آج سے، ابھی سے صرف اور صرف تمہاری ہوں۔ تم جو مرضی کرو، میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ بس میرے اندر سلگتی اس آگ کو ٹھنڈا کر دو۔ ورنہ میں مر جاؤں گی۔
یہ کہ کر میں جنون کی حالت میں اسکی گردن کو چوسنا شروع کر دیا۔ جس سے شمی کی سسکیاں نکلنے لگیں۔ شاید یہ اسکا سینسیٹو پوائنٹ تھا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ نیچے کر کے اسکی قمیض پکڑ کر اوپر کرنا شروع کر دیا۔ میرا اشارہ سمجھ کر اس نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دیے۔ کچھ دیر میں وہ جسم کے اوپر والے حصے پر صرف برا پہنے میرے سامنے تھی۔ اس کے گول مٹول ممے اسکن کلر کی برا میرے سامنے تھے۔ اس کے بعد میں نے اسکی برا بھی اُتار دی۔ اس کے بداخ ممے اُچھل کر میرے سامنے آ گئے۔ میں اگے بڑھ کر بائیں ممے کو منہ میں بھر لیا اور زور و شور سے چوسنے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے رائٹ ممے کو نچوڑنے لگی۔
پہلی بار تھا کہ میں کسی کے مموں سے کھیل رہی تھی۔ میں جب سے ہوش سنبھالا، ایسے کسی سین کا خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ لیکن آج میں ایک ٹرانس گرل کے مموں کو چوس رہی تھی، ان سے کھیل رہی تھی۔ اور یہ وہ ٹرانس گرل تھی جو اب میری جان بن چکی تھی۔ جس کو میں اپنے جسم پر پورا پورا حق دینے جا رہی تھی۔ میں ابھی شمی کے دونوں مموں سے کھیل رہی تھی کہ شمی نے مجھے بستر پر لیٹنے کا اشارہ کیا۔ اس کا اشارہ سمجھ کر میں بستر پر لیٹ گئی۔
شمی نے میری برا بھی اُتار کر ایک طرف کر دیا۔ اب ہم دونوں ٹوپلیس ایک دوسرے کے سامنے تھے۔ اُس وقت کس کے ممے زیادہ اکڑے ہوئے تھے، اس بات کا اندازہ کافی مشکل تھا۔
شمی: میری جان!! تمہارے ممے تو کسی ۱۸ سال کی لڑکی کی طرح ٹائٹ ہیں۔
میں: ان سے کھیلنے والا کبھی کوئی ملا ہی نہیں۔ نہ میرے شوہر کو ان سے کھیلنے کا شوق تھا اور نہ ہی بچوں نے ان سے دودھ پیا۔
شمی: لیکن پھر بھی کوئی تو راز ہو گا۔ آج تک اتنے اکڑے ہوئے ممے کسی کے نہیں دیکھے۔
میں: یہ تو بس یوگا اور ورزش کا کمال ہے۔ ویسے تم نے کتنوں کے ممے دیکھے ہیں جو تمہیں پتا ہے۔
شمی: تمہیں پتا تو ہے میں جہاں سے آئی ہوں، وہاں لڑکیوں کا ایک دوسرے کے سامنے کپڑے بدلنا وغیرہ معمولی بات ہے۔ اور پھر میری 2۔3 گرل فرینڈز بھی تھیں۔
اُس کے منہ سے گرلفرینڈ سن کر مجھے اچھا نہیں لگا۔ مجھے تھوڑی سی جیلسی بھی ہوئی جو میں اس سے چھپی نہیں رہ سکی۔
شمی: سوری میری جان۔ اگر مجھے پتا ہوتا کہ تم مجھے ملو گی تو میں اپنی ورجنٹی کو تمہارے لیے سنبھال کر رکھتی۔
میں: (خود کو سنبھالتے ہوئے) نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔ تم جہاں تھیں وہاں تو یہ سب چلتا ہے۔ لیکن اب تم وعدہ کرو، تم صرف میری ہو۔
شمی: پکا وعدہ میری جان۔ اب کہو تو تمہارے ان مموں سے کھیل لوں، جو کافی دیر سے مجھے بلا رہے ہیں۔
میں کچھ نہ بولی، بس اپنے بائیں ممے کو ہاتھ سے پکڑا اور شمی کے سر کو دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر نیچے جھکایا اور اپنا موٹا تازہ رس بھرا ممہ اس کے منہ میں ڈال دیا۔ شمی سرپ۔۔ سرپ۔۔ کر کے میرے ممے کو چاٹنے چوسنے لگی۔ اور میرے منہ سے ایک بار پھر آآآہہ… آآآہہ… کی آوازیں نکلنے لگیں۔
میرے دونوں مموں کو کچھ ہی دیر میں لال کرنے کے بعد وہ پیچھے ہٹی اور بولی۔
شمی: اوووممم… مزا آ گیا۔ بہت ٹیسٹی ممے ہیں تمہارے جانو۔ ایک بار پینے سے میرا دل نہیں بھرا۔ کیا پھر بھی پلاؤ گی انکا رس مجھے؟؟
میں: (مستی میں) جب تمہارا دل کرے، تب پی لینا انکا رس میری جان۔ تمہیں میں کیسے منع کر سکتی ہوں! آج سے ان پر کیا، میرے پورے جسم پر تمہارا حق ہے۔ بس اب دیر نا کرو اور میری پیاس بجھا دو۔
شمی نے میرا اشارہ ملتے ہی میری پینٹی کو پکڑ کر اُتارنا شروع کر دیا۔ کچھ سیکنڈز میں میں اُس کے سامنے پوری ننگی لیٹی ہوئی تھی۔ آج تک میرے شوہر نے مجھے پورا ننگا نہیں دیکھا تھا۔ لیکن آج میں ایک ٹرانس گرل کے سامنے بالکل ننگی تھی۔ اور اُس سے اپنا جسم مسلوا رہی تھی۔
شمی نے میری ٹانگیں کھولنی شروع کر دیں۔ مجھے شرم تو بہت آئی لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنی دونوں ٹانگوں کو کھول دیا۔ ہاں! ٹانگیں کھولنے کے ساتھ ساتھ میری آنکھیں ضرور بند ہو گئیں۔
شمی: میری جان تمہاری چوت بہت پیاری ہے۔ سفید سفید اور اندر سے گلابی۔ میں نے آج تک اتنی پیاری چوت نہیں دیکھی۔ دل کرتا ہے کہ کھا جاؤں۔
میں شرم کر کے رہ گئی اور کچھ نہ بولی۔
شمی: اپنی آنکھیں کھول کے مجھے دیکھو نا۔ ورنہ مجھے لگے گا کہ میں شاید زبردستی کر رہی ہوں تمہارے ساتھ۔
میں بہت مشکل سے اپنی آنکھیں کھول کے اُسکو دیکھا۔ شمی میری حرکت پر خوش ہو گئی۔ اُس نے اپنی زبان باہر نکال کر ایک دفعہ میری چوت پر نیچے سے اوپر پھیرا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری چوت میں کرنٹ دوڑ گیا ہو۔ اور میرے منہ سے آآآہہ… نکل گئی۔
شمی: واہ مزا آ گیا۔ نمک مصالحہ بالکل ٹھیک ہے۔
اسکی بات سن کر میرے منہ سے ہنسی نکل گئی۔ جب کہ وہ بھی میرے ساتھ ہنسنے لگی۔ تب شمی نے آگے بڑھ کر میری چوت کو منہ میں بھر لیا۔ اور جیسے فرانسیسی کس کرتے ہیں۔ ویسے چم لیا۔ اس کے بعد تو اس کا کھیل شروع ہو گیا میری چوت کے ساتھ۔ وہ میری چوت کے درمیان اپنی زبان چلانے لگی۔ کبھی میری چوت کے ہونٹوں کو منہ میں بھر کر چوس لیتی تو کبھی کبھی میری چوت کے دانے پر اپنی زبان چلاتی، اس کے علاوہ وہ اپنی زبان میری چوت کے اندر تک ڈالنے کی کوشش کرتی۔ اسکی گرم اور لمبی زبان مجھے نئی بلندیوں پر پہنچا رہی تھی۔ میں اس کا سر سہلاتی ہوئی آہہ… آہہہ… کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ جب کہ وہ میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی میری چوت چاٹ رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں میں اپنی منزل کو پہنچ گئی۔ شمی نے میرے رس کی ایک بوند بھی ضائع نہیں ہونے دی۔ بلکہ اس نے میری چوت کو ایسے چوسنا شروع کر دیا جیسے ہم استرے سے سپ لیتے ہیں۔ کچھ سیکنڈز میں ہی اس نے میری چوت سے نکلا پورا پانی چوس لیا۔ میں اپنی سانسوں کو ٹھیک کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں شمی اُوپر آئی اور میرے ہونٹھوں کو چوسنے لگی۔ اس کے ہونٹھوں پر لگا میری چوت کا پانی میرے منہ میں جانے لگا۔ میں بھی مستی میں اس کا پورا ساتھ دیا۔
لیکن کچھ دیر بعد مجھے جب احساس ہوا کہ میں میرے منہ میں میری اپنی چوت کا پانی جا رہا ہے تو میں نے اپنے ہونٹھ الگ کیے اور شکوہ کرنے والی نظروں سے شمی کو دیکھنے لگی۔
شمی: کیا ہوا میری جان؟
میں: تم جانتی ہو کیا ہوا ہے…
شمی: تو کیا تم نے کبھی اپنی چوت کا پانی نہیں پیا تھا!
میں: میں گندے کام نہیں کرتی۔
شمی: تو آج سے گندے کام کرنے شروع کر دو۔
یہ کہ کر اس نے پھر سے میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ اس کی کس میں ایسا نشہ تھا کہ میں پھر سے سب کچھ بھول گئی۔ اور اس کی کس کو انجوائے کرنے لگی۔ اس دوران شمی کا اکڑا ہوا لنڈ میری چوت پر رب کر رہا تھا۔ جس سے میرے جسم کی گرمی ایک بار پھر بڑھنے لگی۔ اپنی لنڈ کو میری چوت پر رگڑتے ہوئے اس نے ہلکا سا دباو ڈالا اور اس کا لنڈ کا موٹا ٹوپا میری چوت میں اتر گیا۔ میری چوت آخری حد تک کھل گئی۔ مجھے تھوڑا درد تو ہوا لیکن میں جھیل گئی۔ شمی کو بھی اس چیز کا احساس تھا۔ اس لئے وہ کچھ دیر تک بالکل بھی نہ ہلی۔ ایک یا دو منٹ بعد اُسی طرح اس نے دباو ڈالا اور اس کا 3 انچ لنڈ میری چوت کو کھولتے ہوئے اندر گھس گیا۔ ادھر میں نے اُس کو اپنی بانہوں میں کس لیا تھا۔ میری آنکھوں میں نمی آنے لگی تھی۔ لیکن یہ درد سے زیادہ خوشی کی نمی تھی۔ کیونکہ آج میری چوت برسوں بعد ایک لنڈ ملنے کی وجہ سے جھوم رہی تھی۔
شمی نے جیسے ہی ایک بار اپنے لنڈ کو ٹوپی تک باہر نکالا۔ میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ میری چوت نے لنڈ کا احساس لیتے ہی پانی چھوڑ دیا۔ تب شمی نے ایک زوردار جھٹکا مارا، اسکا لنڈ ٦ یا ٧ انچ تک میری چوت میں گھس گیا۔ میرے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ مجھے لگا جیسے میری چوت پھٹ رہی ہے۔ مجھے اپنی چوت سے کچھ گرم گرم بہر نکلتا محسوس ہونے لگا۔ یہ میری چوت پھٹنے سے نکلنے والا خون تھا۔ میرا جسم ہلکا ہلکا کمپنے لگا۔ شمی کو بھی میرے درد کا احساس تھا اس لئے وہ میرے جسم سے کھیلنے لگی۔ آہستہ آہستہ میں کچھ نارمل ہوئی۔ شمی اتنے ہی لنڈ سے میری چدائی کرنے لگی۔ آہستہ آہستہ میرا درد مزے میں بدلنے لگا۔ کئی سالوں بعد لنڈ کی چدائی سے میں تیزی سے اورگیزم کی طرف بڑھنے لگی۔ ادھر میں اپنے اورگیزم کو پہنچی، اُدھر شمی نے ایک تیز دھکا مارا اور اُسکا پورا لنڈ میری چوت میں اتر گیا۔ میرے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی۔ پتہ نہیں یہ چیخ درد کی وجہ سے تھی یا اورگیزم کے مزے کی وجہ سے تھی۔ کچھ دیر تک ہم ایسے ہی لیٹے رہے، بنا حرکت کیے۔
جب میں کچھ نارمل ہوئی تو میں نے اپنی آنکھیں کھول کر شمی کی طرف دیکھا۔ وہ میرے چہرے پر جھکی ہوئی میری آنکھوں میں ہی دیکھ رہی تھی۔ مجھے بہت شرم آئی۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
شمی: (مسکراتے ہوئے) آنکھیں کھولو نا، میری جان…!
میں نے نا میں سر ہلا دیا۔
شمی: کیا ہوا؟ درد ہو رہا ہے؟
میں نے پھر نا میں سر ہلا دیا۔
شمی: تو پھر شرم آ رہی ہے؟
میں نے اس بار ہاں میں سر ہلا دیا۔
شمی: ہمممم… تو پھر ایسے کرتی ہوں، اپنا لنڈ باہر نکال لیتی ہوں۔
میں نے نا میں سر ہلا دیا۔
شمی: تو مجھے بتاؤ کہ میں کیا کروں؟
میں نے اسکی کمر کے گرد اپنی ٹانگوں کو کس لیا۔ اور اس کے سر کو پکڑ کر کچھ دیر شدت سے اس کے ہونٹ چمتی چوستی رہی۔ پھر میں اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔
میں: میری چودائی کرو۔ آج میری ساری پیاس بجھا دو۔ اور اس طرح سے پیاس بجھاؤ کہ آج کے بعد میری چوت صرف تمہیں یاد رکھے۔ تمہارے علاوہ کسی کو نا پکارے۔
شمی: دیٹس مائی وائلڈ گرل۔ اب دیکھو میں کیسے تمہیں چودتی ہوں۔
یہ کہ کر اس نے ایک بار پھر دھکے لگانے شروع کر دیے۔ اسکا لنڈ اب اس بار میری چوت کے آخری حصے کو چھو رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ اسکا لنڈ میری بچہ دانی میں گھس جائے گا۔ اسکی رفتار اب ایسی تھی کہ ہر سیکنڈ میں اسکا لنڈ اندر باہر ہو رہا تھا۔ مجھے مزہ تو بہت آ رہا تھا لیکن اسکا لنڈ میری بچہ دانی پر جو چوٹ کر رہا تھا، اس سے مجھے درد بھی ہو رہا تھا۔
میں ایک بار پھر فارغ ہو گئی۔ اب اس بار شمی خود نیچے لیٹ گئی اور مجھے اپنے لنڈ پر بیٹھنے کا کہا۔ اسکا لنڈ کسی کھمبے کی طرح سیدھا کھڑا ہوا تھا۔ جس کی کم سے کم لمبائی ١١ سے ١٢ انچ تک تھی۔ اور اچھا خاصہ موٹا بھی تھا۔ مجھے کچھ پل کے لئے تو یقین نہیں ہوا کہ اتنا موٹا اور لمبا لنڈ کچھ دیر پہلے میری چوت میں تھا۔ لیکن اس پر لگا ہوا میری چوت کا پانی اس چیز کو گواہی دے رہا تھا کہ یہ سچ میں میری چوت سے ہی نکل کر آیا ہے اور اس وقت خوشی سے لہرا رہا ہے۔
مجھے اس کے لنڈ پر بہت پیار آیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کے لنڈ کو منہ میں بھر لیا۔ میرے منہ کی گرمی محسوس کرتے شمی کے منہ سے آہااااا… نکل گئی اور ساتھ ہی اس کے لنڈ نے بھی تھمکا لگایا۔ میں آہستہ آہستہ اس کے ٢-٣ انچ لنڈ کو چوسنے لگی۔ اس کے لنڈ کا سائز تو میں نے پہلے ہی بتا دیا ہے۔ اتنا لنڈ لینے کے لئے بھی مجھے پورا منہ کھولنا پڑ رہا تھا۔ میں چاہ کر بھی اور زیادہ لنڈ اندر نہیں لے پا رہی تھی۔ کچھ دیر میں اس کا لنڈ میرے تھوک سے بھیگ چکا تھا۔ اور ادھر میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل رہے تھے۔
شمی نے مجھے اوپر کیا اور میری آنکھوں سے نکلتے آنسو اپنی زبان سے چاٹ لئے۔ اس کے بعد ہم دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے کو کس کرنے لگے۔ شمی کی مدد سے اب میں اسکی گود میں بیٹھ گئی۔ اور اس کے لنڈ کو اپنی چوت پر ٹک آنے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن ہر بار اسکا لنڈ پھسل کر ادھر ادھر ہو جاتا، جس سے میری فراست بڑھ رہی تھی۔ میں چاہ رہی تھی کہ اسکا لنڈ جلد سے جلد اپنی چوت میں لے لوں۔ لیکن میں اس کام میں اناڑی تھی، مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ اس پوزیشن میں صحیح زاویہ کیسے بناتے ہیں۔ اس موقع پر شمی نے ایک بار پھر میری مدد کی۔ اور کچھ دیر میں ہی اسکا آدھے سے زیادہ لنڈ میری چوت میں اتر چکا تھا۔ میں اس کے لنڈ پر اوپر نیچے ہونے لگی۔ شمی میرے چوتڑوں کو مسالتے ہوئے مجھے اوپر نیچے ہونے میں مدد کرنے لگی تا کہ اسکا پورا لنڈ میری چوت میں اتر جائے۔ کچھ دیر میں ہی اسکو اپنے مقصد میں کامیابی مل گئی۔ جیسے ہی اسکا پورا لنڈ میری چوت میں اترا۔ میری چوت نے ایک بار پھر پانی چھوڑ دیا۔
میں کچھ دیر کے لئے نڈھال ہو کر اس کے اوپر ہی گر گئی۔ ہم دونوں کے موٹے پھولے ہوئے اور تنے ہوئے ممے ایک دوسرے سے چپک گئے۔ جیسے وہ بھی ہمارے میلن کی خوشی منا رہے ہوں اور ایک دوسرے کو چم کر جشن منا رہے ہوں۔
اِدھر شمی نے ایک بار پھر میری چوت چودائی شروع کر دی۔ میں ویسے ہی اُس پر بےسدھ لیٹی ہوئی تھی، جب کہ شمی نیچے سے دھکے لگاتی مجھے چود رہی تھی۔ اب اس بار وہ میری گانڈ کے سوراخ کو انگلی سے چیر رہی تھی۔ جس سے میری مستی میں اور زیادہ اضافہ ہو رہا تھا۔ میں شاید ایک منٹ سے بھی کم وقت میں پھر سے جھڑ گئی۔
میں: (تھکن ہوئے انداز میں) آآآہہہہ… میں تھک گئی ہوں شمی۔ ابھی اور کتنا چودو گی مجھے؟
شمی: ارے میری جان۔ میں نے تو ابھی ٹرین چلانی شروع کی ہے۔ ابھی تو کم سے کم ایک گھنٹہ اور چودنا ہے تمہیں۔
میں: اُوووفففف… میں تو مر جاؤں گی اتنی لمبی چودائی سے۔
شمی: کوئی بات نہیں۔ شروع شروع میں مشکل ہو گی۔ اور بعد میں…!
میں: بعد میں کیا؟
شمی: بعد میں عادت ہو جائے گی۔ ویسے ایک بات بتاو گی؟
میں: پوچھو؟
شمی: کیا تمہارے شوہر نے کبھی اتنی دیر نہیں چودا؟
میں: – نہیں۔ وہ تو زیادہ سے زیادہ 7 یا 8 منٹ میں جھڑ جاتے۔
شمی: تبھی تم میں اتنی گرمی ہے۔ لیکن بے فکر رہو۔ اب سے میں تمہیں چود چود کر تمہاری ساری گرمی ٹھنڈی کروں گی۔ چلو اب کتیا بن جاؤ۔
میں: وہ کیسے بنتے ہیں؟
شمی نے مجھے کتیا کی طرح چاروں ہاتھ پاؤں پر کھڑا کر دیا۔ اور میری کمر کو بیند کر دیا۔ میرا سر آہستہ آہستہ بستر سے کا لگا۔ ادھر میری ٹانگیں بھی پوری طرح سے کھلی ہوئی تھیں۔ جس سے میری چوت ایک بار پھر اُس کا لنڈ کھانے کو تیار تھی۔ شمی نے بھی نشانہ لے کر وار کر دیا اور ایک جھٹکے میں آدھا لنڈ میری چوت میں اتر گیا۔ اس کے بعد وہ میری کمر تھام کر دھکے لگانے لگی۔ میرے چوتروں سے اس کی ٹھائیز ٹکرانے سے چھاپ چھاپ کی آوازیں آنے لگیں۔ میرے منہ سے ایک بار پھر آآآہہہ… آآآہہہ… کی آوازیں نکلنے لگیں۔ شمی کے تیز دھکوں کی وجہ سے کچھ ہی دیر میں اُس کا پورا لنڈ میری چوت میں اندر باہر ہونے لگا۔ ایک بار پھر میں مدہوش ہو چکی تھی۔ ادھر میری چوت تو جیسے پاگل ہو چکی تھی۔ وہ اتنا طاقتور لنڈ ملنے کی خوشی میں جھوم جھوم کر پانی بہا رہی تھی۔ یہی نہیں! میری چوت بار بار اس کے لنڈ کو بھی دبا رہی تھی۔ جس سے ہم دونوں کو ایک الگ مزہ مل رہا تھا۔
شمی بھی میرے گول مٹول چُوترو کو دیکھ کر مدہوش ہو رہی تھی۔ کبھی وہ میرے چُوترو کو مسلتی تو کبھی ان پر تھپڑ لگاتی تو کبھی میری گانڈ کے سوراخ سے کھیلتی۔ میں تو اب کسی اور ہی دنیا میں تھی۔ میرے منہ سے آہ… آہ… کی آوازوں کے علاوہ کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ اب تک میں کتنی بار جھڑی، یہ بھی مجھے نہیں پتا۔ ایسے ہی چُودتے چُودتے اچانک مجھے احساس ہوا کہ شمی کا لنڈ میری بچہ دانی کے منہ پر جا لگا ہے اور اُس میں سے گرم گرم پانی نکل کر میری بچہ دانی میں جا رہا ہے۔ یہ احساس اتنا شدید اور گرما دینے والا تھا کہ اچانک میں دونوں ہاتھوں کے سہارے سے اُوپر اٹھی اپنا چہرہ اوپر چھاٹ کی طرف اُٹھایا اور میرے منہ سے زور دار چیخ نکل گئی۔ اس کے بعد میں بے سُدھ ہو کر بستر پر گر گئی اور بے ہوش ہو گئی۔ مجھے نہیں پتا کہ شمی کا پانی کتنی دیر تک نکلتا رہا۔ کتنا پانی میری چوت میں گیا یا کتنا پانی باہر نکلا۔
رات کے کسی پہر شدید پیاس سے میری آنکھ کھلی۔ میں نے بستر سے اُٹھنا چاہا لیکن میری ٹانگوں نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ درد کی وجہ سے میرے منہ سے کراہ نکل گئی۔
میری آواز سن کر شمی کی آنکھ کھل گئی۔
شمی:- کیا ہوا؟
میں:- بہت درد ہو رہا ہے میری کمر اور ٹانگوں میں۔ مجھ سے اُٹھا نہیں جا رہا۔
شمی:- تو تم نے کہاں جانا ہے؟
میں:- پانی پینا ہے۔
شمی:- اچھا تم لیٹو۔ میں پلاتی ہوں پانی۔
شمی نے مجھے پانی پلایا۔ ہم دونوں ابھی بھی ننگے ہی تھے۔ اُس کی ٹانگوں کے درمیان اُس کا موٹا لمبا لنڈ جو ابھی آدھا کھڑا تھا، ہر قدم کے ساتھ ہل رہا تھا۔ جب کہ میری نظر اُس پر ٹکی ہوئی تھی۔
شمی:- کیا ہوا؟ کیا دیکھ رہی ہو؟
میں:- دیکھ رہی ہوں۔ تمہارا لنڈ کتنا خطرناک ہے۔ میری حالت خراب کرنے کے بعد بھی جھوم رہا ہے۔
شمی:- ہہہہہ۔۔۔ یہ تو بے چارہ خوشی منا رہا ہے۔
میں:- آج کے لئے اتنی خوشی کافی ہے۔
شمی:- (میرے ساتھ لیٹ کر) کیوں تمہیں مزا نہیں آیا۔
میں:- یہ بات نہیں۔ اتنا مزا تو مجھے ساری زندگی نہیں ملا۔ لیکن اب اگر اتنی جلدی اس سے چُدوایا تو میں ضرور ہسپتال پہنچ جاؤں گی۔
شمی:- چُدنے کے بعد بھی کوئی ہسپتال پہنچا ہے بھلا؟ عورت کی چُوت تو ویسے بھی کنواں ہوتی ہے۔ یقین نہیں تو آزما لو۔ ہاہاہاہاہا…
ہم دونوں ایک ساتھ لیٹ گئے۔ میں نے شمی کے بازو پر اپنا سر رکھ لیا۔ اور شمی کے مموں سے کھیلنے لگی۔
کچھ ہی سیکنڈز میں شمی کا لنڈ پوری طرح سے اکڑ گیا۔ میں حیرت سے اُسکو دیکھنے لگی۔
میں: یہ تو پوری طرح سے کھڑا ہو گیا ہے۔
شمی: ہاں! لیکن ابھی تمہیں نہیں چود نہیں سکتی۔ کیونکہ تمہاری چوت سوج چکی ہے۔
میں: کوئی بات نہیں اگر سوج چکی ہے۔ میں تمہارے لنڈ کو پیاسا نہیں چھوڑ سکتی۔
شمی: سمجھا کرو میری جان۔ ہم کل چودائی کر لیں گے۔ اب اگر تمہیں چودا تو تمہاری چوت کا مزید کبڑا ہو جائے گا۔
میں: اچھا میری چوت کی گرمی تو دے سکتی ہو۔
شمی: کیسے؟
میں: اسکو میری چوت میں ڈال دو۔
شمی: میں سمجھی نہیں۔ تم کہنا کیا چاہ رہی ہو۔
میں اُسکے اُوپر آئی اور اُسکے لنڈ کو اپنی چوت پر رکھ کر آہستہ آہستہ اُس پر بیٹھ گئی۔ اُسکا پورا لنڈ 2 سے 3 منٹ کی کوشش کے بعد میری چوت میں گھس چکا تھا۔ میں شمی کے اُوپر لیٹ گئی اور اُسکے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ پھر اُس نے کروات لے لی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ ہم دونوں بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے، ہم دونوں کے چہرے ایک دوسرے کے بالکل پاس تھے۔ جب کہ نیچے اُسکا لنڈ میری چوت میں گھسا ہوا تھا۔ ہم ایسے ہی ایک دوسرے کی باہوں میں سو گئے۔
صبح ہونے تک ہم سوتے جاگتے رہے۔ جب میں تھوڑا ہوش میں آتی تو کچھ دھکے لگا لیتی۔ اسی طرح شمی بھی جب جگتی تو کچھ دھکے میری چوت میں لگا لیتی۔ اسی طرح چودتے، چدواتے، سوتے جاگتے ہم صبح ۱۰ بجے تک بے سودھ بستر میں گھسے رہے۔ ۱۰ بجے ہمارے در پر سائرہ نے ناک کیا۔ شمی اور میں ایک ساتھ جاگے۔
میں: کون!
سائرہ: مما میں ہوں۔ آپ اٹھ جائیے۔ میں ناشتہ تیار کر رہی ہوں۔
سائرہ یہ کہ کر چلی گئی۔ جب کہ میں اور شمی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا دیے۔ شمی نے آگے بڑھ کر میرے ہونٹ چوسنے شروع کر دیے۔ میں نے بھی اُسکا پورا پورا ساتھ دیا۔ شمی میرے اوپر تھی اور اُسکا پورا لنڈ ابھی بھی میری چوت میں فٹ تھا۔ میری چوت اُس کے لنڈ کے گرد خود بخود پھیل اور سکڑ رہی تھی جیسے اُسکو چوم رہی ہو۔ کچھ ہم ایک دوسرے کو کس کرتے رہے۔
میں: چلو اپنے پیارے کو باہر نکالو۔ جا کر فریش ہوتے ہیں۔ آج تو ناشتا بھی لیٹ ہو گیا۔
شمی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ اس کے بعد اُس نے ایک جھٹکے میں اپنا لنڈ باہر کھینچ لیا۔ میری چوت سے ایسی آواز آئی جیسے کسی نے بوتل کا ڈھکن کھولا ہو۔ اور ساتھ ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ جب کہ میرے منہ سے بھی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ درد اور مزے کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے میری آنکھوں کے سامنے تارے نچنے لگے۔
مجھے جب تک ہوش آیا، شمی بیڈ سے نیچے اُتر چکی تھی اور مجھے اپنی بازو میں اُٹھا چکی تھی۔ اُسکی طاقت دیکھ کر مجھے حیرانی ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی مجھے ڈر بھی تھا کہ وہ مجھے گرا ہی نہ دے۔ وہ آرام سے مجھے واش روم میں لے آئی۔ ہم دونوں اب ایک ساتھ فریش ہونے لگے۔ جب تک میں اپنے دانت صاف کیے، تب تک وہ واش روم استعمال کرتی رہی۔ اس کے بعد ہم نے جگہ بدل لی۔ تب میری نظر پہلی بار اپنی چوت پر پڑی۔ میری چوت سوج چکی تھی اور کئی جگہ سے زخمی بھی ہو چکی تھی۔ اس کے علاوہ اُسکا چھوٹا سا سوراخ اب کافی چوڑا ہو چکا تھا۔
میرے فری ہونے تک شمی میرے لیے باتھ ٹب میں پانی بنا چکی تھی۔ خاص طور پر جس سے میری چوت کو آرام ملے۔ ہم دونوں ایک ساتھ اُس پانی میں بیٹھ گئے۔ شمی اس دوران میری چوت سے کھلتی رہی۔ اور کوشش کرتی رہی کہ میری چوت کے اندر تک پانی جائے اور مجھے آرام ملے۔ اس کا فارمولا کافی حد تک کام کر رہا تھا۔ ۱۰ منٹ پانی میں بیٹھنے کے بعد ہم نہا کر اپنے اپنے کمرے میں آ گئے۔ میرے جانے سے پہلے۔
شمی:- (میرے کان میں) بلو کلر کا ڈریس پہن لینا اور ساتھ میں بلو بینگلز بھی۔ تمہاری ڈریسنگ پر رکھی ہیں۔
میں شرما کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ شمی نے سچ میں ڈارک بلیو رنگ کی بینگلز وہاں رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنا بلیو ڈریس، ساتھ میں میچنگ برا اور پینٹی پہن لیا۔ اس کے بعد ہلکا ہلکا میک اپ کر کے بینگلز پہن لیں۔ اج بہت وقت بعد بینگلز میری کلائی میں سجی ہوئی تھیں۔ اس کے بعد میں باہر گئی۔ شمی ابھی نہیں آئی تھی۔ سائرہ نے مجھے دیکھتے ہوئے میرے لیے چیئر پیچھے کھسکا دی، جیسے مجھے پروٹوکول دے رہی ہو۔ میں مسکراتے ہوئے وہاں بیٹھ گئی۔
سائرہ:- مما!
میں:- جی بیٹا؟
سائرہ:- آپ خوش تو ہو نا؟
میں:- ہاں! خوش ہوں۔ تمہیں کیا لگتا ہے؟
سائرہ:- مجھے یہ لگتا ہے کہ مجھے اپنا کمرہ نیچے شفٹ کر لینا چاہیے۔
میں:- کیوں؟
سائرہ:- ساری رات آپ کی چیخوں سے مجھے نیند ہی نہیں آئی۔ اس لئے سوچ رہی ہوں کہ نیچے شفٹ ہو جاؤں۔
میں شرم سے سر جھکا گئی۔ سچ ہی تو تھا میری سوجی ہوئی چوت اور بگڑی ہوئی چال اس بات کی گواہی دے رہی تھی کہ رات کو میری چوت کی خوب پٹائی ہوئی ہے۔
سائرہ:- ویسے سٹیپ مام کہاں رہ گئیں؟
میں:- (حیرت سے) کون؟
سائرہ:- اب میں شمی کو سٹیپ مام ہی کہوں گی نا۔
اور وہ ہہہہہہہہہ.. کر کے ہنسنے لگی۔ میں نے مصنوعی غصہ سے اُسکو دیکھا۔ پھر میرے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔
جیسا میں نے بتایا، سائرہ میری سہیلی بھی تھی اس لیے مجھے بار بار تنگ کر کے اس بات کا پروف دے رہی تھی۔
اُسی وقت شمی بھی وہاں آ گئی۔
سائرہ:- لیجیئے آ گئی آپ کی زوجہ محترمہ۔
اس کے بعد وہ وہاں سے اپنے بیڈ روم چلی گئی۔
سائرہ:- آپ دونوں لوو برڈز بریکفاسٹ انجوائے کریں۔ تب تک میں یونیورسٹی کی تیاری کر لیتی ہوں۔ اور ہاں شمی! آپکو بھی میرے ساتھ چلنا ہو گا۔ آج اگزیمز کا شیڈول ملنا ہے۔ آدھے گھنٹے میں میں آپکو ملتی ہوں۔
یہ کہ کر وہ کمرے میں چلی گئی۔ میں اسکی بات سن کر شرما کر رہ گئی۔ آج مجھے نئی نویلی دلہن جیسی فیلنگ آ رہی تھی۔ جیسے کوئی نئی نویلی دلہن اپنے شوہر کے ساتھ سہاگ رات منانے کے بعد صبح اپنے سسرال میں سب سے شرما رہی ہوتی ہے، ویسی ہی حالت میری بھی تھی۔
میں ابھی سر جھکا کر بیٹھی تھی کہ شمی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نظریں اٹھا کر بہت مشکل سے اسکی طرف دیکھا تو اس نے مجھے اپنی گود میں آنے کا اشارہ کیا۔ میں نے نہیں میں اپنا سر ہلایا۔ لیکن وہ نہیں مانی۔ اس نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ میں بھی اُٹھ کر اسکی گود میں بیٹھ گئی۔
میں:- پلیز چھوڑ دو نا۔ ایسے تو نہیں کرو۔
شمی:- کیوں؟ اب کیا پرواہ۔ گھر میں اور کوئی ہے نہیں۔ جب کہ سائرہ ہمارے بارے میں سب جانتی ہے۔
میں:- پھر بھی اچھا نہیں لگتا۔
شمی:- چھوڑو ساری باتیں۔ جلدی سے پلیٹ میں کھانا ڈالو بہت بھوک لگ رہی ہے۔ پھر میں نے یونیورسٹی بھی جانا ہے۔
میں نے پلیٹ میں کھانا ڈالا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو کھانا کھلانے لگے۔ کبھی ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ بھی کرتے۔ ایسے ہی ہم نے ناشتہ کر لیا۔ ابھی میں شمی گود میں ہی بیٹھی تھی کہ وہاں سائرہ بھی آ گئی۔
سائرہ:- اگر آپ دونوں لوو برڈز کا ناشتہ ختم ہو گیا ہے تو ہم یونیورسٹی چلیں؟
میں اسکی آواز سن کر ایک دم شمی کی گود سے اُٹھ کر سائیڈ میں کھڑی ہو گئی۔ جیسے میری کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔ جب کہ شمی مسکراتے ہوئے اُٹھ کر اپنا سامان لینے چلی گئی۔
سائرہ:- مما…! کیا ہوا؟
میں:- (کنفیوز ہو کر) ووووووو…. کچھ نہیں…
سائرہ:- مما! میں آپ کی حالت سمجھتی ہوں۔ میں صرف آپ کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔ آپ کو پھر سے پہلے والی مما دیکھنا چاہتی ہوں جیسے آپ بابا جان کے ساتھ تھیں۔ اور شمی کی آپ سے محبت میرے لیے کوئی پریشان کرنے والی چیز نہیں ہے۔ بلکہ میں تو آپ کو خوش دیکھ کر خوش ہوں۔ اس لئے آپ کو چھیڑ رہی ہوں۔
اِتنی دیر میں شمی بھی آ گئی۔ سائرہ اور شمی یونیورسٹی چلے گئے جب کہ برتن سمیت کر کھانے کی تیاری کرنے لگی۔ سچ میں میں اپنے اندر عجیب سی خوشی محسوس کر رہی تھی۔ شام تک سب لوگ ایک ایک کر کے واپس آ گئے۔ رات کے کھانے کے بعد ہم سب آرام کرنے اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جب کہ میں کِچن میں کام کر رہی تھی۔
شمی:- (میرے پیچھے آ کر) جلدی آنا! میں تمہارا ویٹ کر رہی ہوں۔
میں یہ سن کر شرما گئی اور ہاں کر میں سر ہلا کر رہ گئی۔ میں سمجھ گئی تھی کہ وہ کیوں مجھے جلدی آنے کا کہ رہی ہے۔ میں جلدی جلدی کام کرنے لگی، پھر بھی مجھے آدھا گھنٹہ لگا کام ختم کرنے میں۔
جب میں کمرے میں آئی تو میرے بیڈ پر ایک نائٹی رکھی ہوئی تھی۔ میں سمجھ گئی کہ یہ میرے لیے شمی نے ہی رکھی ہے۔ میں پہلے جا کر اچھے سے نہائی اور دانت برش کیے۔ اس کے بعد میں نے ہلکا سا میک اپ بھی کر لیا۔
کچھ ہی منٹ کے انتظار کے بعد شمی میرے کمرے میں آ گئی۔ مجھے دیکھ کر اس نے سیٹی ماری۔ جیسے کسی ہوٹ لڑکی کو دیکھ کر سڑک پر چلتے آوارہ لڑکے سیٹی مارتے ہیں، بالکل ویسے ہی۔ اسکی اس حرکت پر میں نے اسکی طرف دیکھا، وہ مجھے اوپر سے نیچے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے ابھی کھا جائے گی۔ میں شرم سے آنکھیں نیچے کر لیں۔ شمی چلتی ہوئی میرے پاس آئی۔ شمی نے مجھے بہوں میں بھر لیا۔ ہم دونوں کے ممے آپس میں ٹکرا گئے۔
شمی:- کیا کمال لگ رہی ہو میری جان۔ دل کرتا ہے تمہیں کھا جاؤں۔
میں کچھ نہ بول سکی صرف آااااہہہہ… بھر کر رہ گئی۔
شمی:- (میرے چوتڑوں کو مسلتے ہوئے) میری جان! اجازت ہے۔ میں کس کر لوں تمہیں۔
میں:- جب کل سے ہم دونوں ایک ہیں تو آگے بڑھنے کے لیے اجازت کیوں؟ مجھے پر اب سے صرف اور صرف تمہارا حق ہے۔
شمی:- مجھے اچھا لگتا ہے تم سے اجازت لینا۔ کیونکہ اس وقت تمہارے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے۔ جو مجھے ایک الگ سا احساس دیتا ہے۔
میں:- تو کیا ہر بار اجازت لو گی؟
شمی:- ہاں! ہر بار۔
میں:- اور اگر میں منع کروں تو…!
شمی:- میں تمہیں ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گی۔
میں:- اتنا پیار کرتی ہو مجھ سے؟
شمی:- میں کتنا پیار کرتی ہوں، یہ میں لفظوں میں نہیں بتا سکتی۔
میں:- تو پھر میری طرف سے اجازت ہے تمہیں۔ تم جو چاہے کر سکتی ہو۔
یہ کہ کر میں خود آگے بڑھ کر اس کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ملا دیئے۔ ہم دونوں بہت رومانٹک طریقے سے ایک دوسرے کو کس کرنے لگے۔ کس کرتے کرتے اس نے اپنے کپڑے اتار دیئے، جب کہ میری نائٹی بھی کچھ ہی دیر کی مہمان رہی۔ تقریباً 5 منٹ میں ہم دونوں بستر پر لیٹے تھے۔ اور آج پھر شمی کا لنڈ میری چوت پھاڑتا ہوا میری چوت میں اترتا جا رہا تھا۔ اسکا موٹا لمبا لنڈ میری چوت کو پوری طرح سے کھول رہا تھا۔ جیسے ہی اس کے لنڈ نے میری بچہ دانی کو چوٹ کی، میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ کیونکہ مجھے ایسے لگا جیسے اسکا لنڈ میری بچہ دانی کے منہ کو کھولے ہوئے اندر گھس رہا ہے۔ شمی میری چیخ سن کر کچھ دیر رک گئی۔ اس کے بعد اس کے دھکے شروع ہو گئے۔
اِدھر میری چوت سے پاااااچھھھھھھااااککک کی آواز آنے لگی۔ جب کہ میرے منہ سے آاااہہہ… آااہہہ… کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ میری چوت میں ابھی بھی کافی درد تھا۔ لیکن لنڈ کی رگڑ اس درد کو بھولنے پر مجبور کر رہی تھی۔ میں نے اگلے 5 منٹ میں دو بار پانی چھوڑ دیا۔ شمی نے یہ دیکھ کر مجھے کتیا بنا دیا۔ اور پیچھے سے لنڈ ڈال کر میری چوت چودنے لگی۔
کچھ دیر دھکے مارنے کے بعد اس نے ایک دم سے اپنا لنڈ میری چوت میں ایک دھکے سے ڈال کر روک لیا۔ اس کے اس دھکے سے میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ کیونکہ اسکا لنڈ ایک بار پھر میری بچہ دانی کو چوٹ کر رہا تھا۔ میری گردن ایک دم اُوپر آسمان کی طرف ہو گئی۔ شمی نے تب پیچھے سے میری گردن کو پکڑ لیا اور ایک بار پھر مجھے چودنے لگی۔ وہ اب میرے اُوپر جھکی ہوئی تھی۔ اس کی گرم سانسیں مجھے اپنے کانوں اور گردن پر محسوس ہو رہی تھیں۔
پھر اس نے میرے چہرے کو اپنی طرف کیا اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ میں بھی اسکا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ تبھی ایک بار پھر میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ میں اُسی طرح بستر پر گر گئی۔ لیکن شمی پھر بھی نہیں رکی۔ وہ اُسی رفتار سے میری چوت چودتی رہی۔ میں ایک بار پھر اپنی منزل کو طرف چل پڑی۔ یعنی ایک بار پھر میری چوت پانی چھوڑنے کو بیچین ہو گئی۔
پھر شمی نے مجھے کروات کے بل لیٹایا اور میری چوت چودنے لگی۔ وہ ساتھ ساتھ کبھی میرے مموں کو مسل رہی تھی، تو کبھی میرے چُھتروں پر تھپڑ لگا رہی تھی۔ تو کبھی مجھے کس کر رہی تھی۔ ہم دونوں نہ جانے کب تک اور کس کس پوزیشن میں چودائی کرتے رہے۔ جب شمی جھڑی تو اُس وقت میں 12 بار جھڑ چکی تھی۔ ہم دونوں کی سانسیں اتنی تیز چل رہی تھیں جیسے کئی میل بھاگ کر آئی ہوں۔ ہم اپنی سانسیں ٹھیک کرتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ ابھی ہم ایک دوسرے کو چم کر رہے تھے کہ میری نظر شمی کے لنڈ پر پڑی۔ جو ایک بار پھر پوری طرح سے کھڑا تھا اور جھٹکے لے رہا تھا۔
میں:- یہ تو پھر سے تیار ہو گیا۔
شمی:- ہاں! یہ ایسے ہی ہے۔ بہت جلد تیار ہو جاتا ہے۔
میں:- ہاں وہ تو دکھ رہا ہے۔
شمی:- تو سواری کرنا چاہو گی!
میں:- خوشی سے۔
یہ کہ کر میں اسکی گود میں بیٹھ گئی۔ اور اسکا لنڈ اپنی چوت میں لے کر اچھلنے لگی۔ ایک بار پھر ہماری چودائی چل پڑی۔ 10 منٹ، 15 منٹ، 20 منٹ… لیکن ہماری چودائی نہیں رک رہی تھی۔ اِدھر میری چوت اندر ہی اندر سے چل رہی تھی۔ میں اُسکا لنڈ برداشت نہیں کر پا رہی تھی لیکن میں اُسکو روک بھی نہیں رہی تھی۔ لیکن پھر شمی ایک دم سے رک گئی۔ وہ حیرت سے اپنے لنڈ کو دیکھ رہی تھی جس پر خون کی لکیر صاف نظر آ رہی تھی۔ اُس کو احساس ہو گیا کہ یہ خون میری چوت سے نکل رہا تھا۔ اُس نے فوراً چودائی روک دی اور مجھ سے معافی مانگتے ہوئے مجھے کس کرنے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔
میں:- کیا ہوا جان! کیوں رو رہی ہو!
شمی:- تم اندر سے زخمی ہو۔ مینے تمہیں زخمی کر دیا ہے۔ میں بہت بری ہوں۔ مجھے معاف کر دو۔
میں:- ارے کچھ نہیں ہوتا۔ میں ٹھیک ہوں۔
شمی:- نہیں…! دیکھو۔ تم کیسے ٹھیک ہو؟ تمہاری چوت کا خون میرے لنڈ پر لگا ہے۔
میں:- اچھا اچھا ٹھیک ہے۔ لیکن تمہاری غلطی نہیں۔ مجھے تمہیں بتا دینا چاہیے تھا، رکنے کا کہنا چاہیے تھا۔ لیکن مینے نہیں روکا۔
شمی:- لیکن مجھے سوچنا چاہیے تھا۔ میں بنا تمہارا خیال کئے تمہیں چود رہی ہوں۔
میں:- کوئی بات نہیں۔ میں ٹھیک ہوں۔
میں نے بہت مشکل سے اُسکو چپ کروایا۔ کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ اُسکا لنڈ ابھی بھی کھڑا ہے۔ کیونکہ وہ فارغ نہیں ہوئی تھی۔ میں نے اُسکا لنڈ منہ میں بھرنا چاہا تو اُس نے روک دیا۔
شمی:- نہیں!!!! ایسا نہیں کرو۔
میں:- کیوں نہ کروں؟
شمی:- مینے پہلے بھی تمہیں بہت درد دیا ہے۔ میرا لنڈ بہت موٹا ہے، تم منہ میں نہیں لو۔ تمہیں تکلیف ہوگی۔
میں:- شھھ…… چپ کر کے لیٹی رہو۔ اور اب مجھے اپنا کمال دکھانے دو۔
یہ کہ کر میں نے روم کے آئینے کے ساتھ پڑی تیل کی بوتل اٹھائی اُسکے لنڈ پر ڈھیر سارا تیل لگایا۔ اور اُسکے لنڈ کو دونوں ہاتھوں سے مسلنے لگی۔ اُوپر نیچے اُوپر نیچے۔ ساتھ ہی ساتھ میں اُسکے لنڈ کی ٹوپی کو چوس رہی تھی۔ اُسکا لنڈ زیادہ سے زیادہ 3 انچ ہی میرے منہ میں جا رہا تھا۔ مجھے اُسکا لنڈ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی گرم پتھر ہو۔ پھر میں نے اُسکے لنڈ کے نیچے ٹینس سائز کے ٹٹوں کو بھی سہلانا شروع کر دیا۔ شمی کے منہ سے آاااہہہہ…. آاااہہہہ…. کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ وہ اِس سب کو خوب انجوائے کر رہی تھی۔
کچھ دیر بعد اس نے میرے دونوں مموں کو ایک ایک ہاتھ میں پکڑ کر اپنے لنڈ پہ دبایا تو میں سمجھ گئی وہ کیا چاہتی ہے۔ میں نے اُس کے لنڈ کو اپنے دونوں مموں میں پھنسا لیا۔ اور اوپر نیچے ہوتے ہوئے اُس کے لنڈ کو چودنے لگی۔ اُس کے لنڈ کی ٹوپی پر میں اپنی زبان چلاتی۔ کبھی اُس کے لنڈ کو منہ میں لے کر چوس لیتی تو کبھی اُس کے ٹٹوں کو سہلاتی۔ کافی دیر تک بدل بدل کر میں یہ سب کرتی رہی۔ لیکن ظاہر ہے، شمی کا اسٹمینا اتنا زیادہ تھا کہ وہ ابھی بھی نہیں جھڑی تھی۔ تبھی مجھے ایک خیال آیا کہ میں کبھی کبھی فنگرنگ کے دوران اپنی گانڈ کے سوراخ سے کھیل لیتی تھی۔
میں نے اپنی ایک انگلی جو پہلے سے تیل میں تر تھی اس کو شمی کے پیارے سے گانڈ کے سوراخ میں دھکیلنے لگی، جو تھوڑی سی رکاوٹ کے بعد اس کی گانڈ میں گھس گئی۔ میری محنت رنگ لے آئی اور کچھ ہی دیر میں شمی جھڑنے کے قریب پہنچ گئی۔ ایک دم سے اُسکے منہ سے آااااہہہہ…. کی آواز نکلی اور اُس کے لنڈ سے نکلی منی اُس کے مموں اور پیٹ پر پھیلنے لگی۔ میں اُسکا لنڈ مسلتی رہی تا کہ وہ اچھے سے فارغ ہو جائے۔ دو منٹ تک وہ جھڑتی رہی، جب میں نے اُسکے لنڈ کو چھوڑا تو اُس کے پیٹ اور سینے پر اُسکی منی پھیلی ہوئی تھی۔
میں نے واشروم جا کر ایک کپڑے کو گیلا کیا اور اس کی مدد سے اس کے جسم کو صاف کر دیا۔ اس کے بعد ہم دونوں ایک ساتھ لیٹ گئے اور باتیں کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ہم دونوں ایک دوسرے کی بغل میں سکون سے سو گئے۔
اب یہی روٹین چل پڑی۔ روز رات کو میں اور شمی ایک ساتھ سوتے۔ شمی میری جم کر چودائی کرتی، جس کے بعد ہم ایک دوسرے کی بغل میں سو جاتے۔ لیکن جب شمی کے امتحانات قریب آئے تو میں نے اُسکو چودائی کے لئے منع کر دیا۔ میرا کہنا مانتے ہوئے شمی نے اپنا پورا فوکس پڑھائی پر کر دیا۔ وہ اور سائرہ ایک ساتھ بیٹھ کر اسٹڈی کرتے۔ امتحانات کے دوران ایک دو دفعہ شمی نے مجھ سے شکوہ کیا۔
شمی:- کیا ہوا میری جان؟ مجھ سے ناراض ہو کیا؟
میں:- نہیں تو….!
شمی:- پھر تم مجھے اپنے پاس کیوں نہیں آنے دیتی؟
میں:- میں جانتی ہوں میری جان کہ میں تم سے دوری بنائے ہوئی ہوں۔ لیکن میری مجبوری کو سمجھو۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سب کچھ بھول کر اپنا پورا وقت اسٹڈی پر دو۔
شمی:- لیکن یہ تو ظلم ہے نا میرے ساتھ۔
میں:- میری جان! میں سر سے پاؤں تک تمہاری ہوں۔ جب چاہے جیسے چاہے مجھ سے دل بہلاؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بس میں یہ چاہتی ہوں کہ میری وجہ سے تمہارا رزلٹ خراب نہ ہو۔ اگر میری وجہ سے تمہارا ایک مارک بھی کم ہوتا ہے تو مجھے اُسکا افسوس رہے گا۔ اس لئے میں تم سے ریکویسٹ کرتی ہوں کہ جب تک امتحانات ختم نہ ہوں، تم خود پر کنٹرول رکھو۔ جس دن تم آخری پیپر دے کر آؤ گی، اُس روز جتنا مرضی مجھے چود لینا۔
شمی:- میں تمہاری بات سمجھ گئی میری جان۔
I love you…
اور اس کے ساتھ ہی اُس نے میرے ہونٹوں پر کس کر دیا۔ ہم دونوں کچھ دیر تک ایک دوسرے کے ہونٹوں کا رس چوستے رہے، اس کے بعد ہم الگ ہو گئے۔ شمی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اس کے بعد شمی کے پیپرز ختم ہونے تک کچھ خاص نہ ہوا۔ جس روز اُسکا آخری پیپر تھا، اُس دن میں نے خود کو پوری طرح سے تیار کر لیا۔ اپنے چہرے سے نیچے ہر جگہ سے بال صاف کر لیے۔
رات کے کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ میں کِچن میں کام کرنے لگی۔ تبھی مجھے لونج میں سے سائرہ کی آواز سنائی دی جو شمی سے کہ رہی تھی۔
سائرہ: – یار شمی! تمہارا تو پتا نہیں، لیکن مجھے پتا نہیں آج کیوں بہت زور کی نیند آ رہی ہے۔ میں تو چلی سونے کے لیے۔
یہ بات اُس نے اتنی اُونچی آواز میں کہی کہ میں صاف طور پر سن سکتی تھی۔ حالانکہ اگر وہ چاہتی تو یہ بات آرام سے بھی کہ سکتی تھی۔ یہ کہ کر سائرہ وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اِدھر میں شرم کے مارے سر جھُکا کر رہ گئی۔ میری اپنی ہی بیٹی کے منہ سے اس طرح کی باتیں سن کر مجھے عجیب بھی لگتا اور ایکسائٹمنٹ بھی ہوتی۔
میں جب کام ختم کر کے اپنے کمرے میں آئی تو وہاں شمی پہلے سے بیٹھی تھی۔ جو پوری ننگی تھی اور میرے بیڈ بیٹھی اپنے لنڈ کو سہلا رہی تھی۔ میں اُسکو دیکھ کر چونک گئی۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ یہاں ہو گئی۔
میں: – صبر نہیں ہوا نا تم سے؟
شمی: – آرے میری جان! میرا بس چلے تو دن رات تمہاری چوت چودائی کرتی رہوں۔ اب جلدی سے آؤ! میں اور میرا لنڈ دونوں بہت بیچین ہیں۔
میں: – (اُسکو چھیرتے ہوئے) کیوں بیچین ہیں؟
شمی: – تمہاری جوانی کا رس چُوسنے کے لیے۔ اب جلدی سے آؤ میرے پاس۔
میں: – بس 5 منٹ۔ میں فریش ہو کر آتی ہوں۔
شمی: – 5 منٹ کا مطلب 5 منٹ۔ اس سے زیادہ نہیں۔ ورنہ میں باتھروم میں آ کر تمہاری چودائی کر دوں گی۔
میں اُسکی بات سُن کر جلدی سے واشروم چلی گئی اور فریش ہونے لگی۔ ابھی میں نہا رہی تھی کہ واشروم کا دروازہ کھلا اور شمی اندر آ گئی۔ اُس نے آتے ہی میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی سیکنڈز میں ہماری زبانیں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ شمی کے ہاتھ میرے چٹھڑوں کو سہلا رہے تھے۔ ساتھ ہی کبھی وہ ہلکا سا تھپڑ بھی لگا دیتی، جس سے میری مستی بڑھ رہی تھی۔ اُدھر شاور کا ٹھنڈا پانی ہمارے جسموں کی آگ کم کرنے کے بجائے بڑھا رہا تھا۔ اب ہم دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے مموں سے کھیل رہے تھے۔
ایک دوسرے کے نپلز کو کھینچتے، مموں کو نوچتے، ہماری کس چلتی رہی۔ نیچے اُس کا لنڈ میری چوت پر رگڑ کھا رہا تھا۔ میں اُس کے لنڈ کو سہلانے لگی۔ اُس کا لنڈ آج کچھ زیادہ گرم لگ رہا تھا۔ اور بار بار جھٹکے بھی لے رہا تھا۔ شمی میری دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گئی اور میری چوت کو چوسنے چاٹنے لگی۔ اُس کی لمبی زبان مجھے جنت کی سیر کروا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں اُس نے مجھے پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
میری چوت کا سارا رس چھٹنے کے بعد اس نے مجھے کس کرنا شروع کردیا۔ اب میری باری تھی، اپنی جان، اپنے سیکرٹ گرل + بوائے فرینڈ کو خوش کرنے کی۔ میں نے آہستہ آہستہ نیچے جھکنے ہوئے پہلے اسکو مموں کو اچھے سے چوسا۔ ظاہر ہے میرے لیے یہ کچھ عجیب تھا، لیکن میرے لیے کافی مزیدار بھی تھا۔ اس کے بعد اس کے فلیٹ پیٹ کو چٹایا ہوئے میں نیچے فرش پر بیٹھ گئی۔
اب میری آنکھوں کے سامنے اسکا موٹا لمبا لنڈ تھا۔ جو جھٹکے مارتا اتنا خوفناک لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی اپنے شکار پر جھپٹ پڑے گا۔ میں نے اس کے لنڈ کو منہ میں بھر لیا۔ ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے بھیگا اسکا لنڈ میرے منہ میں بس 2 سے 3شمی نے سب سے پہلے تو مجھے کتیا بنا کے چودنا شروع کیا۔ آج اس کے دھکے اتنے شدید قسم کے تھے جیسے کوئی انسان کسی چیز پر ہتھوڑے سے وار کرتا ہے۔ اس کے دھکوں سے میری کمر میں درد ہو رہا تھا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ ابھی میری کمر ٹوٹ جائے گی۔ لیکن مجھے مزہ بھی خوب آ رہا تھا۔ میری چوت بھی اتنا ہی پانی بہا رہی تھی۔ ہماری چودائی سے کمرے میں پچ… پچ… کی آواز آ رہی تھی۔ جب کہ میرے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں۔ جس کو روکنے کی یا اپنی رفتار کم کرنے کی شمی نے ذرا بھی کوشش نہیں کی۔ اس نے مجھے اسی طرح سے چودنا جاری رکھا۔ جب میں ایک بار جھڑ گئی تو اس نے میری چوت سے لنڈ نکال لیا اور مجھے سیدھا لیٹا کر واپس میری چوت میں لنڈ ڈھکیل دیا۔
اب کی بار وہ میرے اوپر جھک کر میری آنکھوں نے دیکھتے ہوئے میری چوت چودائی کرنے لگی۔ اس کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا تھا۔ مجھے اس پر بہت زیادہ پیار آ رہا تھا۔ میں اپنے ہاتھوں سے اس کا پسینہ صاف کرنے لگی۔ شمی میری حرکت پر مسکرا اُٹھی۔ اس نے نیچے جھک کر میرے مموں کو زور سے چوسنا شروع کر دیا۔ میرے منہ سے آاااہہہہ… آاااہہہہ… کی آوازیں نکلنے لگیں۔ جب کہ میں اس کے بالوں کو سہلانے لگی۔ انچ ہی جا سکا۔ اس سے زیادہ اندر لینے کی کوشش کرتی تو مجھے وامٹ آتی فیل ہونے لگتی۔ شمی بھی اس چیز کو اچھے سے سمجھتی تھی کہ اسکا لنڈ کافی موٹا ہے۔ وہ میری چوسائی کا مزہ لے رہی تھی۔
کچھ دیر ایسے ہی مزہ لینے کے بعد شمی نے مجھے اوپر اٹھایا اور میرے مموں کو دباتے ہوئے مجھے کس کرنے لگی۔ ہم دونوں ایک دوسرے میں گم ہو گئے۔ ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ کب ہم آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنے بیڈروم میں آ گئے۔ مجھے تب پتہ چلا جب میں نرم نرم بستر پر لیٹی۔ شمی میری چوت پر اپنے لنڈ سے نشانہ لگا کر میرے اوپر جھک گئی۔ کچھ پلوں میں میرے منہ سے ایک چیخ نکلی جو شمی کے منہ میں غائب ہو گئی۔ اس کے بعد اگلے ٢ گھنٹے تک میرے بیڈروم میں وہ طوفان آیا جس کے بارے میں آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔
شمی نے سب سے پہلے تو مجھے کتیا بنا کے چودنا شروع کیا۔ آج اس کے دھکے اتنے شدید قسم کے تھے جیسے کوئی انسان کسی چیز پر ہتھوڑے سے وار کرتا ہے۔ اس کے دھکوں سے میری کمر میں درد ہو رہا تھا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ ابھی میری کمر ٹوٹ جائے گی۔ لیکن مجھے مزہ بھی خوب آ رہا تھا۔ میری چوت بھی اتنا ہی پانی بہا رہی تھی۔ ہماری چودائی سے کمرے میں پچ… پچ… کی آواز آ رہی تھی۔ جب کہ میرے منہ سے چیخیں نکل رہی تھیں۔ جس کو روکنے کی یا اپنی رفتار کم کرنے کی شمی نے ذرا بھی کوشش نہیں کی۔ اس نے مجھے اسی طرح سے چودنا جاری رکھا۔ جب میں ایک بار جھڑ گئی تو اس نے میری چوت سے لنڈ نکال لیا اور مجھے سیدھا لیٹا کر واپس میری چوت میں لنڈ ڈھکیل دیا۔
اب کی بار وہ میرے اوپر جھک کر میری آنکھوں نے دیکھتے ہوئے میری چوت چودائی کرنے لگی۔ اس کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا تھا۔ مجھے اس پر بہت زیادہ پیار آ رہا تھا۔ میں اپنے ہاتھوں سے اس کا پسینہ صاف کرنے لگی۔ شمی میری حرکت پر مسکرا اُٹھی۔ اس نے نیچے جھک کر میرے مموں کو زور سے چوسنا شروع کر دیا۔ میرے منہ سے آاااہہہہ… آاااہہہہ… کی آوازیں نکلنے لگیں۔ جب کہ میں اس کے بالوں کو سہلانے لگی۔
جب میں نے دیکھا کہ شمی تھک رہی ہے تو میں نے اس کو لیٹا دیا۔ اور اس کے لنڈ کو منہ میں بھر کر چوسنا شروع کر دیا۔ اس کا لنڈ میری چوت کے پانی سے بھیگا ہوا تھا۔ جب کہ اس کی گرمی اتنی تھی جیسے میرے منہ کو جلا دے گی۔ میں نے کچھ دیر میں اس کے پورے لنڈ سے اپنا چوت رس صاف کر دیا۔
شمی نے اپنے جنگھوں پر چپٹ لگائی جیسے مجھے اوپر بیٹھنے کا کہ رہی ہو۔ اس کا لنڈ ایفل ٹاور کی طرح سیدھا چٹ کی طرف منہ کیا کھڑا تھا۔ جیسے ہی میں اس کے لنڈ پر بیٹھنے لگی تو اس نے مجھے پاؤ کی طرف منہ کر کے بیٹھنے کا کہا۔ میں اس کا اشارہ سمجھ کر اس کے پاؤ کی طرف منہ کر کے اس کے لنڈ پر بیٹھنے لگی۔ یعنی ریورس کاؤگرل پوزیشن میں۔ اس کا لنڈ آہستہ آہستہ میری چوت میں اُتر رہا تھا۔ جو مجھے کافی درد دے رہا تھا۔ ابھی میں نے آدھا لنڈ ہی لیا تھا کہ شمی نے نیچے سے دھکا مارا۔ ایک جھٹکے میں پااااچچھھھھھھ کی آواز کے ساتھ اس کا پورا لنڈ میری چوت میں اُتر گیا۔ جب کہ میرے منہ سے ایک زوردار چیخ نکل گئی۔ جس کو سن کر شمی ہنسنے لگی۔
میں: (تھوڑے غصے سے) تم صبر نہیں کر سکتی؟ میں تمہارا گھوڑے جیسا لے رہی تھی نا۔
شمی: تو میں بھی تمہاری مدد کر رہی تھی۔
میں: اس طرح سے مدد کرتے ہیں کیا؟ پتا ہے کتنا درد ہو رہا ہے؟
شمی: کوئی بات نہیں! کچھ نقصان تو نہیں ہوا نا۔ مزہ ہی آیا ہے تمہیں۔
میں: تمہیں کیا پتا کہ میری کیا حالت ہے۔ تمہاری گانڈ میں لنڈ جائے تو پتا چلے تمہیں۔
شمی: ہاہاہاہا… اچھا ساری! مجھ سے صبر نہیں ہوا۔ تمہاری چوت کی گرمی مجھے پاگل کر رہی تھی۔ اس لئے ایسے کیا۔ اب جلدی سے اپنی چوت چدواو۔ ورنہ میں آج تمہاری کنواری گانڈ کھول دوں گی۔
میں: (آہستہ آہستہ اس کے لنڈ پر اچھلتے ہوئے) تمہارا دل کر رہا ہے تو میری گانڈ بھی مار لو۔ اب تو میرے جسم پر صرف اور صرف تمہارا حق ہے۔
شمی میری بات سے بہت خوش ہو گئی۔ اور میرے چوتروں کو مسلنے لگی۔ جب کہ میں آہستہ آہستہ اوپر نیچے ہوتے ہوئے چودائی کا مزہ لینے لگی۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے شمی کا لنڈ میری بچہ دانی کو چوٹ کر رہا ہے۔
جب اس کا لنڈ باہر نکلتا تو مجھے ایسے محسوس ہوتا جیسے اس کا لنڈ میری چوت کو بھی اپنے ساتھ باہر کی طرف کھینچ رہا ہے اور جب اس کا لنڈ اندر جاتا تو میری چوت کو اندر کی طرف جاتی۔ اس کے لنڈ نے جیسے اندر سے میری چوت کو لاک کر رکھا تھا۔ یہ ایسی چیز تھی جس کو میں بتا نہیں پا رہی تھی۔ بس مستی میں آنکھیں بند کیے آااہہہہ… اوووہہہہ… کی آوازیں نکل رہی تھیں۔
کچھ دیر بعد میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ میں آنکھیں بند کر کے لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ تب شمی نے مجھے پیچھے کی طرف کھینچ لیا۔ میں اس کے سینے پر گر سی گئی۔ اس کے گول گول موٹے موٹے ممے مجھے اپنی پیٹھ پر ساکھ محسوس ہو رہے تھے۔ اس نے میرا چہرہ اپنی طرف کیا اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگی۔ ساتھ ہی اس نے اپنی دونوں گھٹنوں کو اُوپر اٹھا لیا۔ اور پاؤ بیڈ پر رکھ دیے۔ اب وہ نیچے سے دھکے لگانے لگی۔ اس کے دھکوں سے ایک بار پھر میری چوت اپنا رس بہانے لگی۔
شمی تیزی سے مجھے اس پوزیشن میں چود رہی تھی۔ جب کہ اس کے دونوں ہاتھ میرے نازک مموں کو مسل رہے تھے۔ کبھی وہ میرے نپلز کو کھینچتی۔ مجھے درد تو ہو رہا تھا لیکن مستی بھی ہر لمحے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی۔ تب شمی نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جا کر میرے چوت کے دانے کو رگڑ دیا۔ اس کے ایسے کرنے سے بار پھر میری چوت سے پانی بہ نکلا۔ اب تک میں کتنی بار جھڑی، میں نے اب گنتی ہی چھوڑ دی تھی۔
اس کے بعد ہم دونوں فریش ہوئے اور آپس میں باتیں کرتے ہوئے ریسٹ کرنے لگے۔ اب ہمارا وقت ایسے ہی گزرنے لگا۔ میرے دونوں بیٹوں کے سامنے ہم احتیاط کرتے، لیکن جب وہ نہیں ہوتے تو ہم دونوں ایک رومینٹک کپل کی طرح رہتے۔ سائرہ تو سب کچھ جانتی تھی اور اسکو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ ہم دونوں کو خوش دیکھ کر خوش ہوتی۔
اگلے کچھ مہینے تک ہم رومینٹک کپل کی طرح ہی رہے۔ اب مجھے لگنے لگا تھا کہ میرے دونوں بیٹوں کو شاید مجھ پر شک ہو گیا ہے۔ کیونکہ انکی نظروں میں کچھ سوال تھے جو وہ ہمارے رشتے کی وجہ سے نہیں پوچھ پا رہے تھے۔ اور میں ان سوالوں کو محسوس کر رہی تھی۔ ایسی ہی کچھ باتیں سائرہ نے بھی مجھ سے کہی تھیں۔ مجھے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ اب اس بات کو اگنور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مجھے کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔ یہی سوچ کہ میں کچھ پریشان بھی رہنے لگی۔
ایک صبح شمی اور سائرہ کے یونیورسٹی جانے کے بعد میں نے کپڑے دھونے کا ارادہ کیا۔ اس وقت گھر پہ میں اور میرا بڑا بیٹا اشفاق ہی تھے۔ اس کو بھی میں نے آواز دے کر اپنے کپڑے باہر نکالنے کا کہا۔
میں دھونے والے کپڑوں کو اٹھا کے سیڑھیوں سے نیچے جا رہی تھی کے ایک کپڑا میرے پاؤں کے ساتھ الجھا اور میں سیڑھیوں پر بازیاں کھاتے نیچے جا گری۔ میرا بیٹا جو اپنے کپڑے تھامے دروازے سے باہر نکل رہا تھا، اس نے زور سے مجھے آواز دی اور پھر بھاگتا ہوا میری طرف لپکا۔ لیکن میں اس وقت حواس کھوئے تکلیف سے کراہ رہی تھی اس نے مجھے تقریبا اٹھا کے گاڑی میں ڈالا اور ہاسپٹل کی طرف گاڑی بھگا دی۔
ہاسپٹل جا کے پتہ چلا کہ ہڈیاں وغیرہ کوئی فریکچر نہیں تھیں، مگر پھر بھی کافی چوٹیں آئی تھیں ہر چیز دکھ رہی تھی۔ ہم دوبارہ گاڑی میں واپس آ گئے۔ اس نے مجھے سہارا دے کر اپنے روم تک لایا اور کہا ابھی آپ نیچے میرے روم میں ہی رہو ایک دو دن میں اوپر چلی جانا۔
میں نے بھی ہلکا سا سر ہلا کر ہاں کہا۔
اس کے بعد اس نے اپنے دونوں بہن بھائی کو کال کی اور بغیر کوئی ڈیٹیل بتائے گھر آنے کہا۔ جب میرے بیٹے نعمان نے آ کے مجھے دیکھا تو وہ بہت پریشان ہوا اور بڑے بھائی سے گلہ کرنے لگا کہ اسے پہلے کیوں نہیں بتایا۔
اس کے تھوڑی دیر بعد سائرہ اور شمی بھی گھر آ گئے۔ دھونے والے کپڑے ابھی بھی سیڑھیوں پر بکھرے پڑے تھے۔ انہوں نے یہ دیکھ کر مجھے آواز دی تو اشفاق نے انہیں اندر آنے کا کہا۔
مجھے دیکھتے ہی سائرہ نے تو رونا شروع کر دیا اور اس کا بڑا بھائی اسے دلاسہ دلانے لگا کہ کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی، جبکہ شمی کی بھی وہی حالت تھی مگر میرے بیٹوں کی موجودگی کی وجہ سے وہ اپنے ایموشنز کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
تقریبا آدھے گھنٹے تک وہ بت بنے کھڑی رہی، سائرہ اس وقت کچھ سنبھل چکی تھی۔ اچانک میرے چھوٹے بیٹے نے منہ پھلا کر کہا،
“یہ شمائلہ ادھر کیوں کھڑی ہے؟”
اپنا نام پکارے جانے پر شمی کو ہوش آیا تو وہ مڑ کر دروازے کی طرف چل پڑی۔ میں نے اسے فورا آواز دی۔
“شمی!۔۔”
اس کے قدم ادھر ہی رک گئے اور اس نے مڑ کر نم آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔
میں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو وہ آہستہ سے چلتی ہوئی بیڈ کے پاس آکے نیچے بیٹھ گئی۔ میں نے پیار سے اس کے گال کو سہلایا اور کہا،
“میں ٹھیک ہوں، اوکے۔۔؟ تم فکر نہ کرو۔ اب سائرہ کو لے جاو، میں بعد میں بات کرتی ہوں تم سے۔”
سائرہ اور وہ دونوں باہر چلی گئیں۔
آج کا دن کافی ایموشنل تھا، اوپر سے شاید میڈیکیشنز کا بھی کچھ اثر تھا کہ آج پہلی دفعہ اپنے بیٹوں کے سامنے میں نے ایسے شمی کو پیار سے بلایا تھا۔ وہ دونوں اب ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہے تھے مگر میری حالت کو سمجھتے ہوئے اس پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
رات ہو چکی تھی اور اب اشفاق بھی میرے ساتھ ہی بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ مگر ہم میں سے کوئی بھی کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔ اس کی خاموشی مجھے بے چین کر رہی تھی۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کے سر کی طرف بڑھایا اور اپنی اُنگلیوں کو اس کے بالوں میں پھیرنے لگی۔ اس نے میری طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھ کے ہلکا سا مسکرا دیا۔
میں نے آہستہ سے اسے پوچھا،
“کیا بات ہے میری جان؟ کیوں پریشان ہو، میں اب کافی بہتر فیل کر رہی ہوں، اور درد بھی کم ہو چکا ہے۔” مجھے ویسے تو اندازہ تھا کہ وہ کس لیے خاموش ہے، میں صرف اسے بلوانے کے لیے ایسے کہہ رہی تھی۔
“یہ بات نہیں مما!” اس نے جلدی سے جواب دیا۔
“تو پھر کیا بات ہے؟” میرے پوچھنے سے وہ تھوڑا بوکھکلا گیا۔ آخر کیسے مجھ پر اس حالت میں کوئی الزام لگاتا۔ کنجر مجھ سے پیار تو کرتا ہی تھا نا۔
“کچھ نہیں مما۔ آپ نے میڈیسن لے لی؟” اس نے بات بدلتے ہوئے کہا۔ میں نے انکار میں سر ہلایا تو وہ اٹھ کے مجھے میڈیسن دینے لگا۔ دینے کے بعد اس نے میرے سر کو چوما اور پھر دوبارہ بیڈ پر آ کر میرے ساتھ لیٹ گیا۔
اسی وقت میں نے سوچا کہ میں اپنے بچوں کے سامنے کھل کر بات کروں گی کیونکہ ان کی ناراضگی سے مجھے خود بھی چین نہیں آنا تھا۔ اور نہ ان کے بغیر میں رہ سکتی تھی۔
اگلی صبح باری باری سب میرا حال پوچھنے آئے تو میں نے سائرہ سے کہا کہ شمی کو بھی ذرا بلانا۔ وہ میرے قریب آ کر ڈری ہوئی آواز میں کہنے لگی۔
“مما! پلیز ۔۔ آپ کیا کر رہی ہو؟”
میں نے کہا، “کچھ نہیں ہوتا، تم بلاؤ اس کو۔”
میرے دونوں بیٹے بھی یہ دیکھ رہے تھے اور ان کو اب یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ سائرہ بھی کچھ نہ کچھ جانتی ہے۔
شمی اور سائرہ کے آنے تک انہوں نے کوئی بات نہ کی۔ ان دونوں کے اندر آتے ہی میں نے سب کو بیٹھنے کا کہا مگر شمی کارنر میں کھڑی رہی۔
میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،
“تم دونوں سمجھدار ہو اور اب تک تمہیں پتہ چل گیا ہوگا کہ کہ میرے اور شمی کے درمیان کوئی تعلق ہے۔ لیکن تم لوگ یہ نہیں جانتے ہو گے کہ تمہارے بابا کے جانے کے بعد میں کتنی ٹوٹ چکی تھی اور اگر کسی نے میری زندگی کی تاریکیوں میں دوبارہ روشنی لائی ہے تو وہ شمی ہی ہے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ میں اس کو چھوڑ دوں تو تم ابھی مجھے کہہ سکتے ہو، لیکن یہ سوچ لینا کہ تمہارے بابا کا جانا ایک قدرتی عمل تھا لیکن اگر تم مجھے شمی کو چھوڑنے کا کہتے ہو تو وہ تم دونوں پہ ہوگا۔ مجھے تمہارا جواب ابھی نہیں چاہیے، لیکن تم دونوں سوچنے کے بعد مجھے بتا دینا کہ تم مجھے اس خوشی سے محروم کرنا چاہتے ہو یا نہیں۔”
میں یہ بات کر کے اپنا پیار داؤ پہ لگا رہی تھی اس لیے میں کافی ایموشنل باتیں کر رہی تھی اور اوپر سے میری حالت بھی ایسی ہی تھی کہ وہ بغیر کسی بات کے کیے نظریں جھکائے بیٹھے تھے۔
میرا بڑا بیٹا (جس کی نظروں کے سامنے میں کل مرتے مرتے بچی تھی) فورا کہنے لگا۔
“مما! ہم آپ کے اس رشتے سے خوش تو نہیں لیکن ہم آپ کے دشمن بھی تو نہیں کہ ہم آپ سے خوشیاں چھین لیں، آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں! اگر واقعی میں اپ کا شمائلہ کے ساتھ اتنا گہرا تعلق ہے تو پھر ہم آپ کو منع نہیں کریں گے، لیکن ہماری ایک ریکویسٹ ہے کہ پلیز آپ اس تعلق کو اپنے کمرے تک محدود رکھیے گا، کیونکہ ہم نہیں جاننا چاہتے کہ اس رشتے کی گہرائی کتنی ہے یا اس کی نیچر کیا ہے۔ اور پلیز سائرہ کے سامنے بھی پرہیز کریے گا۔”
اگر میں کہوں کہ مجھے ایسے فیل ہوا جیسے میں نے اپنے کندھوں پہ اٹھایا ہوا پہاڑ اتار کر نیچے رکھ دیا ہو تو وہ غلط نہیں ہوگا۔ میں نے شمی کو اپنے پاس بلایا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں بھائیوں نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا، وہ سمجھ چکے تھے کہ مجھے دو دن سے اس کی قربت نصیب نہیں ہوئی تھی۔ اس لیئے وہ دونوں اور پھر سائرہ بھی اٹھ کر باہر چلے گئے۔
اس کے بعد زندگی دوبارہ اپنی روٹین پر آ گئی، دونوں بھائیوں کو شمی سے سیدھے منہ بات کرنے میں دو مہینے لگ گئے۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد مجھے پتہ چلا کہ میں پریگنینٹ ہوں، شمی تو جیسے خوشی سے پاگل ہو رہی تھی یہ جان کر۔ میں نے سب کو بٹھا کر بتایا تو دونوں بھائیوں کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ یہ کیسے ممکن ہے۔
ان کو اس سے پہلے شمی کی نیچر کا پتہ نہیں تھا، خیر میں نے پھر ایموشنل ہو کر کچھ باتیں کیں تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اپنا گھر چینج کر لیں گے۔ دونوں خوش تو نہیں تھے لیکن کیا کرتے، میرے لیے کچھ بھی کر سکتے تھے۔
ابھی پریگنینسی کی وجہ سے میرا پیٹ باہر کو نکل رہا ہے اور ہم اگلے ہفتے نئے گھر میں شفٹ ہونے والے ہیں۔ یہاں مجھے اور شمی کو نیچے ہی ایک بڑے والا روم دیا گیا ہے، اور سائرہ کا روم بھی نیچے ہی ہے۔ جبکہ وہ دونوں بھائی اوپر والے پورشن میں رہیں گے۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "میری زندگی میں وہ آئی ۔ (ٹرانس جینڈر لوو سٹوری )"