۔ان کے سربراہ کا نام غنی تھا۔۔۔جو کہ بہت بڑا اور تگڑا زمیندا ر ہونے کی وجہ سے خاصہ بدماغ اور بد لحاظ قسم کا آدمی تھا۔۔۔۔ایک دن کی بات ہے کہ کھانے کی میز پر امی نے بتایا کہ غنی چاچے کے بیٹے کی شادی اس دسمبر میں ہونا قرار پائی ہے۔۔۔اس پر ہم سب باری باری تبصرہ کرتے ہوئے بولے ۔۔ہمیں کیا۔۔؟؟؟؟۔۔ ہم نے کون سا اس شادی میں جانا ہے۔۔۔ پھر ہم اس بات کو ڈسکس کرنے لگے کہ ۔۔اتنے مغرور اور بورنگ لوگوں کے گھر کون جائے گا ؟۔۔۔ہمارے تبصرے سن کے امی نے کہا۔۔۔بچو۔۔دعا کرو کہ وہ ہمیں شادی کارڈ نہ بھجیں ۔۔۔اگر ایسا ہو گیا تو۔۔۔ چار و ناچار ۔۔ہم میں سے کسی نہ کسی کو تو۔۔۔وہاں جانا ہی پڑے گا۔۔۔لیکن ہم نے ان کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے۔۔۔ اس پر کوئی رسپانس نہ دیا۔۔۔اس پر اماں بڑے پیارسے کہنے لگیں۔۔۔ان کے ساتھ ہمارے تعلقات اوررشتےداری کچھ اس نوعیت کی ہے کہ دل کرے نہ کرے ہم میں سے کسی نہ کسی کو وہاں ضرور جانا پڑے گا۔۔۔اس طرح یہ بات آئی گئی۔۔ ہو گئی۔۔۔
اس واقعہ سے ایک دو ہفتے بعد کی بات ہے۔۔۔ کہ اچانک ہی گھر میں رولا پڑ گیا۔۔۔۔۔ کہ چاچے غنی نے اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی پر نہ صرف کارڈ بھیجا ۔۔۔بلکہ فون پر تاکید بھی کی ہے کہ ہماری ساری فیملی شادی میں ضرور شرکت کرے۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد۔۔۔۔۔ اماں نے باری باری سب سے پوچھا لیکن ان کے گھر کوئی بھی وہاں جانے کو تیار نہ ہوا۔سبھی نے صاف لفظوں میں جانے سے انکار کر دیا۔۔۔۔ جب یہ واقعہ ہوا تواس وقت میں فرسٹ ائیر کا سٹوڈنٹ تھا۔۔بدقسمتی سے ان کی شادی دسمبر کے آخری ہفتے میں ہونا قرار پائی تھی۔۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ان دنوں سکول کالجوں میں دسمبر کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔۔چنانچہ ان چھٹیوں کی وجہ سے قرعہ فال میرے نام پڑگیا۔۔۔یہ سن کر میری تو جان پر بن آئی۔۔ میں نے بہتیرے حیلے بہانے کیئے۔۔۔۔۔۔لیکن مجھ غریب کی ایک نہ سنی گئی۔۔۔چار و ناچار۔۔مجھے جانا ہی پڑا۔۔چنانچہ میں بڑی ہی بددلی کے ساتھ تیار ہو کر متعلقہ قصبہ کو روانہ ہوا ۔۔۔۔دوسرا وہاں جانے کے لیئے۔۔۔۔ مجھے لوکل بس ٹکر گئی تھی۔۔جس نے اچھا خاصہ ذلیل کرنے کے بعد۔۔۔۔ مجھے شادی والی قصبے میں پہنچا دیا۔۔
چنانچہ جب میں ان کے گھر پہنچا ۔۔۔تو تھکن ۔۔۔اور بوریت کی وجہ سے۔۔۔ اچھا خاصہ سٹ پٹایا ہوا تھا۔۔مزید یہ کہ لوکل بس نے میرے انجر پنجر ہلا دئیے تھے۔۔جس کی وجہ سے میرا برا حال تھا۔۔چنانچہ شادی والے گھر پہنچنے کے بعد۔۔۔میں غنی چاچے کی بیگم کے پاس پیش ہوا۔۔جنہوں نے پہلے تو گھر والوں کی خیرخیریت پوچھی۔۔پھر سرسری سے انداز میں کہنے لگی کہ باقی لوگ کیوں نہیں آئے؟۔۔۔۔اس سوال کا جواب اماں نے مجھے پہلے سے ہی ۔۔۔ بتایا بلکہ پڑھایا ہوا ۔۔تھا جو کہ میں نے من و عن ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔۔جس پر انہوں نے سر ہلا دیا۔۔اس سے میں سمجھ گیا کہ انہوں نے یہ سوال رسماً ہی پوچھا تھا۔۔۔ چائے پانی کے بعد ۔۔۔میں نے امی کی طرف سے سے دیئے گئے تحفے تحائف ۔ان کی خدمت میں پیش کرنے لگا ۔۔۔تو انہوں نے آواز دے کر اپنی بیٹیوں کو بلا لیا۔۔
۔چاچے کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔۔۔سب سے بڑی بیٹی جس کا نام۔۔۔یاسمین۔۔اس سے چھوٹا بیٹا سعید۔۔ جس کی شادی پر میں آیا ہوا تھا۔۔۔اور سب سے چھوٹی بیٹی ۔۔۔جس کا نام تو ماہ جبیں تھا۔لیکن سب اسی ماہی ماہی کہتے تھے۔۔آنٹی کے بلاوے پر دونوں بہنیں ۔۔آ موجود ہوئیں۔۔یاسمین باجی مجھے دیکھ کر حیرت سے بولیں۔اوہ ۔۔۔شاہ جی تم تو کافی بڑے ہو گئے ہو۔۔۔اصل میں ۔۔۔میں ان سے کافی عرصہ بعد مل رہا تھا۔۔کچھ اسی طرح کے ریمارکس ماہی نے بھی دیئے تھے۔۔دونوں بہنوں کے لہجوں میں ایک عجیب طرح کا روکھا پن۔۔۔۔اور لاتعلقی پائی جا رہی تھی۔۔۔چونکہ ان کے رویوں کو مجھے پہلے سے ہی اندازہ تھا۔۔۔۔اس لیئے میں نے اس بات کا کوئی خاص برا نہیں مانا۔۔۔ ۔خیر میں نے شادی سے متعلق سارے گفٹس وغیرہ۔۔۔باجی یاسمین کے حوالے کیئے جو کہ اس سلسلہ میں مہمانوں کو ڈیل کر رہی تھیں۔۔۔ان کے بارے میں بتا دوں کہ۔۔۔یہ ایک رعب داب اور لیئے دیئے رکھنے والی خاتون تھی۔۔اسی لیئے سب ان سے ڈرتے تھے اور ادب کی بنا پر انہیں باجی یاسمین کہتے تھے ۔۔ میرے خیال میں باجی کا اپنے سسرال کے ساتھ معاملہ فٹ نہ تھا۔۔۔اسی لیئے وہ اپنے میکے میں ہی رہتی تھی۔۔گھر میں بڑی اور عقلمند ہونے کی وجہ سے انہوں نے ہی اس کا۔۔۔۔ سارا نظام سنبھالا ہوا تھا۔۔۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح سے۔۔۔ گھر کی کرتا دھرتا باجی یاسمین ہی تھی۔۔
۔ ۔۔مناسب معلوم ہوتا کہ میں آپ سے باجی یاسمین کا مزید تعارف کروا دوں۔۔۔جس زمانے کا یہ قصہ ہے۔۔۔ اس وقت ان کی عمر 29/ 30 سال ہو گی۔۔۔وہ ایک شادی شدہ خاتون تھیں۔۔۔اور ان کا ایک چھوٹا سا بیٹا بھی تھا جس کی عمر 4/5 سال تھی۔۔۔جو کہ زیادہ تر اپنی خالہ یعنی ماہی کے پاس ہی رہتا تھا۔۔۔۔باجی کے شوہر یورپ کے کسی شہر میں ہوتے تھے دو تین سال ہوئے کہ موصوف ڈنکی لگا کر وہاں پہنچے تھے۔ ۔۔ ابھی تک قانونی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ۔۔۔۔۔پاکستان کا چکر نہ لگا سکے تھے ۔۔۔ پیسے البتہ وہ بڑی باقاعدگی سے بھیج رہے تھے۔۔۔ ۔ویسے باجی یاسمین دیکھنے میں کافی دلکش۔۔۔اور خوبصور ت تھیں۔۔رنگ ان کا دودھیا وائیٹ تھا۔۔گورے گورے مکھڑے پہ کالی کالی آنکھیں بہت غضب ڈھا رہیں تھیں ۔۔ان کا جسم کافی بھرا بھرا۔۔۔۔بلکہ موٹاپے کی سرحد پہ کھڑا تھا۔۔۔۔ لیکن اچھی بات یہ تھی کہ۔۔یہ موٹاپہ ان پہ بہت سوٹ کرتا تھا۔۔وہ اتنی پیاری تھیں کہ اگر وہ سمپل کپڑے بھی پہن لیں ۔۔۔تو وہ بھی ان پر بہت جچتے تھے۔۔۔۔چونکہ مجھے بھرے بھرے جسم والی عورتیں بہت پسند ہیں ۔۔۔اس لیئے مجھے ان کا موٹاپہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔
باجی نے تحفے تحائف وصول کرنے کے بعد۔ماہی سے کہا کہ اسے متعلقہ جگہ پر رکھ دے۔۔اب میں آپ کا ماہی سے تعارف کراتا ہوں ان کی عمر 24/25 سال ہو گی۔۔۔بڑی بہن کی نسبت یہ تھوڑی کم مغرور۔۔اور قدرے فرینڈلی تھی۔۔۔جسم ان کا بھی یاسمین باجی کی ڈیٹو کاپی تھا۔۔۔فرق صرف اتنا تھا کہ ۔۔کنواری ہونے کی وجہ سے یہ ان جتنی موٹی نہ تھیں۔۔تحٖے تحائف دینے سے فراغت کے بعد۔۔۔۔میں وہاں پہ آئے باقی رشتے داروں کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا۔۔۔لیکن مجھے وہاں کوئی ایسا خاص بندہ نہیں ملا۔۔کہ جس کے ساتھ لمبی گپ لگائی جائے۔۔کچھ دیر بعد رات کا کھانا لگ گیا۔۔ جو کہ آلو گوشت پر مشتمل تھا ۔ ۔۔ ۔۔مجھے چونکہ اتنی بھوک نہیں تھی ۔۔۔یا بوریت کی وجہ سے میری بھوک مر گئی تھی۔۔۔اس لیئے میں نے تھوڑا ساکھانا کھا کے اٹھ بیٹھا۔۔۔ابھی میں واش روم میں ہاتھ دھو رہا تھا۔۔۔
۔کہ اچانک باہر لڑکیوں کا شور مچ گیا کہ ماہی کو کچھ ہو گیا ہے۔۔۔۔یہ شور سن کر میں جلدی میں واش روم سے باہر نکلا ۔۔۔اور تیز قدوں سے اس طرف چل پڑا۔۔۔۔کہ جہاں خواتین کھانا کھا رہیں تھیں ۔۔۔وہاں جا کر دیکھا تو۔۔۔۔ماہی ۔ ۔۔۔ماہئ بے آب کی طرح۔۔۔ تڑپ رہی تھی۔۔ ۔۔۔ اس نے بڑی تکلیف کے عالم میں۔۔۔اپنے دونوں ہاتھ گلے پر رکھے ہوئے تھے۔۔ اس کی آنکھیں باہر کو نکلی ہوئیں تھیں ۔۔اور وہ بری طرح سے ڈکرا رہی تھی۔۔۔۔ ۔۔جبکہ خواتین بجائے کچھ کرنے کے۔۔۔۔ بس شور مچائے جا رہی تھیں۔۔۔ان میں ایک آدھ خاتون ایسی بھی تھی۔۔جو اسے زبردستی پانی پلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔
لیکن تکلیف کی وجہ سے وہ اسے پینے سے قاصر تھی۔۔۔۔اس بے چاری کی جان پہ بنی ہوئی تھی ۔۔ماہی چونکہ بمشکل سانس لیتے ہوئے حلق سے عجیب و غریب آوازیں نکال رہی تھی۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔ ایک نظر دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ اس کے گلے میں بوٹی پھنس گئی ہے۔۔۔چونکہ مجھے اس کو نکالنے کی ترکیب آتی تھی۔۔۔اس لیئے میں نے اسکے آس پاس کھڑی خواتین کو ایک طرف ہٹایا ۔۔۔اور ماہی کے پاس پہنچ کر بولا باجی آپ کھانسے کی کوشش کریں۔۔جب وہ کھانسنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔عین اس وقت میں نے اسے بازو سے پکڑ کر ۔۔۔۔ نیچے کی طرف جھکایا۔۔۔جب وہ نیچے جھک گئی۔۔۔۔۔تو پھر میں نے۔۔۔اس کی پیٹھ پر۔۔ عین گلے والی جگہ پر۔۔۔۔ اپنی ہتھیلی کی مدد سے چار پانچ دفعہ رگڑنے کے اندار میں تھپڑ مارے۔۔اس کے ساتھ ساتھ اسے کھانسنے کا بھی کہتا رہا۔۔ایسا ایک آدھ دفعہ کرنے کے بعد۔۔
۔۔اس بار جو ماہی نے کھانسی کی تو۔۔۔میں نے ایک دفعہ پھر گلے والی جگہ پر رگڑنے کے انداز میں۔۔۔۔اوپر تلے دو تین تھپڑ مارے۔۔۔چوتھا تھپڑ مارنے ہی لگا تھا۔۔۔کہ ماہی کو زور سے کھانسی آئی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس کے گلے میں پھنسی ہوئی بوٹی اڑتی ہوئی زمین پر جا گری۔۔۔بوٹی کے باہر نکلتے ہی ماہی نے درد بھری سانس لی۔۔اور پھر۔۔۔ خود کو مجھ سے چھڑا کر کرسی پر بیٹھ گئی۔۔۔میں نے وہاں کھڑی ایک خاتون سے کہا۔۔گھر میں کوک ہے؟ تو ایک کام والی جلدی سے بولی ۔۔جی باؤ جی وہ پڑی ہے۔۔۔ تو میں ا س سے بولا۔کہ انہیں پانی کی بجائے دو تین گلاس کوک یا پیپسی کے پلائیں۔ اتنا کہہ کر میں لیڈیز کی کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔اور برآمدے میں جا کر سب لوگوں کے ساتھ ٹی وی دیکھنے لگا۔۔
کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد ایک چھوٹی بچی میرے پاس آ کر بولی۔۔آپ کو باجی بلا رہی ہیں۔۔۔۔میں کرسی سے اٹھا اور بچی کے ساتھ چل پڑا۔۔۔وہ مجھے ساتھ لیئے ایک بڑے سے کمرے میں پہنچ گئی۔۔۔جہاں پر۔۔۔یاسمین باجی۔۔۔کے ساتھ ماہی اس کی امی۔۔۔اور ایک د و اور لڑکیاں بیٹھیں تھیں۔۔۔میرے وہاں پہنچتے ہی۔۔۔سب سے پہلے ان کی اماں میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولیں۔۔۔بیٹا آپ کا شکر یہ ۔۔کہ آپ نے میری بچی کی جان بچا لی۔۔۔پھر کہنے لگی اگر تم تھوڑی دیر اور نہ آتے تو کیا خبر۔۔۔۔۔شادی والا گھر ماتم کدہ بن جانا تھا۔۔۔۔اس کے بعد کچھ اسی طرح کے جزبات کا اظہار یاسمین باجی نے بھی کیا۔۔۔ ۔۔۔۔باجی اور اس کی اماں تو شکریہ ادا کرنے کے بعد۔۔۔وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔۔۔جبکہ۔۔۔ماہی اور اس کی ایک دوست کافی دیر تک میرے ساتھ بیٹھی رہیں۔۔۔۔۔انہوں نے نہ صرف میرا شکریہ ادا کیا۔۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔میرے ساتھ مختلف ٹاپکس پر۔۔۔ گپ شپ بھی لگاتی رہیں ۔پر باتوں باتوں میں اس نے مجھے بڑی سختی سے تاکید کی کہ میں اسے باجی نہیں۔۔ بلکہ ماہی کے نام سے پکاروں گا۔۔۔چنانچہ گفتگو کے اختتام تک ۔۔۔ میری ان کے ساتھ اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی۔۔۔یوں اس بورینگ گھر میں۔۔۔میرے اک چھوٹے سے عمل نے ۔۔مجھے زیرو سے ہیرو بنا دیا تھا۔۔۔
اگلے دن کی بات ہے کہ مجھے باقی لوگوں سے ہٹ کر سپیشل ناشتہ دیا گیا۔۔۔۔چنانچہ ناشتہ کے بعد۔۔۔میں۔۔۔ برآمدے میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک ماہی آ گئی اور میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔کیسے ہو منا؟۔۔۔تو میں ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔۔۔ باقی تو سب ٹھیک ہے۔۔۔لیکن آج سردی بڑی ہے۔۔میری بات سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔اگر تمہیں زیادہ سردی لگ رہی ہے تو چھت پر جا کر دھوپ سینک لو۔۔۔تو میں ان سے کہنے لگا چھت پر کون ہے؟۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔۔چونکہ ابھی شادی میں دو تین دن رہتے ہیں۔۔ اس لیئے اس وقت تو وہاں کوئی نہیں ہو گا۔۔۔پھر آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی۔۔۔اگر ہو بھی تو تمہیں کسی نے کیا کہنا ہے؟۔اتنا کہہ کر اس نے ایک بچی سے کہہ کر بیٹھک سے تازہ اخبار منگوایا۔۔۔ ۔وہ مجھے دیتے ہوئے بڑے پیار سے بولی ۔۔۔۔۔تم چھت پر دھوپ سینکنے کے ساتھ ساتھ اخبار پڑھو ۔۔میں اپنے چھوٹے بھائی کے لیئے خود چائے لے کر آتی ہوں۔۔۔۔پھر ماہی کے اصرار پر میں سیڑھیاں چڑھ کے چھت پر چلا گیا۔۔۔ان کے چھت کی ترتیب کچھ ایسی تھی ۔۔کہ سیٖڑھیاں چڑھتے ہی سامنے دو کمرے تھے۔۔۔اس کے علاوہ ایک کمرہ اور بھی تھا۔۔۔لیکن یہ کمرہ ان سے ہٹ کر سیڑھیوں کے ساتھ بنا ہوا تھا۔۔ ان کمروں کے سامنے بڑا سا صحن تھا ۔۔صحن کے شروع میں ہی ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی۔۔۔اس چارپائی کے آگے پلاسٹک کی دو تین کرسیاں پڑیں تھیں۔۔۔ جبکہ چارپائی پر ایک بڑی عمر کی خاتون لیٹی ہوئی تھیں۔۔۔لیکن جب میں ان کے قریب گیا۔۔۔۔تو دیکھا تو وہ دھوپ کو انجوائے کرتے کرتے سو گئیں تھیں۔۔۔اس خاتون کی عمر 45/46 کے قریب ہو گی۔۔وہ کافی صحت مند اور توانا عورت تھی۔۔انہوں نے اس علاقے کے رواج کے مطابق ایک کھلا سا کرتا ۔۔۔اور اس کے نیچے۔۔۔۔لاچا۔۔یا دھوتی ۔۔۔جسے اردو میں تہبند کہتے ہیں باندھی ہوئی تھی۔۔۔
میں ان کے سامنے جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔۔اور دھوپ سینکتے ہوئے اخبار پڑھنے لگا۔۔۔۔ابھی میں نے اخبار کی ہیڈ لائنز ہی پڑھی ہوں گی۔۔۔کہ اچانک ۔۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا۔۔۔۔جس کی وجہ سے میرے ہاتھ میں پکڑی اخبار اُڑ کر نیچے جا گری۔۔۔جیسے ہی میں اخبار کو اٹھانے کے لیئے نیچے جھکا۔۔۔تو اچانک میری نگاہ۔۔۔۔چارپائی کی طرف پڑ گئی۔۔۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ وہ خاتون بلکل سیدھی لیٹ کر سوئی تھی۔۔۔۔ چنانچہ تیز ہوا کے جھونکے سے۔۔۔ ان کی دھوتی ایک طرف کو اٹھ گئی تھی۔۔بدقسمتی یا میری خوش قسمتی سے۔۔۔ انہوں نے دھوتی کے نیچے کچھ نہیں پہنا تھا۔۔۔چنانچہ ہوا کے اس تیز جھونکے سے۔۔۔ان کا تہبند۔۔ایک طرف کو سرک گیا تھا۔۔۔جس کی وجہ سے اس خاتون کا خاص پرائیویٹ حصہ ننگا ہو گیا۔۔۔ ان کی رانیں بہت سڈول اور نرم تھیں جبکہ چوت کے اوپر۔۔۔اور آس کے ایریا میں بہت گھنے بال اگے ہوئے تھے۔۔جس کی وجہ سے مجھے ان کی چوت تو نظر نہیں آ رہی تھی۔۔۔لیکن بالوں سے ڈھکی پھدی کو دیکھ کر میری حالت بہت خراب ہو رہی تھی۔۔چنانچہ میں بنا پلکیں جھپکائے۔۔۔۔ ان کی بالوں والی چوت کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔اسی دوران ایک آواز میرے کانوں میں گونجی۔۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔توبہ ہے شاہ جی۔۔تم۔ اتنی گندی چیز کو کس انہماک سے دیکھ رہے ہو ۔۔۔۔آواز سن کر میں نے چونک کر اوپر دیکھا۔۔۔تو میرے سامنے ماہی کھڑی تھی۔۔۔اس کے ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑی ہوئی تھی۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی۔۔۔جیسے ہی ہماری نظریں چار ہوئیں۔۔۔
تو وہ پھر سے مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔توبہ ۔۔۔توبہ۔ شاہ جی۔۔تم اتنی گندی چیز کو کتنے غور سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔میں نے ان کی طرف دیکھا۔۔تو مجھے۔۔۔ان آنکھوں میں غصے کی بجائے ایک مستی سی دوڑتی نظر آئی۔۔ ۔۔میں جو بالوں والی چوت کو دیکھ کر اچھا خاصہ گرم ہو چکا تھا۔۔۔۔بلا ارادہ ہی کہنے لگا۔۔۔باجی جی۔۔۔گندی یہ آپ کے لیئے ہو گی۔۔۔ہمارے لیئے تو ۔۔۔۔۔۔ یہ بڑی پوتر۔۔اور پاک صاف ہوتی ہے۔۔پھر ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔ایسی پوتر چیز کوتو ہم چوم۔۔۔چاٹ کے رکھتے ہیں۔۔۔میری بات سن کر وہ بڑی حیرت اور کراہت سے بولی۔۔چھی ی ی۔۔۔کیا تم اس غلیظ کو بھی چومو چاٹو گے؟۔۔۔تو میں ان کے ہاتھوں سے چائے پکڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔ماہی جی ۔۔۔کہا نا یہ غلیظ آپ کے لیئے ہو گی۔۔۔۔اگر یہ مجھے ملے جائے۔۔۔تو میں آپ کے سامنے اسے چوم چاٹ کے دکھاؤں گا۔۔۔میری بات سن کر ماہی کا چہرہ شرم سے لا ل ہو گیا۔۔۔اور وہ کہنے لگی۔۔۔بڑے بدتمیز ہو تم۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ واپس نیچے اتر گئی۔۔
ادھر ہماری آوازوں کو سن کر اس خاتون کی بھی آنکھ گئی تھی ۔۔۔پھر وہ چارپائی سے اتر کر بڑی خاموشی سے نیچے چلی گئی۔۔۔میرے خیال میں اس نے اپنی چوت کے بارے میں ماہی کی رائے سن لی تھی۔۔۔۔۔لنچ تک میں دھوپ میں ہی بیٹھا رہا۔۔۔۔۔پھر لنچ ٹائم میں نیچے آ گیا۔۔۔کھانا کھانے کے دوران ہی ۔۔۔۔ میری اور یاسمین باجی کی سیاست پر بحث چھڑ گئی۔۔۔۔پھر یہ گفتگو کافی دیر تک جاری رہی ۔۔ابھی ہماری بحث جاری تھی کہ باجی کسی کام کے سلسلہ میں اٹھ کر چلی گئی۔۔ادھر جیسے ہی یاسمین باجی اٹھی۔۔۔۔۔۔ تو عین اسی وقت ماہی میرے آ کر پاس بیٹھ گئی۔۔اور مجھ سے کہنے لگی۔۔شاہ جی تم بڑے لکی ہو کہ باجی تمہارے پاس اتنی دیر تک بیٹھی رہیں۔۔۔تو میں اس سے بولا۔۔۔دراصل ہم لوگ سیاست پر گفتگو کر رہے تھے۔اسی لیئے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔تو وہ ہنستے ہوئے بولی ۔۔جبھی تو ۔۔۔میں بھی کہوں باجی کسی کے پاس اتنی دیر تک بیٹھنے والی نہیں ہے۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی خاص لہجے میں بولی۔۔صبع والے واقعہ کے بعد میری فرینڈ ثوبیہ آئی تھی تو میں نے اسے تمہارا واقعہ سنا دیا ۔۔۔اس پرمیں حیران ہوتے ہوئے بولا۔۔۔سوری ماہی جی یہ ثوبیہ کون ہیں؟۔۔تو وہ آنکھیں پھیلا کر بولیں۔۔ہا ہائے۔۔۔شاہ جی تم ثوبیہ کو نہیں جانتے۔۔؟ رات تو اس کے ساتھ بڑی چکنی چپڑی باتیں کر رہے تھے۔۔۔اس پر مجھے یاد آگیا۔۔اور میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔اچھا اچھا ۔۔۔تو ان کا نام ثوبیہ ہے۔۔سوری مجھے معلوم نہیں تھا۔۔۔تو وہ اسی مخصوص انداز میں کہنے لگیں۔۔۔ کچھ پتہ بھی ہے کہ جب میں نے ثوبیہ کو تیرے خیالات کے بارے میں بتایا۔۔۔
تو وہ ۔۔۔بڑی خوش ہوئی تھی۔۔اس پر میں ان سے بولا۔۔۔ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ۔۔۔میرے خیالات سے وہ بھلا کیوں خوش ہو گی؟۔۔اس پر وہ کہنے لگی۔۔۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔۔پھر میرے اصرار پر اس نے بتایا ۔۔۔ کہ ثوبیہ شادی شدہ ہے۔۔اس کا میاں کراچی نیوی میں ہوتا ہے۔۔۔اور دو تین ماہ کے بعد گھر آتا ہے۔۔۔اتنا کہہ کر وہ ایک دم سے چپ ہو گئی۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔ماہی کے چپ ہونے۔۔۔اور ہونٹ کاٹنے ۔۔۔ سے میں سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔ سو میں نے جب بہت اصرار کیا تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔اس کا میاں۔۔جب بھی گھر آتا ہے۔۔۔تو وہ ثوبی سے تو۔۔ اپنا کام نکلوا لیتا ہے۔۔۔لیکن جواب میں۔۔۔ثوبی کے اصرار پر بھی۔۔۔ وہ اس کے ساتھ تمہارے والا کام نہیں کرتا۔۔۔جبکہ ثوبی کو اس کا بہت شوق ہے۔۔۔اس پر میں نے ماہی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔وہ ایسا کیوں نہیں کرتا؟۔۔میرے یوں ڈائیریکٹ آنکھوں میں دیکھنے سے ماہی گڑبڑا سی گئی۔۔۔اور دھیرے سے بولی۔۔وہ کہتا ہے کہ یہ مرد کی شان کے خلاف ہے۔۔۔اس کے بعد۔۔وہ میرے طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔اسی لیئے جب میں نے اسے تمہاری چومنے اور چاٹنے والی بات بتائی۔۔۔تو وہ خوش ہو کر بولی۔۔۔چلو کوئی تو ہے۔۔ جو یہ والا کام بھی کرتا ہے۔۔۔ ورنہ میری تو حسرت ہی ہےکہ!!!!!!۔۔۔۔۔۔اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔۔ماہی کی اس بات سے میں سمجھ گیا کہ یہی وہ اصل نقطہ تھا ۔۔۔جو سنانے کے لیئے۔۔۔ اتنی لمبی تمہید باندھی گئی تھی۔۔۔چانچہ میں۔۔۔اس نقطے میں چھپائی گئی۔۔اصل بات کو سمجھتے ہوئے بولا۔۔ ۔۔۔۔۔اس میں حسرت کی کون سی بات ہے۔۔۔اگر آپ کی دوست چاہے۔۔۔ تو میں انہیں اپنی خدمات پیش کر سکتا ہوں۔۔۔۔میری اس بات پہ ماہی۔۔سرخ ہوتے ہوئے بولی۔۔۔شرم کرو۔۔ وہ میری بہت اچھی دوست ہے۔۔۔
تو میں مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔آپ کی بیسٹ فرینڈ ہونے کی وجہ سے ہی تو کہہ رہا ہوں۔۔کہ آپ اسےمیری طرف سے یہ آفر پہنچا دیں۔۔۔اس پر ماہی پراسرار انداز میں بولی ۔۔۔۔۔سچ میں تم ایسا کر لو گے؟۔۔ورنہ تو مرد اسے اپنی عزت بےعزتی کا مسلہ بنا لیتے ہیں ۔۔۔ماہی کی بات سے میں سمجھ گیا تھا کہ معاملہ ریڈی ہے۔اب اس کے لیئے فیس سیونگ بنائی جا رہی ہے۔۔اس لیئے میں بڑے وثوق سے بولا۔۔۔۔اس میں شرم کی کیا بات ہے؟ آپ بس ثوبیہ باجی تک میری آفر پہنچا دیں۔۔۔اگر وہ راضی ہو گئیں۔۔تو آپ خود ہی دیکھ لینا کہ میں کتنی عزت بےعزتی کا مسلہ بناتا ہوں۔۔۔یہ سن کر ماہی نے بڑی عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔۔اور پھر یہ کہہ کر اٹھ گئی میں ابھی آئی۔۔۔لیکن وہ مڑ کر نہیں آئی۔
میں کچھ دیر تک اس کا انتظار کیا پھر دوبارہ سے چھت پر چلا گیا۔۔ دیکھا تو ابھی تھوڑی دھوپ تھی ۔۔چنانچہ میں کرسی پہ بیٹھ کر دھوپ سینکنے لگا۔۔شام کادھندلکا پھیل رہا تھا کہ ماہی چھت پر آئی۔۔پھر آتے ساتھ ہی مجھ سے کہنے لگی۔۔۔شاہ جی تیار ہو جاؤ۔۔ہمیں ابھی چلنا ہے۔۔تو میں کرسی پہ بیٹھے بیٹھے بولا۔ ۔۔ ماہی جی ۔۔آپ مجھے کہاں لےجا رہی ہو ؟۔تو وہ میری طرف دیکھ کر بڑی شوخی سے بولی۔۔ہم ثوبی کی طرف جا رہے ہیں۔۔۔۔تو میں گہرا سانس لیتے ہوئے بولا۔۔۔تو گویا کہ آپ کی دوست نے میری آفر قبول کر لی ہے۔۔۔وہ کہنے لگیں۔۔۔قبول تو اس نے دوپہر کو ہی کر لی تھی۔۔۔لیکن موقع ابھی بنا ہے۔۔تو میں اس سے بولا۔۔۔کیسا موقعہ؟۔وہ کہنے لگی۔۔ابھی ابھی اس کا فون آیا ہے کہ ان کے گاؤں میں کوئی قریبی عزیز مر گیا ہے۔۔اس لیئے اس کی ساس معہ اہل و عیال کے وہاں چلے گئے ہیں۔۔جبکہ ثوبی شادی کا بہانہ بناتے ہوئے یہیں رہ گئی ہے۔۔۔اب تم میرے ساتھ چلو کہ اس وقت وہ گھر پر اکیلی ہے۔۔۔ماہی کی بات سن کر میں جمپ مار کر کرسی سے اٹھا۔۔۔اور اس کے ساتھ چلنے لگا یہ دیکھ کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔ہم اکھٹے نہیں جائیں گے۔۔بلکہ پہلے تم نکل کر سڑک کے کنارے بس سٹاپ پر کھڑے ہو جاؤ۔تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے گزروں گی۔۔تم میرے پیچھے پیچھے آ جانا۔۔ پھر کہنے لگی۔۔اور ہاں۔۔اس وقت نیچے کافی مہمان آئے ہوئے ہیں ۔۔اس لیئے کسی کو بتانے کی بلکل بھی ضرورت نہیں ہے۔
ماہی کےکہنےپہ میں چپکے سے باہر نکلا ۔۔اور بس سٹاپ پہ جاکرکھڑا ہو گیا۔۔تھوڑی دیر بعد ماہی بھی آتی نظر آئی چنانچہ میں فاصلہ رکھ کر اس کے پیچھے پیچھے چلنا شروع ہو گیا۔ چونکہ وہ سردیوں کی شام تھی اس لیئے ثوبیہ باجی کی گلی بلکل سنسنان پڑی تھی ۔۔پھر بھی میں بڑے ہی محتاط طریقے سے ماہی کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا ۔۔ثوبیہ کے گھر پہنچ گیا۔۔۔جیسے ہی ہم دونوں گھر میں داخل ہوئے تو ثوبیہ نے گلی میں جھانک کر دیکھا۔۔پھر مطمئن ہو کر بولی۔۔شکر ہے باہر کوئی نہیں۔۔اتنا کہہ کر اس نے دروازے کو لاک کیا۔۔۔اور ۔۔۔۔پھر ہمیں ساتھ لیئے ڈرائینگ روم میں آ گئی۔۔۔اس وقت ثوبیہ نے لال رنگ کا بہت پیارا سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔اسی مناسبت سے لال شال اوڑھی ہوئی تھی اور تو اور۔۔۔۔اس نے اپنے ہونٹوں کے پہ سرخ رنگ کی سرخی بھی لگائی ہوئی تھی۔۔۔۔
۔۔ڈرائینگ روم میں داخل ہو کر ماہی نے بڑے غور سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔اور کہنے لگی۔۔واہ جی واہ۔۔۔۔تم نے تو۔۔بڑیاں تیاریاں شیاریاں کی ہوئیں ہیں۔۔۔اس پر وہ ہنس کر بولی۔۔۔تمہارا کیا خیال تھا کہ۔۔ میں شاہ جی سے۔۔۔ گندی حالت میں ہی مل جاتی؟۔۔۔پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولی۔۔۔شاہ جی آپ کیا کھانا پینا پسند کریں گے؟ ۔۔تو میرے بجائے ماہی بڑی شوخی سے کہنے لگی۔۔۔۔شاہ جی نے وہی چیز کھانی ہے۔ جس کے لیئے تم نے انہیں بلایا ہے۔۔۔ماہی کی بات سن کر ثوبیہ کو گورا رنگ ایک دم سے لال ہو گیا۔۔۔۔یہ دیکھ ماہی بولی۔۔۔کیا بات ہے بڑی لال لال ہو رہی ہو۔۔تو ثوبیہ بڑی بے باقی سے بولی۔۔دو ماہ ہو گئے ہیں۔۔۔مجھے ملنی کیئے ہوئے۔۔۔آگے تم خود سمجھدار ہو۔۔یہ سن کر ماہی نے میرا ہاتھ پکڑا۔۔اور ثوبیہ کو تھماتے ہوئے بولی۔۔۔اسے اپنے بیڈروم میں لے جاکر۔۔ملنی کر لو۔۔۔ثوبیہ کہنے لگی۔۔ ہمارے ساتھ تم نہیں چلو گی؟۔۔۔تو ماہی کہنے لگی سوری ۔۔۔میں کباب میں ہڈی نہیں بننا چاہتی۔۔۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماہی جب یہ بات کہہ رہی تھی تو اس کی آوا زمیں ہلکی سی لرزش تھی۔۔۔۔ثوبی بڑا اصرار کیا۔۔ لیکن وہ نہ مانی ۔۔اس لیئے وہ مجھے ساتھ لیئے کمرے میں آ گئی۔۔
یہاں پہنچ کر اس نے دروازے کو بند کیا۔۔۔۔اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔ماہی کی طرح اس کی چھاتیاں بھی خاصی بھاری تھیں۔۔گلے لگاتے ہی میں نے بجائے ہونٹ چوسنے کے ڈائیریکٹ ہی ان کے منہ میں زبان ڈال دی۔۔۔۔ثوبیہ باجی کے منہ میں زبان ڈالنے کی دیر تھی۔۔۔کہ انہوں نے میری زبان کو اپنے نرم ہونٹوں میں داب لیا۔۔۔اور پھر اسے چوسنا شروع ہو گئیں۔۔اف ان کے زبان چوسنے کا انداز بہت شاندار تھا۔۔۔۔ایک منٹ میں ہی میرا لن کھڑا ہوا گیا۔۔اور میں اس لوڑے کو ان کی نرم رانوں پر رگڑنا شروع ہو گیا۔۔۔پھر مزید جوش چڑھا تو میں نے اپنا ہاتھ جیسے ان کی پھدی پر رکھا تو کسنگ کرتے کرتے انہوں اسے پکڑ لیا۔۔تب میں نے اپنی زبان کو کھنچ کر باہر نکالا۔۔اور ان سے بولا۔۔مجھے پھدی مسلنے دیں۔۔تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔۔مجھے اپنی پھدی پر تیرا ہاتھ نہیں ۔۔۔یہ ٹیسٹی زبان چاہیئے۔۔ جسے ابھی ابھی تم نے میرے منہ سے نکالا ہے۔۔۔تب میں ان سے بولا۔ٹھیک ہے باجی۔۔۔آپ شلوار اتارو میں آپ کی چوت چاٹتا ہوں۔۔اس پر وہ شلوار اتارتے ہوئے بولیں۔۔اگر تمہارے چاٹنے سے مجھے مزہ ملا۔۔
۔تو یقین کرو میں تیرا لن چوس کر ۔۔۔تمہیں وہ مزہ دوں گی جو تمہیں آج تک کہیں سے نہیں ملا ہو گا۔۔۔یہ کہہ کر وہ بیڈ روم میں پڑے سنگل سیٹر صوفے پر بیٹھ گئیں۔۔اور اپنی دونوں ٹانگوں کو صوفے کے بازؤں پر رکھ دیں۔۔۔جس کی وجہ سے ان کی چوت نمایاں ہو کر سامنے آ گئی تھی۔۔میں ان کی چوت کی طرف دیکھتے ہوئے قالین پر بیٹھ گیا۔۔ابھی میں زبان نکال کر اسے چاٹنے ہی لگا تھا۔۔۔کہ وہ مجھ سے کہنے لگیں۔۔اپنی کزن کو بھی اندر لےآؤ۔۔۔تومیں نے ان سے کہا کہ وہ نہیں آناچاہتی تھیں۔۔۔اس پر ثوبیہ باجی ہنس کر بولیں ۔۔ڈرامہ کر رہی تھی سالی۔۔تم اسے زبردستی لے آؤ۔۔یہ سن کر میں قالین سے اٹھا۔۔۔۔اور ڈرائینگ روم کی طرف چلا گیا۔۔۔دیکھا تو ماہی بڑی بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔۔مجھے دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔میں نے ان کہا ۔۔ماہی جی اندر چلیں۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔ اندر جا کر۔۔۔میں نے کیا کرنا ہے؟۔۔تو میں۔۔۔ان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی شہوت سے بولا۔۔جسٹ واچ۔۔۔آپ نے بس دیکھنا ہے۔۔۔۔ کہ میں ثوبیہ باجی کی چوت کیسے چومتا اور چاٹتا ہوں۔۔اتنا کہہ کر میں نے کا ہاتھ پکڑا۔۔۔اور ان کی نہ۔کرو۔۔نہ کرو۔۔۔کہنے باوجود بھی کمرے میں لے آیا۔۔کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ ثوبیہ باجی کی ننگی چوت کو دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔۔۔لیکن منہ سے کچھ نہ بولیں۔۔ادھر میں نے ۔۔کمرے میں موجود ڈریسنگ ٹیبل والا۔۔۔سٹول اٹھایا۔۔۔اورزبردستی انہیں ثوبیہ باجی کے بلکل قریب۔۔ایک ایسے اینگل سے بٹھا دیا۔۔۔کہ جہاں سے انہیں پھدی چاٹنے کا سارا منظر صاف نظر آئے۔۔سٹول پر بیٹھتے ہی حیرت انگیز طور پر انہوں نے وہاں سے اٹھنے کو کوئی کوشش نہیں کی۔ادھر میں قالین پر بیٹھا۔۔۔اور ثوبیہ کی پھدی کوبڑے غورسےدیکھنے لگا۔۔ان کی پھدی بلکل کلین شیوڈتھی۔۔جبکہ پھدی کی لکیر کافی گہری تھی۔۔
۔اس پر دانہ خاصہ موٹااورپھولا ہوا تھا ۔۔اس دانے کو چومتے ہوئے ۔۔۔میں نے اپنی مڈل فنگر ۔۔۔ان کی چوت میں ڈال دی۔۔دیکھا ۔۔۔تو وہ اندر سے خاصی گیلی ہو رہی تھی۔۔یہ بات محسوس کرتے ہی میں ان سے بولا۔۔۔باجی ۔۔۔آپ تو گیلی ہو رہی ہو۔۔تو وہ شہوت بھری مسکراہٹ سے بولیں۔۔۔زندگی میں پہلی بار کوئی میری چوت چاٹنے لگا ہے۔۔۔یہ سوچ کر ہی میری پھدی لیک ہو رہی ہے۔۔۔ ۔۔۔میں نے سب سےپہلے ان کی نرم رانوں کو باری باری چوما۔۔۔پھر زبان نکال کر۔۔۔پھدی کی گہری لکیر پر پھیرنے لگا۔۔۔ادھر جیسے ہی میری زبان ان کی چوت سے ٹچ ہوئی۔۔۔۔ثوبیہ کےمنہ سےایک لذت آمیز سسکی برآمدہوئی۔۔۔آہ ہ ہ ہ۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے ہاتھ بڑھا کرمیری سر پررکھ دیا۔۔اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئی بولی۔۔شاباش ۔۔دوست۔۔ایسے ہی چوت چاٹو۔۔تو میں ان کے دانے پہ زبان سے مساج کرتے ہوئے بولا۔۔باجی مزہ آ رہا ہے نا؟تو وہ سر کو ادھر ادھر جھٹکتے ہوئے بولیں۔۔
شاہ جی مجھ سے مت پوچھو ۔۔بس چاٹتے جاؤ۔۔۔اور میں مسلسل ان کی پھدی کو چاٹتا رہا۔۔اس دووران انہوں نے دو تین دفعہ پانی بھی چھوڑا۔۔لیکن میں نے پھدی چوسنا جاری رکھا۔۔۔اب میں نے ان کی پھدی کو انگلیوں کی مدد سے کھولا۔۔۔اور اپنی زبان کو اس میں ڈال دیا۔۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے انگھوٹھے سے دانے پر مساج کرتا رہا۔۔۔میرے اس عمل سے ان کے منہ سے نکلنے والی سسکیوں کی آوازیں بہت لؤڈ۔۔ہونا شروع ہو گئیں۔۔۔۔پھر اچانک ہی انہوں نے ۔۔میرے سر کو سختی سے پکڑ کر اپنی پھدی پر دبا لیا۔۔۔اتنی دیر میں انہوں نے ایک لذت بھری چیخ ماری۔۔اور پھر آرگیزم کر دیا۔۔چوت کا پانی سیدھا میری زبان پر گرا۔۔۔جسے میں نے چاٹتے ہوئے۔۔اپنا کام جاری رکھا۔۔۔تھوڑی دیر بعد۔۔انہوں نے مجھے رکنے کا بولا۔۔۔
۔تو میں حیران ہو کر بولا۔۔پھدی نہیں چٹوانی؟؟۔۔تو وہ فل شہوت سے بولیں۔۔۔ نہیں ۔۔۔اب پھدی کو زبان نہیں۔۔۔بلکہ تیرا لن چایئے۔۔پھر کہنے لگیں جلدی سے کپڑے اتار کے میری پھدی مارو۔۔۔۔۔چنانچہ میں نے فوراً ہی خود کو کپڑوں سے آذاد کر لیا۔۔۔ادھر جیسے ہی میرا لن ننگا ان کی نظروں کے سامنے ہوا۔۔۔تو اسے دیکھتے ہی وہ حیرت سے بولی۔۔۔۔واہ ۔شاہ جی۔۔اتنا بڑا۔۔ پھر اسے ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔ایسا ہی لن تو پھدی کو سکھ دیتا ہے ۔۔پھر میرے سامنے گھٹوں کے بل بیٹھ گئیں۔۔۔ ۔۔اس کے بعد انہوں نے پہلے تو ۔۔ زبان نکال کر پورے لن کو گیلا کیا۔۔پھر اسے منہ میں لے چوسنا شروع ہو گئیں۔۔تھوڑا سا چوپا لگانے کے بعد۔۔انہوں نے اسے منہ سے نکالا۔۔۔اورکہنے لگیں ۔۔اسے بعد میں تسلی سے چوسوں گی۔۔ابھی میری چوت مار۔۔۔اتنا کہہ کر۔۔وہ اٹھ کر۔۔ دوبارہ سے اسی انداز میں صوفے پر بیٹھ گئیں اور اپنی دونوں ٹانگوں کو۔۔کھولتے ہوئے اس کے بازؤں پر رکھ دیا۔۔۔اب میں آگے بڑھا۔۔۔اور اپنے ٹوپے کو ۔۔ان کی پھدی پر ایڈجسٹ کرتے ہوئے۔۔۔ دونوں ہاتھوں کو صوفے کی بیک پر رکھا۔۔اور ثوبیہ باجی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔باجی اندر ڈال دوں؟۔۔یہ سن کر وہ تھوڑا آگے آئیں۔۔۔اور میرے ہونٹوں کو چومتے ہوئے بولیں۔۔۔باجی کی جان۔۔پورا ۔۔اندر ڈالنا۔۔اور زور سے گھسے مارنا۔۔۔تب میں نے ان کی چوت پہ رکھے لن کو اندر کی طرف پش کیا۔۔۔تو لن ان کی چکنی پھدی میں اترنا شروع ہو گیا۔۔۔جیسے ہی میرا سارا لن چوت میں اترا۔۔۔انہوں نے میری کمرکو زور سے پکڑا۔۔۔اور چلاتے ہوئے بولیں۔۔۔
۔نان سٹاپ گھسے مار۔۔۔اور میں نے انہیں نان سٹاپ چودنا شروع کر دیا۔۔۔تھوڑی ہی دیر بعد۔۔۔وہ چلا کر بولیں۔۔شاباش۔۔۔۔شاہ زور سے گھسے مار۔۔۔میری بس ہو رہی ہے۔۔۔اسی دوران میں فل سپیڈ سے گھسے مارتے ہوئے بولا۔۔۔باجی میں بھی جانے لگا ہوں۔۔تو وہ میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔پھر تو پھاڑ کے رکھ دے میری۔۔۔۔ویسے بھی آخری گھسے۔۔۔فل سپیڈ سے ہی مارے جاتے ہیں۔۔۔سو میں نے پوری جان لگا کر ان کو چودا۔۔۔اسی دوران ہم دونوں کا اکھٹے ہی اینڈ پوائینٹ آ گیا۔۔۔سو چھوٹنے سے پہلے خوبخود ہی میری منہ سے ۔۔اوہ۔۔اوہ۔۔کی آوازیں نکلیں ۔۔اور میں چنگاڑتے ہوئے ان کی پھدی میں ہی ڈسچارج گیا۔اور ان کے اوپر ہی ڈھے گیا۔۔اس دوران ۔۔وہ کس وقت چھوٹیں مجھے یاد نہیں۔۔
جب مجھے ہوش آیا تو وہ بھی اپنے سانس بحال کر چکیں تھیں۔۔میں نے ان سے پہلا سوال یہی کیا کہ باجی آپ کو مزہ آیا؟۔۔تو وہ مجھے چومتے ہوئے بولیں۔۔میری جان بہت مزہ آیا ہے۔۔۔اور میں ریلیکس ہو گئی ہوں۔۔۔پھر میں نے پوچھا۔۔اور میری چٹائی کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟۔۔تو وہ کہنے لگیں۔۔۔شاہ جی تیری زبان نے ۔۔۔تو میری پھدی کا قتل کر ڈالا تھا۔۔پھر بڑے لاڈ سے بولیں۔۔۔تم نے اتنا اچھا پھدی چاٹنا کہاں سے سیکھا ہے؟۔۔پھر اسی طرح کی کچھ مزید گرم باتوں کے بعد وہ نیچے سے اُٹھ کر واش روم چلی گئیں۔۔۔تو میں ان کی جگہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ابھی مجھے بیٹھے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک ہی ماہی ۔۔میرے پاس آ گئی۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک صاف کپڑا پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔وہ مجھے دیتے ہوئے بولی۔۔۔اس سے صاف کر لو۔۔۔۔تو میں ان کی طرف دیکھ کر شرارت سے بولا۔۔آپ کر دو ناں۔۔اس سے پہلے کہ وہ میری بات کا جواب دیتی۔۔میں نے اس کے کپڑے والا ہاتھ پکڑا۔۔۔اور لن پر لگاتے ہوئے بولا۔۔۔ماہی جی ۔۔اپنے ہاتھوں سے لن کو صاف کریں نا۔۔۔اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن۔۔ میں زبردستی۔۔ہاتھ پکڑ کر لن پر لگا دیا۔۔۔تب وہ دھیرے سے بولی۔۔۔بےہودہ ۔۔۔آدمی۔۔میرے ہاتھ کو اتنی سختی سے کیوں پکڑا ہے؟۔۔تو میں ان سے بولا۔۔تا کہ آپ میرے لن کو صاف کر دیں۔تو وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔ہاتھ ڈھیلا کرو گے تو صاف کر پاؤں گی نا۔۔۔تب میں نے ان کا ہاتھ ڈھیلا کر دیا۔۔تو پھر انہوں ہاتھ میں پکڑے صاف کپڑے سے لن کو صاف کر دیا۔۔جیسے ہی میرا لن صاف ہوا۔
۔۔تو میں ان سے بولا۔۔۔اب پھدی چٹوانے کی باری آپ کی ہے۔۔اس لیئے آپ صوفے پر بیتھ جائیں۔۔۔تو وہ سرسراتی ہوئی آواز میں ۔بولیں۔۔پھدی تو میں چٹوا لوں گی۔۔۔۔لیکن اندر نہیں لوں گی۔۔اس پر میں بولا۔۔۔آپ اندر کیوں نہیں لیں گی؟۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں اس لیئے یار کہ میں کنواری ہوں۔۔۔اور تیرا بہت موٹا ہے۔۔ابھی ماہی نے یہ بات ختم ہی کی تھی کہ پیچھے سے ثوبیہ کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔وہ کہہ رہی تھی۔۔۔شاہ جی ۔۔۔یہ کنجری بکواس کر رہی ہے۔۔۔یہ کوئی کنواری نہیں ہے۔۔بلکہ ایک دو دفعہ لن کا مزہ لے چکی ہے۔۔اس پر ماہی نے کہا۔۔تو چپ کر گشتی۔۔۔تو ثوبیہ نزدیک آتے ہوئے بولی۔۔۔یہ تو ایک دو دفعہ چدائی کی بات کر رہی ہوں ابھی میں نے۔۔شاہ جی کو۔۔ بتایا ہی نہیں کہ تم ہفتے میں کتنی دفعہ بڑی والی موم بتی اپنی پھدی میں لیتی ہو۔۔ ۔۔یہ سن کر ماہی شہوت آمیز لہجے میں بولی ۔۔۔ثوبی تو بہت بڑی گشتی اور بہن چود ہے۔۔تو وہ جواب دیتے ہوئے بولی۔تو میری بہن ہے اسی لیئے تو چدوانے کے لیئے کہہ رہی ہوں۔۔یہ سن کر میں نے ماہی کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھانا چاہا۔۔تو وہ دھیرے سے بولی۔۔۔صوفے پہ نہیں شاہ جی مجھے بیڈ پہ لے جاؤ۔۔یہ سن کر میں نے ماہی کا ہاتھ پکڑا اور اسے بستر پر لے آیا۔۔
بستر پر پہنچ کر میں نے ماہی کو کپڑے اتارنے میں مدد دی۔۔کچھ ہی دیر بعد ماہی۔۔ننگی ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی۔۔اب میں نے ان کے جسم کو غور سے دیکھا ۔۔اس وقت ماہی کی بھاری چھاتیاں۔۔۔۔تنی ہوئی تھی۔۔۔اس پر ہلکے پنک رنگ کے نپل بھی اکڑے کھڑے تھے۔ان کا پیٹ بلکل ساتھ لگا ہوا تھا۔۔۔ماہی کے جسم پر ایک بھی بال نہ تھا۔۔۔البتہ پھدی پر کالے رنگ کے ہلکے ہلکے بال اُگے ہوئے تھے۔۔۔جبکہ چوت بہت ابھری ہوئی مطلب موٹی تھی۔۔۔۔اور اس کے لپس آپس میں ملے ہوئے تھے۔۔۔۔اب میں ان کی ٹانگیں کھول کر درمیان میں آ گیا۔۔دیکھا توماہی کی پھدی سے لیس دار پانی رس رہا تھا۔۔۔یہ دیکھ کر میں ان سے بولا۔۔۔ماہی جی۔۔۔آپ تو اچھا خاصہ لیک ہو رہی ہو؟۔۔تو وہ بڑی شہوت سے بولیں۔۔۔بہن چود ۔۔۔مجھے لائیو فکنگ سین دکھا کے کہتے ہو کہ لیک کیوں ہو رہی ہوں؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں ان چوت پر جھکا ۔۔۔اور اسے چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔ان کی پھدی کا ٹیسٹ ۔۔۔اور سمیل بہت اچھی تھی۔۔۔۔سو میں بڑی شہوت سے اسے چاٹتا چلا گیا۔۔اس دوران میں نے ان کے اکڑے ہوئے نپلوں کو انگلیوں کے درمیان پھنسا کر مسل دیتا تھا۔۔۔جس کی وجہ سے ماہی۔۔۔تڑپ کر آہیں بھرتی۔۔اور کہتی۔۔بہن چود ۔۔بہت مزہ دے رہے ہو۔۔۔ابھی میں نے تھوڑی سی ہی چوت چاٹتی تھی کہ اچانک ماہی بستر سے اٹھ کر بولی۔۔۔شاہ ہ ہ ہ ہ ۔۔ چاٹنا بند کرو۔
تب میں ان کی پھدی سے منہ ہٹا کر بولا۔۔۔کیوں؟؟۔۔تو وہ بڑی شہوت سےکہنے لگیں۔۔۔۔بہن چود ۔۔۔میں نے اپنی پھدی پر تیری زبان کا مزہ لے لیا ہے۔۔۔اب مجھے اصل مزہ دو۔۔۔تو میں جان بوجھ کر بولا۔۔۔اصل مزے سے آپ کی کیا مراد ہے؟۔۔۔تو وہ مستی کے عالم میں کہنے لگی۔۔۔اپنے لنڈ سے میری پھدی کو پیل دو۔۔۔یہ سن کر میں پھدی سے اوپر اٹھا۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ایک منٹ ابھی اندر نہیں ڈالنا۔۔اس پر میں بولا۔۔۔تو پھر کیا کرنا ہے؟۔۔تو انہوں نے مجھے لیٹنے کا بولا۔۔۔جب میں ان کی جگہ بستر پر لیٹ گیا۔۔۔تو وہ اوپر اٹھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔مجھے تھوڑا سا لن چوسنے دو۔۔پھر مجھے چود لینا۔ اتنا کہہ کر انہوں میرے لن پر منہ کو جھکا لیا۔۔پھر اس پر ڈھیر سارا تھوک پھینکتے ہوئے بولیں۔۔۔۔شاہ جی تیرا لوڑا بہت مست ہے۔۔۔جاتے ہوئے یہ مجھے دے جانا۔۔اور ہلکی ہلکی مٹھ مارنے لگیں۔۔تھوڑی سی مٹھ مارنے کے بعد انہوں نے لن کو منہ میں لیا۔۔۔۔اور اسے چوسنا شروع کر دیا۔۔۔وہ بڑے ہی شہوت اور جوش سے چوپا لگا رہی تھیں۔۔۔اس دوران میرے منہ سے خود بخود ہی سسکیاں نکل رہی تھیں۔۔۔۔جنہیں سن کر وہ بولیں۔۔۔میں اچھا چوس رہی ہوں نا؟۔ ۔۔تو میں بولا۔۔۔آپ کے چوپے سے میری جان نکلی جا رہی ہے۔۔۔تو وہ بڑی مستی سے کہنے لگیں۔۔۔انجوائے میری جان۔۔اور پھر سے لن چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔کچھ دیر بعد۔۔۔وہ اوپر اٹھیں۔۔۔سیدھی لیٹتے ہوئے بولیں۔۔۔۔اب اسے پھدی میں ڈال دے۔
کچھ دیر بعد میں گھٹنوں کے بل کھڑا۔۔۔چوت پر لن رگڑ رہا تھا۔۔۔۔پھر میں نے اسے اندر کی طرف پش کر دیا۔۔ان کی چوت اندر سے اتنی تنگ تھی کہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ۔۔۔۔۔۔میرا لن کسی تنگ سے چکنی مشین میں پھنس گیا ہو۔جس کے نرم ٹشوز لن کے ساتھ بری طرح جکڑے ہوئے تھے۔۔۔ابھی میں نے تھوڑا سا ہی اندر کیا تھا کہ ماہی سسکتے ہوئے بولی۔۔۔۔بہن چود پورا ڈال نا۔۔۔۔۔۔۔اب میں نے اپنا لن باہر نکلا۔۔اور ان کی بالوں والی چوت پر رکھ کر ایک زور دار جھٹکا مارا۔۔۔۔تو اسی وقت ماہی نے ایک ذور دارچیخ ماری۔۔۔ہائے ماں۔۔۔۔تو میں اس سے بولا۔۔کیا ہوا ماہی جی؟۔۔۔تو وہ وہ لذت سے بولی۔۔۔۔بہن چود ۔۔۔مزہ آیا۔۔۔اور زور سے مار۔۔۔۔ماہی کی بات سن کر مجھ پر عجیب سا جوش چڑھ گیا۔۔۔۔اور میں نے بے دریغ گھسے مارنا شروع کر دیئے۔۔۔اوپر تلے بہت سے گھسے مارنے کے بعد۔۔۔میں نے رک کر ان کی طرف دیکھا۔۔۔تو دسمبر کی سردی میں بھی ان کا چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔مجھے رکتے دیکھ کر وہ اسی۔۔۔لذت آمیز لہجے میں بولیں۔۔۔۔بہن چود رک مت۔۔۔چودتا جا۔۔
۔اور میں مسلسل چودنا شروع ہو گیا۔۔۔تھوڑی ہی دیر بعد۔۔۔انہوں نے ایک زبدرست چیخ ماری۔۔۔اورمجھ سے بولیں۔۔۔۔ش۔۔شا ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔میں جا رہی ہوں۔۔۔تت ۔۔تت۔۔۔تم میرے اندر نہیں چھوٹنا۔۔اتنا کہتے ہی ان کے جسم نے بہت زور دار جھٹکا لیا۔۔۔۔۔۔اور وہ چھوٹنا شروع ہو گئیں۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے ا بھی فل سپیڈ سے۔۔۔چند ہی گھسے مارے تھے۔۔۔۔کہ میرا بھی اینڈ لگ گیا۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے جلدی سے لن کھینچ کر چوت سے نکال لیا۔۔۔تو تیزی سے بولیں۔۔۔چھوٹنے لگے ہو؟۔۔تو میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔۔۔یہ دیکھ کر وہ اوپر اٹھیں اور لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلانا شروع کر دیا۔۔۔تھوڑی ہی دیر بعد۔۔۔۔میرے لن سے منی کی پچکاری نکلی ۔۔جو کہ سیدھے ان کی چھاتیوں پر جا گری۔۔یہ دیکھ کر وہ اور بھی تیزی سے مٹھ مارنا شروع ہو گئیں۔۔۔وہ مٹھ مارتی گئیں۔۔۔اور میں ان کی چھاتیوں میں چھوٹتا گیا۔۔۔چھوٹتا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہی اور ثوبیہ باجی کو اچھی طرح چودنے کے بعد۔۔میں گھر آ گیا۔۔۔۔اس وقت مجھ پر سیکس خماری چڑھی ہوئی تھی۔۔۔۔چنانچہ مجھے نیم باز آنکھوں سے رات کا کھانا کھاتے دیکھ کر ماہی ہولے سے کہنے لگی۔۔لگتا ہے ۔۔۔بھائی نے کچھ زیادہ ہی مشقت کر لی تھی تو میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔نہیں یہ وہ خماری ہے جو آپ کے بدن سے حاصل کی ہے۔۔اس پر وہ ادھر ادھر دیکھ کر بولیں۔۔مزید خماری نہیں چڑھانی؟۔۔تو میں بولا۔۔۔آپ جیسی سیکسی لڑکی کے ساتھ میں ہر وقت حاضر ہوں۔۔۔۔تو وہ ہولے بولیں۔۔تیار رہنا۔۔۔میں رات کسی بھی وقت تجھے بلا ؤں گی۔۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔اور پھر کھانے کے فوراً بعد۔۔۔بستر پر لیٹا تو اگلی صبع ہی میری آنکھ کھلی۔۔۔ناشتے کے وقت میں ویسے ہی ماہی سے بولا۔۔۔۔رات میں آپ کا انتظار ہی کرتا رہا۔۔۔لیکن آپ نہیں آئیں۔۔۔تو وہ عجیب سے لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔سوری یار۔۔تیرے ٹیکے نے ایسا اثر کیا کہ مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔۔۔پھر کہنے لگیں۔۔آج دوپہر کسی وقت موقع نکالوں گی۔۔۔لیکن ہم دونوں کے چاہنے کے باوجود بھی ایسا نہ ہو سکا۔۔۔کہ اس دن اچانک ہی بہت سارے مہمان آ گئے تھے۔۔
یہ اسی رات کی بات ہے۔۔۔کہ کھانا کھانے کے بعد۔۔۔میں ۔۔ماہی کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہا تھا۔۔۔۔کہ وہ ملے تو اسکے ساتھ کوئی پروگرام بناؤں ۔۔کہ اس کی تنگ پھدی کے لیئے میرا لن بہت مچل رہا تھا ۔۔اسی سلسلہ میں ۔۔میں پاگلوں کی طرح مختلف کمروں میں خواہ مخواہ ہی جھاتیاں مار رہا تھا۔۔۔لیکن ماہی کا کہیں پتہ نہ چل رہا تھا۔۔۔۔چلتے چلتے میں ایک کمرے میں جھانک کر دیکھا۔۔تو وہاں کافی خواتین بیٹھی ہوئیں تھیں۔۔۔اتنی خواتین کو ایک جگہ دیکھ کر۔۔۔مجھے یقین ہو گیا کہ ماہی بھی ادھر ہی ملے گی۔۔۔۔۔ چنانچہ جب میں نے اس اکٹھ پر مزید غور کیا تو انہیں ۔۔۔کسی شادی کی مووی دیکھتے ہوئےپایا۔۔۔ادھر جیسے ہی ان لیڈیز کی مجھ پر نظر پڑیں تو ایک ساتھ کئی آوازیں سنائیں دیں کہ ۔۔شاہ جی اندر آ جاؤ وہ یہ سمجھیں کہ شاید میں بھی مووی دیکھنے آیا ہوں۔
چنانچہ خواتین کے پرزور اصرار پر میں اندر چلا گیا۔۔۔وہاں جا کر دیکھا تو ہاؤس فل تھا۔۔مطلب وہاں دستیاب ۔۔۔سارے ہی بستروں میں خواتین گھسیں۔۔۔۔۔ شادی کی مووی دیکھ رہیں تھیں۔۔۔میں نے ایک دفعہ پھر نظر دوڑائی۔۔ کوئی بھی جگہ خالی نہ تھی۔ سب لوگ رضائیوں اور کمبل لیئے بیٹھے تھے۔۔ایسے میں ۔۔میں متلاشی نظروں سے خالی جگہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔جو کہ مجھے کہیں بھی نظر نہ آ رہی تھی۔۔۔جب مجھے وہاں پر کھڑی کچھ دیر ہو گئی۔۔۔۔۔تو اچانک مجھے یاسمین باجی کی آواز سنائی دی۔۔وہ کہہ رہی تھیں۔۔”چھوٹے تم ادھر آ جاؤ”۔۔۔میں نے آواز کی سمت دیکھا تو وہ ایک کونے میں پلنگ پر نیم دراز مجھے بلا رہی تھیں۔۔۔۔میں نے انہیں رسمی سا انکار کیا۔۔۔لیکن پھر دوسری خواتین کے بار بار کہنے پر میں ان کے پاس چلا گیا۔۔
۔وہ باقی لوگوں کے ساتھ بستر میں نیم دراز ہو کے موی دیکھ رہیں تھیں۔۔۔۔میں نے دیکھا کہ ان کے بستر پر پہلےہی کافی رش لگا ہوا تھا۔۔۔جس کی وجہ سے یہ خواتین بلکل ساتھ ساتھ جڑ کر لیٹی ہوئی تھیں۔۔۔میرے پاس جاتے ہی باجی بستر والیوں سے بولی۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑاساتھ ساتھ ہو جائیں۔۔۔ان کی بات سن کر تمام خواتین مزید ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئیں۔۔۔اور یوں بیڈ پر میرے لیئے بہت تھوڑی سی جگہ خالی ہو گئی ۔۔اور اسی تھوڑی سی جگہ پر۔۔۔ وہ پہلو کے بل لیٹ گئیں۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگیں ۔۔چل چھوٹو۔۔۔ تو بھی ادھر ہی لیٹ جا۔۔چنانچہ میں بستر پر چڑھ گیا۔۔اب پوزیشن یہ تھی کہ۔۔۔میں یاسمین باجی کے بلکل ساتھ لیٹا تھا۔
مزید صورت حال یہ تھی کہ باجی کی بیک میرے فرنٹ سے کچھ ہی فاصلے پر تھی۔اور میں چپ چاپ لیٹا۔۔۔۔مووی دیکھنے لگا۔۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد۔۔مجھے اس صورت حال کا ادراک ہوا۔۔۔یہ یاسمین باجی کی موٹی گانڈ میرےسے تین چار انیچ کے فاصلے پر ہے۔۔۔یہ سو چ کر میں ایک دم سے ۔۔۔ایکسائیٹڈڈ ہو گیا۔۔۔۔اور میرے دل میں عجیب سی خواہش سر اٹھانے لگی۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میرے اندر کا شیطان انگڑائی لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔اور لن سے بولا۔۔۔ماہی کو چھوڑ ۔۔کیوں نہ اس حسین خاتون پر بھی ٹرائی کی جائے؟۔۔لن نے بنا سوچے۔۔۔اس کی اجازت دے دی۔۔۔۔۔اس طرح میں نہ چاہتے ہوئے بھی۔۔۔کسی موقعہ کی تلاش میں رہنے لگا۔۔۔۔ایسے موقعے کی تلاش میں۔۔کہ جس سے میرا لن۔۔۔۔ان کی دلکش اور موٹی گانڈ سے ٹچ ہو سکے۔۔
سیانے کہنے ہیں کہ جہاں چاہ ہوتی ہے ۔۔۔وہیں راہ بھی نکلتی ہے۔۔۔چونکہ میرے دل میں ان کی موٹی گانڈ کو ٹچ کرنے کی چاہ تھی ۔۔اس لیئے یہ راہ بھی نکل آئی۔۔مطلب موقع مل گیا۔۔ہوا کچھ یوں کہ ۔۔۔۔کچھ دیر بعد۔۔ایک اور خاتون بھی کمرے میں فلم دیکھنے کے لیئے داخل ہوگئی۔۔اس وقت پوزیشن یہ تھی کہ پلنگ کے ایک طرف میں نیم دراز یا لیٹا ہوا تھا۔۔میری طرف تو وہ آ نہیں سکتی تھی اس لیئے۔۔اس لیئے وہ بیڈ کے دوسرے اینڈ پر بیٹھ کر بستر والی لیڈیز سے بولی۔۔۔مجھے بھی تھوڑی سی جگہ دے دو۔۔اس خاتون کی بات سن کر سب خواتین تھوڑی تھوڑی کھسک کر پیچھے ہو گئیں۔۔سیم اسی طرح یاسمین باجی نے بھی کیا۔۔۔انہوں نے ایک نظر مجھے دیکھا۔۔۔اور پھر تھوڑا سا کھسک کر پیچھے کوہو گئیں۔۔
اس طرح لن صاحب میرے ہاتھ کے چنگل سے نکل کر ۔۔۔۔سیدھے باجی کی نرم بنڈ کی طرف بڑھے۔۔۔۔اب میرا ٹوپہ ان کی نرم گانڈ سے ٹکرانا شروع ہو گیا۔۔۔ لن کے ٹکرانے سے مجھے اتنا مزہ آیا کہ۔۔۔میں نے ہمت کر تے ہوئے۔۔۔۔ڈرتے ڈرتے۔۔لن کو گانڈ پر دبا دیا۔۔۔میرے دبانے کی دیری تھی کہ ۔۔اچانک ہی یاسمین باجی تھوڑا سا کسمسائیں۔۔۔اور اس دوران۔۔انہوں نے اپنی گانڈ کو ایسے اینگل سے کر دیا کہ ۔۔جس کی وجہ سے۔۔۔میرا لن ۔۔۔۔ان کی دوپہاڑیوں کے بیچ میں آ گیا۔۔یہاں تک کہ میرا ٹوپہ چوت کی دیوار کو ٹچ کرنے لگا۔۔۔لن کا پھدی کی دیوار سے ٹچ ہونا تھا کہ مستی بھرے ۔۔۔ سرور کی لہریں۔۔۔ میرے سارے بدن میں چلنا شروع ہو گئیں۔۔واؤ۔۔۔انہوں نے کیا زبدرست اور مست پوزیشن بنائی تھی کہ بظاہر تو ۔۔دونوں شادی کی مووی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔لیکن رضائی کے اندر کھاتے ہم کچھ اور ہی گیم کر رہے تھے۔۔۔۔کچھ دیر تک میرا لن ان کی نرم گانڈ مین پھنسا رہا۔۔۔۔۔۔میرے خیال میں ہو کچھ زیادہ ہی مست ہو چکی تھیں۔۔۔تبھی تو انہوں نے چپکے سے اپناے ہاتھ کو پیچھےکی طرف کیا۔۔اور میرے لن کو اپنی بنڈ سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔اور اسے سہلانا شروع ہو گئیں۔۔لن سہلاتے سہلاتے انہوں نے میری شلوار کا آزار بند کھول دیا۔۔۔۔۔
پھر اسے نیچے کرتے ہوئے انہوں نے میرے ننگے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔اور آہستہ آہستہ اسے آگے پیچھے کرنے لگیں۔۔اففف۔۔۔لن پکڑنے سے مجھے اتنا مزہ ملا کہ ۔۔میں بے خود ہو گیا۔۔۔اور اسی پاگل پن میں ۔۔۔میں نے ان کا آزار بند کھولنے کے لیئے شلوار پر ہاتھ لگایا۔۔۔تو مجھے محسوس ہوا کہ انہوں نے آزار بند کی بجائے الاسٹک پہنا ہے۔۔چنانچہ میں نے ان کی دھیرے سے ان کی شلوار اتارنے کی جیسے ہی کوشش کی۔۔۔۔ تو یہ محسوس کرتے ہی۔۔۔انہوں نے اپنے ہپس کو اوپر اٹھا لیا۔۔۔میں نے جلدی سے ان کی شلوار کو گھنٹے تک نیچے کر دیا۔۔۔اب میں نے ان کی ننگی گانڈ پر مساج کرنا شروع کر دیا۔۔جس سے وہ مزید مست ہو گئیں۔۔اور انہوں نے میرے لن کو پکڑ کراپنی گانڈ پر رگڑنا شروع کر دیا۔۔چونکہ دونوں طرف آگ برابر لگی ہو ئی تھی۔۔اس لیئے میں نے ان کے ہاتھ سے لن چھڑایا۔۔۔اور ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔۔باجی برداشت نہیں ہو رہا۔میں اندر ڈالنے لگا ہوں۔۔۔یہ سن کر انہوں نے ایک نظر کمرے پر ڈالی۔۔۔لیکن وہاں سب مووی دیکھنے میں مگن تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف بزرگوں پر تبصرہ بھی کرتے جا رہیں تھیں۔۔
۔ہائے ۔۔۔۔میرا بھائی ابھی کچھ ماہ پہلے ہی مرا ہے۔۔۔یہ بے چارہ بہت بیمار ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ادھر سے فارغ ہو کر انہوں نے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر مجھے اندر ڈالنے کا اشارہ کر دیا۔۔ان کا اشارہ پاتے ہی میں نے کمرے کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے طریقے سے ٹوپے پر تھوک لگا کر اسے چکنا کیا۔۔۔پھر لن کو چوت میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔۔اسی وقت باجی نے اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف کیا۔۔۔اور میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر چوت کے سوراخ پر رگڑنے لگی۔۔اف۔ان کی چوت پہلے سے ہی بہت گیلی ہو رہی تھی۔انہوں لوڑے کو تھوڑا سا ہی رگڑا تھا کہ میں نے ان کے ہاتھ سے لن چھڑایا۔۔۔۔اور ہلکا سا گھسہ مارا۔۔۔۔لن پھسل کر چوت میں داخل ہو گیا۔
اف کیا بتاؤں دوستو۔۔ان کی چوت فل گرم اور لیسدار پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔بلکہ ابھی بھی پانی چھوڑ رہی تھی۔۔۔۔مجھے ایسا لگا کہ میرا لن ان کی پھدی میں نہیں اترا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ مزے کے سمندر میں اتر گیا ہے۔۔۔کچھ دیر اندر پڑا رہنے کے بعد اچانک ہی مجھے پتہ نہیں کیا ہوا اور کہاں سے اتنا جوش آ گیا کہ میں بڑے زور سے جھٹکا مار دیا۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے بیڈ تھوڑا ہلا۔۔۔اور چیں ں ں ں ۔۔۔کی مخصوص آواز سنائی دی۔۔۔۔اس آوازکو سنتے ہی کافی ساری نظریں ہماری طرف اٹھ گئیں۔۔۔۔یاسمین باجی نے بظاہر نارمل رہتے ہوئے۔۔۔۔۔فوراً ہی میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دوبارہ اندر ڈالنے سے روک دیا۔۔۔۔۔لیکن اس وقت میں شہوت کے جوش میں پاگل ہوا پڑا تھا۔۔۔اس لیئے میں نے لنڈ کو دوبارہ اندر ڈالنے کی کوشش کی۔۔۔۔یہ محسوس کرتے ہی انہوں نے اپنی گردن گھمائی۔۔۔۔اورآنکھوں ہی آنکھوں میں بولی ۔۔۔ایسا مت کرو۔۔۔۔۔پر اس وقت میرے حالات ایسے تھے کہ میں لن کو اندر ڈالنے کے لیئے مرا جا رہا تھا۔۔۔لیکن دوسری طرف انہوں بے بڑی سختی سے میرے لن کو پکڑا ہوا تھا۔۔۔اور اسے ہلنے بھی نہیں دے رہیں تھیں۔۔
خیر تھوڑی دیر بعد۔۔۔جب میرا جوش کچھ کم ہوا ۔۔۔تو اس وقت مجھے احساس ہوا کہ وہ ٹھیک کہہ رہیں تھیں۔۔۔۔۔پر میں کیا کرتا۔۔۔کہ مجھ سے برادشت نہیں ہو رہا تھا۔لیکن اب اس سوچ کے آتے ہی میں ڈھیلا پڑ گیا۔۔کچھ دیر بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ میرا جوش کچھ کم ہو گیا ہے۔۔۔تو انہوں نے لنڈ کو اپنی گانڈ کے آؤٹ سائیڈ پر رکھا۔۔۔میری طرح وہ بھی شہوت سے چور تھیں ۔۔لیکن مجھ میں اور ان میں فرق یہ تھا کہ وہ جوش کے ساتھ ہوش سے بھی کام لے رہیں تھیں۔۔جبکہ مجھ میں کم سن ہونے کی وجہ سے نرا جوش ہی بھرا ہوا تھا۔۔پھر انہوں نے لن کو اپنی نرم گانڈ پر رگڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ چکنے لن پر دھیرے دھیرے مٹھ بھی مارتی جارہیں تھیں۔۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔۔۔میں ان کی گانڈ پر ہی ڈسچارج ہو گیا۔۔۔ انہوں نے میری ساری منی اپنی موٹی گانڈ پر پیسٹ کر تے ہوئے۔۔۔ جلدی سے شلوار اوپر کر لی۔پھر مجھے بھی ایسا ہی کرنے کا اشارہ کیا۔۔چنانچہ میں نے شلوار اوپر کرتے ہوئے آزار بند باندھ لیا۔۔اورشادی کی مووی دیکھنے لگا۔۔جو کہ اتنی بور تھی کہ کچھ ہی دیر بعد خود بخود ہی میری آنکھیں بند ہو گئی۔۔۔اور پتہ نہیں میں کس وقت نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔۔
رات کا جانے کون سا پہر تھا۔۔ کہ اچانک بہت سی آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی۔۔اس دوران کسی نےبڑے زور زور سے میرا کندھا ہلایا۔۔میں اچانک ہی گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔پھر اچانک ہی مجھے یاسمین باجی کے ساتھ گزراہوا واقعہ یاد آ گیا ۔واقعہ یاد آتے ہی میرے اندر سو طرح سے وسوسے سر اٹھانے لگے۔۔۔اور یہ سوچ کر میں ڈر گیا کہ کہیں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔آواز اب اور بھی تیز ہو گئی تھی۔۔۔جانے کیوں میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔
آخر میں ڈرتے ڈرتے اٹھ ہی گیا۔۔اور دیکھا کہ ایک لڑکی میرے سامنے کھڑی تھی۔۔۔مجھے یوں اٹھتے دیکھ کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔بھائی ویری سوری۔۔۔۔۔یہ لیڈیز روم ہے۔۔یہاں انہوں نے سونا ہے لہٰذا پلیز آپ دوسرے کمرے میں جائیں۔۔لڑکی کی بات سن کر میری جان میں جان آئی۔۔۔پھر میں نے دیکھا کہ دو لیڈیز اس انتظار میں کھڑی تھیں کہ میں اٹھوں تو وہ یہاں پر لیٹیں۔۔ان لیڈیز کو کھڑے دیکھ کر میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔اور اس لڑکی سے بولا۔۔۔میں نے کہاں سونا ہے؟؟۔۔اس پر وہ کہنے لگی۔۔۔آپ میرے ساتھ آؤ۔۔میں آپ کو بستر دکھاتی ہوں۔۔ یہ کہہ کر وہ میرے آگے آگے ۔۔۔۔اور میں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔۔۔وہ مجھے سیڑھیاں چڑھا کے اوپر والے پورشن میں لے گئی۔۔۔پھر ایک کمرے کے قریب کھڑی ہو گئی۔۔۔جو کہ وہاں بنے باقی کمروں سے ذرا ہٹ کر تھا۔۔۔دور سے ہی وہ اشارہ کرتے ہوئے بولی۔۔یہ آپ کا کمرہ ہے۔۔ آپ اندر جا کر۔۔۔ سو جائیں۔میں نے اس کو تھینکس بولا۔۔اورکمرے میں داخل ہو گیا۔۔جیسے ہی میں اندر داخل ہوا۔۔۔مجھے ایک آواز سنائی دی ۔۔کہ کمرہ لاک کردو۔۔۔یہ آواز سن کر میں حیران رہ گیا۔۔کیونکہ یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ باجی یاسمین کی تھی۔جیسے ہی میں نےدروازہ لاک کرتے ہوئے واپسی کے لیئے مڑا۔۔دیکھا تو وہ میرے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی۔۔واہ چھوٹے صاحب ۔۔۔۔آپ نے مجھے خوار ہی کر دیا۔۔تو میں حیرانی سے بولا۔۔۔۔میں نے کیا کیا ہے؟ تووہ اسی طرح مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔۔
واہ میری جان۔۔ کہ خود تو فارغ ہو کر۔۔۔۔مزے سے سو گئے۔۔۔اور ہمیں تڑپتا چھوڑ دیا۔۔اتنا کہتے ہوئے وہ میرے نزدیک آ گئی۔۔اور میرے سامنے کھڑے ہو کر بولی۔۔تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔میں تمہیں ایسے ہی چھوڑ دوں گی۔۔۔اتنا کہہ کر وہ میرے اتنے نزدیک آ گئی۔۔۔۔اتنے نزدیک کہ مجھے اپنے چہرے پر۔۔۔ ان کی گرم سانسیں۔۔۔بھی سنائی دینے لگیں۔۔۔اس پر میں نے ان کی طرف دیکھا۔۔اور شرمندہ سی شکل بنا کر بولا۔۔۔سوری باجی۔۔۔تو وہ ہنس کر بولیں۔۔۔سوری کے بچے۔۔۔میری طرف دیکھو۔۔۔۔میں نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو اس وقت ۔۔ان کا چہرہ شہوت سے لال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔اور آنکھوں میں ہوس چمک رہی تھی۔۔یہ محسوس کرتے ہی ایک دم سے میرے اندر شہوت نے سر ابھارا۔۔۔چنانچہ میں نے ان کے گرم چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا۔۔۔۔اور ان کے نرم ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع ہو گیا۔۔ان کے نرم ہونٹوں کو چوستے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا تھا کہ جیسے میں نے گلاب کی پتی منہ میں لے رکھی ہو۔۔۔۔اس پر ان کی گرم سانسیں۔۔اور منہ کی مہک ۔۔۔مجھے اور بھی دیوانہ بنا رہی تھیں۔۔۔ہونٹ چوسنے کے ساتھ ساتھ میں نے ایک ہاتھ ان کی بھاری چھایتوں پر رکھا۔۔۔۔اور انہیں دبانے لگا۔۔دوسری طرف اپنے ہونٹ چسواتے اور چھایتوں دبواتے ہوئے وہ بھی بہت مست ہو رہی تھیں۔۔پھر اسی مستی کے عالم میں نے اپنی زبان کو ان کے منہ میں ڈال دیا۔۔۔ وہ تو جیسے اسی انتظار میں تھیں۔۔
انہوں نے فوراً ہی میری زبان کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔اور اپنی ٹیسٹی زبان کو میری زبان سے ٹکرانے لگیں۔۔۔۔۔۔اف۔ف۔فف۔ف۔کیا بتاؤں دوستو۔۔۔کہ ٹنگ کسنگ ہمیشہ سے میری فیورٹ رہی ہے۔۔۔چنانچہ اس کے بوسے مجھے پاگل کر دیتے ہیں۔۔چنانچہ میں نے اپنی ساری زبان ان کے منہ میں ڈال دی۔۔۔اب ہم دونوں دینا سے بے خبر دیوانوں کی طرح ایک دوسرے کی زبانیں چوس رہے تھے۔۔۔آپس میں ٹکرائے رہے تھے اس کے ساتھ ساتھ میں ان کی بھاری چھاتیوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ میرے لنڈ کو ہاتھ میں پکڑے دباتی جا رہی تھیں۔۔۔ممم۔م۔م۔م۔م۔۔۔۔کبھی وہ اپنی زبان میرے منہ میں ڈالتیں ۔۔اور کبھی میں اپنی زبان ان کے منہ میں لے جاتا۔۔ہماری زبانیں آپس میں ٹؤسٹ کر رہی تھیں۔۔۔ہمارا تھوک ایک دوسرے کے منہ میں گھوم رہا تھا۔۔۔۔اور ہم دونوں کسنگ کرتے ہوئے مزے سے بے حال ہوتے جا رہے تھے۔۔
کچھ دیر بعد۔۔۔جب ہم کافی سے زیادہ کسنگ کر چکے تو انہوں نے اپنا منہ میرے منہ سے جیسے ہی ہٹانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں نے ان کے منہ کے ساتھ اپنا منہ لاک کیا ہوا تھا۔۔اس لیئے وہ ایسا نہ کر سکیں۔۔تب انہوں نے زبردستی اپنے منہ کو مجھ سے ہٹایا۔۔۔اور کہنے لگی۔۔لگتا ہے کہ تم کو ٹنگ کسنگ بہت پسند ہے۔۔پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔توبہ۔۔توبہ ایسا لگ رہا تھا کہ تم میری زبان کو کھا ہی جاؤ گے۔۔اس پر میں ان کو بھوکی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔میرا بس چلے تو میں اس کو اس کو سچ مچ کھا ہی جاؤں۔۔۔۔تو وہ بڑی ادا سے بولیں۔۔اچھا ۔پر مجھ میں ایسا کیا دیکھا ہے؟۔۔۔تو میں آگے بڑھ کے ان کی چھاتیوں کو دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔باجی آپ دنیا کی سیکسی ترین لڑکی ہو۔۔۔جس کے ساتھ سیکس کرنا کسی بھی لڑکے کا خواب ہو سکتا ہے۔۔تو وہ بڑی سیریس ہو کر بولیں۔۔میری بات کا یقین کرو شاہ جی۔۔۔میں اپنے خاوند کے بعد ۔۔۔صرف تمہارے ساتھ سیکس کرنے لگی ہوں ۔۔۔۔وہ بھی مجبور ہو کر۔۔۔۔۔پھر ٹھنڈا سانس بھر کر بولی۔۔۔۔۔۔یہ میں ہی جانتی ہوں کہ میں نے تین سال کو لمبا عرصہ بنا سیکس کے کیسے گزارا ہے۔۔ورنہ تو میں ۔۔۔۔لن کے بغیر ایک منٹ بھی نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔۔پھر وہ میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی۔۔۔تم کسنگ بہت اچھی کرتے ہو۔۔تو میں ان سے بولا۔۔۔کیا بتاؤں باجی مجھے ٹنگ کسنگ ہمیشہ سے بھی بہت اچھی لگتی ہے۔۔۔پھر ان کے ہونٹوں پر انگلی لگا کر بولا۔۔۔آپ کے یہ پنکھڑی لب۔۔۔۔ٹیسٹی زبان۔۔اورمنہ کی مست خوشبو۔۔۔۔۔
یقین کریں یہ سب مل کر مجھے آؤٹ آف کنٹرول کر رہی تھیں۔۔اور مجھے آپ سے اتنا مزہ مل رہا تھا جس کی وجہ سےمیں نے آپ کے منہ کو اپنے منہ سے لاک کر دیا تھا۔۔۔اس پر وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں۔کسنگ تو مجھے بھی بہت پسند ہے۔۔۔لیکن جیسا کہ تم جانتے ہو کہ میں سے ہی بڑی۔۔۔گرم ہو رہی ہوں۔۔۔اوپر سے تیری ہاٹ کسنگ ۔۔ ۔۔توبہ ہے۔۔۔۔اتنا کہہ کر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ۔۔۔اور اپنی شلوار کے اندر لے گئیں۔۔پھر اپنی پھدی پر ہاتھ رکھ کر بولی۔۔۔دیکھ لو میری چوت کتنی گرم ہو رہی ہے۔۔زرا اس کی حالت کو دیکھو۔۔۔۔پھر فیصلہ کرو کہ تم نے مزید کسنگ کرنی ہے یا اس کو ٹھنڈا کرنا ہے۔پھر خود ہی کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔اب اس کو اور نہ تڑپاؤ۔۔۔اب میں جو ان کی گرم چوت پر ہاتھ رکھا۔۔۔تو واقع وہ بڑی ہی تپی ہوئی تھی۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ پھدی میں سے لیس دار پانی بہہ بہہ کر ٹانگوں تک چلا گیا تھا۔ادھر جیسے ہی میں نے ان کی پھدی پر ہاتھ رکھا۔۔۔وہ تڑپ سی گئیں ۔۔اور ان کے منہ سے ۔۔اف ف ف۔۔۔۔کی آواز نکلی۔۔فوراً ہی انہوں نے اپنی قمیض کو برا سمیت اتار دیا۔۔پھر انہوں نے میرا منہ پکڑ کر اپنی بھاری چھاتیوں پر رکھ دیا۔۔۔ پھر اسے دباتے ہوئے بولیں۔۔۔میرے ممے چوس ناں۔۔اب پوزیشن یہ تھی کہ میں ایک ہاتھ سے یاسمین باجی کی پھدی کو مل رہا تھا رگڑ رہا تھا۔۔۔۔جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی بھاری چھاتی کا ایک نپل میرے منہ میں تھا جسے میں بڑے جوش کے چوس رہا تھا۔۔باجی کی پھدی پوری طرح۔۔۔۔۔۔۔۔ کریم سے گیلی ہو چکی تھی۔۔اور میں تیزی سے ان کے اس لیس دار پانی کو ان کی چوت پر ملتا جا رہا تھا۔۔جس کی وجہ سےان کی پھدی اچھی خاصی چکنی ہو گئی تھی۔۔کچھ دیر بعد انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے موتے دانے پر رکھ کر بولیں۔۔۔
اب چوت کو نہیں ۔۔شاہ جی۔۔۔ بلکہ میرے دانے کو مسلو۔۔چنانچہ میں اس پھولے ہوئے دانے کو اپنی دو انگلیوں کی گرفت میں لیا۔۔اور پھر اسے مسلنا شروع ہو گیا۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میں ان کے براؤن کلر کے موٹے نپل کو بھی چوستا جا رہا تھا۔۔۔ اس وقت میرے لن کی بہت بری حالت تھی۔۔۔میں دل کر رہا تھا کہ ابھی ان کی چوت میں گھسا دوں لیکن انہوں نے میرے منہ کو بڑی سختی کے ساتھ اپنی چھاتیوں سے لگا رکھے ہوئے باری باری نپلز کو خوب چسوا رہا تھیں ۔ ۔میرے چوسنے کی وجہ سے ان کے نپلز کافی ہارڈ ہو چکے تھے۔۔۔لیکن انہوں نے ابھی تک میرے سر کو چھاتیوں پر دبا رکھا تھا ۔۔۔اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ان کو کسنگ کے ساتھ ساتھ ممے چسوانا بھی بہت پسند ہو گا۔۔کچھ دیر بعد ۔۔۔جب میں نے محسوس کیا کہ میرا لن اکڑاہٹ کے اس درجے پر پہنچ چکا ہے کہ کہیں پھٹ نہ جائے۔۔یہ محسوس کرت ہی میں ان کی چھاتیوں سے منہ ہٹایا۔۔۔تو وہ بڑی نشیلی آواز میں بولیں۔۔۔چھاتیاں اور چوس نہ میری جان۔۔تو میں نے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ باجی میں توچوس لوں۔۔۔لیکن ڈر ہے کہ لن اکڑاہٹ کے مارے پھٹ ہی نہ جائے۔۔۔تو وہ اسی نشیلی آواز میں بولیں۔۔اسے کہو کہ اگر پھٹنا ہی ہے تو میری چوت میں پھٹے۔۔۔تا کہ ہم دونوں ایک ساتھ دھماکے سے اڑ جائیں۔۔اس کے بعد ہم دونوں نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اپنے کپڑے اتار دیئے۔۔
کپڑے اتارتے ساتھ ہی انہوں نے میرے سر کو پکڑا ۔۔۔اور دوبارہ سے اپنی چھاتیوں پر رکھ دیا۔یہ دیکھ کر میں ان سے بولا۔۔باجی کیا آپ اپنی چوت کو روشنی کی طرف کر سکتی ہیں۔۔۔تو وہ قدرے حیرت سے بولیں ۔۔ہاں کر سکتی ہوں لیکن تم نے کیا کرنا ہے؟۔۔تو میں ان سے بولا۔۔۔کیونکہ میں آپ کی پھدی کو اچھی طرح دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو وہ تھوڑا ہنسیں۔۔۔پھر کہنے لگیں۔۔۔میری چوت کو دیکھنا ہے۔۔۔کیا پہلے کبھی پھدی نہیں دیکھی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔پھر میرا جواب سنے بغر ہی انہوں نے اپنا رخ ٹیوب لائیٹ کی طرف کر دیا۔ دونوں ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا۔۔۔پھر پھدی کو بلکل میرے منہ کے آگے کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔لو شاہ جی۔۔۔اب میری پھدی کو جی بھر کے دیکھ لو۔۔ان کی بات سن کر میں گھٹنوں کے بل قالین پر بیٹھا۔۔۔۔۔اور بڑے غور سے پھدی کی طرف دیکھنے لگا۔۔
واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔کیا خوبصورت پھدی تھی۔۔یقین کریں ان کی چوت پیور وہائیٹ تھی اور اس پر کالے رنک کے ہلکے ہلکے سے بال تھے۔سفید پھدی پر کالے بال بہت اچھے لگ رہے تھے۔۔۔البتہ چوت کے ہونٹ ڈراک براؤن رنگ کے تھے۔۔۔میرے خیال میں چونکہ ان بے چاروں کو بڑی مار پڑی تھی۔۔ اس لیئے گلابی سے براؤن ہو گئے تھے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ پھدی سے لیس دار پانی بھی رس رہا تھا۔۔۔میں نے اپنی ہتھیلی ان کی چوت کے نیچے رکھ دی۔۔تو چند ہی لمحوں کے بعد۔۔۔ان کی چوت سے ٹپ ٹپ پانی گرنا شروع ہو گیا۔۔آہ ہ ہ۔۔۔۔کیا بتاؤں دوستو کہ وہ کس قدر دلکش اور شہوت انگیز نظارہ تھا۔۔۔میں پیار اور بڑی ہی مستی سے ان کی چوت کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔اس دوران میری نظر ان کے دانے پر پڑی۔۔۔۔وہ براؤن رنگ کا کافی پھولا ہوا دانہ تھا۔۔جو کہ بڑی شان سے چوت کھڑا تھا۔۔۔میں نے اس پھولے ہوئے دانے کو اپنی انگلیوں اور انگھوٹھے کی مدد سے پکڑا۔۔۔۔۔۔اور جیسے ہی اسے مسلنے لگا۔۔تو میرے ایسا کرنے سے باجی تڑپ اٹھی۔۔ادھر جیسے جیسے میں اس کو مسلتا ویسے ویسے وہ تڑپتی اور ۔۔ہلکی آواز میں سسکتے ہوئے چیخیں مارتی جاتی۔۔اس دوران ان کی پھدی خود بخود ہی “کھل بند” ہونے لگی۔۔اور ساتھ ساتھ کافی مقدار میں پانی بھی چھورٹی جای۔۔۔پھر اچانک انہوں نے میرے سر کو پکڑ کر پھدی کے نیچے رکھتے ہو ئے۔۔۔اوراپنی ٹانگوں کو مزید کھولتے ہوئے بولیں۔۔۔۔
۔شاہ جی۔۔پھدی کو بہت دیکھ لیا۔۔اب چاٹنا شروع کر۔۔۔یہ سن کر میں نے اپنے منہ سے زبان نکالی ۔۔۔چوت کو چاٹنے کے ساتھ ساتھ ۔۔دانے کو بھی مسلنا شروع ہو گیا۔۔۔اگلے ہی لمحے ان کی چوت سے لیس دار پانی ٹپک ٹپک کر میری زبان پہ گرنا شروع ہو گیا۔۔ان کی پھدی کا پانی کافی نمکین اور مزےدار۔۔تھا۔۔اتنی دیر میں باجی پر جنون طاری ہو گیا اور وہ اسی جنون کے زیر اثر انہوں نے میرے سر کو پکڑ لیا۔۔۔اور پھر اپنی پھدی کو عین میری زبان کی سیدھ میں رکھا۔۔۔اور پھر ہپس کو تیز ی سے آگے پیچھے کرنے لگیں۔جس کی وجہ سے میری زبان پھدی کے ہونٹوں سے رگڑنے لگی۔۔۔۔ان کی چوت سے بڑی ہی مست مہک نکل رہی تھی۔۔چوت کاپانی میری زبان پر گر رہا تھا۔۔۔اور پھدی کے گرم ہونٹ میرے ہونٹوں اور زبان سے رگڑ کھا رہے تھے۔۔اس دوران میں نے اپنی دونوں ہاتھو کی انگلیوں کی مدد سے ان کی پھدی کے لپس کھولے۔۔۔اور اپنی زبان کو گول کرتے ہوئے ۔۔اس کے اندر ڈال دیا۔۔چوت کی دیواریں اندر سے بڑی ہی نرم اور لچکیلی تھیں۔۔ان لچکیلی دیواروں سے پانی رس رہا تھا۔۔۔جسے میں جتنا چاٹ کے صاف کرتا وہ اتنا ہی مزید آ جاتا تھا۔۔۔ وہ بھی بڑے مست انداز میں اپنے ہپس کو اوپر نیچے کر رہیں تھیں جب وہ اوپر ہوتیں تو میری گول زبان پھدی کے ہونٹوں تک آ جاتی اور جب وہ اپنے ہپس کو نیچے کرتیں ۔۔تو میں اپنی زبان چوت کی گہرائی تک لے جاتا۔
کچھ دیر تک یونہی کھیل جاری رہا ۔۔۔پھر ان کی اور میری ہمت جواب دے گئی۔۔اور میرا لن پھدی میں جانے کے لیئے شور مچانے لگا۔۔۔تب میں اور وہ اکھٹے کھڑے ہوئے۔۔ہم نے ایک بار پھر شارٹ سی کسنگ کی۔۔پھر اپنے منہ کو ہٹا کر بولیں۔۔۔۔لن چسوائے گا؟۔۔تو میں خوشی سے نہال ہوتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔آپ لن بھی چوستی ہو؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔تو وہ بڑے ہی سیکسی موڈ میں کہنے لگیں۔۔ ۔میں گانڈ بھی مرواتی ہوں۔۔ پھر ہنس کر بولیں سمجھا کر نہ پگلے۔۔۔۔ جب میں پھدی چٹوا سکتی ہوں۔۔۔۔تولن بھی چوستی ہوں گی ۔۔پھر وہ میرے سامنے قالین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں اور لن ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔تو چوپے کا تصور کرتے ہوئے میرے منہ سے سسکی سی نکل گئی۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔۔۔ابھی تو میں نے منہ میں ڈالا ہی نہیں اور تم پہلے سے ہی سسکیاں بھرنے لگے ہو۔۔تو میں ان سے بولا۔۔۔۔میں چوپے کے تصور سے ہی مست ہو رہا ہوں۔۔۔مجھے پورا یقین ہے کہ آپ جیسی سیکسی لیڈی بہت اچھا لن چوستی ہو گی۔۔۔تو وہ لن کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ میرا خاوند بھی یہی کہتا تھا۔۔ یہ کہہ کر انہوں نے منہ سے زبان نکالی اور۔۔ لن کو چاٹتے ہوئے بولیں۔۔۔چھوٹے صاحب۔۔ تمہارا سامان کافی بڑا ہے۔۔۔۔پھر بڑی مستی میں کہنے لگیں۔۔تم نےاپنی عمر سے بڑا لن رکھا ہوا ہے۔اتنا بڑا لن کہاں سے لائے ہو؟؟؟؟؟۔۔۔۔تو میں ان سے بولا۔۔۔بڑا لن ہونا کوئی بری بات ہے؟۔۔۔تو وہ سسک کر بولیں۔۔۔نہیں بہت اچھی بات ہے تبھی تو تمہارا لن چوس رہی ہوں۔۔۔
اتنی بات کرنے کے بعد۔۔۔انہوں نے میرے مشروم ٹوپے کو۔۔۔اپنے نازک ہونٹوں کی گرفت میں لیا۔۔پھر ہونٹوں کے اندر سے اسے چاٹنے لگیں۔۔میں مستی میں آکر سسکتے ہوئے تڑپنے لگا۔۔۔مجھے تڑپتے دیکھ کر انہوں نے بڑے جوش سے چوپا لگانا شروع کر دیا۔۔۔وہ لن کو منہ سے باہر نکال کر اس پر تھوک لگاتیں ۔۔پھر اسے ہاتھ میں پکڑ کر آگے پیچھے کریں۔۔اور ۔پھر اسی تھوک سمیت اسے منہ میں لے لیتیں۔۔۔اسی طرح انہوں نے بڑی مستی سے چوپا جاری رکھا۔۔۔بے شک وہ بہت اچھا لن چوس رہیں تھیں۔۔۔۔لیکن اب میں انہیں چودنا چاہتا تھا۔۔اس لیئے میں نے اپنا لن ان کے منہ سے کھینچ کر باہر نکالا۔۔۔جیسے ہی میں نے ان کے منہ سے لنڈکو ہٹایا۔۔۔۔تو دیکھا کہ ان کے ہونٹوں کے آس پاس کے ایریے سے تھوک ٹپک رہا تھا ۔۔۔ادھر لن نکالتے ہی وہ کہنے لگیں۔۔۔تھوڑا اور چوسنے دو نا یار۔۔۔۔تو میں ان سے بولا۔۔نہیں باجی مجھے پھدی مارنی ہے۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہی اک ادا سے بولیں۔۔ساری رات پڑی ہے۔۔۔مارتے رہنا۔۔۔۔تو میں بھی اسی ٹون میں بولا۔۔۔ساری رات پڑی ہے آپ بھی اسے چوستی رہنا۔۔ابھی مجھے چودنے دیں۔
پھر میں نے انہیں بستر پر لیٹنے کو کہا۔۔۔تو وہ قالین سے اٹھ کر بیڈ پر چلی گئیں۔۔اور بجائے لیٹنے کے وہاں گھوڑی بنتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔مجھے اس سٹائل میں چدوانا پسند ہے۔۔۔اتفاق سے مجھے بھی ڈوگی سٹائل میں چودنا بہت پسند ہے تھا۔۔۔اس لیئے میں بیڈ پر چڑھا۔۔اور گھٹنوں کے بل چلتا ہوا ان کے پیچھے آ گیا۔۔۔اب میں نے اپنےلن کو ان کی پھدی کے لپس پر رکھا۔۔وہ چونکہ پہلے ہی کافی چکنی ہو چکی تھی اس لیئے ٹوپے کو پھدی کے پانی سے بھگو کر۔۔۔میں نے ایک زور دار گھسہ مارا۔۔۔۔تو میرا لن پھسلتا ہوا چوت کے اندر اتر گیا۔۔۔ان کے منہ سے ایک شہوت انگیز سسکی نکلی۔۔۔آآآآآآ ہ ہ ہہہہ ہہ ہ ہ ہ جانی۔۔۔ان کے منہ سے نکلنے والی سسکی اس قدر لذت آمیز اور سیکسی تھی کہ اسے سن کر میں جوش سے بھر گیا۔۔۔۔پھر میں نے لن باہر نکالتے ہوئے فل پاور سے ۔۔۔۔دھکہ لگایا۔۔تو میرے پاورفل دھکے کی تاب نہ لا کر۔۔وہ ایک دم سے آگے گرنے لگی۔۔۔لیکن پھر سنبھلتے ہوئی بولی۔۔۔۔شاہ جی ۔۔زبردست۔۔شارٹ لگایا ہے۔۔۔اب ایسے ہی مجھے چودو۔۔۔۔۔چنانچہ ان کی فرمائش پر میں نے اسی رفتار سے چودنا شروع کر دیا۔۔تھوڑی دیر بعد وہ گردن موڑ کر بولی۔۔۔شاہ جی ۔۔اپنے انگھوٹھے کو میرے مین میں ڈال دو۔۔۔میں نے دھکوں کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے اپنا انگھوٹھا ان کے منہ میں دے دیا۔۔
۔۔۔انہوں نے میرے انگھوٹھے کو چوسنے کے بعد۔۔۔اس پر ڈھیر سارا تھوک لگایا۔۔پھر اسے منہ سے نکالتے ہوئے کہنے لگی میری گانڈ پہ تھوک لگا کر اسے اندر ڈال دو۔۔چنانچہ میں نے وہیں کھڑے کھڑے ان کی گانڈ پر تھوک پھینکا۔۔۔۔اور پھر تھوڑے سے مساج کے بعد۔۔انگھوٹھے کو گاند میں دے دیا۔۔جو کہ بڑے آرام سے اندر چلا گیا۔۔۔اس سے اندازہ ہوا کہ باجی نے کافی گانڈ مروائی تھی۔۔۔جیسے ہی میرا انگھوتھا۔۔ان کی گانڈ میں اترا۔۔۔۔انہوں نے اپنی گانڈ کو بھینچ لیا۔۔۔۔ان کی گانڈ بہت ہی نرم اور اندر سے بہت گرم تھی۔۔۔۔گانڈ کو کھل بند کرنے کے بعد وہ بڑے سیکسی موڈ میں بولیں۔۔۔۔اب دھکے ماررررررررررر۔۔اب صورت حال یہ تھی کہ میرا انگھوٹھا ان کی نرم گانڈ می تھا۔۔۔اور لنڈ چوت میں۔۔۔اور میں بڑے زور زور سے دھکے مار رہا تھا۔۔۔۔ مزے کی تیز لہریں ۔۔۔۔۔۔ہم دونوں کے۔جسموں میں گردش کرنے لگیں تھیں۔ اسی مزے کے کارن ۔۔انہوں نے خود ہی اپنے ہپس کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔میں بھی تیز تیز جھٹکے مار رہا تھا ۔۔۔ہم دونوں بڑے چوش و خروش سے چدائی میں مصروف تھے۔۔جیسے ہی میں جھٹکے مارتا ۔۔۔۔وہ بڑے جوش سے کہتیں۔۔۔۔اور تیز مار۔۔۔اور میں ان کی گانڈ میں انگھوٹھے کو گھماتے ہوئے۔۔۔اور تیز دھکے مارتا ۔۔۔تو وہ مزے سے کہتیں۔۔۔شاباششش۔۔۔شاہ۔۔۔میری پھدی پھاڑ دے۔۔۔اسکے ساتھ ساتھ وہ خود بھی پوری طاقت سے اپنے ہسپ کو میرے لنڈ پہ مارتی جا رہیں تھیں۔۔اور میں چوت کی گہرائی میں گھسے مارتا جا رہا تھا۔کچھ دیر بعد میں محسوس کیا کہ باجی کی سانسیں تیز ہوتی جا رہیں ہیں۔۔یہ دیکھ کر میں مزید جوش سے گھسے مارنے لگا۔۔۔اگلے چند لمحوں بعد میری منزل بھی قریب آتی محسوس ہوئی۔۔۔اوراب ہم دونوں کی سانسیں۔۔مزید تیز ہو گئیں۔۔ایسے میں باجی چلا کر بولیں۔۔آآآآآآآآآآآآآآآ۔۔۔ہ ہ ہ شاہ میں گئی۔۔۔۔فل طاقت سے چود مجھے۔۔۔۔اور میں نے آخری آخری دھکے فل سپیڈ سے بھی تیز مارنے شروع کر دیئے۔اس وقت ہم دونوں میں مزے کی آخری آخری لہریں آئیں۔۔۔اور پھر شور مچاتے ہوئے ہم دونوں اکھٹے ہی ڈسچارج ہو گئے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "سفر وسیلہء ظفر (شاہ جی کی فل ہاٹ اسٹوری)"