میرا نام بہزاد ہے میری عمر 15 سال کے قریب ہے میں ایک گاؤں کا رہائشی ہوں کچھ سال پہلے میرے والد کا انتقال ہو چکا ہے میں نویں جماعت میں پڑھتا ہوں ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور ہے قریب کوئی بھی شہر نہیں لگتا جس کی وجہ سے گاؤں کی اکثر ابادی پسماندہ اور غریب لوگوں پر ہی مشتمل ہے چند گھر ہی مالی طور پر مستحکم ہیں باقی سب نچلے درجے پر ہی رہتے ہیں ہمارا شمار بھی نچلے درجے کے لوگوں میں ہی ہوتا ہے ابو بھی محنت مزدوری کرتے اس دنیا سے چلے گئے ہم ٹوٹل چار بہن بھائی ہیں سب سے بڑی بہن کا نام نصرت ہے نصرت کی عمر 28 سال ہے باجی نصرت ماسٹر کر چکی ہے اس سے چھوٹی سعدیہ کی عمر 26 سال ہے سعدیہ صرف گریجویشن کر سکی ہے اس سے چھوٹی کا نام اصباح ہے اصباح کی عمر18 سال ہے ہمارا گاؤں چونکہ شہر سے دور تھا اس لیے گاؤں میں کوئی سکول نہیں تھا اس لیے ایک این جی او نے نیم سرکاری ادارہ قائم کر رکھا تھا جہاں لڑکے لڑکوں کو میٹرک تک تعلیم دی جاتی تھی یہ سکول پرائیویٹ این جی کےزیر اثر چلتا تھا چونکہ باجی نصرت بھی اسی میں پڑھتی تھی وہ کافی لائق اور ذہین تھی تو میٹرک کے بعد اسی سکول کے وکالت شپ پر باجی نصرت شہر جا کے پڑھنے لگی اور اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس گاؤں آئی تو اسی سکول میں باجی ٹیچر لگ گئی سعدیہ بھی وہیں سے گریجویشن کر کے واپس آئی تھی اس لیے وہ بھی وہیں پڑھانے لگی میں بھی اسی سکول میں پڑھتا تھا باجی نصرت اور سعدیہ کو ادارے کی طرف سے کچھ تھوڑا بہت ہی پیسے ملتے جس سے گزارہ مشکل سے ہی ہوتا ابو کے انتقال کے بعد تو اور آمدنی کم ہو گئی لیکن لیکن گزارہ ہو ہی رہا تھا ابو کے بعد گھر کا سارا نظام باجی نصرت کے ہاتھ میں تھا امی بھی گھر داری ہی سنبھالتی تھی میں بھی بڑا ہو رہا تھا باجی نصرت اور سعدیہ کی تنخواہوں سے گزر بسر مشکل سے ہی ہوتی تھی مجھے بھی شوق تھا کہ میرے پاس پیسے ہوتے کبھی کبھار ضد کرنے پر باجی چند پیسے دے دیتی میرے باہر کے کچھ دوستوں کو روز پیسے ملتے لیکن ہم کچھ دوست صرف ان کو دیکھتے ہی رہتے ہمارے دل میں بھی حسرت ہوتی کہ کاش ہمیں بھی پیسے ملتے پر یہ حسرت ہی رہتی ۔ میری حسرتیں بڑھتی جا رہی تھیں جبکہ ان کو پورا کرنے کا کوئی سین نظر نہیں آ رہا تھا ہمارے گاؤں کا ماحول ایسا تھا کہ اچھے گھر کے لڑکے ہم جیسوں کو پیسے دے کر ان سے غلط کام کرواتے تھے کچھ لڑکے بھی پیسوں کے لالچ میں کرتے تھے کھاتے پیتے گھروں کے اوباش لڑکے غریبوں کی لڑکیوں کو لالچ دے کر پھنساتے تھے کچھ پھنس جاتیں کچھ نہیں پھنستی تھیں پھر وہ بڑے لوگوں کے خلاف کوئی بات بھی نہیں کرتا تھا باجی نصرت اور سعدیہ ابھی بچی ہوئی تھیں اس کی وجہ باجی نصرت اور سعدیہ کا سخت رویہ تھا وہ تھوڑی ڈھاڈھی تھیں اکثر کئی لڑکوں کی پٹائی بھی ہو چکی تھی میں ان دنوں نیا نیا جوان ہوا تھا میرا ایک دوست اور ہم جماعت تھا اس کا نام ندیم تھا اس کے حالات توں ہم سے بھی گئے گزرے تھے لیکن اکثر سکول میں میں اس کے پاس کافی پیسے دیکھتا تھا اس کی بہن کا نام ثانیہ تھا وہ باجی نصرت کی سہیلی تھی دونوں شہر سے پڑھ کر آئی ہوئی تھیں اور پکی سہیلیاں تھیں اور سکول میں پڑھاتی تھیں ندیم روز سکول میں کچھ نا کچھ خریدتا تھا میں اس سے پوچھتا کہ وہ یہ سب کہاں سے لاتا ہے وہ کہتا کہ باجی نے دئیے ہیں حالانکہ ندیم کا خاندان ہم سے بڑا تھا وہ چھ بھائی بہن تھے اور صرف اسکی بہن سکول پڑھا کر گھر چلاتی تھی اس کا ابا نشئی تھا اور نشہ کرکے پڑا رہتا تھا میں حیران تھا کہ میری دو بہنوں کی تنخواہوں سے ہمارا گزارہ مشکل تھا جبکہ وہ اکیلی بہن کے ہوتے ہوئے بھی عیاشی کرتا تھا میں اس سے اکثر پوچھتا تھا کہ یار مجھے بھی کوئی طریقہ بتاؤ عیاشی کا وہ ہنس دیتا اور کہتا کہ تیرے سے نہیں ہو گا میں سوچتا رہتا ندیم میرا گہرا دوست تھا وہ اکثر میرے ساتھ رہتا تھا میں اس کے ساتھ گاؤں کے بڑے بڑے اوباش لڑکوں سے اس کی یاری تھی وہ اکثر ان کے ساتھ ہوتا تھا ایک دن اتوار کا دن تھا کہ ندیم اسامہ بھائی کی بیٹھک سے نکلا اور تیزی سے گھر کی طرف جانے لگا اسامہ گاؤں کے چوہدری کا بیٹا تھا اس کی عمر 28 سے 30 سال تھی اپنے باپ کی دولت پر عیاشی کرتا تھا گاؤں کے سب اوباش اس کی بیٹھک میں اکھٹے ہوتے سب مل کر انجوائے کرتے اسامہ کا ڈیرہ گاؤں سے تھوڑا باہر تھا روز ڈیرے پر اسامہ اور اس کے دوست لڑکیوں لاتے اور ساری رات لڑکیوں کا مجرہ چلتا ہر غلط کام اس ڈیرے پر ہوتا تھا چونکہ وہ چوہدری کا بیٹا تھا اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا تھا اسے کھلی چھٹی تھی گاؤں کے درمیان میں اس کا گھر تھا وہاں ہر وقت اوباش اکھٹے رہتے اور جب جی چاہتا اکثر راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑتے رہتے لوگ بھی ڈر کے مارے بولتے نہیں تھے اکثر بس تماشہ دیکھ کر مزے لیتے تھے میں نے اسے اسامہ کی بیٹھک سے نکلتا دیکھا تو اسے بلایا وہ مجھے دیکھ کر رک گیا اس کے چہرے پر پہلے تو گھبراہٹ چھائی پھر ہلکی سی شرارتی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی میرا ذہن سوالیہ انداز میں اسے غورا وہ بولا بہزاد توں روز پچھدا ہائیں کہ میں کی کردا آجا آج تینوں دساں میں کردا آں اور مجھے لے کر گھر کی طرف چل دیا میرا زہن سوالات سے اٹا ہوا تھا کہ یہ اب کیا کرے گا کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی میں اس سے پوچھتا تھا وہ کہتی تھی خود دیکھ کے اسی دوران ہم اس کے گھر پہنچ گئے شام سے تھوڑا پہلے کا وقت تھا ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو سامنے اس کی بڑی بہن باجی ثانیہ صحن میں بیٹھ کر آٹا گوندھ رہی تھی ندیم کو دیکھ کر اس کی بہن کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی پھیل گئی اور چہرے پر شرارتی سا انداز اسے دیکھنے لگا وہ بولی دیمی توں نہیں سدھرنا وہ ہنس دیا ثانیہ اٹھی اور ہاتھ دھو کر دونوں بہن بھائی اندر چلے گئے میں حیران تھا کہ ایسی کیا وجہ ہو گی کہ یہ بھائی بہن اندر گئے تھوڑی دیر بعد دونوں اندر سے ہنستے ہوئے نکلے باجی ثانیہ نے مجھے دیکھا اور سرگوشی میں کوئی بات ندیم سے کی تو دونوں ہنسنے لگے باجی ثانیہ کے چہرے پر شرارتی سے مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اور وہ مجھے دیکھ رہی تھی میں شرما سا گیا اور منہ نیچے کرگیا ندیم میرے پاس آیا اور بولا چل سکا میں اسکے ساتھ نکل آیا اور بولا دیمی توں دسی تے نہیں اس نے مجھے دیکھا اور ہنس کر بولا کی جلدی اے دس دیندا آں میں چپ ہوکر اسکے ساتھ چلنے لگا تھوڑا سا ایک ویران سی حویلی تھی جس میں گاؤں والے گند پھینکتے تھے دینی نے ادھر ادھر دیکھا اور میرا ہتھ پکڑ کر اندر لے کر چلا گیا اندر جا کر اس نے مجھے دیکھا تو اس کا منہ لال سرخ تھا میں اس کو دیکھ کر ڈر سا گیا وہ بولا دیکھ بہزاد اے میرا راز اے میں نے آج تک کسی کو نہیں دسیا میں آج صرف تینوں دسنڑ لگا ہاں تے وعدہ کر توں کسے نوں ناں دسیں گا میں نے اسے دیکھا اور بولا دیمی گل کی ہے وہ بولا اوہ وی دسدا پہلے وعدہ کر میں بولا دیمی توں مینوں جانڑدا ایں آج تک تیری کوئی گل کسے نوں دسی بچوں والی بات تھی وہ بولا پر اے ہور گل تے بڑی سیکرٹ ہے میں بولا فکر نا کر میں وعدہ کردا ہاں اس نے مجھے دیکھا اور گھونٹ بھر کر باہر دروازے کی طرف دیکھا دیمی کو پتا نہیں کیوں پسینہ چھوٹا ہوا تھا اس نے پھر گھونٹ بھرا میں بھی حیران تھا کہ ایسی کیا بات ہے جو دیمی اتنا چھپا رہا ہے میں اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اچانک اس نے جیب سے ایک بڑا سا ٹچ فون نکالا اور میرے سامنے کردیا جسے دیکھ کر میں تو ڈر سا گیا تھا میں بولا اوئے دینی اے کدو لیا ہئی اس نے مجھے اشارے سے چپ رہنے کا کہا اور بولا بھائی اسامے دا اے میں چپ ہوگیا اس نے پھر فون ان کیا اور ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر مجھے قریب کیا اور ہم دونوں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے اس نے موبائل کی سکرین میری طرف کی تو سامنے کی تصویر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا میرا تو گلا خشک ہو گیا موبائل میں باجی ثانیہ کی بغیر دوپٹے کے تصویر تھی یہ دیکھ کر میرے تو پسینے چھوٹ گیے میں ہکا بکا اسامے کے موبائل میں باجی ثانیہ کی تصویر دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے باجی ثانیہ تو بڑی شریف بنتی تھی پر یہ کیا ہے مجھے حیران دیکھ کر دیمی بولا بہزاد ککھ سمجھ آئی کے نہیں میں نے سر ہلایا اس نے ایک اور تصویر مجھے دیکھائی جس میں باجی ثانیہ کسے ہوئے لباس میں تھی اور باجی کے دوپٹے کے بغیر ممے ہوا میں تن کر کھڑے نظر آرہے تھے میں یہ سب دیکھ کر دنگ تھا اس نے موبائل بند کیا میرا تو جسم کانپ گیا تھا باجی ثانیہ کو غیر مرد کے موبائل میں دیکھ کر دیمی ہنس دیا اور بولا بہزاد بھائی اسامے نوں باجی دیاں تصویراں ویچدا آں اس کے یہ الفاظ سن کر میں دنگ رہ گیا میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور بولا کیوں وہ بولا بہزاد کی کرئیے گزارہ وی تے کرنا میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا وہ بولا بہزاد ہک تصویر دے پنج روپے ملدے ہین میں یہ سن کر حیران ہوگیا پنج روپے اسوقت بڑی چیز تھی کم از کم میرے ایک دن کی خرچہ تو تھی مجھے تو پانچ ہی بڑے تھے میں نے گھونٹ بھر اسے دیکھا تو وہ مسکرا دیا اور بولا چل چلیے میں بھاری قدموں سے اس کے ساتھ چلتا ہوا بیٹھک کی طرف گیا میں باہر کھڑا ہوگیا ور دینی اندر چلا گیا اس نے چار تصویروں کے دینی کو بیس روپے دئیے اور بولا دیمی بھین نوں اس توں اگے وی منا اس نوں آکھ اپنی فل ننگیاں تصویراں دے یا مڑ ہک رات ساڈے کول آجاوے من مرضی دی قیمت وصول کرے دینی بولا بھائی باجی نوں آکھیا تے ہے او آکھ رہی سوچدی آں اسامہ بولا بھین یاوی نوں مہینہ ہوگیا سوچ ہی رہی وہ پھر بولا دیمی بھین دا نمبر دے چا 100 روپیہ دیساں میں یہ سن کر چونک گیا دینی کچھ نا بولا تو اسامہ بولا چل اے 50 روپیہ لئے جا باقی 50 بھین دا نمبر دے کے لئے جائیں ہنڑ چل جا یہ سن کر دیمی جلدی سے باہر آگیا میں ہکا بکا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا وہ ہنس دیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر دکان کی طرف چل دیا وہاں سے اس نے اور میں نے ہر چیز سے بے نیاز ہوکر اپنی پسند کی چیزیں کھائیں 50 روپیہ اس نے بچا لیا میں بولا دیمی اسدا کی کرنا ہئی وہ ہنس کر بولا اے باجی دا حصہ اے میں اسکے منہ کو دیکھ رہا تھا میں بولا۔ اجی کجھ نہیں آکھدی وہ ہنس کر بولا یار توں آپ ویکھیا تے ہے باجی آپے دتیاں ہینڑ کافی عرصے توں باجی دے رہی ہے میں ہکا بکا اسے دیکھ رہا تھا میں بولا باجی نوں منایا کنج ہئی اس نے مجھے ساری گیم بتائی میرے توں لوں لوں کھڑے تھے کام تو بڑا گھٹیا تھا پر پیسے تو آ رہے تھے دیمی اپنی من مرضی کر رہا تھا مجھے اس پر رشک آیا دیمی اور میں شام تک ساتھ رہے میں شام کو گھر آگیا باجی نصرت نے مجھ سے پوچھا کہ کدھر تھا میں نے اسے بتایا کہ دینی کے ساتھ تھا پورے محلے میں دینی میرا دوست باجی بھی میرا خاص خیال رکھتی تھی کیونکہ میں اکلوتا تھاا اور اوپر سے گاؤں کا ماحول بھی کافی خراب تھا اس لیے وہ مجھے بچا کے رکھتی تھی شام کا کھانا کھانے کے بعد میں جلد ہی بستر پر چلا یا میرے ذہن میں بار بار وہی دیمی والی بات گھوم رہی تھی مجھے یہ اچھا بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اپنی بہن کی تصویریں بیچ کر وہ پیسے کما رہا تھا اس کی بہن بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایسے ہی میرے ذہن میں آیا کہ کاش باجی نصرت بھی میرا ساتھ دے تو میں بھی پیسے کماؤں یہ سوچ کر مجھے جھٹکا لگا اور میرا دل ڈر سے گیا باجی نصرت بہت سخت تھی وہ تو ایسا نہیں کرے گی اور میں ایسا سوچ ہی کیوں رہا تھا پر میرے اندر دیمی کو دیکھ کر لالچ انگڑائی لے چکا تھا لیکن میں نے وقتی خود کو سمجھایا اور سو گیا صبح اٹھا تو صبح اور سکول جانے کی تیاری کر لی میں سکول پہنچا تو دیمی آج تھوڑا لیٹ آیا اس کی بہن ثانیہ کا چہرہ بھی آج کھل رہا تھا باجی اسے دیکھ کر اس سے باتیں کرنے لگی دیمی میرے پاس آیا میں نے اس سے لیٹ آنے کی وجہ پوچھیں اس نے کہا بتاتا ہوں تفریح کے وقت ہمیں موقع ملا دیمی مجھے ہاتھ پکڑ کر کھانے کی ریڑھی پر لے گیا اور ہنس کر بولا بہزاد آج اپنی مرضی دی جو تیرا دل کردا شئے لئے میں نے وجہ پوچھے بغیر ہی اپنی پسند کی کچھ چیزیں ہیں دیمی نے بھی لیں اور اس نے جیب سے سو روپیہ نکالا میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا وہ مجھے دنگ دیکھ کر ہنس دیا ریڑھی والا بابا چھیدا اس کو اپنی چیز بکنے سے غرض تھی اس نے بھی چینی سے کچھ نہیں پوچھا دیمی باقی پیسے لے کر مجھے ہاتھ سے پکڑ کر ایک طرف لے گیا ہم بیٹھ کر کھانے لگے میں نے پوچھا دیمی 100 کدو لیا ہئی وہ ہنسا اور بولا بھائی اسمے دتا اے میں بولا او کیوں وہ ہنس کر بولا کل اس آکھیا ہا نا کہ باجی دا نمبر لئے دے میں راتی باجی نوں گل کیتی تے باجی آکھیا کہ گل کرن دا ہزار روپیہ لیساں گئی میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا کہ صرف بات کرنے کا ہزار روپیہ میں نے حیرانی سے دیمی کو دیکھا اور بولا اوئے ہزار روپیہ۔ وہ بولا ہا تے ہور کی اسامے آکھیا کہ میں دیساں گیا ہزار روپیہ میں فر راتی اسامے نوں نمبر دے آیا ہاس باجی دا تے ہزار روپیہ لئے آیا ہاس اس مینوں انعام دتا 100 روپیہ اور ہنس دیا میں یہ سن کر حیرانی سے چیز کھانے لگا اور سوچنے لگا کہ دیمی کتنا لکی ہے جو چاہے مرضی کرتا ہے میں انہیں سوچوں میں چیز کھا رہا تھا کہ بریک ختم ہوئی ہم کلاس میں چلے گئے ان دنوں ہزار تو آج کے دس ہزار کے برابر تھا بہت ہی سستا دور تھا آج سے دس سال پہلے کی بات تھی میں ساری کلاس میں اس بات کو ہی سوچ رہا تھا کہ اسامے کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں کہ اس نے دیمی کی بہن کو ہزار دے دیا پر اس نے باجی ثانیہ سے بات بھی تو کرنی تھی میں یہ سن کر حیران تھا چھٹی کے بعد ہم گھر گئے اور کھانا کھا کر میں چھت پر چلا آیا میرا ذہن اب کشمکش کا شکار تھا دیمی کو پیسوں میں کھیلتا دیکھ کر میری لالچ بھی بڑھ رہی تھی لیکن میں کیا کروں اس کی تو بہن اس کے ساتھ تھی مجھے تو اپنی بہنوں سے ڈر لگتا تھا پھر نصرت تو تھی بھی بہت سخت مجھے آج تک کچھ نہیں کہا پر وہ سخت تھی تھوڑی گھر کی ساری ذمہداری اس کی تھی پر شاید اس وجہ سے وہ تھوڑی سخت تھی اس نے تو یہ سب نہیں کرنا تھا میں کافی دیر بیٹھا رہا پھر پڑھائی کا وقت ہوگیا باجی سے پڑھ کر میں باہر نکلا تو دیمی میری طرف ہی آ رہا تھا میں اسے دیکھ کر کھل سا گیا وہ مجھے لے کر دکان کی طرف گیا اس نے بتایا کہ باجی آج اسامہ بھائی سے باتیں کر رہی ہے فون پر اس لیے آج مجھے پڑھائی سے چھٹی ہے میں بولا واہ تیری تو موجیں ہیں ہم دکان پر گئے اور کچھ کھایا پیا اب روز ہی دیمی مجھے کھلانے پلانے لگا اس کے پاس پیسے آ رہے تھے بہن کی کمائی چل رہی تھی اسی طرح دو تین ہفتے گزر گئے میں فل انجوائے کر رہا تھا جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا میرے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھتی جا رہی تھی کہ مجھے بھی اب پیسے چاہئیں دیمی کی طرح شاید دیمی کی ناجائز کمائی کو کھانے کا اثر تھا کہ میرا دل اب ڈر سے خالی ہوگیا تھا باجی کو سوچ کر جو ڈر لگتا تھا اس کی جگہ اب لالچ اور مزے نے لے لی تھی لیکن ابھی تک میرے اندر جھجھک تھی میں ڈر بھی رہا تھا کہ دیمی سے کیسے بات کروں اگر کروں تو کیا کروں دیمی اب پانچ دس سے آگے نکل کر 100 روپیوں میں کھیل رہا تھا۔ میں اب یہ سوچ رہا تھا کہ میں کب تک دیمی کے پیسوں پر عیاشی کروں گا اگر میں بھی باجی نصرت یا سعدیہ کی تصویریں دے کر پانچ دس روپے لے لوں تو میرے لیے یہ ہی بہت ہیں لیکن مسئلہ تھا کہ میں تصویریں لوں گا کیسے انہی سوچوں میں ہفتہ گزر گیا مجھے دیمی نے بتایا تھا کہ پہلے وہ بھی باجی ثانیہ کی چوری تصویریں لیتا تھا پھر ایک دن اس کی بہن نے پکڑ لیا ثانیہ نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ خود تصویریں دینے لگی اس نے بتایا کہ تصویروں کی قیمت ثانیہ خود طے کی تھی اب تو ثانیہ اسامے سے فون پر باتیں کرتی تھی بدلے میں کافی پیسے لے رہی تھی انہی سوچوں میں او کئی دن گزر گئے مجھ سے فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا ایک دن صبح میں سکول گیا تو آج باجی ثانیہ سکول نہیں آئی تھی باجی نصرت نے دیمی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تفریح کے وقت دیمی کے پاس آج پانچ سو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا اور جو بات دیمی نے مجھے بتائی وہ سن کر تو میرے رونگٹے ہی کھڑے ہو گئے اس نے بتایا کہ آج رات باجی ثانیہ اسامے سے ملنے گئی تھی اور واپسی پر جب صبح گھر آئی تو 20 ہزار لائی تھی جو اس نے اماں کو دیا تھا اماں بڑی خوش تھی میں 20 ہزار سن کے ہی تڑپ گیا اور باقی کی باتیں مجھے یاد نہیں دیمی نے کیا کہا میرے ذہن میں تو بیس ہزار ہی گونج رہا تھا دیمی نے مجھے پلایا تو میں ہوش میں آیا وہ بولا کی سوچ رہیا ایں میں نے بے اختیار کہ دیا واہ یار اسامے نوں ملن دا 20 ہزار کیا بات ہے دیمی بولا ہا پپر ہک سمجھ نہیں آئی یار۔ میں بولا او کی وہ بولا یار جدو رات نوں باجی اسامے نوں ملن گئی ہا او فٹ فاٹ ہا جدو واپس آئی تے اس دی طبیعت خراب ہا۔ کمر پڑھ کے چل رہی ہا تے کنر پھد کے کراہ رہی ہا جدو میں سکول ا رہیا ہاس تے امی اس نوں دبا رہی تے میں باجی دا پتا کرن گیا تے امی اس دی شلوار اندر کجھ پا کے اس نوں ٹکور کر رہی ہا تے باجی کراہ رہی ہا اے کی ہا اسوقت دور تو اتنا جدید تھا نہیں نا ہماری سوچ اتنی کھلی تھی کہ اس کا کچھ پتا ہوتا مجھے بھی کچھ سمجھ نا آیا میں بولا یار چھڈ اے دس کہ اے کنج ہویا وہ ہنس دیا اور بولا بہزاد جے تیرا دل ہے تے تیری گل وی کراں بھائی اسامے نال پر بدلے اچ تینوں وی اپنی بھین دیاں تصویراں دینیاں پوسنڑ میں یہ سن کر چونک کر گھونٹ بھرا اور اسے گھبرا کر دیکھا پر یار میں تصویراں کنج لیساں باجی نوں پتا چل گیا تے او تے جان کڈھ لیسیں وہ بولا او یار ڈر نہیں اے وی تے ویکھ پیسے بڑے آندے موجاں لگ جاندیاں توں فکر نا کر کے باجی نوں پتا لگ گیا تے اسدا وی کجھ کر لیساں فل حال مزے لئے ہک تصویر دے پنج روپے ہینڑ توں چار پنج تصویراں دے دیویں 20 روپے ملنڑ گے میں 20 روپے کا سوچ کر اچھل سا گیا میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا مجھے سوچ میں دیکھ کر وہ بولا وت کی خیال اے میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ٹھیک ہے میں تیار آں میری بات پر وہ ہنس دیا اور بولا اے ہوئی نا گل ہم تفریح ختم ہوئی تو کلاس میں گئے ہم نویں کلاس میں تھے ہماری تعد پانچ سے چھ لڑکے تھے کچھ لڑکے بڑے بھی تھے زیادہ تر ہمیں باجی نصرت ہی پڑھاتی تھی وہ خود کو ہمیشہ چادر میں لپیٹ کر رکھتی تھی کلاس میں وہ ایک ڈاڈھی ٹیچر تھی سب اس سے ڈرتے تھے باہر نکلتے ہوئے وہ برکے میں جاتی تھی باجی سعدیہ بھی برکا لیتی تھی میں باجی نصرت کو چادر میں لپٹا دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس طرح تصویریں لینی ہیں میرے دل میں عجیب سی خوشی بھی تھی اور ڈر بھی تھا کچھ ہی دیر میں ڈر تو خوشی کے نیچے دب گیا کیونکہ پیسوں کا سوچ سوچ کر میرا ذہن شیطانی ہو چکا تھا میں اب نئے نئے منصوبے بھی ذہن میں بن رہا تھا کہ اپنی ساری خواہشات پوری کرنی ہیں چھٹی ہوئی تو میں باجی کے ساتھ باجی دیمی سے بولی دیمی ثانیہ گھر ہی ہے میں اسدا پتہ کرکے جانا وہ بولا جی باجی میں باجی نصرت سعدیہ اور دیمی چھٹی کے وقت ان کے گھر گئے ثانیہ اسوقت لیٹی تھی باجی کو دیکھ کر وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی اس نے اپنی کمر کسی کپڑے کے ساتھ باندھ رکھی تھی ثانیہ کا اترا چہرہ باجی کو دیکھ کر کھل سا گیا باجی کی وہ دوست تھی باجی نے اس سے حال چال پوچھا باجی کو فکر ہوئی تو اس نے بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں بس کل سے بخار بڑا ہے ہم دونوں اندر آگئے اور باتیں کرنے لگے دیمی مجھے منصوبہ سمجھانے لگا کہ کیسے تصویریں لینی ہیں اتنے میں باہر سے باجی کی آواز آئی میں جلدی سے نکل آیا ور ہم گھر آگئے باجی کی عادت تھی کہ وہ کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرتی تھی میں کھانا کھایا تو باجی نصرت اور سعدیہ اندر آرام کرنے چلی گئیں اصباح اسوقت ساتھ والے پڑوسیوں کے ہاں جاتی تھی کیونکہ وہ اور پڑوسیوں کی لڑکی اکھٹے کالج کی پڑھائی کرتی تھیں تو وہ اکثر وہاں ہوتی امی کیچن میں تھی میں وہاں سے نکلا تو دیمی میرا انتظار کررہا تھا چھیدے کی دکان پر جو سکول میں بھی ریڑھی لگاتا تھا میں وہاں پہنچا تو وہ مجھے کے کر اسامے کی طرف چل دیا اسامے کے پاس پہنچ کر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اسامہ اسوقت شاید سو رہا تھا اس نے دروازہ کھولا اور ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرا دیا اس نے بنیان ڈال رکھی تھی وہ بولا دیمی خیر تے اے وہ بولا چل بھائی خیر ہی سے اور مجھے کے کر اندر چلا گیا اسامے نے دروازہ بند کردیا اور بولا دیمی تیری بھین دی طبیعت کیسی ہے ہنڑ وہ بولا باجی تے ٹھیک اے وہ مجھے دیکھ کر بولا اے شہزادے نوں کدے لئے آیا ایں میں تھوڑا گھبرا رہا تھا کیونکہ ایسے کبھی اسامے سے ملاقات نہیں تھی دیمی ہنس کر بولا بھائی توں ہک دن آکھیا ہا نا یہ بات کرتے ہوئے اسامہ بولا اوئے اچھا اچھا میں جو وی آکھیا او چھڈ توں مدا دس خیر اے اور اس کو آنکھ ماری وہ بولا بھائی اے وی اپنی بھین دی تصویراں ویچنا چاہندا اے یہ سن کر اسامہ چونکا اور اچھل کر بیٹھ گیا جیسے اس کے دل کی بات کردی ہو وہ حیرانی سے مجھے دیکھ کر بولا سچی ہی میں نے ہاں میں سر ہلایا وہ خاموش ہوکر مجھے حیرت سے دیکھ کر بولا تینوں دیمی آکھیا یا آپ آیا ایں میں بولا بھائی میرا اپنا دل اے وہ بولا کیوں میں دیمی کو دیکھ کر بولا بھائی اے وی تے باجی ثانیہ دی تصویراں ویچ کے پیسے لئے رہیا اے میرا وی دل ہے وہ ہنس کر بولا دل خوش کیتا ہئی شہزادیا اوراں آ مینوں مل ہک واری میں اٹھ کر اس کے پاس گیا تو اس نے مجھے باہوں میں بھر کر سینے سے لگایا اور بولا آہ واہ یار تیرے کولوں تے تیری بھین دی خوشبو ہنئے ہی آ رہی اے میرا دماغ تو اسوقت اتنا کام کرتا نہیں تھا میں یہ سن کر چپ ہی رہا وہ بولا یار بہزاد تیری بھین دا تے میں عاشق آں کدی اسدی شکل ویکھاویں تے میں تینوں منہ مانگے پیسے دیساں میرے منہ میں یہ سن کر پانی آگیا میں جھٹ سے بولا باجی ہنڑ ستی پئی اے بھائی توں آکھ تے میں تصویراں بنا لیاندا وہ ہنس کر بولا اے دس کس بھین دی بنا لیاسیں میں بولا باجی نصرت دی بنا لیاساں وہ ہنس کر سسک کر بولا اففف نصصصررتتت تے میں مردا آں اور موبائل نکال کر مجھے دیا مجھے چلانا آتا نہیں تھا میں بولا بھائی مینوں تے چلانا نہیں آندا وہ بولا کوئی گل نہیں دیمی اس نوں سکھا یہ کہ کر میں دیمی کے پاس گیا دیمی مجھے موبائل چلانا اور تصویریں بنانا سکھانے لگا پورا گھنٹہ اسامے نے مجھے موبائل چلانا سکھیا میں اچھا خاصا ٹرین ہوگیا تو اس نے مجھے اکیلا بھیجا باہر اور بولا کچھ تصویریں بنا لاؤ میں باہر گیا اور کچھ تصویریں بنا لایا اسامہ دیکھ کر بولا کہ گزارہ ہے آج تصویراں لئے تے اگے تو توں روز میرے کول آکے موبائل چلانا تو دو تن دن اچ فل ٹرین ہو جاسیں اور پھر اپنی جیب سے 50 روپے نکال کر مجھے دئیے اور بولا چل موجاں کر آج ہلے تینوں صحیح تصویراں بناڑ دا ول نہیں آیا کل تو تصویراں لئے آویں موبائل لئے جائیں اور موبائل مجھے دے کر کہا کے اس کو چلانا سیکھوں اور خود لیٹ گیا میں اور دینی کافی دیر موبائل چلانا سیکھتے رہے دیمی نے مجھے سارے گر سکھائے 50 روپیا لے کر میں اتنا خوش تھا کہ میں جلد ہی بہت کچھ سیکھ گیا ہم وہاں سے نکلے اور دکان پر آئے آج میرا دل خوش تھاا میں خوشی سے جھوم رہا تھا آج پہلی بار احساس ہوا کہ میں بھی اپنی ساری خواہشات پوری کرسکتا ہوں چھوٹی چھوٹی خواہشات کےلیے کتنی بڑی قربانی دینے جا رہا تھا یہ مجھے اندازہ نہیں تھا خیر ہم وہاں سے نکلے اور خوب مزے کیے پھر بھی کچھ پیسے بچ گئے میں نے وہ دیمی کو دے دیے کیونکہ اپنے پاس رکھنا خطرے سے خالی نہیں تھا باجی دیکھ لیتی تو پالش ہونی تھی میں اس لیے گھر آگیا اگلے دن سکول میں دیمی کے ساتھ بچے ہوئے پیسے کھائے پھر چھٹی کے بعد باجی کے سونے کے بعد میں اسامہ کی بیٹھک پر جا پہنچا وہاں کچھ دیر تک فون چلانا سیکھتا رہا دیمی نے مجھے فل ٹرین کردیا تھا میں اب اچھی طرح فون چلانے کے اور چھپانے کے سارے گر سیکھ گیا تھا یہ دیکھ کر اسامہ بھی خوش ہوا اور بولا جا آج تصویراں لئے آ میں نے موبائل دینی کے مطابق شلوار کی جیب میں ڈال دیا اور گھر کی طرف چل دیا دیمی کو اسامے نے ساتھ بھیجا کہ میں ابھی ناتجربہ کار تھا میں تیزی سے گھر کی طرف آیا میرے ذہن پر بس ایک ہی بات سوار تھی کہ کسی طرح اپنی بہن کی تصویریں بنا کر اسمے کو دے دوں اور پیسے لوں میں گھر پہنچ کر دیمی کو باہر ہی کھڑا کیا اور خود چپکے سے اندر آیا امی کیچن میں ہی تھی میں کمرے میں آیا تو باجی نصرت اور سعدیہ سو رہی تھیں۔ باجی نصرت کی عادت تھی کہ وہ سوتی ہوئی دوپٹے کے بغیر سوتی تھی میں نے موبائل نکالا ڈر اور مزے سے میرے ہاتھ کانپ رہے تھے میں نے کیمرہ ان کیا اور اور باجی نصرت کو فوکس کیا باجی نصرت سیدھی لیٹی تھی جس سے باجی نصرت کے موٹے تنے کر ہوا میں کھڑے ممے باجی نصرت کے سانس لینے سے اوپر نیچے ہو کر ہل رہے تھے باجی نصرت کا جسم تھوڑا چوڑا تھا باجی نصرت کی چوڑی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی باجی کے سونے سے باجی نصرت کا قمیض آگے شلوار سے ہٹا ہوا تھا باجی نصرت کا گورا چوڑا سینہ چمک رہا تھا میں نے باجی نصرت کے جسم کو فوکس کیا تو باجی نصرت کا پورا جسم تصویر میں آگیا میں نے کلک کرکے تصویر محفوظ کر لی مجھے بھی جلدی تھی کہ کہیں باجی جاگ نا جائے اور اپنی بہنوں کی تصویریں اسامے کو دے کر پیسے لینے کی بھی جلدی تھی اسی کشمکشِ میں نے جلدی سے چار پانچ تصویریں بنائیں اور میں نے موبائل جلدی سے جیب میں ڈالا میرے پسینے چھوٹے ہوئے تھے میں جلدی سے باہر نکلا تو امی کیچن میں ہی تھی میں جلدی سے باہر نکلا تو دیمی مجھے دیکھ کر بولا کی بنیا میں بولا بن گئیاں ہم دونوں جلدی سے بیٹھک پہنچے اسامہ بھی بے صبری سے انتظار کر رہ تھا اس نے مجھ سے موبائل لے لیا اور کھول کر دیکھا تو باجی نصرت کی سیدھی لیٹی تصویریں دیکھ کر وہ مچل گیا میں اسے دیکھ رہا تھا کہ اب یہ پیسے دے گا کہ نہیں کہیں دا نا لگا جائے مجھے امید تھی کہ دے گا اس نے دیکھا تو ساری تصویریں ایک ہی طرح کی تھیں وہ باجی نصرت کا جسم اور تنے ہوئے ممے دیکھ کر ہائئئئے نصصصررتتت تیرے اس جسم دا تے میں دیوانہ افففف اور موبائل پر ہی میری بہن کا جسم چوم لیا اور بولا واہ بہزاد تیری بھین دا تے جسم آگ لا دیندا قسمیں یار نصرت تے بہوں سوہنی اے اے کدی مینوں مل جائے تے تیری عیش کروا دیساں میری تو اتنی ابھی سوچ نہیں تھی اس نے مجھے پچاس نکال کر دیا میں تو زیادہ کی امید میں تھا اس نے مجھے دیکھا اور ہنس کر بولا جانی اے تصویر ہک اینگل دی اے نیڑے توں تصویراں بنا کے لئے آ تاں چس اسی پیسے وہ ڈھیر ملسن میں بولا اچھا بھائی پتا ناہ ہنڑ مڑ بنا لیاندا اسامہ بولا دیمی جاندا اے تیرے گھر میں نے ہاں میں سر ہلایا وہ دیمی کو فون دے کر بولا جا دیمی اس نوں سکھا کہ تصویراں کنج بنڑدیاں دیمی نے اچھا کہا اور موبائل جیب میں ڈال کر ہم گھر کی طرف آگئے دروازے سے امی نکل رہی تھی امی بولی بہزاد میرے آنڑ تک گھر ہی رہویں میری جان میں جان آئی کہ امی نکل گئی اب کام سوکھا ہوگا میں نے چیک کرنے کےلئے اندر جھانکا تو باجی ابھی تک سو رہی تھی میں نے دیمی کو اندر بلایا وہ آیا تو باجی اسی طرح ممے نکال کر سیدھی لیٹی تھی دیمی نے پہلی تصویر بالکل باجی نصرت کے چہرے اور مموں کی بنائی دوسری اس نے پوری تصویر لی تیسری اس نے باجی نصرت کے گورے سینے کی بنائی باجی کا گورا چہرہ چمک رہا تھا دیمی نے مجھے دیکھا اور میرے قریب آ کر بولا بہزاد باہر جا کے دھیان رکھ میں بولا اچھا اور باہر نکل کر مجھے خیال آیا کہ دیکھوں تو سہی تصویریں کس طرح بنتی ہیں میں اندر جھانکا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میں چونک گیا دیمی تصویریں نہیں بنا رہا تھا وہ باجی نصرت کے اوپر جھکا اور باجی نصرت کی گوری گال پر منہ رکھ کر باجی نصرت کی گال کو چوم لیا یہ دیکھ کر میں چونک گیا اس نے ہلکی سی چمی لی تھی جس سے باجی ہلی نہیں دیمی نے باجی کو ہلتا نا پایا کر ایک لمحے انتظار کیا اور پھر جھک ہر اپنے ہونٹ باجی نصرت کے ہونٹوں پر رکھ کر باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوم لیا یہ دیکھ کر میرے جسم میں بھی آگ سی لگ گئی تھی دیمی کو باجی نصرت کے ساتھ مستیاں کرتے دیکھ کر مزہ آ رہا تھا باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوم کر وہ پیچھے ہوا باجی گہری نیند میں تھی جس سے وہ ہلی ہی نہیں باجی کو بے سدھ دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھ گیا اس نے زبان نکال کر منہ نیچے کیا اور باجی نصرت کی گال کو ہلکا سا چاٹ لیا یہ دیکھ کر میں مستی سے مچل گیا دینی نے دو تین بار باجی نصرت کی گال کو چاٹا اور پھر اوپر زبان باجی نصرت کے ہونٹوں پر پھر کر ہونٹ چاٹنے لگا میں ہکا بکا سب دیکھ رہا تھا مجھے پہلے اس چیز کا پتا نہیں تھا پر یہ تو دیکھنے میں بہت مزہ تھا دیمی نے دو تین زبان پھیری اور پھر باجی کے ہونٹوں کو چوم لیا باجی نصرت کے ہونٹ سونے سے ہلکے سے کھلے تھے دیمی اوپر ہوا اور ہونٹوں کو گول کیا اور ایک بڑی سی تھوک سیدھی باجی نصرت کے ہلکے سے کھلے ہونٹوں میں پھینکی جو سیدھی باجی نصرت کے ہونٹوں سے باجی نصرت کے منہ میں چلی گئی میں باجی کے منہ میں دیمی کی تھوک جاتا دیکھ کر مچل گیا دینی اوپر ہوا تو اتنے میں دینی تھوک باجی کے گلے میں اتر گئی باجی نے سوتے میں ہی سر ہلایا اور گھونٹ بھر کر دینی کی تھوک نگل لی میں یہ دیکھ کر مچل گیا دینی نے ایک دو منٹ انتظار کیا اور پھر باجی کی نیند پکی ہونے پر منہ نیچے کرکے باجی نصرت کا گورا سینہ چوم لیا میں تو اب مزے سے بڑی مشکل سے کھڑا تھا دیمی نے اوپر سے باجی نصرت کے موٹے ممے ہلکے سے چوم لیے اور ایک بڑی سی تھوک باجی نصرت کے سینے پر پھینک کر ہاتھ سے سینے پر مل دی میں یہ دیکھ کر مچل گیا دینی کو تو سب پتا تھا اس نے بے اختیار سینے پر ہاتھ پھیر کر باجی نصرت کے ایک موٹے مممے کو ہاتھ میں گکگ دبا کر پکڑا تو باجی کانپ گئی میں ڈر گیا دیمی بھی ڈر گیا اور جلدی سے نیچے بیٹھ گیا باجی نے انگڑائی بڑی اور اپنا سینہ اوپر کو اٹھایا لیکن باجی کی آنکھیں بند رہیں دیمی نے باجی نصرت کے اٹھے سینے کی بھی جلدی سے تصویر کھینچ لی جس سے باجی نصرت کی انگڑائی اور اٹھے ممے موبائل میں قید ہو گئے اسی لمحے باجی نصرت نے اپنی سائیڈ تبدیل کی جس سے باجی نصرت کی موٹی گانڈ باہر کو نکل آئی باجی نے کسی ہوئی شلوار ڈال رکھی تھی جس میں سے باجی نصرت کے موٹے چوتڑ باہر کو نکلے نظر آ رہے تھے جبکہ باجی نصرت کی شلوار باجی نصرت کی گانڈ میں پھسی تھی اور باجی نصرت کی گانڈ کا چیر شلوار سے واضح ہو رہا تھا باجی کے گھومنے سے باجی کا قمیض تھوڑا اوپر ہوا اور باجی کا گورا جسم نظر آنے لگا جسے دیکھ کر دینی نے گھونٹ بھرا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر پیچھے آیا اور باجی کی باہر کو نکلی گانڈ کی تصویر کھینچی جسے دیکھ کر میں مچل گیا پھر یمی نے باجی نصرت کی موٹی گانڈ کے چیر میں پھسی شلوار سے نظر آتے چیر کی بھی دیمی نے دو تین تصویریں لیں اور باجی کی گانڈ کے قریب ہو کر باجی کی گانڈ پر ہاتھ لگا باجی ہلی نہیں تو اس نے جھک کر باجی نصرت کے موٹے چوتڑ کو چوم لیا دیمی کا انداز میرے اندر آگ لگا رہا تھا مجھے پتا ہی نا چلا میرا لن تن کر کھڑا ہوچکا دیمی نے دو تین بار باجی نصرت کی گانڈ کو چوما اور پھر اپنا ناک آگے باجی کی گانڈ کے چیر کے قریب کرکے سونگھنے لگا پھر اس نے زبان نکال کر باجی نصرت کے چڈوں کے قریب کر کے شلوار کے اوپر سے ہی پھیری میں یہ سب دیکھ کر حیرانی سے ہکا بکا تھا دیمی پیچھے ہوا تو اس کی نظر مجھ پر پڑی میں اسے اپنی بہن کے ساتھ چھیڑ خوانی کرتا دیکھ رہا تھا مجھے ہکا بکا دیکھ کر وہ گھبرایا نہیں بلکہ شرارتی انداز میں مسکرا کر پیچھے ہوا اور مجھے دیکھ کر باجی کی گانڈ پر ہاتھ پھیر کر میری طرف چل پڑا دیمی باہر آیا تو میں نے پوچھا اوئے باجی نوں کیوں چھیڑ رہیا ہائیں وہ مسکرایا اور بولا بس یار مزہ بڑا آندا اے انج چھیڑنے نال میں بولا میری بھین ہئی وہ بولا تے وت کی ہویا میں وی تے اپنی بھین نوں اتنا چم لیندا آں میں یہ سن کر ہکا بکا ہوگیا اور بولا او کیویں بھیناں نال تے انج نہیں کریندا وہ بولا کیوں نہیں کریندا میں بولا او تے بھیناں کے ہوندیاں وہ بولا کنجرا سواد ہی بھیناں نال آندا اے میں بولا بک بک نا کر وہ بولا قسمیں کرکے تے ویکھ میں چونک کر بولا نہیں نہیں اے ٹھیک نہیں وہ ہنس کر بولا ہلا اور آگے ہاتھ لگایا تو میرا نیم کھڑے لن کو کو ٹٹولا جس سے میں چونک کر سسک گیا وہ ہنس دیا اور بولا توں تے اکھ رہیا ہائیں کہ اے غلط ہوندا تے اے کی اے میں چونک گیا وہ بولا کجھ نہیں ہوندا یار مزہ بڑا آندا میں بولا یار توں باجی نال غلط کیتا اے وہ بولا اسامے نوں تصویراں دینا صحیح ہے میں بولا اچھا اس تے پیسے دینے وہ ہنس دیا ور بولا جناب دا مطلب میں وی پیسے دیواں میں چپ ہوگیا اس نے ہنس کر جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس نکال کر بولا کو جناب 20 روپے آج دے میں بیس روپے دیکھ کر چونک گیا میرا دل مچل سا گیا 20 دیکھ کر میں نے جلدی سے 20 پکڑ کر جیب میں ڈال لیے اور بولا ہنڑ ٹھیک اے وہ ہنس دیا اور بولا کی خیال اے باجی نوں چھیڑ لئے میں بولا پاگلا باجی ہے تے اس نوں پتا لگ گیا تے مار دیسی گئی وہ بولا کجھ نہیں ہوندا میں وی تے کیتو دل تو میرا بھی کر رہا فھا پر ڈر بھی لگ رہا تھا مجھے دیکھ کر اس نے میرا ہتھ پکڑا اور بولا ہولی کے ہونٹ لا کے چم لئے میں یہ سن کر گھونٹ بھرا تو اس نے مجھے اندر کھینچ لیا باجی نصرت ایسے ہی سو رہی تھی ایک سائیڈ منہ کرکے میں چلتا ہوا قریب گیا اور نیچے بیٹھ گیا باجی نصرت کی گہری سانسوں سے نکلتا گرم سانس میرے منہ پر پڑ کر مجھے نڈھال کرنے لگا میں کراہ سا گیا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار منہ آگے کیا اور باجی نصرت کی پھولی ہوئی نرم گال پر ہونٹ رکھ کر چوم لیا باجی کی نرم گال کا لمس محسوس کرکے میرے اندر ایک سرور سا اتر گیا میں بے اختیار سکک کر باجی نصرت کی نرم گال چومتا گیا مجھے عجیب سا نشہ آ رہا تھا جس سے میں تڑپ گیا تھا میرا جسم کانپنے لگا تھا اور سانسیں تیر ہو گئیں باجی بے سدھ پڑی تھی میں نے بے اختیار زبان نکال کر باجی نصرت کی گال چاٹ لی اور پیچھے ہوگیا میں مزے سے کانپ رہا تھا میری تھوک باجی نصرت کی گال پر چمک رہی تھی باجی نصرت کے ہونٹوں کو دیکھ کر مجھے سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار منہ آگے کیا اور باجی کے نرم ہونٹوں کو چوم لیا باجی تھوڑا سا ہلی تو میں ڈر سا گیا اور جلدی سے اٹھ کر باہر کی طرف بھاگ گیا دینی بھی باہر نکل گیا باجی کافی تو نہیں بس ہلی تھی مجھے ہانپتا دیکھ کر بولا سنا مزہ آیا کہ نہیں میں سسک کر بولا یار نا پچھ اس اچ تے بڑا سواد اے باجی نوں چھڑنے دا وہ بولا ہلے ہور وی مزہ آئے گا چل چلیے ہم وہاں سے نکلے اور اسامے کی طرف آگئے اور اسے باجی کی تصویریں دکھائی وہ باجی نصرت کو دیکھ مچل گیا اور باجی نصرت کو چومنے لگا میں اسے باجی کو چومتا دیکھ رہا تھا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی مجھے بس پیسے چاہئیں تھے وہ باجی کو پہلی بار دیکھ رہا تھا باجی ہمیشہ برکے میں رہتی تھی اس نے باجی کی شکل پہلی بار دیکھی تھی جس سے وہ مچل گیا تھا اور باجی کو دیکھ کر شلوار میں ہاتھ ڈال کر اپنا مسل رہا تھا میں اسے دیکھ کر مچل رہا تھا وہ شاید باجی کو دیکھ کر مٹھ مار رہا تھا مٹھ کا ہمیں پتا تھا کلاس کے بڑے لڑکے اکثر اس پر بات کرتے تھے اسمے کو مٹھ مارتا دیکھ کر ہم بے قرار ہو رہے تھے اس نے ہمیں دیکھا اور مسکرا کر مجھے باجی نصرت کی تصویروں کا100 روپے دے دئیے میں یہ دیکھ کر مچل گیا اسامہ مجھے پیسے دے کر باجی کی تصویریں دیکھ کر اپنا موٹا لمبا لن باہر نکال کر مسلنے لگا میں اسے دیکھ رہا تھا اسامہ ہنسا اور بولا تیرا کم ہوگیا توں جا ہنڑ میں سمجھ گیا کہ اب اسامہ باجی نصرت کے جسم کو دیکھ کر مٹھ لگائے گا یہ سوچتے ہم دکان پر اگئے دکان پر آکر ہم نے کچھ کھایا پیا اور باقی بچے پیسے میں نے دینی کو دے دئیے دیمی پیسے محفوظ رکھتا تھا اگر میں پاس رکھتا تو پکڑے جانے کا خطرہ تھا میں گھر آیا اور پڑھائی کے بعد میں اپنی روٹین میں رہا اگلے دن پھر سکول سے واپسی پر میں کھانا کھا کر کچھ دیر لیٹ گیا باجی نصرت اور سعدیہ پھر سو گئیں میں نکلا اور سیدھا اسامے کی طرف چلا گیا وہاں دیمی پہلے سے موجود تھا اسامہ مجھے دیکھ کر خوش ہوا اور بولا آ او شہزادے تیرا کی حال ہے میں بولا میں فٹ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں اسامہ باجی نصرت کی تعریف کرتا رہا کہ تیری بہن بڑی سوہنی ہے کچھ دیر بعد اس نے مجھے فون دیا اور بولا بہزاد آج کدی اپنی بھین نصرت دے جسم دے کسے ننگے حصے دی تصویراں لئے آ تینوں منہ ننگیاں انعام دیساں میں بولا کتنا وہ بولا چل توں دس میں بولا 500 میں نے ایسے ہی کہ دیا تھا مجھے امید نہیں تھی اس نے کہا چل ٹھیک ہے یہ سن کر میرے تو طوطے اڑ گئے کہ 500 ملے گا میں تو آج تک 500 کا نام سنا تھا دیکھا نہیں تھا آج 500 ملے گا کا سوچ کر میں تو ہواؤں میں اڑنے لگا تھا لیکن میں نے سوچا کہ باجی کو ننگا کیسے کروں گا میں نے سوچا چل جو ہو گا دیکھیں گے میں نے موبائل لیا اور گھر کی طرف چل دیا میں جیسے ہی اندر داخل ہوا تو باجی سیدھی لیٹی تھی میری نظر پڑی تو باجی نصرت کے پیٹ سے کافی سارا کپڑا ہٹا ہوا تھا جس کو دیکھ کر میں چونک گیا باجی نصرت کا گورا پیٹ ننگا تھا باجی نصرت کی دھنی صاف نظر آ رہی تھی باجی نصرت کی دھنی تھوڑی گہری تھی میں یہ دیکھ کر مچل گیا میں نے فون ان کیا اور باجی نصرت کے ننگے پیٹ کی دو تین تصویریں بنائیں اور ایک پورے جسم کی تصویر بھی لی باجی نصرت کا ننگا پیٹ مجھے نڈھال کر رہا تھا میں مزے سے مچل رہا تھا مجھ سے رہا نہیں گیا میں باجی کے جسم کے قریب بیٹھ گیا اور غور سے جسم دیکھنے لگا میری سانسیں تیز ہو رہی تھیں میں نے چیک کرنے کےلیے باجی نصرت کے ننگے گورے پیٹ پر ہاتھ لگایا باجی نے کوئی حرکت نا کی میں نے بے اختیار آگے ہو کر باجی نصرت کے پیٹ کے قرب منہ کیا اور اپنے ہونٹوں سے باجی نصرت کے پیٹ کو چوم لیا جس سے میں باجی کا نرم پیٹ محسوس کرکے مچل کر کراہ گیا مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا میرے اندر آگ لگی تھی اتنی چھوٹی عمر میں بھی میرے اندر آگ بھری تھی میں نے زبان نکال کر ہلکا سا پیٹ چاٹ لیا باجی کی سسکی نکلی میں جلدی سے پیچھے ہوکر چارپائی کے نیچے ہوگیا باجی نے سر ہی ہلایا تھا میں اوپر ہوا تو باجی ایسے ہی پڑی تھی میری جان میں جان آئی باجی گہری نیند سوتی تھی میں اوپر ہوا مجھے شرارت سوجھی میں نے باجی نصرت کے پیٹ کی گہری دھنی کو دیکھا اور قریب ہوکر ایک تھوک باجی نصرت کی دھنی کے اندر پھینک دی جس سے باجی نصرت کی دھنی میری تھوک سے بھر گئی اور باجی کے گورے پیٹ کی دھنی میرے تھوک سے بھری چمکنے لگی کیا ہی منظر تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار نیچے ہوکر باجی نصرت کے پیٹ کو چوم لیا اس بار میرے ہونٹ زیادہ دب گئے جس کو باجی نے محسوس کرلیا اور باجی کو کرنٹ سا لگا جس سے باجی نصرت ہلی میں جلدی سے پیچھے ہوکر چارپائی کے نیچے لیٹ گیا میرا تو دل ڈوب گیا کہ باجی کو پتا نا لگ جائے باجی ہلی اور گھوم کر دوسری طرف منہ کر لیا میں کچھ دیر پڑا رہا اور پھر نکلا التو باجی مست پڑی تھی میں اٹھا تو باجی اسی طرح گانڈ نکال کر پڑی تھی جس سے باجی نصرت کے موٹے چوتڑ باہر کو نکل کر کھل سے گئے تھے باجی نے گھٹنے سینے سے لگا رکھے تھے میں جیسے ہی پیچھے کی طرف آیا تو باجی نصرت کی باہر کو گانڈ کو دیکھ کر میرے تو پاؤں نیچے سے زمین نکل گئی باجی نے اپنی گانڈ اٹھا رکھی تھی باجی نصرت آج کسی پرانے سوٹ میں تھی کیونکہ ہمارے حالات اچھے نہیں تھے اس لیے باجی لوگ اکثر پرانے ہی کپڑے استعمال کرتی تھیں گھر میں باہر جانے کےلیے ایک دو ہی سوٹ تھے جو وہ خیال سے رکھتی تھیں باجی نصرت کی شلوار درمیان سے کافی ادھڑی ہوئی تھی جس سے شلوار میں بڑا سا کھپا تھا اور وہاں سے باجی نصرت کی باہر کو نکلی گانڈ کی گلابی موتی اور باجی نصرت کی پھدی کا نیچے والا حصہ کافی سارا نظر آرہا تھا میں تو یہ دیکھ کر تڑپ گیا باجی نصرت نے اپنی گانڈ باہر کو نکال رکھی تھی جس سے باجی نصرت کی پھدی کے آپس میں ملے ہونٹ اور باجی نصرت کی پھڈی کا گلابی دہانہ صاف نظر آ رہا تھا یہ دیکھ کر میں کانپ گیا تھا میرے ذہن میں اسامے کی بات گونجی پانچ سو والی میں نے اپنے پانچ سو کےلیے اپنی بہن کی عزت نیلام کرنے کےلیے سوچا بھی نہیں کہ یہ میری عزت ہے میں نے جلدی سے موبائل نکالا اور کیمرہ آن کرکے باجی نصرت کے پیچھے حصے پر فوکس کرکے اچھی طرح تصویریں بنا کر باجی نصرت کی پھدی اور گانڈ کو صحیح طرح سے کیمرے میں فوکس کیا اور باجی نصرت کی پھڈی اور انڈ میں اچھی طرح تصویریں لیں میرا ذہن اپنی سگی بہن نصرت کو ننگا دیکھ کر ماؤف ہو چکا تھا میں کراہ کر سسک رہا تھا میرا دل کیا کہ دیکھوں تو سہی یہ سب کیسی ہوتی ہیں میرے ذہن میں کل والی دیمی کی حرکت تھی میں بے اختیار باس بیٹھ گیا اور اپنی ناک باجی نصرت کی گانڈ کے قریب کرکے سونگھ لیا جس سے عجیب سا مشک میرے ناک کو چڑھ گیا میں مچل گیا اور دو تین بار باجی نصرت کی گانڈ کو سونگھ کر منہ آگے کیا اور باجی نصرت کی گانڈ کا ننگا حصہ چوم لیا باجی ہلی میں جلدی سے پیچھے ہو گیا باجی پھر اپنی نیند میں چلی گئی میں نے بے اختیار انگلی باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی پر رکھ کر ہلکی سے گھمائی تو باجی کی نرم پھدی سے رستا پانی میری انگلی میں لگ گیا جس سے باجی نے سسکی بھری اور ہلنے لگی میں جلدی سے پیچھے ہوا اور باہر نکل گیا باجی نصرت کی پھدی کا پانی میری انگلی پر لگا تھا میرے ذہن پر باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی کے مشک کا نشہ چڑھا ہوا تھا میں نے بے اختیار انگلی کو سونگھا تو وہی خوشبو تھی میں نے بے اختیار مچل کر زبان نکال کر اپنی بہن کی پھدی کا پانی چاٹ لیا باجی نصرت کی پھدی کا نمکین پانی چکھ کر میں مچل گیا ایک کرنٹ سا میرے اندر اتر گیا باجی کی پھدی کا نمکین پانی میرے اندر اتر کر مجھے نڈھال سا کر گیا میں سسک کر مچل گیا میرا لن فل تن کر کھڑا تھا میں نے لن نیچے ہونے کا انتظار کیا اور سیدھا اسامے کی بیٹھک پر پہنچا اسامہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا میں نے اسے موبائل دیا وہ بولا کوئی ول بنا لیا ہیں میں ہنس کر بولا ویکھ تے سہی یہ سن کر اس نے تصویریں دیکھنے لگا باجی نصرت کا ننگا پیٹ دیکھ کر وہ مچل کر اففف میری جان نصرتت کیا سوہنا پیٹ ہے تیرا اور باجی کے ننگے پیٹ کی تصویریں کلوز کرکے دیکھ کر مچل رہا تھا آگے باجی نصرت کی ننگی گانڈ اور پھدی کی تصویر آئی تو اسامہ اچھل گیا اور مجھے دیکھ کر بولا اے کی میں ہنس دیا اور بولا بھائی آپ ہی تے آکھیا ہایا ننگی تصویروں لئے ا آج موقع مل گیا تے میں لئے آیا وہ بولا اففف بہزادی میں مر جاواں اور باجی نصرت کی پھڈی کی پکچرز کلوز کرکے دیکھنے لگا جس سے وہ مچل کر سسکنے لگا میری بہن کی ننگی پھدی اور گانڈ اسے نڈھال کر رہی تھیں کمرے میں اندھیرا تھا اس لیے پکچرز تھوڑی دھندلی تھیں پر اسامے کےلیے یہ ہی بہت تھا وہ بولا اففف بہزادی اے کیویں لیاں نی میں بولا باجی دی شلوار پاٹی ہوئی ہا تے اگے ہی ننگی ہا میں بس لئے لیاں وہ بولا کیوں آپ پاڑہ ہایا میں بولا نہیں آگے ہی پاٹی ہوئی ہا وہ بولا کیوں میں بولا پتا نہیں پتا ے کپڑے اس پائے ہوئے ہانڑ وہ بولا اففف یار تیری بھین نصرت دی پھدی تے سواد دیسی اور پھدی کو دیکھتا ہوا اپنا کہنی جتنا لن نکلا کر مسلنے لگا میں اور دینی اسے دیکھ رہے تھے اس نے رک کر اپنی جیب سے پیسے نکال کر بولا بہزادی توں تے مینوں خوش کیتا ہے میں وی تینوں خوش کرساں اور ہزار روپیہ مجھے پکڑا دیا یہ دیکھ کر میں تو خوشی سے اچھل گیا باجی نصرت کی پھدی کی تصویر دکھنے پر ہزار روپیہ مل گیا میری تو خوشی سے جان ہی نکل رہی تھی میں نے جلدی سے پیسے پکڑ اور مچل گیا ہزار کا نوٹ ہاتھ میں پہلی بار پجڑ کر مجھے امیدوں جیسی فیلنگ آنے لگی اسامہ بولا چلو ہنڑ جاؤ میں اور دینی جلدی سے باہر نکل آئے دیمی بولا واہ یار توں تے پہلے دن ہی امیر ہو گیا ایں میں ہنس دیا وہ بولا سچی دس باجی نصرت دی شلوار آگے ہی پاٹی ہوئی ہا میں بولا ہور کی وہ بولا بہزادی ہک گل منسیں میں بولا کی وہ بولا یار مینوں وی ویکھن دے چا باجی دی پھدی مجھے تو پیسوں کی لے لگ چکی تھی میں بولا مفتی ہی ویکھا دیواں وہ بولا بڑا بھین چود ہیں یار میری وجہ تو ہی توں پیسے کما رہیا ایں اتنی جلدی میری لاٹری نہیں لگی جتنی جلدی تیری لگ گئی میں بولا چل یار ویکھ لئے پر صرف ویکھنا ہورکجھ نہیں کرنا وہ بولا یار کے ہور کجھ کراں تے اس دے پیسے دیساں گیا ہنڑ راجی ہیں میں ہنس دیا اور بولا چل سہی اے اور ہم دونوں گھر کی طرف چل دئیے گھر کی طرف پہنچ کر میں نے جائزہ لیا تو امی چھت پر تھی وہاں کپڑے دھونے لگی تھی ہم اندر کمرے میں گئے تو باجی نصرت اسی کروڑ لیٹی تھی اور باجی نصرت نے اب گھٹنے سینے سے لگا رکھے تھے جس سے باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی مزید کھل کر پھٹی شلوار میں سے نظر۔ رہی تھی یہ دیکھ کر دیمی مزے سے مچل گیا اور گھونٹ بھر کر رہ گیا اس نے حیرانی سے مجھے دیکھا اور مسکرا کر باجی نصرت قریب کھڑا ہوگیا جس سے باجی نصرت کی پھدی اور گانڈ اسے صاف نظر آنے لگی میں یہ منظر دیکھ کر مچل رہا تھا اس نے باجی نصرت کی گانڈ کو ہاتھ لگایا اور اپنی انگلی باجی نصرت کی ننگی گانڈ کی گلابی موری پر پھیر کر چیک کیا باجی نہیں ہلی تو اس نے انگلی دو تین بار باجی نصرت کی ننگی گانڈ اور پھدی پر پھیری پھر وہ نیچے جھکا اور قریب ہوکر باجی کی گانڈ اور پھدی کو سونگھنے لگا جس سے وہ مچل گیا دینی کو اپنی کی ننگی گانڈ اور پھدی سونگھتا دیکھ کر میں مچل سا گیا اس نے بے اختیار زبان نکالی اور باجی نصرت کی پھدی کے گلابی دہانے پر زبان کی نوک رکھ کر باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ چاٹ لیا جس سے وہ سسک گیا ساتھ ہی باجی نصرت بھی سسک کر کانپ گئی اور آپ بھر کر اپنے گھٹنے مزید سینے سے جوڑ لیے دیمی اوپر ہو گیا اور ایک لمحے کےلئے رک کر منہ نیچے کیا اور گانڈ کے قریب لے جا کر باجی نصرت کی گانڈ کی موری پر ہونٹ رکھ کر چوم لیے اور پھر گانڈ کو چوم کر آگے باجی نصرت کی پھدی کا گلابی دہانہ بھی چوم لیا میں یہ دیکھ کر سسک گیا دیمی اوپر ہوا اور باجی کے منہ کی طرف جا کر باجی نصرت کا گال بھی چوم کر میری طرف بڑھا میں اسے دیکھ رہا تھا کہ وہ بس کر گیا ہو وہ میرے پاس آیا اور جب سے 500 کا نوٹ نکال کر مجھے تھما کر بولا بہزاد باہر دا دھیان رکھ میں باجی نصرت دی پھدی ویکھ کے مٹھ مارنی ہے میں تو دیمی کے ہاتھ سے 500 پکڑ کر ہکا بکا کھڑا تھا اتنی جلدی اتنے پیسے آئیں گے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ مجھے دیکھ کر بولا کی ہویا ہنڑ تے پیسے ایڈوانس دے دتے ہنڑ وی کوئی اعتراض میں ہنس کر بولا نہیں اور مڑ کر باہر نکل گیا باہر کوئی نہیں تھا میں نے سوچا دیکھوں تو سہی دیمی باجی نصرت کے ساتھ کیا کرتا ہے یہ سوچ کر اندر جھانکا تو دیمی شرٹ اور شلوار میں تھا اس نے شلوار کھول کر نیچے گرا دی تھی اس کا موٹا لیکن تھوڑا لمبا لن باہر اس کے ہاتھ میں تھا جس سے وہ باجی نصرت کی پھدی دیکھ کر مسل رہا تھا میں دینی کا ننگا پن باجی نصرت کی ننگی گانڈ کے سامنے دیکھ کر مچل گیا تھا دیمی لن مسلتے ہوئے تھوک منہ سے انگلی پر نکالی اور باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی پر مل دی باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی پر دیمی کی تھوک چمکنے لگی میں یہ دیکھ کر مچل گیا باجی نصرت کی گانڈ بالکل چارپائی کے کنارے تک آئی ہوئی تھی دیمی نے باجی کو دیکھا اور آگے ہوکر اپنا لن باجی نصرت کی گانڈ کے چیر میں دے پر باجی نصرت کی گانڈ کی موری کے اوپر رکھ کر مسل دیا جس سے دینی سسک کر مچل گیا اور رک گیا باجی کی قدرتی ہی نیند بہت گہری تھی اسے اٹھانا ہوتا تو بہت شور اور ہلا جلا کر اٹھانا پڑتا تھا باجی نصرت دیمی کے لن کو محسوس کرکے بھی ہلی نہیں میں دیمی کا پن اپنی بہن کی ننگی گانڈ میں دیکھ کر مچل رہا تھا دیمی نے سسک کر لن مسلا اور دبا کر لن گانڈ پر رکھ آگے پھدی کی طرف دھکیل دیا جس سے دینے کے لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی کے دہانے اوپر پہنچ گیا دیمی نے سسک دو تین بار لن باجی نصرت کی پھدی کے اوپر دبا کر مسلا اور سسک کر کراہ گیا اور پیچھے ہوکر اپنی تھوک باجی نصرت کی پھدی کے گلابی دہانے پر مل دی باجی کی گاڈ باہر کو نکلنے سے پھدی کا دہانہ ہلکا سا کھلا تھا دیمی نے دونوں انگلیوں باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھول کر دیکھا اور قریب ہو کر ایک تھوک باجی نصرت کی پھدی کے اندر پھینک دی جو باجی نصرت کی پھدی کے اندر چلی گئی اوپر سے دیمی نے انگلی دبا کر ہلکی سی پھدی کے دہانے میں داخل کر دی انگلی پھدی میں جاتے ہی باجی سسک کر کانپ گئی دیمی رک گیا دیمی کہ انگلی کا ایک پوٹا باجی نصرت کی پھدی میں اتر چکا تھا جسے باجی نصرت کی پھدی کھلتی بند ہوتی دبا رہی تھی باجی بس ہلی اور ہل کر رک گئی دیمی بھی کچھ دیر رکا رہا وہ تو پورا کھلاڑی تھا باجی جب واپس گہری نیند میں گئی تو دیمی نے اپنا زور لگا کر انگلی دوبارہ پھدی کے اندر دبا دی جس سے آہستہ سے دیمی کی انگلی کے دو پوٹے اندر چلے گئے سا تھ ساتھ ہی باجی نصرت کی سسکی نکلی اور وہ کانپ کر اپنی گانڈ کو دبا لیا جس سے باجی نصرت سسک کر گھوم کر سیدھی ہونے لگی باجی کے گانڈ دبانے سے دیمی کی انگلی باجی نصرت کی پھدی میں پھنس گئی نصرت کے گھومنے سے دیمی نے سمجھا کہ باجی جاگ گئی ہے اس نے جلدی سے ہاتھ کھینچنا چاہا جس سے باجی کی پھدی کو مسل کر دیمی کی انگلی باہر نکل آئی انگلی نے نکلتے ہی باجی نصرت کو مزے سے نڈھال کر دیا جس سے باجی کی کراہ نکلی اور باجی سسک کر کراہ گئی جس سے ان کر میں بھی جلدی سے باہر ہٹ گیا اور دیمی جلدی سے چارپائی کے نیچے چلا گیا باجی سیدھی ہو کر لیٹ گئی باجی انگلی کے نکلنے سے مزے سے ایک بار جاگ تو گئی لیکن انگلی کے نکلتے ہی مزہ بھی ختم ہوا تو باجی نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا باجی نیند میں ہی تھی اس وقت باجی نصرت کو کچھ سمجھ نا آیا کہ کیا تھا باجی سیدھی ہوکر اپنے پاؤں کھول کر دونوں گھٹنے ہوا میں کھڑے کر سیدھی لیٹ گئی باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ بے اختیار کھلنے بند ہونے لگا باجی نے ہاتھ نیچے کرکے آنکھیں بند کرکے اپنی پھدی کو ایک بار مسلا اور منہ دوسری طرف کرکے سو گئی دیمی نیچے ہی لیٹا رہا باجی سعدیہ باجی نصرت کی کراہ سے جاگ گئی اور اٹھ کر باجی نصرت کو دیکھا اور بولی باجی کی ہویا پر باجی گہری نیند میں جا چکی تھی دیمی سانس روکے چارپائی کے نیچے تھا اچھی بات یہ تھی کہ اندھیرا تھا اور دینی نظر نہیں آیا میں بھی پکڑے جانے کے خوف سے ڈر کر بھاگ کر دوسرے کمرے میں چھپ گیا کہ اب جو ہوگا دیمی اکیلا ہی بھگتے گا میں دروازے سے باہر دیکھنے لگا کہ اب شور مچے گا کیونکہ سعدیہ جاگ رہی تھی تھوڑی دیر تک کچھ نا ہوا اور سعدیہ دروازہ کھول کر باہر نکلی اتنے میں امی بھی چھت سے اتری اور بولی سعدو جاگ گئی ہیں وہ بولی جی امی بولی تے نصرت سعدو بولی امی او تے ایڈی جلدی نہیں جاگن آلی امی بولی تے بھرا کدے ہے وہ بولی پتا نہیں امی بولی ہک تے اے چھور وی اج کل غائب رہندا پتا نہیں کدے گیا سعدو بولی امی خیر اے امی بولی ہاں تیرے جانے آل جانا ہے ہمارے ماموں پنڈ کی دوسری نکڑ پر ہی رہتے تھے امی بولی جا فر نایاب نوں سد لیا گھر باجی کوک بہوے میں سمجھ گیا کہ دیمی کا کسی کو نہیں پتا چلا میں نے سوچا کہ نایاب کی بجائے میں ہی گھر آجاتا ہوں امی یہ کہ کر اندر کیچن میں گئی میں نے پسینہ صاف کیا اور اپنی حالت ٹھیک کرکے باہر نکلا سعدیہ واشروم میں تھی میں جلدی سے گیٹ ہلکا سا کھولا اور دو تین منٹ باہر کھڑا رہا اور پھر جلدی سے اندر آگیا امی کیچن سے نکل رہی تھی مجھے دیکھ کر بولی گلیاں ہی پھردا رہندا ایں گھر وی بہ کیاا کر میں بولا کی ہویا امی بولی اسی تیرے مامے آل جاؤں آں نصرت گھر ہلکی تے گھر بہوں میں بولا اچھا اتنے میں سعدیہ اندر سے نکلی وہ ہاتھ منہ دھو کر چادر کے کر امی کے ساتھ جانے کےلیے باہر نکلی میں نے گیٹ بند کیا اور جلدی سے اندر چلا گیا تو دیمی ابھی تکہ چھپا ہوا تھا میں نے اسے پکارا تو اس نے منہ باہر نکالا میں ہنس دیا اور بولا باہر آجا وہ جلدی سے باہر آیا اور بولا یار آج تے بڑے بچے آں میں بولا تینوں ہی شوق ہا وہ بولا یار تیری بھین نصرت تے بڑا سواد دیندی ہے میں بولا ہا وہ بولا ہک گل دس باقی لڑکیا تے ہتھ لگدیاں ہی جاگ جاندیاں باجی نصرت نال اتنا کجھ ہویا اے نہیں جاگی میں بولا باجی دی نیندر بڑی گہری اے اس نوں اکثر امی جھنجھوڑ کے جگاندی اے وہ بولا ہلا توں ہی میں بولا ہک مزے دی گل اے باجی اگر کچی نیند اچ جاگ کے فر دستی ہی سین جاوے تے فر باجی دی نیندر ہور پکی تے گہری ہو جاندی وہ مجھے دیکھ کر بولا نا کر میں بولا ہور کی وہ بولا انج کیویں میں بولا پتا نہیں باجی اچ اے عجیب ہی گل اے وہ بولا کجن ہو سگدا میں بولا ٹرائی کر لئے وہ بولا او کنج میں اسے بولا اندر آ میں اندر گیا اور باجی کو ہلکی سی چٹکی کاٹی تو باجی بس ہلی دوسری چٹکی ہر باجی ہلی بھی نہیں وہ بولا یار سے تے بے ہوش لگ رہی میں بولا انج ہی اے وی بولا ہلا فر پنچ سو تے پورا کروں دے میں بولا کر لئے وہ ابھی شلوار کے بغیر ہی تھا باجی سیدھی لیٹی تھی اور گھٹنے کھول کر ہوا میں کھڑے کر رکھے تھے باجی کے گھٹنوں کا بیلنس ٹوٹ گیا تھا سونے سے اس لیے ایک طرف ہو ڈھلکے ہوئے تھے اس نے مجھے دیکھا اور بولا باجی دی پھدی نال لن ٹچ کرلوں میں بولا یار توں پیسے دتے ہیں جو مرضی کر وہ یہ سن کر ہنس دیا اور باجی نصرت کی چارپائی پر چڑھ کر باجی نصرت کی ٹانگوں کی طرف آکر باجی نصرت کے گھٹنے پکڑ کر سیدھے کر دیے جس سے باجی نصرت کی پھدی کھل کر سامنے آگئی اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور باجی نصرت کے گھٹنوں کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر گھٹنے اوپر اٹھا دئیے جس سے باجی نصرت کے چڈے کھلنے لگے باجی بھی سیدھی لیٹی تھی دیمی آہستہ آہستہ باجی نصرت کے گھنٹے دباتا ہوا گھٹنے باجی نصرت کے پیٹ کے ساتھ لگا دیے جس سے باجی نصرت کے پیر ہوا میں کھڑے ہو گئے اور باجی نصرت کے چڈے کھل کر واضح ہو گئے جس سے باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھل کر سامنے آگیا میں مزے سے دیمی کو اپنی بہن کے ساتھ کھیلتا دیکھ رہا تھا دیمی نے نیچے ہوکر اپنے ہونٹوں کو باجی نصرت کی پھدی کے اوپر رکھ کر چوم کر زبان نکال کر چاٹ لیا باجی نصرت کی صرف سسک نکلی تو دیمی اوپر ہو کر مجھے دیکھ کر بولا بہزادی باہر دس دھیان رکھیں اور خود اپنے گھنٹوں کے اوپر اٹھ کر اپنا تنا ہوا لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی کے ساتھ لگا کر سسک گیا دیمی کا جسم کانپ گیا اور وہ سسک کر اوپر نیچے ہوکر اپنا لن باجی نصرت کی پھدی سے مسلنے لگا اس نے ایک ہاتھ سے اپنا لن باجی نصرت کی پھدی پر دبا دیا اور آگے پیچھے ہوکر لن باجی کی پھدی پر مسلتا ہوا سسکنے لگا دینی کے سانس تیز ہو رہے تھے اور وہ کراہ کر مچل رہا تھا دیمی اپنا لن باجی نصرت کی پھدی پر ہاتھ سے دبا کر مسلتا ہوا سسکتا ہوا کراہنے لگا دیمی کی مزے سے ہلکی ہلکی آہیں نکل رہی تھی دیمی کا جسم کانپنے لگا ایک مینٹ میں ہی دیمی کرا کر اچھلا اور دینے کے لن کے دہانے سے ایک پانی کی پتلی سی دھار نکلی کر باجی نصرت کی پھدی پر پھیلنے لگی دیمی دوہرا ہو کر کراہتا ہوا فارغ ہوگیا میں نے پہلی بار کسی کو فارغ ہوتا دیکھا تھا میں بھی حیران تھا کہ اسے کیا ہوا وہ دو منٹ تک پڑا رہا باجی نصرت بھی بے خبر پڑی تھی وہ بھی ہلی نہیں دیمی کراہ کر پیچھے ہوا اس کا لن مرجھا گیا تھا اس نے سانس بحال کیاا ور نیچے اتر آیا باجی کے گھٹنے ایک طرف لڑھک گئے تھے اور اس کا پانی باجی کی پھدی پر پھیل سا گیا تھا دیمی نے باجی کے چڈے کھولے اور باجی نصرت کی پھدی پر پڑی اپنی منی سے انگلی بھر لی اور اوپر آکر باجی نصرت کے ہونٹوں پر منی والی انگلی پھری باجی کے ہونٹوں پر دیمی کی منی لگ گئی اس نے پھر باجی کی پھدی پر لگی منی کو انگلی سے اٹھا کالر باجی کے ہونٹوں کو دبا کر کھولا اور اوپر سے منی باجی نصرت کے منہ میں پھینکتا ہوا اپنی انگلی باجی کے منہ میں داخل کرکے ساری منی باجی نصرت کے منہ میں پھیل دی جو باجی نصرت کے منہ میں چلی گئی میں یہ سب دیکھ کر مزے سے نڈھال تھا دیمی بولا افففف بہزادی باجی دی پھدی تے آتے ہی فارغ کروا دتا اندر گیا تے اکا سواد آ جاسی میں بولا اندر وی پانا ہوندا وہ بولا اصل سواد تے اندر ہی آندا میرا کم تے باہر ہی ہو گیا اور شلوار ڈال کر نکل گیا میرا لن بھی تن کر کھڑا تھا میں بھی پیچھے آیا وہ بولا بہزاد توں وی سواد لئے لے میں بولا چولاں نا مار میری باجی ہے اس نے میرا لن پر ہاتھ لگایا جو تن کر کھڑا تھا اور ہنس کر بولا بھین یکا اے تے پھدی منگ رہیا کجھ نہیں ہوندا میرے آر اتے آتے رگڑ لئے اندر نا پائیں میں وی کدی کدی باجی دی پھدی تے لن پھیر لیندا ہاس میں حیرانی سے اسے دیکھنے لگا وہ ہنس کر بولا دیمی اندر نا پائیں اگر پانا وی ہے تے ٹوپے تک پائیں میں بولا کیوں وہ بولا اندر لڑکی دا پردہ ہوندا تے او پھٹ جاسی فر تیری بھین دے پیسے نہیں ملن گے میں یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا اور وہ بولا یار آتے آتے پھیر لئے کجھ نہیں ہوندا میں بولا تینوں کس دسیا وہ بولا باجی ہی دسیا اے اور بولا چل میں جاندا اور ہندی کھول کر چلا گیا میں اسے حیرانجمئ سے جاتا ہوا دیکھنے لگا اسوقت اتنا پتا نہیں تھا حیرانی ہی تھی میں دروازہ بند کیا اور اندر کی طرف چل دیا میرے ذہن پر عجیب سا نشہ سوار تھا جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی باجی نصرت کی پھدی میری آنکھوں کے سامنے تھی میں چلتا ہوا اندر گیا تو باجی اسی طرح پڑی تھی باجی نصرت کے گھٹنے ایک طرف لڑھکے ہوئے تھے میں بھی پاس جا کر کھڑا ہو گیا شہوت سے میرا دماغ ماؤف تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار اپنا لن باہر نکالا اور مسلنے لگا میں نے باجی نصرت کے گھٹنے ہٹا کر پھدی کا نظارہ کرتا ہوا مٹھ لگانے لگا مجھے مزہ ا رہا تھا میں دو منٹ تو مٹھ لگائی مجھے شہوت فل چڑھی ہوئی تھی مجھے خیال آیا کہ دیمی کو باجی کے ساتھ کرکے مزہ آیا تھا میں بھی یہی کرتا ہوں یہ سوچ کر عجیب سا مزہ میرے اندر تک اتر گیا ور میں بے اختیار اپنا قمیض اور شلوار ننگا کرکے فل ننگا ہوکر اپنی سگی بہن نصرت کی ٹانگوں کی طرف چارپائی پر چڑھ آیا میں بالکل ننگا تھا میں باجی نصرت میرے سامنے پڑی تھی میں مزے اور ڈر سے کانپ رہا تھا میرا لن جھٹکے لینے لگا تھا مزے سے میں نے آہستہ سے باجی نصرت کے گھٹنے پکڑے اور ہلکے سے کھول دیے باجی نصرت کی پھدی پر دیمی کا پانی سوکھ رہا تھا میں نے بے اختیار ہاتھ آگے کرکے باجی نصرت کی پھڈی کو چھوا باجی نصرت کی پھدی کے دونوں ہونٹوں ایک دوسرے سے سختی سے ملے تھے صرف پھدی کا گلابی دہانہ ہلکا سا کھلا تھا میں نے گھٹنے نیچے پکڑ کر دینی کی طرح باجی نصرت کے پیٹ سے لگا دیے جس سے باجی نصرت کے چڈے کھل گئے اور باجی نصرت کی پھدی کھل کر سامنے آگئی میں باجی کی پھدی کا کھلا دہانہ دیکھ کر مزے سے مچل گیا میں نے دیمی کی طرح اپنا لن باجی نصرت کی پھدی کے ساتھ ملایا باجی کی پھدی کے لمس سے میں مزے سے سسک کر کراہ گیا میں نے لن پھدی کے اوپر رکھا میرا لن دینی ہے لن سے لمبا اور موٹا تھا میرا چار انچ تک لمبا اور دو انچ تک بڑا تھا میں باجی کے چڈوں میں بڑھ کر باجی کے گھٹنے اٹھا کر پیٹ سے لگا باجی نصرت کی پھدی سے لگا کر اپنا لن باجی کی پھدی پر مسل رہا تھا مزہ تو بہت آرہا تھا میں مزے سے کراہ کر مچل رہا تھا شہوت مجھے بے حال کر رہی تھی میرے ذہن میں دیمی کی بات گونج اوئے پھدی اچ صرف ٹوپہ پائیں یہ سوچ کر میں مچل گیا میرا دل کیا کہ لن اندر تو ڈالوں میں نے بے اختیار سسک کر پیچھے ہوا اور اپنا لن مسل کر باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھا اور ہلکا سا دبا دیا جس سے ٹوپے کی نوک میری بہن نصرت کی پھدی میں داخل ہوئی اسی لمحے باجی کی بھی کراہ نکلی اور باجی ہلی میں جلدی سے پیچھے ہو گیا باجی پرسکون ہوگئی میں دو منٹ رہا اور پھر لن کو گیلا کرکے باجی کی پھدی کے ہونٹ کو پکڑ کر کھول کر اندر تک باجی کی پھدی کو گیلا کیا اور پھر لن باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھ کر باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ دونوں ہاتھوں سے کھول کر اپنا لن اندر رکھ دیا دہانہ اتنا ہی کھلا کہ میرے لن کے ٹوپے کا کچھ ہی حصہ اندر گیا میں اپنے گھٹنوں کے بل ہوا اور ہلکا سا زور لگا کر لن باجی نصرت کی پھدی میں دبانے لگا جس سے میرا لن باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھول کر اندر جانے لگا جس سے باجی نصرت کی بھی آہ نکل کر گونجنے لگی اور باجی نصرت ہلتی ہوئی کراہنے لگی باجی کی نیند بہت پکی تھی میرے لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی میں گھس گیا باجی بھی کرہا کر ہل رہی تھی اور آہیں بھرتی ہلکی ہلکی نیند میں ہی گڑبڑانے لگی مجھے امید تھی باجی نہیں جاگے گی لیکن میں پھر بھی رک گیا باجی کا جسم ہل رہا تھا اور باجی آہیں بھرتی پر سکون ہو گئی میں ایک منٹ رہا رہا باجی نصرت کی پھدی بہت ٹائیٹ تھی پھدی نے میرا لن جکڑ رکھا تھا میں کراہ کر مچل رہا تھا پھدی کے اندر آگ لگی تھی جو میرے لن کو کھینچ رہی تھی میں بھی آگ سے جل رہا تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار لن کو ہلکا سا دبا کر اندر مزید ڈالنے لگا جس سے میرے لن کے ٹوپے سے مزید کچھ حصہ اندر چلا گیا میں حیران ہوا کہ دینی تو کہ رہا تھا کہ لڑکی سیل پیک ہوتی ہے لڑکی کے اندر تو پردہ ہوتا ہے لیکن باجی نصرت کے اندر تو کوئی پردہ نہیں تھا میں نے بے اختیار لن ہلکا سا پش کیا میرا لن اندر جانے لگا میں حیران تھا پردہ تو تھا ہی نہیں دیمی ایسے ہی کہ رہا تھا جیسے لن اندر جا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ پھدی میں آگ کا تندور جل رہا ہو میں مزے سے تڑپ رہا تھا باجی نصرت بھی اب ہلتی ہوئی کراہ رہی تھی میرا آدھا لن باجی نصرت کی پھدی کے اندر چلا گیا تھا کہ اسی لمحے میرا لن آگے کسی رکاوٹ کے ساتھ ٹچ ہوا محسوس ہوا میں وہیں رک گیا میں مزے سے تڑپ کر ہانپ رہا تھا مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا لن آگ میں چکا گیا ہوا باجی نصرت کے اندر آگ لگی تھی میرا آدھا لن باجی نصرت کی پھدی کے اندر جا چکا تھا میں مزے سے کانپنے لگا تھا میں سمجھ گیا کہ باجی نصرت کی پھدی کا پردہ ا گیا ہے باجی بھی مسلسل آہیں بھرتی کانپ رہی تھی میں نے لن کھینچا اور آہستہ آہستہ اپنا لن وہیں اندر باہر کرتا ہوا باجی نصرت کی پھدی میں پھیرتا باجی نصرت کو چودنے لگا باجی بھی کراہ کر مچلنے لگی باجی کا پیٹ تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگا لن اندر باہر ہونے سے پھدی کی لن پر گرفت اور رگڑ سے میرے ہوش اڑ رہے تھے مزے سے میری حالت خراب تھی ایک آدھا منٹ ہی میں نے لن باجی نصرت کی پھڈی ہے اندر باہر کیا ہوگا کہ باجی نے اونچی کراہ بھری اور درمیان سے اٹھ گئی اسی لمحے مجھے ایسا لگا کہ میرے لن پر کسی نے گرم پانی انڈیل دیا ہو اسی لمحے میری ہلکی سی چیخ نکلی اور میری جان گرم پانی نے کھینچ لی باجی نصرت فارغ ہوکر پانی کی دھاریں میرے لن پر مارتی فارغ ہورہی تھی باجی کی آگ نے میری منی بھی کھینچ اور میں بھی اپنا آدھا لن باجی کی پھدی میں اتارے کراہ کر فارغ ہونے لگا مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرے ٹانگوں اور جسم سے جان نکل کر لن سے باجی نصرت کے اندر جا رہی تھی عجیب سا نشہ اور سرور مجھے چھایا ہوا تھا میں کراہ کر تڑپتا ہوا فارغ ہورہا تھا باجی نصرت کی پھدی نے میرا لن نچوڑ لیا تھا مجھ سے باجی کی آگ برداشت نا ہوئی اور میں نے لن پیچھے کھینچ لیا باجی نصرت نے غراہٹ بھری اور کانپتی ایک سائیڈ پر ہوکر اپنے گھٹنے سینے سے لگا کر کانپتی ہوئی جھٹکے مارتی ابھی تک فارغ ہو رہی تھی باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ پچ پچ کرتا کھلتا بند ہوتا پانی کی دھاریں چھوڑ رہا تھا میں سسک کر کراہتا ہوا گھوما اور ایک طرف ہوکر چارپائی سے نیچے اتر کر لیٹ گیا کہ باجی اٹھے تو میں اسے نظر نا آؤ میں دو منٹ پڑا رہا باجی دو منٹ تک آہیں بھرتی فارغ ہوتی پانی چھوڑ رہی تھی باجی نصرت آہستہ آہستہ آہیں بھرتی ہلکی ہلکی کانپنے لگی باجی نصرت کی پھدی نے اتنا پانی چھوڑا کہ چارپائی سے نیچے گرنے لگا تھا میں یہ سب دیکھ کر حیران تھا کہ باجی نصرت اتنا پانی چھوڑتی ہے میں یہ سب دیکھ کر اوپر ہوا تو باجی ہلکی ہلکی ہانپتی ہوئی گھٹنے سینے سے لگا کر پڑی تھی میں نے اپنے کپڑے اٹھائے اور باہر نکل کر پہن لیے میں ڈر بھی گیا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا تھا اور تھوڑا پریشان بھی ہوا کہ میں نے باجی نہیں دے کے ساتھ یہ سب غلط ہی کیا ہے انہیں سوچوں میں باہر چارپائی پر لیٹ کر سو رہا تھا کہ اتنے میں گیٹ کھڑکا تو مجھے جاگ ہوئی میں نے گیٹ کھولا تو باجی اور امی تھی امی لوگ اندر آئے باجی سعدیہ سیدھی اندر گئی مجھے تھوڑا ڈر لگا کہ کہیں وہ سب دیکھ نا کے دو منٹ میں سعدیہ نے امی کو پکارا امی امی جلدی اندر آویں میں تو ڈر گیا اور سوچنے لگا کہ بچوں اب تو پکڑا گیا باجی نے امی کو بلایا تو امی بولی خیر تے ہے میں جان بوجھ کر اپنے دھیان میں رہا امی اندر گئی میں نے سوچا کہ دیکھوں تو سہی کیا کہتے ہیں میں بھی کان لگا کر کھڑا ہوگیا امی بول رہی تھی نصرت نصرت جاگ جا نصرت ہڑبڑا کر اٹھی امی بولی نصرت پانی نکل گیا تیرا باجی بولی ہلا امی بولی اسدا مطلب حکیم دی دوائی کم کر رہی ہے میں حیران ہوا کیسی دوائی باجی بولی امی حکیم دی دوائی تے کم کیتا پر ہنڑ مینوں کمزوری محسوس ہو رہی امی نیچے ہوئی اور باجی کا امتھا چوم کر بولی میری دھی ہنڑ دس کی کریے کے اے نا کرئیے تے حکیم آکھ رہیا اے نال توں مر جاسیں گئی جدو تک تیری شادی نہیں ہوندی اے تے کرنا پوسی باجی بولی اس دی تے امید کوئی نہیں امی بولی نصرت وت تینوں آکھیا تے ہے کوئی بندہ بنا لئے جس کولو اپنی آگ کڈھا کئی نصرت بولی امی اے میرے کولو نہیں ہوندا اے من نہیں چنگا لگدا امی میری دھی پنڈ دیاں ہور چھوریں وی تے اپنی آگ پنڈ دے چھوراں کولو کڈھیںدیاں ہینڑ تینوں وی کجھ نہیں ہوندا باجی بولی امی پتا نہیں میرے کولو نہیں ہوندا امی بولا ہلا وت اس تے ہی گزارہ کر۔ سعدو باجی کی پھٹی شلوار دیکھ کر بولی باجی اے کی شلوار پاٹی ہوئی ہئی باجی نصرت بولی ہا اے میں آپ ہی پاڑی ہا تا کہ جدو پانی نکلنا ہوے نکل جاوے شلوار لاہنی نا پوے امی بولی ہلا ہنڑ نکل گیا اے پر منجی تے ساری سے چھڈی ہئی ہنڑ کپڑے تبدیل کر لئے باجی بولی ہلا اماں میں کردیںاں مجھے اب ساری بات سمجھ آگئی میری بھی جان میں جان آئی کہ باجی کا پانی کیوں نکلا اتنا یہ ساری آگ تھی جو باہر نکلی تھی اور باجی نے اپنی شلوار بھی خود پانی نکالنے کےلیے پھاڑ رکھی تھی یہ سوچ کر مجھے اطمینان ہوا اور میں باہر نکل گیا میں باہر نکلا تو مجھے دیمی ملا مجھے دیکھ کر ہنس دیا اور بولا سنا باجی دا سواد آیا کہ نہیں میں ہنس دیا اور بولا ن پچھ یار بڑا سواد آیا وہ بولا واقعی اندر تے نہوں پایا میں بولا پایا اے وہ بولا وت میں بولا یار میر تے آدھا لن باجی نصرت دی پھدی دے اندر چلا گیا وہ حیران ہوکر بولا نا کر یار میں بولا تے ہور کی وہ بولا باجی دا پردہ نہیں آیا میں بولا آدھا گیا تے آگو آگیا ہا وہ بولا اس دا مطلب تیری بھین دی پھدی گہری ہے کافی میں ہنس دیا وہ بولا باجی جاگ گئی میں نے ہاں میں سر ہلایا وہ بولا چل میں وی کل ٹرائی کرساں گیا ہم کچھ دیر اکٹھے رہے میرے پاس اب کافی پیسے جمع ہو گئے تھے جس سے ہم نے ایک گیم خرید لی اگلے دن پھر سکول سے آکر وہی روٹین تھی میں کھانا کھا کر نکلا تو آج اسامے کی بیٹھک پر گاؤں کے اور بھی اوباش لڑکے بیٹھے تھے اسامہ ان کو باجی نصرت کی پھدی والی تصویریں دکھا رہا تھا سب دیکھ کر مچل رہے تھے مجھے دیکھ کر اسامہ بولا آ او شہزادے کی حال اے تیرا میں بولا ٹھیک آں توں سنا وہ بولا باجی دی سنا میں بولا ٹھیک اے اسامے نے مجھے موبائل دیا اور بولا آج وت بنا لیا تصویراں میں نکلا تو مجھے دیمی بھی مل گیا ہم دونوں گھر گئے آج باجی سعدیہ امی کے ساتھ چھت پر کپڑے دھو رہی تھی باجی نصرت اکیلی سو رہی تھی دیمی بولا یار نصرت نوں جگا ہک واری باجی ایک طرف منہ کرکے سو رہی تھی میں نے پاس جا کر باجی کو ہلایا دو تین بار ہلانے سے باجی نے آنکھیں کھولیں اور تھوڑی سی ہلی اور سیدھی ہوکر لیٹ گئی باجی نصرت کے سیدھے لیٹنے سے باجی نصرت کے تنے ممے ہوا میں اٹھے جان نکال رہے تھے میں بھی یہ دیکھ کر مچل گیا باجی نصرت کے پھولے گال بھی چومنے کو دل کر رہا تھا اتنے میں دیمی اندر آیا اور باجی نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر کھڑی کرکے کھول دیں باجی نے آج پھر وہی پھٹی ہوئی شلوار ڈال رکھی تھی میں نے کیمرے کی لائٹ آن کرکے باجی نصرت کی پھدی کی تصویریں لیں دیمی نے باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھول کر باجی نصرت کی پھدی کے اندر کا گلابی حصہ کھول دیا جس کی میں نے تصویریں لیں دیمی کے منہ میں پانی آ رہا تھا میں تصویر لے کر فری ہوا تو دیمی بولا بہزاد تو کل باجی دی پھدی اچ لن پا دتا ہا میں نے سر ہلایا وہ بولا یار میں وی پا لواں 500 روپیہ دیساں میں پانچ سو کا سن کر چونک گیا اور گھونٹ بھر کر رہ گیا میں نے باجی کو دیکھا وہ بے سدھ سو رہی تھی میں بولا ٹھیک اے پا لئے وہ یہ سن کر مسکرا دیا اور بولا باہر دا خیال رکھیں اور جلدی سے اپنی شلوار اتار کر ننگا ہو گیا اور باجی نصرت کہ ٹانگوں کی طرف بڑھ گیا باجی کی ٹانگیں دونوں طرف لڑھک کر کھلیں تھی اس نے قمیض آگے سے ہٹایا اور جلدی سے ٹانگیں اوپر باجی نصرت کے پیٹ سے ملا دیں اور منہ نیچے کرکے باجی نصرت کی پھدی کو چوم کر باجی کی پھدی کا دہانہ کھول کر باجی نصرت کی پھدی کے اندر تک اپنی زبان دلا کر پھیری جس سے باجی نصرت سسک گئی دیمی نے زبان دبا کر اندر پھدی کے اندر ڈال دی جس سے باجی سسک کر کانپ گئی دیمی نے زبان نکال لی تو باجی بھی پرسکون ہو گئی دیمی نے رک کر پھر اوپر ہوا اور اپنا لن باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھا دیمی کا لن میرے لن سے آدھا تھا اس نے باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر اپنا لن دبا دیا جو باجی نصرت کی پھدی کو کھول کر اندر اتر گیا جس سے باجی ہلکی سی ہلی وہ رک گیا اور ایک لمحے کے بعد اپنی گانڈ دبا کر لن باجی نصرت کی پھدی کے اندر ڈالنے لگادیمی کا لن انگلی جتنا تھا وہ آسانی سے سارا ہی باجی نصرت کی پھدی میں اتر گیا باجی نصرت کی پھدی کے تنگ دہانے نے دیمی کا لن دبوچ لیا جس سے باجی نصرت کی سسکی نکلی اور دینی بھی کانپ گیا باجی نے سسکی بھر کر اپنا سر سیدھا کیا اور خود ہی اپنی ٹانگیں اٹھا کر پیٹ سے لگا لیں دیمی رک گیا اور باجی کو حیرانی سے دیکھا باجی نے تیز سانس لیتی ہوئی دو منٹ تک سسکتی رہی پھر اس نے اپنی ٹانگیں نیچے کر لیں جس سے دیمی نے مجھے دیکھا اور اپنا لن آہستہ سے اندر باہر کرنے لگا دینی کا لن باجی نصرت کی پھڈی میں پھرتا ہوا ہلکی ہلکی پچ پچ کر رہا تھا دیمی ایک منٹ میں ہی باجی نصرت کی گرمی کے آگے ہمت ہار گیا اور کراہتا ہوا باجی نصرت کے اندر فارغ ہوکر نڈھال ہوگیا باجی کو کچھ بھی محسوس نا ہوا باجی لیٹی رہی دیمی ہانپتا ہوا پیچھے ہو کر اپنا لن باجی نصرت کی پھدی سے کھینچ کر نکال لیا جس سے دیمی کی منی باجی نصرت کی پھدی سے بہنے لگی دیمی نے باجی کی پھدی سے نکلتی منی انگلی پر بھری اور آگے ہوکر باجی نصرت کے کھلے منہ میں پھینک دی اور اپنی انگلی باجی کے منہ میں ڈال دی دیمی کی منہ باجی نصرت کے منہ میں چلی گئی میں یہ دیکھ کر گھونٹ بھر کر رہ گیا دیمی پیچھے ہوا اور نیچے اتر کر شلوار ڈال لی دیمی کو باجی کی پھدی مارتا دیکھ کر میں بھی مچل گیا تھا پر دیمی کے سامنے میں باجی نصرت کی پھدی مارنا نہیں چاہتا تھا اس لیے ہم وہاں سے نکل آئے باہر آکر دیمی نے مجھے پانچ سو دیا جسے دیکھ کر میں مچل گیا ہم اسامے کے پاس گئے اور اسے باجی نصرت کی ننگی پھدی دکھا کر پیسے لیے کچھ دیر ہم نے کچھ کھایا پیا اور میں پھر گھر آگیا امی اور باجی سعدو چھت پر کپڑے ہی دھو رہی تھیں میں اندر گیا تو باجی اپنی گانڈ نکال کر پڑی تھی باجی نصرت کی پھدی نظر آ رہی تھی جس پر لگی دیمی کی منی نظر آ رہی تھی میں یہ دیکھ کر سسک گیا باجی کی موٹی چوڑی گانڈ باہر کو نکل ہو ئیں تھی باجی نے ٹانگیں سینے سے لگا رکھی تھیں جس سے باجی کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی میں نے بے اختیار اپنی شلوار اتار کر ننگا ہوا گیا اور باجی نصرت کے پیچھے لیٹ گیا باجی نصرت کے چوڑے جسم سے گرمی نکل رہی تھی میں قریب ہوکر باجی نصرت کے ساتھ لگ گیا جس سے باجی نصرت کے جسم سے ایک مزے کی لہر میرے اندر اتر گیا میں آگے ہوا اور باجی نصرت کی موٹی گال کو منہ میں بھر کر دبا کر چوس کر اپنا لن باجی نصرت کی پھدی سے ٹچ کیا اور ہلکا سا زور لگا کر لن باجی نصرت کی پھڈی کے پار کردیا جس سے باجی سسک گئی میں نے اپنا آدھا لن باجی نصرت کی پھدی کے پردے تک اتار کر آگے پیچھے کرنے لگا میرے لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی کے پردے سے ٹچ ہو رہا تھا میں کراہ کر سسکتا ہوا باجی نصرت کی پھدی میں لن پھیرنے لگا باجی نصرت کی پھدی میں لگی آگ مجھے نڈھال کر رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ باجی کے اندر آگ لگ رہی تھی باجی نصرت کی پھدی میرا لن جلا رہی تھی دو منٹ کی پھدی میں لن پھیر کر میں نڈھال ہوکر فارغ ہو گیا سا تھی ہی باجی نصرت کا جسم بھی اکڑا اور باجی نصرت کی کرلاٹ نکل کر مجھے ڈرا گئی ساتھی ہی باجی نصرت کی پھڈی سے ایک لمبی دھار سے پانی نکل کر بہنے لگا ایسا لگ رہا تھا جیسے پائپ کھل گیا ہو باجی نصرت کا جسم کانپنے لگا اور باجی نصرت کراہتی ہوئی اپنی گانڈ زور سے پیچھے مار کر پانی چھوڑ رہی تھی باجی نصرت کی گانڈ کی ٹکر سے میں بے اختیار چارپائی سے نیچے جا گرا میں تو مزے سے بے قرار تھا باجی مسلسل کراہتی ہوئی پانی کے فوارے چھوڑ رہی تھی میں جلدی سے اٹھا اور کپڑے ڈال کر نکل گیا میں شام کو گھر آیا تو مجھے باجی فریش نظر آئی میں باجی کی لال گلابی ہوتی گالوں کو دیکھ کر مچل رہا تھا باجی بھی آج پہلے سے زیادہ فریش لگ رہی تھی شاید گرمی نکلنے کی وجہ سے تھا اگلے دن سکول سے بعد میں باجی کو سوتا چھوڑ کر اسامے کے پاس پہنچ گیا اسامے کا فون لے کر میں گھر کی طرف چل پڑا میں گھر آیا تو آج کمرے میں باجی نصرت نہیں تھی میں یہ دیکھ کر تھوڑا مایوس ہوا باجی سعدیہ پڑی تھی میں نے سوچا اس کی پکچرز بناؤں پر اس کا کوئی ویو نظر نہیں آیا میں نے دو تین تصویریں لیں باجی سعدیہ کی عادت تھی وہ کپڑااںکے کر سوتی تھی باجی اوپر کپڑا ڈال کر پڑی تھی میں نے ایک دو تصویریں لیں اور موبائل ہاتھ میں پکڑے ہی جلدی سے باہر نکلا تو سامنے میں سیدھا باجی نصرت سے ٹکرا گیا جو اندر آرہی تھی جس سے وہ اور میں دونوں بوکھلا سے گئے باجی نصرت مجھے دیکھ کر بولی بھائی کی ہویا کدے جااؤ ایں اتنے میں باجی کی نظر موبائل پر پڑی میں باجی کو دیکھ رہا تھا۔ موبائل کی گیلری کھلی تھی اور سامنے باجی نصرت کی ہی تصویریں تھیں میں نے جلدی سے موبائل نیچے جیب میں ڈالا میرا رنگ اڑ گیا تھا میں بھاگنے کی کوشش کی پر باجی نصرت نے مجھے بازو سے پکڑ لیا میرا دل ڈوب سا گیا تھا آج مارا گیا تھا باجی سے میں نے چھڑوانے کی کوشش کی باجی بولی بہزاد اے فون کو دا تے کدو لیا ہئی میرا رنگ لال سرخ ہو چکا تھا کان سائیں سائیں کر رہے تھے باجی نے اتنے میں میری جیب میں ہاتھ ڈالا پر میں نے اوپر ہاتھ رکھ لیا باجی تھوڑا سختی سے بولی بہزاد سچی سچی دس اے کدو لیا ہئی تے کی ڈرامے کر رہیا ایں میں کچھ بول نہیں رہا تھا باجی مجھ سے بڑی تھی باجی میں زور بھی تھا باجی نے میری جیب سے فون کھینچ لیا اور سامنے باجی کی نظر اپنی تصویر پر پڑی تو باجی کا رنگ اڑ گیا باجی نے سرخ غصیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور اگلے لمحے باجی نے کس کر مجھے تھپڑ مارا اور بولی بغیرت انسان اے کی کم کردا وداں ایں باجی کو بھی سمجھ لگ گئی تھی کہ یہ میرا ہی کرتوت تھا امی جو شاید کیچن میں تھی باجی کی بات سن کر نکلی اور ہمیں دیکھ کر بولی نی کی بنیا ہئی باجی امی کو دیکھ کر چونک گئی اور گھونٹ بھر کر بولی اے ویکھ امی تیرا لاڈلا نویں کرتوت کر رہیا اے موبائل لئی ودا اے امی بولی ہااا وے اے کدو لیا ہئی تے کی کردا ودا ایں میرا دل بجھ گیا تھا کہ آج باجی تو نہیں چھوڑے گی باجی نصرت نے میرا ہاتھ پکڑا اور کھینچتی ہوئی دوسرے کمرے میں ہے کر چلی گئی اور بولی بغیرت انسان سچی سچی دس اے فون کس دا تے اے میریاں تصویراں وچ کدو آیاں باجی نصرت کی صرف سوتے کی تصوریں تھی باجی نصرت کی پھدی کی تصویریں نہیں تھیں شاید وہ اسامے نے چھپا لیں تھیں صرف باجی کے مموں اور دوسری تصویر تھیں باجی نے جب اپنی تصویریں دیکھیں تو باجی غصے سے کھول رہی تھی باجی نے مجھے غصے سے دیکھا پر میری تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی باجی نے کس کر میری گال پر تھپڑ مارے اور بولی دس وی میں نے ڈرتے ڈرتے باجی کو بتایا اسامے دا اے باجی کا تو خون کھول گیا باجی تڑپ سی گئی اور کس کر میری گال پر تھپڑ مار کر بولی بغیرت انسان اس اوباش نال توں دوستی کیری ودا ایں تے اے دس میری تصویرں کنج اس کول اپڑ گئیاں توں چھکدا ایں میں نے ہاں میں سر ہلایا یہ سن کر باجی بولا بغیرت کمینہ انسان توں تے ہر حد توں گر گیا ایں بغیرتا میری عزت تار تار کر دتی ہئی اور تھپڑوں سے میرا منہ لال کر دیا اور پھر اپنا جوتا اتار کر کس کس کر کمر میں مارتی مجھے مارنے لگی باجی کے غصے سے لگ رہا تھا کہ آج میں نہیں بچوں گا میں نیچے اپنے پیروں میں جھک گیا اور درد سے اونچا اونچا رونے لگا اتنے میں دروازہ کھلا اور امی اندر آگئی اور مجھے پڑتا دیکھ کر بولی نی نصرت کی ہویا ہئی کیوں بھرا نوں ماردی پئی ایں یہ سن کر باجی رہی اور بولی امی اے ویکھ تیرے لاڈلے میری عزت تار تار کر دتی اور امی کو موبائل میں اپنی تصویریں دکھائیں امی دیکھ کر ہکا بکا ہوکر بولی جا وے کنجرا توں مر کیوں نہیں گیا اے گند کرن توں پہلے لعنتیاں امی نے مجھے مارا تو نہیں پر لعن طعن بہت کی باجی بولی جا دفعہ ہو جا ہنڑ گھر نا آویں توں ساڈا بھرا کوئی نہوں اسے اوباش جول رہویں ہنڑ بغیرتا کتیا باجی گالیاں نہلاتی ہوئی اپنی تصویریں ڈیلیٹ کر دیں اور میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھر سے نکالنے لگی امی بولی ہلا بس کر نصرت ہنڑ جا وے دے آ اس نوں فون تے اگاں نا جاویں امی نصرت کو لے کر نکل گئی میں اٹھا اور فون اٹھا کر نکل گیا میری تو جان ہی جیسے نکل گئی تھی میں اب اپنے آپ کو ہوس رہا تھا کہ میں نے ایسا کیوں کیا نصرت میری سگی بہن تھی اس کی عزت تار تار کر دی میں اسامے کے پاس گیا اور اسے ساری بات بتا دی وہ بھی پریشان اور دکھی سا ہوگیا میں وہاں سے نکلا اور شام تک باہر پھرتا رہا گھر جانے کو دل ہی نہیں کیا شام تک اپنے آپ کو لعن طعن ہی کرتا رہا شام ہو میں نے سوچا کہ جو ہوگیا ہو گیا اب باجی سے معافی مانگ لوں گا یہ سوچ کر میں گھر گیا تو باجی نے مجھے غصے سے دیکھا اور اندر چلی گئی میں اندر کیچن میں گیا تو امی نے کھانا دیا میں کھانا کھا کر اندر چلا آیا میں لیٹ کر سوچنے لگا کہ کتنا بڑا بلنڈر ہوگیا ہے مجھے یہ نہیں کرنا چاہئیے تھا میں باجی سے سوری کرنا چاہتا تھا پر اب تو باجی غصے میں تھی اس نے میری ایک نہیں اننی تھی میں لٹا تھا کہ اتنے میں امی اندر آئی اور مجھے لیٹا دیکھ کر میرے پاس آگئی میں تھوڑا پریشان تھا امی مجھے پریشان دیکھ کر میرے پاس بیٹھ گئی میں اٹھ کر بیٹھ گیا امی بولی پتر کیڈا کملا ہیں توں تیریاں بھیناں تیری عزت ہینڑ توں لوگوں دے آکھے تے اے کم کردا رہیا ایں میں منہ نیچے کر بیٹھا تھا میرے پاس کوئی جواب نا تھا امی بولی بہزاد میرا پتر بھیناں فی عزت دی رکھوالی کری دی اے انج غیرمرداں نوں بھیناں دیاں تصویراں نہیں وکھیندیاں میں بولا امی بس پتا نہیں مینوں کی ہویا کجھ سمجھ نہیں آئی امی بولی ویسے اے دس اے کدو توں کر رہیا ایں میں بولا امی بس دو تین دناں توں امی بولی تے کر کیوں رہیا ہائیں میں بولا بس او پیسیاں واسطے امی حیران ہوکر بولی اسامہ تینوں پیسے دیندا ہے میں نے ہاں میں سر ہلایا امی بولی کتنے میں بولا ڈھیر سارے امی بولی کدے کردا وت میں بولا بس کھانڑ پینٹ دیاں چیزاں لیندا امی بولی ساریاں دے میں بولا نہیں باقی بچ جانے او دیمی کول ہینڑ امی بولی او وی اس کم اچ شامل اے میں نے ہاں میں سر ہلایا امی بولی بھیناں تیریاں دے پیسے او وی کھاندا اے میں بولا نہیں امی او اپنی بھین دے کھاندا اے امی بولی او وی تصویراں دیندا اے اپنی بھین دیاں میں بولا ہا او آگے دیندا ہا اس ہی مینوں وی اس کم تے لایا امی بولی ہلا تے اسدی بھین نوں نہیں پتا میں بولا امی باجی ثانیہ تے اس نوں آپ تصویراں بنا کے دیندی اے تے پیسے لیندی اے امی اس بات پر چونک سی گئی اور بولی ثانیہ آپ اسامے نوں تصویرں گھلدی میں نے ہاں میں سر ہلایا امی بولی ہور کی تینوں پتا ہوتا وی کجھ کردی میں بولا امی ہور تے پتا نہیں پر دیمی دس رہیا ہا کہ کج دن پہلے باجی ثانیہ اسامے نوں ملنڑ گئی ہا تے اسامے نوں ملنڑ دا 25000 لئے کے آئی ہا میری اس بات پر امی کا منہ حیرانی سے کھل گیا اور امی چونک کر بولی وے توں اے کی آکھ رہیا ایں میں بولا امی اے دیمی آپ دسیا مینوں امی حیرانی سے کچھ سوچتی ہوئی بولی توں ہی میں اکھاں او کنجری نوے نوے سوٹ لئی ودی ہا میں بولا امی او وی اسامہ دیندا اے امی نے مجھے دیکھا اور بولی سچی ہے نا اے سب میں بولا امی سچ اے امی اب کچھ نرم سی پڑ گئی تھی امی بولی توں اسامے نوں کی دسیا ہنڑ میں بولا اے ہی دسیا کہ باجی موبائل پھد لیا اے امی چپ کرکے مجھے دیکھ کر کچھ سوچنے لگی امی کا اوپر کا سانس اوپر تھا اور نیچے کا نیچے امی کو ہلکا سا پسینہ بھی اتر آیا تھا میں امی کو سوچتا دیکھ کر بولا امی میرے کولو غلطی ہو گئی میں اگاں ایو جہیا کجھ وی نہیں کردا توں باجی نوں آکھ مینوں معاف کر دیوے امی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور میرے قریب ہوکر میرا ماتھا چوم کر بولی میری جان فکر نا کر ہنڑ تے میں وی تیرے تے راضی ہاں کوئی گل نہیں توں بے فکر ہوجا تیری بھین نوں میں آپ منا لیساں اور میرا ماتھا چوم کر باہر نکل گئی پہلے بھی باجی نصرت سعدیہ اور عابدہ اسی کمرے میں سوتے تھے میں اور امی اسی کمرے میں امی نکل گئی اور میں سوچنے لگا کہ باجی سے صبح معافی مانگ لوں گا مجھے پڑا پڑا کافی دیر ہو گئی تھی امی نہیں آئی تھی مجھے ڈر لگنے لگا تھا کہ امی کہاں گئی مجھے اب نیند بھی نہیں آ رہی تھی عجیب سے وسوسے آنے لگے تھے کہ آدھی رات کو دروازہ کھلا اور امی اندر آئی میں امی کو دیکھ کر بولا امی کدے ہائیں اتنی دیر امی ہنس دی اور بولی میری جان اپ ماہیا آکھیا کہ باجی نوں منا دے تیری بھین نوں ہی منیندی رہی آں میں بےقراری سے بولا باجی منی کہ نہیں امی ہنس کر اپنی چارپائی پر لیٹ گئی اور بولی میری جان من جاسی گئی ہلے غصے اچ ہے من جاسی میں چپ کرکے لیٹے گیا امی کچھ دیر بعد بولی بہزاد اس گل دا ہور کسے نوں تے نہیں پتا میں بولا نہیں باجی صرف دینی تے مینوں پتا امی بولی اسامے دے نال ہور کہڑا لڑکا ہا پنڈ دا میں بولا ہور تے کوئی نا جدو اسی جاندے پاسے اسامہ کلا پی ہوندا امی بولی اسامہ تیرا بیلی اے میں پریشان ہو گیا کیونکہ وہ اوباش تھا اور باجی اس بات پر پہلے ناراض تھی میں بولا نہیں امی او تے میں دو تن دن ہو گئے دیمی نال ہی گیا آگے تے کوئی نہیں گیا امی مسکرا کر میری طرف منہ کرکے بولی میری جان توں کل جاویں اس کول اس نوں اپنا بیلی بنا میں کچھ سمجھا نہیں یہ بات اور امی کو دیکھ کر بولا پر امی باجی تے ناراض ہو رہی ہا امی بولی نہیں ہوندی ناراض او تے کملی ہے توں چھور ہیں تے چھوراں دے ہر قسم دے بیلی ہوندے ناں پریشان ہو نصرت ہنڑ کجھ نہیں آکھدی تو کل جاویں تے اس نوں آکھیں کہ میرے نال دوستی کر لئے سمجھ آئی میں بولا اچھا امی بولی تے کل دیمی کولوں اپنے پیسے لئے آویں سارے کتنے ہک ہینڑ میں بولا پتا نہیں امی اس کول ہی ہنڑ امی بولی کل سارے لئے آویں نہیں بولا اچھ امی بولی ہنڑ سین میں جلد ہی سو گیا صبح اٹھا اور تیار ہوکر سکول کو چل دیا باجی ابھی تک ناراض ہی تھی میں سکول پہنچا تو مجھے دیمی ملا باجی نصرت جو پہلے سکول میں صرف دوپٹے میں ہوتی تھی آج اس نے خلود کو چادر میں ڈھانپ رکھا تھا اور تھوڑی سخت بھی لگ رہی تھی آج بریک ٹائم دیمی مجھے ملا تو اس نے مجھ سے پوچھا پکڑے جانے کی بات شاید کل اسامے نے بتا دیا تھا اس نے مجھ سے پوچھا میں نے اسے ساری بات بتا دی وہ بھی تھوڑا پریشان ہوا کہ اس کا نام بھی آیا تھا میں بولا یار وہ امی آکھ رہی ہا کہ پیسے سارے دینی کولو لئے کے مینوں دے دے دینی ہنس دیا اور بولا ہلا لئے لئیں میں بولا ہک گل ہور وہ بولا کی میں بولا اسامے نال دوستی کروا دے وہ بولا کیوں میں بولا امی آکھیا ہے کہ اسامے نال دوستی کر لئے وہ مسکرا دیا چھٹی کے بعد باجی جو پہلے مجھے ساتھ ملا کر گھر لے جاتی تھی آج باجی مجھے کوئی لفٹ نا کروائی اور خود چل دی میں باجی عابدہ کے ساتھ گھر کی طرف آگیا کھانا کھا کر میں نکلا تو دیمی ملا اس نے مجھے دو پانچ سو کے نوٹ اور کچھ سو کے نوٹ بھی پکڑا دئیے اور مجھے کے کر اسامے کی طرف چل دیا ہم بیٹھک میں پہنچے تو اسامہ مجھے دیکھ کر چونکا اور ابھائی شہزادے توں کدے بچ گیاں ہیں نصرت توں میں نے مسکرا کر سر ہلایا وہ بولا آج خیر اے دینی بولا بھائی بہزاد آکھ رہیا تیرے نال دوستی کرنی اے اسامہ ہنس دیا اور بولا کیوں میں بولا بھائی او امی آکھیا ہا کہ اسامے نال دوستی کر لئے اسامہ اس بات پر چونک کر سیدھا ہوا اور بولا کس آکھیا میں بولا امی آکھیا اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور بولا کیوں میں بولا بس ایویں ہی امی آکھیا کہ توں اسامے نوں دوست بنا لئے اسامہ مجھے دیکھ کر ہنس دیا اور بولا چل فر توں اج توں میرا پکا دوست میں آگے ہوکر اس سے ہاتھ ملایا مجھے تو اس دوستی کی سمجھ نہیں آئی پر اسامہ کھلاڑی تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ مجھے امی نے اس سے دوستی کرنے کو کیوں کہا ہے وہ اپنے بٹوے سے ہزار روپیہ نکال کر بولا چل فر جے تیری امی آکھیا اے تے اے میری طرفو اپنی امی نوں اے پیسے دیویں تے میرا سلام وی اپنی امی نوں دیویں تے آکھیں کہ اے میری طرفو تھواڈے واسطے اے امی نوں آکھیں کسے چیز دی ضرورت ہووے بے جھجھک آکھ دئیں ہنڑ توں میرا دوست ہیں تیرا گھر ہنڑ میرا گھر ہی اے توں مینوں اپنے گھر دا فرد سمجھ ہنڑ میں ہنس دیا اور پیسے کے کر جیب میں ڈال کر کچھ دیر وہاں بیٹھا اور پھر گھر آگیا امی کیچن میں تھی میں اندر گیا تو باجی نصرت اور عابدہ اندر سو رہی تھیں سعدیہ ہمسائی کے پاس پڑھنے گئی تھی میں اندر گیا تو امی مجھے دیکھ کر مسکرائی اور بولی اسامے آلو ا رہیا ایں میں بولا ہاں جی امی مسکرا دی اور بولی بیلی بن گیا ہئی میں بولا جی امی اور جیب سے پیسے نکال کر امی کو دکھائے تو امی کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا امی نے کام چھوڑ دیا اور بولی وے اتنے پیسے میں بولی کی امی اے پیسے او ہنڑ باجی دی تصویراں اہے تے اے ہزار اس دوستی کرن دا دتا اے سب ملا کے 2500 ہو گئے تھے امی نے جلدی سے پکڑ لیے اور گننے لگے امی کی آنکھوں میں پیسے دیکھ کر عجیب سی چمک آ گئی اور امی سمائل کرتی مسکرانے لگی امی کی چہرہ بھی چمک رہا تھا امی بولی واہ بہزاد آج تے خوش کیتا ہئی میں بولا امی اسامہ تینوں سلام دے رہیا ہا امی بولی وعلیکم السلام میرا وی سلام دیویں اکھیں تیری ماں وی سلام دے رہی ہا میں بولا امی او آکھ رہیا ہا کہ میں ہنڑ تیرا دوست نہیں تیرے گھر دا فرد بن گیا ہاں امی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بے شک ہنڑ اسمہ سادے گھر دا فر ہی بنسی میں بولا امی اور آکھ رہیا ہا کہ کسے چیز دی لوڑ ہووے تے دس دینا امی مسکرا دی اور بولی اچھا جی میں بولا جی امی نے مجھے پچاس روپیہ دیا اور بولی جا توں کھا پی میں پچاس کے کر خوش ہوگیا امی کام چھوڑ کر پیسے پکڑ کر اندر باجی کے کمرے میں چلی گئی میں باہر نکل آیا میں کچھ دیر باہر ہی رہا کچھ کھایا پیا اور گھر آگیا شام کو گھر ہی رہا باجی مجھ سے اب بات نہیں کرتی تھی دو تین دن یہی کچھ چلتا رہا امی رات کو اکثر باجی والے کمرے میں جاتی پھر وہ رات کو لیٹ واپس آتی تھی میں یہ سب سے سوچتا تھا کہ ایسی کیا بات ہو تی ہے ایک دن میں گھر سے باہر واپس آیا اور کمرے میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ اتنے میں باجی نصرت دروازہ کھول کر اندر آئی میں باجی کو آج اپنے کمرے میں دیکھ کر چونک گیا مجھے وہ دن یاد آگیا جب باجی نے مجھے پکڑا تھا اور پھینٹی لگائی تھی جس سے میں ڈر سا گیا اور باجی نصرت کو دیکھنے لگا میرا رنگ اڑ سا گیا باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور چلتی ہوئی میرے پاس آکر بیٹھ گئی میں نے باجی کو دیکھا مجھے ہلکا سا پسینہ آگیا باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی باجی نصرت نے آج کوکا ڈال رکھا تھا اور ہلکا سا میک اپ کر کے ہونٹوں پر لال سی سرخی لگا رکھی تھی باجی کی مسکرا ے سے باجی نصرت کی پھولی گالیں بہت خوبصورت لگ رہی تھی باجی نے مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولی بہزاد تیرا رنگ کیوں اڈ گیا میں تے تینوں کجھ نہیں آکھیا میں نے باجی کو مسکراتا دیکھا تو میری بھی جان میں جان آئی میں بولا نہیں باجی بس ایویں باجی نے کسا ہوا سوٹ ڈال رکھا تھا جس سے باجی نصرت۔ کی موٹی گانڈ ی کسی ہو نظر آ رہی تھی باجی نصرت کے موٹے چوتڑ پھولے ہوئے شلوار میں پھنسے نظر آ رہے تھے میں بھی حیران تھا باجی اس لباس میں کیوں ہے باجی نصرت نے میری کتاب اٹھا کی اور بولی پڑھائی کیو کہی جا رہی اور ورق الٹانے لگی میں بولا ٹھیک جا رہی باجی مسکرا کر بولی ہنڑ تے گندے کم نہیں کر رہیا میں جلدی سے بولا نہیں باجی ہنڑ تے کوئی نہیں باجی مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی ہنڑ پیسے کنج کنا رہیا ایں میں اس بات پر شرما کر منہ نیچے کیا اور بولا سوری باجی میں اپنے مزے واسطے تیری عزت خراب کیتی باجی نے ہنس کر مجھے دیکھا اور میرا چہرا ہاتھ سے پکڑ کر اوپر کیا اور بولی میری جان کوئی گل نہیں ہنڑ اس گل نوں بھل جا میں وی بھل گئی ہاں میں باجی کو مسکراتا دیکھ کر مسکرا دیا باجی نصرت کتاب کو دیکھتی بولی اے دس اسامہ تینوں کتنے پیسے دیندا ہا میری ہک تصویر دے میں نے چونک کر باجی کو دیکھا باجی کے چہرے پر کوئی ناراضگی کا آثار نہیں تھا باجی نے مجھے دیکھ کر مسکرا کر کہا دس وی میں بولا باجی میں تن چار لئے جاندا ہاس 50 روپے دے دیندا ہا باجی بولی بس 50 روپے میں نے منہ جھکا لیا باجی مسکرا دی اور بولی وے نا ڈر کجھ نہیں آکھدی میں بولا باجی اگر کوئی پرائیویٹ حصے دیاں تصویراں ہوون تے 100 مل جاندا ہا باجی بولی پرائیویٹ کیویں میں بولا باجی چھاتیاں یاں تھلے آلی باجی بولی ہلا توں میرے پرائیویٹ دیاں وی لئے جاندا ہائیں میں بولا باجی نہیں باجی صرف چھاتیاں دی لئے جاندا ہاس باجی بولی وت امی نوں توں 2500 لیا کے دتا او کنج بن گئے میں ڈر سا گیا کہ باجی کو پتا لگا کہ اس کی پھدی کی بنا کر دیتا تھا تو باجی تو مار دے گی باجی بولی بھائی سہی دس کجھ نہیں آکھدی میں بولا نہیں باجی باجی ہنس دی اور بولی میری تھلے آلی دیاں وی بنا کے لئے جاندا ہائیں میری شلوار کے پاٹی ہوئی ہوندی ہا میں یہ سن کر ڈر کر باجی کو دیکھا باجی ہنس دی اور بولی وے کملیا تیری بھین دا اے حصہ آج تک کسے نہیں ویکھیا اسامے نوں وکھایا ہی پایا تے پیسے ہی ول لئے لویں ہا میں یہ سن کر چونک کر سر اٹھا کر باجی نصرت کو دیکھا باجی ہنستی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی میں ہکا بکا رہ گیا کہ باجی نصرت خود کہ رہی تھی باجی نے مجھے دیکھا اور بولی جے اگر ہنڑ میں اپنی پرائیویٹ تصویراں دیواں تے کتنے پیسے لئے آسیں اسامے کولوں میں تو چونک گیا اور باجی کو ہکا بکا دیکھنے لگا باجی نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی کی پسند نہیں آئی گل میں بولا نہیں باجی توں دس دے کتنے لئے آواں باجی بغیر جھجھکے بولی اپنے بیلی اسامے نوں آکھ میرے پرائیویٹ ننگے حصے دی توہر دا 100 روپیہ کے ویڈیو بنانی تے 500 لیساں میں بولا باجی اے تے ڈھیر سارا ہے باجی بولی تے تیری بھین دی عزت کوئی سستی اے اس نوں آکھیں کے منظور ہووے تے موبائل لئے آؤیں میں بولا اچھا اور باجی کو حیرانی سے دیکھنے لگا کہ باجی خود ہی اب کام کر رہی ہے مجھے دیکھتا دیکھ کر بولی کی بنیا کی ویکھ رہیا میں بولا نہیں کجھ نہیں میں ہنڑ جاواں فر اسامے آل باجی بولی تے انتظار کس گل دا اگر اس نوں منظور ہووے تے لئے آویں موبائل میں بولا اچھا اور کتاب بند کرکے سائیڈ پر رکھ کر باہر نکلا تو سامنے امی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں بھی مسکرا کر باہر نکلا اور اسامے کی طرف چل دیا اسامے کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر بولا آ شہزادے کی حال ہے میں بولا ٹھیک میں اس کے پاس بیٹھ گیا وہ موبائل میں بزی تھا میں چپ کرکے بیٹھا تھا وہ مجھے خاموش دیکھ کر بولا کی گل اے کیوں چپ ایں میں بولا کجھ نہیں بس ایویں وہ بولا کوئی خبر ہے کہ نہیں میں بولا ہا خبر ہے وہ بولا کی خبر اے میں بولا باجی دا پیغام ہے ہک وہ چونک کر مجھے دیکھا اور سیدھا ہوکر بیٹھ کر بولا او کی میں بولا باجی آکھ رہی ہے کہ ننگی تصویروں دا 100 روپیہ لیساں تے ننگی وڈیو دا 500 یہ سن کر اسامہ چونک کر اچھلا اور بولا اے توں کی اکھ رہیا میں بول جو توں سنیا وہ بولا نہیں سچی آکھ رہیا۔ ایں اے سارا کجھ نصرت ہی آکھیا اے میں بولا ہور کی وہ بولا نا کر یار میں بولا سچی وہ بولا مینوں منظور ہے بلکہ اے فون لئے جا تے بنوا لیا وا شہزادے آج تے خوش کیتا ہی میں نے فون پکڑ لیا وہ بولا ٹھہر اے پیسے پکڑ اس نے مجھے ہزار روپیہ دیا اور بولا ایڈوانس پیسے لئے جا اپنی بھین نوں دیویں اور مجھے 100 پکڑا کر بولا اے تیرا انعام تے اس نوں میرا وی ہک پیغام دیویں میں بولا کی وہ بولا اس نوں آکھیں اسامہ آکھ رہیا ہا کہ نصرت توں بڑی سوہنی ایں اسامہ تیرا دیوانہ ہے جے ہو سگے تے ہک ملاقات کر لئے میں بولا اچھا اور فون لے کر گھر آگیا باجی اندر کمرے میں تھی میں اندر گیا تو باجی مجھے دیکھ کر چونک گئی اور بولی کی بنیا میں نے ہزار روپیہ نکالا اور باجی کو دے کر بولا باجی او آکھ رہیا منظور ہے باجی کے چہرے پر چمک آگئی اور باجی مسکرا کر پیسے پکڑ لیے اور بولی فون لئے آندا میں نے فون نکالا تو باجی نے پکڑ لیا میں باجی کو دیکھنے لگا باجی بولی کی ہنڑ توں وی مینوں ویکھنا باہر جا میں بنا کے دیندی آں میں شرما گیا اور مڑتے ہوئے بولا باجی اسامے ہک پیغام دتا اے تیرے واسطے باجی بولی او کی میں بولا باجی او آکھ رہیا ہا کہ توں بہوں سوہنی ایں میں تیرا دیوانہ ہاں ہو سگے تے او آکھ رہیا ہک واری مل جا باجی نصرت اپنی تعریف دیکھ کر مسکرا کر شرما گئی اور ہنس کر مجھے دیکھ کر بولی اس نوں آکھ ایڈی کی کاہلی اے اپنی تصویروں دے رہی آں اس تے گزارہ کر میں بولا اچھا اور میں باہر نکل آیا کچھ دیر بعد باجی نے مجھے باہر آکر موبائل پکڑا دیا امی پاس ہی بیٹھی تھی وہ یہ دیکھ کر مسکرا دی میں سمجھ گیا کہ امی بھی شامل ہے اس میں میں اٹھا اور باہر نکل گیا میں نے سوچا دیکھوں تو سہی کیسی بنائی ہیں باجی نے میں نے گیلری کھولی تو باجی نصرت کی پوری ننگی تصویر تھی جس میں باجی نصرت اپنا ممے کو اٹھا کر ننگی کھڑی تھی اگلی تصویر میں باجی نصرت کی پھدی کی تصویر تھی باجی نے ٹانگیں اٹھا کر ایک تصویر بنائی ہوئی تھی اور پھر باجی نے پھدی کے ہونٹ کھول کر کلوز تصویر بنا رکھی تھی باجی نے ایک پپی لینے کے انداز بھی تصویر بنائی ہوئی تھی آگے باجی نے ویڈیو بھی بنائی تھی میں نے ویڈیو پلے کی تو باجی نصرت فل ننگی تھی باجی نے ایک کیمرے کو دیکھ کر چمی لی اور فلائنگ کس پھینکی پھر باجی نے اپنے ممے دیکھائے اور ہلکی ہلکی سسکنے لگی ساتھ ہی باجی لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی ننگی پھدی کے ہونٹ کھول کر اچھی طرح دکھائے اور پھر باجی نصرت نے اپنی انگلی تھوڑی سی پھدی میں ڈال کر سسکی اور پھدی کو مسلتی ہوئی کھول کر دکھاتی رہی پھر باجی نے اپنی شکل دکھائی اور ودیو بند کر کردی میں نے موبائل جا کر اسامے ہو دے دیا اسامہ موبائل لے کر کھول کر ویڈیو دیکھا تو سسک گیا اور بولا اففف یار تیری بھین تے مار دیندی کی اکھدی ملسی کہ نہیں میں بولا باجی آکھ رہی اس تے ہی گزارہ کر وہ بولا نہیں یار اس نوں آکھ جتنے پیسے چاہیے لئے کوے پر ہک واری ملے مینوں میں بولا اچھا میں وہاں سے نکلا اور گھر آگیا اگلے دن باجی کو میں نے کہا کہ اسامہ آکھ رہیا ہا کہ جتنے پیسے لینے نہ لئے لئے پر ہک واری مل چا باجی مسکرا دی اور بولی بھائی اتنا کافی اے میںبولا اچھا اور اسی طرح پھر میں گیا تو اس نے مجھے موبائل دیا اور بولا بھین نوں آکھیا کہ نہیں میں بولا آج آکھیا اے پر او آکھ رہی اتنا کافی اے وہ بولا اس نوں آکھ صرف ہک واری دروازے تے ہی آ جاوے میں نیڑیو ویکھ لیساں گیا منہ مانگے پیسے دیساں میں بولا اچھا اور موبائل لے کر گھر آگیا میں نے باجی نصرت کو موبائل دیا باجی نصرت اندر چلی گئی اور کچھ دیر بعد اپنی تصویریں اور ویڈیوز بنا کر لائیں اسامے نے آج مجھے 2000 روپے دئیے تھے میں نے باجی کو 2000 روپے دئیے تو باجی نصرت بولی دو ہزار کیوں میں بولا باجی اس ہزار ایڈوانس دتا ہے باجی بولی کیوں میں بولا باجی او آکھ رہیا اے کہ ہک واری نیڑے ہو کے ویکھن دے تے اپنی مرضی دے پیسے لئے باجی بولی کیویں ویکھن دیواں میں بولا باجی او آکھ رہیا کہ صرف ہک واری دروازے تے آ کے دروازہ کھول کے دو تین منٹ مینوں ویکھن دے باجی بولی وے جے کسے ویکھ لیا تے مڑ میں بولا باجی تینوں اسامے دا پتا اس نوں کوئی کجھ نہیں آکھ سگدا باجی سوچ میں پڑ گئی اور بولی صرف میں دروازے تے آساں گئی اس نوں اپنا آپ ویکھا کے ہٹ اساں گئی ہور کجھ نا کرساں میں بولا سہی اے باجی بولی چل اس نوں آکھیں 5000 لیساں دروازے تے آکے اپنا جسم ویکھانڑا دا میں بولا اچھا باجی اور آکھ رہیا ہا بغیر دوپٹے آنا باجی ہنس دی اور بولی ہلا میرا بھرا توں تے پورا دلال ہو گیا ایں میرا اور ہنس دی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ دلال کیا ہوتا ہے میں 5000 کا سن کر مچل سا گیا تھا اور جلدی سے نکل کر اسامے کی طرف گیا وہ بے قراری سے میرا ہی انتظار کر رہا تھا میں پہنچا تو وہ بولا کی بنیا وت نصرت کی آکھیا میں مسکرا کر بولا باجی آکھ رہی 5000 لیساں دروازے تے آ کے ویکھانڑا دا وہ یہ سن کر مچل سا گیا اور بولا اففف بہزاد آج تے شہزادہ لگا ہیں اور جلدی سے اپنے بٹوے سے 5000 کے پانچ نوٹ نکال کر مجھے پکڑا دئیے میں نوٹ پکڑ کر مچل گیا اس نے پھر ایک پانچ سو کا نوٹ نکالا اور مجھے دے کر بولا اے تیرا انعام تے جا بھین کولو پچھ کس ٹائم آواں میں بولا اچھا میں وہاں سے نکلا تو مجھے سامنے دینی مل گیا اور بولا واہ بھائی آج کل تے لفٹ ہی کوئی نہیں میں ہنس دیا اور بولا بس یار ایویں ہی میں اسے لے کر دکان پر گیا کچھ دیر باتیں کرتے رہے باجی نصرت نے مجھے دیمی سے بات کرنے کو منع کی تھا اس نے مجھ سے پوچھا تو میں مکر گیا اور بولا کہ باجی نصرت سے چوری آتا ہوں وہ بولا اچھا اس نے آج مجھے چیز کھلائی اس کے پاس بھی کافی پیسے تھے پوچھنے پر بولا کہ آج رات باجی ثانیہ پھر اسامے سے ملنے آئی تھی اس لیے آج پھر کافی پیسے ملے ہیں مجھے بھی اب اپنی بہن نصرت کے پیسے مل رہے تھے میں مزے میں تھا دیمی سے اٹھ کر گھر آیا تو باجی نصرت اندر کیچن میں تھی میں اندر گیا تو باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں باجی کو پیسے دینا چاہتا تھا پر وہاں امی تھی اس لیے میں جھجھک گیا امی مجھے چپ دیکھ کر بولی بہزاد کی بنیا فر کی آکھیا اسامے میں گھونٹ بھر کر رہ گیا کہ امی کو بھی پتا ہے باجی سنک پر برتن دھو رہی تھی میں نے باجی کو دیکھا تو باجی مسکرا دی اور بولی بول وی امی نوں پتا اے میں جیب سے پانچ ہزار کے نوٹ نکال کر بولا باجی اس پنج ہزار دے دتے ہینڑ تے اکھ رہیا کس ٹائم آواں پانچ ہزار دیکھ کر امی کی آنکھوں میں چمک سی آگئی اور امی گھونٹ بھر کر مجھے دیکھا اور باجی نصرت کو دیکھ کر مسکرا کر بولی نصرت ویسے تیرے ہتھ تے سونے دی ککڑ آگئی اے دوواں ہتھاں نال کے لئے باجی مسکرا دی اور میرے ہاتھ سے پیسے پکڑ کر امی کو پکڑا دئیے امی نے پیسے پکڑ کر اکھٹے مروڑ کر اپنے سینے میں جلدی سے ڈال لیے جیسے بندہ سامنے والی جیب میں ڈالتا ہے امی کے دوپٹہ اٹھانے سے پہلی بار بڑے بڑے موٹے ممے مجھے نظر آئے امی کے موٹے تنے مموں کی لکیر بھی نظر آئی میں نے اوپر امی کو دیکھا تو امی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بہزاد چل توں جا باہر نصرت دس دیندی اے جھٹ تک کہ اسامہ کس ٹائم آوے میں باہر نکلا اور دروازے پر رک گیا کہ امی اور باجی کیا بات کرتی ہیں امی بولی نصرت توں تے اسامے نوں دیوانہ کہتا ہویا نصرت ہنس دی اور بولی امی توں ویسے سہی ہی آکھدی ہیں اے امیروں کولو پیسے کڈھواںڑ دا اے ہی طریقہ اے انج تے اے نہیں کڈھدے ساڈے جئے لوگ دورو ہی ویکھدے رہندے اے لوگ سادہ کمزوریاں دا فائیدہ اٹھانے امی بولی نصرت اے تیرا بڑا دیوانہ اے اسامہ توں اس کولو اپنا ریٹ لوا کے اکھٹا ہی مال چھک لئے باجی نصرت ہنس دی اور بولی امی توں وی بولی ہیں تینوں نظر آ رہیا اے کہ اسامہ میرے آکھنڑ تے میرے آتے پیسے وار رہیا اے توں ہک واری مینوں اسدی کمزوری دا فائیدہ فل اٹھانڑ دے جتنے پیسے انج نکلدے کڈھ لوئیے میں اسامے دے ہولی ہولی قریب ہوکے فل مال کڈھساں جتنا دل کیتا امی ہنس دی اور بولی واہ میری دھی توں تے میرے نالوں وی چالاک نکلی ہیں باجی ہنس کر امی تیری ہی دھی آں توں ویکھی جا میں کی کی کردی امی ہنس کر بولی ہلا اس نوں ہنڑ ویکھاویں کس وقت اپنا جسم باجی بولی امی شام نوں سہی اے کسے نوں پتا وی نا لگسی امی بولی نصرت ہنیرے وچ اس تینوں کی ویکھنڑا مڑ اس آکھنا میں پیسے وی دتے تے تیرے جسم دا نظارہ نہیں ملیا باجی بولی امی کے ہنڑ سد لواں تے لوکی ویکھ کے گلاں کراں امی بولی اوئے ہوئے نصرت ہلے تک ڈر رہی ہیں تینوں پتا نہیں اسامے دی کیڈی دہشت اے کوئی ویکھ کوے کسے تینوں گل وی نہیں کرنی کسے دی مجال ہی نہیں جتھے اسامہ جاوے تے کوئی اس پاسے آکھ چا کے وی ویکھ لوے نصرت بولی اچھا امی بولی ہاں تے ہنڑ ہی وکھا دے بہزاد نوں آکھ اس نوں سد لیاوے تے اے اپنی برا لاہ کے اس نوں اپنا جسم ویکھاویں باجی ہنس کر بولی امی میرا کوارا جسم آج تک کسے نہیں ویکھیا اسامے نوں پہلی واری ویکھا رہی آں اتنا کافی نہیں۔ امی بولی اسامہ ناراض ہوسی باجی نصرت بولی ہوندا تے ہووے پیا جے مینوں برا تے بغیر ویکھنا تے ہور پیسے دیسی تے امی تینوں پتا کل اس مینوں کھنا اے تے کل وی تے اس کولوں پیسے چھپنے امی ہنس کر بولی نصرت تیرا دماغ تے بڑا چلدا اس کم اچ باجی نصرت بولی امی ہنڑ تک محرومیاں ہی ویکھیاں ہینڑ ہن اس کم اچ آئی آں تے ہنڑ پورے شوق پورے کرساں امی ہلا میری دھی آگے تے توں مندی ناہی۔ ہنڑ آپ ہی سارے پلان بنا رہی ہیں باجی ہنس دی اور بولی ہلا میں بہزاد نوں آکھدی آں اسامے نوں سد لیاوے میں یہ سن کر جلدی سے کمرے کی طرف چل دیا میں کمرے میں جا رہا تھا کہ پیچھے سے باجی نے آواز دی میں رک کر دیکھا تو باجی نصرت چلتی ہوئی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی باجی نصرت کی آنکھوں میں مستی چھلک رہی تھی باجی نصرت کے ناک کا کوکا باجی نصرت کے حسن پر قیامت ڈھا رہا تھا میں مچل سا گیا باجی پاس آئی اور بولی جا اپنے دوست اسامے نوں آکھ آجاوے گھر اس نوں آکھ گلی ابو ویکھ کے گھر آکے دروازہ کھٹکائے تے تیرا پچھے میں بولا اچھا میں باہر نکلا اور اسمے کی طرف گیا وہ تو جیسے انتظار میں ہی تھا اس کی بے قراری دیکھ کر میں بولا بھائی باجی آکھ رہی اے کہ گلی اچو ویکھ کے گھر آجا تے میرا پچھے یہ سن کر اسامہ ہنس دیا اور بولا اپنی بھین نوں آکھ ڈر کیوں رہی ہیں اسامے نال یاری لا کے کسے دی مجال ہی نہیں تینوں کوئی گل کر جاوے اس نوں آکھ میں ا رہیا میں نکلا اور گھر آکر باجی کو بتایا کہ اسامہ آ رہا ہے اور وہ کہ رہا ہے کہ اسامے نال یاری لا کے ڈر نہیں کسے دی مجال ہی نہیں تینوں کوئی گل کرجائے یہ سن کر باجی نصرت مسکرا دی باجی نصرت کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی تھی اور چہرے پر لالی اتر آئی باجی نے گلے میں دوپٹہ ڈالا ہوا تھا باجی نصرت نے ایک کسا ہوا لباس ڈال لیا تھا جس میں باجی نصرت کا انگ انگ نظر آ رہا تھا باجی نصرت بےقراری سے انگلیاں مروڑ رہی تھی جیسے باجی نصرت کو بھی اسامے کا نتظار تھا باجی عابدہ چھت پر بچوں کو پڑھا رہی تھیں ور سعدیہ ہمسائی کی طرف اتنے میں دروازہ کھٹکا تو باجی نصرت نے چونک کر ادھر دیکھا امی باجی نصرت سے بولی نصرت اے دوپٹہ وی لاہ چا کجھ نہیں ہوندا امی پاسس ہی کھڑی تھی امی نے یہ کہتے ہوئے باجی نصرت کا دوپٹہ گلے سے کھینچ لیا باجی نے خود بھی اتار دیا باجی نصرت کو میں نے پہلی بار دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا باجی نصرت تو پوری سیکس بمب تھی باجی نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے موٹے ممے قیامت ڈھا رہے تھے باجی نصرت کا ہلکا سا بھرا ہوا چوڑا جسم بہت خوبصورت تھا کسے قمیض میں کسا ہوا پیٹ بھی نظر آ رہا تھا جس سے باجی نصرت کی دھنی بھی باہر کو جھانک رہی تھی باجی نصرت کا لک پتلا اور نیچے چوڑی گانڈ پھیلی ہوئی باہر ہو نکل کر کیا منظر پیش کر رہی تھی باجی نصرت کے موٹے باہر کو نکلے چتڑ کس کر شلوار سے جھانک رہے تھے باجی کی کمر کمان کی طرح تن رہی تھی امی باجی نصرت سے بولی نصرت اپنا سینہ تھوڑا ہور باہر کڈھ یہ سن کر باجی نصرت نے اپنا سینہ آگے کو نکال لیا جس سے باجی نصرت کا چوڑا سینہ مزید آگے کو نکل آیا باجی نصرت کے کھلے گلے سے نظر آتا چوڑا گورا سینہ قیامت لگ رہا تھا باجی نصرت کی ہلی سی مموں کی لکیر صاف نظر آنے لگی تھی جسے دیکھ کر باجی نصرت کے چہرے پر لالی سی پھیل گئی امی نے باجی کی گت اٹھائی اور باجی کو بتاتی ہوئی بولی نصرت جدو اسامے دے سامنے جاویں اپنی گت چا کے اپنی چھاتیاں تے رکھ کے اسامے فی اکھیاں وچ اکھیاں پا کے ہک واری ویکھیں او تیرے تے مر جاوے اور آگے ہوکر باجی نصرت کا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے قریب کیا اور باجی نصرت کا ماتھا چوم کر بولی جا میری دھی آج تو توں آزاد ہیں جا آج توں اپنا آپ ویکھا کے کما لیا یہ سن کر باجی نصرت مسکرا کر گیٹ کی طرف چل پڑی چلتے ہوئے باجی نصرت کی چوڑی گانڈ باہر کو نکل کر ادھ پتھل کر رہی تھی باجی نصرت دروازے پر پہنچی اور دروازہ کھول کر ہلکا سا باہر دیکھا تو اسامہ کھڑا تھا باجی نصرت اسامے ہو دیکھا اور ایک لمحے کےلیے پورا دروازہ کھول کر اسامے کے سامنے آگئی اسامہ باجی نصرت کے جسم کو دیکھ کر مچل سا گیا اس نے باجی نصرت کی آنکھوں دیکھا اور ایک لمحے کےلیے مسکرا گیا اور نیچے باجی نصرت کے چوڑے پھولے سینے کو دیکھا جہاں باجی نصرت کے موٹے تنے کر کھڑے ابھرے ہوئے ممے اس کی آنکھوں میں کھب سے گئے باجی نصرت کے تنے ہوا میں کھڑے ممے دیکھ کر اسامہ مچل گیا اور سسک گیا باجی نصرت کے مموں جیسے ممے شاید اس نے پہلی بار دیکھے تھے اتنا چوڑا اور تنا ہوا سینہ اس نے پہلی بار دیکھا تھا اس نے گھونٹ بھر کر ٹکٹکی باندھ کر باجی نصرت کے تنے مموں کو دیکھتا ہوا باجی نصرت کے جسم پر نظر گھماتا ہوا باجی نصرت کا پیٹ اور نیچے گانڈ پر نظر گھمانے لگا اسامہ اور باجی نصرت باہر گیٹ پر کھڑے تھے باجی نصرت اسے اپنا جسم دکھا رہی تھی اسامہ باجی نصرت کے جسم سے نظروں نظروں میں کھیل رہا تھا باجی نصرت اس کے سامنے کھڑی اپنی انگلیاں مروڑ تی کسی وقت نظر اٹھا کر اسے دیکھ لیتی پھر باجی نصرت نے اپنی گت اٹھا کر آگے مموں پر رکھی اور ایک ہاتھ پیچھے دروازے پر رکھا اور دوسرا آگے رکھ کر اپنا سینہ مزید آگے کی طرف کھینچ کر نکال دیا جس سے باجی نصرت کے موٹے ممے باہر کو مزید نکل آئے باجی نصرت اپنی گت پر انگلیاں پھیرتی گہری مدہوش نظروں سے ہلکا سا مسکرا کر دیکھتی ہوئی شرما بھی رہی تھی باجی کو مسکراتا دیکھ کر اسامہ باجی نصرت کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا باجی نصرت اور اسامے کو پانچ منٹ سے زیادہ وقت ہوگیا تھا باہر کھڑے ہوئے دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے کہ اتنے میں گلی میں ان کے پیچھے سے ایک عورت گزری جو باجی نصرت کو اسمے کے پاس کھڑا دیکھ کر چونک گئی باجی نصرت کی نظر پڑی تو باجی نصرت چونک گئی اسامے نے مڑ کر دیکھا تو اس عورت نے جلدی سے نظر ہٹا لی اور جلدی جلدی آگے کو چلتی ہوئی جانے لگی باجی نصرت یہ دیکھ کر ڈر سی گئی اور جلدی سے پیچھے مڑ گئی اور دروازہ بند کرنے کا سوچا تو اسامہ بھی مسکرا کر ہٹنے لگا باجی دروازہ بند کرکے واپس مڑی تو باجی کا رنگ اڑا دیکھ کر امی بولی کی بنیا باجی نصرت بولی امی او سامنے آلی آنٹی ویکھ کیا اے امی ہنس دی اور بولی نی نصرت نا ڈر کجھ نہیں ہوندا تینوں دسیا تے ہے اسامے دا ڈر اتنا ہے کسے گل نہیں کرنی نصرت بولی سچی امی امی بولی نصرت ہنڑ جے توں اس کم اچ آگئی این تے ڈر نہیں تینوں نہیں پتا پنڈ دیاں پتوں نہیں کتنیقں چھوریں دے اسمے نال تعلق ہینڑ آج تک اس نوں جسے نہیں روکیا چھوریں دے گھر دے مرد وی کدی نہیں بولے تے تینوں جسے کی آکھنا یہ سن کر باجی کو کچھ حوصلہ ہوا اور وہ بولا اچھا امی بولی توں آپ ویکھ کئیں تینوں اس ویکھیا اے جے اس کوئی گل کیتی تے شام تک تیرے تک پہنچ اسی نصرت بولی اچھا امی اسامے وی اس آلو ویکھیا تے او جلدی جلدی بھج گئی امی ہنس کر بولی نا پریشان ہو کجھ نہیں ہوندا میں کچھ دیر بیٹھا رہا پھر ہم پڑھنے لگے باجی نصرت کپڑے تبدیل کرے چھت پر آئی اور پڑھانے لگی شام کو میں باہر سے گھر آیا تو اتنے میں سامنے والی آنٹی اندر آئی جسے دیکھ کر باجی نصرت پریشان سی ہو گئی اس نے امی کا پوچھا میں بولا کیچن میں ہے وہ کیچن کی طرف جاتی ہوئی باجی نصرت سے بولی نصرت میری دھی کی حال اے اور باجی کو باہوں میں بھر کر ملی باجی بھی ملی اور بولی آوروں آ گل سنڑ اور اندر چلی گئی میں بھی پیچھے چلا گیا اندر جا کر وہ امی سے ملی اور پاس بیٹھ گئی دو تین باتوں کے بعد بولی میں آئی تے اس کانڑ ہاں کہ آج نصرت اسامے کول کھلی ہا گیٹ تے میری نظر پئے گئی مینوں اسامے آکھ گھلیا اے کہ نصرت پریشان ہو گئی ہا کہ میں ویکھ لیا نصرت نوں اسامے کول کھلا ہویا دسنڑ تے اے آئی آں کہ نصرت میری دھی پریشان ناں ہو میں کسے نوں نہیں دسدی توں تے اسامہ جو مرضی کرو ساڈا کوئی جھیڑا ہی نہیں ویسے وی نصرت چنگی گل اے اے چوہدریاں نال بنا کے رکھیںدی اے تیری ماں نوں تے پتا اسامے دے پیو نال تے اساں دوواں ہنڑ تک بنا کے رکھی اے میں یہ سن کر چونک گیا باجی بولی ہاں امی دس رہی ہائے کے تسی دوویں اکثر رات اسامے دے ابے کول ہی ہوندے ہائے وہ بولی ہا پر ہنڑ تے اسدی ساتھے تک نہیں پوندی میرے نالو تے تیری ماں ہلے وی سواد دیندی اے ایڈی بڈھی تے نہیں ہوئی امی ہنس دی اور بولی کدی کدی مینوں تے سد لیندا اے میں جاندی آں وہ بولی اچھا نصرت اسامے نوں دس دیویں کہ میں آئی ہاس تینوں دسنڑ او آگے وی کڑی رہیا یا میں اس نوں وی آکھیا اے کہ جو مرضی کر نصرت بولی آنٹی میں دس دیساں کجھ نہیں آکھدا اور کچھ دیر بیٹھ کر وہ چلی گئی میں یہ انکشاف سن کر حیران بھی تھا اور عجیب سی خوشی بھی تھی اگلے دن میں سکول گیا سکول سے واپس آکر کچھ دیر آرام کو لیٹ گیا کچھ دیر آرام کرکے میں باہر نکلا میں نے سوچا کہ اسامے کی طرف جاؤں اب مجھے بھی عادت سی ہو گئی تھی باجی کی تصویریں اسامے کو دینے کی میں باہر نکلا تو باجی نصرت صحن میں بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بہزاد گل سن میں باجی نصرت کے پاس گیا باجی بولی اے دس اسامے آل گیا ایں میں بولا جاؤں آں ہنڑ باجی نصرت بولی اچھا جے اگر او آکھے نا کہ اپنی بھین نوں آکھیں کہ ہور کلوز ویکھنا اے مینوں مطلب میرا جسم برا تو بغیر ویکھنا اے تے دس ہزار روپیہ لگسی میں بولا اچھا باجی نصرت بولی گل سن اس نوں آکھیں کہ سامنے آلی آنٹی آئی ہا اس نوں آکھیں کوئی مسئلہ نہیں میں بولا اچھا اور نکل آیا میں اسامے کے پاس پہنچا تو اسامہ مجھے دیکھ کر خوشی سے بولا آ بھائی میرے شہزادے کی حال اے میں بولا فٹ آں وہ بولا نصرت دی سنا میں بولا باجی فٹ اے وہ بولا یار تیری بھین تے پوری بمب ہے ایسیاں تنیا ں ہویاں چھاتیاں آج تک نہیں ویکھیاں قسمیں دل کر رہیا آں کہ پھد کے مروڑ دیواں میں مسکرا کر بولا بھائی باجی آکھ رہی ہا کہ چھاتیاں برا توں بغیر ویکھنیاں ہینڑ تے دس ہزار لگسی اسامہ یہ سن کر خوشی سے چونک کر بولا واہ یار تیری بھین تے میری جان وی لیسی گئی چل اس نوں آکھ سہی اے پر ہک میری وی خواہش اس نوں آکھ پوری کردے میں بولا کی وہ بولا جتنی دیر میں اس کول کھلوساں اس نوں آکھ اپنا ہتھ میرے ہتھ اچش دینڑا ہیس میں بولا اچھا میں دس دیساں اس نے بٹوے سے ہزار والے دس نوٹ اور میرا نعام نکال کر مجھے دے دیا میں نوٹ لے کر باہر نکلا اور گھر آگیا باجی میرا ہی انتظار کر رہی تھی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی اسامہ کی آکھدا میں نے جیب سے دس نوٹ نکالے اور باجی نصرت کو پکڑا دئیے باجی دس ہزار دیکھ کر مچل سی گئی باجی نصرت کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا میں بولا باجی اسامہ وی آکھ رہیا ہا کہ میری وی ہک من لئے باجی مسکرا کر بولی اس نوں آکھ ساریاں تیری ہی من رہی آں اور مسکرا کر پیسے امی کو پکڑا کر بولی دس کی آکھدا میں بولا باجی او آکھ رہیا جدو تک میں ملاقات کرنی ہتھ میرے ہتھ وچ پکڑائی رکھیں باجی مسکرا کر بولی بس اتنا ہی میں بولا باجی بولی جا اس نوں آکھ آجا میری کوئی ناہں اے میں مسکرا کر باہر نکل آیا اور۔ اسامے کو بتایا کہ باجی بلا رہی اے میں پیغام دے کر گھر آیا تو باجی نصرت کل والے لباس میں تھی پر باجی نے برا اتار رکھی تھی جس سے باجی نصرت کے موٹے تنے ہوئے اکڑ کر کھڑے نپلز کسے ہوئے قمیض سے جھانک رہے تھے میں یہ منظر دیکھ کر مچل گیا باجی مجھے دیکھ کر بولی کی بنیا میں بولا آ رہیا اے کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکا اور باجی نصرت مسکرا دی باجی نصرت خود ہی دروازے کی طرف چلی گئی اور دروازے کو کھول کر باہر دیکھا تو سامنے اسامہ کھڑا تھا باجی نصرت اسے دیکھ کر مسکرا دی اور دروازہ کھول کر اسامے کے سامنے آگئی اسامہ باجی نصرت کے تن کر کھڑے کر اکڑے ممے اور نپلز دیکھ کر مسکرا دیا باجی اسے دیکھ کر مسکرا دی اسامہ بولا وہ میری جان آج تے بہوں سوہنی لگ رہی ہیں باجی نصرت نے مسکرا کر سے دیکھا۔ اور بولی اچھا جی وہ بولا ہاں جی نصرت بولی کتھو کتھو سوہنی لگ رہی ہاں باجی نصرت کی آج جھجھک کم تھی وہ باہر دروازے پر گلے میں کھڑی ہوکر آج اسامے کو اپنا جسم دکھا رہی تھی اسامے نے ہاتھ آگے کرکے باجی نصرت کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور باجی نصرت کے ہاتھ دبا کر بولا نصرت باہر ہی آجا میرے کول باجی تھوڑی جھجھکی کیوں کہ باہر گلی میں یوں اس حالت میں اسامے کے ساتھ کھڑا ہونا ٹھیک نہیں لگا باجی کو پر اسامہ باجی نصرت کی جھجھک دیکھ کر بولا میری جان پریشان کیوں ہو رہی ہیں توں اسامے دی مشوق ہیں کسے دی ہمت ہی نہیں تینوں کوئی گل کر جاوے کوئی گل کرے تے میں جان ناں کڈھ لواں توں نا گھبرا باہر آجا میرے کول باجی بولی اسامہ توں ہی اندر آجا اسامہ مسکرا کر بولا میں وی اندر آجاساں پر تیری جھجھک وی تے لاہنی اے تا کہ توں میرے کول آونڑ لگیاں تینوں کوئی پریشانی نا ہووے یہ کہ کر اسامے نے باجی نصرت کو اپنی طرف کھینچ لیا باجی نصرت خود بخود ہی چلتی ہوئی دروازے سے باہر نکل کر گلی میں کھڑے اسامے کے پاس چلی گئی باجی نصرت نے ادھر ادھر دیکھا تو اسامہ بولا نصرت میری جان تینوں میرے تے اعتبار نہیں میں آکھ رہیا ہاں نا کجھ نہیں ہوندا باجی تھوڑی سی جھجھک رہی تھی کیونکہ باجی نصرت کبھی چادر کے بغیر باہر گئی نہیں تھی اور اب تو اسامے کے ساتھ باہر جا رہی تھی نصرت اس لیے تھوڑا جھجھک رہی تھی اسامہ باجی نصرت کو جھجھکتا دیکھ کر بولا میری جان اسدا مطلب تینوں میرا یقین نہیں آ رہیا تے فر چلی جا گھر نصرت اسامے کی بات سن کر اسے دیکھا اور گھبرا سی گئی اسامہ غصے کا تیز تھا اس لیے سب ڈرتے تھے نصرت بولی نہیں میری جان بس میں کدی انج باہر آئی نہیں ناں اس توں تھوڑا گھبرا رہی آں اسامہ بولا میری جان گھبرا نہیں میں آکھ رہیا آں ناں نصرت کا منہ شرم سے گلابی ہو گیا اتنے میں پاس سے ایک لڑکا قریب آیا تو باجی سمٹ سی گئی وہ لڑکا باجی نصرت کو اسامے کے پاس کھڑا دیکھ کر نظر جھکا لی جیسے اس نے دیکھا ہی نہیں اسے گزرتا دیکھ کر اور باجی کو سمٹتا دیکھ کر اسامہ بولا اوئے وہ لڑکا سن کر رک گیا اور بولا جی بھائی اسامہ بولا تینوں کوئی اعتراض ہے میں نصرت کول کھڑا ہاں قابل اعتراض حالت اچ وہ بولا نہیں بھائی مینوں کیوں اعتراض ہونا تھواڈی مرضی جو مرضی کرو اسامہ چل جا اور نصرت کو دیکھ کر بولا ویکھ توں ایویں گھبرا رہی ایں تینوں میرے تے یقین نہیں نصرت مسکرا کر اسامے کے قریب ہوکر سائیڈ سے اسامے کے ساتھ لگ گئی باجی نصرت کا ایک موٹا ممے اسامے کے سینے میں دب گیا باجی گلی میں سب کے سامنے اسامے کے ساتھ لگ گئی تھی یہ سب دیکھ کر باجی کی کچھ جھجھک تو اتر گئی تھی باجی مسکرا کر بولی میری جان تینوں پتا تے ہے میں ہک شریف لڑکی ہاں آج تک برکے توں بغیر باہر نہیں نکلی ہنڑ مینوں سب دے سامنے تینوں ملنڑ تے کجھ تے جھجھک ہونی ہولی ہولی لہ جاسی گئی نا پریشان ہو باجی نصرت گلی کھڑے ہوئے اسامے کے بالکل ساتھ لگی ہوئی تھی اسامے نے باجی نصرت کی کمر میں۔ ہاتھ ڈالا اور باجی نصرت کو اپنے قریب کرکے اپنا منہ باجی نصرت کے منہ کے پالکل قریب کرکے بولا میری جان ہنڑ توں اسامے دی مشوق ہیں جھجھکنا چھڈ دے جو تیری مرضی اب آوے توں او کر تینوں پتا نہیں میں تیرا دیوانہ ہاں۔ باجی نصرت باہر گلی میں سب کے سامنے اسامے کے ساتھ لگ کر کھڑی اسامے کی آنکھوں میں مدہوشی سے دیکھ رہی تھی پاس سے لوگ گزر رہے تھے پر سب اپنے آپ میں ایسے مگن رہے کہ جیسے وہ کچھ دیکھ ہی نہیں رہے اسامے کا ڈر تھا اسامہ بولا میری جان اجازت ہے ہک وارچم لواں تینوں باجی نصرت مسکرا دی اور بولی مشوقاں کولو پچھیندا نہیں حکم دیویندا اے اسامہ بولا میری جان توں میری مشوق وی ہیں تے جان وی ہیں میں تے تیرا بڑا وڈا عاشق آں میں آج تک اپنی مرضی کیتی پر ہنڑ تیری مرضی نال چلساں گیا باجی نصرت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بلی اچھا جی اور اسامے کے سر کے پیچھے ہاتھ لے جا کر اپنے ہونٹ اسامے کے ہونٹوں سے جوڑ کر چومنے لگی اسامہ بھی باجی نصرت کے ہونٹوں کو چومنے لگا میں باجی نصرت اور اسامے کو گلی میں کھڑے ہوکر سب کے سامنے فرنچ کس کرتا دیکھا رہا تھا پاس سے گزرے لوگ باجی نصرت اور اسامے کو فرنچ کسنگ کرتے دیکھ کر اپنی راہ جا رہے تھے نصرت اور اسامہ دونوں گلی میں کھڑے ہوکر لوگوں کے سامنے کس کر ایک دوسرے کو چوم رہے تھے دونوں اتنے مگن تھے کہ چومنے سے پچ پچ کی آوازیں آنے لگیں تھیں جو لوگ ان رہے تھے باجی نصرت مزے سے ہانپنے لگی تھی باجی نے اسامے کی زبان کھینچ کر اپنے منہ بھر کر دبا رک چوسنے لگی باجی نصرت اور اسامہ دونوں باقاعدہ گلی میں کھڑے ہوکر دبا کر کسنگ کرتے ایک دوسرے کی زبان کو چوس رہے تھے پانچ منٹ دونوں ایک دوسرے کو کسنگ کرتے رہے اس دوران اسامے نے نصرت کو چھوڑ دیا اور دونوں ہانپنے لگے دونوں ایک دوسرے کےسںاتھ لگے تھے اسامہ باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوس کر بولا افففف نصرتتتت میری جان میں تے تیرا رس پی کے دیوانہ ہوگیا باجی مسکرا دی اور بولی میں آپ تیری دیوانی ہو گئی آں وہ بولا نصرت اپنا نمبر دے دے نصرت مسکرا دی اور بولی نمبر کی کرنا ہئی وہ بولا تیرے نال گلاں کرساں گیا باجی نصرت بولی اچھا جی اے لئو جناب اور اس کے ساتھ لگی ہی اپنا نمبر اسے دے دیا۔ وہ بولا ہنڑ جھجھک تے کوئی نہیں ناں باجی مسکرا دی اور بولی کجھ آج لہ گئی کجھ کل لہ جاسی گئی وہ بولا چلو چنگی گل اے اور بولا کل ملدے آں اور وہ چلا گیا باجی نصرت بھی اندر آگئی امی مسکرا دی اور بولی نصرت توں تے اج کجھ ڈھیر ہی وٹی گئی نصرت دیوار کے ساتھ لگ کر سسک کر تیز تیز سانس لیتی اپنے سینے کو دبا کر بولی اففف اماں ناں پچھ رہیا ہی نہیں گیا میرا تے دل پیا کردا ہا کہ اوتھے بازار اچ ہی لیٹ جاواں تے اسامے نوں اکھاں کہ چڑھ جا میرے آتے امی بولی تے وت انتظار کس چیز دا باجی ہنس کر بولی امی ہلے نہیں اسامے تے جتنا ہتھ صاف ہوندا کرئیے جانا تے اودے ہیٹھ ہے ہی پر کجھ مال۔بنا ہوئیے اور ہنس دی امی بولی جیویں توں آکھ باجی بولی ویسے امی ہک گل اے امی بولی او کی امی گلی اچ کھلو کے لوگوں دے سامنے اسامے نوں ملنڑ دا سواد بڑا آیا اے میرا تے دل پھڑک رہیا اے دل کردا پیا کہ باہر اسامے کول کھلی رہواں امی مسکرا دی اور بولی نصرت تیری آگ تیرے کولو بہوں کجھ کریسی امی بولی ہلا ہنڑ مینوں پہلاں ٹھنڈا کر وت گلاں بعد دیاں میں سمجھا نہیں امی اور باجی اندر چلی گئی میں کچھ دیر بعد گیا تو امی باجی نصرت کے چڈوں میں سر دے کر باجی نصرت کی ننگی پھدی کو چاٹ رہی تھی باجی مزے سے کراہ رہی تھی دو منٹ میں باجی نصرت پانی کے پھوارے چھوڑتی فارغ ہو گئی میں یہ دیکھ کر باہر نکل گیا کچھ دیر باہر رہا اور پھر گھر آ کر باجی نصرت سے پڑھنے لگا اگلے دن میں سکول سے آیا باجی نصرت اب خوش رہنے لگی تھی پہلے باجی نصرت کا چہرہ مرجھایا رہتا اب باجی نصرت کا چہرہ کھل سا گیا تھا شاید اسامے سے مل کر باجی کی دلی خواہش پوری ہوہی تھی اس لیے ہم کھانا کھا کر بیٹھے تو نصرت کا فون بجا باجی نے فون اٹھایا تو اسامہ تھا اسامہ بولا ہاں میری جان کی حال اے نصرت بولی میری جان ٹھیک آں توں سنا وہ بولا ٹھیک اے دس کوئی پریشانی تے نہیں میری جان نوں باجی ہنس دیا ور بولی تیرے ہوندیاں کی پریشانی اے وہ بولی خوش کیتا ہئی میری جان اے دس کی کر رہی ایں باجی بولی بس تیرا انتظار وہ بولا اچھا جی گل ایتھو تک پہنچ گئی باجی بولی اسامہ ہک گل ویسے ہے لوگاں دے سامنے تینوں ملنڑ تے بڑا سواد آندا اے وہ ہنس کر بولا اچھا اسدا مطلب وت اسی روز ملیے باجی نصرت بولی تے ہور کی آپ نہوں آکھدا کسے توں ڈرنا نہیں وہ ہنس دیا اور بولا جناب آکھو تے ڈیرے ہی تھوڈے گھر دے سامنے لا لوئیے باجی ہنس دی اور بولی نہیں ہلے نہیں وہ بولا وت باجی بولی اے دس آج کی پروگرام اے وہ بولا میری جان جیویں اکھو پر کل ار نہیں باجی بولی نہیں ہنڑ میری شرم لاہ گئی اے ہنڑ بے جھجھک ملساں اسامہ بولا نصرت پر ہک گل مننی ہوسی باجی بولی او کی اسامہ بولا نصرت تیرے موٹے ممیاں دا نظارہ کرنا اے باجی ہنس دی اور بولی ایڈی جلدی ہلے تے دو دن ہوئے ہینڑ وہ بولا نصرت میری جان ایڈا امتحان نا لئے باجی ہنس دی اور بولی ایڈا امتحان کوئی نہیں بس 25000 ہزار لئی آ اسامہ باجی نصرت کی بات سن کر ہنس دیا اور بولا میری جان بس اتنا ہی توں آکھ تے میری جان وی حاضر سے باجی نصرت بولی وے نہیں ہک واری اے ہی چاہیدی وہ ہنس کر بولا اچھا میں آیا نصرت نے کال کاٹی اور اندر چلی گئی کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکا تو نصرت باہر نکلی باجی نصرت کو دیکھ کر میں چونک گیا باجی نصرت بالکل باریک قمیض میں تھی جس سے باجی نصرت کا انگ انگ واضح نظر آرہا تھا باجی نصرت کا جسم باریک قمیض میں سے جھانک رہا تھا باجی نصرت کے تنے ہوئے گورے ممے صاف نظر آ رہے تھے باجی نصرت کے گلابی نپلز قمیض میں سے صاف نظر آ رہے تھے باجی نصرت کے جسم سے قمیض چپک کر سب کچھ واضح دکھا رہا تھا باجی نصرت نے دروازہ کھولا تو سامنے اسامہ کھڑا تھا باجی نصرت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور دروازے سے باہر قدم رکھتی ہوئی باہر گلی میں نیم ننگی حالت میں اسامے کی طرف چلی گئی باجی جیسے ہی نکلی تو گلی سے گزرتے لوگ باجی نصرت کو نیم ننگا دیکھ کر چونک گئے پر پاس کھڑے اسامہ کو دیکھ کر چپ چاپ گزرنے لگے باجی نصرت باہر نکلی اور سیدھی اسامے کے قریب ہوکر اپنے آپ کو اسامے کے ساتھ جوڑ لیا جس سے باجی نصرت کے موٹے ممے اسامے کے سینے میں دب گئے اسامے نے باجی نصرت کو گلی میں سب کے سامنے اپنی باہوں میں بھر کر دبوچ لیا نصرت نے بھی اسامے کو باہوں میں بھر کدبوچ لیا اور ایک دوسرے کے ہو توں سے ہونٹ جوڑ کر چومنے لگے باجی نصرت گلی میں سب لوگوں کے سامنے اسامے کے گلے لگی اسامے کو باہوں میں بھر کر اسامے سے مل کر اسامے کو چوم رہی تھی اسامہ باجی نصرت کو باہوں میں دبوچ کر باجی نصرت کی زبان کھینچ کر چوس رہا تھا باجی نصرت کے موٹے ممے نصرت کے سینے میں دبے ہوئے تھے جنہیں باجی اسامے کے سینے میں نسل رہی تھی اسامہ باجی نصرت کے ہونٹوں کو چھوڑ کر منی پیچھے کیا اور فوجی کو باہوں بھرے ہوئے بولا نصرت آج تے خوش کیتا ہئی آپے ہی میرے سینے آلگی ایں کوئی جھجھک نہیں نصرت مسکرا بولا وے تیرے جیا یار ہووے تے وت لوکاں توں کیوں ڈراں وہ بولا واہ میری جان تینوں ڈرنا چاہیدا وی نہیں اور باجی نصرت کی گال کو چوم کر باجی نصرت کی کمر کو مسلتا ہوا باجی نصرت کی گال کو منہ میں میں بھر کر دبا کر چوس لیا اور چھوڑ کر بولا نصرت اپنے ممے تے ویکھنڑ دے ہک واری نصرت مسکرا کر اسامہ کو چھوڑ کر پیچھے ہوئی باجی نصرت کے تنکر کھڑے تنگ باریک قمیض میں سے گورے ممے جھانک رہے تھے نصرت نیم ننگی گلی میں اسامے پاس کھڑی تھی لوگ پاس سے گرلزر رہے تھے نصرت کا اوپر والا جسم نظر آ رہا تھا باجی نصرت کے گلابی نپلز دیکھ کر اسامہ بولا اففف مہررری جان تیرا حسن تے میری جان کڈھ رہیا اے نصرت بولی اسامہ رک کیوں گیاں ایں اے تیرا ہی مال اہناں نوں نچوڑ باجی نصرت کی بات سے اسامہ سسک گیا اور سسکار بولا اففف نصصصررتتت گلی اچ ہی مروڑ دیواں سب دے سامنے نصرت بولی سب دے سامنے ہی تے تینوں ملنڑ دا سواد آیا اے یہ کہ کر باجی نے اس کے ہاتھ کپڑے اور اپنے مموں پر رکھ دئیے باجی نصرت اسامے کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرکے مچل گئی اسامے نے ہاتھ میں ممے آتے ہی دبا کر باجی نصرت کے ممے نچوڑ لئے باجی نصرت ممے اسامے کے ہاتھوں میں دبتے ہی مزے سے مچل زوردار کراہ بھر کر کرلا گئی باجی نصرت کی کراہ پوری گلی گونج گئی باجی نصرت تھر تھر کانپتی آنکھیں بند کیے سسکتی ہوئی کراہنے لگی اسامہ میں گلی میں سب کے سامنے میری بہن نصرت کے موٹے ممے ہاتھوں میں دبا کر نچوڑتا ہوا مسل رہا تھا جس سے باجی نصرت کانپتی ہوئی کرلا رہی تھی پاس گزرتے لوگ چپ چاپ گزر رہے تھے اسامے نے نصرت کے ممے دبا کر نچوڑ کر مسلتا ہوا باجی نصرت کے نپلز کو دبا کر کھینچ لیا باجی نصرت کی سسکیاں نکلنے لگی اور باجی کانپتی ہوئی کراہنے لگی اسامہ باجی نصرت کے دونوں نپلز ہاتھوں میں بھر کر مسلنے لگا جس سے باجی نصرت کراہ کر مچلنے لگی اور گھوم کر پیچھے سے اپنی کمر اسامے کے ساتھ جوڑ کر اپنی گانڈ اسامے کے لن پر مسل دی جس سے اسامہ سسک گیا اسامی کی شلوار می لمبا سا ٹینٹ بنا نظر آ رہیا تھا باجی نصرت کی موٹی گانڈ میں لن پھسلنے لگا اسامے نے آگے سے قمیض ہٹایا اور گلی میں ہی سب کے سامنے اپنا لن باجی نصرت کے چڈوں میں پھنسا دیا جسے باجی نے اپنے چڈوں میں دبوچ لیا میں باجی نصرت کو گلی میں کھڑے ہوکر سب کے سامنے لن چڈوں میں لیتا دیکھ کر مچل سا گیا اسامے نے باجی نصرت کا منہ گلی کی طرف کیا جس سے باجی نصرت کے قمیض سے جھانکتے ممے گلی کے لوگوں کی طرف ہوگئے اور ہاتھوں میں بھر کر دبا کر باجی نصرت کے ممے مسلتا ہوا باجی نصرت کے ہونٹوں کو چومتا گلی میں سب کے سامنے ہلکے ہلکے جھٹکے مارتا باجی نصرت کے چڈوں میں لن گھمانے لگا جس سے باجی نصرت پہلی بار کسی مرد کا لن چڈوں میں لے کر تڑپ سی گئی اور کراہ کر ہانپتی ہوئی کراہنے لگی باجی نصرت کی کراہیں اور سسکیاں پوری گلی میں گونج رہی تھی اسامہ اور باجی نصرت باہر گلی میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے مستیاں کر رہے تھے لوگ گزرتے دیکھ کر آگے چلتے جا رہے تھے باجی نصرت بھی گلی میں سب کے سامنے اپنے ممے نکال کر سب کو دکھا رہی تھی جن کو مروڑتس ہوا اسامہ باجی کے مموں سے کھیل رہا تھا ویسے تو اسامہ اوباش اوت سنائی لڑکا تھا دن کے وقت بھی کئی لڑکیاں اس کے ساتھ اس کی بیٹھک میں جاتی دیکھی گئی پر یوں گلی میں کھڑے ہوکر ساب لوگوں کے سامنے کسی لڑکی کے ساتھ مستیاں پہلی بار کر رہا تھا باجی نصرت بھی مزے سے کراہ رہی تھی دو تین منٹ میں ہی دونوں کا کام تمام ہوگیا اور اسامہ کانپتا ہوا کراہ کر ہیں بھرتا گلی میں ہی سب لوگوں کے سامنے باجی نصرت کے مموں سے کھیلتا باجی نصرت کے چڈوں میں فارغ ہوگیا باجی نصرت بھی کراہتی ہوئی ہانپتی ہوئی اسامے کے ساتھ فارغ ہوکر کراہنے لگی دونوں اہنپتے ہوئے ایک دوسرے کے سانس بحال کرنے لگے دو تین منٹ میں دنوں سنبھلے اسامہ بولا اففف نصرت سواد آگیا نصرت ہانپتی بولی اففف میری جااااننن آج گلی اچ کھول کے سب لوگوں دے سامنے مستیاں کرنے دا سواد آگیا انج آر مزہ آج تک نہیں ملیا وہ سسکار کر بولا میری جان آکھ تے روز مزہ ملسی انج دا باجی نصرت بولی سسچی وہ بولا ہور کی اور باجی نصرت ہو چومنے لگا دو تین منٹ تک باجی نصرت کے موٹے ممے دبا رک مسلتا ہوا باجی نصرت کو چومتا رہا دونوں ایک دوسرے کو گلی میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے سب ہے سامنے پیار کرتے رہے پھر اسامے نے لن باجی کے چڈوں سے نکال لیا تو اس پر لگی منی صاف نظر آ رہی تھی جو سب لوگ دیکھ رہے تھے اسامہ پیچھے ہوا اور جیب سے ایک بڑی سی گدی ناکل کر باجی کو تھما کر بولا آج دا تیرا انعام پورا 50 ہزار اے باجی یہ سن کر مچل گئی اور پیسے پکڑ کر بولی سچی وہ بولا مچی باجی پیسے پکڑ کر سینے سے لگا رک بولی تھینک یو میری جان سب لوگ باجی کو پیسے پکڑتا دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ اسامے کو گلی میں ملنے اور مستیاں کرنے اور اسامے کا پانی اپنے چڈوں میں نکالنے کی اسامے نے قیمت وصول کی ہے میں یہ سب دیکھ کر مزے سے مچل گیا تھا باجی نے اسے ایک بار پھر جپھی میں بھر کر پیار کیا اور باجی نصرت اندر آگئی امی نصرت سے بڑی خوش ہوئی کہ وہ پچاس ہزار لائی تھی میں بھی خوش ہوا اس سے مجھے بھی ہزار روپیہ ملا جس سے میں نے خوب مزے کیے اگلے دو تین دن یہی چلتا رہا باجی نصرت اسامے سے گلی میں ملتی اور پھر گلی میں کھڑے ہوکر سب لوگوں کے سامنے دونوں پیار بھری مستیاں کرتے اور باجی کے چڈوں میں اسامہ فارغ ہوکر باجی کو پچاس ہزار دیتا ایک ہفتے میں باجی نصرت نے کافی پچاس ہزار کما لیے تھے باجی کا سارا شرم حیا اتر گیا تھا باجی عابدہ اور سعدیہ بھی اس سے خوش تھیں کسی کو اعتراض نہیں تھا گاؤں والوں کو بھی مفت کا نظارہ ملتا تھا جب گلی میں باجی نصرت اور اسامہ کھڑے ہوکر مستیاں کرتے ایک دوسرے کے ساتھ اس لیے گاؤں والوں کو بھی کوئی اعتراض نا تھا بات تو پورے گاؤں میں پھیل گئی تھی پر اعتراض کسی کو نہیں تھا اسامے کی وجہ سے اور پھر گاؤں کے اکثر گھر کی لڑکیاں روز رات کو اسامے کے ڈیرے پر اس کے ساتھ اور اس کے دوستوں کے ساتھ انجوائے کرتی تھیں وہ سب چھپ کے کرتی تھیں پر باجی نصرت سرعام سب کے سامنے گلہ میں کھڑی ہوکر اسامے سے ملتی تھی یہ سلسلہ ایک ہفتے تک تو خوب چلتا رہا باجی نصرت رات کو کافی دیر فون پر بات بھی کرتی تھی اسامے سے ایک دن باجی نصرت اسامے سے گلی میں پیار کر رہی تھی اسامہ بولا میری جان کدو تک انج ملساں گئے باجی بولی وت کیویں ملیے اسامہ بولا نصرت اپنے کول آونڑ دے ہنڑ پھدی اچ لن لئے لئے باجی بولی میں سیل پیک آن ہلے تک اسامہ بولا وت سیل دے کتنے پیسے لیسیں باجی نصرت بولی 6 لکھ اسامہ بولا میری جان منظور اے اور باجی کو جپھی میں بھر کر ہی بولا لئے آواں وت باجی نصرت مسکرا کر بولی وے تیرے تے یقین اے آگے توں ایڈوانس دیندا ہائیں آج میں ایڈوانس پھدی دیساں گئی اور پیچھے ہوکر بولی چل اندر اسامہ بولا نصرت ایتھے سب دے سامنے کیوں نہیں باجی بولی وے اتنا ہی بڑا اے پھدی سب سے سامنے نہیں مارنی یہ سن کر اسامہ ہنس دیا اور باجی کے ساتھ اندر چل دیا باجی نصرت اسامے کو پکڑ کر اندر لائی تو سامنے امی اسامے کو دیکھ کر کھڑی ہو گئی اور بولی آؤ جی جناب آج تسی ساڈے غریب خانے تے تشریف لئے آئے ہو وہ بولا نہیں مٹی غریب خانہ کی اے تے میرا گھر ہے اپنا نصرت میری مشوق اے تے اے میرا گھر ہی ہویا امی بولی انج ہی ہے آ بہو کجھ کھا پی لئے باجی نصرت جو لن لینے کو بے قرار تھی وہ بولی امی اسامے نوں اپنے گھر دی سب تو منگی چیز کھواؤ ان امی بولی اچھا جا وت کھوا اور آگے ہوکر نصرت اور اسامے کا ماتھا چوم لیا باجی نصرت اسامے کو ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے کر چلی گئی امی کیچن میں گئی میں دیکھنے کےلیے اندر چلا کہ باجی اور اسامہ کیا کریں گے یہ سوچ کر میں نے دروازے سے جھانکا تو باجی نصرت ننگی ہوچکی تھی اور اسامہ بھی ننگا ہو کر باجی نصرت کے موٹے تنے ہوئے ممے دبا کر مسلتا ہوا باجی نصرت کو چوم رہا باجی نصرت سسک کر کراہتی ہوئی اسامے کو چوم رہی رہی تھی باجی نے اسامے کو جپھی میں بھر کر دبا کر چومنے لگی اسامہ بولا نصرت باہر سب دے سامنے تیری پھدی مارن دا سواد ہی ہور ہونا ہا باجی مسکرا کر نیچے ہاتھ کیا اور اسامے کے لن کو پکڑ کر مسل کر بولی میری جان اتنا ہک تے لوگاں دے سامنے کیتا اے ہنڑ کجھ سڈی وی پردہ داری اے اسامہ بھی کا ہتھ لن محسوس کرکے سسک گیا اور باجی کو چومنے لگا باجی نصرت اسمے کو چومتی ہوئی لن مسلتی ہوئی ہاتھ سے خود ہی اسامے ک نالا کھول کر ہاتھ اندر ڈالا اور اسامے کا کہنی جتنا لمبا موٹا لن باہر کھینچ لیا میں اسامے کا اتنا لمبا اور موٹا لن دیکھ کر چونک گیا میرا لن تو ہتھیلی تک لمبا تھا پر اسامے کا پوری کہنی جتنا لن دیکھ کر میں چونک گیا باجی نصرت کا لمس ننگے لن پر محسوس کرکے اسامہ سسک گیا باجی نصرت نے ہاتھ لن پر پھیرا تو باجی نصرت بھی کراہ کر ہانپتی ہوئی چونک گئی باجی نصرت کا سانس بھی تیز ہونے لگا تھا باجی نے نیچے دیکھا اور کہنی جتنا لمبا لن دیکھ کر ایک بار حیرانی سے منہ کھل گیا باجی منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی ہالنی اماں میں صدقے جاواں ایڈا وڈا لن اسامہ سسک کر مسکرا دیا اور بولا میری جان پسند آیا کہ نہیں باجی حیرانی سے بولی وے ایڈا لمبا تے موٹا کدو لیا ہئی اسامہ مسکرا کر بولا میری جان تیرے واسطے لیا اے نصرت بولی ایڈا تے میں فلماں وچ ویکھدی ہاس اسامہ بولا آج اصل اچ ویکھ کے دس باجی نصرت سسک کر لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہال وے مار گھتیا ہئی آج تے میری تے توں خواہش پوری کر دتی میں وی سوچدی ہاس ایڈا لمبا لن لبھے کدی جہڑا میرے کڑاکے کڈھ دیوے باجی یہ بات کرتی ہوئی نیچے اسامے کے لن کے سامنے بیٹھ گئی اور مسلتی ہوئی ہانپنے لگی اسامہ بولا نصرت اپنے شہزادے نوں پیار تے کر یہ سن کر نصرت نے مستی سے اسامے کو دیکھ کر لن کے قریب ہوئی اور اسامے کے لن کی ٹپ پر ہونٹ رکھ کر چوم لیا باجی نصرت کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے اسامہ مچل کر سسک گیا میں بھی باجی نصرت کو اسامے کے لن کو چومتا دیکھ کر مچل گیا میرے لن نے جھٹکا مارا اور پورا تن کر کھڑا ہوگیا باجی اسامے کا پن مسلتی ہوئی چومنے لگی باجی نصرت کبھی ٹوپہ چومتی اور کبھی لن کو چومتی ہوئی اپنے منہ پر ملنے لگتی باجی نصرت اسامے کے لن کو پیار کر رہی تھی جبکہ اسامہ مزے سے سسک رہا تھا باجی نے لن کو مسل کر اپنے مموں کے درمیان رکھا اور مموں کے بیچ لن کو دبا کر مسلنے لگی جس سے اسامہ سسک کر کراہ گیا سامہ مزے سے کانپنے لگا تھا باجی نصرت بھی کراہ کر مچلتی ہوئی اسامے کے لن کو اپنے مموں میں دبا کر اپنے سینے کو لن کے ساتھ لگا کر اپنے بازو اسامے کی گانڈ کے گر گھیر کر کس کر لن کو سینے کے ساتھ دبا رک سسک کر بولی اففف میرا شہزادہ میں تیرے واسطے کتنا تڑپی ہاں
آج میں اپنی ساری تڑپ تیرے کولو کڈھانی ہہے میں آج تینوں اتنا پیار کرساں کہ توں بس بس اکھسیں باجی اپنی گال اسامے ہے پیٹ سے لگا کر لن کو سینے سے دبا کر مسلتی ہوئی اسامے کے پیٹ کو چومنے لگی تھی باجی نصرت کے اندر شہوت پیک پر تھی باجی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا اسامہ بھی پیک پر تھا باجی کچھ لن کو سینے سے مسلتی رہی اور پیچھے ہوئی تو اسامے نے نیچے ہوکر باجی نصرت کو چوم کر بولا نصرت اپنے شہزادے دا چوپا تے مار ہک باجی نے اسامے کو دیکھا اور لن کو مسل کر منہ کھولا اور اسامے کے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے اسامہ کراہ کر سسک گیا اسامہ کی آہیں نکل گئی اسامے کے لن کی موٹائی سے باجی نصرت کا منہ بھر گیا باجی نے لن کا ٹوپہ منہ میں دبا کر کس کر چوس کر پچ کی آواز سے چھوڑا تو اسامہ کراہ گیا مزے سے باجی نصرت بھی کراہ گئی اور ہانپنتی ہوئی منہ کھول کر لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے باجی نصرت کے ساتھ اسامے کی آہیں نکلنے لگی باجی نصرت نے اسامے کی گانڈ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر دبا کر اسامے کا پن ہونٹوں میں دبا کر کس کر چوستی ہوئی منہ کے اندر باہر کرتی اسامے کے لن کے چوپے مارنے لگی جس سے اسامہ کانپتا ہوا کرلانے لگا اور باجی بھی آہیں بھرنے لگی یہ دیکھ کر میرا لن بھی جھٹکے مارنے لگا میں بھی سسک گیا تھا باجی لن کو ہونٹوں میں دبا کر کس کر تیز تیز چوپے مارنے لگی تھی اسامہ کی مزے سے اونچی اونچی کراہیں نکلنے لگی تھی باجی تیز تیز چوپے مارتی ہانپتی ہوئی آہیں بھرتے لن کو تیزی سے چوسنے لگی تھی اسامے کی مزے سے کراہیں نکل کر کمرے میں گونجنے لگیں جو باہر تک سنائی دے رہی تھی اسامہ دو منٹ میں ہی کانپنے لگا تھا اتنے میں پیچھے سے امی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو میں چونک کر مڑا امی مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی میں نے امی کو دیکھا تو امی دوپٹے کے بغیر تھی امی کے موٹے تنے کر کھڑے ممے صاف نظر آرہے تھے میں نے ایک نظر امی کے مموں پر ڈالی تو امی کے موٹے ممے باجی نصرت کے مموں سے کچھ بڑے تھے امی بولی وے کی ویکھ رہیا ایں میں بولا کچھ نہیں امی نے مسکرا کر ہاتھ نیچے کیا اور میرا آگے بنے تنے لن سے بنے ٹینٹ پر پر ہاتھ پھیر کر میرے لن کو پکڑ کر دبا کر بولی اس نوں تے قابو کر امی کے دبانے سے جس سے میں سسک کر درمیان سے پیچھے ہوگیا اور امی مسکرا کر اندر داخل ہوگئی جہاں باجی نصرت اسامے کے لن کو دبا کر چوپے مار رہی تھی اور اسامہ کراہ کر کانپ رہا تھا اسی لمحے اسامے نے اونچی کراہ بھری اور اکڑ سا گیا امی سمجھ گئی کہ اسامہ فارغ ہونے لگا ہے امی نے آگے بڑھ کر باجی نصرت کے سر پر ہاتھ رکھ کر دبا کر نصرت کو روک لیا باجی نصرت ہانپتی ہوئی کراہ کر امی کو یکجا تو امی بولی نصرت لن منہ وچ ہی رکھ کے اسامے دی منی پی جا اس کے ساتھ ہی نصرت کے منہ میں ایک لمبی دھار مار کر اسامہ فارغ ہوگیا جس سے نصرت کا منہ اسامہ کی منی سے بھر گیا جسے نصرت نے بے اختیار منہ بنایا امی بولی نصرت کجھ نہیں ہوندا پی جا نصرت نے منہ بناتے ہوئے منی کا گھونٹ بھر گئی باجی ہونٹوں کو لن پر دبا کر چوستی ہوئی اسامے کی منی پینے لگی اسامہ کراہ کر جھٹکے مارتا باجی نصرت کے منہ میں فارغ ہوگیا باجی نصرت منی نچوڑ کر چوس گئی امی نیچے پاس بیٹھ گئی اور نصرت نے لن منہ سے نکال لیا امی نے آگے ہوکر باجی نصرت کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوسنے لگی اور اچھی طرح باجی نصرت کو چوس کر باجی کے ہونٹوں کو پچ کی آواز سے چھوڑ کر بولی واہ اسامہ تیری منی تے سوادی اے باجی نصرت ہانپتے ہوئی امی کو دیکھ رہی تھی امی نے کہنی جتنا لن دیکھ کر مسل کر منہ میں ڈال کر چوس کر بولی واہ اسامہ تیرا لن تے تیرے پیو نالو وی وڈا اے اور لن مسل کر چوسنے لگی اسامہ سسک کر بولا آنٹی تینوں ابے دے لن نال کھیڈدا تے میں ویکھیا اے توں تے ابے دی سب توں پسندیدہ مشوق ہائیں امی ہنس کر بولی میری جان تینوں وی تے ول میں سیکھایا پھدیاں مارنڑ دا تیرے پیو دے آکھے تے اسامہ ہنس دیا امی بولی پر ہنڑ تیرا پیو تے لفٹ ہی نہیں کرویندا اسامہ بولا کیوں آنٹی تینوں پر تے ہے ابا وی جوان چھوریں دا دیوانہ امی بولی ہا توں ہی تے میرے نال کوریا ہویا مینوں آکھدا ہا کہ اپنی دھیاں وی مینوں یہوں دے پر میں آکھیا کہ میں اپنی دھیاں نوں اپنے آر نہیں بنانا اس توں میرے نال رس گیا اسامہ بولا آنٹی او تیرے نال ہلے وی پیار کردا اے اسدا مطلب نہیں تے تینوں پتا اے جہڑی ناہں کرے ابا توڑ گھرو جا کے چا لیندا اے امی بولی ہا اے تے گل ہے پر ہنڑ میں آپ نصرت نوں لئے جاساں اس نوں پیش کر اساں تب تک لن تن کر کھڑا تھا امی بولی نصرت تیار ہیں نصرت ہنس کر بولی امی میں تے مسیں بیٹھی آں آج پورا لن منڈ دے میرے اندر اسامہ باجی نصرت کو امی نے اوپر چارپائی پر لٹا دیا اسامے نے باجی نصرت کی شلوار کو پکڑ کر شلوار کھینچ کر اتار دی جس سے باجی نصرت اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر اسامے کے سامنے ننگی ہو گئی باجی نصرت کی پچ پچ کرتی ہوئی کھلتی بند ہوتی پانی چھوڑتی پھدی لن مانگ رہی تھی باجی نصرت بے قراری سے اسامے کو دیکھ کر ہانپنے لگی امی نے باجی نصرت کی پھدی کو انگلی سے مسل۔کر اسامے کے لن کو ہاتھ میں بھر کر مسلا اور منہ میں بھر کر چوپا مار کر لن باجی نصرت کی پھدی کے دہانے سے ملا دی باجی نصرت لن پھدی پر محسوس کرکے تڑپ کر سسک کر بولی اففف اماں میں مر جاواں اسامہ لن آگے پیچھے کرکے پھدی پر مسلنے لگا باجی نصرت سسک کر کانپنے لگی باجی نصرت کی ہوا میں کھڑی ٹانگیں کانپ رہی تھیں باجی نصرت لن پھدی پر محسوس کرکے مزے سے مری جا رہی تھی باجی نصرت سے رہا نہیں جا رہا تھا باجی ہانپتی ہوئی بولی اففف اسامہ بس کر لن منڈ دے میری پھدی اچ اسامہ باجی نصرت کی پھدی کو مسل کر بولا نصرت لن ہک ہی دھکے اچ پورا منڈن دے باجی سسک کر بولی اففف اسامہ تیرا ایڈا لما لن یک لخت پورا میں کنج لیساں میں تے مر جاساں گئی اسامہ بولا میری جان آگے تینوں پنج لکھ دے رہیا سیل پٹن دا چل دو لکھ ہو ر لئے لے تے اپنی سیل پیک پھدی وچ پورا لن یک سٹ نال منڈن دے باجی نصرت سسک کر بولی اففف اسامہ میں تے مر جاساں گئی امی بولی نہیں اسامہ وت 8 لکھ اچ فائنل کر اسامہ بولا چل ٹھیک 8 لکھ فائنل امی مسکرا کر بولی نصر ت کجھ نہیں ہوندا ایڈا وڈا لن کوئی نہیں اور آگے ہاتھ کیا تو امی کا بازو بڑا تھا اس لیے لن امی کے بازو کے آدھی تک تھا امی بولی اے ویکھ میری باہں توں وی نکا اے برداشت کرنا کجھ نہیں ہوندا نصرت بولی امی اسامے 7 لکھ آکھیا تے وت 7 لکھ ہی ٹھیک اے اے آکھسی کہ میں اپنی مرضی کردی آں اسدی مندی نہیں چل اسامہ آج جیویں تیری مرضی توں آپ 7 لکھ آکھیا تے 7 لکھ اچ ہی پورا لن منڈ لئے توں کی یاد کرسیں کہ نصرت نال یاری لائی ہے اسامہ مسکرا کر بولا میری جان تیرے واسطے تے جان وی حاضر اے پیسہ کی اے چل کے میری مرضی تے گل اے تے تیری سیل پیک پھدی نوں یک لخت جڑ تک لن منڈ کے پاڑن دا دس لکھ ہوگیا ہنڑ ٹھیک اے باجی نصرت بولی اسامہ اے توں اپنی مرضی توں آکھ رہیا ایں نان اسامہ بولا ہاں میری جان اور اوپر ہوکر باجی نصرت کو چومنے لگا امی پیچھے سے لن کو منہ میں بھر کر چوپا مار کر ہاتھ سے مسلنے لگی اسامہ پیچھے ہوا اور باجی نصرت کو چارپائی کے اوپر کر کے خود بھی اوپر چارپائی پر ہوکر باجی نصرت کی ٹانگوں میں آگیا باجی نصرت نے خود ہی ٹانگیں اٹھا لیں اسامے نے آگے ہوکر باجی نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر باجی نصرت کے کاندھوں تک دبا کر باجی نصرت کے سر کے پیچھے تک دبا کر کھول دیں جس سے باجی نصرت کے چڈے فل کھل گئے اور باجی نصرت کی پھدی کے اپنا میں جڑے گلابی ہونٹ کھل سے گئے جس سے باجی کراہ کر بولی اوئے ہالنی اماں اسامہ چڈے پیا چیردا ہیں افففففف سسسسیییی کرتی ہوئی باجی نصرت کانپنے لگی اسامے نے باجی نصرت کی پھدی کو فل کھول کر بولا آنٹی کوئی تیل شیل لئے آ نصرت بولی اسامہ مزہ کنج آسی تینوں اسامہ بولا ویسے تے سکا لن منڈن تے بڑا سواد آندا پر پھدی کواری اے تیل کا ہوئیے تے چنگا ہوندا نصرت مسکرا کر بولی اسامہ توں سکا ہی منڈ تینوں سواد آوے اسامہ مسکرا کر اوپر ہوا اور پاؤں بھار کھڑا ہو کر اپنا کہنی جتنا لن باجی نصرت کی پھدی پر رکھ دیا امی نے اسامہ کا لن مسل کر باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر سیٹ کیا اور بولی نصرت ہمت کریں ہنڑ کجھ وی نہیں ہوندا نصرت تو لن کےلیے مری جا رہی تھی سسک کر ہانپنے لگی اسامے نے باجی نصرت کی ٹانگیں فل دبا کر باجی نصرت کے سر سے نیچے بیڈ پر لگا دیں جس سے باجی نصرت کی پھدی فل کھل گئی امی نے باجی نصرت کے سینے پر ہاتھ رکھ لیا اسامے نے اپنی پوری طاقت اکھٹی کرکے اپنی گانڈ کھینچ کر پوری طاقت سے کس کر دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا لن پوری شدت سے جرک مار کر پورا جڑ تک باجی نصرت کی سیل پھدی میں پار کر دیا اس کے ساتھ ہی جھر کی آواز نکلی اور اسامے کا کہنی جتنا لن باجی نصرت کی پھدی کو چیر کر پھاڑتا ہوا یک لخت پورا جڑ تک باجی نصرت کی بچہ دانی میں اتر گیا جس سے باجی یک لخت تڑپی اور بے اختیار پھڑک کر اچھل کر پوری شدت سے گلہ پھاڑ کر چیختی ہوئی اتنی شدت سے دھاڑ کر بکاٹ ماری کے کمرہ ہل گیا اسامہ لن کی سٹ مار کر نصرت کے اوپر جھک گیا اسمے کی سٹ اتنی شدت بھری تھی کہ چارپائی کے بھی کڑاکے نکل گئے لن پورا جڑ تک باجی نصرت کی پھدی میں اتر چکا تھا لن اترتے ہی باجی نصرت کی پھدی سے خون کا فوارہ اچھل کر بہ گیا اسامہ کراہ کر اوپر جھک گیا باجی نصرت اسامے کے نیچے پھڑکتی ہوئی چیختی ہوئی تڑپ کر اسامے کے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے دھکیلتی ہوئی پوری شدت سے دھاڑتی ہوئی اسامے کے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی زور لگا نے لگی اسامہ باجی نصرت کو قابو کرنے لگا لیکن باجی تڑپتی ہوئی دھاڑ کر اتنا زور لگا رہی تھی کہ اسامے کے نیچے سے نکلنے لگی امی اوپر باجی نصرت کے سر کی طرف گئی اور جلدی سے باجی نصرت کی ٹانگوں پر ہاتھ رکھ کر باجی کی ٹانگیں دبا کر ایک ہاتھ سے باجی نصرت کے سینے کو دبوچ کر قابو کر لیا تا کہ نصرت اسامے کے نیچے سے نکلے نہیں امی باجی کو دبا کر بولی نصرت نصرت ہمت کر کجھ وی نہیں ہویا نصرت میری دھی کملی نا بن کجھ نہیں ہوندا برداشت کر اور نصرت کے منہ کے قریب منہ کرکے نصرت کو بلا کر نصرت کا دھیان ہٹا رہی تھی جبکہ باجی نصرت مچھلی کی طرح پھڑکتی ہوئی منہ کھول کر حال حال کرتی دھاڑتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر اوئے ہالیوئے میری پھدی پاٹ گئی امی نصرت کا سینہ دباتی ہوئی بولی ناں میری دھی کجھ نہیں ہویا بس بس ہمت کر میری دھی کملی نا بن برداشت کر نصرت کا جسم تھر تھر کانپنتا ہوا پھڑکنے لگا تھا جسے دیکھ کر میں ہکا بکا تھا باجی نصرت 8 لاکھ میں پھدی پھڑوا چکی تھی یہ کوئی مہنگا سودا نہیں تھا نصرت کی پھدی 8 لاکھ میں پھٹ چکی تھی سودا وارے کا ہی تھا امی نصرت کو سنبھالتی رہی نصرت کی ہمت تھی جو یک لخت کہنی جتنا لن ہے کر پھدی پھڑوا کر برداشت کر گئی باجی ہلکا ہلکا ہینگنے لگی باجی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا تھا امی بولی اسامہ ہولی ہولی لن اگاں پچھاں کر اسامہ اور ہوا اور باجی نصرت کی ٹانگیں دبا کر ہلکا سا لن کھینچا جس پر باجی نصرت کی پھٹی ہوئی پھدی کا خون لگا تھا جس سے باجی نصرت تڑپ کر غرا کر بولی اوئے ہالنی اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری جان پئی نکلتی ہئی امی نصرت کا سینہ مسل کر بولی نصرت میری جان ہمت کر کجھ نہیں ہوندا نصرت تڑپتی ہوئی پھڑکنے لگی تھے اسامہ آہستہ سے لن کھینچ کر اندر کردیا جس سے باجی نصرت کی بکاٹ نکلی اور باجی دھاڑ کر بولی اوئے ہالیوئے اماں میری جان نکل گئی ہئی اوئے اماں میں مر گئی امی بولی نصرت میری کملی دھی کجھ نہیں ہوندا برداشت کر اسامہ آہستہ سے لن ٹوپہ تک نکال کر واپس جڑ تک آرام سے باجی نصرت کی پھدی میں ہے جانے لگا جس سے باجی نصرت تڑپتی ہوئی بکا بکا کر حال حال کرتی تڑپنے لگی باجی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا تھا باجی نصرت کی پھدی میں اسامے کا پن اندر باہر ہونے سے راستہ بن چکا تھا پھدی کھل رہی تھی جس سے لن آسانی سے اندر باہر ہونے لگا تھا اور باجی نصرت بھی برداشت کرنے لگی جس سے اسامے کی سپیڈ بھی بڑھنے لگی باجی نصرت تڑپتی ہوئی کراہنے لگی اسامہ لن تھوڑی سی سپیڈ سے کھینچ کھینچ کر اندر باہر کرتا باجی نصرت کو چودنے لگا باجی نصرت ہینگتی ہوئی کراہنے لگی تھی دو تین منٹ میں لن نصرت کی پھدی میں رواں ہوگیا امی بولی اسامہ سپیڈ ودھائی آ یہ سن کر اسامے نے لن کھینچا اور ٹوپے تک نکال کر کس کس کر دھکے مارتا ہوا لن یک لخت پورا جڑ تک باجی نصرت کی پھدی کے آرپار کرنے لگا جس سے لن تیزی سے باجی نصرت کی پھدی سے نکل کر واپس تیزی سے باجی نصرت کی پھدی میں جڑ تک اتر کر باجی نصرت کے سینے سے جا لگتا جس سے باجی نصرت تڑپ کر چیختی ہوئی دھاڑنے لگی اسامہ تیزی سے لن کھینچ کھینچ کر پورا جڑ تک میری بہن نصرت کی پھدی میں یک لخت پورا جڑ تک اتار کر پوری شدت سے باجی نصرت کو چودنے لگا تھا جس سے باجی نصرت کی درد بھری بکاٹیاں نکلنے لگی اور باجی نصرت اسامے کے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے دباتی ہوئی حال حال کرتی تڑپنے لگی اسامہ کراہ کر گانڈ اٹھا اٹھا کر پوری شدت سے باجی نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا چود رہا تھا باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ اسامہ کے لن کو دبوچ کر مسل رہے تھے لن کے تیزی سے اندر باہر ہونے سے لن کی کھردری چمڑی میری بہن کی پھدی کے نرم ہونٹوں کو رگڑ کر مسلتی ہوئی جلا رہی تھی جس سے باجی نصرت کی ہمت جواب دینے لگی تھی اور باجی اونچا اونچا دھاڑتی ہوئی بکانے لگی باجی نصرت کی دھاڑیں باہر تک سنائی دینے لگیں اسامہ رکے بغیر پوری شدت سے لن کھینچ کھینچ کر باجی نصرت کی پھڈی کو چودتا ہوا چیر رہا تھا باجی نصرت تڑپ کر بری طرح بکانے لگی تھی کمرہ باجی نصرت کی دھاتوں سے گونج رہا تھا باجی نصرت کا چہرہ لال سرخ ہو کر کانپنے لگا تھا میں سمجھ گیا کہ اسامے کا پن باجی نصرت کی پھدی کو چیر رہا ہے جس سے درد باجی نصرت کی برداشت سے باہر ہو رہا ہے اسامہ لگاتار دو تین منت سے کس کس کر دھکے مارتا باجی نصرت ہو چود رہا تھا جس سے اسامہ بھی باجی نصرت کی گرمی سے نڈھال ہوکر کراہ گیا اور کرلا کر دھکا مار کر لن جڑ تک باجی نصرت کی پھدی میں مار کر رک کر بکا گیا اور ساتھ ہی باجی نصرت کی پھدی کے اندر اسامے کا لن منی کی دھاریں مارتا چھوٹنے لگا ساتھ ہی باجی نصرت بھی بکا کر تڑپ گئی باجی نصرت بھی ساتھ ہی چھوٹتی ہوئی بری طرح کانپتی آہیں بھرتی مزے سے ہینگنے لگی اسامے کے ٹٹے اوپر نیچے ہوکر منی میری بہن نصرت کی بچی دانی میں پھینک کر میری بہن نصرت کی بچی دانی کو بھر رہے تھے امی نصرت اور اسامہ کو فارغ ہوتا دیکھ کر بولی میں قربان جاواں میں قربان جاواں میرا پتر میری دھی دے اندر خیر نال فارغ ہوگیا اور اسامے کی کمر پر ہاتھ رکھ کر مسلتی ہوئی اسامی کی گانڈ پر ہاتھ پھیر کر نیچے لاکر باجی نصرت باجی نصرت کے کانپتے بیٹ پر ہاتھ پھیر کر بولی میں قربان جاواں نصرت تیرے توں نصرت ڈسکارتی ہوئی سسک کر ہینگ رہی تھی اسامہ فارغ ہوتا ہوا نصرت کے اوپر گر کر ہانپنے لگا امی پیچھے آئی اور اسامے کے جھٹکے مارتا ٹٹے دیکھ بولی میں قربان جاواں اہناں ٹٹیاں توں اہناں اچ تے بڑی ہمت ہے اور آگے ہوکر اسامے کے ٹٹوں پر ہونٹ رکھ کر اسامے کے ٹٹے چوم لیے اسامہ سسک گیا امی نے آگے ہوکر ٹٹوں کر چوم کر اوپر ہوکر اسامے کے چتڑوں کو چوم کر اوپر اسامے کی کمر چوم کر دونوں ہاتھ سے مسل کر بولی میں قربان جاواں اسامہ تیرے تے تیری کمر اب تے بڑی ہمت اے اسامہ نصرت کے مموں کے نپلز چوس کر سسک رہا تھا امی اسامے کی کمر کو مسلتی ہوئی سہلانے لگی نصرت ڈسکارتی ہوئی کراہ رہی تھی نصرت کا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا اسامے کا لن باجی نصرت کی پھدی میں جڑ تک اترا تھا جس سے باجی نصرت کی پھدی نے دبوچ رکھا تھا اور کھلتی بند ہوتی لن کو دبا رہی تھی امی پاس گئی اور بولی نصرت میری دھی سواد آیا کہ نہیں۔ نصرت کراہ کر بولی نا پچھ جتنا درد ہویا سواد اس نالو وی ڈھیر آیا اے امی نے آگے ہوکر نصرت کا ماتھا چوما اور بولی جیندی رہوے میری دھی۔ نصرت آج توں تے مینوں خوش کر دتا باجی بولی کیوں امی امی بولی نصرت کیوں توں اسامے دا لن برداشت کر گئی انج آر کوئی ہور ہوندی تے مر گئی نصرت سسک کر بولی امی مر تے اس ویلے میں وی گئی ہاس جس ویلے لن پھدی پاڑ کے اندر گیا مینوں تے لگا میری پھدی وچ کلہ ٹھوک دتا اسامے نصرت سسک کر کراہ رہی تھی امی اسامے کا ماتھا چوم کر بولی سنا میری جان سواد دتا نصرت کے نہیں اسامہ بولا اففف آنٹی آج تک پتا نہیں کتنیقں چھوریں یدھیاں پر آج جو نصرت دی پھدی مار کے سواد آیا آج تک نہیں آیا امی ہنس دی اور بولی ہور ہمت ہے کہ نہیں اسامہ بولا میں تے ہلے ٹائیٹ ہاں نصرت دی ہمت مکی پئی امی بولی کجھ نہیں ہوندا نصرت اچ بڑی ہمت اے توں اپنا سواد لئے نصرت دی فکر نا کر یہ سن کر اسامہ بولا کی خیال اے نصرت نصرت بولی میں تے ہیٹھ پئی آں میری کہڑی ناہں اے اور اوپر ہوکر اسماء کو چومنے لگی اسامہ باجی کو چوم کر ٹانگیں دبا کر اوپر ہوا اور لن کھینچ کر ٹوپے تک نکال کر کس کر دھکا مار کر پورا لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں پار کرتا ہوا نصرت کو چودنے ہاگ نصرت پہلے دھکے پر کرلا کر تڑپ کر دوہری سی ہوکر غرا گئی اسامہ رکے بغیر پوری طاقت سے لن کھینچ کھینچ کر پوری شدت سے نصرت کی پھدی کے آر پار کرتا نصرت کی پھدی کو چیرنے لگا اسامہ کھینچ کھینچ کر پوری شدت سے باجی نصرت کی پھدی کے آرپار کرتا ہوا باجی نصرت کی پھدی کو چیرنے لگا اسامے کا موٹا لن نصرت کی پھدی کو پھاڑتا ہوا تیزی سے اندر باہر ہو رہا تھا اسامے کے لن کی چمڑی باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ سختی سے رگڑ کر مسلتا ہوا اندر باہر ہوتا باجی نصرت کی پھدی کو چیر رہا تھا اسامہ گانڈ اٹھا اٹھا کر کس کر پوری شدت سے دھکے مارتا نصرت کو چودنے لگا اسامے کا کہنی جتنا لن ٹوپے تک نکل کر یک لخت ایک ہی جھٹکے میں پورا جڑ تک باجی نصرت کی پھدی کو چیر کر باجی کے ہاں تک اتر کر باجی نصرت کو جھنجھوڑنے لگا جس سے باجی نصرت ہل سی گئی اور تڑپ کر اسامے کے سینے پر ہاتھ رکھ کر زور لگا کر دھاڑ کر بکا گئی جس سے باجی نصرت کا منہ بکانے سے فل کھل سا گیا اور باجی نصرت سینہ اٹھا کر زور سے دھاڑتی ہوئی بکانے لگی اسامہ کراہ کر گھوڑے کی طرح ہٹ ہٹ کر پوری شدت سے لن باجی نصرت کی پھدی میں پیل رہا تھا اسامہ پوری طاقت سے جھٹکے مارتا باجی نصرت کی پھدی کو چیر کر پورا لن باجی نصرت کی پھدی آرپار کرتا پوری طاقت سے دھکے مار کر نصرت کو چود رہا تھا جس سے اسامے کا موٹا لن نصرت کی پھدی کے ہونٹ مسل کر رگڑتا ہوا دبا کر چھیلنے لگا جس سے باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ لال سرخ ہوکر پوری طرح سے کھل سے گئے جس سے باجی نصرت کی ہمت جواب دے گئی اور باجی نصرت تڑپتی ہوئی اچھلی اور اسامے کی کا سینہ دبا کر تڑپ کر ارڑا کر بے اختیار نصرت کی حال حال نکل گئی نصرت بکا کر ارڑاتی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اماں میری پھدی پاٹ گئی اوئے ہالیوئے اسامہ بس کر میری جان پیا کڈھدا ایں اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اسامہ تینوں واسطہ ہی بس کر میری پھدی چیری گئی اوئے ہال ہوئے اماں میرا ہاں چیری گیا اوئے ہال ہوئے اسامہ میرا سینہ چیرا گیائی تیرا لن بس کر میں مر جاساں گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میرا ہاں پاٹ گویائی اسامہ میں مر گئی امی باجی نصرت کو سنبھالتی ہوئی بولی نصرت میری دھی ہمت کر کجھ نہیں ہوندا لن ہی ہے نا کوئی بلاں تے نہیں اسامہ باجی نصرت کو بکا کر حال حال کرتا دیکھ کر مچل سا گیا اور اپنی سپیڈ بڑھاتے ہوئے پوری شدت سے لن باجی نصرت کی پھدی میں مارنے لگا جس سے باجی نصرت بکا کر تڑپ گئی اسامے کے ظالم لن کے دھکے تیزی سے باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ کاٹنے لگے جس سے باجی نصرت کی پھدی اسامے کے کھردرے لن کی مسلسل رگڑ سے جل کر باجی نصرت کو تڑپانے لگے اسامے کے کھردرے لن کی رگڑ باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ مسل کر چھیل کر کاٹنے لگی جس سے باجی نصرت کی بے اختیار زوردار بکاٹ نکلی اور باجی گلہ پھاڑ کر اپنا پورا زور لگا کر اپنا سینہ اٹھا کر اتنی شدت سے بکری کی طرح بکا کر دھاڑتی ہوئی حال حال کرتی بولی اااوووئئئئےےےےے ہہہہااااللللییییوووووئئئئئئے اااامممممااااااں میں مرررررر گئییی اوئے ہااااالیوئئئئے امممممااااااںںںںںںںںںں میییریییی پھدددددییییییی پااٹٹٹٹٹ گئییی اوئئئئے ہالیوئئئئے اسامں میں مر گئی آااااااااااااآ اساممممہ تینوں واسطہ ہی مینوں چھڈ دے باجی نصرت بے اختیار تڑپتی ہوئی بکا کر رونے لگی اور اپنے ہاتھ اسامے کے سامنے جوڑ کر التجا کرکے بولی اوئئئے ہالیوئئئے اساااامممممہہہہ میں مر گئی تینوں واسطہ ہی چھڈ دے بس کر دے میں مر گئی اؤں باجی نصرت ہاتھ جوڑ کر روتی ہوئی اسامے کے ترلے کر رہی تھی امی نصرت کے جڑے ہاتھ پکڑ کر بولی ہالنی نصرت ہمت کر کجھ نہیں ہوندا برداشت کر بس تھوڑی ڈھل اے اسامے نوں کجھ نا آکھ اس نوں سواد کینٹ دے برداشت کر میری جان نصرت بکا کر بولی اماں میں کی کراں امی بولی نصرت توں اپنی پیڑ نوں برداشت کر نہیں ہوندی تے حال حال کر کے چیکاں مار اسامہ توں پوری شدت نال نصرت دی پھدی یہو اسامہ امی کی بات سن کرکراہ کر ہانپنے لگا تھا اسامے نے کراہ کر لن کھینچ کھینچ کر پوری شدت سے دھکے مارتا ہوئے باجی نصرت کی پھدی میں لن پوری شدت سے چیرنے لگا جس سے اسامے کے لن کی کھردری چمڑی باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑ کر کاٹنے لگی جس سے نصرت کی بکاٹٹٹٹیں نکل کر گونج گئی اور بصیرت تڑپ کر دوہری ہوکر پیچھے اچھلی اور بے اختیار نصرت پوری شدت سے ارڑا کر بااااں بااااااں بااااااں بااااں کرتی بکانے لگی نصرت کے بکاٹ اتنے اونچے تھے کہ باہر گلی تک سنائی دینے لگی امی نصرت کے بکاٹ سن کر بولی ہالنی نصرت میں صدقے جاواں تیری برداشت توں میری دھی کجھ نہیں ہوندا نصرت نصرت ہمت کر اور نصرت کا سینہ دبانے لگی اسامے کے لن نے نصرت کی پھدی کے ہونٹ چیر کر کاٹ دئیے تھے جس سے نصرت کی پھدی کے ہونٹوں کا ماس الگ سا ہوکر باہر کو نکل آیا جس سے باجی نصرت بے اختیار اچھلی اور پوری شدت سے بکاٹ مارتی دوہری سی ہوکر بکااااااا کر تڑپنے لگی نصرت کا جسم دھڑکنے لگا اور نصرت کا منہ لال سرخ ہوکر کانپنے لگا نصرت کا سینہ ہوا میں اٹھ گیا نصرت کی آواز بند ہو گئی جس سے نصرت بے سدھ ہوکر بے ہوش ہونے لگی امی نصرت کو بے ہوش ہوتا دیکھ کر نصرت کو پکارتی ہوئی ہوش دلانے لگی جبکہ اسامہ پوری شدت سے لن نصرت کی پھدی میں پھیرتا نصرت کی پھدی کو چیر چکا تھا نصرت کی پھدی کے ہونٹ اسامے کے لن کی رگڑ سے چھیل کر کٹ سے گئے جس سے خون بہنے لگا تھا جس سے نصرت کی برادشت جواب دے گئی اور نصرت کی ہمت ٹوٹ گئی نصرت بے سدھ ہوتی بے ہوش ہو گئی اوسامہ بھی تھک کر نڈھال ہوکر نصرت کے اندر فارغ ہونے لگا امی باجی نصرت کو ہوش دلاتی بولی نصرت نصرت میری دھی ہمت کر کجھ نہیں ہوندا کی ہویا ہئی کملی دھی میری نصرت نصرت اور آگے ہوکر نصرت کو اپنی باہوں میں بھر کر نصرت کا سینہ دبا کر مسلتی ہوئی نصرت کو ہوش دلاتی بولی نی نصرت رڑا ہووی کجھ نہوں ہوندا ہمت کر باجی نصرت کا سرخ منہ فل کھلا کانپ رہا تھا باجی کی آنکھیں بند تھی اسامہ نڈھال ہوکر باجی نصرت کے اوپر گر چکا تھا اور فارغ ہورہا تھا باجی نصرت کی پھدی میں لن جڑ تک اترا تھا اور باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ کٹے نظر آرہے تھے باجی نصرت کی پھدی کے اندر کا گلابی ماس نکلا نظر آرہا تھا امی نصرت کے منہ سے منہ لگا کر نصرت کا سانس بحال کرتی بولی ہالنی اماں میں مر جاواں نصرت میری دھی ہوش کر کجھ نہیں ہویا نصرت میری جان نصرت میری دھی اور نیچے ہوکر نصرت کا ماتھا چوم کر بولی نصرت ہلے تے شروعات ہے نصرت دو تین منٹ تک بے ہوش رہی اسامہ اوپر ہوکر ہانپتا ہوا پیچھے ہوا نصرت کا جسم پوری شدت سے دھڑکنے لگا تھا اسامے نے لن آہستہ سے باجی نصرت کی پھدی سے کھینچ کر نکال لیا جس سے باجی نصرت بے اختیار تڑپ کر ہوش میں آکر چیختی ہوئی چیلانے لگی امی نصرت کو سنبھالتی ہوئی نصرت کی کمر مسلنے لگی نصرت کی پھدی میں سوراخ سا ہو چکا تھا نصرت کی پھدی نصرت کے بکانے کے ساتھ کھلتی بند ہوتی پچ پچ کرتی نظر آ رہی تھی نصرت کی پھدی کے ہونٹ کٹ سے گئے تھے اور ہلکا سا خون بہ رہا تھا اسامہ باجی کو تڑپتا دیکھنے لگا امی نصرت کو سنبھالتی بولی وے نا پریشان ہو کجھ نہیں ہوندا پہلی واری اتنی ڈھاڈی چدائی ہوئی اے نصرت دی اے حشر تے ہونا ہا میں سنبھال لیساں کجھ نہیں ہوندا اسامہ بولا آنٹی نصرت نال کجھ ڈھیر ہی ہوگیا پتا ہی نہیں لگا پھدی تے نصرت دی پاٹی یہ امی نصرت کی پھدی دیکھ کر بولی کجھ نہیں ہوندا پاٹ گئی تے کی ہویا دس لکھ وی تے لیا ہے نصرت نصرت اپنی ٹانگیں سینے سے لگا کر تڑپتی ہوئی بکاٹیاں مارتی ابھی تک حال حال کرتی پھڑک رہی تھی نصرت کی پھدی کے ہونٹ کھل چکے تھے جو کچھ دیر پہلے ایک دوسرے سے جڑے تھے امی نصرت کو سنبھالنے لگی نصرت کا جسم بری طرح سے پھڑک رہا تھا امی نے مجھے آواز دی بہزاد امی کو پتا تھا میں کھڑا دیکھ رہا ہوں میں جلدی سے چونک گیا اور جلدی سے اندر داخل ہوگیا جہاں میری نظر اسامے کے کہنی جتنے لن پر پڑی جو ہلکے ہلکے جھٹکے کھاتا مرجھا رہا تھا اس پر باجی نصرت کی پھدی کے خون کی لکیریں نظر آ رہی تھی میں نے نظر باجی نصرت کی اتنے سے لگی کانپتی ٹانگوں پر پڑیں جس سے باجی کا پھڑکتی جسم نظر ق رہا تھا کمرہ باجی نصرت کی درد بھری کراہوں سے گونج رہا تھا باجی حال حال کرتی تڑپ رہی تھی باجی نصرت کی پھڈی کے ہونٹ کھل کر کٹ سے گئے تھے امی بولی جا عابدہ نوں سد لیا میں بولا جی اور جلدی سے مڑ گیا میں باہر نکلا اور کیچن میں بھاگ کر گیا تو باجی عابدہ مجھے دیکھ کر چونک گئی باجی کو چہرہ بتا رہا تھا کہ باجی کچھ کر رہی تھی میں بولا باجی امی سددی پئی ہئی باجی بولی ہلا آئی اور میں نکل گیا تو اسامہ شلوار میں واشروم کی طرف گیا میں اندر گیا تو امی نصرت کو سنبھال رہی تھی باجی ابھی تک کراہتی ہوئی حال حال کر رہی تھی امی مجھے دیکھ کر بولی اوراں اور بولی بھین دیاں ٹنگاں پھد میں صاف کر پئیں میں آگے گیا اور باجی نصرت کے سر کی طرف آ کر باجی نصرت کی ہوا میں کھڑی کانپتی ٹانگیں پکڑ لیں جس سے میرے ہاتھ بھی کانپنے لگے باجی نصرت کا منہ درد سے لال تھا اور باجی نصرت ادھر ادھر سر مارتی حال حال کرتی بولی رہی ہالنی ماں میں مر گئی ہالیوئے اماں آج تے مار گھتیا ہئی امی نے کپڑا اٹھا کر نصرت کی پھدی کو صاف کرنے لگی باجی نصرت کو جھٹکا لگا امی بولی نصرت حوصلہ کر کجھ نہیں ہوندا نصرت تڑپری ہی تھی باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ کھلے ہوئے تھے اور گلابی سا ماس نظر آ رہا تھا باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ کٹے ہوئے نظر آرہے تھے اور پھدی لال سرخ تھی اتنے میں عابدہ اندر آئی اور باجی نصرت کی کانپتی ٹانگیں میرے ہاتھ میں دیکھ کر رک گئی امی بولی اگاں ا جا باجی کے ہاتھ میں کیتلی تھی جس میں شاید گرم پانی تھا جو باجی عابدہ نے پاس رکھ دیا امی بولی اس اچ دوائی پائی ہئی باجی نے سر ہلایا امی نے انگلی ڈال کر چیک کیا کہ زیادہ گرم تو نہیں اور بولی چا کے ایتھے رکھ عابدہ نے اوپر رکھا اور بولی نصرت دیاں ٹنگاں پھد قابو کرکے رکھیں عابدہ نے مجھ سے باجی نصرت کی ٹانگیں پکڑ لی تھی امی بولی توں اوراں آ میں پاس گیا امی نے پہلے سے ہی انتظام کر رکھا تھا جیسے امی کو پتا تھا کہ نصرت کی پھدی پھٹنی ہے امی نے وہ کٹپا پانی میں ڈال کر نصرت کی پھدی پر پانی پھینک کر نصرت کی پھدی کی ٹکور کرنے لگی جس سے نصرت تڑپ کر بکانے لگی اور کراہنے لگی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا نصرت کی پھدی دھل کر صاف ہوگئی جس سے نصرت کی پھدی کے کھلے ہوئے کٹے ہونٹ اور پھدی سے نکلا گلابی ماس صاف نظر آ رہا تھا جسے میں دیکھ رہا تھا امی نے پھر پھدی کو اندر تک صاف کیا اور پھدی پر کافی ساری ایک کریم لگا دی اوپر پھر مجھ سے بولی کہ بہزاد نصرت دی پھدی دواں ہےھا نال پھڑ کے کھول میں بولا جی امی اور باجی نصرت کی پھدی کے دونوں ہوٹ پکڑ کر کھول سے دئیے جس سے مجھے اپنی بہن کی پھدی اندر تک کافی نظر آگئی جو اسامے کے لن نے پھاڑ کر کھول دی تھی پھدی سے نکلا گلابی ماس امی نے پکڑ کر اندر ڈال کر کافی ساری کریم بھی اندر انگلی سے ڈال دی اور جلدی سے اوپر ایک کپڑا رکھ کر دبا لیا جس سے باجی نصرت تڑپ کر پھڑکی اور بے اختیار درمیان سے اٹھ کر زور سے چیخ کر بجائی اور دھاڑتی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا امی بولی عابدہ قابو رکھی نصرت نوں نصرت تڑپتی ہوئی بکا کر ہینگنے لگی جس سے نصرت کا جسم کانپنے لگا اور نصرت بے اختیار رونے لگی امی بولی نصرت ہمت کر کجھ نہیں ہویا ہنڑ توں ٹھیک ہو جاسیں کچھ دیر میں نصرت تڑپتی ہوئی کراہنے لگی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اتنے میں اسامہ اندر آیا اور باجی کی حالت دیکھنے لگا امی نے نصرت کو سنبھالتی ہوئی نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر سہلاتی ہوئی نیچے کرنے لگی جس سے نصرت کراہنے لگی امی نے ٹانگیں نیچے کر آپس سے جوڑ کر سینے سے لگا کر نیچے کردیں اسامہ پاس آکر نصرت کو چومنے لگا جس سے نصرت سسکنے لگی اسامہ بولا سوری میری جان کجھ ڈھیر ہی تڑپا دتا تینوں اور نصرت کو چومنے لگا عابدی باہر چلی گئی امی کچھ میڈیسن لائی اور نصرت کو کھلا دیں اسامہ بولا آنٹی پیسے لئے آواں امی مسکرا کر بولی اسامہ تیرے تے بے اعتباری کوئی نہیں ویسے وی اتنے پیسے میں گھر کدے رکھنے کل تیرے نال جاساں شہر بینک آف رکھسان گئے نصرت سسکتی ہوئی آرام کرنے لگی اسامہ کپڑے ڈال کر مجھے ساتھ لے کر باہر نکل آیا باہر کے لوگ اسامے کو ہمارے گھر سے نکلتے دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ اسامہ باجی نصرت کو چود کر نکل رہا ہے ویسے بھی باجی نصرت کی بکاٹیاں اتنی بلند تھیں کہ باہر گلی تک سنائی دے رہی تھیں جس سے بھی لوگوں کو پتا لگ چکا تھا کہ اسامہ نصرت کو چود رہا ہے ہم چلتے ہوئے بیٹھک گئے اسامہ بولا میری جان پریشان نہیں ہونا کوئی کجھ نہیں آکھدا پتا تے سب نوں لگ گیا کہ میں نصرت نوں یہ کہ آ رہیا پر گل کوئی نہیں کردا چک کر اور مجھے ہزار روپیہ دیا میں پیسے ہے کر باہر نکلا اور دیمی کی طرف چلا گیا دیمی مجھے راستے میں مل گیا وہ مجھے ہنس کر ملا اور بولا سنا شہزادے آج کل تے کوئی لفٹ ہی نہیں میں مسکرا کر بولا بس یار کجھ مصروف ہاں دیمی بولا واہ یار باجی نصرت تے بڑی تیز نکلی میں بولا کی ہویا وہ بولا بس کر تینوں نہیں پتا آج کل تے اسامے نال گلی اچ ہی لوگوں دے سامنے شروع ہوجاندی میں مسکرایا اور بولا بس باجی نصرت دی مرضی وہ بولا سنا کتھو تک کم آپڑایا باجی اسامے کول ستی کہ نہیں میں مسکرا کر بولا آج باجی نصرت اسامے کول سین کیا اے وہ چونک گیا اور بولا واہ یار دسیا ہی نہیں میں بولا کی دساں ہاس باجی نصرت اور اسامہ سرعام گلی میں کھڑے ہوکر چوما چاٹی کرتے تھے اس لیے گاؤں والوں کو پتا تو لگ چکا تھا کہ باجی نصرت چدوا چکی ہے کیونکہ آج تو باجی کی چدائی کی حال حال تو گلی تک گئی تھی دیمی بولا ہنڑ سانوں وی لفٹ لئے دے باجی کولوں میں بولا بھائی او ہنڑ اسامے دی مشوق اے اسامے نوں آکھ وہ بولا چھڈ یار اسامہ کہڑا ہر ویلے کول ہوندا میں بولا چل توں پہلے باجی ثانیہ کولوں لئے دے پھدی وہ ہنس کر بولا چل آجا تینوں لئے دیندا میں نے تو ایسے ہی ٹالنے کےلیے کہا تھا وہ تو سیریس ہوگیا جس پر میں چونک گیا اور میرا دل دھڑکنے لگا میں اسے حیرانی سے دیکھا تو وہ مجھے دیکھ کر بولا مزاق نہیں آجا باجی ثانیہ ناہں نہیں کردی او تے ہنڑ فل ٹرین اے میں بولا یار میں تے ایویں آکھ رہیا ہاس میں تھوڑا گھبرا گیا کیونکہ کبھی یہ سوچا نہیں تھا باجی نصرت کے ساتھ بھی مستی اس لیے ہوگئی کہ وہ سو رہی تھی وہ بولا چھڈ یار ہنڑ توں آکھیا تے میرے کولو ناہں نہیں ہوندی یہ کہ کر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور بولا یار فکر نا کر تیرے کولو میں کوئی شئے نہیں لیندا ویسے وی ہنڑ تیری تے میری بھین دوویں اس کم اچ ہینڑ اے ادلہ بدلہ بلدی رہسی یہ کہ کر اس نے مجھے کھینچ لیا میں جانا نہیں چاہتا تھا پر دیمی مجھے زبردستی لے کر جا رہا تھا آج پہلی بار کسی پھدی کو چودنے کا سوچ کر میں ہکا بکا تھا میرے لوں کھڑے تھے میرا دل دھڑکنے لگا دیمی مجھے اپنے گھر کی طرف لے کر چل دیا گھر میں داخل ہوئے تو سامنے باجی ثانیہ بیٹھی برتن دھو رہی تھی باجی نے کسے ہوئے کپڑے ڈال رکھے تھے جس سے باجی کا انگ انگ واضح نظر آ رہا تھا باجی ثانیہ کے بیٹھنے سے نوٹی گانڈ باہر کو نکل کر نظر آ رہی تھی باجی کے موٹے ممے صاف نظر آ رہے تھے باجی ثانیہ اس وقت گانڈ باہر نکال کر اٹھی اور مجھے گہری نظروں سے دیکھ کر مسکرا دی اور گانڈ لچکاتی ہوئی چلتی ہوئی کیچن کی طرف چل دی دیمی کی دو اوور بہنیں بھی تھی جو ثانیہ سے چھوٹی تھی اور ایک بھائی دیمی سے تھا ٹوٹل چھ بہن بھائی تھے دیمی مجھے لے کر کمرے کی طرف چل دیا ان کا چھوٹا سا کچا مکان دو کمروں پر مشتمل تھا جو اینٹوں سے بنا ہوا تھا ایک کیچن اور ایک طرف چھوٹے سے واشروم تھے گھر بھی کافی پرانی تھا دو کمروں کے آگے ایک پرانی چھتیر کا برآمدہ تھا دینی مجھے ایک کمرے میں ہے گیا جس میں پرانی طرز کا دینی کی امی کا سامان پڑا تھا اور دو چار چارپائیاں رکھی تھیں وہ مجھ سے بولا ایتھے بہو میں آیا اور خود نکل گیا میں گھبرا بھی رہا تھا اور پریشان بھی ہو رہا تھا کہ اتنے میں باجی ثانیہ اندر داخل ہوئی تو میں چونک گیا باجی ثانیہ کسے ہوئے لباس میں تھی جس سے باجی کا انگ انگ نظر آ رہا تھا میں چونک کر کھڑا ہوگیا باجی ثانیہ مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور اپنی گانڈ مٹکاتی ہوئی میرے قریب آئی اور میرے پاس آ کر کھڑی ہوکر بولی آؤ جی جناب سنیا آج کل بھین بھرا موجاں کر رہے ہو میں باجی ثانیہ کے تن کر کھڑے ممے دیکھ کر مچل رہا تھا باجی کے موٹے تنے ہوئے نپلز کسے قمیض میں سے نظر آ رہے تھے میں گھونٹ بھرتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا ثانیہ بولی باجی دی سنا سنیا سرعام اسامے نال رنگ رلیاں منا رہی میں بولا ہاں جی ثانیہ مسکرا دی اور اپنی گت اٹھا کر آگے مموں پر رکھ کر انگلی سے کھیلتی ہوئی میرے قریب ہوکر بولی ویسے دس تے سہی نصرت تے بڑی نیک پاک باز لگدی ہا او تے پوری گشتی نکلی مینوں میں مسکرا سا گیا تو باجی نے میرے قریب ہوکر اپنا موٹے ممے سے مجھے ٹچ کر کے دھکا سا دیا جا سے میں نرم ممے کو محسوس کرکے سسک گیا باجی ثانیہ کے ممے کا نپل میرے سینے پر چبھ سا گیا جس سے میں سسک گیا اور باجی کو دیکھنے لگا باجی میرا ہاتھ پکڑ کر پاس بیٹھ گئی اور مجھے بھی کھینچ لیا جس سے میں باجی ثانیہ کے ساتھ نیچے گر کر بیٹھ گیا باجی ثانیہ کا گرم جسم کا لمس مجھے محسوس ہو رہا تھا باجی کے تنے ممے آگ لگا رہے تھے میں مموں کو تاڑتا ہوا باجی کو دیکھ رہا تھا ثانیہ بولی وے ہنڑ تے تے تیری بھین دے وی وڈے وڈے ممے ہونے اہناں نوں جا کے ویکھ اور ہنس دی باجی ثانیہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھی تھی جس سے اس کے موٹے پٹ صاف نظر آ رہے تھے ثانیہ بولی وے دس تے سہی نصرت اسامے کول گئی اے کہ نہیں میں بولا پتا نہیں باجی آپ پچھ لئیں وہ بولی میں وی پچھ لیساں توں دس تے سہی میں بولا باجی او آندا تے ہے گھر پر میں ویکھدا نہیں اور باجی ثانیہ کے جسم کو تاڑنے لگا باجی ثانیہ ہنس دی اور بولی اچھا جی جیویں تینوں نہیں پتا ویسے باجی نوں ننگا ویکھیا تے ہونا میں بولا نہیں وہ بولی کیوں میں بولا بھین اے میری میں کنج ویکھ سگدا وہ بولی وے بس کر بھین ہے تے کی ہویا اسامے نال موجاں کر رہی تے تینوں کی ہوندا میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو میری نظر باجی ثانیہ کے سامنے سینے پر گئی اور رگ گئی قمیض میں بھی ثانیہ کا سب کچھ نظر آ رہا تھا ثانیہ نے کنگھورا مارا اور مسکرا کر بولی کی ویکھدے ہو جناب میں منہ جھکا کر بولا کچھ نہیں باجی مسکرا دی اور بولی بہزاد سہی نظر نہیں آ رہیا تے قمیض لاہ دیندی آں میں چونک گیا اور نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ بولی ہاں بھائی ویکھنا ہے تے میں قمیض لاہ دیندی آں اپنی بھین دا تے سب کجھ توں ویکھیا ہونا میں بولا نہیں باجی ایسی کوئی گل نہیں وہ بولی تے دیمی تے آکھ رہیا توں اس کم کانڑ ہی آیا ہیں میں بولا کس کم کانڑ وہ ہنس دی اور بولی اس واسطے کہ توں میرے نال پیار کرن آیا ہیں میں بولا نہیں اے تے اس آپ آفر کیتی ثانیہ ہنس دی اور بولی ہلا ہنڑ جو وی ہے تیرا دل ہے کہ نہیں میں بولا نہیں باجی پر میرا دل دھڑک رہا تھا ثانیہ کو سیکسی انداز میں دیکھ کر میرا لن تن چکا تھا میں ثانیہ کے ممے دیکھ رہا تھا کہ ثانیہ نے ہاتھ آگے کیا اور میرے لن کو پکڑ لیا جو تن کر کھڑا تھا جس سے میں سسک گیا تو ثانیہ ہنس دی اور مسکرا کر بولی تے اے کی دل ہے کہ نہیں میں جلدی سے کھڑا ہوگیا ثانیہ ہنس کر بولی اچھا جی چل میں قمیض لہندی آں پر توں پہلے لاہ میں بولا باجی میں جھجھک بھی رہا تھا باجی بولی وے نا جھجھک کجھ نہیں ہوندا اور خود ہی آگے ہوکر میرے بٹن کھول دئیے اور بولی چل لاہ میں نے ہاتھ ڈال کر اپنا قمیض اتار دیا ثانیہ آگے ہوئی اور میرے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ کر چوسنے لگی میں باجی ثانیہ کے گرم منہ کا ذائقہ محسوس کرکے مچل سا گیا باجی سسکتی ہوئی میرے جسم پر اپنے نرم ہاتھ پھرتی ہوئی مجھے چومنے لگی جس سے میں سسک کر کراہ سا گیا باجی ثانیہ پیچھے ہوئی اور اپنا قمیض کھینچ کر اتار دیا جس سے ثانیہ کے موٹے ممے اور گورا جسم ننگا ہوکر میرے سامنے آگیا میں بڑے شوق سے ثانیہ کا خوبصورت سیکسی جسم دیکھنے لگا ثانیہ کے تن کر کھڑے موٹے براؤن نپلز قیامت لگ رہے تھے ثانیہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنے ممے دبا کر میرے سامنے بیٹھ گئی جس سے موٹے ممے ہل سے گئے اور بولی چیک کر بہزاد میں نے ہاتھ اٹھا کر ثانیہ کے ممے پکڑ کر مسلنے لگا جس سے میں سسک گیا ثانیہ بولی بہزاد منہ اچ لئے کے چوس میں مما پکڑ کر قریب ہوا اور ثانیہ کا مما دبا کر منہ میں بھر کر چوسنے لگا میں اناڑی تھا پہلی بار مما چوس رہا تھا اس لیے مما اور نپلز منہ میں بھر کر چوستا ہوا سسکنے لگا ثانیہ سسکتی ہوئی میرا سر اپنے مموں پر دبا کر ممے چسوا رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے میری شلوار کو نیچے کرکے میرا لن کھینچ کر باہر نکال لیا ثانیہ کے نرم ہاتھ کا لمس محسوس کرکے میں مچل گیا اور سسک کر کانپ گیا باجی سسک کر میرا لن مسلتی ہوئی سسکار کر بولی اففف بہزاد توں تے وڈا ہو گیا ایں میں سسک کر اوپر ہوگیا تو باجی نے مجھے اپنی جھولی میں بٹھا لیا باجی ثانیہ کا ایک مما میرے ساتھ لگ گیا اور ثانیہ میرے لن کو ہاتھ میں دیکھ کر بولی اففف بہزاد تیرا لن تے دیمی نالو وی وڈا اے میں سسک کر کراہ سا گیا اور بولا باجی تینوں کنج پتا باجی ہنس دی اور بولی کیوں مینوں نہیں پتا ہو سگدا میرا بھرا ہے مینوں نہیں پتا ہونا تے کس نوں ہونا میں چونک سا گیا اور بولا نہیں باجی توں کجن ویکھ سگدی ثانیہ ہنس دی اور بولی جیویں او میری پھدی ویکھ سگدا میں نہیں ویکھ سگدی میں چونک گیا اور بولا او کنج ویکھ سگدا وہ بولی کیوں نہیں ویکھ سگدا میں بولا او تیرا بھرا ہے وہ بولی تے وت کی ہویا بھرا ہے تے جدو اسدا دل کردا اے دیمی میرے نال سین لیندا اے میں چونک سا گیا اور بولا او کیویں وہ ہنس دی اور بولی جیویں توں اپنی بھین نصرت نو ستی پئی نوں چھڑیا ہا میں چونک گیا اور سمجھ گیا کہ دیمی نے سب بتا دیا ہے جس سے میں شرما سا گیا ثانیہ بولی وے کیوں شرما رہیا ایں اگر تیرا دل کیتا توں کر کیا تے کجھ نہیں ہوندا دیمی وی تے روز میرا نال کردا اے اور میرے سر کو پکڑ کر دبا کر مجھے چومنے لگی اور میرا لن مسلنے لگی جس سے میں سسک گیا اتنے میں دینی اندر داخل ہوا مجھے اور آپ ی بہن ثانیہ کو ننگا دیکھ کر مسکرا دیا اور بولا واہ بہزادی آج تے اوہناں لگ رہیا ایں میری بھین نال ہنڑ مینوں وی موقع دینا ہئی باجی نے مجھے چھوڑا نہیں اور مجھے چومتی رہی دیمی اندر آگیا باجی مجھے پیچھے لٹا کر میرے اوپر آکر مجھے چومنے لگی جس سے میں سسک رہا تھا میرا لن فل تن کر کھڑا تھا باجی ثانیہ مجھے لٹا کر پیچھے ہٹ کر میری ٹانگوں میں بیٹھ کر میری شلوار کو ہاتھ ڈال کر کھینچ لی اور مجھے ننگا کر دیا جس سے میرا تنا لن نظر آنے لگا باجی میرا لن پکڑ کر نیچے جھکی اور میرے لن کے ٹوپے کو چوم لیا جس سے میں ثانیہ کے نرم ہونٹ لن پر محسوس کرکے مچل گیا ثانیہ بولی دیمی توں وی لن بہزاد آر لما کر ایدو ویکھ کیڈا سوہنا لن اے دیمی بولا باجی تیرے اندر جا رہیا اے ہو جاسی باجی نصرت دے اندر گیا تے اور دونوں بہن بھائی ہنس دئیے اسی لمحے باجی ثانیہ جھکی اور منہ کھول کر میرے لن کو منہ میں بھر کر جڑ تک منہ میں دبوچ کر چوس لیا جس سے میری کراہ نکل گئی اور میں ثانیہ کے گرم منہ کا لن پر لمس محسوس کرکے کانپتا ہوا کراہ گیا باجی میرا لن ہونٹوں میں دبا کر چوپے مارتی چوسنے لگی جس سے میں سسک کر کراہنے لگا میری آنکھیں بند ہوچکی تھی اور میں مزے سے کانپ رہا تھا کہ اسی لمحے ثانیہ کی آہ مجھے سنائی دی میں نے آنکھ کھول کر دیکھا تو ثانیہ میرے لن پر جھکی گانڈ ہوا میں اٹھا رکھی تھی اور دیمی پیچھے ننگا کھڑا اپنی بہن ثانیہ کی پھدی میں لن ڈال چکا تھا میں یہ دیکھ کر سسک گیا کہ اگلے لمحے دیمی اپنی بہن کے چتڑپکڑ کر دھکے مارتا لن ثانیہ کی پھدی میں گھمانے لگا ثانیہ کراہتی ہوئی سسک کر آہیں بھرتی تیز تیز میرا لن چوس رہی تھی میں سسک کر کراہ کر مچل رہا تھا ثانیہ کے نرم ہونٹوں کی رگڑ میری جان کھینچ لی جس سے میں تڑپ کر کراہ گیا مجھے اپنی جان لن کی طرف آتی محسوس ہوئی جس سے میں تڑپ کر کرلا کر اکڑ سا گیا اور گانڈ اوپر ثانیہ کے منہ میں ماری جس کے ساتھ ہی میرا لن پچکاریاں مارتا ثانیہ کے منہ میں فارغ ہونے لگا جس سے ثانیہ رک کر میری منی منہ میں لے کر ہانپنے لگی اتنے میں دیمی بھی جھٹکے مارتا ہوا کراہ کر ثانیہ کےا ندر فارغ ہونے لگا ثانیہ کا جسم بھی ساتھ جھٹکے مارتا فارغ ہونے لگا ثانیہ بھی کراہتی ہوئی سسکتی ہوئی ہانپنے لگی دیمی اپنی بہن ثانیہ کے اوپر گر کر ثانیہ کے گردن چومنے لگا ثانیہ گھونٹ بھر کر میری ساری منی چوس کر پی گئی اور بولی واہ بہزاد تیری منی تے سوادی اے اور میرے لن کو چاٹتی ہوئی چوسنے لگی میں سسک کر کراہ سا گیا اور ثانیہ پیچھے ہوکر اوپر ہوگئی دیمی پیچھے اتر گیا اور اپنی بہن سے اتر گیا اس کا لن اپنی بہن کی پھدی سے نکل گیا ہم دونوں کے لن مرجھا چکے تھے ثانیہ بولی دیمی اپنے دوست واسطے پانی پئے آ دیمی اٹھا اور شلوار ڈال کر باہر نکل گیا جبکہ میں لیٹا ہوا ہی تھا ثانیہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھا کر مجھے چومتی ہوئی بولی جناب تیری تے بڑی ٹھہو ہی بس ہو گئی میری پھدی نہوں مارنی میں سسک کر ثانیہ کو خود ہی چومنے لگا ثانیہ بولی واہ توں تے جلدی ول سکھ جاسیں اور آگے ہوکر میری جھولی میں بیٹھتی ہوئی میری طرف منہ کر کے مجھے اپنے سینے سے لگا کر اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد دبا کر مجھے دبوچ کر اپنے ممے میرے سینے پر دبا دئیے میں ثانیہ کے ممے دبا کر چوسنے لگا جس سے میں سسک گیا ثانیہ کہ پھدی کی گرمی محسوس کرکے میرا لن تن گیا تھا ثانیہ میرے لن پر اپنی پھدی پر مسلتی ہوئی سسکنے لگی اتنے میں دیمی اندر داخل ہوا اس کے ہاتھ میں بوتل اور گلاس تھے وہ قریب آیا اور گلاس میں بولا ڈل کر ہم دونوں کو دی ثانیہ میری جھولی میں بیٹھ کر بوتل پینے لگی اور میں بھی پینے لگا وہ دال بھی لایا جو ہم بیٹھ کر کھانے لگے اور بوتل کو انجوائے کیا اور پھر کچھ دیر بعد ہم کھا پی کر فری ہوگئی تو وہ برتن کے کر چلا گیا باجی ثانیہ مجھے چومتی ہوئی پیچھے مجھے لٹا دیا میں پیچھے لیٹ گیا باجی ثانیہ میرے اوپر چڑھ گئی اور مجھے چومتی ہوئی گھوم کر مجھے اپنے اوپر کر کے مجھے چوم کر سسکنے لگی میرا لن فل تن کر کھڑا تھا میں اوپر ہوا اور ثانیہ کی ٹانگوں میں بیٹھ گیا ثانیہ نے خود ہی اپنی ٹانگیں اٹھا لیں جس سے ثانیہ کی کھلے ہونٹوں والی پھدی کھل کر میرے سامنے آ گئی ثانیہ کی پھدی کے کھلے براؤن ہونٹ تھوڑے موٹے تھے ثانیہ نے ہانپتے ہوئے اپنی پھدی کو ہاتھوں سے مسل کر میرے سامنے کھول دیا ثانیہ کی براؤن کل کی پھدی کے ہونٹ کھل گئے اور میرے سامنے آگے میں نے آگے ہوکر لن ثانیہ کی پھدی پر ٹچ کیا اور ہلکا سا دھکا مار کر اوپر جھک گیا جس سے میرا آدھا لن ثانیہ کی پھدی میں اتر گیا میں نے اوپر جھک کر گھسا مارا اور سارا لن ثانیہ کی پھدی کے پار کردیا جس سے ثانیہ سسک گئی اور ثانیہ کی گرم پھدی نے میرا لن دبوچ لیا میں سسک کر کراہ کر رک گیا ثانیہ سسک کر بولی اففف بہزاد رک نہیں دھکے مار کے پھدی اچ لن گھما یہ کہ کر ثانیہ نے اپنی ٹانگیں میرے کاندھوں پر رکھ دیں میں نے آگے جھک کر ثانیہ کی ٹانگوں کے سہارے ہو کر اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر دھکے مارتا لن کھینچ کھینچ کر ثانیہ کی پھدی میں گھماتا تیزی سے ثانیہ کی پھدی مارنے لگا جس سے میرا لن تیزی سے ثانیہ کی گرم پھدی کے اندر باہر ہونے لگا ثانیہ کی نرم پھدی میرے لن کو مسلنے لگی جس سے میں تڑپ کر کراہ کر مچلنے لگا میں تیزی سے گانڈ اٹھا اٹھا کر لن تیزی سے ثانیہ کی پھدی میں۔مارتس ثانیہ کو چود رہا تھا ثانیہ بھی سسکتی ہوئی کراہیں بھرتی ہانپنے لگی اور میری گانڈ پر ہاتھ رکھ کر دبا تی ہوئی بولی اففف بہزاد ہور تیز اففف بہزاد سسسسسس افففف آہ آہ آہ آہ آہ ہور تہزز میں کس کس کر دھکے مارتا ہوا دو منٹ تک لن کھینچ کھینچ کر مقرر انڈھال ہونے لگا ثانیہ کی پھدی کی گرمی اور نرم ہونٹوں نے میرے لن کو مسل کر میری جان کھینچ لی ثانیہ بھی کراہ کر سسکتی ہوئی کانپتی ہوئی جھٹکے مارتی ہوئی فارغ ہونے لگی ساتھ ہی میں بھی کراہ کر تڑپ کر ایک لمبی دھار ثانیہ کی پھدی میں مار کر فارغ ہونے لگا جس سے ثانیہ بھی کانپتی ہوئی کراہتی مجھے اپنے اوپر کھینچ کر میرے ہونٹ چوسنے لگی میں پن جڑ تک ثانیہ کی پھدی میں اتار کر ثانیہ کے اوپر گر کر ثانیہ کو چومتا ہوا ہانپنے لگا اتنے میں دیمی اندر آیا اور مجھے اپنی بہن کے اوپر گرا فارغ ہوتا دیکھنے لگا ثانیہ کی پھدی نے میرا لن نچوڑ لیا اور میں ہانپتا ہوا ثانیہ کو چوم رہا تھا جس سے میں سسک گیا ثانیہ ہانپتی ہوئی مجھے چوم رہی تھی دیمی پاس آیا تو ثانیہ بولی دیمی تیرے بیلی دا لن تے بڑا سواد دیندا اس نوں روز لیاندا کر میں سسک گیا دیمی بولا باجی اے تے روز اسی گیا ہنڑ کیوں بہزاد میں ثانیہ کے مموں پر سر رکھ کر پڑا تھا میں نے ہاں میں سر ہلایا ثانیہ میرے سر کو اٹھا کر پکڑ کر چومنے لگی میں بھی ثانیہ کا ساتھ دیتا اسے چومنے لگا میرا لن جڑ تک ثانیہ کی پھدی میں اترا تھا جس سے ثانیہ کی پھدی کی گرمی سے میرا لن تن کر کھڑا ہو رہا تھا پانچ چھ منٹ میں میرا لن پھر تیا ر تھا ثانیہ بولی بہزاد ہک واری ہور پھدی مار میری میں اوپر ہوا ثانیہ کی ٹانگیں دبا کر لن کھینچ کر کس کر دھکے مارتا ہوا لن ثانیہ کی پھدی مارنے لگا جس سے ثانیہ سسک کر کراہنے لگی میں پن کھینچ کھینچ کر ثانیہ کو چود رہا تھا دو تین منٹ میں میں ثانیہ کو چودتا ہوا کراہنے پگا اور میں اور ثانیہ اکھٹے فارغ ہو گئے ثانیہ کرہا کر مچل رہی تھی میں تھک کر نڈھال ہوگیا اور ہانپنے لگا ثانیہ تو ابھی تک ٹائیٹ تھی پر میں تھک گیا تھا ثانیہ بولی بہزاد توں تے تھک گیا ایں اپنی ماں نوں آکھ تینوں کجھ کھوایا کرے توں تے کم بندہ ہیں میں سسک کر ہانپ کر کچھ دیر اوپر پڑا رہا اور اوپر اٹھ کر لن ثانیہ کی پھدی سے نکال لیا ثانیہ کی پھدی پچ پچ کرتی کھلتی بند ہو رہی تھی اتنے میں دیمی اندر آیا اور بولا باجی اسامے دا بندہ آیا اے آکھ رہیا اسامے گھلیا ثانیہ بولی اسامے دا نوکر ہے وہ بولا ہاں ثانیہ بولی اسامے دا آگے فون آیا کہ اس نوں راضی کرنا اے اس نوں اندر لئے آ یا مجھ سے بولی بہزاد توں جا کل وت آویں میں بولا اچھا اور کپڑے ڈال کر باہر نکلا باجی ننگی ہی لیٹی تھی تو سامنے ایک کالا سا آدمی اندر آ رہا تھا جو پہلی بار دیکھا تھا اس کا قد درمیانہ اور تھوڑا موٹا سا تھا بڑی بڑی مونچھیں تھیں میں سمجھ گیا کہ یہ ثانیہ کو چودنے ہی آیا ہوگا میں یہ سوچتا باہر نکلا اور گھر کی طرف چل دیا میں گھر پہنچا اور کھانا کھایا میں تھک چکا تھا اس لیے جلد ہی سو گیا صبح اٹھا تو باجی عابدہ تیار ہو رہی تھی باجی نصرت آج سکول نہیں جانے لگی تھی وہ اندر ہی لیٹی تھی اس کی طبیعت ابھی تک خراب هی تھی میں سکول چلا گیا سکول کی ڈیلی روٹین کے بعد گھر آیا تو باجی نصرت سامنے لیٹی تھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی باجی نصرت کا چہرہ اترا ہوا تھا امی نظر نہیں آ رہی تھی سعدیہ سے امی کا پوچھا تو وہ بولی کسی کام گئی ہے میں نے کھانا کھایا کچھ دیر آرام کیا اور سوچا اسامے کی طرف جاؤں میں وہاں گیا تو بیٹھک بند تھی اتنے میں اس کی گاڑی گھر کے سامنے رکی جس سے امی اتری امی چادر میں تھی امی نے پچھلی ڈگی سے سامان کے کافی شاپر نکالے اور اندر چلی گئی اسامہ اپنے گھر کو چلا گیا میں بھی گھر گیا تو سامنے امی بیٹھی تھی امی نے اپنی چادر اتار رکھی تھی امی کے کسے لباس میں موٹے ممے تن کر کھڑے نظر آ رہے تھے میں نے ایک بار نظر امی کے موٹے مموں پر ڈالی اور ہونٹوں پر زبان بھری میرے زہن میں ثانیہ کے ننگے ممے دوڑ گئے میں نے گھونٹ بھر کر اوپر امی کو دیکھا تو امی مجھے ہی دیکھ کر مسکرا رہی تھی میں یہ دیکھ کر شرما گیا امی نے مجھے اپنا جسم تاڑتے دیکھ لیا تھا جس سے میں شرما گیا میں شرم سے اندر کی طرف کھسکنے لگا تو امی نے مجھے پکارا بہزاد میں گھبرا کر رک سا گیا کہ امی پتا نہیں کیا کہے میں نے امی کی طرف دیکھا تو امی نے اپنی گت اٹھا کر آگے مموں پر رکھتے ہوئے مدہوش نظروں سے مجھے دیکھا امی کے موٹے ممے تن کر کھڑے تھے امی کا جسم تھوڑا سا بھرا ہوا تھا جو قمیض میں صاف نظر آ رہا تھا امی نے مجھے دیکھ کر اپنی گت اپنے مموں پر سیٹ کی اور بولی بہزاد اوراں ق میں تھوڑا سا گھبرا سا گیا اور چلتا ہوا امی کے پاس پہنچا امی میری آنکھوں میں شہوت دیکھ چکی تھی امی مسکرا کر بولی نصرت تیرا بھرا وڈا ہو گیا اے نصرت دبی سی آواز میں بولی امی تینوں آج پتا لگا نصرت کی آواز سے لگ رہا تھا کہ اس کی طبیعت خراب ہے کل اسامے نے پھدی کو پھاڑ کر رکھ دیا تھا امی بولی پتا تے اگے وی ہے پر آج کجھ ڈھیر ہی وڈا لگ رہیا باجی نصرت مسکرا دی اور بولی چنگا ہی وڈا ہوگیا ہے تے میں کچھ نا سمجھا امی ایک شاپر اٹھا کر بولی اے تیرے واسطے نویں کپڑے تے جوتی لئے آندی ہے میں یہ سن کر خوشی سے اچھل گیا کافی عرصہ ہوگیا تھا نئے کپڑے نہیں ملے تھے کیونکہ اتنی آمدن ہی نہیں تھی میں شاپر پکڑا اور اندر کی طرف چل دیا جس میں دو تین سوٹ تھے سلے سلائے اور ایک نئی چپل نئی سینڈل اور بہت کچھ تھا میں سمجھ گیا تھا کہ اب موجیں ہی موجیں جو کچھ سوچا بھی نہیں تھا وہ مل رہا تھا یہ سب باجی نصرت کی چدائی کی کمائی سے آیا تھا ویسے تو ہماری اوقات نہیں تھی میں نے نئی فینسی چپل ڈالی جو بہت اچھی تھی میں باہر دکھانے چلا آیا اپنے دوستوں خاص کر دیمی کو بھی دکھائی دینی بڑا خوش ہوا اور بولا واہ جانی موجاں لگ گئیاں دیمی بولا سنا باجی نصرت دی میں بولا اس دی طبیعت نہیں ٹھیک وہ بولا اچھا میں بولا ثانیہ کول چلئیے وہ بولا نہیں یار باجی ثانیہ کل رات دی گئی ہنڑ آئی اے میں بولا کدے گئی وہ ہنس دیا اور بولا اسے بندے نال گئی جہڑا کل شامی آیا ہا اس نال گئی تے ہنڑ آئی اے ہنڑ او تھک گئی تے ستی پئی اے شامی ملساں گئے میں بولا اچھا اور کچھ دیر بعد میں گھر آیا تو سامنے صحن میں ہی باجی نصرت کے پاس اسامہ لیٹا تھا اور باجی نصرت اور وہ دونوں ایک دوسرے کو باہوں میں بھر کر لیتے چوم رہے تھے باجی نصرت اور اسامہ دونوں کا قمیض اترا تھا جس سے باجی نصرت کے موٹے ممے اسامے کے سینے میں دبے ہوئے تھے باجی اسامے کے ہونٹ دبا کر چوس رہی تھی میں یہ دیکھ کر مچل سا گیا وہ باجی نصرت کا حال چال پوچھنے آیا دونوں ایک دوسرے کی باہوں میں پڑے ایک دوسرے کو دبوچ کر چومنے رہے باجی نصرت اب کچھ سنبھل چکی تھی اس نے باجی نصرت سے کچھ سرگوشی کی تو باجی نصرت آٹھ کر بیٹھ گئی اسامہ سیدھا لیٹ گیا باجی نصرت نے اسامے کا نالا کھولا اور لن باہر کھینچ لیا جس سے اسامے کا موٹا کہنی جتنا لمبا باجی نصرت کے ہاتھوں میں آگیا جس سے اسامہ باجی نصرت کے ہاتھوں کا لمس لن پر محسوس کرکے سسک کر کراہ گیا باجی نصرت نے دونوں ہاتھوں میں لن بھرا اور مسلتی ہوئی اسامے کی ٹانگوں کی طرف آگئی اور نیچے ہوکر اسامے کے لن کا ٹوپہ چوم لیا اسامہ سسک کر بولا اففففف نصررتتت تیرے ہونٹ تے میرے لن دی جان کڈھ لیندے تیرے منہ اچ وی بڑا سواد آندا نصرت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور منہ کھول کر نیچے ہوکر اسامے کے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے اسامہ کانپ کر کراہ گیا باجی نے لن چھوڑ کر مسلا اور لن کی موری پر ہونٹ رکھ کر چومتی ہوئی چوستی ہوئی زبان نکال کر اسامے کے لن کی موری میں گھمانے لگی جس سے اسامہ تڑپ کر کراہنے لگا اور بولا اففف نصرت تیری زبان تے جان کڈھ رہی اففف میں مر جاواں باجی نصرت نیچے ہوئی اور اسامے کے لن کو ہونٹوں میں بھر کر دبا کر لن کے اوپر منہ اوپر نیچے کرتی اسامے کے لن کے کس کر چوپے مارنے لگی جس سے باجی نصرت کے نرم ہونٹوں نے اسامے کے کھردرے موٹے لن کی چمڑی مسلتے ہوئے اسامے کی کراہیں نکلنے لگا باجی نصرت رکے بغیر کہنی جتنا آدھا اندر منہ میں کے جا کر چوستی ہوئی چوپے مارتی چوس رہی تھی جس سے اسامہ مزے سے کراہتا ہوا کانپنے لگا باجی نصرت دو منٹ تک لگاتار کس کر چوپے مارتی اسامے کا لن چوس رہی تھی جس سے اسامہ تڑپ کر کراہ گیا اور کرلا کر ایک زوردار کراہ بھر کر باجی نصرت کے منہ میں منی کی پچکاری مار کر فارغ ہونے لگا اسی لمحے دروازہ کھلا اور سامنے والی آنٹی اندر آگئی سامنے باجی نصرت کو اسامے کے لن کو منہ میں کے کر دبا کر چوستا دیکھ کر مچل گئی اسامے کا لن اس کی آنکھوں کے سامنے جھٹکے مارتا باجی نصرت کے منہ میں فارغ ہورہا تھا جس سے باجی نصرت آنکھیں بند کیے ہانپتی ہوئی مزے سے گھونٹ بھر کر اسامے کی ساری منی نچوڑ کر پی رہی تھی آنٹی اسامے کے لن اور ٹٹوں کو جھٹکے مار کر باجی نصرت کے منہ میں فارغ ہوتا دیکھ رہی تھی باجی نصرت نے ایک منٹ میں اسامے کو نچوڑ کر چوس لیا تھا اور ساری منی پی گئی باجی نصرت نے لن چوستے ہوئے اچھی طرح نچوڑ کر چھوڑ دیا جس سے اسامے کی سسکیاں نکل گئی اسامے کا لن ابھی تک تن کر کھڑا لگ رہا تھا باجی نصرت اوپر ہوئی اور اسامے کے لن پر اپنے ہونٹ پھیرتی ہوئی اسے ہوشیاری دلانے لگی کیونکہ لن ہلکا سا نڈھال ہونے لگا تھا باجی نصرت اپنی ہونٹوں اور زبان سے لن کو چاٹتی ہوئی مسل کر کھڑا کر رہی تھی اور منہ نیچے کرکے اسامے کے ٹوٹنے چوم کر زبان سے چاٹنے لگی آنٹی چلتی ہوئی آگے امی کے پاس چلی گئی جو تھوڑا دور بیٹھی کچھ کام کر رہی تھی آنٹی اس کے پاس پڑی پیڑھی پر اسامے اور نصرت کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئی اور امی سے کوئی بات کی جس پر امی نے مسکرا کر اسامے اور نصرت کو دیکھا اور پھر دونوں باتوں میں مصروف ہو گئیں باجی نصرت اور اسامہ کسی کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام میں مگن تھے نصرت اسامے ٹٹے منہ میں بھر کر دبا کر چوس رہی تھی باجی نصرت نے ٹٹے کس کر دبا کر چوسے اور چھوڑ کر اوپر آکر لن کو مسلا اور اپنے موٹے ممے کے نپل پر اسامے کے لن کی نوک لگا کر دبا کر مسلنے لگی میں باجی کو اپنے نپل پر اسامے کا لن مسلتا دیکھ کر مچل سا گیا تھا جس سے میں سسک کر کراہ گیا اسامہ بھی باجی نصرت کے نپلز پر لن محسوس کرکے کراہ گیا نصرت باری باری دونوں مموں پر لن مسلتی ہوئی ملنے لگی اور پھر لن کو اپنے ممے کے درمیان رکھ کر دونوں مموں کے درمیان دبا لیا اسامے کا لن اتنا لمبا تھا کہ اوپر سے نصرت کے گلے تک جا رہا تھا نصرت نے ایک بڑی سی تھوک اپنے مموں کے درمیان اسامے کے لن پر پھینکی اور سسک کر لن کو مموں کے درمیان رگڑتی ہوئی مسلنے لگی جس سے اسامہ بھی کراہنے لگا باجی نصرت نے منہ نیچے کیا اور اسامے کے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوستی ہوئی اپنے مموں کے درمیان لن کو مسلنے لگی اسامہ باجی نصرت کے منہ اور مموں کے درمیان اپنے لن کو محسوس کرکے مزے سے کراہ گیا دور بیٹھی آنٹی اور امی نصرت کو تیزی سے اسامے کا پن چوس کر ممے میں رگڑتی دیکھ رہی تھی دو تین منٹ کے بعد اسامہ کراہتا ہوا باجی نصرت کے منہ کے قندر فارغ ہوگیا باجی نصرت اسامے کی منی چوس کر ساری پی گئی اسامہ کراہتا ہوا ہانپنے لگا اس کی گرمی نصرت نے نچوڑ لی تھی وہ بی تھک گیا تھا باجی نصرت نے لن کی منی اچھی طرح نچوڑ کر لن چھوڑ دیا اور اسامے کے پاس جا کر لیٹ گئی اسامے کا لن مرجھا رہا تھا جو میری بہن ہے تھوک سے بھرا تھا اسامہ بولا آف نصرتتت تیری تے پھدی نالوں منہ ڈھیر سواد دیندا نصرت ہنس دی اور بولی میری جان سارا سواد تیرے کانڑ ہی ہے یہ سن کر اسامہ بولا نصرت اصل سواد تے توں آنا جدو توں میرا لن گلی اچ سب دے سامنے آ پنی پھدی اچ لینڑا نصرت ہنس دی اور آسانی کی گال چوم کر بولی او وقت وی اجاسی فی الحال انجوائے کر میری جان اسامہ باجی کے ہونٹوں کو چوم کر بولا نصرت میں تے کدی خواب اب وی نا سوچیا کے تیری جئی چھویر دی پھدی لبھسی گئی نصرت ہنس دی اور بولی وے اساں کدے جاناں تیرا ہی ہونا ہا وہ بولا وت اتنا انتظار کیوں کروایا ہئی نصرت ہنس دی اور بولی انتظار نہیں بس ایویں ہی میرا دل ہا امی ساری زندگی تیرے پیو دی غلام رہی میرا دل ہا کہ میں اے کم نہیں کرنا پر آخر تے میں اپنی آگ برداشت نہیں کر پائی اس واسطے تیری ہو گئی اسامہ ہنس کر بولا میری جان ہنڑ توں میری ہی رہسیں مینوں چھوڑیں تے نہیں نصرت ہنس دی اور بولی وے تیرے لن جہڑی کل میری آگ بجھائی اے نا میں تے تیری دیوانی ہو گئی آں ہنڑ تینوں چھڈ کے آپ مرنا میں تینوں چھڈ دتا تے میری آگ کون بجھاسی اسامہ ہنس دیا اور بولا میری جان اسی ہاں نہیں آگ بجھاونڑ آلے تیرے عاشق نصرت ہنس دی اسامے نے اپنے قمیض کی جیب سے ایک ڈبیہ نکالی اور اس میں سے ایک سونے کی انگوٹھی نکال کر نصرت کی انگلی میں پہنا کر بولا نصرت اے تیرے میرے پیار دی نشانی نصرت ہنس کر اسے چومنے لگی اسامہ بولا نصرت میں آج تک جو وی مشوق بنائی اس نوں کسے دا ہونٹ نہیں دتا پر توں واحد مشوق ہیں جس نوں میں اجازت دے رہیا آں کہ توں جو مرضی دل وچ آوے کر پنڈ دے جس مرد تے وی تیرا دل آجاوے بیشک اس کولو چدوا کئیں میں کجھ نہیں آکھدا نصرت بولی وے میں ہنڑ تیری ہی رکھیل آں تے تیری ہی رکھیل بن کے رہساں توں ہی مینوں چدسیں گیا اسامہ ہنس دیا اور بولا میری جان تیری جئی گرم چھویر ہک لن توں نہیں رجدی میں تے کدی کدائیں ہونا کدی کدائیں پچھو توں کی کرسیں اس واسطے تینوں اجازت دے رہیا کہ جس ویلے دل کرے پھدی مروا کئیں جس کولو مرضی نصرت ہنس کر اسے چومنے لگی پھر وہ اٹھا اور کپڑے ڈال کر جانے لگا نصرت ایسے ہی سیدھی لیٹ گئی آٹنی آٹھ کر نصرت کے پاس آئی اور بولی واہ نصرت کیا قسمت ہے تیری اسامہ آج تک کسے دے دروازے تے نہیں گیا جو وی گئی اس کول گئی توں واحد چھویر ہیں جو اسامے نوں اشوریوں تے نچا رہی اسامہ توڑ تیرے بوہے تے ا کے تینوں یہندا نصرت ہنس دی آنٹی نے نصرت کا ماتھا چوم کیا اور بولی بڑی قسمت آلی ہیں نصرت نے قمیض ڈال کیا میں باہر نکل گیا شام کو کھانا کھا کر جلدی ہی سو گیا صبح میں جاگا سکول جانے کی تیاری کی باجی نصرت بھی بالکل ہشاش بشاش اور سکول جانے کو تیار کھڑی تھی پہلے اکثر باجی نصرت برکے میں سکول جاتی تھی آج باجی نصرت ایک نئے کسے ہوئے سوٹ میں تیار کھڑی تھی سکول جانے کےلیے یہ کپڑے شاید کل امی لائی تھی کیونکہ یہ کافی تنگ اور چھوٹے کپڑے تھے باجی نصرت جو پہن رکھے تھے جس سے باجی نصرت کا انگ انگ نظر آ رہا تھا باجی نصرت کے تن کر کھڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے باجی نصرت کا کھلا گلہ باجی نصرت کا گورا سینہ واضع کر رہا تھا باجی کے مموں کی لکیر اور مموں کے اوپر والا حصہ واضح نظر آ رہا تھا باجی کا قمیض صرف رانوں تک تھا جس سے باجی نصرت کے اونچے چاک سے باجی نصرت کی گوری کمر صاف نظر آ رہی تھی باجی نصرت کی ٹراؤزر کافی تنگ تھی جس نے باجی کے موٹے چوتڑ باہر کو واضح کر رکھے تھے جو باجی نصرت کے چلنے سے ہلتے ہوئے اتھل پتھل کرتے مٹک رہے تھے باجی نصرت کی تنگ ٹراؤزر سے باجی کی گانڈ کی لکیر واضح نظر آنے لگی تھی باجی نصرت نے گت کرکے آگے مموں پر ڈال رکھی تھی باجی کی شرٹ کا سینہ اتنا کھلا تھا کہ باجی نصرت کے مموں کا اوپر والا حصہ صاف نظر آ رہا تھا شرٹ اتنی تنگ اور گھٹی ہوئی تھی کہ باجی نصرت کے جسم سے چپک کر سب واضح کر رہی تھی امی نے باجی نصرت کو دیکھا تو باجی نصرت کی شلوار تھوڑی اور نیچے کردی جس سے باجی نصرت جس جگہ تک شلوار ڈالتی تھی اس وجہ سے بنا ہوا شلوار کے ناڑے کا نشان نظر آنے لگا جس سے باجی نصرت سیکسی نظر آنے لگی تھی باجی کے ہاتھ میں نیا ٹچ والا فون تھا باجی نصرت نے ہلکا سا میک اپ بھی کر رکھا تھا امی بولی نصرت آج سوہنی لگ رہی ہیں نصرت مسکرا دی اور ہم بہن بھائی کھانا کھانے لگے باجی نصرت اور میں کھانا کھا کر نکلنے لگے سعدیہ پہلے ہی سکول جا چکی تھی باجی نصرت نے نکلتے ہوئے دوپٹہ بھی نہیں کیا بلکہ چادر تہہ کر کے ہاتھ میں پکڑ لی باجی نصرت گانڈ مٹکتی ہوئی باہر نکلی تو سامنے کے کچھ اوباش لڑکے کھڑے تھے باجی نصرت نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور مدہوشی سے ان کو دیکھ کر اپنی گت اٹھا کر آگے مموں پر رکھ دی باجی نصرت کی شرٹ کے کندھے بالکل نا ہونے کے برابر تھے جس سے باجی نصرت کی برا کی پٹیاں صاف نظر آنے لگی تھی باجی نصرت کے اٹھے ممے باجی نصرت کے چلنے سے ہل رہے تھے جس کو دیکھ کر سب دیکھنے والے ہکا بکا نصرت کو دیکھ رہے تھے جس سے نصرت نے مدہوش آنکھوں سے ان لڑکوں کو دیکھا اور اپنی گانڈ مٹکا کر چلتی ہوئی اپنے جلوے لوگوں کو دکھاتی سکول کی طرف چل دی اتنے میں ہم اسامے کی بیٹھ پر پہنچے تو دروازہ کھلا تھا نصرت دروازے پر پہنچ کر اسامے کو گلی میں کھڑے ہوکر سب کے سامنے آواز دی میری جان جاگے ہو اسامہ سن کر باہر نکلا تو نصرت تھی جسے دیکھ کر وہ چونک گیا اور بولا واہ نصرت سوہنی لگ رہی ایں آج تے نصرت ہنس دی اور بولی تیرے واسطے تے کپڑے لاہ کے فل ننگی وی بازار آ سگدی آں وہ ہنس دیا اور بولا پہلے گلی اچ میرے کولو پھدی تے مروا نصرت ہنس کر بولی ہلا سکولوں واپس آکے گل کردیںاں باجی ایسی ہی نیم ننگی حالت میں سکول کی طرف چل دی سب گاؤں والے نصرت کو کو ننگا دیکھ کر انجوائے کر رہے تھے سکول پہنچ کر نصرت نے اوپر چادر لے لی اور سکول میں چادر میں ہی رہی سکول سے نکلے تو باجی نے پھر چادر اتار دی اور اسی حالت میں گھر آئی کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرنے لگے باجی لیٹی تھی اندر میں باہر تھا کہ امی کی آواز آئی بہزاد آجا نصرت کانڑ چاہ لئے جا میں نصرت اور سعدیہ کےلیے چائے لے کر اندر گیا تو باجی ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اور اسامے سے ویڈیو کال پر بات کر رہی تھی اسامہ بولا نصرت ہنڑ کی خیال اے نصرت بولی کس گل دی میں نے سعدو کو اور باجی نصرت کو چائے دی سامہ بولا نصرت من جا گلی اچ ہک واری مینوں مل لئے نصرت ہنس دی اور بولی مینوں تے کوئی اعتراض نہیں پر توں دس کتنے پیسے دیسیں اسامہ ہنس دیا اور بولا میری جان بس اتنی گل توں دس کتنے دیواں نصرت بولی جتنے تیری مرضی توں آپ ویکھ لئے اسامہ بولا 2 لکھ دیساں آگے توں دس کتنے لینے باجی ہنس دی اور بولی وے مذاق کر رہی آں وہ بولا نا کر نصرت نصرت ہنس دی اور بولی آگے اپنی قیمت لئے کئی ہے ہنڑ بس جتنے دے دیویں کوئی مسئلہ نہیں وہ ہنس دیا اور بولا ہلا کے میرے تے گل آگئی اے توں مینوں خوش کر میں تینوں کرسا گیا نصرت ہنس دی اسامہ بولا کس ٹائم آواں نصرت بولی میرے آلو ہنڑ آجا اسامہ ہنس دیا اور بولا بس میں مڑ آیا اور کال کاٹ دی باجی چائے پینے لگی میں باہر نکل آیا کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکا تو اندر سے باجی نصرت فل ننگی نکلی امی دیکھ کر بولی نصرت خیر اے آج ساری ہی ننگی ہوئی صدی ہیں نصرت ہنس دی اور بولی امی میرا عاشق آکھدا اے باہر گلی اچ چدوا میرے تو امی مسکرا کر بولی پیسے کتنے دیسی نصرت بولی میں اسدی مرضی تے گل رکھی اس پنج لکھ بھیج دتا اے اکاؤنٹ اچ امی یہ سن کر مسکرا دی امی کی باچھیں کھل سی گئیں اور اٹھ کر نصرت کا ماتھا چوم کر بولی جا میری دھی اسامے کول نصرت کے ننگے ممے تن کر کھڑے نظر آ رہے تھے باجی نصرت کے گلابی نپلز قیامت لگ رہے تھے نصرت کی پھدی کی لکیر نظر آرہی تھی باجی ننگی گانڈ مٹکاتی ہوئی باہر دروازے پر گئی اور دروازہ کھول کر باہر گلی میں چلی گئی اسامہ نصرت کو ننگا دیکھ کر مچل گیا اور نصرت کو اپنی طرف کھینچ لیا نصرت ننگی بازار میں کھڑی تھی گزرتے ہوئے لوگ نصرت کو ننگا دیکھ کر مچل رہے تھے نصرت نے آگے ہوکر اسامے کی شرٹ اتار دی اور نصرت اسامے کے سینے سے لگ کر نصرت کو چومنے لگی نصرت گلی میں سب کے سامنے ننگی ہوکر اسامے کے سینے سے لگ کر اسامے کو چوم رہی تھی اسامہ نصرت کے ممے دبا کر مسکرا ہوا چوسنے لگا نصرت نے نیچے ہاتھ اسامے کی شلوار ہے ناڑے پر ڈال کر نالا کھول کر گلی میں ہی لن اسامے جا کہنی جتنا لن نکال کر مسلنے لگی اسامہ سسک کر نصرت کو چومتا ہوا نصرت کے ممے دبا رہا تھا گلی میں گزرتے لوگ نصرت کے ہاتھ میں اسامے کا لن دیکھ رہے تھے نصرت اسامے کو چومتی ہوئی نیچے بیٹھ گئی اور گلی میں سب لوگوں کے سامنے اسامے کے لن کو مسل کر دبا کر منہ کھولا اور لوگوں کے سامنے منہ کھول کر اسامے کے لن کو ہونٹوں میں دبا کر چوس لیا جس سے اسامہ کراہ گیا نصرت نے لن کو ہونٹوں کی گرفت میں بھر کر ہونٹوں میں کس کر چوپے مارتی گلی میں سب کے سامنے اسامے کا لن چوسنے لگی اسامہ نصرت کے چوپوں سے مزے سے نڈھال ہوکر کراہنے لگا نصرت کی بھی آہیں نکل کر گونجنے لگیں نصرت کس کس کر چوپے مارتی اسامے کا لن چوس رہی تھی اسمے نے کراہ کر نصرت کا سر پکڑ لیا اور لن کھینچ کر گھسے مارتا خود ہی نصرت کے منہ میں لن گھماتا نصرت کا منہ چودنے لگا جس سے نصرت کی کراہیں نکل کر گونجنے لگیں اسامہ گلی میں سب کے سامنے نصرت کا سر پکڑ کر کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا لن نصرت کے گلے تک اتار کر نصرت کا منہ چودنے لگا نصرت کا منہ چودتے اسامے کو گلی کے سب لوگ دیکھ رہے تھے نصرت کے گلے میں لن اترنے سے نصرت کراہ کر کرلانے لگی جس سے نصرت کی کراہیں گلی میں گونجنے لگیں نصرت بکا کر تڑپتی ہوئی کراہنے لگی نصرت کا سر کانپنے لگا ور منہ لال سرخ ہوکر کانپنے لگا نصرت کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسامہ بھی مزے سے کراہ کر تڑپ گیا اور لن کھینچ کر نصرت کے گلے میں اتار کر کرلا گیا اور کھٹکا مار کر گلی میں سب لوگوں کے سامنے منی کی لمبی دھار نصرت کے گلے میں مار کر فارغ ہونے لگا نصرت نے ہونٹ دبا کر لن کو دبوچ لیا اور گھونٹ بھر کے سب کے سامنے منی پینے لگی منی پیتے ہوئے نصرت کی کراہیں نکل کر گونجنے لگیں نصرت ہانپتی ہوئی کانپنتے سر کے ساتھ کراہتی سب لوگوں کے سامنے گھونٹ بھر کر اسامے کی منی نچوڑ کر پی رہی تھی اسامے کا جھٹکے مارتا لن نصرت کے منہ میں منی چھوڑ رہا تھا گلی کے گزرتے لوگ اسامے کے ٹٹے کو اچھلتا ہوا منی ۔یری بہن نصرت کے منہ میں پھینکتا دیکھ کر گزر رہے تھے جس سے نصرت کراہتی ہوئی نچوڑ کر پی رہی تھی اسامہ مزے سے کا پ رہا تھا نصرت گلی کے گزرتے لوگوں کے سامنے اسمے کی منہ نچوڑ کر پی کر لن کو مسلتی ہوئی چوپے مار کر سہلانے لگی اسامہ آہیں بھرتا کراہتا ہوا نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت لن مسل کر چوستی ہوئی لن اوپر کیا اور نیچے سے لن کو چاٹ کر اسامے کے ٹٹے چومتی ہوئی چاٹتی ٹٹے منہ میں بھر کر دبوچ کر چوسنے لگی دو تین منٹ میں اسامہ تیار ہوکر کراہ رہا تھا نصرت لن مسلتی ہوئی ہانپ رہی تھی اسامہ نیچے ہوا اور نصرت کے ممے دبا کر چوستا ہوا انصرف کو پیچھے لٹا کر نصرت کے اوپر آگیا نصرت اسامے کو چومتی ہوئی گلی میں ہی لیٹ کر سب کے سامنے اپنی ٹانگیں اٹھا کر ہوا میں کھڑی کر لیں جس سے نصرت کی ہلکے سے کھلے ہونٹوں والی ہلکی براؤن رنگ کی پھدی کھل کر سامنے آگئی جسے گلی کے گزرتے لوگ دیکھ رہے تھے اسامے نے اوپر اکر نصرت کی ٹانگیں دبا کر نصرت کے کاندھوں کے پاس لے جا کر دبا دیں جس سے نصرت کے چڈے فل کھل گئے اور پھدی مزید کھلنے سے نصرت کی پھدی کا گلابی دہانہ سب لوگوں کو نظر آنے لگا اسامہ گلی میں سب لوگوں کے سامنے نصرت کو ننگا کر کے نصرت کی ٹانگیں کاندھوں سے لگا کر نصرت کے اوپر چڑھا تھا اسامے کا کہنی جتنا لن نصرت کی پھدی پر سب کو نظر آرہا تھا نصرت کراہ کر مچل رہی تھی اور اسامے کا لن پکڑ کر اپنی پھدی کے دہانے پر خود ہی ٹچ کیا اسامہ بولا نصرت پورا لنڈ مند دیواں نصرت سسک کر بولی اففف اسامہ رک نہیں منڈ دے یہ کہ کر اسامے نے اپنی گانڈ کھینچ کر پوری شدت سے دھکا مارا اور اپنا کہ ی جتنا لن یک لخت پورا سب لوگوں کے سامنے باجی نصرت کی پھدی میں جڑ تک اتر دیا اسامے کا کہنی جتنا لن نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا پورا جڑ تک نصرت کے ہاں سے جا لگا جس سے نصرت تڑپ کر اچھلی اور بکا کر چیختی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی نصرت کی حالحال سے پوری گلی گونج گئی اور لوگ رک کر باجی نصرت کی پھدی میں جڑ تک اترا اسامے کا لن دیکھنے لگے نصرت تڑپ کر تھر تھر کانپتی ہوئی کراہ کر کرلانے لگی نصرت کی کراہیں گلی میں گونج رہی تھی اسامے نے اگلے لمحے لن کھینچا اور ٹوپے تک نکال کر پوری شدت سے دھکے مارتا ہوا جڑ تک یک لخت اتارتا ہوا تیز تیز دھکے مارتا نصرت کو گلی میں سب کے سامنے پوری شدت سے چودنے لگا اسامے کا کس کر دھکے مارتا لن کھینچ کھینچ کر پوری شدت سے نصرت کی پھدی میں لن پیلنے لگا جس سے لن تیزی سے نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا جڑ تک نصرت کی پھدی کو چیر تک نصرت کے ہاں سے لگنے لگا جس سے نصرت گلہ پھاڑ کر بکاتی ہوئی تڑپنے لگی اسامے کا لن تیزی سے سب گلی سے گزرتے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا تیزی سے اندر باہر ہوتا باجی نصرت کی پھدی کو چیر رہا تھا جس سے نصرت تڑپ کر کراہنے لگی کچھ لوگ کھڑے ہوکر نصرت کو اسامے سے چدتا دیکھنے لگے تھے اسامے کا لن سب کی نظروں کے سامنے نصرت کی پھدی کو چیر کر نصرت کے ہاں میں چبھ رہا تھا جس سے نصرت بکاتی ہوئی اسامے کے سینے پر ہاتھ رکھ کر تڑپتی ہوئی دھاڑنے لگی تھی اسامے کی سپیڈ تیز تر ہوتی جا رہی تھی جس سے نصرت کی دھاڑیں بھی بلند ہو رہی تھیں لوگ اکھٹے ہوکر نصرت کو چودتا دیکھ رہے تھے اسی لمحے اسامہ کراہ کر تڑپتا ہوا لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں ٹھوک کر نصرت کے اوپر گر کر کراہتا ہوا منی کی پچکاریاں مارتا نصرت کے اندر فارغ ہونے لگا جس کے ساتھ نصرت بھی کرلا کر کراہتی ہوئی تڑپتی ہوئی فارغ ہونے لگی اسامے کا لن سب لوگوں کے سامنے جھٹکے مارتا ہوا باجی نصرت کی پھدی میں منی چھوڑ رہا تھا باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ اسامے کے لن کو دبوچ کر نچوڑ رہے تھے سب لوگ اسامے کے کھولتے ٹٹے باجی نصرت کی پھدی میں منی پھینکتا دیکھ رہے تھے اسامہ نصرت کے اوپر گر کر کراہ کر نصرت کو چومتا ہوا بولا اففف نصرتتتت آج تے بہوں سواد آیا تیری پھدی مار کے نصرت کر بولی افففف ااممممااااں میری جان آج تے پھدی مروان دا بہوں سواد آیا قسمیں اسامہ نصرت کو چومنے لگا نصرت اسامے کی کمر کو مسلتی ہوئی سسکنے لگی اسامے کا لن نصرت کی پھڈی میں ابھی تک جڑ تک اترا تھا جسے نصرت کی پھدی دبوچ رہی تھی اسامہ اوپر ہوا اور بولا میری جان ہمت ہے تے ہک واری ہور ہو جاوے نصرت سسک کر بولی میری جان میری کوئی ناہں ہے یہ سن کر اسامہ نصرت کو چوم کر گانڈ کھینچ کر لن ٹوپے تک نکال کر پوری شدت سے دھکے مار کر یک لخت لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں مارتا ہوا پوری شدت سے نصرت کو چودنے لگا جس سے نصرت بے اختیار تڑپتی ہوئی کرلا کر آہیں بھرتی کانپنے لگی اسامہ لن کھینچ کھینچ کر نصرت کی پھڈی کو چیرنے لگا تیزی سے اندر باہر ہوتا اسامے کا لن نصرت کی پھدی کے ہونٹوں کو رگڑتا ہوا سب لوگوں کے سامنے اندر باہر ہوکر نصرت کو بری طرح سے جنجھوڑڑنے لگا جس سے نصرت تڑپ کر گلہ پھاڑ کر دھاڑنے لگی اور تڑپتی ہوئی اسامے کے سینے پر ہتھ رکھ کر کرلانے لگی نصرت کی دھاڑیں اور تیزی سے نصرت کی پھدی میں اندر باہر ہوتا اسامے کا لن دیکھ رہے تھے اسامے کی ہر گزرتے لمحے سے نصرت کی پھدی مارنے کی سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی جس سے لن کی نصرت کی پھدی میں جانے کی پیک پر تھا جس سے اسامے کا لن نصرت کی پھدی کے ہونٹ دبا کر رگڑنے لگا جس سے نصرت کی دھاڑیں بہن تر ہو گئیں اور نصرت تڑپتی ہوئی بکانے لگی نصرت گلہ پھاڑ کر بکاتی ہوئی حال حال کرتی ہوئی چیختی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری پھدی اڑ گیا ہیں اسامہ اوئے ہال ہوئے بس کر میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہال ہوئے اسامہ بس کر میں مر گئی اماں میری پھدی پاٹ گئی اسامہ رکے بغیر ہٹ ہٹ کر دھکے مارتا نصرت کی پھدی کو چیر رہا تھا جس سے نصرت تڑپ کر بکاتی ہوئی حل حال کرتی دھاڑتی ہوئی اسامے کے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے دباتی ہوئی نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی حال حال کرتی بولی ہالیوئے اماں میں مر گئی اسامہہہہ بس کر میں مر دی پئی آؤں گلی میں کھڑے کوگ بکاتی ہوئی تڑپتی ہوئی نصرت کی چیخیں اور حال حال سن رہے تھے اسامے کا لن نصرت کی پھڈی کے ہونٹ رگڑ کر کاٹنے لگا تھا اسمہ بھی نصرت کی پھدی کی گرمی سے نڈھال ہوکر کرلا گیا اور کراہ کر لن کھینچ کر پوری شدت سے جرک مار کر لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں مار کر نصرت کی پھدی کو چیرنے لگا جس سے نصرت بلبلا کر تڑپی اور پوری شدت سے بکا کر چیختی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہال ہوئے اماں میں مر گئی اسامے نے رکے بغیر لن کھینچ کھینچ کر جرکیں مارتا ہوا نصرت کی پھڈی کو پھاڑنے لگا جس سے لن نصرت کی پھڈی کو چیر کر پھاڑتا ہوا نصرت کے ہاں میں چبھنے لگا جس سے نصرت بلبلا کر اچھلی اور دوہری ہوکر تڑپ کر پوری شدت سے ارڑا کر بجائی اور اسامے کا سینہ پیچھے دبا کر چیخ کر حال حال کرتی دھاڑنے لگی نصرت کی مسلسل دھاڑوں بھری حال حال نکلنے لگیں اسامہ رکے بغیر جرک پر جرک مارتا نصرت کی پھدی کو چیر رہا تھا نصرت کی ہمت ٹوٹ گئی اور نصرت بکا کر تڑپتی ہوئی اسامے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی اوئے ہال ہوئے اسامہ واسطہ ہئی چھڈ دے مینوں میرا ہاں چیری دا پیائی اسامہ بھی کراہ گیاس ور لن کھینچ کر جرک مار کر نصرت کی پھڈی میں جڑ تک اتار کر کرلا گیا اور ساتھ ہی نصرت کی پھدی میں منی کی دھار مر کر فارغ ہونے لگا نصرت بھی بکاتی ہوئی کراہتی ہوئی فارغ ہونے لگی اسامے ک لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں اترا جھٹکے مارتا فارغ ہو رہا تھا سب لوگ اسامے کو نصرت کی پھڈی میں فارغ ہوتا دیکھ رہے تھے اسامے کے ٹٹے سب کے سامنے کھول کر باجی نصرت کی پھڈی میں منی پھینک رہے تھے اسامہ کراہتا ہوا نصرت کےا ندر فارغ ہوگیا باجی نصرت کی پھدی نے اسامے کے لن کو دبا کر نچوڑ کیا نصرت کراہ کر تڑپتی ہوئی بولی اففف اماں میں مر گئی اسامہ بولا نصرت ڈھیر درد تے نہیں ہویا نصرت سسک کر بولی کوئی نہیں بس سواد جتنا آیا اس آگے کجھ نہیں نصرت آخر گلی میں سب لوگوں کے سامنے اسامے کے نیچے پڑی اسامے سے چد چکی تھی سب لوگ اب جانے لگی اسامہ پیچھے ہوا اور لن کھینچ کر نکال لیا جس سے پچ کی آواز سے سب کے سامنے لن باجی نصرت کی پھدی سے باہر نکل آیا جس سے نصرت کراہ کر تڑپ سی گئی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھل گیا ور اندر کا گلابی حصہ سب لوگوں کو نظر آنے لگا نصرت کراہ کر تڑپتی ہوئی اپنی ٹانگیں اٹھا کر پیٹ سے لگا کر اپنی پھدی سب کو دکھاتی رہی نصرت کی پھدی پچ پچ کرتی کھلتی بند ہو رہی تھی پھدی کو اسامے کے لن نے کھول کر رکھ دیا تھا جس سے نصرت کی پھڈی پھدی کے اندر کا گلابی حصہ نظر آنے لگا تھا پچ پچ کرنے سے اسامے کی کبھی منی باجی نصرت کی پھدی سے نکل کر بہنے لگی جو سب لوگ دیکھ رہے تھے نصرت ہانپتی ہوئی کچھ دیر زمیں پر لیٹ کر ٹانگیں اٹھائے رکھیں اور لوگوں کو اپنی پھدی دکھاتی رہی اور پھر اپنی کمر پکڑ کر اٹھی اور اندر آکر چارپائی پر لیٹ گئی امی۔ پانی گرم کرے لائی اور باجی نصرت کی پھدی کی ٹکور کی جس سے نصرت سنبھل گئی امی بولی نصرت ہمت ہے کہ نہیں انصرف بولی کیوں امی بولی نصرت آج راتی اسامے دے ابے نوں وی بلایا اے اس نوں آکھیا اے کہ آج آجا او وی آگے تینوں منگدا ہا پر میں ناہں کیتی تے او ناراض اے اس نوں ہنڑ منانا اے نصرت مسکرا کر بولی امی ہنڑ تیری دھی فل ٹرین اے توں اس نوں بے شک سد لئے آج ساری رات اس کولوں یہاں یہاں کے منا لیساں امی ہنس کر نصرت کا ماتھا چوم کیا نصرت اٹھ کر اندر آرام کرنے چلی گئی میں باہر نکل گیا کسی نے کوئی بات نہیں کی مجھے کہ باجی نصرت کیسے باہر گلی میں سب کے سامنے چدوا رہی تھی میں کچھ دیر باہر رہا میرا لن بھی باجی نصرت کی اتنی زبردست چدائی دیکھ کر مچل سا گیا تھا پر باجی ثانیہ آج تھکی ہوئی تھی میں کافی دیر باہر رہا پھر گھر آگیا شام کا کھانا کھا کر میں کچھ دیر باہر رہا واپس آیا تو باجی نصرت اسی لباس میں تھی جس میں وہ باہر گئی تھی وہ اب بالکل فریش لگ رہی تھی باجی نصرت کےا ساتھ سعدیہ اور صدف بھی تیار نظر آ رہی تھی باجی سعدیہ نصرت سے چھوٹی تھی سعدیہ کی جسامت تھوڑی نصرت سے کم تھی صدف سب سے چھوٹی تھی اس کی عمر 17 سال تک تھی اور وہ فرسٹ ائیر میں تھی اس کا جسم بھی پتلا تھا وہ ابھی نئی نئی جوان ہو رہی تھی صدف بھی تیار ہوکر چوٹی بنا کر پھر رہی تھی اس کی چھوٹی چھوٹی ابھری چھاتیاں صاف نظر آرہی تھی اتنی دیر میں دروازہ کھٹکا امی بولی نصرت لگدا چوہدری آگیا نصرت جلدی سے اٹھی اور دروازے پر جا کر دروازہ کھولا آگے سے اسامے کا ابا سامنے کھڑا تھا اس کا نام چوہدری اسلم تھا اس کا قد کاٹھ اچھا خاصہ تھا اور جسم بھی کافی چوڑا تھا اس کی عمر 55 سال تھی لیکن اچھی خوراک کی وجہ سے وہ کافی تگڑا تھا گیٹ پر کھڑے ہوکر اس کا قد گیٹ سے بھی اوپر تک جا رہا تھا سر پر کلف لگی پگڑی نیچے بوسکی کا چولا اور نیچے کلف لگی لٹھے کی لنگی ڈال کے رکھی ہوئی تھی چوہدری اسلم کافی ٹھاٹھ باٹھ میں رہتا تھا اور اس کا کافی رعب بھی تھا نصرت چوہدری کو دیکھ مسکرائی اور بولی آجاؤ جی چوہدری صاحب چوہدری جھکا اور اندر داخل ہوگیا اور رعب دار لہجے میں بولا چھوہرے توں تے بڑی مشہور ہوئی ودی ہیں اور باجی نصرت کو کندھے پر ہاتھ رکھ کر سینے سے لگا لیا اور چلتا ہوا اندر آگیا نصرت ہنس دی اور بولی چوہدری بس تھواڈے شہزادے آکھیا تے اسی تعمیل کیتی چوہدری نصرت سے سے بولا جیوندی رہو خوش کیتا ہئی اور امی سے بولا نازو ویسے آج تک انج کسے نہیں کیتا جیویں تیری دھی سرعام چدوا رہی امی ہنس دی اور بولی بس جی آج دی چھوریں اچ آگ ہی بڑی ہے چھوریں دا اپنا دل ہووے تے بڑا کجھ کردیاں چوہدری بولا میرے نالو تے میرا پتر چنگا رہ گیا جہڑا چنگا پیس لئے گیا مینوں تے توں نصرت دتی ناہ وہ لوگ باتیں کرتے اندر آگئے امی بولی بس چوہدری صاحب غلطی جے ہو گئی ہنڑ تھوانوں اسے توں گھر سدیا ہے کہ اپنا اولاہمہ لاہ لئو وہ بولا ہنڑ کی لاہنا کم دا پیس تے اسامہ لئے گیا اور چارپائی پر بیٹھتے ہوئے نصرت کو جھولی میں کھینچ کر چومنے لگا نصرت چوہدری کی جھولی میں بیٹھ کر چوہدری کو چومنے لگی اور کھینچ کر چوہدری کے ہونٹ چوسنے لگی چوہدری نصرت کے ممے پکڑ کر دبا کر مسلنے لگا نصرت سسک کر کراہتی ہوئی چوہدری کو چوم رہی تھی امی بولی نہیں جی ہک نصرت نا ہے ہور وی دو دھیاں ہینڑ میریاں اس اچو جہڑی پسند کر لئو تھواڈی چوہدری نصرت کے ہونٹوں کو چھوڑ کر بولا ہلا بھلا وکھا تے سہی یہ کہ کر بولی اچھا بلاندی آں اور امی باہر کو آنے لگی میں ہٹ سا گیا امی مجھے دیکھ کر مسکرا اور بولی ویکھ چنگی گل اے اور نکل گئی میں اندر جھانکا تو نصرت چوہدری کو چوم کر بولی چوہدری صاحب سانوں وی تے ٹائم دیو ناں سواد نا دیواں تے آکھنا چوہدری نصرت کے ممے دبا تک بولا نصرت میری جان آج تیرے ہی کڑاکے کڈھ ے ساری رات نا فکر کر اور نصرت کا قمیض کھینچ کر اتار دیا جس سے نصرت سسک کر چوہدری کو چومتی ہوئی چوہدری کی لنگی ہٹا کر اندر ہاتھ ڈالا اور چوہدری کا موٹا لمبا لن کھینچ کر باہر نکال لیا اور مسلتی ہوئی بولی اففف چوہدری صاحب میں صدقے جاواں ایڈا لما لن چوہدری کا پن کافی موٹا اور اسامے کے لن سے بھی زیادہ لمبا تھا جس سے نصرت مسلتی ہوئی سسکنے لگی اور منہ نیچے کرکے چوہدری کے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر چوس لیا جس سے چوہدری سسک گیا اتنے میں امی باجی سعدیہ اور صدف کو کے کر اندر آئی سامنے باجی جھک کر چوہدری کے لن کو چوم رہی تھی چوہدری پیچھے لیٹ سا گیا چوہدری کا موٹا لمبا لن کلے کی طرح ہوا میں تن کر کھڑا تھا جسے نصرت مسل کر لن کا ٹوپہ چوم رہی تھی امی سعدیہ اور صدف کو لے کر اندر داخل ہوئی اور باجی کو لن چوستا دیکھنے لگی امی کو دیکھ کر چوہدری اوپر ہو کر بیٹھ گیا نصرت چوہدری کی جھولی میں ہی تھی امی بولی لئو چوہدری صاحب سے سعدیہ ہے تے اے صدف اے چوہدری نے دونوں کو دیکھا اور صدف کو دیکھ کر بولا اے کے ے سال دی امی بولی چوہدری صاحب 17 سال دی ہوگئی چوہدری بولا اے تے ہلے کچی کلی ہوسی امی بولی جیا صدف ہنڑ ہنڑ جوان ہوئی ہے نوی نوی چوہدری صدف کو آنکھیں بھر کر دیکھنے لگا امی بولی چوہدری صاحب پسند ہے تے صدف پی رکھ لئو چوہدری بولا پسند تے دوویں پینڑ اور سعدیہ کو دیکھ کر بولا اے تے فل جوان اے اے وی کواری اے امی بولی جیا اے وی کواری اے چوہدری بولا چل دوویں ہی میریاں ہویاں ریٹ مکا اور صدف کو بولا اوراں چھورے صدف چلتی ہوئی چوہدری کے پاس گئی ایک پٹ پر نصرت بیٹھی تھی دوسرے پٹ کر اس نے صدف کو بٹھا لیا اور صدف کے ہونٹوں کو چومنے لگا صدف بھی ساتھ دیتی چوہدری کو چومنے لگی نصرت چوہدری کا کلے جتنا لن مسل رہی تھی نصرت صدف کا ہاتھ پکڑ کر چوہدری کے لن پر رکھ کر بولی صدف لن مسل اے آج توں تیرا اے صدف چوہدری کو چومتی ہوئی لن کو مسلنے لگی جس سے چوہدری سسک گیا اور خود آٹھ کر بولی سعدو توں وی اگاں آں سعدیہ بھی دوسرے پٹ پر بیٹھ کر لن پکڑ کر مسلنے لگی چوہدری صدف کے ہونٹوں کو چھوڑ کر سعدو کو چومنے لگا نصرت بولی صدف چوہدری اوراں دا لن چم صدف منہ نیچے کیا اور چوہدری کا پن چومنے لگے اور منہ کھول کر لن کا ٹوپہ چوم کر چوس لیا چوہدری سسک گیا امی بولی چوہدری صاحب اساں کی آکھنا جتنے تسی دیو چا چوہدری بولا نہیں توں دس آگے آج تک اسی مرضی کردے رہے آں تیرے نال آج تیری مرضی امی بولی نہیں جی مرضی آج وی تھواڈی ہی چلسی چوہدری مسکرا کر بولی نازو تیری دھیاں تے بہوں گرم تے سوادی ہینڑ دوواں دا 50 لکھ دیساں گیا امی مسکرا کر بولی چلو جی منظور ہے تے تساں آج کون لئے جاسو چوہدری بولا اے تے میریاں ہو گئیاں پر آج تے میں نصرت دی پھدی دا سواد کی ڑا اے اسدا کی لیسیں نصرت ہنس کر بولی چوہدری صاحب میرا کوئی رہٹ نہیں میں تھواڈے واسطے فری آں فری اچ پھدی مارو آج دی رات میری چوہدری بولا نہیں میری جان آج تک اساں جس نوں چا کے وی کئے گئے آں اسدا مل بھریا تیرا تے پہلے بھرساں گئے امی بولی چوہدری صاحب سعدیہ تے صدف نال نصرت فری اے چوہدری ہنس کر بولا چلو وت اے میریاں مشوقاں لئے جا اور نصرت دی آج دی رات پھدی دا سواد ہوئیے سعدو اور صدف اٹھ گئیں اور کمرے سے باہر دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ باجی و نصرت چوہدری کو چومتی ہوئی اٹھی اور سامنے پن کے سامنے آ کر بیٹھ گئی چوہدری کا لن بازو جتنا لمبا اور موٹا لگ رہا تھا اسامے کا لن تو اپنے باپ کے لن کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا نصرت لن کے سامنے آئی اور لن کو مسلتی ہوئی منہ آگے کرکے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوستی ہوئی مسلنے لگی چوہدری کا لن اتنا موٹا تھا کہ باجی نصرت کے منہ میں ٹوپہ ہی جا سکا باجی نے ہونٹ ٹوپے پر دبا کر کس کر چوس لیا اور زور لگا کر لن آگے منہ میں ڈالنے لگی ہلکا سا کالے رنگ کا لن بھای نصرت کے منہ میں چمک رہا تھا باجی ہانپنتی ہوئی سسک کر کراہ کر کس کر چوس رہی تھی نصرت دو تین منٹ تک اسی طرح چوپے مارتی لن کو منہ میں بھر کر دبا کر چوستی ہوئی اندر ڈالنے کی کوشش کرتی رہی پر لن کی موٹائی اتنی تھی کہ باجی نصرت کے منہ میں اندر تک لن نہیں جا رہا تھا چوہدری سسک کر اٹھا اور اپنا قمیض اتار کر اپنی مجھلی کھول دی باجی نصرت کا لمبا موٹا لن تن کر کھڑا تھا چوہدری نے نصرت کو اٹھا کر جپھی میں بھر کر دبوچ لیا جس سے باجی نصرت سسک کر کراہ گئی اور دبا کر چومنے لگی چوہدری نصرت کو چومتا ہوا دبانے لگا باجی نصرت کے موٹے ممے نصرت کے سینے سے لگے تھے نصرت نے چوہدری کو خود ہی چارپائی پر اپنے اوپر کھینچ لیا اور خود چارپائی پر لڑھک گئی چوہدری باجی نصرت کے اوپر گر کر باجی نصرت کو چومنے لگا باجی نصرت سسک کر چوہدری کی کمر کو مسل ے لگی چوہدری اوپر ہوا اور باجی نصرت کی ٹانگوں کے بیچ آگیا جس سے باجی نصرت نے اپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا لیں چوہدری نے باجی نصرت کی شلوار کھینچ کر اتار دی جس سے باجی نصرت کی ہلکی سی کھلی ہلکی سی پنک ہوتی پھدی کھل کر چوہدری کے سامنے آگئی باجی ہانپتی ہوئی چوہدری کو دیکھنے لگی چوہدری سسک کر اپنا انگھوٹے سے باجی نصرت کی پھدی کو مسل کر دبانے لگا باجی نصرت سسک کر کراہنے لگی چوہدری بولا اسامے زور تے بڑا لایا ہونا باجی سسک کر بولا افف نا پچھو چوہدری صاحب ہک واری تے ہاں چیر دتا ہا اس دے لن ہنڑ تھواڈی لن تے مینوں پاڑ دینا نصرت شہوت سے سسک کر ہانپ رہی تھی امی بھی قریب آگئی تھی امی نے چوہدری کے لن کو مسل کر باجی نصرت کی پھدی سے ملا دیا اور نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر دبا کر نصرت کے سر کی طرف آکر امی نے دونوں ہاتھوں سے نصرت کے سر کے ساتھ ملا دیں جس سے باجی نصرت کی پھدی اور چڈے کھل گئے باجی ہلکا ہلکا کانپتی ہوئی سسکنے لگی باجی لن لینے کو بے قرار تھی چوہدری نے پھدی سے لن مسلا اور گھٹنوں پر کھڑا ہوا نصرت کی ٹانگوں کو دبا کر نصرت کے اوپر جھک کر سسکار کر بولا نصرت ہمت کریں ہنڑ نصرت بولی چوہدری صاحب میں تے کاہلی پئی آں چوہدری اوپر ہوا اور باجی نصرت کے کاندھوں کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر اپنی گانڈ کھینچ کر پوری طاقت سے جرک مار کر اپنا بازو لمبا جتنا موٹا لن یک لخت پورا جڑ تک باجی نصرت کی پھدی میں کس کر مار کر جڑ تک اتار دیا چوہدری کا موٹا لن نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا نصرت کے ہاں کو چیرتا باجی نصرت کے سینے میں اتر گیا جس سے باجی نصرت تڑپ کر اچھلی اور کھوتی کی ہینگتی ہوئی پوری شدت سے چیخی اور درمیان سے اٹھ کر پورا زور لگا کر دھاڑ کر اتنی شدت سے ہینگنے لگی جیسے واقعی کھوتی ہینگ رہی ہو باجی نصرت چیخیں مارتی ہینگنے لگی باجی نصرت جسم پوری شدت سے دھڑکنے لگا باجی نصرت درمیان سے اٹھ کر تڑپتی ہوئی نیچے گری اور ہینگتی ہوئی بے ہوش ہو گئی چوہدری کا بازو جتنا لن نصرت کو سینے تک چیر چکا تھا نصرت کے بے سدھ پڑا جسم بھی بری طرح کانپنے لگا تھا امی چوہدری کے لن کو یک لخت جاتا دیکھ کر نصرت کو جنجھوڑ کر بے ہوش کر چکا تھا امی نصرت کو تڑپتا ہوا بے ہوش دیکھ کر بولی ہالنی اماں میں مر گئی چوہدری صاحب چھویر نوں تے مار گھتیا نہے اور نصرت کے سینے پر ہاتھ مارتی ہوئی نصرت کا سینہ دبانے لگی چوہدری کراہتا ہوا سسک گیا اور بولا افففف نازوو تیری دھی دے اندر تے آگ لگی ہوئی اے امی بولی چوہدری صاحب نصرت نوں تے چیر دتا نہے تساں باہں جیڈا یک لخت ہک دھکے اچ ہی پورا منڈ کے نصرت دی جان کڈھ لئی اے چوہدری صاحب اے تے ظلم کیتا نہیے میری دھی نال اور نصرت کو ہوش دلاتی نصرت کو پکارنے لگی نصرت بے سدھ بے ہوش پڑی تھی امی بولی چوہدری صاحب ہک واری لن باہر کڈھو ناں نصرت نوں ساہ آوے چوہدری ہانپتا ہوا بولا نازوو نا کر بڑا سواد آیا پیا اے امی بولی چوہدری صاحب نصرت مردی پئی اے اس نوں کجھ ساہ اونڑ دیو چوہدری نے ہلکا سا لن کھینچتے ہوئے آدھا لن باہر کھینچ لیا جس سے نصرت اچھل کر تڑپتی ہوئی ہوش میں آتے ہی زور سے چیختی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری جان نکل گئی اماں میں مر گئی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا امی نصرت کو دلاسے دیتی بولی نصرت میری دھی ہمت کر کجھ نہیں ہویا نصرت نصرت کجھ نہیں ہویا میری دھی امی نے نیچے ہوکر نصرت کا ماتھا چوم کیا اور نصرت کا سینہ مسلنے لگی نصرت تھر تھر کانپتی تڑپتی ہوئی اونچی اونچی کراہیں بھرتی حال حال کرتی جا رہی تھی چوہدری کے لن نے نصرت کے سینے تک چیر کر رکھ دیا تھا نصرت دو منٹ تڑپتی ہوئی حال کرتی ہوئی سنبھلنے لگی اور آہیں بھرتی کانپنے لگی چوہدری نصرت کے اوپر آیا اور نصرت کو چوم کر بولا اففف نصرت تیرے اندر تے آگ بھری ہے نصرت تڑپ کر بولی اوئے ہالیوئے اماں چوہدری صاحب تساں تے میری جان کڈھ لئی اے چوہدری بولا میری جان سوری تیری پھدی دی آگ مینوں مزہ ہی ہڈا دتا اور نصرت ہو چوم کر بولا نصرت اگر ہمت نہیں تے میں لن کڈھ لیندا باجی سسک کر جلدی سے بولی نہیں نہیں چوہدری صاحب ایسی تے کوئی گل نہیں بس باہں جیڈا لن پہلی وار کیا اے نا اس توں ہمت ترٹ گئی اے پر ہمت بڑی اے میرے اندر تسی اپنی آگ کڈھو میرے اندر یہ سن کر چوہدری نیچے ہوکر نصرت کو چومنے لگا اور گانڈ دبا کر اپنا لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتار دیا جس سے نصرت بکا کر تڑپ کر کرلا گئی نصرت کی کرلاٹ چوہدری کے منہ میں دب سی گئی چوہدری لن جڑ تک اتار کر رک سا گیا نصرت نیچے پڑی مچھلی کی طرح تڑپتی کرسکتی ہوئی چوہدری کو چومنے لگی چوہدری بھی نصرت کو چومنے لگا باجی آہیں بھرتی کراہ رہی تھی امی باجی نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر دبا کر کاندھوں سے لگا کر دبا رکھیں تھیں جو کہ کانپ رہی تھیں چوہدری نے نصرت کی ٹانگیں پاؤں کے پاس سے پکڑی اور اپنا زور لگا کر دبا کر سر سے نیچے دبا دیں جس سے باجی نصرت کی ٹانگیں دوہری ہوکر پیچھے چارپائی سے لگ گئیں جس سے باجی نصرت کی پھدی مزید کھل سی گئی اور باجی نصرت تڑپ کر کرلا گئی چوہدری نے اوپر ہو کر لن کھینچ لیا پڑچ کی آواز سے چوہدری کا لن ٹوپے تک باجی نصرت کی پھدی سے باہر نکل آیا چوہدری نے گانڈ اٹھا کر کس کر دھکے مارا اور اپنا بازو جتنا لن پورا جڑ تک یک لخت پوری شدت سے باجی نصرت کی پھدی میں اتار دیا چوہدری کا لن باجی نصرت کی پھدی کو چیر کر جڑ تک اتر کر بجایا نصرت کے سینے میں اتر گیا جس سے باجی تڑپ کر اچھلی اور بکا کر حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے میری پھدی پاٹ گئی چوہدری کراہ کر گانڈ کھینچ کر لن ٹوپے تک نکال کر پوری شدت سے کس کس کر دھکے مارتا ہوا باجی نصرت کی پھدی میں اپنا بازو جتنا لن ٹوپے تک نکال کر یک جڑ تک تیزی سے اتارتا ہوا پوری شدت سے چودنے لگا چوہدری کا بازو جتنا موٹا لن تیزی سے اندر باہر ہوتا باجی نصرت کی پھدی کو چیر کر پھاڑتا ہوا باجی نصرت کا ہاں چیر کر سینے میں اتر کر چکی نصرت کا سینہ پھاڑنے لگا جس سے باجی نصرت تڑپ کر بے اختیار منہ کھول کر پوری شدت سے گلہ پھاڑ کر چیختی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے اماں میری پھدی اوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میرا سینہ اوئے اماں میری ھدی پاٹ گئی امااااااںںںںںںںں امممممماااااااااں ااااااامممممممااااااااں اوئے ہالیوئے امممااااااااااااااں اوئے ہال ہوئے امااااااااااااں اوئے ہالیوئےےے اااممممااااااااں میں مر گئی اممااااااااں اممممااااااااااں اممممااااااااااں اوئے ہال ہوئے اماااااں نصرت بکاتی ہوئی چیخیں مارتی تڑپ کر حال حال کرتی جا رہی تھی امی باجی نصرت کی حال حال سن کر اوپر نصرت کے ہو کر نصرت کو سنبھالتی بولی ہالنی اماں مر جاواں نصرت۔ میری دھی۔ ہمت کر کجھ نہیں ہوندا میری جان برداشت کر کجھ وی نہیں ہوندا چوہدری اپنا بازو جتنا لن کھینچ کھینچ کر پوری شدت سے تیزی سے ٹوپے تک نکال کر پورا جڑ تک یک لخت اتار کر پوری شدت سے چود رہا تھا لن باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑ کر مسلتا ہوا باجی نصرت کی بچہ دانی کھول کر ہاں کو چیرتا سینے میں اتر رہا تھا جس سے باجی نصرت تڑپ تڑپ کر بکاٹ مارتی چیختی ہوئی حال حال کرتی بکا رہی تھی دو منٹ کی لگاتار چدائی نے نصرت کے کی پھدی کے ہونٹ مسل کر رکھ دئیے تھے جس سے باجی نصرت کو اب درد ہونے لگا تھا جس سے باجی نصرت بے اختیار چوہدری کے سینے پر ہاتھ رکھ کر چوہدری کو پیچھے دبا کر اپنے اوپر سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی پر چوہدری کہاں رکنے والا تھا پھدی کی رگڑ سے وہ بھی نڈھال ہوکر اب دھکوں میں تیزی کارہا تھا جس سے لن پوری سپیڈ سے نصرت کی پھدی کو چیر کر پھاڑتے ہوئے تیزی سے اندر باہر ہورہے تھے تیزی سے اندر باہر ہوتا بازو جتنا لن باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ بری طرح سے مسلتا ہوا چیر کر تیزی سے باجی کا ہاں چیر ہر سینے میں اترنے لگا تھا جس سے باجی نصرت کی ہمت ٹوٹ رہی تھی جس سے نصرت کی حال حال اب درد بھری دھاڑوں میں بدل گئی تھی باجی نصرت مچھلی کی طرح پھڑکتی ہوئی پورا زور لگا کر چیختی ہوئی چوہدری کا سینہ دبا کر چیلائی اور پوری شدت سے بک کر حال حال کرتی بولی امممماااااااااااااااں اااااماااااااااااںںںںں میں مر گئی اماااااااں اآااااااڑڑڑڑڑڑڑڑاااااااااٹ ارررڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑاٹ ارڑڑڑڑڑڑاٹ۔ اوئے ہالیوئے امااااااااااااں میں گئی اممااااااااں میری پھدی پاٹ گئی اوئے ہال ہوئے امممممماااااااااں میرا سینہ پاٹ گیا باجی نصرت کی حال حال اتنی اونچی تھی کہ باہر تک جا رہی تھی جس سے باہر گلی میں گزرتے لوگ بھی سن رہے تھے کہ نصرت چوہدری سے چد رہی ہے چوہدری بھی باجی نصرت کی پھدی میں دھکے مار مار کر ہپھ گیا تھا باجی نصرت کی پھدی کی گرمی سے اس کا بھی کام ہونے والا تھا جس سے وہ بھی کراہنے لگا تھا چوہدری نے مزے سے گانڈ اٹھا کر کراہ کر رک کر پوری طاقت سے جرک مار کر لن پوری شدت سے یک لخت نصرت کی پھدی کے پار کر دیا جس سے نصرت اچھل کر بلبلا گئی اور بکا کر پوری شدت سے ہڑبڑا کر چیخ کر دھاڑتی ہوئی گلہ پھاڑ کر بکاٹ مار کر باااااااااااں باااااااااں بااااااں کرتی بولی اوئے ہالیوئے امماااااااااااں میں مر گئی اماااااااں باااااااں باااااااں باااااااں میں مر گئی امی آگے ہوکر نصرت کو سنبھالتی ہوئی بولی ہا ہائے نی نصرت بہوں حال حال کردی پئی ایں ہمت کر لئے کجھ نہیں ہوندا تینوں نہوں مردی۔ چوہدری رکے بغیر دو تین کس کر جرکیں مار کر نصرت کی پھدی چیر کر رکھ دی جس سے نصرت تڑپتی ہوئی چوہدری کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولی اوئے ہالیوئے چوہدری بس کر اوئے ہالیوئے چھڈ دیو میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی چوہدری باجی نصرت کی گرمی کے آگے نڈھال ہوکر لن جڑ تک پھدی میں اتار کر بکا کر کرلا گیا اور تڑپتا ہوا کراہ کر ہینگ کر ایک لمبی منی کی دھار باجی نصرت کی پھدی میں مار کر فارغ ہوتا باجی نصرت کے اوپر گر گیا باجی نصرت تڑپتی ہوئی درد بھری کراہوں سے کرلانے لگی کمرہ باجی نصرت کی کراہیں سے گونجنے لگا باجی نصرت چوہدری کے نیچے پڑی تڑپ رہی تھی باجی کا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا باجی آہیں بھرتی چوہدری کے ساتھ فارغ ہونے لگی چوہدری کانپتا ہوا منی کی دھاریں باجی نصرت کے اندر پھینک رہا تھا باجی نصرت تڑپ کر کراہ رہی تھی چوہدری کے ٹٹے اچھل اچھل کر منی کی دھاریں باجی نصرت کی پھدی میں پھیل رہے تھے لن جڑ تک باجی نصرت کے اندر تھا لن کی رگڑ سے باجی نصرت کی پھدی کے سرخ ہوئے ہونٹ کھلتے بند ہوتے چوہدری کے لن کو دبوچ کر نچوڑ کر اپنے اپندر خالی کر رہے تھے باجی نصرت تڑپتی ہوئی بکا رہی تھی امی نصرت کو سنبھالتی ہوئی بولی بس میری دھی میں صدقے جاواں اور آگے ہوکر باجی نصرت کا ماتھا چوم کر بولی میری دھی بڑی ہمت آلی ہے بس میری دھی کجھ وی نہیں ہویا نصرت میری جان ہمت کر کجھ نہیں ہویا بس بس میری دھی بس ہوگیا کم ہنڑ اتنا ہک ہی ہا باجی پھڑکتی ہوئی مسلسل دھاڑ رہی تھی کمرہ باجی کی دھاڑوں سے گونج رہا تھا باجی دھاڑ کر حال حال کرتی بول رہی تھی اوئے ہالیوئے اماں آج میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری پھدی پاٹ گئی اماں میرا سینہ اوئے ہالیوئے ماں میں مر گئی اماااااں میں مر گئی اماااااں میری پھدی امی تڑپتی نصرت کے اوپر ہوئی اور بولی نصرت میری جان کجھ وی نہیں ہویا ہمت کر ہلے تے ساری رات گزارنی اے چوہدری صاحب نال ہمت کر میری دھی توں تے ہنڑے نال ہی ہمت ہار گئی نصرت کی چارپائی سے لگی ٹانگیں کانپ رہی تھیں جس سے نصرت تڑپ کر بکا رہی تھی امی بولی میری دھی کجھ نہیں ہویا ہمت کر نصرت کو چوہدری کے بازو جتنے لن نے پھاڑ کر رکھ دیا تھا نصرت تڑپتی ہوئی دھاڑیں مار کر حال کرتی خود کو سنبھال رہی تھی نصرت بولی ہالنی اماں میں کی کراں اماں میں مر گئی آں آج اماں ایڈا لن لئے تے لیا ہے ہور کی کراں نصرت تڑپ کر بکا رہی تھی امی بولی بس بس میری دھی تیرے اچ بڑی ہمت ہے برداشت کر بس ہک دو واری اے وت تینوں اے لن برداشت کرنا اجاسی اور نصرت کا ماتھا چوم نصرت ہمت کرتی ہوئی کچھ دیر میں سنبھلنے لگی اور آہیں بھرتی ہانپنے لگی اب نصرت کی تڑپ بھی کم ہو رہی تھی چوہدری اوپر ہوا اور بولا افففف میری جان نصرت آج تے سواد آگیا نازو تیری دھی نوں چدن دا۔ بہوں سواد دیندی سے نصرت اب بہوں آگ اے نصرتت دی پھدی مارن دا سواد ہی بڑا ہے امی مسکرا کر بولی چوہدری صاحب نصرت تھواڈے واسطے ہی ہے جے دل ہے تے ہور مار لئو پھدی چوہدری بولا مار تے لوکاں ہاس پر نصرت دی ہمت جواب دتی پئی اے امی بولی نہیں چوہدری صاحب کجھ نہیں ہوندا نصرت اچ بڑی ہمت ہے اے برداشت کر جاسیں گئی تھواڈا دل ہے تے ہک واری ہور یہ لئو نصرت نوں نصرت بھی کانپتی آواز میں بولی چوہدری صاحب تھواڈا موڈ ہے تے ہک وار ہور مار لئو پھدی میں ایڈی وی گئی گزری نہیں میرے اچ بڑی ہمت اے میں برداشت کر جاساں گئی تسی پریشان نا ہووو مینوں کجھ نہیں ہوندا امی بولی چوہدری صاحب میری دھی دے اندر بڑی آگ اے کجھ نہیں ہوندا اس نوں چوہدری بولا نصرت واقعی تیری آگ تینوں چین نہیں لینے دیندی آگے تے توں مسیں لن لئے کے حال حال کردی پئی ہائیں ہنڑ وت تیار ہیں لن لینڑ کانڑ نصرت ہنس دی اور بولی بس میری جان میں ہوں ہی انج دی اور مسکرا کر چوہدری کو چومنے لگی چوہدری نصرت کو چومتا ہوا اوپر ہوا اور نصرت کی ٹانگیں دبا کر لن کھینچ کر ٹوپے تک نکال کر پوری طاقت سے دھکا مار کر پورا بازو جتنا یک لخت پورا جڑ تک باجی نصرت کی پھدی کے آر پار کرتا پوری شدت سے باجی نصرت کو چودنے لگا لن کے دھکوں سے باجی نصرت اچھل کر تڑپی اور ارڑا کر چیختی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہالنی اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی چوہدری لن ٹوپے تک نکال کر پوری طاقت سے کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا یک لخت پورا بازو جتنا لن نصرت کی پھڈی کے آرپار کرتا ہوا نصرت کی پھدی کو چودنے لگا جس سے لن کی موٹائی نصرت کی پھدی کو چیرتی ہوئی پھاڑنے لگی چوہدری کا موٹا لن تیزی سے نصرت کی پھدی میں اندر باہر ہوتا نصرت کی پھڈی ہے ہونٹ رگڑ کر مسلتا ہوا پوری شدت سے کاٹنے لگا پہلے والی چدائی نے نصرت کی پھدی مسل کر لال سرخ کر دی تھی اس چدائی سے باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑتے ہوا لن نصرت کی پھدی کے ہونٹ چیر کر تیزی سے نصرت کے ہاں تک اترنے لگا جس سے نصرت تڑپ کر بکاتی ہوئی حال حال کرتی چیخنے لگی چوہدری مزے سے ہنہناتا ہوا ہینگنے لگا باجی نصرت تڑپ کر بکاتی ہوئی حال حال کرتی پھڑک ے لگی چوہدری ہٹ ہٹ کر پوری طاقت سے دھکے مارتا ہوا نصرت کی پھدی کے آرپار کرتا بازو جتنا لن پوری طاقت سے نصرت کو چود رہا تھا نصرت تڑپتی ہوئی بکانے لگی تھی دو تین منٹ کی چدائی سے ہی نصرت کی پھدی کی آگ نے چوہدری کو نڈھال کردیا اور چوہدری کراہتا ہوا آہیں بھرتا نصرت کے اندر لن جڑ تک اتار کر فارغ ہوگیا نصرت کراہتی ہوئی آہیں بھرتی بکا رہی تھی نصرت کی دھاڑوں سے کمرہ گونج رہا تھا نصرت اور چوہدری اکھٹے فارغ ہوکر کراہنے لگے چوہدری کا لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں اترا تھا جس سے نصرت کی پھدی چوہدری کے لن کو دبوچ کر نچوڑ گئی اور نیچے پڑتی ہوئی آہیں بھرنے لگی اسامے کے لن نے پہلے ہی نصرت کی پھدی کھلی کر دی تھی رہی سہی کثر چوہدری کے لن نے نکال دی تھی اس لیے پہلی چدائی سے تو نصرت تنگ ہوئی پر دوسری چدائی برداشت کر گئی اور چوہدری کو باہوں میں بھر کر دبا کر چوسنے لگی چوہدری کراہ کر بولا افففف نصرت سواد آگیا تیری پھدی مارن دا نصرت سسک کر کرسہ کر بولی اففف چوہدری جی تھواڈا لن وی لینڑ دا سواد آیا اے امی بولی نصرت لن جاہ بنا گیا ہے تیری پھدی اچ اس تو پہلی واری توں تنگ ہوئی ہیں پر دوئی واری برداشت کر گئی نصرت بولی امی اس واری سواد وی آیا اے پھدی مروانڑ دا امی بولی اسے تو سواد آیا لن اپنی جگہ بنا گیا اے نصرت بولی امی اے تے چنگا ہویا نصرت بولی چوہدری صاحب تھوانوں مزہ آیا کہ نہیں نصرت بولی اففف نا پچھ نصرت ایو جیا سواد آج تک نہیں آیا تیری ماں نوں یہونڑ دا وی نہیں آیا نصرت ہنس دی اور بولی اچھا جی وہ بولا جیا فر ساڈے کانڑ کی حکم اے چوہدری بولا حکم کوئی نہیں ہنڑ بس میری مشوق آج تو توں ایں باجی بولی میری جان اسی حاضر میں تے اگے اسامے دی وی رکھیل ہاں آج تو تیری وی ہو گئی چوہدری مسکرا کر بولا ہنڑ فر چت مارن دیویں کہ نہیں باجی بولی چوہدری صاحب اے کہڑی گل اے تسی آکھو تے اسی حاضر نصرت کو چوم کر بولا نصرت تیری پھدی ہی بس بس کروا دیتی اے ہنڑ کل ہی چت مریساں نصرت ہنس دی اور بولی اچھا جی جیویں تسی اکھو چوہدری پیچھے ہوا اور نصرت کی ٹانگیں سیدھی کردیں جس سے نصرت کراہ دی اور لن کھینچ کر نکالنے لگا جس سے نصرت کراہتی ہوئی تڑپنے لگی نصرت پورا بازو جتنا لمبا اور موٹا لن برداشت کر گئی تھی جس سے نصرت کی کراہیں نکل کر گونج رہی تھی چوہدری کے موٹے لن نے نصرت کی پھدی کو کھول کر رکھ دیا تھا لن کی رگڑ سے نصرت کی پھدی کے ہونٹ لال سرخ ہو چکے تھے اور لن نصرت کی منی سے بھرا تھا چوہدری کا لن مرجھا رہا تھا نصرت کانپتی ہوئی کراہتی ہوئی تڑپنے لگی اور اپنے گھٹنے سینے سے لگا کر گانڈ باہر کو نکال لی نصرت کی پھدی کا دہانہ فل کھل گیا تھا بازو جتنا موٹا لن کے کر نصرت کراہتی ہوئی کانپ رہی تھی نصرت کی پھدی پڑچ پڑچ کرتی کھلتی بند ہو رہی تھی چوہدری نے لن صاف کیاا ور کپڑے ڈال کر نصرت کو چوم کر بولا کل فر اساں چت دی مالش کر رکھساں کانپتی آواز میں بولا میں حاضر جناب اور چوہدری کے ہونٹ چومنے لگی چوہدری نصرت کو چومتا ہوا چلا گیا امی نے نصرت کی کمر دبانے لگی نصرت کراہتی ہوئی بولی افففف اماں میں مر گئی آج تے چوہدری تے پوری بلا ہے اماں اے تے مینوں کھا جاسی امی بولی نصرت ہمت کر کجھ نہیں ہوندا نصرت بولی امی ہمت تے میرے اندر بڑی اے تینوں پتا میرے اندر کیڈی آگ اے پر چوہدری دا لن بہوں لما ہے اماں اے تے میون نچوڑ کے کھا جاسیں امی ہنس دی اور بولی نی نصرت ایڈی وی گل کوئی نہیں ویسے تینوں دساں اے چوہدری ایڈی بلاں ہے کہ پوری پوری رات جند ہی نہیں چھڈدا پر تیری گرمی آگے تے دو واری مسیں ٹکیا اے نصرت بولی پر امی مینوں تے اہناں دو واریاں اب ہی ہلا کے رکھ دتا ہیس میں ہی ہاس جہڑی برداشت کر گئی پر ہنڑ ہمت نہیں ہوندی پئی کہ اٹھی سگاں لتاں ہلدیاں پی نہیں پیاں امی بولی کیوں نصرت بولی پتا نہیں لگدا چوہدری دا لن میری آگ نوں نتھ پا دیسی امی آگے ہوئی اور نصرت کی ٹانگیں دبانے لگی نصرت نے کچھ ٹانگیں سیدھی کیں اور امی کے سہارے سے اٹھی پر نصرت سے اٹھا نا گیا امی بولی نصرت کی بنیا ہئی امی بولی پتا نہیں امی ہک وار تے برداشت مکی پئی امی نے مجھے آواز دی کہ سعدیہ کو بلا لائے میں دوسرے کمرے میں گیا تو دونوں بہنیں ایک دوسرے کو چوم رہی تھیں مجھے دیکھ کر چونک کر الگ ہوئیں اور مسکرا کر مجھے دیکھا میں بولا امی سددی پئی سعدیہ اور صدف دوسرے کمرے میں گئیں اور نصرت اور کو پکڑ کر اٹھایا نصرت کی ٹانگیں وزن نہیں سہار رہی تھی دونوں سہارہ دے کر واشروم کے گئیں امی بولی نصرت لگدا اے لن تینوں نچوڑ جاسی اے پتا نہیں کی کی کشتے کھاندا سے چوہدری پر لگدا اے تیرا کم کر جاسی یا اسدا اپنا کم ہو جاسی نصرت بولی امی نہیں ناں اسدا کم ہونا چاہیدا نا میرا امی اے لن توں پھدی مروان دا مزہ ہی الگ اے امی نصرت کو مسکرا کر دیکھ کر بولی میری دھی یا چوہدری تیری آگ نوں نتھ پا دیسی یا توں اس نوں کھا ویسی ہک تے ہونا اور نصرت کو سنبھلنے لگی میں اندر کمرے میں آ کر لیٹ گیا باجی نصرت کی اتنی زبردست چدائی دیکھ کر میں آگ سے بھرا ہوا تھا میں بے اختیار لن نکال کر باجی جو سوچ کر مٹھ لگانے لگا میں اپنی سوچ میں مگن تھا کہ اتنے میں دروازہ کھلا اور امی اندر آگئی اور مجھے مٹھ لگاتا دیکھ لیا میں چونک کر جلدی سے لن چھپا لیا امی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور دروازہ بند کرکے میری طرف بڑھی میں اٹھ کر بیٹھ گیا امی بغیر دوپٹے کے تھی جس سے امی کا بھرا ہوا موٹا جسم نظر آرہا تھا امی کہیں سے بھی بوڑھی نہیں لگتی تھی اور نا ابھی تک بوڑھی تھی ابھی خوراک اور لن کی منی پینے سے وہ ابھی تک تگڑی تھی امی کے اٹھے ہوئے ممے قیامت ڈھا رہے تھے موٹی باہر کو نکلی مٹکتی گانڈ کیا ہی سیکسی منظر تھا مجھے تو پہلے ہی آگ لگی تھی میں یہ سب دیکھ کر مچل سا گیا تھا امی میری طرف بڑھی اور میرے پاس بیٹھتی ہوئی بولی میرا شہزادہ جواں ہو گیا ایں میں منہ جھکا گیا امی کا موڈ فریش تھا پر میں شرما گیا تھا امی بولی جناب جی تھوانوں وی لگدا ہنڑ لڑکی چاہیدی میں شرما کر بولا نہیں امی ویسے ہی امی ہنس دی اور بولی ہلا ویکھا تے سہی کیڈا ہک جوان ہوگیا ایں یہ کہ کر امی نے میرا قمیض آگے سے ہٹا دیا میں نے جلدی سے ہاتھ رکھ لیا اور چھپانے کی کوشش کی امی ہنس دی اور بولی وے کجھ نہیں ہوندا ویکھا نا تاکہ تیرے واسطے وی بندوبست کراں یہ سن کر میں نے ہاتھ ہٹا دیا امی نے میری شلوار نیچے کی اور میرا ہتھیلی جتنا لمبا لن باہر نکل آیا امی یہ دیکھ کر بولی نی میں مر جاواں بہزاد ایڈا وڈا لن تیرا ایڈی عمر اب ہی ہوگیا توں تے فل جوان ہوگیا ایں اور پھر ہاتھ آگے کرکے میرا لن پکڑ کر مسل دیا میں امی کے نرم ہاتھ کا لمس محسوس کرکے تڑپ سا گیا امی سسکارتی ہوئی بولی وے سچی دس بھین تے مٹھ مار رہیا پئیں میں نے ڈر کر ناں میں سر ہلایا امی بولی وے ناں کر میں جاندی آں بھین نوں یہیندیاں پیا ویکھ کے تیرا دل وی کر پیا اے نا نصرت دی پھدی واسطے میں کچھ نا بولا امی میرا لن مسل کر دبا کر بولی وے دس وی میں لن دبانے سے سسک کر کراہ گیا اور بے اختیار بولی جی امی امی ہنس دی اور بولی ہلا وت تیری گل کردی آں کل کے بہزاد وی تیرے تے ٹھرکیا ودا اور بولی قمیض لاہ دے میں نے امی کو دیکھا امی بولی لاہ دے کجھ نہیں ہوندا میں نے قمیض اتار دیا امی بولی لیٹ جا میں پیچھے لیٹ گیا امی اوپر میری ٹانگوں کی طرف آئی اور بولی پہلے مینوں چیک کرن دے توں نصرت کانڑ تیار ہیں کہ نہیں وے اگلی گل کرساں اور میری ٹانگوں میں آکر اپنے قمیض کو ہاتھ ڈال کر اپنا قمیض کھینچ دیا امی کا گورا بدن میری آنکھوں کے سامنے ننگا ہوگیا جس سے آنے کے گول تنے ممے برا میں قید نظر آنے لگے امی نے برا کو ہاتھ ڈال کر کھینچ دی جس سے امی کے تنے ہوئے موٹے تازے ممے میرے سامنے آگئے امی اپنے ممے دبا کر مسل کر مجھے دیکھا اور بولی پسند آئے میں نے ہاں میں سر ہلایا امی میرے اوپر جھکی اور میرے ہونٹ دبا کر چوسنے لگی امی کے گرم منہ کی گرم تھوک میں محسوس کرکے مچل گیا امی مجھے دبا کر چوسنے لگی امی کے تنے ممے میرے سینے میں دب گئے میں مچل کر سسکتا ہوا امی کے ننگے ممے دبا کر مسلتا ہوا امی کو چوس رہا تھا مزے سے میں نڈھال تھا میرا لن جھٹکے مارنے لگا تھا امی مجھے چومتی ہوئی پیچھے ہوئی اور میری شلوار کھینچ کر اتار دی اور جھک کرمیرے لن کے سامنے بیٹھ کر مسل کر منہ کھولا اور میرے لن کو منہ میں بھر کر دبوچ کر چوس لیا جس سے میں تڑپ کر کراہ گیا امی کے گرم منہ کا لمس لن پر محسوس کرکے میں کراہتا ہوا کرلا سا گیا امی میرے لن کو دبا کر چوستی ہوئی زبان میرے لن پر کس کر پھیرتی ہوئی میرے لن کے چوپے لگانے لگی امی کس کر میرے لن کو چوستی ہوئی چوپے مارنے لگی امی کے چوپوں نے میری جان کھینچ لی میں کراہتا ہوا کرلانے لگا امی میرا پیٹ اور سینہ مسلتی ہوئی میرے لن کو چوس رہی تھی میں دو منٹ میں ہی امی کے منہ کے سامنے ہمت ہار گیا اور کراہتا ہوا منی کے جھٹکے مارتا امی کے منہ میں فارغ ہوگیا امی میرا لن دبا کر چوستی ہوئی نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھتی میری ساری منی نچوڑ کر پی گئی میں تڑپتا ہوا کراہیں بھرتا فارغ ہوگیا امی میری ساری منی نچوڑ کر پی کر میرے لن کو مسلتی ہوئی چوستی رہی میں جلدی ہی امی کے گرم منہ کی گرمی سے پھر تیار ہوگیا اور میرا لن فل تن کر جھٹکے کھانے لگا میں تڑپ کر کراہ رہا تھا امی اوپر ہوئی اور بولی بہزاد تیری منی تے سوادی اے چل ہنڑ میرے آتے ا اپنی منی میرے اندر چھوڑ یہ کہ کر وہ میرے ساتھ لیٹ گئی میں اٹھا اور امی کی ٹانگوں کے بیچ آگیا امی نے اپنے ٹانگیں ہوا میں اٹھا لیں میں نے امی کی شلوار کو ہاتھ ڈال کر شلوار کھینچ کر اتار دی امی کے موٹے پھیلے ہوئے چتڑ میرے سامنے ننگے ہو گئے امی نے ٹانگیں اٹھا کر اپنی پھدی میرے سامنے کھول دی جس سے امی کی پھدی کے گہری براؤں ہونٹ کھل کر میرے سامنے آگئے امی کی پھدی کا دہانہ گہراا پنک ہوچکا تھا اور اندر تک امی کی پھدی نظر آرہی تھی امی کی پھدی کی حالت بتاؤ رہی تھی کہ امی نے چدوا چدوا کر بھوسڑا کروا رکھا ہے امی نے اپنی ٹانگیں پھیلا کر کھول لیں میں نے آگے ہوکر لن امی کی پھدی پر رکھا اور دھکا مار کر لن اندر کردیا امی سسک کر کراہ گئی میرا لن اسانی سے اندر چلا گیا امی نے پھدی دبا کر لن دبوچ لیا میں امی کے موٹے چتڑوں ہر چھوٹا سا لگ رہا تھا امی کے اوپر جھک کر میں جھٹکے مارتا ہوا لن تیزی سے امی کی پھدی میں گھما گ لگا امی کراہ کر مچلتی ہوئی آہیں بھرتی سسکنے لگی میں لن کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا امی کے اوپر نڈھال ہوگیا امی بھی کراہیں بھرتی ہانپنے لگی جلدی ہی میں امی کی پھڈی میں فارغ ہوگیا امی بھی میرے ساتھ فارغ ہوگئی میں امی کے اوپر گر سا گیا امی مجھے چومنے لگی میں نے ایک بار پھر پوری شدت سے امی کو چودا چود کر نڈھال ہوکر امی کے اوپر ہی گر کر سو گیا آنکھ کھلی تو صبح ہو رہی تھی میں امی کے سینے سے لگا تھا میرا لن تن کر کھڑا تھا میں نے امی کو سیدھا کیا اور ٹانگیں اٹھا دیں امی بھی جاگ گئی اور مجھے ٹانگیں اٹھائء دیکھ کر ہنس دیمیں لن امی کی پھدی میں اتار کر کس کر دھکے مارتا امی کو چودنے لگا امی کراہ رہی تھی میں دو منٹ میں آہیں بھرتا امی کے اوپر گر کر فارغ ہوگیا امی مجھے چومنے لگی میں ہانپتا ہوا اوپر پڑا تھا کہ اتنے میں دروازہ کھلا اور باجی نصرت امی کو پکارتی اندر داخل ہوئی سامنے مجھے امی کے اوپر پڑا دیکھ کر چونک گئی اور بولی نی میں مرجاواں امی بہزاد تے وڈا ہوگیا میں چونک گیا اور اوپر ہوگیا امی ہنس دی اور بولی آج ٹرین وی ہو گیا اے تے تیرے تے ٹھرکیا وی ودا اے باجی اتنے میں قریب آئی اور میرا کام پکڑ کر اوپر کیا اور بولی انکے گل اے میرا جھاکا اتر گیا تھا میں مسکرا کر اوپر ہوا اور لن امی کی پھدی سے نکال کر بولا تے ہور کی باجی میرا لن دیکھ کر ہنس دی اور بولی بھائی ایسے نکے لن تے میرا گزارا نہیں ہوندا توں ویکھیا تے ہونا میں تے چوہدری دے باہم جیسے لن لیندی آں میں ہنس کر بولا باجی جتھے باہں جیڈا لیندی ایں ہک ساڈا وی لئے لئے سانوں تے مزہ آوے باجی ہنس دی اور بولی آپ ہی مزے لویں تے اپنی بھین دے مزے دا خیال نا کریں میں بولا باجیا ور چوہدری تے اسامہ ہے نہیں مزہ دینے کانڑ باجی بولی پر بھرا دا مزہ تے ہور ہونا میں ہنسدیا باجی بولی اچھا امی آٹھ جا سکول وی جانا امی نصرت کو دیکھ کر بولی نصرت ہنڑ تے توں فریش لگ رہی نصرت ہنس دی اور بولی امی تینوں پتا تیری دھی اب بڑی آگ اے رات ساری ریسٹ کیتی تے ہنڑ فٹ آں امی ہنس دی اور اٹھ کر چلی گئی میں لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ باجی نصرت کے اندر کتنی آگ ہے جو رات کو چوہدری کا بازو جتنا لن کے کر مر رہی تھی اب فل فریش ہے باجی نصرت اب ویسے بھی ٹرین ہو گئی تھیں وپر سے اس کی آگ اس کو نڈھال نہیں ہونے دے گی اور لن کا راستہ بھی بن گیا تھا اب باجی کو چدوانے میں کوئی پریشانی ہونی تھی میں اٹھا اور سکول جانے کی تیاری کرنے لگا میں کیچن میں آیا اور کھانا کھانے لگا اتنے میں باجی نصرت کیچن میں آئی میں باجی کو دیکھ کر مچل گیا باجی نصرت نے نیچے کسی ہوئی شلوار ڈال رکھی تھی جبکہ باجی نصرت اوپر صرف بلاؤس میں تھی اور نیچے شلوار ڈال رکھی تھی باجی نصرت کا پیٹ ننگا اور ممے نظر آرہے تھے باجی نصرت اسی لباس میں سکول گئی سکول میں باجی چادر میں رہی سکول کے لڑکوں کو بھی پتا تھا کہ باجی نصرت آج۔ کل رنڈی ہوچکی ہے اور سرعام چدواتی ہے لڑکوں نے دیمی سے کہا کہ باجی کے جلوے ہمیں بھی دکھائے دیمی بریک ٹائم مجھ سے ملا اور بولا یار باجی کولو ٹائم ہی لئے دے میں بولا پہلے میں تے لئے لواں وہ بولا ہلے نہیں ڈال گلی میں بولا بس گل جاسی وہ پھر بولا یار سکول دے لڑکے وی باجی نصرت دے جلوے ویکھنا چاہندے ہینڑ توں باجی نوں آکھ پڑھاونڑ لگیا کجھ سانوں وی وکھایا کر میں بولا چلو باجی نوں گل کرساں گیا ہم گھر آنے لگے تو راستے میں باجی نصرت گاؤں کی دکان کے پاس سے گزری یہاں گاؤں کے لوگوں کو سب کچھ ملتا تھا باجی اسی طرح بلاؤز میں تھی دکان سے سب کچھ ملتا تھا چوڑیاں وغیرہ بھی ملتی تھیں باجی نصرت نے دیکھا تو باجی رک گئی اور دکان کے اندر چلی گئی باجی گانڈ مٹکاتی ہوئی اندر چلی گئی دکان تھوڑی کھلی تھی جو چھیدے نے اپنی بیٹھک میں ہی بنا رکھی تھی سامنے کاؤنٹر چھیدا بیٹھا تھا وہی چھیدا جو سکول میں ریڑھی بھی لگاتا تھا چھیدے کی عمر 45 سے 50 کے درمیان تھی رنگ کا کالا اور تھوڑا سا موٹا تھا اور نہاتا بھی کم ہی تھا دکان میں ہی رہتا تھا دکان میں داخل ہوتے ہی وہ اٹھا اور بولا آؤ جی جناب آج ساڈے کول آگئے باجی دیکھ کر ہنس دی وہ قریب آیا اور بولا جناب دسو کی لینڑا ہنئے باجی آگے گئی اور بولی جو دل کرسی لئے لیساں باجی نصرت آگے چوڑیوں کے پاس کھڑی ہوگئی وہ بولا اچھا جی جناب لئے لئو تے فر اسی وی او لئے سگدے آں جو ساڈا دل کرے باجی ہنس دی اور بولی تھوانوں کی چاہیدا وہ بولا جو تھواڈے کول ہے باجی مسکرا کر کچھ سامان لیا باجی کی نظر ایک جگہ پڑے چوڑیوں پر پڑی باجی نے ایک بڑا سا چھلا اٹھایا باجی نے اسے ایک نظر دیکھا اور کچھ سوچ کر بولی بہزاد اوراں آ میں پاس گیا تو میرا ہاتھ اٹھا کر میرا بازو چیک کیا جس سے چھلا میچ کیا اور مسکرا دی مجھے سمجھ نہیں آئی باجی نے ایک اور چھلا اٹھایا اور سامان ایک شاپر میں ڈلوایا چھیدا بولا ہور کجھ چاہیدا باجی بولی آج واسطے اتنا کافی اے وہ مسکرا یا اور بولا ہنڑ مینوں وی کجھ دیو باجی ہنس کر بولی منگ لئے جو منگنا ہئی میں ناہں نہیں کردی وہ مسکرایا اور بولا سچی باجی بولی سچی اس نے آگے ہوکر باجی نصرت کا ہاتھ پکڑ لیا باجی مجھے سامان دے کر بولی جا گھر میں آندی آں میں ساممن لے کر باہر نکلا اور گھر آگیا میں نے سامان رکھا اور واپس مڑا میں بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ باجی کیا کر رہی ہو گی چھیدے کے ساتھ امی مجھے اکیلا دیکھ کر بولی وے بھین کدے ہئی میں بولا امی او چھیدے کول امی بولی کیوں میں بولا پتا نہیں امی ہنس دی اور بولی چھویر تے کھل گئی میں نکلا اور باہر کی طرف چل دیا میں دکان میں پہنچا اور اندر دیکھا تو سامنے باجی نصرت چھیدے کے سامنے بیٹھی ننگی ہوکر چھیدے کے لن کو چوپے مارتی چوس رہی تھی دو منٹ میں ہی چھیدا باجی نصرت کے منہ میں فارغ ہوگیا باجی چھیدے کی منی پی گئی باجی نصرت نے لن چوس چوس کر کھڑا کیا اور پیچھے لیٹ گئی چھیدا اوپر آیا اور باجی نصرت کی ٹانگیں اٹھا کر باجی کے اوپر چڑھ کر باجی نصرت کو چودنے لگا چھیدا کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا باجی نصرت کو چودتا رہا باجی کراہیں بھرتی چدواتی رہی چھیدا کا لن پورا سا تھا جو باجی آرام سے لے رہی تھی دو تین منٹ تک باجی نصرت کو چودتا رہا اور پھر فارغ ہوکر نڈھال ہوکر باجی کے اوپر گر گیا باجی بھی ہانتپی ہوئی فارغ ہوکر چھیدے کی منی اپنے اندر لے گئی دونوں کچھ دیر پڑے رہے چھیدا باجی کو چومتا ہوا بولا سرکاروں ہنڑ تے روز سانوں ٹائم دینا باجی ہنس کر چھیدے کے ہونٹ چوم کر بولی وے ہنڑ تے تیری منی دی نشانی میرے اندر آگئی اے ہنڑ تیرے بال دا مڈھ بنڑ گیا اے ہنڑ تینوں کی لوڑ اے میری چھیدا بولا نصرت میری جان تیری پھدی دا نشہ ہنڑ لگ گیا اے ہنڑ تے روز مارنی ہے پھدی تیری نصرت ہنس کرآگے ہوئی اور چھیدے کے ہونٹ چوم کر بولی ٹھیک اے جناب میں روز پھدی دیساں تینوں ہور کجھ چھیدا بولا میری جان خوش کیتا ہئی اور باجی کے اوپر ہوکر ٹانگیں اٹھا کر کس کر دھکے مارتا ہوا باجی نصرت کو پھر چودنے لگا جس سے باجی نصرت کراہ کر سسکنے لگی باجی کی پھدی میں تیزی سے لن گھماتا چھیدا جلد ہی اندر فارغ ہوگیا باجی بھی سسکتی ہوئی فارغ ہوگئی دونوں کچھ دیر ایک دوسرے کو چومتے رہے اور چھیدا ہٹ گیا باجی نصرت اٹھی اور اپنی شلوار ڈال لی باجی بلاؤس ڈالنے لگی تو چھیدا بولا میری جان بلاؤس توں بغیر ہی گھر جا ساریاں نوں ویکھا کے جا کہ چھیدے کولو چدوا کے جا رہی ہیں باجی ہنس دی اور بولی اچھا جی توں وی اسامہ بنوں ہیں وہ بولا تے نا بنتا باجی ہنس دی اور بغیر بلاؤس کے ننگی صرف شلوار میں ہی باہر نکل آئی باجی نصرت کو چھیدے کی دکان سے ننگا نکلتا دیکھ کر لوگ سمجھ گئے کہ چھیدے سے چدوا کر جا رہی ہے باجی نصرت ننگی ممے ہلاتی ہوئی بازر میں چلتی ہوئی گھر آگئی سب لوگ باجی نصرت کو ننگا دیکھ رہے تھے باجی گھر آئی امی نصرت کو ننگا دیکھ کر مسکرا دی ور بولی نصرت کوئی نواں یار وی بنا کیا ہئی باجی ہنس دی اور بولی کیوں کوئی اعتراض اے امی بولی نہیں سانوں وی پتا ہووے امی بولی چھیدا پھدی منگ رہیا ہا میں آکھیا اس دے نکے جئے لن کی کر لینڑا اس توں اس کولو پھدی مروا آئی ہاں امی ہنس دی باجی واشروم گئی اور کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کیا باجی نصرت اس دوران ننگی ہی تھی کچھ دیر بعد اسامہ آگیا اور باجی کو ننگا دیکھ کر ہنس دیا اور باجی نصرت کو پکڑ کر چومنے لگا باجی نصرت بھی اسامے کو چومتی ہوئی اسامے کو ننگا کردیا اسامہ اور باجی نصرت صحن میں ہی لیٹ گئے اور ایک دوسرے کو چومنے لگے باجی اسامے کے اوپر چڑھ گئی اور اسامے کے لن کو چومنے لگی باجی نصرت لن کو چومتی ہوئی چوس کر بولی بہزاد او سامان کدے ہے میں بولا باجی اندر پیا اے باجی بولی لئے آ میں سامان لایا تو باجی نے اس میں سے چھوٹا چھلا اٹھایا اور باقی سامنے مجھے دے دیا میں اندر رکھ آیا اسامہ بولا اے کی باجی نصرت پولی اے میں اپنے شہزادے نوں اپنی نشانی پاؤں آں یہ کہ کر باجی نصرت نے چھلا اسامے کے لن پر رکھا جو چھوٹا تھا جو اسامے کے لن کے ٹوپے سے کچھ نیچے ہی اتر سکا اور وہیں رک گیا اسامہ بولا اے تے ایتھے ہی رک گیا باجی بولی کوئی مسلا نہیں ایتھے تک وی ٹھیک اے اسامہ بولا نصرت اے تیری پھدی نوں لگسی جدو تیری پھدی مارن لگیاں باجی بولی وے کجھ نہیں ہوندا اور لن مسل کر چوپے مارتی چوسنے لگی دو تین منٹ تک چوپے مار کر لن کو مسل کر اچھی طرح کھڑا کیا اور پھر خود ہی پیچھے لٹ کر ٹانگیں اٹھا لیں باجی نصرت کی پھدی کھل کر سامنے آگئی جو رات کی چوہدری کے لن کی چدائی سے کھل سی گئی تھی باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رات کے چوہدری کے لن کی رگڑ سے گہری گلابی ہورہے تھے مسلسل لن کی رگڑ سے نصرت کی پھدی کا رنگ تبدیل ہو رہا تھا اسامہ ٹھا اور باجی کی ٹانگیں دبا کر کھول دیں جس سے باجی نصرت کی پھدی کھل کر سامنے آگئی اسامہ پھدی دیکھ ہنس کر بولا لگدا ابا جی اپنا کم پا گئے ہینڑ نصرت ہنس دی اور بولی وے تیرا پیو تے بہوں ظالم ہے راتی تے میری پھدی سینے تک چیر دتی ہے اسامہ ہنسدیا اور بولا میرا پیو اے پھدی ویکھ کے تے مر جاندا اے وت پھدی تے نصرت دی اے اور نیچے ہوکر نصرت کی ٹانگیں دبا کر پھدی کھول دی اور لن پھدی کے دہانے پر رکھ کر کس کر دھکا مارا لن نصرت کی پھدی کھول کر جڑ تک نصرت کے اندر اتر گیا اسامے کے لن پر ڈالا گیا چھلا نصرت کی پھدی کو رگڑ کر اندر اتر گیا جس سے نصرت بکا کر کراہ گئی اور تڑپتی ہوئی زور سے چیختی ہوئی چلا گئی اسامہ رکے بغیر کس کر دھکے مارتا ہوا باجی نصرت کی پھڈی چودنے لگا لن تیزی سے اندر باہر ہوتا نصرت کی پھدی کو چیر رہا تھا اسامے کے لن پر لگا چھلا تیزی سے پھدی کے آرپار ہوتا نصرت کی پھدی کو مسل کر رگڑتا ہوا اندر باہر ہوتا نصرت کی پھدی کو چھیل رہا تھا جس سے نصرت تڑپ کر بکاتی ہوئی چیلانے لگی اسامہ تیزی سے لن کس کس کر پھدی کے آرپار کرتا پھدی کو چیر رہا تھا اسامے کے لن پر لگا چھلا نصرت کی پھدی کو رگڑ کر کاٹنے لگا جس سے نصرت بکاتی ہوئی چیخنے لگی اسامے کس کر کھینچ کر دھکے مارتا نصرت کو چود رہا تھا جس سے لن کا چھلا نصرت کی پھدی کو رگڑ کر مسلتا ہوا چیر رہا تھا لن پر لگا چھلا تیزی سے پھدی کے اندر باہر وہتا پھدی کے اندر تک ماس کاٹ کر نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑتا ہوا اندر باہر ہورہا تھا نصرت بکا کر حال حال کرتی اسامے کو پیچھے دبانے لگی اسامے ہو بھی پتا تھا کہ لن کا چھلا نصرت کو پھڈی میں لگ رہا ہے پر وہ مسلسل دھکے مارتا نصرت کو چودتا رہا جس سے نصرت تڑپ کر بکاتی ہوئی ہینگ رہی تھی مسلسل رگڑ سے چھلے نے نصرت کی پھدی کو اندر سے کاٹ دیا تھا جس سے پھدی سے خون نکلنے لگا ساتھ ہی اسامہ بھی کراہتا ہوا نصرت کی پھدی میں لن جڑ تک اتار کر فارغ ہونے لگا نصرت بھی ساتھ ہی فارغ ہوکر ہنگنے لگی اسامے کے لن کے چھلے نے نصرت کی پھدی کو زخمی کردیا تھا اسامہ کچھ دیر اوپر پڑا رہا اور پھر اوپر ہوا باجی نصرت کراہ کر تڑپ رہی تھی اسامے نے لن کھینچ کر نکال لیا جس سے باجی کراہ کر تڑپ گئی اور اپنی ٹانگیں سینے سے لگا لیں اسامہ نصرت کی پھدی سے ہلکا سا خون نکلتا دیکھ کر بولا نصرت ویکھ لئے لن پھدی زخمی کر دتی نصرت بولی خیر اے ہور کھلی ہو جاسی پر اسامہ چھلے تیرے پھدی نوں سواد بڑا دتا اے اسامہ ہنس دیا اور ایک بار پھر کس کر چودا جس نے نصرت کی پھدی کو مزید زخمی کر دیا نصرت تڑپتی ہوئی کرلاتی ہوئی ہینگ رہی تھی نصرت کی پھدی کو اسامے کے لن پر لگے چھلے نے زخمی کر دیا تھا اندر تک اتر کر چھلے نے نصرت کی پھدی کا ماس کاٹ دیا تھا لیکن نصرت برداشت کر گئی نصرت کو ایسے چدوانے میں مزہ آیا تھا امی نے دیکھا تو امی نے پھدی کو صاف کرکے اس پر دوا لگا دی نصرت آرام کرنے لگی اور میں باہر نکل گیا شام سے پہلے میں گھر آیا تو اتنے میں چوہدری بھی آگیا نصرت اسی وقت اٹھی تھی جو ابھی تک ننگی تھی باجی واشروم چلی گئی امی صحن میں چوہدری کو ملی اور بولی آؤ جی جناب آج تے ٹائم نال آئے ہو چوہدری نے امی کو باہوں میں بھر کر دبوچ لیا اور سینے سے لگا کر بولا میری جان اپنی مشوق نوں ملن آیاں اور امی کے ہونٹوں کو چومنے لگا امی چوہدری کے سینے سے لگی ہوئی تھی چوہدری امی کو دبوچ کر چوستا ہوا باہوں بھر کر دبا کر مسل رہا تھا امی بولی جناب سانوں وی لفٹ کروا دیو چوہدری مسکرایا اور بولا کیوں نہیں میریاں بس نصرت دی چت مارلواں آج تینوں وی کہنا اے امی بولی میری چت مار لئے چوہدری بولا تیری تے ہنڑ کھلی ہوگئی ہنڑ تیری دھی دی ٹائٹ پھدی تے چت مارنی اے باجی اندر سے نکلی اور امی اور چوہدری کو سینے سے لگا دیکھ کر مسکرا دی باجی چلتی ہوئی امی لوگوں کے پاس پہنچی اور بولی چوہدری صاحب لگدا آج اپنی پرانی مشوق نوں ملنڑ آئے ہو چوہدری ہنس کر پیچھے ہوا اور بولا نہیں میری جان ملنڑ تے نویں نوں ہی آیا آں پر آج پرانی دی پھدی وی مارنی ہے باجی بولی چلو پہلے اس نوں راضی کر لئو چوہدری باجی نصرت کو بازو سے پکڑ لیا اور اپنی طرف کھینچ کر بولا پر پہلے تیری چت مارنی ہیں دیویں گئی چت اپنی نصرت ہنس کر چوہدری کے سینے سے جا لگی اور چوہدری کو چومتی ہوئی بولی کیوں نہیں میری جان میں کے تھودی آں تے میری چت وی تھواڈی اے پچھنڑ دی کی لوڑ ہے بس مارو چوہدری نصرت کو سینے سے لگا کر کس کر دبا کر چوسنے لگا نصرت سسکتی ہوئی چوہدری کو چومتی ہوئی چوہدری کی مکھی میں ہاتھ ڈال کر چوہدری کا لن باہر نکال لیا چوہدری کا بازو جتنا لن تن رہا تھا امی چوہدری کے لن کے پاس ہی بیٹھ گئی اور مسلتی ہوئی چوسنے لگا امی نے چوہدری کی مجھلی کھول کر ننگا کردیا میری۔نظر گیٹ پر پڑی تو گیٹ کھلا تھا اور باہر گلی سے گزرتے لوگ باجی نصرت اور امی کو چوہدری کے ساتھ چمٹا دیکھ کر گزر رہے تھے امی نیچے بیٹھی لن کو مسل کر چوم رہی تھی امی تو چوہدری کی پرانی رکھیل تھی جس کا سب گاؤں کو پتا تھا پر باجی نصرت اب نئی نئی رکھیل ہوئی تھی باجی نے چوہدری کا قمیض اتار کر فل ننگا کردیا باجی پہلے ہی ننگی تھی باجی نصرت چوہدری کے سینے سے لگ کر اپنے ممے سینے میں دبا کر سک کر مسلتی ہوئی چوہدری کے ہونٹوں کو چوس رہی تھی امی لن کو چومتی ہوئی اب منہ کھول کر چوہدری کے لن کا ٹوپہ چوس رہی تھی امی نے ٹوپہ منہ میں رکھے ہوئے ہی اپنے قمیض کو ہاتھ ڈالا اور کھینچ کر اتار دیا امی بھی اب ننگی ہوگئی اور چوہدری کے لن کو اپنے مموں پر مسلتی ہوئی مموں کے درمیان رکھ کر مسلنے لگی باجی نصرت اوپر چوہدری کے سینے آلگی چوہدری کو چوم رہی تھی باجی اور امی صحن میں ہی دروازے کے قریب ننگی چوہدری سے چمٹی تھیں جبکہ گیٹ کھلا تھا اور گلی کے گزرتے لوگ امی اور باجی کو ننگے چوہدری سے چمٹے دیکھ رہے تھے باجی نصرت چوہدری کو چومتی ہوئی نیچے لن کے پاس بیٹھ گئی اور امی کے مموں کو آگے ہوکر چومنے لگی امی لن مموں میں مسل رہی تھی باجی نصرت نے لن کھینچ کر مسلتی ہوئی چومنے لگی جس سے چوہدری سسک گیا باہر گیٹ کھلا تھا اور گلی سے گزرتے لوگ امی اور باجی نصرت کو چوہدری کے بازو جتنے لن سے کھیلتا اور چوستا دیکھ رہے تھے باجی لن کو مسلتی ہوئی ٹوپے کو چوم کر چاٹ کر منہ کھول کر لن کو منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے چوہدری سسک گیا باجی نے کس کر لن کو چوسا پڑچ کی آواز سے چھوڑ کر گھونٹ بھر گئی باجی ہانپتی ہوئی لن مسل کر چاٹنے لگی دوسری طرف سے امی بھی قریب ہوکر لن کو چاٹنے لگی امی اور باجی نصرت دونوں چوہدری کے لن پر ہونٹ رگڑتی ہوئی لن کو اپنے ہونٹوں سے مسلنے لگیں امی نے پورا لن چاٹ کر لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس کر چھوڑا اور نصرت کا منہ پکڑ کر نصرت کے ہونٹوں کو چوم کر باجی نصرت کا منہ انگلیوں سے دبا کر کھولا باجی نصرت نے اپنا منہ کھول کر امی کے منہ کے نیچے کردیا امی نے اوپر سے ایک بڑی سی تھوک تھو کر کر باجی نصرت کے منہ میں پھینک دی باجی نصرت نے تھوک منہ میں بھر کر دبا کر چوس لی اور منہ گھما کر واپس لن پر پھینک دی اور لن منہ میں بھر کر دبا کر چوس کر لن چھوڑ دیا امی نے منہ نصرت کے نیچے کھول دیا اوپر سے نصرت نے بھی تھوک امی کے منہ میں تھوک دی اور آگے ہوکر امی کے ہونٹوں کو چوسنے لگی چوہدری تو امی اور باجی کی مستیوں سے سسک کر کانپنے لگا تھا باجی نے ہونٹ چوستے ہوئے لن کو مسل کر ایک بڑی سی تھوک امی کے منہ میں پھینکدی امی نے لن کو چوسا اور تھوک واپس نصرت کے منہ میں پھینک دی چوہدری اب مزے سے تڑپ ے لگا تھا باہر گلی کے گزرتے لوگ امی اور باجی نصرت کی مستیاں دیکھ رہے تھے میرے گھر میں لڑائیوں پورن فلم چل رہی تھی جسے گلے کے گزرتے لوگ بھی دیکھ رہے تھے باجی نے گھونٹ بھر کر تھوک پی گئی اور ہانپتی ہوئی سسک کر لن کو منہ میں بھر لیا چوہدری اب پیک پر تھا اس سے رہا نا گیا چوہدری نے باجی نصرت کا سر پکڑ لیا اور لن دبا کر جھسے مارتا ہوا باجی نصرت کا منہ چودنے لگا باجی نصرت لن پر ہونٹ دبا کر چوسنے لگی چوہدری کا موٹا لن مشکل سے باجی نصرت کے منہ میں آرہا تھا جس سے باجی نصرت بھی ہانتپی ہوئی کراہنے لگی باجی کی گھوں نکل کر گلی تک جانے لگی جو گزرتے لوگ سن رہے تھے اور نصرت کا منہ لن سے چدتا دیکھ رہے تھے اسی لمحے امی آگے ہوئی اور نصرت کے منہ سے کافی باہر لن کو چومتی ہوئی زبان سے چاٹنے لگی جس سے چوہدری کی کراہ نکلی اور چوہدری سسک کر آہیں بھر کر رہ گیا اور دو تین دھکوں میں ہی نڈھال ہو کر کراہ گیا اور ایک لمبی منی کی دھار نصرت کے منہ میں مار کر رک کر کانپتا ہوا فارغ ہونے لگا چوہدری کے لن سے نکلتی منی سے باجی نصرت کا منہ بھر گیا باجی گھونٹ بھر کر چوہدری کی منی پینے لگی گلی سے گزرتے لوگ چوہدری کو باجی نصرت کے منہ میں فارغ ہوتا باجی کو منی پیتا دیکھ رہے تھے باجی نصرت کی باچھوں سے منی بہنے لگی جو امی آگے ہوکر چاٹنے لگی چوہدری کا پتا ہوا نصرت کے منہ میں فارغ ہو رہا تھا امی بولی نصرت کجھ منہ منہ اچ رکھیں میں وی چکھنی ہے نصرت نے آکھیں کھول کر امی کو دیکھا چوہدری کا کام ہوگیا تھا باجی نے منہ منہ میں روک لی اور منہ بھر ے پر لن چھوڑ دیا لن چھوڑتے ہی چوہدری کے لن کیمنی چھوٹی چھوٹی پچکاریاں مارتی نکل رہی تھی جو باجی نصرت کے گال پر گرنے لگی امی نصرت کو دیکھ کر نیچے ہوئی اور اپنا منہ کھول دیا باجی نصرت نے گلی میں گزرتے لوگوں کے سامنے منی اپنے منہ سے امی کے منہ میں کرولی کر دی جسے امی دبا کر چوس گئی تب کر لن سے نکلتی منی باجی نصرت گال کو تر کر گئی باجی نصرت مڑی اور منہ نیچے کرکے لن کو مسلنے لگی جس سے لن سے نکلتے منی کے قطرے باجی نصرت کے ماتھے اور منہ پر گرنے لگی گلی کے گزرتے لوگ باجی نصرت کے منہ پر گرتی منی کو دیکھ رہیے تھے باجی نے منہ کھولا اور منہ ساری چوس لی امی بھی گھونٹ بھر کر منی پی گئی نصرت لن کو چوستی ہوئی نچوڑ کر لن کو خالی کر دیا اور مسلتی لن چھوڑ دیا امی نے آگے ہوکر نصرت کے منہ پر لگی منی چاٹ کر پی گئی باجی اور امی لن کو مسلتی ہوئی چوسنے لگی دو منٹ میں لن پھر تن کر کھڑا تھا چوہدری بولا تھواڈے ماں دگہ اب تے ہک فوجی تو ودھ کے آگ اے امی مسکرا دی اور بولی آج تیرے کولو اپنی پھدی دی آگ مروانی اے بڑے دن ہوگئے ہینڑ توں نہیں ملیا چوہدری بولا سوہنے اسی تے حاضر ہاں پر پہلے نصرت دی چت دا سواد تے لئے ہوئے اور آگے ہوکر نصرت کی گت سے پکڑ کر نصرت اٹھا کر نصرت کے ممے مسلنے لگا امی لن چوستی رہی چوہدری نصرت کو چومتا ہوا صحن میں پڑی چارپائی پر نصرت کو گھٹنوں کے بل لٹا کر اپنے سامنے گھوڑی بنا دیا نصرت کی گانڈ کھل کر سامنے آگئی گلی سے گزرتے لوگ باجی نصرت کو چوہدری کے سامنے گھوڑی بنا دیکھ رہے تھے نصرت کی گانڈ نظر آرہی تھی گزرے لوگوں کو چوہدری نے اپنا لن نصرت کی گانڈ کی موری میں رکھ دیا باجی کی گانڈ نے چوہدری کا لن دبا لیا نصرت کی گانڈ میں رکھا لن گلی کے لوگ بھی دیکھ رہے تھے امی اوپر ہوئی اور باجی نصرت کی پراندے والی لمبی گت چوہدری کو پکڑا کر بولی چوہدری نصرت دی گت قابو کر کے پھڑ لئو نصرت تھواڈے قابو اچ رہسی تے گت نوں چھک کے نصرت نوں دوہرا کر لویائے تا کہ نصرت چھڑوا نا سگے اپنا آپ تھواڈے کولو چوہدری نے لن نصرت کی گانڈ میں سیٹ کیا چوہدری کا موٹا لن نصرت کی گانڈ سے زیادہ بڑا اور موٹا تھا لن کا موٹا ٹوپہ گانڈ پر سیٹ کر کے امی نے نصرت کا سر چارپائی سے لگا کر گانڈ کھولنے کو کہا جس سے نصرت کی گانڈ کھل کر ہوا میں اٹھ گئی اور گانڈ کی موری نظر آنے لگی امی نے باجی نصرت کے چوتڑ پکڑ کر کھول کر موری کھول دی اور لن پکڑ کر نصرت کی گانڈ کی موری پر سیٹ کر کے بولی چوہدری صاحب ٹوپہ پہلے اندر کرو چودری نے زور لگایا جس سے چوہدری کے لن کا موٹا ٹوپہ باجی نصرت کی گانڈ کو کھول کر اندر اتر گیا جس سے نصرت تڑپ کر کرلا سی گئی اور بے اختیار نصرت کی ہلکی سی چیخ نکل گئی جو باہر گلی میں گزرتے لوگ سن رہے تھے امی پیچھے ہوکر نصرت کے کاندھوں سے پکڑ کر بولی نصرت ہنڑ ہمت کریں پہلی وار اوکھی اے اگاں سواد آسی باجی سسک کر بولی امی میں تیار ہاں امی بولی چوہدری صاحب ہنڑ لن منڈ دیو چوہدری نے باجی نصرت کی گت ہاتھ پر ولیٹ کر کس کر دبا کر اپنی گانڈ کھینچی کر کھینچ کر پوری طاقت سے دھکا مار کر اپنا بازو جتنا لمبا موٹا لن یک لخت نصرت کی گانڈ میں جڑ تک اتار کر نصرت کی گت پوری طاقت سے اپنی طرف کھینچ لی جس سے لن باجی نصرت کی گانڈ کو چیرتا ہوا باجی نصرت کی گانڈ میں جڑ تک اتر گیا اور باجی نصرت چوہدری کے گت کھینچنے سے بکا کر اچھلتی ہوئی ہینگ کر زوردار چیخ مار کر دھڑکتی ہوئی پیچھے دوہری ہوتی چوہدری کے سینے سے جا لگی نصرت فتح کھینچنے سے گھٹنو پر اٹھ گئی اور درمیان سے نصرت کی کمر دوہری ہوکر پیچھے چوہدری کے سینے سے جا لگی باجی نصرت کی گانڈ چوہدری کے لن نے چیر کر رکھ دی تھی جس سے باجی نصرت بے اختیار پھڑکتی ہوئی گلہ پھاڑ کر چیختے ہوئی دھاڑتی ہوئی حال حال کرتی بکانے لگی گلی سے گزرتے لوگ نصرت کی دھاڑوں بھری حاکم حال سن رہے تھے نصرت کا جسم تھر تھر کانپتی ہوا پھڑکنے لگا نصرت کا سر گت کھینچنے سے آسمان کی طرف ہوگیا اور نصرت کا چہرہ لال سرخ ہوکر کانپتا ہوا ہلنے لگا نصرت گلہ پھاڑ کر دھاڑتی ہوئی بکاتی ہوئی تڑپ رہی تھی نصرت نے ہاتھ گت پر رکھ کر خود کو چھڑوانے کی کوشش میں نصرت کے ہاتھ پکیں آگے کوزور لگایا امی نے آگے ہوکر باجی نصرت کے ہاتھ پکڑ لیے اور بولی نصرت میری دھی ہمت کر کجھ نہیں ہوندا بس ہک وار ہی پیڑ ہونی ہا برداشت کر اور چوہدری سے بولی چوہدری صاحب رکو نہیں تسی چت مارو نصرت دی چوہدری بولا صرف نوں سنبھلنڑ تے دے امی بولی نصرت نوں میں سنبھال لیندی آں تسی چت مارو یہ کہ کر چوہدری نے لن کھینچا جو باجی نصرت کہ گانڈ کا ماس رگڑتا ہوا باہر نکلا لن تن کر سخت ہو رہا تھا لن نے باجی کی گانڈ پھاڑ دی تھی جس پر ہلکا سا خون لگا نظر بھی آرہا تھا باجی تڑپ کر کرلا گئی اگلے لمحے چوہدری نے رکے بغیر نصرت کی گت کھینچ کر پوری طاقت سے دھکے مارتا ہوا لن ٹوپے تک نکال کر کس کس کر باجی نصرت کی گانڈ کے آرپار کرنے لگا جس سے باجی نصرت تڑپتی ہوئی ہلال بکری کی طرح بکا کر اچھلی اور باجی نصرت کی حال حال نکل گئی باجی نصرت دھاڑتی ہوئی تڑپ کر حال حال کرتی ارڑا کر بولی اوئے ہال ہوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری چت پاڑ گہرائی اماں مینوں بچا کئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر نصرت ارڑا ارڑا کر گلاہ پھاڑ کر چیخ رہی تھی جس سے نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا نصرت بکاتی ہوئی ہینگنے لگی چوہدری رکے بغیر کس کس کر دھکے مارتا ہوا نصرت کی گت کھینچ کر پوری شدت سے کھینچ کر نصرت کو دوہرا کرکے اپنے سینے سے لگا کر پوری شدت سے نصرت کی گانڈ چیرنے لگا جس سے لن تیزی سے اندر باہر ہوتا نصرت کی گانڈ کو چھلیتا ہوا کاٹنے لگا جس سے باجی نصرت تڑپ تڑپ کر بکاتی ہوئی پھڑک ے لگی نصرت کی گت کھینچنے سے نصرت دوہری ہوکر پیچھے اپنی گانڈ سے لگ چکی تھی جس سے نصرت فل دوہری ہو رہی تھی چوہدری بھی گانڈ کی رگڑ سے نڈھال ہوکر کرلانے لگا تھا جس سے اس نے گانڈ کھینچ کر پوری طاقت سے جرک مار کر یک لخت لن نصرت کی گانڈ کے پار کرنے لگا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی اچھلی اور غرا کر پوری شدت سے بکا کر ہینگ گئی ایسا لگا کہ کھوتی زور س ہینگتی ہو جس سے گلی کے لوگ بھی نصرت کو ہینگتا ہوا سن رہے تھے چوہدری کراہتا ہوا تڑپنے لگا اور اپنی پوری طاقت سے جرکیں مارنے لگا جس سے نصرت ہل کر رہ گئی اور پھڑک کر اپنا گلہ کھول کر پوری طاقت سے نصرت دھاڑی اور دھاڑتی چلی گئی کہ نصرت کا سانس ٹوٹ گیا اور چوہدری کے لن کی جرکوں نے باجی نصرت کی آواز کھینچ کر دبا لی جس سے باجی نصرت اچانک چپ ہوگئی اور باجی نصرت کا جسم ڈھیلا پڑنے لگا چوہدری نے لن کھینچ کر آخری جرک ماری جس سے نصرت ہل سی گئی اور غرا کر چکا کر پھر بے سدھ ہوکر ہینگنے لگی ساتھ ہی چوہدری نصرت کی گانڈ میں لن جڑ تکا تار کر کراہ کر کانپتا ہوا فارغ ہونے لگا جبکہ باجی نصرت پھڑکتی ہوئی بے سدھ ہوکر پیچھے چوہدری کے سینے سے لگی تڑپ رہی تھی باجی نصرت پھڑکتی ہوئی حواس کھو کر بے ہو گئی امی آگے ہوئی اور جلدی سے نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے ہلتے مموں کر پکڑ کر مسل کر نصرت کو پکارتی ہوئی بولی نصرت نصرت ہمت کر بسس میری دھی ہوگیا بس بس ہمت کر نصرت اور آگے ہوکر نصرت کی گالیں تھپتپھانے لگی جس سے نصرت تڑپتی ہوئی پھڑکتی ہوئی ہائے ہائے کرتی ہینگنے لگی چوہدری نیچے ہوکر کانپتا ہوا فارغ ہوکر نصرت کو چوم کر رکاہنے لگا امی نصرت کو سنبھال رہی تھی نصرت بے سدھ ہوکر دوہری ہوئی کانپ رہی تھی نصرت کی گت چوہدری کے ہاتھ میں تھی اور چوہدری نصرت کی گت دبا کر کھینچ کر کراہ رہا تھا چوہدری کی منی باجی کی گانڈ نے نچوڑ لی باجی کی گت امی نے چوہدری کے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچ کی اور نصرت کو سیدھا کیا نصرت گت نکلتے ہی ربڑ کی طرح تیزی سے سیدھی ہوگئی چوہدری نے لن کھینچ کر نکال لیا جس سے لن نے نکلتے ہوئے باجی نصرت کی گانڈ کے اندر سے کافی سارا گلابی ماس کھینچ کر نکال لیا جس سے باجی کی گانڈ کا کھلا سوراخ نظر آنے لگا باجی تڑپ کر بکا کر ہوش میں آکر چلاتی ہوئی تڑپنے لگی امی نے ٹانگیں پکڑ کر سینے سے ملا دیں گانڈ کا سوراخ کھل کر نظر آنے لگے نصرت کی گانڈ بازار کی طرف تھی جس سے گلی سے گزرتے لوگ نصرت کی پھٹی گانڈ کا سوراخ اور نصرت کی گانڈ سے نکلا ماس دیکھ رہے تھے نصرت کراہیں بھرتی حال حال کرتی بکانے لگی نصرت کا جسم کانپنے لگا نصرت کا جسم پھڑک رہا تھا اور گانڈ کی موری کھلتی بند ہوتی جارہی تھی چوہدری پیچھے لیٹ گیا دوسری چارپائی پر جس سے اس کا تن کر کھڑا لن ہوا میں جھٹکے کھا رہا تھا جس پر نصرت کی پھٹی گانڈ کا ہلکا ہلکا خون نظر آرہا تھا امی نصرت کو سنبھالتی ہوئی سعدو کو آواز دی اتنے میں سعدو اندر سے کچھو دوا لائی بوتل میں امی نے جیسے پہلے ہی تیاری کر رکھی تھی سعدو باہر نکلی تو نصرت پھڑکتی ہوئی رکاہ رہی تھی وہ پاس آئی امی نے نصرت کی ٹانگیں پکڑا دیں اور نصرت کی کھلی گانڈ کے باہر نکلے گلابی ماس پر تیل ڈالا اور انگلی سے مسلنے لگی جس سے باجی نصرت کراہنے لگی امی کے مسلنے سے باہر نکلا گلابی ماس اندر چلا گیا جس سے باجی کو سکون ملا اور باجی نصرت کی گانڈ کا پنے لگی امی نے نصرت کو کوئی گولی دی اور آرام کرنے کےلیے کٹا دیا چوہدری اٹھ کر واشروم چلا گیا نصرت آرام کرنے لگی چوہدری واشروم سے نکلا اور امی کے پاس آ کر امی کو گت سے پکڑ کر اٹھا لیا امی چارپائی سے اتر کر چوہدری کے سینے سے لگ کر چوہدری کو چومنے لگی چوہدری امی کے موٹے ممے دبا کر مسلتا ہوا امی کو چوسنے لگا چوہدری کا پن تن کر کھڑا تھا چوہدری امی کو چوم کر بولا ہنڑ سعدو تے صدف نوں کدو یہاں انکی بولی سانوں کی اعتراض آج ہی یہ لئو وہ بولا نہیں کسے خاص موقع تے کردے ہاں امی بولی جیویں تسی اکھو چوہدری بولا فل حال توں گھوڑی توں گھوڑی بن امی ہنس دی اور بولی میں صدقے اور مڑ کر امی نے ے اپنی شلوار کا کھینچ کر اتار دی اور ننگی ہوکر سامنے گھوڑی بن گئی چوہدری نے امی کو صحن میں ہی گھوڑی بنا کر امی کی گت کھینچ کر مروڑ کر لن امی کی پھدی کے دہانے پر رکھ کر دھکے امرتا امی کو چودنے لگا امی تو پہلے ہی چدکڑ تھی امی مزے سے چدواتی رہی اور جلد ہی دونوں فارغ ہو گئے چوہدری اور امی دو تین بار کس کر چدائی کرتے تھک گئے چوہدری ہانپتا ہوا لیٹ گیا امی آٹھ کر واشروم گئی چوہدری کچھ دیر لیٹا رہا اور پھر نکل گیا امی لوگ کھانا بنانے لگے میں باہر نکل گیا شام کو گھر آیا تو باجی اٹھی بیٹھی تھی باجی کا چہرہ تو اترا اترا سا لگ رہا تھا کھانا کھا کر ہم سب سو گئے صبح اٹھے تو باجی فریش تھی آج سکول سے چھٹی تھی اس لیے آج سب لیٹ اٹھے کھانا کھا کر میں کچھ دیر آرام کیا میں باہر نکلا تو امی اور باجی نصرت بیٹھی تھیں مجھے دیکھ کر امی اور باجی نے سرگوشی کی اور باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں ان کو دیکھ کر منہ نیچے کر گیا باجی نصرت بولی بہزاد اوراں آ میں باجی کی بات سن کر باجی کی طرف چلا گیا باجی نصرت مجھے پکڑ کر پاس بٹھا لیا اور بولی جناب کدی سانوں وی ٹائم دے لیا کرو میں مسکرا کر بولا تسی آپ ہی مصروف ہو باجی ہنس دی اور بولی آج وہلی آں میں ہنس دیا باجی بولی میں تینوں کیو جئی لگدی آں میں بولا ٹھیک پھدی ہیں باجی بولی بس ٹھیک امی نوں کی آکھ رہیا ہائیں میں گھبرا سا گیا باجی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی جو امی نوں آکھ رہیا ہائیں او آکھ میں باجی کو مسکراتا دیکھ کر تھوڑا حوصلہ کرکے بولا باجی توں چنگی لگدی ایں باجی بولی اچھا جی میں بولا ہاں جی باجی اسوقت کسے ہوئے کپڑوں میں بیٹھی تھی باجی نصرت کے موٹے چتڑ اور موٹے تنے ممے نظر آ رہے تھے جس کو میں تاڑ بھی رہا تھا باجی مجھے تاڑتا دیکھ کر ہنس دی اور بولی وے جے دل کردا پیا اے تے کھل کے ویکھ میں شرما گیا اور مسکرا کر نظر اٹھا کر دیکھنے لگا باجی بولی وے نا شرما میں آپ آکھ رہی آں یہ کہ کر باجی نصرت مجھے پکڑ کر اپنی گود میں کھینچ لیا میں باجی کی گود میں بیٹھ گیا باجی بولی بھائی جو وی چاہیدا بے جھجھک منگ لئے آج میں باجی کو دیکھ کر بولا باجی پھدی چاہیدی تیری باجی نصرت ہنس دی اور بولی بس اتنی گل اور آگے ہوکر میرے ہونٹ چومتی ہوئی میرے ہاتھ اٹھا کر اپنے تنے مموں پر رکھ کر دبا کر مسلنے لگی میں سسک کر کراہ گیا اور باجی کے نرم گرم ہونٹوں کا لمس پا کر کراہ گیا باجی نصرت نے خود ہی میرا قمیض کھینچ کر مجھے چومتی ہوئی چوسنے لگی باجی نصرت کے گرم منہ کا لمس مجھے بے قرار کر رہا تھا میں مزے سے تڑپ کر کراہ رہا تھا باجی نے میرے تنے لن کو ہاتھ ڈالا اور مسل کر مجھے چوستی ہوئی اٹھی اور مجھے پکڑ کر اندر لائی اور اپنا قمیض اتار کر ننگی ہوگئی باجی نصرت کے تنے ممے ہوا میں اچھلنے لگے میں مزے سے مچل گیا باجی نصرت میرے سامنے بیٹھ کر میری شلوار کھینچ کر اتار دی میرا تنا ہوا لن باجی نصرت ہاتھ میں پکڑ کر مسل کر سسک گئی میں باجی نصرت کے نرم ہاتھ کا لمس لن پر محسوس کرکے مچل گیا باجی نصرت لن کو مسلنے لگی میں نصرت کے ممے دبا کر مسلنے لگا باجی آگے ہوئی اور میرے لن کو منہ میں دبا کر چوس لیا باجی نصرت کے گرم منہ کا لمس میری جان کھینچ کے لے گیا باجی میرا لن دبا کر چوستی ہوئی مسلنے لگی جس سے میں کراہ کر مچل گیا باجی لن کو ہونٹوں میں دبا کر چوسنے لگی میں باجی نصرت کے نرم ہونٹوں کی رگڑ سے کراہنے لگا باجی نصرت ہونٹ دبا کر میرا لن چوس رہی تھی مجھ سے رہا نا گیا میں بے اختیار آگے ہوا اور باجی کا سر پکڑ کر دبا لیا اور خود ہی جھٹکے مارتا باجی نصرت کا منہ چودنے لگا جس سے باجی نصرت کراہتی ہوئی سسکنے لگی میں دو منٹ تک دھکے مارتا ہوا نڈھال ہوگیا باجی نصرت کے منہ کی گرمی نے میری جان کھینچ لی میں کراہتا ہوا باجی نصرت کے منہ میں فارغ ہوگیا باجی نصرت میری منی نچوڑ کر پی گئی اور سسک کر بولی واہ بھائی تیری منی تے بڑی سوادی اے میں سسک کر ہانپ رہا تھا باجی کے منہ کو چودنےکا مزہ ہی اور تھا باجی میرا لن نچوڑ کر چوستی رہی میرا لن تن کر کھڑا ہوچکا تھا باجی اٹھی اور پیچھے لیر کر اپنی ٹانگیں اٹھا کر بولی کئے اپنی بھین دی پھدی مار لئے میں اٹھا اور باجی کی ٹانگوں کی طرف آکر باجی نصرت کی شلوار کھینچ کر اتار دی جس سے باجی نصرت سسک کر اپنی ٹانگیں پیٹ سے لگا لیں باجی نصرت کے موٹے چوتڑ نظر آرہے تھے باجی کی کھلی ہونٹوں والی پھدی میرے سامنے تھی باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ اسامے ور چوہدری کے لن کی مسلسل رگڑ سے جل کر براؤن ہو رہا تھے میں نے اوپر آ کر باجی نصرت کی پھدی پر لن رکھا اور کس کر دھکا مارا اور اپنی لن باجی نصرت کی پھدی میں اتار کر باجی نصرت کو چودنے لگا جس سے باجی نصرت سسک کر رکاہ گئی میں لن کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا ہوا باجی نصرت کی پھڈی کو چودنے لگا باجی نصرت کی پھدی اب کھل چکی تھی جس سے پھدی میں لن آسانی سے گھوم رہا تھا باجی سسکتی ہوئی کراہ رہی تھی دو منٹ میں میں اور باجی نصرت اکھٹے فارغ ہو گئے باجی ہانپتی ہوئی مجھے دیکھ کر مجھے اپنے اوپر کھینچ لیا اور مجھے چومتی ہوئی بولی اففف بھائی مزہ آیا کہ نہیں میں ہانپ کر بولا باجی نا پچھ بہوں سواد آیا باجی ہنس دی اور بولی جدو دل ہووے بےجھجھک میری پھدی مار لویں باہر دے لوگ توڑ گھر سکے مار جاندے میری پھدی توں تے میرا بھرا ہیں توں وی مار رج میں ہنس کر باجی کے ہونٹ چوم لیے باجی نصرت بولی ہور کوئی میرے لائق مجھے دیمی کا خیال آیا میں بولا باجی ہک گل کراں ناراض نا ہوسکیں باجی ہنس دی اور بولی نہیں ہوندی میں بولا باجی دیمی وی تیری پھدی منگ رہیا ہا باجی نصرت ہنس دی اور بولی تے توں ہامی بھر لئی میں بولا باجی اس اپنی بھین دی ھدی مروائی میرے کولو باجی ہنس دی اور بولی اچھا اپنی بھین دی پھدی دے کے تے تیری بھین دی مارو ہے میں بولا جی باجی ہنس دی اور بولی ثانیہ سواد دتا کہ نہیں میں بولا باجی بڑا سواد دتا باجی ثانیہ دی پھدی باجی بولی اچھا تے تیری بھین دی پھدی نہیں دتا میں بولا نہیں باجی تیری تے ڈھیر سواد دتا ہے باجی ہنس دی اور بولی ہلا ہک واری ہور مار اس خوشی اچ میں اوپر ہوکر جھٹکے مارتا باجی نصرت کی پھدی مارنے لگا باجی مجھے کھینچ کر میرے ہونٹ چوسنے لگی اور آہیں بھرتی نیچے سے جھٹکے مارتا میرے لن کو پھدی میں لینے لگی میں باجی نصرت کی پھدی مارتا مزے سے نڈھال کراہ رہا تھا باجی نصرت کراہ کر ہانپنے لگی میں دو تین منٹ تک لگاتار دھکے مارتا نڈھال ہوگیا اور کراہ کر باجی نصرت کے اندر فارغ ہوکر کراہنے لگا باجی نصرت مزے سے تڑپ کر کراہنے لگی اور میرے ساتھ فارغ ہونے لگی میں باجی نصرت کے اوپر گر گیا باجی مجھے چومنے لگی اور بولی بھائی توں تے بہوں سواد دیندا ایں روز مینوں یدھا کر میں ہنس دیا باجی بولی ہلا تے دینی نوں وی آکھیں مار لوگ میری پھدی میں ہنس کر باجی کو چومتا ہوا سائیڈ پر لیٹ گیا میں باجی نصرت کو چود چود کر تھک گیا تھا میں لیٹ کر باجی نصرت کو چودنے کے ایسے سرور میں تھا کہ میری آنکھ لگ گئی میں اٹھا تو باجی پاس نہیں تھی کافی وقت ہوگیا تھا میں اٹھا اور کپڑے ڈال کر باہر نکلا تو سامنے چوہدری ننگا لیٹا تھا اور باجی نصرت ننگی ہی اس کی ٹانگوں میں بیٹھی چوہدری کا بازو جتنا تنا لن چوس رہی تھی میں رک کر دیکھنے لگا باجی نصرت چوپے مارتی ہوئی اوپر ہوئی اور لن چھوڑ کر بیٹھ گئی اور پھر باجی نے وہی کل جو چھلا لائی تھی بڑا وہ اٹھا کر چوہدری کے لن پر ڈال دیا چوہدری سسک کر بولا اے کی باجی بولی میرے شہزادے نوں اپنی نشانی پا رہی ہاں چوہدری ہنس دیا نصرت نے لن میں چھلا ڈال دیا جس سے لن کی موٹائی اتنی تھی کہ لن کے درمیان میں جا کر چھلا رک گیا جس سے نصرت لن مسلنے لگی چوہدری بولا اے تے ایتھے کھلو گیا نصرت بولی کوئی گل نہیں ایتھے ہی ٹھیک اے چوہدری بولا اے تیری پھدی اچ لگسی گیا نصرت ہنس کر بولی کوئی گل نہیں مزہ بڑا آندا چھلے نال پھدی رگڑاون تے اور لن مسل کر چوپے مارنے لگی جس سے چوہدری سسکنے لگا باجی نصرت چوپے مارتی اٹھی اور چوہدری کے پاس لیٹ گئی چوہدری کا بازو جتنا لن تن کر کھڑا تھا جس کے درمیان میں چھلا نظر آ رہا تھا چوہدری باجی نصرت کو چومتا ہوا اوپر آگیا باجی لٹ کر ٹانگیں اٹھا لیں چوہدری باجی نصرت کی ٹانگوں کے درمیان آیا اور باجی نصرت کی ٹانگیں دبا کر کاندھوں سے لگا کر اوپر چڑھ آیا جس سے باجی نصرت کے چڈے کھل کر سامنے آگئے جس سے باجی کی پھدی کھل کر سامنے آگئی باجی نے چوہدری کا لن اپنی پھدی پر ٹکا کر ہانپنے لگا چوہدری نے اوپر ہو کر کس کر دھکا مارا اور اپنا کہنی جتنا لن یک لخت پورا جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتار دیا جس سے چوہدری کا کہنی جتنا لن یک لخت باجی نصرت کی پھدی میں اتر گیا چوہدری کے لن کا چھلا باجی نصرت کی پھدی کو رگڑتا کر چیرتا ہوا اندر گھس گیا جس سے باجی نصرت تڑپ کر کرلا اچھلی اور ارڑا کر دھاڑتی ہوئی حال حال کرتی بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی باجی نصرت تڑپ کر حال کرتی تڑپنے لگی چوہدری باجی کی حال حال سے تڑپ کر کرہا گیا اور لن کھینچ کر ٹوپے تک نکال کر کس کس کر دھکے مارتا پوری شدت سے باجی نصرت کی پھدی میں پن جڑ تک اتار کر تیزی سے چودنے لگا جس سے چوہدری کا لن تیزی سے باجی نصرت کی پھدی کے آرپار ہوتا باجی نصرت کی پھدی رگڑ کر چودنے لگا چوہدری کے لن پر لگا چھلا باجی نصرت کی پھدی میں تیزی سے اندر باہر ہوکر باجی نصرت کی پھڈی رگڑ کر چیرنے لگا جس سے باجی نصرت تڑپ کر بکاتی ہوئی حال حال کرنے لگی پورا گھر باجی نصرت کی درد بھری دھاڑوں سے گونج رہا تھا باہر گلی کے لوگ بھی باجی نصرت کی درد بھری دھاڑیں ون رہے تھے چوہدری گانڈ اٹھا اٹھا کر کس کس کر دھکے مارتا باجی نصرت کی پھدی کو پوری شدت سے چود رہا تھا جس سے لن تیزی سے باجی نصرت کی پھدی کے آرپار ہوتا باجی کی پھدی کو چیر رہا تھا لن پر لگا چھلا باجی نصرت کی پھدی میں اندر باہر ہوتے باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ اندر تک کاٹنے لگا جس سے چھلا لن کے ساتھ اندر باہر ہوتا پھدی کے ہونٹ رگڑ کر کاٹنے لگا تھا جس سے باجی تڑپ کر بکاتی ہوئی دھاڑیں مار کر حال حال کرنے لگی جس سے ایسا لگنے کہ باجی کے اندر لوہے کا راڈ پھرتا باجی کی پھدی کو چیر رہا ہو لن کا چھلا تیزی سے مسلسل باجی نصرت کی پھدی کو رگڑتا ہوا تیزی سے اندر باہر ہوتا باجی نصرت کی پھدی کو چیر کر کاٹتا ہوا باجی نصرت کی پھدی کا ماس چیر کر باہر نکل رہا تھا جس سے نصرت درد سے تڑپتی ہوئی پوری شدت سے کرلاتی دھاڑیں مار مار کر حال حال کر رہی تھی لن کے چھلے کی مسلسل رگڑ سے پھدی کے ہونٹ پھٹ گئے تھے جس سے باجی نصرت کی پھدی سے ہلکا ہلکا خون نکلنے لگا اور باجی نصرت بے اختیار تڑپتی ہوئی بکا کر کرلا رہی تھی چوہدری بھی مزے سے کراہ رہا تھا اور پوری شدت سے دھکے مارتا ہوا پھدی و چودنے لگا جس سے لن کا چھلا باجی نصرت کی پھدی کا ماس کاٹتا ہوا الگ کرنے لگا جس سے باجی نصرت تڑپ کر بکا کر ہینگتی ہوئی اچھلی اور چوہدری کے سینے پر ہتھ رکھ کر دبا کر بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے بس کر چوہدری صاحب بس کر میں مر گئی آؤں وے بس کر میں مردی پئی آؤں آاااااا اااماااااااں اااماااااااں اااماااااں میں نت گئی اماااااں میں مر گئیںصرت پوری شدت سے تڑپتی ہوئی ارڑا کر پھڑکنے لگی چوہدری کے لن کے جھٹکے پوری طاقت سے نصرت کی پھدی کےا ندر باہر ہو رہے تھے جس سے چوہدری کے لن کا چھلا تیزی سے اندر باہر ہوتا باجی نصرت کی پھدی کا ماس کاٹ کر باہر پھینکنے لگا ایسا لگ رہا تھا لن کا چھلا باجی نصرت کی پھڈی کو چھیلتا ہوا پھدی کا ماس کاٹ کر باہر نکال رہا تھا جس سے باجی تڑپ کر ارڑاتی ہوئی حال حال کرتی پھڑکنے لگی باجی کی دھاڑیں اتنی بلند ہو گئی کہ پوری گلی میں سنائی دینے لگیں امی قریب آئی اور پھدی کا حشر دیکھا تو چھلا نصرت کی پھدی کو کاٹ رہا تھا جس سے اب خون بہنے لگا تھا امی بولی وے چوہدری بس کر چھویر مردی پئی ہئی پر اسی لمحے چوہدری کا کام ہوگیا اور چوہدری کراہتا ہوا نصرت تکی پھدی میں لن جڑ تک اتار کر رک کر فارغ ہوگیا باجی نصرت تڑپ کر دھاڑتی ہوئی بکاتی پھڑکنے لگی باجی کا چہرہ لال سرخ تھا اور آنکھوں ےا نسو تھے جبکہ جسم پھڑک رہا تھا امی بولی آف میں مر جاواں نصرت آج تے ظل کروایا ہئی چوہدری کراہتا ہوا نصرت کے اوپر گر کر نصرت کو چومنے لگا نصرت ہانپتی ہوئی پھڑکتی جا رہی تھی باجی کے اوپر دو منٹ تک چوہدری پڑا رہا اور بولا نصرت آج تے ظلم کروایا ہئی نصرت کراہ کر بولی افففف چوہدری صاحب درد تے ہویا پر سواد بڑا آیا اے چوہدری بولا ہلا ہک واری ہور کراں نصرت بولی کر لئو کے فل ہے تے میں برداشت کر جاساں وہ بولا نا میری جان بس اور پیچھے ہوکر لن کھینچ لیا جس سے نصرت تڑپ کر کراہ گئی چوہدری کے لن پر نصرت کی پھدی کا خون لگا تھا چوہدری پیچھے ہوکر لیٹ گیا باجی نصرت کی پھدی کھلی پڑی تھی امی نصرت کو سنبھالنے لگی اور نصرت کی پھدی کو صاف کیا جس سے نصرت کی پھدی کا دہانہ چھلے کی رگڑ سے کھل سا گیا امی نے لن کا چھلا دیکھا تو اس پر باجی نصرت کی پھدی کا کافی سارا ماس جو اس نے چھیل کر الگ کردیا تھا وہ لگا ہوا امی نے چھلا اتار کر نصرت کو دکھایا اور بولی ویکھ چھلے تیری پھدی دا ماس رگڑ کے چھل دتا ہے نصرت سسک کر بولی افففف امی پر سواد بڑا آیا اے امی بولی نصرت تیری آگ تینوں چین نہیں لینے دے رہی نصرت ہنسدی اور بولی امی میرے اندر آگ بھری ہوئی اے اے چھلا تے کجھ وی نہیں ہوتا لوہے دا راڈ تن دے کوئی پرواہ نہیں اور آنکھیں بند کرکے لیٹ گئیں چھلے نے نصرت کی پھدی پھاڑ کر رکھ دی تھی سے نصرت تڑپ رہی تھی چوہدری اٹھا اور واشروم سے ہوکر کر چلا گیا باجی کو امی نے دوا دی باجی اندر آرام کرنے لگی میں باہر نکل گیا میں باہر نکل گیا میرے بال کافی بڑھے ہوئے تھے میں گلی کی نکڑ پر کاشو کے حمام پر گیا کاشو نشئی اور چرسی تھا رنگ کا کالا اور بھرے ہوئے جسم کا مالک تھا ذات کا مصلی تھا میں حمام پر گیا تو کاشو مجھے دیکھ کر مسکرا کر بولا او اؤ جی شہزادے آج ساڈے حمام وچ بڑے دنوں بعد آیا ایں میں بولا ہاں بھائی آج کٹنگ کر میری وہ بولا آؤ جی جناب کر دیندے آں اور مجھے بٹھادیا چئیر پر میں چئیر پر بیٹھ گیا ویسے کاشو کبھی مجھے منہ نہیں لگاتا تھا میری کٹنگ بھی اسکا شاگرد ہی کرتا تھا جو اس کا بھتیجا تھا وہ بھی کالا سا تھا میں حیران تھا آج بڑی علیک سلیک کر رہا تھا بال کاٹتے ہوئے اس نے مجھے کہا اور سنا بہزاد کی حال چال اے میں بولا ٹھیک آں وہ پھر بولا سنا آج کل تے موجاں ہورہیاں بڑیاں تیری بھین تے موجاں لائیاں ہویاں میں یہ سن کر مسکرا دیا اور سمجھ گیا کہ وہ یہ سب کس لیے کر رہا ہے میں بولا ہاں جی باجی دی مرضی وہ بولا اچھا ویسے ہک میرا کم وی کرسیں میں بولا کی وہ بولا اپنی باجی نوں میرا وی سلام دے دئیں اکھیں کاشو سلام دے رہیا ہا میں بولا اچھا جی دے دیساں وہ مجھے دیکھ کر چہک کر بولا سچی میں بولا ہور کی بس تھوڑا مال لگسی وہ مجھے دیکھ کر ہنس دیا اور بولا واہ شہزادے پورا ٹبر ہی کاروباری ہو میں بھائی مفت وچ ہنڑ کون دیندا وہ بولا اچھا تیری بھین دا ریٹ کی ہے ویسے میں بولا باجی دا ریٹ تے اسامہ تے چوہدری جو دے رہے او توں نہیں دے سگدا وہ بولا اچھا فر اسدا مطلب ہے نصرت دا سواد اسامہ تے چوہدری ہی لینڑاں میں کاشو کا شوق دیکھ کر بولا نہیں یار تیری گل کرساں گیا باجی نال وہ یہ سن کر بولا سچ یار تیری بھین من جاسی کیونکہ پنڈ دی جہڑی چھویر اسامے تے چوہدری کول سوندی اے اس دے نیڑے دوجا کوئی نہیں جا سگدا میں بولا باجی نوں اجازت اے او اپنی مرضی کر سگدی اے وہ بولا اچھا یار فر تے میری گل کر اس نوں تیری کٹنگ وی مفت کرساں تے نصرت نوں وی راضی کرساں میں مسکرا کر اسے دیکھا اور بولا اچھا وہ بولا یار ویسے ہک گل اے آج تک پنڈ وچ انج کسے کم نہیں کیتا سرعام تیری بھین پہلی واری کر رہی اے پنڈ دیاں دوجیاں لڑکیاں دی وی ہمت ودھ گئی اے نصرت نوں بازار اچ چدویندیاں ویکھ کے میں بولا چنگا ہی ہے جس دا دل کیتا اور یہاں لیسی وہ ہنس کر بولا ویسے تیری بھین نصرت جتنی شریف تے نیک لگدی ہا اس توں ودھ یک لگدی اے میں ہنس دیا اور کٹنگ کروا کر وہاں سے نکلا میں گھر آگیا باجی نصرت کی پھدی تو آج چھیل کر رکھ دی تھی چوہدری کے لن کے چھلے نے میں واشروم میں نہانے کےلیے جانے لگا میں کیچن کے پاس سے گزرا تو سامنے میری نظر پڑی تو اسامہ امی کو پیچھے سے چمٹا ہوا امی کو گھوڑی بنا کر امی کی گت کھینچتا ہوا امی کو چودا رہا تھا جس سے امی کراہ کر تڑپ رہی تھی میں رک کر امی کو چودتا دیکھنے لگا اسامہ امی کو گھوڑی بنا کر دوہرا کیے کس کس کر دھکے مارتا چود رہا تھا میں مزے سے امی کو چدتا دیکھ رہا تھا دو سے تین منٹ میں اسامہ اور امی فارغ ہوکر نڈھال ہوکر ایک دوسرے کو چومنے لگے میں نہانے چلا گیا نہا کر نکلا تو اسامہ اسی طرح سے امی کو دہرا کرکے چود رہا تھا امی کی اچھی طرح چدائی کرکے اسامہ نڈھال ہوکر کراہ گیا اور کچھ دیر امی ہے اوپر جھکا امی کو چومتا رہا اور پھر کپڑے پہن کر نکل گیا امی شام کا کھانا بنانے لگی میری دوسری دونوں بہنیں مجھے نظر نہیں آ رہی تھیں میں کپڑے ڈال کر نکلا تو صدف ہمسائی کے گھر سے نکل کر گھر کی طرف ا رہی تھی اب میری بہنیں بھی فیشن کرنے لگی تھیں گاؤں کی لڑکیوں کی طرح پہلے وہ خود کو ڈھانپ کر رکھتی تھیں اب وہ بھی کھل گئی تھی پردہ ہٹ چکا تھا صدف نے ایک کسی ہوئی شرٹ ڈال رکھی تھی جس میں اس کا انگ انگ نظر آ رہا تھا اس کی عمر 16 وے 17ںسال تھی اس حساب سے جسم بھی چھوٹا سا تھا لیکن اس کی اداؤں سے لگ رہا تھا کہ وہ فل جوان ہو چکی ہے گلی میں سب اکثر ہمارے گھر کے پاس گاؤں کے اوباش اور ان کے باہر کے دوست منڈلاتے رہے تھے اب بھی ایک جھرمٹ سا کھڑا تھا صدف کسی ہوئی شرٹ اور ٹراؤزر میں تھی جس سے صدف کے چھوٹے ابھرے ہوئے ممے نظر آ رہے تھے جسے دیکھ کر پاس کھڑے اوباش صدف کو چھڑنے لگے جس سے صدف مسکرا کر انہیں دیکھتی ہوئی آگے کو چلتی اندر چلی گئی میں اسے دیکھ رہا تھا صدف اندر چلی گئی میں وہیں گھومنے پھرنے لگا شام کو میں گھر آیا کھانا کھا کر میں سو گیا صبح جاگا تو باجی نصرت بھی اٹھ چکی تھی وہ اب کچھ سنبھل چکی تھی میں تیار ہوکر کھانا کھانے لگا اتنے میں باجی نصرت اور سعدیہ کیچن میں آئیں آج باجی نصرت نے کسا ہوا قمیض ڈال رکھا تھا جو باجی نصرت کے گھٹنوں تک تھا نیچے باجی نے کسی ہوئی شلوار ڈال رکھی تھی جو باجی نصرت کی پنڈلیوں تک تھی باجی کے تنے ممے اور چوڑی گانڈ نظر آرہی تھی کسی ہوئی باجی نصرت نے اج اپنے بال کھولے ہو تھے سعدیہ بھی اج کسے ہوئے لباس میں تھی اس کے تنے مموں کے نپلز نظر آرہے تھے امی سعدیہ کو دیکھ کر بولی سعدو توں ہلے پردے اچ ہی رہو سعدیہ بولی کیوں امی امی بولی توں ہلے چوہدری دی امانت ہیں چوہدری اپنی امانت پوری کر لوے وت جو مرضی کریں باجی ہنس دی اور بولی امی میں تے ہنڑ آزاد ہاں نا میں تے اپنی مرضی کر سگدی ہاں امی ہنس کر بولی میری جان تینوں تے چوہدری صاحب آپ اجازت دتی اے کہ جو مرضی کر بھانویں ننگی پھر نصرت یہ سن کر بولی سچی امی امی ہنس دی نصرت کھانا کھلاتی ہوئی بولی امی وت تے اج میں بغیر شلوار تو جاساں آج سکول امی ہنس دی اور بولی نصرت تھوڑی ٹھنڈی پئو سانوں پتا تینوں آگ لگی ہوئی باجی ہنس دی اور بولی امی ہنڑ تے مینوں آزادی دی زندگی دے مزے لینے دے امی ہنس کر بولی لئے میری جان میں کوئی منع کر رہی آں یہ سن کر وہ ہنس دیں اور اپنی گانڈ اٹھا کر اپنی شلوار کھینچ کر گھٹنوں تک اتار دی اور اپنی گانڈ نیچے پیڑھی پر رکھ کر اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی شلوار کھینچ کر اتار دی باجی نصرت کی چوڑی گانڈ ننگی ہو گئی اور سامنے سے باجی نصرت کی پھدی کے کھلے ہونٹ نظر آنے لگے باجی نصرت کے گورے چتڑ اور ٹانگیں ننگی ہو رہی تھیں میں باجی کی پھدی کے ہلکے براؤن ہونٹ دیکھ رہا تھا باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھلا تھا اور چوہدری کے لن کے چھلے سے پھدی کا کٹا ماس لٹکتا ہوا نظر آرہا تھا باجی کا قمیض کسا ہوا گھٹنوں سے اوپر تک تھا جس سے باجی کی ننگی ٹانگوں اور رانوں کا گورا حصہ نظر آرہا تھا کھانا کھا کر ہم سکول کےلیے نکلے باجی نے آج اپنی شلوار بھی ساتھ رکھ لیں جو سکول میں اس نے پہننی تھی ہم باہر نکلی تو گلی میں وہی اوباش لڑکے باہر کھڑے تھے باجی نصرت کو ننگا دیکھ کر وہ لڑکے باجی نصرت ہو دیکھ کر سیٹیاں مارنے لگے باجی ہنس دی باجی بغیر شلوار کے چلتی جا رہی تھی لڑکے بھی ساتھ ہی چل پڑے اور باجی نصرت کو پکارتے ہوئے ہمارے پیچھے آ رہے تھے باجی نصرت مسکراتی ہوئی گانڈ مٹکا کر چلی جا رہی تھی باجی چلتی ہوئی گلی میں سب کو ننگی دکھا رہی تھی ہم سکول پہنچ گئے تو باجی نصرت نے شلوار اور چادر لے لی سکول میں بھی بات پھیلی ہوئی تھی ہم کلاس میں تھے دیمی مجھ سے بولا یار باجی نوں آکھ کلاس اچ وی ساڈے کولو پردہ نا کیتا کرے باجی کے کارنامے تو پورے گاؤں کو پتا تھے اس لیے بات تو اب چھپی نہیں تھی میں نے اسے خوش خبری سنائی کہ باجی تیرے ساتھ کرنے کو مان گئی ہے وہ خوش ہوگیا کلاس میں لڑکے اب باجی سے پڑھنے سے زیادہ باجی کا جسم ٹٹولتے رہتے تھے پر باجی نے ڈھانپ تھا ہم واپسی پر نکلے تو باجی نصرت چھیدے کی دکان پر پہنچی تو سعدو اور مجھ سے بولی گھر چلو میں آئی اور دکان کے اندر چلی گئی باجی نصرت نے اب چھیدے سے بھی چدوانا تھا میں گھر آیا بیگ رکھ کر منہ ہاتھ دھو کر واپس دکان کی طرف گیا میں نے اندر جھانکا تو باجی اور چھیدا ننگے تھے باجی چھیدے کا چوپا لگا کر اسے فارغ ہوچکا تھا اب چھیدا باجی نصرت کی ٹانگیں اٹھا کر لن باجی نصرت کی پھدی میں گھماتا باجی نصرت کی پھدی مارتا ہوا چود رہا تھا باجی نصرت کراہتی ہوئی آہیں بھرتی چدوا رہی تھی چھیدا تیز تیز دھکے مارتا ہوا باجی نصرت کو چود رہا تھا جلدی ہی باجی کے اندر فارغ ہوگیا باجی بھی اسے چومنے لگی دونوں کچھ دیر پڑے رہے اور ایک بار پھر باجی کو چھیدے نے اچھی طرح چودتا ہوا باجی نصرت کےا ندر فارغ ہوگیا میں دیکھ کر مچل رہا تھا باجی نصرت اٹھی اور اپنی شلوار اٹھا کر ننگی ہی باہر نکلی اور چلنے لگی گھر کے دروازے پر پہنچ کر باجی نصرت کو وہی اوباش لڑکے ملے اور بولے نصرت کدی سانوں وی ٹائم دے دے اسی تے تیرا دروازہ مل کے بیٹھے ہاں باجی نصرت ہنس دی اور بولی تھواڈا امتحان ہے پاس کرو اور ہنس دی ایک لڑکا آگے بڑھا اور باجی کا ہاتھ پکڑ کر بولا سوہنیے چھیدا کوئی سادے نالو سوہنا اے سانوں وی لفٹ کروا باجی ہنس کر اس سے بازو چھڑواتی بولی جناب میری مرضی جس کول جاواں وہ باجی کو اپنی سینے سے لگا کر بولا جناب ساڈے کول وی آجاؤ باجی ہنس دی اور اس کے قریب ہوکر بولی جناب جلد ہی اجاساںا ور آگے ہو کر باجی نصرت اسے چومنے لگی وہ بھی باجی نصرت کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا باجی کو دبوچ کیا باقی لڑکے باجی نصرت کو دیکھ رہے تھے باجی نصرت گلی میں کھڑے ہوئی کر لڑکے ساتھ لگی اسے چومتی ہوئی پٹی تو اس نے باجی نصرت کے ممے دبا کیے باجی نے ممے چھڑوائے ایک اور لڑکا بولا ہائے نصرت اپنے جسم دا نظارہ تے کروا دے اپنے دیوانیاں باجی رک سی گئی اور ہنس کر اپنا قمیض کھینچ کر اتار کر ان کی طرف اچھال کر بولی لئو میرے دیوانوں ویکھ لئو رج کے باجی نصرت بازار میں ننگی ہو چکی تھی اور سب لوگ باجی نصرت کو ننگا دیکھ رہے تھے لڑکے باجی جو ننگا دیکھ کر مچل گئے اور باجی کی طرف آنے لگے باجی ہنستی ہوئی بھاگ کر اندر گھر میں آگئی باجی کے بھاگنے سے باجی نصرت کے ممے پھڑکنے لگے باجی اندر داخل ہوئی تو امی باجی نصرت کو دیکھ کر ہنس دی اور بولی وہ میری دھی چھا گئی ہیں باجی نصرت ہنس دی اور اندر گئی میں کھانا کھانے لگا کھانا کھا کر میں نکلا تو اسامہ آگیا اور باجی نصرت کو پکڑ کر چودنے لگا باجی بھی اسامے کے ساتھ مزے کرتی چدوا رہی تھی اسامے نے باجی نصرت کو دو تین بار چودا میں تب تک باہر آگیا میں باہر آیا تو مجھے دیمی ملا دیمی مجھے دیکھ کر ہنس دیا میں بولا یار باجی ہنڑ اسامے کولو چدوا رہی اے وہ بولا فر کس ٹائم میں بولا جھٹ تک جاندے آں اور دکان پر چکے گئے جہاں کچھ کھا پی کر باتیں کرنے لگے اتنے میں اسامہ واپس جاتا نظر آیا تو میں دیمی کو لے کر گھر کی طرف چل دیا گھر پہنچ کر میں نے دروازہ کھولا تو باجی نصرت سامنے کھڑی تھی وہ فل ننگی تھی میں نے دیمی کو اندر بلا کیا جس سے دیمی اندر آیا اور باجی نصرت کو ننگا دیکھ کر ہنس دیا باجی ہنس کر بولی اؤ جی میرے عاشقو اور ہنس دی دیمی باجی نصرت کی طرف چل دیا اور باجی سے ملا باجی نصرت اسے اپنے قریب کیا اور اسے چومنے لگی باجی کو دینی دبا کر چومتا ہوا چوس رہا تھا باجی اسے اندر لے کر چلی گئی اندر جا کر دیمی بھی ننگا ہوگیا اس کی چھوٹا سا لن کھڑا تھا باجی اسے باہوں میں بھر کر چومنے لگی میں باجی کو دینی سے پیار کرتا دیکھ رہا تھا دیمی باجی کے ممے دبا کر چوس رہا تھا باجی نیچے جھکی اور باجی نصرت دیمی کا لن دبا کر چوسنے لگی باجی لن کچھ دیر چوستی ہوئی دبا کر چوپے مار رہی تھی دیمی ایک منٹ میں باجی نصرت کے منہ میں جھڑ گیا باجی دیمی کی منی پی گئی باجی منی نچوڑ کر چوس گئی اور دیمی کے لن کو چوس رہی تھی اور کھڑا کرکے مسلنے لگی باجی نصرت پیچھے ہوکر لیٹ گئی اور ٹانگیں اٹھا لیں دیمی نیچے ہوا اور باجی نصرت کی پھدی میں پن دبا کر باجی نصرت کو چودنے لگا باجی نصرت سسکتی ہوئی آہیں بھرتی چدوانے لگی دیمی کس کس کر دھکے مارتا باجی نصرت کو چود رہا تھا دو تین منٹ میں دیمی باجی نصرت کے اندر فارغ ہوکر باجی نصرت کے اوپر گر گیا باجی بھی آہیں بھرتی دیمی کو چومنے لگی باجی کی پھدی دیمی کا لن نچوڑ گئی دیمی سسک کر باجی کو چوم رہا تھا باجی اسے۔ دبا کر چوم کر بولی ہور میری جان ہنڑ راضی ایں میرے تے دیمی بولا باجی ہک گل کراں باجی بولی بولو جناب دیمی بولا باجی کلاس دے لڑکے آکھ رہے ہانڑ کہ سانوں وی نظارے کروائے کرو باجی ہنس کر بولی کملیا ہوں میں تھواڈی استانی ہاں حیا کرو دیمی بولا وت کی ہویا باجی کلاس اچ وی سواد دیویں تاں اسی راجی ہو جاساں باجی نصرت بولی ہلا وے کجھ سوچدی آں تے ہنڑ میری پھدی مار لئے ہور دیمی نے ایک بار پھر باجی نصرت کی پھدی کو چود چود کر نڈھال ہوگیا اور چلا گیا میں اندر گیا تو باجی لیٹی پڑی تھی باجی نصرت بولی تیرا وی موڈ ہے تے آجا میں بولا باجی ہک گل کرنی ہے باجی بولی توں ہن کی آکھنا میں بولا باجی کاشو حمام آلا تیرا ٹائم منگ رہیا ہا باجی نصرت ہنس کر مجھے دیکھا اور بولی کی آکھ رہیا میں بولا آکھ رہیا ہا کہ نصرت نوں آکھ سانوں وی ٹائم شائم دتا کرے باجی ہنس کر بولی اچھا جی میں بولا جی باجی بولی تیرا کی خیال اے دینا چااہیدا میں بولا باجی میں تے اس نوں آکھیا مال پانی دے تے باجی تیار ہے باجی نصرت ہنس کر میرے گال پر تھپکی ماری اور بولا میرا دلال بھر گل مکا وی آیا تے میری وے کہڑی ناہ میں ہنس کر بولا سچی باجی بولی میری جان تیرا گاہک ہے میں بھلا کوئی ناہں کرنی تینوں میں تیار آں اس نوں آکھ تیار رہوے کسے ٹائم وی میں آجاساں گئی میں ہنس دیا اور باجی نصرت کو چومتا ہوا اوپر آیا اور دبا کر کر اپنی بہن کی پھدی کو مسل مسل کر چودا اور تھک ہور کر باجی نصرت کے اوپر ہی گر گیا باجی بھی تھک گئی تھی باجی لیٹ گئی اور باجی نصرت کی اور میری آنکھ لگ گئی میں کچھ دیر بعد اٹھا اور باہر چلا گیا میں کاشو کے پاس گیا اسے بتایا کہ باجی کہ رہی تیار رہو کسی بھی وقت ملاقات ہو سکتی ہے وہ خوش ہوگیا اور مجھے 500 کا نوٹ دیا میں خوشی سے کے کر نکلا اور دکان پر کھانے پینے لگا دیمی بھی میرا ساتھ تھا اس کے ساتھ وہاں گھومتا رہا شام سے تھوڑا پہلے ہم لوگ گلی کی نکڑ پر ہی کھڑے تھے میں گھر جانے لگا تھا گلی میں کچھ رش تھا لوگ ا جا رہے تھے ویسے بھی اس وقت گلی میں ہمارے گھر کے آس پاس اوباشوں کا رش سا لگ جاتا تھا ہر کوئی میری بہن نصرت کا عاشق ہوگیا تھا اور ایک وقت چاہتا تھا اس لمحے باجی نصرت گھر سے نکلی تو دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے باجی نصرت اسوقت صرف منی شرٹ میں تھی جو باجی نصرت کی گانڈ سے تھوڑا نیچے تک تھی جس سے باجی نصرت کی صرف پھدی ڈھانپ رکھی تھی میں یہ منظر دیکھ کر رک گیا باجی نصرت نے نیچے کچھ نہیں پہن رکھا تھا شرٹ کے بازو نہیں تھے باجی نصرت کے گورے بازو اور گورے ننگے پاؤں نظر آرہے تھے باجی نصرت کی گول رانیں چمک رہی تھیں باجی نصرت کی چوٹی گانڈ شرٹ سے ننگی جھانک رہی تھی شرٹ کسی ہوئی تھی جس سے باجی تقریباً ننگی ہی تھی میں باجی نصرت کا سیکسی انداز دیکھ رہا تھا باجی نصرت نے نیچے ہائی ہیل ڈال رکھی تھی باجی کے ہوا میں اکڑے ممے نظر آ رہے تھے میں یہ منظر دیکھ کر بے قرار ہو رہا تھا گلی کا ہر بندہ ہی بے قرار تھا باجی نصرت اپنی ننگی گانڈ مٹکاتی ہوئی چلتی ہوئی کاشو کے حمام کے پاس آگئی کاشو باجی نصرت کو دیکھ کر خوشی سے چہک گیا اور باہت نکل کر بولا آؤ جی جناب آج ساڈے غریب خانے تے ا کے سانوں عزت بخشی باجی مسکرا دی کاشو نے ہاتھ آگے کیا باجی نے کاشو کے ہاتھ میں گورا ہاتھ دے دیا کاشو نے اوپر کھینچ لیا تھڑے پر باجی نصرت اپنی گوری ٹانگ اوپر اٹھا کر سیکسی انداز میں اوپر چڑھ کر اپنی گانڈ گلی کے لڑکوں کی طرف کی جس سے۔ باجی نصرت کی شرٹ گانڈ سے اوپر ہوگئی اور پیچھے سے باجی نصرت کی گانڈ ننگی ہوگئی جس سے باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی سب کو نظر آگئی جس سے سب لوگ مچل کر کراہ گئے باجی ہنستی ہوئی کاشو کے ساتھ اندر حمام میں چلی گئی اندر جا کر باجی نصرت نے کاشو کو جپھی میں بھر کر دبوچ لیا اور بولی جناب اوراں دا حکم سی اسی آگئے کاشو مسکرا کر باجی نصرت کو باہوں میں۔ بھر کر چوسنے لگا باجی بھی اسکے ساتھ لگ کر اس کا ساتھ دیتی چومتی رہی اور پھر وہ بولا جناب ایتھے بیٹھو تھواڈے واسطے کی کئے اوئے باجی ہنس کر بولی کاشو کچھ نہیں بس اپنا کم کر جو تینوں چاہیدا لئے لئے باجی پیچھے کرسی پر چڑھ کر بیٹھ گئی اور اپنی ٹانگیں اٹھا کر کرسی پر رکھ کر اپنے چڈے کھول دئیے جس سے باجی نصرت کی پھدی کھل کر کاشو کے سامنے آگئی کاشو کے منہ میں پانی آگیا کاشو بولا واہ میری جان توں تے جان کڈھ لیسیں باجی ہنس دی اور اپنے چڈے کھول کر بیٹھی رہی کاشو نے دراز کھولا اور اندر سے ایک پائل نکال لی جس پر چھوٹی سی جھانجر لگی تھی اور وہ ہلانے سے بج رہی تھی باجی نصرت یہ دیکھ کر مسکرا دی کاشو باجی نصرت کو پائیل پہنا کر بولا میری جان نوں اپنے پیار دی نشانی پا رہیا آں باجی ہنس دی اور بولی کاشو ہنڑ توں کی چاہناں ایں کاشو بولا نصرت اسی تے تیرا پیار چاہندے آں باجی مسکرا کر اٹھی اور کاشو کی شلوار کا نالا کھینچ کر اسے چومتی ہوئی اس کا لن مسلنے لگی کاشو سسک کر کرہا گیا اور اپنا قمیض بھی اتار دیا باجی اسے چومتی ہوئی نیچے بیٹھ کر کاشو کے لن کو مسل کر منہ میں ڈال کر چوپے مارتی چوسنے لگی کاشو لن کو باجی منہ میں محسوس کرکے کرہانکر مسل گیا باجی نصرت لن دبا کر چوپے مارتی ہوئی چوس رہی تھی جس سے کاشو بھی کراہ کر آہیں بھرتا کانپنے لگا باجی نصرت ہونٹ دبا کر لن کو چوس رہی تھی جس سے کاشو جلدی ہی باجی کے منہ میں نڈھال ہوگیا باجی نصرت کراہ کر سسکتی ہوئی آہیں بھرتی جا رہی تھی باجی نصرت کی کاشو کا مال پی گئی اور پھر چوس چوس کر لن کھڑا دیا باجی اٹھا تو کاشو نے باجی کو فل ننگا کرکے کرسی پر لٹا کر ٹانگیں اٹھا لیں اور لن باجی نصرت کی پھدی پر رکھ کر دھکا مار کر باجی نصرت کو چودنے لگا جس سے باجی نصرت تڑپتی ہوئی کراہ گئی اور مزے سے کاشو سے چدوانے لگی باجی نصرت کی پھدی چوہدری اور اسامے کے لن نے کھول دی تھی جس سے اب باجی لن مزے سے لیتی تھی کاشو کس کس کر دھکے مارتا ہوا باجی نصرت کو پوری شدت سے چود رہا تھا باجی نصرت مزے سے کراہتی ہوئی آہیں بھرتی کراہ رہی تھی باجی کی کراہوں سے حمام گونج رہا تھا اور آواز باہر تک ا رہی تھی سب لوگ سمجھ گئے تھے کہ باجی نصرت چدوا رہی ہے دو منٹ میں کاشو باجی نصرت کے اندر ہی فارغ ہوگیا اور آہیں بھرتا باجی نصرت کے اوپر گر گیا باجی نصرت بھی کراہیں بھرتی کرلا رہی تھی کاشو باجی نصرت پر گر کر ہانپنے لگا کچھ دیر بعد وہ پھر تیار تھا کاشو نے باجی نصرت کی جم کر چدائی کی اور نڈھال ہوکر باجی کی بچہ دانی بھر دی کاشو بھی کراہ کر سسک گیا اور ہانپتا ہوا باجی کو چوم رہا تھا باجی سسک کر بولی کاشو تیرا لن وی سوادی اے مزہ دے گا میں روز اساں کاشو بولا جناب اسی اس دے بدلے کی دیویے باجی نصرت ہنس دی اور بولی وے تیرے کولو میں کجھ نہیں لینڑا توں میرے بھرا دا گاہک ایں او جانڑے تے توں جانڑ میں تے صرف تیرا لن لینڑا اس جو لینڑا ہووے دتی رکھیں کاشو ہنس کر بولا میری جان ساڈی جان وی حاضر ہے باجی ہنس کر بولی او تے میں اپنی بچہ دانی اچ لئے کئی اے کاشو ہٹ کر لن نکال لیا باجی نے اپنی پھدی اپنی شرٹ سے ہی صاف کر ددی اور بولی اے لئے کاشو اے توں ہی رکھ میرے شرٹ تیرے نال پہلی ملاقات دی نشانی وہ ہسن دیا باجی کی نظر پڑی تو وہ لڑکا جو کاشو کا شاگرد تھا وہ باجی کی پھدی کو بڑے انہماک سے دیکھ رہا تھا اس کی عمر 20 سال کے لگ بھگ تھی باجی نصرت بولی کاشو اے کونڑ ہئی وہ بولا اے بھتیجا اے تے شاگرد اے باجی بولی وت شاگرد دا وی حق اے کاشو بولا حق تے ہے جے پورا کرو تے باجی ہسن کر بولی سادی تے ناہں نہیں اور اسکا ہاتھ پکڑ کر بولی اوراں وہ قریب آیا باجی ہنس کر بولی ویکھدا ہی رہنا یا کجھ کرنا اے وہ ہنس دیا اور نیچے ہوکر باجی نصرت کو چومنے لگا باجی نصرت نے اس کی شلوار ہٹاکر لن نکال کر باجی نصرت اپنے ہاتھ سے مسل کر اپنی پھدی پر سیٹ کر کے ہاتھ یچھے لے جا کر اسکی گانڈ پر رکھ کر گانڈ دبا کر اس کا لن خود ہی اپنی پھدی میں پار کردیا باجی نصرت سسک کر کراہ گئی اور آہیں بھرتی ہانپنے لگی وہ لڑکا ہٹ ہٹ کر سٹین مارتا باجی نصرت کو چودنے لگا جس سے باجی نصرت کراہ کر تڑپ سی گئی اور ہانپتی ہوئی اسے چومتی رہی اور جلد ہی باجی نصرت کے اندر فارغ ہوگیا باجی اس کی منی چوس کر اٹھی اور آہیں بھرتی سیدھی ہوکر اپنی کمر مسل کر سیدھی کی کاشو باجی کو چومنے لگا باجی ہسن کر بولی ہنڑ کل اساں گئی اور اٹھ کر ننگی ہی حمام سے باہر نکلی باجی کے عاشق گلی میں کھڑے تھے باجی نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے گورے ممے اور اکڑے نپل دیکھ کر اوباشوں کی آہیں نکل گئیں باجی نصرت اپنی گانڈ اور ممے ہلاتی وہاں سے نکلی تو ایک لڑکا آگے بڑھا اور باجی نصرت کا ہاتھ پکڑ کر بولا نصرت بس کر ہنڑ ساڈا صبر جواب دے گیا اے باجی نے اپنے بال اپنے ممے سے ہٹائے اور ہنس کر بولی میری جان تے میں کوئی آکھ رہی آں صبر کرو تھواڈا ہی مال ہے رج کھاؤ یہ سن کر اوباشوں کی باچھیں کھل گئی اور سب لوگ جلدی سے باجی نصرت کی طرف لپکے اور باجی نصرت پر جپھٹنے لگے ہر کوئی باجی نصرت کو پکڑ رہا تھا کوئی باجی نصرت کا بازو کوئی ٹانگ کوئی ہونٹ چوم رہا تھا باجی کے اوپر جھرمٹ سا لگ گیا جو پیچھے تھے وہ آگے جانے کی کوشش میں تھے ایک کے ہاتھ میں باجی نصرت کی گت آئی اس نے کھینچ لی جس سے باجی نصرت کی کراہ نکل کر گونج گئی اور باجی نصرت تڑپ سی گئی باجی نے خود کو چھڑوایا اور بولی میں کدائیں جارہی آں حوصلے نال کھاؤ 20 کے قریب لڑکے تھے پاس ہی ایک پھٹا تھا بڑا سا باجی اس کی طرف گئی اور وہاں لیٹ کر بولی ہک بندہ میری پھدی مارے ہک چت مار لوے ہک بندہ چوپا مروا لوے انج آر ساریاں دی واری آئے گی یہ کہ کر باجی نصرت اوپر گھوڑی بن گئی اور اپنی گانڈ اٹھا لی ایک لڑکا آگے پن نکال کر لیٹ گیا باجی اس کا چوپا لگانے لگی ایک لڑکا باجی نصرت کی گانڈ کو پیلنے لگا اور ایک باجی نصرت کی پھدی مارنے لگا اس طرح باجی نصرت اوباشوں سے گلی میں ہی چدوا رہی تھی لڑکے باری باجی نصرت کو چودتے باجی نصرت کے اندر فارغ ہورہے تھے باری باری باجی نصرت 20 لڑکوں کے ساتھ چدواتی رہی میں بھی اپنی بہن کو سرعام بازار میں اوباشوں سے چدوایا دیکھ کر مچل رہا تھا باجی ابھی تک چدوا رہی تھی میں گھر گیا تو امی نے باجی کا پوچھا میں بولا امی باجی باہر چدوا رہی اے امی ہنس دی شام کا کھانا کھانے تک باجی نصرت نہیں آئی آج وہ گاؤں کے سبھی مرد سے چدوا کر ہی آنا تھا امی مجھے بولی جا اس نوں سد لیا میں گیا تو اب اوباش تو جا چکے تھے پر اب گاؤں کے مرد اور بوڑھے لوگ بھی باجی نصرت لٹو کر چود رہے تھے باجی نصرت کی پھدی کا کچومر نکال پڑا تھا اور باجی نصرت اب ہیں بھرتی کراہ رہی تھی باجی نصرت اب تھک چکی تھی میں بوکا باجی ہنڑ بس کر آجا تب ایک مرد باجی نصرت کو چود رہا تھا اور باجی نصرت آہیں بھرتی کرلا رہی تھی باجی کی پھدی لال سرخ ہو رہی تھی وہ بھی آہیں بھرتا باجی نصرت کی پھدی میں فارغ ہوگیا باجی نصرت کراہتی ہوئی اب ہانپ رہی تھی جس سے مجھے لگا کہ باجی نصرت اب اینڈ پر تھی اس کی ہمت ٹوٹ رہی تھی اس مرد نے لن کھینچ لیا تو اندر سے منی گر رہی تھی اتنی منی باجی کے اندر آچکی تھی کہ اندر سمونے کی جگہ ختم ہوگئی تھی باجی کراہ کر اٹھی اور اپنی کمر پکڑ کر بولی افففف ہنڑ بس میری لوگ بولے نصرت ہنڑ ہی تے مزہ آیا باجی بولی ہنڑ میری گنجائش مک گئی اے ہنڑ کل کرساں تھواڈے نال یہ سن کر باجی کمر دباتی اٹھی اور میرے ساتھ ننگی ہی چل دی باجی نصرت کے ممے بھی لال ہورہے تھے جسے لوگ دبا کر کھینچتے رہے تھے باجی گھر آئی تو فل ننگی تھی امی بولی نصرت لگدا آج پورا پنڈ بھگتا آئی ہیں باجی نصرت ہنس دی اور بولی ہور کی امی آج سب نوں راجی کیتا امی ہنس دی اور نصرت واشروم گئی اور واپس آکر ننگی ہی بیٹھ گئی باجی کی سرخ پھدی کھلی تھی جس سے پانی بہ رہا تھا امی بولی نصرت تیری بچہ دانی بھری پئی باجی بولی امی بندے سارے اندر ہی فارغ ہوئے میرے امی بولی وے تے اے سنبھال منی بال جمی گئیں باجی ہنس دی کھانا کھانے کے بعد امی نے باجی کو ہٹادیا اور باجی نصرت کی ٹانگیں اٹھا کر بولی نصرت منی ضائع نا ہونٹ دے اندر ہی رکھ باجی پانچ نے تک ٹانگیں اٹھائیں رکھی جس سے منی اندر بچہ دانی میں چلی گئی اور نکلنا بند ہو گئی باجی نصرت آج سارا دن چدوا چدوا کر تھک گئی تھی اس لیے آرام کرنے کو لیٹ گئی اور سو گئی کچھ ہی دیر میں چوہدری اسلم بھی آگیا آتے ہی اس نے باجی نصرت کا پوچھا تو وہ سو رہی تھی امی بولی چوہدری اپنی دوجیاں شہزادیاں نوں وی ہنڑ لئے جاؤ چوہدری مسکرایا اور بولا چل آج مڑ تیریاں دوجیاں دھیاں دا سواد لولئیے یہ سن کر امی بولی وت سعدیہ نوں نوں یہ لئو آج چوہدری بولا آج سعدو نہیں آج صدف دی کچی جوانی کھاوںڑ تے دل ہے امی ہنس دی اور صدف کو کے کر آئی صدف کو پکڑ کر چوہدری چومنے لگا چھوٹی سی صدف چوڑے اور تگڑے چوہدری کے سامنے بالکل بچی سی لگ رہی تھی چوہدری صدف کو چومتا ہوا اس کا قمیض اتار دیا جسس ے صدف کی چھوٹی چھوٹی چوچیان نکل کر سامنے آگئیں چوہدری سسکتا ہوا صدف کی چھوٹی چھوٹی چابیاں چومنے لگا جس سے صدف بھی کراہتی ہوئی سسکنے لگی صدف کا کا پتلا سا پھول جیسا نرم جسم چوہدری کے دونوں ہاتھوں میں پورا ا رہا تھا صدف بھی سسکتی ہوئی چوہدری کے منہ میں منہ دبا کر چوس رہی تھی جس سے لگ رہا تھا کہ آگ صدف کے اندر بھی لگی ہوئی ہے صدف نے چوہدری کی لنگی کھینچ کر اسے ننگا کرکے پچھے دھکا دے دیا جس سے چوہدری کا بازو جتنا لن تن کر کھڑا تھا صدف پاس آئی اور لن کو ہاتھوں میں پکڑ کر مسلتی ہوئی منہ میں بھر کر چوسنے لگی چوہدری کے موٹے لن کا ٹوپہ صدف کے منہ میں پھنس کر آرہا تھا چوہدری صدف کے منہ کے چوسنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ صدف بھی بے قرار ہے لن کےلیے چوہدری صدف کے لن چوسنے سے سسک کر کراہ رہا تھا اس نے صدف کا سر پکڑ کر اوپر کیا اور صدف کو کھینچ کر بیڈ پر لٹا کر اوپر چڑھ گیا جس سے صدف چوہدری کے نیچے دب سی گئی چوہدری نے صدف کو لٹا کر اوپر آکر صدف کو چومنے لگا اور صدف کی چھوٹی چھوٹی بوبیاں مسلتا ہوا رگڑنے لگا جس سے صدف کراہنے لگی صدف اتنی چھوٹی تھی کہ چوہدری کے نیچے چھپ سی گئی تھی چوہدری اوپر ہوا صدف کی شلوار کھینچ کر اتار دی جس سے صدف کی چھوٹی سی پھدی کھل کر سامنے آگئی امی اوپر صدف کے سر کی طرف آئی اور صدف کی ٹانگیں پکڑ کر دبا کر فل کھول کر دونوں ٹانگیں ایک دوسرے سے الگ کرتی ہوئی دبا کر فل کھولنے لگی جس سے صدف کے چڈے فل کھلنے لگے اور صدف کو درد سا ہونے لگا جس سے صدف کراہنے لگی امی صدف کی ٹانگیں دبا کر ایک دوسرے کی مخالف سمت میں دبا کر کھول رہی تھی جس سے صدف کے چڈے فل کھلنے لگے اور صدف کرلا کر بولی ہالنی اماں میں مر گئی اففف امی درد ہو رہی ہے چڈے چیریندے پئے ہین امی بولی صدف برداشت کر انج آر تیری پھدی کھل جاسی گئی وت لن لینڑا اساں ہوسی امی صدف کی ٹانگیں دبا کر کھولتی ہوئی فل کھول کر زور سے نیچے بیڈ پر دبا دیں جس سے کرچ کی ایسی آواز نکلی جیسے کوئی کچی چیز ٹوٹتی ہو او ساتھ ہی صدف کی بکاٹ نکل گئی امی نے ٹانگیں دبا کر فل کھول کر بیڈ سے لگا کر کھول دیں صدف کی بند ہونٹوں والی پھدی فل کھل کر سامنے آگئی تھی پھدی کے جڑے ہونٹ ہلکے سے کھل سے گئے تھے صدف کانپنتی ہوئی کراہ رہی تھی صدف کی اٹھی ہوئی گانڈ کانپ رہی تھی صدف کی چھوٹی سی گانڈ کانپ رہی تھی امی بولی چوہدری صاحب اپنا کم کرو چوہدری نے اپنا لن صدف کی پھدی پر رکھ دیا صدف کی چھوٹی سی پھدی چوہدری کے لن کے نیچے دب گئی چوہدری نے گانڈ اٹھا کر دھکا مارا جس سے چوہدری کا لن صدف کی پھدی کھولتا ہوا اندر گھس گیا جس سے صدف کی زوردار بکاٹ نکل کر کمرے میں گونج گئی اور صدف تڑپتی ہوئی ارڑانے لگی صدف کی بکاٹیاں نکلنے لگیں اور جسم کانپنے لگا امی نے صدف کو قابو کر رکھا تھا صدف کے ٹانگیں بیڈ سے لگی تھی جس سے صدف دوہری ہو رہی تھی چوہدری بھی اتنی تنگ پھدی میں لن اتار کر مچل گیا تھا اس کی بھی کراہ نکل گئیں چوہدری نے گانڈ کھینچ کر کس کر پوری شدت سے دھکا مار کر اپنی کہنی جتنا لن پورا جڑ تک صدف کی پھدی کے پار کردیا جس سے لن صدف کی پھدی کو پھاڑ کر پوری شدت سے چیرتا ہوا جڑ تک صدف کے اندر اتر گیا جس سے صدف اچھل کر تڑپتی ہوئی پوری شدت سے منہ کھول کر بکاٹ مارتی ہوئی بے اختیار حال حال کرتی دھاڑی اور دھاڑتی ہوئی ہلال ہوتی بکری کی طرح منہ کھول کر پوری شدت سے گلہ پھاڑ کر چنگھاڑتی ہوئی بکانے لگی لن نے صدف کی پھدی چیر کر پھاڑ کر رکھ دی تھی جس سے صدف کی جان نکل رہی تھی اور صدف پوری شدت سے تڑپتی ہوئی بکری کی طرح بکا بکا کر بے حال ہو رہی تھی چوہدری کے بازو جتنے لن نے صدف کی چھوٹی سی پھدی وڈھ کے رکھ دی تھی جس سے خون نکلنے لگا تھا اور صدف تڑپتی ہوئی جھٹکے مارتی ہوئی منہ کھول کر بکاتی ہوئی بے ہوش ہو گئی امی صدف کی حالت سے گھبرا سی گئی اور بولی ہالنی اماں مر جاواں صدووو اور صدف کا سینہ دبا کر مسلنے لگی اور پاس پڑی سعدو سے بولی سعدو اوراں آ صدووو نوں سنبھال مردی پئی ہئی صدوو غوووووں غوووووں کرتی ہینگتی ہوئی پھڑکنے لگی سعدو جلدی سے اٹھ کر قریب ہوئی تو امی بولی لتاں پھد اسدیاں سعدو نے صدف کی کانپتی ہوئی ٹانگوں کو پکڑ لیا صدف کو پھڑکتا دیکھ کر چوہدری بھی گھبرا سا گیا اور بولا نازو لن کڈھ لواں چھویر تے مردی پئی امی بولی نہیں چوہدری صاحب کجھ نہیں ہوندا میں سنبھال لیندی آں تسی اپنا سواد لوو صدف کا جسم تھر تھر کانپنے لگا تھا اور اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھی امی صدف کو مسلتی ہوئی دبا کر چوم رہی تھی اور بول رہی تھی صدوو میری دھی ہمت کر کجھ نہیں ہوندا امی نے تیل اٹھایا اور صدف کی کمر کو تییل سے مالش کرتی ہوئی سہلانے لگی دو چار منٹ میں صدف کو ہوش آگیا اور وہ کراہتی ہوئی تڑپتی اہیں بھرنے لگی امی دیکھ کر بولی چوہدری جی ہولی ہولی لن پھیر کے جگہ بناؤ چوہدری نے لن کھینچا اور آدھا لن نکال لیا لن کھینچتا ہوا ساتھ پھدی سے کٹا ہوا ماس بھی کھینچ لایا جس سے صدف تڑپ کر ہینگتی ہوئی دھاڑتی ہوئی کرلا گئی اور حال حال کرتی بکانے لگی چوہدری رک گیا چوہدری کا لن صدف کی پھدی کے خون سے بھرا تھا امی نے چوہدری کو روک کر لن صاف کیا چوہدری اپنی گانڈ دبا کر لن صدف کی پھدی کے پار کردیا جس سے صدف تڑپ کر بکا گئی لن اندر جاتے ہوئے پھدی کو پچ کی آواز سے کھول کر اندر جمع خون اور پانی نچوڑ کر باہر نکالنے لگا جس سے صدف کی تڑپتے ہوئیے جان ہی نکلنے لگی اور صدف بے اختیار پھڑکتی ہوئی حال حال کرتی دھاڑنے لگی دو تین منٹ اندر باہر کرنے سے لن نے جگہ بنا لی پر اس نے صدف کی چھوٹی سی پھدی کو پھاڑ کر چیر کر رکھ دیا تھا پھدی کے ہونٹ لن نے کھول کر رکھ رکھ دئیے تھے جس سے صدف تڑپتی ہوئی کرلا رہی تھی کچھ دیر میں صدف کی آہیں نکلنے لگیں تھیں امی نے چوہدری کو لن پورا نکالنے کا کہا چوہدری نے لن ٹوپے تک کھینچ لیا صدف تڑپ کر کرلانے لگی امی بولی پورا لن منڈ چوہدری لن کھینچ کر دبا کر پورا اندر کر دیا جسس ے صدف پھڑکتی ہوئی ہینگ گئی امی بولی چوہدری صاحب ہن جلدی کرو وہلے ہوو صدف دی پھدی تے پاڑ دتی تساں یہ سن کر چوہدری اوپر جھکا اور لن کھینچ کر ٹوپے تک نکال کر کس کر دھکا مارا اور پوری شدت سے اپنا بازو جتنا لن ٹوپے تک نکال کر صدف کی چھوٹی سی پھدی میں یک لخت جڑ تک اتارتا ہوا صدف کی پھدی پھاڑتا ہوا چودنے لگا جس سے صدف تڑپ کر بے اختیار پوری شدت سے گلہ پھاڑ کر ہینگتی ہوئی چیخی اور چیختی چلی گئی چوہدری رکے بغیر لن ٹوپے تک کھینچ کر کس کس کر دھکے مارتا ہوا پوری شدت سے اپنا بازو جتنا لن ایک ہی دھکے میں پورا جڑ تک صدو کی کنواری پھدی کو پھاڑنے لگا جس سے صدو کی بکاٹیاں نکل کر گونجنے لگیں اور صدو تڑپتی ہوئی بکانے لگی چوہدری کے لن کی کھردری چمڑی نصرت کی جان نکال دیتی تھی اب کہاں چھوٹی سی عمر کہ صدو کی پھدی کو چوہدری کا لن کاٹتا ہوا چیر رہا تھا چوہدری کے کھردرے لن کی رگڑ صدف کی پھدی کے ہونٹوں کو رگڑ کر مسلتی ہوئی کاٹ رہی تھی چوہدری کے جاندار دھکوں سے چوہدری کا بازو جتنا لن صدف کے ہاں کو چیرتا ہوا صدف کے سینے میں اتر کر سینے پر ٹھوکریں نور رہا تھا جس سے صدف کے سینے سے ٹھک ٹھک کی آوازیں آرہی تھیں اور صدق بے اختیار منہ کھول کر ارڑا کر چیختی ہوئی پھڑکتی ہوئی جان دینے لگی تھی چوہدری اب مزے سے نڈھال ہوکر کررہا کر آہیں بھرتا لن ٹوپے تک کھینچ کر پوری طاقت سے جرک مار کر لن صدف کے سینے تک اتار دیا جس سے صدف تڑپتی ہوئی پھڑکی اور گلہ پھاڑ کر شیرنی کی طرح چنگھاڑتی ہوئی پھڑپھڑانے لگی جیسے مرنے لگی ہو ساتھ ہی صدف کا منہ لال سرخ ہوکر تڑپ ے لگا چوہدری مزے سے تڑپ کر ہینگ گیا اور لن کھینچ پوری شدت سے کھینچ کھینچ کر جرکیں مارتا صدو کی پھدی کو ڈلتا ہوا صدر کے سینے سے صدف کے گلے کی طرف آنے لگا جس سے صدف پھڑکتی ہوئی پھڑپھڑاتی ہوئی چنگھاڑنے لگی چوہدری کا لن تیزی سے اندر باہر ہوتا صدف کی پھدی کے ہونٹ کاٹ کر پھدی کے اندر کا ماس کھینچ کر باہر نکال لایا تھا اور ہر جرک پر لن صدف کے گلے تک اترتا نظر بھی آرہا تھا جس سے لن نے صدف کی آواز دبا کر کھینچ لی جس سے صدف ہینگتی ہوئی غون غوں کرتی پھڑکنے لگی صدف کی حالت دیکھ کر امی بولی ہالنی اماں مر جاواں چوہدری صاحب بس کر میری دھی مردی پئی ہنئے چوہدری کا بھی اینڈ تھا جس سے چوہدری آخری دھکا مار کر لن صدف کی پھدی سے گلے تک اتار کر کراہتا ہوا تڑپ کر بکا گیا اور لمبی لمبی منی کی دھاریں مارتا فارغ ہونے لگا لن نے صدف کو پھدی سے گلے تک چیر پھاڑ کر رکھ دیا تھا جس سے صدف بے سدھ ہوکر بے ہوش ہو گئی امی صدف کو سنبھلتی جا رہی تھی صدف کے گلے میں اترے چوہدری کے فارغ ہوتے لن کہ منی صدف کے منہ سے بہنے لگی تھی امی بولی چوہدری صاحب بس کر ہنڑ صدف مردی پئی ننہئے چوہدری ہانپتا ہوا ہینگ رہا تھا اس نے اپنا لن کھینچ لیا امی بولی ہک منٹ چوہدری ٹوپے تک نکال کر رک گیا امی نے مرہم والی ٹیوب اٹھائی اور چوہدری کے لن پر کافی ساری لگا کر بولی ہن واس اندر کرو لن یہ سن کر چوہدری نے لن اندر ڈال دیا اور جڑ تک اتار دیا جس سے ساری مرہم صدف کے اندر تک لگ گئی جہاں تک لن اترا تھا امی بولی ہک دو واری ہور پھیرو چوہدری نے لن دو تین بار پھیرا اور نکال کر کراہتا ہوا تڑپ کر ہانپتا ہوا لیٹ کر کراہنے لگا امی اور سعدو پھڑکتی ہوئی صدف کو سنبھال رہی تھیں صدف کی پھدی کا کچومر نکل چکا تھا اور چوہدری کے لن جتنا کھپا ہو چکا تھا جس سے صدف ہلال ہوتی بکری کی طرح پھڑ پھڑاتیی ہوئی بکری کی طرح بااااںںںںں بااااااں کرتی تڑپنے لگی امی صدف کو سنبھالنے لگی صدف کی ٹانگیں ی طرح فل کھل کر کانپنے لگیں تھیں جنہیں سعدوہ پکڑ کر دبا کر مسل رہی تھیں صدو کی پھدی کو چوہدری کے لن نے ڈل کر چیر پھاڑ کر رکھ دیا تھا چوہدری تھک کر لیٹ کر سونے لگا تھا امی اور سعدو صدف کو سنبھالنے لگیں انہیں کافی وقت لگا سنبھالنے میں صدف کو مرہم لگا کر امی نے سنبھال دیا تھا چوہدری تب تک سو چکا تھا امی صدف کو اٹھا کر دوسرے کمرے میں لے گئی میں بھی وہیں سو گیا صبح مجھے کراہنے کی آواز سے جاگ ہوئی تو باجی نصرت چوہدری کے لن پر جھکی چوپے مار رہی تھی اور چوہدری باجی نصرت کے منہ میں فارغ ہو رہا تھا جس سے باجی ہانتپی ہوئی چوہدری کی منی کو نچوڑ کر پی گئی اور لن کو دبا کر مسلتی ہوئی چوسنے لگی باجی پچ کی آواز سے لن چھوڑ کر بولی چوہدری صاحب میں پن نوں نشانی پائی ہا کدے گئی او چوہدری بولا راتی تیری بھین صدو دی پھدی پاڑی اے اس واسطے لاہ دتا اے تیری ماں کول اے اتنے میں امی اندر آئی تو نصرت بولی امی چھلا کدے لن دا امی نے اسے اٹھا کر دیا اور بولی توں وی گشتی ایں اس تو بغیر سواد نہیں آندا نصرت بولی امی اس توں بغیر چس نہیں آندی لینڑ دی جدو چھلا پھدی چیردا اے مزہ اجاندا اور چھلا چوہدری کے لن میں ڈال دیا جو آدھی میں جا کر رک گیا اور باجی چوپے مارتی سہلانے لگی چوہدری بولا نصرت ہنڑ تے واقعی گشتی بن گئی ایں کل سارے پنڈ نوں موج کروائی ہئی نصرت ہنس کر بولی چوہدری صاحب تھواڈا حکم ہا میں بھلا ناہں کر سگدی ہاس چوہدری نے نصرت کی گت پکڑ کر کھینچ لیا اور نصرت کو گھوڑی بنا کر پیچھے آیا اور لن نصرت کی پھدی پر رکھ کر پوری طاقت سے دھکا مار کر اپنا بازو جتنا لن یک لخت پورا جڑ تک نصرت کی پھدی میں پار کرکے نصرت کی گت کھینچ کر نصرت کو دوہرا کردیا جس سے نصرت تڑپ کر بکا گئی چوہدری باجی نصرت کی گت کھینچ کر پوری شدت سے دھکے مارتا ہوا لن کھینچ کھینچ کر نصرت کی پھدی میں مارتا نصرت کو چودنے لگا لن پر چڑھا چھلا تیزی سے اندر باہر ہوکر باجی نصرت کی پھدی کو کاٹ رہا تھا جس سے باجی نصرت پھڑکتی ہوئی بکاٹ مار مار کر حال حال کرتی جارہیتھی چوہدری پوری شدت سے لن کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا ہوا باجی نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا اندر باہر ہوتا چوہدری کے لن کا چھلا نصرت کی پھدی کو دل رہا تھا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی بکا کر حال حال کرتی چارہیتھی دو سے تین منٹ میں چودری کراہتا ہوا نڈھال ہوکر نصرت کی پھدی میں فارغ ہوگیا اور آہیں بھرتا نصرت کے اوپر گر کر ہانپنے لگا اور نصرت کو دبوچ کر چومنے لگا باجی بھی تڑپتی ہوئی آہیں بھرتی چوہدری کو چوم رہی تھی میں اٹھا اور واشروم چلا گیا اور سکول کےلیے تیار ہوا تو امی بولی باجی دا پتا کر چوہدری وہلا ہو گیا تے اس توں پچھ سکول جانا کہ نہیں میں اندر گیا تو سامنے چوہدری باجی نصرت کی ٹانگیں کاندھوں سے لگا کر ہٹ ہٹ کر دھکے مارتا باجی نصرت کو چود رہا تھا چوہدری کا لن تیزی سے باجی نصرت کی پھدی کےا ر پار ہوتا لن کا چھلا نصرت کی پھدی کو رگڑ کر مسل رہا تھا جس ے نصرت کی بکاٹیاں نکل رہی تھی باجی نصرت کی پھدی لال سرخ ہو چکی تھی اسی لمحے چوہدری لن جڑ تک باجی نصرت کی پھدی میں اتار کر فارغ ہونے لگا اور باجی نصرت بھی فارغ ہوتی چوہدری کا لن نچوڑ کر بچہ دانی میں بھر گئی دونوں کراہتے ہوئے ہانپنے لگے میں بولا باجی امی پچھ رہی سکول جانا باجی نصرت کراہتی ہوئی بولی جانا اے جناب میں مڑ گیا تو سامنے اسامہ کھڑا تھا وہ اندر داخل ہوا اور بولا ابو جی لگدا تسی وی نصرت دے دیوانے ہو چوہدری ہنس کر اوپر ہوا اور بولا یار آج تک جتنی وی یدھیاں اوہناں وچ نصرت جیا مزہ نہیں ملیا اور پیچھے ہٹ کر لن کھینچ لیا جس سے لن باجی نصرت کی پھدی سے پچ کی آواز سے نکل آیا چوہدری بولا میری جان دل ہے تے توں وی پیو دی مشوق نوں یہ لئے یہ سن کر وہ بولا نہیں ابو جی جس تے تسی جڑھ جاؤ اس اچ دوجا لن کینٹ دی گنجائیش نہیں رہندی چوہدری ہنس دیا اور بولا چل وت تیرے کانڑ ہک ہور پھل وی تیار اے اس نوں یہ لئے پیمنٹ میں کر دتی اے نصرت دی بھین سعدیہ دی اسامہ ہنس کر بولا ابو جی ایڈوانس چل رہے ہو چوہدری ہنس کر بولا میری جان اس گھر نال بڑا پرانا تعلق اے اوہناں دی ماں میری پرانی مشوق اے اسامہ ہنس دیا نصرت کراہ کر ہانپتی ہوئی سسک رہی تھی اسامے سے بولی دل ہے تے سعدو نوں یہ لئے وہ بولا تیری ماں نوں مل لواں اور کیچن میں چلا گیا باجی کچھ دیر بعد اٹھیا ور واشروم چلی گئی میں اندر کیچن میں گیا تو اسامہ امی کو وہیں کیچن میں گرا کر ننگا کیے چود رہا تھا اسامے کا لن تیزی سے امی کی پھدی مار رہا تھا اسامہ کراہتا ہوا امی کے اندر فارغ ہوگیا اور آنے کے اوپر گر کر امی کو چومنے لگا کچھ دیر بعد اس نے ایک اور راؤنڈ لگایا اور آہیں بھرتا فارغ ہوکر نڈھال ہوگیا امی ابھی بھی جوان اور تگڑی تھی کچھ ہی دیر میں باجی نصرت بھی آگئی باجی نصرت ٹرانسپیرنٹ سلیولیس شارٹ میں تھی جو صرف باجی نصرت کے چڈوں تک تھا باجی نیچے فل۔ننگی تھی جس سے اس کی پھدی نظر آرہی تھی باجی کی ٹانگیں بھی ننگی تھی اسامہ نصرت کو ننگا دیکھ کر مسکرا دیا باجی نے نیچے کچھ بھی نہیں پہن رکھا تھا اوپر بھی ٹرانسپیرنٹ شرٹ تھی جو جس سے باجی کا جسم جھانک رہا تھا ہم کھانا کھا کر ایسے ہی سکول چکے گئے باجی نصرت آج سکول میں ایسے ہی گئی وہاں دو تین ٹیچرز ہی تھیں اور ایک ہی پرنسپل تھا جو باجی کو ننگا دیکھ کر ہنس دیا اور جاتے ہی کٹا کر باجی نصرت کو چودنے لگا ہم لوگ کلاس روم میں آگئے باجی کلاس لینے آئی تو باجی نصرت نیچے سے ننگی تھی جسے دیکھ کر سب لڑکے مچل گئے باجی بولی آج تھواڈی فرمائش تے ننگی آئی آں باجی نصرت پھر پڑھانے لگی کچھ دیر پڑھا کر باجی نصرت ٹیبل پر چڑھ کر بیٹھ گی اور اپنی ٹانگیں کھول کر اپنے چڈے کھول کر اپنی پھدی کا نظارہ کروانے لگی پھدی دیکھ کر سب لڑکے مچل گئے باجی نصرت بولی آج تھوانوں پریکٹیکل کروانا اے ریپروڈکشن دے چیپٹر دا یہ کر باجی نصرت پیچھے لیٹ گئی اور اپنی پھدی کھول کر باری باری سارے حصے سمجھانے لگی ایک لڑکا بولا باجی بچہ کس طرح پیدا ہوندا باجی ہسن دی اور بولی اس واسطے پریکٹیکل کرنا ہوندا اس پھدی دے اندر مرد دا لن جا کے پانی چھوڑدا اے توں جا کے بچہ بندا یہ کہ کر باجی چلو اے وی پریکٹیکل کردے آں بچہ بندا کیویں یہ کہ کر باجی نے ایک لڑکے بکا کر ننگا کیا اس کا لن چوس کر اپنی پھدی میں ڈالنے کا کہا وہ لڑکا سب سے بڑا تھا وہ لڑکا باجی نصرت کو چودنے لگا دو تین منٹ میں فارغںوہگیا باجی باری باری پانچ چھ لڑکوں سے چدوایا تعداد ہی اتنی تھی باجی نصرت نے دو دو تین بار سب سے چدوایا جس میں دیمی بھی تھا اور پھر باجی لیٹ گئی باجی نصرت بولی ہنڑ پتا لگدا بچہ ںنڑدس کہ نہیں سب ہنس دئیے سکول سے واپسی پر باجی چھیدے کے پاس گئی اور وہاں سے چدوایا وہاں سے نکل کر باجی نصرت گھر آئی تو راستے میں اوباشوں نے باجی کو پکڑ کر پھر چود دیا باجی لیٹ گھر آئی اور کھانا کھا کر آرام کیا آج باجی نصرت نے پیٹ کی دھنی میں لاکٹ بھی ڈال رکھا تھا جو باجی نصرت کو سیکسی بنا رہا تھا باجی نصرت آرام کرکے پھر کاشو کے پاس چلی گئی اور پھر واپس سے چدواتی ہوئی ایک بار پھر اوپاشوں کے ساتھ ان کی بیٹھک پر چلی گئی باجی نصرت وہاں ساری رات چدواتی رہی میں نے گھر میں دو بار امی کو کس کر چودا صدف کی پھدی تو چوہدری نے پھاڑ دی تھی اس نے تو اب دو ہفتے بیڈ سے ہی لگی رہنا تھا شام کو اسامہ آیا پہلے اس نے ایک راؤنڈ امی پر لگایا جس سے امی بھی سسک گئی سعدو اتنے میں اندر آئی اسامہ بولا آنٹی میرے ڈیرے تے میرے مہمان آندے ہینڑ جہناں واسطے سعدو جئی جوان چھویر دی لوڑ ہوندی اے توں آکھ تے میں سعدو نوں میں ڈیرے تے لئی جاواں امی بولی اے تے سعدو کولو پچھ اس دی مرضی ہے اسامہ سعدو سے بولا کی خیال اے سعدو تینوں ڈیرے تے لئے جاواں تے آسیں اوتھے میرے مہماناں دی خدمت کرنی اے توں سعدو بولی جناب اسی تے تیار آں جتھے مرضی لئے جاؤ اسامہ بولا ویکھ لئے روز دو تین بندے آندے ہینڑ اوہناں نوں پھدی تے چت دوویں دینی ہے توں راضی کرنا اے اپنی چت تے پھدی نال کدی کدی ابو وی گھر ہوندا تے اس نوں وی پھدی دینی اے سعدو ہنس کر بولی جانب چوہدری صاحب آوری تے اگے میری قیمت دے دتی اے بلکہ صدف دی وی دے گئے ہینڑ رات نوں صدف نوں تے نچوڑ گئے ہینڑ میں ہی رہ گئی آں تے جناب تسی تسی جتھے مرضی لئے جاؤ اسی تے ہنڑ تھواڈیاں رکھیل ہاں تھواڈے مہماناں نوں شکائیت دا موقع نا ملسی جناب اسی ہر ویلے تیار رہساں گئیاں ناکے تھوانوں پتا نہیں میں وی نصرت توں گھٹ نہیں آں اسامہ ہنس دیا اور بولا نصرت تے ہنڑ آزاد پنچھی ہے او ساڈے قابو نہیں آندی اس واسطے تینوں اپنے ڈیرے دی بناؤ آں اسامہ بولا تینوں ڈانس آندا وہ بولی تھوڑا بہت اسامہ بولا چل کوئی نہیں ثانیہ تینوں سیکھا دیسی تینوں ہر رات نوں آندی اے او مجرا نچدی اے تے پھدی مروان دی اے ساڈے کولو ہنڑ توں وی آجا سعدو بولی اچھا باجی ثانیہ وی جاندی وہ مسکرا کر بولا میری جان پنڈ دیاں ہور لڑکیاں وی ہینڑ ڈیرے تے پر او ساریاں ہنڑ چدوا چدوا کے کھلیاں ہویاں پیاں سواد نہیں دیندی آں اس واسطے ہنڑ تیری کوڑ اے ہر رات مجرا تے چدائی چلدی سعدیہ ہنس کر بولی واہ جی واہ وت تے میں میں تیار آں وہ بولا چل وت چلیے سعدو اسامے کے ساتھ ڈیرے پر چدوانے چلی گئی میں اور امی رہ گئے گھر باجی نصرت ویسے اوباشوں کے پاس تھی چدوانے کےلیے میں امی کو چودتا سو گیا اگلے دن باجی نصرت آئی تھکی ہوئی تھی میں سکول چلا گیا اب تو میری بہنیں گشتیوں ہو چکی تھیں باجی نصرت تو اب ہر وقت ننگی ہی رہتی تھی امی بھی اب اپنے پرانے یاروں کے پاس جانے لگی صدف بھی ٹھیک ہوگئی تو چوہدری اسے اپنے لیے لے گیا کہ یہ اب میری ہی رکھیل رہے گی سعدیہ اسامے کے ڈیرے کی رکھیل بن گئی تھی جبکہ باجی نصرت تو آزاد پھنچھی تھی دن رات ننگی ہی گاؤں میں پھرتی رہتی آر پورے گاؤں والے اسے چودتے تھے ایک دن شام کو باجی نصرت چدوا کر گھر آئی تو آتے ہی باجی نصرت الٹیاں کرنے لگی باجی ابال رہی تھی امی اسے دبا رہی تھی امی نے اسے کہو بنا کر دیا اور بولی نصرت مبارک ہئی پنڈ آلیاں دی محنت رنگ لئے آئی توں حاملہ ہو گئی ہیں میں یہ سن کر مچل سا گیا باجی نصرت گاؤں والوں کے ناجائز بچے کی ماں بن گئی تھی باجی بھی یہ سن کر خوش ہوئی امی بولی نصرت مینوں دھی چاہیدی تا کہ اگاں وی ساڈا کاروبار چلدا رہے باجی نصرت ہنس کر بولی امی دھی ہی جمساں گئی نا فکر کر میں یہ سن کر خوش ہوا امی بولی نصرت ہنڑ دو تین دن آرام کر باجی آرام کرنے چلی گئی اگلے دن صبح امی اٹھی تو وہ بھی الٹیاں کر رہی تھی امی بھی قبول رہی تھی باجی امی کو دیکھ کر امی اے کی امی بولی میری دھی میں وی حاملہ ہوئی پئی آن یہ سن کر نصرت ہنس کر امی کو باہوں میں بھر کر چومتی ہوئی چہک کر خوشی سے بولی امی آج تے خوش کیتائی اور بولی امی لگدا ماں دھی دوویں رل کے بچہ جمساں گئے یہ سن کر امی ہنس دی اور بولی میری دھی اے وی تیرے آر ناجائز ہی ہے امی اور نصرت ناشتہ کرکے گاؤں کے ڈاکٹر کے پاس گئیں اور دوائی کے آئیں امی نے مجھے بھیجا میں مٹھائی کی دکان سے مٹھائی لایا امی اور باجی نصرت گلی میں آکر کھڑی ہوگئیں اور ہر گزرنے والے کو مبارک دینے لگیں کہ نصرت تم لوگوں کے بچے کی ماں بن گئی اے یہ سن کر سب لوگ ہنس دیتے اور مٹھائی کھانے لگتے بات پورے گاؤں میں پھیل گئی کہ نصرت حاملہ ہو گئی اے باجی اور امی نے دو تین دن آرام کیا اور پھر نصرت چدوانے لگی روز باجی نصرت اب چدوانے جاتی تھی لیکن رات کو گھر آجاتی تھی باجی نصرت سکول بھی جاتی تھی کلاس میں باجی نے بتایا کہ میں حاملہ ہو گئی ہوں اور ریپروڈکشن شروع ہوگئی ہے اب نو ماہ انتظار کے بعد بچہ پیدا ہوگا سب لوگ خوش ہوگئے باجی اب صبح سکول جاتی اور شام تک چدواتی رہتی واپس پر پھر رات کو آرام کرتی وقت گزرنے کے ساتھ باجی نصرت کا پیٹ بڑھتا جا رہا تھا باجی نصرت اب بھی ننگی ہی پھرتی تھی جس سے اس کا حاملہ پیٹ نکلا ہوا نظر آتا تھا سکول میں بھی باجی نصرت ننگی ہی رہتی تھی باجی نصرت کا پیٹ اب فل بڑھ چکا تھا امی بھی فل حاملہ ہوچکی تھیں اور اس کا نکلا پیٹ بھی نظر آتا تھا گاؤں والا کا ناجائز بچہ باجی نصرت کے یٹ میں پلتا ہوا پیدائش کے قریب ہو رہا تھا باجی نصرت ہر وقت گاؤں میں ننگی ہی رہتی تھی جس ے اس کا حاملہ نکلا پیٹ نظر آتا تھا باجی نصرت اور امی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب بچہ پیدا کرنے کی طرف بڑھ رہی تھیں پھر وہ وقت آیا کہ امی اور نصرت کے بچہ پیدا کرنے کے دن قریب آگئے تو باجی اور امی نے چدوانا چھوڑ دیا انہی دنوں سعدیہ اور صدف بھی حاملہ ہوگئیں صدف تو صرف چوہدری کی رکھیل تھی اسے چوہدری نے حاملہ کردیا جبکہ سعدیہ کو اسامے کے ڈیرے پر آنے والوں نے حاملہ کردیا تھا پھر ایک دن نصرت اور امی نے اکھٹے ہی ایک دن شہر کے اسپتال میں اسامہ کے گیا اور وہاں نصرت نے گاؤں والوں کی محنت کی ناجائز بیٹی کو جنم دیا امی نے بھی گاؤں والوں کی ناجائز بیٹی پیدا کی دو دن بعد وہ لوگ گھر آگئے باجی نصرت اور امی بیٹیاں پیدا کرکے خوش تھیں کہ اب یہ ان کےلیے مستقبل میں کاروبار سنبھالیں گی کچھ دن تک دونوں پیدائش سے سنبھل گئیں اور پھر تیار تھیں باجی نصرت دو مہینے بعد پھر چدوانے نکل گئی گاؤں میں امی اپنی اور باجی نصرت کی بیٹی کو سنبھالتی جبکہ باجی نصرت اپنے یاروں کے پاس جاتی چدوانے کےلیے کچھ عرصے بعد سعدیہ اور صدف نے بھی اپنی ناجائز بیٹیوں کو جنم دیا امی کی تو عید تھی اب گھر میں چار چار بیٹیاں ہو چکی تھیں جو مستقبل میں ان کا کاروبار سنبھالیں گیں سعدیہ اور صدف پھر تیار ہوکر واپس اپنے کام پر چکی گئی صدف تو چوہدری کی پکی رکھیل تھی سعدو اسامے کے ڈیرے کی رکھیل تھی وہی کام اب پھر سے شروع ہوچکا تھا اس دوران امی نے میری بہنوں کی کمائی سے ایک اچھا سا مکان بھی تیار کر لیا تھا اور مجھے ایک گاڑی دلادی جس پر میں اور دینی سارا دن عیاشی کرتے تھے میں باجی ثانیہ کو چودتا تھا اور دینی میری بہنوں ہر ہاتھ صاف کرتا موقع ملنے پر میں بھی اپنی بہنوں کو چود دیتا تھا باجی ثانیہ بھی ایک ناجائز بیٹی پیدا کر چکی تھی کچھ عرصے بعد باجی نصرت پھر سے حالانکہ ہو چکی تھی جبکہ باقی اب پروٹیکشن یوز کرتی تھیں لیکن باجی نصرت کو ناجائز بچے پیدا کرنے کا شوق تھا اس لیے وہ پھر سے حاملہ ہو گئی تھی اور اس بار پھر اس نے ناجائز بیٹی کو جنم دیا تھا میں اب کافی بڑا ہوچکا تھا ہماری کمائی بڑھ رہی تھی کیونکہ اس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی اب باجی نصرت کو چودنے آتے تھے باجی نصرت اب سکول چھوڑ کر یہی چدوانے کا کام کرتی تھی باجی نصرت اب آس پاس کے گاؤں میں کرائے پر بھی چدوانے جاتی تھی اور وہاں سے اب باجی نصرت شہر میں بھی امیر لوگوں کی راتیں رنگین کرنے جایا کرتی جہاں سے وہ کافی مال کما کے لاتی تھی باجی نصرت اب فل ٹائم گشتی تھی اور اب پوری ٹیکسی بن چکی تھی باجی نصرت کا اب بہت سے امیر کبیر لوگوں سے تعلق تھا جن میں کچھ جرائم پیشہ لوگ بھی اب باجی نصرت کے ساتھ راتیں گزارتے تھے باجی نصرت اب امیر لوگوں کی رکھیل تھی گاؤں میں اب سعدیہ کا سکہ چل رہا تھا جبکہ صدف اب چوہدری کے دوستوں کو مزے کرواتی تھی باجی نصرت اب تیسری بار حاملہ ہوکر آئی تھی اس کا پیٹ بڑھا تھا اس نے تیسری ناجائز بیٹی کو جنم دیا باجی نصرت تین بیٹیاں پیدا کرکے بھی ابھی تک لوگوں کے دل پر راج کرتی تھی باجی نصرت میں پتا نہیں کیا جادو تھا کہ پورے شہر کے امیر باجی نصرت کی ایک رات کو پانے کےلیے پیسہ کٹاتے تھے باجی ثانیہ بھی اب باجی نصرت کا ساتھ دیتی تھی لیکن باجی نصرت ثانیہ سے زیادہ مشہور تھی اب باجی نصرت نے شہر میں بھی ایک گھر کے لیا تھا جہاں اب امی باجی نصرت کی ناجائز بیٹیوں کو تیار کر رہی تھی باجی نصرت اور امی کی بڑی بیٹی تو اب سکول بھی جانے لگی تھی جبکہ سعدیہ اور صدف نے اپنی بیٹیاں اپنے پاس ہی رکھی تھیں گاؤں میں اب گھر میں دو دو گاڑیاں بھی تھیں مییری اور دینی کی رات بھی نائیٹ کلبوں میں گزرتی تھی ہم دونوں دوست اب بھی اکھٹے تھے ہماری بہنیں اپنے یاروں سے چدوا کر کما کر لاتی تھیں اور ہم دونوں مزے سے اپنی بہنوں کی چدائیوں کی کمائی اڑاتے تھے کوئی فکر نہیں تھی باجی نصرت اور ثانیہ اکثر اپنے یاروں کے ساتھ ہی ہوتی تھیں وہ بھی اب نائیٹ کلبوں اور امیروں کے ساتھ ڈیٹ مارتی تھیں باجی نصرت تو اب فل عیاش تھی وہ تو اب شراب بھی پینے لگی تھی اکثر گھر میں باجی نصرت اپنے امیر دوستوں کی دعوت رکھتی اور نائیٹ میں شراب کی چلتی تھی باجی ساری رات چدواتی تھی اپنے دوستوں سے امی اپنی ایک ناجائز بیٹی باجی نصرت کی تین ناجائز بیٹیوں اور باجی ثانیہ کی دو ناجائز بیٹیوں کو جو ابھی اس نے پیدا کی تھی پال کر مستقبل کےلیے تیار کر رہی تھی تاکہ آنے والے وقت میں ہمارا یہ کاروبار چلتا رہے اس لیے کوئی فکر نہیں تھی کیوں کہ مستقبل کےلیے بھی کمائی کا ذریعہ اب تیار تھا اس لیے اب ہر طرف مزے ہی مزے تھے اور انہیں خوبصورت لمحوں میں وقت بڑی عیاشی اور خوبصورتی سے ہم سب گزار رہے تھے۔(ختم شد)
ایک تبصرہ شائع کریں for "میری گرم بہنوں کی جوانی کی بھڑکتی آگ"