Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

اکلوتی پیاری بہن

 


ثانیہ میری اکلوتی بہن ہے جو عمر میں مجھ سے صرف ایک سال بڑی ہے ابو روزگار کے سلسلے میں امارات ہیں اور سال بھر میں صرف دو ماہ کے لیے آتے ہیں جن دنوں ابو گھر آئے ہوں وہ کہیں نہ کہیں ملنے ملانے کے سلسلے میں یا کسی دعوت پر گھر سے نکلے ہی رہتے ہیں امی بھی ان کے ساتھ ہی ہوتی ہیں ہم اسی صورت ساتھ جاتے اگر ہمیں ٹیوشن اور سکول سے چھٹی ہو ورنہ ہم دونوں گھر پر ہی رہتے ہیں میری عمر سولہ برس اور ثانیہ کی سترہ برس ہے

ویسے تو روٹین لائف میں سکول ٹیوشن اور گھر بس یہی کچھ صبح شام ہوتا ہے میرا ایک ہی دوست ہے جس کے ساتھ زیادہ تر میں اس کے ساتھ اپنے گھر یا کبھی ان کے گھر کھیل لیتا ہوں وہ بھی اگر وقت مل جائے تو میرے دوست کا نام شکیل ہے اور ہماری دوستی کی پورے سکول میں مثال دی جاتی ہے لیکن پچھلے چند دنوں سے کچھ اکھڑا اکھڑا سا رہنے لگا تھا اسکا قصہ کچھ یوں ہوا کھیلتے ہوئے شکیل گر پڑا اور اسکے بازو سے خون بہنے لگا میں بہت پریشان ہو گیا اسے جلدی سے اپنے گھر لایا بھیٹک کا دروازہ کھولا اور اسے اندر بلا لیا اسکا کچھ خون میرے کپڑوں پر بھی لگ گیا میں گھبراہٹ میں ادھر ادھر بھاگ رہا تھا تاکہ اسے پٹی وغیرہ کرسکوں جب ثانیہ کی نظر مجھ پر پڑی اس نے سمجھا شاید چوٹ مجھے لگی ہے وہ جلدی سے پاہیوڈین اٹھا لائی اور اپنا دوپٹہ ہاتھ میں پکڑ کر مجھے پوچھنے لگی خون کہاں سے نکل رہا ہے۔ وہ بہت جزباتی ہو رہی تھی میں نے بتایا نہیں چوٹ شکیل کو لگی ہے

کہاں ہے وہ ثانیہ چلائی

بھیٹک میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے دبک کر کہا

وہ دوڑتی ہوئی بھیٹک کی طرف بھاگی اسے جلدی سے پاہیوڈین لگائی اور اپنا ایک پرانہ دوپٹہ پھاڑ کر پٹی کردی اس دوران وہ اس پر چلاتی رہی

تمہارے امی ابو کو تو تمہارا زرا سا بھی احساس نہیں ہے تمہیں پتہ ہے اگر یہی چوٹ فادی کو لگتی تو میری کیا حالت ہوتی امی نے تو آسمان سر پر اٹھا لینا تھا تم الو کے پٹھے ہو ایسی جگہ کھیلتے کیوں ہو جہاں گر کر چوٹ لگ جائے

تمہیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن فادی کو کچھ ہو جائے تو امی کی حالت بگڑ جاتی ہے

وہ چپ چاپ ثانیہ کی باتیں سنتا رہا جب اس نے پٹی مکمل کر دی تو مجھ سے نظریں ملائے بغیر باہر نکل گیا بس اسی دن سے مجھ سے اکھڑا اکھڑا بھی رہنے لگا اور اکثر اس بات پر میری ثانیہ سے تکرار بھی ہوجاتی وہ آگے سے کہہ دیتی

اچھا ہے ۔

علاج ہے اسکا ۔۔

کمینہ۔۔

تمہیں کچھ ہو جاتا تو۔۔

اور میں مٹھیاں بھینچ کر رہ جاتا

ثانیہ کا بیماری کی وجہ سے ایک سال ضائع ہو گیا تھا جس وجہ سے ہم ایک ساتھ ہی میٹرک میں پڑھ رہے ہیں ہمارے پیپر سر پر تھے ابو بھی گھر آئے ہوئے تھے اور اکثر امی کے ساتھ کہیں نہ کہیں دعوت پر گئے ہوتے چونکہ ہمارے پیپر نزدیک تھے اس لیے ہم دونوں کا کہیں جانا تو ناممکن تھا لہذا امی ابو ہمیں ساتھ نہیں لیکر جا رہے تھے ایک دن جب وہ دعوت پر گئے ہوئے تھے امی نے ثانیہ کو فون کر کے بتایا کہ ہم آج نہیں آہیں گے آپ لوگ کھانا وغیرہ کھا کر سو جانا صبح وقت پر ٹیوشن چلے جانا کھیل کود میں وقت برباد مت کرنا مزید کچھ گھر کے کاموں کے بارے میں تاکید کر کے فون بند کردیا میں بھی پاس بیٹھا سن رہا تھا۔

امی کا فون سنتے ہی میں نے کتاب بند کی اور باہر کی طرف بھاگا ثانیہ مجھے روکنے کی غرض سے میرے پیچھے بھاگی لیکن میں دروازہ پھلانگ چکا تھا اس نے جوتی نہیں پہنی تھی لہذا دروازے سے ہی مجھے آوازیں دینے لگی۔

فادی واپس آ جا نہیں تو امی سے شکایت کردوں گی۔ لیکن میں کب پیچھے دیکھنے والا تھا اسی دوران گلی کی نکڑ سے شکیل بھی برامد ہوا ثانیہ نے شکیل کو دیکھا تو اسے آواز دی

اوے۔۔۔۔ فادی کو لیکر ادھر آ۔

وہ رک کر ہماری طرف دیکھنے لگ گیا ثانیہ نے ایک دوبار مزید اسے کہا تو وہ بجائے ہماری طرف بڑھنے کے واپس مڑنے لگا تب ثانیہ نے اسے پھر پکارا

شکیل۔۔۔! میری بات سن کر جاؤ پلیززز

اب کی بار وہ رک گیا اور واپس ہماری طرف دیکھنے لگا

شکیل آجاؤ ایک کام ہے پلیز کچھ نہیں کہوں گی اب کی بار وہ چپ چاپ ہماری طرف بڑھنے لگا جب میرے پاس پہنچا تو بغیر سلام لیے میرا ہاتھ پکڑا ثانیہ ابھی تک دروازے میں کھڑی تھی اور وہ مجھے لیکر اسی طرف بڑھنے لگا جب ہم قریب پہنچے تو ثانیہ جلدی سے اندر گئی بھیٹک کا دروازہ کھول کر وہاں کھڑی ہوگئی ہم قریب پہنچے تو شکیل نے میرا ہاتھ ثانیہ کی طرف اچھالتے ہوئے کہا ۔۔ جی بتاو کیا کام ہے

شکیل میں نے جو تمہیں ڈانٹا تھا.! اسی وجہ سے ناراض ہو ناں

نہیں مجھے کیا پڑی ہے ناراض ہوں تم کام بتاو اس نے سردمہری سے کہا

اندر آو دونوں ۔۔ ثانیہ نے بھی زرا کرخت لہجے میں کہا شکیل کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف کھینچا اور کہا یار اب تو آجاو بس بھی کر دو اتنی بھی کیا ناراضگی اب نہیں ڈانٹے گی۔

ہاں قسم سے وعدہ اب نہیں کہوں گی کچھ بھی ثانیہ نے میرا ساتھ دیا

وہ اندر تو آ گیا لیکن جیسے کسی بات سے گھبرایا ہوا ہو وہ چور نظروں سے کبھی میری طرف دیکھتا کبھی ثانیہ کی طرف دیکھتا اور پھر نظریں جھکا لیتا ثانیہ کچھ دیر تک ہمیں دیکھتی رہی پھر کہنے لگی تم دونوں بیٹھو میں کچھ بنا کر لاتی ہوں

اور ہاں شکیل۔۔۔! اب یہ منہ لٹکانا چھوڑ دو اس دن پریشان ہو گئی تھی اس وجہ سے اناپ شناپ بول گئی وہ مڑتے ہوئے پھر بولی میں بس آئی۔

میں نے شکیل کو کھینچ کر صوفے پر بٹھایا کچھ ہی دیر میں ثانیہ بھی ملک شیک بنا کر لے آئی ہمیں ایسے چپ چاپ بیٹھا دیکھ کر بولی یہاں فوتگی پر نہیں آئے ہوئے جو ایسے چپ چاپ بیٹھے ہو پتہ ہے فادی روز مجھ سے لڑتا ہے کہ تمہاری وجہ سے شکیل مجھ سے ناراض ہو گیا ہے تو میں نے سوچا تمہیں راضی کروا دوں

نہیں میں نہیں ناراض شکیل نے جواب دیا

بات تو تم کرتے نہیں اب اکھٹے کھیلتے بھی نہیں یہ ناراضگی نہیں تو اور کیا ہے

ثانیہ قسم سے میں نہیں ناراض شکیل نے زور دے کر کہا ساتھ ہی ثانیہ کھل کھلا کر مسکرا دی

اوئے ہوئے اوئے ہوئے۔۔۔۔

ایک بار پھر کہو ثانیہ نے اسکے بالوں میں ہاتھ مارتے ہو اسکی مانگ خراب کر دی شکیل نے سر کو پیچھے جھٹکا دیا اور پھر ہاتھوں سے اپنی مانگ بنانے لگا شکیل نے جلدی سے جوس ختم کیا اور اٹھتے ہوئے کہا مجھے گھر جانا ہے ابھی بہت تیاری بھی کرنی ہے امتحان سر پر ہیں اور پہلا پیپر ہی مطالعہ پاکستان کا ہے جو مجھے سب سے مشکل لگتا ہے تاریخیں ہی یاد نہیں رہتیں

میرا دل چاہ رہا تھا وہ ہمارے پاس ہی رکے میں نے اسے کہا آج امی ابو بھی گھر نہیں ہیں تم کتابیں اٹھا لاو یہیں پڑھتے ہیں ۔

ہاں یہ صحیح ہے فادی تم ساتھ جاو شکیل کی بکس اٹھانے اور ساتھ اسکی امی کو بھی بتا آنا ہم تینوں پڑھیں گے یہ سنتے ہی شکیل کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور جلدی سے دوبارہ صوفے پر بیٹھ گیا۔

ہاں یہ بہت زبردست آئیڈیا ہے وہ چہک کر بولا

میں اسکے ساتھ گیا ہم کتابیں اٹھا لائے شکیل کی امی ست اجازت بھی لے لی انہیں بھی یہ تو پتہ نہیں تھا کہ ہمارے امی ابو گھر نہیں ہیں اسلیے انہوں نے آسانی سے اجازت دے دی

یم۔واپس پہنچے تو ثانیہ چائے لیکر بھیٹک میں ہمارا انتظار کر رہی تھی ہم اندر داخل ہوئے ثانیہ نے ہمیں چائے کے کپ پکڑائے اور خود بجی چسکی لیتے ہوئے شکیل کی طرف دیکھا اور بولی

اوئے ہوئے پھر سے بال شال بنا کر لے آئے ہو

لیکن میں تو سیدھے بالوں کی دشمن ہوں شکیل مسکرا دیا اور ثانیہ نے جلدی سے دوبارہ اسکے بال خراب کر دیے چائے پینے کے بعد ہم گپوں میں ایسے مصروف ہوئے ہمیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ ہم تو سبق پڑھنے کے لیے اکھٹے ہوئے تھے

ثانیہ چہک رہی تھی اور میں محسوس کر سکتا تھا وہ میرے دوست شکیل میں بہت دلچسپی لے رہی ہے وہ جب بھی شکیل کے ساتھ کوئی شرارت کرتی مجھے یک گونہ خوشی کا احساس ہوتا لیکن ساتھ میں یہ بھی محسوس کر سکتا تھا کہ وہ دونوں میری وجہ سے کافی جھجھک رہے تھے

میں چاہتا تھا کسی طریقے سے ان کی جھجھک دور کردوں پھر اچانک مجھے لڈو کا خیال آیا میں وہ نکال لایا اور اسطرح ہم لڈو کھیلنے لگے میں نے اصول بتاتے ہوئے اپنے دل کی بات بھی کہہ دی

کہ اس دوران جب ہم یہاں ہیں کوئی کسی کا لحاظ نہیں رکھے گا نہ میں ثانیہ کی گوٹی اس وجہ سے نظر انداز کروں گا کہ یہ میری بہن ہے نہ شکیل کسی قسم کا لحاظ کرے گا بس یوں سمجھو آج ہم تینوں خود کے لیے آزاد ہیں جس کا جو جی چاہے حاصل کرے یا گنوا دے اسکی اپنی ہمت ہم نے لڈو شروع کی اور ہر بار ثانیہ ہار جاتی وہ شور مچاتی روہانسی ہو جاتی ایک دو بار تو غصے میں اس نے لڈو ہی پلٹ دی البتہ ایک بات بہت اچھی ہوئی کہ شکیل اور ثانیہ میری موجودگی کی جھجھک سے آزاد ہو گئے کتنی بار ثانیہ نے شکیل کے گال پہ چٹکی کاٹی اور اسے کھوتا کہہ کر پکارا اور کبھی ایسا ہوا کہ شکیل نے اسے ہلکی سی گال پر چپت لگاتے ہوئے کتی کہہ کر پکارا

اب کی بار شکیل نے ایک اور کھیل متعارف کرایا

ہم لڈو کا دانہ اچھالیں گے اور ایک سے چھ کے درمیان ایک نمبر چنیں گے جس کا آ گیا وہ جیت گیا

اور جیتنے والا ہارنے والوں سے کوئی بھی فرمائش کر سکتا ہے

ہاں یہ ٹھیک ہے ثانیہ خوشی سے بولی کیونکہ اس میں میرے بھی جیتنے کے چانسز بن جائیں گے

اور بچو پھر میں خوب بدلے لوں گی اس نے شکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

او پہلے ہی یہ دیکھ میری شرٹ کا بٹن توڑ دیا ہے اور کیا بدلہ لینا ہے شکیل نے ہنس کر اپنے ٹوٹے بٹن کی جگہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا

وہ تو تم دیکھنا بچو تمہاری شرٹ جاتی کہاں وہ چہک کر بولی

چلو اپنا اپنا نمبر بولو میں نے دانہ اوپر اچھالتے ہوئے کہا

شکیل: تین

ثانیہ : پانچ

میں نے ایک بولا اور دانہ اوپر اچھال دیا وہاں چھ آیا ہم تینوں ایک ساتھ ہنس دیے دوبارہ اچھالا تو تین آ گیا شکیل زور سے ہنسا

ثانیہ میرے بال سیدھے کرے فادی کنگھی لے کر آئے میں جلدی سے کنگھی اٹھا لایا ثانیہ نے اسکے بالوں میں پھیرتے ہوئے کہا

کوئی بات نہیں بچو دیکھنا ہوتا کیا تمہارے ساتھ

پھر اچھالا اس بار ثانیہ جیت گئی

فادی تم شکیل کی شرٹ اتارو اور شکیل تم اپنے بال خود خراب کرو وہ زور زور سے ہنس رہی تھی

نہیں نہیں نہیں ۔۔۔ میں نے نیچے بنیان بھی نہیں پہنی ہوئی یہ نہیں کچھ اور بتاو شکیل نے ہنستے ہنستے کہا

ناں جو بس جو کہا ہے کرنا ہے میں کروں پہن کر آتے ناں۔ چلو شاباش جلدو کرو دونوں

میں شکیل کی شرٹ اتارنے لگا اور شکیل نے خود کے بال خراب کرتے ہوئے کہا کوئی بات نہیں الله پوچھے گا۔ جب اسکی شرٹ اتر گئی تو ثانیہ نے دیکھا شکیل کے انڈرویر کا اوپری حصہ تھوڑا سا پینٹ سے باہر نظر آ رہا تھا وہ قہقہ لگاتے ہوئے کہنے لگی شکر کرو انڈرویر پہنا ہوا ہے۔ ہاہاہاہاہاہا

میں بھی قہقہ لگا کر ہنس دیا اگلی بار شکیل جیتا تو جیسے اسکی لاٹری لگ گئی ہو اس نے بہت شرارت آمیز نظروں سے ثانیہ کی طرف دیکھا پھر تھوڑا مسکرا کر مجھے مخاطب کیا اور بولا تم بھی اپنی شرٹ اتار ہی دو فادی۔ میں نے فوراً اپنی شرٹ اتار دی

اب میں کیا کروں ثانیہ نے اس سے پوچھا ثانیہ کی آنکھوں میں شرارت بھری ہوئی تھی اور وہ مسک رہی تھی

تم۔۔۔۔ تم فادی کی بنیان اتار دو کم از کم میرے برابر کا تو رہے ثانیہ نے لپک کر میری بنیان اتارتے ہوئے کہا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔

اب میں نے ایک بھرپور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ ثانیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں

اب کیا آئے گا۔۔۔

اس نے میری گال پر ہتھیلی سے دباو ڈالا

"کتا" اور میری آنکھوں کا رخ اپنے چہرے سے ہٹا دیا

اچھا اچھالو جو بھی ہو گا سامنے آ جائے گا ثانیہ نے کہا۔

ہاں جی۔۔۔۔۔ بہت کچھ سامنے آنے والا ہے ہاہاہاہا میں زور سے ہنسا میں نے لڈو کا دانہ اچھالا چھ آیا یہ ثانیہ نے چنا ہوا تھا وہ آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی ایک دم اچھلی زور زور اور اچھل کر قہقہے لگانے لگی جبکہ وہ مجھے ٹھینگا بھی ساتھ ہی دکھا رہی تھی

کوئی مسئلہ نہیں بازی پلٹتے دیر نہیں لگتی میں چھینپ سا گیا

شکیل تم اٹھو میرے لیے پانی لیکر آو اور فادی تم اپنی شرٹ سے میرے جوتے صاف کرو شکیل جیسے ہی باہر نکلا ثانیہ نے میری طرف بہت پیاس بھری نگاہوں سے دیکھا جیسے کوئی التجا کر رہی ہو میں اسکی التجا کو سمجھ سکتا تھا وہ کتنی ہی بار پیاسی نظروں سے شکیل کی چھاتی کی طرف دیکھ چکی تھی اب کی بار جیت میری ہوئی اور اب وقت آ گیا تھا میں ثانیہ کی ملتجی نظروں کا جواب دوں

میں نے قریب پڑی ثانیہ کی لپ اسٹک شکیل کو تھمائی اور کہا ثانیہ کو لپ اسٹک لگاو

اس نے لگا تو دی لیکن اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے اب میں نے ثانیہ سے کہا شکیل کی چھاتی پر اپنے ہونٹوں کے نشان بناو ثانیہ چند لمحے تذبذب میں مجھے دیکھتی رہی میں نے اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ دے دیا کہ وہ جیسے چاہے میرے جزبات سے کھیلے وہ گھٹنوں کے بل اٹھی اور اپنے ہونٹ شکیل کی چھاتی پر چسپاں کردیے میں نے ثانیہ کی کمر پر ہاتھ پھیرا اور نیچے ہپس تک لے آیا وہ چل سی گئی اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی شکیل اور ثانیہ کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں

اب کی بار شکیل جیتا تو اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کیا کرے وہ خاموش رہا ہم نے اسے کہا بھی کہ کوئی فرمائش کرے نہیں تو ہم دونوں ایک ساتھ تم سے فرمائش کریں گے وہ پھر بھی خاموش ہی رہا۔

پھر دھیرے سے بولا فادی یار اس دفعه میری طرف سے تم بولو۔

اچھا۔ ثانیہ تم اپنی شرٹ اتارو میں نے کہا

ثانیہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر آہ بھری یہ کیا بدتمیزی ہے۔؟

کیوں جب ہماری شرٹس اتروائی تھیں تب کوئی بدتمیزی نہیں تھی؟ تم دو مردوں کے ساتھ کھیل رہی ہو۔

چل اوئے بڑا مرد کمینے بھائی ہو تم میرے

نہیں یہ پہلے طے ہوا تھا کوئی لحاظ نہیں

شکیل میں بھی اتار دوں؟ اب ثانیہ نے شکیل کی طرف دیکھ کر پوچھا

مجھے کیا پتہ شکیل نے جواب دیا

نہیں نہیں بتاو تم ثانیہ نے ضد کی

برا پہنی ہے تو اتار دو

اب کی بار ثانیہ نے اپنی قمیض اتار دی اس نے کالے رنگ کا بریزیر پہنا تھے جس کے اندر دودھیا ابھار غضب ڈھا رہے تھے شکیل کی پینٹ کے اندر حرکت ہوئی تو ثانیہ دیکھ کر ہنسنے لگی

یہ کیا ہے اس نے ہلکی سی تھپکی لگائی

باہر نکالو اسے مجھے دیکھنا ہے ثانیہ نے پینٹ کے اوپر سے ہاتھ پھیرا شکیل جھجھک رہا تھا میں نے بڑھ کر اسکی بیلٹ کھول دی اسی لمحے ثانیہ نے میری بیلٹ کھولتے ہو کہا کمینے اسے ننگا کرتا ہے خود بھی ہو ناں میں گھٹنوں کے بل کھڑا ہوا تو میری پینٹ سرک گئی شکیل ایسے میری طرح کھڑے ہو میں نے اسے کہا تو وہ بھی ویسے ہی گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا ثانیہ ہمارے سامنے بیٹھی تھی اس نے شکیل کی پینٹ بھی نیچے کی اور ایک ایک ہاتھ ہم دونوں کے انڈرویر پر پھیرنا شروع کردیے

میں نے اپنا ایک ہاتھ شکیل کی کمر پر رکھا اور وہیں سے اسکا انڈرویر نیچے کھسکا دیا

تانیہ ابھی تک شرارت کے موڈ میں تھی اور ہنستے ہوئے کہنے لگی بت بن کر میرے سامنے کیوں کھڑے ہو فادی تم شکیل کو گلے لگاو تمہاری ناراضگی ختم کروں گی آج

میں نے بانہیں پھیلا کر شکیل کو گلے لگا لیا اسکا سینہ میرے سینے کے ساتھ جڑا ہوا تھا ثانیہ نے ہم دونوں کی کمر پر اپنا ہاتھ پھیرا

پھر شکیل کے سر سے پیچھے بالوں میں ہاتھ ڈال کر اسکا چہرہ اپنی طرف موڑتے ہی اسکی آنکھوں پر پیار دیا تمہاری یہ بلی آنکھیں مجھے بہت زیادہ پسند ہیں حالانکہ تم بلی آنکھوں والے مرد بیوفا ہوتے ہو

میں ابھی مرد کہاں ثانیہ۔

کیا کیا کیا کیا

کیا کہا زرا دوبارہ کہو

میں ابھی مرد کہاں شکیل دوبرگویا ہوا

نہیں آخر میں جو تم نے میرا نام لیا دوبارہ لو

اس نے صرف ثانیہ کہا۔

ثانیہ نے جھٹ سے اسے اپنے ساتھ چپکا لیا اور پھر ایک جھٹکے سے چھوڑ دیا جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو دراصل اس نے قمیض نہیں پہن رکھی تھی اب کی بار شکیل نے ثانیہ کے ابھاروں کو غور سے دیکھا وہاں ایک کالا تل تھا شکیل نے اس کی طرف انگلی بڑھائی ثانیہ نے بھی فوراً نیچے دیکھا اور ساتھ شکیل کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن پھر بھی شکیل اپنا ہاتھ ثانیہ کے ابھار پر بنے تل تک لے گیا اور اپنی انگلی وہاں گھمانی شروع کر دی

میں دیکھ سکتا تھا ثانیہ کے سرکنڈے کھڑے ہو گئے اس نے ایک شدید جھرجھری لی اور شکیل کو نیچے گراتے ہوئے اس کے اوپر گر گئی اسکا سر شکیل کے پیٹ پر تھا

مجھے ایک دم ایسے محسوس ہوا جیسے ثانیہ بے ہوش ہو گئی ہو میں نے جلدی سے ثانیہ کا منہ پکڑ کر ہلایا اور پریشانی میں اسے پکارنے لگا

کچھ دیر اس نے برداشت کی پھر آنکھیں کھول کر میرا ہاتھ جھٹک دیا

پاگل۔۔۔ ساتھ وہ زور سے چلائی بھی پھر دوبارہ اپنا سر شکیل کے پیٹ پر رکھتے ہوئے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

اب کی بار اس نے ناک سے ایک لمبی سانس اندر کھینچی جیسے وہ شکیل کے جسم سے اٹھتی گرمی کو اپنے اندر اتار رہی ہو

میں اٹھ کر ثانیہ کی ٹانگوں کی طرف آ گیا اسکی شلوار ہلکی سی نیچے کی جس سے اسکے آدھے ہپس ننگے ہو گئے اب میں ان پر زبان پھیرتا ہوا ثانیہ کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا اور ساتھ ہی ثانیہ کی برا کی ہک بھی کھول دی اس نے خود کو ہلکا سا سہارا دیا برا ایک طرف کالین پر پھینکی اور دوبارہ شکیل کے پیٹ پر سر رکھ دیا جبکہ شکیل ثانیہ کے سلکی بالوں میں ہاتھ پھیر رہا تھا شکیل نے ثانیہ کے دونوں بازووں میں ہاتھ ڈال کر اسے اوپر کھینچ لیا ثانیہ کے بال بکھر چکے تھے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالیں اپنی زبانیں لڑا رہے تھے

میں نے آہستگی سے ثانیہ کی شلوار اسکی ٹانگوں سے الگ کر دی لیکن وہ تو اپنی دنیا میں مگن تھی شکیل نے ثانیہ کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی ٹانگوں کے درمیان رکھا اور ثانیہ نے بھرپور ساتھ دیتے ہوئے اسکا مظبوطی سے پکڑ لیا شکیل کا جوش ابل رہا تھا اس نے ثانیہ کو بالوں سے پکڑ کر نیچے پیٹ کی جانب دھکیلا ثانیہ اسکی چھاتی پر پیار دیتے اس کے پیٹ تک پہنچ گئی لیکن اس سے آگے نہیں جا رہی تھی جبکہ شکیل کا من کر رہا تھا ثانیہ اسکا اپنے منہ میں بھر لے اب میں نے اپنی زبان ثانیہ کی ٹانگوں کے درمیان رکھی اور چاٹنا شروع کردی ثانیہ تڑپ کر رہ گئی شکیل مسلسل اسے نیچے ٹاگوں کے درمیان دھکیلنے کو کوشش کر رہا تھا اور جیسے جیسے میری زبان ثانیہ کو چاٹ رہی تھی ثانیہ آپے سے باہر ہوتی چلی جارہی تھی وہ ہم دونوں کے درمیان ایک گڑیا سی محسوس ہو رہی تھی میں نے جب زبان اندر ڈالی تو ثانیہ کی جیسے چیخ نکل گئی

اندر سے اسکی تر بتر ہو رہی تھی لیکن شکیل ابھی تک اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا

ثانیہ کچھ نہیں ہو گا

ایک بار اسے منہ میں لو تو سہی بہت مزہ آ ئے گا ثانیہ نے شکیل کا دوبارہ پکڑ کر جلدی سے اس پر زبان پھیری اور کہا بس اتنا ہی

نہیں منہ میں ڈالو پلیز

یک۔۔۔ نہیں پلیز ۔۔۔ گندے

شکیل نے بھی زیادہ زور نہیں ڈالا اور ثانیہ کو بالوں سے پکڑ کر اسکا سر اپنے پیٹ پر ٹکا لیا

میں نے ثانیہ کی ہہس پکڑ کر اونچی کیں اور چاٹنا جاری رکھا

اب جب ثانیہ مستی میں غرق ہوئی تو اس نے خود ہی شکیل کا منہ میں ڈال لیا وہ بلکل تنا ہوا تھا شکیل کو محسوس ہوا کہ اب شاید ابل جائے لہذا اس نے ثانیہ کا منہ پرے ہٹا دیا اور خود تھوڑا ایک طرف ہو گیا ثانیہ اٹھ کر میری طرف بڑھی اور سامنے سے مجھے زور سے جھپھی ڈال لی اسکے ابھار میری چھاتی سے چسپاں تھے اور وہ پاگلوں کی طرح مجھے پیار کر رہی تھی میں نے اسے خود سے الگ کیا اور اسکے بکھرے بالوں سے پکڑ کر اسے چاٹنے کا اشارہ کیا

اب ثانیہ میرا چاٹ رہی تھی شکیل نے موقع پا کر ثانیہ کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور اسکی ہپس اوپر اٹھا کر عین درمیان میں اپنا فٹ کیا اور ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ اندر ڈال دیا

ثانیہ اس کے لیے تیار نہیں تھی اور کراہ کر نیچے میری جھولی میں گر گئی اسے درد بھی ہوئی تھی اس وجہ سے شکیل کا باہر نکل گیا اور اس پر خون لگا ہوا تھا میں خوفزدہ ہو گیا کیونکہ ثانیہ کو خون آ رہا تھا وہ خود بھی ڈر گئی

میں نے جلدی سے اٹھ کر اپنی بنیان اٹھائی اور پہلے ثانیہ کا خون صاف کیا پھر شکیل کا بھی صاف کر دیا

بھائی مجھے ڈر لگ رہا ہے ثانیہ نے مجھے مخاطب کیا شاید یہ پہلی مرتبہ تھا جب ثانیہ نے مجھے بھائی پکارا تھا میں نے اسے گلے لگایا اور پیار کرنے لگا کبھی اسکی گردن پر ہاتھ پھیرتا کبھی کمر پر کبھی ہپس پر

پھر شکیل سے کہا ابھی دوبارہ ڈالو لیکن پلیز بہت آرام سے اس نے سر ہلایا اور دوبارہ اندر کیا ابھی آدھا ہی اندر گیا ہو گا کہ ثانیہ چلائی

بس بس شکیل پلیز اس سے زیادہ نہیں

شکیل بھی وہیں رک گیا اور آدھا ہی اندر باہر کرنے لگا وہ بہت آرام سے کر رہا تھا لیکن میری بہن پھر بھی بہت تکلیف میں کراہ رہی تھی اس کا ایک ہاتھ میری رانوں پر اور دوسرے ہاتھ سے میرا پکڑ رکھا تھا جیسے جیسے اسکو تکلیف محسوس ہوتی وہ مجھ پر اپنی پکڑ کو مزید سخت کرتی

اب اسے مزہ آرہا تھا لیکن ثانیہ کے فارغ ہونے سے پہلے ہی شکیل فارغ ہو گیا ثانیہ نے مجھے کہا بھائی اب آپ آو پلیز جلدی

اب ثانیہ نے شکیل کو پکڑ رکھا تھا

میں تھا اور میری بہن ثانیہ وہ کراہ رہی تھی اور ساتھ کہہ بھی رہی تھی

بھائی تیز

اور تیز بھائی

بھائی پورا اندر جانے دو

بھائی بہت مزہ آ ریا ہے

میں جب آگے کی طرف جھٹکا مارتا تو وہ پیچھے کی طرف پش کرتی

آہ بھائی۔۔۔ زور سے

اور ہم دونوں ایک ساتھ فارغ ہو کر وہیں ڈھیر ہو گئے

ایک تبصرہ شائع کریں for "اکلوتی پیاری بہن "