Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

شوہر کی خاطر


 

 

 

چوبیس سالہ مسز فوزیہ گیلانی اپنی شادی کے فورن بعد ہی اپنے شوہر جاوید کے ساتھ پاکستان سے امریکا کے ایک سٹی فریمونٹ کیلی فورنیا میں موو ہو گئی تھی

 فوزیہ کی شادی کے بعد پاکستان کی راویتی ساسوں کی طرح فوزیہ کی ساس کی بھی یه ہی خوائش   تھی کے فوزیہ شادی کے پہلے سال ہی بچے کی ماں بن جائے
 
 مگر جاوید  چوںکہ اپنی بیوی کی تنگ چھوت کا مزہ زیادہ عرصے  لینا  چاتا تھا . اس لیے شادی ہوتے ہی جاوید نے فوزیہ کو نہ  صرف پرگینیٹ نہ  ہونے والی گولیاں کھلانا  شروع کر دیں. بلکہ چودای کے دوران جاوید جب بھی فارغ ہونے لگتا. تو وہ فورن اپنے لن کو اپنی بیوی کی  پھدی سے نکال کر اپنے لن کے پانی کو فوزیہ کی چھوت کے لبوں یا اس کے پیٹ پر ہی خار ج کرتا تھا
 
 فوزیہ اپنی شادی شدہ زندگی اور اپنے شوھر جاوید احمد سے بہت خوش تھی . مگر یه خوشی ایک ہفتہ قبل اس وقت ختم ہو گئی  جب ملازمت کے دوران جاوید نے اپنی بھارتی آئی ٹی مشاورتی فرم سدھا ٹیکنالوجی سولیوشن انک ( ایس ٹی ایس) کے سب سے بڑے اور اچھے کلاینٹ کو اپنی غلطی اور بواقوفی سے کھو دیا تھا
 
 
 فوزیہ جانتی تھی کے اس کا شوہر جاوید آج  کل اس وجہ سے بہت ہی پریشان تھا . کیوں کے اس ای ٹی مشاورتی فرم نے ہی جاوید کو اس کی قابلیت کی بنا پر دبئی سے سلیکٹ کر کے ورک ویزا پر امریکا میں نوکری دی تھی
 
 
 اس کمپنی کا انڈین مالک مسٹر سنیل قاسم کل شام ہی انڈیا سے واپس امریکا ایا تھا. اور آتے ساتھ ہی اس نے فون کر جاوید کو دوسرے دن جاب کے دوران ہی لنچ ٹائم میں اپنے گھر میں ملاقات کے لیے بلا لیا تھا
 
 
 اپنی کمپنی کے اونر کی یه کال سنتے ہی جاوید کو اس بات کا پکا یقین ہو گیا تھا. کے مسٹر قاسم سے ہونے والی یه  پہلی ملاقات ہی جاوید کے لیے آخری ملاقات ثابت ہو گئی. اور جاوید کو اپنی غلطی  کا خمیازہ نوکری سے چھٹی کی صورت میں بگتنا پرے گا. یه ہی وجہ تھی کے اگلی صبح جاب پر جاتے ہوے  جاوید کی پریشانی  میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا تھا
 
 
 ادھر جاوید اپنی پرشانی میں مبتلا تھا. تو دوسری طرف اس کی نہایت خوبصورت اور وفاداربیوی فوزیہ کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی
 
 
 اپنے شوہر کے آفس جانے کے بعد ایک سفید سلیولیسس بلاؤوس اور سیاہ کیپری میں ملبوس ھو کر مطالعہ کی میز پر بہٹھی فوزیہ اپنی تھوڑی پر ہاتھ رکھ کر ایک گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی
 
 
 "جاوید پچھلے  کچھ ہفتوں بہت خوفزدہ ہے ! وہ سوچتا ہے  کے  اس بڑے اکاؤنٹ کو کھونے کی پاداش میں کہ مسٹر قاسم اسے آج کل میں نوکری سے ضرور نکال دیں گے "  اپنے شوہر کی پریشانی کے بارے میں سوچتے ہوے فوزیہ کے دل میں اس وقت یه خیال چل رہا تھا
 
 
 ! مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں گا ! "فوزیہ نے سوچتے ہو
ۓ اپنے آپ کو امید دلائی، ہو سکتا ہے کے مسٹر قاسم جاوید کو نوکری سے نکالنے کی بجاۓ صرف ایک وارننگ دے کر ہی چھوڑ دیں، ویسے جاوید کو نوکری سے ہاتھ دھونا پرے تو ان دونوں کو امریکا میں رہنے میں کافی تکلیف ہو گئی. کیوں کے ان کے گرین کارڈ جسے ایس ٹی ایس نے ہی  ان کے لیے سپانسر کیا تھا،وه بھی ابھی تک نہیں ایا تھا
 
 
 فوزیہ اپنی انہی سوچوں میں گم تھی کے اتنے میں اس کی نظر پاس پرے ٹیبل پر پری. جہاں ایک کاغذ پڑا ہوا تھا. جس پر اس کے شوہر جاوید  نے کل رات اپنے باس کے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر لکھا تھا.
 
 
 اس کاغذ پر نظر پڑتے ہی  فوزیہ کو مسٹر سنیل قاسم کے متلعق کہی گئی اپنے شوہر جاوید کی بات یاد آئی  " کے سننے میں ایا ہے کے مسٹر قاسم ایک بہت اچھے اورمدد کرنے والے انسان ہیں "
 
 
 "اگر واقعی ہی اسی بات ہے تو کیوں نہ  جاوید سے پہلے میں خود مسٹر قاسم سے مل کر انھے  اس بات پر قائل کرنے کی  کوسش کروں ، کے وہ جاوید کو نوکری سے نکالنے کی بجاے ایک  وارننگ دے کر ہی چھوڑ دیں "
 
 
 اپنے شوہر کو صبح پریشانی کی حالت میں جاب پر جاتے ہو
ۓ دیکھ کر فوزیہ خود بہت پرشان ہو چکی تھی. اسی لیے جاوید کی گئی غلطی کو خود سلجانے کا یه خیال اس کے دل میں اس وقت انے لگا تھا
 
 
 "مگر کہیں یه نہ ہو  کے جاوید کی بجاے میرا جانا ، مسٹر قاسم کو اچھا نہ لگے اور اس طرح  جاوید کا کام سدھرنے کی بجاے پہلے سے زیادہ خراب ہو جائے " مسٹر قاسم سے ملنے کا خیال دل میں اتے ہی فوزیہ کے دل میں اس وسوسے نے جنم لیا
 
 
 مگر اس کے ساتھ ہی " جو ہو گا دیکھا جائے گا " کا سوچتے ہوے فوزیہ نے پاس پرے اس پیپر سے فون  نمبر دیکھ  کر اپنے شوہر کے باس کو کال ملا دی

نمبر ڈائل کرنے کے تھوڑی دیر بعد جوں ہی  فوزیہ کو فون کے دوسری طرف سے ایک مرد کی  آواز سنائی دی. تو اس نے ایک دم اپنا طاروف کروایا  " ہیلو! مسٹر قاسم میرا نام مسز فوزیہ جاوید  ہے ! میرے شوہر جاوید احمد  آپ کی کمپنی سدھا ٹیکنالوجی میں کام کرتے ہیں ! "
 
 
 " یه وہ جاوید احمد تو نہیں جن کے ساتھ آج دوپہر کو میری میٹنگ ہے ؟" اپنا طاروف  کرواتے ہی فوزیہ کے کانوں میں سنیل صاحب کی آواز گونجی
 
 
 مسٹر قاسم کا سوال سن کر فوزیہ نے فورن ہی  جواب دیا  "جی ہاں، وہ وہی جاوید  جو آج  دوپہرآپ کے ساتھ ملاقات کررہے ہیں!
 
 
 " اچھا آپ بتائیں كے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں " فوزیہ کا جواب سن کر مسٹر قاسم نے انگلش کی بجائے اِس بار فوزیہ سے ہندی میں پوچھا
 
 
 " سب سے پہلے تو میری آپ سے ایک ریکویسٹ ہے . كے براے  مہربانی جاوید کو مت بتائیں كے میں نئے آپ کو کال کی ہے ، دوسری بات یہ كے اصل میں جاوید کی آپ سے ملاقات سے پہلے میں آپ سے ملنا چا  رہی تھی ، کیوں كے میں آپ سے مل کر صرف اِس بات کی وضاحت کرنا چاہتی ہوں ، كے میرے شوہر جاوید اپنی کی گئی غلطی سے کتنے زیادہ پریشان ہیں . " قاسم صاحب کے جواب میں اِس بار فوزیہ نے بھی قاسم صاحب کو اردو میں ہی جواب دیتے ہوئے کہا
 
 
 "اچھا ٹھیک ہے، اگر آپ ایک گھنٹے کے اندر مجھے مل سکتی ہیں تو میں آپ کا انتظار کر سکتا ہوں" فوزیہ کی بات سن کر فون کی دوسری طرف سے مسٹر قاسم نے جواب دیا
 
 
 "جی میں ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کے گھر پہنچ سکتی ہوں" مسٹر قاسم کا جواب سنتے ہی فوزیہ بولی اور پھر فون بند کرتے ساتھ ہی شاور کی طرف ڈور پری
 
 
 اپنے جسم کواچھی ترا شاور دینے کے بعد فوزیہ باتھ روم سے باھر آئی اور اپنے گیلے
 
 

 
 
 جسم کو تولیے سے اچھی ترا سے صاف اور خشک کرنے کے بعد وہ ننگی حالت میں ہی صوفے پر بیٹھ کر اپنی لمبی ہیل کو اپنے پاؤں میں پہننے لگی
 
 
 اپنی ایری والی جوتی کو اپنے پاؤں میں پہن کر فوزیہ  تیزی کے ساتھ بیڈ  کے  سامنے
 
 
  
 پرے ہوے  شیشے کے سامنے کھڑی ہوئی. اور اسی ننگی حالت میں ہی جلدی جلدی اپنے منہ پر میک اپ  کرنے لگی
 
 
 میک اپ سے فارغ ہونے کے بعد  فوزیہ نے الماری سے ایک  ویسٹرن سٹائل کا ایک  لمبا ڈریس نکال کر پہن لیا
 
 
 "میں دیکھنے میں اچھی لگ رہی ہوں نہ " اپنے گداز جسم  کو آئینے میں  دیکھتے ہوئےفوزیہ  نے اپنے بال کو تھوڑا سا تھوڑا سا سیٹ کرتے ہوے اپنے آپ سے کہا
 
 
 اس کے ساتھ ہی فوزیہ نے ٹیبل پر پڑا اپنا سیل فون اٹھا کر گوگل میپ میں مسٹر قاسم کے گھر کا پتا ڈالا .اور پھر اپنی کار میں بیٹھ کر وہ مسٹر قاسم کے گھر کی طرف چل پڑی

ہاے جاوید کی گئی غلطی کو سدھارتے سدھارتے اپنے شوہر کا کام بگاڑ ہی نہ دون کہیں" سنیل قاسم کی رھائش گاہ کی طرف اپنی کار دوڑاتے ہوے فوزیہ کے دل میں یه ہی خوف چھایا رہا
 
 مگر اس خوف کے باوجود اس نے اب واپس پلٹنا مناسب نہ سمھجا اور پھر کچھ ہی دیر بعد اس کی کار مسٹر قاسم کے گھر کے سامنے جا رکی
 
 سنیل قاسم کے گھر کے سامنے اپنی گاری پارک کر کے فوزیہ نے جوں ہی اپنی کار سے باہر نکل کر مسٹر قاسم کے گھر کے مین ڈور کی طرف واک کرنا شروع کیا
 
 
 تو ٹھنڈی ہوا کا ایک تازہ جھونکاایک دم سے آ کر اس کے تازہ تازہ نہایے ہوے بدن سے ٹکرا گیا 
 
 "افففففف مسٹر قاسم سے ملنے کی جلدی میں اپنی پینٹی تو پینٹی، میں تو اپنی برا بی پہننا بھول گئی ہوں آج " تازہ ہوا نے ڈریس کے اندر گھس کر جوں ہی فوزیہ کی جوان چوت اور اس کی کسی ہوئی گداز چھاتیوں کو چھوا. تو اپنی غلطی کا احساس کرتے ہی فوزیہ ایک دم بوکھلا اٹھی.
 
 "ہا
ۓ اب مجے اسی حالت میں ہی مسٹر قاسم سے ملنا پرے گا ، کیوں کے اب گھر واپس جا کر برا اور پینٹی پہننے کا وقت نہیں ہے میرے پاس" فوزیہ کو اپنی اس بیواقفی پر افسوس تو بہت ہوا مگر اب ٹائم کی کمی کی وجہ سے اس کا گھر جا کر واپس آنا
 
 
 بہت مشکل کام تھا. اس لیے نہ چاہتے ہوے بھی وہ مسٹر ٹیگو قاسم کے گھر کے دروازے کی طرف اپنے قدم بڑھاتی رہی
 
 مسٹر قاسم کے مین ڈور کے سامنے روک کر فوزیہ نے اپنی بکھری سانسوں کو سمبھالا. اورپھر ہمت کر کے دوسرے لمحے ہی دروازے پر دستک دے دی
 
 فوزیہ کی دستک کے جواب میں تھوڑی دیر بعد 45  سال کی عمر کے ایک آدمی نے دروازہ کھولا. جو اپنی عمر کے حساب سے کافی فٹ لگ رہا تھا
 
 دروازے پر کھڑے اس آدمی کو دیکھتے ہی فوزیہ ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی " مسٹرقاسم میں جاوید احمد کی بیوی فوزیہ ہوں، مجھے ملاقات کے لیے وقت دینے کے لیے آپ کا بہت بہت شکریہ"
 
 "ویل آپ سے مل کر بہت اچھا لگا ، پلیز آپ اندر تشریف لائیں " فوزیہ کی بات کے جواب میں مسٹر قاسم نے بی مسکرا کر جواب دیا اور اپنے گھر کا دروازہ کھول کر فوزیہ کو اندر انے کی دعوت دی
 
 فوزیہ مسٹر قاسم کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ان کے ڈرائنگ روم میں  چلی آئی . اور اتے ساتھ ہی کمرے کی سیٹنگ کا جائزہ لیا
 
 ڈرائنگ روم میں ایک  طرف ایک بڑا صوفہ رکھا ہوا  تھا . صوفے کے سامنے ایک بہت بڑا شیشے کا ٹیبل پڑا ہوا تھا. جب کے کمرے کی دوسری جانب  دو چیرز پڑی ہوئی تھیں . اور ان چیرز کے درمیاں میں ایک  سائیڈ ٹیبل تھی جس کی وجہ سے ان  دونوں میں تھوڑا فاصلہ تھا 
 
 اپنے شوہر کے باس کے  لیونگ روم کی سیٹنگ دیکھنے کے بعد فوزیہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کمرے میں رکھی چیئر پر بیٹھ  گئی
 
 اور فوزیہ کے بیٹھتے ہی سائیڈ ٹیبل کی دوسری طرف رکھی چیئر پر قاسم صاحب بھی  تشریف فرما ہو گے
 
 اپنی چیئر پر بیٹھ کر قاسم صاحب نے فوزیہ کی طرف دیکھا اور بولے   "مجھے خوشی ہے کہ مجھے پہلی بار آپ سے ملنے کا موقع مل رہا ہے !  ویسے مجھے یه کہنے میں کوئی حرج نہیں کے جاوید بہت خوش قسمت انسان ہے،  جسے آپ جیسی خوبصورت بیوی ملی ہے ،  جوخوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ  اپنے شوہر کے  لیے فکر مند بھی  ہے !  اب مجھے بتائیں کے آپ کیوں اتنی پریشان ہیں اور آپ کی پرشانی دور کرنے میں کیسے میں آپ کی ہیلپ کر سکتا ہوں

مسٹر قاسم میں اصل میں اپنے شوہر کے متلعق آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی ،  میں جانتی ہوں کے میرے شوہر جاوید نے جو غلطی کی ہے اس کا آپ کی کمپنی کو کافی نقصان پہنچا ہے اور ہو سکتا ہے سزا کے طور پر جاوید کو آپ آج نوکری سے بی نکال  دیں ، مگراس کے باوجود میں آپ کو یه بتانا چاہتی ہوں کے جاوید اپنی اس غلطی پر بہت پرشان اور شرمندہ ہے "
 
 یه بات کرتے ہوے فوزیہ نے التجائی نظروں سے قاسم صاحب کی طرف دیکھا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا " جاوید نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا کے آپ بہت اچھے اور غلطیاں معاف کرنے والے انسان ہیں ،اور اپنے شوہر کی اسی بات پر یقین کر کے میں آپ کے پاس یه ریکویسٹ لے کر آئی ہوں کے اگر ہو سکے تو میرے شوہر کی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوے اسے ایک بار معاف کر دیں پلیز" اپنے دل کی بات کرتے ہی فوزیہ کی آنکھوں میں نہ جانے کیوں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائی. جس کی بنا پر اس کی آنکھوں میں آنسوؤں آ گے اور وہ اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر وہ ایک دہم سے رونے لگی 
 
 فوزیہ کے اس طرح اچانک رونے کی اصل وجہ دراصل یه تھی کے جاوید اور فوزیہ نے دو ویک پہلے ہی اپنا  گھر خریدنے  کے لیے ڈون پیمنٹ کی تھی. اور اگر آج جاوید اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا تھا. تو ان کے مالی حالات کافی خراب ہو سکتے تھے
 
 کیوں کے اپنی اب تک کی سیونگ تو وہ  لوگ پہلے ہی  نیا گھر خریدنے میں خرچ کر چکے تھے . اور اب جاوید کی جاب ختم ہونے کی صورت میں ان دونوں میاں بیوی کے لیے پردیس میں اپنے گھر کا خرچہ چلانا کافی مشکل ہو سکتا تھا   
 
 مسٹر قاسم سے بات کرنے کے دوران جب فوزیہ کے ذھن میں یه بات آئی . تو اپنی انے والے  مالی مشکلات کا سوچ کر فوزیہ کی آنکھوں سے آنسوؤں خود با خود جاری ہو گے اور وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے منہ پر رکھ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گئی
 
 فوزیہ اپنے ہاتھوں کو آنکھوں پر رکھ کر ابھی اسی ترھا رونے میں مصروف تھی . کے اسے اپنے کندھےکی نرم جلد پر مسٹر قاسم کے سخت مردانہ ہاتھوں کا احساس ہوا
 
 مسٹر قاسم کے ہاتھ کو اپنے کندھے پر محسوس کرتے ہی فوزیہ نے ایک دھم اپنا رونا بند کرتے ہوے اپنے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے ہٹا کر پیچھے کی طرف دیکھا . تو اس کی نضر اپنی چیئر کے پیچھے کھڑے قاسم صاحب پر پری
 جو پیچھے سے اس کے کندھے  پر اپنا ہاتھ رکھ کرمساج کرتے ہوے اسے دلاسا دینے کی کوشش کر رہے تھے
 
 اپنے جسم کے کسی بی حصے پر ایک  اجنبی مرد کے ہاتھوں کا لمس  پہلی بار محسوس کرتے ہی شرم کے مارے فوزیہ کے جسم کو ایک جھرجری سی محسوس ہوئی. اور اس نے بے اختیاری میں  اپنے ہاتھ کو اوپر اٹھاتے ہوے اپنے کندھے پر رکھے ہوے مسٹر قاسمکے ہاتھ کو اپنے جسم سے الگ کر دیا 
 
 فوزیہ کا یوں ان کا ہاتھ کو اپنے کندھے سے جٹکنے والا عمل  مسٹر قاسم کو اچھا نہیں لگا تھا
 
 اسی لیے  مسٹر قاسم نے جسے ہی یه  دیکھا کے فوزیہ نے اب رونا بند کر دیا ہے .تو وہ فوزیہ کے پیچھے  سے ہٹ کر  فوزیہ کے سامنے سے ہوتے ہوے دوبارہ اپنی چیئر کی طرف بڑھنے لگے
 
 "لگتا ہے اپنے کندھے سے یوں ان کا ہاتھ کو ہٹانے کا طریقہ قاسم صاحب کو شاید اچھا نہیں لگا ،  اس لیے وہ شاید غصے کے عالم میں مجھ  سے پرے ہو رہے ہیں "  قاسم صاحب کی باڈی لینگویج کو دیکھتے ہی فوزیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا
 
 اس لیے قاسم صاحب پیچھے سے چلتے ہوے جوں ہی چیئر پر بہٹھی فوزیہ کے عین سامنے  اے .تو فوزیہ کو نجانے کیا سوجھی کے اس نے ایک دہم سے اپنا ہاتھ آگے کرتے ہوے قاسم صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ کی گرفت میں لے لیا.
 
 " مسٹر قاسم کیا ایسا کوئی طریقہ ہے کے آپ جاوید کو ایک چانس مزید دے دیں پلیز " قاسم صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوے چیئر پر بہٹھی فوزیہ نے اپنے سامنے کھڑے سنیل صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک بار پھر التجا کی   
 
 " ہاں ایک چییز ایسی ہے  جسے کرنے سے جاوید کی نوکری بچ سکتی ہے " فوزیہ کی بات سن کر مسٹر قاسم نے فوزیہ کے ہاتھ کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوے اب کی بار فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں تھامتے ہوے جواب دیا 
 
 "او تو پھر جلدی سے بتائیں نہ کے اس کے لیے کیا کرنا ہو گا مجھے " مسٹر قاسم کے منہ سے یه بات سنتے ہی فوزیہ نے ایک دم بے چینی سے پوچھا 
 
 فوزیہ کی بات سنتے ہی  مسٹر قاسم اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنی طرف کھینچتے ہوے دوسرے ہی لمحے اس کے نازک اور ملائم ہاتھ کو پینٹ میں کسے اپنے لورے کے عین اوپر رکھ دیا اور بولا " تماری بات کا جواب تماری انگلیوں کے نیچے ہے "
 
 فوزیہ تو اپنے شوہر جاوید کے منہ سےقاسم صاحب کی شرافت اور اچھائی کے قصے سن کر مدد کی غرض سے  یہاں آئی تھی
 
 مگربظاھر شریف نظر انے والے اس ادھیڑ عمر شخص کی اس شرمناک حرکت کو  دیکھتے ہی فوزیہ پر حیرت کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا

تو وہ آنکھیں پھاڑ کر مسٹر قاسم کی طرف دیکھنے لگی. اور پھر قاسم صاحب کے لن پر جمے اپنے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہوے ایک دم سے فوزیہ کے منہ سے نکلا "کیا مطلب ہے آپ کا  "   
 
 
 " تم کوئی  دودھ  پیتی بچی نہیں کے میری اس بات کا مطلب نہ سمجھ سکو" فوزیہ کی بات کا جواب دیتے ساتھ ہی قاسم صاحب نے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے لن پر مزید زور سے دبایا  . تو فوزیہ کے نرم ہاتھ کے لمس سے قاسم صاحب کا لن جوش میں اتے ہوے پنٹ میں تیزی پھولنے پھلنے لگا . جس کی بنا پر فوزیہ کو اس بات کا فورن اندازہ ہو گیا کے قاسم صاحب کا " ہتھیار" جاوید کے  ہتھیار کے مقابلے میں کافی برا ہے
 
 
 "نہیں نہیں میں یه نہیں کر سکتی ،کیوں کے میں نے آج تک اپنے ہسبنڈ کے سوا کسی اور کے ساتھ ایسا کوئی کام نہیں کیا " قاسم صاحب کی بات کا مطلب اچھی ترا سمجتے ہوے فوزیہ نے جواب دیا . اور اس کے ساتھ اس نے قاسم صاحب کے لورے پر دبے اپنے ہاتھ کو ایک بار ان کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش کی.
 
 
 مگر اس بار بی قاسم صاحب نے اس کی یه کوشش ناکام بناتے ہوے فوزیہ کے ہاتھ کو اپنے لورے پر جماے رکھا اور بولے  "کوئی بات نہیں اگر پہلے کبھی نہیں کیا تو آج کر لو، کیوں کے اپنے شوہر کی جاب بچانے کے لیے میرے لن کی مٹھ لگانے کا سودا برا نہیں بیگم فوزیہ "
 
 
 قاسم صاحب کے منہ سے نکلنے والے یه گندے الفاظ سن کر فوزیہ پورا وجود شرم کے مارے کانپنے لگا اوروہ ایک دم بولی "نہیں مجھ سے نہیں ہو گا یه سب "   
 
 
 اس کے ساتھ ہی فوزیہ نے قاسم صاحب کی طرف دیکھتے ہوھے ایک بار پھر التجا کی "مجھے جانے دیں پلیز " اوریه کہتے ھوے اس نے چیئر سے اٹھنے کی کوشش بھی کی
 
 
 "اتنی بھی کیا جلدی ہے فوزیہ جی...."  فوزیہ کو چیئر سے اٹھتے دیکھ کر قاسم صاحب نے اپنے دوسرے ہاتھ سے فوزیہ کے کھندھے کو زور سے دباتے ہوے اسے اٹھنے سے روکنے کے دوران اسے کہا 
 
 
 اپنے ساتھ ہونے والا مسٹر قاسم کا برتاؤ اور اس کی ناجائز فرمائش سن کر فوزیہ یه بات اچھی ترھا اب سمجھ ہی چکی تھی کے اس کے شوہر باس کوئی اچھا انسان نہیں ہے . مگر اس کے باوجود ایک اخری کوشش کے طور وہ بولی " مسٹر قاسم جاوید کی ہیلپ کریں پلیز "
 
 
 یه بات کہتے ہوے فوزیہ کی آواز بھر آئی اور قاسم صاحب کے شکنجے سے نہ نکل پانے کا سوچ کراس کی آنکھوں سے آنسوؤں ایک بار پھر سے پھوٹ پرے
 
 
 " دیکھے بیگم جاوید ، آپ کے ہسبنڈ نے بہت بڑی غلطی کی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری کمپنی کو کافی نقصان ہوا ہے . بلکہ ہمارا کسٹمر بھی ہم سے کافی ناراض ہو گیا ہے  " مسٹر قاسم نے فوزیہ کو ایک بار پھر یوں روتا دیکھ کر اسے سمجھانے کی کوشش تو کی . لکن اس کے ساتھ ساتھ ہی ہو اپنے لن پر فوزیہ کے ہاتھ کا دباو بھی  بڑھاتا رہا
 
 
 " میں آپ کی اس بات کو سمجھ سکتی ہوں مگر آپ جوکہ رھے ہیں  وہ میرے لیے نہ ممکن عمل ہے " قاسم صاحب کی بات کا جواب دیتے ہو
ۓ فوزیہ نے اپنے ہاتھ کو اس کے لن سے ہٹانے کی ایک اور ناکام کوشش کی . مگرقاسم صاحب کے ہاتھ کی مظبوط گرفت کی وجہ سے اس بار بی وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکی
 
 
 " فوزیہ جی آپ کی اطلاع کے لیے آپ کو بتا دون کے ایک سنگل مرد ہونے کا ناطے چونکہ میرے اپنے کوئی بچے نہیں، اسی لیے یہ کمپنی مجھے اپنے بچوں کی ترا عزیز ہے ، میں ایک کاروباری آدمی ہوں،  اورجس مقام پر آج میں ہوں ، اس مقام تک میں کوئی بھی چیز فری میں کسی کو دے کر نہیں پونچا جا سکتا ، جس کام کے لیے آپ میرے پاس آئی ہیں ، میرے لیے یه بھی  ایک کاروباری ڈیل ہی ہے ، اپ مجھ سے ایک بڑی چیز مانگ رہی ہو ، بدلے میں آپ سے میں اتنی ہی بڑی چیز کی ڈیمانڈ کر رہا ہوں، آپ چاہیں تو میری اففر کو رد کر سکتی ہیں ، اس صورت میں آپ کو ابھی کے ابھی یہاں سے جانا ہو گا ، کیوں کے میرا وقت بہت قیمتی ہے اس لیے میں اپنا وقت ویسٹ کرنا پسند نہیں کرتا" اس کے ساتھ ہی مسٹر قاسم نے اپنے لن پر پرے فوزیہ کے ہاتھ کو ہٹا کر اس کی گود میں رکھ دیا. تو فوزیہ کو سکون سا محسوس ہوا اور اس نے رونا بند کر دیا 
 
 
 فوزیہ کے ہاتھ کو پنیٹ میں تنے اپنے لن سے ہٹاتے ہی مسٹر قاسم ایک لمحے کی خاموشی کے بعد دوبارہ بولا " فوزیہ جی آپ یہاں سے جانے میں اب آزاد تو ہیں ، مگر یہاں سے باہر نکلنے سے پہلے یه بات اچھی طرح جان لیں، کے آپ کے یہاں سے باہر نکلنے کی صورت میں آپ کے شوہر جاوید کو نوکری کی برخاستگی کا لیٹر شام سے پہلے پہلے ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا، اور چونکہ آپ کے شوہر کو ان کی غلطی کی بنا پر نوکری سے نکالا جائے گا، اس وجہ سے نہ صرف انھے اگلی نوکری ملنا بہت مشکل کام ہو گا ،بلکہ اس  نوکری سے نکالے جانے کی صورت میں آپ اور اپ  کے شوہر کو تیس دن کے اندر اندر امریکا چھوڑ کر واپس پاکستان بھی  جانا ہو گا 
 
 
 "  یه  کہ  تو سہی رہا ہے ، کے اگر جاوید کو اس نوکری سے نکال دیا گیا، تو اسے کوئی اور جاب ملنا بہت ہی مشکل ہو گا، مگر اس کے باوجود  مجھے سمھج نہیں آ رہی کے آخر کروں بھی تو کیا کروں ، کیوں کے اگر اٹھ کر چلی جاتی ہوں ، تو شوہر کو نہ صرف جاب سے نکال  دیا جائے گا ، بلکہ ہمیں امریکا بی چھوڑنا پرے گا ، اور یہاں سے باہر نہ جانے کا مطلب یه ہو گا مسٹر قاسم کی بات مانتے ہوے میں ایک نیک اور شریف بیوی سے ایک گھشتی عورت بننا قبول کر لوں" مسٹر قاسم کی ساری بات سن کر فوزیہ  ایک دھم سے سوچ میں پڑ گئی. اور وہ قید میں نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو زنجیروں میں جکڑا ہوا محسوس کرنے لگی

مسٹر قاسم کی ساری باتوں اور فوزیہ کے ساتھ قاسم صاحب  کے  اس  برتاؤ سے فوزیہ یه بات اچھی ترا جان چکی تھی . کے جاوید کی باتوں کے برعکس قاسم ایک نہایت ہی خبیث قسم کا انسان تھا جو اپنی بات منوانے کے لیے کسی حد تک بی جا سکتا تھا

ادھر اپنی سوچوں میں گم  کرسی پر بہٹھی فوزیہ اگلا قدم اٹھانے کی الجن میں جکڑی ہوئی تھی

تو دوسری طرف فوزیہ کے سامنے کھڑا مسٹر قاسم فوزیہ کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوے اس کے ردعمل کو سمجنے کی کوشش میں مصروف تھا . تا کے اسی کے مطابق وہ  بھی اپنا اگلا قدم اٹھا سکے


 
اصل میں صورتحال یه تھی کے جاوید کی گئی غلطی کا پتا چلنے کے بعد بھی آج صبح تک قاسم صاحب کا جاوید کو جاب سے نکالنے کا  کوئی ارادہ نہیں تھا اسی لیے انھوں نے تو جاوید کو اپنے پاس اصل میں تو ایک وارننگ دینے کی غرض سے ہی  طلب کیا تھا

لکین فوزیہ کے فون کرنے پر عورتوں کے معاملے میں کافی رنگین مزاج  واقعیه ہونے والے سنیل قاسم کا لن  فون  پر فوزیہ کی مدھور آواز سنتے ہی  ایک دم اپنے جوبن پر آ گیا تھا


 اور یه ہی وجہ تھی کے فوزیہ کی ریکویسٹ پر قاسم صاحب نے  فورن ہی  اس سے ملاقات کی  حامی بھر لی تھی


پھر جب ٹائٹ ڈریس میں  ملبوس  فوزیہ مسٹر قاسم کے سامنے اپنی تمام تر رینایوں کے ساتھ جلفا افروز ہوئی


 تو فوزیہ  کے حسین جسم کے نشب و فراز اور لباس کے اندر بنا برازئر کے چھلکتی  فوزیہ کی جوان چھاتیوں کو دیکھتے ہی  قاسم صاحب کی پنٹ میں قید ان کا  لورا جوش  میں آ کر اچھلنے لگا


 اور یه ہی وہ موقعہ تھا جس وقت قاسم صاحب نے فیصلہ کیا کے وہ  اپنے ہندوستانی لورے کو آج اس جوان  پاکستانی چوت کا مزہ ضرور چکھا  کر رہے گا

ایک بزنس مین ہونے کے ناطے مسٹر قاسم کی زندگی میں اس ترا کے  موقعے پہلے بی کافی  آئے تھے جب  اس کے کسی ورکر کی بیوی نے اس  کے سامنے بیٹھ کر اپنے شوہر کی نوکری بچانے کی  ان سے التجا کی تھی اور پھر اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوے قاسم صاحب نے ہمیشہ ہی اس عورت کی  پھدی کا مزہ چکھا تھا


  اسی لیے اب فوزیہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوے ایک ہوشیار اور شاطر شخص ہونے کے ناطے مسٹر قاسم یه بات اچھی ترا جان چکا تھا کے دوسری کئی عورتوں کی ترھا  فوزیہ بھی  اس کے بچھاے ہوے جال میں پھنس چکی ہے مگر اس کے باوجود مسٹر قاسم  یه چاھتا تھا کے فوزیہ جو بھی  کام اور حرکت کرے وہ اپنی مرضی سے کرے


 اس کی وجہ یه تھی کے ایک تو مسٹر قاسم کوئی رپسٹ انسان نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ فوزیہ سے زبردستی چداہی کی کوشش کرتا


 اور دوسرا یه کے مسٹر قاسم یه بات بہت اچھی ترھا  جانتا تھا کے امریکا میں کسی کے ساتھ  زبردستی چداہی کا قانون کتنا سخت ہے.  اور اپنی کی گئی کسی بھی  غلط حرکت پر اسے لینے کے دینے پر سکتے ہیں


 اسی لیے وہ اپنا اگلا قدم اٹھانے سے پہلے  فوزیہ کی رضامندی کی پوری ترا تسلی کر لینا چاھتا تھا

 

کچھ دیر فوزیہ کے سامنے ہونہی کھڑے رہنے کے  دوران  جب مسٹر قاسم نے فوزیہ کو کرسی سے اٹھ کر گھر سے باہر جاتا نہیں دیکھا تو وہ سمج گیا کےزبان سے اقرار نہ کرنے کے باوجود بھی فوزیہ  دلی طور پر اب اس کی ڈیمانڈ منانے پر رضامند ہے


 جس کی بنا پر وہ اب اسے نہ تو آگے بڑھنے سے روکے گئی اور نہ ہی وہ اب اس کی کسی بات سے انکار کر پائے گئی

یه بات سوچتے ہی مسٹر قاسم نے اپنی قیمتی پنٹ کی بیلٹ  کھولی
 
 
  اور پنٹ کے ساتھ ساتھ اپنے انڈرویر کو  نیچے کرتے ہوے پنٹ اور انڈرویر دونو کو ایک ساتھ ہی اپنے جسم سے الگ کر کے   نیچے فرش پر گرا دیا

مسٹر قاسم کی پنٹ اور انڈرویر اترنے کی دیر تھی کے اس کے ساتھ ہی قاسم صاحب کا ہرا ہوا 

انکٹ لورا چھن سے باہر نکلا اور  سانپ کی طرح  اپنا پھُن پھلاتے ہوے تن کر ہوا میں کھڑا ہو گیا


قاسم صاحب کے لورے کو اپنی نظروں کے سامنے یوں عریاں ہوتا دیکھ کر شرم کے مارے نہ صرف فوزیہ کا چہرہ سرخ ہو گیا بلکہ  ساتھ ہی حیرت کے مارے اس کی آنکھیں بھی  پھٹی کی پھٹی رہ گیں
 

فوزیہ کے اس مکس ری ایکشن کی وجہ یه تھی کے چوںکہ فوزیہ نے نہ تو شادی سے پہلے اور نہ ہی شادی کے بعد اپنے شوہر جاوید کے علاوہ کسی اور مرد سے کسی قسم کا کوئی جنسی تعلق رکھا تھا اور نہ ہی اپنی زندگی میں جاوید کے علاوہ کسی غیر مرد کا لن کو اس سے پہلے دیکھا تھا . اس لیے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کے لن کو یوں اچانک اپنی نظروں سے سامنے ننگا دیکھ کر اسے بہت شرم محسوس ہوئی
 
 
 
 
مگر ساتھ ہی ساتھ  جاوید کے لورے کے مقابلے میں قاسم صاحب کا لن  نہ صرف  کافی لمبا، موٹا اور چوڑا تھا. بلکہ جاوید کے لورے کے برعکس قاسم صاحب کا  لورا آگے سے کٹا ہوا بھی  نہیں تھا . اسی لیے اپنے شوہرکے کٹے ھوے لن سے مختلف ایک انکٹ لورا دیکھ کر فوزیہ ایک دم حیرت زدہ رہ گئی
 
 
 
 
ابھی فوزیہ گم صم کی حالت میں ہی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی کے اتنے میں قاسم صاحب نے آگے ہوتے ہوے فوزیہ کی گود میں رکھا ہوے ہاتھ کو اٹھایا اور اسے لا کر ایک  دم   سے اپنے تنے ہوے ننگے لن پر رکھ دیا 
 
 
 
قاسم صاحب نے جسے  اپنے لورے پر فوزیہ کا ہاتھ کو رکھا تو شرم اور خوف کے مارے "نہیییییی نہیییییی " چلاتے ہوے فوزیہ نے مسٹر قاسم کے لن سے اپنا ہاتھ کو ہٹانا چاہا
 
 
 
 تو فوزیہ کو اپنے لورے سے اپنا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتا دیکھ کر قاسم صاحب سے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوے فوزیہ سے ایک بار پھر فرمائش کی. "اووووووو اپنے ہاتھ سے میرے لن کی مٹھ لگا کر میرا پانی نکال دو نہ فوزیہ جی "
 
 
 
 اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر ہی اپنی گانڈ کو آگے پیچھے ہلاتے ہوے اپنے تنے ہوے سخت لورے کو فوزیہ کی نرم اور گداز ہتھلی پر آہستہ آہستہ رگڑنا شروع کر دیا   
 
 
 ایک اجنبی مرد کے  ننگے لن  پر اپنے ہاتھوں کی  ماجودگی  ذہنی طور پر فوزیہ کے لیے بہت ہی  قوفت کا باحیث  تھی مگر وہ کوشش کے باوجود  بھی  قاسم صاحب کے چنگل سے اپنے آپ کو نہیں بچا پا رہی تھی 
 
 
 
 
فوزیہ ابھی اسی کشمکش میں گھری ہوئی تھی کے وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے کے اچانک اس کے دماغ میں ایک بات آئی اور وہ خیالوں ہی خیالوں میں اپنے آپ سے ہمکلام  ہوئی کے "
 
 
" جب میری  کالج کی کافی ساری  کلاس فیلوز پاکستان میں رهتے ہوے  بھی  پڑھائی کے دوران ہی بواۓ فرینڈز بنا  کر شادی سے پہلے ہی چدوا سکتی ہیں ، تو اپنے شوہر کی جاب  بچانےاور اپنے بہتر مستقبل کے لیے  پردیس میں  اس غیر مرد کی مٹھ لگانے میں مجھے کوئی حرج نہیں ہونا چایئے"
  
 
 یه خیال دل میں اتے ہی فوزیہ نےاپنے آپ کو اس گندے کام کے لیے امادہ کرنے کی کوشش کی .اور پھر ساتھ بی بوجل دل کے  ساتھ   نہ چاہتے ہوے قاسمصاحب  کے  چٹان کی طرح سخت اور لوہے کی طرح گرم  لورے پر اپنے ہاتھ  کا دباو بڑھاتے ہوے جلدی سے  ان کے لن کی مٹھ لگانا شروع کر دی 
 
 "اففففففففف کیا جادو ہے آپ کے ان نازک ہاتھوں میں فوزیہ جی " فوزیہ کے گداز ہاتھوں کو اپنے موٹے سخت لورے پر چلتا ہوا  محسوس کرتے ہی مزے  اور خوشی سے اچھلتے ہوے قاسم صاحب ایک دم  بول پرے

 
اصل میں مسٹر  قاسم ایک نہایت ہی شاطراور بے غیرت قسم کا  انسان تھا  .   جسے  کسی عورت سے  اس کی مرضی کے خلاف  اس ترھا کا گندا کام کروا کر ایک عجیب سا جنسی مزہ ملتا تھا 
 
 
یه ہی وجہ تھی کے  فوزیہ جیسی جوان اور خوبصورت عورت کو اپنے سامنے دیکھ کر مسٹر قاسم کو جاوید کی غلطی پر بہت خوشی ہوئی تھی کیوں کے یه جاوید کی غلطی کی وجہ سے ہی اسے جاوید کی شریف اور خوبصورت بیوی کے ساتھ جنسی مزہ کرنے کا موقع میسر ایا تھا . اور اب فوزیہ جیسی جوان  شادی شدہ عورت کو اپنی مرضی کے خلاف اس کے لورے پر ہاتھ چلاتا دیکھ کر قاسم صاحب کے اندر کا شیطان اب پورا ترا جاگ چکا تھا
  
 اور اسی لیے فوزیہ کو یوں  اپنی بات مانتے دیکھ کر قاسم صاحب نے اپنے فرمائشی پروگرام کو آگے بڑھانے کا سوچتے ہوے اپنے سامنے بیٹھی فوزیہ بیگم کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے کہا " میرے لن کو اپنے منہ میں بھر لیں فوزیہ جی "
  
 
اس  شادی شدہ عورت کو اپنی مرضی کے خلاف اس کے لورے پر ہاتھ چلاتا دیکھ کر قاسم صاحب کے اندر کا شیطان اب پورا طرح جاگ چکا تھا. اور اسی لیے فوزیہ کو یوں اپنی بات مانتے دیکھ کر قاسم صاحب نے اپنے فرمائشی پروگرام کو آگے بڑھانے کا سوچتے ہوے اپنے سامنے بیٹھی فوزیہ بیگم کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے کہا "  اپنے ہونٹوں سے میرے لن کو پیار کریں  فوزیہ جی "
 
 
" کیااااااا" قاسم صاحب کی یه فرمائش سنتے ہی فوزیہ نے اپنی آنکھیں اوپر اٹھا کر ان  کی طرف دیکھا اور ساتھ ہی اپنے سر کو قاسم صاحب کے ہاتھ کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی
 
 مگر اسی دوران قاسم صاحب نے  کرسی پر بہٹھی فوزیہ کے سر کو اپنے ہاتھوں سے دبوچتے ہوے فوزیہ کے منہ کو اپنے تنے ہوے لن کے قریب کیا. اور اپنے لورے کو فوزیہ کے ہونٹوں کے عین سامنے لہراتے ہوے ایک بارپھر اپنی فرمائش دوہرائی " اپنے ان گلابی ہونٹوں سے ایک بار میرے لورے کو چھویں فوزیہ جی "
 
 
"نہیں  میں نے تو یه کام کبھی جاوید کے ساتھ نہیں کیا، تو آپ کے ساتھ کیسے کر سکتی ہوں قاسم صاحب " اپنی آنکھوں کے سامنے تنے ہوے مسٹر قاسم کے لورے پر نظریں جماے فوزیہ ایک دم سے گبھراتے ہوے بولی
 
 
" جاوید کے ساتھ آپ نے یه سب کیا ہے یا نہیں ، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ، اگر تو آپ اپنے شوہر کی نوکری واقعی ہی بچانا چاہتی ہیں، تو پھر آپ کو میری ہر بات ماننا پرے گئی ، ورنہ آبھی بھی وقت ہے آپ یہاں سے  جا سکتی ہیں فوزیہ جی " فوزیہ کا انکار سنتے ہی مسٹر قاسم کو غصہ ایا اور اپنی خواہش پوری نہ ہوتے دیکھ کر وہ سفاکی سے بولا
  
 
مسٹر قاسم کا یه سفاکانہ لہجہ سنتے ہی فوزیہ سمھج گئی کے اب اس خبیث آدمی کی بات ماننے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا تھا 
 
 
اس لیے  اپنی بے بسی کا  سوچتے ہوے فوزیہ کی آنکھوں میں آنسوؤں  ایک بار پھر سے جاری ہو گے تو اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھیں خود با خود بند ہو گیں 
 
 
فوزیہ کو یوں اپنی آنکھیں بند کرتے دیکھ کر مسٹر قاسم سمجھ گیا کے فوزیہ اس کے سامنے ہار مان چکی ہے
 
 
جس کی بنا پر اس کا حوصلہ بڑھا اور پھر اس نے چند قدم آگے بڑھ کر اپنے تنے ہوے پتھریلے  لورے کو کرسی پر بٹھی فوزیہ کے نرم- و- نازک  ہونٹوں کے عین اوپر رکھ کر لن کو فوزیہ کے لبوں پر ہلکا سے رگڑا . تو قاسم صاحب کے گرم لورے کی تپش اپنے گداز لبوں پر محسوس کرتے ہی فوزیہ نے ایک دم سے اپنی آنکھیں کھول دیں
 
 
"فوزیہ جی میرا لورا آپ کے ان پنکھڑی جسے گلابی ہونٹوں کا سواد چکنا چاہتا ہے ، پلیز اس اپنے ہونٹوں کا رس پلا دیں " مسٹر قاسم نے اپنے موٹے لورے کو فوزیہ کے لبوں کے سامنے لہراتے ھوے فرمائش کی 

قاسم صاحب کی بات سن کر فوزیہ نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور پھر نہ چاہتے ہوے بھی اس نے اپنا منہ آگے بڑھایا اور اپنی زبان  کو اپنے منہ سے باہر نکال کر مسٹر قاسم کے لن کے  موٹے ٹوپے کو ہلکا سا چھو لیا

ہاااااااااے کیا گرم زبان ہے آپ کی فوزیہ جی ، میرے لن کو یوں تو نہ ترسائیں ، بلکہ اسے اپنے منہ میں بھر لیں پلیز " فوزیہ کی گرم زبان کو یوں پہلی بار اپنے لن سے ٹچ ہوتا محسوس کر کے مزے کے مارے مسٹر قاسم کے منہ سے سسکاری نکلی اور اس کے ساتھ ہی اس نے فوزیہ سے دوبارہ ایک اور فرمائش کر دی
 
 مسٹر قاسم کی بات سن کر فوزیہ نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا اور پھر اپنا منہ پورا کھولتے ہوے قاسم صاحب کے لن کے ٹوپے کو اپنے منہ میں بھرنے کی کوشش کی مگر قاسم صاحب کا لورے کا ٹوپا اتنا موٹا تھا کے وہ فوزیہ کے چوتھے منہ میں داخل نہیں ہو پا رہا تھا
 
 فوزیہ  نے لن کو منہ سے باہر نکالا اور ایک بار پھر ٹرائی کی مگر نتیجہ پہلے جیسا ہی تھا
 
 قاسم صاحب نے جب دیکھا کے کوشش کے باوجود فوزیہ ان کے موٹے لمبے لورے کو اپنے منہ میں نہیں لے پا رہی تو انھے نہ جانے ایک دم کیا سوجھی کے انھوں نے فوزیہ کے سر کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہوے اپنی گانڈ  کو ایک جٹکا دیا تو ان  کا لورا فوزیہ کے لبوں کو چیرتا ہوے اس کے منہ میں آدھا داخل ہو گیا
 
 "اوووو نہیں " قاسم صاحب کےسخت لورے کو اپنے منہ میں محسوس کرتے ہی فوزیہ نے اپنے سر کو پیچھے کرتے ہوے مسٹر قاسم کے لن کو اپنے منہ سے نکالنے کی کوشش کی مگر قاسم صاحب بھی اس جنسی کھیل میں ایک منجھے ہوے کھلاڑی کی حثیت سے فوزیہ جیسی ناسمجھ  عورت کے ری ایکشن سے اچھی طرح  واقف تھے
  اس لیے فوزیہ  نے جوں ہی اپنے  سر کو پیچھے کر کے قاسم صاحب کے لن کو اپنے منہ سے نکالنے کی کوشش کی
 
 تو مقابلے میں قاسم صاحب نے فوزیہ کے سر کو  اپنے ہاتھوں سے  جکڑتے ہوے فوزیہ کو یه موقہ نہیں دیا کے وہ ان کے لن کو اپنے منہ سے اب نکال سکے   

 "اففففففففففففف اس عورت کا منہ اگر اتنا گرم ہے تو اس کی چوت کتنی گرم ہو گئی " فوزیہ کے منہ میں اپنے لمبے لورے کا موٹا ٹوپا داخل کرنے ہی مسٹر قاسم کو اپنی توقع سے زیادہ سواد ملا تو اس کے ذھن میں خیال ایا. اور اس کے ساتھ ہی وہ ایک بولا " ہا
ۓ فوزیہ جی میرے لن کا  چوپا تو لگاؤ نہ پلیز "
 اپنے لن کو اپنے سامنے بہٹھی فوزیہ کے حلق میں ٹھونستے ہوے مسٹر قاسم نے فرمائش کی اور پھر اس کے جواب کا انتظار کیے بنا ہی اپنی گانڈ کو آگے پیھچے ہلاتے ہوے  اپنے لن کے ذرے فوزیہ کے منہ  کو آہستہ آہستہ چودنا شروع کر دیا
 " ہاااااااااے اپنی شادی کے بعد جاوید نے کئی بار مجھ سے  اپنا  لن چوسنے کی فرمائش کی تھی مگر میں  نے اپنے شوہر کو ہمیشہ یه کہہ کر خاموش کر دیا تھا کے " یه گندہ کام ہے جان ، مگر آج  مسٹر قاسم اپنی بلیک میلنگ کے ذریعے مجھے اب وہ ہی گندہ کام اپنے ساتھ کرنے پر مجبور کر رہا ہے جسے میں آج تک اپنے شوہر کے ساتھ کرنے سے انکاری تھی " اپنے منہ میں آگے پیچھے ہلتے مسٹر قاسم کے لورے کی حرکت کو محسوس کرتے ہوے فوزیہ کے ذہن میں خیال ایا .
 ابھی فوزیہ اپنے اسی خیال میں گم تھی کے اتنے میں اس کے سامنے کھڑے مسٹر قاسم  نے اپنی گانڈ کو ایک دم آگے کرتے ہوے ایک بار پھر زور کا دھکا مارا تو اس بارقاسم صاحب کا لورا مزید تیزی
 کے ساتھ فوزیہ کے منہ سے ہوتا ہوا اس کے  حلق میں اترتا چلا گیا

فوزیہ قاسم صاحب کے اس اچانک حملے کے لیے بالکل بی تیار نہیں تھی . اسی لیے جوں ہی قاسم صاحب کا موٹا لمبا لورا فوزیہ کے حلق میں اترا تو فوزیہ کو اپنی سانس بند ہوتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس کے ساتھ ہی اسے ایک دم سے کھانسی لگ گئی  جس کی وجہ سے اس کی  آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگ گئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں ایک بار پھر آنسوں سے بھر گئیں.

فوزیہ نے اپنے سر کو پیچھے کرتے ہوے مسٹر قاسم کے لورے کو ایک بار پھر اپنے منہ سے جٹکنے کی کوشش کی مگر قاسم صاحب نے اب کی بار فوزیہ کے سر کے کو اپنے دونوں ہاتھوں

سے دبوچتے فوزیہ  کے سر کو پیچھے کی طرف سے کس کے پکڑا اور اپنا لوڑا تیزی کے ساتھ فوزیہ کے گرم منہ میں پیلنا شروع کر دیا

"میرے ساتھ یه خبث انسان جو کچھ بھی کر رہا ہے بیشک وہ کسی بی لحاظ سے سہی نہیں مگر اب بہتری اسی میں ہے کے  اس آدمی سے تاؤن  کرتے ہوے میں  جلدی سے اس کا پانی نکل کر اسے فارغ کروں اور  تا کے یہاں سے جلد از جلد نکل سکوں" اپنی مرضی کے خلاف اپنے منہ میں گومتے  قاسم صاحب کے لن کے تیکھے سواد کو اپنے زبان سے پہلی بار چکتے ہوے فوزیہ نے سوچا اور پھر اس کے ساتھ اس نے اپنی بہتی آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے ہوۓ اپنے منہ کو پورا کھولتے ہوے قاسم صاحب کے موٹے لمبے لورے کا جیسے تیسے چوپا  لگانے لگی

"اففففف فوزیہ جی کیا جادو ہے آپ کی  زبان میں"  فوزیہ کی اناڑی زبان نے جسے ہی منہ سے نکل کر قاسم صاحب کے لورے پر گھومنا شروع کیا تو لذت کے  مارے مسٹر قاسم کے منہ سے سسکیاں نکل کر کمرے میں گھونجنے لگیں

فوزیہ کے گرم منہ کے سواد سے بے حال ہوتے ہوے  قاسم صاحب نے فوزیہ کے سر کو اپنے ہاتھوں میں مزید طاقت سے پکڑا اور طوفانی انداز فوزیہ کے منہ کو چھودتے ہوے زور سے چیخے " اففف... آں رنڈی..کھول اور کھول اپنا منہ اور میرا پورے کا پورا  ا پنے منہ میں لے رنڈی"

فوزیہ جیسی شریف عورت نے جب پہلی بار کسی مرد کے منہ سے اپنے متلعق  ایسے الفاظ سنے تو اس نے نظریں اٹھا کر قاسم صاحب کی طرف دیکھا مگر اپنے بارے میں کہے گے ان گندے الفاظ کو سن کر مسٹر قاسم پر غصہ انے کی بجاے نہ جانے فوزیہ کو پہلی بار اپنی چھوت ایک دم گھلی محسوس ہونے لگی

" افففف  یه کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ آج "  اپنے جوان جسم کی اس بدلتی حالت کو محسوس کرتے ہی فوزیہ کو یه خیال آیا اور شرم کے مارے وہ اپنی ہی نظروں میں اپنے کو گرا ہوا محسوس کرنے لگی

اب کمرے میں  حالت یه تھی کے  ایک طرف مسٹر قاسم بھوکے شیر کی طرح اپنے لن کو اندر باہر کرتے ہوے فوزیہ کے لبوں اور منہ سے لطف اندوز ہو رہا تھا

جب کے دوسری طرف فوزیہ اپنے منہ اور زبان کو مسٹر قاسمکے لن پر تیزی سے گماتے ہوے جلد از جلد اس مصیبت سے چھٹکارا پانا چا رہی تھی   

فوزیہ بیشک لورا چوسائی کے معاملے میں اناڑی تھی مگر اس کے باوجود اپنے ساتھ کی جانے والی مسٹر قاسم کی زبردستی کے ہاتھوں ہار مانتے ہوۓ اس  نے جوں ہی قاسم صاحب  کے لورے کو پہلی بار چوسنا شروع کیا.تو فوزیہ  کے کنوارے منہ کی گرمی  کے اثر سے  مسٹر قاسم جسے تجربہ کار مرد کا لورا بھی پگلنے پر مجبور ہونے لگا تھا اور پھر  فوزیہ کے چوسے سٹارٹ کے  چند ہی لمحوں بعد قاسم صاحب  کی ہمت جواب دے گئی اور ان  کے منہ سے " اہہ ہہ اااااااا۔۔ اوووووو۔۔۔ ھاااااااااا"  جیسی آوازیں نکلنا شروع ہو گیں

اس کے ساتھ  ہی  قاسم صاحب کو اپنے  بھاری ٹٹو میں ایک طوفان سا اٹھتا ہوا ممحسوس ہوا . اور وہ  اپنے لن کو فوزیہ کے منہ میں جھڑ تک گھساتے ہوے ایک دم چیخے "اووو افففف میرا پانی نکلنے لگا  ہے فوزیہ جی "
 
قاسم صاحب کی یه بات سنتے ہی فوزیہ نےاپنے سر کو پیچھے کرتے ہوے  اپنے منہ میں گھسے قاسم صاحب کے لن کو  باہر نکالنے  کی کوشش کی


 مگر مسٹر قاسم صاحب  کے ہاتھوں می جکڑے اس کے سر اور اپنے منہ میں ٹھسے قاسم صاحب  کے  لن کے  ٹوپا نے اس کا  منہ کو بند کیا ہوا  تھا۔

جس کی بنا پرچاہنے کے باوجود فوزیہ  ایسا نا کر سکی اور پھر دوسرے ہی لمحے  قاسم صاحب  کے لن سے تازہ اور گرم منی کی دھار نکل کر فوزیہ کے  منہ کے اندر ہی گرنے لگی

اوو نو" قاسم صاحب  کی لیس دار گرم  منی جوں ہی پہلی بار فوزیہ کے منہ میں گری تواس کے  کے  نمکین ذائقے کو اپنی زبان پر محسوس  کرتے ہی فوزیہ کے منہ سے یه الفاظ نکلے

مگر قاسم صاحب نے اس کے ردے عمل کی پروا نہیں کی اور فوزیہ کے سر کو اپنے ہاتھوں سے دباتے ہوے اپنے لن کا سارا مادہ اس کے منہ میں انڈیلتے ہوے بولا " لے سالی گشتی پی میرے لن کا پانی کو، تم بے شک اقرار نہ کرو مگر مجھے پتا ہے کے اوپر سے شرافت کا ڈھونگ رچانے والی تماری جیسی عورتیں اندر سے پوری رنڈی ہوتی ہیں جن کو لن کا پانی پینے میں بہت مزہ اتا ہے "

فوزیہ کا سر قاسم صاحب  کے ہاتھوں میں دبوچے ہونے کی وجہ سے فوزیہ کے پاس  ان کے لن کا پانی سے  بچنے  کا کوئی چارہ نہیں تھا  اس لیے وہ بے بسی سے مسٹر قاسمان گندی باتوں کو سننے کے ساتھ ساتھ ان کی تیکھی اور گاری منی کو اپنے منہ  کے راستے اپنے حلق میں گرتا ہوا محسوس کرتی رہی

کچھ دیر یوں ہی اپنے لن کے مادے سے فوزیہ کے منہ کو بھرنے کے بعد قاسم صاحب نے فوزیہ کے منہ میں ٹھنسا ہوا اپنا لورا باہر نکالا اور ساتھ والے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا

جب کے دوسری طرف اپنے  منہ سے قاسم صاحب کا  لن نکلتے ہی فوزیہ نے اپنے حلق ہو ایک دم کھولا تو اس  کی سانس میں سانس تو آئی مگر اس کے ساتھ ہی منہ میں بھری ہوئی قاسم صاحب کی تیکھی منی اس کے منہ سے نکل کر لبوں کو بھگوتے ہوے فوزیہ کے گلے اور چھاتی کو بھی گیلا کرنے لگی

"بے شک اس  خبیث انسان نے اپنے لن کے پانی کو میرے منہ میں بھر کر میرا پاکیزہ منہ ناپاک  تو کر دیا ہے  مگر چلو اس کے بدلے اب میرے شوہر جاوید کی نوکری تو ضرور بچ جائے گئی" اپنے منہ میں چھوڑے ہوے قاسم صاحب کے لن کے پانی کو اپنے حلق میں جاتا محسوس کرتے ہی فوزیہ کے ذھن میں یه خیال ایا تو اس  نے ایک دم سے فرش پر تھوکا اور پھر بھاگتے ہوے  قاسم صاحب کے بیڈ روم کے ساتھ بنے ہوے باتھ روم میں جا کر پانی سے اپنے منہ کے غرارے کرنے لگی

اپنے منہ کو پانی سے طرح صاف کرنے کے بعد فوزیہ جوں ہی باتھ روم سے باہر آئی تو اس کی نظر دروازے کے سامنے کھڑے قاسم صاحب پر پری
 
جو اس وقت اپنے لباس سے بے نیاز بلکل ننگی حالت میں فوزیہ کے سامنے کھڑے تھے اور ان کی  ٹانگوں کے درمیاں ان کا موٹا لمبا لورا اپنا پانی فوزیہ کے  منہ میں نکالنے کے باوجود ایک بار پھر تن کر کھڑا تھا

"آپ اس حالت میں میرے سامنے آ کر کیوں کھڑے ہو گے ہیں  قاسم صاحب " بے شک فوزیہ نے آبھی کچھ لمحے پہلے ہی نیم ننگے قاسم صاحب کے لورے کو چوس کر ان کے لن کا پانی اپنے ہی منہ میں نکالا تھا مگر اس کے باوجود اسے مسٹر قاسم کو اپنے سامنے اس حالت میں دیکھ کر شرم محسوس ہوی اور اس نے اپنی نظروں کو ایک دم نیچے  جھکاتے ہوے کہا

"افففف تماری اس  ظالم جوانی نے میرے لن کو آج اتنا پاگل کر دیا ہے کے یه تمارے منہ کے ساتھ ساتھ اب  تمہاری  چھوت کا ذائقہ بھی  چکھنا چاہتا ہے  فوزیہ جی "

فوزیہ کی بات سن کر  مسٹر قاسم نے  اپنے لن پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرتے ہوے جواب دیا

" میں نے آپ کی خواھش پوری کر دی ہے اس لیے اب جانے دیں مجے پلیز " قاسم صاحب کے منہ سے ایک نیا مطالبہ سنتے ہی فوزیہ ایک  دم سکتے  میں آ گئی .اس نے  اپنی ناظرین اوپر اٹھا کر قاسم صاحب کی طرف دیکھا اور پھر ایک دم تیزی سے چلتے ہوے کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی

"ہاااااااااے جہاں پہلے میری ایک  فرمائش پوری کی ہے وہاں دوسری فرماش پوری کرنے میں کیا حرج ہے میری جان " فوزیہ کو یوں اپنے چنگل سے نکلتا دیکھ کر قاسم صاحب کو غصہ ایا  اور انھوں نے فوزیہ  کو جسم کوپیچھے سے اپنی باہوں میں  جکڑ لیا

قاسم صاحب کے ایک اور حملے سے فوزیہ ایک دم پریشان ہو گئی اور اس نے اپنے وجود کو مسٹر قاسم کی قید سے چھڑانے کی کوشش کرتے ہوے کہا "میں نے اب تک جو کچھ بی کیا وہ صرف اور صرف اپنے شوہر کی نوکری بچانے کی مجبوری میں کیا، اب اس سے آگے بڑھنا  میرے لیے ناممکن ہے قاسم صاحب 

" ہاااااااااے فوزیہ جی بس ایک بار اپنی اس پیاری چھوت کا مزہ لینے دیں مجھے اس کے بعد میں آپ کو تنگ نہیں کروں گا   " فوزیہ  کی بات سن کر مسٹر قاسم نے پیار بھرے  لہجے میں اسے جواب دیا اور دوسرے ہی لمحے فوزیہ کے ڈریس کو اس کے جسم سے ***حدہ کیا تو بنا برازئراور پینٹی کے فوزیہ کا جوان اور دلکش وجود  مسٹر قاسم صاحب کی نظروں کے سامنے عریاں ہو گیا 

فوزیہ کی  خوبصورت ٹانگیں، گوری گوری اور بھری بھری رانیں، موٹے، سڈول اور فل جوسی چوڑے کولہے اور اوپر سے موٹی بھاری صاف شفاف اور گداز کسی ہوئی جوان چھاتیاں کو دکھتے ہی قاسم صاحب کی  تو سٹی ہی گم ہوگئی اور فوزیہ  کا یه قیامت خیزسراپا دیکھتے ہی مسٹر قاسم کے منہ میں  پانی آ گیا

" افففف کیا  شاندار جوانی ہے آپ کی فوزیہ جی " فوزیہ کی کسی ہوئی جوان چھاتیوں اور اس کی لمبی گداز رانوں کے درمیاں سے جانگتی  شفاف چھوت پر ہوس بھری نظریں
 ڈالتے ہوے قاسم صاحب بولے

اور اس کے ساتھ ہی انہوں  نے فوزیہ کو دھکا دیا تو وہ  ننگی حالت میں پیچھے پڑے  بستر پر جا گری   

"اففف مجھے اگر ذرا سا بھی  اندازہ ہوتا کے اپنے شوہر کی نوکری بچانے کے لیے مجے اپنی عزت کا سودا بھی  کرنا پرے گا تو میں مسٹر قاسم کے  گھر میں کبھی بھی پیر نہ رکھتی " قاسم صاحب کے دئیے گے دھکے کی وجہ سے کمر کے بل بستر پر گرتے ہوے فوزیہ کے ذہن میں خیال ایا

بستر پر گرتے ہی فوزیہ کی ٹانگوں خود با خود ھوا میں اٹھ گئیں تو فوزیہ کی موٹے لبوں والی جوان پھدی مسٹر قاسم صاحب کے سامنے سورج مکھی کے پھول کی طرح کھلتی چلی گئی

" ہاااااااااے فوزیہ کی شکل کے ساتھ ساتھ اس کی چھوت بھی بہت ہی حسین ہے " فوزیہ کی کھلی ٹانگوں کے بیچ میں سے چھلکتی ہوئی اس کی جوان پھدی کو پہلی بار دیکھتے ہی قاسم صاحب کا ہرا ہوا لورا اکڑ کر ایک دم ان کی دھنی کے ساتھ ٹکرانے لگا

اس موقہ سے فائدہ اٹھانے کا سوچتے ہوے  قاسم صاحب  بستر پر پری فوزیہ کے جسم پر جھکے اور ایک دم سے فوزیہ  کی کھلی ٹانگوں کے درمیاں آ کر اس کی چھوت کے اوپر اپنا موٹا لورا رگڑ دیا

جوں ہی قاسم صاحب کا  سخت لورا فوزیہ کی جوان پھدی کے ساتھ ٹچ ہوا تو فوزیہ کے منہ سے بے اختیاری سے ایک ہلکی سی آواز نکلی " اووو "

" آپ کی چھوت تو  بہت ہی ملائم ہے فوزیہ جی " فوزیہ کے منہ سے نکلنے والی یه آواز سنتے ہی قاسم صاحب کا جوش مزید بڑھا اور انھوں نے فوزیہ کے چھاتیوں کے ساتھ اپنے بالوں بھرے سینے کو رگڑتے ہوے فوزیہ کے کان میں سرگوشی کی .اور اس کے ساتھ ہی فوزیہ کے پھدی کے لبوں پر اپنے لورے کو تیزی کے ساتھ ایک بار پھر رگڑا

"اس خبیث شخص نے جب میری عزت کو  پامال کرنے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تومیرے روکنے کے باوجود بھی یه شیطان اب میری چھوت میں لن ضرور ڈالے گا ، مگر اس مکارآدمی کے ہاتھوں اپنی عزت لٹوانے کے باوجود میں اسے کنجر انسان کو یه موقہ ہرگز نہیں دون گئی کے یه اپنے پانی کو میرے اندر ہی خارج کرے " مسٹر قاسم کے اپنے ساتھ اب تک کیے جانے والے سلوک کو دیکھتے ہوے فوزیہ یه بات اچھی طرح سمھج چکی تھی کے اس کے پاس قاسم صاحب سے بچنے کا کوئی چارہ نہیں تھا

اس لیے اس نے مزاحمت کی بجاے قاسم صاحب کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوے مسٹر قاسم سے ایک دم کہا " آپ کونڈم کے بغیر نہیں ڈالیں پلیز "

"اچھا ٹھیک ہے میں بغیر کونڈم کے نہیں ڈالوں گا، مگرشرط یه ہے کے میرے لن پر کونڈم آپ خود لگاؤ گئی فوزیہ جی  "فوزیہ کی بات سنتے ہی  قاسم صاحب کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ پھیلی اور اس نے فوزیہ کے اوپر سے ہٹ کر  بیڈ کے ساتھ والے دراز کو کھولا اور اس میں سے ایک کونڈم نکل کر فوزیہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا

"میں نے تو اپنے شوہر جاوید کے لن پر بھی کبھی خود کونڈم نہیں لگایا مگر پرگینیٹ ہونے سے بچنے کے لیے اب اس خبیث کی یه بات بھی مجبورن  ماننی پرے گئی مجھے "

قاسم صاحب کی یه نئی فرمائش سن کر "مرتا کیا نہ کرتا " والی مثال کی طرح فوزیہ بستر سے اٹھی اور کونڈم کا پیکٹ کھول کرلرزتے ہاتھوں سے  اسے  مسٹر قاسم کے لن پر چڑھا دیا

بے شک اپنی عزت  ایک اجنبی مرد کے ہاتھوں زبردستی پامال ہونے کے خوف کی وجہ سے فوزیہ کی ذہنی حالت اس وقت بہت پریشان کن تھی  اور مگراس کے باوجود قاسم صاحب کے لن پر کونڈم لگاتے وقت فوزیہ کے ذہن میں خیال ایا

 ہاااااااااے دیکھو تو سہی جاوید کے مقابلے میں قاسم صاحب کا لن زیادہ لمبا اور موٹا ہے "

اپنے ذہن میں انے والے اس خیال سے فوزیہ کو خود سے بھی  شرم آئی اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہاتھ میں پکڑے خالی پیکٹ کو فرش پر نیچے پھینک دیا

پھر جوں ہی فوزیہ قاسم صاحب کے لن پر کنڈوم چڑھا کر فارغ ہوئی تواس کے ساتھ ہی قاسم صاحب نے اسے پھر سے بستر پر گرایا  اور ایک دم سے فوزیہ  کے اوپر اتے ہوے اس کی پھدی پر اپنا  کونڈم لگا لن ٹکا دیا

اپنے لن کو فوزیہ کی پھدی کے منہ پر رکھتے ساتھ ہی قاسم صاحب نے ایک جٹکا مارا تو ان کے  لن کا موٹا ٹوپا فوزیہ کی پھدی کے لبوں کو کھولتا ہوا اس کی چوت کے اندر داخل ہو گیا

"ہاااااااااے میں مر گی" اپنے شوہرکے لن کے مقابلے میں کئی گنا موٹا اور سخت لورا پھدی میں زبردستی گھستے ھوے محسوس کرتے ہی درد کی شدت سے فوزیہ کی چیخ نکل گئی

قاسم صاحب فوزیہ کے شوہر جاوید تو تھے نہیں کے وہ اپنی بیگم کے دکھ یا درد کا کوئی احساس کرتے . اسی لیے انھوں نےفوزیہ کے اس طرح چیخنے کی پروا نہ کرتے ہوا اپنا کام جاری رکھا اور اپنا لن تھوڑا سا باہر نکل کر دوبارہ ایک اور جھٹکا دیا جس کی وجہ سے اس بار ان کا آدھے سے زیادہ لن فوزیہ کی تنگ پھدی کے اندر چلا گیا

"افففففف ہاااااااااے اوووو " قاسم صاحب کے اس وحشیانہ حملے نے فوزیہ جیسی معصوم لڑکی کو ہلا کر رکھ دیا اور درد کے مارے وہ دوبارہ  بلبلا اٹھی

" چداہی کے دوران مجھے روتی ہوئی عورتیں اچھی نہیں لگتیں ،اسی لیے میرے لن سے ہونے والی تکلیف کے باوجود مجھے تم سے ایسا ری ایکشن چائیے کے جسے  تمھے میری چداہی سے مزہ مل رہا ہے" فوزیہ کو یوں درد سے کرہاتے دیکھ کر قاسم صاحب غصے سے بولے اور پھر اپنے ہونٹ فوزیہ  کے ہونٹوں پر رکھ کراس کے ہونٹوں کو چوستے ہوے ساتھ ہی ساتھ نیچے سے فوزیہ کی پھدی کو بی آہستہ آہستہ چودنے میں مصروف ہو گے

فوزیہ نے جب چداہی کے دوران  قاسم صاحب کو  اس طرح غصے  میں اتا دیکھا تو وہ ایک دم سے سہم گئی  اوراب کی بار قاسم صاحب کے لمبے لن کا درد چھوت میں محسوس کرنے کے باوجود  فوزیہ قاسم صاحب کے جسم کے نیچے لیٹ کر چپ چاپ ان سے چدتی رہی

کمرے میں ہونے والی اس چداہی کے دوران اپنی پھدی میں پڑنے والے مسٹر قاسم کے گہسوں کو  فوزیہ تو اس وقت مجبوری کی حالت میں برداشت کر رہی تھی جب کے اپنے لن کو پھنس پھنس کر فوزیہ کی فوزیہ کی جوان اور چکنی چھوت میں جاتے ہوے محسوس کر کے قاسم صاحب اپنے ہر ہر گھسے کو  انجوئے کرتے ہوے یه سوچ رہے تھے کے  "اففف شادی شدہ ہونے کے باوجود فوزیہ کی پھدی کتنی تنگ اور اندر سے کتنی گرم ہے"

پھر تھوڑی دیر فوزیہ کی پھدی کو اپنے لن سے آہستہ آہستہ  چودنے کے بعد قاسم صاحب کو نجانے کیا سوجھی کے انھوں نے فوزیہ کی پھدی سے اپنے لن کو پورا باہر نکالا اور پھر بستر سے اترکر  فرش پرکھڑے ہو گے .اور فوزیہ کی ٹانگوں کے درمیان فرش پر کھڑے کھڑے قاسم صاحب نے لن پر لگے اپنے کنڈوم کو ہاتھ  سے کھیچ کر اسے اپنے لن سے اتار کر نیچے پھینک دیا

قاسم صاحب کو یوں اس کے اوپر سے اٹھ کر فرش پر کھڑے ہوتے اور پھر لن سے اپنا کنڈوم اتار کرفرش پر پھینکتا ھوا دیکھ کر سکون کا سانس لیا کے شاید قاسم صاحب نے اس کی چداہی ختم کر دی ہے . مگر اس سے پہلے کے فوزیہ بستر سے اٹھ کر اپنا ڈریس پہننے کا سوچتی کے اتنے میں مسٹر قاسم ایک بار پھر اس کی طرف بڑھے

بستر پر ٹانگیں کھول کر ننگی لیٹی فوزیہ نے  جب قاسم صاحب کو کنڈوم کے بغیر بیڈ کی طرف اتے دیکھا تووہ ایک دم چیخ پری.  "میں نے آپ سے کہا تھا کے کونڈم کے بغیر نہیں کریں مگر آپ نے پھر وعدہ خلافی کی ہے قاسم صاحب "

"وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے میری جان، ویسے بھی تمہاری جیسی تنگ اور گرم پھدی کو چودنے کا اصل مزہ کنڈم کے بغیر ہی ملتا ہے سویٹی"

یه کہتے ہوے  مسٹر قاسم نے  فرش پر کھڑے کھڑے ہی فوزیہ کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنی گرفت میں جکڑا اورپھر اپنے  لن کا ٹوپا فوزیہ کی  پھدی کے دھانے پر رکھنا چاہا تو مسٹر قاسم کا لورا سلپ ہو کر فوزیہ کی کنواری گانڈ کے سوراخ سے جا ٹکرایا

" اف لگتا ہے تمارے شوہر نے ابی تک تماری اس بھاری گانڈ کا سوراخ نہیں کھولا ، تو چلو آج میں تماری اس کنواری گانڈ کی سیل اپنے لن سے کھولے دیتا ہوں" مسٹر قاسم کا لورا انجانے میں جوں ہی فوزیہ کی کنواری گانڈ کے تنگ سوراخ پر لگا تو فوزیہ کی گانڈ کی موری کی سختی کو محسوس کرتے ہوے انھوں نے کہا 

" نہیں نہیں اس جگہ نہیں پلیز " مسٹر قاسم کی بات سنتے ہی ان کے موٹے لمبے لن کی دہشت سے خوف زدہ ہو کر فوزیہ نے نیچے سے اپنی گانڈ کے سوراخ  کو زور سے سکیڑتے ہوے  ایک دم چلا کر جواب دیا

" اچھا اگر گانڈ میں نہیں تو پھربول کر بتاؤ کے کہاں ڈالوں میں اپنا لن " فوزیہ کو یوں اپنی ٹائٹ گانڈ کا سوراخ یوں ایک دم مزید  ٹائٹ  کرتے ہوے مسٹر قاسم نے پوچھا

" قاسم صاحب میں آپ سے التجا کرتی ہوں *** کے لیے بغر کنڈم کے نہ ڈالیں اندر" مسٹر قاسم کی بات کو نظر انداز کرتے ہوے فوزیہ نے ایک بار پھر اپنی پرانی بات دوراہی

"سنو رنڈی میں آخری بار تم سے کہ رہا ہوں کے مجھے بول کر بتاؤ کے میں لن  تماری چوت میں ڈالوں یا گانڈ میں، اور اگر اب کی بار تم نے اپنی زبان سے بول کر مجھے نہیں بتایا تو میں تماری اس کنواری گانڈ میں اپنا  لن  ڈال کر اس کا کچومر بنانے  میں ذرا دیر نہیں کروں گا " مسٹر قاسم کو جب فوزیہ سے پوچھے گے سوال کا سہی جواب نہیں ملا تو وہ ایک دم غصے سے بولے

اور ساتھ ہی اپنے لورے کو اوپر نیچے کرتے ہوے لن کے  موٹے ٹوپے ایک بار پھر فوزیہ کی گانڈ کے سوراخ پر ہلکا سا رگڑا

مسٹر قاسم کی یه دھمکی سنتے ہی کانپتے ہونٹوں اور لزرتی آواز میں فوزیہ چلائی " گا گا گا گانڈ میں نہیں ،  چو چو چوت میں ڈ ڈ ڈال دیں"

فوزیہ کے منہ سے یه الفاظ سنتے ہی مسٹر قاسم کے کھڑے پر ایک مکارانہ مسکراہٹ پھیلی اور اس نے فوزیہ کی پھدی کے سوراخ پر اپنے لورا رکھتے ہوے ایک  جٹکا مارا

تو ان کا لورا فوزیہ کی پھدی میں دوبارہ جڑ تک گھس کر ایک ہی  بار میں اس  کی بچہ دانی سے جا ٹکرایا

مسٹر قاسم کے اس زور دار گھسے سے فوزیہ کے منہ سے درد اور لذت کی ملی جلی آواز نکلی " آآآآآآآآآآآآہہہہہہ"

درد کے مارے کانپتے ہوے فوزیہ  نے اپنے آپ کو مسٹر قاسم کی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہی

مسٹر قاسم نے اپنے لن کو فوزیہ کی پھدی میں ڈالتے ساتھ ایک پاگل جانور کی طرح اپنے لن  کو تیزی کے ساتھ فوزیہ کی  پھدی کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا 

فوزیہ کی  گرم جوان اور تنگ چوت نے مسٹر قاسم کو وہ لطف اور مزہ دیا تھا جو مزہ انھے آج تک کسی پھدی نے نہیں دیا تھا

یه ہی وجہ تھی  کے فوزیہ کی چداہی کے دوران  قاسم صاحب اپنے لورے کو اس کی چوت میں پیلتے ہوے وہ مزے سے چلا اٹھے " اف دیکھ تو سہی رنڈی کیسے میرا لن تمہاری تنگ پھدی میں جا رہا ہے ، دیکھ کیسے میرا لورا تمہاری چوت کو پھاڑ رہا ہے گشتی " یه کہتے ہوے قاسم صاحب مزید جوش اور طاقت سے فوزیہ کی چداہی میں مصروف ہو گے

فوزیہ کی پھدی تو اس کے  شوہر جاوید کے  آہستہ اور ہلکے جٹکوں کی عادی تھی جب کے جاوید کے مقابلے میں چداہی کے دوران قاسم صاحب  کے جٹکے اتنے شدید تھے کے مسٹر قاسم کے ہر جھٹکے کے ساتھ فوزیہ کو اپنی پھدی جلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی

اور قاسم صاحب کے تیز رفتار جھٹکوں کی وجہ سے فوزیہ کے جوان ممے زور زور سے اس کی چھاتی پر اوپر نیچے ہو رہے تھے

فوزیہ کی چھوت کو چودنے کے دوران  ہی  مسٹر قاسم اپنے منہ کو اگے بڑھا کر فوزیہ کی کسی ہوئی جوان چھاتیوں پر بی ٹوٹ پرے

اور فوزیہ کی جوان چھاتیوں کو اپنے منہ میں بھر کر چومنے اور چاٹنے لگے

اب نیچے سے قاسم صاحب کا موٹا ہتھیار فوزیہ کی معصوم چھوت کی دھجیاں بکھیر رہا تھا جب کے

اوپر سے مسٹر قاسم کے ظالم ہونٹ فوزیہ کے تنے ھوے موٹے نپلوں کو نوچ اور کاٹ رہے تھے

اور فوزیہ قاسم صاحب  کے بھاری وجود کے نیچے لیٹ کر بے بسی سے اپنی عزت اور پھدی کی دھجیاں اپنے شوہر کے ھندو باس کے ہاتھوں اڑتے ہوۓ دیکھ رہی تھی

جب کے مسٹر قاسم اپنے ملازم  جاوید  سے ہونے والی  غلطی  کا نقصان جاوید کی پاکستانی بیوی کی پھدی کو  اپنے موٹے  انکٹ لورے سےچود کر وصول کر رہے تھے

اپنے ساتھ کی جانے والی مسٹر قاسم کی اس زبردستی چودای کے باوجود فوزیہ کی یه کوشش تھی  کے مردے کی طرح بیڈ پر لیٹ کر چپ چاپ  طریقے سے قاسم صاحب سے چدواتی رہے اور اپنی آواز اور جسم کی کسی  حرکت سے یه ظاہر نہ کرے کے اسے قاسم صاحب کی اس چودای کا مزہ آ رہا ہے

مگر مسٹر قاسم کی پرجوش اور زور دار چداہی کے چند ہی لمحوں بعد  نہ چاہنے کے باوجود فوزیہ کو اپنی چوت قاسم صاحب کے لن کے ارد گرد سکڑتی ہوئی محسوس ہوئی

تواپنی پھدی کی اس واہیات حرکت سے وہ سمھج گئی کے ایک گرم اور جوان  عورت ہونے کے ناطے اس کی  چوت نے اسے دھوکہ دینا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی پھدی کی مزحمت اب کمزور پڑچکی ہے

اس سے پہلے کے فوزیہ اپنے جوان جسم کے گرم جذبات کو قابو کر پاتی کے نیچے سے اس کی پھدی نے اپنے پورا منہ کھول کر مسٹر قاسم کے لن کو پہلی بار اپنی مرضی سے اپنی آغوش میں لے لیا

اف  میری پھدی تو واقعی ہے ایک رنڈی کی طرح حرکتیں کرنے لگی ہے

اپنی پھدی کی اس حرکت سے گبھرا کرفوزیہ نے اپنے جسم کو ایک دم ڈھلا کرنے کی کوشش کی

مگراسی دوران فوزیہ کی تنگ  پھدی کی گرفت سے بے حال ہوتے ہوے قاسم صاحب  فوزیہ  کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ایک اور جٹکا مارا تو اس کا لورا فوزیہ کی بچہ دانی کے اوپر پہنچ گیا

ہاے میں گیا" اپنے لورے کو فوزیہ کی پھدی کی اندر ڈالتے ہی مسٹر قاسم کے منہ سے آواز

نکلی اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے لن کا پانی فوزیہ کی پھدی کی گہرائی میں انڈیلنا شروع کر دیا
"نہیں میری چوت میں نہیییییی" قاسم صاحب کے لن کے گرم پانی کو تیزی کے ساتھ اپنی پھدی کی تہ میں  گرتے ہوے محسوس کرتے ہی فوزیہ چیخی اور اس نے اپنے جسم کو قاسم صاحب کی گرفت سے چھوڑانے کی ایک بار پھر کوشش کی مگر فوزیہ کی یه کوشش بھی ناکام بناتے ہوے قاسم صاحب اپنے لورے کا پانی اس کی پھدی میں خارج کرنے لگے

اب  کمرے میں حالت یه تھی کے بیڈ پر لیٹی فوزیہ کی ٹانگیں ھوا میں جھول رہی تھیں اور قاسم
صاحب فرش پر کھڑے کھڑے فوزیہ کی پھدی میں اپنا رس برسانے میں مشغول تھے
جب کے فوزیہ قاسم صاحب کے وجود کے نیچے دبی ہونے کی وجہ سے بے بسی کے عالم میں ایک غیر اور کفار مرد کے لن کی منی اپنی پھدی کی گہرائی میں گرتے ہوے محسوس کرتے ھوے اپنی بے چارگی پر افسوس زدہ ہو رہی تھی

اسی دوران فوزیہ کی چوت کو وحشی انداز میں چھودتے ہوے  قاسم صاحب آخری بار دھارے " افففففففففففف " اور اس کے ساتھ ہی اپنے لن کے پانی سے فوزیہ کی چوت کو پوری طرح بھرتے ہوے  قاسم صاحب بستر پر درازفوزیہ کے جسم پر ہی ڈھیر ہو گے

فوزیہ کے جسم پر لیٹنے کے دوران بھی قاسم صاحب کا لن فوزیہ کی چوت میں اسی طرح گھسا رہا
کچھ دیرکے  بعد جب قاسم صاحب کے لورے نے سکڑتے ہوے فوزیہ کی چوت نے باہر نکلنا شروع
کیا تو لن کے ساتھ ساتھ قاسم صاحب کا  گرما  گرم رس  بھی اوور فلو ہو کر فوزیہ کی پھدی سے باہر ٹپکنے لگا   
قاسم صاحب بستر پر بے سود پری فوزیہ کے جسم کے اوپر سے اٹھے تو فوزیہ کی پھدی میں پھنسا ہوا ان کا لورا  "پچ" کی آواز سے نکل کر ان کی ٹانگوں میں
جھولنے لگا"
افففف دیکھو تو سہی اس بیغرت انسان کا ڈھلا لن بھی جاوید کا تنے ہوے لن سے بڑا ہے "  اپنی پھدی کے پانی سے پوری طرح بہھگا ہوے  قاسم صاحب کے  موٹے لمبے لن کو ان کی ٹانگوں کے درمیان ادھر ادھر جھومتے دکھ کر فوزیہ کے ذہن میں خیال ایا اور اس کے ساتھ ہی اس نے بستر سے اٹھ کر فرش پر پڑا اپنا ڈریس اٹھایا اور تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی باتھ روم میں گھس گئی

میں تو جیتے جی کبھی زندگی میں تمہارا منه نہیں دیکھوں گی بے غیرت انسان"  ”
 
 قاسم صاحب کی آواز سنتے ہی غصے میں بھری فوزیہ نے اپنے دِل میں کہا

 اور اِس کے ساتھ ہی قاسم صاحب کے گھر کا دروازہ  غصے میں زور سے پٹکاتے ہوئے ڈرائیو وے میں پارْک اپنی کار کی طرف چل پری
 " گھر واپس جاتے ہوئے رستے میں مجھے کسی فارمیسی سے پریگنسی روکنے والی ٹیبلیٹس لے کر کھا لینی چاہے ، کیوں اِس خبیس انسان نے اپنے گندے مادے سے میری پھدی کو اتنا زیادہ بھر دیا ہے ، جس کی وجہ سے مجھے ڈر ہے کے کہیں میں
 پیٹ سے نا ہو جاوں"  فوزیہ جوں ہی اپنی کار کی سیٹ پر بیٹھی . تو اپنی چوت کے لبوں سے بدستور رستے قاسم صاحب کے لن  کے پانی کی چپ چپ محسوس کرتے ہی اس نے سوچا . اور اِس کے ساتھ ہی وہ اپنی کار کو گھر کی طرف دوڑانے لگی
 فوزیہ کو گھر جاتے وقت  ٹریفک رش کی وجہ سے رستے میں دو تِین دفعہ رکنا پڑا . تو پہلے سے غصے میں بھری فوزیہ کو مزید غصہ ا گیا
 
 “کیوں نا میں گھر جا کر شاور لے کر پَہْلے اپنے وجود کو پاک کروں ، اور فارمیسی والا کام کال صبح کر لوں
 
 ٹَرَیفِک میں بار بار پھنسنے کی وجہ سے فوزیہ کی طبیعت پہلے سے زیدہ چرچڑی ہوئی . تو اُس نے یہ بات سوچتے ہوئے فارمیسی پریگنسی روکنے والی ٹیبلیٹس لینے کے موتلک اپنا ارادہ چینج کر لیا

گھر واپس آتے ہی فوزیہ کپڑے اُتار کر باتھ روم میں گھس گئی . اور باتھ روم کے شاور کے نیچے کھرے ہو کر ایک گھنٹہ اپنے جسم کو صابن سے مل مل کر اپنی جسم پر لگی قاسم صاحب کی گندگی کو اترانے کی کوشش کرتی رہی 
 
 شاور سے نکلنے کے بَعْد فوزیہ نے اپنے سارے جسم پر خوشبو دار لوشن کا مساج کیا
 
 مگر اِس کے باوجود فوزیہ کو قاسم صاحب کے جسم کی بو اپنے بدن سے اتی رہی . اور وہ نہانے کے بَعْد بھی اپنے آپ کو گندا ہی محسوس کرتی رہی 
 
 شام کو جاوید جب گھر واپس لوٹا . تو دن میں ہونے والے واقہ اور جاوید کے متلق اپنے غصے کو اپنے اندر ہی دباتے ہوئے فوزیہ نے ایک فرما بردار بِیوِی کی حیثیت سے اپنے شوہر کا خوشی خوشی استقبال کیا 
 
 “ہے جاوید کے چیرے کی مسکراہٹ سے تو لگتا ہے کے قاسم صاحب اپنی بات پر قائم رہے ہیں ، اور جاوید کی جاب محفوظ”گھر میں اینٹر ہوتے ہی جاوید کے چہرے کو اچھی طرح پرھنے کے بَعْد فوزیہ سمجھ گئی کے جاوید کی خوشی کی کیا وجہ ہے مگر اِس کے باوجود وہ اپنے شوہر کے منه سے یہ بات سننا چاہتی تھی
 
 اِس لیے جاوید نے جیسے ہی فوزیہ کو بتایا کے قاسم صاحب ملاقات کے دوران اسے بہت اچھے طریقے سے ملے . اور پِھر جاوید کی غلطی پر تھوڑا سا ڈانٹنے کے بَعْد دوبارہ اسی غلطی نا کا کہہ کر اسے جانے دیا ہے
 
 تو جاوید کو یہ ظاہر کرنے کے لیے کے فوزیہ کو اپنے شوہر کی بات سن کر بہت خوشی ہوئی ہے . اس نے جاوید کو اپنے گلے سے لگا کر مبارک دی 
 
 اپنی جاب بچ جانے کی خوشی میں جاوید نے فوزیہ کو اس رات ڈنر کھلایا . اور پِھر رات کو گھر واپسی آتے ہی جاوید اپنی بیگم فوزیہ پر حملہ آور ہو گیا
 

دن میں قاسم صاحب کے لورے سے اچھی طرح چودنے کے بَعْد فوزیہ اِس وقت چدائی کے موڈ میں نہیں تھی . مگر دِل میں اپنے شوہر سے ناراض ہونے کے باوجود فوزیہ نے جاوید کو نہیں روکا

 

تو جاوید نے فوزیہ کو پورا ننگا کرنے کے بَعْد اسے بستر پر لٹایا

اور پِھر فوزیہ کی کھلی ٹانگوں کے درمیاں اپنا منه رخ کر اپنی بِیوِی کی گرم چوت میں اپنی لمبی زُبان گمانے لگا

 

میری پھدی میں چھوری گئی قاسم صاحب کی منی کا ذائقہ اگر میرے شوہر نے اپنی زُبان سے چکھ لیا ، تو پِھر کیا ہوگا

اپنی چوت کے اندار چلتی جاوید کی زُبان کے مزے سے بے حال ہوتی فوزیہ کے زییاحن میں یہ خیال آئیا . تو یہ بات سوچتے ہی فوزیہ کی پھدی ایک دم پانی چھوڑنے لگی

 

اِس کے ساتھ ہی فوزیہ نے جاوید کے سر کو اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے زور سے اپنی پھدی پر دبایا

اور اپنی گانڈ کو بستر سے اٹھا اٹھا کر اپنی چوت کو اپنے شوہر کے منه پر جوش سے مارنا شروع کر دیا

افففف

تمھاری چوت تو آج پہلے سے زیدہ پیاسی اور گرم محسوس ہو رہی ہے فوزیا

اپنی بِیوِی کی اِس جنسی بھوک کو محسوس کرتے ہُوے جاوید بھی مزید جوش میں آئیا . اور اس نے فوزیہ کی چوت سے اپنا منه ہٹا کر اپنے لن کو اپنی بِیوِی کی پھدی میں ڈال کر اسے چودنا شروع کر دیا



ہاے قاسم صاحب کے لن کے مقابلے میں جاوید کا لن کتنا پتلہ اور چھوٹا ہے ، کے محسوس ہی نہیں ہو رہا کے کوئی چیز میری چوت میں گئی بھی ہے یا نہی

فوزیہ کی پھدی چونکہ آج ایک نیے لن کا مزہ چکھ چکی تھی

 

اسی لیے اپنے شوہر کا لن کو اپنی گرم پھدی میں جاتے ہوئے محسوس کر کے فوزیہ کے زییحان میں آج پہلی باڑ یہ خیال آئیا . تو اپنی اِس سوچ پر فوزیہ خود سے ہی شرم سی محسوس کرنے لگی

 

ادھر دوسری طرف فوزیہ کی پھدی میں لن ڈالتے ہی جاوید نے جوش میں آ کر اپنی جوان بِیوِی کی چدائی شروع تو کر دی تھی

 

مگر نوکری بچ جانے کی خوشی میں چونکہ جاوید آج پہلے سے زیدہ ہی ایکسائیٹڈ تھا

 

اسی لیے چدائی کا آغاز کرنے کے کچھ ہی دیر بَعْد جاوید اپنے جذبات قابو میں نہیں رکھ پایا اوراور اپنے گھسے اسٹارٹ کرنے کے کچھ ہی دیر میں اس نے اپنا پانی اپنی بیگم کی چوت میں انڈیل دیا

 

افففففف ابھی تو میری پھدی نے مزہ لینا شروع بھی نہیں کیا تھا ، کے جاوید خارج بھی ہو گیا اپنی گانڈ کو بستر سے اٹھا کر جاوید کے لن کو اپنی چوت میں قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فوزیہ نے سوچا

 

تو اتنی دیر میں جاوید فوزیہ کے جِسَم کے اوپر سے اُتَر کر اس کے پہلو میں نا صرف لیٹ چکا تھا . بلکہ بستر پر لیٹتے ساتھ ہی جاوید کے خراٹے بھی اسٹارٹ ہو چکے تھے

 

ہاے لو جی ہمیشہ کی طرح میری پھدی کو جگا کر خود میٹھی نیند میں چلا گیا ہے میرا شوہر ” جاوید کو یوں ایک دم اپنا پانی نکل کر مزے سے خراٹے لیتے دیکھ کر فوزیہ کو غصہ آئیا

 

فوزیہ نے غصے کے عالم میں اپنے ہاتھ کو اپنی پیاسی چوت پر رکھا . تو اپنے شوہر کے لن کی خراب پرفورمنس سے فرسٹیٹڈ ہوتی فوزیہ کو دوپہر میں قاسم صاحب کے ساتھ ہونے والی چدائی کا خیال ایک دم سے اپنے زہن میں آئیا

 

افففففف مجھے یقین نہیں ہو رہا ، کے میری اِس چوت کو جسے آج تک جاوید کے سوا کسی اور نے دیکھا تک نہیں تھا ، اسے آج ایک اجنبی مرد نے نا صرف اپنے ہاتھوں سے ننگا کیا ہے ، بلکہ میری پھدی میں اپنا لن ڈال کر میری شریف سی چوت کو کسی رنڈی کی چوت کی طرح بے دوردی سے اِسْتِعْمال کیا ہے آج” دوپہر کو اپنی پھدی میں لگنے والے قاسم صاحب کے زور دار جھٹکوں کا سوچتے ہوئے فوزیہ اتنی گرم ہوئی
 


 

کے جوش میں آتے ہوئے فوزیہ کے ہاتھ کی انگلیاں اُس کی پھدی کے دانے کو خود با خود مسلنے لگیںاوہہہہہہ ہاے افففففاپنی پھدی پر چلتے اپنے ہاتھ کے مزے کے ساتھ ساتھ ، قاسم صاحب کے لورے کی یاد نے فوزیہ کو ایک دم اتنا گرم اور پاگل کر دیا . کے دوسرے ہی لمحے نا صرف اُس کے منه سے سسکیاں جاری ہو گیں . بلکہ اِس کے ساتھ ہی فوزیہ کی پھدی نے بھی اپنا پانی چھوڑ دیا اور وہی خارج ہو گئی 
اففففففف یہ آج مجھے اتنی گرمی کیوں چڑ گئی ہے ، کے جاوید کی بِیوِی ہوتے ہوئے بھی ، میرے زہن میں کسی غیر مرد کے لورے کا خیال آنے لگا ہے ”قاسم صاحب کے لن کو زہن میں لا کر اپنی چوت کا پانی نکالنے والی اپنی اِس حرکت پر فوزیہ خود اپنے
آپ سے شرمسار تو ہوئیمگر اِس کے باوجود اپنی پھدی کا پانی خود اپنے ہاتھ سے خارج کرتے ہی فوزیہ کا گرم وجود کو تھوڑا سکوں بھی ملا . تو اِس کے ساتھ ہی فوزیہ کی نیند سے بھری آنکھیں خود با خود بُند ہونے لگیں اور جاوید کی طرح وہ کو بھی نیند کی وادی میں
اترنے لگیلیکن سونے سے پہلے فوزیہ کے زہن میں ایک بار پِھر پریگننسی کی ٹیبلیٹ کا خیال آئیا . تو اُس نے اپنے زہن میں یہ پکا ارادہ کر لیا کے وہ صبح ہوتے ہی سب سے پہلے فارمیسی پر جائے گی . اور وہاں سے گولیاں خرید کر انھے اِسْتِعْمال ضرور کرے گینیکسٹ ڈے سیٹڑڈے ہونے کی وجہ سے دونوں میاں بِیوِی دوپہر تک سوتے رہے . مگر جیسے ہی جاوید کی انکھ کھلی اور اُس کی نظر بیڈ روم کی دیوار پر لگی ہوئے وال کلاک پر پریتو اسے ایک دم کوئی بات یاد ای اور اِس کے ساتھ ہی جاوید نے اپنے پہلوں میں ننگی سوئی ہوئی فوزیہ کو ایک دم ہلا کر کہافوزیہ جلدی سے اٹھ کر تیار ہو جاؤ ، ہمیں کچھ دیر میں سان فرانسسکو جانا ہے
سان فرانسیکو ، وہ بھی اتنی صبح صبح ، مگر کیوںجاوید کے پہلوں میں بستر پر لیتی فوزیہ نے اپنی آنکھیں کھول کر سوال کیا مسڑ قاسم آج کمپنی کے کچھ لوگوں کو اپنی بوٹ پر سمندر کی سیر کے لیے لے کر جا رہے ہیں ، اور انھوں نے ہم دونوں کو ہمیں بھی انوایٹ کیا ہے ، اِس لیے جلدی سے اٹھ کر تیار ہو جاؤ ، ہمیں ابھی نکلنا ہے"  فوزیہ کے سوال کے جواب دیتے ہوئے جاوید بولا 

مجھے تو سب سے پہلے ابھی فارمیسی جانا ہے ، اِس لیے میں نہیں جا سکتی ابھیجاوید کے منه سے قاسم صاحب کا ذکر سنتے ہی اپنے ساتھ بیتا ہُوا کل کا وایقہ فوزیہ کے زہن میں آئیا اور وہ بولی طبیعت ٹھیک ہے ؟ ، فارمیسی سے کون سی میڈیسن لینی ہے تمیںفوزیہ کا جواب سنتے ہی جاوید نے ایک دم چونکتے ہوئے فوزیہ سے سوال کیا

اصل میں مئجھے ایڈول اور اپنے پیریڈز والے پیڈز لینے ہیں ، تو میں لیٹ ہو جاؤں گی ، اِس لیے آپ اکیلے ہی چلے جاؤ
جاوید کے اِس اچانک سوال پر فوزیہ سے کچھ جواب نا بن پایا
تو اُس نے ایک بہانا بنایا
مگر فوزیہ کے انکار کی اصل وجہ کل والا واقہ تھا . جس کی وجہ سے فوزیہ اب کسی صورت میں بھی قاسم صاحب کا سامنا نہیں کرنا چا رہی تھی


تمیں پتہ ہے کے قاسم صاحب نے کل میری جاب بچائی ہے ، اِس لیے میں ان کی دعوت میں آج اکیلا جاتا ہُوا اچھا نہیں لگوں گا ، اِس لیے فارمیسی جانے کا کام واپس آ کر کر لینا ، اور اب جلدی سے تیار ہو جاؤ پلیزفوزیہ کی بات سنہ کر جاوید جلدی سے بولا اور پِھر اپنی بیگم کے جواب کا انتظار کیا بغیر شاور لینے باتْھ روم چلا گیاہاے میرا شوہر کتنا معصوم ہے ، جو یہ سمجھتا ہے کے قاسم صاحب نے اُس کی جاب بچا کر اُس پر کوئی احسان کیا ہے ، اسے اصل بات کا علم ہی نہیں ، کے اُس کی جاب بچانے کے لیے مجھے اپنی عزت کا سودا کرنا پڑا ہے اِس خبیس قاسم سےجاوید کو باتْھ روم جاتے دیکھ کر بستر پر بدستور لیتی فوزیہ نے سوچا . اور پِھر وہ خود بھی بستر سے اٹھ کر بوحجل دِل کے ساتھ جاوید کے ساتھ سن فرانسیکو جانے کے لیے تیار ہونے لگی

جب جاوید اور فوزیہ قاسم صاحب کی بوٹ پر جا کر ان سے ملے . تو اپنے شوہر کے ساتھ قاسم صاحب سے ملتے ہوئے فوزیہ آج بہت ہی ٹینس حالت میں تھی . مگر قاسم صاحب اِس بار فوزیہ سے اِس طرح ملے جیسے ان دونوں کی یہ پہلی ملاقات ہو
 
 
 قاسم صاحب کے ساتھ اِس دوسری ملاقات کے دوران فوزیہ اپنے شوہر جاوید کے ساتھ ہونے والی قاسم صاحب کی گفتگو کو خاموشی سے سنتی رہی
 
 
 لیکن اِس دوران قاسم صاحب سے خوف اور نفرت کی وجہ سے اُس کا دِل بہت تیزی سے دڑھکتا رہا 
 
 
 پِھر جاوید اور فوزیہ کا اپنی بوٹ پر استقبال کرنے کے بَعْد جب قاسم صاحب دوسرے مہمانوں کی طرف متوجہ ہو گے . تو فوزیہ کی جان میں جان ای . اور وہ دونوں میاں بِیوِی بھی دوسرے مہمانوں کے ساتھ گُھل مل گے
 
 
 سمندر کی سیر کی کرتے کرتے شام ہو گئی . تو قاسم صاحب کی بوٹ نے سن فرانسیکو ہاربر واپس جانے کے لیے ٹرن لیا . تو بوٹ میں اچناک ہی کوئی مکینیکل فالٹ آ گیا 
 
 
 قاسم صاحب کی بوٹ کے کپتان اور باقی عملے نے کافی کوشش کی . مگر وہ بوٹ کے انجن میں آنے والے اِس پروبلم کو دور نا کر پاے 
 
 
 جس پر بوٹ کپتان نے ریڈیو پر ہاربر سے ہیلپ مانگی . تو ایک اور بوٹ نے آ کر قاسم صاحب کی بوٹ کو ریسکیو کیا
 
 
 اِس سارے کام کے دوران ان فوزیہ اور جاوید کو اپنے گھر واپس آتے آتے رات کا 1 بج گیا . جس کی بنا پر فوزیہ اُس دن بھی پریگننسی والی گولی نہیں لے سکی
 
 
 سیٹڑڈے کو بوٹ پر کمپنی کے دوسرے ایمپولییس کی بیویوں کے گرم جسموں کو دیکھ دیکھ کر جاوید کا لن سارا دن اُس کی پینٹ میں ہڑتا رہا 
 
 
 جس کی وجہ سے رات کو گھر لیٹ آنے کے باوجود جاوید کا لورا اپنی بِیوِی فوزیہ کی چوت میں جانے کے لیے مچل رہا تھا
 
 

اس رات گھر واپس آتے ہی جاوید ایک بار پِھر اپنی بِیوِی پر چڑھ  دوڑا . مگر دن بھر کے جوش کی وجہ سے آج بھی جاوید اپنی بیگم کی جنسی بھوک کو پورا نہیں کر پایا. اور اس نے فوزیہ کے چھوٹنے سے

پہلے ہی اپنے ڈھیلے لن کا پتلا پانی اپنی بیگم کی گرم پھدی کے لبوں پر ہی خارج کر دیا 


 اگلے دن سنڈے ہونے کی وجہ سے وہ فارمیسی بھی کلوز تھی . جہاں پر فوزیہ اور جاوید کی میڈیکل انشورنس کا ریکارڈ تھا . اِس لیے فوزیہ کا نکھٹ ڈے بھی پریگنسی کی ٹیبلیٹ کے بیغر ہی گزر گیا 
 
 
 “اففففففف میری کوکھ میں قاسم صاحب کی منی کو جزب ہوئے آج تیسرا دن گزر گیا ہے ، اور میں ابی تاک پرپریگنسی کو روکنے والی کوئی ٹیبلیٹ نہیں لے سکی ”مسڑ قاسم کے لن کے گہرے مادے کو اپنی بچہ دانی میں لینے کے بَعْد فوزیہ اِس بات سے بہت خوف زدہ تھی . کے اگر اس نے گولی کھانے میں دیر کر دی . تو اِس کا انجام بہت خطرناک ہو سکتا ہے 
 فوزیہ کی ایک پرشانی تو پرپریگنسی کی گولی نا کہھانے میں ہونے والی دیر تھی 
 مگر اِس کے ساتھ ساتھ فوزیہ کی پرشانی کی دوسری اور اصل وجہ اپنے شوہر جاوید کا پتلہ لن اور سب سے بھر کر جاوید کی جنسی کمزوری بھی تھی 
 بات یہ تھی کے جاوید سے شادی کے پہلے اور نا ہی شادی کے بَعْد فوزیہ نے کسی دوسرے مرد کے ساتھ کسی قسِم کا کوئی جنسی طلق قائم کیا تھا
 
 جس کی بنا پر شادی کے بَعْد سے اب تک فوزیہ اپنے شوہر جاوید کے لن سے پوری طرح مطمئن تھی 
 
 مگر جاوید کی بے واقوفی کی وجہ سے فوزیہ کی چوت نے جب سے قاسم صاحب کے لن کا مزہ چکا تھا 
 
 تو اس دن سے آب تک جتنی بار بھی اس کے شوہر نے اس کی پھدی میں لن ڈاَلا 
 
 تو نا جانے کیوں فوزیہ کی پھدی ہر بار جاوید کے لن سے وہ ہی سواد مانگتی رہی
 
 جو مزہ اور لزت اسے مسٹر قاسم کے گھوڑے جیسے لن اور ان کی وحشیانہ چدائی نے دی تھی . اور جاوید سے وہ مزہ نا ملنے کی وجہ سے فوزیہ پچھلے دو تِین دن سے ایک دم چیرچڑچڑی سی ہونے لگی تھی 

 اِس دوران فوزیہ نے فارمیسی سے پریگنسی روکنے والی ٹیبلیٹ تو حاصل کر لیں . مگر اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے ٹیبلیٹس خریدنے کے باوجود انھے منڈے کو بھی كھانا بھول گئی 
 
 منڈے کی رات جاوید جاب سے کافی لیٹ گھر آئیا تو فوزیہ سونے کے لیے بستر پر جا چکی تھی 
 
 جاوید نے خود بھی فریج سے كھانا نکل کر گرم کیا . اور کچھ دیر ٹی وی پر نیوز دیکھنے کے بَعْد بستر پر فوزیہ کے ساتھ آ کر لیٹ گیا 
 
 بستر پر لیٹنے کے بَعْد جاوید نے سوئی ہوئی فوزیہ بیگم کی شلوار اُتَار کر اس کی ٹانگوں کو چوڑا کیا . اور نیند میں مدہوش اپنی بیگم کی پھدی کو چاٹنے لگا 
 
 “ افففففففف ہاے کیا سواد ہے تماری اِس گرم نوکیلی زُبان میں جاوید” نیند میں ڈوبی فوزیہ کی چوت کے دانے سے جاوید ہی زُبان کی نوک جیسے ہی ٹکرای  تو اپنی پھدی پر جاوید کے اِس اچانک حملے سے فوزیہ اپنی نیند سے ایک دم بے دار ہو کر مزے سے چلا اٹھی

اوہہہہہہہ تم نے اپنی گرم زُبان سے میری پھدی میں آگ لگا دی ہے ، اب اپنے لن کو میری چوت میں ڈال کر میری چوت کی آگ کو ٹھنڈا بھی کرو جاوید” جاوید سے کچھ دیر اپنی پھدی کو یوں ہی چوسوانے کے بَعْد جب فوزیہ مزے کی انتھا تک پونچی تو اس نے اپنی ٹانگوں

کے درمیاں منه مارتے جاوید کو اس کے سر کے بالوں سے پکڑ کر اوپر کی طرف کہنچا . اور پِھر اپنے شوہر سے اپنی پھدی میں لن ڈالنے کی فرمائش کی 

 جاوید نے اپنی بیگم کی فرمایش پورا کرتے ہوئے فوزیہ کی پھدی میں لن ڈاَلا . تو اپنے شوہر کے لن کو اپنی چوٹ میں لیتے ہی فوزیہ نے اپنی ٹانگوں کو جاوید کی کمر کے گرد جکڑا . اور اپنے شوہر کی گانڈ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر زور سے اپنی چوت کی طرف کھینچ کر چیخی “وید زور زور سے چودو مجھے جا
 
 جاوید کی شادی شدہ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا . جب فوزیہ نے یوں جوش اور بے شرمی سے اپنے شوہر کو اسے چودنے کا کہا تھا 
 
 فوزیہ کے اِس جوش کو دیکھتے ہوئے جاوید نے زور زور سے جھٹکے مارنا شروع تو کیے
 
 مگر تِین چار گھسوں کے بَعْد ہی اس کا لن فوزیہ کی تپتی پھدی کی گرمی کے آگے بےحال ہو کر ہار مان بہھٹا. اور فوزیہ کی پھدی کی پیاس بجھاے بغیر ہی جاوید کچھ دیر میں ہی فارغ بھی ہو گیا 

 “وید جب میری پھدی کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کر سکتے ، تو میری چوٹ میں آگ لگاتے ہی کیوں ہو جا”جب جاوید نے آج بھی اپنی جوان بیگم کو حسب مامول پیاسا ہی چھوڑ دیا . تو بستر پر کروٹ بدل کر غصے میں لیٹی فوزیہ نے اپنے دِل میں یہ بات کہی 
 “ اففففف نا تو اِس گانڈو سے نوکری سہی ہوتی ہے اور نا ہی چدائی ” جاوید کی جنسی کمزوری پر کرتے ہوئے فوزیہ ایک بار پِھر اپنی چوت کو اپنے ہاتھ سے ٹھنڈا کرنے لگی . تو اِس عمل کے دوران اس کے زہن میں ایک خیال آئیا
 جس کو سوچتے ہی فوزیہ کی پھدی میں لگی آپ پہلے سے زیادہ بھڑکی اور پِھر دوسرے ہی لمحے فوزیہ کی گرم چوت نے بھی اپنا پانی چھوڑ دیا

آپنی چوت کی آگ کو ایک بار پِھر اپنے ہاتھ سے ٹھنڈا کرنے کے بَعْد اپنے اِس خیال کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے ذہنی طور پر پوری طرح تیار ہو گئی 

دوسرے دن جاوید کے آفیس جانے کے بَعْد فوزیہ باتھ روم میں گھس کر اچھی طرح سے نہای دوھی اور پِھر ایک سیکسی قسِم کا ڈریس پہن کر گھر سے باہر نکل کر کار میں بیٹھ گئی 

کچھ دیر بَعْد فوزیہ کی کار سنیل قاسم کے گھر کے سامنے رکی اور فوزیہ نے گاری سے اُتَر کر ڈور بیل بجا دی
 فوزیہ کے بیل بجانے کے چند سیکنڈز بَعْد جوں ہی قاسم صاحب گھر کا مین ڈور کھول کر باہر آے . تو گھر کے دروازے پر فوزیہ کو دیکھ کر انھے حیریت ہوئی مگر ساتھ ہی ساتھ ان کا لورا ان کی پینٹ میں ایک دم سے کھڑا ہو گیا اور انھوں نے پوچھا اپ اور یہاں ؟ ، صاحب خیریت تو ہے نا مسز جاوید 

 “خیریت ہی ہے قاسم صاحب ، اصل میں یہاں اِس لیے ای ہوں ، تاکہ کے آپ سے مل کر جاوید کو نوکری سے نا نکالنے کے لیے ، ذاتی طور پر آپ کا شکریہ ادا کر سکوں”یہ کہتے ہوئے فوزیہ نے دروازہ بُند کیا

اور سامنے کھڑے قاسم صاحب کے قدموں میں بیٹھ گئی . اور مسٹر قاسم کی پینٹ میں ہڑے ہوئے ان کا لن پر اپنا منه پھیرنے لگی

 “افففف مجھے پتہ تھا کے میرے لن کی طلب تُم میرے پاس لوٹنے کے لیے زرور مجبور کرے گی” فوزیہ کو یوں ایک دم پینٹ میں کیسے اپنے لن پر اپنا منه پھیرتے دیکھ کر قاسم صاحب نے فوزیہ کے سر کے بالوں کو اپنے ہاتھ میں جکڑتے ہوئے کہا تو فوزیہ نے بھی جوش میں آتے

ہوئے قاسم صاحب کی پینٹ میں ہڑے لورے پر اپنی لمبی زُبان کو گھومانا شروع کر دیا 
 کچھ دیر پینٹ کے اوپر سے ہی قاسم صاحب کے لورے پر دیوانہ وار اپنے منه اور زُبان مارنے کے بَعْد فوزیہ نے اپنے ہاتھوں سے قاسم صاحب کی بیلٹ کھول کر مسٹر قاسم کی پینٹ کو ان کے جسم سے علیحدہ کر دیا
 قاسم صاحب کی پینٹ اترتے ہی قاسم صاحب کا موٹا سخت لورا جوں ہی ایک بار پِھر فوزیہ کے سامنے آئیا . تو قاسم صاحب کے گھوڑے جیسے لمبے اور سخت لورے کو دیکھتے ہی فوزیہ کی آنکھوں میں چمک کے ساتھ ساتھ اس کے منه میں بھی پانی

اور اس کے ذہن میں خیال آئیا ہاے قربان جاؤں اِس موٹے لن کے ، جس کو لینے کے لیے میری پھدی پاگل ہو گئی ہے 
 یہ خیال آتے ہی فوزیہ کی پھدی میں لگی آگ ایک دم سے بھڑکی  اور قاسم صاحب کے لورے کو چُوسنے کی ہوس اس کے سر پر سوار ہو گئی
 تو اِس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منه آگے کرتے ہوئے قاسم صاحب کے ہوا میں تنے ہوئے لورے کو ایک دم اپنے منه میں بھر لیا 
 “اووو فوزیہ جی ، چوسووووو میرے لن کو” فوزیہ کے منه کی گرمی کو محسوس کرتے ہی لذّت کے مارے قاسم صاحب سسکاں اُٹھے . اور انھوں نے اپنے قدموں میں بہھٹی فوزیہ کے بالوں میں پیارسے اپنی انگلیاں پیھرتے ہوئے کہا

مسٹر قاسم کی آواز سنتے ہی فوزیہ مزید گرم ہوئی . اور اس نے اپنی زُبان کو قاسم صاحب کے لورے کے پھولے ہوئے ٹوپے پر گرم جوشی سے پھیرنا شروع کر دیا

 اب لیونگ روم میں یہ حالت تھی . کے ادھر قاسم صاحب کے لورے کو اپنے منه میں بھرتے ہوئے فوزیہ نے جوش کے ساتھ ان کے لوں کا چوسا لگانا شروع کیا 
 
تو دوسری طرف فوزیہ کے منه اور زُبان کے مزے سے مست ہوتے ہوئے قاسم صاحب نے بھی اپنی گانڈ کو ہلا ہلا کر اپنے لن کو تیزی کے ساتھ فوزیہ نے منه میں پیلنا شروع کر دیا
 فوزیہ پہلے دن کی نسبت آج زیدہ تیزی اور جوش کے ساتھ قاسم صاحب کے موٹے لن کا چوسا لگنے میں مشغول تھی
 
جب کے فوزیہ کے منه کی گرمی سے بے حال ہوتے ہوئے قاسم صاحب کے منه سے واہ ، واہ ، بہت خوب ، ایسے ہی چوسوں اسے ، چوس میرا لن جیسی آوازیں نکلنے لگی تھیں 
 
 قاسم صاحب کے دونوں ہاتھوں نے فوزیہ کے چہرے کو کس کے پکڑ رکھا تھااور وہ اب زور زور سے فوزیہ کے منه کو اپنے لمبے موٹے لن سے چود رہے تھے

 جب کے فوزیہ تو پہلے ہی اپنے شوہر جاوید کی جنسی کمزوری کی وجہ سے پچھلے چند دنوں سے لن کی بھوکی تھی

 اسی لیے آج اپنی مرزی سے قاسم صاحب کے لن کا مزہ چکھنے کے بَعْد اس کی جنسی بھوک اپنی انتھا پر پہنچ گئی

 جس کی وجہ سے قاسم صاحب کے لن کو چُوسنے کے دوران ہی فوزیہ اپنے ایک ہاتھ کو اپنی ٹانگوں کے درمیاں لے گئی

اور اوپر سے اپنے منه کےزریعے مسٹر قاسم کے لورے کو سک کرنے کے ساتھ ساتھ نیچے سے اپنے ہاتھ سے پینٹی میں کسی اپنی چوت کے دانے کو پینٹی کے اوپر سے ہی مسلتے ہوئے وہ بھی مزے کی لذّت سے بے حال ہوتے ہوئے سیسکانے لگی اففففففف ہاے اووو
 
 اپنی جنسی بھوک سے مجبور فوزیہ کی لن چوسنے کے کام میں اب ایک توفانی تیزی سی آ گئی تھی

 وہ اب بڑے جوش اور پیار سے قاسم صاحب کے لورے کو اپنے ہاھتوں ، زُبان اور منه سے چوس اور چاٹ رہی تھ

قاسم صاحب عورتوں کے مواملے میں بے شک کافی ماہر تھے . مگر فوزیہ کے شاندار چوپے نے ان کے پہاڑ جیسے لن کو آج اتنا پگلا دیا تھا . کے ان کا صبر کا پیمانہ بھی لبیرز ہونے لگا اور پِھر فوزیہ کے گرم جوش چوسے کے آگے ہار مانتے ہوے اگلے ہی لمحے قاسم صاحب نے اپنے لن کا گرم لاوا فوزیہ کے پیاسے منه میں انڈیلنا شروع کر دی

 
 قاسم صاحب کے لن کے پانی کو محسوس کرتے ہی فوزیہ نے پہلی دفعہ کی طرح قاسم صاحب کے لن کو اپنے منه سے نکالنے کی بجائے اپنے لبوں کو مسٹر قاسم کے لن کے گرد زور سے کسا . اور ان کے لن کے گرم پانی کو اپنے حلق کے اندر اتارنا شروع کر دیا

 ہاے آججججججججججج تو بہت شوق سے میرے لن کا پانی پی رہی ہے میری رانی” مسٹر قاسم پہلی بار کے برعکس فوزیہ کو ان کا لن کا پانی اپنے منه میں گراتے ہوئے دیکھا . تو انھوں نے جوش سے اپنے لورے کو فوزیہ کے حلق میں گھساتے ہوئے کہ

 قاسم صاحب سے پہلی ملاقات کے برعکس فوزیہ آج واقعہ ہی ایک بدلی ہوئی عورت تھی

 جسے اس کی جنسی بھوک نے آج اتنا گرم اور پاگل کر دیا تھا . کے وہ آج اپنی مشرقی حیا اور شرافت کے سارے پردے چاک چاک کرتے ہوئے قاسم صاحب کے لن کو اپنے منه میں یوں اُتَار رہی تھی . جیسے یہ لن کا پانی نہیں بلکہ اب حیات ہو

اففففففف آپ کے لن کا پانی تو بہت ہی میٹھا ہے قاسم صاحب” یہ کہتے ہوئے فوزیہ نے لن کے پانی سے بھرے ہوئے اپنے لبوں کو قاسم صاحب کے لبوں سے جوڑ کر دیوانہ وار کسسنگ کرتے ہوئے قاسم صاحب کے لن کے پانی کو اس کے اپنے منه میں منتقل کرنے لگی

کچھ دیر میں مسٹر قاسم کے لن کا سارے پانی کو پینے کے بَعْد فوزیہ نے لن کو منه سے باہر نکالا . تو اپنا پانی ایک بار خارج کرنے کے باوجود مسٹر قاسم کا لن ڈھیلا نہیں پڑا تھا

فوزیہ نے قاسم صاحب کے لورے کی ٹوپی کو ایک بار پِھر اپنی زُبان سے چوما  اور قاسم صاحب کے قدموں سے اٹھ  کر

فوزیہ ایک سیکسی ادا سے چلتی ہوئی قاسم صاحب کے بیڈ روم میں گئی . اور وہ کمرے میں جا کر اپنے کپڑے اتارنے کے بَعْد اسی بستر پر پیٹ کر بل لیٹ گئیجس بستر پر پچھلے ہفتے مسٹر قاسم نے فوزیہ کی پھدی میں زبردستی اپنا لوڑا پہلی دفعہ ڈَالا تھا

بستر پر لیٹ کر فوزیہ اِس طریقے سے بستر پر الٹی ہوئی . کے اس کی بھاری گانڈ پیچھے سے نا صرف ہوا میں اٹھ گئی
بلکہ بستر پر اِس اسٹائل میں لیٹنے نے سے فوزیہ کی پھدی بھی پیچھے سے پوری طرح باہر کو نکل کر نمیاں ہو گئی

قاسم صاحب کے بیڈ پر گوڑی بن کر لیٹے کے بَعْد فوزیہ نے لیونگ روم کی چیئر پر بہٹھے مسٹر قاسم کی طرف دیکھا . اور آپ نے ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی

چوت کے لبوں کو چوڑا کرتے ہُوے مدہوشی کے عالم میں بولی “ پچھلی دفعہ آپ سے ایک گشتی کی طرح چودا کر مجھے بہت ہی مزہ آئیا تھا قاسم صاحب
 
 
فوزیہ کی یہ بات سنتے ہی قاسم صاحب کے ڈھیلے پڑتے لن میں ایک بار پِھر جوش سے اکڑا . تو اِس کے ساتھ ہی قاسم صاحب بھی تیزی کے ساتھ بستر پر گھوڑی بنی فوزیہ کے پیچھے آ کر کھڑے ہو گے

فوزیہ کے پیچھے آ کر قاسم صاحب نے اس کے گول مٹول اور بھاری چوتروں کو اپنے اپنے ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے چوڑا کیا
 ]

اور اِس کے ساتھ ہی انوں نے اپنے سیدھے ہاتھ سے اپنے لوہے کی راڈ کی طرح سخت لن کو فوزیہ کی گیلی چوت کے سوراخ پر رگڑتے ہوئے اپنے جسم کی پوری طاقت سے ایک وحشیانہ دھکا مارا

تو ایک سیکنڈ سے بھی کم ٹائم میں قاسم صاحب کا لمبا اور موٹا لن فوزیہ کی تنگ چوت کی گیلی دیواروں کو چیرتا ہوا جڑ تک فوزیہ کے پیٹ میں اُتَر گیا . اور نیچے سے قاسم صاحب کے بھاری ٹٹے کی آواز کے ساتھ فوزیہ کی بھاری گانڈ کے لبوں سے ٹکرا گے

 
ہاے کییییییییییییییییییییییا سواد ہے آپ کے لورے کا قاسم صاحب اپنی گرم اور پیاسی پھدی میں اِس بار اپنی مرضی سے مسٹر قاسم کے لن کو لیتے ہی فوزیہ کی چوت کو وہ سواد ملا . جو سواد اسے جاوید پچھلے کچھ سے کوشش کے باوجود نہیں دے سکا تھا . اسی لیے اپنی تپتی ہوئی پھدی میں قاسم صاحب کے لورے کو لیتے ہی لذّت کے مارے فوزیہ چلا اٹھی


 فوزیہ جان ، ایک تو مجھے اب صاحب نا بلاؤ ، اور دوسری بات یہ کے میں تو سمجھا تھا ، کے اس دن کے بَعْد زندگی میں تم دوبارہ کبھی میرا منه بھی نہیں دیکھنا پسند کرو گی ، مگر آج اپنی مرضی سے مجھے اپنی یہ گرم پھدی پیش کرنے آ گئی ہو ، تو اِس کی کیا وجہ ہے میری جان اپنے لن کو پیچھے سے تیزی کے ساتھ فوزیہ کی پھدی میں آگے پیچھے کرتے ہوئے مسٹر قاسم نے سوال کیا

ہاے میں تو واقعہ آپ سے دوبارہ نہیں ملنا چا رہی تھی ، مگر کیا بتاوں کے آپ کے اِس انکٹ لورے نے ، جس وحشیانہ اندازِ میں میری اِس پاكیزہ مصوم چوت کی دیجیاں اڑای تھیں ، اس کے بَعْد تو میری پھدی آپ کے لن کی عاشق ہو گئی ، اور اپنی پھدی کی اِس گرمی کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں خود آپ سے آپ کے لن کا مزہ لینے آ گئی ہوں قاسم جی قاسم صاحب کی بات کا بے شیرمی سے جواب دیتے ہوئے فوزیہ نے کہا . اور ساتھ ہی اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف ہلاتے ہوئے مسٹر قاسم کے لمبے لن کو اپنی پھدی کے اندر جزب کرنے لگی

فوزیہ کی یہ بات سنتے ہی قاسم صاحب مزید جوش میں آتے ہوئے اپنے دونوں ھاتھوں سے فوزیہ کے

موٹے موٹے سیکسی چوتڑوں سختی سے پکڑ کر تیزی کے ساتھ چودنے لگے

اِس طرح گھوڑی بن کر اپنی پھدی میں پیچھے سے قاسم صاحب سے چدواتے وقت فوزیہ کی بھاری اور موٹی گاند کا براون کلر کا سوراخ مسٹر قاسم کے زور دار جھٹکوں کی وجہ سے اپنے آپ کھل اور بُند ہو رہا تھا

فوزیہ کی کنواری گانڈ کے سوراخ کو یوں آنکھیں مارتے دیکھ کر قاسم صاحب کو نا جانے کیا سوجی

کے انھوں نے فوزیہ کی چدائی کے دوران ہی اپنے لورا فوزیہ کی پھدی سے باہر نکالا . پِھر انھوں نے اپنے سیدھے ہاتھ کی دو انگلیوں کو اپنے منه میں لے کر اپنے تھوک سے اچھی طرح تر کیا

اور اِس کے ساتھ ہی بنا کسی وارننگ کر فوزیہ کی بھاری گانڈ کے سوراخ پر رکھ کے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ہی فوزیہ کی کنواری گانڈ کے سوراخ میں گھسا دیا
ہاے میں مر گی قاسمرررراپنی سیل بُند گانڈ میں پہلی دفعہ کسی چیز کو یوں اچانک گھستے ہوئے محسوس کر کے فوزیہ چلتے ہوئے آگے کو ہوئی

مگر اپنے دوسرے ہاتھ سے فوزیہ کی کمر کو مضبوتی سے پکڑتے ہوئے مسٹر قاسم نے پیچھے سے ایک جٹکا دیا . تو اُس کا لورا پھیسلاتا ہوئے ایک بار پِھر جڑ تاک فوزیہ کی پھدی میں اُتَر گیا . اور اِس کے ساتھ ہی فوزیہ مزے سے ایک بار پِھر چلائی ہاے میں فارغ ہو گئی قاسم جی
 
 اپنی پھدی کے پانی قاسم صاحب کے موٹے لورے پر فارغ کرنے کے دوران فوزیہ کے جسم کو جٹکے جٹکے لگتے رہے اور ان جٹکوں کے ساتھ ساتھ نیچے سے ان کی پھدی کے رس قاسم صاحب کے لورے کو پوری طرح تر کرتا رہا

مگر اِس دوران قاسم صاحب نے رکنے کی بجائے فوزیہ کی پھدی کو اور تیزی کے ساتھ نا صرف چودنا شروع کر دیا

بلکہ ساتھ ہی ساتھ فوزیہ کی گانڈ میں جوش کے ساتھ اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو بی آگے پہچھے ہلانا شروع کر دیا

اب ایک طرف قاسم صاحب کا لمبا لورا فوزیہ کی چوت کی چِیر پھاڑ کر رہا تھاتو دوسری طرف قاسم صاحب کے ہاتھ کی دونوں انگلیوں فوزیہ کی کنواری گانڈ کے تنگ سوراخ کو چودنے میں مصروف ہو گئی تھیں

یہ فوزیہ کی زندگی میں پہلا موقع تھا . جب اُس کی چوت میں اور گانڈ میں دو چیزیں ایک ساتھ گھس کر اسے جنسی مزے کی ایک نہیں لذّت سے روشناس کروا رہی تھیں

اِس مزے سے بے حال ہوتے ہوئے فوزیہ کی پھدی نے ایک بارپھر جٹکے كھانا شروع کر دیا . اور اُس نے ایک بار پِھر اپنی پھدی کا پانی قاسم صاحب کے لورے پر گرا دیا

کچھ دیر یوں ہی جٹکے کھانے کے بَعْد فوزیہ جب پر سکون ہوئی . تو قاسم صاحب نے اُس کی پھدی میں سے لن نکالا اور بولے “ چلو اب بستر پر سیدھا لیٹ جاؤ میری رنڈی
 
 قاسم صاحب کے حُکْم کی تکمیل کرتے ہوئے فوزیہ اپنی کمر کے بل جوں ہی بستر پر سیدھی لیٹی . تو قاسم صاحب نے اُس کی دونوں ٹانگوں کو اٹھا کر اپنے کاندھوں پر رکھا . اور خود بستر پر اپنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے فوزیہ کی پھدی میں ایک بار پِھر اپنے لمبے موٹے لن کو گھساڑ دیا

فوزیہ کی پھدی میں لن ڈالتے ہی قاسم صاحب نے فوزیہ کے منه میں منه ڈالا اور اُس کے ہونٹوں کو چومتے ہوئے فوزیہ کی پھدی میں تیزی کے ساتھ اپنی لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا

قاسم صاحب کے زور دار دکوں کی وجہ سے فوزیہ کا موٹے ممے اُس کی چھاتی پر اچھل رہے تھے

فوزیہ کی ان جوان چھاتیوں کو یوں ادھر ادھر ہوتے دیکھ کر قاسم صاحب کو جوش آئیا . اور انھوں نے اپنے منه کو آگے کیا اور فوزیہ کے موٹے نیپلون کو منه میں بھر کرا ونے چوسنا شروع کر دیا

اپنی پیاسی پھدی میں قاسم صاحب کے موٹے لمبے لن کے سواد اور اوپر سے اپنی جوان چھاتیوں پر چلتی قاسم صاحب کی گرم زُبان کے مزے کو محسوس کرتے ہی فوزیہ کو اپنے بدن میں چیونٹیان سی رینگنے لگی . اور اِس کے ساتھ ہی مزے سے چلاتے ہوئے بولی کھا جاووووو میرے مموں ووو کو قاسم جی 
 
 یہ کہتے ہوئے فوزیہ نے بستر سے اپنی گانڈ کو اوپر آٹھا تے ہوئے اپنی چوت کو قاسم صاحب کے لن پر مارنا شروع کر دیا

 او ہاےفوزیہ کی تنگ پھدی کے لبوں کو اپنے لورے کے گرد یوں مزید کستے ہوئے محسوس کرتے ہی قاسم صاحب بی مزے سے سکاری اور ان کے گھسوں کی رفتار بی پہلے سے زیدہ تیز ہونے لگی

اپنی چوت میں پڑنے والے قاسم صاحب کے جٹکوں کی رفتار سے فوزیہ سمجھ گئی  کے مسٹر قاسم اب اپنے لن کا پانی خارج کرنے کے نزدیک پہنچ چکے ہَیں

تو اس نے اپنے چوتڑوں کو اوپر اٹھا کر پَہْلے سے زیادۃ جوش سے گول گول گھمانا شروع کر دیا

افففففف کیا مزے دار چُدواتی ہو تم فوزیہ
فوزیہ کے اِس جوش کو دیکھتے ہوئے قاسم صاحب سکاری اور اِس کے ساتھ ہی فوزیہ کے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ ڈال کر اوپر کیا . اور پِھر ایک زور دار جٹکا مارتے ہوئے ٹٹوں تک اپنا لورا فوزیہ کی پھدی میں داخل کرتے ہوئے اپنے لورے کا تازہ  پانی ایک بار پِھر فوزیہ کی گرم پھدی میں انڈیلنا شروع کر دیا


افففففففف میری پاكیزہ کوکھ میں اپنا بچہ ڈال کر میرے شوہر کو اس کی غلطی کی ایسی سزا دو جو کے اس کے لیے ہمیشہ یادگار رہے قاسمرررررر"

اپنی چوت کے آخری سرے میں قاسم صاحب کے لن کی پیچکاریوں کو محسوس کرتے ہوئے فوزیہ کے جسم کو ایک جٹکا لگا . اور قاسم صاحب کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنی چوت کا پانی چھوڑتے ہوئے مزے سے چلا اٹھی
 
اب کمرے میں فوزیہ اور مسٹر قاسم ایک ساتھ اکٹھے ہی خلاس ہو رہے تھے . اِس دوران اوپر سے قاسم صاحب کا لورا فوزیہ کی پھدی میں اپنا مال چھوڑ رہا تھا

اور نیچے سے فوزیہ کی چوت زبردست جھٹکے لے کر مسٹر قاسم کے لن کے گہرے مادے کو اپنی کوکھ میں جزب کرتی جا رہی تھی

اور وہ دونوں ایک دوسرے کے ہونٹوں کو ہونٹوں سے ملا کر مَضبُوطی سے بند کرتے ہوئے اپنے منه سے نکلنے آوازوں پر کنٹرول کر رہے تھے

اپنے لن کا آخری قطرہ بھی فوزیہ کی پھدی میں ڈالنے کے بَعْد مسٹر قاسم فوزیہ کے جسم کے اوپر ہی گر گے . لیکن ان کا لورا ابھی تک فوزیہ کی پھدی کے اندر ہی تھا

کچھ دیر بَعْد جب مسٹر قاسم فوزیہ کے جسم سے الگ ہو کر بستر پر لیٹے . تو فوزیہ نے جلدی سے اٹھ کر کپڑے پہنے اور اپنے گھر کی طرف روانا ہو گئی
 
قاسم صاحب سے آج اپنی مرضی سے چودا نے کے بعد نہ صرف فوزیہ کو اپنا جسم پرسکون محسوس ہونے لگا تھا

بلکہ اپنی پھدی سے نکل کر اپنی جانداز رانوں کو گیلا کرنے والے قاسم صاحب کے لن کے پانی کی چپ چپ سے اپنے شوہر پر چڑنے والا اس کا غصہ بھی ختم ہو چکا تھا

اس رات فوزیہ نے جاوید سے کنڈم کے بغیر چدائی کروائی اور پِھر جب جاوید فارغ ہونے لگا

تو فوزیہ نے اس کی کمر کے گرد اپنی ٹانگیں کستے ہوئے اسے اپنی پھدی سے لن باہر نکالنے کا موقع نہیں دیا

جس کی وجہ سے جاوید نے شادی کے بَعْد پہلی بار اپنی بِیوِی کی پھدی میں اپنے لن کا پانی فارغ کیا

اس واقعہ کے ایک ویک بَعْد ڈاکٹر سے اپنا چیک اَپ کروانے کے بَعْد فوزیہ نے ایک بار پِھر مسٹر قاسم کے سیل فون پر کال ملائی

اور پِھر فون کے دوسری طرف سے قاسم صاحب کی آواز سنتے ہی فوزیہ بولی “ آپ کو یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے ، کے میں پریگنٹ ہوں ، اور اِس کے لیے آپ کو مبارک ہو ، کیوں کے میرے پیٹ میں پلنے والے اِس بچے کے اصل باپ آپ ہی ہیں قاسم جی
یہ کہتے ہی فوزیہ نے قاسم صاحب کا جواب سنے بغیر ہی لائن کاٹ دی . اور کار کی سیٹ سے اپنا سر ٹیک کر پُر سکون ہو گئ

کے آج اپنے شوہر کی غلطی کی وجہ سے ایک شریف عورَت سے گشتی بننے والی بِیوِی نے اپنے پیٹ میں ایک غیر مرد کا بچہ قبول کر کے اپنے شوہر سے نا صرف اپنی بے عزتی کا بدلہ لے لیا تھا
 بلکہ ایک ناجائز بچے کو اپنے شوہر کا نام دے کر وہ اپنے شوہر کو اس کی غلطی کی ایک یادگار سزا بھی دے دی تھی

دی اینڈ۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں for "شوہر کی خاطر"