حسبِ معمول میں بچوں کو پڑھا رہا تھا کہ میرے ایک اسٹوڈنٹ کی والدہ آگئیں۔ وہ اکیلی نہیں تھیں بلکہ ان کے ساتھ کوئی نقاب پوش لڑکی بھی تھی۔ انھوں نے مجھے سلام کیا اور امی کے پاس بیٹھ گئیں جب کہ مجھے فکر لاحق ہو گئی کہ کسی بڑی کلاس کی لڑکی پڑھنے آ گئی ہے کیوں کہ مجھےمیٹرک کی انگلش اور ریاضی پڑھاتے ہوئے کافی مشکل پیش آتی تھی۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ وہ میرا انتظار کر رہی تھیں اور میں بچوں ہی میں مصروف رہنے کی پوری کوشش کر رہا تھا لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ مصیبت، جو گلے پڑچکی ہے، اب اسے بھگتےبنا چارہ نہیں۔ چناں چہ کوئی آدھے گھنٹے تک مسلسل انتظار کر کر کے بچے کی والدہ آخر خود ہی مجھ سے مخاطب ہوئیں کہ... ماسٹر جی ذرا فارغ ہو کر ہماری بات بھی سن لیں... میں نے مسکراتے ہوئے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ بس ابھی آیا ۔ ایک بچے کو سبق دے کر میں ناچار ان کی جانب بڑھا اور ان کے ساتھ پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ یہ گرمیوں کے دن تھے اور ہمارا گھر دو کمروں، ایک کچن، باتھ اور کھلے سے صحن پر مشتمل تھا۔ مغربی دیوار کچھ اونچی تھی اس لیے شام چار بجے سے وہاں چھاؤں آ جاتی تھی ۔ یہاں میں چٹائی بچھا لیا کرتا تھا۔ محلے کے خاصے بچے پڑھنے آجایا کرتے تھےجن میں نرسری سے دہم تک کی سبھی کلاسز شامل تھیں لیکن تعداد کے اعتبار سے ان میں کچھ اختلاف تھا یعنی کسی کلاس کے بچوں کی تعداد چار پانچ ہے تو کسی کلاس کے فقط ایک یا دو بچے ۔میں خود بی اے کر رہا تھا اور میٹرک کے بعد سائنس سبجیکٹس سے علٰحدہ ہو گیا تھا۔ گو کہ میں ریاضی میں بہت اچھا تھا لیکن پھر بھی مجھے امدادی کتب سے مدد لینا پڑتی تھی کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ ریاضی جب تک ہی آتا ہے جب تک اسے کرتے رہیں۔ جوں ہی مشق چھوڑی ، یہ بھول جاتا ہے...اور میری یادداشت تو ویسے بھی خاصی کمزور تھی اسلیے مجھے اپنے دماغ کو زیادہ مشقت کروانا پڑتی تھی۔ آنٹی نےبات کا آغاز کیا اور اس لڑکی کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ لوگ اس محلے میں ایک دو ماہ پہلے ہی آئے ہیں۔ لڑکی کے اکلوتے بڑے بھائی کو کسی نے چند ماہ پہلے قتل کر دیا تھا اور وہ اس صدمے کی وجہ سے دہم کے امتحانات کی صحیح تیاری نہ کر سکی۔ اس وجہ سے اس کی انگلش اور ریاضی میں سپلی آ گئی تھی۔اب کچھ دنوں میں سپلیمنٹری کے امتحانات کے داخلے جا رہے تھے، وہ اسی میں اپنی سپلی کلیئر کرنا چاہ رہی تھی اور تیاری کے لیے اسے ٹیوشن کی ضرورت تھی۔ اکیڈمیاں ہمارے محلے سے خاصے فاصلے پر تھیں اور لڑکی کی ماں اسے اکیلا بھیجنا نہیں چاہ رہی تھی۔ اس نے اُن آنٹی سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جہاں ان کا بیٹا جاتا ہے وہیں یہ چلی جایا کرے۔ یہیں محلے میں لڑکا ہے جو بہت اچھا پڑھاتا ہے اور اس طرح وہ آنٹی اس لڑکی کے ساتھ اب میرے سامنے موجود تھیں۔ آنٹی نے پہلے صرف لڑکی کی تیاری کے سلسلے میں اسے پڑھانے کے لیے ہی بات کی تھی اور میں نے اپنی طبیعت پر جبر کرتے ہوئے نرم لفظوں میں صاف انکار کر دیا تھا حالانکہ یہ میرا خاصہ نہیں تھا۔لیکن میں چاہتا تھا کہ اگر اس نے سپلی کی تیاری کرنی ہے تو اسے کسی اچھی جگہ سے تیاری کرنی چاہیے نہ کہ مجھ سے، کیوں کہ مجھے خود اپنے اوپر اعتماد نہیں تھا تو میں اسے کس طرح مطمئن کرتا! اس لیے میں نے کہہ دیا کہ میں صحیح طرح نہیں تیاری کروا سکوں گا آپ کسی اوراچھی جگہ داخل کروائیں۔ تب اس لڑکی نے زبان کھولی۔ سر میں ... میں ایک ادارے میں کام کرنے بھی جاتی ہوں اور کسی اکیڈمی میں داخلہ لینا میرے لیے ممکن نہیں ہے اس لیےپلیز... اصل میں میرے بھائی کی کچھ عرصہ پہلے ڈیتھ ہو گئی ہے ورنہ وہ مجھے لے جایا کرتا اور لے آتا لیکن .... آپ جانتے ہیں کہ... رات کے وقت واپس آنا مشکل ہو جائے گا... میں تو آنا بھی نہیں چاہ رہی تھی لیکن آنٹی نے بڑی امید دلائی کہ ... آپ مدد کر دیں گے۔ ... اسلیے۔۔۔۔۔ اور میں اس کی آواز میں کھو گیا تھا۔ بہت خوبصورت آواز تھی اس کی۔ اور نقاب سے جھانکتی گہری گہری آنکھیں، جن میں بھائی کا ذکر کرتے ہوئے نمی اتر آنے سے مزید کشش در آئی تھی۔میں نے اس کے بھائی کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا اور پھر بالآخر تیاری کروانے کی حامی بھر لی۔ آنٹی سے فیس کا پوچھا تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جو مرضی دے دیجیے گا۔ اِس پر وہ بولی کہ وہ آپ کو توقع سے زیادہ ہی دیں گے۔ بس آپ تیاری کروا دیجیے۔ اس طرح وہ اگلے دن کا کہہ کر گھر چلی گئی۔ میں نے باقی بچوں کو پڑھایا اور پھررات کو اس کے بارے میں سوچنے لگا۔ عائشہ کی وجہ سے میرے اندر ایسی سوچیں پیدا ہونے لگی تھیں ورنہ میں نے پہلے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا۔ عائشہ بھی دو سال پہلے میرے پاس پڑھنے آئی تھی اور بعد میں اس نے موبائل پر رابطہ کر کے آہستہ آہستہ سٹوڈنٹ سے زیادہ ایک محبوب دوست کی جگہ بنا لی تھی بلکہ دوست سے بھی کچھ زیادہ ہی۔ یہ ایک الگ داستان ہے جو فرصت ملی تو پیش کروں گا۔ میری آنکھوں کے سامنے اس لڑکی کا چہرہ آ رہا تھا جو نقاب میں چھپا ہوا تھا اور اس کی جاذبِ نظر آنکھیں جھانک رہی تھیں۔ میں نے ایک لمحے کو سوچا...اس نقاب کی کیا ضرورت تھی، کچھ دن تک تو اسے یہ مسئلہ لگنے لگے گا کہ اس نے نقاب کیوں کیا، بنا نقاب کے جانا ہی ٹھیک تھا۔۔۔ اس سوچ کی وجہ یہ تھی کہ میں کافی خوبصورت تھا اور خوش اخلاق بھی اور مجھے پتا تھا کہ وہ لڑکی بھی جلد ہی مجھے چاہنے لگے گی۔ ویسے یہ میرے پچھلے تجربات کی وجہ سے میرا خیال ہی تھا ورنہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا تھا۔ آخر سب لڑکیاں ایک جیسی تو نہیں ہوتیں۔ اگلے دن صبح صبح وہ آ گئی۔ یہ ساڑھے چھے بجے کا وقت تھا۔ سب صحن ہی میں سو رہے تھے اور اسے اندر کمرے میں لے جاتے ہوئے مجھے عجیب سی شرمندگی محسوس ہوئی کیوں کہ آڑے ترچھے لیٹے ہوئے بھائیوں کا نقشہ عجیب سا لگ رہا تھا۔بہر حال میں نے اس سے تعارف لیا۔ اس نے اپنا نام حنا بتایا۔ پھر میں نے اس سے کتاب لے لی اور ورق گردانی کرتے ہوئے اسے بتانے لگا کہ ابتدا سے ہی شروع کرتے ہیں۔ لیکن اس نے کہا کہ دائرے والا باب اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا، اگر وہاں سے شروع کیا جائے تو زیادہ اچھا ہے۔ میری چھوٹی بہن بھی پاس آ کر بیٹھ گئی اور وہ بھی باتیں سنتی رہی۔آنے والے دنوں میں وہ اس کی بہت اچھی دوست بن گئی تھی۔وہ اتنی صبح اس لیے آتی تھی کہ اسے بعد میں آفس جانا ہوتا تھا جہاں وہ کمپیوٹر آپریٹر تھی۔اس نے کوئی چھوٹا سا کورس کیا ہوا تھا اس لیے یہ جاب کر رہی تھی۔ کچھ دن وہ اسی طرح صبح کے وقت آتی رہی، ساتھ ہی اس کی امی بھی آکر بیٹھ جاتی اور اسے اپنے ساتھ ہی لے جاتی۔ میں بڑا حیران تھا کہ آخر ان کے آنے کی کیا ضرورت ہے۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ واپسی کے راہ میں اس کی حفاظت کے لیے آتی ہیں۔ ہمارے ملک میں اکثریت ابھی بھی ایسی ہی ہے کہ لڑکیوں کو لڈو پیڑا سمجھتی ہے اور گھر سے نکالتے ہوئے ڈرتی ہے کہ کوئی لڑکا لے جا کر اس کے ساتھ زیادتی ہی نہ کر دے۔ کچھ اسی طرح کی دقیانوسی قسم کی ماں حنا کی بھی تھی۔یہ رمضان کا مہینہ تھا اور کچھ ہی دن بعد عید آ گئی۔ تب تک حنا کافی فرینک ہو چکی تھی۔ اس نے داخلہ بھی بھیج دیا تھا۔ اور اب زور شور سے تیاری جاری تھی۔ پھر عید پر میں ہی ان کے گھر سوّیاں بھی دے کر آیا۔ اس نے موبائل نمبر بھی لے لیا تھا اور اس پر بھی میسج کرنے لگ پڑی تھی۔ اسے جب پتا چلا کہ میں گھر آیا تھا اور امی کو پتا نہیں چل سکا تو وہ بڑی ناراض ہوئی امی پر اور مجھ سے سوری کیا کہ مجھے بٹھایا نہیں۔ میں نے کہا کہ اسکی کوئی ضرورت نہیں مجھے برا تو بالکل بھی نہیں لگا۔ میں بیٹھنے کی غرض سے آیا بھی نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ میسجنگ زیادہ ہوتی چلی گئی۔ ایک دن اس نے مجھ سے پڑھنے کے بعد پوچھا کہ سر آپ سے ایک بات کہنا تھی اگر آپ کو برا نہ لگے۔ میں نے کہا کہ بلا جھجک کہو۔ وہ بولی کہ میرا یہاں آنا مشکل ہے۔ امی باربار بولتی ہیں کہ مجھ سے نہیں جایا جاتا تمھارے ساتھ۔ اس لیے اگر آپ.... میرے گھر آکر....پڑھا دیا کریں تو.....سر میں یہ نہیں کہنا چاہ رہی تھی لیکن .... میں بہت مشکل میں ہوں... اور یہ کہتے ہوئے اس نے سر جھکا لیا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، میں فوراً راضی ہو گیا۔ میں نے اس کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں میں آجایا کروں گا۔ وہ اس بات پر اتنا خوش ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ بعد میں گھر جا کر میسج پر بھی میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور بار بار پوچھتی بھی رہی کہ آپ کے لیے مشکل تو نہیں ہو گا نا۔۔۔ میں نے کہا کہ بالکل بھی نہیں۔ بل کہ میں خود بھی یہی چاہ رہا تھا اور اس بات کو محسوس بھی کر رہا تھا۔ اگلے دن سے میں نے ان کے ہاں جانا شروع کر دیا۔ اس نے مجھے بیٹھک میں بٹھایا اور گھر میں کھلنے والے دروازے پر پردہ ڈال دیا۔ بیٹھک کا ایک دروازہ باہرگلی میں کھلتا تھا جہاں سے میں اندر چلا جاتا تھا۔مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس کی امی اور بہن پردہ نہیں کرتی تھی لیکن وہ نقاب کیا کرتی تھی۔ اس کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میرا اپنا دل نقاب کرنے کو مانتا ہے اس لیے کیا کرتی ہوں۔بہر حال انھی دنوں اس کی بہن کی شادی آگئی۔ اس نے مجھے بھی دعوت دے دی۔ چناں چہ جس دن بارات آئی اس دن بھی میں ان کے ہاں گیا۔ پینٹ شرٹ اور واسکٹ میں مَیں بہت خوب صورت لگ رہا تھا اس نے میسج پر تعریف کی۔ ایک بات اور کہ ان کے والد صاحب بزرگ آدمی تھے اس لیے گھر سے باہر کی اشیا لانے والا ان کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ اور موٹر سائیکل انھیں ویسے ہی نہیں چلانی آتی تھی اسلیے جو اشیا دور کی مارکیٹ سے لانا ہوتیں وہ مشکل میں پڑ جاتے۔ میرے ساتھ رابطے کی وجہ سے انھیں یہ فائدہ بھی ہو گیا کہ وہ مجھے گھر کے ایسے کام بھی کہنے لگ پڑے جو مارکیٹ سے متعلق ہوتے۔ لیکن حنا کو برا لگتا تھا اور وہ معذرت بھی کرتی تھی کہ میں یہ اچھا نہیں کر رہی ، آپ میرے سر ہیں اور میں آپ سے گھر کے کام بھی لے لیتی ہوں۔ میں بات کو ہنسی میں ٹال دیتا کہ ایسی کوئی بات نہیں، میرا تو یوں بھی چکر لگتا ہی رہتا ہے پھر تمھارے لیے میں نے خاص طور پر تو جانا نہیں ہوتا۔ جب چکر لگتا ہے تبھی تمھارا کام بھی کر دیتا ہوں۔ لیکن وہ اس پر بھی راضی نہیں تھی۔ دوسرے دن ولیمے پر بھی ہم شادی ہال گئے۔ وہاں اس نے نقاب اتارا ہوا تھااور اسے ڈر تھا کہ میری اس پر نظر نہ پڑ جائے لیکن میں نے بھی قصداً دیکھنے سے گریز کیا تا کہ اس کا مجھ پر اعتماد بحال رہے۔ شادی ہال گھر سے کچھ قریب ہی تھا اس لیے پیدل ہی جا پہنچے۔ میں اس دن گلابی سوٹ میں تھا اور وہ واپسی پر پیدل گھر آتے ہوئے بار بار اپنی پُر کشش آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہی تھی۔ پھر میسج پراس نے مجھے ’’پِنکُو‘‘ کہہ کر بلایا۔ میں نے کہا۔ یہ کیا کہا ہے مجھے؟ تو اس نے استفسار کیا کہ آپ کو برا لگا کیا؟ میں بولا نہیں برا تو نہیں لگا مگر ایسے کیوں کہا۔ اس نے کہاکہ آپ گلابی سوٹ میں تھے نا ں تو میری بہن نے بھی آپ کو دیکھا تھا اور وہ کہہ رہی تھی کہ تمھارے سر کیسے لگ رہے ہیں دیکھو۔۔۔ پِنکُو ۔۔۔ اور پھر ہنس پڑی اس کے ساتھ ہی حنا بھی ہنسنے لگی۔ میں یہ بات سن کر مسکرا دیا۔ اس کی آنکھوں نے بتا دیا تھا کہ وہ بھی شکار ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ کچھ یہ بھی تھی کہ پچھلے دن اس نے مجھے کیمرے میں فلم ڈلوانے کے لیے بھیجا تھا اور جب میں واپس دینے گیا تو ان کے گھر آئے مہمانوں میں اس کے ایک انکل نے کیمرا مجھ سے لیا اور اسے چلانے کا طریقہ بھی سمجھتے رہے۔ بعد میں حنا نے مجھے میسج پر بتایا کہ وہ اُس سے پوچھ رہے تھے کہ یہ لڑکا کون ہے؟ اس نے جب بتایا کہ میں اُسے ٹیوٹ کرتا ہوں تو وہ معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے اور بولے۔۔۔ ہممم ۔۔ ماسٹر جی ہیں ں ں ں۔۔۔۔۔ واہ بھئی مساسٹر تو بہت خوب صورت ڈھونڈا ہے تم نے۔۔۔ اور میں اس بات پر ہنس پڑا۔ وہ بھی ہنسنے لگی۔ آہستہ آہستہ وہ میری طرف مائل ہوتی چلی گئی۔ میں میسج پر اسے’’سونے‘‘ لکھ کر بھی مخاطب کر لیتا تھا۔ کوئی ایک آدھ میسج اس کی بہن نے بھی پڑھ لیا اور اسے چھیڑنے لگی کہ یہ کیا چکر ہے جی۔۔۔ جس پر اس نے کہا کہ میں نے بات ٹال دی کہ سر اسی طرح بلاتے ہیں مجھے۔ مگر مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ مجھ میں دلچسپی لینے لگی ہے۔ میں اگرچہ کسی اور میں انٹرسٹڈ تھا لیکن حنا کو بھی روک نہیں سکتا تھا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ میری فطرت تھی۔ میں ہر اس لڑکی کو ویلکم کہتا تھا جو میری طرف خود آتی تھی، مجھے کسی کو بھی انکار نہیں کیا جاتا تھا۔ اس سے آگے وہ جس حد تک جانا چاہے یہ اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتا تھا۔ یہی بات حنا کے ساتھ بھی ہو رہی تھی اور وہ جہاں تک جانے والی تھی مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ دن گزرتے گئے۔ میرا روزانہ صبح کے وقت جا کر اسے پڑھانا معمول بن گیا۔ ایک دن میں جب اس کے گھر پہنچا تو وہ پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی۔ باہر کا دروازہ اس نے کھول دیا تھا۔ اکثر وہ دروازنہ کھول کر پردہ ڈال دیا کرتی تھی۔ کیوں کہ اس وقت مَیں نے ہی آنا ہوتا تھا، اور شاید اسے یہ تھا کہ مجھے دستک دے کر انتظار کی کوفت بھی نہ کرنی پڑے۔ میں اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ محترمہ بیٹھے بیٹھے سو گئی ہیں۔ میں بھی اس کے قریب والے سنگل صوفے پر بیٹھ گیا۔ اسے جگانا مناسب نہیں سمجھا اور سوچا خود ہی آنکھ کھل جائے گی۔ اس دوران میں اس کے چہرے کو دیکھنے لگا جس پر نقاب چڑھا ہوا تھا۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے کا وقت۔۔۔ اور پنکھے کی ہلکی ہلکی آواز۔۔۔ ایسے میں بالکل تنہائی۔۔ اور سامنے ایک جوان لڑکی، یوں بے خبر پڑی سو رہی ہو، تو کون نہیں بہکے گا۔ میری نظریں غیر ارادی طور پر اس کے چہرے سے ہوتی ہوئیں اس کے سینے تک چلی گئیں۔ اگرچہ اس نے چادر سے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانپا ہوا تھا، لیکن پھر بھی میں اس کے ابھاروں کو تلاش کرنے لگا۔ چادر کے نیچے ہلکا ہلکا ابھار بتا رہا تھا کہ سینہ کافی بھرا بھرا ہے، اور ابھار بالکل چھوٹے سے نہیں ہیں۔۔۔ اُف۔۔۔۔ میں نے اپنی شلوار میں کسی جگہ پر تناؤپیدا ہوتا ہوا محسوس کیا۔ پھر میری نظریں اور نیچے چلی گئیں اور اس کے کولہوں اور ٹانگوں کا جائزہ لینے لگیں۔ وہ بڑی محنتی لڑکی تھی اور اس کا جسم اس بات کی بھرپور عکاسی کر رہا تھا۔ خوبصورت سانچے میں ڈھلا ہوا جسم۔۔۔ کچھ دیر بے خودی میں تکتے رہنے کے بعد میں نے خود کو ملامت کی، کہ کیا کر رہا ہوں مَیں! اور ہلکا سا ہنکارا بھرا۔۔۔ وہ دھیرے سے کسمسائی اور پھر اس کی آنکھ کھلی۔ چند لمحوں میں اسے احساس ہو گیا کہ وہ کہاں ہے۔ پھر اس نے نظریں گھمائیں تو مجھے موجود پا کر وہ جلدی سی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور مجھ سے معذرت کی کہ اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ کوئی بات نہیں۔ ایسا ہو جاتا ہے۔ میسجز پر بعض اوقات معنی خیز باتیں بھی ہو جاتیں۔ جن پر وہ غصہ نہیں ہوتی تھی بل کہ بات کو ٹالنے کی کوشش کرتی یا خاموش ہو جاتی۔ پھر اس نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اس بات کا اظہار بھی شروع کر دیا کہ وہ مجھ سے پیار کرتی ہے۔ ایک دن میں جلد سو گیا تو صبح اٹھنے پر اس کا میسج پڑھا جو کچھ یوں تھا: ‘‘آپ نے کہیں میرے سر کو دیکھا ہے؟ اگر دیکھا ہے تو انھیں کہنا کہ ان کا بچہ ان سے بہت پیار کرتا ہے اور ان کو یاد کر رہا تھا۔’’ میں مسکرا دیا۔ پھر اس نے مجھے ‘‘آئی لو یُو سر’’ کہنا بھی شروع کر دیا۔ میں پہلی دفعہ تھوڑا حیران ہوا۔ پھر مجھے پتا چل گیا کہ وہ ایسے ہی کہہ رہی ہے جیسے کوئی بچہ اپنے والدین کو کہہ دیتا ہے۔ لیکن اس کے پیچھے جو جذبہ چھپا ہوا تھا اسے میں بہ خوبی سمجھ رہا تھا۔ میں بھی جواب میں ‘‘می ٹو’’ کہتا رہا۔ پھر اس نے ایک دن یہ کہا کہ اگر آپ رات کو فون پر بھی مجھے تھوڑا پڑھا دیا کریں۔ مجھ سے سبق سن لیا کریں؟ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چناں چہ ہماری کال پر بھی بات ہونے لگی۔ دو تین دن تو یہ سلسلہ انگلش کا سبق سننے تک رہا لیکن بعد میں باتوں کا رخ بدلنے لگا اور ادھر اُدھر کی باتیں ہماری پڑھائی کا حصہ بنتی چلی گئیں۔ پہلے تو صرف گھر بار اور خاندان کی باتیں ہی رہیں۔ اور بعد میں آہستہ آہستہ ہمارے تعلق کے بارے میں بات چیت شروع ہوگئی۔ آخر اس نے ایک دن مجھ سے کھلے لفظوں میں کہہ ہی دیا۔ میں چھٹیاں ہونے کی وجہ سے گھر ہی ہوتا تھا جب ایک دن اس نے مجھے اُسی طرح I love You کہا۔ میں نے بھی Me too کا جواب دیا۔ لیکن اس نے کہا کہ میں سچ والا پیار کرنے لگی ہوں آپ سے۔ میں نے اسے کہا کہ سونے پیار پیار ہی ہوتا ہے۔ وہ جھوٹا نہیں ہوتا۔ اس نے کہا: ہاں میں جانتی ہوں لیکن مجھے آپ سے وہ والا پیار ہے جو کوئی لڑکی کسی لڑکے کے لیے اپنے دل میں رکھتی ہے۔ اب میری منزل تو مل گئی مجھے لیکن میں اسے یہ بتا دینا چاہ رہا تھا کہ وہ مجھ سے شادی والی کوئی امید نہ رکھے۔ اس کے لیے میں نے باتیں بنانا شروع کیں اور کہا کہ ٹھیک ہے تمھیں مجھ سے پیار ہے تو۔ مجھے بھی تم سے پیار ہے حنا۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ جس سے پیار ہو اس کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ بھی ممکن ہو سکے۔ اس لیے تم بے شک میرے لیے اپنے دل میں پیار رکھو، لیکن یہ کبھی نہ سوچنا کہ ہم مل بھی پائیں گے۔ ساتھ ہی میں نے اسے بتا بھی دیا کہ میں اس حوالے سے کسی اور کو بھی پسند کرتا ہوں۔ اس نے سن کر کچھ دیر کی خاموشی اختیار کر لی۔ ایک آدھ دن میں وہ پھر سے بات کرنے لگی۔ آیندہ دنوں میں مَیں نے اسے اپنے فلسفے کے ذریعے اس بات پر اطمینان دلایا کہ ایک سے زیادہ لوگوں سے پیار ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ زندگی میں ہمیں ایک ہی بار نہیں، بل کہ بار بار پیار ہوتا ہے، اور ہر شخص کے لیے دل میں ایک الگ جگہ ہوتی ہے، جیسے ماں باپ، بہن بھائیوں کے لیے اور دوستوں کے لیے ایک الگ جگہ ہوتی ہے، اسی طرح جس سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے لیے پیار ہوتا ہے، ان سب میں سے بھی ہر کسی کے ساتھ الگ الگ محبت ہوتی ہے۔ ہر کسی کا اپنا مقام ہوتا ہے دل میں۔ اسی طرح حنا کا مقام بھی اسی طرح ہے میرے دل میں جیسے میرے پہلے پیار کا۔ دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کچھ حد تک مطمئن ہو گئی۔ لیکن اس نے یہ کہا کہ مَیں بہر حال اس کے لیے پہلا پیار ہی ہوں۔ اور وہ چاہتی ہے کہ ہم ایک بھی ہو جائیں۔ رات کو اکثر جب شہوانی جذبے مجھ پر غالب آتے تو میں میسجز میں اسے کہہ دیتا کہ اسے مِس کر رہا ہوں۔ لیکن ابھی زیادہ آگے تک بات نہیں بڑھی تھی کہ میں کھل کر اس کا اظہار بھی کرتا کہ کس طرح کا مِس کر رہا ہوں۔ البتہ یہ ضرور تھا کہ ہماری فرینکنس کافی ہو چکی تھی۔ اور وہ اب یہ بھی کرتی کہ جب میں پڑھانے کے بعد اس کے گھر سے نکلنے لگتا تو وہ پھر سے آواز دیتی۔ میں مڑ کر دیکھتا تو مسکرا رہی ہوتی اور کہتی، کچھ نہیں۔ یوں دروازے تک پہنچنےسے پہلے پہلے وہ دو سے تین بار ضرور کرتی۔ میں نے دو تین دن بعد اس کا مقصد پوچھا تو کہنے لگی کہ بس آپ کو دیکھنے کا دل کرتا ہے تو کہہ دیتی ہوں۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ وہ تو مجھے تم پڑھائی کے دوران بھی دیکھتی ہی رہتی ہو۔ تو کہنے لگی کہ پھر بھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کو دیکھتی ہی رہوں۔ میں مسکرا دیا۔ بچی بری طرح پھنستی جا رہی تھی۔ امتحانات کے دن ہمارے ملک میں ہمیشہ سردیوں میں ہی آتے ہیں۔ اس کے گھر جاتے ہوئے مجھے کوئی ڈیڑھ مہینا ہو چکا تھا۔ اس دوران میں اس کی امی اور ابو سے بھی بہت اچھی سلام دعا ہو گئی تھی۔ پھر انھوں نے بیٹھک تک محدود رکھنے کا تکلف بھی ختم کر دیا۔ اس کی بہنوں کی شادی ہو چکی تھی اور آخری جو رہتی تھی، اس کی بھی شادی ہو جانے کے بعد اب گھر میں وہ کل تین افراد بھی تھے۔ چناں چہ کوئی ایسا بندہ نہیں تھا جس سے مجھے پردہ کرانے کے لیے بیٹھک تک رکھا جاتا۔ اس لیے اب میں اندر بھی چلا جاتا۔ بلکہ پھر یوں ہوا کہ اس کے امی ابو نے اپنے کام کے لیے بیٹھک منتخب کر لی اور اب حنا کی پڑھائی کے لیے مجھے اندر کے کمرے میں ہی اس کے ساتھ اکیلے رہنا ہوتا تھا۔ اس کے امی ابو مصنوعی زیورات بنانے کا کام کرتے تھے۔ اگرچہ ابو فیکٹری میں بھی جاتے تھے۔ مگر گھر میں آ کر اُس کی امی کے ساتھ اس میں بھی ہاتھ بٹاتے تھے۔ یہ کام وہ شروع سے کر رہے تھے۔ اس لیے اسے چھوڑا نہیں تھا۔ اس کی امی ہی مال کی ڈلیوری کے لیے مارکیٹ جایا کرتی تھیں۔ سردیاں ہونے کی وجہ سے رضائیوں کا سیزن شروع ہو گیا تھا۔ چناں چہ جب میں جاتا، حنا مجھے رضائی اوپر کر لینے کا کہہ دیتی۔ فرش پر ہی بستر بچھایا ہوا تھا کمرے میں۔ اس لیے وہ بھی وہیں بیٹھی ہوتی، اور مجھے بھی اُسی رضائی میں بیٹھ جانے کا کہتی۔ شروع شروع میں مجھے جھجک ہوئی۔ پھر عادت ہو گئی۔ پہلے پہلے تو میں کچھ فاصلے پر بھی بیٹھا کرتا تھا۔ لیکن ریاضی سمجھانے کے لیے اس کے قریب ہونا پڑتا تھا۔ سامنے بیٹھ کر یہ مسئلہ حل ہو جایا کرتا۔ مگر اس نے سامنے بیٹھنےمیں بھی چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ کچھ میرا بھی دل چاہ رہا ہوتا تھا، اس لیے چوکڑی کے انداز میں بیٹھنے کے باوجود میں ایک پاؤں ذرا آگے کر دیا کرتا۔ اور وہ بھی اپنے پاؤں سے مجھے چھونے لگتی۔ پھر اس نے ایک دن میرا پاؤں اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ اور مسکراتے ہوئے پوچھا: کیا کر رہی ہو؟ کہنے لگی۔ کتنے ٹھنڈے ہو رہے ہیں آپ کے پاؤں۔ اور اپنے ہاتھوں میں لے کر سہلانے لگی۔ ہلکا ہلکا دبا بھی لیتی۔ تنہائی کی وجہ سے مجھ میں ہیجان بھرنے لگتا اس کی اِس حرکت سے۔ مگر میں بمشکل ضبط کیے رہتا۔ کیوں کہ میں حتی المقدور کوئی پیش رفت نہیں چاہ رہا تھا۔ اس سے میرا رشتہ ہی کچھ ایسا تھا۔ پھر ایک دن اس کے ابو کی امی یعنی اس کی دادی ان کے گھر رہنے کے لیے آ گئیں۔ اب وہ اسی کمرے میں پڑے پلنگ پر ہوتیں اور ہم نیچے بیٹھے ان کے سامنے پڑھائی کا کام جاری رکھتے۔ مجھے ان کے آنے سے اندرونی طور پر کوفت ہوئی۔ کیوں کہ یہ کباب میں ہڈی والا ہی معاملہ تھا۔ ویسے میں حنا کی امی اور ابو کے رویے پر کافی حیران تھا کہ وہ ہمیں ایک کمرے میں اکیلا چھوڑ کر آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔ کیا انھیں یہ ڈر نہیں کہ دونوں جوان ہیں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی امی کا دو گھنٹوں میں شاید ہی کبھی ایک یا دو بار چکر لگتا تھا کمرے میں۔ ورنہ کبھی تو آتی ہی نہیں تھیں۔ حنا نے بتایا کہ دادی کو اونچا سنائی دیتا ہے۔ اس لیے کم از کم یہ تسلی تھی کہ ہم اگر سرگوشی میں کوئی معمول سے ہٹ کر بات بھی کرتے تو ان کو نہیں سن سکتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں اس نے میرے سامنے بیٹھنے کے بجاے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیا۔ اس دوران وہ رضائی کے اندر میرا ہاتھ پکڑ لیتی اور دیر تک پکڑے رہتی۔ پھر ایک دن جب میں گھر واپس آنے لگا تو اس نے معمول کے مطابق مجھے آواز دی۔ میں مسکرا کر مڑا تو اس نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا۔ مجھے ایک زور کا جھٹکا لگا۔ اس نے مجھے زور سے اپنے بازوؤں میں گھونٹا۔ اور اس سے پہلے کے میں اپنے ہاتھ اس کی کمر تک لا کر اسے بھی اپنے ساتھ دباتا، اس نے چھوڑ دیا اور کہا مسکرا کر کہا: اب جائیں۔ میں حیرانی کے عالم میں مسکراتا ہوا الوداع کہہ کر اپنے گھر آ گیا۔ کچھ دیر بعد میسجز پر بات شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ میں ابھی تک شاک میں ہوں۔تم نے کیسے کر لیا ؟ وہ کہنے لگی۔ بس دل کیا تو کر لیا۔ میں بولا: خیر جو بھی تھا، بہت اچھا تھا۔ پھر کال پر بھی کچھ دیر بات ہوتی رہی۔ اگلے دن بھی اس نے گلے لگایا، اس بار میں نے بھی بھرپور انداز سے بازوؤں میں لیا۔ اور اس کے گال پر ایک کِس بھی کر دی۔ پھر دو تین دنوں میں یہ کِس ہونٹوں تک آ پہنچی۔
میسجز اور کال پر بات کرتے ہوئے اب ہم بہت رومانٹک ہونے لگے تھے۔ پھر ایک دوسرے کے قریب آنے کی تمنا کا اظہار بھی ہو گیا۔ اور ایک دن جب اس کے امی ابو بازار گئے ہوئے تھے، اس نے مجھے میسج کر کے بتایا اور میں اس کے گھر پہنچ گیا۔ اس نے منہدی رنگ کا فراک پہنا ہوا تھا جس پر چھوٹے چھوٹے موتی لگے ہوئے تھے۔ بیٹھک کے راستے میں اندر آیا اور اس نے دروازاہ بند کرتے ہی میری طرف منہ کر کے بانہیں کھول دیں۔ میں نے اسے گلے لگایا تو اس نے مجھے بہت زور سے ہگ کیا۔ بیٹھک کی لائٹ آف تھی۔ صرف اندر کی طرف کھلے ہوئے دروازے سے ہی بہت ہلکی روشنی آ رہی تھی۔ جس سے نیم تاریکی پیدا ہو جانے سے ماحول بہت رومانٹک ہو گیا تھا۔ بالکل خاموشی تھی گھر میں۔ اور اس میں ہماری سانسوں کی آواز ہی اس وقت ایک دوسرے کو سنائی دے رہی تھی۔ وہ سانولی رنگت کی لڑکی تھی۔ اس نے دو ماہ بعد میرے سامنے نقاب اتار دیا تھا۔ کیوں کہ اب یہ ضروری نہیں رہا تھا۔ پھر وہ اپنے گھر والوں کے سامنے بھی میرےسامنے کھلے منہ آنے لگ پڑی تھی۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بہت خوبصورت تھی۔ قبول صورت بہر حال تھی ہی۔ لیکن اس کا جسم بہت سمارٹ تھا۔ پرفیکٹ جسم۔ ابھی اٹھارہ سال عمر ہوئی تھی اس کی۔ اور اس عمر میں کوئی بھی لڑکی اپنی خوبصورتی کے سب سے سنہرے دور سے گزر رہی ہوتی ہے، اگر وہ زیادہ موٹی نہ ہو۔ اور حنا چوں کہ بہت محنتی لڑکی تھی اس لیے اس کا جسم مسلسل کام کرتے رہنے کی وجہ سے انتہائی مناسب سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ میں نے اسے گلے لگا کر اس کی گردن پر ہونٹ رکھ دیے اور آہستہ آہستہ چومنا شروع کیا۔ اس کا نیم گرم جسم میری پیاس بھڑکا رہا تھا۔ اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے۔۔۔ اور اپنے ساتھ گھونٹتے ہوئے میں اسے چومتا ہوا اس کے چہرے تک آ گیا اور اس کے گالوں کو چومنے لگا۔ پھر اس کے کانوں کی لو پر زبان لگائی۔ وہ مست ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے خود کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔ میں نے اس کی آنکھیں چومیں، اس کی پیشانی اور بھویں چومیں۔ پھر ناک سے ہوتا ہوا اس کے ہونٹوں پر آ گیا۔ پہلی بار کسی لڑکی کو میں اتنے اطمینان سے کِس کرنے جا رہا تھا۔ ہونٹ چومتے ہوئے میں نے اس کے ہونٹ ہونٹوں میں بھرنا شروع کیے اور پھر فرنچ کِس سٹارٹ ہو گئی۔ دیر تک ہماری سانسوں کے سِوا کوئی آواز نہیں تھی جو ہمیں سنائی دیتی۔ یوں کھڑے کھڑے رومانس کرنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے میں نے اس کے ہونٹوں پر سے ہونٹ ہٹائے۔ اس نے کچھ محسوس کرتے ہوئے اپنے فراک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر یہ تنگ کر رہا ہے تو اتار دُوں؟ میں اس کے اس سوال پر حیران ہو گیا۔ اگر چہ وہ فراک مجھے کچھ نہیں کہہ رہا تھا، مگر ایک دم میرے ذہن میں خیال آیا کہ شاید وہ خود لباس اتارنا چاہ رہی ہے، اس لیے میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے سنجیدہ سے انداز میں اوکے کہا، اور فراک اتارنے لگی۔فراک اتارنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ فراک جالی دار ہے اور اس کے نیچے اس نے شمیز پہنی ہوئی ہے۔ دل میں جو ہلچل پیدا ہوئی تھی۔۔ اس کے بدن کو ایک دم اپنی آنکھوں کے سامنے برہنہ دیکھنے کی، وہ کچھ مدھم پڑ گئی اور میں یہ دیکھ کر مایوس ہوا کہ فراک اتارنے پر بھی کچھ خاص فرق نہیں پڑا تھا۔ البتہ یہ ضرور تھا، کہ منہدی رنگ کی شمیز میں اس کا خوبصورت جسم مزید دلکش ہو کر سامنے آیا تھا۔ سلِیو لیس شمیز میں اس کی بانہیں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں اور شمیز اس کے پیٹ اور چھاتیوں سے بالکل چپکی ہوئی ہونے کی وجہ سے میرے شہوانی جذبے مزید بھڑک اٹھے تھے۔ میں نے پھر سے اُسے بازوؤں میں بھر لیا اور اور اس کے کاندھے پر ہونٹ رکھ دیے۔ وہ تو بے خود ہی ہو گئی۔ اس نے اپنا جسم بالکل ڈھیلا چھوڑ دیا ، گویا خود کو میرے حوالے کر دیا۔ میں کاندھوں سے گردن تک چومتا ہوا اس کے گرم بدن کی سلگتی ہوئی نرم و نازک جلد کو ہونٹوں میں بھرنے لگا اور پھر اس کی گردن کو چوسنا شروع کر دیا۔ پورے ہونٹ کھول کر زبان سے چاٹتا ہوا میں اس کی جلد بار بار مختلف جگہ سے ہونٹوں میں بھرتا رہا۔ اس کی سانسیں واضح طور پر تیز ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ یوں ہی کرتے ہوئے میں نے اسے بڑے صوفے پر لا بٹھایا۔ اور آرام سے پیچھے کی جانب لٹاتے ہوئے صوفے کے بازو پر اس کا سر ٹکا دیا۔ پھر اس کے چہرے کی جانب ایک پل کے لیے دیکھا تو اُف۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں ادھ کھلی ہوئیں تھیں اور ہونٹ بھی۔۔۔ اور ایسے لگ رہا تھا، جیسے اُسے کسی نے سُن کر دیا ہو۔ وہ بالکل کچھ نہیں کر رہی تھی، اور جیسی اس کی حالت تھی، کرنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔ جیسے اس کے دل میں یہی خواہش تھی، کہ آج سب کچھ تجھے ہی کرنا ہے میرے محبوب۔ یہ بدن تیرے حوالے ہے۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو پیار سے چوما اور پھر سے باری باری سب اعضا چومتا چلا گیا۔ ایسا کرتے کرتے اس کے بازو پکڑ کر دبانے لگا اور پھر بازوؤں سے میرے ہاتھ۔۔ دھیرے دھیرے۔۔ اس کے ابھاروں کی طرف سرکنے لگے۔۔۔۔ سرکتے سرکتے۔۔۔ میں چومتا ہوا بھی اس کے گلے سے ہوتا ہوا اس کے سینے کے کھلے حصے تک آ گیا ۔۔۔ اور تبھی۔۔ میں نے اپنے ہاتھ اس کے ابھاروں پر رکھ دیے۔۔۔ اس نے ایک لمبی سانس بھری۔۔۔ اور میں نے تیز ہوتی ہوئی دھڑکنوں میں سیکنڈ کے سوویں حصے میں جان لیا کہ اُسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ سو اپنے ہاتھوں میں نرمی سے اُن نرم حصوں کو تھام لیا۔ مگر میرا جوش نرمی تک محدود ہی کہاں رہنے دے رہا تھا مجھے۔۔ دو چار بار ہولے ہولے دبائے اور پھر۔۔۔۔ میں انھیں زور سے دبانے لگا، بھرپور طریقے سے پکڑ کر اپنے ہاتھوں میں بھینچنے لگا۔ بتیس اور چونتیس کے درمیان میں انتہائی مناسب سائز کے ابھار تھے اس کے۔ ۔۔ اور میری جان نکال رہے تھے کہ میں کب انھیں ہونٹوں میں بھر لوں۔۔۔ اس کی شمیز کے اوپر ہی سے میں نے ان پر ہونٹ رکھ دیے اور انھیں چومنے لگا۔ دباتا بھی رہا اور چومتا بھی رہا، پھر انھیں منہ میں بھی بھرا۔ اس سے اس کی شمیز کا وہ والا حصہ گیلا ہو گیا جو ان دودھ کے پیالوں پر چڑھا ہوا تھا۔ نپلوں کے دانے محسوس ہونے لگے تھے مجھے۔۔۔ مستی میں باہر نکل آئے تھے مگر لباس میں دبے ہونے کی وجہ سے ہلکا ہلکا سا ابھار بن گیا تھا شمیز میں سے ان کی جگہ پر۔ ۔۔ اور یہ نظارہ زیادہ پاگل کر رہا تھا مجھے۔۔۔ میں انھیں چوستا ہوا اس کےپیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا اور اسے کمر سے پکڑ کر سہلانے لگا۔ اتنے میں اُس نے مجھے پکڑا تو میں نے اُس کی طرف دیکھا۔ وہ اٹھنا چاہ رہی تھی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا تو اس نے دھیمے لہجے میں کہا کہ مجھے اوپر آنے دیں۔ میں نے مسکرا کر اسے اٹھنے کو جگہ دی اور خود صوفے پر اس کی جگہ لیٹ گیا۔ وہ میری ٹانگوں کے اوپر بیٹھ گئی اور مجھ پر جھک کر مجھے چومنے لگی۔ میں تو اس احساس سے جیسے مدہوش ہی ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے احساس ہوا کہ وہ میرے عضو کے بالکل اوپر بیٹھی ہوئی ہے۔ مجھے اس خیال نے اور زیادہ مست کر دیا۔ میرا دل کیا کہ میں اسے اپنے عضو کے کھڑے ہونے کا احساس دلاؤں۔ سو میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور بھینچنا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ میں تھوڑا تھوڑا اس کے جسم کے ساتھ اپنے کولہوں کے حصے کو رگڑنے لگا۔ بدن بدن سے ملا کر دھکے لگانے لگا۔ اب تو اسے واضح طور پر محسوس ہو گیا کہ نیچے بھی کوئی چیز ہے جو بے تاب ہو چکی ہے۔ وہ بھی اپنا بھرپور دباؤ دینے لگی اور مجھے چومتی بھی رہی۔ میرا چوں کہ بالکل پہلا تجربہ تھا کہ کسی لڑکی کی قربت میسر آئی تھی اور وہ بھی اتنی بے باکانہ طریقے سے ساتھ دے رہی تھی، اور کچھ میری مشت زنی کی عادت نے مجھے کمزور کر رکھا تھا، سو اس کے مسلسل دباؤ سے میری حالت بری ہو گئی اور لاکھ چاہنے کے باوجود ، کہ میں نے ابھی نہ چھوٹوں۔۔ خود پر قابو نہیں رکھ پایا۔۔۔ نتیجتہً کچھ ہی دیر بعد مجھے جھٹکنے لگنے لگے اور انزال ہو گیا۔۔۔۔ اسے بھی شاید میری تیز سانسوں اور ماتھے پر آتے پسینے کی وجہ سے احساس ہو گیا تھا ۔ سو وہ نیچے اتر گئی۔ اور اندر چلی گئی۔ پھر میرے لیے پانی لے آئی۔ میں نے پانی پیا تو میرے ساتھ صوفے سے نیچے ہی بیٹھ کر میری گود میں سر رکھ لیا۔ پھر مجھ سے باتیں کرنے لگی۔ میں اس کے سر میں ہاتھ پھیرتا رہا اور جواب دیتا رہا۔ پھر کچھ دیر میں مَیں گھر آ گیا۔ بہت افسوس تھا کہ میں اتنی جلدی کیوں ڈسچارج ہو گیا۔ خود کو کوس رہا تھا کہ اتنا پیارا موقع ہاتھ سے نکل گیا۔ کال پر بات کرتے ہوئے میں نے اس سے معذرت کی کہ اگر گود میں سر رکھے ہوئے اسے کچھ بُو محسوس ہوئی ہو۔ اُس نے مسکرا کر کہا، کوئی بات نہیں۔ مجھے تو پتا بھی نہیں چلا۔ میں نے مزید بات بڑھانا مناسب نہیں سمجھا کہ وہ بھی مطمئن ہوئی یا نہیں۔ اور ظاہری بات ہے اُسے کب قرار آیا ہو گا۔ مگر فطری حیا کے تحت اس نے ذکر نہیں کیا تو الگ بات تھی۔ یوں ہی نامراد سو گیا اُس رات۔ پھر دن گزرتے رہے۔ میرا اُسے پڑھاتے رہنے کا معمول جاری رہا۔ مگر رضائی میں ایک ساتھ بیٹھے رہنے سے ہماری چھیڑ چھاڑ بھی جاری رہی۔ پھر کچھ دنوں کے لیے اس کی دادی اماں پھرسے اپنے گھر واپس چلی گئیں تو ہم اندر والے کمرے میں پھر سے اکیلے ہو گئے اور ہنسی مذاق کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو ٹچ کرنے کا سلسلہ بھی چلتا رہتا۔ کبھی گرم ہونا شروع ہوتے تو ایک دوسرے کو کِس بھی کر لیتے۔۔۔ پھر ایک دن میں جی ایم آئی کمپنی کی ایک کانفرنس میں گیا تو اس دن کوٹ پینٹ میں ملبوس تھا۔ اسی طرح اُسے پڑھانے چلا گیا۔ اُس کی آنکھیں ہی بتانے لگ پڑیں کہ میں کتنا خوبصورت لگ رہا ہوں اور پھر اس نے بہت بہت تعریف بھی کی۔ چناں چہ جب ہم پڑھنے الگ کمرے میں بیٹھ گئے تو کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میں نے اس سے کہا کہ چلیے پڑھائی شروع کرتے ہیں۔ لیکن اس نے ایک ادائے ناز سے کہا۔۔ اوں ہوں۔۔۔ آج پڑھائی نہیں کرنی۔ بس آج آپ سے باتیں کرنی ہیں۔ میں مسکرا دیا۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ میری سانسیں تیز ہو رہی تھیں۔ وہ مجھ سے باتیں کر رہی تھی لیکن میرا دل کچھ اور کرنے کو چاہنے لگا تھا۔ میں ہوں ہاں میں اس کو جواب دیتا رہا اور مسکرا کر اس کی جانب دیکھتا بھی رہا۔ کچھ دیر میں اس نے نوٹ کر لیا کہ میں اسے مسلسل دیکھ رہا ہوں۔ تو شرما کر کہنے لگی کہ کیا ہوا؟ میں نے مسکرا کر کہا۔ کچھ نہیں۔ پھر آگے بڑھ کر اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے۔ وہ شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ خاموش ہو گئی۔ہونٹ چومتے ہی میرے اندر کھلبلی مچ گئی۔وہ سرھانے کی طرف تھی اور میں ذرا نیچے کی طرف بیٹھا تھا۔ فرش پر ہی بستر بچھا تھا لیکن آج بالکل دروازے کے سامنے تھا۔ دروازہ بند کیا ہوا تھا۔ میں نے غیر محسوس طور سے اپنے کانوں کے ذریعے اندازہ لگایا کہ باہر ہال میں تو نہیں کوئی پھر رہا۔ کوئی نہیں تھا۔ اس کے امی ابو بیٹھک ہی میں اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ چناں چہ میں رضائی کا کنارہ اٹھا کراُس کی ٹانگیں سیدھی کرتے ہوئے اس کے اوپر آ گیا۔ وہ مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ لیتی تھی، زیادہ تر نظریں نیچے ہی کیے رکھتی تھی۔ ایک دفعہ اس نے بھی سنجیدہ انداز میں دروازے کی جانب دیکھ کر تسلی کر لی تھی اور پھر سے اسی رومانوی ماحول میں واپس آ گئی تھی۔ میں نے اسے بازوؤں میں بھرلیا اور کچھ دیر یوں ہی بھرے رکھا۔ پھر اس کے چہرے کو چومتا ہوا اسکے ہونٹ چوسنے لگا۔ ہماری سانسیں بہت تیز ہو چکی تھیں۔ کچھ دیر یوں ہی چومتے رہنے کے بعد میں نے آرام سے اٹھا اور پینٹ کی زپ کھولنے لگا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا تو اس نے نفی میں سر ہلا کر مسکراتے ہوئے آنکھیں جھکا لیں۔ پھر ہلکی آواز میں بولی۔ امی آ جائیں گی اس لیے ۔۔۔ میں بات سمجھ گیا مگر دل کہاں ماننے والا تھا۔ میں دوبارہ زپ کھولنے لگا اور اس کے روکنے کے باوجود زپ کھول کر پھر سے رضائی لے کر اس کے اوپر لیٹ گیا۔ اس نے مجھے بازوؤں میں بھر لیا تھا۔ میرا ایک ہاتھ دھیرے سے نیچے گیا اور میں نےآہستگی سے انڈرویر کے اندر تنا ہوا عضو باہر کھینچا۔
اُف۔۔۔۔ اس وقت تو اپنے ہاتھ کی ٹچ بھی جان لیوا لگ رہا تھا۔ کچھ سردی ہونے کی وجہ سے اس کی گرمی ہیجان کو اور بڑھا رہی تھی۔ باہر نکالتے ہی میں نے انگلیوں سے اس کی شلوار کا الاسٹک تلاش کیا اور کھینچتے ہوئے عضو شلوار میں ڈال دیا۔ اس کے چہرے کے تاثرات ایک دم بدلے۔ اس نے ہونٹ کھولتے ہوئے اور خلا میں کہیں دور دیکھتے ہوئے آہ کیا۔ اور پھر میری جانب دیکھا۔ اب اس کے چہرے پر نہ تو کوئی مسکراہٹ تھی، نہ ہی سنجیدگی۔ مگر انتہائی خوبصورت تاثرات۔ سنجیدگی مگر شہوت میں بھری ہوئی سنجیدگی۔ عضو اس کی لائن پر لگ رہا تھا۔ اور میں اسے بار بار آگے پیچھے کر رہا تھا۔ اس کے ابھار میرے سینے کے نیچے دبے ہوئے تھے اوروہ مجھے کمرمیں بازو حمائل کر کے خود سے لپٹائے ہوئے تھی۔ میرے آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے اسے میری چہرہ اور مجھے اس کے چہرے سے لے کر کاندھوں تک کا حصہ آہستہ آہستہ ہلتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ یہ خفیف سی حرکت بہت مزا دے رہی تھی۔ میں نے عضو کو ذرا اور نیچے لے جاتے ہوئے ٹھیک سے لائن پر اڈجسٹ کیا اور پھر سے دباتے ہوئے آگے پیچھے ہونے لگا۔ اب میرے عضو کا اوپری حصہ مکمل اس کی لکیر میں رگڑ کھا رہا تھا۔ جب کہ نچلا حصہ اس کی شلوار اور میرے جسم کے درمیان دبا ہوا رگڑ کھا رہا تھا۔ اِس سے مجھے جو لذت مل رہی تھی، بتا نہیں سکتا۔ اُس نے ایک لمبی آہ بھری اور پھر اس کی آنکھیں آدھی اوپر چڑھ گئیں۔ اب آہ کی آوازبھی نہیں آ رہی تھی۔ بس سانسیں چل رہی تھیں۔۔۔ مدھم مدھم۔۔۔ گرم گرم۔۔۔ اور اُسے صرف میرا لمس محسوس ہو رہا تھا۔ ہم کچھ دیر یوں ہی ایک دوسرے میں کھوئے رہے۔ ایک دم باہر سے بیٹھک کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ اور دونوں کا نشہ ہرن ہو گیا۔ میں بجلی کی سی تیزی سے اس کے اوپر سے اترا اور اس نے بھی شلوار کھینچتے ہی جلدی سے رضائی اتاری اور سرھانے کی طرف بیٹھ کر رضائی اپنے ابھاروں تک اوپر کر لی۔ جب کہ میں پیچھے کھسکتے ہوئے اس کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔ اتنی دیر تک قدموں کی چاپ بالکل قریب آ گئی تھی۔ میں نے جلدی سے کتاب پکڑی اور اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ زپ بند کرنے کا وقت ہی نہیں رہا تھا۔ رضائی نے عزت رکھ لی۔ کہ اسے میں نے اپنے اوپر لے لیا۔ چوکڑی مار کر بیٹھنے میں وہ میرے پیٹ تک آ گئی تھی۔ اس لیے زپ والا حصہ چھپ گیا۔ اتنے میں اس کی امی اندر داخل ہوئیں۔ میں نے ان کی طرف مسکرا کر دیکھا اور پھر کتاب پر دیکھ کر حنا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے، یہ دو سوال جلدی سے دیکھو، کیوں کہ ان میں تم کچھ اَڑ رہی ہو۔ باقی سوال تو پکے یاد ہو گئے ہیں۔ میں پانچ منٹ میں سنتا ہوں۔ اور اس نے مسکرا کر مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ جی سر! بس ابھی دو منٹ میں سناتا ہوں۔ اور میں معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھنے لگا۔ آنکھوں آنکھوں میں اسے کہا۔ شکر ہے بال بال بچ گئے۔ اس کی امی میری پشت کی طرف پڑے سامان میں سے کچھ لینے آئی تھیں۔ اس لیے کچھ فاصلے پر تھیں اور اپنے کام میں لگی ہوئی تھیں۔ اُن کے جاتے ہی میں نے جلدی سے زپ بند کی اور حنا ایک بار پھر مجھے دیکھ کر شرارتی مسکراہٹ لبوں پر لے آئی۔ میں نے بھی جھجکتے ہوئے اور ذرا سی شرم کے ساتھ زپ بند کرکے کوٹ اور شرٹ وغیرہ سیدھی کر کے ٹھیک طرح سے بیٹھ گیا۔ اس کے دو چار دن بعد پھر سے کچھ یوں ہی ہوا۔ شام کے وقت میں پڑھانے گیا تو اس کے امی ابو کسی کام سے نکل گئے۔ میں کچھ دیر تو پڑھاتا رہا۔ لیکن ان کے جانے کے بعد ہی میرے بدن میں جو ہلچل مچ گئی تھی بالآخر جب کنٹرول نہ ہو سکی تو میں نے کچھ کرنے کا سوچا۔ میری مدد لائٹ نے بھی کی۔ وہ اس طرح کہ بتی چلی گئی۔ چناں چہ اسی وقت میں نے اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اس کے گال پر بوسہ دیا۔ کتاب بند کرکے رکھتے ہوئے ہی وہ جان گئی تھی کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔ اس نے بھی شرما کر مسکراتے ہوئے میرے گرد بانہیں حمائل کر کے مجھے زور سے اپنے ساتھ بھینچ لیا۔ میں نے گال چومتے ہوئے اس کے ہونٹ چومے۔ پھر آڑے ترچھے بیٹھے ہونے کی وجہ سے صحیح طرح نہ چومے جانے پر میں نے اسے گود میں لٹا لیا اور اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھتے ہی اپنے ہونٹ کھول کر اس کے دونوں ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لیے۔ چوستے ہوئے اس کے سر کے نیچے یعنی میری گود میں عضو میں تناؤ آنے لگا۔شلوار قمیص پہنے ہوئے ہونے کی وجہ سے اور گود میں اوپر ہی پڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے اکڑتے ساتھ ہی وہ حنا کے سر کے ساتھ لگنے لگا۔ حنا کو بھی محسوس ہو گیا کہ منے میاں جوان ہو گئے ہیں۔ اب میں اس کےہونٹوں کو زور سے چوستے ہوئے اپنے عضو پر اس کا سر دبانے لگا۔ مجھے اس سے بے پناہ مزا مل رہا تھا۔ وہ بھی آنکھیں بند کیے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ چلو اٹھو۔ وہ اٹھ کر بیٹھی تو میں نے اُسے صحیح سے لٹایا اور اس کے اوپر آ گیا۔ وہ کہنے لگی۔ نہ کریں امی ابو ابھی آ جائیں گے۔ مگر مجھ پر تو بھوت سوار ہو چکا تھا۔ میں نے کہا کہ نہیں آتے ابھی تو گئے ہیں۔ وہ کہنے لگی کہ نہیں وہ یہیں گئے ہیں۔ جلد ہی آ جائیں گے۔ آپ ابھی نہ کریں نا۔۔۔ میں کہاں ماننے والا تھا۔ مجھے لگا کہ شاید ڈر کی وجہ سے ایسا کہہ رہی ہے۔ لیکن اتنی جلدی وہ کہاں آنے والے ہیں۔ میں نے اسے اٹھا کر صوفے پر لٹایا اور اس کے اوپر آتے تک میں بہت آہستہ سے اپنا نالا کھول چکا تھا، جس کا اسے علم نہیں ہو سکا۔ صوفے پر لٹا کر اس کے اوپر چڑھتے ہی میں نے اس کے ابھار ہاتھوں میں پکڑے اور انھیں زور سے بھینچا۔ اس کے منہ سے زور کی سسکاری نکلی۔ میں نے مسلسل دبانے لگا اور قمیص کے گلے سے جھانکتے سینے پر بوسے ثبت کرنے لگا۔ پھر ابھاروں کی لائن تک چومتا اور چوستا رہا۔ اور اچانک صوفے سے اتر کر اس کی شلوار کھینچ کر گھٹنوں تک کر دی۔ پھر اس کے اوپر چڑھا تو جلدی سے اپنا عضو پکڑ کر اس کی شرمگاہ پر ٹِکا دیا۔ وہ تو جیسے حیران ہی رہ گئی۔ اسے غالباً یہ تھا کہ میں نے ابھی اپنی شلوار سے عضو نہیں نکالا ہو گا۔ ایک تیز آہ بھرتے ہوئے اُس نے حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور اسی اثنا میں میں نے شرمگاہ کی لکیر پر مکمل لٹا کر دھکے دینے شروع کر دیے۔ وہ مستی میں بھرتی چلی گئی۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ پھر میں نے ایک ہاتھ میں تھوک لے کر اسے ٹوپی پر لگایا اور اس کے سوراخ میں رکھ کر ہلکا سا دباؤ دیا۔ وہ ذرا سا کسمسائی۔ میں نے ذرا سا دباؤ بڑھایا تو عضو پھسل گیا۔ اسے دوبارہ پکڑ کر وہاں جمانے لگا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں آنے والا خوف۔۔۔ اُف۔۔۔ میں تو مستی کی انتہا پر تھا۔ دستک کے باوجود میرا وہاں سے ہٹنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ لیکن اس کا دھکا مجھے اپنے جسم پر محسوس ہوا تو فوراً نیچے اترتے ہوئے میں نے شلوار اوپر کی۔ کمبخت۔۔ انھیں بھی ابھی آنا تھا۔ میں برا سا منہ بناتا ہوا اٹھا تھا۔ اُس نے فوراً شلوار اوپر کی اور کہا کہ آپ کمرے میں جا کر بیٹھیں میں وہاں آتی ہوں۔ کمرے میں اس کی دادی موجود تھیں۔ جو ایک دن پہلے ہی آئی تھیں۔ میں نے انھیں سلام بھی کیا تھا اور پھر ہم بیٹھک میں آگئے تھے۔ وہ یہ کہہ کر جلدی سے باہر جا کر دروازے کی طرف لپکی۔ اور میں نے اس تھوڑے سے وقت میں یہ سوچا کہ اگر اب میں وہاں جاتاہوں تو اس کی دادی سوچے گی کہ یہ اچانک یہاں کیوں آ یا ہے۔ پہلے تو بیٹھک میں بیٹھ کر پڑھ رہے تھے اور اب اچانک دستک ہوتے ہی یہاں بھاگا چلا آیا ہے۔ چناں چہ میں نے وہاں ہی بیٹھ جانے کو ترجیح دی۔ اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے ایک کتاب پکڑ کر کھول لی۔ جلدی سے اپنے موبائل کی لائٹ جلائی اور اس پر ڈال کر دیکھنے لگ پڑا۔ اتنے میں اس کے امی ابو اندر آئے اور بیٹھک کے اندر والے دروازے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اندر نظر ڈالی تو لائٹ محسوس کرتے ہوئے غور کیا تو میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی امی بولیں۔ اندھیرے میں کیوں بیٹھےہوئے ہو؟ میں نے مسکرا کر کہا کہ ابھی ابھی لائٹ چلی گئی تھی تو حنا چارجنگ لائٹ لینے جا رہی تھی کہ آپ آ گئے۔ خیر حنا چارجنگ لائٹ لے آئی۔ اور کوئی آدھے گھنٹے بعد میں گھر آگیا۔ میسجز پر بات ہوتے ہوئے اس نے کہا کہ آج تو آپ نے مروا ہی دینا تھا بس۔ میں نے تشویش سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ بعد میں کچھ پوچھا تو نہیں انھوں نے۔ اُس نے کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ لیکن جب میں آپ کو منع کر رہی تھی تو آپ نے بات کیوں نہیں مانی؟ میں نے کہا۔ سوری بابا! بہت بڑی غلطی ہوگئی۔ معاف کر دو۔ آیندہ ایسا نہیں کروں گا۔ خیر وہ ریلیکس ہو گئی۔ ویسے مجھے بھی عجیب لگا تھا کہ ہو سکتا ہے وہ بھی لائٹ کے جانے پر اٹھ کے وہاں سے چلے ہوں اور میرا بہانہ انھیں بھی کھٹک گیا ہو۔ کہ لائٹ تو اتنی دیر سے گئی ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ ابھی گئی ہے۔ لیکن خیر وقت گذر گیا تھا۔ شکر ہوا کہ پھنسے نہیں۔ پھر اس کے پیپر آ گئے۔ اور ایک دو پیپروں میں میں ہی اسے لے کر سنٹر تک چھوڑنے اور لینے گیا۔ میری کمر کے گرد بازو ڈال کر وہ مجھ سے زور سے لگ کر بیٹھا کرتی۔ ہم پیار بھری باتیں کرتے ہوئے سفر کرتے رہتے۔ پیپر ختم ہوئے تو ایک ماہ کا وقفہ آیا۔ جس میں میں ان کے گھر بالکل نہیں گیا۔ اس عرصے میں اس کے ساتھ سیکس چیٹ چلتی رہتی تھی۔ کال پر بھی بات کرتے ہوئے میں اسے جنسی حوالے سے چھیڑ لیتا تھا لیکن فطری طور پر وہ با حیا لڑکی تھی اس لیے مجھے خاموش ہو جانے کا کہہ دیتی تھی یا مصنوعی غصہ دکھا کر ڈانٹ بھی دیتی تھی۔ اور میں ہنسنے لگ جاتا۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ میں ایف اے کی تیاری شروع کرنا چاہتی ہوں۔ اس لیے اب آپ مجھے اس کی تیاری کروانے آیا کریں گے۔ میں بڑا خوش ہوا۔ کیا بات تھی حنا کی۔ اس نے دوبارہ سے ہمارے ملن کا بہانہ ڈھونڈ لیا تھا۔ چناں چہ میں اُسے ایف۔اے کی تیاری کروانے جانے لگ پڑا۔ اور پھر سے ہمارا چمی چاٹی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سردیاں لگ بھگ ختم ہونے والی تھیں۔ فروری کے دنوں کی بات ہے۔ جب ایک رات میں ان کے گھر گیا تو سبھی ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دیر ان سے باتیں چلتی رہیں اور پھر میں حنا کے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور اسے پڑھانے لگا۔ اس کے امی ابو بیٹھک میں چلے گئے اور دادی ذرا سائیڈ پر فرش پر بچھے ہوئے بستر میں ہی لیٹ گئیں۔ پہلے ہم وہیں بیٹھا کرتے تھے اور دادی اِس پلنگ پر ہوتی تھیں جو کمرے کے دروازے کے بالکل سامنے تھا اور سامنے کی دیوار کے ساتھ اس کی سائیڈ ملی ہوئی تھی۔ میں پہلے کچھ دیر پائینتی کی طرف بیٹھا رہا اور پھر کمر تھک گئی تو دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ بھی دیوار سے ٹیک لگائے ہی بیٹھی تھی۔ اس طرح ہم دونوں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اب۔ اس کی قربت سے مجھے فوراً ہی شہوت چڑھنے لگتی تھی۔ اس وقت بھی میرا یہی حال ہونے لگا۔ میں نے رضائی میں ہاتھ ڈال کر اس کا ایک ہاتھ تھام لیا اور اسے ہولے ہولے دبانے لگا۔ وہ بھی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کام بھی کرتی رہی اور اس کا دھیان اس طرف بھی ہو گیا۔ پھر پانچ سے دس منٹ کے اندر ہی واپڈا نے ہم پر رحم کیا اور لائٹ چلی گئی۔ دادی اس وقت تک سو چکی تھیں۔ میں نے موبائل کی لائٹ جلائی اور اس میں کتاب دیکھنے لگا۔ مگر اب دل ہی کہا تھا کہ کچھ پڑھا جائے۔ چناں چہ اندھیرے نے جذبات کو آخری حد تک بڑھا دیا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے رہا ہو اور اُس وقت پہلو میں ایک لڑکی بیٹھی ہو تو کس کمبخت کا دل چاہے گا کہ اُسے چھوڑ کر کسی اور چیز کی طرف دھیان دے۔ میں نے آہستہ سے کتابیں ایک سائیڈ پر کرتے ہوئے اس کا چہرہ اپنی طرف گھما کر اس کے ہونٹوں پر بوسہ دیا۔ اور پھر چومنا شروع ہو گیا۔ اس نے موبائل کی روشنی سیدھی دروازے کی جانب کر دی۔
اس سے یہ فائدہ ہونا تھا کہ اگر کوئی ایک دم اندر آتا بھی ہے تو اسے آنکھوں میں روشنی پڑنے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آنا تھا اور ہم سنبھل سکتے تھے۔ سائیڈ پر بیٹھے ہونے کی وجہ سے میں نے بائیں ہاتھ سے اس کا منہ اپنی طرف گھمایا ہوا تھا اور اسے چوم رہا تھا۔ پھر وہ ہاتھ اس کی گردن سے ہوتا ہوا اس کے ابھاروں تک چلا گیا۔ اور اس کے خوبصورت تنے ہوئے جوان ابھار میرے ہاتھوں میں آتے ہی میرا عضو انگڑائیاں لینے لگا۔ نیم تنا ہوا عضو مکمل تناؤ میں آ چکا تھا۔ اس کی گرم سانسوں کے ساتھ ضبط میں نکلتی ہوئی ہلکی ہلکی آہیں مجھے پاگل کیے جا رہی تھیں۔ ابھار باری باری اچھی طرح دبانے کے بعد میں نے اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کر اپنے عضو پر رکھ دیا۔ اس نے آہ بھرتے ہوئے اسے نرمی سے اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر زور زور سے دبانے لگی۔ سیکس کے معاملے میں وہ بڑی جنونی تھی۔ بہت شدت آ جاتی تھی اُس میں۔ اُس کے اس طرح عضو کو مسلنے کی وجہ سے میری آہیں نکلنے لگیں۔ اور میرا ہاتھ اور نیچے جا کر اس کی شلوار میں گھس گیا۔ اس کے بالوں کو چھوتے ہوئے میں اس کے ہونٹ چوستا رہا اور وہ مستی کے درجے طے کرتی رہی۔ پھر اس کی شرمگاہ کی لکیر کو انگلی نے چھوا تو اس نے میرے عضو کو بہت زور سے دبایا۔ جسم بھی ایک دفعہ مکمل کسمسایا۔ لکیر میں انگلی نے اپنی حرکت محسوس کروانا شروع کی۔ اور سفر کرتی کرتی اس کے سوراخ تک پہنچ گئی۔ یہاں تک کہ پوری لائن میری انگلی میں دب گئی۔ چناں چہ میں انگلی کو آہستہ آہستہ اس کی لکیر میں پھیرنے لگا ۔ ساتھ ساتھ دباتا بھی رہا۔ اُس کا وہی حال ہو چکا تھا۔ آنکھیں ادھ کھلی ہو کر اوپر کی طرف چڑھ گئی تھیں۔ اور خود کو ڈھیلا چھوڑ چکی تھی وہ۔ میں نے کچھ اور آگے بڑھتے ہوئے اس کی شرمگاہ کے سوراخ میں انگلی کی پور لگائی۔ اور ہلکا سا دبایا۔ وہ کانپ سی گئی۔ اور میرے کاندھے پر سر ڈھلکا دیا۔ میں اس کے ماتھے کو چومتا ہوا پور کو اندر گھسانے لگا۔ یہاں تک کہ انگلی کی ایک پور اس کے سوراخ میں چلی گئی۔ جسے میں دھیرے دھیرے سوراخ میں گھمانے لگا۔ اس کی دھڑکنیں مجھے اپنے بازو کے مسل پر محسوس ہونے لگی تھیں۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ زور زور سے سسکارے۔ تیز تیز آہیں بھرے اور مجھے بازوؤں میں لے کر بھینچے۔ مجبوری آڑے آ رہی تھی۔ دادی کی آنکھ کھل جانے کا بھی ڈر تھا کیوں کہ انھیں سوئے ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہی تو ہوئے تھے۔ یوں ہی انگلی کو اس کی شرمگاہ میں گھساتا گھساتا میں تقریباً آدھی انگلی جب اندر ڈال چکا تو اس نے میرا ہاتھ میری کلائی سے تھام لیا۔ اور آہستہ سے سسکارتی ہوئی آواز میں سرگوشی کی۔۔ بسسسس۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔ اور میں نے اسکے گال کو چومتے ہوئے سرگوشی میں۔۔اوکھے میرھی چھان۔ہ۔ہ۔ہ۔۔(بلند آواز میں بولیں تو۔۔۔اوکے میری جان) کہا اور آدھی انگلی ہی سوراخ میں اندر باہر کرنے لگا۔ اس کی ناک اور آدھ کھلے ہونٹوں سے نکلنے والی آہوں اور عجیب گھٹی گھٹی آوازوں سے لگ رہا تھا کہ اس سے برداشت نہیں ہو پا رہا۔ وہ اونچی آواز میں آہیں بھر کر اپنے دل میں بھرنے والا جوش نکالنا چاہ رہی ہے مگر ایسا کر نہیں پائے گی۔۔۔ اور آخر کار اس نے حد سے زیادہ برداشت کرنے پر، جب اُس کی اخیر ہو گئی، مجھے کہا کہ بسسس کریں۔۔۔۔ اور ساتھ ہی میرا ہاتھ پیچھے کو بھی کھینچا۔ میں نے آہستہ سے انگلی باہر نکال لی اور اس کی شلوار سے ہی صاف کر لی۔ جس اس کے پانی سے گیلی ہو چکی تھی۔ کچھ دیر ہمیں نارمل ہونے میں لگی۔ اور پھر گھنٹے بعد گھر آ گیا۔ اُس دن کے بعد والے دنوں میں ہماری ایک دوسرے کے حوالے سے جھجک اور زیادہ ختم ہوتی چلی گئی۔ اب حنا رضائی میں بیٹھتی اور میرے بدن کو ہاتھ لگاتی تو میں بھی اُس کے بدن کو چھو لیا کرتا۔ ایک دن اُس نے مجھے گدگدی شروع کر دی۔ میں خود کو اُس سے چھڑاتا رہا۔ اسی بہانے اس کے جسم کو ہاتھ لگتے رہتے اور مزا ملتا رہتا۔ اگلے دن بھی اُس نے مجھے گدگدی شروع کی۔ میں آج کے لیے کچھ سوچ چکا تھا۔ اسی لیے جب اُس نے مجھے گدگدی شروع کی تو میں اپنی کمر اور پیٹ پر پڑنے والے اُس کے ہاتھوں کو ہٹاتے ہوئے نیچے کی جانب جھٹک دیتا۔ اس طرح اُس کے ہاتھ میری رانوں کو جا لگتے۔ یوں ہی ایک دو بار کرنے میں میرا عضو مکمل تن گیا۔ جسے میں نے غیر محسوس طریقے سے اپنی اُس ران کی طرف کر لیا جس پر اُس کا ہاتھ لگتا تھا۔ اُس نے ایک بار پھر گدگدی کی تو میں نے اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر نیچے کرتے ہوئے عضو پر رکھ دیا اور وہیں روک لیا۔ اُسے بھی محسوس ہو گیا۔ اس لیے اُس نے شرما کے مسکراتے ہوئے نظریں نیچی کر لیں اور سر جھکا لیا۔ میں نے ذرا ٹھیک سے اُس کا ہاتھ عضو پر رکھا اور اُس نے اچھے طریقے سے اُسے پکڑ لیا اور ہولے ہولے دبانے لگی۔ مجھے بہت مزا آ رہا تھا۔ میں نے دوسرے ہاتھ سے شلوار کا ازاربند کھولنے کے لیے جب ہاتھ ادھر کیا تو اُس نے مجھے ہلکے سے اشارے سے ایسا کرنے سے منع کیا۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے کہا کہ کچھ نہیں ہوتا۔ اُس نے ہلکی آواز میں کہا کہ کوئی آ جائے گا۔ میں پھر بھی نہ مانا اور ازاربند کھول ہی دیا۔ پھر آہستگی سے شلوار نیچے کرتے ہوئے عضو اُس کے ہاتھ سے چھڑوا کر باہر نکال لیا۔ اُس نے ہاتھ ذرا سا پیچھے کر لیا تھا اور نیچی نظروں ہی میں مسکراتے ہوئے شرما رہی تھی۔ میں نے پیار سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے عضو پر رکھا۔ اُس نے نرمی سے پکڑ لیا۔ اُف! میرے بدن میں ایک لذت بھری لہر دوڑ گئی۔ وہ اُسے سہلانے لگی۔ مجھے نرم انداز میں سہلانے سے مزا نہیں آ رہا تھا اس لیے اُس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُس کی مٹھی کو ذرا زور سے دبایا۔ اُسے سمجھ آ گئی اور مسکراتے ہوئے زور سے دبانے لگی۔ آہستہ آہستہ وہ اور زیادہ زور لگانے لگی۔ پھر اُس نے میرا عضو پکڑ کر اُسے اوپر نیچے کرنا شروع کیا۔ اور مشت زنی کے انداز میں آگے پیچھے کرنے لگی۔ مگر میری بیرونی جلد پر عضو کی جڑ کی طرف دباؤ ڈالتے ہوئے وہ بہت زیادہ زور لگانے لگ پڑی۔ اتنا کہ عضو کی بیرونی جلد کھنچ جانے سے مجھے سخت درد ہوتا ہر بار۔ میں نے دو تین بار تو برداشت کیا مگر پھر میری اگلی دو تین بار میں آہ نکل گئی۔ میں نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا کہ آہستہ۔ مگر وہ شاید شرارت کے موڈ میں آ چکی تھی۔ اس لیے اُس نے اور تین چار بار انتہائی زور زور سے بھینچ ڈالا۔ نتیجتاً مزے کے بجائے مجھے درد ہونے لگا۔ اور اسی وجہ سے عضو دھیرے دھیرے ڈھیلا پڑنے لگا۔ اُسے بھی محسوس ہو گیا کہ عضو ڈھیلا پڑ گیا ہے۔ چناں چہ مجھے دیکھ کر اُسے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہلاتے ہوئے شرارت بھرے انداز میں بولی۔’’بس اتنی سی جان تھی اس میں۔ بیچارہ ٹھنڈا بھی ہو گیا۔‘‘ اور میں کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔ دل ہی دل میں مجھے حنا پر غصہ بھی آ رہا تھا کہ مزے کے لمحوں کو اس قدر زور لگانے کی وجہ سے اُس نے خراب کر دیا تھا۔ اچانک دروازے پر آہٹ ہوئی۔ میں نے جلدی سے رضائی اوپر کر لی اور کتاب پکڑ لی۔ حنا بھی، جو میری طرف جھکی ہوئی تھی، فوراً سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور اپنے رجسٹر پر کچھ لکھنے لگی۔ اُس کی امی کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔ میں نے اُن کے آنے کے بعد ذرا سے توقف سے حنا کی پڑھائی سے متعلق ہی کوئی بات چھیڑ لی حنا سے۔ اور جب اُس کی امی باہر چلی گئیں تو میں نے شرارت اور ڈرآمیز انداز میں منہ بنا کر اُس کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگا۔ وہ بھی مجھے دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’میں نے کہا تھا نا کہ کوئی آ جائے گا۔ آپ مانتے کب ہیں۔‘‘ اور بہت ہلکا سا مسکرا دی۔ میں نے جلدی سے رضائی ہٹا کر ازار بند باندھنا شروع کیا۔ اور پھر سے پڑھائی شروع ہو گئی۔ آتے ہوئے اُس نے بھرپور انداز میں مجھے گلے لگایا۔ میں نے بھی زور سے بھینچ لیا اُسے۔ اور پھر گھر آ گیا۔ حنا کا چوں کہ ہمارے گھر میں کافی آنا جانا بن گیا تھا اس لیے میری چھوٹی بہن سے بھی اُس کی خوب دوستی ہو گئی تھی۔ اُس کے ساتھ بازار بھی چلی جایا کرتی اور گھر کی صفائی میں بھی حنا اُس کا ہاتھ بٹا دیا کرتی تھی۔ ہر دوسرے تیسرے روز وہ ہمارے گھر کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں یا یوں ہی میری بہن سے ملنے آ جایا کرتی تھی۔ پھر کچھ دنوں کے لیے حنا اپنی باجی کے ہاں چلی گئی۔ اُن کا ہاتھ بٹانے کے لیے۔ پانچ چھے دن تک ہماری فون ہی پر باتیں ہوتی رہیں یا پھر میسجز پر۔ فون پر بھی ہلکا پھلکا سیکس اور رومانس کرتے رہے ہم۔ جب واپس آئی تو اُس نے بتایا کہ اُس کی باجی نے اُسے اپنی نائٹی دے دی ہے۔ اُن کو چھوٹی تھی اس لیے انھوں نے کہا کہ حنا پہن لے گی۔ میں نے حسرت بھرے انداز میں کہا کہ مجھے کب پہن کر دکھائو گی۔ تو ہنس پڑی اور کہنے لگی کہ اُس کا بھی سوچ لیں گے۔ جون کا مہینا چل رہا تھا۔ جب ایک دن میں گھر پر اکیلا تھا۔ گھر والے بازار گئے ہوئے تھے۔ میرا دل چاہا کہ آج حنا سے ملاقات کی جائے۔ اُسے میسج کیا تو فوراً اُس کا جواب آ گیا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کوئی کام تو نہیں کر رہی؟ اُس نے کہا کہ نہیں کچھ خاص نہیں۔ میںنے کہا کہ اچھا پھر گھر چکر لگا سکتی ہو؟ اُس نے کہا کہ ہاں آ سکتی ہوں۔ میں نے بتایا کہ گھر کوئی نہیں ہے۔ یہ میسج لکھتے ہوئے میرا دل غیر محسوس طریقے سے ذرا زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ اُس نے پوچھا کہ کہاں گئے ہیں سب؟ تو میں نے بتایا کہ بازار گئے ہیں اور دو گھنٹے سے پہلے نہیں آئیں گے۔ اُس نے اوکے آتی ہوں، کہا اور میں بے چینی سے اُس کا انتظار کرنے لگا۔ ایک ایک منٹ صدیوں کی طرح گزر رہا تھا۔ آج تو میں اُس کے ساتھ سیکس کر کے ہی چھوڑوں گا، یہ سوچتے ہوئے میں بے چین ہوا جا رہا تھا۔ آٹھ دس منٹ کے بعد دروازے پر دستک ہوئی اور میں نے بڑھ کر دروازہ کھولا تو حنا کھڑی تھی۔ اُسے اندر آنے کو راستہ دیا اور جب وہ اندر آ گئی تو میں نے آہستگی سے دروازہ کی چٹخنی چڑھا دی۔ اُس نے گھر کا صحن دیکھا جو ذرا گندا ہو رہا تھا۔ فوراً بولی کہ اوہو! صفائی ہونے والی ہے۔ جا کر جھاڑو لے آگئی اور پائپ کھول کر صحن دھونے لگی۔ اُس وقت اُس کا یہ احساس کرنا مجھے سخت ناگوار گزر رہا تھا۔ میں بھی خاموش رہا اور بیٹھک میں پڑی اکلوتی بڑی ساری چارپائی پر سرھانا ٹھیک کیا۔ پھر کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا۔تھوڑی دیر بعد باہر نکلا تو وہ تقریباً دھو چکی تھی صحن۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بس بھی کرو اب!وہ بھی مسکرا دی اور پائپ سمیٹ دیا۔ جھاڑو بھی ایک طرف رکھ دیا۔ پھر میں اُسے اندر لے آیا اور سینے سے لگاتے ہوئے بھینچ لیا۔ میری دھڑکنیں اُس وقت ریل کی رفتار سے چل رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد خود سے الگ کر کے میں نے مسکراتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر اُس کے گالوں کو آہستہ آہستہ چوما۔ پھر اُس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے۔ اُف! نرم نرم ہونٹوں کو چومتا ہی چلا گیا۔ پھر اچانک اُس نے مجھے خود سے الگ کرنے کے لیے ہلکا سا ہاتھ سے دباؤ ڈالا۔ میں الگ ہوا اور اُس کی آنکھوں میں سوالیہ انداز سے دیکھا۔ وہ مدھم آواز میں بولی۔ میں نائٹی بھی لائی ہوں۔ میں نے خوشی سے کہا۔ اوہ اچھا۔ تو وہ بولی۔ ہمم۔ مگر آپ باہر جائیں اور تھوڑی دیر بعد اندر آئیے گا۔ میں مسکراتے ہوئے اُس کا ایک بوسہ لے کر باہر آ گیا۔ میری بے چینیاں بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔ دو سے تین منٹ بمشکل باہر گزار کر میں دروازے کو ہلکا سا کھٹکھٹاتے ہوئے اندر ہوا۔ اُس نے منع نہیں کیا۔ اور جب میں نے اُسے دیکھا تو میرے ہوش ہی اڑ گئے۔ اُففف! کیا غضب لگ رہی تھی وہ نائٹی میں! گہرے نیلے رنگ کی نائٹی تھی جو جالی دار تھی۔ اُس کے سٹرِپس کاندھوں پر تھے اور ابھاروں کے قریب جا کر نائٹی کا حصہ شروع ہوتا تھا۔ اس طرح اُس کے ابھاروں کا درمیانی حصہ بہت کھلے ڈُلے انداز میں دکھائی دے رہا تھا۔ کلیویج بھرپور انداز میں اپنی نمائش کر رہا تھا۔ سانولا سلونا رنگ اور بھرپور جوان بدن۔۔۔ آہ! میری نظریں سفر کرتی نیچے پہنچی تو لذت اور بڑھ گئی۔ نائٹی کی لمبائی اتنی سی تھی کہ اُس کی مکمل رانیں نظر آ رہی تھیں۔ یعنی تقریباً ساری کی ساری ٹانگیں برہنہ تھیں۔ بمشکل تمام اندامِ نہانی کو ڈھانپا تھا نائٹی نے۔ میں سحر زدہ سا آگے بڑھتا چلا گیا اور اُسے بازوئوں سے پکڑتے ہوئے داہنے کاندھے پر ہونٹ رکھ دیے۔ پھر اُس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔ بہت خوبصورت لگ رہی ہو جان! وہ شرما ہی تو گئی۔ اور میرے سینے میں چھپنے لگی۔ میں نے اُسے بہت پیار سے بازوئوں میں اٹھا لیا اور آہستگی سے چلتا ہوا چارپائی تک آیا۔ پھر نرمی سے چارپائی پر لٹا دیا۔ اُس پر کچھ بچھانا مجھے یاد نہیں رہا تھا۔ بس ایک سرھانا ہی دھرا ہوا تھا اور پائنتی پر ایک کھیس۔ پھر اُس پر جھکتے ہوئے اُسے چومنے لگا۔ میں شلوار اور بنیان میں ملبوس تھا۔ کچھ ہی دیر میں مَیں بھی چار پائی پر ہی آ گیا۔ وہ میرے بوسوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مدہوش ہو چکی تھی۔ ادھ کھلی آنکھیں اور دُور خلا میں دیکھتی ہوئی نظریں۔ لذت سے بھرے ہوئے تاثرات لیے اُس کا سنجیدہ سا چہرہ۔ میں نے اوپر آتے ہی غیر محسوس طریقے سے ازار بند کھول لیا تھا اور پھر سے اُسے چومنے لگا۔ چہرے سے ہوتا ہوا گردن تک آیا۔ گردن کی جلد ہونٹوں میں بھر بھر کے چوستا رہا اور چوستے چوستے چہرے تک چلا گیا۔ اُس کے گال چوسے۔ پھر ماتھا۔ پھر کان۔ اور کان کی لویں۔ اُف وہ ذائقہ۔عضوِ تناسل مکمل اٹھان پر آ چکا تھا۔ میں نے نچلے وجود کو ذرا جھکا دیا اور اُس کی ٹانگوں کے درمیان عضوِ تناسل کو محسوس کروانے لگا۔ اُسے ایک اور جھٹکا لگا اور وہ مدہوشی کی کیفیت میں سسکار اٹھی۔ میں گردن سے کاندھوں تک گیا اور پھر چومتا اور چوستا ہوا اُس کے ابھاروں کے درمیان آ گیا۔ ہونٹ درمیانی لکیر کو چومنے لگے۔ ساتھ ہی زبان لکیر میں شرارتیں کرنے لگی۔ وہ جذب کے عالم میں تھوڑے تھوڑے سے وقفے سے اپنا سر اِدھر سے اُدھر مارنے لگی تھی۔ پھر میں نے آہستگی سے نائٹی اُس کے داہنے ابھار سے نیچے کھینچی۔ وہ انتہائی لچک دار تھی۔ فوراً ہی اُس کا مکمل ابھار اکڑےہوئے نپل کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ ہائے! وہ درمیانے گول براؤن دائرے اور اُن کے درمیان کھڑا ہوا نپل۔ میں نے اُسے آہستگی سے چوما اور پھر فوراً ہونٹوں میں بھر لیا۔ وہ پھر سے کانپ سی گئی۔ اور میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ میں سرمستی کے عالم میں آنکھیں بند کیے اُسے چوسنے لگا۔ نپل کو ہونٹوں میں پکڑ کر کھینچا۔ اُس نے آہ بھری۔ پھر بائیں ابھار کو لباس سے آزاد کرتے ہوئے ہونٹوں کو اُس کنوارے دودھ سے سیراب کرنے لگا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اُس کے ابھار جوانی کے بھرپور ایام میں ہونے کی وجہ سے پورے جوبن پر تھے۔ بانکے۔ تنے ہوئے۔ان چھوئے ہونے کی وجہ سے کچھ کچھ سخت۔ ذرا بھی ڈھیلا پن نہیں تھا۔ سیدھے کھڑے ہوئے مجھے کہہ رہے تھے کہ ہمیں کھا جائو۔ جی بھر کے چوس لو۔ اور میں اُن چند لمحوں میں ان کنوارے تنے ہوئے ابھاروں سے اپنے ہونٹوں کی جتنی پیاس بجھا سکتا تھا، بجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرا دل چاہا کہ وہ میرے عضو کو اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسے۔ میں نے ابھار چوستے ہوئے سر اٹھایا۔ اور اُس کے ہونٹوں کو چوما۔ وہ مسرور انداز میں مجھے دیکھنے لگی۔ میں مسکرا رہا تھا۔ اُسے محسوس ہو گیا کہ میں کچھ کہنا چاہ رہا ہوں۔ پھر میں نے بات کرنے کو منہ کھولا۔ جان! اگر تم۔۔! اور پھر مسکرانے لگا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی تھی کہ کس طرح اُسے کہوں! اُس نے کچھ اور سمجھتے ہوئے مجھ سے کہا۔ ’’ کیا میں اوپر آ جاؤں؟‘‘ میں نے مایوس ہوتے ہوئے اور شاید دل میں یہ سوچتے ہوئے کہ شاید اوپر آ کر مجھے چومتے ہوئے نیچے تک بھی جائے، مسکرا کر ہاں میں سرہلا دیا۔ چناں چہ وہ میرے اوپر آ گئی اور مجھے چومنا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد میں نے پھر ہمت کی اور کہنے کی کوشش کی۔ ’’جانو! اُسے۔۔۔‘‘ میرا اشارہ اپنے عضو کی طرف تھا۔ مگر بات مکمل نہیں کر پایا۔ پھر حجاب آ گیا۔ اُس نے پھر سے کچھ اور سمجھتے ہوئے بات مکمل کرنے کی کوشش کی۔’’کیا؟ اندر ڈالوں؟‘‘ میں پھر سے مایوس ہوا مگر یہ زیادہ اچھا آئیڈیا تھا۔ میں نے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔ وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھی۔ پیچھے ہو کر میری ٹانگوں پر بیٹھ گئی۔ پھر شرماتے ہوئے مجھے اپنی آنکھیں بند کرنے کو بولا۔ میں نے اوکے کہتے ہوئے مسکرا کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ مگر بہت ہلکی سی آنکھیں کھول کر دیکھنے لگا۔ اُس نے میرا عضو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور پھر اُسے اندامِ نہانی کے سوراخ پر کچھ دیر پھیر کر اندر سیٹ کیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے نیم گرم احساس محسوس ہوا عضو کے سِرے پر۔حشفہ اندر جا رہا تھا۔ اُف! میرا عضو مزید اکڑ گیا۔مکمل سخت ہو گیا۔ اُس نے تھوڑی دیر بعد آہ اور پھر اُف کیا۔ اور پھر مجھے اوپر نیچے ہوتی ہوئی نظر آنے لگی۔ مجھے بھی حشفہ ایک تنگ سے سوراخ میں نیم گرم احساس لیتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ میں تو لذت کی شدت سے پاگل ہونے لگا۔ مکمل آنکھیں کھول دیں۔ وہ سائیڈ کی طرف دیکھتے ہوئے درد بھرے چہرے کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ عضو کا صرف سُپارا ہی اندر داخل کیا تھا اُس نے۔ اُس سے زیادہ اندر نہیں لے رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے میری طرف دیکھا تو درد بھری آواز میں بولی۔ بس! بہت درد ہو رہا ہے۔ میں نے اُسے نیچے اتارا اور اپنے نیچے لٹا کر چومنے لگا۔ اُس کے ہونٹ چوستا رہا۔ پھر اُس کی چھاتیاں دبانے لگا اور نائٹی اوپر اٹھا کر اس کے پیٹ پر ہونٹ رکھے۔ چومتا ہوا ابھار بھی دباتا رہا۔ وہ مزے سے چُور ہونے لگی۔ پھر نائٹی اُس کی چھاتیوں سے بھی اوپر اٹھا کر میں اُس کے پکی ہوئی مسمیوں جیسے ابھار چوسنے لگا۔ تنے ہوئے نپل کچھ اور باہر نکل آئے تھے کھڑے ہو کر۔ اس لیے اُنھیں چوسنے کا بھی بہت مزا آ رہا تھا۔ہونٹوں میں لے لے کر اور دانتوں میں پکڑ پکڑ کر کھینچنے کی لذت بہت سکون آور تھی۔ میں شہوت کے عروج پر پہنچنے لگا۔ چناں چہ پھر سے اُس کے کان میں سرگوشی کی۔ جان! ایک بار پھر کریں؟ میرا اشارہ اندامِ نہانی میں عضو کے دخول کی طرف تھا۔اُس نے ہاں میں سر ہلایا۔ اور خود اپنا ہاتھ نیچے لے جا کر اندامِ نہانی کے سوراخ میں حشفہ ٹِکا دیا۔ میں نے ذرا سا دباؤ ڈالا تو چکنی رطوبت کی وجہ سے گیلی ہوجانے والی اندامِ نہانی میں فوراً حشفہ داخل ہو گیا۔ اُس نے آہ کیا اور درد بھرے تاثرات اُس کے چہرے پر در آئے۔منہ ابھی بھی آدھا کھلا ہوا تھا اُس کا اور وہ نیم وا آنکھوں سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی۔ میں بھی اُسے دیکھتے ہوئے عضو آگے پیچھے کرنے لگا۔ بڑی احتیاط کے ساتھ۔ تاکہ باہر نہ نکل جائے۔چوں کہ میرا سیکس کرنے کا بالکل پہلا تجربہ تھا اس لیے مجھے یہ خیال ہی نہیں رہا کہ اٹھ کر عضو پر اچھی طرح لعابِ دہن لگا لوں تاکہ حنا کو درد زیادہ نہ ہو۔ اور بس اِسی کو غنیمت جانا کہ اُس نے خود پکڑ کر اپنے اندر رکھا تھا۔جسے میں خود اٹھ کر نکالنا نہیں چاہ رہا تھا اور دل میں یہ خوف بھی تھا کہ اٹھنے میں نکل گیا تو شاید وہ دوبارہ ڈالنے سے منع ہی نہ کردے درد کی وجہ سے۔ اس لیے میں اُسی تھوڑے سے داخل ہوئے عضو کو اندر باہر کر کے لذت لینے لگا۔ مگر جب اندر جاتا ہے تو پھر تھوڑے ہی سے مزا کب آتا ہے؟ چناں چہ بڑھتی ہوئی لذت کے زیرِ اثر میں نےتھوڑا اور دباؤ بڑھایا تو خشک عضو اندامِ نہانی کی دیواریں کھولتا ہوا تھوڑا اور اندر داخل ہو گیا۔ جس پر اُس نے ذرا اونچی آواز میں آہ بھری۔ اور سسکارتی ہوئی سر اِدھر اُدھر مارنے لگی۔ ساتھ ہی اُوہ ۔۔۔ کی آواز بھی نکلنے لگی اُس کے منہ سے۔ مجھ پر مستی سوار تھی۔ پھر یہ کہ پہلی پہلی دفعہ کسی لڑکی کے ساتھ جنسی ملاپ کا موقع آیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور چھوٹنے پر آ گیا تھا۔اِس کی ایک اور وجہ شاید یہ بھی تھی کہ حنا کی اندامِ نہانی بہت ٹائٹ تھی۔ ہم دونوں کا پہلا پہلا جنسی ملاپ تھا زندگی میں۔ اور اُس کی تنگ اندامِ خاص میں پھنس کر عضوِ تناسل بار بار اندر باہر کرتے رہنے کی وجہ سے بھی میرا انزال قریب آ گیا تھا۔ چناں چہ میں نے ذرا تیز رفتاری سی اندر باہر کرنا شروع کیا اور ایسا کرتے ہوئے تھوڑا سا دباؤ اور ڈال دیا۔ حِنا چیختے چیختے رہ گئی۔ درد کی شدت کی وجہ سے میری کمر کو بھینچ لیا تھا اُس نے اور کراہے جا رہی تھی۔ میں تقریباً آدھا عضو داخل کر چکا تھا جو پھنس پھنس کر اُس کے کنوارے سوراخ میں اپنے آنے جانے کا احساس دے رہا تھا۔ حشفہ سے پیچھے میرا عضو موٹا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اُس کا درد سے بے حال ہونا اس وجہ سے بھی فطری تھا۔ وہ انتہائی قیامت خیز لمحے تھے۔ مزے کا وہ احساس مجھے آج تک نہیں بھولا۔ کیا تنگی تھی اُس کے سوراخ کی! اُففف! اور میرے عضو پر اُس کی کنواری اندامِ خاص کی وہ جکڑن۔ آہ! مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ بس میں منزل ہونے والا ہوں۔ چناں چہ تیز تیز اندر باہر کرنے لگا۔ وہ بھی اب باقاعدہ آواز سے آ۔۔ آ۔۔ اُوہ۔۔ اُوہ کرنے لگی اور اچانک میرے عضو سے مادۂ منویہ کا فوارہ بہ نکلا۔ اُس کی ایک سے دو پچکاریاں تو اندر ہی گریں۔ ایسی حالت میں مَیں اُس کے سوراخ میں سے ہرگز باہر نہیں نکالنا چاہ رہا تھا مگر یاد آتے ہی فوراً میں نے عضو باہر کھینچ لیا جو چارپائی پر آیا۔ وہاں قریب ہی بڑا سا سوراخ تھا جس میں سے میرا عضو چارپائی سے نیچے کو نکل گیا۔ پچکاریاں نیچے فرش پر میرا شہوت بھرا لاوا انڈیلتی رہیں۔ تھوڑی دیر بعد مجھے ہوش آیا تو پتا چلا حنا سسکیاں لے رہی تھی۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر اُسے دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور چہرے پر درد کے آثار تھے۔ میں نے جلدی سے اُسے اٹھا کر بٹھایا اور چارپائی پر دیکھنے لگا کہ وہاں تو نہیں گرا مواد۔ مگر وہاں کچھ نہیں تھا۔ میں نے نیچے دیکھا۔ اُس نے بھی میرے ساتھ ہی دیکھا۔ وہاں مادۂ منویہ کافی مقدار میں پڑا ہوا تھا۔ وہ کہنے لگی کہ میں صاف کر دیتی ہوں۔ میں نے کہا کہ نہیں میں خود ہی صاف کر لوں گا۔ تم واش روم سے ہو آؤ۔ اُس نے اچھا کہتے ہوئے اُسی روہانسے منہ سے اٹھ کر نائٹی درست کی اور شلوار قمیص اٹھا کر باہر چلی گئی۔ میں وہیں بیٹھ گیا۔ ندامت سے سوچنے لگا کہ اتنا اندر نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ پتا نہیں کیا بنا ہے۔ پردہ ہی نہ پھٹ گیا ہو۔ پھر جب وہ آئی تو منہ اُسی طرح روہانسا بنا ہوا تھا۔ میں نے متفکرانہ انداز سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو وہ میرے گلے لگ کر رونے لگی۔ میں نے اُسے پچکارتے ہوئے چپ کرانے کی کوشش کی۔ اُس نے بتایا کہ خون نکلا ہے اور بہت شدید درد ہو رہا ہے۔ میں نے اوہ کہتے ہوئے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ وہ کہنے لگی کہ میں اب گھر چلتی ہوں۔ مجھے ایک دم خیال آیا کہ میں کتنا بد اخلاق ہوں کہ جب وہ آئی تھی تو اُسے پانی بھی نہیں پوچھا۔ پھر مجھے پشیمانی ہوئی کہ مجھے تو اُس کے آنے سے پہلے ہی اِس کا بندوبست کرنا چاہیے تھا۔ کوئی بوتل لے آتا یا ملک شیک بنا کے رکھتا۔ مگر سیکس کرنے کے نشے میں مَیں یہ بھول ہی گیا۔ اُسے اُسی وقت کہا کہ کچھ پی تو جاؤ۔ میں پانی لے کر آتا ہوں۔ وہ بولی کہ نہیں مجھے ابھی پیاس نہیں ہے۔ میں گھر چلتی ہوں بس۔ چناں چہ میں نے اُسے رخصت کیا۔ اور پھر واپس آ کر بیٹھا تو شرمندہ ہونے لگا کہ اُس نے گھر کی صفائی بھی کی اور پھر میرے ساتھ سیکس بھی کیا اور میں نے اُسے پانی تک نہیں پلایا۔ کتنا بدتہذیب شخص ہوں میں بھی۔ اپنے آپ کو کوسا۔ اور پھر یہ بھی سوچتا رہا کہ میرا مادہ اُس کے رحم میں نہ داخل ہو جائے۔ کیوں کہ نکالنے سے پہلے ایک دو جھٹکے مجھے لگ چکے تھے۔ خیر تھکن کافی ہو گئی تھی اس لیے میں اُسی چارپائی پر ڈھیر ہو کر سو گیا۔ اگلے دن میں اس کو ٹیوشن پڑھانے گیا تو اس دن کافی شدید بارش تھی اور ٹھنڈ کافی زیادہ تھی۔معلوم ہوا کہ اس کے امی ابو کہیں شادی پر گئے ہوئے تھے اور وہ اور اس کی دادی گھر پر اکیلی تھیں۔میں نے اس کو پڑھانا شروع کیا۔ اس کی دادی تھوڑی دیر بیٹھی رہی پھر وہ دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ ہم دونوں ایک ہی رضائی میں بیٹھے تھے۔جیسے ہی اس کی دادی گئیں میں نے اس سے کل والی بات پر سوری کیا کہ میں نے کچھ کھانے کے لئے نہیں پوچھا۔ تو اس نے کہا کوئی بات نہیں۔آج وہ کالے نیٹ والے لباس میں تھی۔ اس نے ہاف بازو لباس پہنا ہوا تھا اور کرتا کافی ٹائٹ تھا۔ جبکہ نیچے اس نے پٹیالہ شلوارپہن رکھی تھی۔دوپٹہ اس نے گلے میں لے رکھا تھا۔اس کے سلونے رنگ پر سیاہ لباس جچ رہا تھا۔ یک ٹک میں اس کو دیکھنے لگ گیا۔ جس پر وہ بھی میری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کا دوپٹہ اتار دیا اور اس کے گردن پر بے تحاشا چومنا شروع کر دیا۔اس نے اپنے ہاتھ میرے سر پر رکھ دیے اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔اس کو میں نے بیٹھے بیٹھے لٹا دیا اور اس کے اوپر آگیا۔اس کی گردن سے کس کرتے ہوئے اس کی تھوڑی تک آیا اور چوسنا شروع کر دیا۔پھر اس کے چہرے پر کس کرتے کرتے میں اس کے کانوں تک گیا اور اس کے کانوں کی لو کو پیار سے کاٹنے لگ گیا۔ پھر میں نے اس کےگالوں کا رخ کیا اور ادھر چومنے لگ گیا۔ اس کے نرم نرم گال اتنے پیارے لگے کہ کاٹنے کا دل کیا۔ اس کے گال کو اپنے دانتوں میں لے کر بار بار ان پر اپنی زبان سے کسنگ شروع کر دی۔ جس سے وہ انتہائی گرم ہونے لگ گئی۔ اس کی بعد ہم نے کل کی طرح بہت ہی زبردست چودا ی کی ۔اب اس کو کل جتنا درد نہیں ہوا تھا ۔ میں پھر اپنے ٹائم پر گھر آ گیا ۔کچھ عرصہ تک وہ یہی رہی مجھ سے پڑھتی رہی ۔پیچ پیچ میں موقع نکال کر ہم اپنا کم کر لیتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد اس کا اچھا سا رشتہ آ گیا ۔ وہ بیچاری مجھ سے دل لگا بیٹھی تھی ۔ اس نے مجھ سے بات کی میںنے کہا کے لوگ کیا سوچے گے ۔ اس نے بہت زد کی کے اپنی امی کو بھیجو رشتے کے لیے پر میں نا مانا اس نے مجبورن رشتے کی ہا کر دی ۔ پھر اس نے مجھ سے بات کرنا بھی چھوڑ دی تھی ۔ اس کی شادی بھی ہو گئی ۔ اب اکثر مجھے جب شہوانی جذبے مجھ پر غالب آتے تو حنا بہت یاد آتی ہے ۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "تم بہت یاد آتے ہو "