Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ہوس کے انگارے




ہمارا تعلق سوات سے ہیں مگر فکرِ معاش کے سلسلے میں گزشتہ بیس برسوں سے راولپنڈی میں ہی قیام پزیر ہیں۔ ہم دو بھائی ہے۔ والد کی کریانہ کی دکان ہے جبکہ ہم دونوں بھائی پڑھتے ہیں۔
میرا نام ارشیان اور میرے بھائی کا نام علیان ہے۔ ابھی میں میٹرک میں تھا کہ میری ایک لڑکی سے ایک رونگ نمبر پر دوستی ہوگئی دن گزرتے رہے بات ہوتی رہی اور ہم ایک دوسرے میں گھل مل گئے۔۔۔
اب یہاں سے آگے کی کہانی شروع کرتا ہوں۔
بیٹا جلدی کرو تنزیلہ کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ امی نے مصنوعی غصے سے پھنکارتے ہوئے بلایا تو میں نے عجلت میں جوتے پہنے اور تیار ہو کر نیچے آ گیا۔
یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ تنزیلہ میری چچا زاد بہن تھی جسے میں کالج جاتے ہوئے اس کے اسکول چھوڈ دیا کرتا تھا۔
کیا ہے چڑیل پانچ منٹ صبر نہیں کر سکتی، میں نے مصنوعی غصے سے کہاں تو سب ہنس پڑے۔
موٹر سائیکل سٹارٹ کرتے ہی وہ میرے پیچھے بیٹھ گئی اور ہم اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
ارشیان۔۔! تنزیلہ نے کہاں۔
کیا ہے میں نے سرسری سا جواب دیا۔
یہ تم صبح تھوڑا جلدی نہیں اٹھ سکتے ہمیشہ تمہاری وجہ سے میں اسکول سے لیٹ ہو جاتی ہوں اور مجھے میڈم سے سو سو باتیں سننی پڑتی ہیں۔
واہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، میڈم ایک تو خود لیٹ آتی ہوں اور اوپر سے باتیں بھی مجھے سناتی ہوں۔
ہمیشہ تم لیٹ ہوتے ہو آج آگر میں ہوگئی تو کونسا قیامت آگئی۔
ہم اسی نوک جھونک میں تھے کہ اس کا اسکول آ گیا وہ اندر چلی گئی اور کالج کی طرف روانہ ہو گیا۔
ہائے۔۔۔۔
کون۔۔۔۔
ایک انجان نمبر سے مسج آیا تو میں کافی حیران ہوا اس لیئے کہ ابو نے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے موبائل لے کر دیا تھا اور سوائے چند آشنا لوگوں کے یہ نمبر کسی انجان کے پاس نہیں تھا۔
آپ ارشیان ہے! دوبارہ مسج آیا۔
جی اور آپ کون ہے۔
میں نام بتاتی ہوں مگر پہلے وعدہ کرو کہ یہ راز رہے گا تمہارے اور میرے علاوہ کسی دوسرے کو اس بات کا علم نہیں ہونا چاہیئے کہ ہماری بات ہوئی تھی۔
ٹھیک ہے وعدہ کرتا ہوں میں نے متجسس لہجے میں کہاں۔
میں ہُما ہوں۔۔
ہُما! اچانک جھماکہ سا ہوا۔
جی ہُما۔
ہم جس مکان میں رہتے تھے وہ تین منزلہ تھا ہر پورشن میں پانچ پانچ کمرے تھے درمیانے پورشن میں ہم اور چاچو اکھٹے رہتے تھے جب کہ ہُما تنزیلہ کی کلاس فیلو تھی اور وہ ہمارے ہی مکان کے سب سے اوپر والے پورشن میں رہتے تھے۔
آپ کے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا۔ میں نے دوسرا سوال دہرایا۔
آپ کا نمبر تنزیلہ کے پاس تھا رجسٹر میں تو میں نے وہاں سے لیا۔
تنزیلہ جانتی ہے؟
نہیں! اس نے برجستہ جواب دیا۔
اچھا چھوڑیں، خیریت تھی۔۔؟؟
جی!  اس نے سرسری جواب دیا۔
اچھا۔۔۔
ایک بات کہوں برا تو نہیں مانیں گے قریب 5 منٹ کے وقفے کہ بعد اس نے دوبارہ مسج کیا۔
جی بلکل کہیں۔
آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔
کیا۔۔؟؟
جی میں نے کئی بار چاہا کہ اس بات کا اظہار کروں آپ سے مگر اک ڈر تھا جو ہمیشہ راستہ روک دیتا پھر جب آپ نے موبائل لیا آپ کا نمبر ملا تو مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے کہہ دیا۔
میں کیوں اچھا لگتا ہوں آپ کو اتنا۔
بس یہ نہیں پتہ مگر آپ بہت اچھے لگتے ہیں شائد محبت کرنے لگی ہوں آپ سے اور وہ بھی بہت زیادہ۔
اچھا۔
جانتی ہوں آپ کے قابل نہیں مگر دل کا کیا کرے آ گیا۔
ایسی بات نہیں ہے ہُما! تم ہر لحاظ سے قابل ہو خوبصورت ہو زہین ہو بس کبھی کسی نے اس طرح کہاں نہیں نا تو کچھ عجیب سا لگا۔
بس مجھے اپنے دل کی حکمرانی دیں ارشیان میں سمجھوگی مجھے سب کچھ مل گیا۔
آئی لو یو ارشیان آئی لو یو سو مچ۔۔۔
ایک عجیب سا احساس تھا کسی کے چاہے جانے کا جس نے وجود کو ایک نئی تازگی سے دوچار کر  دیا تھا۔
اسی طرح مزید بات ہوتی رہی لمحے سرکتے رہے دن گزرتے رہے اور ہم دونوں ایک دوسرے میں ضم ہوتے گئے۔۔۔
دسمبر اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ ہمارے وجود پر حکمراں تھا۔ شدید یخبستگی کا عالم تھا۔ مجھے ہُما کے ساتھ ریلیشن میں آئے ہوئے چار ماہ ہوچکے تھے مگر ان چار مہینوں میں چاہ کر بھی ہم ایک دوسرے سے مل نہیں پائے تھے۔
حالانکہ ملاقات آسانی سے ہو سکتی تھی مگر اک ڈر تھا جو دیمک کی طرح روح کو چاٹ رہا تھا۔
ان چار مہینوں میں ہم یہاں تک آ گئے تھے کہ کبھی کبھار میں اسے موبائل پر ایک آدھ فحش ویڈیو بھی بھیج دیا کرتا تھا مگر یہ ویڈیو ابھی تک کِس یا ہلکے پھلکے رومانس تک محدود تھی۔
دسمبر کی سخت شدید سردی نے ہمارے اندر ایک آگ لگا دی تھی جسے بجھانے کی سعی میں ہم دونوں یک جام کمر بستہ تھے۔
جان آج ملنے کا بہت دل کر رہا ہے! دسمبر کی بوندا باندی نے آج پھر اندر آگ لگا دی تھی۔
مجھے بھی ملنا ہے مگر کیسے ملے ہم؟
ہُما نے دل کی بات ہونٹوں پر لاتے ہوئے ساتھ تشویش کا بھی اظہار کیا۔
تمہارے گھر والے سارے کس ٹائم تک سو جاتے ہیں میں نے پھر سے پوچھا۔
گیارہ بجے تک سب سو جاتے ہیں مگر کیوں؟ اس نے ایک ساتھ اکھٹے دو سوال کر ڈالے۔
بس ٹھیک ہے پھر میری جان آج ہم رات کو بارہ بجے نیچے سیڑھیوں پر ملیں گے جب سب سو جائیں گے۔
نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ وہاں کوئی آ جائے گا کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آ جائے گی۔
میری جان نیچے تمہارے گھر والے سارے سو جائیں گے تو اوپر سے کون نیچے آئے گا۔
نیچے سے کوئی اوپر آ نہیں سکتا اور جب میں آؤں گا تو اپنے ہورشن کے دروازے کو باہر سے لاک کر دوں گا ہمارا مسلہ بھی ختم۔۔۔
نہیں نا ارشیان ایسے نہیں نا مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔
میری جان پیار بھی کرتی ہو اور ڈرتی بھی ہو پچھلے چار ماہ سے ہم سُلگ رہے ہیں بس تھوڑی سی ہمت رکھو پھر دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا۔
میں نے اس کی ڈھارس باندھتے ہوئے کہاں، حالانکہ اندر سے میں خود اتنا ڈر رہا تھا کہ نا پوچھے، مگر مجھے آج ہر حال میں ملنا تھا اس سے۔
اور پھر آخر کار اس نے ہمت کر کے وہ مان گئی۔
اب وقت کا یہ عالم تھا کہ گزرے نا گزر رہا تھا ادھر میں اک عجیب سی آگ میں سلگ میں رہا تھا اور ادھر گھڑی کی ٹِک ٹِک میرا لہو مزید گرما رہی تھی۔
چار نا چار وقت گزرا اور بارہ بج گئے۔
جان کہاں ہو میں نے ایک طویل سانس کھینچی اور موبائل اٹھا کر میسج کیا۔
اپنے کمرے میں۔۔۔
جان بارہ بج گئے ہیں۔۔۔
جی۔۔۔۔
میں سیڑھیوں پر کھڑا ہوں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔۔۔
ارشیان مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
ہُما دیکھو میں بھی تو آ گیا ہوں سب سے نظریں چرا کے میری جان کچھ نہیں ہوتا پہلی بار ہے اس لیئے تمہارے دل میں زیادہ ڈر ہے جب تم آ جاؤ گی دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔
اچھا تھوڑا انتظار کرے میں آتی ہوں کرتی ہوں کچھ۔۔۔
اسی اثنا انتظار میں مزید آدھا گھنٹا اور بیت گیا۔
میں نے کئی مسج کیئے مگر اس نے جواب نہیں دیا آخر کار میں اکتا گیا اور جیسے ہی واپسی کے لیئے قدم اٹھائے مجھے کسی کے آنے کی آہٹ نے چونکا دیا میرے قدم وہی رُک گئے سیڑھیوں سے دھیرے دھیرے ایک ہالہ نیچے اتر رہا تھا جیسے ہی وہ میرے قریب پہنچا میری سانس سینے میں ہی اٹک کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔
وہ کوئی اور نہیں ہما تھی۔ ٹائیٹ ٹراؤزر اور تنگ شرٹ نے اس کے جسم کے ابھار کو قیامت خیز بنا دیا تھا۔ مجھے لگ ریا تھا پرستان سے کوئی حسن کی پری میرے سامنے آ گئی ہے۔
میں مسلسل اس کے حسن کے جلووں میں کھویا ہوا تھا میں پلک تک جھپکانا بھول چکا تھا۔
وہ یونہی دھیرے دھیرے سیڑھیوں سے اترتی ہوئی میرے قریب آگئی وہ میرے اتنے قریب آ چکی تھی کے اس کے جسم سے اٹھتی خوشبو میرے نتھنو سے ٹکرا رہی تھی جسے ایک طویل سانس لے کر میں نے اپنے اندر سمو دیا۔
ہُما سہمی ہوئی تھی اور اسکی حالت بتا رہی تھی کے وہ فل ڈری ہوئی ہے ۔اسکا بازو کانپ رہا تھا اس کے قریب ہو کر میں نے اسے کہا کہ دیکھو ہُما تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں یہاں اس وقت کوئی نہیں آسکتا اس لیے اپنے آپ کو ریلیکس کرو۔۔۔
ہُما خود کو سنبھالتے ہوے بولی ججی ٹھیک ہے۔ میں نے ہمممم کیا اور گڈ گرل کہہ کر چاروں اطراف کی سن گھن لینے لگا کہ کہیں کسی طرف سے کوئی خطرہ تو نہیں مگر ہر طرف امن امان کا ہی سگنل ملا ۔
میں نے تسلی کر کے جب ہُما کی طرف دیکھا تو وہ دیوار کے ساتھ کھڑی میری طرف بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔۔
مجھے اپنی طرف  دیکھتے ہوئے ہُما نے نظریں جھکا لیں ۔۔
میں نے کہا کیا دیکھ رہی تھی۔
ہُما بولی کچھ نہیں۔
ہُما ٹراوزر شرٹ، لمبے سیاہ بالوں میں گوری رنگت کے ساتھ واقعی چاند لگ رہی تھی ۔۔۔
میں اس کے ساتھ جڑ کر کھڑا ہو گیا ۔
اتنی آشنائی کے باوجود مجھے اسکے جسم  کو چھونے میں جھجھک محسوس ہورہی تھی ۔
میں کچھ دیر اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑا رہا اور ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر سہلاتا رہا۔
اور پھر ہمت کرکے میں نے اپنا ایک ہاتھ اسکے ممے کی طرف بڑھایا اور ہُما کا چونتیس سائز کا گول مٹول مما پکڑ کر دبا دیا اور پھر اس کو مٹھی میں بھر کر ممے کوکبھی دباتا تو کبھی سہلانے لگ جاتا ۔
ہُما نے بریزیر بہت سوفٹ پہنا ہوا تھا میں جب بھی ممے کو مُٹھی میں بھر کر دباتا تو مما میری مٹھی سے سلپ ھوکر مٹھی سے نکلنے کی کوشش کرتا۔
مجھ سے مذید صبر نہ ہوا تو میں نے ہُما کو بانہوں میں بھر کر پیچھے کی طرف دیوار کے ساتھ لگا کر اس کے اوپر آ گیا۔
میرا اکڑا ہوا لن ہُما کی ران کی ساتھ لگ گیا اور اسکے ممے میرے سینے کے ساتھ لپٹ گئیے میں نے اپنے ہونٹ ہُما کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔
ہُما کا رنگ سرخ ٹماٹر جیسا لال ہوچکا تھا اور میں اس کے ہونٹ چوسے جا رہا تھا۔
میں نے ہُما کا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگا دیا ۔ہُما میرے ساتھ لگ گئی۔
میں نے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر سے ہٹاے تو اسکے چہرے پر گبھراہٹ دیکھ کر میں اسکے بالوں کو سہلاتے ھوے بولا ۔
کیا ہوا اتنا گبھرا کیوں گئی ہو۔۔
ہما صرف نفی میں سرہلانے پر ھی اکتفاء  کیا۔میں نے پھر پوچھا کیا ہوا بولو تو سہی ۔
ہُما بولی یہاں بہت ڈر لگ رہا ہے۔
مجھ سے نہیں رہا جا رہا۔
میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور سیڑھیوں سے نیچے لے جاتے ہوئے اپنے پورشن کے دروازے کی طرف آ گیا۔
کیا کرنے لگے ہو وہ انتہائی حیرت سے بولی۔
خاموش بتاتا ہوں میں سرسری جواب دیا۔
دروازہ آرام سے کھولا یہاں وہاں دیکھ کر دھیرے دھیرے اسے اپنے کمرے میں لے آیا اسے بیٹھنے کا کہہ کر واپس دروازے کی طرف آ کر اسے آرام سے بند کر کے کمرے میں اس کے قریب بیڈ پر آ کر بیٹھ گیا۔
لو اب سب ٹھیک ہے اب تو کوئی گھبراہٹ نہیں نا۔
وہ بس آنکھیں پھاڑیں مجھے دیکھی جا رہی تھیں۔
 میں اس کے قریب ہو کر بیٹھ گیا اور دوبارا اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور ایک ہاتھ نیچے لیجا کر ہُما کی شرٹ کو اسکے پیٹ سے اوپر کرکے اسکے نرم ملائم پیٹ پر ہاتھ پھرنے لگ گیا ۔
میں ہاتھ کو سرکاتا ہوا شرٹ کے اندر سے ہی اسکے مموں پر لے آیا اور بریزیر کے نیچے سے ہاتھ سیدھا کر کے اسکے ننگے ممے کو مٹھی میں بھرا تو پہلی دفعہ ہُما کے منہ سے سیییییییی نکلا اور اس نے میرے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ لیا۔
ہُما کے ممے کی سوفٹنس میں الفاظوں میں بیان نہیں کرسکتا اففففففففف کیا روئی جیسے نرم اور ریشم جیسے ملائم ممے تھے ۔
ْجب میری انگلی میں اسکے ممے کا نپل آیا تو نپل فل ہارڈ ہوچکا تھا اور نپل کو جب بھی مسلتا سویرا کے منہ سے سسکاری ضرور نکلتی۔۔۔
ہُما کی جان اسکے ممے کے نپل میں تھی ۔
کچھ دیر میں نے ہُما کے نچلے ہونٹ کو پہلی دفعہ کھینچ کر چوسنا شروع کیا تو مجھے اپنی محنت کا پھل ملتا محسوس ہونے لگ گیا ۔
اور میں بار بار اسکے دونوں نپلوں کو ہی کبھی مسلتا تو کبھی سہلاتا ہُما آہستہ آہستہ جوبن میں آتی جارہی تھی ۔
 ہُما نے میرے نچلے ہونٹ کو قابو کر لیا تھا اور اسے چوسنے لگ گئی اور اسکے ساتھ ہی اسکا ہاتھ اٹھا اور میری گردن کو سہلاتے ھوے میرے سر کو مذید نیچے کی طرف دبا کر میرا نچلا ہونٹ چوستی۔
ہُما کے ایکشن میں آنے کی دیر تھی کہ میرا بھی پارا چڑھ گیا اور میں نے بھی والہانہ انداز میں اسکے ممے کو دبانا اور اسکے اوپری ہونٹ کو چوسنا شروع کردیا ۔۔۔
مجھے ہُما کی سیکس کی بھوک کا اندازہ اسکی والہانہ کسنگ اور کمر اٹھا اٹھا کر میرے ساتھ چپکنے سے ہورہا تھا اور ساتھ میں جس انداز سے وہ میری گردن کو سہلاتے ہوے میرے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی ۔
اس سے میرے اندر انتہاء کا جوش بڑھ رہا تھا ۔
اور میرا لن فل ٹائٹ ہو کر پھٹنے والا ہو چکا تھا میرا دل کررہا تھا کہ ابھی ہُما کی شلوار اتار کر ایک ہی جھٹکے میں سارا لن اسکی پھدی میں اتار دوں۔
مگر میں ہُما کو پورا تیار کرنا چاہتا تھا کہ وہ فل گرم ہو کر خود میرا لن اپنی پھدی میں ڈال دے ۔۔
اس لیے میں لگاتار مسلسل اسکے مموں پر اور نپلوں پر انگلیوں سے منتر پڑھ کر  اسکے اندر سیکس کی بھوک کو بڑھا رہا تھا اور اس میں قدرے کامیاب بھی ہورہا تھا ۔۔
کچھ دیر ہم دونوں کے ہونٹوں کا  دنگل جارہی رھا ۔
اور بلاخره  میں نے ہُما کے ہونٹوں کو چھوڑا اور اس کے اوپر  آگیا اور اسکی ٹانگوں کو کھول کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔
ہُما میرے سامنے ٹانگیں کھولے لیٹی ھوئی تھی اور اسکی شرٹ اسکے پیٹ سے اوپر اور مموں سے نیچے تھی ۔۔۔
ہُما کا پیٹ چٹا سفید تھا اور روشنی میں چمک رھا تھا پیٹ بلکل اندر کی طرف تھا اسکی جلد میں شائنگ تھی ایسے جیسی ویکس کی ہو بال کی ایک لوں تک نہ دکھ رہی تھی ۔۔
میں نے اسکے پیٹ کو دیکھا تو بے اختیار میں اسکے پیٹ پرجھکتا گیا اور ہونٹ اسکے پیٹ پر رکھے اور پیٹ  کا بوسا لے کر اسکے حسن کی تعریف کی ۔۔۔۔میرے ہونٹ ہُما کے پیٹ پر لگے تو ہُما کے  پیٹ کی جلد وائبریشن ہونے لگ گئی اور ہُما نے بیڈ سے کندھے اٹھا کر سر کو پیچھے خم دے کر سسکاری بھرتے ھوے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کر دی۔
میں نے تین چار چھوٹی چھوٹی پاریاں ہُما کے پیارے سے پیٹ پر کیں ۔
اور ساتھ ہی اپنی زبان کو نکال کر ناف میں ڈال دی اور ناف کے دائرے میں چاروں اطراف زبان کی نوک کو پھیرنے لگ گیا ہُما ایکدم مچل اٹھی اور میرے سر کے بالوں کو مٹھی میں بھر لیا اور لمبی لمبی سسکاریاں لیتی ھوئی سر دائیں بائیں مارنے لگ گئی ۔۔
اور ساتھ ہی سیکسی آوازوں میں پلیزززز نہ کرو پلیزززز نہ کرو مجھ سے برداشت نہیں ہورہا پلیزززززز ۔۔۔
ہُما کی نہیں نہیں سے میرا شوق بڑھتا گیا اور میں زبان کا جادو پیٹ پر چلانے کی تگ ودو  میں لگ گیا ۔۔
میں کبھی زبان کی نوک کو ناف کے چھوٹے سے سوراخ کے اندر ڈالتا تو کبھی سوراخ کے کناروں پر نوک کو گھماتا ۔
اور پھر سلو موشن میں زبان کو سرکاتا ھوا ناف کے نیچے الاسٹک تک لے جاتا ۔
ہُما کی حالت ایسی تھی کہ جیسی ابھی ہلک سے جان نکل جائے ۔۔۔
کچھ دیر ایسے ہی اس کے پیٹ پر زبان اور ہونٹوں کا کھیل جاری رہا ۔
کچھ دیر بعد میں زبان کو سرکاتا ہوا اسکے مموں کی طرف لے گیا اور مموں پر شرٹ ہونے کی وجہ سے بریزیر کی لاسٹک تک ہی زبان لیجا سکا ۔۔
اور پھر ادھر والے حصے کو چوم کر سر اٹھا کر میں پھر سی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔
تو ہُما نے شکر ادا کیا اور لمبا سانس بھر کر میری طرف بڑی نشیلی نگاہوں سے دیکھنے لگ گئی میں نے اسکے دونوں ھاتھوں کو پکڑا اور ھاتھوں کو اوپر کی جانب کیا اور اپنے سر کو نیچے جھکا کر اسکے ریشم سے ملائم اور روئی سے نرم ہاتھوں کو چوم کر ھاتھوں کو ہلکے سے اپنی طرف کھینچ کر ہُما کو اٹھ کر بیٹھنے کا کہا۔۔
ہُما کسی جادوگر کے سحر میں جکڑی میرے اشارے پر چلتی ھوئی بے جان مورت کی طرح اٹھ کر بیٹھ گئی ۔۔میں نے اس کے ھاتھوں کو اسکے سر کے اوپر لیجا کر بازوں کو اوپری جانب کر کے اسکے ہاتھوں کو چھوڑ دیا ہُما کسی مجسمے کی طرح وہیں اپنے بازوں کو کھڑا کر کے میری طرف عجیب سی نظروں سےدیکھی جارھی تھی ۔۔
میں نے اسکی شرٹ کو دونوں اطراف سے پکڑ کر اوپر  کیا اور اسکے مموں کو ننگا کرتے ھوے اسکے سر سے شرٹ نکالی اور بازوں میں  لیجاکر چھوڑ دی ۔۔
بازوں سے شرٹ اس لیے نہیں نکالی تھی کہ باقی کا کام ہُما خود کر لے گی یعنی بازوں سے شرٹ خود نکال لے گی ۔۔۔کیونکہ شرٹ اتارتے ھوے بھی اس نے مجھے روکا نہیں تھا اور نہ ھی کوئی احتجاج کیا تھا ۔
بلکہ بلکل ایک سٹیچو کی طرح ہاتھ سر سے اوپر کر کے بازو بلکل سیدھے اوپر کی طرف کیے بیٹھی تھی ۔۔
جب میں نے اسکی شرٹ اسکے جسم اور سر سے نکال کر اسکے بازوں میں چھوڑی تو اس نے ایکدم بازو نیچے کو گراے اور میری طرف یوں بازو کردیے کہ جیسے کہنا چاہ رھی ھو کہ یہ بھی خود ھی اتار دو ۔
اور اسکی نظریں ویسے ھی مجھکو دیکھ رہیں تھی ۔
پتھر سی آنکھیں جیسے اسکی آنکھیں جھپکتی ھی نہ ھوں ۔
مجھے یہ لڑکی حسن کی مورت لگ رھی تھی ۔۔
میں نے اسکی بازوں سے شرٹ نکال کر ایک طرف بیڈ پر رکھ دی  میری جیسے ھی نظر اسکی ننگے جسم اور ہلکے بلیو کلر کے بریزیر میں چھپے مموں پر پڑی ۔۔
دوستو قسم سے  اس حسن مجسمہ کو دیکھتے ھی مجھ پر سکتہ طاری ھوگیا ۔
میں پلکوں کو جھپکانا بھول گیا سانس اندر باہر کھینچنا بھول گیا
اسکو دوبارا پیچھے کی جانب لیٹانا بھول گیا ۔۔
میرے ھاتھ اسکی رانوں پر تھے تو  وہیں رک گئے میری کھلی آنکھیں پتھر ہوگئی میرا سانس جہاں تھا وہیں رک گیا ۔۔۔
اففففففففففففففف کیا اس ظالم کے حسن کی تعریف لکھوں کاش اسکے جسم کی بناوٹ اور اسکی خوبصورت گلابی رنگت کو الفاظوں میں ڈھال کر آپ دوستوں کے سامنے پیش کرسکتا۔۔۔
ہُما بت بنی میرے چہرے کو دیکھی جارہی تھی اور میں بت بنا ہُما کے چٹے سفید گلابی رنگت کے چمکتے جسم کو دیکھ رھا تھا ۔
کچھ دیر اسی حالت میں بےجان دو جسم ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے رھے۔
پھر یوں ہوا کہ مجھے ہوش آیا اور میرے ھاتھوں نے اٹھنے کی جرات کی اور اس حسن کی دیوی کے گول مٹول تنے ھوے چٹے سفید مموں کو بریزیر کے اوپر سے پکڑ لیا اور ایک دفا دباتے ھی اسے پیچھے کی طرف دھکیل دیا اور وہ مورت میری طرف دیکھتی ھوئی پیچھے کی جانب گرتی گئی اور بیڈ پر لیٹ گئی اور میں اسکو پیچھے لیٹاتا ھوا اسکے ننگے جسم کے اوپر جھکتا گیا اور اس کے مموں کے درمیاں لکیر کے اوپر اپنے ہونٹ اس انداز سے رکھ دیے کہ میرے ہونٹوں کا ایک طرف کا حصہ اسکے ایک طرف کے روئی سے نرم ممے پر تھا اور ہونٹوں کی دوسری سائڈ اسکے دوسرے ممے کو چھو رھی تھی ۔
اور میرے ہونٹ اس مخمل میں دھنستے گئے افففففففففف یارا کیا سوفٹنس تھی کیا ملائمت تھی کیا کشش تھی ۔
میں تو اس کو اپنے سحر میں جکڑنا چاہتا تھا مگر سالی کے جسم کا نظارا کرتے ھی میرا سارا حساب کتاب ھی بگڑگیا۔۔
لاکھ پلاننگ سوچی تھی اسکو ننگا کر کے چودنے کی ۔
سالی نے صرف مموں کے جلوے سے  ھی میرا سارا حساب کتاب بگاڑ دیا۔
میں تو دور سے اسکے ممے اور گورا جسم دیکھ کر سکتے میں آگیا اب تو پھر بھی یہ گورا جسم حسن کی مورت میری آنکھوں کے سامنے اور میری دسترس  میں تھا ۔۔
تو پھر میری تو ایسی کی تیسی ھونی ھی تھی ۔۔
خیر میرا کچھ خمار کم ھوا تو میں نے ہُما کے مموں سے پردہ اٹھا کر اوپر کر کے مموں کو جلوہ گر کیا اور اسکے روئی سے نرم مموں پر بے صبروں کی طرح ٹوٹ پڑا ۔
اور ہُما کے منہ سے سسکاریوں کا طوفان نکل پڑا ۔
نہ مجھے کوئی روکنے والا تھا اور نہ ہُما کی سسکاریاں رکنے والی تھیں ۔
مین مموں کے چھوٹے سے اکڑے ھوے نپل کو کبھی دانتوں میں بھینچتا تو کبھی انہوں ہونٹوں میں لے کر چوستا
ہُما سر اٹھا اٹھا کر  مجھے اپنے ممے چوستی دیکھتی اور ساتھ میں سسکاریاں بھرتی ھوئی میرے سر پر ھاتھ رکھ کر مموں پر دباتی اور کبھی سر پیچھے لیجا کر کندھوں کو اٹھا کر مموں کو مزید اونچا کرتی ۔۔۔
کچھ دیر یہ کھیل چلتا رھا ۔
اور جب ہُما کے ممے سرخ ھوگئے اور میرے لباب سے تر ھوگئے اور سویرا کی سانسیں اکھڑنے کے بعد تھم گئی اسکا جسم اکڑنے کے بعد بےجان ھوگیا اور مجھے اسکی پھدی گیلی ہونی کا یقین ھوچلا تو تو میں اس کے مموں کو چھوڑ کر پھر سے اسکی ٹانگوں میں دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا اور اپنا ٹراؤزع کو اپنی ٹانگوں سے نکال کر ایک طرف رکھا اور پھر ہُما کے ٹراؤزر کو لاسٹک والی جگہ سے پکڑ کر اسکی سڈول اور گوری چٹی بالوں سے پاک گانڈ سے نکال کر اسکی ٹانگوں سے کھینچتا ھوا اسکے پیروں پر لے آیا اور پھر ٹراوزر کو اسکے پیروں سے باری باری نکال دیا اور پھر اپنی شرٹ اتار کر ایک طرف رکھ دی اب دو جسم مادر ذاد ننگے تھے اور ہُما کے جسم پر صرف بریزیر تھا جو اسکے مموں سے اوپر کی جانب اکھٹا ھو کر مموں کو ننگا کیے ھوے تھا۔۔
میں نے ہُما کی پھدی کا غور سے معائنہ کیا تو دیکھ کر حیران رھ گیا کہ اتنی پیاری اور سافٹ کے بس۔۔۔۔ پھدی کی ہونٹ اندر کی جانب ایک دوسرے سے چپکے ھوے تھے۔
جس طرح ہُما کے چہرے پر معصومیت جھلک رھی تھی بلکل اسی طرح ہُما کی پھدی پر بھی معصومت جھلک رھی تھی ۔۔۔
پھدی کے باریک سے ہونٹوں پر بس شبنم کے قطرے چمک رھے تھے ۔۔
میں نے ہُما کی پھدی پر انگلی پھیری تو ہُما ایک دم کانپی اور اپنی ٹانگوں کو آپس میں ملا کر میرے ہاتھ کو ٹانگوں کے بیچ جکڑ کر سر اٹھا کر سسکاری ماری ۔۔۔
میں نے اسکی روئی سی نرم رانوں میں پھنسے ھاتھ سے ھی انگلی کو حرکت دیتے ھوے پھدی سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی  کچھ دیر تو ہُما سر دائیں مارتے ھوے سییییہہہی افففففف کرتی ھوئی مجھے فنگرنگ کرنے سے منع کرتی رھی مگر میں تو اسکی گرم پھدی کی گرمائش سے اپنی انگلی کو ٹکور دے رھا تھا اور پھدی کا درجہ حرارت معلوم کرنے کی کوشش کررھا تھا ۔۔۔
کچھ دیر میں ایسے ھی انگلی کی مدد سے ہُما کی پھدی کو چھیڑتا رھا تو کبھی پھدی کے چھوٹے سے پھولے ھوے دانے کو مسلتا رھا کہ ہُما کو ایک دم جوش چڑھا اور اس نے گانڈ اٹھا کر میرے انگلی کو پھدی کے اندر لیا اور پھر زور سے رانوں کو آپس میں بھینچ کر گانڈ کو اوپر نیچے کرنے لگی۔
میں نے یکدم اپنے ہونٹ ہُما کی پھدی پر رکھ دیئے ہُما کی پھدی اتنی ملائم تھی جیسے میں ریشم پر اپنی زبان پھر رہا تھا۔
میں مسلسل روانی سے ہُما کی پھدی چوس رہا تھا اور وہ اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر پھدی کو مزید پھیلا رہی تھی۔ پھدی چوستے چوستے میں نے دھیرے سے ایک انگلی پھر سے ہُما کی پھدی میں ڈال دی اس نے اوپر سے اپنے ہاتھ نیچے لے آتے ہوئے میرے سر پر رکھ دیئے۔ اور میرا سر پکڑ کر اپنی پھدی میں رکھ دیا میرے جوش میں مزید اضافہ ہوا اب میری انگلی ہُما کی پھدی کے اندر تھی اور ہونٹ پھدی کے اوپر میں پہلے سے زیادہ جوش کے ساتھ پھدی چوسنے لگا اب میری انگلی پھدی کے اندر باہر ہو رہی تھی اور ہونٹ پھدی کے اوپر اپنا کام کر رہے تھے۔
میں نے کچھ پل ایسے ہی اسکی پھدی کو چھیڑا اور پھر دیکھا اور پھر پیچھے ہٹ کر لن کو پکڑ کر پھدی کے لبوں کے درمیان ٹوپے کو پھنسانے لگا اور ٹوپے کو پھدی کے درمیان ٹوپے کو اڈجسٹ کر کے ہُما کے اوپر جھکا ۔
اور ایک جھٹکا مارا تو اسکی پتھرائی آنکھیں بھیگ گئیں اور اسکے منہ سے اتنا ھی نکلا امییییییییییی جییییییییییی ۔
پھدی کو چیرتا ھوا لن آدھا اندر گھس چکا تھا اور ہُما کے ہاتھوں نے میرے بازوں کو جکڑ لیا تھا ۔
اور اس نے پیچھے کھسکنے کی کوشش کی تھی مگر میرے ھاتھ اسکے کندھوں کو اپنے شکنجے میں لیے ھوے تھے ۔
میرا لن ایسے تھا جیسے کسی آگ کی بھٹی میں گھس گیا ھو اور پھدی کی جکڑ ایسی تھی جیسے کسی نرم چیز نے پوری طاقت سے میرے لن کو اپنے احصار میں لے کر جکڑا ھو ۔۔۔
ہُما نے نہ اوہہہہہہہ کی نہ ھاےےےےےےےے کی بس امی کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگ گئی ۔۔۔
میں نے اسکے سنبھلنے سے پہلے ھی دوسرا گھسا مار کر اسکی ننھی سی پھدی کی گہرائی کو لن سے ناپ لیا ۔۔
اور میرے ٹٹے اس کی گانڈ سے جا لگے اففففففف کیا ھی پھدی کی گرمائش تھی مجھے لگ رھا تھا کہ بس دوسرے گھسے میں ھی میں فارغ ھوجاوں گا۔۔۔
دوسرا گھسا جب مارا تو لن پھدی کی گہرائی میں چلا گیا اور اسکی آنکھیں باہر کو ابھلنے والی ھوگئیں ہُما سر کو دائیں بائیں مارتے ھوے میری رانوں پر ہاتھ رکھ کر مجھے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ھوے امییییییی جی مرگئیییییی پلیزززززز مجھے چھوڑ دو اسے باہر نکال لو میں مرجاوں گی ۔۔۔۔
.مجھ سے برداشت نہیں ھورھا.
خاموش گڑیا جو شروع سے ایک مجسمہ ایک بت ایک مورت ایک سٹیچو بنا ھوا تھا میرے لن نے اندر جاتے ھی اس بے جان مجسمے میں جان ڈال دی اسکی زبان چلی تو رکنے کا نام نہ لی ۔
جس مورت کو دی زباں ہم نے وہ بولے تو ہم پر ھی برس پڑے۔۔۔۔
ہُما مجھے دھکے دینے کی کوشش کررھی تھی مجھ کو برا بھلا کہنے پر اتر آئی ۔
مگر میں نے لن اندر سے باہر نہ نکلنے دیا اور میں نے ہُما کے خاموشی کو اسکی برداشت کا نام دے کر آہستہ آہستہ لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا ۔۔
میں نے آہستہ آہستہ گھسوں کی رفتار تیز کردی اب میرے گھسے سے اس کے ممے ہلنا شروع ھوچکے تھے دودھ کے پیالے چھلکنے لگ گئے تھے اسکے پیٹ کی جلد پر بھی وائبریشن ہورھی تھی ۔
اسکے آنسوں اب بھی بہہ رھے تھے ۔
پانچ منٹ بعد ہُما کو کچھ سکون ملا آنسو بھی تھم گئے مموں نے ہلتے ھوے اوپر کو اٹھنا شروع کردیا سویرا کے ھاتھ جو مجھے پیچھے کی طرف دھکیل رھے تھے اب میری رانوں کے آگے سے ہٹ کر میری رانوں کے پیچھے چلے گئے اور اسکی آہیں اب سسکاریوں میں بدل گئی ۔
میرے گھسوں کی بھی رفتار بھی ساتھی کے ساتھ ملنے کی وجہ سے بڑھ گئی ہُما نے ٹانگوں کو خود ھی مذید اوپر کیا اور میری کمر کے گرد ٹانگوں کا شکنجا ڈال کر گاند کو اوپر اٹھاتے ھوے
کہنے لگی زور سے کرو ایکدم مجھ سے کسی چمگادڑ کی طرح چمٹ گئی اور پھدی سے منی کا مینہ برسنا شروع ہوگیا ۔۔۔
کچھ دیر جھٹکے کھانے کے بعد ہُما بےدم ھوکر لیٹ گئی میں تھوڑا وقفہ دیا اور پھر سے چپو چلانا شروع کردیا تقریباً  پانچ سات منٹ بعد ھی مجھے لگا کہ میں چھوٹنے والا ھوگیا ھوں تو میں نے آخری جاندار گھسا مارتے ھوے ہُما کو پھر امی کی یاد دلائی جس کا ثبوت اس نے ھاےےےے امییییی کر کے دیا اور میں نے لن کو جھٹکے سے باہر نکالا اور اسکی روئی سے نرم ران کے اوپر لن کو رکھ کر ہُما کے اوپر لیٹ گیا اور اسے اپنی باہوں میں جکڑ کر اسکے ہونٹوں کا رس پیتا چلا گیا۔۔۔
ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں for "ہوس کے انگارے"