Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

سچی دوستی



 احمد نام ہے میرا ، ہاں یاری ہی کام تھا میرا..ایک ہی دوست بنایا میں نے زندگی میں ، نبیل نام تھا اسکا.نبیل اور میں بچپن ہی کے یار تھے..سچی دوستی تب وجود میں آتی ہے ، جب عادتیں ایک سی ہوں ، جب سوچ ایک سی ہو ، سو عادتیں کیا سوچ کیا سب کچھ ہی ایک سا تھا ہمارا
ہم ایک ہی سکول اور کالج میں پڑھے ، اور پھر یونیورسٹی کا انتخاب بھی مل کے کیا.ہمارا زیادہ وقت ایک ساتھ ہی گزرتا تھا ، اور جب ایک دوسرے سے الگ ہوتے ، یعنی گھر جاتے تو اکثر فون پہ بھی لمبی لمبی گپیں ہانکتے رہتے ، جیسے اکثر لڑکیاں ایک دوسرے کو کال کر کے گھنٹوں دو دو سو میل لمبی باتیں کرتی رہتی ہیں
دوستی تو ادھوری سی ہوتی ہے لڑائی جھگڑے کے بنا ، تو پھر کیا تھا ، نبیل اور میں کیلنڈر پہ تاریخ بدلنے سے پہلے پہلے ایک جھگڑا ضرور کرتے.ہمارے جھگڑے زیادہ تر اس بات پہ ہوتے کے ڈرفٹنگ میں زیادہ ماہر کون ہے ، ہم میں سے زیادہ سمارٹ کون ہے اور ایسی ہی اور بہت سی بے تکی باتیں..یہ اور بات ہے کہ آپس کی اس تکرار میں غصّہ نام کا ہی ہوتا
بگڑے ہوے امیر زادے تھے ، سو زندگی میں سنجیدہ ہونے کا دور دور تک کوئی ارادہ نہ رکھتے تھے
یہ یونیورسٹی کہ دور کی ہی بات ہے ، کہ میرا یار اکیلا ، میرا شہزادہ ، میرا چیتا دوست نبیل سنجیدہ ہو گیا ، چپ چپ سا رہنے لگا وہ.ایک دن گزرا دوسرا اور پھر تیسرا ، اسکی سنجیدگی میں کوئی کمی نہ آئی.میرے پوچھنے پہ یہ کہہ دیتا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے.پر بچپن کا دوست تھا وہ میرا ، میں جان گیا کے وہ مجھ سے کچھ چھپا رہا ہے ، پر اسکی یہ بات مجھے پریشان سی کرنے لگی کہ آج تک اسنے جب ایسا نہیں کیا تو پھر اب وہ ایسا کیوں کر رہا ہے
ایک ہفتہ یوں ہی گزر گیا ، پر نبیل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی ، یعنی کہ اس کی سنجیدگی میں کوئی کمی نہ آئی.سردیوں کا موسم تھا ، ہم دونوں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ایک سائیڈ پہ بیٹھے ، دھوپ سے سکوں پانے کی کوشش میں مصروف تھے..نبیل خاموش بیٹھا سر نیچے جھکاے ، جانے کن سوچوں میں گم تھا.میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا.میں جیسے پھٹ سا پڑا : حد ہو گئی بھائی ، اکیس سال کے ہو گے ہیں ہم دونوں ، چار سال بچپن کے نکال دو ، باقی بچے سترہ سال ، اوے سترہ سال کی دوستی کی تجھے قدر نہیں کیا ؟..نبیل میری تقریر کو سنتے سنتے ہلکا سا مسکرایا ، اور بولا : ڈرامے نہ کر کمینے ، آج ویسے بھی تجھے بتانے والا تھا میں..میں نے منہ بناتے ہوے کہا : بڑی مہربانی جناب آپ کی ، آپ کا یہ احسان اب میں کیسے چکا پاوں گا..نبیل نے مجھے جیسے مناتے ہوے لہجے میں کہا : اچھا سالی ( سالے ) اب نخرے نہ کر نہ ، اور سن دھیان سے..میں نے نبیل کہ چہرے کی طرف دیکھا تو وہاں پھر سے سنجیدگی عود آئی تھی
نبیل کچھ پل کو ٹھہرا اور پھر بولا : تجھے بتایا تھا نہ ابّا کہ ایک دوست بزنس کے سلسلے میں ہمارے ہی شہر میں شفٹ ہو گے ہیں ، اور ہفتہ پہلے وہ اور انکی فیملی ہمارے ہاں ڈنر پہ انویٹڈ تھی..میں جو بغور نبیل کی بات سن اور اسکے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا تڑپ کہ بولا : ہاں ہاں ہاں بھیا جی یاد ہے آپ نے بتایا تھا ، اور واسطہ تجھے ، سیدھا سیدھا بتا تیرے ساتھ مسلہ کیا ہے ، کیوں یہ لمبیاں لگا کے سسپنس سے میرا ہارٹ اٹیک کروانے پہ تلا ہوا ہے؟
نبیل کہ چہرے پہ وہی سنجیدگی اب بھی ویسے ہی قائم تھی ، جیسے سنجیدگی اور نبیل نے قسم کھا لی ہو ایک دوسرے سے رشتہ کبھی نہ توڑنے کی:یار ابا کہ دوست کی ایک بیٹی ہے ، جو اس دن انکے ساتھ آئی تھی ، یار مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی ، جب سے اسے دیکھا ہے ، یقین کر میرے ہوش اڑے اڑے سے رہتے ہیں ، یار احمد اک دھند سی چھائی رہتی ہے میری آنکھوں کے سامنے ، تو ناراض ہوتا ہے کہ میں اتنے دن سے تجھ سے کوئی بات چھپا رہا ہوں ، مجھے ہوش ہی کہاں تھی بھائی ، کہ تجھے کچھ بتاتا..نبیل جب اب کی بار بولا تو پھر بولتا ہی چلا گیا.سسپنس کی وجہ سے جو بےچینی تھی وہ تو ختم ہو گئی ، پر اسکی حالت کو دیکھتے ہوے میں بےتحاشا پریشان ہو چکا تھا.وہ میرے ساتھ تو تھا ، پر ایسا لگتا تھا کے اسکا جسم تو میرے ساتھ ہے ، پر اپنی روح کو وہ کہیں اور کسی اور کے حوالے کر آیا ہے.اسکی ہر وقت زندگی سے بھرپور چمکتی آنکھیں آج خالی خالی مردہ مردہ سی ہوئی پڑی تھی
کتنی ہی دیر گزر گئی پھر ، اداسی میں ڈوبی اک خاموشی سی چھائی رہی ، آخر میں نے ہی خاموشی کے اس سلسلے کو توڑا:تو اب کیا سوچا ہے پھر ؟ کرنا کیا ہے؟.. نبیل نے عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا ، ایسے جیسے میں نے فرنچ زبان میں اس سے کوئی سوال پوچھ لیا ہو ، جسکی اسے سمجھ نہ آئی ہو:کیا مطلب ہے تمہارا ؟.. میں نے اسکے بجھے بجھے چہرے کی طرف دیکھتے ہوے کہا : یار سیدھی سی بات ہے ، تمہیں محبت ہو چکی ہے ، تو اب اظہار نہیں کرو گے کیا اس سے ؟ اپنا حالِ دل بیاں کرنا ہے کہ نہیں ؟..میری بات سن کہ نبیل کہ چہرے پہ بےپناہ گھبراہٹ کے اثرات نمایاں ہو گے ، جیسے میں نے اسے گن کنپٹی پہ رکھ کہ ٹریگر دبا دینے کا حکم دے دیا ہو
وہ گھبرایا ہوا بولا : اگر اس نے انکار کر دیا تو ؟ اور یار انکار تو وہ تب کرے گی جب میں اس سے اظہار کروں گا ، مجھ میں نہیں اتنی ہمّت کے میں اس سے اپنے دل کی بات کہوں...شاید محبت کا ہر صدی میں یہی حال رہا ہے کہ ، اسکا اور ڈر کا ناطہ کبھی نہیں ٹوٹا..میرے ایک طویل لیکچر کہ بعد نبیل کو کچھ حوصلہ ملا اور اس نے سعدیہ(نبیل موصوف کی محبت ، جو کہ ہماری ہم عمر ہی تھی) سے اظہار کرنے کی حامی بھری ، پر گھبراہٹ کا دامن پھر بھی موصوف نے نہیں چھوڑا
رات کہ وقت مجھے نبیل کی کال آئی ، جوں ہی میں نے اٹینڈ کی تو ، اسکی خوشی سے جھومتی ہوئی آواز مجھے سنائی دی ، احمد اوے ، اوے احمد..میں نے مسکراتے ہوے کہا : ہاں ڈارلنگ بول..نبیل نے اسی طرح خوشی میں ناچتی آواز میں کہا : جانی تیرے مشورے کے مطابق میں نے ہمت کر کے اسے فیس بُک پہ ریکویسٹ سینڈ کی تھی ، ابھی تیرا بھائی اس سےایک گھنٹہ گپ شپ کرتا رہا..نبیل کو پھر سے خوش دیکھ کر مجھے یوں لگا جیسے اس نے نہیں میں نے بہت کچھ پا لیا ہو، اسے آج سے پہلے اتنا خوش میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا:تو پھر سنا ڈالا ، اپنا حال دل؟..نبیل نے جواب دیا : ابھی تو فارمل گپ شپ کی ہے یار ، پر اب لگ رہا ہے کے جلدی ہی کہہ ڈالوں گا ، اوه وہ پھر آن لائن آئی ہے ، چل تو اب چھٹی کر، بائے...اور میں اسکی اس حالتِ نازک اور پاگل پن کو محسوس کرتے ہوے ، مسکراتا ہی رہ گیا
صبح جب میں یونیورسٹی کی کار پارکنگ میں پہنچا تو دیکھا کہ نبیل اپنی کار کہ بونٹ پہ چڑھ کہ بیٹھا ہے ، مجھے دیکھتے ہی وہ اچھل کے بونٹ سے نیچے اترا اور مجھے کار سے نکلتے ہی گلے لگا لیا..میں اسکی سرخ ہوئی آنکھیں دیکھ چکا تھا ، جو اسکے رات بھر جاگنے اور اسکی جیت کا بھی علان کر رہی تھی : آ آہ ہ ہ ہ جانی تیرا بھائی آج بڑا ہی خوش ہے ، آج تو یار سب کچھ ہی بڑا اچھا اچھا لگ رہا ہے ، مزے کی بات تو یہ ہے کہ تو بھی مجھے بڑا اچھا لگ رہا ہے آج ، ہا ہا ہا ہا...میں نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوے اسے اپنے سے علحیدہ کیا اور اسکی باغ باغ ہوتی شکل کو دیکھ کہ کہا : تجھے قسم ہے اپنی سعدیہ بی بی کی جلدی جلدی بتا کیسے ہوا اور اتنی جلدی ؟؟
نبیل نے اک گہری سانس لی اور اپنی رام کہانی جیسے ایک ہی سانس میں سنا ڈالی ، کہ کیسے اسے سعدیہ کہ ساتھ فارمل گپ شپ کرتے ہوے حوصلہ ملا اور محبت کی بیخودی میں بیخود ہوے کیسے اس نے اپنے دل کی بات اسے کہہ ڈالی ، پھر کچھ ہی دیر میں سعدیہ نے بھی اسے یہ بتا دیا کے جو حالت نبیل کی ہے وہی حالت اسکی بھی ہے ، یعنی کے وہ دونوں ہی پہلی ہی نظر والی محبت کہ گرفتار تھے ۔دن گزرتے گے ، اور مجھے یوں لگنے لگا کہ رانجھے کا پھر سے جنم ہو چکا ہے..ایک دن میں نے تنگ آ کہ کہا : یار نہ تو اس سے بات کرواتا ہے ، نہ تیری بندی فیس بک پہ اپنی کوئی فوٹو لگاتی ہے کہ میں وہاں سے اسے دیکھ سکوں ، آخر میں تیرا یارِ اول ہوں ، کب میرا اس کا انٹروڈکشن کرواے گا ؟؟..نبیل میری اس حالت سے محظوظ ہوتے ہوے بولا : جانِ جگر ، فوٹو یا فون پہ بات کو چھوڑ ، تیری لائیو ملاقات کرائی جائے گی..میں تو جیسے خوشی سے اچھل پڑا : واہ ، یہ کی نہ یاروں والی بات ، پر کب ؟..نبیل نے جواب دیا : بس تین دن بعد لنچ ایک ساتھ کریں گے..میں نے نبیل کو آنکھ مارتے ہوے کہا : میں سوچ رہا تھا کہ تو اس ڈر سے میری اس سے بات یا ملاقات نہیں کرواتا کے کہی تیری بندی مجھے نہ پسند کر بیٹھے...ہم دونوں دوستوں کا حساب سیر سوا سیر والا تھا ، نبیل فورن سے بولا : نا نا اسکی مجھے کوئی فکر نہیں ، تو اتنا بدصورت ہے کہ ، تجھے کوئی ایک آنکھ بھر کہ نہ دیکھے..پھر ایک ساتھ ہی ہم دونوں قہقہ مار کہ ہس پڑے
مقررہ دن پہ میں اور نبیل اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ میں بیٹھے ، سعدیہ کا انتظار کر رہے تھے ، کہ اتنے میں نبیل نے کہا : یار کافی دیر ہو گئی ہے..میں نے کہا : تو رانجھا جی ، فون کر کے پوچھ لو نہ..نبیل نے مسکراتے ہوے اپنی جیکٹ کی پوکٹ سے سیل فون نکالا اور ساتھ ہی شکل بناتے ہوے کہا : اوہ نو ، یار اپنا سیل دے ، میرے کی تو چارجینگ ہی ختم ہوئی پڑی ہے..پھر نبیل نے سعدیہ کو کال کی ، اور اس سے بات کر کے سیل مجھے واپس دیتے ہوے بتایا کہ وہ بس پہنچ ہی رہی ہے
انتظار کچھ ہی دیر میں ختم ہوا اور ریسٹورنٹ کے داخلی دروازے سے مجھے ایک لڑکی داخل ہوتے دکھائی دی ، وہ ہماری ہی جانب آ رہی تھی ، اسکے قریب آنے پر میں یوں کھڑا ہوا ، جیسے عشق کے آنے پہ انسان کھڑا ہو جاتا ہے ، اور پھر اس میں گم ، ہاں گم سم سا ہو جاتا ہے.یوں لگا جیسے حُسن سے آج پہلی بار میں متعارف ہو رہا ہوں ، یوں لگا حُسن مجھے اپنی انتہا پہ ، ہاں یوں لگا ، یوں لگا مجھے حُسن لے آیا ہے مجھے اپنی سرحد پہ..سفید رنگت ، گلابی ہونٹ ، گنے بال جو کندوں سے کچھ نیچے تک ، اسکی آنکھوں میں جانے کیا تھا ، ایسا لگ رہا تھا جیسے میں گرفتار ہو چکا ہوں ان آنکھوں میں ، کُرتا اور جینز اسکے بھرے بھرے جسم پہ بہت جچ رہا تھا..مسکراتے ہوے سعدیہ نے پہلے مجھے سلام کیا اور پھر نبیل کو ، ہم نے سلام کا جواب دیا اور نبیل نے سعدیہ کو بیٹھنے کہ لئے کہا اور پھر ہم بھی بیٹھ گے..نبیل سعدیہ سے میرا تعارف کروانے لگا تو سعدیہ نے مسکراتے ہوے کہا : ابھی بھی کیا انکا تعارف باقی ہے؟؟..سعدیہ کی اس بات پہ ہم دونوں بھی مسکرا دئیے
اس ہلکی پلکی سلام دعا کہ دوران ، میں بھی کافی حد تک واپس دنیا میں تشریف لا چکا تھا..پھر سعدیہ مجھ سے مخاطب ہوئی اور بولی : نبیل نے آپکا اتنا ذکر کیا ہے کہ ، مجھے بھی آپ سے ملنے کا بہت شوق تھا ، ویسے میں نے یہ بھی سنا ہے کہ شوق آپکو بھی بہت تھا..سعدیہ کی اس بات پہ ہم تینوں ہی ہس پڑے..اچانک نبیل بولا : سعدیہ یہ آپ آپ سے یوں نہیں لگ رہا کہ جیسے ہم کوئی سمینار اٹنڈ کر رہے ہیں؟؟..نبیل کی اس بات سے ہم تینوں پھر سے ہس پڑے ، پھر ہم تینوں میں ایسی بے تکلفی سے بھرپور گفتگو شروع ہوئی اور ہم نے( آپ) لفظ کو یوں غائب کیا ، کہ ( آپ)لفظ بھی پریشان ہو گیا
رات کو اپنے روم میں لیٹے ہوے ، میں کسی کہ حُسن کہ جادو میں کھویا ہوا تھا ، ڈوبا ہوا تھا ، ہاں سعدیہ ہی کہ حُسن کہ جادو میں..پہلے تو مجھے کبھی کبھی نبیل کو دیکھ کہ اس کی باتیں سن کہ عجیب سا لگتا تھا کہ کوئی کسی کو اتنا پیار کیسے کر سکتا ہے ، پر اب ایسا نہیں تھا.سعدیہ ایک مکمل لڑکی تھی ، جہاں ایک طرف سعدیہ کہ حُسن کا سحر ہوش اڑا دینے والا تھا ، دوسری طرف اس کہ اندر کی خوبصورتی ، یعنی اسکی سیرت ، سامنے والے پہ اک گہری چھاپ چھوڑ جاتی تھی.. ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ نبیل کی کال آ گئی.. نبیل نے چہکتے ہوے پوچھا : کسی لگی سعدیہ ؟؟(سعدیہ نے نبیل کہ کہنے پر اپنے ڈرائیور کو واپس بیج دیا تھا ، اور بعد میں نبیل اسے ڈراپ کرنے چلا گیا ، سو نبیل سے سعدیہ کہ مطلق بات ہی نہ ہو سکی..)میں نے مسکراتے ہوے کہا : بھائی لکی ہے تو ، جو تجھے سعدیہ جیسی لڑکی ملی ،کمال کی بندی ہے یار ، جیسی وہ خوبصورت ہے ویسا اسکا دل بھی..نبیل نے شرارت بھرے لہجے میں کہا : میں جانتا ہوں تو اس سے بہت متاثر ہوا ہے تیری حالت میں نے نوٹ کی تھی ، جب تو اس سے مل رہا تھا ، ہا ہا ہا ، یوں لگ رہا تھا کہ تو گر کر بیہوش ہونے والا ہے..میں نے شرمندگی سے ہستے ہوے پوچھا : اچھا چھوڑ ان باتوں کو ، یہ بتا کچھ پیش رفت بھی ہوئی یا .... ہا ہا ہا ؟؟؟؟...نبیل نے سنجیدہ ہوتے ہوے کہا : کیسی باتیں کر رہا ہے یار ، نہ تو وہ ایسی لڑکی ہے ، اور نہ ہی میں ایسا اسکے بارے میں سوچ سکتا ہوں ، وہ تیری بھابی بنے گی ، اور جب بنے گی یہ تب کی باتیں ہیں..میں نے شرمندہ ہوتے ہوے کہا : سوری بھیا..نبیل نے مسکراتی ہوئی آواز میں کہا: یہ سوری مار اپنے سر پہ ، اچھا چل میں نے ابھی اس سے بات کرنی ہے ، کل یونیورسٹی ملتے ہیں ، بائے جانِ من
وقت کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں ، لمحہ ، سیکنڈ ، منٹ اور گھنٹہ ، شاید اسی لئے اسکی رفتار بہت تیز ہوتی ہے، شاید اسے لئے اس کے گزر جانے کا احساس بھی نہیں ہوتا..چھ مہینے گزرے اور یونیورسٹی میں گرمیوں کی چھٹیاں ہو گئی..نبیل ایک مہینے کے لئے اپنے اماں ابا کے ساتھ امریکہ کی ہوا لگوانے چلا گیا..نبیل تھا نہیں ، سو میرا وقت بھی زیادہ تر گھر پہ ہی گزرتا تھا..ایک دوپہر میں اپنے روم میں بیڈ پہ لیٹا ، ٹی وی پہ ایک ایکشن مووی لگاۓ دیکھ رہا تھا کہ ، میرے سیل فون پہ سعدیہ کا ٹیکسٹ آیا : احمد کیسے ہو؟..سعدیہ نے پہلی بار یوں مجھے ٹیکسٹ کیا تھا ، میں نے جواب دیا : ٹھیک ہوں ، تم کیسی ہو ؟..سعدیہ:ٹھیک ہوں ، سوری تمہیں ڈسٹرب کیا ، نبیل کا سیل کل سے بند ہے ، میں بہت پریشان ہوں ، کیا اس نے تم سے کوئی رابطہ کیا؟..میں :نہیں ، پر تم پریشان مت ہو ، کہی پھسا ہو گا..سعدیہ : ٹھیک ہے ، اس سے اگر تمہارا کوئی رابطہ ہوا تو اسے کہنا مجھے کال کرے پلیز..میں : ڈونٹ وری ، جب وہ ایزی ہوا تو مجھ سے پہلے تمہیں ہی کال کرے گا ، ہی ہی ہی..سعدیہ : ہی ہی ہی ، تھنکس احمد اب میں کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں..میں : گڈ..سعدیہ :بائے..میں: بائے
سعدیہ سے ہوئی پہلی ملاقات کا جو مجھ پہ اثر ہوا تھا ، وہ بہت عرصہ رہا ، پھر میں نارمل ہو گیا، دوبارہ اس سے ملاقات کا کبھی اتفاق ہی نہ ہوا..پر اس سے یوں ٹیکسٹ کر کے ، جانے پھر مجھے کیا ہونے لگا ، ایک عجیب سی بےچینی میرے اندر مجھے محسوس ہونے لگی ، ہاں اس عجیب سی بےچینی میں بہت سی خوشی بھی شامل تھی..پر اس خوشی اور بےچینی کی وجہ تب میری سمجھ سے باہر تھی..رات کو گیارہ بجے کے قریب پھر سے سعدیہ کا ٹیکسٹ آیا : نبیل نے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا ، پتا نہیں وہ کسی پرابلم میں ہو شاید ؟؟..میں:نہیں سب ٹھیک ہو گا ، تم پریشان کیوں ہوتی ہو..سعدیہ : احمد تم تو جانتے ہو نہ سب ، بھلہ پریشان کیوں نہ ہوں..میں : جانتا ہوں ، اچھا کیا میں تمہیں کال کر سکتا ہوں؟ ایزی ہو تم ؟..سعدیہ : ہاں کرو میں ایزی ہوں..میں نے سعدیہ کو کال کی ، اور اس نے اٹینڈ کی : ہیلو..باقی ہر چیز کی طرح اس کی آواز بھی بہت خوبصورت تھی۔میرے اندر وہی خوشی وہی بےچینی پھر سے اجاگر ہو چکی تھی ، اور اب کی بار تو پہلے سے بھی بے پناہ: ہیلو ، تو جناب پریشان ہیں؟..سعدیہ : ہاں نہ احمد..میں: وہ ٹھیک ہو گا بابا ، تم آویں پریشان ہو رہی ہو ، چلو مجھ سے وعدہ کرو اب پریشان نہیں ہو گی..سعدیہ کچھ پل کو خاموش ہو گئی ، شاید میرے اندر کا کچھ تھا ، جو لفظوں میں چھلک آیا تھا:ٹھیک ہے ، وعدہ...میں بھی پل بھر کو کچھ گبھرا سا گیا ، پھر سنبھلتے ہوے بولا : گڈ گرل ، اچھا کیا کر رہی تھی.کچھ نہیں بس ، سوچوں کو ادھر ادھر کرنے کے لئے مووی دیکھ رہی تھی ..میں اپنے بیڈ سے اٹھا اور ٹی وی اور لائٹ آف کرتے ہوے بیڈ پہ واپس آ گیا ، جانے کیوں روم میں اندھیرا کرنے کو جی چاہ رہا تھا:اوہ ، گریٹ ، موویز دیکھنا تو میرا پسندیدہ مشغلہ ہے..سعدیہ: میرا بھی..میں نے خوش ہوتے ہوے کہا : گڈ ، اور کیا مشغلہ ہے پسند ؟..سعدیہ نے جواب دیا : فٹ بال دیکھنا..میں نے چہک کے کہا : انٹرسٹنگ ، میرا بھی..یوں ہی ہم فٹ بال اور موویز پہ ڈسکس کرتے رہے اور ایک گھنٹہ گزر گیا ، پھر سعدیہ بولی : نبیل تمہارے بارے میں سہی بولتا تھا ، وہ بہت لکی ہے جو اسے تم جیسا دوست ملا ، تمہیں پتہ ہے ، ایک بار میں نے اس سے بہت ہی سٹوپڈ سا سوال کیا ، کہ اگر میں کہوں تو کیا وہ تمہیں چھوڑ سکتا ہے ، میں نے سوچا وہ کہے گا کہ وہ چھوڑ سکتا ہے ، پر وہ خاموش ہو گیا
کچھ دیر بعد ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بائے بول کے کال کٹ کی..وہ رات دو احساسوں کے بیچ ایک جنگ سی لگی رہی ، میں اتنا بزدل سا محسوس کرنے لگا اپنے آپ کو کہ ، مجھے اپنے ہی اندر جھانکنے کی ہمت نہ پڑی ۔نیکسٹ ڈے مجھے نبیل کی کال آئی : اور سنا جانی ، رات کو بڑی باتیں ہوتی رہی ہیں پھر..مجھے اچھا نہیں لگا کے سعدیہ نے ہماری بات چیت کے بارے میں نبیل سے ذکر کیا ، میں نے زبردستی مسکراتے ہوے کہا :ہاں یار..نبیل بولا:بہت تعریف کر رہی تھی تمہاری ، اور کہہ رہی تھے کہ تم نے اتنی پریشانی میں اسکی بہت ہیلپ کی
دوپہر کہ وقت مجھے سعدیہ کا ٹیکسٹ آیا: رات کو تمہاری ٹیم کا میچ ہے میری ٹیم کہ ساتھ ، کیا کہتے ہو پھر کون جیتے گا ؟..(ان دنوں فٹ بال ورلڈ کپ میچز سٹارٹ تھے)..میرا موڈ نبیل کی کال کہ بعد سے کافی خراب تھا ، پر سعدیہ کا ٹیکسٹ دیکھ کہ پھر سے خوشی کے رنگ میرے چہرے پہ بکھرنے لگے..میں نے جواب دیا :ظاہر سی بات ہے میری ہی ٹیم جیتے گی، ہی ہی ہی..سعدیہ : نا نا نا ،میری ٹیم جیتے گی..میں : اچھا لگ جائے پھر شرط؟..سعدیہ :اوکے ، کیا شرط لگائیں..اک لہر نے میرے اندر انگڑائی سی لی : جیتنے والا ہارنے والے سے جو مانگے گا ، وہ اسے دینا پڑے گا..سعدیہ:منظور ہے جناب ، پر تیار رہنا کیوں کے میں ہی جیتوں گی



2
رات کو میچ کہ دوران ہم ایک دوسرے کو ٹیکسٹ کر کے خوب تنگ کرتے رہے ، پر آخر ہوا یہ کہ میں ہی جیت گیا..میں نے فورن سعدیہ کو کال کی دوسری جانب سے اسکی لٹکی ہوئی آواز سنی دی : تم جیت گے احمد..میں نے خوشی سے بھرے ہوے لہجے میں کہا : یہ تو ہونا ہی تھا..سعدیہ نے ہلکا سا ہستے ہوے کہا : اچھا مانگو جو مانگنا ہے بچہ..میں نے سنجیدہ ہوتے ہوے کہا : سوچ لو؟..سعدیہ نے پُراعتماد لہجے میں کہا :سوچ لیا جناب ، آپ مانگ کہ تو دیکھیں..میری آواز میرا ساتھ دینے سے جیسے انکار سا کرنے لگی:سعدیہ تمہیں کسَ کرنی پڑے گی مجھے..کچھ پل کو دوسری جانب خاموشی سے چھا گئی ، پھر مجھے سعدیہ کی غصے اور دکھ میں ملی جُلی آواز سنائی دی : میں تم سے کبھی بھی اس بات کی توقع نہیں کرتی تھی ، شیم آن یو..یہ کہہ کہ اسنے کال کٹ کر دی ۔سعدیہ نے اتنی بیدردی سے میری امیدوں کا خوں کیا کہ ، میرے اندر نا سنائی دینے والی چیخوں نے اک طوفان سا برپا کر دیا..میں نے سیل فون زور سے دیوار پہ دے مارا
کتنے ہی دن میں نے اپنے روم میں گزر دئیے ، اماں ابا الگ پریشان کہ بندے کو آخر ہوا کیا ہے ، باہر نکلنے کا من ہی نہ کیا..ایک دن باہر نکلا اور مارکیٹ گیا اور وہاں سے نیا سیل خریدا ، اور ڈرتے گھبراتے اسکو آن کیا ، ہاں من کا چور ڈرا رہا تھا ، پریشاں سا کر رہا تھا یہ چور من کا..گھر واپس آ کہ میں ابھی روم میں پہنچا ہی تھا کہ نبیل کی کال آ گئی.مجھے ہمت ہی نہ پڑی کہ اسکی کال پک کر سکوں ، میں جانتا تھا کے اب تک سعدیہ اسے سب کچھ بتا چکی ہو گی ، جب اس نے تیسری بار پھر کال کی تو ، میں نے اپنے نیم بےجان ہاتھ سے اسکی کال اٹنڈ کی اور سیل کان سے لگایا ، نبیل نے پریشان لہجے میں کہا : بھائی صاحب کدھر غائب ہیں ، اتنے دن سے آپ کا نمبر بند جا رہا ہے..میں اپنی نظر میں جیسے گرتا چلا گیا ، شاید بہت دن بعد میں نے اپنے اندر جھانکا تھا ، خود سے روبرو ہونا تو چھوڑ دیا تھا نہ میں نے
نبیل جب امریکہ سے واپس آیا تو ، اسی دن مجھے ملنے چلا آیا ، اماں ابا سے مل کے وہ سیدھا میرے روم میں آ گیا..میں اسے ملنے کے لئے کھڑا ہوا تو وہ آگے بڑھتے ہوے میرے گلے لگ گیا اور بولا : یار قسم سے ٹھنڈ پڑ گئی ، بور ہو گیا تھا تیرے بغیر..اسکی اس محبت کو محسوس کر کہ مجھے یوں لگا کہ جیسے میرا سینہ پھٹنے والا ہے ، میرا دل کیا میں زور زور سے چیخیں مار کے رو پڑوں ، جو میں کر بیٹھا تھا ، ویسا میں تھا تو نہیں ، میرا وہ روپ تو میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا
ایک شام نبیل کی کال آئی :اوے سنیما پہنچ جلدی..میں: اچانک پروگرام کیسے بنا یار؟..نبیل :سعدیہ کے اماں ابا آوٹ آف سٹی گے ہیں ، گھر بور رہی تھی تو میں نے یہ پلان بنا لیا ، چل شاباش پہنچ تو..میں سعدیہ کا نام سنتے ہی گھبرا گیا ، پر اپنے لہجے کو کنٹرول کرتے ہوے بولا: نہیں یار میرے سر میں درد ہے..نبیل غصہ ہوتے ہوے :بکواس نہ کر ، اور پہنچنے والی بات کر ، وہ بھی رستے میں ہی ہے ، اور میں بھی سنیما کہ قریب ، چل بائے
عجیب امتحان میں بار بار ڈال رہی تھی مجھے یہ زندگی
سنیما کی پارکنگ میں ہی سعدیہ اور نبیل میرا انتظار کر رہے تھے
وہ تھی ہی ایسی اتنے ہجوم میں بھی سب سے منفرد ، اسے دیکھنے کہ بعد کچھ اور نظر ہی نہیں آتا ، اگر کچھ نظر آتا ، تو وہ بس اسی کا ہی وجود..پنک رنگ کہ کُرتا شلوار میں ملبوس وہ حُسن کی دیوی لگ رہی تھی..میرے قریب پہنچنے پر اس نے بمشکل ہونٹوں پہ مسکراہٹ لائی اور ہیلو کہا ، نبیل ہمیشہ کی طرح خوش اور چہک رہا تھا ، رسمی بات چیت کہ بعد ہم نے ٹکٹس خریدے اور سیڑیوں سے اترتے ہوے ہال میں داخل ہو گے..کچھ ہی دیر میں مووی شروع ہوئی..میری نظریں سکرین پر تھی ، پر دھیان ؟ دھیان میرے اختیار سے باہر تھا ، وہ تو کہیں اور بھٹک رہا تھا..جلن ، حسد ، اک آگ سی لگانے کہ درپے تھے میرے اندر..جس رات سعدیہ سے میری پہلی بار فون پہ بات ہوئی تھی ، اس رات جو دو احساس آپس میں محوے جنگ ہوے تھے ، وہ احساس بھی پھر سے جاگ اٹھے تھے ، ہاں اک احساس خوائش ( سعدیہ کو پانا ) تھی ، اور دوسرا احساس وفا ( نبیل سے فرضِ دوستی نبانا )..خوائش وفا کا خوں کر دینا چاہتی تھی اور وفا خوائش کا..تب جلن میرے اندر سے مجھ سے مخاطب ہوئی: ارے میں کیا کہہ رہی ہوں ، وہ بھی تو سن لو
کچھ دیر بعد میں نے کُن آنکھوں سے سعدیہ کی جانب دیکھا ، جو نبیل کہ ساتھ بیٹھی تھی ، تو ایک غیر متوقع منظر مجھے دیکھنے کو ملا ، سعدیہ بھی کُن آنکھوں سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی ، میں نے فورن پھر سے سکرین پہ نظریں جما لی..جہاں پہلے ہی بہت سارے احساسوں کی جنگ میں میرا وجود مبتلا تھا ، وہاں اب بہت سے سوالوں کی جنگ بھی میرے اندر شروع ہو گئی..میری تو سوچ بھی یہ نہیں سوچ سکتی تھی ، کہ یہ منظر بھی مجھے دیکھنے کو میسر ہو گا
مووی ابھی ختم ہوئی ہی تھی کہ ، نبیل کہ گھر سے کال آئی جسے سن کر نبیل کچھ پریشان سا ہو گیا ، سعدیہ کہ پوچھنے پہ اس نے بتایا کہ: ابا کی طبیعت کچھ خراب ہے اور اماں مجھے گھر بلا رہی ہیں ، احمد میں نے سعدیہ کے ڈرائیور کو واپس بیج دیا تھا ، تو پلیز سعدیہ کو گھر ڈراپ کر دے..زیادہ نہیں بس ہلکا سا خوشی کا پسینہ میرے ماتھے پہ محسوس ہوا مجھے ۔ رات کہ دس بج چکے تھے
نبیل گھر کو نکل گیا ، اور سعدیہ میری کار میں آ بیٹھی..رستے میں ہم نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کی..ایک خوشبو سی میرے حواس پہ چھائی ہوئی تھی ، جس سے میں پگلا کہ رہ گیا تھا۔
سعدیہ کا بینگلو ایک پوش علاقے میں تھا ، جب کار اسکے بینگلو کہ باہرجا کہ رکی تو ہارن بجانے کہ کچھ ہی لمحے بعد گیٹ کھلتا چلا گیا ، گیٹ کہ پلرز پہ نصب کیمرے سے واچ مین نے سعدیہ کو دیکھ لیا تھا
سعدیہ سے منسلک ہر چیز ہی میرے دل کو بھا رہی تھی ، اسکے پورچ تک پہنچتے ہوے ڈرائیو وے کی دونوں جانب جتنے بھی پودے ، پھول آے ، وہ سب ہی جانے کیوں مجھے اندر سے تروتازہ سا کر رہے تھے..پورچ میں کار روک کہ میں نے سعدیہ کی جانب دیکھا ، وہ کار کی ونڈ سکرین سے باہر کو دیکھ رہی
تھی ، اسنے میری طرف دیکھتے ہوے بہت ہی مدہم سے لہجے میں کہا : کافی پیو گے؟..میں اسکے سحر کا مارا ہوا ، اسکے حسن کا غلام ، اسکے مدہم لہجے میں کھویا ہوا بولا : ہاں..سعدیہ کچھ نہ بولی اور کار سے اتری ، میں بھی کار سے اترتے اور اسکے پیچھے چلتے اندر کو داخل ہو گیا
اندر لیونگ ایریا میں بیٹھاتے ہوے سعدیہ نے مجھے کہا:میں ملازم کو کافی کا کہہ کہ آتی ہوں..میں نے کچھ سوچتے ہوے کہا:رہنے دو ، کوئی کولڈڈرنک ہی لے آو..سعدیہ نے خود ہی تھوڑی دیر میں مجھے کولڈڈرنک سَرو کر دی ، اور میرے سامنے موجود صوفہ پہ بیٹھ گئی..مجھے یوں لگ رہا تھا کہ ساری زندگی بیت جائے گی یہ کولڈڈرنک ختم کرتے کرتے..دماغ پہ اک عجیب سی تہہ اور اس تہہ کا ہلکا ہلکا بوجھ محسوس کر رہا تھا میں.. میری نظریں سعدیہ کی طرف اٹھی ، وہ اپنے سامنے رکھے میز کو دیکھ رہی تھی ، کہ اتنے میں اسکی نظریں بھی اوپر کو اٹھی..ہم دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے الجھ کہ رہ گئی..اسکی آنکھوں کی اتھاہ گہرایوں میں ڈوبتے ہوے میں نے کہا :مجھے اپنا روم نہیں دکھاؤ گی..وہ جواب دئیے بغیر ہی اٹھی اور لیونگ ایریا سے ہی اوپر کو جاتی سیڑیوں کی طرف چل پڑی..میں بھی گلاس ٹیبل پہ رکھتے ہوے اسکے پیچھے چل پڑا
سعدیہ کہ پیچھے جب میں روم میں داخل ہوا تو ، اسکے روم میں پنک مدھم روشنی پہلے سے آن تھی..وہ روم کی مین لائٹ آن کرنے لگی تو میں نے اسے منع کر دیا.پنک لائٹ میں مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں کسی ڈریم ورلڈ میں آ گیا ہوں..روم کی ہر چیز نفاست سے رکھی اور سجائی گئی تھی..میں نے سعدیہ کی طرف دیکھتے ہوے کہا :تم سے میں نے ہاری ہوے شرط کہ بدلے کچھ مانگا تھا..اسنے دروازے کی جانب بڑھتے ہوے کہا:تم اب جاؤ احمد..میں نے آگے بڑتے ہوے سعدیہ کا دائیاں ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی جانب کھنچا ، اسکا جسم پیچھے کو ہوا اور میرے جسم سے آ ٹکرایا
اسکے چہرے پہ گھبراہٹ کہ آثار نمایاں تھے ، میرا چہرہ آگے کو ہوا اور میں نے اپنے ہونٹوں کو اسکے ہونٹوں پہ رکھ دیا..کتنی ہی دیر گزر گئی یوں ہی..میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اوپر کی جانب لایا اور ان ہاتھوں کی انگلیوں کو اسکے بالوں میں الجھا بیٹھا..میں نے اسکے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ذرا سے فاصلے پہ کیے اور ٹوٹی ہوئی آوازمیں کہا : تم نے کہا تھا جو مانگوں گا دو گی..اور پھر میں نے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں سے جوڑ دئیے..اب کی بار اس نے اپنے ہونٹ کھولے اور ان سے میرے ہونٹوں کو پکڑنا چاہا ، جذبات کی شدت سے میرا جسم ہلکے سے کانپنے سا لگا..میں اسکے بھرے بھرے گلابی ہونٹوں کو
چومنے لگا ، ہاں اوروہ میرے..وہ اپنے ہونٹوں میں جب میرے ہونٹ لے کر دباتی ، انہیں بھگوتی اپنے ہونٹوں کہ رس میں تو یوں لگتا جیسے میں ہواؤں میں اڑتا پھر سا رہا ہوں
میرا بایاں ہاتھ نیچے کو آیا اور میں نے اسے سعدیہ کی بھری ہوئی کمر کہ گرد لپیٹ لیا..اور اسے اپنے ساتھ لیتے ہوے بیڈ پہ لیٹ گیا ،( یعنی اگر میں سیدھا لیٹا ہوں تو سعدیہ میری لفٹ سائیڈ پہ ہو ) بیڈ پہ لیٹنے سے پہلے میں نے پاوں سے ہی اپنے جوتے اتر دئیے ، سعدیہ کے نفیس سنڈلز بھی بیڈ سے نیچے گر چکے تھے..ہم دونوں ایک دوسرے کی جانب منہ کئیے لیٹ چکے تھے اور پہلے کی طرح ہی ایک دوسرے کہ ہونٹوں سے ہونٹ ٹکرا رہے تھے..میرا دایاں ہاتھ جو اسکے بالوں میں تھا، اسے وہاں سے ہٹایا ، اور سعدیہ کا بایاں ابھار پکڑ لیا..ایسا کرنے پہ اسنے میرے ہونٹوں کو زور سے دبایا اور پھر ، دبا دبا کے میرے ہونٹوں کو چومنے لگی.. کچھ ہی دیر میں میرا ہاتھ اسکے کُرتے کہ نیچے سے اوپر کی جانب بڑھا ، جوں ہی میرا ہاتھ اسکی برا سے ٹکرایا ،تو اسنے کُرتےکہ اوپر سے ہی اپنے بائیں ہاتھ سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ، میں مزے سے بے حال ، ہوش کی دنیا سے کوسوں دور جا چکا تھا..میں نے اپنے ہاتھ کو آگے بڑھاتے ہوے سعدیہ کا ابھار برا کہ اوپر سے ہی تھام لیا..کچھ پل بعد ہی میں نے اپنا بایاں ہاتھ جو کہ اسکی کمر سے لپٹا اسکے نیچے دبا تھا ، اسے وہاں سے نکالا اور اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں سے جدا کئیے.پھر اپنے بائیں ہاتھ سے اسکے کُھلے کُرتے کو اوپر کی جانب کر دیا
سعدیہ نے آنکھیں کھولی ، اسکی پرکشش آنکھیں ، اپنے سحر میں جکڑ لینے ، گرفتار کر لینے والی آنکھیں ، نشے میں ڈوب کہ اور بھی زیادہ قہر برپا کر رہی تھی:پلیز احمد تم چلے جاؤ ، پلیز ، میرا اور امتحان مت لو..میں لذت کی اک حسین وادی میں محوے پرواز تھا : اوکے چلا جاؤں گا ، پہلے تم اپنے ہاتھ سے اپنی اس گول چیز کو میرے منہ میں ڈالو..یہ کہہ کہ ساتھ ہی میں نے اپنا منہ کھول دیا..ہم دونوں کے سر ایک ہی سرہانے پہ تھے اور غرق سے ہوے پڑے تھے ہم ایک دوسرے کی آنکھوں کی مستی میں..سعدیہ نے اک بار پھر التجا کی ""پلیز ..میں نے اسکے کُرتے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اسکی گردن تک فولڈ کر دیا..""آؤ نہ سعدیہ ..سعدیہ تھوڑا سی اوپر کی جانب اٹھی ، اسنے دائیں بازو کی کہونی کو سرہانے پہ رکھا اور بائیں ہاتھ سے اپنی پنک برا کو اوپر کی جانب کر دیا..آہ ہ ہ ہ ہ ، اس کے گول موٹے ابھار میری آنکھوں کے سامنے آے تو بس میں انھیں دیکھتا ہی رہ گیاکمرے میں ہوئی پنک روشنی میں اسکے سفید ابھار اور پنک نپل اک عجب ہی جادو کا
سا سما پیش کر رہے تھے..سعدیہ نے بائیں ہاتھ سے اپنے بائیں والے ابھار کو تھاما اور میرے چہرے پہ جھکتے ہوے ، اسے میرے کھلے ہوے منہ میں ڈال دیا..اک آہ ہ ہ ہ ہ ہ سی نکلی اسکے منہ سے..مجھے یوں لگا جسے میں نے شہد کا پیالہ منہ سے لگا لیا ہو
اسنے اپنے ہاتھ سے تھامے رکھا اپنے ابھار کو اور میں اسے چومتا رہا ، گیلا کرتا رہا ، ہاں ساتھ میں اسکے نپل کو بھی...سعدیہ جیسے دیوانی ہو چکی تھی ، اسکی مزے اور نشے سے بھرپور ہلکی ہلکی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی ، اور اپنے ساتھ مجھے بھی دیوانہ کر رہی تھی..ہوش تو میں پہلے ہی کھو چکا تھا ، اب میں لذت کی دیوانگی کا سب سے اونچا مقام پانا چاہتا تھا..میں نے آہستہ سے منہ اسکے ابھار سے ہٹایا ، اپنا دایاں ہاتھ اسکی کمر پہ رکھتے ہوے اور بایاں ہاتھ اسکے کندے کی بیک پہ رکھتے ہوے میں نے سعدیہ کو بیڈ پہ الٹا لٹا دیا..میں جو دیوانگی کہ اونچے مقام کو پانے کو تیار تھا ، تب میرے اندر اک خوائش جاگی..میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سعدیہ کی کمر کو دونوں سائیڈوں سے پکڑا اور اسے کہا:یہاں سے اپنا جسم تھوڑا اوپر اٹھاؤ..وہ نشے میں مست ہوئی میری بات سنتے ہی تھوڑا اوپر کو ہوئی.اب اس کا ماتھا سرہانے پہ ٹِکا تھا ، اسکے ہاتھ اور کہونیاں بیڈ پہ تھی ، گھٹنے سے پاؤں تک ٹانگیں بیڈ پہ اور آپس میں ملی ہوئی تھی میری دونوں ٹانگوں کے بیچ میں آ چکی تھی اسکی ٹانگیں ، ہاں اور ابھار بھی بیڈ سے ٹکرا رہے تھے اسکے..میں نے اسکے کُرتے کو کمر تک اوپر اٹھا دیا ، اور اسکی شلوار کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا..اسکی آواز کہیں بہت دور سے آتی سنائی دی مجھے ، جیسے لذت اسکی زبان کو بولنے کی اجازت نہ دے رہی ہو :احمد مت کرو ایسا ، آہ ہ ہ ، سن لو نا ، میری بھی..اسکی باتیں اسکا لہجہ جیسے مجھے پاگل سا کئیے جا رہا تھا
میں نے آہستہ سے اسکی شلوار کو گھٹنوں تک نیچے کر دیا..مجھے یوں لگا جیسے میں حُسن اور خوبصورتی کی اک حِسین وادی کا نظارہ کر رہا ہوں..میرے تصورات سے کہی بڑھ کہ خوبصورت تھی سعدیہ کی گانڈ..میں جم سا گیا ، نظریں جم سی گئی..پنک کُرتے شلوار کہ بیچ اسکی موٹی ، چوڑی ، گول گانڈ اپنے جلوے بکھیر رہی تھی..سعدیہ کی گانڈ کہ نظارے میں لہکتا ، مہکتا ، بہکتا چلا جا رہا تھا..اسکی گانڈ کے دونوں پیس جہاں آپس میں ملاپ کر رہے تھے ، وہاں ایک گہری لکیر وجود میں آ رہی تھی ، جو گانڈ کہ حُسن کو جانے چار سے بھی کتنے زیادہ چاند لگا رہی تھی..میرا چہرہ آگے کو بڑھا ، اور میں نے اپنے ہونٹ سعدیہ کی گانڈ کہ ایک پیس پہ رکھ دئیے ، اسکی گانڈ کی نرمی میں میرے ہونٹ دبتے ہی چلے گے.ایک


خوبصورت خواب سا لگ رہا تھا یہ سب..میں نے اس پیس کو چوما ، ہاں ہاں بہت ہی چوما..سعدیہ کی مستی بھری آوازیں میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی ، یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی میٹھا سا راگ سن رہا ہوں میں..اسکی نرم موٹی گانڈ کہ دونوں پیس میں نے دانتوں میں لے کے ہلکے ہلکے سے کاٹے بھی میری زبان مجھے کہہ رہی تھی کہ مجھے بھی تو موقع دو ، دیکھو پھر کیسے تم دونوں کو لطف کی گہرایوں کی سیر کرواتی ہوں ""...مجھ سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا ، کیوں کہ زبان تو تب کچھ اور ہی کام کرنا چاہتی تھی ، بمشکل ہی بول پایا میں:سعدیہ تھوڑا اور اوپر ہو..اب باقی جسم ویسے ہی تھا ، بس ماتھا سرہانے سے اٹھ چکا تھا ، ابھار اب بیڈ سے ٹکرا نہیں رہے تھے ، بلکے ہوا میں جھول رہے تھے ، ٹانگیں ذرا سی کھل چکی تھی ، ہاں اب اسکی گانڈ پہلے سے کافی اوپر کو آ گئی تھی..کچھ اور دلکش نظارے میرے منتظر تھے اب.. میری زبان اسکی گانڈ کی لکیر میں داخل ہوئی اور پھر وہاں سے نیچے کی جانب اس نے آہستہ آہستہ سفر شروع کر دیا..پھر ہوا یوں کہ زبان سعدیہ کی بند گیلی پھدی سے ٹکرائی ، اب کی بار سعدیہ کی مدہوسش سسکیاں ایسی بلند ہوئی کہ جسے کمرے کہ جادوئی ماحول کو بھی دیوانہ کرنے پہ تُلی ہوئی ہوں..اسکی بند گیلی پھدی کے ہونٹوں کو کھولتے ہوے میری زبان اندر کو داخل ہوئی ، اور پھر وہاں اسنے لذت کا بازار گرم کر دیا..سعدیہ ٹوٹے پھوٹے لفظوں کا سہارا لیتے ہوے بولی: احمدددددد ، مزےے سے میری ی ی جان نکلنے والی ہے ، احمدددددد تم نے مجھے ننگا کیا ، تم نے میرے سے مزے لوٹے ، تم م م م م بہت کمینے ہو احمددددددد..زبان اپنا وعدہ پورا کررہی تھی ، سعدیہ کی مدہوش سسکیاں ، اسکی لذت بھری باتیں ، اسکی گیلی پھدی کا لذت بھرا ذائقہ ان سب کو محسوس کرتے ہوے میں لطف کی گہرایوں میں ڈوبتا ہی چلا جا رہا تھا
میں پیچھے کو ہوا اور میں نے چند ہی پلوں میں اپنی جینز اور شرٹ اتار پھینکی..نشے میں جھومتے دائیں بائیں ڈگمگاتے موٹے لمبے لوہے کی ماند سخت ہوے اپنے لن کو میں نے بائیں ہاتھ میں تھاما اور سعدیہ کی پھدی سے جا لگایا..سعدیہ نے سرور میں ڈوبی سسکاری لیتے ہوے کہا:پلیز کچھ کرنا مت ، شادی کہ بعد نبیل کو پتا چل جائے گا..اسکی بات سن کے مجھے لذت اور سرور سے بھرا غصہ آ گیا ، میں نے دائیں ہاتھ سے زور کا تھپڑ اسکی گانڈ کہ دائیں پیس پہ مارا ، تھپڑ کی اور سعدیہ کے منہ سے نکلی مستی بھری آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی آواز پورے کمرے میں گونجی ، اسکی پھدی سے لگا میرا لن میں نے وہاں پھیرا اور کہا:دو گی مجھے اپنی پھدی یا نہیں ؟..اسنے بہکی بہکی آواز میں کہا:نہیں دوں


گی تمہیں..میں نے پھر سے ایک زور کا تھپڑ اسکی موٹی باہر کو نکلی گانڈ پہ دے مارا اور کہا : بولو دو گی یا نہیں..سعدیہ نے لذت سے کراہتے ہوے کہا:نہیں دوں گی ، یہ پھدی صرف میرے نبیل کی ہے..پھر تھپڑ اسکو جا پڑا ، اور وہ مستیوں میں ناچتی آہوں میں کھوتی چلی گئی
میں نے اپنے لن کو اسکی پھدی پہ ایک مخصوص جگہ رکھتے ہوے ، ایک زور کا جھٹکا آگے کی جانب مارا ، سعدیہ کی درد بھری چیخیں بلند ہوئی ، کچھ دیر بعد ایک جھٹکا اور مارا میں نے ، وہ تو ابھی پہلے جھٹکے کی تکلیف سے ہی گزر رہی تھی کہ اسے دوسرے کی تکلیف بھی سہنی پڑی ، کچھ دیر اسکی ہلکی ہلکی چیخیں مجھے سنائی دیتی رہی ، پھر وہ بیڈ پہ الٹی ہی لیٹ گئی اور میں پیچھے سے اسکے اوپر لیٹ گیا..اسکی نرم موٹی گانڈ میرے جسم کے نیچے دبنے سے اور چوڑی ہو گئی تھی..اب کمرے میں ہم دونوں کی سرور اور نشے سے بہکتی ہوئی سسکیاں سنائی دے رہی تھی
اس دن میں نے جانا کہ دھوکے میں کتنی لذت ، کتنا نشہ ، کتنا سرور ہے..سعدیہ اپنی محبت کو دھوکہ دے کے لذت ، نشہ اور سرور پا رہی تھی ، اور میں اپنے یار پُرانے کو
ہاں جب دھوکہ انسان کو یہ سب کچھ دے رہا ہوتا ہے ، تب وہ اس سب کہ بدلے اک چیز چھین بھی رہا ہوتا ہے ، وہ ہے انسان کی انسانیت ، انساں کو تو تب خبر بھی نہیں ہوتی ، کہ اصل میں اس کہ ساتھ ہو کیا رہا ہے ، جب خبر ہوتی ہے ، تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے..حال ماضی میں بدل چکا ہوتا ہے ، سب دروازے بند ہو چکے ہوتے ہیں ، اگر کچھ بچتا ہے تو وہ ہیں چند جلتی ہوئی یادیں ، چند جلتے ہوے سوال


ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں for "سچی دوستی "