میں ایک گائنی سرجن ہوں۔ سرکاری جاب کے علاوہ میں ایک پرائیویٹ کلینک بھی چلاتی ہوں۔ جینز پہنے ایک لڑکی، جس کے منہ میں چیونگم اور ہاتھ میں مہنگا موبائل۔۔ وہ آگے جھکتی تو چھاتی کی گہری موٹی لکیر اندر کا سب حال کہہ سناتی۔ سیدھی کھڑی ہوتی گوری چکنی ناف سب کو ایسا نظارا دیتی کہ مرد بامشکل اپنا ایمان سنبھالتے۔ وہ ببل بناتی میرے سامنے بیٹھی تھی۔ میں نے اس کی پرچی دیکھنے سے پہلے اس سے پوچھا کیا مسلئہ ہے۔
وہ لاپروائی سے بولی؛آئی تھنک آئی ایم پریگننٹ۔
میں اس کی لاپروائی پر حق دق ہی رہ گئی اور بولی:تو کیا چاہیئے۔
وہ اسی انداز میں بولی:سمپل،،ابارشن۔
میں بولی:یہ سمپل نہیں ہوتا۔
وہ بولی:وائے،،کیا کوئی کمپلیکیشن ہے،،ٹیل می،،میں کچھ سورٹ آؤٹ کروں گی۔
میں بولی:تمہارے سورٹ آؤٹ کرنے سے کیا ہو گا،،جو کرنا ہے تمہارے پیرنٹس کریں گے۔
وہ بولی:وائے دیم ،،میں ہوں نا۔ مجھے بتاؤ کیا چاہیئے۔
میں بولی:کچھ نہیں،،یہ نہیں ہو سکتا۔ تم جا سکتی ہو۔
وہ بولی:ڈیئر فری میں نہیں کروا رہی ہوں۔ پیسے دوں گی۔
میں بولی:پلیز لیو۔
وہ بولی:اوکے۔ ایز یو وش۔
اسی وقت میرا فون بجا۔ دوسری طرف میرے ہاسپٹل کے ایک سینئر ڈاکٹر تھے۔ وہ بولے: یہاں ایک لڑکی آئے گی،سارا۔
میں بولی:جی ہے سر۔
وہ بولے:پلیز اسے ٹریٹ کر لو،میں نے ہی وہاں بھیجا ہے۔
میں بولی:مگر سر! وہ بولے:اوہو،،اگر مگر چھوڑو،،بچے ہیں سمجھ نہیں اچھے برے کی۔ جسٹ ٹریٹ ہر۔
میں نے اپنی نرس رخشندہ کو ابارشن کی تیاری کا کہہ دیا۔ میں نے سارا کی باقی رپورٹس دیکھ لیں تاکہ اس آپریشن میں کوئی مسلئہ نہ ہو۔ میں نے اتنی دیرسارا سے پوچھا:تو یہ کیسے ہوا۔
وہ بولی:آئی ڈونٹ نو،،پتا نہیں۔
میں بولی:تمہیں یہ نہیں پتا یہ کیسے ہوا۔
وہ ہنس کربولی:ہاں واقعی مجھے نہیں معلوم۔ اچھا پوری بات بتاتی ہوں۔
میں یہاں یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں۔ میرا تعلق اسلام آباد سے ہےاور ہاسٹل میں رہتی ہوں۔ میرے پاپا بزنس مین ہیں اور ماما شوشل ورکر۔ میرے پاس جو چیز سب سے زیادہ ہے وہ پیسہ ہے اور جو کم وہ وقت۔ ہاؤ انٹرسٹنگ۔ ماما پاپا سے ملنے کے لیے سمجھیں اپائنمنٹ لینا پڑتی ہے۔ لائف میں سبھی کچھ ہے، ایڈونچر، ڈرگز، سیکس مگر میں کافی کئیرفل ہوں اسی لیے ایک حد میں رہتی ہوں۔ یو نو" سیف اینڈ "۔ دوستوں کے ساتھ اکثر پارٹیز وغیرہ اٹینڈ کرتی ہوں۔ اس رات بھی میری فرینڈ ببلی کی برتھ ڈے پارٹی تھی۔ ببلی نے پارٹی اپنے گھر پر دی تھی، یہاں بہت سارے لوگ تھے۔ مگر یونیورسٹی فیلوز بس اکا دکا تھے کیونکہ موسٹلی ہماری کلاس اور سٹیٹس کے نہیں تھے۔
پارٹی میں ببلی کے مام ڈیڈ اور شہر کے کئی معروف چہرے بھی تھے۔ کچھ کپلز بھی دکھائی دے رہے تھے۔۔ یہ سب کسی ایسی جگہ یا تاریک گوشے کی تلاش میں تھے جہاں کچھ منٹ مل سکیں۔ ایسی پارٹیوں میں یہ تو ہوتا ہی تھا۔ ماں باپ کی موجودگی ہی میں بچے آگے پیچھے کسی کے ساتھ سیکس کر لیتے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ انہی لوگوں میں ایک شانی بھی تھا۔ شانی سے میں ایک دو بار پہلے بھی مل چکی تھی۔ یہ ببلی کا کزن تھا اور حال ہی میں انگلیڈ سے لوٹا تھا۔
وہ مجھے دیکھ کر بولا:ہائے لکنگ ہاٹ ۔
میں ادا سے بولی:آئی ایم ہاٹ۔
وہ بولا:تم سے ایک بات کہی تھی لاسٹ ٹائم۔
میں بولی:یاد ہے،مگر یار،آئی ڈونٹ لائک سیکس ان اوپن۔ اٹس ان سیف یار۔
وہ بولا:یار! اٹس فن۔ ببلی بھی جوائن کرے گی۔
میں بولی:او کے شیور۔
ہم دونوں پیچھے ایک سٹور روم میں چلے گئے۔ یہ چار بائی پانچ فٹ کا کمرا تھا۔ ببلی بھی سکول کے دنوں میں یہیں شانی یا دوسرے لڑکوں سے چدواتی تھی۔ میں پہلی بار شانی سے چدوانے جا رہی تھی، مگر سیکس میں پندرہ سال کی عمر سے کر رہی ہوں۔ میرا کبھی بھی کوئی مستقل بوائے فرینڈ نہیں رہا تھا،بس کبھی کسی فرینڈ کے ساتھ ،،کبھی کسی کزن کے ساتھ،،میں بہت چوزی ہوں اور میرے خیال سے سیکس تبھی کرو جب جسم اس کے لیے ٹوٹنے لگے۔ دن رات بس سیکس ہی سیکس مجھے اچھا نہیں لگتا۔ شانی نے سٹور کا دروازہ بند کیا اور میرے ہونٹوں کو چومنے اور چوسنا لگا۔ کافی دیر ہم فرنچ کسنگ کرتے رہے،اس دوران وہ میری شرٹ کے اندر سے میرے نپلز نکال کر نرمی سے مسلتا رہا۔ کسنگ ختم ہوتے ہی میں نے اس کی پینٹ کی زپ کھولی اور لن نکال کر منہ میں ڈال لیا۔
مجھے لن چوسنے میں بہت مہارت تھی سو کافی تیزی سے اس کا لن چوستی رہی۔ اس نے جلد ہی میرے منہ سے لن نکال لیا تاکہ وہ میرے منہ ہی میں نہ چھوٹ جائے۔ اس نے مجھے دیوار کے ساتھ لگایا اور میری جینز گھٹنوں تک اتار کر گانڈ کے بیچ سے لن میری گیلی ہوئی پھدی میں ڈال دیا۔ شانی کا لن گرم اور میری تھوک سے گیلا تھا۔ اس کے علاوہ میری کنٹ بھی اتنی کھلی تھی کہ اس سائز کا لن باآسانی لے سکتی تھی۔ شانی پیچھے سے دھکے لگا لگا کر مجھے چودنے لگا، میں چوت پر ہاتھ رکھے دھیرے دھیرے چلانے لگی۔ مختصر سا سٹور روم میری آواز سے گونجنے لگا۔
شانی بامشکل دس منٹ میں چھوٹ گیا۔ اس کی منی میری گانڈ سے بہتی رانوں پر پھسلنے لگی۔ شانی نے پیچھے سے خود جبکہ سامنے سے صاف کرنے کے لیے مجھے ٹشو دیا۔ پندرہ منٹ کے اندر ہی ہم پارٹی میں ایسے لوٹ گئے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کوئی ایک گھنٹے بعد شانی پھر آیا اور بولا:تم ریڈی ہونا۔
میں بولی:نہیں یار! ابھی نہیں۔
وہ بولا:کم آن دس منٹ لگیں گے بس۔ میں بادل نخواستہ اس کے ساتھ اٹھ کر سٹور میں دوبارہ چلی گئی۔ اس بار سٹور میں ایک کپل اور تھا،یہ سولہ سال کا لڑکا اور انیس سال کی لڑکی تھی جو شاید اپنی ماں کی سہیلی کے بیٹے کے ساتھ اپنا مزا پورا کر رہی تھی۔ ہمیں دس منٹ ویٹ کرنا پڑا۔ وہ کپل نکلا تو ہم دونوں اندر داخل ہوئے۔
تھوڑی ہی دیر میں ایک لڑکی اور لڑکا داخل ہوئے۔ لڑکی بہت خوبصورت تھی، شانی اس لڑکی کے پاس چلا گیا اور وہ لڑکا میرے پاس آ گیا۔ شانی نے اچانک ہی اس لڑکی کودبوچ لیا اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ لڑکی چونک سی گئی اوراس کی طرف سے کوئی گرمجوشی والا رسپانس نہیں تھا۔ لڑکے نے مڑ کر شانی کی بےتابی دیکھی اور مجھے تھام کرمیرے بریسٹ دبانے شروع کر دیئے۔ مجھے عجیب لگنے لگا کہ کسی انجان انسان سے پہلی ہی ملاقات میں بنا کوئی بات چیت کیے ایسا کیا جائے۔ بہرحال اب تو میں آ چکی تھی سو یہی کرنا تھا۔ شانی نے بنا وقت ضائع کیا اس لڑکی کے لانگ سکرٹ کے نیچے اس کا ٹراؤزر اتار دیا۔ اپنی پینٹ کا بٹن کھول کر لن نکال لیا۔ اس لڑکی کی کمر دیوار سے لگا کراسے بانہوں میں پکڑ کر اٹھا لیا۔ لڑکی نے سسکاری لی جو اس نے لطف لینے کے انداز میں لی۔ یقینا" میری طرح وہ بھی نئی نہیں تھی۔ ایک ہی منٹ میں شانی نے لڑکی کی پھدی مار دی تھی،جس سے شانی کی اس لڑکی کے لیے بےصبری کا اندازہ ہو رہا تھا۔
یہ منظر اس لڑکے نے بھی دیکھا،اس نے میری شرٹ ہٹا کر میرے ممے چوسنے شروع کر دیئے۔ ممے چسوانا مجھے اچھا لگتا تھا،اسی لیے میں مزے سے ممے چسوانے لگی۔ شانی اب تیزی سے چودنے لگا تھا اور وہ لڑکی اب اونچی آواز میں چلا رہی تھی۔ اس کی آواز شانی کو تو جوش دلا ہی رہی تھی،میری چوت کو بھی گیلا کر رہی تھی۔
لڑکے نے میری جینز بھی رانوں تک سرکا دی اور میری کنٹ چومنے لگا۔ مجھے ایک تیز سا مزا آیا۔ وہ لڑکا میرے لیے بہت زیادی ہیجان پیدا کر چکا تھا۔ میں آہیں،،بھرنے لگی،،، اس لڑکے نے میری آہیں سنتے ہی اپنا لن نکالا اور میری طرف بڑھایا۔ اس وقت تک میں اس انجان پن کی جھجھک سے نکل آئی تھی۔ سو بلاتکلف اس کا لن چوسنے لگی۔ لڑکا میرے سر کو تھام کراسے چودنے کے انداز میں آگے پیچھے کرنے لگا۔ میں تین چار منٹ اسے چوستی رہی۔ پھر اس نے مجھے اٹھایا۔
میری نظر شانی پر گئی تو وہ اس لڑکی کو فرش پربیٹھا کر چود رہا تھا۔ لڑکی اب بھی اسی طرح چلا رہی تھی۔ لڑکے نے میری گانڈ کو مسکرا کر دیکھا اور کولہوں کو مسلنے لگا۔ لڑکے نے مجھے دہرا کیا تو میں نے دیوار کا سہارا لے لیا۔ وہ پیچھے سے میری پھدی مارنے لگا۔
میں چلانے لگی۔ کمرے ہم دونوں لڑکیوں کی چیخوں سے گونجنے لگا تھا۔ ہم دونوں لڑکیوں کی چیخیں دونوں لڑکوں کو مزید جوش دلا رہی تھیں۔ پہلے شانی چھوٹا اور لڑکی کی چلانے کی آواز بند ہو گئی اور صرف گہری سانسوں کی آواز گونج رہی تھی۔ ایک دو منٹ بعد میرا ساتھی بھی چھوٹ گیا۔ میں نے پینٹ اوپر کی تو شانی اور وہ لڑکی کپڑے صحیح کر چکے تھے۔ ہم چاروں میں سے کوئی بھی پورا ننگا نہیں ہوا تھا اور پندرہ منٹ میں ہم چاروں نے سیکس انجوائے کر لیا تھا۔ ہم چاروں باری باری باہر نکل گئے۔ باہر سب ویسا ہی چل رہا تھا،
شانی مجھ سے بولا:کیوں کیسا لگا،،پارٹنر شیئرنگ کا تجربہ۔
میں کندھے اچکا کر بولی:اچھا تھا،،
شانی بولا:اس لڑکی پر کب سے نظر تھی میری،، باسٹرڈ،،، اپنی گرل فرینڈ پر نظر بھی ڈالنے نہیں دیتا تھا ،اسی لیے اسے شیئرنگ کے لیے اکسایا۔
میں بولی:اٹ واز گڈ مگر مجھے کوئی فرق نہیں محسوس ہوا۔
وہ بولا:اس لیے تم ابھی کسی کی فکسڈ گرل فرینڈ نہیں ہو،،ڈفرنٹ پارٹنرز کے ساتھ سیکس کرتی ہو۔ جب کسی ایک کے کمٹ کر لو گی پھر شیئرنگ انجوائے کرو گی۔ جیسی اس لڑکی نے کیا،،پہلی بار اس لڑکے کے علاوہ سیکس کیا۔
اس رات کے بعد ابھی تک میں نے کسی اور کے ساتھ سیکس نہیں کیا۔
سارا خاموش ہو گئی تھی اور میں اس مغرب زدو معاشرے کی عکاس کو دیکھ کر حیران تھی۔ یہ طبقہ یہیں پر مادرپدر آزاد ہو چکا تھا۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "مادر پدر آزاد "