Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ننگی رانی (پارٹ فور ۔لاسٹ)



صبح کی روشنی آہستہ آہستہ چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ دونوں کاریں تیزی سے صائمہ کی سہیلی کے گھر کی طرف واپس جارہیں تھیں۔ رات بھر جاگنے کی وجہ سے صائمہ کے محبوب نوکر سمیت کئی نوکر اور ڈرائیورز اونگھ رہے تھے۔ البتہ ساری رات نوکروں اور ڈرائیورز کے ساتھ ننگا سیکس کرنے کے باوجود صائمہ کو تھکن محسوس نہیں ہو رہی تھی بلکہ وہ اپنے اندر ایک نئی تازگی اور سیکس کی چاہت محسوس کررہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ایک نئی نویلی دلہن ہے اور اپنے ہنی مون کو انجوائے کررہی ہے۔
نوکر کے پیار نے صائمہ کو ایک بہت ہی خوبصورت اور جوانی سے بھرپور احساس دیا تھا اور وہ یہ حقیقت بالکل بھول چکی تھی کہ وہ تین بچوں کی ماں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شریف اور وفادار بیوی بھی ہے جسے اپنے شوہر سے محبت تھی اور جسے پچھلے دو دنوں کے واقعات سے پہلے کسی غیر مرد نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ البتہ اس وقت وہ بالکل ننگی حالت میں انجان نوکروں اور ڈرائیوروں کے درمیان کار میں اپنی سہیلی کے نوکر کی گود میں بیٹھی اسی سہیلی کے گھر واپس جارہی تھی اور صائمہ کو اپنے گھر اور شوہر کی بجائے ان نوکروں کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں گزرے ہوئے پیار کے لمحات یاد آرہے تھے۔
جونہی کاریں صائمہ کی سہیلی کے گھر پہنچیں ! تمام نوکر اور ڈرائیورز باری باری صائمہ کے ننگے مموں کو دبا کر اپنے اپنے مالکوں کے گھروں کی طرف چلے گئے اور دونوں کاروں والے ڈرائیورز بھی صائمہ اور اسکی سہیلی کے نوکر کو اتار کر اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔ نوکر اور صائمہ بھی گیٹ کا تالا کھول کر صائمہ کی سہیلی کے گھر میں آگئے ۔ صائمہ ابھی تک لباس کی قید سے بالکل آزاد تھی اور اسے اپنی سہیلی کے نوکر کے ساتھ بالکل ننگی رہنا ہی اچھا لگ رہا تھا۔
نوکر کچن میں جاکر چائے بنانے لگا تو صائمہ نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور باتھ روم میں گھس گئی۔ نیم گرم پانی کے شاور نے رات بھر جاری رہنے والے سیکس کے اثرات زائل کرکے صائمہ کو تازہ دم کردیا اور وہ اپنا بدن خشک کرکے اسی طرح ننگی ہی باہر آگئی۔
ناشتہ تیار تھا اور نوکر اپنی ننگی محبوبہ کا انتظار کررہا تھا۔ صائمہ مسکراتی ہوئی آئی اور نوکر کی گود میں بیٹھ کر اس کی گردن میں اپنی نازک بانہیں ڈال کر نوکر کی آنکھوں میں جھانک کر مسکراتے ہوئے بولی جانو ! تمہیں چھوڑ کے اپنے گھر واپس جانے کا خیال بھی بہت برا لگتا ہے۔ نوکر نے شرارت سے صائمہ کے ایک نپل پر چٹکی لی اور مسکرا کر بولا” تو یہاں ہی رک جا رانی ! تیرا شوہر تو تیرے بغیر بھی آرام سے سو رہا تھا لیکن میرا لن تیرے بغیر کیسے رہے گا ؟”۔
نوکر کی بات سن کر صائمہ کی آنکھوں میں پیار کا نشہ چھا گیا اور صائمہ اپنا منہ نوکر کے منہ لگا کر اسے بےتحاشہ کسنگ کرنے لگی۔ یہ سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہا اور صائمہ اور نوکر ایک دوسرے کے منہ سے منہ لگا کر آپس میں زوردار کسنگ کرتے رہے۔ اسی دوران صائمہ نے ناشتے کا ایک لقمہ اٹھا کر اپنے منہ میں لے کر نوکر کے منہ میں دے دیا تو نوکر صائمہ کے منہ سے لقمہ لے کر کھانے لگا۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا جو صائمہ کے ننگے بدن میں نوکر کے لئے پیار کا ایک نیا جذبہ۔ پیدا کررہا تھا۔
صائمہ نے مسکرا کر آنکھوں سے نوکر کو ناشتے کی پلیٹ کی طرف اشارہ کیا تو نوکر صائمہ کا مطلب سمجھ گیا۔ اس نے پلیٹ سے ایک لقمہ اٹھایا اور اپنے منہ میں ڈال کر اپنا منہ صائمہ کے منہ سے لگا دیا۔ صائمہ نے مسکراتی آنکھوں کے ساتھ نوکر کے منہ سے لقمہ اپنے منہ میں لیا اور مسکرا کر نگل گئی ۔ اسی طرح نوکر اور صائمہ محبت سے ایک دوسرے کو ناشتہ کروا کر فارغ ہوئے جبکہ نوکر اس دوران صائمہ کے ننگے مموں سے کھیلتا رہا۔
ناشتے سے فارغ ہو کر صائمہ نے بالکل ننگی حالت میں ہی نوکر کی گود میں بیٹھے بیٹھے اپنے شوہر کو فون کر کے یوں ظاہر کیا جیسے وہ ابھی ابھی نیند سے جاگی ہو جبکہ نوکر اس دوران صائمہ کے ننگے بدن سے کھیلتا رہا۔ شوہر نے بتایا کہ بچے تیار ہو کر سکول جا چکے ہیں اور وہ خود بھی ناشتہ کرکے دفتر کیلئے نکلنے ہی والا ہے۔ صائمہ نے ذرا سست سی آواز میں شوہر کو آئی لو یو کہا تو وہ بولا “لگتا ہے رات بھر گپ شپ چلتی رہی ہے اور نیند پوری نہیں ہوئی ہے”؟ تو صائمہ بھی اپنا ایک ننگا ممہ نوکر کے منہ سے لگا کر بولی “ ٹھیک کہا آپ نے ! رات بھر جاگتی رہی ہوں اور اب نیند آرہی ہے”۔
یہ سن کر صائمہ کا شوہر بولا ٹھیک ہے تم آرام کرلو پھر گھر آؤ گی تو شام کو ملتے ہیں۔ صائمہ نے شوہر کو فون پر kiss کیا اور کال بند کردی۔ اس دوران نوکر مسلسل صائمہ کے ننگے بدن سے کھیلتا رہا، کبھی صائمہ کے ممے چوسنے لگتا تو کبھی صائمہ کو کھڑا کرکے اس کی پھدی چومنے لگتا اور کبھی صائمہ کو موڑ کر اس کے ننگے ہپس کھول کر ان میں پیار کرنے لگتا۔ صائمہ بھی مسکرا کر چپ چاپ نوکر کی شرارتیں برداشت کرتی رہی اور فون بند کرتے ہی بھوکی شیرنی کی طرح نوکر پر جھپٹ پڑی ! ۔ اس نے نوکر کی شلوار کھول کر نوکر کا کھڑا ہوا لن باہر نکال لیا اور مسکراتے ہوئے اپنی زبان نوکر کے ننگے لن پر پھیرنے لگی۔
نوکر نے اپنا لن صائمہ کے خوبصورت ہونٹوں سے لگا دیا تو صائمہ اسے منہ میں لیکر جوش و خروش سے چوسنے لگی۔ نوکر بھی صائمہ کے گرم گرم پیار کا مزہ لینے لگا اور بے ساختہ بولنے لگا “ آہ ! میری رانی ! اور زور سے چوس ! اور زور سے ! آج میری ساری منی چوس لے رانی ! کب سے تیرے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھ مارتا تھا ! میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی تو سچ مچ میرے سامنے ننگی ہوگی اور میری ننگی رانی بنے گی۔ چند ہی لمحوں میں نوکر نے صائمہ کے منہ میں اپنے سپرمز نکال دئیے اور صائمہ نے مسکراتے ہوئے نوکر کے سارے سپرمز پی لئے۔
اس بھرپور سیکس کے بعد صائمہ بالکل ننگی حالت میں ہی نوکر کے گلے لگ گئی اور اٹھلا کر بولی جانو ! اب میں تم سے دور نہیں رہ سکتی ! ۔ پلیز مجھ سے شادی کرلو ! ۔ نوکر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر بولا رانی ! اب تو میری رانی ہے اور ہم دونوں کھل کر ایک دوسرے سے پیار تو کررہے ہیں ! ۔ تو صائمہ منہ پھلا کر بولی مجھے نہیں پتہ ! جب تک تم مجھے اپنی بیوی نہیں بناؤ گے مجھے سکون نہیں ملے گا۔ نوکر صائمہ کا مطالبہ سن کر بولا رانی ! تو پہلے ہی شادی شدہ ہے اور تین بچوں کی ماں ہے ! جبکہ میں تو ایک معمولی نوکر ہوں ، تو بھلا میری بیوی کیسے بن سکتی ہے؟
نوکر کی بات سن کر صائمہ ناراضگی سے بولی جانو ! تمہارے پیار میں کل رات بھر تمہارے دوستوں کے ساتھ پورے شہر میں ننگی ہوکر گھومتی رہی ہوں ، یہاں تک کہ اپنے گھر کے لان میں تمہارے ساتھ اور تمہارے دوستوں کے ساتھ بالکل ننگی ہوکر سیکس کرتی رہی ہوں ! اب اور اپنے پیار کا کیا ثبوت دوں ؟ تو نوکر صائمہ کے ننگے نپلز چوم کر بولا رانی ! میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ تو میرے ساتھ اور میرے دوستوں کے ساتھ اسی طرح ننگی ہو کر پیار کرتی رہنا اور بس !
نوکر کی بات سن کر صائمہ بولی مجھے نہیں پتہ ! جب تک تم مجھ اے شادی نہیں کرو گے میں یہاں سے نہیں جاؤں گی ! اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے ! ۔ اب نوکر کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا ! وہ صائمہ کے ننگے بدن کو ہاتھ لگا کر صائمہ کو۔ پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتا تو صائمہ اس کا ہاتھ یہ کہہ کر جھٹک دیتی کہ پہلے شادی کرو ! پھر ہاتھ لگانے دوں گی۔ نوکر بھی اس اچانک تبدیلی پر حیران تھا کہ صائمہ نے کیا شادی کی ضد لگا رکھی ہے !
آخر اس نے تھک ہار کر ہمسائے والے نوکر دوست کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی۔ دوست بولا تو فکر نہ کر میں نواز اور شیرو کو لے کر آتا ہوں ، تو جاکر مولوی کو بلا لے ! بس ہم گواہ بن جائیں گے اور شادی کا ڈرامہ کرکے اسے کہہ دیں گے کہ اب وہ تیری بیوی ہے ! نوکر یہ سن کر بہت خوش ہوا اور صائمہ سے بولا رانی ! تو دلہن بن کر تیار ہو جا میں گواہوں اور مولوی کو لے کر آتا ہوں ۔
صائمہ نوکر کی بات سن کر کھل اٹھی اور اپنی سہیلی کے کمرے میں جاکر تیار ہونے لگی۔ اسی دوران ہمسایوں کا نوکر اپنے دو عدد دوستوں کو لے کر وہاں پہنچ گیا۔ انہوں نے کال کرکے علاقے کے مولوی کو بھی بلا لیا تو صائمہ بھی ایک خوبصورت جوڑا پہن کر ڈرائنگ روم میں آکر گھونگٹ نکال کر دلہن کے روپ میں بیٹھ گئی۔ جب مولوی ایجاب و قبول کروانے لگا تو صائمہ اپنی قمیض کھینچ کر اوپر کرکے اپنے جوان ممے باہر نکال کر ننگے کر کے نوکر سے بولی جانو ! ایسے نہیں ! بلکہ میرے یہ پکڑ کر مجھے قبول کرو ! تو نوکر نے صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر ایجاب و قبول کیا اور صائمہ نے بھی اپنے ننگے ممے نوکر کو پکڑوا کر نوکر سے ایجاب و قبول کیا۔
دلہن کے خوبصورت ننگے ممے دیکھ کر مولوی بھی برداشت نہ کرسکا اور اس نے اٹھ کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ لئے اور زور زور سے دبانے لگا۔ یہ دیکھ کر صائمہ نے بھی مسکراتے ہوئے مولوی کو اپنی گود میں لٹا لیا اور اپنے ننگے ممے مولوی کے منہ میں دے دئیے۔ ساتھ ہی مولوی کی شلوار کھول کر اس کا کھڑا ہوا لن باہر نکال کر مولوی کی مٹھ مارنے لگی اور اسے اپنے ننگے مموں سے اپنا دودھ پلانے لگی۔
مولوی یہ منظر برداشت نہ کر سکا کہ صائمہ جیسی خوبصورت عورت دلہن کے روپ میں بیٹھی اپنے ننگے مموں سے اسے اپنا دودھ پلا رہی ہے اور اپنے نازک ہاتھوں سے اس کی مٹھ مار رہی ہے۔ تو مولوی نے صائمہ کے ہاتھوں میں ہی اپنی منی نکال دی جو صائمہ نے مسکرا کر چاٹ چاٹ کر صاف کردی۔ مولوی بھی شرمندہ شرمندہ صائمہ کی گود سے اٹھا اور وہاں سے روانہ ہوگیا تو نوکر کے دوست اٹھ کر صائمہ کے ننگے ممے پکڑ کر کھینچنے لگے اور اس کے ننگے ممے کھینچ کھینچ کر لال کر کے اسے شادی کی مبارکباد دینے لگے۔ تو صائمہ نے مسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور بولی اپنے جانو کو خوش رکھنے کے لئے میں جانو کے سب دوستوں کے سامنے بالکل ننگی رہوں گی۔
یہ سن کر نوکر اور اس کے دوستوں نے صائمہ کے سارے کپڑے اتار کر اسے ایک بار پھر بالکل ننگا کرلیا اور صائمہ انکے ساتھ بالکل ننگی ہو کر پھر سے سیکس کے مزے لینے لگی۔ نوکر نے قالین پر لیٹ کر صائمہ کو اپنے کھڑے ہوئے لن پر بٹھا لیا اور اپنا لن صائمہ کی پھدی میں ڈال دیا جبکہ اسکے ایک دوست نے اپنا لن آہستہ آہستہ صائمہ کے ہپس میں ڈال دیا باقی دونوں دوست صائمہ کے دائیں اور بائیں طرف کھڑے ہوگئے اور صائمہ انکے کھڑے ہوئے لن پکڑ کر باری باری منہ میں لیکر بیک وقت چار مردوں کے ساتھ سیکس کرنے لگی۔ یہ سلسلہ شام تک وقفے وقفے سے چلتا رہا یہاں تک کہ صائمہ کے شوہر کی کال آگئی۔
صائمہ اس وقت بھی نوکر کے ایک دوست کے لن پر سواری کررہی تھی اور وہ صائمہ کے دونوں مموں کو پکڑ کر زور زور سے دبا کر صائمہ کے نپلز سے نکلتی ہوئی دودھ کی دھاریں اپنے منہ میں لیکر صائمہ کا دودھ نکال رہا تھا جبکہ صائمہ کے ممے لال ہو رہے تھے۔ موبائل بجتے ہی صائمہ نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف اس کا شوہر پوچھ رہا تھا “ سوئٹ ہارٹ ! یہ تمہاری سہیلی نے کیا جادو کردیا ہے کہ تم ابھی تک وہاں ہی ہو؟ لگتا ہے تم اپنا گھر بھول گئی ہو ! ۔ شوہر کی بات سنکر صائمہ گھبرا کر شرماتے ہوئے بولی نہیں نہیں ڈارلنگ ! میں بس آنے ہی والی تھی۔ یہ کہتے ہوئے بھی صائمہ مسکرا کر اپنا ایک ننگا ممہ پاس کھڑے نوکر کی طرف بڑھا کر اسے اپنا نپل چوسنے کی دعوت دے رہی تھی۔
جونہی ! نوکر نے آگے بڑھ کر صائمہ کا نپل منہ میں لیا تو صائمہ مسکرا کر بولی آہ ! جانو ! ذرا آہستہ سے ! ۔ یہ سن کر صائمہ کا شوہر ذرا سخت لہجے میں بولا تم نے پھر مجھے جانو کہا ؟ تو صائمہ گھبرا کر بولی نہیں ڈارلنگ ! دراصل میں تو یہاں سعدیہ کو کہہ رہی تھی کیونکہ میرے پیر میں موچ آگئی ہے اور یہ پیر کو پکڑ کر سیدھا کررہی تھی ۔
صائمہ کے جھوٹ سے شوہر کا لہجہ دوبارہ نرم ہو گیا اور وہ پریشان ہوکر بولا اچھا تم فکر نہ کرو ! میں تمہیں آکر پک کرلیتا ہوں ، تم کہاں اس حال میں ٹیکسیوں میں دھکے کھاتی آؤ گی ! ۔ تو صائمہ گھبرا کر بولی نہیں ڈارلنگ اتنی زیادہ تکلیف نہیں ہے اور ویسے بھی ٹیکسی گیٹ پر آ چکی ہے، آپ فکر نہ کریں میں پہنچ جاؤں گی۔ تب کہیں صائمہ کے شوہر کی تسلی ہوئی اور اس نے کال بند کی۔ کال بند ہوتے ہی صائمہ نے بے چینی سے نوکر اور اسکے دوستوں کی طرف دیکھا اور بولی پلیز جلدی سے ایک ایک راؤنڈ اور لگا لو ! پلیز ! ! ! ! صائمہ کی دعوت سنتے ہی چاروں صائمہ پر ٹوٹ پڑے اور دھڑادھڑ صائمہ کے منہ ، ہپس اور پھدی میں اپنے لن ڈال کر اسے چودنے لگے۔ صائمہ اب بھی گھر واپس نہیں جانا چاہتی تھی لیکن جونہی نوکروں کا کلائمکس ہوا انہوں نے صائمہ کو باتھ روم میں لے جاکر اپنے ہاتھوں سے نہلایا۔
باتھ روم سے نکل کر نوکر اور اسکے دوستوں نے جلدی جلدی صائمہ کو اسکی واجبی سی بریزئر پہنائی اور باقی کپڑے پہنا کر جلدی جلدی Uber سے کار منگوا کر صائمہ کو وہاں سے روانہ کیا۔ صائمہ بھی پورے دو دن اپنی سہیلی کے نوکر اور اسکے دوستوں کے ساتھ بالکل ننگی حالت میں گزارنے کے بعد ان سے اگلے ہی دن دوبارہ ملنے کا وعدہ کر کے آنکھوں میں پیار بھرے آنسو لئے اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "ننگی رانی (پارٹ فور ۔لاسٹ)"