Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

انکل کا موٹا لن


  

میرا نام ثناء ہے اور میری شکل سارہ خان سے بہت ملتی ھے

یہ آج سے 3 سال پہلے کی بات ہے جب میں کالج میں پڑھتی تھی۔ اُس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی اور میرا جسم بے انتہا سیکسی تھا۔ لڑکے تو لڑکے لڑکیاں بھی میرے ساتھ سیکس کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔

میری چھاتیاں 34،کمر 22 اور گانڈ 36 کی تھی اور اوپر سے میں ایسے لباس پہنتی تھی جس کو دیکھ کے بوڑھے جوان سب مجھے پانے کی آرز کیا کرتے تھے۔

کالج کے دنوں میں ابو نے مجھے سمارٹ فون خرید کردیا۔

کچھ دنوں بعد میری کال پر ایک لڑکے عدنان سے دوستی ہوگئی۔

ایک دن گھر والے کہیں شادی میں شرکت کےلئے چلے گئے لیکن میں اگلے دن کے امتحان کی وجہ سے گھر رُک گئی۔

گھر والوں کے جانے کے تھوڑی دیر بعد اُس لڑکے کا میسیج آیا کہ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے ہماری ویڈیو کال پر بات شروع ہوگئی۔

تھوڑی دیر کے بعد عدنان نے رومینٹک ہوکرکہا کہ وہ میرے پاس ہوتاتومجھے کِس کرتا۔۔

میں خاموش ہوگئی اور اس دوران عدنان نے اپنی شرٹ اتارتے ہوئے کہا مجھے گرمی لگ رہی ہے اس لئے شرٹ اتار رہاہوں۔
اسی دوران ہماری لائٹ بھی چلی گئی اور مجھے گرمی سے پسینہ آنے لگ گیا۔
عدنان ہنستے ہوئے بولا تم بھی اپنی قمیض اتار دو گھر میں اکیلی تو ہو۔
میں ایسا کیوں کروں؟
عدنان ہنس کر بولا میں آنکھیں بند کرلیتا ہوں۔
اب عدنان بالکل ننگا ہو کے لیٹ گیا تھا اور اُس کا لنڈ کھڑا تھا۔ میں نے اُس کو کہا بےشرم یہ کیا حرکت ہے۔
عدنان ہنس کر بولا گرمی میں اور کیا کروں تو میں نے کہا جو مرضی کرو لیکن ایسے میرے سامنے تو مت آؤ۔
اس دوران میری نظر مسلسل عدنان کے تقریباً 8 انچ لمبے لنڈ پر ہی ٹِکی تھی جس کو عدنان بھانپ گیا اور وہ بولا ثناء اگر شرم آرہی ہے تو میرے لنڈ کو گھور کیوں رہی ہو۔
یہ سُن کر میں جھینپ سی گئی۔ عدنان ضد کرتے ہوئے بولا چلو شاباش اب تم بھی قمیض اور سلوار اتار ہی دو۔

میں نے جھجھک کر کہا عدنان یہ سب ٹھیک نہیں ہے تو عدنان نے آنکھ مارتے ہوئے کہا کچھ نہیں ہوتا یہ سب ہمارے درمیان رہے گا۔ اس دوران عدنان کا لنڈ دیکھ دیکھ کر میرے اندر کچھ کچھ ہونے لگا تھا

میں نے کہا عدنان تم اپنی آنکھیں بند کرو میں قمیض اور سلوار اتاروں گی لیکن اپنی براء اور پینٹی میں نہیں اتاروں گی۔

عدنان نے حامی بھر لی تو میں نے قمیص اور سلوار اتاری اور صوفے پر لیٹ گئی۔

ابھی تھوڑی دیر ہی بات ہوئی تھی کہ مجھے احساس ہوا کہ میرے پیچھے کوئی کھڑا ہوا ہے۔میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو میری سانس رُک گئی۔
میرے صوفے کے سائیڈ پر میرے ابو کے چھوٹے بھائی شاھد انکل اپنا موبائل ہاتھ میں پکڑے کھڑے ہوئے تھے شاھد انکل چالیس سال کے جوان مرد تھے وہ پولیس میں تھے اکثر ہمیں ملنے ہمارے گھر اتے رہتے تھے۔میں نے جلدی سے عدنان کی کال کاٹی اور دوڑ کر واش روم میں گھس گئی۔
میں شائید باہر کا دروازہ بند کرنا بھول گئی تھی اور عدنان کے ساتھ ڈرائنگ روم میں ہی ویڈیو کال پر بات کرنے لگ گئی تھی۔

واش روم کے دروازے پر دستک ہوئی اور شاھد انکل کی آواز آئی ثناء بیٹی باہر آجاؤ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔

میں نے اندر لٹکی ایک شرٹ پہنی اور ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر باہر آگئی جہاں پر انکل کھڑے ہوئے تھے۔

شاھد انکل نے میرا ہاتھ پکڑا اور صوفے پر بٹھا دیا۔

میں نے سر جھکا کر اٹکتے ہوئے کہا وہ انکل لائٹ نہیں تھی تو مجھے گرمی لگ رہی تھی۔

شاھد انکل ذومعنی انداز میں ہنستے ہوئے بولے ثناء میں سمجھ سکتا ہوں کہ تمھیں اور اس لڑکے کو گرمی لگ رہی تھی مجھے عجیب سا لگا کیوں کہ پہلی بار انکل نے مجھے میرا نام لیکر بیٹی نہیں کہا تھا۔

میں خاموش ہوگئی تو شاھد انکل بولے تمھاری گرمی نے مجھے بھی گرم کر دیا ہے۔ تم اتنی پیاری ہو میں نے آج پہلی بار غور سے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ ہی انکل نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔میں بولی انکل یہ کیا کررہے ہیں آپ میں ابو کو بتا دوں گی انہوں نے ایک شعر بولا

میں فقط لذت مہیا کرتا ہوں

محبت کیا ہے...؟پتا نہیں مجھے
شاھد انکل ایک قہقہہ لگا کر بولے بالکل بتا دو بلکہ ابھی کال کرلو۔۔ وہ کیا ہے کہ جب میں اندر آیا تھا تو غلطی سے میرے موبائل کا کیمرہ آن ہوگیا تھا اور تمھاری اور اُس لڑکے کی ویڈیو کال کی ویڈیو بھی غلطی سے ریکارڈ ہوگئی۔میں ایک دم سے سہم کر چپ ہو گئی جبکہ شاھد انکل بولے اب اگر یہی ویڈیو تمھارے ابو اور تمھارے محلے والوں کے پاس چلی جائے تو سوچو کتنی بدنامی ہوگی نا تمھارے ابو کی۔

میں یہ سب سُن کر خوف سے کانپنے لگی شاھد انکل میرے پاس بیٹھتے ہوئے بولے ارے ارے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے میں ایسا کچھ نہیں کروں گا لیکن ایک شرط پر۔میں نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا کون سی شرط انکل؟

انکل بولے میری شرط یہ ہے جو گرمی تمھاری وجہ سے مجھے چھڑی ہے اسے تم ہی دور کرو گئی میں نے ناسمجھی والے انداز میں کہا وہ کیسے انکل؟میری بات کے جواب میں انکل نے بیٹھے بیٹھے اپنا ٹراؤزر نیچے کیا تو میری سانس رُک سی گئی۔
انکل کا بہت بڑا موٹا اور کالا لنڈ سانپ کی طرح پھن پھیلا کر کھڑا ہوا تھا۔ انکل کا لنڈ لمبائی اور موٹائی میں عدنان کے لنڈ سے بہت بڑا تھا جسے دیکھ کر میں ڈر گئی۔
انکل مسکرا کربولے۔۔ثناء ڈرو نہیں اس کو چھو کر دیکھو تمھارا ڈر ختم ہوجائے گا۔میں نے خوف سے ہاتھ اپنی گود میں چھپا لئے تھے۔شاھد انکل نے میرا ایک ہاتھ زبردستی پکڑا اور اپنے تنے ہوئے لنڈ کے اوپر رکھ دیا۔میں نے جب تھوڑی دیر تک ہاتھ کو حرکت نہیں دی تو انکل تھوڑے غصے سے بولے۔۔ چل پکڑ میرے لنڈ کو ورنہ ابھی ویڈیو بھیجتا ہوں سب کو۔میں ڈر گئی اور فوراً لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔
انکل مسکرا کربولے۔۔شاباش سمجھدار ہو۔۔پھر شاھد انکل میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنے لنڈ پر اوپر نیچے کرنے لگے۔۔ اس کے ساتھ ہی انکل نے میری گردن پر بوسے دینا شروع کردئیے اور ایک ہاتھ میرے مموں پر رکھ کر میرے مموں کو ہلکا ہلکا مسلنے لگ گئے۔۔
ایک منٹ کے بعد مجھے گردن پر شاھد انکل کے بوسوں کا مزہ آنے لگ گیا اور میں ان کے لنڈ کو ہاتھ میں لیکر خود ہی مسلنے لگی۔تھوڑی دیر کے بعد انکل اٹھے اور مجھے کھڑا کرکے میری شرٹ اتار کر دور پھینک دی۔۔اب میں کالے رنگ کے بریزئیر میں ان کے سامنے کھڑی ہوئی تھی جس میں سے میرے آدھے ممے باہر نکلے ہوئے تھے۔
انکل بھوکی نظروں سے میرے مموں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھے اور میرا برا بھی کھول کر دور پھینک دیا اور ساتھ ہی میری پینٹی بھی اتار دی۔اب میں ان کے سامنے بالکل ننگی کھڑی ہوئی تھی۔
انکل ہوسناک نظروں سے میرے ننگے جسم کو دیکھ رہے تھے۔مجھے بولے ثناء تم تو سیل پیک بھی نہیں لگ رہی۔ شاھد انکل کی انکھوں میں دیکھتے ھوئے کہا جی میں چدوا چکی ہوں۔پھر انہوں نے جھک کر میرے مموں پر منہ رکھ دیا اور میرے مموں کے نپلز کو چوسنے لگ گئے۔۔
مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں مدہوش سی ہوگئی اور ان کےسر میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگ گئی۔۔تھوڑی دیر میرے ممے چوسنے کے بعد انکل نے مجھے صوفے پر لٹا کر میری ٹانگیں کھول دیں اور میری چوت کو دیکھنے لگ گئے۔۔۔

پھر وہ نیچے بیٹھے اور میری چوت پر اپنی زبان رکھ دی۔ان کی زبان جیسے ہی میری چوت پر لگی میرے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔
شاھد انکل نے مسلسل میری چوت کو چاٹنا شروع کردیا جس کے مزے سے میں بے حال سی ہوگئی تھوڑی دیر بعد میں اپنے کولہے اٹھا اٹھا کر اپنی چوت انکل کے منہ کے آگے کررہی تھی اور میرے منہ سے آہ آہ۔۔اففف اوہ یس کی آوازیں نکل رہی تھی.
انکل بیٹھے بیٹھے میری چوت چاٹنے کے ساتھ ساتھ میرے مموں کوبھی مسلنے لگ گئے جبکہ اب ان کی زبان میری گانڈ کے سوراخ کو بھی چاٹ رہی تھی۔۔
میں مزے کی انتہا پر تھی اور شاھد انکل ایک ماہر کھلاڑی کی طرح میری جوانی کا رس اپنی زبان سے چاٹ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو منٹ مزید گزرے تو میری چوت نے اپنا پانی چھوڑ دیا جس کو انکل اپنی زبان سے چاٹ گئے۔۔۔پھر انکل اٹھے اور اپنا لنڈ میرے منہ کے پاس لا کر بولے۔۔چل سالی رنڈی اس کو چوس۔۔

میں نے منہ پھیر لیا جس پر انکل نے میرا چہرہ پکڑ کر اپنے لنڈ کے پاس کیا اور زبردستی میرا منہ کھول کر لنڈ کا موٹا ٹوپامیرے منہ میں ڈال دیا۔۔میری سانس رکنے لگی لیکن انکل نے میرا سر پکڑ کر اپنے لنڈ کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی کھڑے کھڑے میری چوت پر اپنی انگلیاں پھیرنے لگے۔۔

ان کی انگلیاں میری چوت پر لگتے ہی میرا منہ خود بخود کھل گیا اور ان کا لنڈ میرے منہ میں تھوڑا اور اندر چلا گیا۔۔اب میں مزے سے انکل کا کالا موٹا اور لمبا لنڈ چوس رہی تھی جو تقریباً آدھا میرے منہ کے اندر تھا۔۔

انکل کے چہرے پر نظر پڑی تو مجھے لگا کہ وہ بہت مزہ لے رہے تھے۔دس منٹ تک میری چوت کو اپنی انگلیوں سے مسلنے اور اپنے لنڈ کے چوپے لگوانے کے بعد انکل نے اپنا لنڈ میرے منہ سے نکالا اور میری ٹانگوں کے درمیان آکر بیٹھ گئے۔۔

میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر شاھد انکل نے اپنے لنڈ کا ٹوپا میری چوت کے دانے پر رگڑنا شروع کردیا۔۔جس کی وجہ سے میں مزے میں بالکل پاگل ہو چکی تھی۔

انکل جوں جوں اپنے لنڈ کا ٹوپا میری چوت پر رگڑ رہے تھے میری چوت اور گیلی ہوتی جارہی تھی اور اب میرا من کررہا تھا کہ شاھد انکل اپنا لنڈ میری چوت میں ڈال دیں لیکن مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا کیونکہ انکل کا لنڈ بہت بڑا تھا۔

انکل نے اپنا لنڈ میری چوت پر رگڑتے رگڑتے کہا چل میری رکھیل رنڈی اب تیری چوت کا تعارف اپنے لنڈ سے کرواتا ہوں اور ساتھ ہی شاھد انکل نے اپنے موٹے لنڈ کا ٹوپاایک جھٹکے سے میری چوت میں گھسیڑ دیا۔۔ان کے موٹے لنڈ کا ٹوپا میری تنگ چوت کو چیرتا ہوا تھوڑا سا اندر گیا تو میں درد سے مچل اٹھی لیکن انکل نے مجھے کس کر پکڑ لیا تھا جس کی وجہ سے میں ہل نہیں سکتی تھی۔۔

انکل نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور ساتھ ہی اپنے لنڈ کو ایک اور جھٹکا دیا جس سے اُن کا تقریباً آدھا لنڈ میری چوت کے سوراخ کو چیرتا ہوا اندر چلا گیا۔۔درد کی شدت سے میری آنکھوں سے آنسو آگئے لیکن انکل نے مجھے اتنا کس کر پکڑا ہوا تھا کہ میں ہِل نہیں پارہی تھی۔۔

اب میں درد سے چلاء رہی تھی اور انکل اپنے موٹے لن سے ذوردار چھودائی کررہےتھےمیری اس سب میں بھی ہم درواذہ لاک کرنا بھول گے اور ہوش تب ایا جب پاپا سر پر اگئے اور بولے کیا ہو رہا ہے یہ میں اور انکل ڈر گے اور کھڑے ہو گے ننگے پاپا کے سامنے پاپا انکل کو بولے شاھد یہ تو بچی ہے تم ہی شرم کرتے کچھ انکل پاپا سے معافی مانگنے لگے تو میں بولی پاپا انکل کی کوئی غلطی نہیں ہے جب یہ ائے میں ننگی لیٹی تھی تو پھر ہم دونوں سے کنٹرول نہیں ہوا اور ہم سکس کرنے لگے پاپا بولے چپ کر رنڈی اب اس کی سزا تمیں ملے گئی۔
پاپا انکل سے بولے شاھد میں سمجھا تم ثناء پر زلم کررہے ہو پر ثناء کی بات سن کے اب مجھے لگا یہ رنڈی ہے اور رنڑی چھودنے کے لیے ہی ہوتی ہے اور مرد رنڑی کو چھودنے کے لیے اس لیے اب تم۔میرے سامنے میری رنڑی بیٹی کو رنڑی کی طرح چھودو گے اس پر رحم نہیں کھاؤ گے یہ سن کے میں اور انکل خوش ہو گے اور میں اٹھی اور انکل کے اگے گھوڑی بن گئی اور انکل مجھے چھودنے لگ گے پاپا کے سامنے۔۔۔۔۔۔
ادھا گھنٹہ انکل نے بہت شاندار چھودائی کی میری اور میری چھوت میں ہی فارغ ہو گئے میں پسینے سے تر ہو گئی پاپا نے انکل کو اٹھ کے گلے لگایا اور بولے بھائی تم نے خوب ثناء کی چھودائی کی ہے شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد.....

ایک تبصرہ شائع کریں for "انکل کا موٹا لن "