Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

بہادری مہنگی پڑی



میرا نام ہانیہ ہے۔ میرا تعلق اٹک سے ہے اور میں ایک سرکاری لیڈی ہیلتھ ورکر ہوں۔ عمر 28 سال اور دو بچوں کی

ماں ہوں۔ ویسے تو میری ڈیوٹی اٹک اور راولپنڈی کے درمیان ہی ہوا کرتی ہے۔ لیکن 2 سال پہلے کی بات ہے جب
پیشاور جانے کے لئے کوئی تیار نا تھا تو میں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تیار ہوں اور میری ڈیوٹی
پیشاور کے ایک ملحکہ گاؤں میں لگادی گئی۔ میں دو دن بعد صبح ہی گھر سے نکلی اور 11 بجے وہاں کے مقامی ہسپتال میں
پہنچ گئی۔
پہلے دن تو نہانے دھونے اور روم ایڈجسٹ کرنے میں لگی رہی اور دوسرے دن مجھے لیکچرز دئیے گئے کہ
آپ نے کسی کو ذیادہ فورس نہیں کرنا
کسی سے کچھ لینا نہیں
اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھنی ہے
سب سے ضروری چیز کسی کے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہے کچھ بھی ہو
اور مزید مجھے میرا کام سمجھا کر کہا گیا کہ کل سے آپ اپنا کام شروع کردیں۔ میں نے اپنا سامان تیار کیا اور اگلی صبح 7
بجے کام پر لگ گئی میں 10 بجے تک کسی بچے کو ڈراپ پلانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ خیر میں نے پولیس والوں سے
پوچھا کہ یہاں پاس میں کوئی ہسپتال ہے انہوں نے بتایا کہ جی بلکل روڈ کراس کرنے کے بعد دوسری گلی میں ہے۔
میں وہاں پہنچی پولیس والوں کو بھی آرام کرنے کا کہا اور خود بھی ڈاکٹر سے علاقے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے بعد 11 بجے کام پر لگ گئی۔
وہ دن تو ایسے ہی گزر گیا کوئی کام نہ کرسکی۔ دوسرے دن بھی کوئی خاص کام نہ ہوا اور 12 بج گئے۔ اچانک ایک گھر
سے بچہ نکلا اور مجھے کہا کہ میرا امی بلاتا ہے۔ میں نے دروازے کی طرف دیکھا تو ایک عورت گود میں بچہ لئے کھڑی تھی۔
ں نے کہا کہ بچے کو دروازے پر لے آؤ۔ پولیس والے نے کہا کہ یہاں کی عورتیں دروازے پر نہیں آتی مجھے وہ لیکچر
بھی یاد آرہا تھا اور 2 دن سے میں نے کچھ کیا بھی نہیں تھا تو سوچا کہ چلو اس بچے کو ڈراپ پلا دوں۔
میں گھر میں داخل ہوئی ہی تھی کہ فائرنگ شروع ہو گئی میں واپس جانے لگی تو اس عورت نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی
زبان میں کچھ کہا اس پر بچہ بولا یہ کہہ رہی ہے کہ باہر نہ جاؤ صبر کرلو لیکن میں ڈر رہی تھی۔اسلئے میں باہر نکلنے لگی لیکن وہاں کوئی پولیس والا نہ تھا۔
اچانک ایک آدمی نے مجھے ہاتھ سے پکڑ ثباہر نکالا اور کہا خان صاحبہ وہ کافر یہ ہے جو لوگو کو زہر دینے آیا ہے۔ اور مجھے
گاڑی میں سوار ایک شخص کے قریب لے گیا۔ میں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں اور کسی کو زبردستی کچھ نہیں دیا۔
اس خان صاحب نے میری سننے کے بعد اپنی زبان میں کچھ کہا اور گاڑی چلنے لگی میں نے شکر کیا لیکن اگلے ہی لمحے
پچھلی گاڑی میرے سامنے رک گئی اور مجھے دو آدمی اس میں بیٹھا کر لے گئے۔
ایک جگہ پہنچ کر مجھے گاڑی سے اتار کر کمرے میں لے جایا گیا اس کمرے میں ایک صوفہ اور چارپائی موجود تھی ایک
طرف ٹیبل پر کچھ فروٹ رکھے ہوئے تھے۔ مجھے یہاں بند کر دیا گیا۔
میں بہت ڈری ہوئی تھی کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا کرنے والے ہیں۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھولا اور وہ خان
صاحب تشریف لائے انہوں نے مجھ سے میرے کام اور ڈراپ کے بارے میں سوال کئے میں نے ان کے سوالوں
کے جواب دئے تو اس نے کہا کہ اگر تم دو ڈراپس پی لو تو ہم مان لیں گے کہ یہ ٹھیک ہے۔ میں نے اس کے سامنے
3-4 ڈراپس پی لئے۔ وہ کھڑا ہو گیا اور جاتے ہوئے کہا کہ اس کو جانے دو۔
میں بہت خوش ہوئی اور جلدی جلدی اپنا سامان اور کپڑے ٹھیک کرکے جانے لگی تو ایک لڑکے نے کہا ٹہرو خان
صاحب کو جانے دو پھر جانا میں صوفے پر بیٹھ گئی اور جیسے ہی خان صاحب گئے تو 2 لڑکے اندر داخل ہوئے اور کہا کہ
بس دوسرا گاڑی میں آپ کو لے جائے گا پریشان نہ ہو۔
ساتھ ہی ان دونوں نے اس چارپائی سے سامان ہٹا دیا اور کھڑا کرکے دیوار میں لگی 2 میخوں کے ساتھ مضبوطی سے
باندھ دیا۔وہ پھر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد 2 اور لڑکوں کے ساتھ میرے پاس آئے اور کہا چلیں تو میں کھڑی ہو
گئی اور ان میں سے ایک نے میرا بیگ اٹھا لیا لیکن جونہی میں نے پہلا قدم اٹھایا تو 2 مردوں نے مجھے زور سے پکڑ لیا
اور اس کھڑی چارپائی کے پاس لے گئے۔میں چیختی رہی کہ کیا کر رہے ہو مجھے چھوڑ دو لیکن ان پر اثر نہیں ہو رہا تھا
اب تیسرا آدمی آیا اور میرے دونوں ہاتھ چارپائی کے دونوں بازوؤں کے ساتھ باندھ دیئے۔
ہاتھوں کے بعد میرے پاؤں میں بھی رسیاں ڈال دی گئی اور اب وہ چاروں میرے سامنے کھڑے ہو گئے ایک آگے
بڑھا اور میری کیپ، اسکارف اور عبایا کے بٹن کھول کر اتار دیئے اب میں صرف قمیض شلوار میں ان کے سامنے کھڑی تھی اور وہ 4 میرے مموں کو دیکھ رہے تھے۔
ایک نے کہا یار بڑا مال ہے کم سے کم 34 کے ہونگے دوسرے نے کہا نہیں 36 ہے۔ تیسرے نے کہا باجی آپ بتاؤ
کتنا ہے تو میں نے منہ پھیر لیا اس پر چوتھا بولا ہم ہاتھ لگا کر بتاتا ہے کہ کتنا ہے جیسے ہی وہ آگے بڑھا میں نے کہا میں
بتاتی ہوں 36 ہے تو وہ سب ہنسنے لگے پھر وہ سب میرے قریب آئے اور ایک نے کپڑوں کے اوپر سے ہی میرے
ایک پستان کو اور دوسرے نے دوسرے پستان کو دبانا شروع کردیا۔
میں نے ان سے بہت کہا کہ مجھے جانے دو لیکن انہوں نے کہا چھپ ہو جاو نہیں تو منہ میں کچھ دے دینگے۔اور
مزے سے میرے مموں کو دبائے جا رہے تھے تیسرا شخص آگے ہوا اور میرا آزاربند کھول دیا جس سے میری شلوار نیچے گر گئی اور وہ میری ننگی سنگم کو سہلانے لگا۔
پھر انہوں نے میری قمیض بھی اوپر کر دی اور میرے بریزئیر کو سامنے سے تھوڑ کر 2 ٹکڑے کر دیا۔جس سے
میرے 36 کے ممے جمپ مار کر باہر آگئے۔اور وہ دونوں میرے مموں کو منہ میں لےکر چوسنے لگے۔کافی دیر تک
یہ سلسلہ جاری رہا پھر میرے ہاتھ کھولے گئے اور پاؤں بھی۔تاکہ میرے کپڑے اتار سکے اور وہی ہوا پہلے میری
قمیض کو اتارا گیا اور پھر شلوار کوننگی تو میں پہلے ہی تھی۔
ان میں سے ایک بولا اگر نخرے کروگی تو دوبارا باندھ دیتا ہوں میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا ان میں سے
ایک آدمی نے آگے بڑھ کر مجھے گھمایا تو چاروں نے کہا واہ کتنا بڑا زبردست مال ہے اور سب نے باری باری میری گانڈ پر تھپڑ بھی مارے اور کولہوں کو بھی دبایا۔
پھر ان میں سے ایک نے میرے ساتھ کسنگ شروع کردی دوسرا پیچھے سے گردن پر کس بھی کر رہا تھا اور میرے
چوتڑوں کو بھی مسل رہا تھا کچھ دیر بعد ان میں سے ایک صوفے پر بیٹھ گیا اور یہ دونوں مجھے بھی وہاں لے گئے
صوفے پر بیٹھے ہوئے مرد کا گھوڑا شلوار سے باہر تھا مجھے زمین پر بیٹھایا گیا اور اس کے گھوڑے پر میرا منہ رکھ دیا گیا اور کہا شروع ہو جاؤ میں ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ پیچھے سے ایک نے میرے کولہوں کو پکڑ کر مجھے گھوڑی بنا دیا۔
ب پیچھے سے ایک نے میری گانڈ پر گھوڑا رگڑا اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتی اس نے ایسا جھٹکا مارا کہ میری
آنکھیں باہر اگئی کیونکہ اس کا آدھا گھوڑا میرے اندر تھا۔ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک اور جھٹکا لگا اور پورا اندر چلا گیا۔
میری تو جان نکل گئی اب آگے والا میرے سر کو پکڑ کر چود رہا تھا اور پیچھے والا میری بنڈ بندوق کر رہا تھا میں درد سے
تڑپ رہی تھی لیکن تھوڑی بعد درد کم ہو گیا تو مجھے پتہ چلا کہ جو باقی دو مرد تھے وہ میرے مموں کے ساتھ کھیل رہے ہیں اب تو میں 4 بوکھے شیروں کے درمیان تھی کہ پہلا والا میری گانڈ میں فارغ ہو گیا۔
و جس کا میں منہ میں لے کر چوس رہی تھی وہ آیا اور گانڈ میں پورا ڈال دیا ساتھ ہی زور زور سے چودنے لگا۔ 5 منٹ
تک چودنےکے بعد اس نے بھی اپنا مال میری گانڈ میں ڈال دیا۔ تیسرے نے مجھے زمین پر لیٹنے کا کہا تو میں نے کہا کہ
صبر کرو اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر لٹادیا اور میری ٹانگیں اٹھائی اپنا گھوڑا میری سنگم پر رکھ کر دبایا اور اندر جانے دیا یہاں تک کہ پورا اندر چلا گیا اس نے کہا کیا گرم چیز ہے اور چودنے لگا۔
باقی دو میرے پستان چوسنے اور ایک مجھے کس کرنے میں لگے ہوئے تھے۔جب یہ بھی فارغ ہو گیا تو میں نے کہا اب
بس میں اور نہیں کروا سکتی یہ سننا تھا کہ وہ ہنسنے لگے اور چوتھا میری ٹانگیں کھول کر درمیان میں بیٹھ گیا اور اپنا گھوڑا
میری سنگم پر رکھ دبا دیا اس بار تو خود ہی پھسل کر پورا اندر چلا گیا۔اور ایک اور راؤنڈ شروع ہو گیا۔
جب اس نے بھی اپنا گرم مال میرے اندر چھوڑ دیا تو میں نے سکون کا سانس لیا۔اس میں سے ایک نے کہا کھانا کھا لو
تو پھر اور کھیلیں گے۔
لیکن باقیوں نے کہا پہلے نہا تو لو۔ وہ چاروں کھڑے ہو گئے لیکن میرے میں اتنی بھی جان نہیں تھی کہ کھڑی ہو
جاتی۔
ان میں سے ایک نے مجھے گود میں اٹھا اور باقیوں نے کولہوں پر تھپڑ رسید کیے اور مجھے باتھ روم لے گئے لیکن جس
نے مجھے اٹھایا تھا اس کے علاؤہ تمام باہر آگئے۔ اس نے اپنے کپڑے اتارے اور شاور چلا دیا ہم دونوں بھیگ گئے تو اس نے شاور بند کیا اور صابن لگانا شروع کردیا وہ کبھی جھاگ سے میرے مموں کو دباتا کبھی سنگم کی مالش کرتا اور
کبھی گانڈ کی میرے پورے جسم پر اس نے صابن لگایا اور مجھے لٹا کر ایک بار پھر چودنے لگا اس بار پہلے سے زیادہ دیر لگی لیکن مزا بھی آیا آخر میں اس نے میری سنگم کو اپنے پانی سے سیراب کیا اور میرے اوپر لیٹ گیا کچھ دیر بعد ہم
کھڑے ہوئے اور شاور چلا کر خود کو صاف کرکے جانے لگے تو وہ کپڑے پہن کر باہر نکل گیا اور دوسرے نے آکر کنڈی لگائی اور ننگا ہو گیا اس نے بھی میرے پورے جسم پر صابن لگایا کبھی مموں کے مزے لیتا تو کبھی چوتڑوں کے
کبھی کس کرتا تو کبھی سنگم میں ہاتھ ڈال دیا جاتا۔ آخر اس نے مجھے دیوار کے ساتھ لگایا اور بنڈ میں گھوڑے کو دوڑانے لگا۔قصہ مختصر کہ چاروں نے میرے ساتھ یہ سب کچھ کیا تو میں بھی باتھ روم سے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ
باہر نکلی تو وہ مجھے دیکھ کر قہقہے لگانے لگے۔
میں نے اپنا ایک ہاتھ سنگم پر رکھا ہوا تھا شرم سے نہیں درد کی وجہ سے۔خیر ان میں سے ایک مرد نے مجھے اپنی گود
میں بیٹھایا اور ہم نے کھانا کھایا۔مجھے بہت بھوک لگی تھی اس لئے کھانا بھی زیادہ کھایا۔ اس کے بعد کہوا پیا اور کچھ دیر باتیں کی۔مجھے درمیان میں بیٹھا کر مجھ پر ہاتھ بھی پھرتے رہے اور میرا انٹرویو بھی لیا اس کے بعد باقی تینوں اٹھ گئے
اور ایک زمین پر لیٹ گیا۔اس نے اپنا گھوڑا باہر نکالا اور کہا آؤ لیلا اسکا سواری کرو میں نے بہت کہا کہ مجھے دونوں جگہ درد ہے لیکن وہ نہ مانا جب تک میں اس کے گھوڑے پر سوار نہ ہو گئی اس نے کہا رانی اب بیٹھی رہوگی کیا چلو جمپ کرو
اور میں شروع ہو گئی۔ جب میں تھک گئی تو اس نے مجھے اپنے ساتھ لگا لیا اور نیچے سے اس نے جھٹکے مارنا شروع کردیے۔میرا درد کے مارے برا حال تھا لیکن وہ اپنی جوش میں تھا اور تب ہی بس کیا جب میرے اندر لاوا اگل دیا۔
پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور گھما کر میری بنڈ کو اپنی طرف کر لیا وہ صوفے میں بیٹھا تھا میری گانڈ کو اپنے گھوڑے پر رکھ کر دبایا اور مجھے کہا چلو شروع ہو جاؤ میں خود اپنی بنڈ بندوق کروانے میں لگی ہوئی تھی۔
اس نے بھی پیچکاری میرے اندر ماری اور میری ہمت ختم ہو گئی اس کے بعد انہوں نے مجھے صوفے پر الٹا لٹا دیا لیکن میں تقریباً بیہوش تھی کیونکہ باقی دو مجھ پر اسی حالت میں چڑھے مگر مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے کیا کیا میں اتنی بیسد
تھی۔
صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں ان چاروں کے درمیان لیٹی ہوئی تھی۔ ان کو سوتا دیکھ کر میں نے اپنے کپڑے پہننے کی
کوشش کی میں ٹھیک سے کھڑی بھی نہیں سکتی تھی۔
میرے خواب ادھورے ہی رہ گئے کیونکہ وہ بھی جاگ گئے اور جو پہلے جاگا اس نے کہا رانی پہلے نہالو کپڑے بعد میں پہن لینا۔
میں نہ نہ کرتی رہ گئی اور وہ مجھے اٹھا کر باتھ روم میں لے گیا۔ رات والی مشق پھر سے دہرائی گئی اور مجھے اپنے ساتھ
لے کر باہر نکلا تو دوسرا کہتا ہے ایک کس تو دے دو اور میری قریب آکر مجھے کس کرنے لگا اور ساتھ ہی لے گیا باتھ روم میں ایک بار پھر چودنے کی مشق چلی اب تو میں کھڑی بھی نہیں ہو پا رہی تھی اس لیے وہ مجھے باتھ روم کے
فرش پر چھوڑ کر باہر گیا اور تیسرا آگیا اس نے بھی بہت محنت اور لگن کے ساتھ میری گیم بجائی اور پھر چوتھا آیا اور اس
نے مجھے خود تو دیا لیکن میں پھر سے بےہوش ہو گئی۔
اس نے شاور چلایا اور پھر مجھے گود میں اٹھا کر باہر نکل آیا۔ بہت مشکل سے دودھ اور جوس پلا کر مجھے ہوش میں لائے
پھر سب نے اپنے ہاتھوں سے مجھے ناشتہ کروایا اور چائے پی۔اس کے بعد میں نے کہا کہ اب مجھے چھوڑ دو تو انہوں
نے کہا آپ پریشان نہ ہوں گاؤں کے سارے بچے یہاں آکر پولیو کے قطرے پیئنگے۔ مجھے شلوار پکڑاتے ہوئے کہا بس آپ تیار ہو جاؤ۔ میں نے شلوار پہنی تو انہوں نے پھر مجھے چارپائی کے ساتھ بیٹھا کر باندھ دیا اور گاؤں کے بچوں
کو اکھٹا کرنے لگے۔
جب کوئی 20 بچے ہو گئے تو انہوں نے دو دو بچوں کو اندر داخل کیا اور میرے پستان چوسنے کا کہا۔ پہلے دو بچے 10 منٹ تک میرے ممے چوستے رہے اور پھر دو اور دو اور اس طرح 12 بجے تک بچے آتے رہے اور میرے مموں کے
ساتھ کھیلتے رہے کچھ بچے تو اتنے شیطان تھے کہ بار بار منع کرنے کے باوجود چک لگاتے رہے۔
اب کھانا آیا تو میں رو دی اور کہا کہ مجھے بس واپس جانا ہے جب دل ہلکہ ہو گیا تو انہوں نے کہا کچھ کھاؤ گی تو جاؤ گی نہ
اور ہم نے کھانا کھایا پھر میں ان کے درمیان لیٹ گئی اور 4 بجے تک سوئی۔ اٹھی تو ان کمینوں نے پہلے سے بچے جمع کئے تھے۔ اس بار مجھے باندھا بھی نہیں بلکہ زمین پر لیٹنے کا کہا میں نا چاہتے ہوئے بھی لیٹ گئی اور مموں کو چوسنے کا
سلسلہ شروع ہو گیا دو بچے جاتے دو آتے میری تو جان نکل گئی۔خیر شام ہو گئی بچوں کا سلسلہ بند ہوا تو میں الٹا لیٹ گئی اور اپنے مموں کو زمین کے ساتھ دبانے لگی کیونکہ درد ہو رہا تھا۔شام کا کھانا کھانے کے بعد ان سب نے میری
سنگم کے پھر سے مزے لئے اور میرے پیٹ کے نیچے تکیہ رکھ کر مجھے الٹا لٹا دیا اب کیا تھا دروازہ کھولا اور ایک لڑکا آیا اس نے اپنا گھوڑا میری بنڈ میں ڈالا اور مجھے گھما کر رکھ دیا۔خیر وہ پیچکاری مار کر گیا اور دوسرا آگیا اس نے بھی
میری بنڈ بندوق کی اور پھر تیسرا، چوتھا، پانچواں اور اس کے بعد میں ہوش میں نہیں رہی لیکن صبح مجھے نہلاتے ہوئے بتایا گیا کہ کل رات 23 لڑکوں نے تمہارا گانڈ مارا ہے۔
بس پھر کیا تھا 6 دن اور مجھے وہاں رکھا گیا اور دن کو اسی طرح بچے آتے دو دو اور ایک دن میں کم از کم 25-30 جوڑے بچے میرے پستان چوستے اور رات کو کم از کم 20-25 لڑکے میری بنڈ بندوق کرتے۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے میرے ساتھ یہ بھلائی کی کہ مجھے میرے بتائے ہوئے ہسپتال لے گئے۔۔۔ ایک ہفتہ تو مجھے ڈرپس لگتی
رہی اور طاقت کی دوا کھاتی رہی ۔۔۔ صحت تو بحال ہو گئی لیکن آج بھی سنگم اور بنڈ کا سوراخ ایک ہے۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "بہادری مہنگی پڑی"