Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

دوگزچادر



میں نے ایک زور دار گھونسہ اس کے چہرے پہ جڑ دیا تو وہ بلبلا اٹھا ۔اور الٹ کر گر گیا۔
کتے ۔ اگر آئیندہ میری نظروں کے سامنے بھی آئے تو میں جان سے مار دوں گا۔
حرام زادے۔ میری منہ سے مغلظات کا سلسہ چل نکلا۔
میں غصے سے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میر ا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کمینے کا منہ توڑ دوں۔
مرزا کے ہونٹ پھٹ گئے تھے ۔اور اسکی باچھوں سے خون رس رہا تھا۔
وہ خون خوار نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔
یکدم اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔
ایک خون جلا دینے والی مسکراہٹ۔
میرے ایک کے نہ کہنے سے کیا ہو جائیگا ریان گل صاحب۔
وہ خباثت سے اپنے جیب سے رومال نکالتے ہوئے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے بولا۔
پور اشہر تھو تھو کر رہا ہے تم پہ۔
میں غصے سے دانت پیس کے رہ گیا۔
سبھی کہتے ہیں کہ حشمت گل کا ولایت پلٹ بیٹا کوٹھے کی زینت کو گھر کی زینت بنا لایا ہے۔
وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
میں تیزی سے اسکا منہ نوچنے اسکی طرف جھپٹا مگر تھر تھر کانپتی درشہوار اچانک ہم دونوں کے درمیان آ گئی اور مجھے بازو سے پکڑ لیا۔
مت الجھیں اس سے ریان۔
وہ سسکتے ہوئے بولے۔
خدا کے واسطے مرزا صاحب چپ ہو جائیں۔ وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔
میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے۔
ہائے۔ وہ سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بغیرتی سے بولا۔
اتنا کیا جادو کر دیا ہے گل صاحب پہ ۔کہ تمہارے لئےہم غریبوں کی جان لینے پہ بھی تل جاتے ہیں۔
وہ ڈھٹائی سے بولا۔
میرے صبرکا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔اس کی بکواس سے میرا دماغ میں چنگاریاں بھر گئیں تھیں۔
میں نے یکدم درشہوار کو دھکا دے کر ایک طرف کیا اور مرزا پہ پل پڑا۔
چند ہی لمحوں بعد اس کا منہ اور سر خون سے لتھڑ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بھابی انھیں سمجھائیں۔
بڑی مشکل سے مرزا ہوش میں آیا ہے۔خدا نخواستہ وہ مر جاتا تو بھائی کو پھانسی کے تختے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی تھی۔وہ تو شکر ہے میرے سمجھانے بجھانے اور لتاڑنے پہ وہ ٹل گیا ہے ورنہ اتنی پبلک اور وی آئی پیز کے سامنے جس بیدردی سے آپ نے اسے مارا تھا سبھی آپ کے خلاف اپلیکیشن دینے کو تیار تھے۔
آئی جی سرمد بیچارگی سے بولا۔
درشہوار نے ایک نظر میری طرف دیکھا اورہچکیا ں لے لے کر رونے لگی۔
بھائی خدا کے لئے اپنا نہ سہی مگر بھابی کا تو کچھ خیال کرو۔
سرمد مجھے لتاڑتے ہوئے بولا۔
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
آپ ایسا کرو کچھ دن کے لئے بھابی کو لے کر لنڈن چلے جاؤ۔ کچھ دن وہاں رہو گے تو تمہارے ساتھ ساتھ بھابی کی طبیعت پہ بھی اچھا اثر پڑے گا۔
میں نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا تو وہ تاسف سے سر ہلاتا ہو چلا گیا۔
درشہوار نے میری طرف اپنی آنسوؤں بھری آنکھیں اٹھا کر دیکھا ۔اور نظریں جھکا لیں۔
ان آنسوؤں کی قدر و قیمت کا بخوبی ادراک تھا مجھے۔ آنسو درحقیقت جذبات ہوتے ہیں۔ پڑھنے والے ان جذبات و احساسات کو بخوبی سمجھ جاتے ہیں۔ وہ لوگ جن کو اپنے اندر چھپی اندوناک کہانی بیان کرنے میں دقت ہوتی ہے تب ان کے آنسو الفاظ کا روپ دھار لیتے ہیں۔
مت روئیں شہری۔ میں نے پیار سے اسکو پکارتے ہوئے کہا۔
وہ تڑپ کے اٹھی اور میرے قدموں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میرا دل دھواں دھواں ہونے لگا۔
میں اسے خود کے قریب کیا اور بھینچ کر اپنے سینے سے لگا کر پیار سے اسکے سر کو سہلانے لگا۔
٭٭٭٭٭
میرے بابا حشمت گل ایک بہت بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ساہیوال شہر کے گاوں میں ہماری فیملی قیام پزیر ہو ا کرتی تھی۔ بابا سیاسی اثر رسوخ رکھتے تھے اور علاقے میں خاصے با اثر تھے۔میں شروع ہی سے بابا کا لاڈلا تھا۔اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے بہت خود سر تھا۔ہمیشہ اپنی من مانی کرنا۔ بابا بھی میری ہر ضد کو پورا کرتے۔
میڑک کے بعد میں لند ن چلا گیا۔لندن سکول آف اکنامکس سے ایم بی اے کے بعد میں نے ایک کمپنی کی بنیاد ڈالی جو امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتی تھی۔
بابا چاہتے تھے کہ میں انکی طرح زمیندارا کروں اور سیاست میں قدم رکھوں لیکن میں اپنی لائف کو اپنے طریقے سے جینے کا عادی تھا۔
تھوڑی سی بحث و تکرار کے بعد میں نے لاہور میں کام شروع کر دیا۔
سخت محنت نے مجھے امپورٹ ایکسپورٹ کے بزنس میں ایک الگ دلا دیا۔بہت سے ملٹائے نیشنل گروپ نے مجھ سے شراکت داری کر لی اور یوں میں ایک بہت بڑے گروپ کا ایم ڈی بن گیا۔
میری بچپن سی ایک ہی محبت تھی ۔ درشہوار۔
جو ہمارے منشی مقبول عرف راجہ کی بیٹی تھی۔اس سے بڑا ایک بھائی بھی تھا جو ایک کالج میں زیر تعلیم تھا ۔ جس کے اخراجات بابا ہی ادا کرتے تھے۔
درشہوار خوبصورتی میں یکتا بے مثل تھی۔
اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ منشی راجہ کی بیٹی ہے۔منشی راجہ اور اسکی بیوی ثمینہ دونوں کالے اور بے ڈھنگے سے تھے۔
اور درشہوار کو دیکھ کر ہر کوئی انھیں شک کی نگاہ سے دیکھتا جس پہ دونوں میاں بیوی کھلکھلا کر رہ جاتے۔وہ تھی ہی ایسی۔ کیچڑ میں کھلا ہوا پھول۔ جو اپنی تمام تر رعنائیاں سمیٹے اپنی جوانی کی ننھی ننھی کونپلیں نکال رہا تھا۔
جب میں لنڈن گیا تو بہت اداس تھا۔ا ن دنوں در شہوار پورے سولہ سال کی ایک خوبرو اور حسنین کلی بن چکی تھی۔
میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس کو یوں چھوڑ کر میں ولایت چلا جاؤں۔
لیکن میں مجبور تھا۔
لندن میں کچھ ماہ تک میں بہت اداس رہا۔
مجھے ہر مہینے باقعدگی سے درشہوار کا محبت نامہ ملتا جسے میں عقیدت سے چوم لیتا۔اپنی پلکوں سے لگاتا اور اپنے تکیے تلے رکھ کر سوتا۔
کبھی کبھار فون پہ بھی اس سے بات ہو جاتی ۔
خیر مہنیوں سال میں اور سال سالوں میں گزر گئے۔
لند ن کی رنگینیوں میں ، میں نے درشہوار کو یکسر فراموش کر دیا۔
کچھ مہینوں تک باقعدگی سے خطو ط آتے رہے۔
پھر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔
دس سال بعد میں پاکستان لوٹا تو حالات بدل چکے تھے۔
بابا صوبائی وزیر بن چکے تھے۔
لیکن درشہوار کے خاندان کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
میرے با رہا پوچھنے پہ بابا نے بتا یا کہ درشہوار کا بھائی یونیورسٹی میں اپوزیشن پارٹی کے صدر کی لڑکی کو لے کر بھاگ گیا تھا۔
انھوں نے سارا ملبہ بابا پہ گرا یا اور اسکو اغوا کی واردات کا نام دے کر پورے شہر میں مظاہرے کروائے۔
اپوزیشن رہنماوں نے بھی خوب ہلا مچایا۔
پھر بڑی مشکل سے دونوں کو ڈھونڈ ا گیا۔
لڑکی ان کےحوالے کی گئی۔
پھر بعد میں شہوار کے بھائی کا ایکسیڈینٹ ہو گیا جو زخموں کی تا ب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
لیکن بابا کے سیکریٹری نے مجھے بتایا کہ وہ حادثہ نہیں مرڈر تھا۔جو چوہدری وریام بخت نے اپنی بیٹی کے بھاگنے اور پورے جگ میں پگڑی اچھل جانے کے غم میں کیا۔
منشی راجہ نے اپنا بوریا بستر باندھا اور لاہور چلے گئے۔گو کہ بابا قانونی چارہ جوئی کرنا چاہتے تھے مگر راجہ انکل نے بابا کو ہاتھ جوڑ دیے۔بقول انکے بیٹے کے بعد انکا واحد سہارا صرف درشہوار ہی ہے۔ کل کلاں اسے کچھ ہو گیا تو وہ جیتے جی مر جائیں گیں۔
بابا پہلے پہل تو ہر ماہ باقعدگی سے منی آرڈر کرواتے تھے۔ مگر ایک دن راجہ انکل کا خط آیا کہ وہ ایک سیٹھ کے ہاں ملازمت کرتے ہیں۔انکی اچھی گزر اوقات ہو رہی ہے۔
ساتھ انھوں نے شکریہ بھی لکھ بھیجا۔
لیکن یہ آدھا سچ تھا۔
حقیقت میں لاہور کے مشہور سیٹھ نواز خان کو درشہوار پسند آ گئی تھی۔
اس نے منشی راجہ کو ملازمت پہ رکھ لیا اور اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔
درشہوار تئیس سال کی دوشیزہ بن چکی تھی۔نیلگوں آنکھیں، ستواں ناک رس بھرے گلابی ہونٹ جن کو دیکھ کر سیٹھ نواز کے منہ میں پانی بھر آتا تھا۔
بالآخر ایک دن درشہوار سیٹھ نواز کی دلہن بن گئی۔
اس کے سارے ارمان پتنگے کی مانند بکھر گئے۔اس نے اپنے وجود کو سینچ سینچ کرمیرے لیے سنبھال رکھا تھا۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی مگر اس کے آنسو کوئی پونچنے والا نہ تھا۔کوئی ایسا نہ تھا جو اسکی فریاد کو سن سکتا۔
سہاگ رات کو وہ جس کرب سے گزری وہ لفظوں سے بیاں نہیں کیا جا سکتا تھا۔
رفتہ رفتہ اسے صبر کرنا آ گیا۔
ماں باپ دونوں خوش تھے۔
انکی خوشی کی خاطر اس نے اپنے لبوں پہ مسکراہٹ سجا لی۔
اسی دوران اسکو پتا چلتا ہے کہ سیٹھ نواز پہلے سے ہی شادی شدہ ہے اور دوسری بیوی سے نوجوان اولاد بھی ہے۔جو قصور کے ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔
لیکن وہ خاموشی سےاس کڑوے سچ کو اپنے دل میں رکھے اپنے دن گزارتی ہے۔
اسی دوران گزرتے سالوں کے ساتھ اسکے ماں باپ بھی راہ ابدی کی جانب ہو لیتے ہیں۔
گھر گاڑی اور اتنے نوکر چاکر ہو نے کے باوجود بھی وہ خود کو بہت مفلس اور لاچار سمجھتی ہے۔
اسی دوران سیٹھ نواز شوگر کا شکار ہو جاتا ہے۔
پھر کچھ سالوں بعد وہ بھی ہارٹ اٹیک سے مر جاتا ہے۔
مرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ سیٹھ نواز نے اپنا سب کچھ اپنی پہلی بیوی بچوں کے نام لکھ دیا ہے۔
وہ کوٹھی کار وغیرہ پہ قبضہ کر لیتے ہیں اور اسکو دھکے مار کر گھر سے نکال دیتے ہیں۔
درشہوار کا دنیا میں اپنے دور کے ماموں جو اسکی امی کا خالہ زاد ہوتا ہے کے پاس پناہ کے لیے آتی ہے۔
اس دوران بابا حشمت کے پاس جانے کا سوچتی ہے مگر اسے یاد پڑتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر جس کی بیٹی کو اسکا بھائی نے بھگایا تھا نے دھمکی دی تھی کہ اگراس کاخاندان ساہیوال کی حدود میں کبھی نظر بھی آئے تو وہ اسکی بیٹی کو اٹھا لے گا ۔وہ ساہیوال کا ارادہ ترک کر دیتی ہے۔
جب کوئی سبیل نظر نہیں آتی تو وہ اپنے ماموں کے ہاں پناہ لے لیتی ہے۔
ماموں اکرام اسکی ماں کاخالہ زاد بھائی تھا۔
جاتے ہوئے وہ کافی رقم اور زیور لائی تھی۔
ابتدا میں اکرام کا رویہ بہت مشفقانہ رہا۔ وہ اسے اپنی سگی بھانجی کی طرح ہی رکھتا ۔گھر میں کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی۔ ماموں رنڈوا تھا ۔جو سویرے سے ہی کام پہ نکل جاتا تھا۔اور وہ زیادہ تر گھر میں اکیلی ہی رہتی۔
لیکن جلد ہی یہ عقدہ کھلا کہ وہ اول درجے کا نشئی ہے۔جو ہیروئین کا نشہ کر تا تھا۔اسکے علاوہ میڈم رانیہ کے ہاں دلالی کرنا ہی اس کا کام دھندہ تھا۔
میڈم رانیہ لاہور شہر کی معروف بائی تھی جس کے پاس بھانت بھانت کا حسن کا ہجوم تھا جسکی پوری قیمت وصول کی جاتی۔
وہی سے اکرام کو نشے کی لت پڑ ی تھی۔ جو سیٹھ اور دوسرے اوباش لوگ دے جاتے وہ نشے میں اڑا دیتا۔ایک دن نشے کی حالت میں اس نے رانیہ کے کسی معتبر کلائینٹ سے بد تمیزی کی۔
میڈم رانیہ نے دھکے مار کر اسے نکال دیا۔
گھر میں فاقے ہونے لگے تو درشہوار نے ایک سکول میں ملازمت کر لی۔ اور گزر بسر کرنے لگی۔لیکن جتنی تنخواہ ملتی اس سے دو دن کا نشہ بھی اکرام کا پورا نہ ہو سکتا تھا۔
ساری تنخواہ وہ نشے میں اڑا دیتا۔
درشہوار کو کوئی دوسرا ٹھکانہ نہ ملا۔وہ مجبورن اکرام کی من مانیاں برداشت کرتی رہی۔
پھر ایک دن بد بختی کا ایسا سورج نکلا جس نے درشہوار کی زندگی میں اندھیرے کر دئے۔
اکرام نے میڈم رانیہ سے درشہوار کا سودا کر دیا۔
رانیہ نے درشہوار کو دیکھا تو دیکھتی رہ گئی۔ایسی حسین مورت اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔
رانیہ کے غنڈے دن دیہاڑے درشہوار کو اٹھا کر اس کے اڈے پہ لے گئے۔
جہاں اس کو عصمت فروشی پہ مائل کیا جانے لگا۔
درشہوار نے دھمکی دی تھی کہ اگر اسے یہ دھندہ کرنے پہ مجبور کیا گیا تو وہ اپنی جان دے دے گی۔
میڈم رانیہ کی گھاگ طبعیت نے بھانپ لیا تھا کہ اگر اس نے ایسا کچھ کیاتو درشہوار اپنی جان لینے میں زرا بھی تامل نہ کرے گی۔اور وہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔
اس نے پیار کا کھیل کھیلا۔اور اسکو اپنی بیٹیوں کی طرح چاہنے لگی۔وہ غضب کی ایکٹر تھی۔
اس نے پیار کا ایسا کھیل میں درشہوار کو ایسا پھانسا کہ وہ اسکے جھانسے میں آگئی۔لیکن وہ عصمت فروشی سے انکاری ہی رہی۔لیکن رانیہ کا خیال تھا کہ ایک دن وہ ایسا کرنے پہ مجبور ہو جائیگی۔
لیکن کہانی میں ٹوسٹ تب آتا ہے جب میرے ایک دوست کی شادی کے موقع پہ رقص و سرود کی ایک محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس محفل میں شہر کی بہترین رقصاؤں کو مدعو کیا جاتا ہے۔اور اسی دوران کسی حیلے بہانے سے رانیہ میڈم درشہوار کو بھی اپنے ساتھ لے آتی ہے ۔ اسکا نیچ زہن کسی تگڑے گاہک کی تلاش میں ہوتا ہے جو درشہوار کے حسن کا خریدار بن جائے اور پھر وہ اپنی من مانی قیمت وصول کر سکے۔
لیکن اس دوران میں پاکستان واپس آ چکا ہوتا ہوں۔
شہریار جو ایم این اے کا بھی بیٹا تھا میرا جگر ی دوست تھا ۔ہم لند ن میں ساتھ ساتھ پڑھے تھے ۔
اسی دوران میری نظر درشہوار کی پہ پڑی جو رقصاؤں کے گروپ کے ساتھ شہریار کے پرائیویٹ اپارٹمنٹ میں داخل ہوتی ہے۔گو کے اسکے چہرے کی ہیت گزرتے سالوں کیساتھ تھوڑی بدل گئی تھی مگر میں نے ایک نظر میں ہی اسے پہچان لیا تھا۔
اسے ان کنجروں کے ساتھ دیکھ کر میں شاکڈ رہ جاتا ہوں۔
وہ جسے میں نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تھا آج ملی بھی تو کس حال میں۔
وہ سب سے الگ تھلگ رانیہ میڈم کیساتھ گم صم بیٹھ جاتی ہے۔اسکی نگاہیں بدستور جھکی ہی ہوتی ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ان مشاغل میں اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
میوزک آن ہو جاتا ہے اور رقاصائیں تھرکنا شروع کر دیتی ہیں۔
اس وقت محفل میں بگڑے ہوئے اوباش ہی تھے۔اور سبھی خاصی ترنگ میں تھے۔ ایسے میں درشہوار کو مخاطب کرنا خاصا دشوار تھا۔
میں آئستہ آئستہ کھسکتا ہوا اسکے پیچھے جا کھڑا ہوا۔
کسی نے مجھ پہ کوئی دھیان نہیں دیا۔
دفعتن درشہوار نے میڈم رانیہ کے کان میں سرگوشی کی تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ خاموشی سی اٹھی اور ایک جانب سے گزرتی واش روم چلی گئی۔
میں ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ہر کوئی مستی میں مگن تھا۔
شہریار سمیت سارے اوباش ترنگ میں آئے لڑکیوں کے ساتھ ناچ رہے تھے۔
اور بے دریغ نوٹوں کی کاپیاں پھینکتے جا رہے تھے۔
میں ہولے سے کھسکتا ہوا شہوار کے پیچھے چلا گیا۔
واش روم نیچے والے فلور پہ تھا۔میں واش روم کے دروازے پہ کھڑا ہوا گیا۔اندر پانی گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
پتا نہیں آج مجھے دیکھ کر اس کا کیا ری ایکشن ہوتا ہے۔
میں نے دھڑکتے دل کیساتھ سوچا۔
لیکن اسے رانیہ میڈم کیساتھ دیکھ کر ایک لمحے کے لئے میرا دل بجھ ضرور گیا تھا۔لیکن اس کے چہرے کی معصو میت اور بھولا پن اس کے دکھاوے کی چغلی کھا رہا تھا۔
وہ رانیہ کیساتھ ضرور تھی مگر کسی مجبوری کے تحت ۔ اور وہ مجبوری کیا تھی یہ مجھے جاننا تھا۔
چند ہی لمحوں بعد دروازے کی چٹکنی کھلنے کی آواز آئی۔
میرا دل زور سے دھڑکا گویا سینہ چیر کر باہر نکل آئیگا۔
چند ہی لمحوں بعد دروازا کھلا اور وہ جان تمنا باہر نکلی۔
چہرہ پانی سے بھیگا ہوا تھا۔جس کے قطرے موتیوں کی مانند جگمگا رہے تھے۔
مجھ پہ ایک نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹھک کر رک گئی اور غور سے میری شکل دیکھنے لگی۔
ت ت تم ریان ہو۔ وہ کانپتے لہجے کیساتھ بولی۔
کون ریان ۔ میں نے آواز کو بھاری بھرکم بناتے ہوئے کہا۔
اسکا دل بجھ گیا۔ آنکھوں میں آنے والی چمک پل بھر میں معدوم ہو گئی تھی۔
میرا دل کٹ کے رہ گیا۔
ویسے ریان ہے کون۔ میں نے دبے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
تھا ایک تماشائی۔
اس نے ایک سر د آہ بھرتے ہوئے کہا اور واپس مڑی۔
شہری۔ میں نے اسکو اسکے پچپن والے نام سے پکارا۔
اسکے بڑھتے قدم رک گئے۔
وہ پلٹ کر بے یقینی سے میری طرف دیکھنے لگی۔
میں ندامت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
میں نے اپنے بازو وا کر دیئے۔
وہ دوڑتی ہوئی آئی۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
یکدم میرے منہ پہ تھپڑوں کی بارش ہونے لگی۔
میں یکدم گھبرا گیا اور آنکھیں کھول کر اس کا وحشت زدہ چہرہ دیکھا۔
وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔
میرا سینہ منہ، غرض جو حصہ مل رہا تھا وہ اس پہ بے دریغ مکے برسائے جا رہی تھی۔
میں نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے۔ مگر اس نے ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑوائے اور پلٹ کر روتی بلکتی بھاگ گئی۔
میں پھٹی ہوئی شرٹ لئے حیران و سراسیمہ کھڑا رہا۔
٭٭٭٭٭
اگلے دن ہم رانیہ میڈم کے ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے۔
تو کیا یہ ہیں وہ صاحب جنکو ہماری بیٹی شہوار پسند آئیں ہیں۔
میری طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولیں۔
ہاں۔ اور انکو آپ معمولی بندہ نہ سمجھو۔
حشمت گل صاحب کےاکلوتے بیٹے ہیں۔ اور یہاں اچھا خاصا پھیلا ہوا کاروبار ہے انکا۔شہریار میری تعریف میں رطب السان ہوتے ہوئے بولا۔
ہمم۔ وہ ہنکارا بھرتے ہوئے گہری نظروں سے بولیں۔
ان کے والد صاحب سے اچھی طرح شناسائی ہے میری۔
وہ معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
میں جھینپ کر رہ گیا۔
لگتا ہے نئے شکاری ہو۔وہ کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بولی۔
ایسا ہی سمجھ لیں۔
میں نے کہا۔
لیکن انتخاب خوب ہے تمہارا میاں ۔
وہ داد بھرے لہجے میں بولی۔
میری بیٹی ہیرا ہے ہیرا۔
یہ بھی جوہری ہے رانیہ میڈم۔ اس سے پہلے میں کچھ بولتا شہریار بول اٹھا۔
اس ہیرے کے جتنے دام چاہیے وہ مل جائیں گے۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتی میں نے چیک نکالا اور اپنے سائن کر دیئے۔
رقم آپ بھر لینا رانیہ میڈم۔ میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
ارے وہ تو ٹھیک ہے میاں مگر میری شہوار ابھی بالکل بچی ہے۔وہ۔
اس نے مزید بولنا چا ہا مگر میں نے بات کاٹ دی۔
قطع کلامی کی معذرت رانیہ میڈم۔
آپ اسکا کمرہ مجھے دکھا دیں۔
میں خود اسے یہاں سے لے جاؤں گا۔
آپ سے وعدہ ہے اسے خراش تک نہیں آئی گی۔
لیکن۔ اس نے مزید بولنا چاہا مگر اب کی بار شہریار بول اٹھا۔
میڈم بے فکر رہیں۔چھوٹے گل صاحب بھی میرے ساتھ لندن میں رہے ہیں۔ ایسی مغرور لڑکیوں کو کیسے ہینڈل کیا جاتا ہے یہ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ آنکھ دباتے ہوئے بولا۔
رانیہ سوچ میں پڑ گئی۔
پھر اس نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک ملازمہ کو شہوار کو لانے کے لئے بھیجا۔
چند ہی لمحوں بعد وہ نمودار ہوئی۔
آنکھیں رو رو کر سوجھی ہوئیں تھیں۔
مجھے دیکھ کر ایک لمحے کے لئے ٹھٹھک گئی پھر اندر داخل ہوئی۔
کیا بات ہے کیؤں بلایا مجھے۔ وہ درشت لہجے میں بولی۔
بیٹی ۔ یہ اس نے میری طرف اشارہ کیا تو وہ پھٹ پڑی۔
نکل جاؤ۔ یہاں سے ۔ وہ غصے سے بولی۔
لیکن میں کچھ سننے والا نہیں تھا۔
میں نے اسکا بازو پکڑا اور اسے کھینچ کر لے جانے لگا۔
وہ برابر مزاحمت کرنے لگی۔
لیکن میری مضبوط گرفت میں پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔
میں اسے کھینچتا ہوا اپنی گاڑی تک لے آیا۔اور پچھلی سیٹ کا دروازا کھول کر زور سےا سے اندر پٹخ دیا۔
شہریار اور میڈم رانیہ میرے پیچھے شور مچاتے ہوئے آ رہے تھے۔
آپ فکر نہ کریں۔ ہم اسے ڈنڈے کی طرح سیدھا کر دیں گے۔شہریار رانیہ کے ہواس باختہ چہرے کو دیکھتے ہوئے
خباثت سے بولااور فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گیا۔
میں نے گاڑی کا رخ سیدھا اپنی کوٹھی کی جانب کر دیا جہاں ایک قاضی اور گواہان موجود تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭
درشہوار سے نکاح کرنے کے بعد میڈم رانیہ نے بہت شور مچایا اور مجھ پہ درشہوار کے اغوا کا مقدمہ دائر کر دیا۔
لیکن یہ الٹا اس کے گلے کا جنجال بن گیا۔
درشہوار نے میرے حق میں گواہی دے دی۔ تو ساری قانونی پیچیدگیاں دم تو ڑ گئیں۔
پھر ایک دن بینک سے ستر لاکھ کے چیک کی کنفرمیشن کال وصول ہوئی۔
جو میں نے کلیر کر دی۔
یوں رانیہ میڈم نے بھی قیمت وصول کر لی۔
اور میں خود اسکو کچھ دینا چاہتا تھا ورنہ کنجر حضرات کچھ لئئے بغیر جان بخشی نہیں کرتے ۔
درشہوار کو میں نے پا لیا تھا مگر رانیہ کے چکلے میں گزارے گئے آیام اسکی زات پہ سوالیہ نشان تھے۔
پارٹی میں اس رات کافی لوگوں نے رانیہ کیساتھ شہوار کو دیکھا تھا۔
اسکی ذات کو لوگ نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
بزنس ڈنر اور دیگرتقریبات میں اسکی ذات پہ کیچڑ اچھالا جاتا۔
جسے وہ اور میں خود ہنس کر برداشت کرتے ۔
مگر لوگوں نے معمول بنا لیا۔
خاص کر مرزا جو میرا کاروباری حریف بھی تھا سے اکژ اوقات منہ ماری ہو جاتی تھی۔
اور کل تو اس نے حد کر دی تھی جس کی وجہ سے میرا اس پہ ہاتھ اٹھ گیا تھا۔
شہوار بڑی ہمت اور استقامت سے لوگوں کی جلی کٹی باتیں برداشت کرتی تھی۔بقول اسکے۔ لوگوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا وقت نہیں ملتا اور دوسروں پہ قدغن لگانے میں دیری نہیں کرتے۔
٭٭٭٭٭
آج موسم بہت خوشگوار تھا۔
میں اسے لیکر ایک کافی شاپ آیا۔
کافی شاپ میں نوجوان طبقے کی بھیڑ تھی جو اپنی وقتی لوگائیوں سمیت بیٹھے تھے۔
میں اور درشہوار ایک کونے میں بیٹھ گئے۔
ارے یہ تو وہی ہنسوں کا جوڑا ہے۔پاس ہی کچھ لڑکے ہم پہ آوازیں کستے ہوئے بولے۔
دیکھ دیکھ تجھے ویڈیو دکھاتا ہوں۔ کیسے اس ہیرو نے اپنی ہیرون کے لیے دوسرے لڑکے کی پٹائی کی تھی۔
میری کانوں کی لوئیں تپ رہی تھیں۔
وہ بہت آئستہ آواز میں بول رہے تھے مگر ہم بخوبی سن رہے تھے۔
درشہوار کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔
ہاں یار۔ کتنا بری طرح سے مار رہا ہے ۔
دوسرا لڑکا تاسف سے بولا۔
"اپنے گھر کی دو گز چادر سنبھالی نہیں جاتی اور لگے ہیں دوسرے کو مارنے"۔یہ طوائف ذادیاں ایسے ہی مرغے پھانس کر عیش کر تی ہیں۔اور اس جیسے نواب صاحب کتے کی مانند دم ہلاتے رہتے ہیں۔
ایک حرامی اپنا فلسفہ جھاڑتا ہوا بولا۔
میں نے غصے سےاٹھنا چا ہا مگر شہوار نے میرا ہاتھ تھام لیا۔
اسکی آنکھوں میں التجا تھی۔ آنسو متواتر اسکی نیلگوں آنکھؤں سے جوق در جوق بہہ رہے تھے۔
وہ بکواس کرتے رہے اور میں سنتا رہا۔اور صبر سے بیٹھا رہا۔
پھر سبھی بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔
درشہوار کا چہرہ یکلخت جیسے سیاہ پڑ گیا تھا۔ وہ تھکے ہوئے انداز میں اٹھی اور
لمبے لمبے ڈگ بھرتی باہر چلی گئی۔
٭٭٭٭
آج ہفتہ کا دن تھا۔
کب تک واپس آئیں گیں۔
شہوار نے میرے گال پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
آج اس کا موڈ بہت خوشگوار تھا۔چہرے پہ ہلکا سا میک اپ تھا۔ بہت اجلی اور نکھری لگ رہی تھی۔
9 بجے تک آ جاؤں گا۔لیکن لیٹ بھی ہو سکتا ہوں۔میں نے اس اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
نہیں۔ آج لیٹ مت ہونا۔ وقت پہ آ جانا۔
وہ کسمساتے ہوئے بولی۔
کیوں۔ آج خیریت تو ہے نا۔ میں نے اپنی یاداشت پہ زور دیتے ہوئے کہا۔
آج نہ تمہارا برتھ ڈے ہے نہ ہی میرا۔ اور ہماری شادی کو ابھی سال ہوا نہیں ۔
میں نے اسکی ناک پہ چٹکی کاٹتے ہوئے کہا۔
سر پرائز ہے آپ کے لئے۔وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
کیا۔ میں نے کہا۔
آپ کو دیر ہو رہی ہے۔ جائیں۔ ٹھیک نو بجے آ جانا۔ورنہ میں رو رو کر برا حال کر لوں گی۔
وہ دھمکی دیتے ہوئے بولی۔
ارے بابا نہیں ۔ آجاؤں گا۔ میں نے کہا اور اسے گڈ بائے کس دے کر چلا گیا۔
رات کو ٹھیک نو بجے میں گھر کی دہلیز پہ پہنچا۔
پوری کوٹھی میں بے پناہ اندھیرا تھا۔
جنریٹر بھی آن نہیں تھا۔
فیروز چچا۔ میں نے اپنے چوکیدار کو آواز دی مگر
مگر کوئی رد عمل نہیں آیا۔
میرا دل انجانے خوف سے دھڑک اٹھا۔
سب کدھر چلے گئے ہیں۔
میں نے سوچا۔
میں اپنے موبائل فون کی منحنی سی لائٹ کا سہار الیتے ہوئے اپنے بیڈ روم تک پہنچا۔
کمرے سے ہلکی ہلکی روشنی آ رہی تھی۔
جیسے ہی میں نے درواز ا کھولا مجھ پہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
کمرے خوشبوؤں اور دلکش روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔
بیڈ روم پھولوں کی سیج سے لدا پھدا ہوا تھا جسکے وسط میں درشہوار پالتی مارے بیٹھی تھی۔
اس نے سرخ رنگ کا فراک پہناہوا تھا۔ وہ سر جھکائے ہوئے تھی۔ ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکان رقص کر رہی تھی۔
آہ۔ میرے لبوں سے ایک کراہ نکلی۔
اپنی دلہن کی منہ دکھائی کا تو کوئی تحفہ نہ لاسکا۔
میں دھپ سے اسکے پاس گرتے ہوئے بولا۔
ویسے یہ سر پرائز بہت شاندار لگا۔
میں نے کمرے میں ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
اس نے میرا ہاتھ چوما اور آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولی۔
جو تحفہ خدا نے مجھے عطا کر دیا ہے اس کے آگے تما م دنیا ہیچ ہے۔
وہ جذباتی لہجے میں بولی۔
کونسی مووی کا ڈائیلاگ ہے۔
میں نے شرارتی لہجے میں کہا۔
وہ بے اختیار ہنس پڑی اور میرے بازو پہ ہلکی سی دھپ لگا دی۔
میں نے جوتے اتارے اور اسکے بالوں کی چوٹی سے پکڑ کر خود کے قریب لایا اور اسکے یاقتی لبوں کو اپنے لبوں کےحصار میں قید کر لیا۔
آج اس کی آنکھیں بند نہیں تھیں۔ بلکہ میری آنکھوں میں گڑھی ہوئیں تھیں۔درشہوار کی نگاہوں میں عجیب سے چمک تھی۔ گویا مجھے قتل کر دیں گیں۔
میرے لب اسکے شیریں لبوں سے پیوستہ تھے۔
جسے میں دیوانہ وار چوم رہا تھا۔
چومتے چومتے یکدم میں نے اسکی چھاتیوں پہ ہاتھ ڈال کر انھیں سہلانا شروع کر دیا۔
میں دوپٹہ کھینچ کر اسکی صراحی دار گردن کو آزا د کر کے چومنے لگا۔
شہوار کی سانسوں کی روانی تیز تر ہو گئی تھی۔
میں اسکی قمیص کا پلو اٹھا کر اسکا پیٹ ننگا کر دیا۔
دودھیا گورا پیٹ سانسوں کی تیز تمازت سے لہروں کی مانند ہلکور ے کھا رہا تھا۔میں اسکے گورے پیٹ پہ جھک گیا اور اپنی زبان چلانے لگا۔
شہوار نڈھال سی ہونے لگی۔
اسکا پیٹ کا نرم گوشت میرے زبان پھیرنے سے اوپر نیچے ہو رہا تھا۔
میرا لن اکڑ چکا تھا۔
میں نے اسکی شلوار اتار کر گھٹنوں سے نیچے کر دی۔
اور اسکی کالی پینٹی پہ ہاتھ پھیرنے لگا جو گیلی ہو چکی تھی۔
میں نے تیزی سے خود کو لباس کی قید سے آزاد کیا اور مکمل ننگا ہو گیا۔
اس دوران شہوار عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتی رہی جس کا مفہوم میں نہ سمجھ سکااور نہ ہی میں نے توجہ دی۔
خود کو بے لباس کرنے کے بعد میں نے شہوار کی قمیص اتار دی اور اسکا سیاہ برا اور سرخ پینٹی کو ایک طرف پھینک دیا۔
وہ مکمل ننگی ہو چکی تھی۔
میں جھک کر اسکی چھاتیوں کے ابھاروں کو منہ میں دبا کر باری باری چوسنے لگا۔اور ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے اسکی پھدی کے نرم لبوں کو دبانے لگا۔
وہ دبی دبی سسکاریاں بھرنے لگیں۔
جلد ہی اسکی پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔
میر ا ہاتھ اسکی پھدی سے نکلنے والی منی سے تر بتر ہو گیاتھا۔
وہ گہرے گہرے سانس لے کر ہانپنے لگی گویا میلوں دوڑ کر آئی ہو۔
کچھ لمحے یونہی گزر گئے۔
پھر میں نے اس کی گانڈ کے نیچے تکیہ سیٹ کیا اور اسکی ٹانگیں اٹھا لیں۔
وہ بھی پوری طرح سے لن لینے کو تیار تھی۔
ٹانگیں اٹھاتے ہی اس کے چوتڑ فٹ با ل جیسے ابھر کر آئے۔
گو کہ اس کا جسم متناسب تھا مگر چوتڑوں پہ گوشت کی خاصی فراوانی تھی۔
اور جب میں جھٹکے مارتا اسکی چوتڑوں سے ٹکراتا تو ایک مزے کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا۔
اس کے چوتڑ خاصے بھر بھرے اور نازک تھے۔
میں نے جیسے ہی ٹانگیں اٹھائیں اسکی گانڈ کا سوراخ میری نگاہوں میں آ گیا۔
میرا لن نے ایک بھرپور انگڑائی لے ۔
میں نے اپنے لن کو تھوک سے لتھیڑا اور اسکی پھدی کے سوراخ میں گھسیڑ دیا۔
خاصی ٹائٹ پھدی تھی۔ اور درشہوار اسکا خوب خیال رکھتی تھی۔
لن پھنس پھنس کر اندر باہر جا رہا تھا۔
میری سانسوں کی رفتاربھی خاصی تیز تھی۔
میرے منہ سے لذت بھری سسکاریاں نکل رہی تھیں۔
میں سکون سے جھٹکے مار تا رہا۔
پچک پچک کی آوازوں سے لن اندر باہر ہو رہا تھا۔
شہوار کی آہیں ابھر رہی تھیں۔
وہ سسک رہی تھی اور میرے نیچے اس کا انگ انگ مچل رہا تھا۔
اسکے چوتڑ ربڑ کی مانند لچکتے مٹکتے بل کھا رہے تھے۔
شہوار کی پھدی کی آگ لمحہ بہ لمحہ بڑ ھ رہی تھی۔
میں چھوٹنے کے قریب ہو گیا تھا۔
میں اپنی رفتار تھوڑی تیز کر دی۔
پورا بیڈ کانپنے لگا۔
شہوار کی گول مٹول چھاتیاں زور زور سے ہل رہی تھیں۔
میں تیز جھٹکے لگاتا رہا بالآخر میرے لن سے پچکاریاں پھوٹنے لگیں اور میں ڈھیر ہو گیا۔
٭٭٭٭٭
ٹن ٹن ٹن۔
آلارم کی تیز گھنٹی نے مجھے شدید نیند سے بیدار کر دیا۔
میں آنکھیں ملتا ہو ااٹھ کھڑا ہوا۔
کمرے میں شہوار نہیں تھی۔
لیکن اسکے وجود کی مہک سے ابھی تک کمرہ مہک رہا تھا۔
میں جمائی لی اور اٹھ کھڑا ہوا۔
رات ساری چودائی میں ہی گزر گئی تھی۔ہم دونوں بہت لیٹ سوئے تھے۔
میں شہوار کو آوازیں دیتا ہوا کچن میں داخل ہو امگر کچن خالی تھا۔
ٹی وی لاؤنج میں شہوار نظر آئی۔
وہ صوفے پہ دراز ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
اسکی پیٹھ میری طرف تھی۔
تم یہاں ہو اور میں تمہیں جانے کب سے ڈھونڈ رہا ہوں۔
میں نے پیچھے سے اسکے گلے میں بانہیں حمائل کرتے ہوئے کہا۔
لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اب موڈ کیوں خراب ہے بیگم صاحبہ کا۔
میں نے چھلانگ لگا کر صوفے پہ دھمکتے ہوئے کہا۔
اچانک اسکا وجود لڑکھڑا کر ایک طرف بیجان ہو کر گر پڑا ۔
میری چیخ نکل گئی۔
شہوار کیا ہوا۔
میں اسے دیوانہ وار جھنجھوڑنے لگا۔ مگر کوئی حرکت نہ ہوئی۔
شہوار اٹھو ۔ ہوش میں آو۔ یہ کیسا مذاق ہے۔
لیکن جواب ندارد۔
میں نے اسکی نبض چیک کی۔
وہاں گہرا سکوت تھا۔
میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
٭٭٭٭
ریان ۔ بھابی کے ہاتھ سے یہ تحریر کیا ہوا کاغذ ملا ہے۔سرمد میرے ہاتھ پہ وہ کاغذ رکھتے ہوئے بولا۔
پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آ گئی ہے۔انکی موت چوہے مار ادویات کے استعمال سے ہوئی ہے ۔
وہ تاسف سے بولا۔کل تک باڈی مل جائیگی۔
اس نے میرا کندھا تھپتھپایا اور چلا گیا۔
میں نے تہ کیا ہوا کاغذ کھولا جس پہ درج ذیل الفاظ رقم تھے۔
" کفن نہیں۔ صرف دو گز چادر۔
میں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے نکلنے والے آنسوؤں کے سمندر کے آگے بند باندھنے کی ناکام کوشش کی۔
۔
ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں for "دوگزچادر"