Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

بہن یا بیوی ؟(قسط 1)

 


زندگی میں آنے والے لمحات کیا سے کیا بنا دیتے ہیں اس بارے ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا ۔ زندگی اپنے اچھے برے رنگوں کے ساتھ گزرتی جاتی ہے ہر دن اگلے دن کو جنم دیتا ہے اور ہر کہانی اگلی کہانی کو جنم دیتی ہے ۔ ہمارے ارد گرد ہزاروں لاکھوں چہرے ہیں ہر چہرے کے پیچھے ایک کہانی چھپی ہے اور ہم ہر وہی کہانی پسند کرتے ہیں جس سے ہمارا خمیر گندھا ہو جس میں ہمیں دلچسپی ہو۔ ایسے ہی ایک کردار سے میں اس کہانی میں آپ کو ملانے جا رہا ہوں اور جس پہ بیتی ہوتی ہے وہی جانتا ہے حقیقت کیا ہے ہر کسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے ۔ تو چلتے ہیں کہانی کی طرف۔

مرا نام ناصر ہے اور میرا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے امی ابو دونوں سرکاری ملازم ہیں اور ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں مجھ سے بڑی دو بہنیں نصرت اور فائزہ پھر میں اور میری بعد فروا جو سب سے چھوٹی ہے ۔ بڑی دو بہنوں کی شادی ہو چکی اور میری بھی ، وہ اپنے اپنے گھر کی ہو چکی گھر میں امی ابو اور میں میری بیوی اور فروا ہوتے ہیں یہ کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے ۔ اس سے پہلے کی زندگی ایک سادہ زندگی تھی جس میں کوئی بھی غلطی شامل نہ تھی، سکول سے کالج یونیورسٹی اور پھر شادی سارا کچھ ایک دم ہی ہو گیا میں نے بھی زندگی میں کبھی کسی خرابی کی طرف بڑھنے کی کوشش نہیں کی ۔ تعلیم کے سولہ سال گزرنے کے بعد میری فورا سے نوکری بھی لگ گئی اس کے لیے میرے ابو کی بھرپور کوشش رہی اور میری نوکری لگتے ہی میری شادی کرا دی گئی جیسا کہ زیادہ تر گھروں میں یہی ہوا کرتا ہے ۔ میری جب شادی ہوئی جب میری عمر تقریبا تئیس سال تھی اور میری بیوی یعنی حنا کی عمر اٹھارہ سال تھی اور میری بہن فروا کی عمر سولہ سال تھی۔ میری بیوی ایک معصوم اور سادہ طبعیت کی ہے اور فروا (30 38 36 ) سایز ہو گا )اتنی ہی شرارتی اور نٹ کھٹ سی تو اس کے باوجود ان دونوں میں گہری دوستی ہو گئی اور زندگی اپنی تمام تر خوشیوں کے ساتھ گزرنے لگی ۔ ایک دن میں تقریبا دو بجے گھر میں داخل ہوا تو گرمی کا موسم اور شائد مئی کا مہینہ تھا میں جیسے ہی گھر داخل ہوا تو گھر میں خاموشی تھی میں نے یہی سوچا کہ سب سو چکے ہوں گے تو اپنے کمرے کی طرف بڑھتا گیا ہمارا گھر دو منزلہ ہے دو بیڈ روم ڈرائنگ روم کچن اور لاونج نیچے جبکہ تین بیڈ روم اوپر اور ہر کمرے کے ساتھ الگ باتھ روم بھی ہیں میں اور حنا اوپر کے پورشن میں رہتے تھے امی ابو نیچے ایک روم میں اور دوسرے میں فروا ہوتی تھی ۔ تو میں لاونج سے گزرا تو مجھے کچن میں کچھ آواز آئی جیسے کسی نے برتن اٹھا کہ رکھے ہوں میں دبے قدموں کچن کی طرف بڑھا میرا ارادہ تھا کہ جو بھی کچن میں ہو گی اسے ڈراوں گا ۔ فروا اور حنا تقریبا ایک جیسی ہی تھیں تب تک میں نے ان پہ اتنا غور نہیں کیا تھا بیوی کا تو ظاہر ہے سارا جسم دیکھ چکا تھا مگر بہن کیسی دکھتی ہے یہ کبھی سوچا تک نہ تھا کہ عام طور پہ ایسی سوچ کو گندگی اور غلاظت ہی سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہی ہے ۔ میں جب کچن کے دروازے میں پہنچا تو مجھے لگا کہ حنا برتن دھو رہی ہے اور اس کی پشت میری طرف ہے اس نے وہی کپڑے پہنے ہوئے تھے جو وہ ایک دن قبل پہنے ہوئی تھی لیکن رات کی گرمجوشی کے بعد صبح اس نے کپڑے بدل لیے تھے اور پرانے کپڑوں میں اسے دیکھ کر مجھے یہی خیال آیا کہ اس نے یہی دوبارہ کیوں پہنے ہوں گے ۔ میں دبے قدموں آگے ہوا اور ہاتھ کو تیزی سے اس کے کولہوں کے درمیان گھسا دیا میں نے یہی سمجھا تھا کہ حنا ہی ہو گی اور میرا ہاتھ لگنے سے وہ پیچھے مڑے گی تو اسے بازووں میں بھر لوں گا لیکن جیسے ہی میرا ہاتھ کولہوں کے درمیان لگا مجھے لمحے کے ہزارویں حصے میں یہ علم ہو گیاکہ یہ کم ازکم حنا نہیں ہے ۔ ادھر میرا ہاتھ اپنے کولہوں میں لگتا محسوس کر کہ جیسے ہی اس کے منہ سے اوئی کی آواز نکلی اور وہ بجلی کی تیزی سے پیچھے مڑی تو میں تو جیسے کاٹو تو لہو نہں ایک دم ساکت حیران اور پریشان ہو گیا اور وہ بھی کیونکہ وہ فروا تھی مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ بھی سرخ ہو گیا اور آنکھیں نیچے جھک گئیں ، مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ہکلاتے ہوئے میرے منہ سے یہی نکلا سس سوری یہ کپڑے تو حنا کے تھے ہم دونوں بہن بھائی کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی اور فروا کے بھی ہاتھ پاوں کانپ رہے تھے ۔ ہم دونوں خاموش کھڑے تھے کہ سمجھ ہی نہں آ رہی تھی کہ بات کیا کی جائے ۔ فروا زمین کی طرف دیکھ رہی تھی اور ہولے ہولے کانپ رہی تھی میں بھی پوری طرح بوکھلا چکا تھا میں نے پھر کہا سوری فری مجھے لگا کہ حنا ہے کہ کپڑے اس کے تھے، میں نے اس کی طرف دیکھا لیکن فروا نے آنکھیں زمین پہ رکھتے ہی جواب دیا کوئی بات نہیں بھیا لیکن آپ یہ غور کر لو کہ ہم میں بہت فرق ہے یہ غلطی پھر نہ ہو جائے۔ میں فروا کی بات سن کر بہت شرمندہ ہوا اور اسے سوری کہتا ہوا تیزی سے کچن سے باہر نکل گیا ۔

میں اسی طرح بوکھلایا ہوا اوپر کمرے کی طرف بھاگا کہ جیسے بھوت دیکھ لیا ہو، کمرے میں جیسے ہی داخل ہوا تو حنا سو رہی تھی اسے سوتا دیکھ کہ میں نے بھی سکون کا سانس لیا اور جوتے اتار کہ جلدی سے باتھ میں گھس گیا ۔ باتھ میں گھستے ہی میں نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جسے میں نے انجانے میں اپنی ہی بہن کی گانڈ کے لمس سے آشنا کروا دیا تھا ایک لمحے کے لیے مجھے اپنے ہاتھ کی انگلیاں شکریہ کہتی نظر آئیں لیکن اگلے ہی لمحے ضمیر صاحب نے میری چھترول شروع کر دی کہ بیغرت انسان کچھ تو سوچتے ہوئے بھی سوچو کیا گندی بات سوچ رہے ہو حرامی اور میں نے بوکھلا کہ ہاتھ کمر کے پیچھے کر لیا اور پھر خود ہی اپنی اس حرکت پہ بےبسی سے ہنس پڑا۔ میری زندگی میں ایسا کچھ کبھی کسی غیر سے بھی نہیں ہوا تھا جو میری ہی حماقت سے سگی بہن کے ساتھ ہو گیا اور میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ فری نے حنا کے کپڑے پہنے ہوں گے کیونکہ سب سے چھوٹی اور سب کی لاڈلی تھی اور اس کی الماری تو کپڑوں سے بھری ہوئی تھی اس لیے مجھے سو فیصد یقین تھا کہ یہ حنا ہی ہو گی عام طور پہ دوپہر کے کام وہی کرتی تھی ۔ میں نے باتھ میں نہانا شروع کر دیا اور ایک بار پھر غیر ارادی طور پہ میرا نظر میرے ہاتھ پہ پڑی تو اس بار مجھے اپنا لن جھٹکا لیتا ہوا محسوس ہوا جس نےایک بار پھر مجھے پریشان کر دیا ۔ میں اس لمحہ با لمحہ بدلتی حالت سے ایک دم بہت پریشان ہو گیا میرا دل مجھے سمجھا رہا تھا کہ جو ہوا سو ہوا اسے اب…. بھولنے کی کرو اور ضمیر بھی مجھے ڈانٹ رہا تھا کہ جو غلطی ہوئی وہ بس ایک غلطی تھی اور دوبارہ ایسا سوچنا بھی مت لیکن کوئی ایک اور قوت تھی جو مجھے سمجھا رہی تھی دیکھو میاں کتنی نرم بنڈ ہے ایسی نرم بنڈ تو تمہاری بیوی کی بھی نہیں ہے دیکھو تم نے ہاتھ لگایا تو کیسے مکھن کے جیسی نرم اورملائم تھی کاش کہ چھونے کے لمحات کو زرا اور طویل کرتے۔ اس قوت کے ساتھ پھر ضمیر میاں مجھے سمجھاتے کہ بچے جو ہو گیا بہت غلط تھا لیکن ایک غلطی تھی اسے دوبارہ نہیں… دوہراو گے تو اچھا ہو گا دوبارہ دوہراو گے تو زلیل ہو جاو گے ۔ لیکن ساتھ وہ قوت بھی میری برداشت کا برابر امتحان لے رہی تھی کہ کاش تم اسے پیچھے سے جپھی ڈالتے اور اپنا لن اس بنڈ میں گھساتے تو لن کو بھی اس غلطی کا مزہ مل جاتا، یعنی ایک حرکت نے میری سوچ کا سارا انداز بدل دیا تھا۔ خود سے لڑتے لڑتے نہایا اور بستر پہ آ کر گر گیا حنا بھی بدستور سو رہی تھی انہی سوچوں میں تڑپتے جانے کب میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گیا(اچھی لگے تو بتانا ضرور مجے اچھا لگے گا)

میری جب آنکھ کھلی تو میری بیوی میرے اوپر جھکی ہوئی مسکرا رہی تھی اس نے مجھے آنکھیں کھولتے دیکھا تو مسکراتے ہوئے میرے ناک کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے پکڑتے ہوئے بولی میرا سوہنا جاگ گیا اور میرے جواب کا انتظار کرنے سے پہلے ہی میرے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ لگا دئیے۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر لیے اور انہیں چوسنے لگا ۔ وہ بیڈ کے کونے پہ بیٹھی تھی اور میرے اوپر گری ہوئی تھی اس کی گانڈ میرے لن کے پاس تھی اور ممے میرے سینے پہ تھے لیکن پاوں زمین کی طرف لٹکے ہوئے تھے۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے ایک ہاتھ سے اس کی کمر کو سہلانا شروع کر دیا ۔ ہونٹ چوستے چوستے میں نے کمر کو سہلانا جاری رکھا اور ہاتھ آہستہ آہستہ نیچے کرتا گیا اور اس کے کولہوں کے اوپر ہاتھ رکھا جیسے ہی میرا ہاتھ اس کی گانڈ تک پہنچا میرے زہہن میں ایک دم فروا کی گانڈ کا لمس جگا اور میرے جسم کو ایک جھٹکا لگا میری آنکھیں ایک دم کھل گئیں اور میں نے دیکھا کہ حنا آنکھیں بند کیے میرے ہونٹ چوسنے میں مشغول ہے ۔ ایک لمحے میں ہی ضمیر نے مجھے ملامت کی اور میں نے اپنی توجہ حنا کی طرف کرتے ہوئے اس کے ہونٹ چوسنا شروع کر دئیے لیکن میرے ہاتھ کو بار بار یونہی لگتا جیسے کہ وہ فروا کی گانڈ کے درمیان پھر رہے ہوں۔ حنا کی گانڈ پہ ہاتھ پھیرتے مجھے احساس ہوا کہ یہ گانڈ میری بہن کی گانڈ کی نسبت چھوٹی ہے اور اس پہ گوشت بھی نہیں میں اپنے زہہن کو اس سوچ سے ہٹاتا لیکن اگلے ہی لمحے پھر یہ سوچ میرے زہہن میں چھا جاتی ۔ حنا اس سب سے بے خبر میرے ہونٹ چوسے جار رہی تھی اس نے پہلے میرے نچلے ہونٹ کو چوسا پھر اوپر والے ہونٹ کو اور پھر ایک گہری سی سانس لیکر میرے ہونٹ چھوڑ دئیے اور مسکراتے ہوئے مجھے دیکھنے لگی اور بولی ۔ جناب آئے اور آ کہ سو گئے اور مجھے بتایا تک نہیں ایک دم ساری بات میرے زہہن میں آ گئی کہ دن میں کیا ہوا تھا اور میں تھوڑا پریشان ہو گیا۔ وہ اسی طرح میرے اوپر جھکی ہوئی مسکرا رہی تھی مجھ سے اور کوئی جواب نہ بن پڑا تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا بس زرا کچھ طبعیت ٹھیک نہیں تھی سر درد تھا تو بس آ کہ سو گیا کہ تم بھی سو رہی تھیں اور باقی سب بھی ۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ماتھے پہ ہلکا سا مارا اور مسکراتے ہوئے بولی چلیں اٹھیں اب ادھر آپ کی بہن صاحبہ کے سر میں درد ادھر جناب کے سر میں درد اور آپ کی اماں نے شور ڈال رکھا کہ دونوں کو جگا کہ لاو چائے سب مل کہ پیئں ۔ یہ ایک نارمل بات تھی عام حالات میں لیکن کیونکہ میرے اندر چور تھا اس لیے فروا کے سر میں درد کا سن کہ میں اندر سے گھبرا گیا اور ہڑ بڑا کہ اوپر اٹھنے کی کوشش کی لیکن کیونکہ میرے اوپر حنا تھی اس لیے مکمل اوپر نہ ہو سکا، میں نے بوکھلاہٹ میں پوچھا فرحی کو کیا ہوا ۔ میرے اس طرح بوکھلانے سے حنا کھلکھلا کہ ہنس پڑی اور میرے سر کے نیچے سے بازو گزارتے ہوئے مجھے اوپر اٹھانے لگی میں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور اٹھ بیٹھا کہ میری ٹانگیں بیڈ پہ لمبی تھیں اور وہ میرے گلے میں بازو ڈالے اپنی ٹانگیں نیچے لٹکائے میرے طرف مڑی میرے گلے سے لگی ہوئی تھی۔ حنا نے مسکراتے ہوئے کہا اسے کچھ نہیں ہوا بس یہی سر درد کا کہہ رہی تھی اور یوں چھوٹی چھوٹی بات پہ پریشان نہ ہوا کریں جانو اور مجھے کس کہ گلے سے لگا لیا۔ میں نے بھی جوابا اسے جپھی ڈال لی اور دل میں سوچا جس وجہ سے پریشان ہوں تمہیں پتہ چلے تو تمہاری بھی ہوش اڑ جائیں گے۔ میں نے نارمل ہونے کے لیے اس کے گال کو چوما اور اس سےپہلے کہ مزید آگے بڑھتا وہ اچھل کہ پیچھے ہو گئی اور ہنستے ہوئی بولی چلیں اب جلدی سے ہاتھ منہ دھو کہ نیچے پہنچیں میں فروا کو لیکر جاتی ہوں ، میں نے بھی ہنستے ہوئے اس کی طرف بازو کھولے اور اسے بازوں میں آنے کا اشارہ کیا لیکن اس نے منہ سے زبان نکال کہ مجھے چڑایا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ میں بھی جلدی سے بیڈ سےاٹھا اور ہاتھ منہ دھو کر نیچے اتر گیا جہاں امی لاوئنج میں بیٹھی ہوئی سبزی چھیل رہی تھیں میں نے ان کو سلام کیا تو انہوں نے جواب دیا اور پوچھا کیا حال ہے اب طبعیت کیسی ہے ان کی نظر میں ماؤں جیسی ازلی فکر تھی ۔ میں ہنستے ہوئے ان کے پاس پہنچا اور انہیں کہا ارے امی جی اب میں بالکل ٹھیک ہوں دھوپ میں زرا سا سر درد ہو گیا تھا۔ امی نے مجھے دلاسہ دیا اور موسم کو برا بھلا کہنےلگیں اور پھر بولیں جاو فریج میں تمہارے لیے شربت رکھا ہے وہ نکال کہ پی لو اور ان نکمیوں سے بھی بولو کہ چائے لائیں۔ میں امی کے پاس سے مڑا اور کچن کی طرف جانے لگا اتنے میں سامنے سے ابو بھی آتے دکھائی دئیے میں نے ان کو سلام کیا اور کچن کی طرف بڑھ گیا کچن کے دروازے پہ پہنچا تو دونوں دوسری طرف مڑی چائے بنا رہی تھیں اور آپس میں باتیں کر رہی تھیں میری نظر پڑی تو دونوں کی کمر میری طرف تھی میری نظر فورا پھسلتی ہوئی ان دونوں کی گانڈ کا موازنہ کرنے لگی اور یہ دیکھتے ہی مجھے بہت عجیب لگا کہ حنا کی نسبت فروا کی گانڈ موٹی تھی حالانکہ وہ عمر میں حنا سے چھوٹی تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ دو چھوٹے سائز کے تربوز کسی نے کاٹ کہ پتلی کمر پہ لگا دئیے ہیں اس کی نسبت حنا کی گانڈ چھوٹی تھی اور لمبوتری شکل میں تھی۔ میں ان کے پیچھے کچن کے دروازے میں کھڑا بغور ان کی گانڈ کا مقابلہ کر رہا تھا کہ اچانک فروا پیچھے ہٹی اور اس نے کچن کے کاونٹر کے نیچے بنے دراز کو جھک کہ کھولا اور اس میں سے کچھ نکالنے لگی۔ اس کے اس طرح جھکنے سے اس کی گانڈ پیچھے سے باہر نکل آئی اور مجھے اس کی درمیانی گلی کا علاقہ واضح طور پہ محسوس ہوا وہ شائد دس سیکنڈ یا اس سے بھی کم وقت جھکی لیکن میری نظر جیسے اس پہ چپک سی گئی اور وہ جب اوپر ہوئی تو اس کی کمیض اور شلوار دونوں اس کے چوتڑوں کے درمیان دھنس گئیں اور کچن کے دروازے پہ کھڑے ہی میں نے اس شلوار کے کپڑے کی قسمت پہ رشک کیا ۔ میرے دل میں اچانک یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کاش میی اس شلوار کا کپڑا ہوتاہر وقت اپنی بہن کے جسم کو محسوس تو کرتا۔جتنی شدت سے مجھے یہ خواہش آئی تھی اتنی ہی شدت سے مجھے شرمندگی نے گھیرلیا کہ کمینے انسان کچھ بھی سوچنے لگ جاتے ہو کچھ تو شرم کرو بہن ہے وہ تمہاری۔اس سے پہلے کہ ضمیر صاحب میری اور چھترول کرتے کہ پیچھے مڑ کہ دیکھتی حنا کی نظر مجھ پہ پڑ گئی اور وہ ہنستے ہوئے حنا سے بولی لو جی امی کا پیغام آ گیا۔ فروا نے بھی مڑ کہ میری طرف دیکھا اور جیسے ہی ہماری آنکھیں ملیں اس کی آنکھوں میں مجھے شرم اور ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ نظر آئی اور وہ دوسری طرف مڑتے ہوئے بولی امی کو بتائیں بس چائے پہنچنے والی ہے ۔ میں نے بھی کہا امی تو کہہ رہی ہیں اتنی دیر میں تو میں پائے بھی پکا لیتی تھی جتنی دیر ان لڑکیوں نے چائے پہ لگا دی ہے میں جا کہ بتاتا ہوں ابھی کہ کہتی ہیں بیس منٹ اور ہیں ۔ میری بات ختم ہوتے ہی فروا فورا پیچھے مڑی اور بولی کوئی ضرورت نہیں ہے ماسی فتنہ بننے کی یہیں رکو اور ہمارے ساتھ ہی چائے لے کہ جانا ۔ اس کے یوں کہنے پہ حنا اور میں مسکرا پڑے اور سچی بات یہی تھی کہ اس کی گانڈ میں پھنسی کمیض دیکھنے کا میرا بھی دل کر رہا تھا اور بار بار میری نظر اس پہ پڑ رہی تھی ۔ فروا نے پھر حنا سے کہا بھابھی آپ کپ لگا دیں ٹرے میں چائے ابل نہ جائے میں چائے دیکھ لیتی ہوں اور یہ کہتے ہوئے اس نے میری طرف مڑ کہ بھی دیکھا جس کی مجھے بالکل توقع نہ تھی اور میں مزے سے ٹکٹکی باندھے اس کی گانڈ کے نظارے میں گم تھا

میں امی کے پاس سے مڑا اور کچن کی طرف جانے لگا اتنے میں سامنے سے ابو بھی آتے دکھائی دئیے میں نے ان کو سلام کیا اور کچن کی طرف بڑھ گیا کچن کے دروازے پہ پہنچا تو دونوں دوسری طرف مڑی چائے بنا رہی تھیں اور آپس میں باتیں کر رہی تھیں میری نظر پڑی تو دونوں کی کمر میری طرف تھی میری نظر فورا پھسلتی ہوئی ان دونوں کی گانڈ کا موازنہ کرنے لگی اور یہ دیکھتے ہی مجھے بہت عجیب لگا کہ حنا کی نسبت فروا کی گانڈ موٹی تھی حالانکہ وہ عمر میں حنا سے چھوٹی تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ دو چھوٹے سائز کے تربوز کسی نے کاٹ کہ پتلی کمر پہ لگا دئیے ہیں اس کی نسبت حنا کی گانڈ چھوٹی تھی اور لمبوتری شکل میں تھی۔ میں ان کے پیچھے کچن کے دروازے میں کھڑا بغور ان کی گانڈ کا مقابلہ کر رہا تھا کہ اچانک فروا پیچھے ہٹی اور اس نے کچن کے کاونٹر کے نیچے بنے دراز کو جھک کہ کھولا اور اس میں سے کچھ نکالنے لگی۔ اس کے اس طرح جھکنے سے اس کی گانڈ پیچھے سے باہر نکل آئی اور مجھے اس کی درمیانی گلی کا علاقہ واضح طور پہ محسوس ہوا وہ شائد دس سیکنڈ یا اس سے بھی کم وقت جھکی لیکن میری نظر جیسے اس پہ چپک سی گئی اور وہ جب اوپر ہوئی تو اس کی کمیض اور شلوار دونوں اس کے چوتڑوں کے درمیان دھنس گئیں اور کچن کے دروازے پہ کھڑے ہی میں نے اس شلوار کے کپڑے کی قسمت پہ رشک کیا ۔ میرے دل میں اچانک یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کاش میی اس شلوار کا کپڑا ہوتاہر وقت اپنی بہن کے جسم کو محسوس تو کرتا۔جتنی شدت سے مجھے یہ خواہش آئی تھی اتنی ہی شدت سے مجھے شرمندگی نے گھیرلیا کہ کمینے انسان کچھ بھی سوچنے لگ جاتے ہو کچھ تو شرم کرو بہن ہے وہ تمہاری۔اس سے پہلے کہ ضمیر صاحب میری اور چھترول کرتے کہ پیچھے مڑ کہ دیکھتی حنا کی نظر مجھ پہ پڑ گئی اور وہ ہنستے ہوئے حنا سے بولی لو جی امی کا پیغام آ گیا۔ فروا نے بھی مڑ کہ میری طرف دیکھا اور جیسے ہی ہماری آنکھیں ملیں اس کی آنکھوں میں مجھے شرم اور ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ نظر آئی اور وہ دوسری طرف مڑتے ہوئے بولی امی کو بتائیں بس چائے پہنچنے والی ہے ۔ میں نے بھی کہا امی تو کہہ رہی ہیں اتنی دیر میں تو میں پائے بھی پکا لیتی تھی جتنی دیر ان لڑکیوں نے چائے پہ لگا دی ہے میں جا کہ بتاتا ہوں ابھی کہ کہتی ہیں بیس منٹ اور ہیں ۔ میری بات ختم ہوتے ہی فروا فورا پیچھے مڑی اور بولی کوئی ضرورت نہیں ہے ماسی فتنہ بننے کی یہیں رکو اور ہمارے ساتھ ہی چائے لے کہ جانا ۔ اس کے یوں کہنے پہ حنا اور میں مسکرا پڑے اور سچی بات یہی تھی کہ اس کی گانڈ میں پھنسی کمیض دیکھنے کا میرا بھی دل کر رہا تھا اور بار بار میری نظر اس پہ پڑ رہی تھی ۔ فروا نے پھر حنا سے کہا بھابھی آپ کپ لگا دیں ٹرے میں چائے ابل نہ جائے میں چائے دیکھ لیتی ہوں اور یہ کہتے ہوئے اس نے میری طرف مڑ کہ بھی دیکھا جس کی مجھے بالکل توقع نہ تھی اور میں مزے سے ٹکٹکی باندھے اس کی گانڈ کے نظارے میں گم تھا فروا نے میری طرف دیکھا اور مجھے اپنی گانڈ کی طرف دیکھتے محسوس کر کہ اس نے ایک عجیب سی نظر مجھ پہ ڈالی جس میں ہزاروں شکوے اور شکایت تھی۔ آنکھوں کی زبان دنیا کی آسان ترین زبان بھی ہے اور مشکل ترین بھی کہ اگر احساسات ملتے ہوں تو یہ زبان بہت ہی آسان ہے احساس اور محبت نہ ہو تو یہ زبان سب سے مشکل بن جاتی ہے۔ اپنی یہ بہن کہ جو مجھے شائد اپنی جان کے برابر ہی عزیز تھی جس سے بے انتہا پیار بھی تھا میں اس کی نگاہ کا شکوہ ایک دم سمجھ گیا کہ اسے یوں میرا اس کا جسم دیکھنا اچھا نہیں لگا۔ اب بچی تو وہ بھی نہیں رہی تھی اور نہ میں بچہ تھا بس ایک حادثے نے مجھے میرے مقام سے گرا دیا تھا اور افسوس یہ تھا کہ میں سنبھلنے کے بجائے مزید گرتا ہی جا رہا تھا شائد میری بہن کی سفید گول مٹول گانڈ جس کی اٹھان برفیلی پہاڑیوں کے جیسی تھی اور جس کی گئرائی بھی ناقابل بیان کہ جس گہرائی میں گرنے والے ہمیشہ اسی گہرائی میں رہنا چاہیں ۔۔ لیکن اس کا جسم جتنا بھی حسین ہو معاشرتی مزہبی اخلاقی طور پہ میرا اس پہ کوئی حق نہ تھا اور یہی ہمیں پڑھایا سمجھایا بھی گیا تھا کہ تم اس پھل کے مالی اور رکھوالے تو ضرور ہو لیکن یہ کھانا کسی اور کے نصیب میں ہے اور بالکل اسی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مالی جتنا بھی توجہ دے جتنا بھی پیار کرے یہ پھل یہ پہاڑیاں یہ گہرائیاں اس کی نہیں ہیں چھونا تو درکنار یہ انہیں دیکھنے کا بھی حقدار نہیں تو اسی لیے معاشرتی سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا یہ عمل اپنی جگہ درست تھا وہیں مجھے بھی یہ عمل زلت کی گہرائی میں گراتا گیا اور مجھے اپنا آپ بہت برا اور کم ظرف محسوس ہوا میں کچن کے دروازے میں ہی کھڑا تھا لیکن مجھ پہ جیسے گھڑوں پانی پڑ چکا تھا ۔ میں اپنے آپ کو کوس رئا تھا کہ اچانک فروا کی مسکراتی آواز میرے کانوں میں پڑی میں نے بوکھلا کہ دیکھا تو وہ میرے سامنے کھڑی تھی مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ بولی اگر آپ کا ارادہ یہیں بت بن کہ کھڑے ہونے کا نہیں تو چلیں چائے تیار ہو چکی ہے۔ میں نے اس کے ہنستے چہرے اور اس کے پیچھے کھڑی حنا کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا رہی تھی میں ایک دم کورنش بجا لانے والے انداز میں جھکا اور اسے فرشی سلام کرتے ہوئے بولا ملکہ عالیہ کا اقبال بلند ہو خادم استقبال کے لیے تیار ہے ۔میرے یہ کہنے پہ حنا بھی مسکرائی اس کے ہاتھ میں بھی ٹرے تھی اور مسکراتے ہوئے بولی آپ بہن بھائی یہاں شاہی انداز بناتے رہو میں تو جا رہی ہوں چائے لیکر اور ہمارے پاس سے گزرتی گئی، فروا نے اچٹتی ہوئی نظر مجھ پہ ڈالی اور وہ بھی حنا کے پیچھے چل پڑی، میں بھی ان دونوں کے پیچھے چل پڑا لیکن ایک دو قدم اٹھاتے ہی میری نظر ایک بار پھر بھٹک گئی اور سیدھی بہن کی تازہ رس بھری جوان مٹکتی ہوئی گانڈ کی اچھل کود میں کھو گئی جو اس کے ہر قدم کے ساتھ اچھل کہ اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ میں نے ایک بار پھر اپنی نظر کو اپنے دل کو کوسا لئکن بہت کوشش کے باوجود بھی اپنی نظر کو وہاں سے نہ ہٹا سکا اور چلتے چلتے لاونج میں پہنچ گئے وہاں امی ابو کی موجودگی کے پیش نظر میں نے آنکھیں جھکا لیں اور شریف بچہ بن کہ بیٹھ گیا لیکن دل میں چور گھس چکا تھا اس سے چھٹکارا کیسے ممکن تھا۔ میں نے جیسے ہی اپنے سامنے پڑی پیالی کو اٹھا کہ منہ سے لگایا تو اور ایک گھونٹ بھرا تو مجھے یوں لگا جیسے میں نے نمک اور مرچ سے بھری کوئی چیز پی لی ہو، میں سمجھ تو گیا کہ یہ شرارت کی گئی ہے کیونکہ باقی سب نارمل انداز میں چائے پی رہے تھے میں نے ایک نظر سب کو دیکھا تو سبھی نارمل تھے لیکن اس دشمن جاں کے چہرے پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی میں سمجھ گیا کہ یہ شرارت اسی کی ہے ۔ میں نے سوچا کہ بول دوں لیکن پھر کچھ سوچ کہ چپ ہو گیا اور نمک اور مرچ سے بھری چائے پینے لگا جو کہ آسان کام تو نہ تھا لیکن میں باقیوں کی طرح نارمل رہتے ہوئے چائے کے گھونٹ بھرنے لگا۔ اس دوران ہم لوگ باتیں بھی کرتے رہے باقی سب کی چائے تقریبا ختم ہو رہی تھی جبکہ میں مشکل سے آدھا کپ پی پایا تھا لیکن میں نے ایک دو بار فروا کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ اب بےچینی کے تاثرات تھے اور مجھے چائے پیتا دیکھ کہ وہ بار بار پہلو بدل رہی تھی لیکن میں نارمل انداز میں گھونٹ بھر رہا تھا ۔ جیسے ہی ابو نے کپ نیچے چھوڑا فروا تیزی سے اٹھی اور میرے آگے سے آدھا کپ فورا اٹھا لیا اور تھوڑا چہرے پہ جبری مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی ارے بھائی آپ نے بھی جلدی چائے ختم کر لی جب کہ ابھی آدھا کپ باقی تھا وہ ٹرے میں باقی کپ اس طرح رکھ رہی تھی کہ میرا آدھا کپ کسی کو نظر نہ آئے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں کے کونوں میں پانی جھلملا رہا تھا ۔میں سمجھ گیا کہ وہ میرے چپ رہنے سے اب خود پہ ناراض ہو رہی ہے اور تبھی اس نے مجھ سے آدھا کپ پکڑلیا ہے فروا کپ سمیٹ رہی تھی تو امی نے حنا سے کہا بیٹی تم میرے اور ان کے کپڑے استری کر دو اور فرحی تم برتن دھو کہ رکھ دو شاباش، فرحی تو برتن سمیٹ کر کچن کی طرف چلی گئی اور حنا کپڑے استری کرنے چلی گئی اور میں امی ابو کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگ گیا دل تو میرا چاہ رہا تھا کہ جا کہ فرحی کو دیکھوں لیکن میں وہاں سے نہ اٹھا ہمیں باتیں کرتے کوئی پانچ منٹ گزرے تھےکہ امی نے مجھے کہا جاو فریج سے میری دوائی تو نکال لاو آج دن میں مجھے کھانا یاد ہی نہیں رہی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ابو نے زرا سخت لہجے میں امی سے کہا بیگم تم کم از کم اپنا خیال تو رکھا کرو گھر بچیوں نے سنبھالا ہوا ہے ماشااللہ سے اور تم اپنی صحت کا خیال خود کیا کرو ۔

میں چپکے سے اٹھا اور کچن کی طرف چل دیا کچن کے دروازے میں پہنچا تو فرحی برتن دھو رہی تھی اس نے قدموں کی چاپ سے مڑ کہ مجھے دیکھا تو اس کی آنکھیں جھلملائی ہوئی تھیں وہ پھر برتن دھونے لگ گئی میں نے کچھ بولے بغیر فریج کھول کہ امی کی دوائی اور پانی نکالا اور واپس چل دیا ۔ امی کو دوائی دی اور پانی بھی دیا انہوں نے دوائی کھا کہ مجھے دوائی اور گلاس پکڑایا اور میں وہ لیکر کچن کی طرف چل دیا، کچن کے قریب پہنچا تو فرحی کچن سے باہر نکل رہی تھی مجھے دیکھتے ہی واپس پیچھے ہٹ گئی میں جونہی کچن میں داخل ہوا اس نے ہاتھ بڑھا کہ مجھ سے گلاس اور دوائی لے لی اور گلاس کو سینک میں رکھ کہ فریج میں دوائی رکھنے لگی۔ جیسے ہی وہ فریج میں دوائی رکھنے کے لیے جھکی میری نظر ایک بار پھر اس کی گانڈ کے درمیان پڑی اور میں وہاں کھڑا ہو کہ اسے دیکھنے لگ گیا ۔ اس نے فریج کا دروازہ بند کیا اور میری طرف مڑ کہ مسکراتے ہوئے بولی کیا ایک بار مرچوں کی دھونی سے فرق نہیں پڑا جناب کو اور باز بالکل نہیں آئے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے لیکن میں نے ظاہر نہ ہونے دیا اور چہرے پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ارے گڑیا یہ تو مرچیں تھیں تم زہر بھی پلا دو تو قسم سے ایسے ہی خوشی سے پی جاؤں ۔ میری بات پوری ہوتے ہی وہ بجلی کی تیزی سے آگے ہوئ اور مجھے تھپڑ مارنے کی کوشش کی اس کی آنکھوں میں ایک دم آنسو بھر آئے اور روئانسی آواز میں مجھے مارنے کو لپکی۔ وہ جیسے ہی میرے قریب ہوئی اور اس نے بازو مجھے مارنے کے لیے اوپر اٹھایا میں نے وہی بازو پکڑ کہ اسے اپنے طرف کھینچ لیا اور وہ اپنے ہی زور میں میرے سینے سے آ لگی۔ جیسے ہی وہ میری سینے سے لگی تو اس کی نرم اور موٹے تازے ممے بھی میرے سینے سے لگے اور میں نے ایک بازو اس کی کمر کے گرد سے لپٹا کہ اس کو اپنے ساتھ جوڑ لیا۔ ہم بہن بھائی آپس میں بہت فری تھے اور عید پہ کسی خوشی کے موقعہ پہ گلے مل لینا یہ عام سی بات تھی اور اس سے کبھی کوئی گندہ خیال زہہن میں نہیں آیا تھا ۔

فروا کے لیے تو میرے ساتھ گلے ملنا شاید نارمل بات تھی اس لیے وہ بلا جھجک میرے گلے لگ گئی اس سے پہلے بھی ہم کئی ار گلے لگ جاتے تھے اس میں کوئی بڑی بات تو نہ تھی بلکہ ہزاروں لاکھوں بہن بھائی صورتحال کے ساتھ گلے ملتے رہتے ہیں لیکن اس بار وہ نہیں جانتی تھی کہ میرے اندر کچھ اور ہے یا شاید جانتی بھی تھی لیکن اگنور کر رہی تھی ۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ میں نے گلے سے لگائے ہی اس کے نرم مموں کی نرمی اور شیپ اپنی چھاتی پہ محسوس کی اور اس کی کمر کے گرد بازو لپیٹے اس کی جسم کی نرمی کو اپنے اندر تک محسوس کیا لیکن میں ساتھ اپنے یہ جزبات اسے بھی محسوس نہیں ہونے دینا چاہتا تھا اس لیے میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور پیار سے کہا کیا بات ہے فرحی اتنی جزباتی کیوں ہو رہی ہو، اس نے روتی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور میرے سینے پہ ہلکا سا مکا مارتے ہوئے بولی بدتمیز ایک تو مرچوں والی چائے بھی پی لی اور اب فضول باتیں بھی کرتے ہو بہت برے ہو آپ ۔ میں نے دوسرا بازو بھی اس کی کمر کے گرد کس لیا اور غیر محسوس انداز میں ہاتھ تھوڑا نیچے کر لیے جس سے میرا ہاتھ اس کی گانڈ جدھر سے شروع ہوتی تھی مطلب کمر کے نچلے حصے تک پہنچ گیا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا پاگل خود سوچو نا امی کے سامنے میں بولتا تو تمہیں کتنی ڈانٹ پڑ جاتی امی ابو سے اور حنا بھی تھی تو مجھے اچھا نہیں لگا کہ امی ابو سے تمہیں ڈانٹ پڑواؤں زرا سا نمک مرچ ہی تو پینا تھا وہ بھی تم نے آدھا ہی پینے دیا میں نے بات سنجیدہ انداز میں شروع کی اور آہستہ آہستہ بات کو مزاق کے انداز میں لے گیا اس کو بھی اندازہ ہو گیا اس نے اپنا آپ تھوڑا مجھ سے اور پیچھے کیا تو میں نے بھی ہاتھ ڈھیلے کر دئیے لیکن بازو کا حلقہ نہ توڑا اس سے میرے ہاتھ اس کی گانڈ پہ تھوڑا اور نیچے کھسک گئے، اس کی آنکھوں سے آنسو اس کے گالوں پہ آ چکے تھے۔ میں نے پھر کہا کہ دیکھو میں نے کسی کو نہیں بتایا اب تم ایسے منہ بناو گی تو سب کو پتہ چل جائے گا کچھ بات ہے پھر سب کو کیا وضاحتیں دو گی چلو اچھے بچوں کی طرح منہ دھو لو۔ اس نے میری طرف روتی ہوئی آنکھوں سے پھر ہنستے ہوئے دیکھا اور میرے سینے پہ ایک اور مکا مارا جواب کے طور پہ میں نے بھی بازو کا حلقہ کھولہ اور دائیں ہاتھ کا مکا بنا کہ وہیں پیچھے سے اس کی گانڈ پہ ہلکا سا مکا دے مارا اور کہا جلدی منہ دھو لو اس سے پہلے کہ کوئی کچن میں آ جائے، اس نے پلکیں اٹھا کہ میری طرف دیکھا اور ہلکی آواز میں بولی۔ بدتمیز انسان ۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کو چھوڑ دیا اور وہ کچن میں لگے واش بیسن کی طرف ہوئی تو مجھے فورا خیال آیا کہ یہ واش بیسن کے آگے کھڑی ہو گی اور پھر جھکے گی تو واش بیسن کے پاس پڑے فریج پہ میری نظر پڑی وہ اس دوران دوسری طرف مڑ چکی تھی میں تیزی سے فریج کی طرف بڑھا اور اس کا دروازہ کھولنے لگا لیکن میں نے دروازہ نہ کھولا وہ جیسے ہی وہ منہ دھونے لگی تو منہ دھونے کے لیے وہ تھوڑی آگے کو جھکی ہوئی تھی جس سے اس کی گانڈ تھوڑی سی پیچھے کو باہر نکلی جس کے انتظار میں میں فریج کا دروازہ پکڑے کھڑا تھا اور میری توقع کے بالکل مطابق اس کی گانڈ تھوڑا پیچھے ہوئی تو میری ٹانگ اس کی گانڈ سے ٹکرائی جو اسے محسوس ہوا اور وہ منہ دھوتے دھوتے آگے ہو گئی ۔ میرا اندازہ تھا شائد وہ آگے نہیں ہو گی لیکن جیسے ہی وہ آگے ہوئی میں نے فریج سے ہانی کی بوتل نکال لی۔ وہ بھی منہ دھو کہ واپس مڑی تو چاند چہرہ جیسے کھلا کھلا نظر آیا اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اور بالوں کی ایک آوارہ ماتھے پہ بھیگی ہوئی لٹ ۔۔گورے گورے گال اور نرم نرم ہونٹ میں تو اپنی بہن کو دیکھ کر مبہوت ہو گیا میں نے اسے پہلی بار ایک لڑکی سمجھ کہ دیکھا تھا تو مجھے یوں لگا کہ جیسے کوئی حور میرے سامنے کھڑی ہو میں اس کی حسن کی گئرائی میں ڈوب سا گیا۔

۔ اس نے جب مجھے یوں کھوئے ہوئے دیکھا تو میری آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی اور بولی اوئے جناب کدھر گم ہو گئے ہو؟؟ میں نے ہڑ بڑا کہ اسے دیکھا اور کہا مجھے لگا تھا میں جنت میں کسی حور کے سامنے کھڑا ہوں اس لیے گم صم ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی میں نے پانی کی بوتل اسے پکڑائی وہ کھلکھلا کہ ہنس پڑی اور پانی کی بوتل ایسے ہی لیکر منہ سے لگا لی اور بوتل کے ساتھ ہی پانی پینے لگی ۔ پانی پی کہ اس نے مجھے بوتل واپس تھمائی اور میں نے اسے دکھاتے ہوئے وہی بوتل اپنے منہ سے لگا لی اور پانی پینے لگا میں پانی پی رہا تھا کہ اس نے بوتل کے نچلے حصے پہ مکا مارا جس سے بوتل میرے منہ سے نکل گئی اور کچھ پانی میرے اوپر گرا وہ کھلکھلا کہ ہنس پڑی اور بولی آپ پہلی فرصت میں کسی آنکھوں والے ڈاکٹر کے پاس جانا ویسے جانا تو پاگلوں والے ڈاکٹر کے پاس بھی بنتا ہے آپ کا یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں اور مجھے پہلی بار لگا میری بہن کتنا مکمل مسکراتی ہے۔ پاگلوں والے ڈاکٹر کے پاس کیوں جاوں اوئے منحوس لڑکی ؟؟ میں نے مصنوعی غصے سے اس کی طرف دیکھا تو وہ ہنستی ہوئی میرے پاس سے گزر کہ کچن کے دروازے کی طرف بڑھ گئی اور کچن کے دروازے پہ رک کہ اس نے باہر کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف مڑی اور اور اپنے اوپر والے ہونٹ سے نیچے والا ہونٹ دبا کر بولی ۔ وہ اس لیے جناب کہ کوئی ہوشمند بندہ بہن کے ہپس پہ مکا نہیں مارتا ہوتا یہ کام پاگلوں کے ہی ہو سکتے ہیں ۔ یہ کہہ کہ اس نے مجھے زبان نکال کہ منہ چڑایا اور میرا جواب سنے بغیر ہی باہر بھاگ گ میں کچن میں ہی اس کی بات پہ حیران کھڑا رہ گیا کہ یہ چھوٹی مجھے کیا کہہ گئی ہے خیر میں نے پانی کی بوتل بھر کہ فریج میں رکھی اور باہر چلا گیا اور امی ابو کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد حنا اور فروا بھی آ گئیں اور ہم سب مل کہ باتیں کرنے لگے ۔ پھر وہ دونوں اٹھ کر کچن میں کھانا پکانے لگ گئیں اور میں امی ابو کے پاس بیٹھ گیا ۔میں محلے میں بہت ہی کم نکلتا تھا کیونکہ میری عمر کے لڑکے محلے میں بہت کم تھے بہت سے لڑکے بیرون ملک نوکری کے لیے جا چکے تھے جو یئاں پہ تھے وہ بھی اپنے کام دھندے میں مصروف ہوتے تھے تو میں گھر سے باہر کم ہی نکلتا تھا۔ امی ابو کے ساتھ باتوں میں مجھے فروا کے ساتھ ہوئی وہ باتیں بھول گئیں اور میں کچھ حد تک نارمل ہو گیا ۔ کھانا لگا ہم نے کھانا کھایا اور لڑکیوں نے برتن سمیٹے اور پھر ہم مطلب میں اور حنا اٹھ کر اوپر چل دئیے ۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے حنا کو پیچھے سے جپھی ڈال لی اور وہ بھی فورا میری طرف مڑی اور میرے گلے لگ گئی لیکن اس کے گلے لگتے ہی مجھے پہلا جو احساس ہوا اس سے مجھے پسینہ بھی آ گیا اس کے گلے لگتے ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ ارے اس کے ممے تو فرحی سے بھی چھوٹے ہیں ۔ ادھر حنا میری اندرونی کشمکش سے بے خبر میرے دل سے لگ چکی تھی اور اس نے میرے ہونٹ چوسنے شروع کر دئیے لیکن اس طرف میری حالت عجیب ہو چکی تھی میرے بازو اس کی کمر کے گرد تھے لیکن میرے ہاتھ میں جو لمس تھا وہ حنا کے جسم کا نہ تھا مجھے یوں لگ رہا تھا میرے بازووں میں میری بہن فروا ہے اور وہ میرے گلے لگی ہوئی ہے جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ میرے اندر کچھ عجیب سی قوت تھی مجھے جو یہ احساس دلا رہی تھی میرے ہاتھ میں میری انگلیوں پہ جہاں جہاں فرواکا جسم لگا تھا میرا جسم اسی کو دوبارہ محسوس کر رہا تھا حنا مائینس ہو چکی تھی اور فروا حواس پہ پوری طرح سوار ہو رہی تھی حنا پوری گرمجوشی سے مجھے چومے جا رہی تھی وہ میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوستی اور وہاں سے میرے گال تک پہنچتی پھر اس نے ہونٹ چوستے چوستے مجھے دبوچ لیا اور میں بھی بیتابی سے اسے چومنے لگا اور میرے ہاتھ اس کی جسم کے کمزور نشیب و فراز میں الجھتے گئے۔ اور وقتی طور پہ میں فروا کو بھولتے ہوئے اپنی بیوی کے جسم میں کھو گیا اور اسے پیار کرنے لگا۔ میں اس کے ہونٹ چوستے اس کے گال تک پہنچا اور پھر دونوں ہاتھوں میں اس کے بتیس سائز کے گول مٹول ممے پکڑ لیے اس کا ایک مما میری مٹھی میں پورا آ جاتا تھا کیونکہ اس کے ممے زیادہ بڑے نہیں تھے ۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم مکمل ننگے ہو چکے تھے اور وہ وہ بالکل ننگی میرے نیچے لیٹی ہوئی تھی ۔ میں نے جیسے ہی اس کی ٹانگوں کو اوپر کیا تو اس نے اپنا ایک ہونٹ دوسرے ہونٹ کے نیچے دبا کہ سسکی بھری اس کے اس طرح کرنے سے مجھے فورا فروا کا یہ انداز یاد آ گیا اور ایک بار پھر مجھے حنا کے بجائے اپنے نیچے فروا محسوس ہوئی ۔ میں نے اپنے لن کو اس کی پھدی کے پتلے ہونٹوں پہ رگڑا تو حنا نے سسکتے ہوئے اپنی پھدی کو اوپر اٹھا دیا۔ میں نے لن کو پھدی کے سوراخ پہ رکھا اور حنا کے چہرے کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا خیال ہے پھر جانی ۔۔ اس نے شرماتے ہوئے کہا جو آپ کا دل کرے اور آنکھیں بند کر لیں میں نے لن کو پھدی کے سوراخ پہ دبایا تو لن کی نوک پھدی کے سوراخ میں اتری جو کہ اندر سے گیلی ہو چکی تھی جیسے میں نے لن پہ اپنا دباو بڑھایا تو حنا کے چہرے پہ ہلکی تکلیف کے آثار پیدا ہوئے اور اس نے ہونٹ بھینچ لیے اس کے اس طرح ہونٹ بھینچنے سے مجھے ایک بار پھر فروا کی یاد آئی اور ایک دم مجھے بہت جوش سا آیا جس کے تحت میں نے ایک زور کا دھکا مارا جس سے میرا لن تقریبا آدھا حنا کی پھدی میں گھس گیا۔ حنا کے منہ سے ایک تیز سسکی نکلی اور اس کے چہرے پہ درد کے آثار پیدا ہوئے اور ساتھ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا اوئی “بہن چود” یہ گالی سنتے ہی مجھے بہت عجیب سا لگا کہ اس سے قبل ہم نے ایسے گالم گلوچ کبھی نہیں کی تھی لیکن حنا کے اس طرح کہنے پہ مجھے بہت عجیب لگا اور مزے کی شدت ایک دم بہت بڑھ گئی میں نے اس کے ہونٹ اپنے ہونٹ میں بھرے اور اسکی ٹانگوں کو تھوڑا اور اوپر کیا اور لن کو تھوڑا پیچھے نکال کہ ایک اور زور کا جھٹکا دیا اس بار میرا لن آدھے سے زیادہ حنا کی پھدی میں گیا اور وہ نیچے سے مچل اٹھی اور مجھے سینے پہ مکے مارنے لگی میں نے اس کے ہونٹ چھوڑے تو وہ بہت تیز تیز سانس لینے لگی جیسے بہت دور سے دوڑتی آئی ہو ۔ اب بتاو مجھے گالی دو گی بدتمیز عورت ۔۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا جو درد کے مارے بھیگ چکی تھیں ۔ یہ سوال پوچھتے میرا بھی دل کر رہا تھا وہ جواب ہاں میں دے لیکن ظاہر ہے اس کو یہ تو نہیں بتایا جا سکتا تھا کہ مجھے گالی پسند آئی ہے ۔ اس نے تیز سانسوں میں تھوڑا مسکراتے ہوئے کہا تو اتنے زور سے جھٹکا کیوں مارا تھا پھر آرام سے نہیں کر سکتے تھے ۔ ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میں نے آدھے لن کو اس کی پھدی سے باہر کھینچا لیکن باہر نہ نکالا اور پھر ایک زوردار دھکا لگا دیا اس بار پورا لن اس کی پھدی کی پھسلن کی وجہ سے اس کی پھدی میب اترا اور ساتھ اس کی دبی دبی چیخ نکلی اور اس چیخ کے ختم ہوتے ہی وہ پھر بولی اففف بہن چود بہن چود آرام سے کرو نا یہ کیا کر رہے ہو اس کے منہ سے گالی نکلتے ہی مجھے بہت عجیب سا لگا اور مجھے یوں محسوس ہوا مزے کی ایک لہر میری کمر کے نچلے حصے سے نکلی ہے اور پورے جسم میں سرائیت کر گئی ہے میرا پورا لن اپنی بیوی کی تنگ پھدی میں گھس چکا تھا جو کہ پہلی بار تو نہ تھی لیکن اب ایک رشتے کی سوچ نے اس احساس کو بہت الگ کر دیا تھا ایک انوکھا احساس جس کے لیے لفظ کوئی نہیں تھے ضمیر اور دل کی کشمکش الگ تھی لیکن جسم کو ملنے والا مزہ اور تھا ۔ اپنی بیوی میں اپنی ہی بہن کو محسوس کرنے کا ایک اور سا مزہ جس میں ندامت بھی تھی اور شرمندگی بھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور منہ اوپر کر کے اس کے ہونٹ چوسنے لگ گیا اس کی ٹانگیں اوپر اٹھی ہوئیں تھیں اور میں اس کی ٹانگوں کے درمیان تھا۔ اس کے سسکتے وجود پہ میرے ہونٹ چوسنے کا مثبت اثر ہوا اور وہ جوابا مجھے چومنے لگ گئی ۔ میں نے اس کے چہرے کو ہاتھوں میں بھرا اور اس کو چومنے لگا ۔ اپنے اندر ایک طرح کی شرمندگی مجھے بھی تھی کہ میں یہ کیا سوچ رہا ہوں انتہائی گھٹیا سوچ مجھ میں جانے کیوں آ رہی ہے لیکن پھدی کی جکڑ مجھے مزے اور سرور میں ڈبو رہی تھی۔

میں نے اس کے چہرے کو چومتے ہوئے لن کو آہستہ آہستہ آگے پیچھے کرنا شروع کیا تو اس کے جسم نے بھی ایک دم میرا ساتھ دینا شروع کر دیا میں نے دیکھا تو حنا کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں اور اس نے نیچے والے ہونٹ کو اوپر والے ہونٹ سے دبایا ہوا تھا۔ میں نے تھوڑا اوپر ہوتے ہوئے اس کے ممے پکڑ کہ نچلز کو مسلنا شروع کر دیا اور اس کے چہرے کو ہونٹوں کو چوستا بھی گیا اور اس سے پوچھا میری جانی ۔۔ حنا نے اسی طرح جھٹکے لیتے ہوئے بند آنکھوں کے ساتھ ہلکی سی ہوں کی۔ میں نے اس سے پھر پوچھا اب مزہ آ رہا ہے نا جانی کو؟؟ ساتھ میں نے ہلکے ردھم میں جھٹکے لگانا جاری رکھے اور اس کو چومتے ہوئے اس کے ممے دباتا گیا۔ اس کے چہرے پہ ایک شرمیلی سی مسکراہٹ آئی اور اس نے اپنے بازو میرے گلے میں ڈال کہ ایک لمحے کے لیے آنکھیں کھولیں اور میرے ہونٹ چومتے ہوئے بولی تو ایسے کرو گے تو مزہ ہی آئے گا نا پہلے تو بالکل جانوروں کی طرح کیا تھا۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور مصنوعی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا اوئے تم نے کس کس جانور کا لیا ہوا ہے کہ تمہیں یہ جانوروں کی طرح لگا ہے۔ اس کے چہرے پہ مسکراہٹ اور غصہ دونوں بیک وقت آئے اور اسی طرح سسکتے ہوئے بولی ہاں یہ گدھے جتنا بڑا لن ہے بہن چود جیسے گدھے لن نکالے پھرتے ہیں اسی طرح لمبا اور موٹا ہے میری نازک سی پھدی کی ستیاناس نکال دیتا ہے ابھی اس کی بات جاری تھی کہ میں نے ایک اور زوردار جھٹکا لگایا اور لن کو پورا باہر کھینچ کہ زور سے دوبارہ گھسایا میں چاہتا تھا مجھے وہ پھر گالی دے ۔ لیکن اب کی بار اس کے منہ سے سسکی کے ساتھ افففف امی ی ی ی نکلا اور اس نے مجھے ٹانگوں میں دبا لیا میں نے اس کے منہ سے یہ نکلتے ہی اپنے چہرے پہ سنجیدگی طاری کر لی اور اسے چومتے ہوئے کہا جانی اوئے ۔۔ اس نے نیچے سے سسکتے ہوئے اوں اوں کی اور بند آنکھیں رکھتے ہوئے مجھے کمر پہ مکے مارنے لگ گئی مجھے بھی ہنسی آ گئی میرا لن اس کی بھیگی ہوئی پھدی کے انتہائی اندر تھا میں نے لن کو باہر کھینچ کر ایک اور دھکا مارا حنا کے منہ سے ایک بار پھر افففف امی ی ی ی جی نکلا۔ اب کی بار میں نے مسکراتے ہوئے کہا جانی یہاں خود ہی صبر کرو امی اس وقت تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکیں گی ۔ حنا نے میرے نیچے سسکتے سسکتے کہا گندے منحوس بے شرم انسان کچھ تو شرم کریں زرا اس کو پسینہ آ چکا تھا اس کے بال اس کے چہرے کے گرد پھیل چکے تھے، میں نے ایک ہاتھ سے اس کے چہرے سے بال ہٹائے اور ہلکے دھکے لگانا شروع کر دئیے اور ساتھ ہی اسے کہا جانی اب تم نے ہی امی امی لگا رکھا ہے میں تمہیں یہی بتا رہا کہ یہاں تم نے خود ہی صبر کرنا ہے ان کا دور تو چلا گیا اب۔ یہ کہتے ہوئے میں ساتھ ساتھ اس کے ممے مسلتا گیا اور اس کے چہرے پہ بھی مسکراہٹ اور لطف کا انداز بنتا گیا لیکن مصنوعی غصے سے بولی بہت بدتمیز ہو آپ کچھ بھی بولتے جاتے ہو گدھے جیسے لن سے میری ستیاناس بھی کر رہے ہو ساتھ بدتمیزیاں بھی کرتے ہو۔ میں نے اس کے ہونٹ چوستے ہوئے اس کی ناک پکڑ کہ ہلائی اور کہا جانی اب یہ سب تم سے ہی کروں گا کہ میری جان تم ہی تو ہو نا۔ ساتھ مین ہلکے ہلکے دھکے لگا رہا تھا اور لن کو ادھے سےزیادہ اس کی پھدی میں اندر باہر کیے جا رہا تھا سیکس ہم تقریبا روز ہی کرتے تھے لیکن اس طرح کی گفتگو ہمارے درمیان پہلی بار ہو رہی تھی اور اس گفتگو نے میرے مزے اور لطف کو دوبالا کر دیا تھا بہن کی سوچ کا ایک افسوس اب کہیں پیچھے رہ گےا تھا اور اس بات چیت نے ہمیں جہاں فری کر دیا تھا وہاں مجھے بہت مزہ بھی آ رہا تھا۔ حنا کے منہ سے بھی ہلکی ہلکی سسکیاں نکل رہی تھیں میں نے اس امید میں اسے دھکے زور سے لگائے تھے کہ وہ مجھے بہن کی گالی دے گی مگر اس کے منہ سے امی امی نکلا تھا۔ میں اب بات کو مزید آگے بڑھانا چاہتا تھا میں نے پھر اسی امید پہ ایک اور جھٹکا مارا اس بار اس نے آہ آہ کیا اور ٹانگیں اپنی پیٹ سے لگا لیں مطلب اس کے گھٹنے اس کے پیٹ سے جا لگے اور اس نے اپنا منہ سختی سے بند کر لیا۔۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور ایک لمحے کے لیے رک کہ پوچھا جانی کیا ہوا۔۔اس نے مصنوعی غصے سے کہا تمہاری ماں کی پھدی ہوئی ہے کہا ہے آرام سے کرو مگر گدھے جیسا لن میری نازک پھدی میں اتنے زور سے مارتے ہو اس کی گالی سن کہ مجھے بہت عجیب لگا میں نے بھی ایک اور جھٹکا مارا اور ہنستے ہوئے اسے کہا اب تمہاری ماں کی پھدی تو نہیں مار سکتا جانی تیری ہی ماروں گا نا زرا برداشت کر اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی جھٹکوں کی مشین چلا دی اس نے بھی اپنے بازو میرے گردن میں ڈال کہ نیچلا حصہ اوپر اٹھا کر میرا ساتھ دینا شروع کر دیا اب دو جوان جسم ایک دوسرے کو جکڑ چکے تھے اگلے ایک منٹ کے اندر اس کے جسم میں اکڑ پیدا ہو چکی تھی اور اس نے میرے جسم کو دبوچا ہوا تھا مین بھی اس کے جسم کو دبوچے اسے چومتے جھٹکے لگا رہا تھا کہ اس کی منہ سے مجھے چومتے بے معنی سسکیاں اور آوازیں نکلنے لگیں اور اس جا جسم ایک دم اکڑا اور وہ زور سے بولی اففف بہن چود میں گئی۔ اس کے بہن چود کہنے سے میری آنکھوں کے سامنے ایک دم فروا کا مسکراتا ہوا چہرہ اور موٹی سی بنڈ آنکھوں کے سامنے گھومی اور میرے لن سے منی کی پچکاریاں نکلنے لگیں اور حنا کی پھدی کو بھرنے لگیں لیکن میری آنکھوں کے سامنے فروا کی موٹی بنڈ پہ گرنے لگیں اور میری آنکھیں بند ہوتی گئیں اور میں حنا کی پھدی میں فارغ ہوتے ہی اس کے اوپر گرتا گیا

جیسے ہی میرے زہہن میں بہن کو ننگا دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی میں دھیرے سے اوپر اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا اور دروازے کو آہستہ سے کھول کر باہر جھانکا تو باہر اسی طرح ویرانی تھی اور چپ کا عالم تھا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور پھر بہن کی طرف پلٹا جو اسی طرح بے سدھ لیٹی ہوئی تھی۔ میں دبے پاوں اس کے پاس پہنچا اور گھٹنے فرش پہ ٹیکتے ہوئے نیچے فرش پہ بیٹھ گیا اس کی قمیض کمر سے اوپر کر چکا تھا اور شلوار اس کی کمر سے نیچے تھی اور یہ تو مجھے پتہ تھا کہ اس کی شلوار میں الاسٹک ہوتی ہے ۔ میں نے بالکل آہستہ آہستہ ہاتھ آگے بڑھائے اور دونوں ہاتھ کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان اس کی شلوار گانڈ کے اوپری اور نیچے والے حصے سے پکڑ لی میرا ایک ہاتھ اس کے گانڈ کے اوپری حصے سے شلوار کو پکڑے ہوئے تھا اور دوسرا ہاتھ نچلے حصے کے اوپر سے شلوار کو نیفے کے اوپر سے پکڑے ہوئے تھا۔ میں نے ایک گہری سانس لی اور بہن کی طرف دیکھا جو اسی طرح سوئی ہوئی تھی میں نے بہت آہستہ سے شلوار کو اوپر کھینچا تو الاسٹک کی وجہ سے شلوار آرام سے اوپر ہوتی گئی اور اوپر ہوتی شلوار کی جھلک سے اس کی موٹی تازی گول مٹول گانڈ سامنے نظر آتی گئی۔ میں بہت ہلکی رفتار سے شلوار کو اوپر اٹھا رہا تھا جو اس کے جسم سے تقریبا ایک فٹ تک اوپر ہو چکی تھی ۔ میں نے بہن کی طرف دیکھا جو بے خبر سو رہی تھی اور میں نے اوپر اٹھی شلوار کو نیچے کی طرف کرنا شروع کر دیا۔ شلوار کا اوپری حصہ تو آرام سے اترتا گیا لیکن نچلے حصے کے نیچے شلوار ہونے کی وجہ سے نچلا حصہ آدھا ننگا ہوا اور اوپر والا حصہ مکمل طور پہ ننگا ہو گیا اس کی گانڈ کی شکل D کے جیسی تھی اور میں نے شلوار کو آہستگی سے اس کی گانڈ سے اتار کہ نیچے کر دیا ۔ میرا لن تو پہلے سے کھڑا تھا جو یہ سفید گول مٹول برفانی پہاڑیاں دیکھ کر اور بے قابو ہونے لگا۔ میں نے شلوار کو آرام سے اس کی گانڈ پہ چھوڑا اور اطمینان کی سانس لی۔ اس کی شلوار اترنے کی وجہ سے اس کی گانڈ کا اوپری حصہ سارا اور نچلہ حصہ آدھے سے زیاہ ننگا تھا اور اس کی گلی سامنے کھلی ہوئی تھی۔ میں نے ایک نظر اس کو دیکھا اور پھر دروازے کو دیکھا دروازے کو بند پا کر میں نے اپنا چہرہ اس کے گانڈ کے قریب تر کر دیا اور غور سے بہن کی گانڈ کے درمیاں جھانکنے لگا۔ اس کی کھلی ہوئی گلی مین گہرے گلابی رنگ کا ننا مناسا سوراخ جھانک رہا تھا اور اس کے تھوڑا سا آگے پھدی کی باریک لائن زرا سی نظر آ رہی تھی۔ اس کی گانڈ کا سوراخ دیکھتے ہی مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا کیونکہ حنا کی گانڈ کا سوراخ تو ڈارک براوں تھا اورلمبوتری شکل کا تھا جبکہ یہاں o شکل کا ایک چھوٹا سا سوراخ تھا جو گلابی رنگ کا تھا ۔ میں نے دائیں ہاتھ کی انگلی کو آگے بڑھایا اور اس کو گانڈ کے سوراخ پہ ہلکا سا مس کیا۔ گانڈ کا پورا سوراخ میری انگلی کی پور کے نیچے آ گیا ۔ میں زندگی کے سب سے حسین لمحات میں تھا یہ مزہ یہ لطف مجھے زندگی میں کبھی نہیں آیا تھا ۔ کل تک بہن کے لیے جان دینے والا بھائی اسے ننگی کر کہ اس کی گانڈ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا زرا سے ہوس مجھے کہاں سے کہاں لے گئی تھی۔ میری بہن کی بالکل سفید گانڈ جیسے گول گول پہاڑیوں پہ برف پڑی ہوئی ہو میرے سامنے تھی اور گہری کھلی ہوئی گلی میں اس کا گلابی رنگ کا سوراخ بالکل سامنے نظر آ رہا تھا۔ میں نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے بائیں ہاتھ سے لن کو سہلانا شروع کر دیا اور اپنا ایک ہاتھ اس کی گانڈ کے اوپری حصے پہ ہلکا سارکھ دیا ۔ میرا دایاں ہاتھ اس کی گانڈ پہ تھا اور بائیں ہاتھ سے لن کی مٹھ لگا رہا تھا اور مجھے جو مزہ مل رہا تھا وہ کبھی حنا کی پھدی مارنے میں بھی نہیں ملا تھا۔ اس کی گانڈ کےاوپری حصے کو سہلاتے سہلاتے میں نے ہاتھ نیچے گلی میں کیا اور اس کے چھوٹے سے سوراخ کو سہلانے لگ گیا اور ایک نظر بہن پہ بھی ڈالی جو اسی طرح سوئی ہوئی تھی۔ میں انگلی کو اس کے سوراخ پہ گول گول گھوماتااور سوراخ کے اوپر دباتا اس کا سوراخ سارا مجھے اپنی انگلی کی پور کے نیچے محسوس ہو رہا تھا مجھے ایسے لگا جیسے بہن کی بڑی سی موٹی گانڈ مجھے کہہ رہی ہے بھائی تم پہلے مرد ہو جو اس تک پہنچے ہو اس سے ہہلے ان اونچائیوں تک اس گہرائی تک کوئی نہیں پہنچا تم پہلے مرد ہو جو یہاں تک پہنچ چکے ہو ورنہ ان کو چھونا تو دور کسی نے دیکھا تک نہیں ہے ایک عجیب انوکھے احساس نے مجھے پکڑا ہوا تھا اور میں لن کو سہلاتا جا رہا تھا میں نے اس کی گانڈ کے سوراخ کو سہلاتے سہلاتے انگلی باہر نکالی اور اپنے منہ کے قریب لے گیا میرا ارادہ تھا کہ تھوڑی سی تھوک لگا کہ سوراخ کو گیلا کرتا ہوں لیکن میں نے ہاتھ منہ کے قریب کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا گلہ خشک ہے اور میں نہیں تھوک سکتا، میں نے اسی طرح بائیں ہاتھ سے لن کو سہلاتے سہلاتے منہ آگے کیا اور بہن کی گانڈ کے اوپری حصے پہ ہونٹ لگا کہ ہلکا سا چوم لیا۔ واہ واہ مجھے ایسے لگا کہ میں نے مکھن کی طرح نرم کسی چیز کو چوما ہے میں نے منہ اوپر کر کہ دیکھا تو بہن بدستور سو رہی تھی میں نے ایک بار پھر اس کی گانڈ کو چوم لیا۔ میں مزے کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا اور اس کے جاگنے کا ڈر بھی کسی کونے میں چھپا ہوا ضرور تھا مگر مجھے اس کی پیاری سی گانڈ سے جو انمول مزہ مل رہا تھا اس کے لیے میں ہر قیمت ادا کرنے کو تیار تھا۔میں نے اس کی گانڈ کو مسلسل چومنا شروع کر دیا یہاں لوگ اس کو شاید مبالغہ آرائی سمجھیں مگر مجھے حنا سے ہونٹ چوسنے میں وہ مزہ نہیں آیا تھا جو فروا کی گانڈ پہ پیار دے کہ ایا تھا۔ حنا میری زندگی کی پہلی لڑکی تھی لیکن وہ مجھے اپنی گانڈ کی طرف بہت کم جانے دیتی تھی اس کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے مزہب میں جائز نہیں اور مجھے گانڈ دیکھنے کی ایک بڑی حسرت تھی جو آج بہن کی شکل میں پوری ہو رہی تھی اس لیے میں لگاتار اس پیاری دلنشین گانڈ کو چومے جا رہا تھا۔ اس کی گانڈ کو چومتے چومتے میں پیچھے ہٹا اور ایک نظر بے سدھ سوئی ہوئی بہن کو دیکھا اور اپنے دائیں ہاتھ سے اس کی موٹی گانڈ کے اوپری حصے کو ہلکا سا پکڑ کہ اوپر کیا جس سے اس کی کھلی ہوئی گلی اور کھل گئی اور اس کی گانڈ کا سوراخ زیادہ نمایاں ہو گیا ۔ اس کی پھدی کی تھوڑی سی لکیر نظر آ رہی تھی باقی وہ اس کی شلوار کے نیچے تھی۔ میں نے اس کی گانڈ کو آہیستگی سے کھولتے ہوئے اپنا منہ اس کی گلی میں ڈال کہ سوراخ پہ ایک پیار کرنے کی کوشش کی۔ مجھے یہ احساس ہو گیا کہ میرے ہونٹ سوراخ کے ارد گرد لگتے ہیں ۔ میں نے کبھی بھی حنا کے ساتھ یہ کچھ نہ کیا تھا اور نا کبھی سوچا تھا لیکن بہن کی گانڈ دیکھ کر میں خود بخود ایسی حرکات کرتا جا رہا تھا۔ میں نے گلی میں سوراخ پہ ایک پیار کیا اور مڑ کہ فروا کی طرف دیکھا تو وہ اسی طرح سوئی ہوئی تھی میں نے اس کی گانڈ کوآئستگی سے کھولتے ہوئے پھر منہ اس کے درمیاں گھسایا اور اپنی زبان نکال کہ اس مقدس سوراخ. کو چاٹنے لگ گیا میں نے زبان کی نوک سے سوراخ کے درمیان سے چاٹنا شروع کیا اور زبان کو سوراخ پہ گھول گھماتا گیا ۔ سرور اور مزے کی ایک لہر میرے سارے جسم میں دوڑتی گئی اور میں نے بائیں ہاتھ سے لن کو سہلانا شروع کر دیا۔ میری زبان بہن کی گانڈ کے سوراخ پہ پھر رہی تھی اور میں مزے میں ڈوبا لن کو سہلا رہا تھا اور میری بہن بے سدھ سو رہی تھی مین تھوڑی دیر کے بعد منہ باہر نکالتا اور اسے سوتا دیکھ کہ پھر گانڈ چاٹنے لگ جاتا لیکن کب تک ۔۔ آخر میرے جسم کا سارا خون میرے چہرے میں جمع ہوتا گیا اور میں بہن کی بنڈ چاٹتے چاٹتے فارغ ہو گیا میری زبان اس کے سوراخ پہ تھی لیکن میرا کام ہو چکا تھا۔ کوئی دس سیکنڈ میرے لن کو مسلسل جھٹکے لگتے رہے اور میرا لن مسلسل منی نکالتا رہا اتنی دیر میں کبھی حنا میں بھی فارغ نہیں ہوا تھا۔ فارغ ہوتے ہی میں نے منہ بہن کی گانڈ سے باہر نکالا تو دیکھا اس کی گانڈ کا سوراخ میری تھوک سے چمک رہا تھا میں وہیں سے کھسک کہ بیڈ کے سائیڈ ٹیبل کی طرف ہوا اور وئاں سے ٹشو پیپر نکالے میں اپنی شلوار کے اندر ہی فارغ ہوا تھا ۔ میں نے ٹشو پیپر سے بہن کی موٹی گانڈ کے درمیان اپنی لگی ہوئی تھوک صاف کی اور ٹشو پیپر کو ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔ فارغ ہونے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اففف یہ میں نے کیا کر دیا بہن کی ننگی گانڈ سامنے دیکھ کر مجھے بہت شرمندگی ہوئی میں نے شلواد کو پکڑ کر آہستگی سے اس کی گانڈ کے اوپر کر دیا اور خود کو کوستا اس کے کمرے سے باہر نکلا۔ فارغ ہونے کے بعد مجھے اپنا آپ بہت گھٹیا محسوس ہو رہا تھا ۔ باہر اسی طرح خاموشی تھی لیکن کمرے کے اندر ایک قیامت گزر چکی تھی گھر کے چوکیدار کے ہاتھوں ہی گھر کی سب سے قیمتی چیز بےوقعت ہو چکی تھی ۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "بہن یا بیوی ؟(قسط 1)"