Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

بہن یا بیوی ؟ (قسط2)


 


میں شرمندہ شرمندہ بہن کے کمرے سے نکلا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا خوش قسمتی سے سب سوے ہی ہوئے تھے ۔ میں اپنے کمرے میں گیا تو حنا بھی سو رہی تھی میں جلدی سے باتھ میں گھسا اور گندے کپڑے نکال کہ بالٹی میں پانی بھرا اور اس میں ڈال دئیے اور نہانے لگا ۔ نہانے کے بعد باتھ میں لٹکا ٹراوزر شرٹ پہن کہ میں باہر نکلا تو حنا بدستور سو رہی تھی۔ مجھے نہاتے ہوئے بھی بہت شرمندگی محسوس ہوتی رہی وقتی ہوس میں اتنا کچھ کر تو دیا تھا لیکن اب مجھے اپنا آپ بہت برا بھی لگ رہا تھا۔ خیر میں شرم کے مارے بیڈ پہ چپکے سے لیٹا تا کہ حنا کی نیند خراب نہ ہو۔ مجھے بھوک تو لگی ہوئی تھی لیکن دل کے چور کی وجہ سے میں نے اسے نہ اٹھایا اور بیڈ پہ لیٹ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ سب کچھ سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی۔ میری آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی اور میں بیڈ پہ اکیلا تھا۔ حنا شائد نیچے جا چکی تھی میں بیڈ سے اٹھا ہاتھ منہ دھویا اور نیچے اتر گیا۔ سیڑھیاں اترتے ہی سامنے امی بیٹھی ہوئی تھیں میں نے ان کو سلام کیا اور سامنے لاونج میں جا کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا انہوں نے مجھے سلام کا جواب دیا اور بولیں تم دفتر سے مڑ کہ کس وقت آئے ہو اور کھانے کے لیے کسی کو جگایا کیوں نہیں بھوکے ہی سو گئے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا فروا کمرے سے نکلتی دکھائی دی اس نے بھی امی کی بات سن لی تھی اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس پہ چائے اور بسکٹ رکھے تھے۔ وہ مسکراتی ہوئی کچن سے نکلی اور بولی ارے امی آپ بھائی کے لیے بالکل پریشان نہ ہوں کھانے پینے کے لیے ان کی پسند بڑی یونیک ہو گئی ہے اور دوپہر میں یہ بالکل بھی بھوکے نہیں رہے اپنی پسند کا کھانا یہ پیٹ بھر کہ کھا چکے تھے۔ وہ یہ بات کرتی ہوئی میری طرف چلی آ رہی تھی اور میں ہونق بنا اس کی بات سن رہا تھا۔ میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی امی نے اسے پوچھا کیوں کیا کھایا تھا اس نے جو تم یہ کہہ رہی ہو ۔ وہ میرے سامنے میز پہ چائے رکھتے ہوئے زیر لب بڑبڑائی جناب کوئی آدھا گھنٹہ بہن کا ہضم شدہ کھانا نکال کہ کھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ یہ بات کہتے ہوئے اس کے چہرے پہ عجیب سے تاثرات تھے اور وہ اتنی مدھم آواز میں بولی کہ امی کو سمجھ ہی نہ آئی لیکن مجھے تو ساری بات واضح سنائی دی تھی ۔ میرا تو چہرہ فق ہو گیا اور ایک دم مجھے ماتھے پہ پسینہ آ گیا میرے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اسے یہ سب پتہ ہو گا لیکن اس نے اتنی واضح بات کر دی تھی ۔ امی نے اس سے پھر پوچھا کیا کہا ہے تم نے؟ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور بولی امی بھیا نے کھانا کھا لیا ہو گا ویسے بھی یہ برگر بہت پسند کرتے ہیں تو میں کہہ رہی تھی شائد یہ برگر کھا چکے ہوں اس لیے اب ان کے لیے چائے لائی ہے یہ کہتے ہوئے وہ میری طرف مڑی جب وہ میری طرف مڑتی تو امی کی طرف اس کی کمر ہو جاتی تھی اس نے کہا امی یہ دیکھیں مین ان کے لیے بسکٹ بھی لائی ہوں اور پلیٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے چہرے پہ دنیا جہاں کی نفرت سجاتے ہوئے ہلکی آواز میں اس نے کہا یہ لو گھٹیا انسان بسکٹ ٹھونسو ۔۔ مجھے یوں لگا جیسے میں آسمان سے زمین پہ آ گرا ہوں زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاوں

فروا کے اس حملے نے مجھے چاروں شانے چت کر دیا تھا میں تو یہ سوچ کہ خوش تھا کہ اسے کچھ علم نہیں لیکن اس کی بات اور اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ سب جانتی ہے لیکن امی کے سامنے اس نے میرا پردہ رکھا ہے۔ لیکن اس کی نٹ کھٹ طبیعت کا پتہ بھی کوئی نہیں تھا کہ کب کون سی بات کر بیٹھے ۔ مجھے ٹھنڈے پسینے آ گئے اور اس ڈر نے مجھے بے چین کر دیا کہ یہ سب جان گئی ہے اب اگر امی کو بتاتی ہے تو میرا کیا ہوگا۔ فروا میرے سامنے کھڑی تھی اور وہ امی کی طرف مڑتی تو مسکرانے لگتی میری طرف مڑتی تو اس کے چہرے پہ بہت غصہ نظر آتا۔ اس دوران میں بھی لاجواب ہو چکا تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ مجھ پہ بوکھلاہٹ طاری ہو چکی ہے۔ فروا نے مجھے یوں پریشان دیکھا تو امی کی طرف مڑی اور ہنستے ہوئے بولی ۔ امی یہ بھائی کو دیکھیں میں نے زرا سی بات کی اور ان کے تو ہوش ہی اڑ گئے ہیں اپنی بار زرا سا بھی مزاق نہیں برداشت کر سکتے خود جو مرضی ہو کرتے پھرتے ہیں ۔ میرے تو جیسے ہوش اڑ گئے یا ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اس وقت اگر ہمسائیوں کے طوطے ہوتے تو انہوں نے بھی اڑ جانا تھا۔ اس کی یہ بات کچن کے دروازے سے نکلتی حنا نے بھی سن لی میری نظر امی پہ پڑی اور پھر کچن سے نکلتی حنا پہ اور پھر سامنے کھڑی دشمن جان و لن پہ نظر پڑی جو سنجیدہ شکل بنائے میرے سامنے کھڑی تھی ۔ میرا حال تو یہ تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ امی نے ہی اسے آواز دی کہ کیا بات کہہ دی ہے تم نے ایسی بھائی کو۔ اس نے امی کی طرف دیکھا اور پھر مجھے دیکھا اور بولی میں یہ ڈرٹو بھیا ( کمانڈر سیف گارڈ کارٹون سیریز جنہوں نے دیکھی ہے وہ اس کردار سے واقف ہوں گے) کو بول رہی تھی کہ مجھے شاپنگ کروا دیں لیکن ان کے تو ہوش اڑ گئے ہیں لگتا ہے بھابھی سے بہت ڈرنے لگ گئے ہیں ۔ اس کی اس بات پہ میں نے بھی سکون کا سانس لیا کہ اس نے بات بدل لی ورنہ میں تو بےبس ہو چکا تھا۔ ادھر میں نے سکون کا سانس لیا ادھر اس کی بات پوری ہوتے ہی حنا بولی ۔ امی میں نے کچھ نہیں کہا فروا تو میری بہن ہے یہ جب چاہے ان سے شاپنگ کر لے یہ خود ہی پریشان ہوئے ہوں گے ۔امی حنا کی بات سن کہ ہنس پڑیں اور بولی ارے بچہ میں جانتی ہوں تم نے ایسا کچھ نہیں کہا یہ چڑیل بس مزاق کرتی رہتی ہے نا تم سے بہن جیسا ہی تو پیار کرتی ہے ۔ حنا امی کے پاس بیٹھ گئی تو فروا نے ایک نظر ادھر دیکھا اور بولی ہاں میں بہن ہی تو ہوں نا ان کی یہاں تک اس نے اونچی آواز میں کہا اور پھر اس کے بعد ہلکی آواز میں جھکتے ہوئے پلیٹ سے بسکٹ اٹھاتے ہوئے بولی لیکن تمہارے گندے میاں مجھے تمہاری سوکن بنانے کے چکر میں لگ گئے ہیں

فروا کے پے درپے حملوں سے میں بالکل پریشان ہو چکا تھا مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا بولوں ۔ وہ میرے سامنے کھڑی تھی اور تھوڑی دور امی اور حنا بیٹھی ہوئی تھیں ۔ میں چائے کی پیالی اور بسکٹ کی طرف دیکھتا اور کبھی ان سب کی طرف کیونکہ صورتحال ہی عجیب بن چکی تھی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیا بولوں۔ فروا نے نیچے جھکتے چائے کی پیالی اٹھا کر میری طرف بڑھائی اور بسکٹ کی پلیٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے ہلکی آواز میں بولی ۔ اب جو زائقہ آپ کو پسند ہے جدھر زبان لگا کہ چاٹتے ہیں وہ زائقہ تو نہیں ہے لیکن پھر بھی کھا لیں ورنہ خالی چاٹنے سے پیٹ نہیں بھرتا ڈرٹو۔ اس کے چہرے پہ عجیب تاثرات تھے جیسے مجھ سے بہت ناراض ہو لیکن وہ طنزیہ انداز میں بات کیے جا رہی تھی اور میں بالکل چپ چاپ اس کی باتیں سن رہا تھا کیونکہ ان باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اب امی اور حنا کو یہی لگ رہا تھا کہ وہ مجھے شاپنگ کے لیے راضی کر رہی ہے ۔ مجھے بےبس دیکھ کر حنا نے آواز لگائی ارے بھائی اتنی پریشانی کیا ہے دس ہزار میں دیتی ہوں جائیں اس کو شاپنگ کروا کہ لائیں۔ میرے بولنے سے پہلے ہی فروا بولی ارے نہیں بھابھی پیسے بھی یہ خود لگائیں گے آپ سے تو بالکل نہیں لینے۔ میں نے بھی تھوک نگلتے ہوئے کہا ہاں ہاں میں خود شاپنگ کروا دوں گا جب بھی کہو ۔ مجھے اپنے اوپر سے بوجھ تھوڑا کم محسوس ہوا لیکن یہ فکر مجھے کھائے جا رہی تھی اب فروا کا رویہ کیسا ہو گا یہ تو مجھے باتیں مار مار کہ ہی مار ڈالے گی۔ فروا بھی مڑ کہ ان کے پاس چلی گئی اور میں چائے سامنے رکھے چپ بیٹھا تھا ۔ پھر مجھے خیال آیا کہ چائے تو پی لوں اور میں نے چائے پینی شروع کر دی اور ایک نظر ان پہ بھی ڈالتا جو آپس میں باتیں کیے جا رہی تھیں

میں نے چائے پیتے پیتے ان کی طرف دیکھا تو وہ تینوں آپس میں باتیں ہی کیے جا رہی تھیں میں چائے پینے کے ساتھ ساتھ ان کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا۔ فروا نے مجھے بار بار ادھر دیکھتے میری طرف دیکھا اور پھر پاس بیٹھی حنا کے گلے میں بازو ڈال کہ اس کے منہ کے ساتھ منہ لگا کہ مجھے آواز دی ۔ بھائی کیا خیال ہے پھر میں نے جیسے اس کی طرف دیکھا تو اس نے آنکھ مارتے ہوئے مجھے اشارہ کیا بھابھی کو بتاوں پھر یا رہنے دوں ۔ مجھے تو لگا کیسے یہ لڑکی مجھے مروائے گی میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور اس سے پوچھا کیا بتانا ہے بھلا؟؟ ارے ے ےےےے اس نے اسی طرح آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا وہی جس کا پتہ چلنے کے بعد آپ کی شامت آنا لازمی ہے ۔ لو اب ایسی بھی کیا بات ہو گئی ہے امی نے حنا کے کچھ بولنے سے پہلے ہی پوچھ لیا ۔ ارے امی بھیا کہہ رہے تھے کہ تم میرے ساتھ شاپنگ پہ جاو گی تو بس دو تین سو کہ چیزیں ہی لے کہ دوں گا اس نے حنا کے گال کے ساتھ اپنے گال رگرتے ہوئے مجھے آنکھ ماری۔ میں نے سکون کا سانس بھرا اور ہنس کہ چپ ہو گیا کہ چور کی داڑھی میں تنکا مجھے یہی لگ رہا تھا کہ وہ چاٹنے والی ننگا دیکھنے والی بات کرنے والی ہی ہو گی۔ امی نے کہا اب اتنا بھی کنجوس نہیں ہے وہ اور آج تو دیر ہو گئی ہے کل جانا اور زیادہ خرچہ نہ کروا دینا ایسے فضول میں ۔ اب اس کی اپنی بیوی بھی ہے تو اخراجات بھی ہوتے ہیں بندے کے۔ فروا نے امی کی یہ بات ہنسی میں اڑا دی اور بولی کوئی بات نہیں بھائی کو دو بیویوں کے خرچے کی پریکٹس ہونی چاہیے نا تا کہ یہ دوسری شادی سے باز رہیں ۔ اچھا اچھا فضول نہ بولا کرو اور کل چلی جانا بھائی کے ساتھ تم ۔ امی نے گویا بات ختم کر دی۔ پانچ ہزار فروا کو میری طرف سے بھی ملیں گے حنا نے بھی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا تو فروا ایک بار پھر اس کے گلے لگ گئی اور اسے چوم کہ بولی میری پیاری بھابھی آپ تو بہت اچھی ہو بس یہ بھیا ہی کھڑوس سے ہیں ۔ اور ہنسنے لگ گئی میں نے بھی تھوڑا سکون کا سانس لیا ۔ تھوڑی دیر میں ابو بھی آ گئے اور ہماری باتیں چلنے لگیں اور آپس میں باتیں کرتے کرتے امی کی نظر میرے سامنے کپ پہ پڑی تو امی نے سختی سے کہا فرحی ابھی تک کپ کیوں نہیں اٹھایا بھائی کے سامنے سے۔ وہ تیزی سے اٹھی اور بھاگتی ہوئی میرے قریب آئی اور بولی یار آپ ہی بتا دیتے نا ڈرٹو بھائی یہاں تک اس کی آواز سب تک پہنچی اس کے بعد ہلکی آواز میں بولی گندگی اور غلاظت کے بادشاہ ۔ اور کپ اٹھا کر کچن کی طرف چل دی۔ مجھے اس کا یوں طنز کرنا بہت عجیب لگ رہا تھا مگر میں اور کر بھی کچھ نہیں سکتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوگ اٹھ کہ کچن چلی گئیں اور کھانا پکانے لگ گئیں میں بھی ڈر کے مارے باہر ہی بیٹھا رہا ان کی طرف نہ گیا پھر ہم نے کھانا کھایا اور ہم کمرے میں چلے گئے ۔ کمرے میں جاتے ہی مجھے حنا نے بازوں میں پکڑ لیا اور تھوڑے غصے سے بولی یہ کیا حرکت کی ہے جناب ؟ اب چور کی داڑھی میں تنکا تو نہ تھا مگر دل میں چور تو تھا ہی تو بوکھلاہٹ طاری ہونا بھی فرض قرار پائی مجھے یوں لگا کہ فروا نے حنا کو بتا دیا ہے اور تمام برے خدشات میرے زہہن میں دوڑنے لگے ۔ میں نے سوچا اب کیا بہانہ کروں اور ادھر میرے چپ رہنے سے حنا نے پھر مجھے بازووں کا گھیرا تنگ کرتے ہوئے کہا بتائیں نا کیوں کیا ہے ایسا؟؟ ادھر میرے گلے میں آواز پھنس چکی تھی کہ اب کیا بولوں کہ بات ہی کوئی نہ تھی بولنے کو۔ اب اگر بہن نے شاپنگ کا کہہ دیا تھا تو اس پہ اتنا ہونق بننے کی کیا ضرورت ہے یار ۔حنا نے مجھے بانہوں میں لیتے ہوئے چہرے پہ ایک کس کرتے ہوئے کہا۔ میں نے سوچا ایک حرکت کی ہے اور ایسے لگتا ہے ابھی پکڑا جاؤں گا آخر میرا کیا بنے گا ۔۔ چہرے پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا ارے مجھے یہ تھا کہ میں اسے اکیلی کو لے جاوں تو شائد تمہیں اچھا نا لگے اس لیے تھوڑا کنفیوز تھا نا اور میں نے اس کے ہونٹ چوم لیے۔ آپ بھی بالکل پاگل ہو اسکے ساتھ جانے سے میں کیوں برا مناوں گی بھلا؟ اس نے مجھ سے چپکتے ہوئے کہا مجھے اچھا لگے گا آپ بہن کو پہلے کی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ پیار کرو آپ کے پیار میں کمی آئی تو اسے اور امی کو یہی لگے کا میری وجہ سے کمی ہے اس لیے آپ مجھ سے بھی زیادہ اسے توجہ دیا کرو۔ میں مسکرا دیا اور دل میں سوچا جو توجہ اسے دے رہا ہوں تمہیں پتہ چلے تو میرا سر ہی توڑ دو گی لیکن اوپر سے مسکراتے ہوئے کہا جو حکم میری رانی اور اس کی کمر کے گرد بازوں کا گھیرا سخت کرتے اسے تھوڑا اوپر اٹھا لیا اور کہا جیسے میری رانی کہے گی ویسا ہی ہو گا۔۔ اس نے میری ناک کو چٹکی میں پکڑ کہ ہلایا اور ہنستے ہوئے بولی بالکل جناب کل پھر اسے شاپنگ کے لیے لے کہ جانا ہے اور دس ہزار آپ دو گے اور پانچ میں او کے،؟؟ میں نے کہا بالکل جناب ایسا ہی ہو گا۔ اور تم بھی ہمارے ساتھ چلوگی۔۔ اونہو اس نے سر کو نفی میں ہلایا نہ جی بہن کے ساتھ جانا اور وہ کوئی آدم خور نہیں جو آپ کو کھا جائے گی میرے ساتھ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے یہ خطرہ تھا کہ اگر ہم اکیلے گئے تو میں اس کا سامنا کیسے کروں گا لیکن میری بات کو حنا نے ریجیکٹ کر دیا اور وہ جانے پہ بالکل بھی راضی نہ ہوئی میں نے بھی ضد نہ کی اور اسے چومتے دباتے بیڈ تک پہنچ گیا۔ کیونکہ دن میں اچھے سے فارغ ہو چکا تھااس لیے میرا لن تو کھڑا تھا مگرمجھے سیکس کی خواہش حنا سے بالکل نہیں ہو رہی تھی ۔ میں اس سے باتیں کرتا رہا اور پھر ہم سو گئے ۔ صبح اٹھ کہ پھر دفتر اور وہی روٹین مگر دن بھر مجھے یہی سوچ ستاتی رہی کہ اس کا سامنا کیسے کروں گا اب گھر بھی تو جانا تھا سو مرتا کیا نا کرتا گھر کی طرف چل پڑا ۔ گھر میں جیسے ہی میں داخل ہوا تو سامنے وہی دشمن جان کپڑے تار سے اتار رہی تھی مجھے گھر داخل ہوتے ہی جیسے دیکھا تو وہیں سے اونچی آواز میں بولی اوہ لوٹ کر بدھو گھر کو آئے اور پھرہنسنے لگ گئی۔ میں چلتے چلتے اس کےپاس پہنچا اور کہا ہاں تو میں اور کدھر جاتا گھر ہی آنا تھا نا۔ جی سب سمجھتی ہوں تبھی جناب نے دروازہ بھی بہت آرام سے کھولا اور بند کیا ہے مگر روز روز چانس نہیں ملا کرتے یہ کہتے ہوئے وہ مسکرائی اور کپڑے لیکر کمرے کی طرف چل پڑی۔ اسکے کمرے کی طرف جانے سے میری نظر اس کی تھرتھراتی مٹکتی گانڈ پہ پڑی اور وہیں کی ہو کہ رہ گئی اس کی گانڈ ہر قدم کے ساتھ اچھلتی اور اوپر نیچے ہوتی تھی۔ کمرے کے دروازے پہ پہنچ کہ وہ رکی اور میری طرف مڑی میں جو اس کی گانڈ کے نظارے میں کھویا ہوا تھا اس کے مڑنے سے بوکھلا گیا اور مجھے اس طرح بوکھلاتا دیکھ کہ وہ ہنس پڑی اور نچلے ہونٹ کو ایک سائیڈ سے دوسرے ہونٹ سے دبا کہ بولی جناب کھانا کون سا کھائیں گے پکا ہوا یا ہضم شدہ؟ میں نے جب دیکھا کہ وہ بار بار وہی بات کر رہی ہے تو میں نے بھی ایک کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس کی طرف بڑھتا چلا گیا مجھے یوں اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ بھی گھبرا سی گئی اور اس کے چہرے پہ پریشانی کے تھوڑے سے تاثرات ابھرے لیکن میں اس کی طرف بڑھتا گیا اور اس کے سامنے جا کہ رکا میں اس کے سامنے جا کہ کھڑا ہوا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا ہاں تو کیا فرما رہی ہیں مس فرحی آپ اور کھانا کھلا بھی سکتی ہیں یا بس باتیں ہی ہیں ۔ میں نے بار بار اس کے ایک بات دہرانے سے تنگ ہو کہ یہ کہا کہ ایک ہی بار بلی تھیلے سے باہر آ جائے۔ اور میری ایک ہی بات نے اس کو کنفیوز کر دیا اس کے چہرے پہ بیک وقت شرمندگی اور کنفیوژن کے تاثرات ابھرے اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پلکیں جھکا کہ بولی پکا ہوا کھانا کچن مین ہے اور ہضم شدہ باتھ میں ۔ جو بھی پسند ہے جا کر کھا لیں ۔ اور پلکیں جھکا کہ مسکرانے لگی۔ میں نے بدستور اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا جو شرم کے مارے سرخ ہو رہا تھا میں نے بھی تھوڑا کھل کہ بولنے کا فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر ایک لڑکی کھل کہ بول رہی ہے اب مجھے بھی کھل کہ ہی بولنا چاہیے اور جو بھی بات ہے اس کا سامنا اسی طرح ہو سکتا ہے ورنہ تو یہ مجھے دباتی ہی رہے گی۔ میں نے کہا کھانا تو مجھے ہضم شدہ ہے پسند ہے مگر دیگ میں سے خود نکالوں تو تب کی بات ہے ورنہ نہیں ۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور بولی تو جناب کی دیگ اوپر کمرے میں انتظار کر رہی ہے ادھر جائیں دوسرے کے برتن جُوٹھے کرنا اچھی بات نہیں ہے اور پھر نظریں جھکا لیں ۔ میں بدستور اسے دیکھے جا رہا تھا اس کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب تھے کبھی لگتا تھا اسے بہت برا لگا ہے اگلے ہی لمحے لگتا وہ مجھے تنگ کر کہ لطف لے رہی ہے اس چھوٹی سی موٹی گانڈ اور مموں والی بہن نے مجھے الجھا کہ رکھ دیا تھا جو عمر میں مجھ سے چھوٹی مگر باتوں اور سوچ میں مجھے بڑی لگنے لگ گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ اسے میں جواب دیتا سیڑھیوں سے قدموں کی چاپ آئی اور ہم نے ادھر دیکھا تو حنا اترتی ہوئی آ رہی تھی۔ فروا نے اسے دیکھا پھر مجھے دیکھا اور اونچی آواز میں بولی چلیں کام آسان ہو گیا بھابھی ان کو دیگچی سے کھانا نکال کہ دو تط تک میں تیار ہو لوں موصوف کو بڑی بھوک لگی ہے کہتے ہیں دیگچی میں ہی دےدو پلیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ حنا اس بات پہ ہنس پڑی اور میرے پاس پہنچ آئی اور اسے کہا تم باتیں کم کرو اور جلدی سے تیار ہو جاو ابھی تم نے کپڑے بھی نہیں پہنے ہوئے۔ میں نے اپنے سر پہ ہاتھ مارا اور افسردہ چہرہ بنا کہ کہا ہائے ری قسمت بہن تو پاگل تھی ہی اب بیوی بھی پاگل ہو گئی اس کو سامنے کپڑے پہنے ہوئی لڑکی کپڑوں کے بغیر لگ رہی ہے ۔ میری اس بات پہ دونوں ہنس پڑیں اور فروا نے کہا کوئی حال نہیں ہے ان کا اور بھابھی لے کہ جاو انہیں ورنہ شام یہیں ہو جانی ہے اور کہتے ہوئے کمرے میں گھس گئی۔ اس کے کمرے میں جاتے حنا نے مجھے دیکھا تو میں نے اسے اچارہ کیا کہ جناب آگے چلیں تو وہ ہنس کہ میرے بازو سے لگ گئی اور مجھے پکڑ کہ کچن کی طرف چلنے لگی۔ میں نے بھی پیار سے اسے کہا جانی تم بھی ساتھ چلو نا بازار اکھٹے جاتے ہیں۔ اس نے میری طرف دیکھا اور بولی یار جانی سمجھا کرو نا اب فروا نے کہا ہے آپ کو تو میرا ساتھ جانا اچھا نہیں ہے اسے آپ پہلے بھی شاپنگ تو کراتےرہے ہو اس میں نئی بات کیا ہے؟ اب اگر میں جاوں تو شاید امی کو بھی عجیب لگے گا اور میں یہ سب نہیں چاہتی تو پلیز آپ اس کے ساتھ چلے جاو۔ مجھے حنا کی بات سمجھ آ گئی اور مجھے ڈر بھی تھوڑا کم ہو چکا تھا اس لیے میں نے کہا چلو ٹھیک ہے میں اس لیے کہہ رہا تھا کہ تمہیں برا نہ لگے یہ باتیں کرتے ہوئے ہم کچن میں پہنچ چکے تھے۔ حنا نے مجھے ساتھ لگتے ہوئے ایک کس کی اور بولی مجھے بالکل برا نہیں لگے گا جانی ۔ اور میرا اتنا خیال رکھنے کے لیے شکریہ۔ میں نے جوابا اسے کس کی اور پھر وہ میرے لیے کھانا نکالنے لگی۔ کھانا کھاتے بھی ہم باتیں کرتے رہے ۔ کھانا کھا کہ میں جب فری ہوا اور ہم باہر نکلے تو سامنے کمرے سے فروا بھی نکل رہی تھی اسے دیکھ کہ میرا منہ کھل گیا کالے رنگ کے لباس میں انتہائی تنگ پاجامہ اور لمبے چاک والی قمیض جس کے چاک اس کی سائیڈ سے بہت اوپر تھے اور گلے میں ہلکا سا دوپٹہ تھا قمیض بالکل ایسی تھی جیسی کسی نے جسم کے ساتھ چپکا کہ سی ہوئی ہو۔ چہرے پہ میک اپ کے نام پہ آنکھوں میں ہلکا سا کاجل اور ہونٹوں پہ صرف لائنر لگائے کھلے بالوں کے ساتھ وہ کوئی حور پری لگ رہی تھی ۔ حنا نے بھی اسے دیکھا اور بولی واہ جی ماشااللہ نظر نہ لگ جائے میری بہن کو اور آگے بڑھ کہ اس کے ماتھے پہ پیار دے دیا ۔ حنا ہم دونوں کے اس طرح دیکھنے سے شرما سی گئی اور بولی کیا خیال ہے پھر چلیں ہم؟ اس سے پہلے میں کچھ کہتا تو حنا بولی ابو نے کہا تھا گاڑی پہ جانا اور چابی مجھے دی تھی ۔ یہ بات سنتے تو میرے ارمانوں پہ منوں پانی پھر گیا میرا ارادہ تو تھا کہ بائیک پہ پیچھے بیٹھے گی تو جسم کا ٹچ مزہ دے گا لیکن یہاں تو معاملہ ہی خراب ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے تاثرات کو چھپاتے ہوئے چابی لی اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔ وہ بھی گاڑی میں بیٹھی اور ہم گھر سے نکل آئے گاڑی میں مکمل خاموشی تھی

گاڑی گھر سے تھوڑا ہی آگے نکلی تھی میں جان کہ فروا کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا مجھے یقین تھا کہ وہ کوئی ایسی ہی بات کرے گی اس نے دو تین بار مجھے دیکھا اور پھر مجھے اپنی طرف نہ دیکھتے پا کر مجھ سے بولی گاڑی کہیں سائیڈ پہ روکو مجھے آپ سے کوئی بات کرنا ہے ۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور گاڑی چلاتے ہی بولا ہاں تو بولو نا میں سن رہا ہوں ۔ میں اندر سے تیار ہو گیا کہ اب یہ نہیں چھوڑے گی لیکن اب مجھ میں ڈر کے ساتھ ساتھ حوصلہ بھی تھا اور میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اس کے غصہ ہونے سے مجھے غصہ نہیں کرنا بلکہ اس کی بات کو مزاق اور اس کی تعریف میں بدلنا ہے شائد اس سے بات بہتر ہو سکے۔ نہیں گاڑی سائیڈ پہ لگاو اس نے تھوڑا سختی سے کہا۔ میں نے ہنس کہ اس کی طرف دیکھا اور گاڑی ایک طرف روڈ کے کنارے لگا دی جدھر سے ایک آئس کریم والا گزر رہا تھا میں نے گاڑی سائیڈ پہ لگاتے ہوئے اسے کہا اتنہ غصہ کس لیے چڑیل تم جو کہو گی وہی کروں گا آرام سے کہہ دو بس۔ اور اس کی بات سننے سے پہلے ہی میں نے آئس کریم والے کو آواز لگائی اور فروا کچھ کہتے کہتے چپ ہو گئی۔ آئس کریم والا میرے پاس پہنچا تو میں نے اس سے تھوڑا مسکراتے ہوئے پوچھا یار آئس کریم کتنی ٹھنڈی ہے میری بہن کا غصہ ٹھنڈا کرنا ہے ۔ وہ بھی ہنس کہ بولا باو جی برف جمی ہوئی ہے مگر غصے کو آئس کریم سے ہی ختم نہیں کیا جا سکتا باجی کو کوئی اور تحفہ بھی دیں ۔ میں نے اس سے دو آئس کریم کونز پکڑیں اسے پیسے دیے اور ایک کون فروا کو پکڑا دی ۔ اور آیس کریم والے کے پیچھے ہٹنے پہ اسے دیکھا جس کے چہرے پہ سنجیدگی کے تاثرات تھے ۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا جی گڑیا اب فرماو۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے دانت پیستے ہوئے کہا زرا بھی شرم نہیں آئی کوئی شرمندگی ہی نہیں آپ کو اپنی گھٹیا حرکت پہ؟ ایک بار بھی آپ نے نہیں سوچا میں آپ کی سگی بہن ہوں؟ یہ زلیل حرکت کرتے آپ کا ضمیر کدھر تھا مجھے یہ بتاو مجھے کس غلطی کی سزا دی ہے تم نے؟ کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا؟ میں چپ چاپ اسے سنتا رہا کہ اسے بولنے کا موقع دوں تا کہ اس کا سارا غصہ باہر نکلے اس کے بعد جواب دوں گا کیونکہ اس نے بات کسی اور کو نہیں بتائی تھی اگر بتا دیتی تو وہ مشکل ہو جاتا اس اکیلی کو ہینڈل کرنا مجھے مشکل نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا وہ بہت غصے میں تھی اور مجھے چپ دیکھتے ہوئے غرائی اب چپ کیوں ہو مجھے بتاو آپ کو زرا بھی شرم کیوں نہیں آئی؟ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا سچ بتاوں تمہیں ؟ تو اور کیا میں جھوٹ سے بہل جاون گی مجھے سب سچ بتاو یہ کمینگی کیوں کی ؟ وہ مجھے کبھی تم کہتی کبھی آپ اور یہ صورتحال بھی میرے حق میں تھی۔ میں نے جیب سے موبائل نکالا اور اسے دیکھتے ہوئے موبائل کھولا اور کہا ۔ ایک بات تو تم جانتی ہو میرا کسی بھی لڑکی سے کوئی تعلق نہیں رہا کبھی۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ وہ فورا بول پڑی تو یہی مجھے بتاو کہ اسی بات پہ تو ہم سب بہنیں فخر کرتی تھیں اور کزنز میں محلے میں سر اٹھا کہ چلتی تھیں آپ کی شرافت کی وجہ سےمگر اب یہ کیا ہوا ہے؟ یہ حرکت کیوں کی مجھے صاف بتاو۔ میں نے موبائل اس کی طرف بڑھایا اور کہا یہ دیکھو سامنے موبائل پہ اس کی اور حنا کی تصویر تھی اس نے ایک نظر سکرین پہ دیکھا اور بولی یہ کیا ہےاس میں کیا دیکھوں؟ میں نے کہا یہ دیکھو حنا بالکل وایٹ بورڈ کی طرح پلین اور سیدھی ہے اس میں کیا کشش ہے؟؟ کیا میرا دل یا خواہشات نہیں ہیں؟ اب اسے دیکھو اس میں کوئی نسوانی حسن نہیں ہے میری بات سنتے وہ اورسرخ ہو گئی مگرمیں نے اسے بولنے کا موقع نہ دیا اور پھر کہا یہ ساتھ تم خود کو دیکھو جیسے ایک ماڈل ہو ایک خوبصورت لڑکی حسن کا مکمل مجسمہ زرا اپنے سامنے تو دیکھو میں نے یہ کہتے ہوئے اس کے مموں پہ نظر ڈالی اس نے میری آنکھوں کے تعاقب میں اپنے اٹھے ہوئے گول ممے دیکھے تو فورا اپنی چادر درست کرنے کی کوشش کی تو میں نے فورا کہا کوئی فائدہ نہیں یہ چھپائے بھی نہیں چھپتے۔ میری بات سنتے وہ اور سرخ ہو گئی لیکن مجھے غصے کے ساتھ اس کے چئرے پہ شرم بھی نظر آئی اور وہ مجھے ایک نظر دیکھتے بولی بدتمیز کچھ تو شرم کرو سگی بہن ہوں مین آپ کی۔ میں نے کہا کہ میں کب انکار کر رہا ہوں کہ تم بہن نہیں ہو میں تو یہ بتا رہا کہ بھوکے آدمی کو بھوجا رکھ کہ بھی کھانے میں دال ملے اور پاس چکن بروسٹ بھی پڑاہو نظر تو پڑ سکتی ہے میری زندگی میں کوئی بھی لڑکی نہیں آئی اور آئی بھی تو حنا بیشک وہ اچھی ہے مگر اس میں جسمانی خوبصورتی بالکل بھی نہیں ہے اور تمہارے تو پاوں کے بھی برابر نہیں اب میں کیا کروں خود ہی بتاو تم اتنی حسین ہو کہ میں تمہیں دیکھ کہ بہک گیا تھا میں جانتا ہوں یہ غلط ہیی ہے لیکن اس میں میرا اتنا بھی قصور نہیں ہے ۔ میری یہ بات سن کہ وہ آنکھیں نیچے کرتے ہوئے بولی آئس کریم بھی کھا لیں کپڑوں پہ گر جائے گی ۔ میں نے گئری سانس لی اور آئس کریم کھانے لگا وہ بھی پلکیں جھکائے آئس کریم کھاتے ہوئے بولی ۔ یہ سب بہت ہی غلط ہوا ہے میں نے فورا کہا بس غلطی ہو گئی مجھ سے نا۔ آپ کو زرا بھی گھن نہیں آئی ایسا کرتے ہوئے اس نے اپنے پاوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ؟ گھن کیسی چڑیل؟؟ مجھے پتہ ہوتا تم جاگ رہی ہو میں تو گھنٹہ اور نہ چھوڑتا تمہیں میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بدتمیز انسان میں اب ماروں گی آپ کو اپنی گندی حرکت پہ زرا بھی شرمندہ نہیں ہو رہےہو۔ میں نے پھر کہا جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم اور شرماتا ہی رہتا تو یہ حسین برفانی پہاڑ کدھر دیکھ سکتا یہ کہتے ہوئے میں نے اس کی موٹی رانوں کی طرف دیکھا اس نے میری نظر کے تعاقب میں اپنی رانوں کو گھورت مجھے دیکھا تو ہاتھ پاؤں کی طرف بڑھاتے ہوئے شرماتے ہوئے بولی گاڑی چلاو اب بدتمیز ورنہ میں اب جوتی سے ماروں گی آپ کو۔ میں نے ہنستے ہوئے گاڑی چلا دی اور وہ بھی چپ ہو گئی میں نے جب فروا کی تعریف کی تھی اور اس کا مقابلہ حنا سے کر کہ اسے خوبصورت کہا تھا تو اس کا رویہ بدل گیا تھا اور مجھے یقین ہو گیا کہ عورت واقعی تعریف کی بھوکی ہے۔ لیکن میں بھی چہ تھا کہ وہ اگلی بات اب خود کرے اور میں جانتا بھی تھا وہ زیادہ دیر چپ نہیں رہے گی اور کچھ بولے گی اور جب بولے گی تو مجھے کوئی نہ کوئی پوائنٹ مل جائے گا میں بھی اس لیے چپ چاپ گاڑی چکا جا رہا تھا۔ جیسا میں نے سوچا تھا وہی ہوا اور دو منٹ سے بھی پہلے وہ بول پڑی بات سنیں میں نے گاڑی چلاتے اس کی طرف دیکھا تو وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔ میں نے پوچھا ہاں فرحی کیا بات ہے؟ وہ اسی طرح کھڑکی سے باہر دیکھتے بولی آپ نے بھابھی کو منہ دکھائی میں گولڈ چین دی تھی نا؟ ہاں تو؟ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ مسلسل باہر دیکھتے ہوئے بولی ادھر منہ دکھائی میں گولڈ چین اور مجھے اتنا کچھ کر کہ صرف شاپنگ ؟ پھر وہ سہیل وڑائچ کے انداز میں بولی کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟؟ میں بے ساختہ ہنس پڑا اور اسے کہا وہاں میں روز بہت کچھ کرتا ہوں نام منہ دکھائی کا ہوتا ہے ورنہ ہوتا اور بھی بہت کچھ ہے ۔ اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر باہر دیکھتے ہوئے بولی تو اس پہ آپ کا حق بھی ہے مجھ پہ یہ حق تو نہیں تھا نا میرا یہ حق تو کسی اور کا تھا جو آپ نے چرا لیا ۔ میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کی طرف کیا اور اس کی گانڈ کی سائیڈ پہ ہلکا سا تھپڑ مارا اور کہا میں نے کچھ نہیں چرایا یہ دیکھو سارا کچھ یہیں ہے وہ باہر دیکھ رہی تھی میرے اس طرح چھونے پہ بے ساختہ اچھل پڑی اور بولی بدتمیز کچھ شرم کریں یہ سڑک ہے اور اپنی کمیض سے اپنے موٹے چوتڑوں کو سائیڈ سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگی اور مجھے اس کو دیکھ کر ہنسی آ گئی مجھے ہنستا دیکھ کہ وہ بھی شرمندہ شرمندہ ہنسنے لگ گئی۔ میں نے اس کی منہ دکھائی والی بات سنی تو میرے زہہن میں ایک انوکھا خیال آیا میں نے گاڑی چلاتے چلاتے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا اور ایک بینک کے سامنے میں نے گاڑی کھڑی کر دی ۔ اس نے میری طرف دیکھا مگر کچھ نہ بولی میں گاڑی سے نیچے اترا اور اے ٹی ایم مشین کے پاس پہنچا اور پچاس ہزار روپے نکلوا لیے۔ پیسے لیکر میں گاڑی میں پلٹا اور بیٹھتے ہوئے پچاس ہزار روپے اس کی گود میں ڈال دئیے ۔ اتنے پیسے اپنی گود میں دیکھ کہ وہ حیران ہوتے ہوئے بولی یہ سب کیا ہے ؟؟ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا یہ منہ دکھائی سمجھو یا گانڈ دکھائی مگر اب یہ تمہارے ہیں ۔ وہ ایک نظر پیسوں پہ ڈال کہ بولی بدتمیز انسان امی مجھے جان سے مار دیں گی اور کچھ سوچ کہ بھی بولا کرو ۔ میں نے کہا ابھی تو تم کہہ رہی تھیں کہ مجھے کچھ دیا نہیں ہے اب دیا ہے تو بھی بحث کر رہی ہو ۔ چلو اس سے گولڈ کی کوئی چیز لے لیتے ہیں اور امی کو میں سنبھال لوں گا۔ اس کے چہرے پہ بے یقینی کے تاثرات تھے اس نے مجھ سے کنفرم کرتے پوچھا اوئے ڈرٹو بھائی کیا ہو گیا ہے کوئی نشہ تو نہیں کیا ہوا؟؟ میں نے بھی ہنستے ہوئے کہا کچھ نہیں کچرا رانی یہ سب تمہارے لیے ہی ہیں اگر تم وہاں چپ رہ سکتی ہو تو یہ تو کچھ بھی نہیں ہیں ۔ فروا نے میری طرف شرما کہ دیکھا اور بولی گندے بدتمیز ہو آپ لیکن اب کی بار اس کے چہرے پہ شرم اور مسکراہٹ تھی پیسہ واقعی سب کچھ بدل سکتا ہے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں پہلے ہم جیولر کے پاس جاتے ہیں اور وہاں سے تم بھی گولڈ چین اور جو کچھ لیتی ہو لے لو۔ اس نے میری طرف دیکھا اور شرارتی انداز میں بولی سوچ لو اب میں کنڈی لگا کہ سویا کروں گی مت ایسانا ہو کل افسوس کرو ۔ میں ہند پڑا اور کہا تم بیشک لاک بھی کر لینا مجھے کوئی افسوس نہیں ہو گا اور نہ مجھے تم پہ خرچ کرنے سے افسوس ہوتا ہے۔ سچ کہہ رہے ہو آپ؟ اس نے میری طرف بے یقینی سے دیکھا میں نے بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہا ہاں جب دل کرے آزما لینا۔ اچھا تو یہ بات ہے تو مکان کا اوپر والا پورشن میرے نام کر دو گے؟ ابو نے مکان میرے نام پہ بنایا ہوا تھا اور یہ بات سب کو پتہ تھی مجھے یہ بات سن کہ ہنسی آئی اور میں نے ہاتھ بڑھا کہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور گاڑی چلاتے چلاتے ہی کہا صرف اوپر والا پورشن کیوں؟ میں سارا گھر تمہارے نام کر دیتا ہوں اس میں کیا ہے یار؟ فروا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں مگر وہ کچھ نہ بولی اور چپ ہو گئی۔ میں نے بھی جب اسے جزباتی ہوتے دیکھا تو پھر کہا فرحی تم جو بھی مانگو گی تمہیں ملے گا میں تمہاری کوئی بات رد نہیں کر سکتا اور ساتھ اس کے ہاتھ کو ہلکا سا دبا دیا۔ فرحی نے ڈبڈائی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور ہنس کہ چپ ہو گئی۔ اس ساری گفتگو کے دوران ہم مارکیٹ میں پہنچ گئے اور میں نے ایک جگہ دیکھ کر گاڑی پارک کی اس نے بھی پیسے اٹھا کر اپنی بٹوے میں ڈال لیے میں نے گاڑی روکی تو وہ نیچے اترنے کے لیے دوسری طرف مڑی تو میں نے ہاتھ بڑھا کہ اس کی گانڈ دباٸ لیکن وہ کچھ نہ بولی میں گاڑی بند کر کے نیچے اتر آیا

میں گاڑی سے باہر نکلا تو فروا جو میرا انتظار کر رہی تھی چلتی ہوئی میرے پاس پہنچ آئی اور وہ تھوڑی الجھی ہوئی لگ رہی تھی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ہاں گڑیا کیا مسلہ ہے؟ وہ اپنے ہاتھ دوسرے ہاتھ میں مروڑتے ہوئے مجھ ایک نظر دیکھ کہ پھر آنکھیں جھکا کہ بولی بھیا یہ گگ گانڈ او نہیں منہ دکھائی بہت زیادہ ہے امی شک کریں گی اور مجھے ڈانٹیں گی آپ پھر سوچ لو ہم انہیں کیا بتائیں گے ۔ میں ایک لمحے میں سمجھ گیا کہ اس کے اندر بھی اس بات کا ڈر ہے تبھی ہچکچا رہی ہے ۔ میں ہنس کہ قریب ہوا اور کہا پاگل امی کو یہ شک کبھی نہیں ہو گا کہ کچھ منہ دکھائی ہے اگر تم نہ بتاو تو انہیں کیا پتہ؟ میں کہہ دون گا میں نے خود دیا ہے تو وہ کچھ نہیں کہیں گی اب انہیں یہ تو نہیں پتہ کہ میں تمہاری کے ٹو جتنی اونچی پہاڑی دیکھ چکا ہوں آخری بات میں نے تھوڑے مزاق کے انداز میں کہی جس سے وہ بے ساختہ سرخ ہو گئی اور زیر لب بولی بہت بدتمیز اور گندے بچے ہو آپ۔ میں نے اسے دوکان کی طرف بڑھنے کا اشارہ کیا لیکن اس نے نچلا ہونٹ اوپر والے ہونٹ میں دباتے چہرے پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے سر کو دائیں بائیں انکار میں ہلا دیا ۔ میں نے چہرے پہ سوالیہ انداز لاتے ہوئے اس سے پوچھا اب کیا ہے؟؟ وہ تھوڑا قریب ہو کہ بولی میں آپ کے آگے نہیں چلتی آپ پیچھے سے گھورو گے۔ میں تھوڑا شرارتی لہجے میں بولا اب سر بازار نہیں گھر جا کہ آرام سے دیکھ لوں گا تم بے فکر رہو۔ اس نے بھی ہنستے ہوئے کہا بدتمیز میں جوتی سے ماروں گی۔ میں نے کہا جان لے لو چاہے تم کو کس نے روکا ہے ۔ وہ بھی ہنس پڑی اور بولی ہم راہ میں کیوں کھڑے ہیں بھلا؟ میں نے کہا تم مجھ سے چھپ رہی ہو کئی اور دیکھ رہے ہوں گے یہ ساری باتیں ہم ہلکی آواز میں کر رہے تھے ۔ وہ میری بات سن کہ جلدی سے جیولر کی دوکان کی طرف بڑھ گئی اور پہلی بار اس لباس میں میں نے اسے پیچھے سے دیکھا بلاشبہ وہ بہت حسین لگ رہی تھی موٹے چوتڑ جن کا درمیانی علاقہ کافی وسیع تھا بالکل الگ الگ ہلتے نظر آ رہے تھے میں اس کی گانڈ دیکھتے دیکھتے اس کے پیچھے دوکان میں داخل ہوا ۔ ہمیں دیکھتے ہی ایک درمیانی عمر کے بندے نے کرسی سے کھڑے ہوتے استقبال کیا اور ہمیں سلام کیا ہم نے بھی جوابا سلام کیا تو اس نے آگے بڑھ کہ فروا کہ سر پہ ہاتھ پھیرا اور کہا خدا سہاگ سلامت رکھے ماشااللہ بہت خوبصورت جوڑا ہو بہت اچھا کیا والدین نے جو تم لوگوں کی جلدی شادی کروا دی اور اس نے ہمیں کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس کی یہ بات سنتے ہی فروا نے جلدی سے میری طرف دیکھا اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا تھا میں نے آنکھ کا ایک کونا ہلکا سا دبا کہ اسے اشارہ کیا۔ پھر رسمی گفتگو کے بعد میں نے ان انکل کو کچھ گولڈ چین دکھانے کا کہا۔ انکل نے گولڈ سیٹ جس میں بہت سی چین تھیں ہمارے آگے رکھ دین میں نے فروا کو اشارہ کیا تو اس نے ایک گولڈ چین اٹھائی اور کہا مجھے یہ پسند ہے دوکاندار انکل نے اس چین کو تولا اور ہمیں قیمت بتائی جو کہ میرے اندازے سے کم ہی تھی ۔ میں نے وہ چین پیک کروائی اور انکل کو کہا کہ انگوٹھیاں دکھا دیں اور انہوں نے انگوٹھیاں دکھائ اب کی بار میں نے ایک انگوٹھی اٹھائی اور فروا کی طرف اشارہ کیا تو اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں نے اس کے ہاتھ کو دیکھا تو مجھے بہت عجیب لگا اور ایک لمحے کے لیے مجھے آنکھوں کے سامنے حنا کے پتلے ہاتھ اور کمزور انگلیاں نظر آئیں اور دوسری طرف فروا کے موٹے خوبصورت ہاتھ اور مخروطی انگلیاں۔ میں نے اس کا نرم و ملائم ہاتھ پکڑا اور اس کو انگوٹھی پہنا دی ۔ اس کے چہرے پہ شرم کے تاثرات تھے ۔ انکل نے یہ دیکھا تو بولے ماشااللہ بیٹی بہت پیاری ہے یہ جو بھی پہنے اس پہ کھل اٹھتا ہے۔ فروا شرما کہ ہنس پڑی اور میں نے انگوٹھی اور چین کی قیمت ادا کی اور ہم دوکان سے نکل آئے۔ دوکان سے نکلتے ہی فروا نے مجھے پھر کہا بھائی بدتمیز بتایا کیوں نہیں کہ ہم بہن بھائی ہیں۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا یار اگر خیال میں ہی تم تھوڑی دیر کے لیے میری بیوی بن رہی ہو تواس سے اچھا اور کیا ہو گا سچ میں تو تم ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتی ہو۔ اس نے تھوڑا سنجیدہ ہونے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے خیال میں بھی بیوی بنانے کی مگر اس کے چہرے پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی۔ ہم ساتھ چلتے بھی جا رہے تھے۔ میں نے کہا چھوڑو یہ سب بس ایک بات مان لو ؟ اس نے چلتے چلتے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے کہا کہ پہلی بار یہ چین تمہیں میں پہنواوں گا ۔ اس نے ایک گئری سانس خارج کی اور مسکرا پڑی اور بولی ٹھیک ہے کوئی مسلہ نہین۔ میں نے کہا تم ہنسی کیوں تو پھر ہنستے ہوئے بولی اب ڈر لگتا ہے آپ کی خواہشات سے تو میں نے سوچا پتہ نہیں کیا بات منوانے لگے ہو۔ میں نے تھوڑی سنجیدہ شکل بنائی اور اس کو دیکھتے ہوئے کہا ایسا سوچنا بھی مت کہ میں تم سے کچھ زبردستی کروں گا تم میرے لیے سب کچھ ہو جیسے تم خوش ویسے میں۔ اس نے میری طرف ہونٹ پھیلا کہ مسکراتے دیکھا اور کچھ نہ بولی۔ ہم کپڑے والی دوکان میں گئے وہاں سے فروا نے اپنے لیے دو سوٹ لیے میں نے پھر ایک سوٹ امی اور حنا اور ابو کے لیے بھی لے لیا اس کے بعد اس نے کاسمیٹکس کی دوکان سے کچھ چیزیں اور لیں اور یہ سب لےکر ہم گاڑی کی طرف چل پڑے اس شاپنگ کے دوران میں نے دو بار چانس بنا کہ اس کو چھوا مگر وہ بالکل نارمل رہی ۔ میں نے گاڑی کی ڈگی کھولی اور سامان اس میں رکھا اور پھر دروازہ کھول کہ ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کر اس کا دروازہ کھولا اور سیٹ پہ ہاتھ رکھ لیا۔ وہ جیسے ہی سیٹ پہ بیٹھی تو میرا ہاتھ اس کی موٹی گانڈ کے نیچے دب گیا مجھے یوں لگا کہ نرم نرم مکھن کسی نے میرے ہاتھ پہ رکھ دیا ہے اس نے ہاتھ کو اپنے نیچے دیکھا اور پھر مجھے دیکھتے ہوئے بولی بدتمیز آدمی یہ سڑک ہے اور باز آ جاو اب آپ لیکن مزے کی بات تھی کہ اس کے چہرے پہ غصہ بناوٹی تھا۔ اس نے یہ سب کہتےہوئے گانڈ اوپر اٹھائی تاکہ میں ہاتھ نکال لوں میں نے اس کی گانڈ اوپر ہوتے محسوس کی تو ہاتھ کو اور اگے کر کہ اس کی گلی میں گھسا کہ رگڑنا شروع کر دیا

اففف بدتمیز انسان اس نے ایک سسکی بھری اور میرا ہاتھ پکڑ کہ اپنے نیچے سے نکال دیا میں نے بھی زیادہ مزاحمت نہ کی اور ہنسنے لگا اس نے مجھے ہنستا دیکھ کہ میرے بازو پہ ایک مکا مارا اور خود بھی شرمندہ شرمندہ ہنسنے لگی اور بولی بہت بہت گندے ہو آپ اتنی گندی حرکتیں اور وہ بھی سگی بہن سے افف۔ میں نے بھی شریر انداز میں کہا اب بھائی بھی کیا کرے اس کی زندگی کی حسین ترین لڑکی اس کی اپنی ہی بہن ہو تو اتنا حق تو بنتا ہی ہے۔ وہ بولی کوئی حق شق نہیں بنتا ایویں نا بولا کرو میں کوئی آپ کا حق نہیں ہوں ۔ میں نے پھر ہنستے ہنستے کہا میں نے بتایا ہے تم سے پوچھا نہیں ہے اور مکا ہوا میں لئرا کہ کہا ساڈا حق ایتھے رکھ وہ بھی ہنس پڑی اور بولی گاڑی چلائیں زیادہ شوخے نہ بنین ۔ میں نے گاڑی چلاتے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا فرحی ایک بات کہوں اگر برا نہ مناو اس نے سوالیہ نظروںسے میری طرف دیکھا تو میں نے ہاتھ بڑھا کہ اس کی چھاتی پہ آئے دوپٹے کو سائیڈ پہ کر دیا ۔ اس کا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا اور اس نے پھرتی سے دوبارہ دوپٹہ چھاتی پہ رکھ لیا اور سر نیچے جھکا کہ بولی بھائی نہیں پلیز یہ نہیں ۔ میں نے اس کو کہا پلیز فرحی ایک بار ۔ مگر اس نے سر کو نا میں ہلا دیا اور بولی نہیں پلیز آپ گاڑی سامنے دیکھ کہ چلائیں ۔ میں نے گاڑی چلاتے چلاتے گئیر چینج کیا اور اس کی ران کو گانڈ کے پاس سے ہلکا سا ٹچ کیا اس نے میری طرف دیکھا اور بولی آپ کا دل ابھی تک بھرا نہیں ہے اس سے گندے۔ میں نے دیکھا کہ چھاتی والے ری ایکشن سے یہ ری ایکشن کم ہے تو میں نے بھی ہمت کرتے ہوئے اس کی گانڈ کو سائیڈ سے پکڑ کہ ہلکا سا دبایا اور کہا یہ میرے پاس پوری رات ہو تو بھی میرا دل نہیں بھرے گا۔ فروا کی بڑی بڑی آنکھیں پھیل سی گئیں اور وہ مجھے دیکھتے ہوئے بولی بدتمیز پوری رات کیا کرو گے اس کا؟ میں نے جواب دینے کے بجائے زبان نکال کہ اسے دکھائی تو وہ منہ پہ ہاتھ رکھ کہ شرماتے ہوئے بولی افففففف چھی چھی گندے ڈرٹو شرم کرو ۔ میں نے ہاتھ اس کی گانڈ کے نیچے گھسا دیا اس نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپایا ہوا تھا اور وہ کھڑکی کی طرف مڑ گئی میں نے اس کی ٹانگ کو پکڑا اور کہا فرحی اسے دوسری ٹانگ پہ رکھ لو اس نے منہ چھپائے ہوئے کہا بھیا پلیز سڑک پہ نہیں کریں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے ۔ میں نے کہا چلو میں ٹچ نہیں کرتا تم بیٹھ جاو نا اس طرح ۔ وہ کچھ نہ بولی لیکن ٹانگ کو ٹانگ پہ رکھ کہ منہ چھپا کہ بیٹھ گئی ۔ گاڑی چلاتے چلاتے میں ساتھ اس کے موٹی گانڈ کو دیکھ رہا تھا جو میری طرف سے ٹانگ پہ ٹانگ رکھنے سے نمایاں ہو رہی تھی اور میری بہن اپنے گورے ہاتھوں سے منہ چھپائے ہوئے بیٹھی تھی۔ میں نے ایک ہاتھ ادھر کیا اور اس کی گانڈ پہ پھیرتا گیا اس نے منہ اسی طرح چھپایا ہوا تھا میں ساتھ ساتھ گاڑی بھی چلا رہا تھا اور اس کی گانڈ کو بھی سہلا رہا تھا ۔ میں نے اس کی قمیض میں سے اندر ہاتھ ڈالتے ہوئے اس کی ننگی کمر کو چھوا تو اسے ایک جھٹکا لگا اور وہ آگے جھکتی گئی کہ اس کا ماتھا ڈیش بورڈ پہ جا لگا۔ میں قمیض میں ہاتھ ڈالے اس کی کمر سہلا رہا تھا اور میری بہن منہ چھپائے ڈیش بورڈ پہ جھکی ہوئی تھی مجھے لگ رہا تھا کہ وہ اپنے آپ پہ کنٹرول کھو رہی ہے ۔ اس کے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھی۔ اس نے سسکتے سسکتے میری طرف دیکھا تو اس کا چہرہ سرخ تھا اور آنکھیں جیسے عجیب سی ہو رہی تھیں وہ کانپتے ہوئے بولی بھیا بس کر دیں اس حالت میں تو سب کو شک ہو جائے گا گھر پہنچنے والے ہیں مجھے سیٹ ہونےدیں پلیز ۔ اس کی بات سے مجھے بھی احساس ہوا اور میں نے اپنا چہرہ دیکھا جو کہ لال ببوکا ہو رئا تھا۔ میں نے ہاتھ اس کی کمر سے نکالا اور گاڑی روڈ کی ایک سائیڈ پہ لگا دی اور سیٹ سے ٹیک لگا کہ خود کو نارمل کیا اور فروا کو دیکھا جس کا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔ میں گاڑی سے نیچے اترا اور قریبی دوکان سے جوس کے دو ڈبے لیکر واپس پلٹا اور گاڑی میں بیٹھا تو فروا کی طرف دیکھتے ہی میری ہنسی چھوٹ گئی۔ اس کی آنکھیں جیسی نشیلی ہو چکی تھیں بال بکھرے ہوئے تھے اور دوپٹہ گلے میں تھا جس سے اس کا ایک مما پوری طرح واضح تھا ۔ میں نے ہنستے ہوئے جوس اس کی طرف بڑھایا تو اس نے مجھے بازو پہ ایک زوردار مکا مارا اور بولی بدتمیز جنگلی کچھ تو شرم کیا کرو ننھی سی بچی کی جان لو گے اب مجھے ہنستا دیکھ کہ وہ تھوڑا بناوٹی غصے سے بولی بدتمیز انسان کچھ شرم کرو نا اتنا تو سوچو کہ مجھے پہلی بار کوئی چھو رہا ہے اور وہ بھی سڑک پہ ۔۔ چھی چھی گندے انسان ہو آپ اور ساتھ اس نے جلدی سے جوس پینا شروع کر دیا اور جلدی جلدی جوس ختم کر کہ وہ زور سے پیچھے سیٹ پہ گری جیسے میلوں کا سفر طے کر کہ آئی ہو اور اس کے ہاتھ بے جان انداز میں اس کی گود میں گر گئے ۔ اس کے بالوں کی ایک لٹ چہرے پہ گری ہوئی تھی اور اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور گال اناروں کی طرح سرخ ہو چکے تھے مجھے بھی احساس ہو گیا کہ مجھے یہ حرکت گاڑی میں نہیں کرنی چاہیے تھی۔میں نے کچھ نہ کہا اور گاڑی کو سٹارٹ کر کہ گھر کیطرف چل پڑا۔ وہ اسی طرح سیٹ پہ لیٹی ہوئی تھی اس کا دوپٹہ گلے میں تھا اور اس کے گول مٹول ممے پوری شان کے ساتھ اکڑے ہوئے تھے اس کی آنکھیں بند تھیں اور میں بار بار اس کے ممے دیکھ رہا تھا جو کہ بالکل گنبد کی طرح گول تھے یا جیسے بڑے سائز کی ٹینس بال درمیان سے کاٹ کر لگا دی گئی ہو۔ میں گاڑی چلاتے چلاتے بار بار اس کے چہرے اور مموں کو دیکھ رہا تھا اس کی آنکھیں بند تھیں وہ اسی طرح بند آنکھیں رکھے ہوئے بولی سامنے دیکھ کہ گاڑی چلاو بے شرم انسان ۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا اس کی آنکھیں بند ہیں اور اسے علم نہیں تو میں بوکھلا کہ بولا منحوس بند آنکھوں سے تمہیں کیا پتہ میں گاڑی سامنے دیکھ کہ نہیں چلا رہا میں تو سامنے دیکھ کر گاڑی چلا رہا ہوں ۔ اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اس نے آنکھیں کھولے بغیر ہی کہا جی جی میں سب سمجھ رہی ہوں جو آپ کب سے بار بار دیکھ رہے ہو ۔ اس کی بات مکم ہوتے ہی میں نے گنگناتے ہوئے کہا کہ ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ ۔۔ بہت بہت بدتمیز ہو آپ اس نے اسی طرح آنکھیں موندھے ہوئے کہا ۔ اور سامنے دیکھو اب گھر کے قریب ہیں تو نارمل ہو جاو ایسا نہ ہو کہ کسی کو شک میں ڈال دو وہ یہ کہتے ہوئے سیٹ پہ سیدھی ہوئی اور بازو گردن کے پیچھے کر کہ اپنے بال سیٹ کرنے لگی اس کے یوں کرنے سے اس کے موٹے ممے اچھل کر واضح ہو گئے جس سے میرا منہ کھل گیا ۔ اس نے بال سیٹ کرتے کرتے مسکرا کہ کہا منہ میں مکھی گھسے نہ گھسے کہیں گاڑی ضرور گھسا دو گے میں اس کی بات پہ شرمندہ ہو گیا اور سامنے دیکھ کہ گاڑی چلانے لگا۔ اس نے خود کو سیٹ کیا اور سامنے کے شیشے میں اپنا جائزہ لیا اور مطمئن ہو کہ بیٹھ گئی اور بولی اب امی کو آپ سنبھالنا یار مجھے ڈانٹ نہ پڑوانا ۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا گڑیا تم وہ بات راز رکھ سکتی ہو تو یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے وہ ہنس پڑی اور بولی بنتے تو بہت بہادر ہو لیکن ہو زرا بھی نہیں ایک دم ڈر جاتے تھے اور اسی ٹون میں بولی جب بندہ برداشت نہ کر سکے تو رسک ہی نہ لیا کرے نا میں بھی ہنس پڑا اور کہا بس پتہ نہیں کیسے ہو گیا یہ سب؟ ساری حسرتیں پوری ہوتے دیکھ کہ مجھ سے رہا ہی نہیں گیا ۔ اس نے میری طرف دیکھ کہ منہ بنایا اور بولی کچھ تو معیار رکھو بھیا اتنی گندی حسرتیں آپ کی۔ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا اوئے چپ کرو خبردار جو اپنی کسی بھی چیز کو گندہ یا برا کہا تو ۔ وہ ہنس کہ بولی پاگل ہو گئے ہو آپ میں نے اس کی طرف ایک بھرپور نظر ڈالی اور اسے سر سے پاوں تک دیکھتے ہوئے کہا ہاں تم ہو ہی اتنی پیاری اور ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کہ اس کے کولہے پہ رکھ دیا اس نے ٹانگ پہ ٹانگ رکھی ہوئی تھی اس نے میری طرف دیکھا اور پھر باہر دیکھنے لگ گئی میں نے ہاتھ کو کھسکا کہ اس کے کولہوں کے نیچے کیا اس نے بھی اوپری جسم سے کھڑکی کی طرف ہوتے ہوئے گانڈ میری طرف کر دی میں نے اس کی نرم ملائم گانڈ کے درمیاں ہاتھ پھیرتے ہویے اس کی گلی کے اندر سوراخ تلاشنے شروع کر دئیے جیسے ہی میری انگلیاں اس کی پھدی کے ہونٹوں سے ٹکرائیں تو اس نے ایک لمبی سسسسسی کی اور فورا سیدھی ہو گئی اور بولی بدتمیز اب محلے میں پہنچ آئے ہم ۔ میں نے بھی یہ دیکھتے ہوئے اس کے نیچے سے ہاتھ نکال لیا سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے بازار سے گھر آتے ہوئے وقت کا احساس بالکل بھی نہیں ہوا تھا۔ خیر ہم گیٹ پہ پہنچے تو اس نے کہا میں گیٹ کھولتی ہوں اور دوسری طرف مڑی تو میں نے دیکھا گلی میں کوئی نہیں ہے تو اس کی گانڈ میں پھر ہلکی سے انگلی چڑھائی۔ وہ بنا کچھ بولے نیچے اتری اور گیٹ کھولنے لگ گئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "بہن یا بیوی ؟ (قسط2)"