مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ کوُئی مُجھے دیکھ رہا ہے ۔ ۔ میں نے ادھر ادھر
نظریں دوڑائیں مجھے کوئ دیکھتا ہوا دکھائی نہ دیا ہر کوئی اپنے ساتھیوں کے
ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا ۔ ایک شوشل ورکر کے ہاں پارٹی تھی اور
میں بھی أس میں مدعو تھی ۔ ایک بڑی شوشل پارٹی کی وجہ سے کافی سےزیادہ
لوگ دعوت میں موجود تھے اور اکثر ایک دوسرے سے ناواقف تھے اس لئے لوگ اپنے اپنے
جاننے والوں کے ساتھ الگ الگ یا گروپ کی صورت میں باعث مباحثہ میں مشغول تھے
میں بھی اپنی فرینڈذ کے ساتھ خوش گپیوں میں لگی ہوئی تھی کہ مجھے بے چینی
سی محسوس ہوئی اور مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی مجھے دیکھ رہا ہے ۔ میں نے
بہت کوشش کی کہ معلوم کروں کہ یہ میرا وہم تھا یا واقعی کسی کی کی نگاہوں کی ذد
میں تھی ۔ بہت کوشش کی کہ کسی کو دیکھتے ہوئے دیکھ سکوں مگر بے سُود ۔ لیکن
میری چھٹی حس برابر مجھے متنبہ کر رہی تھی ۔ میں اپنی دوستوں کے ساتھ گپ شپ
بھی کرتی رھی اور ادھر أدھر بھی دیکھتی رہی کہ اتفاق سے میری ساتھ والے کمرے
کے دروازے کی طرف نگاہ گئی تو میں نے أسے اپنی جانب بڑے غور سےدیکھتے ہوئے
پایا ۔ ساتھ والے کمرہ پر مرد حضرات نے قبضہ جما رکھا تھا اور زیادہ لوگ ہونے کی
وجہ سے دروازے تک لوگ براجمان تھے اور وہ وہیں دروازے سے ہماری طرف دیکھ سکتے تھے اگرچہ ہماری ٹولی کمرے کی دوسری سائڈ پر تھی مگر وہ حضرت جب بھی موقع ملتا مجھے دیکھ لیتے ۔ میرے لئے وہ بالکل اجنبی تھا اور پہلی بار ہی أسے دیکھنے کا اتفا ق ہوا تھا ۔ ایک پُرکشش شخصیت کا جوان جس کی طرف کوئی بھی عورت دوسری بار دیکھنے کو مجبور ہو جائے مجھ مڈل ایجڈ عورت کی طرف کس لئے متوجہ ہو سکتا
یہ سوچ کر میں د لجمعی سے اپنی فرینڈذ کےساتھ باعث مباحثہ میں شریک ہوگئی کیونکہ وہ ألجھن دور ہو گئی تھی کہ کون دیکھ رہا تھا ۔
میں اب گاہے بگاہے أس طرف بھی دیکھ لیتی اور أسے اپنی طرف متوجہ پاتی ۔ اب مجھے
یقین ہوتا جا رہا تھا کہ موصوف نے اتنی حسینائیں جوان اور نوخیز گرلز اور خواتین میں سے مجھے ہی نظرِالتفات کا نشانہ بنا رکھا ہے ۔ میں نے بھی أس کی طرف چور نظروں سے دیکھنا شروع کردیا جسے أس نے بھی محسوس کیا اور اب میں جب بھی اس جانب أچٹتی نظر ڈالتی تو أس کی نظروں کی تپش محسوس کرتی اور بے خیالی میں کئی بار میں مسکرا بھی دی أس کی نظروں سے اب طلب جھلکتی نظر آتی وہ اپنی نگاہوں سے اب مسلسل پیغام رسانی کا کام لے رہا تھا ۔ میں نہ ہی تو حوصلہ افزائی کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی یہ سلسہ ٹوٹنے دینا چاہتی تھی کیونکہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ مجھے اچھا لگ رہا تھا ۔ چاہے جانا پسند کئے جانا ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے اور ایک پنتالیس سالہ عورت کو ایک تیس پیتیس سال کا جوان نظروں ہی نظروں میں نہار رہا ہو تو یہ عورت ہی جان سکتی ہے ک وہ اندر ہی اندر کتنا خوش اور مسرور ہوسکتی ہے ۔ تو میں بھی أس طرف گاہے نظر ڈال لیتی اور ایک أچٹتی ہوئی نگاہ أس پر بھی ڈالتی ۔ وہ کوئی اجنبی ہی تھا کیونکہ اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے افراد بھی أسکے ساتھ کوئی زیادہ بات چیت نہیں کر رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد میں نے بھی أس کی آنکھوں میں دیکھنا شروع کردیا اور کسی کسی وقت جھکی نظروں سے مسکرا بھی دیتی ۔ وہ اب زیادہ خوش نظر آنے لگا تھا اور اسکی نظروں میں ہوس صاف نظر آرہی تھی ۔ میں اپنی فرینڈذ کے ساتھ بھی محوِگفتگو رہی اور اس کے ساتھ بھی نہ جانے کہاں پہنچ چکی تھی ۔ دماغ تو ابھی تک دلائل کی جنگ میں مصروف تھا مگردلی اور جسمانی تقاضے مجھے سرنڈر کرنے پر رضامند کر چُکے تھے ۔ میں چور نظروں سے اپنی پسندیدگی اوررضامندی کا اظہار کر چُکی تھی اسکا اب دیکھنا میری ریڑھ کی ھڈی تک سرایت کر جاتا تھا ۔ایسے میں کھانا شروع ہونے کی اناونسمنٹ ہوئی تو ہم خواتین بھی ایک ڈائننگ ٹیبل جس پر کئی اقسام کی ڈشز لگی ہوئی تھیں سے اپنی اپنی پلیٹ میں کھانا پروسنا شروع کردیا اور مرد حضرات اُسی ٹیبل کی دوسری سائڈ سے کھانا لینے میں مصروف تھے اتفاقا وہ صاحب میرے مقابل آگئےیا انہوں نے دانستہ کسی طرح ایسا منیج کیا تھا کہ ٹیبل کی ایک طرف سے میں کھانا لے رہی تھی اور میرے بالمقابل دوسری طرف سے وہ ۔ مجھ میں حوصلہ نہیں تھا کہ اس کیطرف برائے راست دیکھتی مگر میری نظریں أسکی پلیٹ پر تھیں کیونکہ جو کچھ میں اپنی پلیٹ میں ڈالتی وہ بھی وہی اپنی پلیٹ میں رکھتا ۔ سوچا ہو سکتا ہے ایسا اتفاق سے ہو رہا ہو میں نے اپنی پلیٹ سےایک چکن لیگ نکال کے رکھدی تو أس نے بھی ایسا ہی کیا میں نے اس کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہا تھا اور میں بھی دھیمے سے مسکرا دی ۔
ہم سب اپنی اپنی پلیٹس اورکولڈ ڈرنکس لے کر اپنی اپنی جگہ واپس آکے کھانا تناول کرنے لگے کھانا بہت زبرد ست او لذیذ تھا سب نے ہی شوق سے کھایا اور کھانے کے بعد پھر ہم سب سویٹ ڈشز کی طرف بڑھے میں نے چوکلیٹ پسند کیا مگر اس بار وہ صاحب کافی دور تھےاس لئے جب وہ واپس اپنی جگہ لوٹے تو میں نے دیکھا وہ صاحب ونیلا آئس کریم ذوق فرما رہے ہیںسب نے ہی اپنی اپنی پسند سےجو چاہا وہ لیا اور انجوائے کیا پھر اکا دکا شریکِ محفل کو واش رومز میں جانے کی حاجت ہوئی یہ تین بیڈ روم کا ہاؤس تھا اور باتھ روم تو بیڈ رومزمیں ہی تھے جو کہ دوسری منزل پر تھے اور نیچے صرف دو واش روم ہی تھے وہ بیک ڈور کے ساتھ ملحق تھے اور قدرے اندھیرے میں تھے کیونکہ اس طرف لائٹس کم تھیں ۔ مجھے بھی حاجت محسوس ہوئی تو میں بھی اس طرف گئی ایک دو پہلے سے ہی ویٹ کر رہے تھے کہ اندر جائیں میں بھی زرا ہٹ کے کھڑی ہو گئی اور باری کا انتظار کرنے لگی کہ اتنے میں وہ صاحب بھی میرے پاس آکے کھڑے ہو گئے ۔ ہماری نظریں ملیں مگر ہم ایک دسرے سے کچھ بولے نہیں ، اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی مگر آنکھوں میں شرارتی مسکراھٹ ۔ اب میں نے چور انکھیوں سے اس کی پرسونیلٹی کا جائزہ لیا وہ کوئی چھ فیٹ اور دو یا چار انچ کا قدآور بہت ہی سمارٹ ویل ایجوکیٹڈڈ پُر کشش شخصیت کا مالک ۔ قاتلانا مسکراہٹ کا حامل تھا آپ أسے لیڈی کلر بھی کہ سکتے ہیں
تھوڑی دیر کے بعد صاحب میرے ساتھ لگ کے کھڑے ہو گئے اور میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چُھونے لگے ۔ میں نے ادھر أدھر نظر دوڑائی کوئی ہماری طرف متوجہ نہ تھا اور روشنی کم ہونے کی وجہ سے صاف نظر آنا زرا ناممکن تھا ۔ أس نے آہستہ سے میرے ہات کو اپن ہاتھ میں لے لیا اور دبانے لگا میں کچھ کہ نہ سکی نہ ہی اپنا ہاتھ چھڑایا ۔ شاید یہ نادانستہ اسکی حوصلہ افزائی تھی کہ أس نے اچانک میرا ہاتھ اپنی پنٹ کی زپ کی جگہ رکھ دیا اس نے اوپن شرٹ پہنی ہوئی تھی اور شرٹ پینٹ کے اندر نہ تھی ۔ میں تو اس کی بے باکی اور حوصلہ پر حیران رہ گئی مگر زیادہ حیرانی مجھے اسکے مردانہ عضو کوچھو کر محسوس ہوئی کہ وہ کافی بڑا اور موٹا لگ رہا تھا اور نیم ایستاہ تھا اگرچہ پینٹ کے اندر ہی تھا مگر میں اس کو محسو س کر کے اپنی ٹانگوں تک کمزوری محسوس کرنے لگی - میں کافی پریشان ہوئی کہ اس کو اتن ہمت کیسے ہوئی کہ اس نے ایسی حرکت کی دوسرا اس ابھار کو محسوس کرکے کہ یہ کوئی فیک ابھار ہی ہوسکتا ہے کیونکہ اس کا سائز کافی سے زیادہ بڑا لگ رہا تھا
میں اب بھی وہیں کھڑی تھی اور اب رہ رہ کر چور نگاہوں سے اسکے ابھار کو دیکھ لیتی من چاہ رہا تھا کاش ایک بار دبا کے دیکھ لیتی تو پتہ چل جاتا کہ أبھار کہیں فیک تو نہیں ابھار مزید ابھر کر بڑا ہو گیا ۔ میرا حلق خشک ہونے لگا تھا اور میں بے قراری محسوس کر رہی تھی ابھی واش روم میں جانے کے لئے ایک اور آدمی کے بعد میرا نمبر آنا تھا ۔ وہ میری حالت دیکھ رہا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ میں اتنی بیکل کیوں ہو رہی ہوں میں اسکے ابھار کو دیکھتی اور اپنےخشک ہونتوں کو زباں سے تر کرتی میرا سارا جسم تپ رہا تھا اس نے پھرہولے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ میں نے چھڑانے کی معمولی سی کوشش کی مگر اس بار اس کی گرفت کافی مضبوط تھی اور اس نے میرا ہاتھ پھر اپنے ابھار پر رکھ دیا ۔ اس نے کوشش کی کہ میں اسے پکڑ لوں ، تھوڑی سی کوشش کے بعد وہ میرا ہاتھ اس پر رکھنے میں کامیاب ہوگیا میں بھی یہی چاہتی تھی مین نے اس کے اوپر ہاتھ پھیرا ور پھر اس کو دباکے دیکھا تو مجھےتسلی ہو گئی کہ اصل ہے فیک نہیں مگر میں یقیں نہیں کرپارھی تھی کہ کسی کا اتنا موٹا بھی ہو سکتا ہے
جلد ہی مجھے آس پاس کا خیال آیا کہ کوئ دیکھ ہی نہ لے اور اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا اور اسے دیکھے بنا ہی وہاں سے واپس لوٹ آئی ۔ اب مجھے سگریٹ کی سخت طلب ہوئی مگر سگریٹ کا پیکٹ تو باھر پارکنگ لاٹ میں کھڑی کار میؒں تھا ، پبلک گیدرنگ میں سگریٹ نوشی معیوب سمجھی جاتی ہے اس لئے سگیٹ پیکٹ کار میں ہی چھوڑ دیا تھا ۔ اب أس کا چُھو کرتو میں بے بس سی ہو گئی تھی مجھےسانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا مجھے تازہ ہواکی ضرورت محسوس ہو رہی تھی تو میں نے اپنے ساتھ آنے والی ھمسائی کو بتایا کہ میں سگریٹ کے لئے زرا باھر جار ھی ہوں اسے سگریٹ سے الرجی تھی اور نفرت کرتی تھی سگریٹ سے جس کی وجہ سے وہ خوش ہو گئی کہ کہیں میں نےاسے اپنے ساتھ آنے کو نہیں کہ دیا اور میں اسے بتا کر بیک ڈور سے بیک یارڈ میں پارکنگ لاٹ کی طرف نکل آئی ۔ ۔۔
میں سگریٹ کی طلب میں بیک ڈور سے بیک یارڈ میں نکل آئی اور اپنی کار کو دیکھنے لگی
کہ کس طرف پارک کی تھی میں چونکہ شام سے پہلےآئی تھی أس وقت میں نے کار کو ایک سائیڈ میں ایک درخت کے نیچے پارک کیا تھا اور أس تک اتنے مہمان نہیں آئےتھے اور اتنی زیادہ وہیکلز نہیں تھیں ۔ اب اگرچہ سٹریٹ لائٹس کی کافی روشنی تھی پھر بھی مجھے اندازہ
نہیں ہو پا رہا تھا کہ گاڑی کھڑی کہاں تھی ریموٹ سے کار کی پارکنگ کامعلوم کرکے
میں اس جانب بڑھی اور جلدی سے سگریٹ پیکٹ أٹھا کے سگریٹ سلگایا اور ایک دو کش لے کرمیں وہیں کار کے بونٹ پر ہی بیٹھ کر سگریٹ سموک کرنے لگی ۔ موسم خنک تھا مگر مجھے تو گرمی محسوس ہو رہی تھی شکر ہے دیسی پارٹی ہونے کی وجہ سے میں شرٹ اور پاجامہ نما شلوار پہن کے آئی تھی ورنہ بھاری ملبوس ہوتا تو مجھے کافی پریشانی کا سامنا ہوتا ویسے بھی مجھے ہلکا پھلکا لباس ہی پسند ہے ۔ تکلفات سے کوفت ہوتی ہے اس لئے کسی سادہ لباس میں بھی پارٹی وغیرہ میں شریک ہو جاتی ہوں اور یہ پارٹی تو سماجی کارگزاری کی رپورٹ کے بارے میں تھی اور اب کھانے کے بعد سفینہ آپی جو کہ شوشل ورکر ہیں اورجس نے اس گیٹ ٹو گیدرنگ کا اہتمام کیا تھا نے ایک مووی کا پروگرام رکھا تھا جس میں ان کی پورے سال کی کارگذاری دکھائی جانی تھی ۔ میں نے سوچا ایک دو سگریٹ سموک کرکے میں بھی ان سب کے ساتھ شامل ہو جاؤنگی کہ ان سب میں تو وہ بھی ہوگا أس کا خیال آتے ہی میرے زہن میں أس کا ابھار أبھر آیا اور میری انگلیوں کو اس کا لمس ستانے لگا ۔ میرے سارے بدن میں ایک لہر سی دوڑ گئی اور میں سوچنے لگی جو کچھ میں نے محسوس کیا تھا جس کو چھوا تھا دبا کے دیکھا تھا اتنا موٹا بھی کسی کا ہوتا ہے سچ تو یہ ہے کہ اب تک میں کافی برت چکی تھی کسی کا میں شکار ہوئی تو کوئی میرا شکار ہوا ۔ کسی کا لمبا کسی کا موٹا ہر طرح کے مردانہ اوزار برت چکنے کا اتفاق ہوچکا تھا ۔ مگر اتنا موٹا میں نے پہلی بار چھو کر دیکھا اور دبا کر جانچا تھا۔ میں شاید تکلف سے کام لے رہی ہوں اور کچھ شرما بھی رہی ہوں کہ اس عضو مردانہ کو کیا کہ کرلکھوں ۔ ایک وقت تھا جب دیسی عورت کے لئے خاوند کا نام لینا یا أسے نام سے پکارنا بہت مشکل ہوتا تھا اب خیر نام تو بگاڑ کر بھی ہم لے لیتی ہیں مگر ان کا اوزار منہ میں تو ڈال لیتی ہیں مگر أسے کہنا کافی مشکل محسوس ہوتا ہے ویسے اس کا ننم لینا یا کہنا کافی سیکسی معلوم ہوتاہے اور مردوں کو تو عورت سے اسکا نام کہلوا کر کچھ زیادہ ہی مزہ آتا ہے مجھے یا د ہے جب شادی ہوئی تھی تقریبا پچیس برس پہلے ، شادی کے دوسرے یا تیسرے روز میرےخاوند نے اپنا اوزارمیرے ہاتھ میں دے کر پوچھا تھا کہ اس کو کیا کہتے ہیں ۔ میں کیا بتاتی شرم سے گلنار ہوگئی اور میں نے کہ دیا میں کیا جانوں ۔ ۔ اب میاں ضد کرنے لگے کہ بتاؤ تومیں نے کہا آپ بتا دیں
تو انہوں نے بتایا اس کو لن کہتے ہیں لنڈ بھی کہتے ہیں ھم پنجابی ہیں اس کو لوڑا کہتے ہیں۔
پھر پوچھنے لگے تمہیں یہ کیسا لگتا ہے؟
۔ میں بولی کیا مطلب؟
تو بولے تم کو اچھا لگتا ہےیا نہیں ۔
میں شرما گئی اور چپ رہی، انہوں نے میری ٹھوڑی انگلی سے اوپر اٹھائی اور میرے
ہونٹوں کو بوسہ دے کر پوچھا بتاؤ ناجان اچھا لگتا ہے
تو میں نے اقرار میں سر ہلایا، پھر وہ بولے جان بتاؤ اچھا لگتا ہے کہ پیارا۔
میں پھر چپ ، انہوں نے پھر پوچھ بتاؤنا پلیز
ہم میاں بیوی ننگے ہی تھے تو میں نے لن کو دیکھا جو سر اٹھا کے اکڑا ہوا لہرا رہا تھا
سچی بہت پیارا لگ رہا تھا ۔ میں نے لن کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا ایک ہی بات ہے اچھا لگنا یا
پیارا لگنا وہ کہنے لگے نہیں تم بتاؤ ۔ میں بولی اچھا بھی اور پیارا بھی ۔
وہ کہنے لگے چلو ٹھیک ہے تم اس کو پیار کرو منہ میں لے کر
میں نے کہا کبھی نہیں ایسا تو میں نہیں کرسکتی اتنا گندہ اور منہ میں ۔
بولنے لگے تم نے خود ہی کہا ہے پیارا لگتا ہےتمہیں تو پیار کرو اسے ،
میں سوچنےلگی کیا کروں عجیب الجھن میں پھنس گئی ہوں نئی نئی شادی ہوئی تھی ماں کی
ہدایت تھی جیسے مجازی خدا کہے کرنا اور وہ کہ رھا تھا لن منہ میں لوں ۔[اس وقت انٹرنیٹ نہیں تھا اور لن کو منہ میں لینا ایک معیوب بات تھی اب تو سٹارٹنگ ہی بلوجاب اور سکسٹی نائن سے ہوتی ہے ۔ ہاں مرد لوگوں کو شاید معلوم ہوتا تھا اسی لئے میرے میاں یہ فرمائش
کر رہے تھے ] خیر انکی ضد ی فرمائش کو دیکھتے ہوئے میں نے ان کے لن کو ایک بوسہ دیا پھر ایک بار پھر چوما اور تیسری بار چوما تو کہنے لگے کہ منہ میں لو ناں پلیز ۔ تو
میں نے معزرت کرلی کہ پھر کبھی آج نہیں وہ مان گئے سوچا ہوگا اج نہیں تو کل یا پرسوں
اور ان کی سوچ بجا تھی کہ أنے والے دنوں میں ہم ایک دوسرے کی خواہش کے مدِ نظر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے تھے ۔
اب وہ میری چوت کو سہلاتے ہوئےپوچھنے لگے کہ تمہاری اس کو کیا کہتے ہیں ، میں نے کہا آپ تو جانتے ہیں مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں تو وہ اس کو انگلیوں سے چھوتے ہو ئے کہنے لگے اس پیاری کو چوت بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی میری چوت کا بوسہ لے لیا میں تو حیران ہوگئی کہ کوئی چوت جیسی گندی چیز کو بھی چومتا ہے مگر میں کچھ کہ نہ سکی انہوں نے اسے چومنا شروع کردیا اور انگلی سے کھجاتے بھی جا رہے تھے ۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے اپنی زباں کی نوک سے چوت کو کھجایا اور پھر تو باقاعدگی سے چاٹنے لگے مجھے بہت مزہ آرہا تھا مگر ان کو میں روک بھی رہی تھی میں ان کے بال پکڑکے انہیں اوپر کھینچنے کی کوشش کرتی مگر جب انکی زبان چوت کے اندر جاتی تو سر کو اور چوت کی طرف دبا بیٹھتی یہ شاید ہماری شادی کا تیسرا دن تھا اور انہوں نے مجھے ایک نئے مزہ سے روشناس کیا۔ اخر وہ میرے اوپر آگئے اور میرے منہ میں اپنی زباں دے دی میں تھوڑی دیرپہلے جس چیز کو گندہ کہ رھی تھی اب اسی کا رس انکی زبان سے چو س رھی تھی ۔ ان کا چاٹنا غضب ڈھا گیا تھا اور میں ان کو بے خودی میں دیوانوں کی طرح چومنے لگی تھی ، ایک زبردست چدائی کا دو ر چلا پھر باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا
پنجاب میں چوت کو پُھدی بھی کہتے ہیں اور جس علاقے سے میں تعلق رکھتی ہوں وہاں اسے تیتا اور کُس کا نام بھی دیا گیا ہے
سوری میں ٹاپک سے ہٹ گئی میں اس صاحب کے بارے سوچ رہی تھی اب تک مجھے اس کے لمس کا احساس ہو رہا تھا اس کا لن اتنا موٹا تھا کہ اسے لوڑا ہی کہنا اچھا لگتا ہے دل کرتا
تھا کہ کسی طرح اسکا لے لوں پہلے تومیں اسکی نظروں کا شکار ہوئی اور اس کی طرف کھینچتی چلی گئی مگرجب سے اس کےلوڑے کو چھوا تھا وہ میری چوت کی مانگ بن گیا تھا
اور اب مجھے کوئی ایسی تدبیرنہیں دکھائی د ے رہی تھی ۔ میں اب تک دو سگریٹ پھونک چکی تھی اور تیسرا سُلگا چُکی تھی ، میرا دھیان بار بار اس کے أبھار کی طرف پلٹ جاتا جس کی وجہ سے میری چوت میں بھی کھجلی ہونے لگتی ۔ ملگجی اندھیرا ہونے
کی وجہ سے کسی کےدیکھنے کازیادہ امکان نہیں تھا میں کئی بار شلوار میں ہاتھ ڈال کر
پینٹی کو چیک کرچکی تھی پینٹی گیلی تھی اور چوت مسلسل لییک ہو رہی تھی یہ اس لوڑے
کے لئے چوت کی ضد اور فرمائش تھی مگر کیا کروں ۔ اس سے جاکر میں فون نمبر لوں
یا اس پرچھوڑ دوں کہ وہ کیسے اور کس طرح مجھے شکار کرتا ہے ۔ ا سکی آنکھوں
میں اپنے لئے جوطلب دیکھی تھی مجھے یقین تھا وہ کچھ نہ کچھ تدبیر سوچ چکا ہوگا ۔
اور میں اس کا لوڑا چُھو کر اور دبا کر دانہ ڈال آئی تھی وہ ضرور چبائے گا پھر
خیال آتا کہ کیا معلوم وہ فلرٹ ہو اور جب اس نے دیکھا کہ میں سرنڈر کرچکی ہوں تو
وہ مطمئن ہو کر سب کچھ بھول چکا ہو ایسے ہی خیالوں میں گرفتار چوت کو سہلاتی اور
اس کو تھپکتی رہی ۔ میں نے پاجامہ نما شلوار پہن رکھی تھی جس میں آزار بند کی جگہ الاسٹک ڈالا ہوا تھا اور شلوار میں ہاتھ ڈالنا نکالنا اسان تھا ۔
ایسے میں خیال آتا نہ جانے کس قسم کا آدمی ہو کیونکہ میں نےنہ کبھی پہلے دیکھا نہ ملی تھی
وہ ایک اجنبی تھا اور میں اس سے ہار مان چکی تھی وہ کسی بھی وقت مجھے برت سکتا تھا
میری بے قرار طبیعت کو چین نہیں آرہا تھا میں جانتی تھی جب تک اس سے کروا نہ لوں
مجھے قرار ملنا مشکل ہوگا جب من کسی سے چُدوانا چاہے تو پھر جب تک وہ چُود نہ لے
تب تک چُوت کی کُھجلی تن بدن میں آگ لگائے رکھتی ہے ۔
اتنے میں جس دروازہ سے میں آئی تھی وہاں کسی نے سگریٹ سلگائی ، کوئی سگریٹ
پینے باہر آیا ہوگا ۔ مجھے وہ ہیولہ کی طرح نظر آرہا تھا لائیٹس تو تھیں مگردرختوں کی وجہ
سے روشنی مدھم ہی تھی ۔ میں نے سگریٹ کا کش لیا اور وہ ہیولہ جو دروازے کے آگے
چہل قدمی کر رہا تھا کے قدم رک گئے اور میری جانب دیکھنے لگا میں نے ایک اور
کش لیا تو وہ ہیولہ میری جانب چل پڑا وہ بڑی آہستہ خرامی سے چہل قدمی کے انداز میں
میری طرف ہی آرہا تھا کچھ نزدیک آنے سے اتنا تو معلوم ہو گیا کہ وہ کوئی مرد ہے
عورت نیہیں مگر پہچاننا مشکل ہی تھا کہ کون ہے ۔ میں عجیب امید وبیم کی زد میں تھی
من دعا کرتا کہ کاش وہی ہو اور دماغ کہتا کہ نہ ہو تو اچھا ہے اب وہ سگریٹ کے کش لگاتا
میری جانب بڑھتا آرہا تھا کہ میرا سانس اوپرکا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا میں نے
اسے پہچان لیا تھا ۔ میری طلب کا جواب اجنبی کی صورت نزدیک پہنچ چکا تھا
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا ک کیا کروں یوں ہی بیٹھی رہوں یا دوڑ کر اس کے گلے لگ جاؤں یا کہیں چُھپ جاؤں وہ سامنے آچکا تھا کہ اچانک کوئی عجیب سی اواز سنائی دی اور میں اس طرف متوجہ ہو گئی
اب وہ سگریٹ کے کش لگاتا میری جانب بڑھتا آرہا تھا کہ میرا سانس اوپرکا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا میں نے اسے پہچان لیا تھا ۔ میری طلب کا جواب اجنبی کی صورت نزدیک پہنچ چکا تھا میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا ک کیا کروں یوں ہی بیٹھی رہوں یا دوڑ کر اس کے گلے لگ جاؤں یا کہیں چُھپ جاؤں وہ سامنے آچکا تھا کہ اچانک کوئی عجیب سی اواز سنائی دی اور میں اس طرف متوجہ ہو گئی ۔ وہ درخت کے اوپر سے کسی پرندے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے اندازہ ہوا کوئی پرندہ ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پرگیا تھا ۔ میری نظر پھر سامنے کی طرف گئی وہ قریب آچکا تھا اور میں وہاں بے حسِ وحرکت اس کی جانب ایسے دیکھے جارہی تھی جیسے کوئی سحر زدہ ہو یا جیسے کسی کو ہپٹنائز کر دیا گیا ہو ۔ وہ میرے سامنے آکے کھڑا ہوگیا ہماری نظریں ملیں اس کے کی تاب نہ لاتے ہوئے میں نے نظریں جھکا لیں اور اب میں اس أبھار کی جانب متوجہ ہو گئی جو اب بھی نظر ا رہا تھا۔ نہ اس نے کچھ کہا نہ میں ہی کچھ بول سکی ۔ میں وہیں کار کے بونٹ پر ہی بیٹھی رہی اور وہ میرے نزدیک سامنے آ کے کھڑا ہوگیا ۔ اچانک أس نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور دیکھنے لگا پھر جھک کر اس نے میری پیشانی پر ایک بوسہ دیا ایک سکون کی لہر میرے سارے بدن میں دوڑ گئی اس نے باری باری میری دونوں آنکھوں کو چوما اور پھر میرے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ اس وقت اس کی نظروں میں مجھے اپنے لئے بے پناہ پیار نظر آیا ۔ میرے دل سے اب اس سے اجنبیت کا احساس کم ہونے لگا وہ میرے ہونٹوں کو اپنے انگوٹھے سے چھو رہا تھا اور ہلکا ہلکا ان پر مساج کر کررہا تھا جس کی وجہ میرے ہونٹ تشنگی سے جل رہے تھے ۔ پھر اس نے میری نظروں میں دیکھتے ہوئے اپنے گرم ہونٹ میرے پیاسے لبوں پر رکھ دئے اور ان کا بوسہ لے کر پھر میری طرف دیکھا ۔ مجھے عالم سُپردگی کی کیفیت میں دیکھ اس نے میرے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور چُوسنے لگا اس کے لبوں کے چوسنے کے انداز سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ ایکسپرٹ کسر ہے میں بھی اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگی اوراس کی زبان کو اپنے منہ میں لے لیا اس کی زبان میرے مُنہ کے ہرحصہ کو چھو رہی تھی کہ میں اس کی زبان کو ہونٹوں میں دبا کر چُوسنے لگی ۔ وہ اسی طرح میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھامے میرا ساتھ دے رہا تھا ۔ مجھے اس کے ابھار کا خیال آیا تو میں نے اسی حالت میں اس کی پنٹ کی زپ کو اوپن کر دیا چونکہ وہ میری ٹانگوں کے بیچ میں کھڑا تھا اس لئے اس راسکل کو میں باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئی اسکو ہاتھ میں لیتے ہی بدن میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی وہ اس وقت پوری مستی میں تھا گرم گرم اور تقریبا ساڑھے چھ یا سات انچ لمبا ہوگا جو کہ میری پسندیدہ رینج ہے مگروہ ہاتھ میں سما نہیں رہا تھا کافی سے زیادہ موٹا تھا میں نے آج تک ایسا موٹا لوڑا نہ دیکھا نہ لیا تھا اور اس کو ہاتھ میں لے کر جہاں مجھے اچھا محسوس ہو رہا تھا وہیں کچھ ڈر بھی لگ رہا تھا ۔ مگر اب یہ بات تو طے تھی کہ ہم دونوں ہی چدائی پر امادہ تھے اور مجھے یہ رسک لینا ہی تھا اس کو چوت میں لئے بنا اب شاید چین نہ پا سکتی اور میں اسے زندگی بھر کے لئے حسرت نہیں بلکہ پُر مسرت اور یادگار واقعہ بنا دیناچاہتی تھی ۔ وہ میرے لبوں کو چوسنے میں مشغول تھا اور میں نے اسکی بیلٹ کھول دی تاکہ پینٹ کو نیچے سرکا دوں پینٹ کا فرنٹ بٹن کھولا تو لوڑے نے مکمل آذادی کا سانس لیا میری چوت اسکو خیر مقدم کہنے کے لئے بے قرار تھی اور گیلی تو وہ کب سے تھی بلکہ اب تو ٹپکنے کے قریب تھی
میں یوں ہی وہاں سر کو نیچے کی جانب جھکانے کی کی کوشش کرنے لگی کہ اس نے
میری زبان چوستے ہوئے میرے سر کو ہاتھ میں پکڑ کر مجھے لیٹنے میں مدد کی اور اب
میری ٹانگیں تو لٹک رہی تھیں مگر میری پشت کار کے بونٹ پر ٹک گئی تھی اور وہ مجھ پر
جھکا ابھی تک میرے لبوں سے کھیل رہا تھا ۔ اس طرح اب وہ مرے بدن پر لیٹا ہوا تھا اور
اسکا مست لوڑا میری پُھدی سے ٹکرا رہا تھا اور میری شلوارنما پاجامہ کو رگڑ رہا تھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ اب شلوار کو اتارے گا اور میری چوت کےدرشن کرے گا مگر وہ ابھی تک میرے ہونٹوں سے دل بہلا رہا تھا ۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر شلوار اور پینٹی کو نیچے سرکانے کی کوشش کی اور تھوڑی دیر میں ہی میری شلوار اور پنیٹی میرے چوتڑوں سے اتر گئی تھیں مگر پوری طرح سے نہیں میں نے اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی شلوار کے لاسٹک پر رکھ دیا اس کی شاید سمجھ میں آگیا تھا کہ میں کیا چاھتی تھی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میری شلوار اور پینٹی نیچے کردی مگر اس نے میرے ہونٹوں کو ہونٹوں میں رکھا تھا ابھی تک ہم دونوں میں کسی قسم کی بات چیت نہ ہوئی تھی میں نے کوشش کرکے اپنی ٹانگوں اور پاؤں کی مدد سے اسکی پینٹ انڈر وئر گھٹنوں تک گرا دیئے اور اپنی شلوار اور پینٹی کو ایک ٹانگ کی مد سے دوسری ٹانگ سے نکال دیاتھا اب اس کا لوڑا ڈائریکٹ میری چوت سے مس ہوتا تھا اور ادھر أدھر ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا ۔ میری بے قراری بڑھ رہی تھی وہ لوڑے کو اسی طرح چو ت میں ڈالنے کی کو شش کر رہا تھا مگر لوڑا چوت سے پھسل جاتا لوڑےکا سر اتنا موٹا تھا جب تک اس کو چوت پر رکھ کر آگے نہ کیا جاتا وہ اندر جانے سے قاصر رہتا مجھے بڑا مزہ آرہا تھا جب لوڑا چوت سے ٹکراتا اور پھسل کر چوت کے دانے کو مسلتا ہوا میری ناف کی جانب سرکتا تو میں نہال ہوجاتی اخر لوڑے کو میں نے اپنے ہاتھ سے پکڑ لیا اور اسکو چوت پر رگڑنے لگی ۔ چوت تو اس کے استقبال کے لئے تیار تھی اور اسے لینے کے بے تاب تھی ۔ چوت کے لب تھرتھرا رہے تھے وہ اتنے بڑے موٹے لوڑے کا چیلنج قبول کرچکی تھی ۔ میں نے لوڑے کو پکڑ کر چوت پر رگڑنا اور پھسلانا شروع کردیا کبھی اوپر سے کبھی چوت دانے سے نیچے چکنی گیلی گلی تک ۔ وہ اب تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور اپنی ٹانگوں کو کھولا ۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ لوڑے کو چوت میں ڈالنے کی تیاری کر رہا ہےاور نشانہ فکس کر رہا ہے میں نےچُوت کے لب کھول کے لوڑے کے سر کو وہاں مسلنا شروع کر دیا اس لئے چوت بھی مہمان کے استقبال کے لئے تیار تھی ۔ اس نے میرے لب آذاد کئے اورمیری آنکھوں میں دیکھنے لگا جیسے اجازت مانگ رہا ہو میں نے شرمیلی رضامندی سےنظر جُھکائی اور أس نے اسی پل ایک ہی جھٹکا سے لوڑے کو گہرائی تک پہنچا دیا ۔ ظالم
نے بنا کسی تردد کے ایسی مستی دکھائی کہ میری چوت کے بخیئے ادھیڑ دیئے۔ درد کی لہر
میں نے اپنی کمر تک محسوس کی اگر میرے لب اس نے اپنے منہ میں نہ دبا رکھے ہوتے تومیری آواز نجانےکہاں تک جاتی ۔ میں نے جلدی سے اس کے چوتڑوں کو پکڑ لیا کہ
کہ پھر دھکا لگانے کے لئے لوڑے کو نہ ہلائے ۔ میں چاھتی تھی کہ پہلے لوڑے کو چوت
میں ایڈجسٹ کرلوں ۔ وہ سلو ٹائپ نظر آتا تھا اتنی بے دردی سے اس کی طرف سے اٹیک کا کوئی امکان نہ تھا مگر أس نے ایک منجھے ہوئے شکاری کی مانند شکار کے کمزور لمحات
سے فائدہ أٹھایا تھا اب میں نیچے اپنے چوتڑ تھوڑے آگے پیچھے کئے اور لوڑے کو کچھ
سٹ کیا ۔ میں نے سات انچ سے زیادہ لمبے اور ڈھائی انچ تک موٹے لن بار ہا لئے تھے مگر
یہ تین انچ سے زیادہ موٹا لوڑا اور اسکی اس سے بڑی ٹوپی کے ساتھ کبھی لینے کا اتفاق
نہ ہوا تھا اور مجھ اندازہ ہو رہا تھاتا کہ وہ سات انچ سے بھی زیادہ لمبا لوڑا ہے ۔ اب اس نے
میری شرٹ نما کُرتا میں ہاتھ ڈال کر میرے مموں کو دبانا شروع کردیا جو کہ نہ جانے کب سے اپنے نظرانداز کئے پر شاکی تھے اس کا لوڑا چوت میں تھا اور وہ میری شرٹ کے بٹن کھولکر میرے مموں کو برا سے آذاد کر چکا تھا اور نپلز کو ہاتھ کی انگلیوں سے مسلنے لگا
میری چوت میں چیونٹیاں سی کاٹ رہی تھیں اور میں اپنے چوتڑ ہلا کر لوڑے کو ایڈجسٹ کرنے میں لگی ہوئی تھی اس نے میرا نپل منہ میں لے کر زرا سا ہٹ کر ایک زور کا دھکا لگایا اور اسی وقت لوڑے کو پیچھے چوت کے منہ پر لا کر ایک جھٹکے کے ساتھ پھر اندر داخل ہوا ۔ اگرچہ اس کا حملہ شدید تھا مگر ایک طرح سے اچھا ہی ہوگیا کہ چوت کی چُولیں کچھ ڈھیلی ہو گئیں اور لوڑے سے کمنٹمنٹ کے قابل ہوگئی ۔ اب درد کی جگہ اچھ لگ رہا تھا اورچوت کی باچھیں کِھلنا شروع ہو گئیں کہ وہ اتنے بڑے مونسٹر کو برداشت کر رہی ہے اب وہباری باری میرے مموں کو منہ میں لیتا اور ہاتھوں سے دباتا اور اکا دکا دھکا بھی لگا دیتا
مجھے اب لوڑے پر پیار آرہا تھا یوں لگتا تھا لوڑے نے چوت کے وہ مسل بھی چھو لئے
جن کو آج تک کوئی چھو نہیں سکا تھا ۔ اب وہ بھی اپنے لوڑے کو کبھی آہستہ اور کبھی زور
کے دھکے کے ساتھ چوت میں ہلا رہا تھا ۔ اس کو چودنے کا فن آتا تھا کس وقت کس جگہ کو
رگڑکے گذرنا ہے اور کس وقت کس ہدف کو چوٹ لگانی ہے اسے اندازہ تھا یا وہ میری طلب
کو سمجھ رہا تھا کہ میں چوت کے جس حصہ کو کھجانے کی حاجت محسوس کرتی تو وہی جگہ کھجارہا ہوتا میرا من کرتا کہ وہ ہٹ کے زرا زور سے جھٹکا لگائے وہ ایسا ہی کرتا میری چوت کو مزے پے مزہ آرہا تھا یوں لگ رہا تھا چوت میں نہ جانےکتنے مسام ہیں جو رِس رہے ہیں چوت کی تو آج لاٹری نکل آئی تھی ۔ وہ میرے ممے منہ میں ڈالے چوپا لگا رہا تھا اور اب اس نے میرے چوتڑ تھوڑے اٹھا کر پیچھے کھینچے اور میری ٹانگیں اپنی کمر کے آس پاس کیں ۔اوراس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو میرے بازووں کے نیچےسے گذارر کرمیرے دونوں شانوں کو پکڑ لیا اور میرے ہونٹ چومنے لگا اور گردن چومتے ہوئے پھر مموں کو منہ میں ڈال لیا اور اس کے ساتھ بڑے پیار سے ہولے ہولے دھکے لگانے لگا اور جس لوڑے سے میں ڈر رہی اب وہ بڑی اسانی کے ساتھ آگے پیچھے ہو رہا ۔ مجھے مزے کی لہر پر لہر آرہی تھی میں نے بھی اب اس کےدھکوں کا ساتھ دینے لگی اور لوڑا میری چوت میں پھسلتا سرکتا چوت کی دعائیں لےرہا تھا ۔ اس کے دھکوں میں شدت أنے لگ گئی
تھی چونکہ ا س نےمجھےشانوں سے پکڑ رکھا تھا اس لئے میری پیٹھ کو اتنی رگڑ نہیں لگ رہی مگر چوت اچھی طرح چُد رہی تھی کہ اب اس نے سیدھا ہو کر میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا اس طرح میری چوت اور لوڑ دونوں بالمقابل آگئے تھے
میری ٹانگوں کے بیچ وہ کھڑا ہوگیا او میری ٹانگوں کو اس نے شانوں پر رکھ لیا ۔ میں سمجھ گئی کہ وہ اب جم کےچودائی کرنے کا ارادہ کر چکا ہے ۔ جاری ہے
نوٹ
دوستو ۔ میں نے کوشش کی ہے کہ سٹوریز کے لئے بنے فارمولوں سے تھوڑا ہٹ کر چلوں
میں یہ آپ پر چھوڑتی ہوں کہ میں کہاں تک کامیاب ہوئی یا ناکام ۔ بہرحال اگلی قسط فائنل
ہوگی اوراس کو لکھتے ہوئے آپ لوگوں کی رائے ضرور مدِ مظر رکھی جائیگی
اب اس نے سیدھا ہو کر میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر اپنی طرف کھینچا اس طرح میری چوت اور لوڑا دونوں بالمقابل آگئے تھے میری ٹانگوں کے بیچ وہ کھڑا ہوگیا او میری ٹانگوں کو اس نے شانوں پر رکھ لیا ۔ میں سمجھ گئی کہ وہ اب جم کےچودائی کرنے کا ارادہ کر چکا تھا ۔ أس نے لوڑے کو چوت کے دہانے پر رکھا اورمیں سنبھل گئی کہ وہ ایک ہی جھٹکے سے اندر کردے گا مگر اس نے لوڑے کو چوت پر مسلنا شروع کر دیا اور مسلتے مسلتے لوڑے کا ٹوپا اندر کر دیتا اور باھر کھینچ کر پھر مساج شرو ع کردیتا وہ بڑے اطمینان اور ارام سے اسی شغل میں لگارہا اور میں مزے کے دھارے میں بہتی رہی اس نے میری ٹانگوں کو شانوں سے اتار دیا ۔میرے پاؤں اب بونٹ پر تھے اور وہ میری ٹانگوں کے بیچ کھڑے ہو کر اس نے چوت میں ہولے ہولے لوڑا داخل کرنا شروع کیا اور کچھ اندر ڈال کے رک گیا اور میرے چوت کے دانے کو انگھوٹھے سے مسلنے لگا میں تو نہ جانے کہاں پہنچ گئی تھی ایک سرور کی وادی تھی اور میں تھی ۔ میری چوت نے لوڑے کو بھینچنا شروع کردیا جیسے جیسے وہ مساج کرتا میری چوت کے مسل لوڑے کو زور سے جپھی ڈالتے وہ بھی اس سے محظور ہو رہا تھا اورمیں خوش تھی کہ وہ مزہ لے رہا ہے اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے مموں کو پکڑا اور اچانک ہی پورا لوڑا اندر کردیا اس بار تکلیف
نہیں ہوئی بلکہ جب اس نے چوٹ لگائی تومزا دوگنا آیا اس نے ہولے ہولے
دھکے لگانے شروع کر دئیے اور مجھے مزے پے مزا انے لگا ۔ میں بھی نیچے سے اس کو
جواب دینے لگی جس سے اسے اور جوش آیا اور وہ مست ہوکر زور زور سے دھکے لگانے
لگا میری چوت کے چُول ڈھیلے ہو چکے تھے اس میں اتنا پانی رِس چکا تھا کہ اب لوڑا کے کسی دھکے کا کوئی خوف نہ تھا بلکہ اب چوت زیادہ زور کی رگڑ کی خواہشمند تھی میری اب ہر سانس کے ساتھ لذت بھری آہیں نکلتی اس کا ہر دھکا ہی مجھے زیادہ مزیدار لگتا کہ اس نے پھر میرے بازووں کے نیچے سے میرے شانوں کو ھاتھوں میں پکڑا اور چھوٹے مگر بڑی شدت کے ساتھ دھکے لگانے شروع کر دئیے اس کی شپیڈ کے بڑھنے سے چوت کو زور سے رگڑا لگنے سے سواد چوکھا آرہا تھا ۔ چوت کی تو آج لاٹر نکل آئی تھی کئی بار ڈھیلی اور کئی بار پھر تیار ہونے کی وجہ سےوہ اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوتی رہی اور اپنی طرف سےاس نے بھی لوڑے کو بڑی گرمجوشی دکھائی تھی ۔ لوڑے کی تیز رفتاری کا ساتھ دینے کی کوشش میں چوت کچھ زیادہ ہی ایکٹیو ہونے لگی تو ایک دو بار لوڑا چوت کے باھر نکل آیا کیونکہ جب لوڑا چوت کے منہ پر تھا تو چوت نے آگے ہونے کی بجائے پیچھے ہٹ کر آگے ہوئی اور اتنے میں لوڑا باھر نکل کے چوت دانے کو رگڑتا آگے پھسل گیا جس کی وجہ سےچوت کی جلد چھل گئی اور لوڑا واپس ہٹ کر چوٹ لگانے لگا تو میں نے جلدی سے ہاتھ سے پکڑ کر أسے اندر داخل ہونے کی راہ دکھائی ۔ اب اس نے تو مجھے ہاتھوں میں جکڑ رکھا تھا اس کے ہونٹ میرے نپلز چوسنے میں مگن تھے اس کا لوڑا کبھی تیزی دکھاتا تو کبھی آہستہ خرامی سے چوت کو چھیڑتا ۔ مجھے ہر طرح سے اچھا لگ رہا تھ بلکہ میرے لئے اندازہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ اس کا زور کا دھکا مجھے زیادہ مزا دے رہا ہے یا آہستگی سے آتا جاتا لوڑا ۔
میرا ایک ہاتھ اسکے بالوں میں پھررہا تھا اور دوسرا ہاتھ اس کی پیٹھ کو سہلا رہا تھا مجھے اس پر بے انتہا پیار رہا آرہا تھا ۔ جس خوبی سے وہ چود رہا تھا اس کے لئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار تھی ۔ اب وہ زیادہ جارحانہ انداز میں دھکے لگانے لگا اور ان میں تیزی بھی آگئی تھی وہ اب منزل ہونے کے قریب تھا اس کی سانسیں تیز ہو گئں اور میری گردن پر محسوس ہو رہی تھیں میں نے ٹانگوں کو اسکی کمر کے گرد کس لیا اور اپنے بازو اس کی کمر کے گرد اور اسے زور سے بھینچنے لگی وہ اب زور لگاتے ہو ئے ہانپنے لگا تھا
اور اس خنکی میں بھی پسینہ اس کے سارے جسم پر نمودار ہو چکا تھا میں کب کی کئی بار منزل ہوچکی تھی مگر اس کو مزہ کی انتہائی بلندی پر دیکھتے میرا لاوہ پھر أبل ٹھا اور اسنے آخری دو چار جھٹکوں میں مجھے رگڑ کر رکھ دیا اور آخری دھکا مار کر وہ مجھ پر ڈھے چلا گیا اس کے ساتھ ہی اس کے گرم مادہ کا ایک سیلاب میرے تُرس مادے کے ساتھ مل گیا مجھے ایک گونا گوں راحت کا احساس ہوا جیسے چوت کی ٹکور ہو گئی ہو میں نے ٹانگوں کو اسکی کمر سے ہٹا لیا اور اسکی کمر پر اپنے ہاتھوں سے مساج کرنے لگی ۔ ہاتھ پھیرنے لگی اور ساتھ ساتھ اس کو چومنے لگی اس کی سانسیں ابھی تک بے ترتیب تھیں ۔ اس کے ہاتھ ابھی تک میرے شانوں کو پکڑے ہوئے تھے۔اور لوڑا اپنی آخری حدوں کو چھو کر وہیں ٹک گیا تھا ۔ اس کے چہرے کی بوسے لیتے ہوے میں نے ہاتھ سے اسکے بالوں میں کنگھی کی اس کے بال ایسے گیلے تھے جیسے ابھی نہا کرآیا ہو اب اس نے بھی مجھے چومنا شروع کردیا میرےچہرے اور گردن پر ۔ ابھی تک اس کا لوڑا میری چوت میں تھا حیرت کی بات کہ ابھی تک اکڑا ہوا تھا ۔ آدمی جب ریلیز ہوتا ہے تو لن اسی وقت ڈھیلا ہو جاتا ہے مگراس کا لوڑا پوری ایستادگی کے ساتھ کھڑامیری چوت کو محسوس ہو رہا تھا
وہ آٹھا اور جب کھڑا ہونے لگا تو لوڑا بھی چوت کے باہر آگیا وہ اپنے مادہ اور میرے رس سے لپٹا ہوا تھا تھا اس نے اپنی جیب سے رومال نکال کر پہلے اپنا لوڑا صاف کیا اور پھر میری چوت کو بھی صاف کیا جو بھی مواد اسے ملا وہ رومال میں سمو لیا۔ می بھی أٹھ کر بیٹھ گئی ۔ گرمی نکل چکی تھی اور اب کچھ شرمندگی محسوس ہو رہی تھی مگر اس کا لوڑا دیکھا تو حیران رہ گئی اور خود سے پوچھنے لگی ارے نازو تو نے اتنا بڑا مونسٹر کو کیسے جھیل لیا ۔ وہ دکھنے میں بھی بڑا پیارا لگ رہا بڑا کیوٹ ۔ اس کے چودنے سے پہلے میں نے چھوا اور پکڑا تو تھا مگر اسے دیکھا نہ تھا ۔ اب جو دیکھا تو اتنا پیارا لگا کہ دوبا را اس سے چُد جانےکے لئے چوت تیار ہو گئی ۔ بالکل سیدھا لمبا سانولے رنگ کا ایک موٹا تازہ لوڑا جو ہر عورت کا خواب ہوتا ہے ۔ میرا دل کر رہا تھا میں اسے چوم لوں وہ پیارا ہی اتنا تھا اور بڑی بات ابھی تک وہ سر اٹھائے کھڑا تھا ۔ میں نے لوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اجنبی میرے ساتھ بونٹ پر ہی ٹک گیا اور میرے گلے میں بازو ڈال کر میرا چہرہ اپنی طرف کر کے میرے لبوں کو چومنے لگا میں نے لوڑے کو ہاتھ میں لیا اور اسے مُٹھانے لگی اس کے ہاتھ میرے مموں سے کھیل رہے تھے اور وہ دیوانہ وار مجھے چومےجا رہا تھا ۔ صاف ظاہر تھا وہ مجھے دوسری بار کے لئے تیار کر رہا تھا ۔ جب کہ میں تو پہلے ہی موڈ بنا بیٹھی تھی اب میرا دل چاہا لوڑے کو پیار کروں تو میں نے جلدی سے سر نیچے کرکے اسے چوم لیا اور دوسری بار چومنےگی تو اس نے مجھے بالوں سے پکڑ کےمیرا چہرہ اوپر اٹھا کے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دئے ۔ میں ہاتھ میں اس کے پیارے لوڑے کو لئے ہوئے تھی اور سوچ رہی یہ مرجھایا نہیں حالانکہ ایک جگ یہ منی نکال چکا تھا اور اسےکچھ ریسٹ تو کرنی تھی مگر وہ کھڑا تھا اور چودنے کے لئے تیار تھا ادھر میری چوت چودوانے کے لئے بیقرار ہو رہی تھی مجھے اچانک ایک خیال آیا تو میں اجنبی کی طرف دیکھنے لگی کہ اتنے بڑے موٹے لوڑے کا مالک ملٹی اورگیزمک بھی ہے ۔ بہت ہی کم مرد اس قابل ہوتے ہیں ایک ہی ایرکسن میں دو بار ریلیز ہوں ہم عورتیں زیادہ بار ، بار آور ہوتی ہیں مگر اس نعمت سے سو میں سے کوئی ایک مرد ہی مالا مال ہوتا ہے ۔ یہ پڑھ بھی رکھا تھا اور ہم فرینڈز اس پر بحث بی کرتیں کہ جس کا خاوند یا یار دوبارایک ہی ہوشیاری میں ریلیز ہوتا ہے تو وہ واقعی خوش نصیب ہوتی ہیں ۔ دل چاہا اس سے پوچھ لوں مگر ابھی اس نے کوئی بات نہیں کی تھی اور میں پہل نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ ہمارے درمیان گفتگو آنکھوں سے ہو رہی تھی یا مسکراٹ سےتھی اور اب میں دوبارا چودوانا چاہتی تھی ادھر ڈر تھا کہ کہیں لوگ باہر آنا نہ شروع ہو جائیں
ہمیں تقریبا پنتالیس منٹس ہو چکے تھے اور ابھی کچھ دیر اور ان کی آمد کی امید نہیں تھی
اگرچہ ہم اندھیرے میں تھے پھر بھی آس پاس کاریں کھڑی تھیں ان میں جانے والے تو آسکتے تھے ۔ میں أٹھ کھڑی ہوئی اس کی گود میں اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی میں لوڑے کےاوپر بیٹھنا چا رہی تھی مشکل تو تھا مگر میں اس کی مدد سے لوڑے کو اندر لینے میں کامیاب ہو گئی ۔ لوڑا زبردست پھب گیا تھا اب مسلہ یہ ہوا کہ میں ہلوں کیسے پہلے تو میں نے دونوں ہاتھ بونٹ پر ٹکا کر اوپر نیچے ہونے کی کوشش کی مگر وہ نہ ہو سکا پھر اس کی رانوں پر ہاتھ جما کر میں اوپر نیچے ہونے لگی تو اب میں اچھل کود کرنے لگی مگر اس کی رانوں پر زور پڑ رہا تھا میرا خیال بنا کہ کیوں نہ اس کی طرف رخ کر کے اس کی گود میں دونوں ٹانگیں بونٹ پر رکھ کر بیٹھ جاؤں اس طرح وہ مجھے چوم بھی سکے گا اور اپنی مرضی سے ہل جُل بھی سکونگی مجھے ہمیشہ گیم اپنے کنٹرول میں لے کر کھیلنےکا زیادہ سواد آتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ میں ایسا کرتی اس نے مجھے ٹانگوں کے نیچے ہاتھ ڈال کے اس طرح اٹھایا کہ اس کا لوڑا میری پھدی کے اندر ہی رہا اور اس نے مجھے ونڈ شیلڈ کی طرف رخ کرکے بنڈ کر دیا اور میں نے اپنے ہاتھ بونٹ کے اوپر رکھ کےگھوڑی بن گئی اس کو ڈوگی اسٹائل بھی بولتے ہیں جوکہ میرا پسندیدہ اسٹائلز میں سے ایک ہے ۔ مگر یہ گھوڑی سٹائل ہی تھا اب اس نے میرے کولہوں پر ہاتھ رکھے میری پوزیشن درست کروأئی اور لوڑے کو آہستہ آہستہ دھکے لگانے لگا میری ٹانگیں کیونکہ اس کی ٹانگوں کے درمیان آگئی تھیں اس طرح میری چوت زرا تنگ ہو گئی اور اس کا لوڑا بھی پورا اندر تک مار نہیں کررہا تھا میں نے ٹانگوں کو چوڑا کیا اور پھیلایا تو وہ میری دونوں ٹانگوں کے درمیان کھڑا ہو گیا اس طرح اب میرے کولہے اس کی راہ میں رکاوٹ نہ رہے اورچوت کے لب بھی مزید کھل گئے اب وہ اپنی مرضی سے دھکے لگا سکتا تھا اس نے ایک ہاتھ میری کمر کی طرف سے ڈال کے میری چوت کے دانے کو مسلنا شروع کر دیا اور دھکے لگانے لگا ۔ وہ بڑے ارام سے چودائی کر رہا تھا کبھی کبھی زور کا جھٹکا لگاتا تو میری کمر میں بل ا جاتا میں پوری طرح لطف اندوزہو رہی تھی اس کے چودنے کا انداز مثالی تھا اور میرا لاوا پھر ابل رہا تھا ۔ میں جب بھی چدواتی ہوں تو یہی سمجھتی ہوں کہ اج کی چدائی زبردست ہے یعنی ہیمشہ لطف کی انتہائی گہرائی تک پہنچ جاتی ہوں اور اس سے پہلے کی چدائی بھول جاتی ہوں مگر اس اجنبی نے جس طرح چدائی کی اور مجھے بار بار نچوڑا ایسا اس سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا وہ میرے مموں کو ہاتھ میں لے کر دھکے پے دھکا لگا رہا تھا میرا دل کر رہا تھا کہ وہ مجھے چُومے میں نے سر پیچھے موڑ کر منہ اس کی طرف کیا تو اس نے اگے ہو کے میرے ہونٹ چوم لئے میں پھر آگئی تھی اور اس کو بھی میرے کانپنے اور چوت کے بھینچنے سے اس کا احساس ہو گیا تھا اس نے ہاتھ لگا کر چوت کے دانے کو چھوا تومیری سسکی نکل گئی اب میں تھوڑی سی اٹھ کر کھڑی ہوئی یعنی بونٹ سے ہاتھ ہٹا کر تھوڑی سی اوپرہوئی تو لوڑا مزید گہرائی تک جانے لگا جس سے مزہ دوبالا ہو گیا اور اس کو دھکے لگانے میں اسانی ہوگئی ۔ ہم جس پوزیشن میں تھے اس سے ہم دونو ں کی ییٹھ مکان کی طرف تھی اورکوئی آتا تو ہمیں معلوم نہ ہو پاتا مگر کیا کرتے ہم مزہ لینے اوردینے میں لگے ہوئے تھے اور اس کو ادھورا چھوڑنا ناممکن تھا وہ اب میری پیٹھ بھی چومتااور دھکے بھی زور سے لگاتا میرے مموں کو بھی دبا لیتا اور چوت کے دانےکو مسل لیتا اور میری پیٹھ کو سہلا بھی لیتا ۔ آستہ آہستہ اس کی سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی اور جس طرح وہ واہلانہ میری پیٹھ کو چوم رہا تھا وہ آنے کے قریب تھا اب تھوڑا نیچے ہو کے دھکے مار رہا تھا میری چوت کا رس اسکےلوڑے کو بھگو رہا تھا میری اور اس کی سانسیں بے ترتیب ہوچکی تھیں اس کی گرفت میری کمر پر سخت ہوتی گئی او اس کے جھٹکے مجھے مزہ کے نئے راستے دکھا رہے تھے آج اس کے لوڑے نے میری چوت کی ان جگہوں کو بھی چھوا جن کو آج تک کوئی نہ چھو سکا تھا۔ ایسا لگتاتھا چوت کے مسام رِس رہے ہیں مزا کی بارش ہو رہی ہے ۔ آج چوت کے کچھ ایسے پرت بھی برتے گئے جن کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا تھا ۔ اس نے چند جھٹکے اتنی زور سے لگائے کہ میں اس کو دل ہی دل میں دعائیں دینے لگی کہ ظالم نے کہاں پہنچادیا تھا مزہ کی آخری سرحد کو چھو چکی اور اب چوت لوڑےکی اور مساج کے قابل نہ تھی ۔ اس نے دھکا زور سے لگایا اس کے ساتھ ہی اس کی آواز بھی اونچی نکلی اور وہ اپنی لذت بھرے لمحات میں اپنی آہ اور واہ کو دبا
نہ سکا اور میں خوش ہوئی کہ میری وجہ سے اسے اتنا لطف آیا اس کی آہ اور واہ میں میں نے بھی پانی چھوڑ دیا اور اپنے آپ کو اس کے حوالےکردیا جیسےکہ مجھ میں جان نہ رہی ہو اس نے مجھے سنبھالا اور گلے سے لگا لیا اس بار بھی ا س کا پرنالہ پھر کافی سے زیادہ چوت کے اندر گرا مگر اب چوت سے باھر رس کر میری ٹانگوں کو بھگو گیا میں اس کی جانب مُڑ کر اس کے گلے لگ گئی کچھ دیر یوں ہی ایک دوسرے کے گلے لگے رہے پھر مجھے خیال آیا کہ مووی ختم نہ ہو گئی ہو تو میں شلوار پینٹی کو اٹھا کر پہننے کے لئے جھکی تو دیکھا لوڑا مہاراج سر جھکائے لٹک رہے ہیں میں نے جھکتےجھکتے اسے ایک بوسہ دیا تو اجنبی ایک طرف ہوکے اپنے پاؤں میں پڑی ہوئ اپنی پینٹ وغیرہ اوپر کرنے لگا میں نے اپنی پینٹی اور پاجامہ شلوار جو ایک پاؤں میں تھے کو پہننے لگی وہ پھر بونٹ پر بیٹھ چکا تھا میں نے سگریٹ کا پیکٹ جوکہ نیچے گر گیا تھا اٹھا کر سگریٹ نکالا تو اجنبی نے لائٹ سے سلگا دیا میں نے کار سے اپنی شال نکالی ایک تو خنکی کا احساس ہونے لگا تھا چونکہ گرمی تونکل چکی تھی دوسرا سارا مواد میرے پاجامہ پر بھی اور میری ٹانگوں پر بھی تھا جس کی وجہ سے شلوار کے بھیگنے کا بھی اندیشہ تھا ۔اس لئے شال لپیٹ لی کہ کچھ پردہ پوشی ہو جائے۔
میں نے سگریٹ کے دو تین گہرے کش لئے اور اجنبی کی طرف بڑھی اور اس کے لوڑے کو دیکھا جو کہ سورہا تھا ابھی تک اس نے پینٹ نہ باندھی تھی میں نے ہاتھ سے لوڑے کو پکڑا اس کو ایک بوسہ دیا اور پینٹ میں ڈال کر زپ اوپر کردی اب میں اجنبی کی جانب
متوجہ ہوئ جو بڑا مطمئن ہوکر بیٹھا تھا میں نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لےکر اپنے پورے دلی محبت پیار اور ممنونیت کے امنڈتےہوئےجذبات کے اظہار کے لئےاس کی پیشانی کو چوما اور اسکی دونوں آنکھوں کو چوم کر اپنے لب اسکے ہونٹوں پر رکھ دئے
اسنے میرے ہونٹ چومے اور ان کو چوسنا چاہا تو میں نے پیچھے ہٹ کر مُسکراتے ہوئے
سگریٹ اس کے ہونٹوں میں دے دیا اس کے ہاتھ میں رومال تھا اس نے ا سکو تہ کیا
اور میری طرف بڑھا دیا جس کو میں نے لے لیا ۔ وہ ایک اجنبی تھا اجنبی ہی رہا ہم ایک دوسرےکا نام تک نہ جان سکے مگر وہ کیسا اجنبی تھا جومیرےجسم کے چپے چپے سے واقف تھا ۔ اورجس سے چدوا کر میں اپنے آپ کو خوشقسمت عورت گردان رہی تھی ۔ اس کی طرف دیکھے بنا میں پلٹی اور جلدی سے مکان کی جانب قدم بڑھا دئیے ۔ میں جانتی تھی وہ مجھے دیکھ رہا ہے ۔ اس کی نظروں کی گھائل تھی اور اب اس کی نظریں ضرور میرے کولہوں پر ہوں گی یہی سوچتے ہوئے میں ایک دو بارلڑ کھڑائی بھی مگر پھر خود اعتمادی سے چلتی ہوئی مکان میں داخل ہوگئی ۔ شکر ہے ابھی تک مووی چل رہی تھی ا ور میرے باہر سے آنے کا کسی نے نوٹس نہ لیا میں چپکے سے واش روم میں چلی گئ ۔ میرے ہاتھ میں رومال تھا جوکہ اجنبی نےدیا تھا دیکھا تو یہ وہی رومال تھا جس سے اجنبی نے لوڑا اور میری چوت کو خشک کیا تھا اس پر سارا مواد لگا ہوا تھا میں اسے پھینکنے لگی تو کچھ لکھا نظر آیا میں نے دیکھا تواس پر کڑھائی سے ایک کونے میں ؒ می دوسرے کونے پر یو تیسرے کونے میں میں اور چوتھے کونے پر تم لکھا ہوا تھا میں نے نہ جانے کیا سوچ کر رومال کو تہ کیا اور گیلا ہی اپنے پرس میں رکھ دیا اور اپنے آپ کو واش کرنے لگی
میری چوت سوج چکی تھی اوراس کے لبوں پر خراشیں بھی تھیں ۔ اب دو چار دن تک اس کی دیکھ بھال تو کرنی ہوگی مگر جو سواد اور مزہ آیا اس کے آگے یہ تکلیف کچھ بھی نہ تھی
فکر کی بات یہ تھی کہ میرا نچلا ہونٹ بھی سوج گیا تھا ۔ زیادہ سرخ تھا اور اس پرکاٹنے جیسا
نشان بھی تھا اس نے سچی بڑی بے دردی سے ان کو چوسا تھا۔ خیر کسی نے پوچھا تو بول دونگی باہر مچھر وغیرہ کافی ہیں کسی نے کاٹ لیا ہے ۔ اب گھر جا کر معلوم ہوگا کہ میری چھاتیوں کا کیا حال ہے کہ وہ پگلا وہاں کاٹتا بھی رہا تھا ، میں نے جلدی جلدی بال سنوارے اور لپ سٹک لگا کر باہر نکلی تو لوگ اب جا رہے تھے اور میری ہمسائی مجھے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ہم دونوں جب باہر نکل رہی تھیں تو اجنبی اندر داخل ہو رہا تھا ہم دونوں
نے ایک دوسرے کو دیکھا اور بنا کچھ کہے سنے ایک دوسرے کے پاس سے گذر گئے
ختم شُد
ایک تبصرہ شائع کریں for "وہ کون تھا ؟"