Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

دلدار صدقے





وہ کافی دیر سے بارش میں بھیگ رھی تھی۔

آج دوپھر سے شروع ھونے والی یہ بارش

مسلسل 4 گھنٹے سے جاری تھی اور اسی بارش کے نتیجے میں اس بیچاری کو بھیگنا

پڑا تھا۔بلیو ایریا کے بس سٹاپ پہ کھڑی اس لڑکی کو میں غور سے دیکھ کر افسوس کر

رھا تھا، کیوں کہ 2 لڑکے اس کی بھیگی جوانی کے دلفریب نظاروں سے اپنی آنکھیں

سینک رھے تھے، اور وہ بیچاری اپنی جوانی کو یوں سر بازار نمایاں ھوتا دیکھ کر شرم

سے ایک طرف دبکی کھڑی تھی ۔ وہ بھی یقیناْ میری طرح بس سٹاپ تک آتے ھوئے

بھیگی تھی۔

یہ ان دنوں کی بات ھے جب میں اسلام آباد میں 5 سال بعد دوبارہ نیا نیا آیا تھا۔( 5

سال پہلے میں یہیں سے اپنی تعلیم نا مکمل چھوڑ کر پشاور شفٹ ھوگیا تھا۔ ) ۔

میری نئی نئی نوکری تھی سو ہر بات سے بے نیاز میں اپنے کام میں مصروف رھتا۔ آج

ویک اینڈ پر میرا پروگرام تھا کہ وکی ( میرا بہترین دوست ) کے ساتھ اس کی موٹر سائیکل

پر ایک لمبی ڈرائیو پر ٹیکسلا کی ترف جائیں گے۔ بس سٹاپ پر رش تو بہت تھا، اگر نہیں

تھی تو بس ویگن نہیں تھی۔ چنانچہ دوسرے مسافروں کی طرح مجھے بھی بھیگنا پڑا۔

تبھی میں نے اس کو دیکھا۔ ایک بار تو ایسا لگا کہ وہ مجھے پہچاننے کی کوشش کر رھی

ھے، لیکن بعد میں میں نے سر جھٹک دیا، کہ یہ میرا وھم ھے۔ کافی دیر بعد پھر مجھے

ایسا لگا کہ وہ لڑکی دوبارہ مجھے ھی گھور رہی ھے۔ میں نے ایک دو بار گلہ کھنکار کر اس
کی نگاھوں کا زاویہ تبدیل کروانا چاھا، مگر وہ تو ھر بات سے بے نیاز صرف مجھے ھی

دیکھ رھی تھی۔اب تو اس کی نظریں مجھے مسلسل

اپنے وجود پر چبھ رھی تھیں۔ میں نے اب اس لڑکی سے ڈاءریکٹ بات کرنے کا فیصلہ کیا،
" جی محترمہ ، کیا میںuآپ کو جانتا ھوں " میں نے اپنی آواز کو حتی الامکان دھیما
رکھتے ھوئے اس سے سوال کیا۔ اصل میں میرا ارادہ اس کو شرمندہ کرنے کا تھا، کہ وھ

اس طرح شر عام کس دیدہ دلیری سے مجھے دیکھ رھی تھی، کہ میں ایک انسان نہ

ھوا، کوئی آئس کریم ھو گیا۔ مگر اس کا جواب سن کر الٹا میں ھی بھونچکا رہ گیا۔ " جی

آپ چاھے مجھے نہ پھچانیں فیروز، لیکن میں نے آپ کو پھچان لیا ھے۔ " اس کی آواز گویا

کوئی جلترنگ بج اٹھا تھا۔ میں جہاں

اس کا جواب سن کر حیران ھوا، اس سے بھی زیادہ حیرانی مجھے اس بات پر ھو رھی

تھی، کہ وہ میرا نام لے رھی تھی۔ اب میں نے غور سے اس کو دیکھنا شروع کیا۔ اچانک

میرے دماغ میں جھماکا سا ھوا۔ " عالی تم،،، مم ،، میرا مطلب ھے، عالیہ آپ، ،،،،" میرے

منہ سے اپنا نام سن کر وہ ذرا سا مسکرائی۔ میں اب خود شرمندگی محسوس کر رھا

تھا، کہ 5 سال کے مختصر وقفے میں ھی میں اپنی کلاس فیلو عالیہ کو پھچان نہ سکا

تھا ، اور ایک وہ تھی ، کہ مجھے دیکھتے ھی پھچان گئی تھی۔ بہر حال ، میں نے آنے

والی ایک ٹیکسی روکی اور اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جانا چاھے گی، تا کہ میں وھیں

کی ٹیکسی بک کروا کے اس کے گھر پھنچنے کا انتظام کر دوں۔، اس نے اک نظر میری

طرف دیکھا، اورمسکرا کر بولی، " کراچی کمپنی۔":اس کی مسکراھٹ ماضی کی طرح آج بھی قاتلانہ

تھی۔ میں اک ذرا سا گھائل ھوا، ظالم آج بھی توبہ شکن حسن کی مالک تھی، اور

بارش میں بھیگنا گویا سونے پر سہاگہ ھو گیا تھا۔ میں نے اس کے بھرپور جسم پر اک نظر

ڈالی، اس کی آنکھوں میں حیا آمیز چمک پیدا ھوئی اور اس کی مسکراتی ھوئی نظریں

جھک گئیں ۔میں ھوش میں واپس آیا، کیوں کہ ھم مسلسل بھیگ رھے تھے۔میں

نے کراچی کمپنی کی ٹیکسی بک کر لی، اور اسکو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ھوئے گاڑی

میں بیٹھ گیا۔ عالیہ بھی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ کراچی کمپنی میں آ کر ھم نے نارنگ

بریانی سے بریانی وغیرہ کھائی۔ گرمیوں کا موسم ، باھر موسلا دھار بارش ، اندر بھیگا

جسم لئے ایک جوان اور خوبصورت لڑکی ، جس کے گیلے کپڑے اس کے بھر پور جسم

کو چھپانے کی بجائے مزید نمایاں کر رہے تھے، میرا لن فل مست ھو چکا تھا۔

سچ بات تو یہ ھے کہ میرا لن کافی دیر سے ھی مستی پکڑ رھا تھا ، لیکن بس سٹاپ پر

رش ھونے کی وجہ سے عالی کے بھیگے بدن کا نظارہ اس طرح کرنا ممکن نہیں تھا ،

جس طرح سے اب ھو رھا تھا۔ اور یہی چیز میرے لوڑے کی مستی کا سبب بن رہی

تھی ۔ ( عالی کا سراپا کسی بھی بڑے سے بڑے پارسا کے ایمان کی تباھی کے لیے

کافی تھا ، میں تو پھر بھی اچھا خاصا آوارہ مزاج تھا۔) خیر ، میں نے کھانے کے دوران

اس سے پہوچھا ، کہ ، " وہ کیوں وہاں اکیلی بارش میں بھیگ رھی تھی ، آخر اسے

ایسی کون سی مجبوری آن پڑی تھی ،،،، کیونکہ میری یاد داشت کے مطابق وہ اچھے

خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے تھی ، پھر اس کا اس طرح بھیگنا ،،، چہ معنی وارد ؟ "

میں نے یہ سوال اس لئے کیا تھا تا کہ اپنے آپ کو باتوں میں لگا کر اپنی نظروں کی

گستاخیوں کے اپنے دل پر ھونے

والے اثر کو زائل کر سکوں ، مگر میرے اس سوال پر عالی کے پری پیکر چہرے پر حزن و

ملال کے بادل چھا گئے ۔ میں نے زیادہ کریدنا ترک کر کے اس کی توجّہ بریانی کی طرف

دلائی

عالی بھی سمجھدار تھی ، چنانچہ میرے ایک سوال کے نتیجے میں ماحول پر اچانک

چھا جانے والی سنجیدگی ، چند منٹ بعد ھی گرما گرم بریانی کی وجہ سے ختم ھو

گئی۔ بعد میں چائے کے دوران اس نے خود ہی بتانا شروع کر دیا کہ ، اس کے ابّو کی ڈیتھ

ھو چکی ھے، اور ایک بھائی تھا ، جو سوتیلا تھا ، اس نے دھوکے سے سب کچھ بیچ ڈالا

، اور امریکا بھاگ گیا ،،،،،اور اب اس کی 1 چھوٹی بہن اور ایک بوڑھی ماں کی خاطر وہ

نوکری ڈھونڈ رہی تھی۔ اب وہ نارمل تھی ، بہر حال ، اس نے میرا موبائل پکڑا اور

ایک نمبر ملانے لگی ، اس کے پرس میں رکھا اس کا موبائل گنگنا اٹھا ، اس نے بہت ھی

چالاکی سے میرا نمبرع بھی حاصل کر لیا تھا ، اور اپنا نمبر بھی دے دیا تھا ۔ میںuہولے

سے مسکرا دیا ۔ گویا وہ بھی مجھ سے رابطے میں رہنا چاھتی تھی ، میری خواھش بنا

اظھار کے ھی پوری ھو گئی تھی ۔ کھانےکا بل ادا کرنے کے بعد ، میں نے باہر سے اس

کے لئے ٹیکسی پکڑی ، اور اس کو بٹھا دیا ۔ میں نے جب ٹیکسی والے کو ایڈوانس

کرایہ ادا کیا ، تو عالی نے منع کرنا چاھا ، " نہیں فیروز ، پلیز ،،، " لیکن میں

نے کہا ، " کم آن عالی ، اتنے تکلّف والی مت بنو ۔۔۔ " عالی نے ایک نظر میری آنکھوں

میں دیکھا ، اور مان گئی ۔ اس کو رخصت کر کے میں نے پرس دیکھا ، آج ایک دن میں ،

میں نے پورے ہفتے کا جیب خرچ اڑا ڈالا تھا ۔ موبائل مسلسل وائبریٹ ھو رہا تھا ، میںuنے

دیکھا ، وکی نہ جانے کب سے کال کر رہا تھا مگر میرا موڈ بدل چکا تھا ، کیونکہ بارش بند

ھو چکی تھی ، اور بنا بارش کے ، رائیڈنگ کا خاک مزہ آنا تھا ، سو میں نے سیل فون

ھی آف کر ڈالا۔

رات کے بارہ بجے مجھے ایک اجنبی نمبر سے کال آئی ، میں ٹی وی

دیکھ رہا تھا ، آج کمرے پر میں اکیلا تھا ، سو آج میں نے ڈی وی ڈی لگائی ھوئی تھی ، ٹی وی پر
براڈ پٹ کی مشھور فلم " ٹرائے " لگی ھوئی تھی ۔

میں نے نمبر دیکھا،مگر سمجھ نہ آئی ۔ میں نے اٹینڈ کر کے کہا ، " جی کون ؟ "

" بڑا افسوس ھے فیروز صاحب ، آپ نے میرا نمبر بھی سیو نہیں کیا ابھی تک ؟" دوسری

طرف سے عالی کی آواز آئی، جو کہ میں نے کوشش کر کے پیچانی تھی ، اور مجھے

معذرت بھی کرنا پڑی ۔
بہر حال ، عالی نے اگنور کرتے ھوئے کہا ، " فیروز ، آپ اب تک مجھ سے نارا ض ہیں

ناں ؟ "

" کیا مطلب ؟ " میں جان بوجھ کر بولا ، حالانکہ مجھے سب سمجھ آ رھی تھی ، کہ وہ

کالج لائف کے دوران آنے والے اس طوفان کی بات کر رھی تھی ، جس کی وجہ سے

مجھے اپنی تعلیم چھوڑنا پڑی تھی ۔ اور اس تمام بات کی ذمّہ دار عالی تھی ۔ اب اتنے

سال بعد سامنا ھونے پر میں نے اس سے اچھا خاصا کو آپریٹ کیا تھا ، یہی وجہ تھی

شائد ، کہ وہ رہ نہ سکی ھی ، اور اب مجھ سے معذرت کر رہی تھی ۔

" ارے نہیں عالی ، پلیز ، میں سب کچھ بھول چکا ھوں ، اور تم اب تک اس بات کا اثر دل

پر لئے بیٹھی ھو ۔ " میں نے اخلاقاْ کہا ، ورنہ در حقیقت میں اس بات کو دہرا نا ھی نھیں
۔
چاھتا تھا ۔ وہ میری زندگی کا ایسا ناقابل فراموش واقعہ تھا جس کے دوبارہ یاد آتے ھی

میرا حلق تک کڑوا ھونے لگا تھا

، " فیروز ، میں آپ سے بہت شرمندہ ھوں ، پلیز ، مجھے معاف کر دو ، پلیز ، " اور

عالی پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔ میں اب خاموش ھو گیا تھا ، میں اس واقعہ کے بارے میں

کچھ مزید بات کرنا سننا نھیں چاھتا تھا ۔ چنانچہ جب وہ کچھ ریلیکس ھوئی تو میں نے کہا

، " دیکھو عالی ، میں آپ کو بتا دوں ، میں اب آپ سے ناراض نھیں ھوں ، " میں نے کچھ

توقّف کے بعد سلسلہـ کلام جوڑتے ھوئے مزید کہا ، " آپ سے میرے اتنی ریکوئیسٹ

ھے ، کہ پلیز ، اگر آپ مجھ سے کبھی بھی بات کرنا چاہتی ھیں ، تو آپ وعدہ کریں ، آپ

اس بات کا ذکر آئندہ کبھی نہیں کریں گی ۔ " ( اس واقعے کا ذکر ، سسپنس کی خاطر پوشیدہ رکھا گیا ھے جو کہ آگے چل کر سامنے آ جائے گا۔ )،)،،،،،،،،،،،،،،،، میرے لہجے ، اور آئندہ بات کرنے کی

شرط کی وجہ سے ، وہ کچھ تردّد کے بعد مان گئی ۔




2
" لیکن میری بھی ، ایک شرط ھو گی ، پھر ، کہ اب آپ مجھے ھر و یک اینڈ پر ملا کریں

گے ۔ " اب ماننے کی باری میری ھی ۔ شائدگھمبیر ماحول کو اپنی باتوں سے خوشگوار

کرنے کا فن اسے آج بھی آتا تھا ۔ میں نے وعدہ کر لیا ۔ چنانچہ دو دن بعد ، ہفتے کی

شام ملنے کا پروگرام بنا ۔ اس کے بعد ، خدا حافظ کہا ، اور میں سو گیا ۔

کالج میں ایک عجیب طرح کا سکوت طاری تھا ۔ مگر ایک کمرے میں ڈیسک کے ہلنے سے

پیدا ھونے والی آوز ، ماحول کا سینہ چیر رہی تھی

کالج کے عین وسط میں موجود ایک کمرہ میں ڈیسک پر عالی اوندھے منہ لیٹی ھوئی

تھی ، اس کی ٹانگیں ڈیسک کے دونوں اطراف میں پھیلی ھوئی تھیں ، اس کے

حسیں بدن پر لباس نام کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ اس کے

اوپر میں لیٹا ھوا تھا ۔ میں زمین پر کھڑا تھا ، اور آگے کو جھک کر عالی کو اندھا دھند

چود رھا تھا ۔ ڈیسک کی آواز ، اسی ہل جل سے پیدا

ھو رھی تھی ۔ میرا شھزادہ ، ( میرا لوڑا ) عالی کے جسم کی خوبصورت وادی (

پھدی ) کی سیر کر رھا تھا ۔ اس کی پھدی سے لیس دار پانی نکل رھا تھا ۔ میرے

ھاتھ آگے سے اس

کے سڈول ممّوں پر تھے ۔ اس طرح سے جہاں میرے سرور میں اضافہ ھو رھا تھا ،

وھیں میرے گرفت بھی عالی پر بہت مضبوط تھی ،

اور میرے وحشیانہ انداز کے باوجود وہ مجبور تھی اور میری گرفت سے نکل نہیں پا

رھی تھی۔ عالیہ بلند آھنگ میں چیخ چیخ کر رو رھی تھی۔ میرا لن

بہت ھی تیزی سے آگے پیچھے حرکت کر رہا تھا ، میرا پورا وجود پسینے سے

شرابور تھا ۔ میری نظریں اس کی پھدی کے سوراخ

پر جمی ھوئی تھیں ، اور جب بھی میرا لن اس ک سوراخ سے باہر آتا ، میں مزید جوش

میں آ جاتا ، اور مزید طاقت سے اس کو واپس اس

کی پھدی میں پیل دیتا ۔ ہر دھکّے کے نتیجے میں عالی کے منح سے سسکاری نکلتی

، عالی شائد ابھی تک رو رہی تھی ، مگر میں تو گویا

باقی ہر احساس سے عاری ھو چکا تھا ، اس وقت مجھے بس ایک ھی کام یاد تھا ، کہ

عالی کی پھدی کی جم کر چدائی کرنی ھے ، اس کے

مجھ پر ریپ کی کوشش کے لگائے جانے والے اس الزام کو سچ ثابت کرنا ھے ۔ مجھ

پر عالی کی کی منّت سماجت کا کوئی بھی اثر نھیں

ھوا تھا ، جب میں نے اس کو پکڑ کر اس کے کپڑے پھاڑے تھے ، تب اس نے کتنے

واسطے دئے تھے ، مگر مجھ پر تو جنون سوار تھا ،

کہ اس سے بدلہ لینا ھے ، اور اب میں خوب بدلہ لے رھا تھا ۔ ایسا بدلہ ، کہ جس

سے ، زہنی سکون تو آ ھی رھا تھا ، مگر اس سے بھی

بڑھ کر ، جسم کے انگ انگ ،مین سرور و مستی عود کر آئی تھی ۔ میں نے پوزیشن

بدل کر سیکس کرنے کا سوچا ، اور اپنا لن نکال لیا ،

ذرا سا پیچھے ھٹ کر، ڈیسک پر لیٹی عالی کو بے رحمی سے کھینچا ، اس کا آنسوؤں

سے تر چھرہ جونہی میری آنکھوں کے سامنے آیا ، میرے انگ انگ میں ایک عجیب طرح

کی خوشی دوڑ گئی ۔ جس کی وجہ سے مجھ پر عزّت لوٹنے کا جھوٹا الزام لگا تھا ، آج

آخر میں نے اس سے بدلہ لے لیا تھا ، سچّ مچّ میں اس کی پھدی مار کر ، اس کی عزّت

لوٹ کر ۔ ، ، ، " کیوں عالی ، ؟ کیسا محسوس ہو رہا ھے میری جان ؟ ذرا محسوس تو

کرو ، اور بتاؤ کہ اب ، جبکہ تم واقعی میں میرا لن اپنی پھدی میں لے چکی ھو ، ،،،،،،،

تو یہ سب کیسا لگ رہا ھے میری جان ؟ " میرے الفاظ تو شرمناک تھے ھی، مگر میرا

لہجہ اس سے بھی زیادہ کاٹ دار تھا ، عالی اب پھوٹ پھوٹ کر رو دی ، " خدا کے لئے ،

فیروز ، خدا کے لئے مجھے معاف کر دو ۔ میرے چھوٹے سی غلطی کی مجھے اتنی بڑی

سزا نہ دو فیروز ، ۔ مجھے معاف کر دو ۔ میں تمھارے آگے ھاتھ جوڑتی ھوں ۔ " اس نے

آنسوؤں سے تر چھرے سے میری آنکھوں میں دیکھا ، اور روتے ھوئے میرے آگے دونوں

ھاتھ جوڑتے ھوئے فریاد کی ۔

" کیا کہا ، چھوٹی سی غلطی ، ؟ یتنے بڑے الزام کو تم چھوٹی سی غلطی کہ رھی ھو

عالی میڈم ؟ " میں نے پھنکارتے ھوئے کہا ، اور اس کو ڈیسک پر سیدھا لٹا دیا ۔ میری

آنکھوں میں جہاں وحشت ناچ رہی تھی ، وہیں پر ، عالی کی چدائی سے ملنے والے

سرور کی مستی بھی میری آنکھوں میں اتری ھوئی تھی ۔ میرا انداز بھت ھی تضحیک

آمیز تھا ۔ عالی کی ٹانگوں کو اوپر کے رخ پر اٹھاتے ھوئے میں نے اپنے لن کو اییک بار پھر

اس کی پھدی پر ایڈجسٹ کیا ، اور ایک دم سے سارا اندر کر دیا ۔

عالی کے منہ سے درد ناک چیخ نکل گئی ، اور میرے منہ سے زور دار قہقہہ بر آمد ھوا ، "

میں نے اپنے ایک ھاتھ کو اس کے داہنے ممّے پر رکھا ، ور دوسرے ھاتھ سے ڈیسک کو

پکڑا ، اور ایک اور جان دار سٹروک لگیا ۔ اب میں نے اسی پوزیشن میں مسلسل چدائی

شروع کر دی ، عالی کی چیخیں مجھے مزید وحشی بنا رھی تھیں ۔ میں کبھی اس کے

ممّے کو پکڑ کے کھینچتا ، تو کبھی بائیں والے کو ۔ میری سپیڈ کبھی بہت زیادہ آھستہ

ھو جاتی ، اور کبھی میں تیزگام بن جاتا ۔ میرا لن بہت ھی زیادہ گرمی محسوس کر رہا تھا

، اور کیوں نہ کرتا ، وہ اس وقت کالج کی سب سے زیادہ خوب صورت ، نک چڑھی اور الہڑ

مست حسینہ کی پھدی کے اندر تھا ۔ اس لمحے ، میں ہواؤں میں خود کو اڑتا ھوا

محسوس کر رھا تھا ۔ عالی کا خوب صورت وجود مکمّل طور پر میری دسترس میں تھا ۔ اور

میں اس کے انگ انگ کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر رھا تھا ۔ اچانک کمرے کا

دروازا ایک جھٹکے سے کھلا ، اور پروفیسر قمر اندر داخل ھوئے ، ان کے ساتھ گارڈ بھی

تھا ،،،،،، " یہ کیا ھو رھا ھے ؟ " ان کی دھاڑتی ھوئی آواز کمرے میں گونجی ، ،،،،،،

اور اس کے ساتھ ھی میری آنکھ کھل گئی ، ، ، ، مجھے زور زور کے جھٹکے لگ رھے

تھے ۔ میں جب تک سچوئیشن سمجھنے کے قابل ھو سکا ، ٹرک الٹ چکا تھا ( مجھے

احتلام ھو چکا تھا

۔ میںuبے ساختہ مسکرا د یا ۔ " عالی ۔۔۔ ؟ " میرے ہونٹوں سے نکلا ، " آج اتنے سالوں بعد

، پھر وھی خواب ، ،،،، ؟ " میں نے بڑبڑاتے ھوئے زیر لب کہا ۔ ( یہ وھی خواب تھا ، جو

مجھے ان دنوں تواتر سے آیا کرتا تھا ، جب مجھے کالج سے عالی کے الزام کی پاداش

میں نکالا گیا تھا ، اور میں ھر وقت عالی سے بدلہ لینے کا سوچتا رھتا تھا ، اور ھر رات

یا ، دوسری تیسری رات مجھے عالی خواب میں ملتی ، اور وہ بھی اس حالت میں ، کہ

میں اس کو چود رھا ھوتا

۔) " لیکن اب تو میں اس واقعے کو فراموش کر چکا تھا ، پھر اس خواب کا کیا

مقصد ھے ؟ " یہی سوچتے ھوئے میں نے ٹائم دیکھا ، تو میرے ھوش اڑ گئے ، صبح کے

دس بج چکے تھے ، اور عالی سے آج صبح گیارہ بجے صدر میں ملنا تھا ۔ میں نے فوراْ

بستر چھڑا اور تیّاری میں جت گیا ۔

میں مقرّرہ وقت سے پورے دس منٹ لیٹ تھا ۔ پارک میں عالی ایک بنچ پر بیٹھی میرا

انتظار کر رہی تھی ۔ جب میں پارک میں داخل ھوا ، ھم دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کو

دیکھا ۔ عالی نے نیلے رنگ کا خوب صورت لباس زیب تن کر رکھا تھا ۔ میری نظر اس پر

پڑتے ھی میری آنکھوں میں خواب والے تمام مناظر ایک فلم کی مانند چلنے لگے ، عالی

مجھے دیکھ کر ہولے سے مسکرائی ، اور کھڑی ھو گئی ۔ میں پارک کے گیٹ میں کھڑا

اس کو ایک ٹک دیکھ رھا تھا ۔ میرے اس قدر انہماک کو وہ نہ جانے کیا سمجھی ،مگر سچ

تو بس یہی تھا ، کہ میں اس کے جسم پر موجود لباس کے اندر اس کے حسین سراپے کو

دیکھ رھا تھا ۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ اس وقت بنا کپڑوں کے ننگی ھی میرے سامنے

کھڑی ھے ، میرا لن کھڑا ھو گیا ۔ " ارے میاں ، راستہ دو گے کیا ؟" ایک آواز میری

سماعت سے ٹکرائی ،، اور میں ھوش کی دنیا میں واپس آ گیا ۔
عالی میرے قریب پہنچ چکی تھی ، اور اس کا انداز بتا رھا تھا ، کہ وہ میرا انہماک نوٹ کر

چکی ھے ۔ ( بیچاری ، پتہ نھیں کیا سمجھ کر مسکرا رہی ھے ، اگر اس کو پتہ چل جائے

، کہ میں کیا دیکھ رہا تھا ، کیا سوچ رھا تھا ، اور مزید یہ کہ ، اگر اس کو اتنا پتہ چل جائے ،

کہ آج خواب میں ، اس کے ساتھ ، میں نے کیا کر ڈالا ھے ، ، اور کتنے مزے لے لے کے

کیا ھے ، تو بیچاری مسکرانا بھول جائے گی ۔ ) میں اسی قسم کی باتیں سوچتا ھوا آگے

بڑھا ۔ سلام دعا کے بعد ، عالیہ نے ھلکے پھلکے انداز میں مجھ پر چوٹ کی ، "ویسے

ایک بات تو ھے فیروز صاحب ، عورتیں خواہ مخواہ دیر کرنے میں بدنام ھیں ، جبکہ میں

مقرّرہ وقت سے بھی پہلے کی پہنچی ھوئی ھوں ، اور آپ لیٹ آئے ھیں ۔ "

میں نے اس کا فقرہ سنا ۔ اور اس کی جانب دیکھا ، اس کے روشن چہرے پر ھلکی سی

شرارت تھی ۔ یہ شائد پچھلے ایک ھفتے کی موبائل میسج چیٹ کا نتیجہ تھا ، کہ وہ

کافی فرینک نظر آ رھی تھی ۔ میں نے مسکراتے ھوئے اس سے معزرت کی ۔ میں سفید

رنگ کی سادہ شلوار قمیض میں تھا ۔ دھوپ اچھی خاصی نکلی ھوئی تھی ، اور اس

دھوپ میں عالیہ کا چہرہ بہت زیادہ دمک رھا تھا ۔ میری نظریں بار بار بھٹک جاتی تھیں ، اور

میرا مرکز نگاہ اس کا حسین سراپا ھوتا ۔ وہ بھی میری اس گستاخی کو نوٹ کر چکی

تھی ، مگر اس نے بالکل بھی برا نہیں منایا تھا ۔ ھم سب سے پھلے ایک جوس کارنر گئے ۔



3
جوسز پینے کے دوران بھی میری نگاھیں بار بار بھٹک رھی تھیں ۔ شائد یہ رات

کے خواب کا نشہ تھا ، جس کو عالیہ کے وجود کی قربت اور اس کے جسم سے اٹھنے

والی مہک نے اور بھی دو آتشہ کر دیا تھا ۔

میں کوشش کے باوجود بھی اس کے چہرے سے نگاھیں ھٹا نہیں پا رہا تھا ۔ عالیہ کی

غزّالی آنکھیں ، جن میں اس نے ھلکا سا سرمہ ڈالا ھوا تھا ، وہ جب بھی چھرہ اٹھا کر

میری جانب دیکھتی ، میرا دل اچھل کر حلق میں آ جاتا ، مجھے اپنی سانس ڈوبتی

ھوئی محسوس ھونے لگتی۔ وہ آج مجھ سے اپنی پرانی ٹون میں بات کر رھی تھی ، جو

کہ کالج لائف میں اس کی پہچان ھوا کرتی تھی ۔ لیکن اس وقت کی عالیہ اور آج کی

عالیہ میں بہت فرق تھا ۔ وہ عالیہ ایک ٹین ایجر لڑکی تھی ، مگر آج وھی عالیہ ایک بھر پور

جوان لڑکی کے روپ میں ، اپنی تمام حشر سامانیوں ک ساتھ میرے سامنے جلوہ گر

تھی۔ اس کے سیاہ بال ، جو اس نے ایک قیمتی ھئر بینڈ لگا کر قابو کیئے ھوئے تھے ،

بہت ھی خوب صورت لگ رھے تھے ۔ اس کی گردن انتہائی شفّاف تھی جس پر خواہ

مخواہ کس کرنے کو من کر رھا تھا ۔ عالیہ کسی بات پر کھلکھلا کر ھنسی ، تو گویا کسی

نے نغمہ چھیڑ دیا ھو ۔ فضا میں جلترنگ سے بج اٹھے ۔ عالیہ کے موتیوں جیسے دانت

چمک اٹھے ۔ میں کھو سا گیا ۔ ،،،،،، " فیروز ، کیا بات ھے ،؟ کیا آج پہلی بار مجھے دیکھا

ھے ؟ "

عالیہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا ، اب تو میں بہت شرمندا ھوا ۔

" آئی ایم سورے ، عالی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آ۔ ۔ ۔ آئی مین ، عالیہ جی ، "

میں گڑبڑا کر بولا ۔ عالیہ نے میری چوری پکڑ لی تھی ۔

" اٹس او۔کے۔ جناب ۔

عالیہ نے خوشدلی سے کہا ، اور سلسلہـ کلام جوڑتے ھوئے بولی ، ،،، " اور یہ آپ

مجھے عالی کہتے ھوئے اتنا شرماتے کیوں ھیں ؟ پلیز ، ھم پرانے دوست ھیں ، اور

پرانے دوستوں میں اتنا تکلّف ، ؟ ، ، ، چہ چہ چہ چہ چہ ! " عالیہ کی چہکی ھوئی آواز

میرے کانوں میں رس گھول رھی تھی ۔ یہ سچ ھے کہ مجھے اس وقت اپنا من قابو میں

نہیں لگ رھا تھا ۔

" آئی ایم سوری عالی، مگر آج آپ بہت خوب صورت لگ رھی ھیں ۔ یہی وجہ ھے ،

کہ میں ۔ ۔ ۔ ۔ "

میں نے آخر کہ ھی ڈالا۔

عالیہ نے ایک دم مجھے دیکھا ، میں آنکھیں نیچی کیئے بیتھا تھا ، عالیہ ایک دم

کھلکھلا کر ھنس دی۔ وہ میری کیفیت سے پوری طرح سے لطف اندوز ھو رھی تھی

جبکہ میں اپنی اس کیفیت پر حیران بھی تھا ، اور نادم بھی

" پتہ نہیں عالی میرے بارے میں کیا رائے قائم کرے ۔ مجھے اپنا

آپ قابو میں رکھنا ھو گا۔ "

میں نے نئےعزم سے سوچا ، اور جلدی جلدی جوس پینے لگ گیا۔ عالی بھی اب

خاموش تھی ، مگر اس کے گلاب چہرے پر شرارت رقص کر رھی تھی ۔ یقیناْ وہ میری

کیفیت کو انجوائے کر رھی تھی ۔ مگر میں نے اب اپنا آپ قابو میں کر لیا تھا ۔ سو اب میں

نے مزید کوئی حماقت نہیں کی ۔

جوس پینے کے بعد ، ھم دونوں پارک میں بنے ھوئے راستوں پر چلنے لگے ۔ وہ مجھ

سے میرے بارے میں سوال کر رھی تھی۔ کہ میری زندگی کیسی چل رھی ھے ، آج

کل گھر میں تو کوئی پریشانی نھیں وغیرہ وغیرہ

میں محسوس کر رھا تھا ، کہ عالی مجھ سے کچھ کہنا چاھتی ھے ، مگر شائد کہ

نہیں پا رھی ۔ آخر میں نے پوچھ ھی لیا ، کہ کیا بات ھے ، ، جواب میں وہ دوبارہ سے

وھی پرانا واقعہ لے کر بیٹھ گئی۔ وہ دوبارہ سے شرمندگی کا اظہار کر رھی تھی ، میں

نے اس سے کہا ، کہ میں اب اس واقعہ کو بھول چکا ھوں۔ وہ بھی بھول جائے ۔ اس نے

میری آنکھوں میں دیکھا ، اور پوچھا ، " اس کا مطلب کہ تم نے مجھے معاف کر

دیا؟"

میں نے اقرار میں سر ہلا دیا ۔ اس نے جواب میں اچانک میرا ھاتھ پکڑ کر چوم لیا ۔

" او ، تھینک یو ، فیروز، تم نے مجھے معاف کر دیا ۔ ۔ ۔ تھینک یو ویری مچ ، " جبکہ میں

اس کی اس اچانک حرکت پر حیران پریشان اس کو دیکھنے لگ گیا۔ وہ جب سمجھی کہ

اس نے کیا کر دیا ھے ، تو وہ بھی شرما گئی۔ایک لڑکا شائد یہ منظر دیکھ رھا تھا ، اس نے

سیٹی بجائی ، میں مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔

اس دن ھم سارا دن ساتھ رھے ، ، ، اس کے بعد تو ےہ چیز معمول بن گئی ، اب

تو ھم ویک اینڈ کے علاوہ بھی ملنے لگے تھے ۔ میسج چیٹ تو اس ک علاوہ تھی ۔، عالی

سے میں ابھی تک سنبھل کر بات کرتا تھا، جب کہ وہ مجھ سے بہت فری ہو چکی تھی۔

ایک شام اس کا میسج آیا ، کہ کل ویک اینڈ پر وہ نہیں آ سکے گی ، کیوں ک اس کی

سگی خالہ کی ڈیتھ ھو گئی ھے ۔ میں نے جواب میں افسوس کا میسج بھیجا ، اور سوچا ،

کہ آج دفتر سے واپسی پر اس کے گھر افسوس کرنے جاؤں گا۔

میں نے اس سے میسج کے ذریعے احتیاطاْ پوچھ بھی لیا تھا ، کہ میں اگر افسوس

کرنے کے لئے آؤں ‘ تو اس کی والدہ کو کوئی اعتراض تو نہیں ھو گا ؟ اس نے جواب میں

کہا تھا ، کہ اس کی والدہ ایسی نہیں ھیں ۔ بلکہ اس نے میرا اپنی والدہ سے غائبانہ

تعارف بھی کروا دیا ھے-

میں نے دفتر سے ایک گھنٹہ ایڈوانس چھٹّی لی ، اور ٹیکسی پکڑ کر اس کے گھر

پہنچ گیا ۔ راستے میں مری روڈ پر رش کی وجہ سے مجھے کمیٹی چوک پہنچتے ھوئے

دو گھنٹے لگے۔ خیر ، میں نے اس کے گھر پھنچ کر ڈور بیل بجائی ، میں حیران تھا ، کہ

گلی میں ، یہاں تک کہ گلی میں بھی کوئی ایسے آثار نظر نہیں آ رھے تھے ، جس سے

پتہ چلے ، کہ اس گلی کے کسی بھی گھر میں فوتگی ھوئی ھے ۔

" جی کون ؟ "
عالی کی مترنّم آواز سنائی دی ۔ میں نے جواب میں اسے اپنا نام بتایا ، تو

اس نے دروازہ کھول دیا ۔اس کی آنکھوں میں ھلکی سی حیرت تھی ۔ شائد اس کو توقّع

نہیں تھی ، کہ میں آج ہی افسوس کرنے آ جاؤں گا ۔ میں نے اس سے سلام کا تبادلہ کیا ،

اور دیکھنے لگا کہ ، وہ مجھے گھر میں داخل ھونے دیتی ھے ، یا کہ باھر سے ھی ٹرخا

دیتی ھے ۔ عالی میرا انداز سمجھ گئی اور،ذر ا سے توقّف کے بعد ، ایک طرف کو ھٹ

گئی ۔ میں گھر میں داخل ھوا ۔ عالی کا گھر کم از کم دس مرلے پر مشتمل تھا ، جو کہ

ڈبل سٹوری تھا۔ مگر مجھے گھر میں اس وقت عالیہ اور اپنے علاوہ کوئی اور ذ ی روح نظر

نہیں آ رھا تھا ۔ میں شدید الجھن میں پڑ گیا ۔اور استفہامیہ اندز سے عالیہ کو دیکھنے

لگا ، جو میرے سامنے ھی آ کر کھڑی ھو گئی تھی ۔ عالیہ کچھ دیر تو خاموش رہی،

پھر اس نے بتایا ، کہ اصل میں اس کی خالہ مری میں فوت ھوئی ھے ، اور اس کی

والدہ اور بہن دونون ھی مری جا چکی ھیں ۔ میں یہ جواب سن کر سٹپٹا گیا ۔ تو گویا ، ، ، ، عالیہ نے مجھے آدھی بات بتائی تھی ، ،،،،، ؟

" اب اس وقت گھر میں اور کون کون موجود ھے ؟ "

میں نے سوال کیا ۔ جواب میں اس نے میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا ، اور

کہا ، " صرف ھم دونو ں ۔ " ،،،،،، اس کے اس جواب نے میرے چودہ طبق روشن کر دئے ۔

میں گم صم سا کھڑا ھوا تھا ۔ مجھے سمجھ ھی نہیں آ رھی تھی ، کہ عالی نے ایسا

کیوں کیا تھا ؟ اگر وہ پہلی دفعہ میں نہیں بتا سکی تھی ، تو ، جب میں نے افسوس کے

لئے اس کی والدہ کی اجازت کے لئے فون کیا تھا ، وہ اس وقت بھی تو بتا سکتی تھی ۔

لیکن اس نے نہیں بتاےا تھا ۔ آخر اس بات کا کیا مطلب بنتا ھے ؟ کیا اس نے جان بوجھ

کر مجھے لا علم رکھا ، اور اگر اس نے مجھے بلوانے کے لئے یہ کیا ھے ، تو ،،،،،، آخر

عالیہ نے ایسا کیوں کیا ھے؟ ، اس کے پیچھے آخر کیا مقصد ھے ؟ " ، ، ،میں ینہی

سوچوں میں غلطاں تھا ، جب اچانک عالی کی آواز آئی ، " کیا بات ھے فیروز ، ؟ کیا یونہی

کھڑے رہو گے ؟ بیٹھنا نہیں ھے کیا ? " مگر میں اپنے اندر ایک عجیب سی بے چینی

محسوس کر رھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " میں اور عالی ، رات کے نو بجے ، اس کے گھر میں ، ، ،

اکیلے ، ، ؟ " ، ، ، ، ، اس سے آگے میں نہ سوچ سکا۔

" لیکن عالیہ کی ماں آخر اس اکیلی کو کس طرح گھر میں چھوڑ گئی ؟ "

اب میرے دماغ میں ایک نیا اور الگ قسم کا سوال پیدا ھوا ۔

شائد عالیہ نے میرے دماغ میں آنے والے سوال کو پڑھ لیا تھا ۔ فوراْ بول اٹھی ، " محلّے

کی ایک خالہ آج رات میرے ساتھ ھی سوئیں گی میرے پاس ۔ " ، ، ، عالی کا یہ جواب

سن کر جہاں میں تھوڑا سا پر سکون ھوا ، وہیں دل کے کسی گوشے میں کوئی امّید دم

توڑ گئی ۔ شائد میں عالیہ کے ساتھ تنہائی ملنے پر شعوری طور پر پریشان ھوا تھا ، مگر

یہ بھی سچ تھا ، کہ کہیں نہ کہیں یہ بھی آرزو موجود تھی ، کہ کاش ایسی تنھائی

مجھے عالی کے ساتھ میسّر آ جائے ۔ چاھے وہ ایک رات کے لیے ھی کیوں نہ ھو ۔اور

محلّے کی ایک عمر رسیدہ عورت کی موجودگی کے احساس نے اس خواھش کا کام تمام

کر دیا تھا ۔

" وہ دیکھو ، وہ رہیں آنٹی شمیم ۔ " عالی نے اندر ایک طرف اشارہ کیا ۔ میں نے اس

کے ھاتھ کے رخ پر دیکھا ، وہاں برآمدے میں ، ایک عمر رسیدہ عورت دنیا و مافیہا سے بے

نیاز ، خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔ پنکھا فل سپیڈ میں چل رہا تھا ۔عورت ایسے

سوئی ھوئی تھی ، گویا عرصے بعد ، سونا نصیب ھوا ھو ۔ میں نے عالیہ سے افسوس کا

اظہار کیا ، دو چار رسمی جملے بولنے کے بعد میں نے اجازت طلب کی، مگر عالیہ نے

کہا ، کو آخر میں اس کے گھر پہلی مرتبہ آیا ھوں ۔ کچھ نہ کچھ تو کھا کر جاؤں ۔ " یہ کہ کر

عالی اٹھی ، اور کچن کو چل دی ۔ میں اندر ایک کمرے میں بیٹھا تھا ۔

شائد یہ عالی کا ہی کمرہ تھا کیونکہ اس میں جگا جگا عالی کی ھی تصویریں لگی

ھوئی تھیں ۔ ان میں سے چندکالج کی بھی تھیں۔ ایک تصویر میں تو میں بھی موجود تھا ۔

میں پرانے دنوں میں کھو سا گیا ۔ عالیہ کے قدموں کی آھٹ نے مجھے چونکایا ۔ وہ ھاتھ

میں بریانی پکڑے مسکرا رھی تھی ۔ میں نے چاول کھائے ، وہ مجھے کھانا دینے کے بعد

چائے بنانے کچن میں گئی ، اور میں بھی وہیں چلا گیا۔ یہ آنٹی اتنی جلدی کیوں سو

رھی ھیں ؟ " میں نے کچن میں ایک جگہ ٹیک لگاتے ھوئے سوال کیا۔ جواب میں وہ

مسکرائی ، اور بولی ،" اس لئے کہ ، میں نے آنٹی شمیم کو نیند کی ٹیبلٹ دی ھوئی

ھے، اور ئہ اب صبح آٹھ بجے سے پہلے نہیں اٹھنے والیں ۔ "

اس نے کپ میں چائے انڈیلتے ھوئے کہا ، اور میں پھر

چونک اٹھا۔ عالی مستی بھری آنکھوںuسے مجھے دیکھ رھی تھی۔ مجھے اپنی شلوار

میں اب واضح ہلچل محسوس ھو رھی تھی۔ اب کے مجھے عالیہ کی یہ بت سن کر

پریشانی نہیں ھوئی تھی ، بلکہ اچھا لگا تھا۔

عالی نے کپ اٹھایا اور میرے برابر آن کھڑی ھوئی، اس کی آنکھوں میں خمار ہی خمار نظر

آ رھا تھا۔ اس نے اپنا داھنا ھاتھ میرے سر کےبالوں پر رکھا ، ھاتھ کو ذرا سا اوپر سے

نیچے حرکت دیتے ھوئے میرے چہرے پر جب اس کا ھاتھ آیا ، تو اس نے باقی انگلیاں کلوز

کر لیں ، صرف شھادت والی انگلی میرے ہونٹوں سے ٹچ کی، میں بھی اس کا انداز

سمجھ چکا تھا ۔ ویسے بھی ، اب کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ میں نے اس کی انگلی پر ھلکا

سا کس کیا اور اس کا ھاتھ تھام لیا ۔ مگر وہ ھاتھ چھڑا کرکمرے کی طرف بھاگ گئی ،

جاتے جاتے وہ مجھے بھی اندر آنے کا اشارہ کر گئی تھی۔ میرے انگ انگ میں نامعلوم

قسم کا کرنٹ دوڑنا شروع ھو چکا تھا۔میرا لن مستی پکڑ رھا تھا۔ شائد اس کو بھی پتہ

چل گیا تھا ، کہ خواب سچا ھونے والا ھے ، اور اس کی ضرورت پڑنے والی ھے۔ میں نے

کپ اٹھایا اور عالی کے پیچھے کمرے کی جانب چل پڑا ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یقیناْ میری آج کی رات انتہائی مستیوں میں گزرنے والی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

کچن سے کمرے تک کا سفر مجھے اس وقت بہت ھی طویل

محسوس ھو رھا تھا ۔ میرے انگ انگ میں لطیف قسم کے جذبات سر اٹھا رھے تھے ۔ جب

میں کمرے میں داخل ھوا ، عالی بیڈ کے دوسرے کنارے پر بیٹھی چائے پی رھی تھی ،

میں نے بھی اپنی چائے ختم کی ، اور کپ ایک طرف رکھ دیا ۔ دروازہ میں داخل ھوتے

وقت ھی بند کر چکا تھا جس پر عالی نے کوی اعتراض نہیں کیا تھا ۔ یعنی اب تمام

سگنل کلئر تھے ۔ میں اب بھی پیش قدمی کرنے میں ہچکچا رہا تھا ، مبادا عالی پانچ

سال پہلے کی طرح مجھے پھر بے عزّت کر دے ۔ لیکن آج عالی نے شائد سوچ رکھا تھا ،

کہ خودکی تشنگی بھی مٹائے گی ، اور مجھے بھی اپنے حسین ، مرمریں جسم کے

نشیلے جام سے سیراب کر کے چھوڑے گی ۔ وہ میرے محتاط رویّے کو بھانپ چکی تھی ۔

چنانچہ خود ھی میرے پاس آ کر کھڑی ھو گئی

اس کی سانسوں کا زیرو بم بتا رھا تھا ، کہ اس کے سینے میں کوئی بھت ھی شدید

قسم کی کشمکش چل رہی ھے ۔ کچھ یہی کیفیّت میری بھی تھی ۔ عالی میرے پاس آ کر کچھ دیر تک مجھے خمار

آلود نظروں سے دیکھتی رہی ، پھر اچانک ، وہ بجلی کی سی تیزی سے مجھ سے لپٹ گئی ۔ میں بھی آنے واے

لمحات کو بھانپ چکا تھا ، سو میں نے عالی کو اپنی بانہوں میں بھر لیا

عالی کی تیز چلتی سانسیں اس کے سینے کے اندر موجود تلاطم کی غمّاز تھیں ۔ میں

بھی اب پرھیز گاری کے خول سے نکل آیا تھا ، کیونکہ عالی نے تمام شرم بالائے طاق رکھ

کر اپنا وجود خود میری بانہوں میں دیا تھا ۔


4
اور اگر میں یہاں پر بھی گریز سے کام لیتا ، تو یہ عالی کی توھین ھوتی ، اس کے مکھن

ملائی جسم کی توھین ھوتی ، اور میں اتنا بھی ظالم نہیں تھا ، کہ اس طرح حسن کو

ذلیل کروں ، چنانچہ اب میں حسن کی صحیح معنوں میں قدر کر رھا تھا ۔ میرے ھاتھ

آٹومیٹک انداز میں اٹھے ، اور اس کی گھنیری زلفوں میں حرکت کرنے لگے ۔ گو کہ عالی

کے جسم کا لمس مجھے پاگل کر رھا تھا ، مگر میں اتنا بھی بے صبرا نہیں تھا ۔ جنگ

لڑنے سے پہلے میدان۔ جنگ ھموار کرنا انتہائی ضروری تھا ، میرے ھاتھ اس کی سیاہ

زلفوں میں حرکت کرتے کرتے اب اس کے شانوں پر آ گئے تھے ، لیکن اس سے بھی خاص

کام جو میں نے کیا تھا ، وہ یہ تھا کہ ، ، ، ، میں نے عالی کا چھرہ اوپر اٹھا لیا تھا ، اور

اس کی حسین پیشانی پر کسنگ کر رھا تھا ۔ پیشانی کے بعد میں نے اب اس کے گالوں

کا رخ کیا ، عاللی کے تیز چلتے سانسوں کی آواز مجھے صاف اپنے کانوں میں سنائی دے

رھی تھی۔ اس کی سانسوں کی تیز آواز میرے جذبات کو مزید بھڑکا رھی تھی ۔ میں

اب کسنگ کرتے کرتے اس کے ھونٹوں پر آ چکا تھا ۔ میرے ھاتھ بھی اب اس کی کمر سے

ھوتے ھوئے اس کے چوتڑوں کو ٹچ کر رھے تھے ۔ اف، ، ، کیا مست جسم تھا عالی کا ،

میں نے اپنے ھونٹ اس کے گلاب ھونٹوں میں پیوست کر دئے ، اور ھلکے سے کاٹ لیا ،

بے ساختہ عالی کے منہ سے سسکاری نکلی ، اور اس نے فوراْ اپنی بند آنکھیں کھول

کر میرے آنکھوں میں جھانکا ۔ یہی تو میں چاھتا تھا ، کہ جب میں اس کے ھونٹوں کی

کسنگ سٹارٹ کروں تو اس وقت اس کی آنکھیں کھلی ھوں ، تا کہ میں اس کے چہرے

کے تاٴثّرات نوٹ کر سکوں ، میرا یہ عمل صرف جنسی اشتعال کو مھمیز کرنے کے لیئے تھ
۔
عالی سے نظریں ملتے ھی میں شرارت سے مسکرایا ، اور اس کے ھونٹ چوسنا شروع

کر دئے ۔ عالی بلش ھو کر رہ گئی ۔ میں نے پہلے آھستہ آھستہ کسنگ سٹارٹ کی تھی

، پھر میں نے اسکی سپیڈ میں اضافہ کر دیا ، میرے ھاتھ اب عالی کی قمیض کے اندر

حرکت کر رھے تھے ۔ میں نے اس کی کسنگ کے ساتھ اپنے ھاتھوں سے اس کی کمر

کی پیمائش کی ، اور ھاتھ پھیرتا پھیرتا اس کی چھاتی پر پہنچ گیا ۔ اس نے اندر برا پہنا

ھوا تھا ، میں نے اسی ھاتھ سے اس کے ممّوں کو برا کی قید سے آزاد کیا ، اور ذرا سا

پیچھے ھٹ آیا ، عالی مستی کی انتہاؤں پر تھی ، نا سمجھی کے انداز میںuمجھے

دیکھنےلگی ، میں نے اس کی قمیض پکڑ کر اوپر کی جانب اٹھانا چاھا ، وہ سمجھ گئی ،

اور قمیض اٹھانے لگی ،، ، مگر دوسرے ھی لمحے اچانک اس نے قمیض نیچے کر دی ۔

اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتا ، اس نے لائٹ آف کر دی ، میں ٹھندا سانس بھر کر

کھڑا رھا ۔ شائد وہ سیکس پارٹنر کے سامنے اپنا وجود روشنی میں ننگا نہ کر پا رھی

تھی ، یا یہ بھی میری ھوس بڑھانے کے لئے اس کی شرارت تھی ۔ بھر حال ، اب عالی

نے مجھے ھولے سے پکارا ، " فیروز ، بیڈ پر آ جاو ۔" ، ، ، میں اگلے ھی لمحے بیڈ پر تھا ۔

اب ھم نے پر سکون انداز سے ایک دوسرے کو سیکس کے لئے تیّار کرنا شروع کیا ۔ کم

از کم میں عالی کے رسپانس سے تو یہی محسوس کر رھا تھا ۔ بتّی بجھانے کے بعد تو

وہ خود بھی کسنگ کرنے لگی تھی ، مجھے اتنا مزہ اس کی کسنگ کر کے نہیں آیا تھا

، جتنا اس نے میرے کسنگ کر کے مجھے دے دیا تھا ۔ یہ حقیقت ھے کہ ، جب بھی وہ

میرے ھونٹوں کی کسنگ کرتی ، اس کا اثر ڈائریکٹ میرے لن پر پڑتا ، میں اب مزے کی

انتہاؤں پر تھا ، اس لئے کہ عالی کسنگ بھی کر رھی تھی ، اور اپنے خوب صورت ھاتھ

بھی میرے جسم پر پھیر رھی تھی ۔ میں نے اپنی قمیض بھی اتار دی ، تا کہ وہ اچھی

طرح میرے وجود کو گرما سکے ۔

میرے ھاتھ اس کے ننگے ممّوں پرتھے ، واقعی ، قدرت نے ہقینا" اس کا انگ انگ انتہائی

فرصت میں بنایا تھا ، اور اس کے ممّے تو زیادہ ھی خاص تھے ۔میں نے سوچا ، کہ کاش ،

ظالم بتّی نہ بجھاتی تو میںuاس کے حسین جسم کا دل کھول کر نظّارہ کرتا ، ، ، ، مگر یہ بھی کیا کم تھا ۔ میں نے اپنے ایک ھاتھ کو اس کے پیٹ

پر پھیرتے ھوئے اس کی کمر پر پھرنا شروع کر دیا ۔ میری زبان چوستے ھوئے عالی نے اپنا

ایک ھاتھ میری ناف پر رکھا ، اور تھوڑا نیچے کو کر کے واپس کھینچ لیا ، میں سمجھا ، کہ

شائد یہ اب میرا لن اپنے ھاتھوں میں پکڑنا چاھتی ھے ، چنانچہ ، میں نے اپنے وجود کو

لباس سے مکمّل طور پر آزاد کر دیا ۔ اب عالی کا ھاتھ میرے لن کی طرف بالکل بھی نہیں

آ رھا تھا ۔ وہ بس مزہ لے رھی تھی ، اور مزہ دے بھی رھی تھی ۔مجھے شرارت سوجھ

گئی ۔ میں نے اس کی شلوار کے اندر سے ھاتھ ڈال کر اس کی گیلی ھوتی چوت کو اوپر

سے ٹچ کیا ، اور اپنی ایک انگلی اس کی چوت پر رگڑنا شروع کر دی ۔ اب عالی کی

برداشت سے باھر ھو گیا ۔ وہ چلّائی ۔ " فف ۔ ۔ ففیرو۔ ۔ ز ۔ز۔۔ نن ۔ ناں کرو ناں پلیز ۔ " لیکن

اس نے اپنے ایک ھاتھسے میرے اسی ھاتھ کو پکڑ رکھا تھا ، جو اس کی گرم مشین کو

چھیڑ رھا تھا ۔ میں نے اپنا کام جاری رکھا ، بلکہ اب میرے ھاتھ کی سپیڈ تیز تر ھو گئی

تھی ۔میرا لن فل موڈ میںuآ بکا تھا ، اور میں ییہی چاھتا تھا ۔ کہ اس کو اس وقت عالیہ

کی پھدّی میں ڈالوں ، جب عالی کی انتھا ھونے والی ھو ۔ اب یقیناْ عالی کی بس ھونے

والی تھی ۔ میں اس کے ممّے بھی چوس رھا تھا ، کبھی داھنا ، کبھی بایاں ، کبھی

ھونٹوں پر کسنگ ، کبھی گردن پر کسّنگ ،

میری اس دیوانہ وار کسنگ کا نتیجہ یہ نکلا ، کہ عالی رہ نہ سکی ۔ اور جھڑ گئی۔ یہی

میرا مقصد تھا ۔ اب اس کی پھدی مارنے میں بہت مزہ آنے والا تھا ۔ میں اس کی شلوار

اتار دی تھی ، اس وقت ، جب کہ وہ فل مزے میں تھی ، ورنہ خواہ مخواہ مزے کی

کیفیّت کے دو چار سیکنڈز شلوار اتارنے سے جھوٹ موٹ روکنے میں ضائع کرتی ، اور

میرا اصول ھے ، کہ جب سیکس کرو ، تو ، نہ ھی بیزاری ظاھر کرو ، اور نہ ھی بیزاری

برداشت کرو ۔ اگر بیزاری ھی کرنی ھے تو اس سے تو بہتر ھے کہ سیکس ھی نہ کرو ۔

اب میں اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ کیوں کہ اب کمانڈو ایکشن کا وقت آ چکا تھا ۔ میں نے عالی کی

ٹانگوں کی جانب آتے ھوئے اس کی دونوں ٹانگیں پکڑ لیں اور چھت کی جانب کھول دیں ۔

اب میرا لن مزے سے جھٹکے کھا رھا تھا ، یقیناْ وہ اب مجھ سے خفا ھو رھا ھو گا ، کہ

میں اب دیر کیوں لگا رھا ھوں ، پس میں نے اپنی پوزیشن عالی کی پھدی کے اوپر

ایڈجسٹ کی ، اس طرح سے ، کہ میرا لن اب عالی کی پھدی سے صرف دو انچ کے

فاصلے پر تھا ۔میں نے عالی کی گول گول رانوں پر ھاتھ پھیرا ، تو عالی مچل گئی ، میں

نے اب لن کو پھدی سے ھلکا سا ٹچ کیا ، عالی کی پھدی گرمائش سے آگ کی بھٹّی

بن چکی تھی ، مگر اب فائر بریگیڈ والے بھی آ چکے تھے ، اس آگ کو ٹنڈا کرنے کے لئے ۔

تھوڑا سا اوپر نیچے رگڑ کر میں نے لن کا ٹوپا گیلا کیا ، اور پھدی کے سوراخ پر ایڈجسٹ

کر دیا ۔ عالی لمبے لبے سانس لے رھی تھی ، مگر منہ سے کچھ نہیں بول رہی تھی ۔

اپنے لن پر تھوڑا سا دباؤ ڈالا ، تو عالی کسمسا کر رہ گئی ۔ میں رک گیا ۔ " عالی ، کیا تم

ابھی تک ورجن ھو ؟ " میں نے سوال کیا ، ، ، ، ، " ایک تو تم سوال بہت کرتے ھو، فیروز ،

یہ بھی کوئی وقت ھے سوال کرنے کا ؟ " عالی کی مخمور آواز میری سماعتوں سے

ٹکرائی ۔ اور میں مست ھو گیا ۔ میں نے ایک دم فیصلہ کیا ، کہ چاھے ورجن ھے ،

چاھے ، چدی ھوئی ، اب تو پہلی سٹ ( پہلی چوٹ ، پہلا گھسا ) ھی سپیڈ سے

مارنی ھے ۔ میں نے اپنی کمر میں ذرا لچک پیدا کی ، پیچھے کو ھوا ،

اور اگلے ھی لمحے اپنا سارا لن اس کی پھدی میں پیل دیا ۔




5
عالی کے منہ سے ایک زور دار چیخ بر آمد ھوئی ۔ شائد وہ مجھ سے سٹارٹ میں ھی

اتنے جان دار سٹروک کی توقّع نہیں کر رھی تھی ۔ عالی کی چیخ سن کر میں ڈر گیا اور

اس پر جھک کر اس کے منہ میں منہ ڈال لیا ۔ عالی کے منہ سے ابھی بھی درد بھری

آوازیں آ رھی تھیں ۔ میں نے اس کی کسنگ بھی شروع کر دی ، اور ساتھ ھی ساتھ اس

کے ممّے پکڑ کر پریس کرنا شروع کر دیے ۔ عالی کو نارمل ھونے میں دو منٹ لگ گئے ۔ اب

میں دوبارہ پوزیشن میں آیا۔ اور آھستہ آھستہ سے اندر باھر کرنے لگا ، لیکن ایک بات میں

جان چکا تھا ، کہ عالی نے جتنی تکلیف محسوس کروائی تھی ، وہ سچ نہیں تھی ۔

عالی ورجن نہیں تھی ۔ وہ اس سے پہلے بھی کسی سے چدوا چکی تھی ۔ ورنہ

میرے لن کو پتہ ضرور چلتا ، کو اس نے آج ایک کنواری پھدّی کا کام تمام کیا ھے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے یہ باتیں کچھ دیر بعد کے لئے اٹھا رکھیں ، اور اپنا دھیان مخصوص کام پر لگا دیا ۔

میں نے عالی کی ٹانگیں اپنے کاندھوں پر رکھی تھیں ۔ لیکن عالی بار بار اپنی ٹانگوں کو

میری کمر سے ٹچ کر کے مجھے اندر کرنے سے روکنے کی کوشش کر رھی تھی ۔ اور

میں ڈسٹرب ھو رھا تھا ۔ چنانچہ میں نے عالی سے اٹھنے کو کہا ، وہ حیرانی سے

بولی، کہ کیا ھوا ، میں نے اسے گھوڑی بننے کو کہا ، اس نے پہلے تو کچھ تردّد کیا ، مگر

بعد میں مان گئی۔ اب میں زیادہ مزے سے اس کے اندر ڈال رھا تھا ۔ میرے جھٹکوں میں

ایک ایسا ردھم تھا ، جو مجھے مزے کی انتہاؤں پر لے کر جا رھا تھا ۔ عالی کی پھدی

میں لن داخل کرتے وقت ایک عجیب طرح کی آواز پیدا ھوتی ۔ عین اسی وقت ، جب کہ

میں عالی کو چود رھا تھا ،۔ میرے دماغ میں پھر سے خواب والے مناظر چلنے لگے ۔ اور

میں مسکرا دیا ۔ ، ، ، ، " واقعی ، کچھ خواب کتنی جلدی سچّے ھو جاتے ھیں ناں

میں مزے لینے کے دوران سوچ وچ کر مسکرا رھا تھا ۔ میری مزے سے بھر پور آوازیں

نکل رہی تھیں۔ عالی اپنی جگہ پر مستی سے آوازیں نکال رھی تھی ۔ گھر میں ھم دو

افراد کے علاوہ صرف ایک عمر رسیدہ عورت موجود تھی ، جس کو عالی نے نیند کی گولی

کھلا کر انٹا غفیل کر دیا تھا ۔ اب تو ساری رات مزے ھی مزے تھے ۔ میں نے عالی کو

گھوڑی بنا کر کم و بیش پندرہ منٹ چودا ، حیرت کی بات ےہ تھی ، کہ عالی نے ابھی تک

ایک بار بھی سیکس سے منع نہیں کیا تھا ، میں سیکس کے دوران مختلف قسم کے

خیالات میں الجھا رھا ۔ کئی گتھیاں تھیں جو سلجھ کر نہیں دے رھی تھیں ۔ اور ایک

خیال سے تنھ آ کر میں اس کو دماغ سے جھٹک دیتا تو دوسرا اس کی جگہ موجود ھوتا ۔

میں نے تنگ آ کر عالی سے کہا ، کہ وہ اب میرے اوپر آئے ۔ ویسے بھی میں پسینےمیں

فل شرابور ھو چکا تھا ۔ "

عالی مان نہیں رھی تھی ۔ مگر آخر میری ضد کے آگے اس کو ھتھیار ڈالنا پڑے۔ اب عالی

میرے اوپر آ گئی ، اس سے مجھے ڈبل مزہ ملنے لگا ، کیونکہ اب اس کے سدول ممّے

بڑی آسانی سے میرے ھاتھوں میں سما رھے تھے ۔ اب دس مٹ تک یہی سین چلتا رھا

۔عالی کا ہر ہر جمپ مجھے بے خود کئے دے رھا تھا ۔ خود عالی بھی مست ھو کر چلّا

رھی تھی ۔ آخر وہ پھر جھڑ گئی ، اب تو میرا ٹائم بھی آ چکا تھا ۔ چنانچہ میں نے اس کو

روکا ، اس کو بیڈ پر سیدھا لٹایا، اور کود کھڑا ھو گیا، اس کی ٹانگیں دوھری کر کے اس کی چھاتی کے پاس لے گیا ۔ ساتھ ھی میں

نے اپنے دونوں ھاتھوں کو بیڈ پر اس طرح رکھا ، کہ اس سے اس کی دونوں ٹانگوں کو قابو

کر لیا ۔ یہ سیکس کی بہت ھی زبر دست پوزیشن ھے ، اور جو لوگ اس معاملے میں

ایکسپرٹ ھوں ، وہ اس سٹائل سے ملنے والے مزے سے بھی یقیناْ آگاہ ھوں گے ۔ قصہ

مختصر ، میں نے اس سٹائل میں دو منٹ جم کر چدائی کی اور جھڑ گیا ۔ عالی لمبے

لمبے سانس لے رہی تھی ، اور میری بھی یہی کیفیّت تھی ۔ میرا پورا وجود پسینے سے

شرابور تھا ۔ اور پسینے کے ٹھنڈے قطرے عالی کے جسم کو بھی تر کر رھے تھے ۔ میں

نے اپنی منی اس کی پھدّی کی اتھاہ گہرائیوں میں ٹرانسفر کی ، اور جب آخری قطرہ

بھی نکل گیا ،تب میں کھڑا ھو گیا ۔ بیڈ کے ساتھ ھی ایک چارپائی بھی موجود تھی،

میں دھڑام سے چارپائی پر گر پڑا۔ پسینے نے میری بس کروا دی تھی ۔ عالی بھی

خاموشی سے پڑی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس رات میرا موڈ تھا ، کہ دوبارہ بھی عالی کی لوں گا ،

مگر عالی نہ مانی، کیونکہ اس کے بقول اس کو درد بہت ھو رھا تھااور وہ تھک بھی بہت گئی ھے ۔ میں نے سوچا ، کہ

آج نہ سہی ، دو دن بعد سہی ، ماروں گا ضرور ، میں نے عالی کو یہ بات اشاروں میں

سمجھا بھی دی تھی ، جس کے جواب میں عالی شرما کر منہ نیچے کر گئی ۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ، جب ھم دونوں کپڑے پہن چکے ، میں نے عالی سے اپنے

دماغ میں پیدا ھونے والی الجھنوں کا

ذکر کیا ، کہ آخر اس کی والدہ اس کو یوں اکیلی کیوں چھوڑ کر چلی گئیں ۔ اور اس نے

مجھ سے جھوٹ کیوں بولا ، کیا وہ میرے ساتھ سیکس کی خواھش رکھتی تھی، جو اس

نے اس طرح مجھے خالہ کی ڈیتھ کی آدھی سچّی اور آدھی جھوٹی خبر سنائی۔ اور یہ

کہ اس نے اس عورت کو نیند کی ٹیبلٹ آخر کیوں دے دی ؟ "۔ اس نے کہا ، ڈیتھ والی بات

تو واقعی غلط تھی، باقی آنٹی کو نیند کی ٹیبلٹ اس لئے دی ، کہ اگر میں اس کو نیند

کی ٹیبلٹ نہ دیتی ، تو یہ آنٹی اتنی باتونی ھے کہ ساری رات مجھے باتیں سنا سنا کر

جگائے رکھتی ۔"

" لیکن میرا ایک سوال ابھی تک تشنہ ھے عالی جی ، " میں نے اس کی آنکھوں

میں جھانکتے ھوئے کہا ، ، ، ، " وہ کیا جناب ؟ " عالی نے بھی اسی ترنگ میں جواب

دیا ۔ اس کا چہرہ جگمگا رھا تھا ۔ اتنا زیادہ ، ، کہ مجھے لگا ، میری ھی نظر اس کو نہ

لگ جائے ۔ واقعی ، وہ تھی ھی اتنی خوب صورت ، کہ بس ؛ میں بیڈ پر سیدھا لیٹا

تھا ، جب کہ وہ اپنی چھاتی میرے سینے پر رکھ کر مجھ پر جھکی ھوئی ےتھی ۔

" سوال یہ ھے ، کہ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں ، کہ آپ کے گھر پر کوئی بھی نہیں

ھے ، اور آپ گھر میں اکیلی ھی ھو ؟ "
عالی نے کہا ، " اتنا کچھ، کر چکے ھو ، پھر بھی، پوچھتے ھو ، کہ کیوں بلایا ؟ " عالی

کے منۃ سے اعتراف سن کر میں حیران رہ گیا ، حالانکہ میں خود بھی یہ اندازہ لگا چکا

تھا ۔اچانک عالی اٹھی ، اور مجھے بھی اٹھا لیا ، ھم دونوں اٹھ کر بیٹھ گئے ، میں کچھ سمجھ

نھیں پا رھا تھا ، " دیکھو فیروز ، آج مجھے کہنے دینا ۔ روکنا مت ۔" عالی نے اپنی بانہیں

میرے گلے میں حمائل کرتے ھوئے لاڈ سے کہا ۔ جتنا کچھ ھمارے درمیان ھو چکا تھا ،

اس کے بعد ، میری کیا مجال تھی ، کہ میں انکار کر پاتا ۔ مجھے نیم رضا مند دیکھ کر

عالی بولنا شروع ھوئی ، اور جیسے جیسے وہ بولتی گئی ، گویا میں تو گنگ سا ھوتا گیا ۔

عالی نے بتایا ، " میں جانتی ھوں ، کہ میری وجہ سے آپ کی تعلیم کا حرج ھوا ، مگر آج میں آپ کو سب سچ

سچ بتا دینا چاھتی ھوں
۔"
میں سنبھل کر بیٹھ چکا تھا ۔ کیون کہ عالی کہ رہی تھی ، کہ اصلی سچ وہ مجھے آج

بتانے لگی ھے ۔ ۔ ۔ ۔ گویا عالی نے جو الزام مجھ پر لگایا تھا ، وہ اس نے خود ساختہ

نہیں تھا ، بلکہ کسی کے کہنے پر اس نے یہ کام کیا تھا ؟

عالی نے جو کہانی مجھ کو بتائی ، اس کے مطابق ، عالی کو اس کام کے لئے شہروز نے

مجبور کیا تھا ۔ میاں افروز خان کا اکلوتا بیٹا ، شہروز ، وہ لڑکا تھا ، جس نے کالج کی ھر

لڑکی کو بے وقوف بنایا ھوا تھا ۔

کبھی وہ کسی کے ساتھ دیکھا جاتا ، تو کبھی کسی اور کے ساتھ ۔ھر لڑکی اس سے

محبّت کرتی تھی ، مگر شہروز ایک ڈالی پر بیٹھنے والوں میں سے نھیں تھا ۔ وہ ایک

لڑکی کو زیادہ سے زیادہ پندرہ دن اپنے ساتھ رکھتا ۔ ان پندرہ دنوں میں ، وہ اپنا سب

کچھ گنوا بیٹھتی تھی ۔ میں نے ایک بار اس کو کالج کے سٹور روم میں ایک لڑکی کو

چودتے ھوئے پکڑ کر سب ٹیچرز کو بتا دیا تھا ، جس پر ھماری دشمنی بھی چلی دونوں

میں ۔ عالیہ سے میری دوستی خاص نہیں تھی ،

صرف سلام دعا کی حد تک جان پہچان تھی ۔ عالیہ بھی شہروز کی دیوانی تھی ، اور

اسی دیوانگی نے اس سے یہ کام کروا ڈالا تھا ۔ شہروز نے اس سے کہا تھا ، کہ اگر وہ

فیروز کو کالج سے نکلوانے میں اس کی مدد کر دے، تو جواب میں وہ اس سے لو میرج تک

کر سکتا ھے ۔ عالی شہروز کی محبّت میں اندھی تھی ۔ چنانچہ اس کو پانے کی خاطر

اس نے اپنی سہیلی کو استعمال کیا ، اس کی سہیلی نے ایک دن مجھ سے صبح کے

دس بجے کہا ، " فیروز ، آپ کو سر عامر بلا رھے ھیں اپنے کمرے میں ۔" میںuسر عامر

کی بات سننے چل پڑا ۔ لیکن مجے نہیں پتا تھا ، کہ وہاں ایک قیامت میرا انتظار کر رھی

ھے ۔ میرے روم میں داخل ھوتے ھی دروازہ بند ھو گیا، باھر سے کسی نے کنڈی لگا دی

تھی ۔ میںuنے پریشان ھو کر اندر کمرے میں دیکھا ، ایک اور بھیانک منظر میرا منتظر تھا ۔

عالی سامنے بنط پر اوندھے منہ لیٹی ھوئی تھی ، میں ابھی کچھ بھی سمجھ نہ پایا تھا

، کہ عالی نے " بچاؤ ، بچاؤ ۔ " کا شور مچانا شروع کر دیا ۔
ذرا سی دیر میں سارا کالج اکٹّھا ھو گیا ۔ عالی دروازہ پیٹ رہی تھی ،۔ آخر کیسی نے

دروازہ کھولا ، سامنے سے تمام پروفیسرز آ رھے تھے، عالی بھاگ کر لڑکیوں میں چھپ

گئی۔ میں حیران پریشان کمرے سے نکلا، مگر دو قدم بھی نہ چل سکا۔ شہروز کے

ساتھیوں نے مجھے پیٹنا شروع کر دیا۔ بہر حال، پروفیسر قمر نے معری جان چھڑا دی، اس

شرط پر ، کہ میں آئندا اس کالج میں کسی کو بھی نظر نہ آؤں ۔ " پانچ منٹ ک اندر میں

ذلیل ھو کر کالج سے باھر نکال دیا گیا تھا ۔ "

آج پانچ سال بعد ، عالی کے منۃ سے اتنا بڑا سچ ، سن کر میرے تن بدن میں گویا آگ

لگ گئی تھی ، " تو میری بربادی کا اصل ذمّہ دار کوئی اور نہیں ، شہروز ھے شھروز ، "
عالی کہانی سنا چکی تھی، مگر پھر بھی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ " میں

تم سے شرمندہ ھوں فیروز ، تم پوچھتے تھے ، ناں کہ میں نے تم کو آج رات بہانے سے

بلایا ھے ناں ؟ تو سنو ، ھاںu، میں نے تم کو بہانے سے اس لیئے بلایا ھے، کہ جو الزام

میں نے تم پر جھوٹ موٹ میں تھوپ ڈالا تھا ، آج اس کو سچّ کر ڈالوں ۔ " عالی نے کہا ،

اور سسکیاں لینے لگی ۔

" لیکن میں تم کو معاف کرچکا ھوں۔ پلیز ، اس واقعہ میں کیا رکھّا ھے؟ " میں نے

عالی کو حوصلہ دیتاے ھوئے کہا ، مگر عالی بولی، " نہیں فیروز ، تم نہیں جانتے ، تمھاری

زندگی برباد کرنے کے بعد ، میں نے کتنے دکھ جھیلے ھیں، شاید میرے ساتھ ایسا ھی

ھونا چاھیئے تھا ۔ " اب میں چونکا تھا ۔ یقینا" عالی اب کچھ خاص خبر سنانے والی تھی

اپنے بارے میں ۔ میں خاموش ھو گیا ۔ چند ثانئے توقّف کرنے کے بعد عالی دوبارہ ہوں

گویا ھوئی ، " تم کو پتا ھے ، میرے پاپا کی ڈیتھ کیسے ھوئی ، ، ،، ، ؟ "

" نہیں ، پتا نہیں ۔ " ، ، ، میں نے جواب میں کہا ۔ تو جو بات عالی نے مجھے بتائی،

اسے سن کر میں مزید گھوم گیا ۔ ، ، ، ، عالی نے بتایا ، کہ اسی کے اپنے بھائی جو کہ

اس کے لیئے سوتیلا تھا ، اس نے اس کا ریپ کیا ، اور اپنے دو دوستوں کو بھی اس کے

ساتھ سیکس کرنے دیا ۔ اس کے باپ نے یہ سب سن لیا اور دیکھ بھی لیا ، ۔ ان کو اسی

وقت ھارٹ اٹیک ھوا ، اور وہ چل بسے ۔ اس کے بعد تو جیسے اس کے سوتیلے بھائی

کی عید ھو گئی ، وہ جب چاھتا ، عالی کا ریپ کر ڈالتا ۔ عالی کم از کم سات آٹھ بار اس

کی ہوس کا نشانہ بنی، آخر ایک دن وہ خود ھی چلا گیا ، مگر سب کچھ بیچ باچ کر ، اور

اس طرح عالی کی زندگی بھی برباد ھو گئی۔

میں گم صم سا ھوا بیٹھا تھا ، جیسے کاٹو تو لھو نہیں ۔ ۔ " کیا ایسا بھی ھوسکتا

ھے ؟ ، کیا ایک بھائی ، اپنی ھی بہن کی عزّت لوٹ سکتا ھے ؟ "

میں سمجھ نہیں پا رھا تھا ، کہ عالی کہ کیسے دلاسہ دوں ۔ بہر حال ، جیسے

تیسے بھی ، میں نے عالی کو دلاسہ دیا ۔ اب مجھ کو عالی سے ھمدردی سی ھونے گی تھی ۔

اچانک میں نے ایک خیال کے تحت عالی سے سوال کیا ۔ لیکن مجھے حیرانی ھوئی جب

عالی نے مجھے میرے سوال کا جواب مجھے فراھم کر ڈالا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اب نئے سرے سے

سوچ رھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور جوں جوں میں سوچ رھا تھا ، میں اپنے فیصلے پر مزید مضبوط ھوتا

جا رھا تھا ۔

میں شھروز احمد خان سے ، اپنا ، اور عالی ، دونوں کا بدلہ لینے

جا رھا تھا اور اب اسی شھروز کے خلاف عالی ، میرا ساتھ دینے والی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !


6
در اصل میں نے عالی سے صرف اتنا پوچھا تھا، کہ کیا اس کو شھروز کا پتہ ھے کہ آجکل وہ کہاں ھوتا ھے ۔ جواب میں ، عالی نے مجھے یہ بھی بتا دیا تھا ، کہ وہ اسکا مکمّل پتہ جانتی ھے ، گھر کا بھی اور دفتر کا بھی ۔ میرا دماغ اس وقت بہت تیزی سے کام کر رھا تھا، یہاں تک کہ مجھے ابھی ابھی کی تھکاوٹ بھی اب محسوس نہیں ھو رھی تھی ۔ جس حادثے نے مجھے اتنا عرصہ تڑپنے پر مجبور کیا ، جس حادثے کیوجہ سے میرے کردار پر انگلیاں اٹھائی گئیں ، اس حادثے کے ذمّے دار کا تعیّن ھوجانے، اور اس کے گھر کا ایڈریس پتہ چل جانے کے بعد میرا چین سے بیٹھنا محال تھا، تاوقتیکہ میں اس سے اپنی بے عزّتی اور تعلیمی نقصان کا شدید ترین انتقام نہ لےلیتا ۔ اور میں شھروز کو سبق سکھانے کے لئے مکمّل طور پر تیّار تھا ۔ عالی کی مجھے اب فکر نہ تھی ،کیونکہ جو لڑکی پانچ سال پہلے کے جھوٹے واقعے کی تلافی کے طور پر اپنا جسم تک مجھے پیش کر چکی تھی ، وہ میرا ساتھ ضرور دیتی ۔
اب مجھے ایک عجیب طرح کی بے چینی ھونے لگی تھی ۔ دل چاھتا تھا ، کہ شھروزاسی وقت میرے سامنے آ جائے ، اور میں اس پر ٹوٹ پڑوں ۔ سالے کا مار مار کراس سےبھی برا حال کر دوں ، جو اس کے دوستوں نے اس دن میرا کیا تھا جب مجھے عالی کے الزام کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ عالی میری کیفیّت کا بغور مطالعہ کر رھی تھی ۔ ۔ عالی نے سمجھا ، کہ اب میں بے قابو ھو کر کہیں اسی وقت ھی نہ نکل پڑوں شھروز سے ملنے ۔ اس لئے وہ میرے سینے سے لگ گئی ،اور اپنی بانہوں میں بھر کر بولی ، " پلیز ، اپنے آپ کوسنبھالو فیروز ، لگتا ھے تمہیں بہت زیادہ غصّہ آیا ھے ۔ " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے عالی کی کمر کے گرد اپنے بازو حمائل کر دئے ، اورزیر لب مسکرا کر کہا ، " ڈونٹ وری عالی ،آئی ایم کول ۔ مجھے غصّہ نہیں ،بلکہ تم پر پیارآ رہا ھے ، کہ تم نے مجھے میرے دشمن ْکا چہرہ بھی دکھا دیا ، اور اب اس تک رسائی دلوانے کے علاوہ، تم میری مدد بھی ضرور کرو گی ۔ کرو گی ناں ؟ " آخری فقرہ ادا کرتے ھوئے میں نے اس کا چہرہ سامنے کیا ، تو اس کی آنکھوں میں ایک بار الجھن سی نظر آئی ، مگر دوسرے ھی لمحے اس کا سر اقرار میں ہل رھا تھا ۔ عالی کے دل میں موجودھمدردی میرے بہت کام آنے والی تھی ۔اب شھروز کے لئے سزا ناگزیر ھو چکی تھی ۔
اس رات میں نے عالی سے دوبارہ سیکس نہیں کیا ۔ سچّی بات تو یہی تھی
، کہ میرا دل بھی نہیں کر رھا تھا، باقی کام عالی نے یہ کہ کر آسان کر دیا ، کہ اس کو درد بہت ھے ۔لیکن ساتھ ھی مسکرا کر اس نے یہ بھی کہ دیا تھا ، "پلیز فیروز ، ناراض مت ھونا ، اب تو ھم ملتے ھی رہیں گے ناں، تو یہ بھی ، ، ، ، ، میرا مطلب سمجھ رھے ھو ناں تم ؟" یہ فقرہ اس نے اپنا سر جھکا کر ادا کیا تھا ، میں اس کی یہ بات سن کر مسکرا دیا، اب تو عالی کسی بھی وقت دستیاب ھو سکتی تھی ۔ صرف ایک فون کال کرنے کی دیر ھوتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں نے عالی سے چند باتیں مزید کیں ۔ اس نے بتایا ، کہ اپنی والدہ کے ساتھ نہ جانے کی واحد وجہ یہ تھی ، کہ اس کو دو دن پہلے ملنے والی نوکری ختم ھو سکتی تھی ، اگر وہ ایک دو دن کے لیے بنا اطّلاع کے چھٹّیاں کر لیتی ۔ اب میرے تمام سوالوں کا جواب مجھے مل چکا تھا،چنانچہ رات کے ایک بجے میں وھاں سے نکل آیا ۔عالی نے مجھے گھر سے بھیجنے سے پہلے ایک لمبی کس کی ، اور دوبارہ ملنے کا وعدہ لے کر رخصت کر دیا ۔

چند دن بعد ، مجھے اسلام آباد سے باھر جانا تھا ۔ واپسی میں مجھے ایک مہینہ بھی لگ سکتا تھا ۔اس سے پہلے پہلے میں، کم از کم ایک بار عالی کا جسم ضرور چکھنا چاھتا تھا ۔ اور اب میں نے تمام کاروائی روشنی میں کرنے کا سوچا ھو ا تھا۔ میں نے عالی کو میسج کر کے کہا، " جان۔ من، آج میرا دل بہت کر رھا ھے۔ پہلے تمھارے الزام کی وجہ سے شہر چھوٹا تھا ، آج میں سچّ مچّ تمھیں چودنا چاھتا ھوں۔ کیونکہ کل یا پرسوں ، میں نے پھر عارضی طور پر شہر چھوڑنا ھے ۔ " اس کا جواب خاصی دیر بعد آیا تھا ، مگر حوصلہ افزا تھا ۔ آج رات اس نے مجھ کو گیارہ بجے اپنے گھر بلایا تھا ۔میں نے پکڑے جانے کا ذکر کیا ، تو اس نے کہا، " فکر نہ کرو ، میں سنبھال لوں گی ۔ " ( بعد میں پتا چلا، کہ اس نے آج کی رات میرا لن لینے کی خواھش میں ، نیند والی گولیوں کا تجربہ اپنی والدہ وغیرہ پر بھی کر ڈالا تھا ۔ واقعی، انسان جتنا بھی تہذیب یافتہ ھو جائے، مگر اپنی جبلّی خواھشات کے معاملے میں، انسان ایک جانور ھی ھے۔ )

میں رات مقرّرہ وقت سے دس منٹ بعد، اس کے گھر پرتھا ۔ میں نے اس کو میسج کیا، جواب میں گیٹ کھل گیا ۔ میں نے گلی کا جائزہ لیا، مطلع صاف تھا ، سو آرام سے اس کے گھر انٹری ھو گئی ۔ موسم کچھ کچھ بدل چکا تھا۔ مگر دن کو پھر بھی فل پنکھے لگانا پڑتے تھے،، البتّہ رات کو کچھ ٹھند ھو جاتی تھی۔ آج عالی نے میری فرمائش پر سرخ رنگ کا سوٹ زیب تن کر رکھا تھا ۔ میں گھر میں داخل ھونے کے بعد، سیدھا اس کے ساتھ ھی اس کے کمرے میں آ گیا ۔ آج کی رات میرا ارادہ کچھ خاص تھا، کیونکہ آج میں نے زیادہ ٹائم لگانے کا سوچا ھوا تھا ۔ عالی کو بھی میں نے آج کی رات کے لئے خصوصی طور پر تیّار ھونے کا کہا ھوا تھا ۔ اور میں دیکھ رھا تھا ، کہ عالی میری توقّعات سے بھی کہیں زیادہ سجی ھوئی تھی ۔ جوانی کا اپنا ھی ایک رنگ ھوتا ھے، اوپر سے عالی تھی بھی بہت زیادہ ھی حسین۔ اور اس رنگ کوکچھ مصنوعی چیزوں سے مزید نکھار دے کرحسن قاتلانہ بن چکا تھا ۔ ۔ عالی آج پہلے سے بھی حسین لگ رھی تھی ۔ میرے سینے میں دل ڈول رھا تھا ۔ اس کو نظر بھر کر دیکھنا ناممکن ھو رھا تھا ۔ سو کمرے میں آتے ھی میں بے خود ھو گیا ۔ اس نے جونھی کمرے کی چٹخنی چڑھائی، میں نے اس کو کھینچ کراپنے ساتھ چمٹا لیا۔ میرے اس بے ساختہ انداز پر عالی پہلے ذرا سا چیخی، پھر ھنسنے لگی، "آرام سے بابا ، آرام سے ، کہیں بھاگی تو نہیں جا رھی ھوں جان جی ۔ " عالی کے منہ سے سرگوشی نما آواز نکلی ۔ اس کے جسم کی خوشبو مجھے بے خود کر رھی تھی ۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، اور اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں میں پیہوست کر دئے۔ میرا انداز اس قدر بے ساختہ تھا، کہ عالی کی ھنسی بھی ھم دونوں کے منہ میں ھی کہیں دب گئی۔ اب دو جوان جسم باھم ایک ھونے والے تھے، جس کے نقطہٴ آغاز پر ھم کھڑے تھے ۔ میں نے کسّنگ کو اتنا شدید رنگ دیا، کہ چند لمحوںمیں ھی عالی کی حالت غیر ھونے لگی اور اس کے منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکلنا شروع ھو گئیں ۔میرے ھاتھ بھی حرکت میں آ چکے تھے ۔ میں نے اس کے ھونٹوں کے دونوں کناروں کی طرف اپنے ھونٹوں کو باری باری پھیرنا شروع کیا۔ اور پھر سے کسنگ سٹارٹ کر دی۔ اب میں نے اس کی گردن کا رخ کیا، اور اس کی ٹھوڑی سے ھوتا ھوا مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا۔ عالی کی گردن ۔ ۔ ۔ مجھے عورت کے جسم کے نظر آنے والے حصوں میں چہرے سے بھی زیادہ جو چیز ایٹریکٹ کرتی ھے، وہ عورت کی گردن ھے ۔ آج میں سوچ کے آیا تھا ، کہ عالی کا انگ انگ چوسنا ھے، سوائے پھدی ، اور گانڈ کے۔( دوستوں کی وضاحت کے لیے عرض کردوں ، کہ میں پھدی اور گانڈ کو چوسنا بالکل غلط سمجھتا ھوں اور آج تک میں نےکبھی بھی یہ دو سوراخ نہیں چوسے ۔ ) میری گردن پر کسنگ کا سٹائل یہ تھا ، کہ میں اس کی گردن کو بالکل ایسے ھی چوس رھا تھا ، جیسے عورت کے نپل کو منہ میں لے کر چوسا جاتا ھے، کبھی کبھی میں گردن پر موجود گوشت کو ھونٹوں میں لے کر ھلکا سا اپنے منہ میں کھینچ کر چوستا ھوں- اس سے جہاں مجھے بہت مزہ آتا ھے،،،،،،،،،،،،،،،،،،وہیں دوسرا فریق بھی مزے کی انتہاؤں پر اڑنے لگتا ھے۔ (آزمائش شرط ھے ۔) عالی کی گردن پر اب جگہ جگہ میرے ھونٹوں سے ثبت شدہ بوسوں کے نشان نظر آ رہے تھے ، اس کی گردن جگہ جگہ سے لال ھو رہی تھی۔ میں نے عالی کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس نے مزے میں انکھیں بند کی ھوئی تھیں ۔ سیکس سے قبل ذھنی طور پر رضا مندی نے ھم دونوں کو ھی مست کیا ھوا تھا ، اسی وجہ سے ھم اتنی جلدی مست ھو کر ایک دوسرے کے جسم کا مزہ محسوس کر رہے تھے ۔ میں نے عالی کے کان میں سرگوشی کی، " عالی، میں اب اپنے اور تمھارے جسم کے درمیان یہ دھاگے سے بنی ھوئی کپڑا نام کی چیز مزید برداشت نہیں کر سکتا ۔ " ، ، ، عالی نے میری بات کے جواب میں آنکھیں کھولیں، اور اپنے آپ کو مجھ سے علیحدہ کر لیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ھاتھ اوپر اٹھا دئے۔ میں نے اس کی قمیض کے دونوں پلّو پکڑے اور اوپر اٹھا دیے۔ اقمیض اتارنے کے بعد، عالی کا گورا جسم اب اپنی رنگت دکھلا رھا تھا۔ کالے رنگ کے برا میں اس کے گول مٹول دودھیا ممّے میرے جذبات کوچیلنج کر رہے تھے ۔ میں نے اس کی برا فورا" کھول دی، تو اس کے ممّے ایک دم دم اچھل کر باھر آ گیے۔ اب میں نے اپنی قمیض اور بنیان اتار کر صوفے پر رکھی اور اپنا منہ اس کے کان پر رکھ کر کہا، " اب نچلا لباس تم اتارو گی ، میرا بھی ، اور اپنا بھی ۔ " عالی کا سر جھک گیا۔ میں نے اسکو ھم دونوں کے نچلے کپڑے اتارنے کا اشارہ کیا۔ عالی نے ذرا سی حیل و حجّت سے کام لینا چاھا۔ " وہ در اصل ، ، ، فیروز
، ، لائٹ جل رہی ھے ۔ " عالی اٹک اٹک کر بولی ۔ میں نے کہا ، " سویٹ ھارٹ ، آج کا سارا شو ، روشنی میں ھی ھو گا۔ " اس کے ساتھ ھی میں نے اس کا ھاتھ پکڑا اور اپنے ازار بند پر رکھ دیا۔ اس نے میرا ازار بند کھول کر نیچے گرا دیا۔ اس عمل کے دوران اس کے ھاتھ کا ذرا سا کونا میرے لن کی ٹوپی سے ٹکرایا۔ اس ذرا سے لمس سے میرے پورے جسم میں ایک برقی رو دوڑ گئی۔ سنسناھٹ سے لطف اندوز ھوتے ھوئے، میں نے اس سے جلدی اپنی شلوار بھی اتارنے کو کہا۔ " جلدی کرو عالی ۔ میرا افسر تمھاری چھاؤنی کا دورہ کرنے کو بہت بے چین ھے۔ میری اس بات سے عالی نے شرماتے ھوئے اپنی شلوار نیچے کو گرا دی۔ شائد وہ پہلے ھی اپنا ازار بند کھول چکی تھی ۔ اب ھم دونوں الف ننگے کھڑے تھے۔ عالی نے آنکھیں مکمّل بند کر لیں۔ میں نے اس کو بیڈ پر لٹا دیا، اور اس کے شفّاف بدن پر نظر ڈالی۔ اس کا جسم حسن کا ایک زبردست شاہکار تھا ۔ اس کے جسم پر کہیں بھی کوئی داغ نہیں تھا۔ اس کے ممّے 34 کے سائز کے رہے ھوں گے۔ میں نے اپنی ایک ٹانگ بیڈ پر رکھّی، اورآھستہ آھستہ اپنا وجود اس کے جسم کے ساتھ لگاتا گیا۔ جب میرا سینہ، اس کی چھاتی سے ٹکرایا، تو اس کی چھاتی کے لمس نے میرے اندر سرور و مستی کی ایک کیفیّت پیدا کر دی۔ میں نے اپنے دونوں ھاتھ اس کے ممّوں پر رکھّے۔ اور ان کو نرمی سے دبانا شروع کر دیا۔ عالی کی آنکھیں مسلسل بند تھیں۔ میں بیڈ پر ایک سائیڈ پر آ چکا تھا۔ میری ایک ٹانگ عالی کی گوری گوری رانوں پر تھی۔ اس کے جسم پر کہیں بھی ذرا سے بھی بال موجود نہیں تھےاس کی پھدی پر بھی ذرا سے بال تھے، جو کہ میں نے کہا تھا ، کہ کچھ بال رکھ لے۔ (اپنی اپنی پسند کا معاملہ ھے بھائی لوگو۔)
عالی کی گوری ٹانگیں میری ٹانگ سے ٹکرا ٹکرا کر میرے اندر ایک عجیب طرح کا مزہ پیدا کر رہی تھیں ۔ میں محسوس کر رہا تھا، کہ اگر یہی کیفیّت رہی، تو میں آج بھی جلد ھی جھڑ جاؤں گا۔ اسی وجہ سے، میں نے، عالی کے کان میں سرگوشی کی، "دودھ کا بولا تھا۔ گرم کیا، یا نہیں ؟" اس نے جواب میں ، اثبات میں سر ھلایا، اور، کچن کی طرف اشارہ کیا، میرے چھرے پر مسکراھٹ دوڑگئی۔ "جان۔من، دودھ تم کو ہی لانا پڑے گا۔ " میری اس بات کے جواب میں، عالی نے اپنا چہرہ میرے سینے میں چھپانا چاھا، مگر میں نے اٹھ کر بیٹھتے ھوئے، اس کو کھینچ کر کھڑا کر دیا، اس کے سینے میں اچانک کھینچے جانے سے پیدا ھونے والی حرکت سے مجھے مزید تحریک ملی، میں نے اس کو جانے کے لیے کہا، تو وہ بولی،" مجھے چھوڑو گے، تو ھی جاؤں گی ناں ! " میں اس کے ممّے پکڑ چکا تھا۔ اس کی اس بات کے جواب میں ، میری ھنسی نکل گئی۔ واقعی مجھے پتہ ھی نہ چل سکا تھا ، اور میں نے اس کے ممے بھی پکڑ لیے تھے ۔ عالی بھی شرما رہی تھی ۔ خیر، عالی نے مجھے دودھ لا کر دیا۔
جب وہ دودھ لینے جا رھی تھی، تو میری نظریں اس کے گورے گورے چوتڑوں پر ھی ٹکی رہیں ۔ اس کے چوتڑ بھی اس کے جسم کی طرح اپنی مثال آپ تھے۔ عالی نے جاتے ھوئے اور واپسی پر، دونوں مرتبہ ھی میرے اس طرح دیکھنے پر اپنا چہرہ اپنے سینے میں چھپا لیا تھا۔ خصوصاْ واپسی پر تو میرے ھی سینے میں آ کر چھپ سی گئی۔جب وہ آ ررھی تھی، تو اس کا ننگا بدن، مجھے بے خود کر رھا تھا۔ اس کا حسین چہرہ، لمبی زلفیں، جن کو میں نے ھر قسم کی قید سے آزاد کر کے کھلا چھوڑ دیا تھا۔ نیچے اس کے خوب صورت ممّے، جن کی گلابی رنگت، میرا ایمان خراب کرنے میں مصروف تھی۔ اس کے بدن کا سب سے خاص حصّہ ، اس کی گلابی رنگ کی پھدّی تھی، جس پر موجود ھلکے ھلکے بال اس کی پھدّی کو اور بھی دلکش بنا رھے تھے۔ اس کی سڈول ، گول مٹول ٹانگیں، جن پر ایک بھی بال نہ تھا، چوسے جانے کے قابل تھیں۔ الغرض، وہ ھر لحاظ سے مکمّل طور پر مجسّمہٴ ’حسن تھی۔ میں نے ایک گلاس دودھ کے ساتھ ، ایک خاص چیز، اپنے معدے میں منتقل کی۔ اس چیز کو کھانے کے بعد، کم از کم ، 20 منٹ کا انتظار لازم تھا ۔ چنانچہ اس کو لٹا کر عالی کے ساتھ لیٹنے کی بجائے، میں خود اس کے جسم کی کسّنگ میں مصروف ھو گیا۔ اس سے عالی دوبارہ سے مست ھونا شروع گئی۔ میرا مقصد بھی یہی تھا ، کہ آج کی رات اس انداز سے لگا کر جاؤں، کہ آئندہ میں عالی سے کہوں ، یا نہ کہوں، مگر عالی خود ھی مجبور ھو کر مجھے دوبارہ اس مزے کے لئے بلائے۔ ) میں اس کی گردن سے ھوتا ھوا ، اس کے سینے پر آیا۔میرا ایک ھاتھ اس کے داھنے ممّّے پر ھوتا، تو منہ بائیں ممّے پر، اور اگر ھاتھ بائیں ممّے پر ھوتا ، تو منہ دائیں ممّے پر۔ اس کے بعد ، میں نے اس کے پیٹ کو چومنا شروع کیا۔ ظالم کا پیٹ بھی بہت شفّاف تھا۔ کنواری عورت کا پیٹ ایک عجیب طرح کی کشش رکھتا ھے۔ میں نے اس کو چوم چوم کر عالی کا برا حال کر دیا۔ اب میں نے اس کی رانوں کو چومنا شروع کیا۔ میرا ایک ھاتھ بھی اس کی رانوں پر حرکت کر رھا تھا۔ میرے ھاتھ اور منہ کی کسنگ سے عالی کا خود پر قابو نہ رھا۔ پہلے تو اس کے منہ سے نکلنے والی آواز قدرے آھستہ تھی ، مگر اب رانوں کو چومنے کے عمل کے دوران، مزے سے اس کے منہ سے بر آمد ھونے والی سسکاریوں کی آواز بہت بلہند ھو رہی تھی ۔ "آؤف،، ،،،،،،، فف،،،،، آھ،،،فف، فیر، روزز،،زی، مت، کررو، ناں ، ھھ ، ، ھائے۔ ، ، ، گگ، ، گد، ،گدی، ، ، ، آھ، ،،،،، " عجیب بے ربط قسم کے الفاظ اس کے منہ سے بر آمد ھو رھے تھے۔ آخر اس کو شدید قسم کے جھٹکے لگنا شروع ھو گئے۔ عالی جھڑ چکی تھی ۔ میں نے ٹائم دیکھا، میں نے جیسے تیسے کر کے 20 منٹ گزار لیے تھے۔ اب گوریلا ایکشن کا وقت آن پہنچا تھا، اور ویسے بھی اب معاملہ میری برداشت سے باھر ھو چکا تھا ۔ چنانچہ میں نے باقی کی تمام جملہ مصروفیات ترک کیں ، اور عالی کی ٹانگوں کو کھول کر ان کے درمیان میں آ کر بیٹھ گیا ۔ عالی کی آنکھیں بند تھیں۔ اس کے نپلز ٹائٹ ھو چکے تھے ۔ میرا لن بھی اپنی سختی کے عروج پر تھا۔ میں نے اس کی پھدی کا جائزہ لیا۔ پھدی سے پانی نکل رھا تھا۔ میں نے ایک بار عالی کو چوس چوس کر ھی فارغ کر دیا تھا۔ میں نے عالی کو دیکھا، اب وہ آنکھیں کھولے میرے لن کو غور سے دیکھ رھی تھی۔ میرے دیکھنے پر وہ اچانک شرما گئی۔ میں مسکرا اٹھا۔ اس کی ٹانگیں اٹھا کر میں نے اوپر کو کر دیں، اس کی خوبصورت رانیں ایسی تھیں، کہ میرا دل چاھتا تھا، کہ کم از کم ، ایک بار تو ان میں ھی اپنا لن فارغ کیا جائے۔ مگر اپنا ارادہ بعد کے لیے رکھ چھوڑتے ھوئے ، میں نے اس کی پھدی کے سوراخ پر اپنا لن ایڈجسٹ کیا۔ ایک نظر اسکو دیکھا، وہ تیّار تھی۔ میں نے ایک ھی جھکے میں اپنا لن اس کی پھدی میں اتار دیا۔ عالی کے منہ سے پزے اور میٹھے درد سے بھری ھوئی ایک لمبی سسکاری نکل گئی۔ میرا اپنا وجود بھی اس کی پھدی سے میرے لن کے راستے میرے وجود میں منتقل ھونے والی حدّت سے سنسنا اٹھّا۔ ظالم کی پھدی بہت ھی گرم تھی۔ میں نے مزہ محسوس کرتے ھوئے حرکت شروع کی۔ آھستہ آھستہ آگے پیچھے ھونے کے دوران ، میں عالی کی آنکھوں میں دیکھ رھا تھا۔ وہ مزے لے رھی تھی اور ساتھ ساتھ میرے بالوں میں بھی ھاتھ پھیر رھی تھی۔ اس کے ھاتھ بھی سرور پہنچا رھے تھے، اور اس کا جسم تو اس وقت سرور و مستی کا منبع بنا ھوا تھا، جہاں سے میں اپنے لیے حد درجہ مزہ کشید کر رھا تھا۔ میرے ھاتھ اس کے سینے پر حرکت کر رہے تھے۔ اس کا چہرہ بہت ھی پیارا لگ رھا تھا۔ میں نے اپنے ھونٹ اس کے ھونٹوں پر رکھے۔ اس دوران میں نے دھکّے لگانے بند کر دئے تھے۔ میرا لن اس کی پھدی کے آدھا اندر تھا، آدھا باھر تھا۔ کچھ دیر کی کسنگ سے عالی پھر مستی کی انتہاؤں پر محسوس ھونے لگی۔ اس کا جسم نیچے سے حرکت کر رھا تھا۔ اس کے منہ سے بھی مبھم سی آوازیں نکل رھی تھیں۔ اس کی پھدی اس انداز سے حرکت کر رھی تھی، گویا، میرا لن ابھی کے ابھی اپنے اندر سمو لے۔ میرے لن پر اس کی پھدی کی حرکت کا یہ انداز مجھے بہت مزہ دے رھا تھا۔ میں نے پوزیشن بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اب میں نیچے لیٹ گیا، اور عالی کو اس طرح سے اوپر کیا، کہ میرا لن اس کی پھدی کے اندر ھی رھا۔ عالی کو میں نے ابھی جھٹکے لگانے کا کہا بھی نہیںتھا، مگر وہ خود ھی اوپر نیچے ھونا شروع ھو گئی۔ یقیناْ اس کے لئے اب اپنے آپ پر کنٹرول رکھنا ناممکن ھو چکا تھا۔ میرا مقصد مجھے پورا ھوتا نظر آ رھا تھا۔ میں نے اس کو اسی لئے زیادہ سے زیادہ چوسا تھا، کہ وہ مجھ سے بھی زیادہ سیکس میں دلچسپی لے۔ آج لائٹ بھی جل رھی تھی، اس کا تمام جسم میرے سامنے ننگا تھا، مگر اب اس کو تمام باتیں بھول گئیں تھیں۔ یاد تھا، تو صرف میرا لن، جس پر وہ اس وقت سواری کر رہی تھی۔ اس کے اچھلنے سے اس کے ممّے بھی اوپر نیچے کو اچھل رھے تھے۔ میں نے اپنے دونوں ھاتھوں سے اس کے دونوں ممّے پکڑ لئے اور ان کو جڑ سے پکڑ کر کناروں کی طرف مسلنے لگا، مگر انتہائی نرمی کے ساتھ۔ اس سے عالی اور بھی مست ھو گئی۔ اس کے جھٹکوں میں تیزی آگئی تھی۔ عالی کے منہ سے بھی مزے سے بھر پور آوازیں اس کی مستی کا پتہ دیتی تھیں۔اس کے ھاتھ میرے سینے پر رکھٌے تھے،۔ میں نے عالی کو نیچے لٹا دیا، اس لئے، تا کہ اس کو اچھٌی طرح سے آخری جھٹکوں کا مزہ دے سکوں۔ نیچے لٹا کر میں نے اس کو بید پر اس طرح لٹایا کہ، اس کی ٹانگیں میرے ھاتھوں میں رھیں۔ اس کا آدھا دھڑ بیڈ پر تھا، میں بیڈ سے اتر کر نیچے کھڑا ھو چکا تھا۔ میں نے اس کی ٹانگیں کھول کر دوبارہ لن فٹ کر کے جھٹکے لگانا شروع کر دئے۔ میں انتہائی تیزی سے جھٹکے لگا رھا تھا۔ عالی کے منہ سے آوازیں بلند تر بلند ھوتی گئیں۔ (یار لوگ جو بھی سمجھیں،۔ مگر ھم اس وقت واقعی اس طرح بے فکری سے سیکس کر رھے تھے، جیسے ھم دونوں میاں بیوی، ھیں، اور گھر پر اس وقت ھم دونوں کے علاوہ کوئی بھی موجود نھیں ھے۔ اس طرح کی بے فکری عالی کے گولیوں والے نسخے کی مرھون۔ منٌت تھی۔ ) چند ثانئے کے بعد، عالی جھڑ گئی۔ اس کے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے۔ مین نے اب اس کو گھوڑی بنایا، اور خود زمین پر ھی کھڑا رہا۔ عالی نے مجھے دیکھا، جیسے پوچھ رھی ھو، کہ میں ابھی فارغ نہیں ھوا کیا؟ ، میں نے مسکرا کر سر انکار میں ھلایا۔ عالی کو گھوڑی بنا کر میں نے اپنا لن اس کے سوراخ پر رکھٌا،مگر پیچھے کر لیا۔ کیونکہ اس کی پھدٌی بہت ھی گیلی تھی۔ چنانچہ میں نے عالی سے کہا، کہ وہ اپنی پھدٌی کو صاف کرے۔ اس نے بیڈ شیٹ کا کونا پکڑا ، اور وھیں اسی پوزیشن میں ھی اپنی پھدٌی جلدی جلدی صاف کر لی۔ شاید وہ میرا تسلسل توڑنا نہیں چاھتی تھی۔ میں نے اپنا لن خود ھی صاف کر لیا تھا، جو کہ کافی گیلا ھو چکا تھا۔ اب میں نے اپنا لن اس کی پھدٌی کی گہرائیوں میں اتار دیا۔ اس کی پھدٌی میں لن اندر باھر جاتے ھوئے مجھے پاگل کر رھا تھا۔ اس وقت میں نے تصوٌر میں سوچا، کہ جس الزام نے کل مجھے ذلیل کیا، تھا، اسی الزام نے، آج مجھے عالی کا جسم نصیب کر دیا تھا۔ اسی وقت میرے دل میں خیال پیدا ھوا، کہ کاش، ایسا ھی ایک الزام مجھ پر ، "شازیہ" بھی لگا دیتی۔ شائد وہ بھی عالی کی طرح سوچتی، اور ھماری اچانک ملاقت ھوتی، تو سالی کا جسم بھی اسی طرح نصیب ھو جاتا، جس طرح سے عالی کا ھوا تھا۔ ( شازیہ ھماری ھی ایک کلاس فیلو تھی، جو کہ بہت ھی خوب صورت تھی۔ ) اس خیال کے آتے ھی میںاپنی سوچ پر خود ھی ھنس دیا۔ سیکس بھی انسان کی سوچ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ھے۔ خیر، میں نے اسی سٹائل میں کم از کم 10 منٹ جم کر چدائی کی۔ کبھی آھستہ، کبھی، تیز، کبھی، بہت ھی تیز۔ اب میری کمر میں درد ھونا شروع ھو گیا۔ چنانچہ میں نے کچھ دیر وقفہ کیا۔ اس دوران عالی کے ممٌے میرے ھاتھ میں تھے جن سے میں کھیل رھا تھا۔ کچھ دیر آرام کے بعد، میں نے عالی کو سیدھا بیڈ پر اس طرح سے لٹا دیا، کہ اس کا آدھا جسم بیڈ پر تھا،اور ٹانگیں اٹھا کر زور زور سے اندر باھر کرنا شروع کر دیا۔ میری ٹانگیں زمین پر ھی تھیں۔ عالی کی ٹانگیں میں نے اوپر کو اٹھا دی تھیں۔ اب کافی وقت ھو چکا تھا، مگر میرے لن کو بے انتہا ملنے والے مزے کے باوجود میں فارغ نہ ھو رھا تھا۔ میرا حلق بھی خشک ھو چکا تھا۔ میں نے اپنے دماغ کو سیکس پر پرکوز کیا، نظریں عالی کی پھدٌی پر جما دیں، جہاں سے میرا لن اندر باھر ھوتا دکھائی دے رھا تھا۔ ھاتھ میں نے اس کی رانوں پر پھیرنے شروع کر دئے۔ اس سے مجھے اپنا انزال نزدیک محسوس ھوا۔ اب میں نے سپیڈ مزید تیز کر دی۔ عالی کے منہ سے نکلنے والی آوازیں ظاھر کر رہی تھیں، کہ اب وہ مزے سے زیادہ تکلیف میں ھے۔ تکلیف تو اس کو کافی دیر سے ھو رہی تھی، مگر وہ شائد میرے مزے کے خیال سے خاموش تھی۔ میں نے جلدی جلدی جھٹکوں کا آخری سپیل مکمٌل کیا، اور ایک لمبی "ھآآھ " کے ساتھ ھی میں اس کی پھدٌی میں ھی جھڑ گیا۔ عالی کے اوپر جب میں نڈھال ھو کر گر رھا تھا، میں نے دیکھا، عالی کے چہرے پر تکلیف کے تاٴثّرات تو تھے ھی، مگر ساتھ ایک طمانیت بھری مسکراھٹ بھی اس کے چہرے پر کھیل رھی تھی۔ میں بھی مسکراتے ھوئے اس کے اوپر ڈھے گیا۔ ، ، ، ، ، ، ، ، ،،،،،،،، اس کے بعد، ھم دونوں کافی دیر لیٹے رھے۔ میں نے آج بھی صرف ایک بار ھی سیکس کیا۔ عالی آج کافی تکلیف محسوس کر رھی تھی ۔ میں خود بھی کافی تھک چکا تھا۔ عالی کے جسم سے اوپر اٹھ کر میں نے اپنا لن صاف کیا، اپنے کپڑے اٹھائے، اور اس کے واش روم میں گھس گیا۔ پیشاب وغیرہ سے فارغ ھو کر میں نے اپنے کپڑے اٹھائے، اور باھر آ گیا۔


7
عالی کافی دیر بعد اٹھٌی۔ اس کا انداز بتا رھا تھا، کہ اس سے چلا نہیں جا رھا۔ میں نے اس کو سہارا دیا۔ اس نے کپڑے اٹھئے، اور واش روم میں جا کر کپڑے پہن کر باھر آ گئی۔ جب ھم کچھ ریلیکس ھوئے، تو اس نے کہا، آج میں شھروز سے ملی تھی، میرا انگ انگ سنسنا اٹھٌا۔ " کہاں ؟ " میں نے فوری سوال کیا۔ اس نے جو بتایا، اسے سن کر میں حیران رہ گیا۔ " میں اسی کی کمپنی میں ھی کام کرتی ھوں۔" ,,, عالی نے مزید بتایا، کہ اس کو نوکری دینے والا، بھی شھروز ھی تھا۔ در اصل اس نے عالی کو ایک دفتر میں دیکھ لیا تھا، وہ اپنے باس کی طرف سے اس دفتر میں کسی کام سے آئی تھی اور متعلقٌہ دفتر کے مینجر کا انتظار کر رھی تھی۔ شھروز وھاں کسی کام سے گیا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا، شھروز نے جب عالی کی ساری بات سنی، تو اس کو اپنا کارڈ دیتے ھوئے اپنے آفس میں کام کی پیش کش کر دی اور اس کے لئے اپنی پرسنل سیکرٹری کی نوکری اچھٌی خاصی پر کشش تنخواہ پر اسی وقت کنفرم بھی کر دی۔ ۔ ۔ ۔ عالی نے اپنی بات پوری کر کے کہا، "فیروز، میں جانتی ھوں، کو شھروز آج بھی عورتوں کا رسیا ھے، اور مجھ کو بھی اس نے نوکری اپنی نفسانی خواھش کے ھاتھوں مجبور ھو کر ھی دی تھی ۔ ",,, ,,,عالی کے مطابق، شھروز کی آنکھوں میں اس وقت بھی ھوس صاف نظر آ رھی تھی جب اس نے عالی کو دیکھا تھا۔ "فیروز، میرے اس کے دفتر میں کام کے لئے رضا مند ھو جانے میں صآرف ایک ھی مقصد ھے، اور وہ ھے، تمھارے ساتھ کیا گیا وعدہ پورا کرنا۔ ۔ ۔ ۔ شھروز سے تمھاری ذلالت کا انتقام لینے میں تمھاری مددکرنا۔ مجھے یقین ھے، کہ میں بہت جلد یہ کام کر سکتی ھوں۔ وہ مجھ پر فل فل ڈورے ڈال رھا ھے۔ اورکل اسی سلسلے میں ھم دونوں ایک پارک میں جا رھے ھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔؛" عالی نے اتنی بات کر کے کچھ توقٌ کیا، اور پھر میر ھاتھ پکڑ کر بولی، " فیروز، میں چاھتی ھوں، کہ تم بھی اس سے کل ھی مل لو۔ کیونکہ اس کے بعد، وہ ایک لمبے tour پر ملک سے باھر جا رھا ھے۔ پتہ نہیں ، پھر وہ کب واپس آئے گا۔ "
عالی بول رھی تھی، اور میرے دماغ میں گویا آندھیاں سی چل پڑی تھیں۔ میرا دوران۔ خون بھی شائد دوبارہ سے تیز ھو گیا تھا۔ اب شھروز کے ذکر سے میرے حلق میں کڑواھٹ نہیں اتری تھی، بلکہ میں ایک عجیب طرح کی کیفیٌت محسوس کر رھا تھا۔ تو گویا،میری انتہائی شدید خواھش پوری ھونے والی تھی، میں جلد ھی اپنے بد ترین دشمن شھروز سے ملنے والا تھا ، ، ، ، ، ؟
میں اس رات عالی کے پاس مزید ایک گھنٹہ ’رکا رھا ۔ عالی ’مجھے بتاتی رھی کہ شھروز کا گھر اور دفتر کہاں کہاں واقع ھیں ، اور وہ کب دفتر آتا ھے، کب جاتا ھے، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ ھم نے اس بات پر بھی غور کیا، کہ آیا کل پارک میں ھی میں اس کے سامنے آ جاؤں یا نہیں، اور اگر آ بھی جاؤں، تو کس انداز سے ۔ کیوں کہ عالی کی نوکری میں بلا وجہ ختم نہیں کروانا چاھتا تھا۔ آخر ایک نقطے پر ھم دونوں متٌفق ھو گئے۔ اس کے بعد میں نے عالی کو ایک لمبی فرنچ کس کی، اور اس کے گھر سے نکل آیا۔ گھر پہنچنے تک سارا رستہ میرا دماغ مختلف خیالات کی آماجگاہ بنا رھا ۔ البتٌہ کمرے میں پہنچ کر میں سب ’کچھ کل پر چھوڑتے ھوئے بستر میں ’گھس گیا ۔
دوسرے دن میں الارم کی وجہ سے جلد اٹھ سکا۔ رات کی کارروائی کا اچھٌا خاصا اثر اب اپنے پورے وجود پر محسوس ھو رھا تھا۔ عالی کا میسج آیا ھوا تھا، کہ وہ لوگ جلد ھی پارک میں پہنچنے والے ھیں۔ میں بھی آناْ فاناْ تیٌار ھو کر اگلے آدھے گھنٹے میں مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا۔
پارک میں کوئی خاص چہل پہل نہیں تھی۔ ( یہ بھی شھروز کی ھی رائے رھی ھو گی، کہ پارک میں علی الصبح جایا جائے، تا کہ رش نہ ھونے کی وجہ سے وہ عالی سے زیادہ سے زیادہ قربت اختیار کر سکے۔کمینہ، آج پھنس گیا تھا ۔)
عالی نے مجھے بتایا ھوا تھا ، کہ وہ شھروز کو لے کر کس کونے میں جائے گی ۔ میں سیدھا اسی طرف گیا۔ عالی مجھ سے بمشکل بیس پچٌیس فٹ کے فاصلے پرایک بنچ پر ایک قوی الجثٌہ آدمی کے ساتھ موجود تھی۔ عالی کا چہرہ میری طرف تھا۔ اس کے ساتھ جو آدمی موجود تھا، وہ شھروز تھا، میرا بد ترین دشمن، جس نے میری زندگی کے پانچ قیمتی سال ضائع کر وا دئے۔جس کی وجہ سے میں بھرے کالج میں ذلیل کیا گیا، وہ میرے اتنے قریب موجود تھا، اس حساس سے ھی میرا خون کھول اٹٌھا ۔ ایک دفعہ تو مجھے ایسے محسوس ھوا، کہ میں ابھی شھروز پر پل پڑوں گا اور مار مار کر اس کا بھرکس نکال دوں گا، مگر چونکہ میں ذھنی طور پر شھروز کا سامنا کرنے کے لئے پہلے سے اپنے آپ کو آمادہ کر کے لایا تھا، چنانچہ جلد ھی میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ اب میں نے شھروز کی شخصیٌت کا جائزہ لینا شروع کیا۔ کالج کے دور میں موٹی توند رکھنے والا شھروز، اب اور بھی موٹا ھو چکا تھا۔ اس کا قد کم و بیش میرے جتنا ھی تھا۔ ( میرا قد ؟ ارے بھئی، میرا قد چھے فٹ کے آس پاس ھے۔ ) اس نے آج نفیس قسم کی شلوار قمیض زیب۔ تن کر رکھٌی تھی۔ باقی ابھی اس کا چہرہ نظر نہیں آ رھا تھا ، کیونکہ اس کا منہ دوسری طرف تھا ۔ عالی بھی آج خوب تیٌار لگ رھی تھی ۔ عالی کا ایک ھاتھ شھروز نے آھستگی سے اپنے ھاتھ میں لے لیا تھا (کمینہ، آج بھی ماضی کی طرح ٹھرکی بکرا ھے۔)میں نے اس کے اس عمل پر سوچا۔ عالی کے چہرے پر ’گریز صاف نظر آ رھا تھا، مگر وہ اپنے باس کو ایک دم سے ناراض بھی نہیں کر سکتی تھی ، کیونکہ ھم دونوں کا مقصد پورا ھونے تک عالی کا شھروز سے تعاون لازمی امر تھا۔ عدم تعاون کی صورت میں، عالی کی نوکری ختم ھونے کے ساتھ ساتھ انتقام لینے کا چانس بھی معدوم ھو سکتا تھا، جو کہ عالی کے تعاون کی صورت میں بہت ھی آسان نظر آ رھا تھا ۔
ان کی باتوں کی آواز مجھے سنائی نہیں دے رھی تھی ۔ایک دو بار میری اور عالی کی نظریں ٹکرائیں، میں نے عالی کے چہرے پر ایک شریر قسم کی مسکراھٹ بھی دیکھی۔ کچھ دیر وہیں بنچ پر ان دونوں کو تاڑنے کے بعد ، میں نے اب شھروز کا دیدار کرنے کا سوچا اور وہاں سے اٹھ کھڑا ھوا ۔ مجھے اندازہ تھا ، کہ اگر شھروز نے مجھے پہچان لیا، تو بد مزگی پیدا ھونے کا چانس تھا ، مگر مجھے پہچاننا، شھروز کے لیے آسان نہیں تھا ۔ چنانچہ میں نے ان کی جانب قدم بڑھا دئے، مگر عالی بھی ایک دم وھاں سے اٹھ کھڑی ھوئی، میرے قدم ’رک گئے۔ وہ شھروز سے کہ رھی تھی، کہ کیوں نہ پارک کی دوسری جانب جایا جائے۔ عالی اس کو لے کر دوسری طرف چل پڑی۔ اس طرف کوئی بھی آدمی نظر نہیں آ رھا تھا ۔ میرے اندر خوشی کی ایک انجانی لہر دوڑ گئی۔ پارک کے خاموش کونے میں ، اگر میں اچانک شھروز کے سامنے آ بھی جاتا، اور ممکنہ طور پر اگر ھماری فائٹ بھی ھو جاتی، تو کسی کی مداخلت کا کوئی خطرہ نھیں تھا ۔ اکیلے شھروز جیسے سانڈ کو میں انتہائی آسانی سے سنبھال سکتا تھا ۔اتنا تو اپنے آپ پر اعتماد تھا مجھے۔
شھروز اور وہ چلتے ھوئے پارک کے مین گیٹ سے کافی دور آ گئے تھے ۔میں بھی سائے کی طرح ان کے پیچھے لگا تھا ۔ میں نے سر ’گھما کر گردو پیش کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس طرف رش نہ ھونے کے برابر تھا۔ ، ، " یہ جگہ بہترین آپشن ھو سکتی ھے ۔ " میں زیر۔ لب بڑبڑایا۔ اب دیر کرنا ’فضول تھا۔ میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ھوا ان سے آگے نکلنے کی سوچ رھا تھا، ایک طرف سے تین با وردی اسلام آباد پولیس والے آ رھے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ اب ان پولیس والوں کے جانے کا انتظار لازم تھا ۔ آخر چند منٹوں بعد، وہ لوگ چلے گئے ۔ اب میں مزید وقت ضائع نہٰیں کرنا چاھتا تھا، ورنہ میرا نروس بریک ڈاؤن یقینی تھا۔ اتنے شدید ترین ’دشمن کی میرے نزدیک موجودگی، میرے اندر انتقام کی آگ کو بھڑکا رھی تھی اور اب میں اس آگ سے اپنے دشمن کو جھلسا دینا چاھتا تھا ۔ آخر سیکھی گئی گیم کب کام آنا تھی ۔ سو میں نے اب ایکشن کا سوچا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ھوا ان کے پاس آ گیا۔ وہ لوگ ایک بنچ پر بیٹھے تھے ۔ میں ان کے عقب میں ان کے عین سر پر آن کھڑا ھوا تھا ۔ عالی بنچ پر شھروز کے پاس ھی بیٹھی تھی۔ شھروز ’دنیا وما فیھا سے بے خبر، عالی کا ھاتھ پکڑ کر اس کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رھا تھا ۔ "کم آن عالی، یھاں ھم دونوں صرف دوست ھیں، یہاں تو اس طرح بی ھیو مت کرو۔ تم بھی جانتی ھو، کہ اس طرح کے attitude سے مجھے سخت الرجی ھوتی ھے۔ " ، ، ، ، ، شھروز کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔ یہ وھی آواز تھی، جو آج سے پانچ سال پہلے مجھ پر زھر اگل رھی تھی ۔ اسی آواز نے جلتی پر تیل ڈالتے ھوئے پورے کالج کو میرے خلاف بھڑکا دیا تھا۔ کالج کا پورا واقعہ میری آنکھوں کے سامنے پھر سے تازہ ھو گیا۔ میں اب اپنے ھوش کھو چکا تھا۔ مگر اس کے باوجود بھی،مجھے اچھٌی طرح سے اپنا اور عالی کا تیٌار کردہ رات والا پلان یاد تھا، کہ میں نے کیا کرنا ھے، اور کیسے کرنا ھے، اس طرح سے عالی کی نوکری بھی خطرے میں پڑنے کا کوئی چانس نہ تھا ۔ عالی اور وہ دونوں باتوں میں مصروف تھے، کہ اچانک میں ان کے سامنے آ گیا۔ ، ، ، ، ، " کیسے ھو شھروز احمد خان ؟ " میری آواز پر وہ اس طرح چونکا تھا، جیسے ان کے سر پر کسی نے بم پھوڑ دیا ھو۔" اچھٌا۔ تو تم لوگ یہاں آج بھی رنگ رلیاں مناتے پھر رھے ھو۔اور تم دونوں کی وجہ سے میری زندگی برباد ھو گئی ۔ " اب میں ان کے بالکل سامنے آ چکا تھا۔ شھروز بھی کھڑا ھو ’چکا تھا۔ ’اس کی آنکھیں میرے ھی چہرے پر جمی تھیں۔ ’اس کی آنکھوں میں ’الجھن صاف نظر آ رہی تھی ۔ غالب امکان یہی تھا، کہ وہ ’مجھے پہچاننے کی کوشش کر رھا تھا، مگر پہچان نہیں پایا تھا ۔
" جی کون ھیں آپ؟ اور اس بد تمیزی کا مقصد کیا ھے ؟ " شھروز نے تلخ لہجے میں کہا۔ شائد وہ اپنے آپ کو سنبھال ’چکا تھا ۔
" میں ’تمھاری شامت ھوں مسٹر شھروز ، جو آج اس ویران پارک میں ’تم پر نازل ھوگئی ھوں ۔ " میں نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا۔ شھروز کی آنکھوں میں شائد شناسائی کی ذرا سی چمک پیدا ھوئی۔ عالی ھم دونوں کی باتوں کے دوران اس طرح کھڑی تھی گویا میری آمد نے اس کو اچھٌا خاصا پریشان کر دیا ھو۔ یہی چیز ھمارے پلان کا اھم تر حصہ تھی۔ کہ کسی بھی لمحے پر شھروز کو شک نہ ھو، کہ عالی بھی اس چال میں ملوٌث ھے ۔ شھروز کے چہرے پر اچھٌی خاصی چربی تھی، اور اس چربی پر میرے لئے نفرت ھی نفرت نظر آ رھی تھی ۔
" ’ تم ؟ مسٹر فیروز ؟ " شھروز کی بھاری آواز اس کے منہ سے برآمد ھوئی۔ اس کا انداز تحقیر آمیز تھا۔ " کمال ھے، آج بھی زندہ ھو، میں تو سمجھا تھا، کہ اس دن کے بعد تم نے خود کشی کر لی ھو گی ۔ "
" خود کشی تو اب تمھارا مقدٌر بننے والی ھے شھروز احمد خان ۔ " میں نے کہا، اور اس کا گریبان پکڑ کر کھینچا۔ اس نے بے ساختگی میں اپنا جسم پیچھے کو کیا، اور ساتھ ھی اپنے دونوں ھاتھ آگے کو کئے، تا کہ میرے ھاتھوں کو اپنے گریبان سے ھٹا سکے۔اچانک میری ٹانگ حرکت میں آئی، اور اس کے ٹٹٌوں پر پڑی ۔گریبان پکڑنے کا مقصد یہی تھاکہ اس کا دھیان جونھی میرے ھاتھوں پر مرکوز ھو گا، میں نیچے سے اس کے ٹٹٌے مسل دوں گا ۔ اور میرا وار خاصا کارگر رھا تھا ۔ شھروز کے منہ سے " اوپس" کی آواز آئی، اور وہ دوھرا ھو گیا۔ اب تو میرے پورے جسم میں گویا کسی نے بجلی سی بھر دی ھو۔ میرے ھاتھ پیر مشینی انداز سے چل رھے تھے، اور میں شھروز احمد خان، جو کہ شھر کے مشھور بزنس مین کا بیٹا تھا، اس کی حجامت کر رھا تھا ۔والی پلان کے مطابق مجھے روکنے کی کوشش کر رھی تھی، میں نے ایک آدھ تھپٌڑ عالی کو بھی رسید کر ڈالا تھا۔ عالی ایک جانب گر گئی۔ شھروز کو میں نے نیچے گرا لیا تھا۔ اس کی کوشش تھی، کہ کسی بھی طرح سے، ایک بار کھڑا ھو جائے، مگر میں اس کو یہ موقع دینے کو ھر گز تیٌا نہ تھا۔ میرے کراٹوں اور ۔ککوں کے نتیجے میں شھروز احمد جلد ھی دفاعی انداز اختیار کر گیا۔ اب وہ نیچے پڑا اٹھنے کی بجائے میری لاتوں اور گھونسوں سے بچنے کی کوشش کر رھا تھا۔ شائد اسے احساس ھو چکا تھا، کہ وہ جتنا بڑا بزنس مین سہی، اور جسامت میں مجھ سے بھی دوگنا سہی، مگر لڑائی میں وہ میرا ھمسر نہیں ھو سکتا۔ البتٌہ اب وہ ہذیان بکنے پر اتر آیا تھا۔ اس کے منہ سے انتہائی غلیظ قسم کی موٹی موٹی گالیاں نکل رھی تھیں۔ میں اس کے اوپر جھکا اسکی گالیوں کا جواب عملی صورت میں اسے لوٹا رھا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ھاتھ کہنیوں سمیت اپنے چہرے پر رکھ لیے تھے، لیکن ابتدا میں میرے ایک دو مکٌے اس کے ناک پر پڑ چکے تھے، جن کی وجہ سے اس کا سارا منہ خون سے لال ھو چکا تھا۔ بلکہ اب تو خون اس کے چہرے سے بہتا ھوا اس کی گردن کا رخ کر رھا تھا۔ عالی دوبارہ سے میرے قریب آئی۔ " چھوڑ دو کمینے، میں کہتی ھوں چھوڑ دو۔ " اس نے میرے دائیں بازو کو پکڑ کر مجھے کھینچا۔ میں نے اس کی جانب دیکھا، وہ اب مجھے واقعتاْ بس کرنے کا کہ رھی تھی۔ شائد اس نے شھروز کے منہ سے بر آمد ھونے والے خون کی ایک آدھ جھلک دیکھ لی تھی۔ میں نے ارد گرد دیکھا، ایک طرف سے دو آدمی بھاگے ھوئے آتے دکھائی دئے۔ میرا دل تو ابھی نہیں بھرا تھا، لیکن موقع محل کی مناسبت سے میرا وہاں سے کھسک جانا ھی غنیمت تھا۔ میں نے عالی کو ایک گندی گالی دی، اور ساتھ ھی شھروز کی جانب خونخوار نظروں سے گھور کر دیکھااور دھمکی دیتے ھوئے کہا، "اس وقت تو میں جا رھا ھوں ذلیل انسان، لیکن یاد رکھنا، میرے انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ھوئی۔ میں بہت جلد ھی تم دونوں سے دوبارہ ملوں گا مسٹر شھروز اینڈ عالی میڈم ۔ یاد رکھنا۔ " اس کے ساتھ ھی میں نے ایک ٹھڈا شھروز کے پیٹ پر مزید رسید کیا، اور وھاں سے ایک محفوظ گوشے کی جانب تیزی سے بڑھ گیا۔ جب میں پارک سے نکلا، تو میں اپنے آپ کو قدرے ھلکا پھلکا محسوس کر رھا تھا ۔

پارک سے نکلنے کے بعد ، میں نے سیدھا اپنے کمرے کا رخ کیا۔ یہ بات میں عالی کے ساتھ رات کو ھی طے کر چکا تھا، کہ شھروز سے ملاقات کے بعد میں وھاں سے فوری طور پر نکل جاؤں گا، ٹھروں گا نہیں۔




8
میں اس طرح سے شھروز کی کھلے عام ٹھکائی کر سکوں گا، یہ تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ھو گا، کہ میں عالی اور شھروز دونوں کو ھی اپنی پہنچ سے بالا سمجھتا تھا، کہ میں کبھی بھی ان دو کرداروں سے اپنی بے عزٌتی کا بدلہ نہیں لے پاؤں گا، اسی وجہ سے میں کالج لائف کے اس واقعے کو فراموش کر چکا تھا۔ یہ تو عالی سے اچانک ھونے والی ملاقات تھی، جس نے پہلے ماضی کے زخم ھرے کیے تھے، اور پھر بعد میں وہی ملاقات اب ان زخموں پر مرھم لگانے کا موقع فراھم کر رہی تھی۔ اب، جبکہ، میں شھروز کی اچھٌی خاصی ٹھکائی کرچکا تھا، تو میرے چہرے پر ایک مسکراھٹ آ کر ٹھہر گئی تھی۔
کمرے تک پہنچنے کے دوران میں مختلف طرح سے سوچتارہا۔کبھی سوچتا، عالی وہاں شھروز کے ساتھ اکیلی ھے، مگر پھر خیال آتا، کہ پارک میں کھلے عام شھروز کے لیے اتنا آسان نہیں ھو گا، کہ وہ عالی کے ساتھ بد تمیزی کر سکے۔ خیر، میں نے کمرے میں آ کر اپنا لباس چینج کیا۔ اب میں نے وکی کو کال کر کے بلا لیا۔ اس کی بائیک پر ھم نے ایک لمبی رائیڈ کے مزے لئے۔ وکی میرے تمام انداز نوٹ کر رھا تھا۔ وہ مجھے بچپن سے جانتا تھا، اسی لئے وہ فوری طور پر سمجھ گیا تھا، کہ میری آج کی خوشی بلا وجہ نہیں ھے۔ آخر اس نے پوچھ ھی لیا، کہ آج کے دن میرے چہرے پر ایک خاص قسم کی مسکراھٹ کھیل رہی ھے۔ آخر اس کا سبب کیا ھے ؟ ، ، ، ، ، ، ، ، ، ، کوئی اور ھوتا، تو شائد میں اس کو ھر ۔گز ھر ۔گز نہ بتاتا، کیونکہ میں ایسا ھی ھوں۔ لیکن وہ میرا بچپن کا دوست تھا۔ اسی وجہ سے میں نے اس کو شھروز سے ھونے والی ملاقات، اور اس کی دھلائی کرنے کا واقعہ مناسب الفاظ میں بتا دیا۔ عالی کا ذکر میں نے مکمٌل طور پر گول کر دیا تھا۔ عالی کے معاملے میں، شائد میں کسی کو بھی رازداں بنانے پر تیٌار نہ تھا۔
دن کے 1 بجے میں نے عالی کا نمبر ٹرائی کرنا شروع کیا۔ میرے حساب سے اب تک عالی کو شھروز سے الگ ھوجانا چاھئے تھا۔ لیکن عالی کا نمبر آف تھا۔ خیر، وکی 2 بجے چلا گیا۔ اس کے بعد میں کمرے پر آ گیا، اور میں نے مسلسل عالی کا نمبر ٹرائی کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نمبر کی لگاتار بندش سے میری جھنجھلاھٹ میں اضافہ ھوتا رھا۔ آخر میں نے تنگ آ کر موبائل کو ھی بستر پر پٹخ ڈالا۔ عالی بھی کتنی لاپرواہ ھے، اس کو اندازہ ھی نہیں کہ، اس کی وجہ سے کوئی کتنا پریشان ھے؟ میں زیر۔ لب بڑبڑایا۔ اسی دوران میرا موبائل گنگنایا۔ میں نے موبائل اٹٌھا کر دیکھا، سکرین پر عالی کا نام جگمگا رھا تھا۔ میرے اندر سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔
لیکن جب میں بولا، تو میرے لہجے میں اچھٌی خاصی ناراضگی کا عنصر شامل تھا۔
" کیا مصیبت ھے عالی ؟ اتنی دیر سے تمھارا نمبر ٹرائی کر رھا ھوں۔ کہاں مر گئی تھیں تم ؟ ’ کچھ اندازہ بھی ھے، کہ پچھلے چند گھنٹے میں نے کتنی اذیٌت میں گزارے ھیں۔ "میں نے بالکل اس انداز سے بات کی تھی، گویا وہ میری کلاس فیلو اور دوست نہ ھو، بلکہ بیوی ھو۔ عالی کا جواب چند ساعتوں بعد آیا تھا۔ شاید وہ میرے لہجے کی تلخی سے حیران ھوئی تھی۔
" کیا ھوا فیروز ؟ میرے موبائل کی بیٹری ختم ھو گئی تھی۔ اور اسی وجہ سے میرا نمبر آف تھا۔ مگر تم اتنے پریشان کیوں ھو رھے تھے ؟ اور اب ’مجھ پر بھی اچھّے خاصے چلّا رھے ھو ۔" عالی کا جواب سن کر مجھے بھی اپنے لہجے کی تلخی کا احساس ھوا۔ میں نے معذرت کی، کیونکہ مجھے اس پر اس انداز سے چلّانے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ عالی میری معذرت کے جواب میں کھلکھلا کر ھنس دی۔ میں نے اس سے گلہ کرنے کے انداز میں اس کو بتایا، کہ اس کا نمبر بند ھونے کی وجہ سے میں اچھّا خاصا پریشان رھا ھوں۔ عالی نے میری ساری بات سن کر ایک سوال کر ڈالا۔
" ویسے مذاق رھا ایک طرف فیروز۔ کیا میں پوچھ سکتی ھوں، کہ تم میرے لئے اتنے پریشان کیوں ھو رھے تھے ؟ " عالی کا انداز، اور اس کا سوال، میں گڑ بڑا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
" کیا مطلب ؟ میں تمھارے لئے اس وجہ سے پریشان تھا، کیونکہ تم اس جانور کے ساتھ تھیں۔وہ تمھارے ساتھ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ کیا تم اس حقیقت سے واقف نہیں ھو ؟ " ، ، ، ، ، ، لیکن عالی نے میرے جواب کو ردّ کر دیا۔
" نو ، نو ۔ یہ ھمارے درمیان پہلے سے طے تھا، کہ آج جب بھی فون کروں گی، میں کروں گی۔ میری کال آنے تک تم مجھ سے رابطہ نہیں کرو گے۔ اس کے باوجود بھی تم مجھے فون کرتے رہے، میرے لئے پریشان رھے۔ واٹ اٹ مینز سویٹ ھارٹ ؟ اس کا کیا مطبل ( مطلب ) ھوا جناب جی ؟ " عالی نے جان بوجھ کر لفظ " مطلب " کو غلط ادا کیا۔ جب وہ چہکنے کے موڈ میں ھوتی، تو اسی طرح سے پیش آتی۔ میں اس کے اس سوال سے واقعی گھر گیا تھا۔ آج اس کا نمبر بار بار ملاتے وقت میں یہ بات بھول بیٹھا تھا، کہ رات کو دوسری باتیں طے کرتے وقت، یہ بات بھی طے ھوئی تھی، کہ پارک میں شھروز کی ٹھکائی کرنے کے بعد، شام تک میں عالی کی کال کا انتظار کروں گا۔ پہلی کال عالی ھی کرے گی۔
" اچھّا چلو، مت بتاؤ۔ میں زیادہ اصرار نہیں کرتی۔" پھر اس نے ذرا سا وقفہ ڈال کر کہا۔ فیروز، کیا، ، ، آج رات کو آ سکتے ھو گھر پر ؟ گیارہ بجے ؟"
میں آج رات دوبارہ ملنے کا سن کر جھوم اٹھّا۔ عالی کے بدن کے تمام نظّارے میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ میں نے ایک لمحہ ضائع کئےبغیر "ھاں " کر دی۔ عالی ھنس دی۔ اور بولی۔
" میں تمھارا شدّت سے انتظار کروں گی۔ ۔ ۔اور اس سوال کا جواب بھی سوچ کر آنا، کہ تم میرے لئے کیوں پریشان تھے ۔ اور ھاں۔ ایک اور گرما گرم خبربھی ھے میرے پاس تمھارے لئے۔ سنو گے، تو جھوم جھوم اٹھّو گے بچّو جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویسے، تمھارا اپنے لئے پریشان ھونے کا سن کر مجھے بہت اچھّا لگا۔ " اس فقرے کے ساتھ ھی اس نے
کال ڈراپ کر دی۔ اس کی ھنسی کا جلترنگ ابھی بھی میرے کانوں میں رس گھول رھا تھا۔
لیکن اس کے پاس میرے لئے مزید کیا خبر ھو سکتی ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باوجود کوشش کے بھی، میں کوئی اندازہ نہ لگا سکا۔ خیر، کوئی بات نہیں، رات کے گیارہ بجنے میں بھی کتنا ٹائم رہ گیا ھے۔ جا کے پوچھ لوں گا اس سے۔ یہ سوچ کر میں مسکرا دیا۔ اب میرے بدن کے انگ انگ میں عالی کے مرمریں جسم کی طلب محسوس ھونے لگی تھی۔

رات کے گیارہ بج کر پانچ منٹ پر میں عالی کے ساتھ اس کے کمرے میں موجود تھا۔ آج عالی نے کالے رنگ کا خوب صورت لباس پہن رکھّا تھا۔ اس کی والدہ اور بہن ، نیند کی گولیوں کے زیر۔اثر، محو۔ خواب تھیں۔ میں نے آج کی رات کے لئے کوئی چیز نہیں کھائی تھی۔ میرے لئے پچھلا تجربہ خاصا سبق آموز رھا تھا۔ عالی کو چودتے وقت تو میں نے اچھّا خاصا انجوائے کیا تھا، مگر دوسرے دن صبح پورے بدن میں درد رھا تھا۔ اور اب میں نے طے کر لیا تھا، کہ کم از کم عالی پر تو اس گولی کا تجربہ نہیں کروں گا۔ ھاں، اگر کسی ایسی لڑکی کو چودنا درپیش ھوا، جس سے میں نے بدلہ لینا ھو، تب وہ چیز کھائی جا سکتی ھے۔
"تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا تھا فیروز ۔" عالی نے کمرے میں پہنچتے ھی وہ سوال دھرایاتھا ۔میں انجان بن گیا، جواب میں اس نے پھر پوچھا، کہ میں اس کے لئے سارا دن پریشان کیوں رھا۔ مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ عالی کے چہرے سے صاف لگ رھا تھا، کہ وہ اس سوال کے نتیجے میں، پیدا ھونے والی میری کیفیّت سے لطف اندوز ھو رھی ھے۔ میں بھی سوچ میں پڑ گیا، کہ آخر کیا ھوا ھے۔ کہیں مجھ کو عالی سے محبّت تو ؟؟؟؟؟ نہیں، نہیں، مجھے عالی سے محبّت کیسے ھو سکتی ھے؟؟؟؟؟ میں نے خود ھی اس خیال کو ردّ کر دیا۔ عالی نے بھی اب خاموشی اختیار کر لی تھی۔ شائد وہ جان چکی تھی، کہ میں نہ چاھتے ھوئے بھی ، اب اپنے آپ سے اس کےپوچھے گئے سوال کا جواب مانگنے میں مصروف تھا۔ عالی نے جب دیکھا، کہ اس سوال کی وجہ سے میرے چہرے پر الجھن نظر آ رہی ھے، تو اس نے میرا ھاتھ پکڑ لیا، اور بولی، "کیا سوچ رہے ھو، میں تو مذاق کر رھی تھی۔ " میں نے عالی کو بازو سے پکڑ کر کھینچا، وہ بھی خود سپردگی کے سے انداز میں مجھ سے لپٹ گئی۔ شائد وہ بھی اب میری بے حد طلب محسوس کرنے لگی تھی، تبھی تو اس نے آج خود مجھے بلا لیا تھا۔ جسم کی طلب واقعی بہت ظالم چیز ھے۔ یہ صرف مرد کو ھی محسوس نہیں ھوتی، بلکہ عورت بھی اس طلب کے آگے مجبور وبے بس ھوتی ھے۔ اور عالی آج اپنے عمل سے ظاھر بھی کر رھی تھی، آج کی رات اسے ، مجھ سے بھی زیادہ پیاس محسوس ھو رہی ھے۔ میں جہاں اس کے کپڑے اتارتے وقت اس کے بدن کی گرمی سے محظوظ ھو رھا تھا، وہیں اس کے والہانہ انداز، وارفتگی، اور شدّت۔ جذبات سے نکلنے والی آھیں، مجھے پاگل کر رھی تھیں۔ میرا بس نہیں چل رھا تھا، کہ اس کو لٹا کر ایک دم سے اس کی پھدی میں اپنا لن ڈال دوں۔ لیکن ھر کام کا ایک وقت ھوتا ھے۔ اور ابھی ابتدا کا وقت تھا، انتہا تو خود بخود آ جانا تھی۔ چنانچہ میں نے اس کو بے لباس کرنے کے بعد، اپنے آپ کو بھی کپڑاں سے آزاد کر دیا۔ ھم دونوں ایک دوسرے کی باھوں میں، ننگے کھڑے تھے۔ عالی کا سر جھکا ھوا تھا۔ میں نے اس کا چہرہ اوپر کو کیا، اور اس کے کان میں بولا۔
عالی، میں بتا نہیں سکتا، کہ ان چند دنوں میں، مجھے کیا ھو گیا ھے۔ میں جب بھی کہیں ھوتا ھوں، صرف تمھارے ھی بارے میں سوچتا ھوں۔ " عالی میری باتوں کو سن کر مسکرائی، میں نے اپنی بات جاری رکھّی، " جانتی ھو، میں صرف تمھارے جسم کے لئے ھی تمھارے پاس نہیں آتا، اب تو ایسا محسوس ھونے لگا ھے، کہ تم کو دیکھے بنا میرا دن بے حد اداس گزرتا ھے، تم پوچھ رھیں تھیں ناں، کہ میں کیوں پریشان رھا، تو میں نے اس سوال کا جواب سمجھ لیا ھے عالی۔ مجھے ، ، ، تم سے محبّت ھو گئی ھے عالی۔ ۔ ھاں عالی، آئی لو یو۔ آئی ریئلی لو یو۔"میں وارفتگی کے سے عالم میں بول رھا تھا۔ میری اس کے جسم پر گرفت مزید مظبوط ھو گئی تھی۔ عالی نے بھی خود کو میرے اور قریب کر لیا تھا، اس کی گول مٹول چھاتیاں میرے سینے کے زیریں حصّے سے ٹکرا رھی تھیں۔ میرا لن اچھّی خاصی پوزیشن پکڑ چکا تھا اور عالی کی ناف سے ٹکرا رھا تھا۔ عالی سے جب رھا نہ گیا، تو مجھے مخاطب کر کے بولی۔ " کیا آج کی رات باتیں ھی کرنے کا ارادہ ھے؟ " میں نے اس کی طرف دیکھا، اس نے جواب میں میرے لن کی طرف اشارہ کر دیا۔ " اس کا کچھ کرنا ھے یا نہیں ؟ " اس کے اس فقرے سے میں ھنس دیا۔ عالی نے بھی ایک مسکراھٹ اچھالی، اور میرا لن پکڑ لیا۔ اف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کیا لمس تھا اس کے ھاتھ کا۔ آج پہلی بار اس نے میرا لن اپنے ھاتھ میں پکڑا تھا۔ میں نے اس کے ھاتھ کے لمس کو اپنے لن پر پوری طرح سے محسوس کیا۔ عالی نے میری طرف دیکھا، اور مسکرا کر بیڈ کی جانب کھسکی۔ اب بیڈ کی کارروائی کا وقت آ گیا تھا۔ عالی ے میرا لن پکڑے رکھّا، اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔ میں بھی اس کے ساتھ ھی بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے دوسرا ھاتھ میرے سینے پر رکھ کر مجھے ھلکا سا پیچھے کو دھکیلا، میں مسکراتے ھوئے بیڈ پر لیٹ گیا۔ عالی نے میرے لن کو اپنی انگلیوں سے ھلکا سا سہلایا، اور بیڈ پر چڑھ گئی۔ اس نے اپنی داھنی ٹانگ میرے جسم کی بائیں جانب رکھّی، اور بائیں والی ٹانگ میرے دائیں جانب رکھّی، اکڑوں بیٹھ کر، اس نے میرے لن کو اپنی پھدی پر ایڈجسٹ کیا، اور آھستہ آھستہ نیچے ھونا شروع ھو گئی۔ میرا لن جیسے جیسے اس کی پھدّی میں جا رھا تھا، ویسے ویسے اس کے چہرے پر مزہ بڑھتا ھوا محسوس ھو رھا تھا۔ آخر پورا لن اس نے اپنی پھدّی میں گم کر لیا۔ اس کی آنکھیں جو کہ مزے سے بند تھیں، اس نے ایک بار کھولیں، اور میری جانب دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خمار صاف نظر آ رھا تھا۔ میری اپنی کیفیّت بھی ایسی ھی تھی۔ اس نے مجھ سے آھستگی سے پوچھا، " کیسا لگا جان۔ من ؟" اور مین نے جواب میں اس کے ممّے پکڑ لئے۔ اسس کے ساتھ ھی میں نے اپنے نچلے ھونٹ کو اپنے اوپٌر والے دانتوں سے دبایا۔ یہ میری طرف سے اپنی سرشاری کا اظہار تھا۔ عالی نے اپنے دونوںھاتھ ، جو کہ اب آزاد تھے، میرے سینے پر ٹکا دئے۔ اس کے ساتھ ھی اس نے کہا، " آج میں نے سوچ رکھّا تھا، کہ جو بھی کروں گی، میں ھی کروں گی۔ تم بس نیچے لیٹ کر مزے لینا۔ "
میں نے اس کی بات کے جواب میں کہا، " لیکن عالی، اتنی جلدی؟ "
اس نے میری بات کاٹ دی، اور اپنی دائیں ھاتھ والی انگلی اپنے ھونٹوں پر رکھ کر بولی۔ "ششششش۔ "
اس کی لمبی شش نے مجھے چپ کروا دیا۔ شائد آج وہ اسی طرح سے اپنی پیاس بجھانا چاھتی تھی۔ اب میں نے اس کے ممّوں کو نرمی سے کھینچنا شروع کر دیا۔ اس کے منہ سے مزے کی سسکاریاں نکل رھیں تھیں۔ اس کی آنکھیں کبھی بند ھوتی تھیں، اور کبھی وہ اپنی آنکھیں کھول کر ایک نظر مجھے دیکھتی ، اور ھنستے ھوئے دوبارہ اپنی آنکھیں بند کر لیتی۔ اس کی اچھل کود جاری تھی۔ اور اس کی سپیڈ آھستۃ آھستہ بڑھ رھی تھی۔ میں نے ایک ھاتھ اس کے ممّوں پر پھیرنا جاری رکھّا، اور دوسرے ھاتھ کو ممّوں سے ھٹا کر اس کی گوری گوری رانوں پر لے آیا۔ اس کی رانیں بے حد کوب صورت تھیں۔ اور کسی کو تو مزہ آئے،نہ آئے، مگر مجھے اس طرھ کی رانیں دیکھ کر بے حد مزہ آتا تھا۔ میں نے کئی رانیں اسی طرح چوسی بھی تھیں۔ آج بھئ میرا دل عالی کی رانیں چوسنے کو کر رھا تھا، مگر عالی نے موقع ھی نہیں دیا تھا۔ میرا ھاتھ عالی کی رانوں پر پڑا ھی تھا، کو عالی نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا۔ وہ ایک ملحے کے لئے رک گئی تھی۔
‘کیا ھوا عالی ؟ " میں نے سوال کیا۔ جواب میں اس نے میرا ھاتھ پکڑ کر اپنی ران سے ھٹانا چاھا، میں نے انکار میں سر ھلاتے ھوئے اس کا ھاتھ واپس اپنے سینے پر ٹکا لیا۔ عالی بولی۔ " نہ کرو ناں یار۔ گدگدی ھوتی ھے اس طرح سے بہت۔ "
میں نے نیچے سے ایک جھٹکا لگاتے ھوئے کہا۔ " تو ھونے دو ناں گدگدی۔ یہ جو کام ھم کر رھے ھیں، یہ بھی تو جسم میں ھونے والی گدگدی کا ھی نتیجہ ھے۔ یہ بھی تو گدگدی ھی ھے۔ یہ بھی گدگدی، وہ بھی گدگدی۔ تو پھر اس گدگدی کو تو انجوائے کر رھی ھو، یہ رانوں والی گدگدی سے منع کرنے کا مطلب ؟ " میری اس وضاحت سے تو پتہ نہیں وہ مطمئن ھوئی یا نہیں، مگر میرے جھٹکے نے اس کے منہ سے سسکاری نکال دی۔ اب تک اس نے انتہائی آھستہ جھٹکے لگائے تھے۔ اور میرا ایک ھی جھٹکا ان سب پر بھاری ثابت ھوا تھا۔ عالی نے اب پھر سے جھٹکے لگانا شروع کر دئے۔ میں نے بھی اس کو ممّوں اور رانوں سے چھیڑنا جاری رکھّا۔ کچھ دیر ھی عالی برداشت کر سکی، اور ڈھے سی گئی۔
" نہیں فیروز۔ مجھ سے مزید نہیں ھوتا۔ تم پلیز ، ، ، " "
میں سمجھ گیا۔ اس کو اپنے اوپر سے ھٹا کر میں نے نیچے لٹا دیا۔ اب میں نے اس کی ایک ٹانگ اٹھائی، اور اپنے کندھے پر رکھ لی۔ اس عمل کے لئے مجھے اس کے جسم کو تھوڑا سا موڑنا پڑا، مگر اس کے بعد جب میں نے اپنا شیر( لن)اس کی پھدّی میں ایک شدید جھٹکے سے اتارا، تو اس کی چیخ نما سسکی نکل گئی۔ میں نے نیچے کو ھو کر اس کے منہ پر اپنا منہ رکھ دیا۔ کچ کسّنگ کرنے کے بعد، میں نے دوبارہ سے کام شروع کر دیا۔ میرے جھٹکے آھستہ تھے۔ میں جانتا تھا، کہ عالی نے لن ایک دم سے پھدّی میں ڈالا ھے، سو اس کے جھڑنے میں کچھ وقت لگ سکتا ھے، لیکن میرے ھاتھ نے اس کو اچھّا خاصا گرم کر دیا تھا۔ وہ اب نیچے سے بھی ھل رہی تھی۔ مجھے اس کا نیچے سے ھلنا ڈبل مزہ دے رہا تھا۔ اس کی پھدّی سے میرے لن کی ٹکّر، اور رگڑ سے میرے مورے وجود میں کرنٹ دوڑ رھا تھا۔ دس منٹ اسی انداز میں، ھلکے ھلکے جھٹکے لگانے کے بعد، میں نے اس کو گھوڑی بنا لیا۔ اب میں نے اس کو گھوڑی بنا کر چودنا چروع کیا۔ یہ میرا سب سے پسندیدہ سٹائل ھے۔ میں بیڈ سے نیچے کھڑا ھوا تھا۔ عالی بیڈ پر گھوڑی بنی ھوئی تھی۔ اس انداز کے ساتھ، میں نے عالی کو خوب جم کر چودا،ساتھ ھی اس کی رانوں پر دوبارہ سے ھاتھ پھیرنے لگا۔ کچھ دیر بعد، میں نے دوبارہ سے اس کے ممّے پکڑ لئے۔ الغرض، عالی کو میں نے اتنا مجبور کر دیا، کہ وہ گھوڑی بننے کے دو تین منٹ بعد ھی جھڑ گئی۔ جب وہ جھڑنے کے قریب آتی تھی، تو خوب آوازیں نکالتی۔ اس کی آوازیں میرے لطف کو دوبالا کر دیتیں۔ اس کے جھڑنے کے بعد، میں نے اپنی سپیڈ ھلکی کر دی۔ اب میں نے اس کے ممّے چھوڑ دئے۔ اس کے چوتڑوں پر ھاتھ پھیرنا بھیہ بہت مزہ دیتا تھا۔ میرے دونوں ھاتھ اس کے چوتڑوں پر حرکت کر رہے تھے۔ عالی کا سر آگے کو جھکا ھوا تھا۔ میں نے آھستہ آھستہ اسی طرح سے چدائی کی، اور پھر جب میں نے دیکھا، کہ عالی دوبارہ سے گرم ھونا شروع ھو رھی ھے، تو میں نے اس کو سیدھا لٹا دیا۔ اب میں نے اس کی ٹانگیں اپنے کاندھوں پر رکھ لیں، اور سٹارٹ ھو گیا۔ ھلکے ھلکے دھکّے لگاتے ھوئے، میں ایک ھاتھ سے اس کے ممّوں کو نرمی سے مسل رہا تھا ۔ عالی بھی اب مست ھو رہی تھی۔ آخر وہ فل ترنگ میں آ گئی۔ میں نے جب پوچھا، کہ کتنی دیر میں وہ آئے گی، تو اس نے آوازیں نکالنے کے دوران ہی کہا، کہ وہ آنے والی ھے۔ میں نے بھی سپیڈ تیز کر دی۔ عالی اور میں ایک ساتھ ھی فارغ ھوئے۔ میں پسینے سے شرابور ھو چکا تھا۔ میں نے کچھ دیر اسی حالت میں اپنے آپ کو رکھّا، اور جب میرے اندر سے ساراپانی اس کی پھدّی میں منتقل ھو چکا، تو میں اٹھ گیا۔ واش روم سے باھر آ کر میں اس کے ساتھ ھی لیٹ گیا۔
کچھ دیر بعد، عالی بھی اٹھّی۔ اور واش روم سے ھو کر آ گئی۔ اس نے اپنے کپڑے اٹھانا چاھے، تو میں نے اس کا ھاتھ پکڑ لیا۔ اس نے مجھے دیکھا، تو میں نے اس کو اپنی جانب کھینچ لیا۔
عالی بیڈ پر لیٹتے ھوئے میرے ساتھ چمٹ کر لیٹ گئی۔ اور میرے ننگے سینے پر ھاتھ پھیرتے ھوئے بولی۔ " فیروز، آج میں بہت خوش ھوں۔ آج کے دن، میں نے اپنے اوپر تمھارا ایک اور قرض اتار دیا ھے۔ میری بہت شدید خواھش تھی، کہ میں شھروز کو کسی بھی طرح تمھارے ھاتھوں سے پٹتا ھوا دیکھوں۔ اور اس کی پٹائی کی وجہ بھی میں خود ھی بنوں۔ ۔ ۔ اور دیکھ لو، کہ آج میری یہ خواھش پوری ھو گئی ھے۔ آج کا دن میرے لئے عید سے کم نہیں ھے فیروز۔ " عالی نے بولتے ھوئے میرے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔ میں اس کے بالوں میں ھاتھ پھیر رھا تھا۔ ھم دونوں ھی بے فکری سے لیٹے ھوئے تھے۔ عالی کے جسم سے اٹھنے والی خوشبو میرے ضبط کا امتحان لے رھی تھی۔ میں نے اس کی کمر پر اپنا دوسرا ھاتھ رکھا، اور بولا،
" لیکن میرا اس سے حساب ابھی پورا نہیں ھوا عالی ۔ اس نے جو زخم مجھے لگائے ھیں، یہ آج کی پٹائی تو ان کا مداوا نہییں ھو سکتی۔ ابھی تو شھروز سے مکمّل انتقام لینا باقی ھے۔ " میں نے محسوس کیا، کہ آخری فقرے بولتے بولتے میرا لہجہ انتہائی زھریلا ھو گیا تھا۔ عالی نے سر اتھایا، اور میرے چہرے کا بوسہ لیتے ھوئے بولی۔
" جانتی ھوں۔ اور اسی لئے آج شام کو میں فون پر تم سے کہ رہی تھی، کہ میرے پاس تمھارے لیے، ایک گرما گرم خبر ھے، جو تم کو بے حد خوشی دے گی۔

‘ میں نے جب اس سے پوچھا، کہ اس کے پاس ایسی کون سی خبر ھے، جو اتنی خاص ھے میرے لئے، تو اس نے کہا۔
‘" آج تمھارے ھاتھوں میرے سامنے مار کھانے کے بعد ، شھروز کی جو حالت ھوئی ھے، وہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ اور اسی وجہ سے اس نے پہلے تو بہت شو بنائی، کہ مجھ پر اچانک حملہ کر کے بہادر بن گیا وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ کہ فیروزی اگرآج کے بعد میرے سامنے آیا، تو میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ اور بھی بہت کچھ اس نے کہا، ھے، مگر اصل بات یہ ھے، کہ، ، ، ، اس نے کل رات کو مجھے اپنے ساتھ پوری رات کے لئے انوائٹ کیا ھے۔ "
میں سکتے میں آ گیا۔ یہ عالی کیا کہ رہی تھی۔ عالی نے مجھے دیکھا، تو ھنستے ھوئے بولی۔
" اوکم آن فیروز، میں اس کے ساتھ سو تھوڑا گئی ھوں، جو تم اس طرح سے ایک دم
مرجھا گئےھو۔ میں نے تو یہ حامی بھی صرف اس لئے بھری ھے، تا کہ اس طرح تم اس سے دوبارہ مل سکو۔ اور اس دفعہ تم اس سے اچھّی طرح
سے مل سکو گے۔ " عالی اپنی ھی دھن میں بول رہی تھی، مگر میں سوچ رہا تھا، کہ عالی یہ کیا کہ رہی ھے، کیا کر رہی ھے۔
" میں سمجھا نہیں ، تم کیا کہ رہی ھو؟ آخر تم دونوں کی ڈیٹ کے دوران ، میں اس سے کس طرح مل سکتا ھوں؟ "میں نے سوال کیا۔ جواب میں عالی نے جو مجھے بتایا، اسے سن کر میں بھی عش عش کر اٹھّا۔ واقعی عالی نے کمال مہارت سے شھروز کو پھانسا تھا۔ اس طرح سے تو میں واقعتاْ اس کو تسلّی سے دھو سکتا تھا۔
شھروز ، عالی کے ساتھ سونے عالی کے گھر پر ھی آ رھا تھا۔
عالی نے اس کو آج رات کے لئے اپنے ھی گھر میں بلا لیا تھا۔ شھروز نے ھوٹل کے لئے اصرار کیا تھا، مگر عالی نے یہ کہ کر ھوٹل میں کمرہ بک کرنے سے روک دیا تھا، کہ کہیں کوئی اس کو وہاں دیکھ نہ لے۔ اور پھر ھوٹلوں میں، ویڈیو فلم بننے کا اندیشہ بھی تھا۔ اس سے شھروز متّفق ھو گیا تھا۔ اس نے عالی سے کہ دیا تھا، کہ وہ پوری رات شھروز کے نام ھو گی۔ اور عالی نے گرین سگنل دے دیا تھا۔
پلان یہ تھا، کہ شھروز کے آنے سے پہلے، میں عالی کے کمرے میں پہلے سے ھی چھپا ھوتا۔
میں اب عالی کے پلان سے متاٴثّر نظر آ رہا تھا۔ شھروز سے اس دفعہ کا سامنا واقعی میں، میرے لئے بھی، اور اس کے لئے بھی، یعنی ھم دونوں کے لئے ھی انتہائی یادگار بننے والا تھا۔


9
اب مجھے آنے والی رات کے اس لمحے
کا شدّت سے انتظار محسوس ھونے لگا تھا جب، شھروز اور میں ایک بار پھر سے آمنے سامنے ھوتے۔ اور میری یہ خواھش بہت جلد پوری ھونے والی تھی۔

میں انھی خیالات میں گم تھا، کہ عالی نے مجھے جھنجھوڑتے ھوئے، اپنی طرف متوجّہ کیا۔
" اے سر، کیا ھوا؟ کہاں کھو گئے ؟ "
میں نے چونک کر اس کو دیکھا، اور اس کے چہرے پر نظریں جماتے ھوئے اس سے کہا۔ کچھ نہیں عالی۔ بس میں شھروز کے بارے میں سوچ رھا ھوں۔
او کم آن فیروز۔ اس وقت اس کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ مت سوچو، کہ اس سے تم کل اسی کمرے میں ملنے والے ھو۔ اور جب ملاقات کل ھو گی، تو اپنے آپ کو ابھی سے کیوں اتنا "hyper کر رھے ھو۔ کل کی کل دیکھیں گے ناں۔ ابھی تو پلیز آ جاؤناں ابھی تو مزہ آنا شروع ھوا ھے زندگی کا۔ " عالی مستی میں مجھے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ میں نے بھی اس کے رومانٹک انداز کا مثبت جواب دیا، اور اپنے دماغ سے سب خیالات جھٹکتے ھوئے اس کے ساتھ ھی لیٹ گیا۔میرا ایک ھاتھ اس کے سر کی پچھلی جانب آ گیا تھا۔ اس طر|ح سے وہ میرے ھاتھ کے تکئے پر لیٹی تھی۔ اس کی آنکھیں میری آنکھوں میں ھی ٹکی ھوئی تھیں۔ میں بھی اسی کو گھور رھا تھا، مگر انتہائی پیار سے۔
" کہاں کھو جاتے ھو فیروز؟ تمھارے ساتھ اتنی جوان ، خوب صورت، اور تمھاری چاھنے والی لڑکی اپنے ننگے جسم کی سوغات لئے لیٹی ھے، اور تم کہیں اور کھوئے ھوئے ھو سویٹ ھارٹ۔ that's not fair my dear. "۔
میں نے اس کی بات کے جواب میں مسکراتے ھوئے اس کے ھونٹ پر اپنی انگلی پھیری، اور بولا۔
" کہیں بھی نہیں ھوں میری جان۔ کم از کم آج کی رات تو یہیں ھوں۔ تمھارے پاس۔تمھارے بستر میں۔" ۔ ۔ ۔ ۔ پھر میں نے ایک ذراسا وقفہ کر کے سلسلہٴ تکلّم جوڑا۔
" اور ایک بات بتا دوں تم کو۔ آج کی رات سنگل شفٹ سے گزارہ نہیں ھو گا عالی۔ آج تو میں اوور ٹائم بھی لگاؤں گا۔‘
یہ بات کھتے ھوئے میں نے اس کی چھاتی کے داھنے ممّے کو پکڑ لیا تھا۔ اس نے ھلکی سی سسکاری لی، اور میرے ساتھ اور بھی چمٹ گئی،۔ میں نے اس کی خاموشی کا اشارہ سمجھ لیا تھا۔ اب ھم دوبارہ سیکس کے لئے ذھنی طور پر تیّار تھے۔
عالی کے ساتھ سیکس کی دوسری شفٹ اور بھی زیادہ لطف انگیز ثابت ھوئی۔ میں نے اس کو نیچے لٹا کر اس کو چودنا چاھا، مگر اس نے مجھے اپنی بات یاد کروائی، کہ آج کی رات سٹارٹ میں وھی سیکس کروائے گی۔ میں نیچے لیٹوں گا۔ اس طرح اس نے مجھے بہت زیادہ لطف دیا۔ عالی نے جب میرا cock اپنے ھاتھ میں پکڑا، تو میں مزے کی کسی اور ھی دنیا میں پہنچ گیا، عالی نے، جو خود بھی مزے کی انتہاؤں پر تھی، میری جانب مخمور نگاہوں سے دیکھا، وہ میرے لن پر اکڑوں بیٹھی تھی، اور ابھی اس نے لن کو اندر نہیں لیا تھا۔ میں نیچے پڑا مزے سے بے حال ھو رھا تھا۔ عالی بھی کراہ رھی تھی۔ اس نے نیچے سے میرے لن کو اپنی پھدی پر سیٹ کر کے چند بار اس کے لبوں پر رگڑا۔ اس سے جہاں میرے منہ سے مزے کی بلند آہ نکلی، وہیں عالی بھی سسک اٹھی۔ اب مجھ سے رھا نہ گیا، اور میں بول اٹھّا۔
" پلیز عالی، کیا کر رھی ھو۔ اب اندر بھی جانے دو ناں۔"
جواب میں عالی مسکرائی۔ شائد وہ مجھے بھی تڑپا رھی تھی، اور خود بھی اس کیفیّت سے تڑپ رھی تھی۔ لیکن اس کے چہرے سے اندازہ ھہ رھا تھا، کہ وہ ابھی مزید کچھ ساعتیں اسی پوزیشن میں رھنا چاھتی ھے۔ وہ میرے لن کو اپنی پھدی کے لبوں پر آگے پیچھے کو رگڑ رھی تھی۔ اس کے جسم کا انگ انگ میرے سامنے واضح تھا۔ اس کی پھدی کا سوراخ میرے سامنے تھا۔ اس مست نظّار ے نے جلتی پر تیل کا کام کیا، اور میں نے اچانک ایک فیصلے پر پھنچتے ھوئے، نیچے سے دھکّا لگا دیا۔ عالی تڑپ اٹھّی، مگر میں اب قدرے پر سکون ھو چکا تھا۔ اب بیڑا دریا میں دھکیلا جا چکا تھا۔ اور اس کو پار بھی لگانا ضروری تھا۔ سو عالی نے کچھ دیر تو وہیں توقّف کیا، پھر اس نے جمپنگ شروع کر دی۔ عالی نے بتدریج جمپ لگائے۔ پہلے سلو موشن میں، پھر قدرے تیز، اور پھر اس کی سپیڈ بڑھتی گئی۔ ساتھ ساتھ اس کی مختلف آوازیں بھی نکل رھی تھیں۔ یہ آوازیں اس کے اندر کی کیفیّت کا پتہ دیتی تھیں۔ ھم دونوں ھی مزے کی بلندیوں میں محو۔ پرواز تھے۔ عالی نے فل سپیڈ پکڑ لی تھی۔ میں سمجھ گیا، کہ اس کی منزل قریب ھے۔ میں نے اس کو من مرضی کرنے دی، کہ کہیں اس کا مزہ خراب نہ ھو جائے۔ آخر عالی ایک تیز چیخ کے ساتھ جھڑ گئی۔
سیکنڈ شفٹ کی وجہ سے اب میری ٹائمنگ میں اضافہ ھو چکا تھا۔ مگر اب عالی تھک گئی تھی۔ ، سو اس نے مجھے اوپر آنے کا کہا۔ میں نے اوپر آ کر کچھ منٹ جم کر اس کی جان دارچدائی کی۔ رفتہ رفتہ وہ پھر ترنگ میں آ گئی، اور اس نے بھی میرے جھٹکوں سے دوبارہ مزہ کشید کرنا شروع کر دیا۔ میرے جاندار سٹروک عالی کی آھوں میں اضافہ کر رھے تھے۔ میرا لن اس کی پھدی کی گہرائیوں میں رواں دواں تھا۔ اب وہ بہت ھی بلند آھنگ میں کراہ رھی تھی۔ مجھے بھی اس کی آھیں پاگل کئے دے رھی تھیں۔ اب میرے انزال کا وقت بھی قریب آ رھا تھا۔
آخر ھم دونوں ھی ساتھ ساتھ فارغ ھو گئے۔ اس بار کی چدائی انتہائی مزیدار رھی تھی۔ اب میں تھکاوٹ بھی محسوس کر رھا تھا۔ عالی بھی اب ’پر باش نظر آ رھی تھی۔ میں نے اس بار بھی اپنے لن کا سارا پانی عالی کی پھدّی میں ھی نکالا ۔
( میرا اصول ھے، کہ اگر سیکس کرو، تو پھر اپنا پانی بھی لڑکی کی پھدّی میں ھی نکالو۔ بعد میں اس کو خطرے سے بچانے اور نکالنے کے لئے ایک سو ایک طریقے ھیں۔ لیکن آخری لمحوں میں لن پھدّی سے باھر نکال لینے سے، کم از کم میرا مزہ تو خراب ھو جاتا ھے۔)
چدائی کے دو ادوار کے بعد، ھم نے کچھ وقت تو آرام کر کے گزارا۔ اس کے بعد، عالی نے مجھے شھروز کی حالت کے بارے میں بتایا۔ شھروز عالی کے سامنے مجھ سے پٹنے کے بعد، بھت زیادہ تڑپا تھا۔ اس کے نام اور منہ سے خون بھی نکلا تھا۔ عالی اس کو کسی طرح سمجھا بجھا کے ھاسپٹل لے گئی۔ وھاں بھی اس نے مجھے بہت مغلّظات بکیں۔ عالی اس سے بظاھر ھمدردی جتاتی رھی، مگر اندر ھی اندر وہ بہت سکون محسوس کر رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں عالی کے منہ سے شھروز کی مرھم پٹّی کی تمام تفصیل توجّہ سے سنتا رھا۔ عالی اس کی حالت کو بیان کر کے ھنس رھی تھی، اور میں اس کے انداز اور ننگے بدن کے بدلتے زاویوں سے پیدا ھونے والے دلکش نظّاروں کو دیکھ دیکھ کے محظوظ ھوتا رھا۔ساتھ ساتھ میرے ھاتھوں کی گستاخیاں بھی جاری رہیں جن سے عالی بھی محظوظ ھوتی رہی۔
جب عالی نے تمام کہانی بیان کر لی، تو میں نے عالی کے ساتھ تفصیل سے کل کے لئے ایک پلان ترتیب دیا۔ جب ھم دونوں نے تمام نکات طے کر لئے، تو میں نے وقت دیکھا۔ آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی۔ میں نے عالی سے اجازت لی، عالی چاھتی تھی، کہ میں مزید کچھ دیر وھاں رکوں۔ ھو سکتا ھے، کہ اس کے جذبات پھر سے سر اٹھا رھے ھوں، مگر میں نے اب یہ کام کل کے لئے چھوڑتے ھوئے اس کی فرنچ کسّ لینے کے بعد، کپڑے پہنے، اور اس کو خدا حافظ کہا۔ اس کے بعد میں اس کے گھر سے نکل آیا۔ رات کے اس وقت گلی میں کوئی بھی نہیں تھا، سو مجھے وھاں سے آنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آئی۔
اگلے دن بھی میں کسل مندی سے اٹّھا۔ جسم کا انگ انگ رات کی مصروفیّت سے سر شار تھا۔ میرے چہرے پر ایک شریر قسم کی مسکراھٹ کھیل رھی تھی۔ میرے کمرے کے ساتھی بھی آج کل میری اس تبدیلی سے بہت زیادہ خوش تھے۔ میں آج کل ھر ایک سے ھنس کھیل رھا تھا۔۔ ۔ میں نے موبائل پر وقت دیکھا۔ دوپہر ھو چکی تھی۔
میں نے آج آفس سے چھٹّی کر لی تھی، بلکہ لیٹ اتٹھنے کی وجہ سے چھٹّی ھو گئی تھی۔ میں نے وکی کو کال کر کے ھوٹل پر بلا لیا۔ آج کی کاروائی کے لئے وکی کی مدد لازمی درکار تھی۔ اور اس کے لئے اس کو عالی اور اپنے تعلّق کے بارے میں مکمّل طور پر بتانا بھی ضروری تھا۔ وکی ھوٹل پر پہنچا، تو میں بھی تیّار ھو کے وہاں موجود تھا۔ وکی نے جب میری زبانی اتنی لمبی تفصیل سنی، تو وہ ھکّا بکّا رہ گیا۔ میں نے اس کو آج کے لئے چند جروری چیزیں ارینج کرنے کے لئے کہا، مگر وہ تو مجھ سے ناراض ھوا بیٹھا تھا۔ در اصل ھم ایک دوسرے سے تقریباْ ھر بات ھی شئر کرتے تھے۔ اور وہ مجھ سے اس بات پر ناراض تھا، کہ میں نے عالی کے بارے میں اتنے دن سے اس کو کچھ کیوں نہیں بتایا۔ بڑی مشکل سے میں نے اس کو منایا، کہ اچانک ھی عالی سے ملاقات ھوئی تھی، اور میں اس کو ایک آدھ دن میں بتانے ھی والا تھا۔
جب اس کا غصّہ ٹھندا ھوا، تو اس نے کئی سوالات کئے۔ اس کے خیال میں ، عالی مجھ سے دوبارہ بھی کوئی ڈرامہ کروا سکتی تھی، لیکن جب میں نے اس کو یہ بھی بتا دیا، کہ میں عالی کے بستر تک بھی پھنچ چکا ھوں، تو اس نے کچھ تردّد کے بعد حامی بھر لی۔ اب شھروز کے لئے انتہائی خوفناک منصوبہ بن چکا تھا، اور آج کی رات شھروز کے لئے بہت ھی ناقابل۔ فراموش ثابت ھونے والی تھی۔
دن کو میں نے کچھ چیزوں کا انتظام کر لیا تھا۔ وکی نے بھی میری مدد کی تھی۔ اب مجھے رات کا انتظار تھا۔ عالی نے میسج کر کے مجھے بتا دیا تھا، کہ وہ اپنے گھر والوں کو رات کے نو بجے تک سلا دے گی۔ شھروز نے رات کے گیارہ بجے آنا تھا۔ میں عالی کے گھر میں دس بجے سے پندرہ منٹ پہلے پہنچ گیا۔ وکی کو میں نے احتیاطی طور پر باھر ایک ھوٹل پر بٹھا دیا تھا۔ کسی بھی گڑ بڑ کی صورت میں وکی ایک میسج کے جواب میں وہاں سے عالی کے گھر کے گیٹ پر پہنچ جاتا۔ عالی کا گھر میں نے اس کو دکھا دیا تھا۔
عالی آج بھی اچھّی طرح سے سجی ھوئی تھی۔رات کے گیارہ بجنے سے پندرہ منٹ قبل ھی عالی کے موبائل پر شھروز کی میسج آ گیا۔ عالی نے مجھے بتایا، اور اس کو میسج کر کے لائن کلئر کا کہ دیا۔ اب شھروز نے اس کو میسج کر کے بتایا، کہ وہ اس کے گھر کے گیٹ پر موجود ھے۔ عالی سٹپٹا گئی۔ شھروز نے اس کے گھر کے عین گیٹ پر آ کر اس کو میسج کیا تھا۔ عالی کے انداز میں ایک دم سی ’عجلت نظر آنے لگی۔ مجھے اس نے اپنے کمرے سے ملحقہ ایک اور کمرے میں چھپانا چاھا،مگر میں نے اس کے واش روم کو زیادہ مناسب خیال کیا۔ اس طرف سے کارروائی زیادہ بہتر انداز سے ممکن تھی۔ شھروز جب عالی کے ساتھ کمرے میں آ جاتا، اور اپنے طور پر سیکس کی ابتدا کرتا، تو عالی نے اچانک ھیایک خاص انداز سے اپنا گلہ کھنکارنا تھا، جس کے جواب میں ، میری انٹری ھونا تھی۔ میرے پاس ایک رومال موجود تھا، جس پر میں نے وکی کی مدد سے حاصل کیا گیا بے ھوش کرنے والا مواد انڈیلا ھوا تھا۔ یہ ایک غیر مہلک قسم کی کوئی مائع چیز تھی، جس سے شھروز کم از کم آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے کے لئے بے ھوش ھو سکتا تھا۔ شھروز کو قابو کرنے کے لئے میں نے انتہائی مظبوط رسّی کا انتظام کیا تھا۔ ایک گھنٹے کا وقت شھروز کو باندھنے کا لئے بہت سے بھی کافی زیادہ تھا۔
جب میں عالی کے میں چھپ گیا، تو شھروز کے لئے عالی گیٹ کھولنے چلی گئی۔ عالی نے پلان ترتیب دیتے وقت بہت حوصلے کا اظہار کیا تھا،مگر اس کے باوجود، عالی کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ میری حالت بھی اس وقت کافی عجیب ھو رہی تھی۔ پارک میں شھروز کی پٹائی کرنا، اور بات تھی۔ مگر عالی کے گھر پر دھوکے سے بلا کر باقاعدہ اس کو باندھ کر اس کی دھلائی کرنا، انتہائی خطرناک کام تھا۔خاص طور پر عالی کے لئے اس میں بہت ھی زیادہ خطرہ تھا۔ میں اب سوچ رہا تھا، کہ کہیں ھم جذبات میں آ کر کوئی بہت ھی بھیانک قسم کا فیصلہ تو نہیں کر بیٹھے تھے ؟ ، ، ، ، ، ، ، ،
مگر اب تو سوچنے کا وقت گزر چکا تھا۔ شھروز عالی کے گھر میں داخل ھو چکا تھا۔ میں نے اس کے قدموں کی چاپ سنی۔ وہ آھستہ آھستہ عالی کے ساتھ اس کے کمرے میں داخل ھو رہا تھا۔ میں نےتمام خطرات پس پشت ڈالتے ھوئے اپنے حوصلےدوبارہ سے مجتمع کئے۔ میں نے اپنی ناک پر بھی ایک رومال باندھ رکھّا تھا کہ کہیں شھروز کو بےھوش کرنے کی بجائے خود ھی نہ انٹا غفیل ھو جاؤں۔عالی کے کمرے میں داخل ھوتے ھی اس نے عالی کو بانھوں میں بھر لیا۔ غالباْ وہ جلد سے جلد عالی کو ننگا کرنا چاھتا تھا۔ عالی بھی کافی تیز تھی۔ اس نے کمال مہارت سے اپنا آپ اس سے چھڑا لیا، اور بولی،" اتنی بھی کیا جلدی ھے شھروز صاحب، ابھی تو پوری رات پڑی ھے۔ کیا خیال ھے، ایک دو گلاس پیپسی کے نہ ھو جائیں؟
"
میرے اعصاب کے لئے اس وقت کا ایک ایک لمحہ ناقابل برداشت ھو رہا تھا۔ عالی اور شھروز کے درمیان ھونے والی باتوں میں مجھے کوئی بھی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے تو بس بڑی شدّت سے عالی کے اشارے کاانتظار تھا۔ آخر میرے صبر کا امتحان ختم ھوا، اور عالی کی مخصوص آواز سنائی دی۔ میں دبے پاؤں واش روم سے نکلا، اور جب میں نے ذرا سا آگے کو ھو کر بیڈ کی جانب دیکھا، تو میرا خون کھول اٹھّا۔ شھروز عالی کے اوپر لیٹا تھا۔ اس کی شرٹ اتری ھوئی تھی۔ وہ صرف ایک پینٹ میں تھا۔ نیچے عالی اس کے بھاری بھرکم جسم کے نیچے ایسے لیٹی تھی، گویا ایک ھاتھی کے نیچےایک لاچارو بے بس چڑیا آ گئی ھو۔ میں نے دل ھی دل میں اس کو ایک ننگی گالی دی، اور اپنا رومال والاھاتھ اس کے چھرے کی جانب لے گیا۔ بالکل آخری لمحوں میں،اس کی چھٹی حس نے غالباْ اس کوخبر دار کر دیاتھا، اسی لئے اس نے اچانک اپنا چہرہ پیچھے کو موڑا تھا ، مگر اس وقت تک بہت دیر ھو چکی تھی۔ میرا ھاتھ میں موجود رومال اس کے ناک پر رکھّا جا چکا تھا۔ جس تیزی سے اس نے چہرہ موڑا تھا، اسی تیزی سے اس کی آنکھیں بند ھونا شروع ھو گئیں۔
شھروز بے ھوش ھوا تو، عالی نے مجھے اس کے اوپر سے شھروز کو ھٹانے کے لئے اشارہ کیا۔ وہ بیچاری اس سانڈ کے نیچے دبی پڑی تھی۔ میں نے شھروز کو دھکّا دیا۔ وہ بیڈ پر دوسری طرف لڑھک گیا۔ عالی اس کے نیچے نکل آئی، پھر اس نے شھروز کے بے ھوش وجود پر ایک ھقارت بھری نظر دالی، اور اس کی طرف تھوکتے ھوئے بولی۔
" کمینہ، کہ رھا تھا، کہ آج کی رات بہت رنگین بناؤں گا۔ اب دیکھ you باسٹرڈ، ھم دونوں تیری رات کو کیسا بلیک اینڈ وائیٹ بناتے ھیں۔ " اس کے بعد اس نے مجھے دیکھا، اور ھنس دی۔ میں بھی ھولے سے ھنس رھا تھا۔
اب میں نے شھروز کو بیڈ پر سے ھٹایا، اس کام میں عالی نے بھی میری مدد کی۔میں نے اس کو ایک کرسی پر لاد کر رسّی سے باندھنا شروع کر دیا۔ میں نے اس کو ھاتھوں اور پاؤں سے اچھّی طرح سے جکڑنے کے بعد، اس کے منہ پر ٹیپ چپکا دی۔ اس کے بعد، میں نے اس کرسی کو بھی بیڈ کے ساتھ باندھ دیا۔ شھروز کی طرف سے مکمّل اطمینان کے بعد، میں نے عالی کی طرف دیکھا، وہ بھی اب مطمئن نظر آ رہی تھی۔ جب ھم دونوں نے ھر طرح سے گور کر لیا، تو میں نے گلاس اٹھایا، اور شھروز کے سامنے آ کر کھڑا ھو گیا۔ اس کے منہ پر ٹھندے پانی کے چند چھینٹوں نے ھی کام دکھادیا، اور وہ ھوش میں آنے لگا۔
شھروز کی آنکھیں کھلیں، تو اس نے فوری طور پر اٹھنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ جب اس کو اندازہ ھو گیا، کہ ایسا کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، تو اس نے اپنا آپ ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد، کچھ دیر تو وہ سچوئیشن کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ عالی اور میں اس کی پشت پر کھڑے تھے۔ میں اچانک اس کے سامنے آیا، تو وہ پھر سے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ھو گیا۔ ، پھر اس نے بولنے کی کوشش کی، مگر منہ پر لگی ٹیپ نے اس کو ایسا بھی نہیں کرنے دیا۔ آخر وہ بے بسی سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں اس کو دیکھ کر طنزیہ انداز سے مسکرا رہا تھا۔ اچانک میرا ھاتھ حرکت میں آیا۔ اس کے گال پر پڑنے والا میرا الٹا ھاتھ اس کے گال کو سرخ کر گیا تھا۔ اس کے منہ سے گھٹی گھٹی سی آواز سنائی دی۔ میں نے اس کے منہ پر دوسرا تھپّڑ رسید کرتے ھوئے کہا۔
" ھیلو شھروز احمد خان صاحب ۔۔ کیسے ھیں آپ ؟ "
شھروز اس وقت مکمّل طور پر بے بس تھا۔ اوپر سے میرے دو تھپّڑوں نے اس کو کافی کچھ سمجھا دیا تھا۔ اس نے ایک دو بار ادھر ادھر عالی کو دیکھنے کے لئے نظریں گھمائیں۔ جب عالی اس کو کمرے میں کہیں بھی نظر نہ آئی، تو وہ خوفزدہ نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں چلتے چلتے بیڈ پر آ گیا۔ بیڈ پر بیٹھنے کے بعد، میں نے اس کو دوبارہ مخاطب کیا۔
" شھروز احمد خان صاحب۔ آج کی ھماری ملاقات کافی عرصے کے بعد ، اتنے تفصیلی طریقے سے ھو گی، جس کی میں نے کئی بار خواھش کی تھی۔ " اس کے ساتھ ھی میں نے اس کے چہرے پر ایک اور تھپّڑ رسید کر دیا۔ شھروز کے چھرے پر تکلیف محسوس ھو رھی تھی۔ " کیا ھوا شھروز احمد، درد ھو رھا ھے؟ " میں نے چبھتے لہجے میں سوال کیا۔ اس کی آنکھوں سے خوف صاف جھلک رھا تھا۔ " یاد ھے، آج سےپانچ سال پہلےتم مجھے پیٹ بھی رہےتھے اور ھنس بھی رہے تھے۔ آج میں تمھیں پیٹ رہا ھوں، اور ھنس بھی رھا ھوں۔ ھاں، میں ھنس بھی رھا ھوں۔ " میں نے ذرا بلند آواز سے کہا، اس کے ساتھ ھی میں نے اس کے منہ پر اور پیٹ میں گھونسوں کی برسات کر دی۔ شھروز نے کچھ دیر تو برداشت کیا، پھر مجھے صاف پتہ چل گیا، کہ وہ رو رھا ھے۔ میں رکنا نہیں چاھتا تھا، مگر عالی نے مجھے روک لیا۔ شھروز نے اس کو دیکھا، تو اس کی آنکھوں میں قھر نظر آنے لگا۔ اسے یقیناْ اپنی ماتحت سیکرٹری سے اس طرح کے دھوکے کی امّید نہیں تھی ۔ عالی نے جواب میں اس کے چہرے پر ایک تھپّڑ مارا، اور بولی۔ " فیروز، ابھی بس کرو۔ " اس کے بعد، اس نے مجھے پیچھے کھینچ لیا۔ میں بیڈ پر بیٹھ گیا۔ مگر میرا غصّہ ابھی ٹھنڈا نہیں ھوا تھا۔ کچھ دیر بعد، میں نے دوبارہ شھروز کی دھلائی پروگرام سٹارٹ کرنا تھا۔ عالی نے مجھے پانی پلایا۔ اس کے بعد، عالی نے شھروز کو مخاطب کیا۔ " کیا دیکھ رھے ھیں سر؟ ۔ فیروز کو میں نے ھی بلایا ھے۔ اور پارک میں بھی میں نے ھی بلایا تھا۔ " عالی اس کے سامنے کھڑی بول رہی تھی۔ " اصل میں، تمھارے پاس نوکری کرنے کا مین مقصد ھی تم کو پھنسانا تھا۔ تم سے فیروزی کا بدلہ لینا تھا۔ آج سے پانچ سال پہلے تم نے فیروزی پر جو الزام لگایا تھا، میرا استعمال کیا تھا، اس بات کا بدلہ لینا تھا۔اس گھٹیا الزام سے فیروزی کی زندگی کی بربادی کا بدلہ لینا تھا۔ اپنی بے عزّتی کا بھی بدلہ لینا تھا۔" عالی بول رہی تھی، اور میرے اندر جیسے پھوار سی پڑ رھی تھی۔ آج سے پانچ سال پہلے مجھ پر الزام لگانے والے دونوں کردار میرے سامنے موجود تھے، مگر اب بازی میرے ھاتھ میں تھی۔ ایک کردار تو اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے علاوہ اس غلطی کا اچھّا خاصا کفّارہ بھی ادا کر چھا تھا ( عالی) اور دوسرا اب میرے رحم و کرم پر تھا۔ اور میں آج کی رات اس کو معاف کرنے والا نہیں تھا۔ مجھے ایک ایک لمحہ یاد آ رھا تھا۔ شھروز کا انداز، جس طرح سے اس نے کالج کے تمام لڑکوں کو میرےخلاف اکسایا تھا، مجھے خود بھی پیٹا تھااور کالج کے سب لڑکوں سے بھی پٹوایا تھا۔مگر آج یہ باتیں یاد کرنے سے میرا خون نہیں کھولا تھا۔ میرے دماغ کی نسیں پھٹنے کے قریب نہیں پہنچی تھیں۔ بلکہ اس طرح سے مجھےسکون مل رھا تھا، گویا جون جولائی کے مہینوں کی شدید گرمی کے بعد، میرے اندر برسات اتر آئی تھی۔



10
عالی نے جب شھروز کو ساری بات سنا دی، اس کے بعد، وہ میری جانب آئی،
"کیا خیال ھے فیروز، آج رات اس امیر زادے کی خاطر تو ھونی ھی ھے، کیوں نہ اس سے پہلے کچھ شغل میلہ ھو جائے؟" ، ، ، میں نے عالی کی طرف دیکھا۔ میں اس کی بات سمجھ نہیں سکا تھا۔ عالی شرارت سے مسکرا رھی تھی۔ ‘ کیا مطلب ؟" میں نے اس سے پوچھا۔ جواب میں اس نے کہا۔ " آج سے پانچ سال پہلے اس نے مجھے استعمال کرتے ھوئے، تم پر الزام لگوایا تھا، کہ فیروز نے عالی کی عزّت لوٹنے کی کوشش کی ھے۔ تو آج میں نے سوچ رکھّا ھے، کہ جو الزام اس نے لگوایا تھا، اس کو میں اس کے سامنے سچّ کر دکھاؤں۔"
میرا دماغ گھوم گیا۔ یہ عالی کیا کہ رھی تھی۔ میں واقعی سکتے میں آ گیا تھا، اور جب میں بولا تھا تو میرا لہجہ اس بات کا گواہ بھی تھا۔
" تمھارا دماغ تو نہیں چل گیا عالی؟ کیا اول فول بک رھی ھو؟"
جواب میں عالی مسکرا اٹھّی۔ ‘ میں مذاق نھیں کر رھی، اور نہ ھی میرا دماغ گھوما ھے۔ میں اس کمینے امیر زادے کو دکھانا چاھتی ھوں، کہ اس نےمیرے ذریعے جس آدمی کی پانچ سال پہلے تحقیر کروائی تھی، آج وہی فیروز میرے لئے کتنی اھمیّت رکھتا ھے۔ " عالی بول رھی تھی، مگر میری حالت ایسی تھی، کہ کاٹو تو لھو نہیں۔ یہ بات تو ھمارے پلان کا حصّہ نہیں تھی۔ یقیناْ عالی نے اپنے دماغ میں اکیلے اکیلے ھی یہ سب سوچ رکھّا تھا۔ میں نے جب دیکھا، کہ عالی سنجیدہ ھے، تو میں نے اس کو صاف انکار کر دیا۔
" دیکھو عالی۔ میں یہ سب نہیں کر سکتا۔ " میرے انکار سے عالی مایوس سی ھو گئی۔ اس نے بہت کوشش کی، کہ میں مان جاؤں، مگر میں نہیں مانا۔ میں تو عالی پر حیران تھا، کو اس نے کس طرح شھروز کے سامنے ممجھ سے چدوانے کے لئے اپنے آپ کو راضی کر لیا تھا۔ میں ایک مرد ھو کر بھی شھروز کے سامنے ننگا نہیں ھونا چاھتا تھا، اور وہ ایک لڑکی ھونے کے باوجود، نہ صرف ننگی ھونے کے لئے تیّار تھی، بلکہ وہ اپنی پھدّی میں ایک لن لینے کا بھی سوچ رھی تھی ۔ اور یہ سب وہ شھروز کے سامنے کروانا چاھتی تھی۔ میں عالی کے اس انداز پر بہت حیران تھا۔ شھروز سے انتقام میرا بھی مقصد تھا، مگر عالی تو شائد اس کو مجھ سے بھی زیادہ برے انداز سے اذیّت دینا چاھتی تھی۔۔ میں نے دل ھی دل میں فیصلہ کیا، کہ کچھ بھی ھو، میں اس طرح سے اپنے آپ کو اور عالی کو شھروز کے سامنے بے لباس نہیں کروں گا، کہ وہ ھمارے جنسی کھیل کو دیکھے۔ یہ ھماری دوستی کی بھی توہین ھوتی۔
عالی کو میں نے صاف صاف بتا دیا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ عالی کو میری بات ماننا ھی پڑی۔ آخر، میں دوبارہ شھروز کی طرف آیا۔ شھروز خان۔ آج کی رات تم بہت بری طرح سے پھنس گئے ھو۔ آج ساری رات تمھاری دھلائی ھو گی۔ اور تم کسی کو بتا بھی نہیں سکو گے، کہ تمھارے ساتھ کیا ھوا ھے۔ اگر بتاؤ گے، تو پھر اس سے بھی زیادہ پچھتاؤ گے، جتنا تم آج رات یہاں آ کر پچھتا رھے ھو۔ " میری اس بات سے شھروز ناسمجھی کے انداز میں میری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے عالی کو دوسرے کمرے میں جانے کا کہا۔ عالی مان گئی۔ میں عالی کے پیچھے پیچھے آ گیا۔ " عالی، دیکھو، میں اب کچھ دیر شھروز کے ساتھ اکیلا رھنا چاھتا ھوں۔ تم مجھے غلط مت سمجھنا۔ میں اس کی ایک ویڈیو بنانے لگا ھوں، اور جس قسم کی یہ ویڈیو ھو گی، تمھارا اس دوران وہاں کھڑا ھونا قطعی مناسب نہیں ھے۔" عالی حیرانی سے یہ سب سن رھی تھی۔ " مگر یہ چیز بھی تو ھمارے پلان میں شامل نہیں تھی۔ " عالی نے احتجاج کیا۔
میں نے اس کے اعتراض کو مسترد کرتے ھوئے کہا۔ " یہ بات آج شام کو ھی میرے دماغ میں آئی تھی، کہ اگر یہ کسی کو بتا دے، تو پھر ، میری تو خیر ھے، مگر تمھارے لئے مشکل ھو جائے گی۔ نوکری تو جائے گی ھی، مگر آج کی رات کیا ھوا، یہ اگر کسی کو اور خاص طور پر تمھاری والدہ کو پتا چل گئی، تو تمھارے لئے مسئلہ بن سکتا ھے۔ میں اس خطرے کا سدّ باب کرنے کے لئے یہ قدم اٹھا رھا ھوں جان من۔ " میں نے عالی کے سامنے ایک ممکنہ خطرے کی منظر کشی کرتے ھوئے اس کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ میری دلیل خاصی کارگر رھی۔ عالی اب قدرے مطمئن سی نظر آ رھی تھی۔ یقیناْ وہ بھی آج کی رات کی تمام کارروائی کو پوشیدہ ھی رکھنا چاھتی تھی۔
عالی کو مطمئن کرنے کے بعد، میں نے کمرے کا رخ کیا۔ شھروز میرے وھاں پھنچتے ھی خوفزدہ نظر آنے لگا۔ اب میرے دماغ میں موجود سب سے بھیانک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آ گیا تھا۔ میری زندگی برباد کرنے والے کے لئے ایسی ھی سزا ھونی چاھئے تھی۔
میں نے شھروز کی ٹانگیں نیچے سے کھولنا شروع کر دیں۔ اس کے بعد، میں نے اس کا ایک ھاتھ بھی کھول دیا۔ پھر میں نے اس کے منہ سے کپڑا ھٹا دیا۔ اس کے منہ سے کپڑا ھٹنے کی دیر تھی، اس کے منہ سے کھانسی شروع ھو گئی۔ کھانسی کا دورہ ختم ھوا، تو اس نے لمبے لمبے سانس لینے شروع کر دئے۔ میں نے اب بات شروع کی۔" کیا خیال ھے شھروز صاحب۔ کھیل شروع کیا جائے؟ "
میرے انداز میں چھپے خطرے کو محسوس کرنا اس کے لئے چنداں مشکل نہ تھا۔ اس نے اچانک رونا شروع کر دیا۔
"مجھے معاف کر دو فیروز۔ خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔ " شھروز نے روتے روتے کہا تھا۔ میں نے اس کے رونے پر ذرا سا بھی دھیان نہیں دیا، بلکہ ایک ٹھڈا اس کی ٹانگ پر مارتے ھوئے کہا۔ " معاف کر دوں؟ تمھیں معاف کر دوں؟ شرم نہیں آتی تم کو مجھ سے معافی مانگتے ھوئے ؟ یاد ھے، میں نے کتنی دیر تک منّت سماجت کی تھی تم سب کی، کہ میں بے گناہ ھوں۔ مگر تم نے میرے ساتھ کس طرح کا سلوک کروایا تھا۔ اور وہ سازش بھی تمھاری ھی تھی۔ میری کسی بھی منّت کا تم پر کوئی اثر نہیں ھوا تھا۔ میرے خلاف اتنا بھیانک منصوبہ بنانے والے، آج خود پر وقت آیا، تو اتنی جلدی گھٹنوں پر آ گئے؟
میرے الفاظ شھروز کے خوف کو مزید بڑھا رھے تھے۔ اور میں اس کی اس کیفیّت سے لطف اٹھّا رھا تھا۔ واقعی، اپنے دشمن کو سخت اذیّت میں مبتلا کر کے اس کیفیّت سے لطف اٹھانے کا تجربہ بے حد سرور انگیز ھوتا ھے، اس بات کا پتہ مجھے اس دن صحیح معنوں میں چلا تھا۔ میں نے کچھ توقّف کرنے کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ھوئے کہا۔
"شھروز احمد خان، ابھی تو کچھ بھی نہیں ھوا تمھارے ساتھ۔ ، اب آگے دیکھو کیا کرتا ھوں میں۔ " اس کے بعد میں نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔ پھر میں نے اس کو اپنی پینٹ اتارے کا کہا۔ وہ میری جانب دیکھنے لگا۔ میں نے ایک ھاتھ ’گھما کے اس کے منہ پر دیا، تو اس نے روتے روتے اپنے ھاتھ کو حرکت دینا شروع کی۔ ایک ھاتھ سے اس کو پینٹ کھولنے میں بے حد مشکل پیش آ رھی تھی۔ آخر وہ اپنی پینٹ کھولنے میں کامیاب ھو گیا۔ اب میں نے اس کو پینٹ اتارنے کا کہا۔ وہ میری طرف دیکھ کر رو رہا تھا۔ میں نے ٹھڈا اس کے پاؤں پر مارا، تو اس نے آھستہ آھستہ پینٹ کھینچ کر نیچے کر دی۔ میں نے اس کے گھٹنے سے نیچے اس کی پینٹ کھینچ کر اتار دی تھی۔ اب میں نے اس کی طرف دیکھ کرکہا، کہ اپنا لن اپنے ھاتھ میں پکڑے۔ وہ سٹپٹا کر رہ گیا۔ مگر میری بات ماننے کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ اس نے آخر اپنا لن اپنے ھاتھ میں پکڑ لیا۔ اب میں نے اپنے موبائل کی ویڈیو ریکارڈنگ آن کی۔ اس کے بعد، میں نےاس سے کہا، کہ اپنی مٹھ مار کر اپنے لن کو کھڑا کرے۔ اس کا لن سکڑا پڑا تھا۔شھروز نے پھر سے میری منّت سماجت شروع کر دی۔ وہ اونچی آواز میں رونے لگ گیا تھا۔ میں نے اس کے منہ پر کپڑا باندھنے کی دھمکی دی، تو وہ آھستہ آھستہ خاموش ھو گیا۔مگر اس کی آنکھوں سے آنسو لگاتار جاری تھے۔ رو رو کر اس کی آنکھیں سرخ ھو چکی تھیں۔ اس کی اس حالت کو دیکھ کر مجھے اپنا ماضی یاد آ رھا تھا۔ میں نے پھنکارتے ھوئے کہا۔ "کبھی میں بھی اسی طرح سے رویا کرتا تھا شھروز احمد خان صاحب۔" اور یہ بات حرف بہ حرف سچّ تھی۔ کالج سے نکالے جانے کے بعد، کئی دن تک، میں بالکل گم سم سا رھا تھا۔ کھانا پینا بھی برائے نام رہ گیا تھا۔ اور آج میں اپنی ایک ایک تکلیف اپنے دشمن، اپنے ماضی کی تاریکی کے ذمّہ دار ، شھروز احمد کو ’سود سمیت لوٹا رھا تھا شھروز نہ چاھتے ھوئے بھی میری بات مان رھا تھا۔ میں اس کو آج کی رات بے حد ذلیل کرنا چاھتا تھا۔
شھروز کا ھاتھ آھستگی سے حرکت کر رھا تھا۔ میں نے اس سے کہا، کہ اب وہ اپنا رونا بند کرے، ورنہ مین اس کو ڈنڈے سے ماروں گا۔ یہ ڈنڈا بھی میں نے شھروز کے لئے پہلے سے رکھّا ھوا تھا۔ شھروز خاموش ھو گیا ۔ میں نے اس کو اس کی ھی شرٹ دی، اور کہا، کہ اپنے آنسو صاف کر لے۔ اس نے آنسو صاف کئے۔ اب میں نے اس سے کہا، کہ وہ اپنا نام، باپ کا نام، الغرض اپنا تمام تعارف بول کر کروانا شروع کرے۔ میرے موبائل کی ویڈیو ریکارڈنگ میں نے آف کر دی تھی۔ شھروز ایک بار پھر سے گڑگڑانے لگا تھا۔ میں نے ایک بار پھر ایک تھپّڑ اس کے منہ پر مارا، اور کہا، کہ اگر اب اس کے رونے کی آواز آئی، تو میں اس کے منہ میں اپنا لن دے دوں گا۔ میری یہ دھمکی خاصی کارگر رھی، اور اس کے بود اس نے اپنا رونا بند کر دیا۔ میں نے اس سے کہا، کہ میں ریکارڈنگ کروں گا، وہ اپنا تعارف کروانے کے بعد، بولے گا، " میں، آپ سب کے سامنے اپنی مٹھ مار کر اپنے لن کا پانی نکال کر آپ کو دکھاؤں گا۔ " وہ مجھے اپنی امیری کا لالچ دینے لگا، کہ تم جتنے پیسے چاھو، لے لو، مگر مجھے چھوڑ دو۔ میں ٹس سے مس نہیں ھو رھا تھا۔ جب اس نے دیکھا، کہ میں مان نہیں رھا،تو آخر اس نے مجھے اپنی گانڈ مارنے کی آفر بھی کر ڈالی۔ میں مسکرا اٹھا۔" شھروز احمد خان، میں تمھاری گانڈ نہیں ماروں گا۔ مگر اس سے بھی زیادہ برا کام کر دوں گا تیرے ساتھ۔" وہ مزید خوفزدہ ھو گیا۔
میں نے اس کو مزید کچھ دیر ھدایات دیں۔ اور بتا دیا، کہ کیمرے کے سامنے اگر اس کے چہرے پر ھلکا سا بھی پتہ چلا، کہ وہ بندھا ھے، اور زبردستی یہ سب کر رھا ھے، تو میں اسکے منہ میں اپنا لن دے دوں گا۔ ویڈیو میں یہی لگنا چاھئے، کہ وہ یہ سب اپنی مرضی سے کر رھا ھے۔ میں نے ویڈیو بناتے وقت رسّی پر کیمرہ فوکس ھی نہیں کیا تھا۔
جب میں سب کچھ اس کو سمجھا چکا، تو میں نے ریکارڈنگ دوبارہ ہسٹارٹ کر دی۔ اس کے چہرے پر کسی قدر سکون نطر آ رھا تھا۔ کچھ دیر انتےظار کے بعد، میں نے اس کو تعارفی ڈائیلاگ بولنے کا اشارہ کیا۔ اس کے منہ سے الفاظ نکلنا شروع ھوئے، میں نے اس کے چہرے کو فوکس رکھّا۔ جب تعارفی الفاظ ختم ھو گئے، توامیں نے اس کو اشارہ کیا، کہ اب وہ اگلا کام شروع کرے۔میں نے احتیاطاْ بریک لگا دی تھی، تا کہ ویڈیو میں کوئی بھی سین میری مرضی کے خلاف نہ آ جائے۔ جب اس نے لن کی مٹھ مارنا شروع کی، تو میں نے بھی ریکارڈنگ سٹارٹ کر دی۔
وہ آھستہ آھستہ اپنی مٹھ مار رہا تھا۔ اس کا لن آھستہ آھستہ اوپر کو اٹھ رھا تھا۔ اس سانڈ کی اس حالت پر مجھے کبھی کبھی ھنسی بھی آ رھی تھی۔ میں نے اس کو ایک ھاتھ سے اشارہ کر کے تیز تیز مٹھ مارنے کا کہا۔ وہ تیز ھو گیا۔ اس کے بعد، میں نے کم از کم پانچ منٹ کی ویڈیو بنائی۔ جب اس کے لن سے پانی نکلا، تو سیدھا اس کی شرٹ پر گرا۔ میں نے پہلے ھی اس کی شرٹ اس کے سامنے پھیلا دی تھی۔ میں نے اس سے اگلے آخری الفاظ بولنے کو کہا۔ اس نے وہ بھی بول دئے۔ اب میں نے ریکارڈنگ بند کر کے محفوظ کر لی۔ اب شھروز خان کی بہت بڑی کمزوری میرے ھاتھ میں آ چکی تھی۔ اتنی سی چیز، شھروز احمد خان کو، جو کہ اتنے بڑے بزنس مین کا بیٹا تھا، اور اب تو خود بھی ایک تیزی سے اوپر کو اٹھتا ھوا بزنس مین بن چکا تھا، اس کو پورے ملک میں بدنام کروا سکتی تھی۔ اب میں شھروز احمد خان سے جب بھی چاھتا، کوئی بھی کام لے سکتا تھا۔ یہ ریکارڈنگ سارا کام کروا کے دیتی۔ میں نے اس سے کہا، کہ اپنا cock اپنی شرٹ سے ھی صاف کرے۔ اس نے ھاتھ لمبا کر کے شرٹ اٹھا لی۔ اس کام سے فارغ ھونے کے بعد میں نے اس کو کپڑے پھننے کے لئے کہا۔ اس نے اپنی پینٹ اوپر کو کر کے پہن لی۔
" اب میں دس منٹ کے بعد آؤں گا۔ یہ ویڈیو میں اپنے دوست کو دینے جا رھا ھوں۔ آرام سے بیٹھے رھنا۔ آگے تم خود سمجھدار ھو۔"
میں نے اس کمرے کو کنڈی لگائی، اور باھر آ کر دروازے تک گیا۔ اس کو ایک بار کھولا، اور بند کر دیا۔ شھروز یہی سمجھتا، کہ میں باھر چلا گیا ھوں۔ اس کے بعد، میں دبے پاؤں عالی کے پاس آ گیا۔ اس کے پاس میں نے دس منٹ کا وقت گزارا۔ وہ مجھ سے کچھ پوچھنا چاھتی تھی، مگر میں نے کمرے میں داخل ھوتے وقت ھی خاموشی کا اشارہ کر دیا تھا۔
دس منٹ کے بعد، میں واپس شھروز کے پاس آ گیا۔ میں نے اس کا دوسرا ھاتھ بھی کھول دیا۔ اس کے بعد میں نے عالی کو آواز دی۔ عالی بھی کمرے میں آ گئی۔ شھروز کی شرٹ گیلی تھی۔ شھروز اب ھم میں سے کسی سے بھی نظریں نہیں ملا رھا تھا۔ میں نے عالی سے کہا، کہ اب شھروز کا وھاں رکنا کسی فائدے کا نہیں۔ عالی خاموش رھی۔ شھروز کو میں نے کھول دیا۔ رسّیوں سے آزاد ھوتے ھی اس نے میری طرف دیکھا۔
" اب تم آزاد ھو مسٹر بزنس مین۔ " میں نے مسکراتے ھوئے کہا۔ شھروز بے یقینی کے عالم میں مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے اپنے الفاظ دھرائے۔ وہ اپنی شرٹ پہننے لگا۔ میں نے کہا، کہ یہ کام وہ جاتے وقت رستے میں بھی کر سکتا ھے۔ اس بات کو سن کر وہ فوراْ وہاں سے غائب ھو گیا۔
شھروز کو وہاں سے نکال کر میں عالی کی جانب متوجّہ ھوا۔ وہ الجھی نظروں سے مجھے دیکھ رھی تھی۔ میں نے اس کو تمام کہانی سنا دی۔ وہ سن کر ھنسی سے لوٹ پوٹ ھونے لگی۔ اس کے بعد ھم نے چدائی کا ایک شاندار راؤنڈ لگایا۔
اگلے تین دن میں اسلام آباد میں رہا۔ عالی سے میسج چیٹ کے ذریعے رابطہ رھا۔ پھر میں گاؤں چلا گیا۔ وہاں سے عالی سے رابطہ کرنا مشکل تھا، کیونکہ ھمارے گاؤں میں موبائل سروس کا مسئلہ تھا۔ سو عالی سے بہت مشکل سے 2 بار ھی رابطہ ھو سکا۔ اس کے بعد، میں واپسی تک عالی سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا۔
عالی اور میں اپنی جگہ پر مطمئن تھے، مگر ھم دونوں ھی اس بات سے بے خبر تھے، کہ شھروز کو پھنسانے کے لئے میری معاونت کی پاداش میں ، عالی، بہت جلد ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنسنے والی تھی۔

گاؤں میں رھنے کے دوران، میں عالی سے رابطہ نہیں رکھ سکتا تھا۔ اسی وجہ سے مجھے انتظار تھا، کہ کب میرا ذاتی کام ختم ھو، اور میں واپس شھر پہنچ جاؤں۔ یہ بات نہیں تھی، کہ گاؤں میں لڑکی دستیاب نہ تھی، بلکہ میں نے گاؤں میں قیام کے دوران دو لڑکیوں کو دو دو بار چودا بھی تھا، مگر صرف چدائی ھی تو سیکس کا نام نہیں ھے۔ جو مزہ عالی کے ساتھ آنا شروع ھو گیا تھا، وہ مزہ گاؤں کی کوئی سادہ سی لڑکی کہاں دے سکتی تھی۔ نہ ھی ویسا ماحول گاؤں میں دستیاب تھا۔ عالی مجھے ایسا ماحول فراھم کرتی تھی، کہ میں بے خوف و خطر، اس کے وجود کی چاشنی سے سرور حاصل کرتا تھا۔ اس کے انگ انگ کے حسن کو اپنی آنکھوں سے خراج۔ محبّت پیش کرتا۔ اس کے بدن کی گرمی کو صحیح معنوں میں محسوس کرتا، اور اس کے مرمریں جسم سے اپنے حصّے کا مزہ کشید کرتا۔ گاؤں کے کسی کھیت کی فصل میں چھپ چھپا کر افرا تفری میں سیکس کرنے سے خاک اس طرح کا مزہ آنا تھا۔وہ تو صرف پانی نکالنے والی بات تھی۔
ایک دو بار عالی کے ساتھ رابطے کے دوران میں نے اس سے خصوصی طور پر پوچھا تھا، کہ کہیں اس کے لئے شھروز نے کوئی مسئلہ تو کھڑا نہیں کر دیا۔ مگر عالی کے مطابق سب کچھ ٹھیک تھا۔ عالی کی نوکری بھی قائم تھی، اور یہ سب اس ویڈیو کا کمال تھا۔ میں گاؤں میں رھنے کے دوران اگر پریشان تھا، تو دوسری طرف عالی کے دلائے گئے اطمینان کی روشنی میں مطمئن بھی تھا۔
میری واپسی ایک مھینے سے بھی کچھ دن بعد ھو سکی تھی۔ میں واپسی پر بہت زیادہ ایکسائیٹڈ تھا۔ جونہی میں موبایل سروس سگنلز کے ایریا میں آیا، میں نے عالی کا نمبر ٹرائی کرنا شروع کر دیا۔ عالی کا نمبر بند تھا۔ مجھے ذرا سی حیرانی ھوئی، مگر پانچ منٹ بعد میں نے دوبارہ نمبر ٹرائی کیا۔ نمبر اب بھی بند تھا۔ میں نے ھر پانچ دس منٹ کے وقفے سے اس کا نمبر ملانا جاری رکھّا، مگر نمبر مسلسل آف جا رہا تھا۔ جوں جوں گاڑی اسلام آباد کی طرف بڑھ رھی تھی، میرے فشار۔ خون میں بھی اضافہ ھوتا چلا جا رھا تھا۔ میرے دماغ میں کئی طرح کے اندیشے سر اٹھا رھے تھے، کہ عالی کے ساتھ کہیں کچھ غلط نہ ھو گیا ھو۔ اور ان سب میں ذمّہ دار مجھے شھروز ھی نظر آ رھا تھا۔ اس کو معلوم تھا، کہ اس کی ذلالت کا منصوبہ عالی ھی نے تیّار کیا تھا۔ اور وہ اپنی اس رات کی ذلالت مرتے دم تک بھی نہیں بھول سکتا تھا۔
،،،،،،،،، " لیکن اس کی اتنی ھمّت کیسے ھو سکتی ھے، کہ وہ عالی کو ذرا سا بھی نقصان پہنچا سکے؟" میں نے سوچا۔ " اس کو معلوم ھے، کہ میرے پاس موبائل میں کیا چیز محفوظ پڑی ھوئی ھے۔ ، ، ، ، نہیں، نہیں، عالی کا نمبر کسی اور وجہ سے بند ھو گا۔ ھو سکتا ھے، بیٹری ختم ھو گئی ھو، یا وہ آرام کر رھی ھو۔ " میں نے خود کو دل ھی دل میں تسلّی دیتے ھوئے سوچا۔ لیکن میں واقعی عالی کے لئے بہت زیادہ فکر مند رھنے لگا تھا۔
، ، ، مجھے عالی سے محبّت ھو چکی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
میں اپنی اس کیفیّت پر مسکرا اٹھّا۔ واقعی آپ کو کب، کس سے، کہاں محبّت ھو جائے، یہ کچھ پتہ نہیں چلتا۔
اپنے آپ کو تسلّی دینے کے باوجود بھی میں وقفے وقفے سے عالی کا نمبر ٹرائی کرتا رھا۔ آخر شام کے 6 بجے تک میں اسلام آباد پہنچ گیا۔ اپنی رھائش گاہ ( کمرہ ) میں پہنچ کر میں نے کچھ دیر آرام کیا۔ گاؤں میں اتنی سردی نہیں ھوئی تھی، مگر اسلام آباد کا موسم کافی حد تک تبدیل ھو چکا تھا۔ شام کے وقت اچھّی خاصی سردی لگنے لگی تھی۔
کچھ دیر کے بعد وکی بھی آ گیا ۔ وہ بائیک لے کر آیا تھا۔ میں نے اس سے میسج کے ذریعے کہ دیا تھا، کہ عالی کی طرف جانا ھے۔ ھم دونوں نے کچھ دیر گپ شپ لگائی۔ اس کے بعد ھم اس کی بائیک پر سوار ھو کر مری روڈ پر جا رھے تھے۔

میری منزل عالی کا گھر تھا۔ اس کے نمبر بند ھونے کے بعد میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ میرے دماغ میں کئی اندیشے کلبلا رھے تھے۔
ھم نو بجے کے قریب عالی کے محلّے میں پٌہنچ گئے۔ آج موسم ٹھنڈا تھا، اس وجہ سے محلّے میں اتنی رونق نہیں تھی۔ میں نے وکی کو عالی کے گھر پر دستک دینے کے لئے کہا۔ وکی اس طرح سے میری طرف دیکھنے لگا، گویا اسے میری ذھنی حالت پر شبہ ھو،مگر میں سنجیدہ، بقائمی ھوش و حواس، اسے ایسا کرنے کو کہ رھا تھا۔ وہ بری طرح سے زچ ھوا۔ " واہ جی واہ۔ یعنی کہ، آم چوسنے کی باری تو آپ اکیلے اکیلے ھی چوپے لگاتے رہیں، اور جب چھترول والے کسی سین کا چانس ھو، تو وکی صاحب آگے آ جائیں۔ ناں بابا ناں ۔ میں دستک کیوں دوں ؟ کس سے ملنا ھے مجھے اس گھر میں؟ کیا میری پٹائی کروانا چاھتے ھو محلّے والوں سے ؟ "
میں نے اس کو تسلّی دی، اور اپنے وھیں کھڑے رھنے کا یقین دلایا۔ ساتھ ھی میں نے اس کو یہ بھی بتا دیا، کہ دروازہ عالی ھی کھولے گی۔ اور عالی کے آنے کی صورت میں وہ میرے حوالے سے اپنا تعارف اس سے کروا سکتا ھے۔ اس بات پر وہ راضی ھو گیا۔
میں جانتا تھا، کہ وکی صرف مجھے تنگ کرنے کے لئے ایسا کہ رھا ھے۔ وہ اکثر اس طرح کی کسی بھی سچوئیشن میں اس طرح کا ایک آدھ ڈائیلاگ بول دیا کرتا تھا۔
وکی کی دستک کے جواب میں دروازہ عالی کی بجائے کسی اور نے کھولا تھا، اور یہ کوئی بائیس چوبیس سالہ لڑکا تھا۔ وکی سے زیادہ میں حیران ھوا تھا۔ " عالی کے گھر میں تو کوئی بھی اتناجوان قسم کا سانڈ نہیں تھا۔ پھر یہ حضرت کون ھیں ؟ " میں سوچ میں مبتلا ھو گیا۔ وکی اور اس کی کیا بات چیت ھوئی، میں نہیں جانتا تھا، مگر میری بے چینی میں مزید اضافہ ھو گیا تھا۔ آخر عالی کہاں ھے؟ اور اس کا نمبر بند کیوں ھے ؟ ، ، ، ، یہ لڑکا کون ھے ؟ وکی واپس آ رھا تھا۔ میں نے بائیک موڑی، اور گلی سے نکل آیا۔ وکی بھی کچھ دیر بعد گلی سے نکل آیا تھا۔ جب وہ سوار ھو رھا تھا، تو اس نے ایک وزنی قسم کی گالی اس لڑکے کو دی۔ میں نے جب اس سے پوچھا، تو اس نے مجھے بتایا، کہ اس لڑکے کو دیکھ کر میں نے جھوٹ موٹ میں کسی غلط گھر کے گیٹ پر آنے کی اداکاری کر کے جان چھڑائی تھی۔ میں نے پھر سے عالی کا نمبر ٹرائی کرنا شروع کر دیا۔ اچانک ، بالکل اچانک، عالی کے نمبر پر بیل ھو گئی۔ میں نے وکی کو خاموش کروا دیا۔ عالی نے چوتھی بیل پر کال ریسیو کی تھی۔ میری جان میں جان آئی۔ میں نے چہک کر اس سے بات کا آغاز کیا۔ میری توقّعات کے بالکل بر عکس، اس کالہجہ قطعی اجنبی تھا۔ میرے نمبر کو تو اس نے لازمی طور پر پہچان لیا ھو گا۔ مگر اس کا لہجہ ، ، ، ، ؟ عالی تو میرے ساتھ اس طرح بات نہیں کیا کرتی تھی۔ پھر بات کیا ھے ؟ میری الجھن بڑھتی ھی جا رھی تھی۔ میں نے اس سے کہا، کہ اس کا نمبر بند کیوں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ابھی میں مزید کچھ کہنے ھی والا تھا، مگر اس نے اچانک ھی کال بند کر دی۔
یہ عالی کیا کر رھی تھی ؟ میرا نمبر پہچاننے کے بعد، میری آواز سننے کے بعد، عالی کیسے کال بند کر سکتی ھے ؟
میرے اندر عجیب طرح کی ٹوٹ پھوٹ ھو رھی تھی۔ عالی کا رویّہ کم از کم میری سمجھ سے تو بالاتر تھا۔ حالانکہ عالی میرے ساتھ ایسا کر چکی تھی، اس کے باوجود میں یہ بات ماننے کے لئے تیّار نہیں تھا، کہ عالی میرے ساتھ ایسا بھی کر سکتی ھے۔
" آخر عالی، میرے ساتھ اس طرح کیسے پیش آ سکتی ھے ؟"

میں نے وہ رات اسی کش مکش میں گزاری۔ اگلے دن میں نے اس کے آفس جا کر اس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ آخر پتہ تو چلے، کہ ایسی کون سی قیامت آ گئی ھے، کہ وہ نہ تو نمبر آن کر رھی ھے، اور جب اس کا نمبر آن ھوا بھی، تو میرے ساتھ اس نے اس طرح سے بات کیوں کی ؟ آخر ھوا کیا ھے؟ کہیں نہ کہیں ، کچھ نہ کچھ تو غلط ھوا ھے ؟
میں شھروز کے دفتر پہنچا، تو صبح کے گیارہ کا وقت تھا۔ اس کا آفس شاندار قسم کے قالین اور فرنیچر وغیرہ سے سجا ھوا تھا۔ میں نے ایک ملازم سے عالی کے بارے میں پوچھا۔ اس نے بتایا، کہ میڈم آج کل نوکری پر نہیں آ رہیں، اور آج اس کی غیر حاضری کو دسواں دن تھا۔ مجھے پوچھنے پر پتہ چلا، کہ شھروز بھی ابھی ابھی دفتر آیا تھا، اور اس وقت وہ اپنے کمرے میں موجود تھا۔ میں نے اپنا نام ایک پرچی پر لکھ کر اندر بھیجا۔ جواب میں شھروز نے مجھے اندر بلا لیا۔ میں نے اندر آتے ھی دروازہ بند کیا، اور سیدھا اس کی جانب بڑھا۔ وہ کھڑا ھوا میری طرف ھی دیکھ رھا تھا، مگر میرے اندر تو گویا لاوہ ابل رھا تھا۔ میں نے اس کے پاس جا کر لگا تار دو تین تھپّڑ اس کے منہ پر رسید کیے۔ وہ کچھ بولنا چاہ رھا تھا، مگر الفاظ اس کے منہ میں ھی دب گئے۔ میرا موڈ دیکھ کر وہ خاموش ھو چکا تھا۔ البتّہ تھپّڑ کھانے کے بعد، وہ کرسی پر ڈھے گیا ۔
" میں نے کہا تھا ناں، کہ آج کے بعد عالی کو ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچنا چاھئے۔ کہا تھا ناں میں نے ؟ " میں اپنی آواز کو دھیما رکھ رھا تھا، مگر اس کے باوجود میرا زھریلا لہجہ شھروز کو خوفزدہ کر رھا تھا۔ میں نے اس کو گریبان سے پکڑتے ھوئے اس سے کہا۔ وہ اپنے دونوں ھاتھ اپنے چہرے کے سامنے لے آیا۔ تھا تا کہ میرے ھاتھوں سے اپنے چہرے کا دفاع کر سکے۔ میری بات کے جواب میں وہ بمشکل کہ پایا، کہ اس نے اس رات کے بعد، عالی کے بارے میں کبھی غلط سوچنے کی ھمّت بھی نہیں کی۔ پھر اس نے پوچھا، کہ آخر ھوا کیا ھے؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس بات کا جواب فی الحال میرے پاس بھی نہیں تھا۔ میں نے اس کو دھمکی دیتے ھوئے کہا، کہ اگر عالی کو کبھی ھلکا سا بھی نقصان پہنچا، تو اس کا نتیجہ کیا ھو گا، یہ شھروز اچھّی طرح جانتا ھے۔ اس نے مجھے قسم کھاکر یقین دلاتے ھوئے کہا، کہ وہ بھول کر بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ میں نے غور کیا، تو مجھے اس کے لہجے می سچّائی محسوس ھوئی۔

"آخر وہ کیوں ایسا کرے گا؟ جبکہ اس کو اچھّی طرح سے معلوم ھے، کو اس سے شھروز کا اپنا کتنا نقصان ھوتا۔" یہ سوچ آئی، تو میں اس کے آفس میں موجود ویک کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب میں نے اس سے عالی کے بارے میں پوچھنا شروع کیا، کہ وہ کیاں آفس نہیں آ رھی تھی؟ اس کے جواب میں شھروز نے لا علمی کا اظہار کر دیا۔ اس کے مطابق، ایک دن عالی نے اچانک اس کو فون کر کے کہا تھا، کہ آج کے بعد وہ آفس نہیں آ سکے گی۔ مزید یہ کہ، اس کے بقایا جات وہ چند دن بعد خود ھی لینے آ جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں اس کی زبانی یہ تفصیل سن کر سنّاٹے میں آ گیا۔ تو کیا وہ نوکری بھی چھوڑ چکی ھے ؟
آخر یہ ھو کیا رھا ھے ؟

میرا دماغ مجھے ماؤف ھوتا ھوا محسوس ھوا۔ میں نے ایک بار پھر اسے شک سے دیکھا، تو اس نے پھر قسمیں کھانی شروع کر دیں، کہ اس نے عالی کو کبھی بھی کچھ نہیں کہا۔ میں نے اس کو وارننگ دی، کہ اگر کبھی بھی عالی کی پریشانی میں اس کا نام سامنے آ گیا، تو وہ ویڈیو اسلام آباد اور پھر ملک کا ھر ویڈیو سنٹر اور نیٹ کیفے میں چل رھی ھو گی۔ میری اس دھمکی سے اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ میں نے اس سے کہا، کہ پرس نکالے۔ اس نے پرس نکال کر سامنے رکھ دیا۔ اس وقت اس کے پرس میں صرف سات ھزار روپے پڑے تھے۔ میں نے اس کا پرس خالی کر دیا، اور اس سے کہا، کہ ایک چیک کم از کم پانچ لاکھ کا بنائے۔ اس نے آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کر دیا۔ میرا ھاتھ حرکت میں آ گیا۔ اس پر اس نے میری منّت کرتے ھوئے کہا، کہ اس کے اکاؤنٹ میں صرف ایک لاکھ پچّاس ھزار روپے پڑے ھیں۔ کہنے کو تو یہ بزنس اسی کا ھے، مگر وہ اپنی مرضی سے صرف وھی رقم خرچ کر سکتا ھے جو اس کے اکاؤنٹ میں ھے۔ اس سے زیادہ کا معاملہ اس کا باپ ھی سنبھالتا ھے۔ میں نے اس سے کہا، کہ وہ اسی رقم کا چیک
بنا دے۔ اس نے کچھ کہنا چاھا، مگر میرا ھاتھ گھوم گیا، اور وہ تھپّڑ کھا کر منہ
بسورتے ھوئے چیک بنانے میں مصروف ھو گیا۔

شھروز سے چیک میں نے احتیاطی طور پر لیا تھا، اور وہ بھی عالی کے لئے۔ میرے ذھن میں ایک خیال آیا تھا، کہ شائد عالی کی پریشانی کا تعلّق پیسوں سے ھی ھو۔
لیکن اگلے ھی لمحے میں نے یہ خیال دماغ سے جھٹک دیا۔ کیونکہ اگر اس کو پیسوں کی ضرورت ھوتی تو، وہ شھروز سے لے سکتی تھی۔ جاب چھوڑنے کی کیا ضرورت ھوتی، اگر پیسوں کا ھی معاملہ ھوتا۔

میرے ذھن میں الجھن تھی، کہ بڑھتی ھی جا رھی تھی۔ میں جتنا سوچ رھا تھا، اتنا ھی الجھتا جا رھا تھا۔

اگر کوئی اس الجھن کو سلجھا سکتا تھا، تو وہ صرف عالی ھی تھی۔
مگر عالی ھی تو مل نہیں رھی تھی۔ نہ ھی اس کا نمبر آن تھا۔
آخر حقیقت کیا تھی ؟ میری بے چین فطرت نے سارا دن مجھے بے کل رکھا۔ آخر شام کو میں عالی کے گھر جانے پر تیّار ھو چکا تھا۔
رات کے دس بجے ، جبکہ میں عالی کے گھر جانے کے لئے کپڑے بدل رھا تھا، اس کی کال آ گئ۔

، ، میرے اندر جیسے ایک دم سے بہار اتر آئی تھی۔
" میں نے جلدی سے فون اٹھایا، اور کال اٹینڈ کی، کہ کہیں عالی فون بند ھی نہ کر دے۔ جب میں بولا تھا، تو میری آواز پر لرزہ طاری ھو چکا تھا۔

" کہاں ھو عالی ، میری جان۔ پتہ ھے، کتنا تڑپ رھا ھوں میں کل سے، نہ تمھارا نمبر آن ھے، نہ ھی دفتر میں آ رھی ھو۔ جاب بھی چھور دی ھے۔ کل میری آواز پہچان کر بھی تم نے کال بند کر دی۔ آخر یہ سب کیا ھو رھا ھے عالی؟ کیوں کر رھی ھو ایسا؟ ، ، آخر معاملہ کیا ھے عالی ؟ ، ، سب خیریّت تو ھے ناں عالی ؟"
میں نے ایک ھی سانس میں اس سے کئی سوال کر ڈالے تھے۔ جواب میں دوسری طرف چند ثانئے گمبھیر خاموشی چھا ئی رھی ۔ شائد عالی بولنے کے لئے الفاظ سوچ رھی تھی۔ اس لئے، کہ جب وہ بولی تھی، تو اس کے لہجے کی لرزش بتا رھی تھی، کہ وہ اس وقت سخت اذیّت میں مبتلاھے۔ اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے۔
" آئی ایم سوری فیروزی، کہ آپ کو میری وجہ سے پریشانی ھوئی۔ میں نے اسی لئے کال کی ھے، کہ آج کے بعد، آپ میری وجہ سے پریشان نہ ھوں۔ پلیز، میری آپ سے اتنی درخواست ھے، کہ ، ، ، پلیز، ، آج کے بعد، میرا خیال بھی اپنے دل و دماغ سے نکال دیجئے گا۔ آج تک مجھ سے جو بھی غلطی ھوئی ھو، وہ معاف کر دیجئے گا۔ آج کے بعد، ھمارے درمیان کوئی رابطہ نہیں ھو گا۔ اسی لئے میں نے آج آخری کال کی ھے، تا کہ آپ لا علم نہ رہیں۔ ، ، ، اور ھا، ایک بات اور، فیروزی صاحب، ، ، مجھے ، غلط مت سمجھنا، پلیز، ، اس لئے، ، اس لئے، ، کہ ، ، میں آج بھی ، ، آپ سے ، محبّت کرتی ھوں۔ ھاں، میں آج بھی آپ سے محبّت کرتی ھوں۔ " اس کے ساتھ ھی لائن بے جان ھو گئی۔
عالی کے الفاظ تھے، یا زھر میں بجھے ھوئے نشتر، جو میری سماعتوں کے رستے سیدھے میرے دل میں جا کر پیوست ھو چکے تھے۔ ، ، ، کتنی ھی دیر تو مجھے سمجھ ھی نہیں آئی، کہ میں کیا کروں ۔ اور جب تک میں کچھ سمجھنے کے قابل ھوا، عالی فون کاٹ چکی تھی۔ میں جلدی سے کھڑا ھو گیا، اور عالی کا نمبر ڈائل کر دیا۔ بیل جا رھی تھی۔ شائد عالی نے ابھی نمبر بند نہیں کیا تھا۔ ، ، ، ، ، اچانک، بالکل اچانک، میری دونوں آنکھوں کے گوشوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکلے، اور میرے چہرے پر اپنے گزرنے کے نشان چھوڑتے ھوئے میرے سینے پر آ گرے۔ شائد ان کو معلوم تھا، کہ اس وقت میرے سینے میں آگ لگی ھوئی ھے، اور وہ اپنے تئیں اس آگ کو بجھانے کی کوشش کرنے کے لئے آئے تھے، مگر ان بیچاروں کو معلوم نہیں تھا، کہ ایسی آگ دو آنسوؤں سے کہاں بجھا کرتی ھے۔ ، ،
لیکن ایک انہونی ھو چکی تھی۔

، ، ، میں رو رھا تھا۔ میں، ، جس کو اس کے حلقہٴ احباب نے " سنگدل " کا نام دے رکھّا تھا، وہ آج رو رھا تھا۔ ، ، ،
لیکن مجھے اس وقت اپنے رونے کی ذرّہ برابر بھی پروا نہیں تھی۔ میرا دھیان تو اس وقت مکمّل طور پر اپنے مابائل پر تھا، جہاں سے مجھے میری جان عالی کی آواز سنائی دینا تھی۔ میں ھمہ تن گوش کھڑا تھا۔ میری حسّیات سمٹ کر میرے کانوں میں ا گئی تھیں۔ ، ، ، چھٹی بیل پر عالی نے کال ریسیو کر لی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !


11
جونہی عالی نے کال ریسیو کی ، میں ایک دم شروع ھو گیا تھا۔ " دیکھو عالی، پلیز کال بند مت کرنا۔ ، ، ، ، یہ تم کو کیا ھو گیا ھے عالی ؟ کیوں ایسا کر رھی ھو میرے ساتھ ؟ ، نہ ھی فون سن رھی ھو، نہ ھی ملنے کا ٹائم دے رھی ھو۔ اگر کال کرتی بھی ھو، تو صرف اتنی بات کرنے کے لئے، کہ میں تم کو بھول جاؤں؟؟؟؟؟؟ ، یہ کیا ھو گیا ھے تم کو عالی ؟ ، پلیز ، ایسا مت کرو عالی۔ پلیز، ایسا مت کرو، تم نہیں جانتی عالی، میں ، ، ، اب میں نہیں رہ سکتا تمھارے بغیر۔ "
، ، ، آخری الفاط کہتے ھوئے میری آواز اچھّی خاصی رندھ گئی تھی۔ میں کچھ دیر کے لئے خاموش ھو گیا تھا۔

مگر دوسری طرف عالی بھی خاموش ھی تھی، جیسے اس نے تو کچھ بھی نہ بتانے کی قسم کھا رکھّی تھی۔ چند ساعتوں کی اس خاموشی کو بھی میں نے ھی توڑا تھا۔ " آخر کچھ بتاؤ تو سہی عالی۔ کیا ھوا ھے ۔ شائد میں کچھ کر سکوں۔ لیکن جب تک میں کچھ جانوں گا ھی نہیں، مجھے سمجھ نہیں آئے گی، میں کیا کر سکتا ھوں ؟" جواب میں عالی کی لرزیدہ آواز آئی تھی۔ " میں اس وقت کچھ بھی نہیں بتا سکتی فیروز۔ ھاں، اگر زندگی نے کبھی موقع دیا، تو میرا وعدہ ھے، کہ میں تمھیں ساری حقیقت ضرور بتاؤں گی۔ لیکن ابھی نہیں۔ پلیز کچھ سوا ل مت کرو۔ بس مجھے معاف کر دینا۔ شائد ھمارا ساتھ اتنا ھی تھا۔ "
" عالی، کہیں شھروز نے تو کچھ ایسا ویسا ؟" ،
میں نے کہا، تو عالی نے مجھے بتا دیا، کہ کم از کم ، شھروز کی طرف سے کوئی بھی مسئلہ نہیں ھے۔
اس کے بعد عالی نے میرے سر پر ایک اور بم پھوڑ دیا۔
،،،، اس نے کہا، کہ ، " میں کل کراچی جا رھی ھوں۔ اور دو دن بعد، میں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑ کر جا رھی ھوں،
فیروز۔ اسی لئے میں نے آپ سے معافی بھی مانگی ھے۔ پلیز مجھے معاف کر دینا۔ میں آپ کے ساتھ گزرے وقت کو چاھوں بھی تو نہیں بھول سکتی۔، ، اور ھاں،
، ، کم از کم ایک بات سے تو مطمئن ھوں، کہ میں نے آپ پر جو الزام لگایا تھا، اس کا بدلہ چکا دیا۔ اچھّا فیروز، خدا حافظ۔ "
میں تو اس کے جانے کی بات سن کر سنّاٹے میں آ گیا تھا۔ مگر وہ اپنی ھی دھن میں بولے جا رھی تھی۔
اس کے بعد عالی نے میری بات سنے بغیر ھی کال ڈراپ کر دی۔
میں اپنے کمرے میں ھارے ھوئے جواری کی طرح کھڑا تھا۔
کیا عالی ھمیشہ ھمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑ کر جا رھی تھی ؟ مجھے چھوڑ کر جا رھی تھی ؟ کیا ایسا بھی ھو سکتا ھے میرے ساتھ ؟ کیا واقعی ، میں عالی کے بغیر رہ پاؤں گا؟ ، ابھی تو میں نے اس کے حسین ساتھ کے سپنے دیکھنا شروع کئے تھے۔ میں نے سوچ لیا تھا، کہ اب عالی کو میں اپنا لوں گا۔
ھاں، مجھے عالی سے بے حد محبّت ھو گئی تھی۔ اور اب میں اس کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے اپنی بنا لینا چاھتا تھا۔ میں اس کے ساتھ اپنی آئندہ زندگی کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔ میں نے بہت کچھ سوچ لیا تھا۔

مگر اچانک ھی میرے خوابوں کا محل زمین بوس ھو گیا تھا۔
میں کتنی ھی دیر تو بالکل ھی گم صم کھڑا رھا۔ جب مجھے کچھ سمجھ آئی، تو میں نے اپنے ھاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھا۔ اب اس میں سے عالی کی آواز نہیں آ رھی تھی۔ میں نے اس کو کھینچ کر دیوار پر دے مارا۔ وہ کئی ٹکڑوں میں تقسیم ھو کر ادھر ادھر بکھر گیا۔ میری حالت بہت خراب ھو رھی تھی۔ اچانک میں ھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
اچانک کمرے پر دستک ھوئی۔ میں نے دروازے کی طرف دیکھا۔ وکی کی آواز آئی۔ میں نے دروازہ کھولا، اور اس کے گلے لگ کر رونے لگا۔ اس دن میں واقعی بہت شدّت سے رویا تھا۔ وکی بھی ششائد سمجھ گیا تھا، اسی لئے وہ خاموشی سے کھڑا رھا۔ وہ مجھے رونے دے رھا تھا۔ جب میں کافی دیر تک رو چکا ، تو اس نے مجھے دلاسہ دے کر چارپائی پر بٹھایا۔ اس کے بعد اس نے مجھے پانی پلایا۔ میں نے اس کو ساری صورت حال بتا دی ۔ میں واقعی اپنے اندر بہت مضبوط بنتا تھا، مگر اس بات کے آگے، میں ھار گیا تھا۔
وکی کافی دیر تک میرے ساتھ رھا۔ اس نے یہ بھی کہا، کہ عالی سے ملنے کی کوش کرتے ھیں۔ اس کے گھر چلتے ھیں۔ وکی میری حالت دیکھ کر پریشان ھو چکا تھا۔ مگر میں نے اب اپنے آپ کو کافی حد تک سنبھال لیا تھا، سو میں نے اس کو منع کر دیا۔ ویسےبھی ، جب عالی خھود ھی ملنا نہیں چاھتی تھی، تو میں بھی اس سے ملنے نہیں جانا چاھتا تھا۔ سو ھم اپنے کمرے میں ھی بیٹھے رھے۔
وہ رات میں نے وکی کے ساتھ جاگ کر گزاری۔ وکی اس رات اپنے گھر نہیں گیا تھا۔ اس نے ساری رات میرا بے حد خیال رکھّا۔ میں کبھی اس سے عالی کی باتیں کرنا شروع ھو جاتا، کبھی کبھی رو بھی پڑتا۔ مگر یہ رونا بالکل خاموش آنسوؤں کی صورت میں ھوتا۔ وکی نہ ھوتا، تو پتہ نہیں وہ رات میں کیا کرتا۔ وہ رات میں کہاں گزارتا۔ وکی نے مجھے سنبھال لیا تھا۔
اگلے دن عالی اسلام آباد چھوڑ کر کراچی چلی گئی، اور اس کے دو دن بعد، وہ پاکستان چھوڑ کر لندن سدھار گئی۔
پاکستان چھوڑ کر چلی گئی۔
میں کئی دن تک عالی سے جدائی کے صدمے میں اپنے کمرے پر ھی پڑا رھا ۔
عالی نے ایک بار پھر سے مجھے شدید ترین زخم دے دئے تھے۔ اور اس بار کے لگائے ھوئے زخم ، میرے حوصلے اور برداشت کی آخری حدوں سے بھی بڑے محسوس ھو رھے تھے۔ میں ٹوٹ سا گیا تھا۔ ، ، ، ، ،

مجھے اس صدمے سے باھر آنے میں کئی دن لگے۔
عالی کو گئے ھوئے، 6ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا، جب ایک دن میرے موبائل پر ایک انٹر نیشنل نمبر سے کال آئی۔ میں نے کال ریسیو کر کے کہا ، " ھیلو۔ " جواب میں ایک مانوس اور دلفریب آواز میری سماعتوں میں رس گھولتی ھوئی سیدھی میرے دل میں اتر گئ۔
ھاں، وہ عالی ھی تھی۔
" کیسے ھو فیروز ؟ " اس نے پوچھا تھا۔
" زندہ ھوں۔ شائد تم نے سوچا ھو گا، کہ میں تمھاری جدائی میں مر گیا ھوں گا۔ مگر دیکھ لو، تمھارا اندازہ غلط ھے۔ میں آج بھی زندہ ھوں۔ "
عالی کی آواز میں نے ایک ھی لمحے میںپہچان لی تھی۔ اور اس کے ساتھ ھی میرے تمام زخم بھی ھرے ھو گئے تھے۔ اسی وجہ سے میں جب بولا تھا، تو میری آوز میں کڑواھٹ ھی کڑواھٹ تھی۔
میرے لہجے کی تلخی اس نے بھی محسوس کر لی تھی۔ لیکن اس نے اس بات کا بالکل بھی برا نہیں منایا تھا۔ " میں نے تمھارے ای میل ایڈریس پر ایک میل بھیجی ھے۔ ھو سکے، تو وہ میل لازمی پڑھنا۔ اس میںتمھیں تمھارے ھر اس سوال کا جواب موجود ھے، جو تم اس دن بار بار دھرا رھے تھے۔ اور جو سوال آج بھی ، ، ، ھاں، وہ سوال تم آج بھی مجھ سے پوچھنا چاھتے ھو۔ "
میں نے اس کو جھڑک دیا ۔ " مجھے کوئی ضرورت نہیں ھے عالی صاحبہ، آپ سے کوئی سوال جواب کی۔ آپ سے میرا کوئی ناطہ نہیں ھے۔ اور پلیز ، آئندہ مجھے کال مت کیجئے گا۔ میں آپ کے دئے ھوئے پرانے زخموں کو آج تک نہیں بھولا ھوں۔ اب دوبارہ کوئی زخم سہ نہیں پاؤں گا۔ اس لئے، خدا حافظ۔۔ " یہ کہ کر میں نے اس کی بات سنے بغیر کال بند کر دی۔ بالکل اسی طرح اس
نے بھی کال بند کی تھی۔ اس دن میں تڑپا تھا، مگر آج وہ تڑپی ھو گی۔ میں نے اپنے اندر ایک سکون محسوس کرنا چاھا۔ ، ، ، مگر یہ کیا ؟
، ، ، ، ، ، میرے اندر بھی عالی کی کال کے بعد، ایک عجیب بے کلی سی پیدا ھو گئی تھی۔ تڑپ تو شائد میرے اندر بھی موجود تھی ۔
شائد میں آج بھی عالی کو بھول نہیں سکا تھا۔
عالی کی کال دوبارہ آ گئی تھی۔ میں نے کچھ دیر کے بعد نمبر اٹینڈ کیا تھا۔ " دیکھو شھروز، تم مجھ سے ناراض ھو۔ میں مانتی ھوں، کہ میں نے تمھارے ساتھ ٹھیک نہیں کیا۔ مگر جب تک تم اصلی حقیقت جان نہیں لیتے، تم مجھے مجرم نہیں بنا سکتے۔ میری میل پڑھو گے، تو تم کو اس وقت کی میری پوزیشن کا صحیح اندازہ ھو جائے گا۔ تم جان جاؤ گے، کہ میں نے جو تم کو کال کر کے اپنے پاکستان چھوڑنے کی اطّلاع دے دی تھی، وہ بھی غنیمت تھی۔ پلیز، میری میل پڑھ لینا۔ میں کل دوبارہ کال کروں گی۔ تب تک تم غور بھی کر لو گے، کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ خدا حافظ۔"
عالی نے اتنی لمبی تفصیل کے بعد خود ھی خدا حافظ کہ دیا تھا۔ یقیناْ اسے میرے لہجے سے اندازہ ھو گیا تھا، کہ میں اس سے سیدھے منہ بات نہیں کرنا چاھتا۔ اسے معلوم ھو گیا تھا، کہ میں آج بھی اس زخم کو بھول نہیں پایا، جو عالی کی جدائی کی صورت میں ، مجھے عالی ھی نے دیا تھا۔
آج اتنے دن بعد، عالی کے ساتھ بات ھونے سے میں پھر اسی جگہ آن کھڑا ھوا تھا۔ میرے زخم ھرے ھو گئے تھے۔
کافی دیر تک میں اسی کیفیّت میں بیٹھا رھا۔ دل چاھتا تھا، کہ عالی کی میل پڑھوں۔ لیکن میرا غصّہ مجھے اس بات سے روک رھا تھا۔ آخر کار ، میرا دل جیت گیا۔
میں نے اپنا میل باکس اوپن کیا، تو واقعی عالی کی ایک لمبی چوڑی میل موجود تھی۔ وہ میل اس نے ایک دن قبل ھی کی تھی۔ عالی نے لکھا تھا،

" جان سے پیارے فیروز۔، السّلام علیکم !
میں جانتی ھوں، کہ تم مجھ سے بے حد خفا ھو۔ اور میں اس میں تم کو حق
بجانب سمجھتی ھوں۔ اگر تمھاری جگہ میں ھوتی، اور تم میرے ساتھ ایسا کچھ کرتے، تو یقیناْ میں بھی اسی طرح سے ناراض ھوتی۔ ، ، ، ، لیکن جان۔ عالی، میں تم کو کم از کم ایک بار ضرور موقع دیتی، کہ تم اپنی صفائی میں کیا کہتے ھو ۔
کیا تم مجھے صفائی کا ایک موقع بھی نہیں دو گے ؟
آج میں تم کو کھل کر ھر بات بتانا چاھتی ھوں۔ تمھارے ھر سوال کا جواب دینا چاھتی ھوں۔ تم اس دن بہت بے چین ھو رھے تھے۔ خدا کی قسم، میں اس وقت تم سے بھی زیادہ بے چین تھی فیروز۔ کاش ممکن ھو سکتا، تو میں دکھا سکتی، کہ میں نے ان دنوں اپنے آپ پر کتنا جبر کیا تھا۔ آج بھی میں تم کو یاد کر کے اکثر رو دیتی ھوں فیروز۔ میری یہ کیفیّت اس بات کی گواہ ھے، کہ میں تم سے محبّت کرتی تھی، کرتی ھوں، ، ، ، اور شائد مرتے دم تک ، یہ محبّت میرے ساتھ رھے گی۔
تم میری میل کو غور سے پڑھ کر فیصلہ کرنا، کہ میں اور کیا کرتی؟ کیا اس وقت، کیا میرے لئے کچھ اور کرنا ممکن تھا ؟
جس دن تم نے شھروز کو میرے گھر میں باندھ کر پیٹا تھا، اس دن بعد میں، جب ھم دونوں نے سیکس کیا تھا، تو تم تو چلے گئے تھے، میں نے چادر اپنے اوپر لپیٹ کر گیٹ بند کیا تھا، اور یہ سوچا تھا، کہ کپڑے بعد میں پہن لوں گی۔ میری یہی سستی، میری بربادی، اور ھمارے درمیان جدائی کا سبب بنی ھے فیروز۔ میری والدہ کی آنکھ دسرے دن مجھ سے بھی پہلے کھل گئی تھی۔ انھوں نے مجھے بالکل ننگے لیٹے ھوئے دیکھ لیا تھا۔ پھر میرے کپڑے کمرے میں جس انداز سے بکھرے پڑے تھے، وہ بھی میری ماں کو سب کچھ سمجھا گئے تھے۔ میرے جسم کی حالت بھی میری گزری شب کا فسانہ بیان کر رھی تھی۔
ایک ماں اپنی جوان بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کر بہت کچھ سمجھ جاتی ھے فیروز۔
میری ماں بھی جان گئی تھی، کہ میں نے رات کیسی گزاری ھے۔
لیکن میری ماں نے مجھے بالکل بھی احساس نہیں ھونے دیا، کہ اس نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا ھے۔
جب میری آنکھ کھلی، تو صبح کے آٹھ بجنے والے تھے۔ میں نے جب اپنے آپ کو ننگا دیکھا، تو میں ڈر گئی، کہ ماں نے دیکھ نہ لیا ھو۔ مگر میری ماں سو رھی تھیں۔ میں نے سکھ کی سانس لی، اور کپڑے پہن لئے۔
، ، ، ، مگر میری والدہ کو ھر بات کی خبر ھو چکی تھی۔ اور انہوں نے مجھے بتائے بغیر ھی ایک خوفناک منصوبہ بنا لیا تھا۔ وہ منصوبہ ان کے نزدیک تو ان کی عزّت بچانے کے لئے تھا، مگر ان کا یہ منصوبہ میری خوشیوں کا قاتل ثابت ھوا۔

میری والدہ کے ایک بھائی، جو میرے ماموں ھیں، لندن میں رھتے ھیں، اور ان کا ایک بیٹا بھی ھے جس کا نام عادل ھے۔ میری ماں سے ان کے کافی اختلافات تھے، میرے ماموں نے میری والدہ سے کئی بار میرا رشتہ مانگا تھا، مگر میری والدہ مجھے اپنے سے اتنی دور بیاھنے پر رضامند نہ ھو سکیں تھیں۔
، ، ،لیکن اس دن میری ماں نے میرے ماموں کو خفیہ طور پر کسی طرح سے کال کروا کے پاکستان بھی بلوا لیا تھا، اور فون پر ھی میرے رشتے کی بھی
"ھاں " کر دی تھی۔
میں اپنے اندر بالکل مطمئن تھی، اور روز مرّہ کی زندگی گزار رھی تھی، کہ ایک دن ، جب میں آفس سے واپس آئی، ھمارے گھر میں میرے لندن پلٹ ماموں موجود تھے ، اور ان کے ساتھ ایک جوان لڑکا بھی موجود تھا، جو میری والدہ کی گود میں سر رکھ کر لیٹا تھا، میری والدہ اس کو پیار کر رھی تھیں، اور ان کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ وہی عادل تھا۔
میں یہ منظر دیکھ کر جہاں حیران ھوئی، وہیں، میرا ماتھا ماموں کو دیکھ کر ٹھنکا بھی تھا۔ اس لئے، کہ وہ میرے رشتے کے طلبگار تھے، اور اسی وجہ سے ھمارے درمیان دوری قائم تھی، یہ میں جانتی تھی۔ ، ، ، اگلے آدھے گھنٹے میں ساری صورت حال مجھ پر واضح ھو چکی تھی۔ میری ماں نے ھی ماموں کو بلایا تھا۔ اور دو دن بعد، ھم کراچی جا رھے تھے۔ میرے ماموں کا اپنا گھر کراچی میں تھا، جہاں وہ مجھ کو لے کے جا رھے تھے، اور وہیں میری شادی ھونا تھی۔
میں نے اپنی ماں کو کمرے میں بلا کے احتجاج کرنا چاھا، تو میری ماں نے میرا چہرہ تھپّڑوں سے لال کر دیا۔ شائد وہ بھی کئی دنوں کے ضبط سے تنگ آ گئی تھیں۔ سو انہوں نے مجھے گھٹی گھٹی زبان میں خوب سنائیں۔ تب مجھ پر انکشاف ھوا، کہ میری ماں نے اس دن مجھے ننگی کو دیکھ لیا تھا۔ میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں ھی نہیں رھی تھی، میری ماں نے مجھے دھمکی بھی دے دی، کہ اگر میں نے کوئی تماشہ کیا، تو وہ زھر کھا کر مر جائیں گی۔
، ، ، میری والدہ کی یہ دھمکی، میرے لئے ایسی دیوار تھی، جس کو پار کرنا میرے لئے ھر گز ممکن نہ تھا۔ میں اپنی
ھزار ھا خوشیاں اپنی ماں پر قربان کر سکتی ھوں۔ اسی لئے میں نے اپنی ماں کی بات مان لی۔ جب تمھاری کال پہ کال آ رھی تھی، اس دن ھماری تیّاری ھو چکی تھی۔ اگلے دن ھم کراچی آ گئے، اور وہاں میں، عادل کی بیوی بن گئی۔
یقین کرو فیروز، میں نے جو بھی کیا، سخت مجبوری میں کیا، اور جن دنوں میں آپ سے فون پر آخری بات چیت کر رھی تھی، اس وقت میری سخت نگرانی ھوتی رھتی تھی۔ میری والدہ نے میرے پیچھے میری چھوٹی بہن کو لگا دیا تھا۔ میں جہاں بھی جاتی، وہ میرے ساتھ سائے کی طرح چمٹی رھتی۔
تم سے چند باتیں بھی میں نے بڑی مشکل سے کی تھیں۔ اس لئے، کہ میں آخری بار تم سے بات کر کے آنا چاھتی تھی۔ کم از کم ایک بار ،، میں اپنے فیروز کی آواز سن کر، اپنی سماعتوں میں محفوظ کر لینا چاھتی تھی۔ اب تم خود ھی فیصلہ کرو فیروز، کہ میں ان حالات میں کیا کرتی ؟
ایک بات میں صاف صاف کہ دینا چاھتی ھوں فیروز۔ ، ، ، ، کہ میری شادی بھلے ھی عادل سے ھو گئی ھے، مگر ، ، ، میں آج بھی تم کو بھلا نہیں پائی ھوں۔ ھاں، فیروز۔ میں آج بھی تم سے محبّت کرتی ھوں۔ شائد یہ اپنے شوھر سے میری بے انصافی ھے، اور میں اس کی مجرم بھی ھوں، مگر میں کیا کروں، میںمجبور ھوں۔ میں چاہ کر بھی تم کو بھول نہیں سکی۔ آئی لو یو فیروز۔ آئی سٹل لو یو۔
فیروز، تم جانتے ھی ھو، میں نے جب سے تم سے محبّت کی ھے، اس وقت سے میں تمھارے لئے کتنی دیوانی رھی ھوں۔ اس رات بھی تم نے جس طرح سے مجھے مزہ دیا تھا، میں اسی مستی میں کپڑے نہیں پہن سکی تھی۔ میری مستی ھی میرے گلے کا طوق بن گئی تھی فیروز۔ مجھے غلط مت سمجھنا۔ میں نے تم کو کبھی بھی تکلیف نہیں دینا چاھی تھی۔ میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی فیروز۔ جو بھی ھوا، وہ انتہائی مجبوری میں ھوا ھے۔ اگر میں ایسا نہ کرتی، تو یقین کرو، میرے ساتھ ساتھ تمھاری جان کو بھی خطرہ ھو سکتا تھا۔ اور وہ اس لئے، کہ میری ماں نے مجھ سے ساری بات بھی پوچھ لی تھی، اور ان کو یہ بھی پتہ چال چکا تھا، کہ شب بسری میں میری تنہایوں کے ساتھی، کوئی اور نہیں، تم ھو تم۔ میرے ماموں کے تعلّقات بہت اونچی سطح تک ھیں فیروز۔ اور میری ماں نے مجھے ڈھکے چھپے لفظوں میں بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔ میرے پاس ان سے تعاون کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا فیروز

میں نے اپنی ساری پوزیشن تم پر واضح کر دی ھے فیروز۔ اب میں تم سے کال کر کے پوچھوں گی، کہ کیا تم اب بھی مجھ سے نفرت کرتے ھو، یا تمھارے دل میں میرے لئے کوئی اور جذبہ بھی موجود ھے، جس کو ھمدردی کہتے ھیں۔ محبّت تو تم اب شائد مجھے نہ دے سکو۔ اور میں اب تمھاری محبّت لینے کے قابل بھی نہیں ھوں۔ لیکن اگر تم نے مجھے معاف کر دیا، تو یقین کرو، میرے دل ، اور میری روح دونوں کو قرار آ جائے گا فیروز۔
اچھّی طرح سوچ کر جواب دینا۔
فقط بد نصیب ، ، ، تمھاری عالی۔




12
میں عالی کی میل پڑھ کر کتنی ھی دیر تک کرسی پر ساکت و جامد بیٹھا رھا۔ سینے میں جیسے دھواں سا بھر گیا تھا۔ میری آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے تھے۔ یہ سچّ ھے کہ میں رویا نہیں تھا، مگر میرے اندر کی تکلیف بہت شدید تھی۔ آج مجھے پتہ چلا تھا، کہ عالی نے وہ سب کیوں کیا تھا میرے ساتھ ؟ اتنا تو مجھے ان دنوں میں بھی اندازہ تھا، کہ عالی نے جو بھی کیا تھا، کم از کم اپنی خوشی سے تو ھر گز ھر گز نہیں کیا تھا۔ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ رھی ھو گی، مگر وہ وجہ کیا تھی، اس بات کا پتہ مجھے آج پتہ چل سکا تھاتھا۔ اور وہ بھی عالی کی میل سے۔
کافی دیر اسی کرسی پر بیٹھنے کے بعد، میرے موبائل کی بیل نے مجھے خیالات کی دنیا سے باھر نکالا۔ میں نے سکرین پر نمبر دیکھا، وکی کی کال تھی۔ میں نے نمبر کاٹ دیا۔ چند منٹ بعد وکی میرے کمرے پر موجود تھا۔ میری حالت بہت عجیب ھو رھی تھی۔ وکی سمجھ چکا تھا، کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ھے۔ اس کے کریدنے پر میں نے اس کو میل کا بتا دیا۔
وکی نے مجھے مصنوعی جھاڑ پلاتے ھوئے کہا، کہ میں کب تک خود کو مجنوں ثابت کرتا رھوں گا۔ وکی کے غصّے کا انداز بھلے ھی مصنوعی تھا، مگر اس کے سمجھانے کا انداز مکمّل طور پر سنجیدہ تھا۔ ۔ ۔ میں نے اپنی آنکھوں کے بھیگے گوشوں کو انگلی سے صاف کیا، اور سیدھا ھو کر بیٹھا گیا۔ وکی کی بات واقعی غور طلب تھی۔ عالی کو گئے کافی وقت گزر چکا تھا، مگر یہ بھی سچّ تھا، کہ مجھے اپنے دل پر اختیار نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ اور اس سے بھی بڑا سچّ یہ تھا، کہ میرے دل کے نہاں خانوں میں، آج بھی عالی کی محبّت چھپی ھوئی تھی۔

میں عالی کو بھلا نہیں سکا تھا۔

وکی نے اس دن بھی مجھے کمپنی دی۔ اس کی کمپنی میں ، جلد ھی میں پر سکون ھو گیا۔
مگر مجھے اب عالی کی فون کال کا انتظار تھا۔

اگلے دن کا انتظار میرے لئے بے حد صبر آزما ثابت ھو رھا تھا۔ وقت تھا، کہ کٹنے کا نام ھی نہیں لے رھا تھا۔ آخر رات گزری، اور اگلے دن کی صبح بھی ھو ھی گئی۔ شام کے پانچ بجے تک اس کی کال نہیں آئی۔ اس دوران میں امّید و نا امّیدی کے درمیان لٹکا رھا۔
آخر پانچ بج کر کچھ منٹ پر اس کی کال آ ھی گئی۔
میں نے کال اٹینڈ کی، تو سلام دعا کے بعد، عالی نے کہا۔ " میں جانتی تھی، کہ تم میری میل بھی پڑھو گے، اور میری کال کا انتظار بھی کرو گے۔ سچّ بتانا فیروز۔ تمھیں میری کال کا انتظار تھا ناں ؟ "
جواب میں ، چند سیکنڈ کی خاموشی کے بعد ، میں نے اعتراف کر ھی لیا، کہ ھاں، مجھے اس کی کال کا شدّت سے انتظار تھا۔
اس پر عالی نے میرا بے حد شکریہ ادا کیا۔ اور مجھ سے پھر معذرت کرنے لگی۔ مگر میں نے اس کی بات درمیان میں ھی کاٹ دی، اور کہا، کہ اس کو بار بار معذرت کرنے کی ضرورت نہیں ھے، بلکہ ، ای میل میں اس نے جو بتایا، اس کے بعد، اس کو معذرت کرنے کی ضرورت ھی نہیں ھے۔ اس طرح کے حالات میں، ایک عورت اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی ھے۔
عالی نے ایک آدھ بات کے بعد ایک اور دھماکہ کر ڈالا تھا۔
" جانتے ھو فیروز۔ میں دو دن کے بعد پاکستان آ رھی ھوں۔ "

عالی کے الفاظ تھے یا کوئی جادو، میرے اندر جل تھل سا محسوس ھونے لگا تھا۔ مگر اگلے لمحے میری خوشی ماند پڑ گئی۔
عالی اب ایک شادی شدہ عورت تھی، اور اس کے ساتھ مجھے ملنے، اس کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعلّق رکھنے کا مجھے اب کوئی حق نہیں تھا۔
میں نے اس سے کہ دیا، کہ اب ھم نہیں مل سکتے۔

میری بات کے جواب میں عالی حیران رہ گئی۔ تاھم اس نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی۔ میں چاھتا تھا، کہ اب ھم نہ ملیں۔ عالی چاھتی تھی، کہ اب جب بھی وہ پاکستان آئے، تو میں ھر مرتبہ اس سے ضرور ملوں۔

آخر اس شرط پر میں عالی سے متّفق ھو گیا، کہ ھم ملیں گے ضرور، مگر یہ ھماری آخری ملاقات ھو گی۔
( میرے دل میں بھی یہ خواھش ضرور موجود تھی، کہ ، کم از کم ایک آخری بار تو عالی سے ملاقات ھونی چاھئے تھی۔ اور اب وہ خواھش پوری ھونے والی تھی۔ میں کمزور سے احتجاج کے بعد مان گیا تھا۔ )
عالی کے مطابق، اس کے شوھر عادل نےاسلام آباد آتے ھی اگلے دن مری میں اپنے ایک دوست کے پاس چلے جانا تھا۔ وھاں اس نے ایک دن اور ایک رات رکنا تھا۔ پنڈی میں جائیداد وغیرہ کے معاملات کے لئے ایک مشھور وکیل عالی کی مدد کے لئے انہوں نے پہلے ھی سے بک کر لیا تھا جو جائیداد کو بیچنے کے آخری مرحلے تک عالی کے ساتھ رھتا۔ عالی پاکستان میں اس لئے آ رھی تھی، کیونکہ وہ اپنی جائیداد وغیرہ بیچ باچ کر اپنی والدہ وغیرہ کو بھی ھمیشہ ھمیشہ کے لئے لندن میں ھی رکھنا چاھتی تھی۔ ( یہ عالی کی اور اس کے ماموں کی خواھش تھی۔ ) ویسے تو عالی کی والدہ ان دنوں بھی لندن میں ھی زیر علاج تھیں، مگر جائیداد کی دیکھ بھال کے لئے ان کو علاج کے بعد لازمی طور پر آخر کار پاکستان میں ھی آنا پڑتا۔ اور عالی کے ماموں چاھتے تھے، کہ وہ مستقل طور پر لندن میں ان کے پاس ھی رھیں۔ عالی کی والدہ بھی مان چکی تھیں۔ اور اسی لئے عالی پاکستان آ رھی تھی۔ پاکستان میں موجود تمام جائیداد عالی کے ھی نام تھی۔
یہ تمام تفصیل مجھے عالی نے بعد میں پاکستان میں ھونے والی ملاقات پر ھی بتائی تھی۔

عالی پاکستان آ چکی تھی۔

اس بات کا پتہ مجھے اس کے میسج سے چلا تھا۔

اب جونھی عالی کا شوھر مری کے لئے نکلتا، عالی مجھے بلا لیتی۔ عالی کی بہن بھی عالی کے ساتھ ھی آئی تھی، مگر اس کو سلا نا اب عالی کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ویسے بھی اب وہ شادی شدہ تھی، اور ھمارے تعلّق والی بات اب اس کے گھر والوں کے ذھن میں شائد موجود ھی نہ ھو۔

اگلے دن شام کو عالی نے مجھے میسج کر کے گھر پر بلا لیا۔
میں رات کے وقت عالی کے گھر پہنچا، تو میری حالت بہت عجیب ھو رھی تھی۔ ماضی کے تمام واقعات سارا رستہ میری آنکھوں میں گھوم رھے تھے، اور اب بھی جب میں اس کے گھر میں داخل ھونے والا تھا، میری آنکھیں جیسے ماضی میں ھی دیکھ رھی تھیں۔ دروازے کے کھلنے کی آواز سے میں ھوش میں واپس آ گیا۔ یقیناْ دروازہ عالی نے ھی کھولا تھا۔
میں اس کو دیکھ کر دم بخود رہ گیا۔ عالی اب پہلے جیسی حسین نہیں لگ رھی تھی۔ وہ کچھ کمزور بھی لگ رھی تھی۔
مگر میرے لئے تو اس کو سامنے دیکھنا ھی قیامت تھا۔ میں اس کو دیکھتا ھی رہ گیا تھا، شائد اتنے عرصے بعد سامنے ھونے کی وجہ سے میں اس کو سامنے پا کر اپنی آنکھوں پر یقین کھو بیٹھا تھا۔
عالی نے میرے لئے راستہ بنایا، اور میرا ھاتھ پکڑ کر مجھے اندر کھینچ لیا۔
ھم اب اس کے گھر کے اسی کمرے میں موجود تھے، جہاں اس کے ساتھ میں نے حسین لمحے گزارے تھے۔
کمرے میں آ کر میں نے اس کا بغور جائزہ لیا۔ اس کے چہرے پر پہلے والی شوخی اور زندگی کی چمک بھی نظر نہیں آ رھی تھی۔

" کیسے ھو فیروز ؟ " عالی نے سوال کیا تھا۔
" اچھّا ھوں۔ تم سناؤ۔ کیسا وقت گزر رھا ھے لندن میں ؟ " میرے جواب ، اور جواب کے بعد، میرے سوال کے جواب میں، وہ پھیکے انداز میں مسکرائی، اور بولی۔ " بس دیکھ لو، میں بھی زندہ ھوں۔ "
اس کی آواز کی چاشنی آج بھی اسی طرح سے برقرار تھی۔ مگر اس کے لہجے میں چھپے ھوئے حزن و ملال اور مایوسیوں کو میں نے محسوس کر لیا تھا۔
میری عالی یقیناْ بہت زیادہ دکھ اور پریشانی و محرومی کی زندگی گزار رھی تھی۔

ھم دونوں ھی کھڑے ھوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رھے تھے۔ ھم دونوں ھی ایک دوسرے سے جھجک رھے تھے۔ مگر آخر عالی نے ھی پہل کی، اور میری آنکھوں میں دیکھتے ھوئے ایک دم سے بھاگ کر میرے سینے سے لگ گئی۔

میرے سینے میں ٹھنڈک اتر گئی۔
آج اتنے عرصے بعد، عالی، میری جان میرے سینے سے آ کر لگی تھی۔ میں نے اس کے جسم کے گرد اپنے بازوؤں کا حلقہ بناتے ھوئے اس کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ اب ھم دونوں ھی ایک دوسرے سے سیراب ھو رھے تھے۔
میں نے اس کے چہرے کو اوپر کیا، اور اس کی آنکھوں میں دیکھا، وہ رو رھی تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں کے آنسوؤں پر اپنے ھونٹ رکھ دئے۔ جب میں اس کے آنسوؤں کو چن چکا، تو میں نے اس کے چہرے اور پھر اس کے ھونٹوں کو چومنا شروع کر دیا۔ میں اس کو بے تحاشا چوم رھا تھا۔ عالی کی تیز چلتی سانسیں اس کے اندر کی کیفیّت بیان کر رھی تھیں۔

میں نے عالی کو اس رات اتنا چوما، اتنا چوما، کہ عالی تڑپ تڑپ اٹھتی تھی۔ میں نے اس کے جسم کے بالائی حصّے کو چوم چوم کر سرخ کر دیا تھا۔

رفتہ رفتہ ھم دونوں ھی کپڑوں کی بندشوں سے آزاد ھو چکے تھے۔
عالی نے مجھے نیچے لٹا دیا، اور خود میرے اوپر آ کر بیٹ گئی۔ میں اس کے اس انداز کو سمجھتا تھا۔ یقیناْ وہ میرے لن پر خود اپنی مرضی کے مطابق سواری کرنا چاھتی تھی۔ میں مسکراتے ھوئے لیٹ گیا تھا۔ عالی نے اپنی ٹانگوں کو اکڑون رکھتے ھوئے میرے لن پر اپنی پھدّی سیٹ کی، اور ایک دم سے میرا لن اندر لے لیا۔ میرے اندر ایک کرنٹ سرائت کر گیا۔ عالی نے میرے لن کو اتنی جلدی اندر لے لیا تھا، کہ میں حیران رہ گیا تھا۔ عالی بے حد تیزی سے اچھل اچھل کر لن اندر باھر لے رھی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں، اور اس کے ممّے اس کے جمپوں کے ساتھ ھی اچھل رھے تھے۔ میں نے اس کے ممّوں کو پکڑ لیا اور نرمی سے مسلنا شروع کر دیا۔ عالی کی پھدّی مجھے مزہ دے رھی تھی، اور اس کی مستی بھری آوازیں میرے مزے کو دوبالا کر رھی تھیں۔
دس منٹ کے بعد، میں نے دیکھا، کہ عالی نڈھال ھو چکی تھی، اب وہ جھڑنے ھی والی تھی، چنانچہ میں نے اس کو نیچے لٹا دیا اور اوپر سے آ کر اس کی ٹانگوں کو کندھے پر رکھتے ھوئے جاندار سٹروکس لگانے شروع کر دئے۔ میرے یہ جاندار سٹروکس عالی کے لئے نئے ھر گز نہیں تھے، مگر عالی آج پہلے سے بھی زیادہ رسپانس دے رھی تھی۔ میں اس بات کو نوٹ کر چکا تھا۔ عالی ایک آدھ منٹ میں ھی جھڑ گئی۔ میں نے کچھ دیر رک کر اس کے ممّوں کو مسلنا جاری رکھتے ھوئے اس کی کسنگ سٹارٹ کر دی۔ عالی ایسے دیکھ رھی تھی، جیسے بہت لمبا سفر طے کر کے آئی ھو، اور بے تحاشہ تھکی ھوئی ھو۔ میں نے کچھ دیر بعد، پھر سے ردھم پکڑنا شروع کر دیا۔ چند منٹ کی چدائی کے بعد، عالی بھی مزے میں آنا شروع ھو گئی۔
عالی نے میرے جھٹکوں کو جواب دینا شروع کر دیا تھا۔ ھم دونوں ھی سیکس سے ملنے والے مزے کے عروج پر تھے۔ آخر عالی کے دوسری مرتبہ جھڑنے کے دو منٹ بعد ھی ، میں بھی اس کی پٌھدّی میں جھڑ گیا تھا۔
" عالی نے بعد میں مجھے اپنی بانھوں میں سمائے رکھّا، جیسے میں کہیں اس کو چھوڑ کر بھاگ نہ جاؤں۔ میں نے اس کے سینے پر پیار کرتے ھوئے پوچھا۔ " کیا بات ھے عالی جان، تم اتنی اداس کیوں ھو؟ "
عالی نے میری آنکھوں میں دیکھتے ھوئے کہا۔ " میں تم کو بھول نہیں پائی ھوں فیروز۔ خدا کی قسم ، میں بیوی چاھے عادل کی ھوں، مگر میرے دل میں آج بھی تم ھی تم ھو۔
"یقین کرو فیروز، میں جب سے لندن میں گئی ھوں، ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا، جب میں نے تم کو یاد نہ کیا ھو۔ " عالی بولتی چلی جا رھی تھی اور میں اس کے الفاظ سن کر ایک عجیب کیفیّت کا شکار ھو رھا تھا۔ عالی سے جدا ھونے کا غم، دوبارہ ملنے کی خوشی، اور اب چند دن بعد پھر سے عالی کے چلے جانے کا غم، یہ سب باتیں مل جل کر مجھے بیک وقت خوش بھی کر رھیں تھیں، اور میری اداسی بھی بڑھ رھی تھی۔
اچانک میرے ذہن میں ایک بار پھر سے عالی کا اداس چہرہ گھوم گیا، اور اب میں نے اس سے آخر پوچھ ھی لیا۔
"عالی ایک بات سچّ سچّ بتانا، ، ، کیا تم عادل کے ساتھ خوش ھو ؟ میرا مطلب ھے، عادل تمھارا کتنا خیال رکھتا ھے ؟ "
میرا اس سوال کے جواب میں عالی کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ وہ پھیکے سے انداز میں مسکرائی، اور بولی۔ " چھوڑو ناں فیروز، آج کی رات کیوں تم کسی اور موضوع پر بات کرتے ھو؟ آج کی رات تو ھماری ھے ، صرف ھماری۔ اس میں تم میرے شوھر کا ذکر کر کے کیوں رات کو خراب کرنا چاھتے ھو سویٹ ھارٹ ۔"
عالی نے بظاھر مجھے مسکراتے ھوئے ھلکے پھلکے انداز میں یہ بات کہی تھی، مگر میں اس کی بات کے پیچھے چھپے ھوئے اس کے دکھ کو محسوس کر سکتا تھا۔ مجھے صاف پتہ چل رھا تھا، کہ عالی مجھے ٹال رھی ھے۔ یقیناْ عالی کی شادی شدہ ندگی پر سکون نہیں تھی۔

عالی عادل کے ساتھ خوش ھر گز نہیں تھی۔

میں نے عالی کے چہرے پر اپنی نظریں گاڑ دیں، اور اپنا سوال دھرایا۔ اب کے بار عالی رہ نہ سکی، اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

گویا میرے اندازے درست تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

عالی نے جو تفصیل مجھے بتائی، اسے سن کر میرا دماغ گھوم گیا۔
عالی نے بتایا، کہ اس کا شوھر صرف نام کا مسملان ھے۔ اس کی تمام عادتیں گوروں والی ھیں۔ وہ شراب بھی خوب پیتا ھے، اور زناٴ تو اس کے نزدیک ایک عام کام ھے۔ وہ چونکہ لندن میں پل بڑھ کر جوان ھوا ھے، اس لئے وہ مکمّل طور پر ایک انگریز ھے۔ اور، " اس کے بعد، عالی اچانک رک گئی۔ میں نے محسوس کر لیا تھا، کہ وہ کچھ کہنا چاھتی تھی، مگر شرم کی وجہ سے رک گئی تھی۔ میں نے اسے بولنے پر اکسایا۔ میں جاننا چاھتا تھا، کہ عالی عادل کے ساتھ کس حد تک دکھی ھے۔ شاید میں نے اچانک ھی ایک فیصلہ کر لیا تھا۔
میرے اصرار پر عالی نے مجھے ایک انتہائی شرمناک بات بتائی۔ اس نے بتایا، کہ اس کے شوھر نے شادی کی پہلی رات ھی اس کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کرنا شروع کر دیا تھا۔ سیکس کے نام پر وہ اس کی تذلیل کرتا تھا۔ اور، اس نے عالی کو وہ کام کرنے پر مجبور کیا تھا، اور اب تک مجبور کرنے کی کوشش کرتا آ رھا تھا، جو عالی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ گوروں میں رھنے والے عادل کو معلوم نہیں تھا، کہ پاکستان کی عورت ابھی اتنی بھی ایڈوانس نہیں ھوئی، کہ اس طرح کے کام کو اتنی آسانی کے ساتھ قبول کر لے۔

عادل نے اسے اپنا لن چوسنے کے لئے کہا تھا۔ اور عالی کے انکار کے بعد، اس نے عالی پر تشدّد بھی بے انتہا کیا تھا، اور اس کے ساتھ زبردستی کرنے بھی کوشش کی تھی۔ جب اس نے دیکھا، کہ عالی کسی بھی طرح مان نہیں رھی، تو اس نے عالی کو سزا کے طور پر اس کے ساتھ سیکس کرنا ھی چھوڑ دیا۔ زائد وہ سمجھتا تھا، کہ عالی اس طرح سے مجبور ھو جائے گی، مگر عالی نے اس بات سے سکھ کا سانس لیا تھا۔ کم از کم اس خبیث سے جان چھوٹ گئی تھی۔ کیونکہ عادل نے اپنا بستر بھی الگ کر لیا تھا۔ لڑکیوں کی اس کو کمی نہیں تھی۔ اس کی کئی گرل فرینڈٍز تھیں، جن سے وہ اپنی جسمانی ضروریات پوری کرتا تھا۔
اب عادل گھر میں کم، اور گھر سے باھر زیادہ نظر آتا تھا۔ اس کے ماموں بھی اپنے کام کی وجہ سے اکثر گھر سے باھر رھتے تھے۔ گھر میں عالی کی ممانی تھیں، جو عالی سے زیادہ خوش نہیں تھیں۔ اس گھر میں عالی بے یارومددگار ھو کر رہ گئی تھی۔ ماموں کی مصروفیات ان کو عالی سے دور رکھتی تھیں۔ مگر عادل نے جب سے عالی کی جان چھوڑی تھی، عالی کسی قدر پر سکون ھو گئی تھی۔
مگر عالی کی یہ خوشی عارضی ثابت ھوئی تھی۔
عادل دو دن بعد ھی اس کے کمرے میں آن دھمکا تھا۔ عالی ڈر گئی تھی۔ عادل نے اس سے پھر وھی کام کرنے کو لئے کہا، جس سے عالی انکار کر چکی تھی۔
عالی نے پھر سے انکار کر دیا تھا۔
اب کی بار اس نے عالی کو اپنے بیلٹ سے مارا تھا۔اس نے عالی کو وحشیوں کی طرح مارا تھا۔ کمرے کی کنڈی لگا کر اس نے عالی کو مار مار کر ادھ موا کر کے چھوڑا تھا، اور جب عالی بے ھوش ھو گئی تھی، تب عادل اس کو کمرے میں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
عالی کے ماموں کو بھی ان کے جھگڑے کا پتہ چل چکا تھا، مگر ان کو لڑائی کی وجہ معلوم نہیں تھی۔ اس لئے انھوں نے عالی کو ھلکے پھلکے الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی، کہ عادل سے ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرے۔ عادل دل کا برا نہیں ھے وغیرہ وغیرہ۔ عالی شرم کے مارے اپنے ماموں سے کچھ بھی نہ کہ سکتی تھی۔

عالی کے الفاظ سن کر مجھے ایسے لگ رھا تھا، جیسے میرے تن دبن میں آگ لگ رھی ھو۔ میری عالی کو عادل اس طرح سے رکھ رھا تھا۔
" میں عادل کو چھوڑوں گا نہیں۔ "
میرے منۃ سے بآواز بلند نکلا تھا، عالی نے چونک کر میری طرف دیکھا، اور میرے منہ پر ھاتھ رکھ کر بولی، " نہیں فیروز۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گے، تم کو میری قسم ھے۔ "
عالی نے آج مجھے پہلی بار اپنی قسم دی تھی، اور وہ بھی ایسی بات پر، کہ میںنے دکھ سے اس کی طرف دیکھا۔ " مگر عالی؟؟؟؟؟؟؟؟ " میں نے کچھ کہنا چاھا، تو عالی نے مجھے چپ کرواتے ھوئے کہا تھا، کہ " آگے تو سنو۔ "
اور میں چپ ھو کر اس کی بات سننے لگا۔ اس نے بتایا کہ اس کے بعد، جب عادل کے ظلم حد سے زیادہ بڑھ گئے، تو اس نے ماموں کو سب کچھ بتا دیا۔ مگر اس کام کے لئے اس نے کال کا سہارا لیا تھا۔ اس کے ماموں ھکّا بکّا رہ گئے تھے۔ جوان بیٹے کی ذھنی حالت تو وہ جانتے ھی تھے، مگر اپنے مطالبے کے لئے وہ اس حد تک تشدؤد کا سہارا لے رھا تھا، یہ ان کے لئے بے حد تکلیف دہ بات تھی۔
عادل کے باپ نے اسی شام عادل ک کلاس لے لی تھی۔ عادل اپنے باپ کا بے حد احترام کرتا تھا۔ اس کے باپ نے اس سے پتہ نہیں کیا کھہا تھا، مگر اس شام کے بعد، عادل کا رویّہ عالی کے ساتھ بہتر ھو گیا تھا۔ عالی نے سکھ کی سانس لی تھی۔ عادل اب اپنے مطالبے سے بھی دست بردار ھو گیا تھا۔ سیکس البتّہ وہ کم ھی کرتا تھا۔ اس ک بعد عالینے مجھے مخاطب کرتے ھوئے کہا۔
" فیروز۔ میں نے عادل سے شادی صرف اپنی ماں کی خاطر کی ھے۔ "
" لیکن اب تم کو عادل کے مزید ظلم سہنے کی کوئی ضرورت نہیں ھے عالی۔ عادل آتا ھے، تو اس سے بات کر لینا، اور طلاق لے لینا۔ اب تم اس کے ساتھ مزید نہیں رہو گی۔ " پھر میں نے عالی کو دیکھتے ھوئے کہا۔ " میں تم سے شادی کروں گا عالی۔ بولو، کیا تم میرا ساتھ دو گی "
عالی سٹپٹا گئی تھی۔ اسے ایک دم سے مجھ سے ایسے جواب کی توقّع ھر گز نہیں تھی۔
میں ے سنجیدگی سے اس سے یہ بات کی تھی۔ مگر اس نے مجھے انکار کر دیا۔
میں نے وجہ پوچھی، تو اس نے کہا۔ کہ اس کی والدہ کی زندگی خطرے میںتھی۔ اس ے ماموں نے ھی ان کا علاج کروایا ھے، اور ابھی تک کروا رھے ھیں۔ اس حالت میں وہ ماموں کو دھوکا نہیں دے دکتی ھے۔
میں نے بہت کوشش کی، کہ عالی مان جائے، مگر اس نے مجھے پھر سے اپنی قسم دے کر اس بات کو دھرانے سے منع کر دیا۔

میں سمجھ گیا، کہ وہ ماموں کے احسانات کے بدلے میں اپنی زندگی کی خوشیاں قربان کر رھی تھی۔

عادل کے ساتھ رہنے کے باوجود بھی وہ ازدواجی خوشیوں سے محروم زندگی گزار رھی تھی۔ اس نے کہا۔
" میںخوش ھوں فیروز۔ بس ایک می سی ھے، کہ تم نہیں ملے۔ لیکن اس کے لئے، میں اپنی ماں کی قربانی کی متحمّل نہیں ھو سکتی عادل۔ امّی دل کی مریضہ ھیں۔ وہ یہ صدمہ سہ نہیں پائیں گی فیروز۔ زندگی ھی گزارنی ھے ناں، گزار لوں گی۔ تم سے آج کی رات میری زندگی کا حاصل ھے فیروز۔ اب مجھے زندگی سے کوئی گلہ نہیںھے۔ کیونکہ تم مجھ سے اب ناراض نہیں رھے۔ "
میں اس کو حیرانی سے دیکھ رھا تھا۔
اس کے بعد عالی نے مجھے پھر سے سٹارٹ کر لیا۔ ھم دونوں نے اس رات تین بار سیکس کیا۔ ھر دفعہ پہلے سے زیادہ مزہ آتا تھا۔ عالی نے بھر پور انجوائے کیا تھا۔ میں نے بھی اس کو خوب مزہ دیا۔
عالی نے صبح مجھے روتے ھوئے خدا حافظ کہا تھا۔ میں بھی بڑی مشکل سے اپنے دل پر قابو پاتے ھوئے وہاں سے نکلا تھا۔ ایک شکستہ دل آدمی کی طرح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

صبح کا اجالا ھر طرف پھیل رھا تھا، مگر مجھے ایسے لگ رھا تھا، گویا ھر طرف اندھیرا ھی اندھیرا چھا رھا تھا۔

اگلے چند دن عالی اسلام آباد میں ھی رھی،مگر اس کا شوھر واپس آ گیا تھا،اس لئے میرا اس سے ملنا ممکن نہیں تھا۔ جتنے دن وہ اسلام آباد رھی، ھم موبائل کے ذریعے رابطے میں رھے۔
جس دن اس کی فلائٹ تھی، میں بھی ائر پورٹ پر موجود تھا۔ میں نے اسے دیکھا تھا، مگر وہ مجھے نہیں دیکھ سکی تھی۔ میں نے اسے بتایا ھی نہیں تھا، کہ میں صرف اس کو رخصت کرنے کے لئے ائر پورٹ پر آیا ھوا ھوں۔
جہاز نے وقت پر اڑان بھر لی تھی۔ جب جہاز فضا میں بلند ھوا تھا، تو مجھے ایسے محسوس ھوا، گویا جہاز اپنے ساتھ میری تمام خوشیاں بھی لے کر اڑ گیا تھا۔

عالی سے اب کی بار میں ھمیشہ ھمیشہ کے لئے جدا ھو چکا تھا۔

ختم شد ۔ ۔ ۔ ۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "دلدار صدقے "