Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

دل کی رانی

 



دوستو! یہ ایک بالکل سچا واقعہ ہے جو میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔میری عمر کوئی 14، 15 سال کے قریب تھی۔میں نے نئے نئے نہم جماعت کے پیپر دیے تھے اور چھٹیاں گزار رہا تھا۔ ہمارے گھر میں ایک خادمہ کام کرتی تھی جس کی عمر 13 سال سے زیادہ نہیں تھی۔ مکمل گوری چٹی، نیلی آنکھیں۔ بہت خوبصورت تھی۔ میں کئی دنوں سے اُس کی تاک میں تھا۔ اُس کو ہمارے گھر میں کام کرتے 6 ماہ تو ہو چکے تھے۔ا ِس دوران اُس کو گھور گھور کر دیکھنا اُس کے بدن کا نظارہ کر کے اپنی آنکھوں کو سیراب کرنا میرا معمول رہتا تھا۔میں ہر وقت اُس کی تاک میں رہتا۔

جب وہ جھک کر جھاڑو دیتی تو میں اپنی نظریں اُس کی قمیض کے اندر گاڑ دیتا جہاں سے اُس کے نئے بننے والے چھوٹے چھوٹے اُبھار نظر آ رہے ہوتے تھے۔ جب کبھی فرش دھونا ہوتا تو میری موجیں لگ جاتیں۔ میں ایک کمرے میں چھپ کر کھڑکی سے اُسے دیکھا کرتا تھا۔ امی اپنے کام میں مصروف ہوتی تھیں۔ گھر میں اور کوئی نہیں ہوتا تھا سارا دن۔ ابو اور باقی بھائی دوپہر کو آتے تھے۔ جب فرش دھو رہی ہوتی تھی تو قمیض کو بھیگنے سے بچانے کیلئے وہ اپنی کمر کے گرد اڑس لیتی۔ میں ناول لے کر اُس کھڑکی والے کمرے میں چلا جاتا۔ امی سمجھتی کہ میں ناول پڑھ رہا ہوں لیکن میں تو اُس کے حسن کا نظارہ کر رہا ہوتا تھا۔

جب وہ قمیض اپنی کمر کے گرد اڑس لیتی تو اُس کے چوتڑوں کے گرد صرف ایک باریک سا شلوار کا کپڑا ہی رہ جاتا جو گیلا ہونے کی وجہ سے اُس کے جسم سے چپک سا جاتا۔ وہ بیٹھ کر ہی سارے فرش کو دھوتی اور میں اُس کا نطارہ کرتا رہتا۔ میں نے اُن دنوں نئی نئی مٹھ لگانی سٹارٹ کی تھی۔ اب میں اُس کے بارے میں سپنے سوچتا رہتا۔ میں سوچتا تھا کہ اُس اپنے بانہوں میں بھر کر خوب پیار کروں۔

میرا اُس سے ہنسی مذاق تو چلتا ہی رہتا تھا۔ اِس بات کو امی بھی اتنا برا نہیں لیتی تھی۔ اُس کا نام سعدیہ تھا اور وہ ہمارے گھر میں ہی رہتی تھی۔ اُن دنوں میرے پاس کچھ لرکے پڑھنے بھی آیا کرتے تھے کیونکہ میں نہم جماعت کا ٹاپر تھا۔ مجھے وہ اکثر استاد جی کہہ کر بلایا کرتی اور مجھے برا اچھا لگتا۔ جب وہ مجھے کھانا لا کر دیتی تو میں اُس پر فقرے کسا کرتا ۔ مثلاً جب کھانا بنانا نہیں آتا تو کیوں بناتی ہو۔۔۔ بھئی آج تو یہ روٹی کھلا کر مجھے مارنے کا ارادہ ہے۔ اُسے بھی پتا ہوتا تھا کہ میں ایسے ہی چھیڑ رہا ہوں۔ وہ بھی بڑے کرارے کرارے جواب دیتی۔ کیا کاہلوں کی طرح یہاں پڑے رہتے ہو۔ کھا لیا پی لیا اور سو گئے۔ کوئی کام دھندا ہے کہ نہیں۔ دانش نہ کام نہ کاج بس دشمن اناج کا۔ میں تلملا کر رہ جاتا۔

خیر اِسی طرح دن گزرتے گئے۔ مجھے اُس کی یہ نوک جھوک اچھی لگتی تھی۔ ہمارے گھر کہ سارے کام وہی کرتی تھی۔ ہم نے اُسے کبھی خادمہ نہیں سمجھا تھا بلکہ گھر کا ایک فرد ہی سمجھا ہوا تھا اور اُس کی سب ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے۔پھر ایک دن جب وہ مجھے پانی کا گلاس پکڑا رہی تھی اُس کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ گیا اور پانی مجھے پر آ گرا۔ میں نے کہا ٹھہر جا سعدیہ کی بچی۔ میں اُس کے پیچھے بھاگا ۔ اتفاق سے امی ہمسایوں کے گھر گئی ہوئی تھی۔ وہ ہنستی ہوئی چھت پر چڑھ گئی۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے گیا اور اس پر پانی کا لوٹا بھر کر پھینکا۔ جس میں سے کچھ اس پر گرا اور کچھ نیچے ۔ اُس کا سینہ بھیگ گیا اور قمیص جسم سے چپک گئی اور اس کے سینے کے چھوٹے چھوٹے اُبھار نمایاں ہو گئے۔ میں تو پلکیں جھپکانا بھول گیا۔ سعدیہ میری محویت دیکھ کر چونکی اور شرماتے ہوئے بھاگ گئی۔

میں نے دیکھا تو میرے عضو میں بھی تناؤ تھا۔ میں کچھ شرمندہ ہوا اور کچھ محظوظ بھی ہوا۔ پھر اسی طرح ہماری نوک جھوک چلتی رہتی۔ اب مجھے لگتا تھا کہ جیسے میرے دل میں اُس کیلئے کچھ ہے۔ ہوس سے ہٹ کر بھی شاید وہ مجھے اچھی لگنے لگی تھی۔ اُس کا گورا چہرہ۔ اُس کی نیلی آنکھیں اور اُس کے پتلے ہونٹ۔ میں اکثر اُس کے بارے سوچتا رہتا۔ اب ہماری نوک جھونک باتوں سے بڑھ کر ہاتھوں تک آ چکی تھی۔ میں اکثر اُسے چپت لگا دیتا اور کبھی وہ میرے سر پر یا کمر پر ایک ہاتھ لگا دیتی مگر یہ سب ہم چھپ کر ہی کرتے تھے۔

پھر ایک دن امی ہمسایوں کے گھر گئی ہوئی تھی۔ اُن کو کوئی کام تھا۔ مجھے پتا تھا کہ اب وہ دیر سے آئیں گی۔ اُن کے جاتے ہی میں نے دروازہ بند کیا کیونکہ ویسے بھی یہ ہمارا معمول تھا کہ ہم ہر وقت دروازاہ بند ہی رکھا کرتے تھے۔میں نے دیکھا کہ سعدیہ فرش دھونے میں مصروف تھی۔ مجھے شرارت سوجھی۔ میں نے جا کر پائپ کا وال بند کر دیا۔ اور جب اُس نے بے اختیار پائپ کو اپنے منہ کے سامنے کیا اور دیکھنے لگی کہ کیا مسئلہ ہوا ہے تو میں نے یکدم والو آن کر دیا۔ پانی پریشر سے نکلا اور سیدھا اُ س کے چہرے سے ٹکرایا۔اور کچھ اُس کے کپڑے بھگو گیا۔ میں قہقے لگا کر ہنسنے لگا۔ وہ میری طرف دانت پیس کر دیکھنے لگی۔ میں اُس کے ری ایکشن کا انتظار کرنے لگا۔ اُس نے غصے سے پائپ کا رخ میری طرف کر دیا اور میں سوچ رہا تھا کہ وہ میری طرف دوڑے گی پر اُس نے تو اڈھ بیٹھے بیٹھے ہی کام دکھا دیا۔

میرے کپڑے بھیگ گئے۔ میں نے پانی بند کیا اور اُس کی طرف بھاگا۔ میں بولا : سعدیہ کی بچی آج نہیں چھوڑوں گا۔ وہ بھی آگے آگے بھاگی اور ایک کمرے میں داخل ہو گئی۔ میں بھی اُس کے پیچھے داخل ہو گیا۔ اب وہ پھنس گئی۔ وہ وہیں رکی ہوئی تھی جب میں پیچھے سے بھاگتا ہوا آیا اور اُس سے جا ٹکرایا اور اسے لیتا ہوا بیڈ پر جا گرا۔ اِس اچانک افتاد پر ہم دونوں بوکھلا گئے۔ وہ میرے نیچے پڑی تھی اور میں اوپر۔ دو بھیگے بدن۔ جوانی سے بھرپور بدن جب ساتھ ہوں تو جذبات میں کیا طلاطم آیا ہو گا اِس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔

بہرحال کوئی پانچ دس سیکنڈ بعد حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ میں اُس کے اوپر تقریباً ڈھے چکا تھا۔ وہ نیچے کسما رہی تھی۔ اُس کی نومولود چھاتیاں میرے سینے تلے دبی تھیں۔ میرا چہرہ اُس کے چہرے سے صرف چند انچ کی دوری پر تھا۔ میرے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی۔ اپنے نیچے میں اُس کی سانسوں میں تیزی بھی محسوس کر سکتا تھا۔ وہ نیچے سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی پر نہ نکل پائی۔ مجھے لگا کہ وہ اب کسی بھی لمحے رو دے گی۔ میں فوراً پیچھے ہٹ گیا اور بولا : سوری۔ یہ کہ کر میں باہر نکل گیا۔

اِس واقعے کے بعد کئی دن ہم میں کوئی خاص بات نہ ہو سکی۔ وہ مجھ سے دور دور رہتی۔ میں بھی اس سے کترانے کی کوشش کرتا رہتا لیکن کب تک۔ ایک دن ایک شادی پر سب نے جانا تھا۔ میرے ابو اور بھائی کو لے کر چلے گئے۔ پیچھے میں ، میری امی اور وہ رہ گئے۔ پھر میری امی کو اُن کی ایک کزن لینے آ گئیں اور وہ اُن کے ساتھ چلی گئیں۔ جاتے ہوئے مجھ سے کہ گئیں کہ سعدیہ کو اُس کے گھر چھوڑ کر تم بھی آجانا۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہو رہا تھا اور بولا ٹھیک ہے۔ امی چلی گئیں۔ اب گھر میں صرف میں اور سعدیہ تھے۔ سعدیہ کچھ برتن دھو رہی تھی۔ میں اُس کے پاس گیا اور اُسے غور سے دیکھنے لگا۔

مجھے یوں دیکھتے ہوئے وہ شرما گئی اور اپنا پلو درست کرنے لگی۔میں نے کہا: ناراض ہو؟ مجھ سے؟ بولی: نہیں۔ میں کیوں ناراض ہوں گی۔ میں نے کہا: مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ وہ بولی: نہیں جی ایسی کوئی بات نہیں ۔ میں نے کہا : چھوڑو یہ کام شام ۔ آؤ تھوڑی دیر باتیں کریں۔ وہ بولی : نہیں جی۔ باجی آ کر غصے ہوں گی۔ میں کام ختم کر کے ہی اٹھوں گی۔ میں نے کہا : چلو ٹھیک ہے پھر میں بھی تمھاری مدد کرتا ہوں۔ میں بھی اُس کے پاس بیٹھ گیا اور اُس کی مدد کرنے لگا ۔ وہ مجھے منع کرتی رہی پر میں نہ رکا۔

جلد ہی کام ختم ہو گیا۔ وہ بولی : اب مجھے گھر چھوڑ آئیں۔میں نے کہا: اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ کچھ دیر باتیں تو کر لو۔ بولی : کیا بات کرنی ہے۔ میں نے اُسے پکڑ کر صوفے پر بٹھایا اور خود بھی اُس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا اور بولا: کیا تم کو میں اچھا نہیں لگتا؟ بولی: لگتے ہیں جی۔ بہت اچھے لگتے ہیں۔ میں نے کہا: پھر مجھ سے دور کیوں بھاگتی ہو۔ وہ بولی: وہ اُس دن مجھے بڑا عجیب سا لگا تھا۔ ساری رات مجھے نیند نہی آئی۔ میں نہیں چاہتی دوبارہ ویسا ہو۔ میں نے اُس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اُسے سہلاتے ہوا بولا: وہ کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں تھی۔
میں نے جیسے ہی اُس کے ہاتھ کو سہلانا شروع کیا اُس کی بے چینی بڑھنے لگی۔میں نے کہا: سعدیہ تم بہت خوبصورت ہو۔ وپ شرمانے لگی۔ پھر ہم اِدھ اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ اُسے کیا کیا اچھا لگتا ہے۔ اُس کی پسند ناپسند وغیرہ۔ وہ بھی مجھ سے باتیں کر رہی تھی اور اب کچھ ریلکیس تھی۔ شادی کا ٹائم چار بجے کا تھا۔ ابھی 12 بجے تھے۔ میرے پاس بہت ٹائم تھا۔ میں نے کہا : سعدیہ اتنا کام کر کے تم تھکتی نہیں ہو۔ بولی: تھک تو جاتی ہوں پر کیا کروں ۔ کام کرنا بھی تو ضروری ہے۔ میں نے کہا: ہاں وہ بات توٹھیک ہے۔کیا آج بھی تھکاوٹ ہے تمھیں۔ بولی : ہاں کچھ کچھ۔ میں نے کہا : آؤ میں تمھیں دبا دیتا ہوں۔

بولی: نہیں جی ۔ کوئی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی مجھے آپ سے شرم آتی ہے۔ میں بولا: اوہ یار۔۔ کیسی باتیں کرتی ہو۔ کیا میں تمھارا دوست نہیں؟ ویسے بھی اب گھر میں اور کون ہے۔ وہ بولی : نہیں جی۔ مجھے شرم آتی ہے۔ میں نے کہا : وعدہ میں آنکھیں بند کر کے دباؤں گا۔ اور جہاں تم کہو گی صرف وہاں۔ وہ منع کرتی رہی لیکن میں نے اُسے لا کر بیڈ پر لٹا دیا اور خود اُس کو دبانے لگا۔ وہ بیڈ پر الٹی لیٹی ہوئی تھی۔ میں اُس کی کمر پر بیٹھ کر اُس کے کندھے دبا رہا تھا اور میں نے اپنا وزن بیڈ پر ڈالا ہوا تھا تاکہ اُسے کوئی تکلیف نہ ہو۔ پہلے تو وہ کسماتی رہی ۔ برے برے ایکشن بناتی رہی ۔ پھر آخر کار اُسے بھی سکون آنے لگا۔ ہلکی ہلکی سرور بھری کراہیں اُس کے منہ سے نکلنے لگیں۔
میں اُس کے کندھے دبا رہا تھا۔ اُس کا دوپٹا جو اُس نے ابھی تک اپنے کندھوں اور سر پر لے رکھا تھا بار بار میری راہ میں آ رہا تھا۔ میں نے اُسے بھی نکال کر سائیڈ پر رکھ دیا۔ اب اُس کے گورے کندھے، صراحی دار خوبصورت گردن عریا ں تھی۔ جب میں نے اُس کے کندھوں کو مسلا تو اُس کی سسکاری نکل گئی۔ میں نے پوچھا: کیا ہوا؟ کیا درد ہو رہی ہے؟ بولی: نہیں دانش جی ۔ مزہ آرہا ہے۔ ہم ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے۔ میں نے کہا تمھیں پتا ہے شادی کیوں ہوتی ہے؟ بولی : ہاں۔ میں نے کہا: پھر بتاؤ۔ بولی : شادی ہوتی ہے تاکہ بچے پیدا ہو سکیں۔ میں تھوڑا حیران ہوا۔ میں نے کہا : تمھیں یہ سب کیسے پتا؟۔ بولی: بس وہ میر ی سہلیاں بات کر رہی تھیں۔ اُن سے سنا تھا۔ میں نے کہا : اچھا کیا سُنا۔ بولی : میں نہیں بتاتی ۔ مجھے شرم آتی ہے۔ میں نے کہا : پلیز بتاؤ نا۔۔ ساتھ ساتھ میں اُ س کے کندھوں کو بھی دبا رہا تھا۔ بولی: بس وہ سہیلی کہ رہی تھی کہ شادی کے بعد میا ں بیوی ملتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد جب ایک دن وہ سو کر اٹھتے ہیں تو اُن کے پاس ایک بچہ لیٹا ہوتا ہے۔ میں اُس کے معصومانہ جواب پر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

وہ مجھ سے روٹھ گئی اور بولی : میں نہیں بولتی آپ سے ۔ آپ میرا مذاق اُڑاتے ہیں۔ میں نے کہا: ارے نہیں نہیں۔ میں تو بس ایسے ہی ہنس دیا۔ پھر میں نے کہا : ایک بات پوچھوں ؟ برا تو نہی مناؤ گی۔ بولی: نہیں مناؤ گی ۔ پوچھو۔ تمھیں کبھی کوئی لڑکا اچھا نہیں لگتا؟ جس کیلئے تمھارا دل دھڑکے۔ جسے تم چاہو۔ بولی: نہیں ۔ کبھی کچھ خاص تو نہیں ہوا۔ میں نے کہا : اچھا اب تم کوئی سوال پوچھو۔ وہ بولی: آپ کو کوئی لڑکی اچھی نہیں لگی؟ میں بولا : اگر میں نے جواب دیا تو شاید تمہیں یقین نہ آئے۔ وہ بولی: نہیں آ جائے گا۔ آپ بتاؤ۔ میں نے کہا : مجھے جو لڑکی اب تک سب سے اچھی لگی ہے وہ تم ہو۔

"کیا؟؟؟" حیرت سے اُس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ میں نے کہا ہاں۔ اب وہ شرمانے لگی۔ اور میں جو بڑے آرام سے اُسے دبا رہا تھا وہ چکنی مچھلی کی طرح سے میرے نیچے سے نکل گئی۔ میں نے کہا : کیا ہوا۔ بولی کچھ نہیں۔ وہ اب کہہ رہی تھی کہ آپ مجھے گھر چھوڑ آئیں۔ میں نے کہا : پلیز کتنے عرصے بعد تو موقع ملا ہے ہمیں کچھ باتیں کرنے کا۔ وہ بولی: آپ بڑی عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ مجھے شرم آتی ہے۔ میں نے اُسے اپنے ساتھ بٹھا لیا اور اُس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے بولا: تو اِس میں اتنا عجیب کیا ہے۔ تم ہو ہی اتنی اچھی۔ تمھاری خوبصورت ادائیں مجھے گھائل کر دیتی ہیں۔ تمھارے لمبے بال۔ تمھاری نیلی آنکھیں۔ تمھارے لال گورے رخسار اور تمھارے نازک ہونٹ۔ سچ پوچھو تو مجھے کچھ ہوتا جا رہا ہے۔ اپنی تعریف سے وہ شرم سے گلنار ہوئی جا رہی تھی۔

میں اُس کے ہاتھ کو سہلاتا سہلاتا اب اُسے اپنے ساتھ لگا لیا اور بے اختیا ر اُسے چومنے لگا۔ اُس کے ماتھے کو چوما اُس کے بالوں کو۔ اُس کی پیشانی کو۔ میری اس حرکت سے وہ بوکھلا گئی۔ کچھ دیر تو وہ سمجھ ہی نہ پائی کہ کیا ہو گیا۔ اُس کی سانسوں میں بھونچال آگیا۔ نئی نئی جوانی آ رہی تھی۔ میں تب تک اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں پر رکھ چکا تھا۔ اگرچہ یہ ہم دونوں کیلئے یہ ایک بالکل منفرد تجربہ تھا۔ لیکن میں پہلے فلموں میں سب کچھ دیکھ چکا تھا لیکن اُس کیلئے یہ سب نیا تھا۔ بہرحال میں نے اُس کے ہونٹوں کو چومنا شروع کر دیا۔ اُس نے اپنے آپ کو چھڑانے کی گرفت کی۔ اپنے ہاتھے میرے منہ کی طرف لائی پر میں نے اُس کے ہاتھ پکڑ لیے۔

اب میں مسلسل اُس کے ہونٹ چومے جا رہا تھا۔ کبھی ایک ہونٹ کو کبھی دوسرے ہونٹ کو۔ اُس نے اپنا منہ بند کر رکھا تھا۔ میری مسلسل دستک سے تنگ آ کر اُس نے اپنا منہ تھوڑا سا کھولا ہی تھا کہ میں نے فوراً اپنی زبان اند گھسا دی جو اُس کے رسیلے منہ کی سیر کرنے لگی۔ ہماری زبانیں ٹکرائیں۔ یوں لگا جیسے جسم میں کوئی کرنٹ سا دوڑ گیا ہو۔ کچھ دیر بعد سعدیہ کی مزاحمت دم توؑڑتی گئی۔ اُس نے اپنے ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیے۔ میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اُس کے جسم کے باقی نازک حصوں پر اپنا ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔

اب وہ بھی میرا ساتھ دے رہی تھی۔میں اُس کی زبان سے کھیل رہا تھا اور وہ میری۔ اُس کی دل کی دھڑکن بہت تیزہو چکی تھی۔ میرا بھی یہ پہلے تجربہ تھا اِس لیے کافی نروس ہو رہا تھا اور بڑا عجیب سا مزہ آ رہا تھا۔ بہرحال ہم اِسی طرح کسنگ کرتے رہے۔ میں اپنے ہاتھوں سے اُس کے گداز جسم کو دباتا رہا۔ پھر میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً اُس کے ہاتھوں کو اوپر کر کے اُس کی قمیض اتار دی۔ اُسے تب ہوش آیا جب وہ اوپر سے بالکل ننگی ہو گئی ۔ وہ اپنا اوپری بدن چھپانے کی کوشش کرنے لگی لیکن اب یہ ممکن نہیں تھا۔ اُس نے برا وغیرہ نہیں پہن رکھا تھا کیوں کہ ابھی اُس کے بوبز بالکل چھوٹے تھے۔ نپلز نکل رہے تھے ۔ ابھاروں کو میں ابھی ایک جھلک ہی دیکھ پایا تھا کہ اُس نے اپنے ہاتھوں سے اُنہیں ڈھانپ دیا اور شرمانے لگی۔ میں نے آرام سےاُس کے ہاتھوں کو ہٹایا۔
واہ کیا نظارہ تھا۔ میرا عضو تو تناؤ سے پھٹنے کے قریب ہو گیا۔ گورا گورا بدن۔ اُس پر چھوٹے چھوٹے نئے بنتے ابھار۔


شاید اِس سے بھی چھوٹے ہوں گے۔ میں نے اُنہیں پکڑ لیا۔ اُس کے منہ سے سسکاری نکل گئی۔ میں اُنہیں منہ میں لینے لگا تو مجھے پسینے کی بو آئی۔کیونکہ وہ مسلسل کام کرتی رہی تھی۔ میں نے کہا : تم نہاتی نہیں ہو کیا۔ اُس نے شرماتے ہوئے کہا نہاتی تو ہوں ۔ پر اب گھر جا کر ہی نہاؤں گی۔

میں نے کہا : آؤ آج میں تمھیں نہلاؤں گا۔ بولی: نہیں نہیں۔ میں نہیں نہاؤں گی۔ میں نے اُس کی ایک نہ سنی ۔ اُس کے ہاتھ سے پکڑ کر اُسے باتھ روم میں لے گیا۔وہاں جا کر میں نے اُس کی شلوار بھی اتار دی۔ اُس نے کچھ مزاحمت کی پر اب اُس کی مزاحمت میں وہ دم خم نہیں رہا تھا۔ نیچے اُس نے ایک پینٹی پہن رکھی تھی۔میں نے کہا یہ کیوں؟ کہنے لگی: وہ کبھی کبھی اِس میں سے خون آنے لگتا ہے تو امی نے دی تھی کہ ہر وقت پہنے رکھا کروں۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور وہ بھی اُتار دی۔ واہ کیا زبردست فرج (چوت)تھی۔ اُس پر ہلکے ہلکے بال تھے۔
میں نے کہا : تم یہ بال نہیں صاف کرتی ہو؟ کہنے لگی وہ امی نے کہا ہے کہ کچھ بڑے ہو جائیں تو پھر صاف کرنا۔ میں نے کہا : یہ کیا بات ہوئی ؟ کیا تم نے اپنی امی کو یہ بھی دکھائے تھے۔ کہنے لگی:کہ نہیں ۔ انہوں نے ویسے ہی پوچھا تھا۔ میں نے کہا: چلو ! آج میں اپنی رانی کو بال صاف کرنا سکھاتا ہوں۔ میں نے وہاں پڑی ایک ہئیر ریموور کریم لی ۔ اُس کو ایک کرسی پر بٹھایا اور اُس کی ٹانگیں کھول دیں۔ اُس کی ٹانگیں کھول کر کچھ دیر تو میں اُس کی چوت کا جائزہ لیتا رہا۔ پھر میں نے اُس پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔
اُس نے پھر ایک سسکاری لی اور اُس کا جسم کانپ سا گیا۔ میں نے اچھی طرح اُس کی چوت کے بالوں پر کافی ساری کریم لگا دی۔ ساتھ ساتھ اُس کی بغلوں پر بھی کریم لگا دی۔ وہاں بھی چند ایک بال موجود تھے۔ جب بغلوں پر کریم لگا رہا تھا تو اُسے گدگدی ہو رہی تھی اور وہ ہنسنے لگی۔

مجھے بھی مزہ آ رہا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے آج کیلئے میں اُس کا خادم تھا۔ میں نے کریم لگا کر اب کچھ دیر انتظار کرنا تھا۔ اب میں اُس کے جسم پر پانی پھینکنا چاہتا تھا تاکہ صابن لگا سکوں۔پر اگر ایسا کرتا تو میرے کپڑے بھی گیلے ہو جاتے۔ میں نے کچھ دیر سوچا اور پھر اپنی شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔ ابھی دو بٹن ہی کھولے تھے کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ میں یکدم بوکھلا گیا۔ سعدیہ بھی بہت ڈر گئی۔ پھر مجھے ہوش آیا۔ میں نے اُسے دلاسا دیا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ ایسے ہی کوئی ہو گا کیونکہ کسی اور کے آنے کا تو کوئی چانس ہی نہیں تھا۔ میں نے سعدیہ کو وہیں رکنے کا کہا۔باتھ روم کا دروازہ ساتھ لگا دیا اپنی شرٹ کے بٹن بند کیے اور دروازے کی طرف چل دیا۔

دروازی کھولا تو دیکھا کہ میرے چاچو تھے۔ وہ اندر آگئے۔ میں بہت ڈر گیا تھا۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ لاہور جا رہے تھے۔ یہاں سے گزرے تو سوچا کہ ہم سے ملتے جائیں۔ ساتھ اُن کو قضائے حاجت بھی محسوس ہو رہی تھی۔وہ باتھ روم کی طرف بڑھے ۔ میری دل بلیوں اچھلنے لگا۔ ایک عجیب خوف نے جکڑ لیا۔ ہر لمحہ وہ باتھ روم سے قریب ہو رہے تھے اور میں کنگ کھڑا تھا۔ میرا دماغ سوچ کے گھوڑے دوڑا رہا تھا۔پر ایسی صورت میں دماغ مشکل ہی کام آتا ہے۔مجھے آج لگ رہا تھا کہ بس آج تو گئے کام سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاچو واش روم کی طرف بڑھ رہے تھے جہاں سعدیہ برہنہ حالت میں موجود تھی ۔ میری حالت وہی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں۔ اچانک جیسے کوئی لہر سی کوندی۔ میرے دماغ میں خیال آیا۔ میں نے آواز دی: چاچو یہ والا واش روم تو خراب ہے۔ وہ میری طرف پلٹے ۔ بولے : خراب ہے؟ اِسے کیا ہوا۔ میں نے کہا: پتا نہیں پانی کی سپلائی میں مسئلہ آ رہا ہے۔ آپ چھت والا استعمال کر لیں ۔ آئیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔ اُن کو جلدی تھی اِس لیے وہ فوراً میرے ساتھ چل دیے اور میری جان میں جان آئی۔ اُن کو اوپر چھوڑ کر میں فوراً نیچے آیا۔ دیکھا تو سعدیہ کانپ رہی تھی۔

میں نے دلاسا دیا کہ کچھ نہیں ہوتا۔ میں نے اُسے ایک چادر دی اور ایک کمرے میں بٹھا کر باہر سے تالہ لگا دیا تاکہ اگر چاچو پوچھیں تو کہ سکوں کہ میں بس گاؤں شادی پر جانے والا ہوں۔ بہرحال جلد ہی چاچو باہر آ گئے۔ مجھ سے چند باتیں کیں اور چلے گئے۔ میں نے سکھ کا سانس لیا۔ اب میں نے یوں کیا کہ جاتے ہی باہر سے بڑے دروازے کو تالہ لگایا اور بیٹھک(ڈرائینگ روم) سے اندر آ گیا۔ اِس طرح اب باہر کوئی بھی آتا تو اُسے یہی لگتا کہ اند رکوئی نہیں ہے۔ اب میں نے سعدیہ کو باہر نکالا۔ وہ ابھی تک کانپ رہی تھی ۔اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ باہر نکلتے ہی بولی مجھے پلیز گھر چھوڑ آئیں۔

میں نے اُسے گلے سے لگا لیا اور چلاسے دینے لگا۔ بولا: سعدیہ میری جان کچھ نہیں ہوتا۔ اب کوئی ٹینشن نہیں۔ آئی لو یو۔ میری جان۔ یہ کہہ کر میں نے اُسے چومنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ وہ ریلکیس ہوتی گئی۔ میں نے اُسے جب بتایا کہ میں نے باہر سے تالہ لگا دیا ہے۔ اب فکر کی کوئی بات نہیں۔ تو اُس کی پریشانی کچھ کم ہوئی۔ بہرحال اب وہ پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی تھی۔ سارا مزہ کرکرا ہو گیا تھا۔ میں اُسے لے کر واش روم میں آیا۔ اُسے کرسی پر بٹھا کر میں نے اپنے کپڑے بھی اتار دیے۔ اب میں صرف انڈر وئیر میں تھا۔ میرے عضو کا تناؤ واضح نظر آ رہا تھا۔ اُس نے بھی ایک نطر دیکھا اور پھر رخ پھیر لیا۔ میں نے اب ایک کپڑے سے اچھی طرح اُس کی چوت صاف کی جس پر میں پہلے ہی کریم لگا چکا تھا۔ نیچے سے اُس کی صاف شفاف اجلی چوت برامد ہوئی۔ میرا دل خوش ہو گیا۔ میرا جوش جذبہ جو چاچو کے آنے سے ماند پڑ چکا تھا اب واپس آنے لگا۔

میں جب اُس کی چوت کو صاف کر رہا تھا تو اُس کے چہرے پر مزے کے اثرات واضح دیکھے جا سکتے تھے۔ پھر میں نے اُس کی بغلیں بھی صاف کیں۔ اب اُس کے چہرے کی رونقیں بھی واپس آ رہی تھیں۔بغلوں کو صاف کرتے میں جان بوجھ کر اُسے چھیڑتا اور اُسے گدگدی کرتا جس سے وہ ہنس پڑتی۔ پھر میں نے کہا کہ وہ وہیں بیٹھے۔ میں اندر سے بھاگ کر آئینہ لے آیا۔ جب اُس کی چوت اُسے دکھائی و ہ حیران رہ گئی۔ اب چوت بہت خوبصورت اور صاف لگ رہی تھی۔میں نے کہا: اب ٹھیک ہے یا پہلے؟ بولی: اب تو بہت کمال لگ رہی ہے۔

اب میں نے شاور چلا دیا۔ ہم دونوں نہانے لگے۔ وہ مکمل ننگی تھی جب کہ میں نے صرف انڈر وئیر پہن رکھا تھا۔ نہناے کے دوران میں اُس کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتا رہا۔ اُس کے نپلز کو مسلتا۔ اچھی طرح اُس کے جسم پر پانی پھیرتا۔ پھر میں نے شاور بند کر کے اُس کے جسم پر صابن لگایا۔ اچھی طرح مل مل کر۔ اُس کی ٹانگوں پر۔اُس کے چھوٹے چھوٹے مموں پر۔ اُس کی چوت کو دھویا۔ا ُس کے چوتڑوں کو اچھی طرح کھول کر صابن لگایا۔ اُس کی کمر پر۔ پھر میں نے اُسے کہا کہ اب وہ مجھے لگائے۔ وہ شرمانے لگی ۔ میں نے اُس کے ہاتھ میں صابن تھما دیا۔ وہ مجھے صابن لگانے لگی۔ مجھے بہت سرور آنے لگا۔ میں مزے سے بےحال ہونے لگا۔

جب وہ انڈر وئیر کے اوپر پہنچی تو اُس نے اُس پر بھی اوپر اوپر سے صابن لگانا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: ٹھہرو۔ یہ کہ کر میں نے انڈر وئیر بھی اتار دیا۔ میرا عضو اُس وقت م4 سے 5 انچ کا ہو گا۔ میں نے کہا : اب لگاؤ۔ وہ شرمانے لگی۔ میں نے اُس کا صابن والا ہاتھ پکڑ کر اپنے عضو پر رکھ دیا۔ اُس نے شرماتے ہوئے صابن لگانا شروع کر دیا اور میں نے مزے سے آنکھیں بند کر لیں۔عضو کی صفائی تو میں ویسے ہی ہر ہفتے کیا کرتا تھا اِس لیے وہ بالکل صاف تھا۔ بہرحال صابن لگانے کے بعد میں نے شاور چلا دیا۔ ہم نہانے لگے۔ ساتھ مزے بھی لینے لگے۔ اچھی طرح نہانے کے بعد ہم ننگے ہی باہر آگئے۔اب اُس کی شرم کافی حد تک دور ہو چکی تھی۔

میں نے تولیے سے اپنا اور اُس کا بدن صاف کیا۔ ایک باڈی پرفیوم سے اُس کو اور خود کو تر کیا اور اُسے لے کر بیڈ پر آ گیا۔ اب ماحول بن گیا تھا کہ کچھ کیا جائے۔ میرے اِس کھیل سے مجھے کئی فائدے حاصل ہوئے۔ ایک تو دونوں نے ایک دوسرے کے نشیب و فراز سے کافی واقفیت حاصل کرلی۔ دوسرا اُس کی شرم و حیا کافی حد تک دور ہو چکی تھی۔ تیسرا ساتھ نہانے کا جو مزہ تھا اُس کی تو پھر کیا بات تھی۔ میں نے اُسے بیڈ پر لٹا کر چومنا شروع کر دیا۔ اُس پر بوسوں کی برسات کر دی۔ اب وہ بھی کافی گرم ہو چکی تھی۔ مزے سے میرا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ اب ہم دونوں کے جسم بہت ترو تازہ تھے اور خوشبوؤں سے لبریز تھے اِس لیے مزہ بھی دوبالا تھا۔

میں اُس کے بوبز کو مسل رہا تھا۔ اپنی انگلیوں سے اُنہیں کرید رہا تھا۔ وہ سسک رہی تھی۔ میں نے اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں سے جدا کیے اور بولا: سُنا ہے جب یہ نئے نئے بنتے ہیں تو درد ہوتا ہے؟ وہ بولی : ہاں کبھی کبھی ہونے لگتا ہے ۔ پر اب تو کافی کم ہو گیا ہے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر سے شروع ہو گیا۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے ممے پورے ہی میرے منہ میں آگئے۔ میں اُنہیں چوسنے لگا جس سے سعدیہ مزے کی انوکھی دنیا میں پہنچ گئی اور اپنے سسکاریوں اور شہوت سے بھرپور آہوں سے اظہار کرنے لگی۔ میں اُس کے گورے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ پھر میں نے اپنی زبان سے اُس کے پیٹ کا مساج شروع کر دیا۔ اُسے گدگدی ہونے لگی۔

وہ ساتھ مزے لیتی ساتھ ہنستی۔ مجھے بھی بہت مزہ آ رہا تھا۔ میں اور نیچے آیا۔ میں نے اپنے ہاتھ اُس کی چوت پر رکھ دیے ۔ اُسے جیسے کرنٹ سا لگا ہو۔ میں اُسے سہلانے لگا۔ میں فلموں میں دیکھ چکا تھا کہ کیسے اِس کو چوسا اور چاٹا جاتا ہے۔ پر فلموں میں دیکھنا اور بات ہے اور عملی طور پر کرنا اور بات ہے۔ مجھے اُس پر اپنے لب رکھنا اچھا نہیں لگا۔ اِس لیے میں نے بس اوپر اوپر سے زبان پھیری۔ اب میں نے اپنا عضو اُس کے ہاتھ میں پکڑا دیا جسے اُس نے جھجکتے ہوئے تھا م لیا۔ اور سہلانے لگی۔ میں نے کہا کہ اِس کو منہ میں لو۔ بولی : نہیں یہ گندا ہوتا ہے۔ میں نہیں لوں گی۔ میں نے کہا : چلو بس اوپر اوپر سے زبان پھیر دو۔ اُس نے پھر انکار کیا ۔پر میرے اصرار پر بس ایک دو دفعہ زبان پھیر دی۔

پھر میں نے ایک لوشن لیا اور اچھی طرح اُس کی چوت اور اپنے لن پر لگا دیا۔ میں اُس کے اوپر آیا ۔ اُ س کے چوتڑوں کے نیچے ایک تکیہ رکھا اور اُس کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ دیں۔ میں کئی ورجن موویز بھی دیکھ چکا تھا۔ مجھے پتا تھا کہ پہلی دفعہ خون نکلتا ہے۔ میں بولا: سعدیہ ہلی دفعہ تھوڑا سا درد ہو گا۔ بعد میں بہت مزہ آ ئے گا۔ وہ بولی: ٹھیک ہے۔ میں نے لن چوت پر سیٹ کیا اور آگے دھکیلنے لگا۔ پہلے تو وہ بار بار پھسل جاتا۔ پھر میں نے اپنے ہاتھوں سے اُس کی چوت کے تنگ لبوں کو کھولا اپنا لن وہاں سیٹ کیا اور تھوڑا سا دھکا لگایا جس سے لن تھوڑا سا اندر چلا گیا۔

اُس کی ایک آہ نکل گئی۔ اب میں ہلکے ہلکے آگے دھکیلنے لگا۔ اُس کے چہرے پر درد کے تاثرات آنے لگے۔پھر مجھے لگا کہ اب پردہ بکارت آ چکا ہے۔ کیونکہ میں اُس سے محبت بھی کرتا تھا اِس لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ اُسے کوئی تکلیف ہو۔ میں نے اُس سے کہا کہ کیا وہ تیار ہے۔ وہ بولی ہاں۔ میں نے اپنے جسم کو تھوڑا جھکایا اور ایک جھٹکا سا لگایا جس سے لن اُس کی چوت کو چیرتا ہوا اند ربڑھتا چلا گیا۔ سعدیہ کی زور دار چیخ بلند ہوئی۔ پر چونکہ دروازے بند تھے اِس لیے زیادہ فکر نہیں تھی۔

میں نے اُسے کچھ دیر چپ کروایا۔ وہ بار بار کہ رہی تھی کہ پلیز باہر نکال لو۔ در د ہو رہی ہے۔ میں نے کچھ دیر باہر نکال لیا۔ دیکھا تو کافی خون نکل رہا تھا۔ میں نے ایک پرانے کپڑے سے صاف کیا۔ پھر میں نے آئل سے اُس کی چوت کا خوب مساج کیا جس سے اُس کی درد کافی کم ہو گئی۔ ویسے بھی آئل کی وجہ سے پہلے ہی اُسے زیادہ درد نہیں ہوئی تھی۔ درد سے زیادہ درد کا احساس تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اور میں نے تو اُسے پہلے ہی ذہنی طور پر تیا ر کر لیا تھا۔ پھر میں نے دوبارہ سے اُس کی چوت پر اپنا لن سیٹ کیا اور آہستہ آہستہ اندر ڈال دیا۔ اب کمی بار وہ بس ایک ہلکی سی آہ تک محدود رہی۔ میں نے اب اپنے لن کو حرکت دینی شروع کرد ی۔ میں نے چونکہ رات کو ہی مٹھ لگائی تھی اِس لیے یہ ڈر نہیں تھا کہ جلدی چھوٹ جاؤں گا۔بہرحال لن کی حرکت جاری تھی۔ اُس کی چوت بہت گرم اور ٹائیٹ تھی۔ میرے عضو کو فل جکڑ رکھا تھا۔ میرا لن بہت پھس پھس کر حرکت کر رہا تھا۔ وہ تو تیل کا کرشمہ تھا کہ میرے لن کو پھسلنے میں بڑی مدد مل رہی تھی اور مزہ بھی بہت آ رہا تھا۔

کچھ اُس کی چوت بھی اب کافی پانی چھوڑ رہی تھی جس سے میرا لن کافی گیلا ہو رہا تھا۔ اب اُسے بھی بہت مزہ آ رہا تھا۔ درد غائب ہو چکا تھا۔ وہ اپنے جسم کی حرکات سے اپنے مزے کا اظہار کر رہی تھی۔ میں نے دھکوں کی رفتار تھوڑی سی برھا دی۔ میں بولا: جان مزہ آ رہا ہے نہ۔ وہ شرماتے ہوئے بولی: ہاں۔بہت۔ میں مزے سے اُس کی چودائی کرتا رہا۔ وہ بھرپور طریقے سے میرا ساتھ دیتی رہی۔ اب میں نے اُس کو الٹایا اور گھوڑی بنا دیا۔ اِس طرح سے میرا لن گہرائی تک اندر جانے لگا۔ میں مزے سے دھکے لگاتا رہا۔ کچھ دیر بعد مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے بس چھوٹنے والا ہوں۔
میں نے دو ، تین اور زور دار دھکے لگائے اور لن باہر نکال لیا اور اپنا پانی اُس کی گانڈ پر پھینکنے لگا۔ کچھ دیر بعد جب سارا پانی نکل گیا تو میں نے اُس کے چوتڑ صاف کیے اور ایک طرف لیٹ گیا۔ وہ بھی میرے بازو پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔ میں نے اُس کے ماتھے کو چومتے ہوئے کہا: سعدیہ میری جان مزہ آیا۔ وہ بولی: ہاں دانش بہت مزہ آیا۔ آئی لو یو۔۔ میں بولا: آئی لو یو ٹو۔میری جان۔ ہم یوں ہی کچھ دیر پڑے رہے۔ میں نے پھر اُس کے ممے مسلنے شروع کر دیے۔ اُسے بھی مستی چڑھنے لگی۔ میرا لن بھی پھر سے تناؤ اختیار کرنے لگا۔ میں نے پھر سے اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں سے لگا لیے اور اُسے چومنے لگا۔ وہ میرا بھرپور ساتھ دینے لگی۔

میں نے اُس کی زبان کو خوب چوسا۔ پھر اُس نے میری زبان کو پکڑ لیا اور خوب چوسا۔ میں ساتھ ساتھ اُس کے نپلز بھی مسلز رہا تھا جو بہت چھوٹے اور بہت ٹائیٹ تھے۔ پھر میں نے دوبارہ سے اُنہیں چوما اور جب مجھے لگا کہ فل تیار ہو گئی ہے تو میں نے کہا: اب تمھاری باری ہے۔ میں تھک گیا ہوں۔ جو کرنا ہے تمھیں کرنا ہے۔ وہ بات سمجھ گئی۔ میں لیٹ گیا۔ میرے عضو کا رخ آسمان کی طرف تھا۔ وہ اوپر آ کر بیٹھ گئی۔ میرا لن بار بار پھسل جاتا تھا۔ میں نے کہا: ہاتھ سے پکڑ کر اندر کرو۔ اُس نے پھر ہاتھ سے پکڑ کر سیٹ کیا اور اپنا وزن اُس پر ڈال کر نیچے ہونے لگی۔

میں اُس کی طرف پیار سے دیکھنے لگا۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ میرے پورے لن کو اندر لے چکی تھی۔ اُسے اب درد محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اب وہ آہستہ آہستہ اوپر نیچے ہونے لگی۔ میرے لن جڑ تک اُس کی چوت میں غائب ہوتا نظر آ رہا تھا۔ میرے سامنے اُس کا گورا بدن تھا۔ میں ہاتھ بڑھا کر اُس کے بدن سے کھیل بھی رہا تھا۔ اُسے بھی مزہ آ رہا تھا جس کا اظہار اُس کی حرکات سے واضح ہو رہاتھا۔ وہ مزے سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ میں نے کہا: جانو تھوڑی رفتار بڑھاؤ نہ۔ وہ تیز ہو گئی۔ اُس کی اچھل کود سے مجھے بہت لطف آ رہا تھا۔ دھپ دھپ کی آوازیں کمرے میں گونج رہیں تھی۔

کچھ دیر بعد اُس کی اچھل کود اور تیز ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ اُس نے کہنے کی بجائے اور زور سے اچھلنے لگی اور کچھ دیر بعد کچھ زور دار سسکیوں کے ساتھ اُس کی چوت نے برسات کر دی۔ اپنے پانی سے میرے لن کو مکمل بھگو دیا۔

اب میں صوفے پر بیٹھ گیا اور اُس کا منہ اپنی طرف کر کے نیچے سے لن اُس کی چوت میں ڈال دیا۔ اب میں نیچے سے ہل رہا تھا ساتھ ساتھ اُس کے ہونٹ بھی چوس رہا تھا۔ اُس کی ننھی منی چوچیاں میرے سینے سے ٹکرا رہی تھیں۔میں نے زور دار سٹروک لگانے شروع کر دیے۔ ہمیں اب دوسری دفعہ چودائی کرتے دس منٹ تو ہو چکے تھے۔ دو تین منٹ مزید چودائی کرنے کے بعد مجھے لگا کہ جیسے انزال کے قریب ہوں۔ میں نے فوراً اپنا لن باہر نکال لیا اور اُسے ہاتھ سے سہلانے کا کہا۔ وہ میرے سامنے بیٹھ گئی اور ہاتھ سے میرے لن کو سہلانے لگی۔ کچھ دیر بعد میرے لن سے پچکاریاں نکلیں اور کافی ساری منی اُس کی گردن اور سینے پر گر گئی۔

اُس نے اپنا بدن صاف کیا اور کپڑے پہننے لگی۔ میں نے کپڑے پہن لیے۔ کچھ دیر بعد میں اُسے اُس کے گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔ بائیک پر وہ میرے ساتھ چپک کر بیٹھی تھی۔ میں نے کہا: سعدیہ مزہ آیا نہ۔ بولی : ہاں دانش جی بہت مزہ آیا۔ میں نے کہا: سعدیہ میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ دوبارہ بھی مجھ سے ایسا کرو گی نہ۔ وہ شرماتے ہوئے بولی : ہاں۔

بہرحال قصہ مختصر میں اُسے اس کے گھر چھوڑ کر شادی پر پہنچ گیا۔ اُس کے بعد میں نے بڑی کوشش کی کسی طرح دوبارہ موقع مل سکے پر کچھ نہ ہو سکے۔ اُس کی بے تابی بھی عیاں تھی۔ ایک دفعہ وہ میرے کپڑے استری کر رہی تھی کہ میں اُسے چھیڑنے لگا۔ اتفاقاً امی نے دیکھ لیا۔ وہ مجھے ایک طرف لے گئیں اور بولیں: یہ کیا کر رہے تھے۔ میں گھبرا گیا اور بولا: وہ کچھ نہیں ۔ بس۔۔۔۔ وہ بولیں: کچھ شرم کرو۔ مجھے پہلے بھی شکایات ملی ہیں کہ میرے جاتے ہی دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ میں نے کہا : امی آپ مجھ پر شک کر رہی ہیں۔

میں نے اپنا چہرہ بہت معصومانہ بنا لیا۔ اُنہوں نے مجھے وارننگ دی کہ آئیندہ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو وہ پاپا کو بتا دیں گی۔ میں بہت ڈر گیا۔ میں نے سعدیہ کو چھیڑنا بند کر دیا۔ پھر کچھ دن بعد پتا چلا کہ امی نے اُس کی چھٹی کروا دی ہے اور کسی اور کو کام پر رکھ لیا ہے۔ میں جو یہ سوچ رہا تھا کہ کس طرح اُسے اپنا جیون ساتھی بناؤں۔اِس افتاد پر بہت مایوس ہوا۔ بہرحال گاہے بگاہےمیں اُس کے گھر کے چکر لگا لیتا بہانے بہانے سے۔ پر کوئی خاص موقع نہ بن سکا۔

اِس کے بعد ایک واقعہ نے میری پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ میں ایک سیکسی ویڈیو ڈاؤنلوڈنگ پر لگا کر باہر چلا گیا۔ کسی کام سے۔ میں نے موبائل چارجنگ پر لگایا تھا۔وہاں مجھے یاد آیا کہ میں تو پورن ویڈیو لگا آیا ہوں۔ میں فوراً گھر بھاگا۔ گھر پہنچ کر پتا چلا کہ امی آ چکی تھیں۔ میں نے موبائل ڈھونڈا پر موبائل کہیں نہیں تھا۔ میں نے امی سے بھی پوچھا پر اُنہوں نے غصے سے جواب دیا کہ اُنہیں نہیں پتا۔ میں بہت پریشان تھا۔ پھر اگلے دن جب گھر میں کوئی نہیں تھا۔ امی نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا اور بولیں: دانش ! میری تربیت میں کیا کمی تھی جو تم نے یہ حرکت کی۔ تمھیں ایسی گھٹیا ویڈیو دیکھتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ میں آئی تو دیکھا کہ تمھارے موبائل پر ویڈیو چل رہی تھی۔ اف توبہ کتنی واہیات تھی۔ اب میں تمھارے پاپا کو بتاؤں گی۔ اگر زیادہ آگ لگی ہے تو بتاؤ۔ہم تمھاری شادی کر دیتے ہیں۔ تم جا کر گاؤں بیٹھ جاؤ اور دفعہ ہوتے رہنا۔

میں بہت پریشان ہو گیا۔ میں اُن کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگا۔ اُنہوں نے کہا کہ ابھی وہ سوچیں گی۔ میں نے کہا : امی پلیز موبائل تو دے دیں۔ وہ نہ مانیں۔ خیر میں شرمندہ شرمندہ موبائل ڈھونڈتا رہا۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح موبائل مل جائے اور میں ویڈیو ڈلیٹ کر سکوں۔ اور آخر کار مجھے ،مل گیا۔ امی نے وہ اپنے لاکر میں رکھا ہوا تھا۔ میں نے کسی طرح چابی چرائی اور موبائل نکال لیا۔ اگلے دن میں نے فوراً اُسے اونے پونے داموں بیچا اور ایک سادہ موبائل خرید لیا۔ پھر میں نے امی کو بتا دیا۔ پہلے تو بہت غصے ہوئیں۔ بعد میں مجھے سمجھانے لگی۔ میں نے سدھرنے کا وعدہ کیا اور اُن کے سامنے شریف شریف بن کر رہنے لگا۔

بہرحال اُس کے بعد یوں ہوا کہ امی نے مجھے ایف ایس سی کیلئے لاہور بھیج دیا۔ اب میرا چکر مہینے بعد ہی لگتا تھا۔کبھی اِس سے بھی زیادہ ٹائم لگ جاتا تھا۔ میں آہستہ آہستہ سعدیہ کو بھولنے لگا۔ اور پھر ایک دفعہ جب میں گھر آیا تو پتا چلا کی سعدیہ کسی کے ساتھ بھاگ چکی ہے۔ میں بڑا حیران ہوا۔ میں نے بھائی سے تفصیل پوچھی تو اُس نے بتایا کہ اُن کے گھر اُن کا کزن آیا ہوا تھا۔ بس اُسی کے ساتھ فرار ہوئی ہے۔ اب یہ خبر ملی ہے کہ اُنہوں نے نکاح بھی کر لیا ہے اور اوکاڑہ کے پاس کسی جگہ رہ رہے ہیں۔ میں دل مسوس کر کہ رہ گیا۔

مجھے دکھ بھی ہوا پراتنا بھی نہیں۔ بہرحال دن گزرتے گئے۔ پھر 2 سال بعد پتا چلا کہ سعدیہ کو اُس کے گھر والے واپس لے آئے ہیں۔ اُس آدمی نے طلاق دے دی ہے۔ وہ ہمارے گھر بھی ایک دفعہ عید کے موقع پر۔ اب تو وہ پوری عورت بن چکی تھی۔ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ میری طرف اُس نے مسکرا کر دیکھا۔ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اُس کے ساتھ کچھ ہوا۔ اُسے ذرا بھی دکھ نہیں تھا۔ وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ میں نے بھی بس سرسری سا حال احوال پوچھا۔ امی ساتھ تھیں لہذا زیادہ بات نہ ہو سکی۔ میں لاہور چلا گیا۔

مجھے ویسے بھی یقین تھا کہ چاہے جو ہو جائے امی کبھی نہیں چاہیں گی کہ وہ میری جیون ساتھی بنے۔ ویسے بھی میرا جذبہ کافی کم ہو چکا تھا۔ بس وہ جوانی کا جنون تھا جو سب کچھ بہا کر لے گیا۔ کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ اُس کی دوبارہ شادی ہو رہی ہے۔ اب وہ اپنے گھر میں بہت خوش ہے اور اُس کا ایک پیار ا سا بیٹا بھی ہے۔اب احساس ہوتا ہے کہ جو ہوا اچھا ہی ہوا۔
(ختم شد)

ایک تبصرہ شائع کریں for "دل کی رانی"