اور مجھے وہ چال بے انتہا پسند تھی، امی ٹانگیں کھول کر اور گانڈ باہر نکال کر چلتیں اور مجھے مست کر دیتیں۔ آج بھی گانڈ مروانے کے بعد امی بستر پہ اُوندھی پڑی تھیں اور میری منی امی کی گانڈ کے اندر اور باہر ٹپک رہی تھی۔ میں نے امی کی بڑی سی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
میں: مزہ آیا میری چکنی؟
امی: بہت ظالم ہے تو، پہلے چود چود کے میرے کولہے باہر نکال دئیے اور اب پیچھے سے ڈال کر سائیڈیں بڑی کر رہا ہے
میں: ارے امی آپ کی گانڈ ہے بھی تو بہت ٹائٹ،ابو سے تو مرواتی نہیں تھیں آپ اس لیے کنواری گانڈ ملی ہے مجھے تو لنڈ تو گھسیڑوں گا ہی
امی: اور میرا کیا! اس عمر میں اتنی چودائی برداشت کرنا کیا کم ہے جو پیچھے سے بھی لیتا ہے تُو میری
میں: اگر آپ کو پسند نہیں ہے تو بتا دیں، نہیں چودا کروں گا آپ کو
امی: ارے نہیں جانو، تیرا حق ہے مجھ پہ، میرے جسم پہ۔۔۔۔ تو نے ہی تو اس کی پیاس بجھائی ہے، بھلا تجھے کیسے روک سکتی ہوں میں!!!! اچھا بتا، دودھ پیے گا؟
میں: دودھ دینے والی گائے بن جائیں فوراً
امی: جھک کر اپنے ممے میرے منہ پر لٹکاتے ہوئے، پی لے میرے ٹھوکو، چوس اپنی ماں کے دودھ کو۔۔۔ آہ ہ ہ ہ۔
میں: چلیں اب دوبارہ گھوڑی بن جائیں
امی: ابھی تو گانڈ ماری ہے تو نے میری، کچھ تو رحم کر اپنی ماں پر
میں: ارے گانڈ نہیں ماروں گا، چوت میں ڈالوں گا لیکن گھوڑی بنا کر
امی: گھوڑی بن کر چدوانے میں مزہ نہیں آتا، لگتا ہے میں رنڈی ہوں
میں: بستر میں تو رنڈی ہی ہے میری چکنی، روز دو شاٹ تو لے ہی لیتی ہے
امی: (گھوڑی بنتے ہوئے) چل اب ڈال دے
میں نے امی کی گانڈ پہ ہاتھ پھیرا، لنڈ کو چوت کے سوراخ پہ سیٹ کیا اور اندر پیل دیا، لنڈ پورا امی کی کھلی چوت کے اندر چلا گیا۔۔۔ امی نے مسکرا کر گردن موڑ کر مجھے دیکھا اور بولیں
امی: چود دے اپنی ماں کو، سارے سوراخ کھول دیے ہیں تُو نے میرے
میں زور زور سے دھکے لگا رہا تھا اور ہر دھکے سے امی کی کے دونوں چوتڑ زور سے ہلتے اور مجھے اور بھی مست کر دیتے۔ کمرہ پٹ پٹ اور چِپ چپ کی آوازوں سے گونج رہا تھا اور تھوڑی ہی دیر میں ان آوازوں میں امی کی مست آوازیں بھی شامل ہو گئیں جو کہ چُدائی کا مزہ لے رہی تھیں
امی: آہ، اور چود، اور زور سے، پھاڑ ڈال
میں: نہیں چھوڑوں گا تجھے، اتنا چکنا بدن لے کر گھومتی ہے، تیری چوت کو پھاڑ کر تیری گانڈ کے سوراخ سے ملا دوں گا
امی: تو پھاڑ نہ مادر چود، ماں کو رکھیل بنا کر چودتا ہے
میں: تو رکھیل ہے میری، ممے دکھاتی تھی نہ مجھے، اب پورا ننگا دیکھتا ہوں تجھے
امی: میں چھوٹنے والی ہو جانو
میں: تو چھوٹ جا۔۔۔
امی: تو بھی فارغ ہو، چھوٹنے کے بعد نہیں چودنے دوں گی، بہت درد ہوتا ہے
میں: چپ کر رنڈی، جب تک چاہوں گا چودوں گا تجھے
امی: آہُ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ میں چھوٹ گئی۔۔ بس کر دے
میں: (امی کے چوتڑوں پہ زور سے ہاتھ مار کر) چُد نہ بھوسڑی کی، اب کیا تیری ماں کو چودوں میں
امی: پلیز جان بس کر، میں مر جاؤں گی، پلیز
میں: تو بول تیری ماں بھی رنڈی ہے
امی: ہاں وہ رنڈی ہے
میں: مجھ سے کب چُدے گی تیری ماں!
امی: جب تو کہے گا چُدوا دوں گی، ابھی مجھے چھوڑ دے
میں: تھوڑا اور برداشت کر حرامزادی
امی: میں مر جاؤں گی
میں: بس۔۔۔ یہ لے، پوری منی اندر لے لے
اور یہ کہتے ہوئے میں چھوٹ گیا اور امی کی پیٹھ پر ہی گر گیا
امی کی بس ہو گئی تھی اور ساڑھے پانچ فٹ کی امی میرے ساتھ بستر پر ننگی، نڈھال پڑی تھیں۔ میں نے امی کو کس کیا، جسم پہ ہاتھ پھیرا اور بولا
میں: آج ایسے ہی سو جاؤ
امی: کچھ تو پہن لینے دے۔۔۔۔ بالکل الف ننگی ہوں
میں: بستر میں ننگی ہی اچھی لگتی ہیں آپ
امی: نہ بابا نہ، رات میں تیرا پھر سے کھڑا ہو گیا تو پھر چڑھ جائے گا مجھ پر۔۔۔ اب ایک رات میں تیسری چُدائی کی ہمت نہیں ہے مجھ میں
میں: (ہنستے ہوئے) فکر نہ کر میری چکنی، تُو رنڈی تھوڑی ہے جسے پیسے دے کر ایک رات کے لیے لایا ہوں کہ بار بار چودوں، تُو تو بیوی ہے اب میری، تیری ہر رات میری ہے، ابھی تو تیرے اس جسم نے بہت مزے دینے ہیں مجھے۔ اتنا تو خیال رکھوں گا میں تیری اس بڑی اور کھُلی ہوئی چوت کا
امی: تو پھر سونے دے، بار بار ہاتھ کیوں پھیر رہا ہے!
میں: مزے تو لوں گا ہی نہ چکنی
پھر ہم دونوں سو گئے۔ صبح میں اُٹھا تو امی بستر پہ نہیں تھیں، میں کچن میں گیا تو امی ننگی کھڑی ناشتہ بنا رہی تھیں۔ میں نے گانڈ میں انگلی دی تو امی کی چیخ نکل گئی۔۔۔ میں نے امی کو سینے سے لگا لیا اور مارنگ فرنچ کس کیا، امی بھی خمار میں تھیں اور امی نے ایک ٹانگ اُٹھا کر سلیب پر رکھی، یہ میرے لیے اشارہ تھا کہ امی مارنگ سیکس کے لیے تیار ہیں۔ میں نے وہیں کھڑے کھڑے امی کی چوت میں اپنا لنڈ ڈال دیا اور ہم نے کچن ہی میں چُدائی کا مزہ لوٹا۔ چُدائی کے بعد ہم نے ناشتہ کیا اور میں ٹی وی دیکھنے بیٹھ گیا۔ تب ہی امی میرے برابر میں آ کر بیٹھ گئیں۔ امی نہا کر آئی تھیں، بال گیلے تھے اور پاجامہ اور ایک ڈھیلی ڈھالی، کھلے گلے کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔
امی: مجھے تجھ سے بات کرنی ہے
میں: بولیں امی
امی: میں ماں نہیں، تمہاری بیوی کی حیثیت سے کچھ کہنا چاہتی ہوں
میں: تو بولو نہ بیگم جان، ہم میں آخر کونسا پردہ ہے!
امی: (نظریں جھُکا کے) وہ میں، میں تمہاری ماں تھی لیکن تمہاری بیوی بننے کے بعد سے نہیں رہی تو میں پھر سے ماں بننا چاہتی ہوں
میں: لیکن اتنی جلدی کیوں! ابھی تو ہم نے زندگی کا مزہ لینا شروع کیا ہے، ہماری سیکس لائف کو آخر دن ہی کتنے ہوئے ہیں!
امی: جلدی ہے۔۔۔ تم ابھی جوان ہو لیکن میرے پاس وقت کم ہے، میری عمر بیالیس سال ہو چکی ہے اور میری ماہواری ختم ہونے میں دو یا تین سال ہی باقی ہیں۔ پھر میں ماں نہیں بن سکوں گی
میں: یعنی پیریڈز ختم ہونے کے بعد آپ مجھ سے نہیں چدوائیں گی!
امی: ارے نہیں پگلے، تجھ سے میں ساری عمر چدواتی رہوں گی لیکن ماں تو نہیں بن سکوں گی نہ!
میں: اور ابو کو کیا کہیں گی؟
امی: تو اُس کی فکر نہ کر، میرے پاس پورا پلان ہے، بس تو جلدی سے مجھے پیٹ سے کر دے، باقی میں سنبھال لوں گی.
میرے ذہن میں فوراً شیطانی خیال آیا اور میں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے بچہ کرنے کے لیے
امی: کیسی شرط؟
میں: میں تیری اماں کو ایک دفعہ چودنا چاہتا ہوں
امی: کیا بکواس کر رہا ہے!!! میں پوری نہیں پڑتی کہ اپنی ماں کو چدواؤں تجھ سے؟
میں: جانو سمجھ نا۔۔۔۔ میرا لنڈ اماں پہ کھڑا ہوتا ہے۔۔۔
امی: اب اماں میں کچھ نہیں بچا، مموں کی جگہ کھال رہ گئی ہے اور چوت کا سوراخ اتنا بڑا ہے کہ تجھ جیسے چار چار لنڈ اندر جائیں تب بھی پتہ نہ چلے
میں: مجھے نہیں پتا۔۔۔ مجھے آپ کو اور اماں کو ایک ساتھ چودنا ہے
امی: مجھے معلوم ہے کہ تو جانتا ہے کہ میں اماں کے سامنے ننگی ہوتی ہوں۔۔۔۔ چل ٹھیک ہے، اپنے ٹھوکو کے لیے ماں چُدوا لوں گی
میں: کب؟
امی: کل ہی بلا لیتی ہوں اماں کو
میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور اگلی ہی شام اماں گلابی شلوار قمیض میں ہمارے گھر موجود تھیں۔ امی نے اکیلے میں اُنہیں سب کچھ بتایا اور تھوڑی دیر میں وہ مسکراتے ہوئے میرے پاس آئی میرے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہنے لگیں
نانی: مجھ بُڑھیا میں ایسا کیا دیکھ لیا تو نے؟ ارے میرے تو بھاگ ہی کھل گئے کہ جوان لنڈ میرے نام کی مُٹھ لگاتا ہے
میں: (نانی کی پیٹھ سے گانڈ تک ہاتھ پھیرتے ہوئے) پانچ پانچ چکنی چکنی آئیٹم جس چوت نے نکالی ہوں اصل کمال تو اسی کا ہے نہ!
نانی: ارے اب وہ چوت کہاں رہی۔۔۔ ایک زمانے میں تھی
میں: بستر پہ چلیں۔۔۔ زرا ہم بھی گزرا زمانہ دیکھیں
میں نے نانی اماں کا ہاتھ پکڑ کر کمرے کا رخ کیا اور نانی اماں کو بستر پر بٹھایا اور امی کو آواز دی
میں: ناہید چکنی
امی: کیا ہوا میرے چودو بلے؟
میں: آ جا، اپنی ماں کی چُدائی نہیں دیکھے گی!
امی: تو چود، میرا بھلا کیا کام! میری اپنی ماں نے مجھ سے میرا ٹھوکو چھین لیا
میں: ارے ناہید میں تیرا ہی ہوں، صرف منہ کا ذائقہ بدل رہا ہوں
امی: میں نہیں آ رہی
میں: آ جا نہیں تو گانڈ پھاڑ دوں گا تیری
امی: وہ تو تُو نے ویسے ہی پھاڑ رکھی ہے، روز تو گانڈ مارتا ہے میری، رنڈی بنا کر رکھا ہوا ہے مجھے
میں: ماں کی لوڑی آ جا
امی: آ رہی ہوں
جیسے ہی امی کمرے میں آئیں میں نے نانی کو کس کیا اور ننگا ہونے کا اشارہ کیا، نانی نے قمیض اتاری اور اندر ہینڈ میڈ برا تھا جس میں لٹکی ہوئی کھال کے ممے گزرے ماضی کی نشانی بتا رہے تھے
میں: نانی، ننگی ہوں
نانی: چل بے شرم، بس دیکھ تو لیا تو نے
میں: تو چودا کہاں!
نانی: ہائے اللہ، واقعی میں چودے گا مجھے!
میں: ہاں، اتاریں شلوار
میں: امی سے: تو کیا کپڑے پہنے کھڑی ہی! تجھے نہیں معلوم کہ اس کمرے میں تجھے ننگا ہی رہنا ہوتا ہے!
امی: تو مجھے چودے گا یا اماں کو؟
میں: دونوں کو۔۔۔ دو تجربہ کار ریگولر چُدکڑ مزہ دیں گی آج مجھے
تھوڑی ہی دیر میں ہم تینوں ننگے تھے اور میں نے نانی سے کہا کہ امی کی چوت چاٹیں۔ امی کا چہرہ سرخ ہو گیا تو میں نے کہا
میں: ناہید، یہ میرا خواب ہے
امی: کتنا گرائے گا مجھے آخر
میں: ماں سے چوت چٹوا رہا ہوں، اس میں ایسا کیا، کسی غیر کے سامنے تھوڑی تیرا بدن ننگا کروایا میں نے
امی: مجھے شرم آ رہی ہے
میں: ہائے۔۔۔۔ تیری انہی اداؤں کا تو دیوانہ ہوں میں جانِ من
امی کھلکھلا کر ہنس پڑیں اور ٹانگیں پھیلا کر چوت کھول دی۔ نانی امی چوت پر ہاتھ پھیرنے لگیں تو میں نے کہا
میں: روبی (نانی کا نام روبینہ تھا)، چاٹ اس چوت کو
نانی: روبی تو میری چُدائی کا نام ہے، تجھے کیسے پتا چلا
میں: کتنے لنڈ لیے ہیں تو نے؟
نانی: بہت لیے ہیں، اب تو گنتی بھی یاد نہیں
امی: کیا!!!!!!
نانی: ہنستے ہوئے، اب اس عمر میں، بیٹی نواسے سے کیا چھپانا۔۔۔۔ ٹاپ کی رنڈی تھی میں اور اُس زمانے میں انگلش رنڈی کے نام سے مشہور تھی
امی: کیا مطلب انگلش رنڈی؟
نانی: اس ٹاٹم میں گشتیاں صرف ننگی لیٹ جاتی تھیں اور چُدوا لیتی تھیں پر میں فل مزہ دیتی تھی۔۔۔ لاہور میں صرف میں تھی جو چوپا لگاتی تھی، گانڈ مرواتی تھی، ٹانگیں اُٹھا کر چدتی تھی اور سب سے سے زیادہ مشہور میں اس لیے تھی کہ اوپر بیٹھ کر چدوانا میں نے ہی شروع کیا تھا
میں: دلا کون تھا آپ کا!
نانی: میں خود ڈیل کرتی تھی، روبی رنڈی آج پھر ننگی ہوئی ہے اتنے برسوں بعد
میں: اب تو تیری گانڈ چوت سب ماروں گا حرامن
نانی: تو مار نا۔۔۔ چود دے مجھے
میں: گھوڑی بن جا حرامن
نانی اماں فوراً بیڈ پر جھک کر گھوڑی بن گئیں اور اپنے ایک ہاتھ سے چوت کو سہلانے لگیں
میں: چوت تو بھوسڑا بنی پڑی ہے، کھڈے میں لنڈ ڈال کر بھلا کیا ملے گا مجھے۔۔۔۔ گانڈ کو کھول روبی! نانی نے فوراً دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں چوتڑ کھولے تا کہ گانڈ کا سوراخ نمایاں ہو جائے۔۔
میں (امی سے): جانِ من، تُو کیا کھڑی کھڑی ماں کی چُدائی کا انتظار کر رہی ہے!!! اِدھر آ اور اپنی گشتی ماں کی گانڈ کے سوراخ پہ تھوک ٹپکا
امی یہ سن کر نانی کی گانڈ کے اُوپر منہ لے آئیں تو میں نے کہا کہ پہلے گانڈ چاٹ کر گیلا کریں۔۔۔ امی نے زبان نکالی اور گانڈ کے اوپر پھیر کر مست مزہ لیا۔ اب میں نے لنڈ کا ٹوپا نانی کی گانڈ کے سوراخ پہ سیٹ کیا، امی نے اوپر سے تھوک کا دھار گرائی اور میں نے لنڈ نانی اماں کی گانڈ میں پیل دیا۔۔۔ نانی کی گانڈ کافی کھلی ہوئی تھی لیکن پھر بھی اتنے عرصے بعد لنڈ اندر جانے کی وجہ سے اُن کی چیخ نکل گئی۔۔۔ جیسے ہی مجھے نانی کے درد کا احساس ہوا میں نے امی سے کہا
میں: چکنی، جا اپنی ماں کا منہ چوس۔۔۔ مزہ دے اسے
امی اور نانی فرنچ کس اکثر کیا کرتی تھیں اور نانی کو بھی امی کے بدن سے لُطف ملتا تھا لہذا جیسے ہی امی نے نانی کو فرنچ کس کیا، نانی گانڈ کا درد بھول کر امی کے ننگے مموں پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔۔۔ میں پیچھے سے مسلسل گانڈ مار رہا تھا اور دو منٹ بعد میں بھی جھڑ گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے بالکل مزہ نہیں آیا لیکن نانی کو چودنے کی ٹھرک ضرور پوری ہو گئی۔ اب امی اور نانی ننگے بستر پہ پڑے ایک دوسرے کے جسموں سے لپٹے مزہ لے رہے تھے۔ میں نے نانی اماں کو گالی دیتے ہوئے کہا
میں: حرام کی جنی، یہ چکنی مجھ سے چُدنے کے لیے اپنی چوت سے نکالی ہے تو نے اور یہاں تو ہی مزے لے رہی ہے اس کے ننگے جسم کے!!!
نانی: ارے تو چود نہ اس موٹی رانڈ کو، میں بھی تو دیکھوں کہ میری اُولاد کی پرفارمنس بستر پہ کیسی ہے!
میں (امی سے): آجا ناہید، ٹانگیں اُٹھا اور چُد جا اپنی ننگی ماں کے سامنے
امی: آجا مادر چود، چود دے اپنی ماں کو اُس کی ماں سامنے
میں امی کے اوپر چڑھا اور امی کی ٹانگیں اُٹھا کر لنڈ چوت میں ڈال کر گھسے لگانے لگا۔۔۔ امی آں، آہ، آہ کی آوازیں نکالنے لگیں اور پانچ منٹ کی زوردار اور چیخوں کی آوازوں سے بھرپور چُدائی کے بعد میں نے منی نکال دی۔ اب میں اور نانی، امی کے ننگے جسم پر زبان پھیر رہے تھے، اُسے چوم رہے تھے جب کہ امی بے سدھ، بستر پہ الف ننگی سیدھی پڑی ہوئی تھیں۔ نانی نے میرے لنڈ کو ہاتھ میں لیتے ہوئے مجھے توصیفی نظروں سے دیکھا اور پھر امی کے منہ پہ کس کرتے ہوئے امی سے بولیں
نانی: بڑی ہمت ہے تیری جو ابھی بھی ایسا جوان لنڈ اتنی دیر تک برداشت کر لیتی ہے۔۔۔ شاباش میری ناہید۔۔۔ عورت کا اصل مقام بستر پہ مرد کے نیچے ہی ہے اور یہی عورت کا اصل امتحان ہوتا ہے۔۔۔ آج میں مطمئن ہو گئی کہ تو اس امتحان میں کامیاب ہے ۔
یہ رات ایک یادگار رات تھی اور اس کے بعد ہم تینوں ننگے ایک ہی بستر پہ ایسے سوئے کہ میں اپنی ماں اور نانی کے بیچ میں تھا۔
صبح میں دیر سے اُٹھا اور اس وقت تک نانی واپس جا چُکیں تھیں۔ ناشتے کے بعد میں بھی کام سے باہر چلا گیا اور شام کو واپس آیا تو امی کو فل سیکسی موڈ میں پایا۔ امی نے ٹائٹ اُف وائٹ ٹراؤزر اور وائٹ کلر کی چھوٹی سی ڈیپ نیک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی. امی کا تھل تھل کرتے جسم کا ایک ایک انگ باہر جھلکتا تھا جبکہ موٹی گانڈ واضح طور پر باہر نکلی ہوئی تھی۔ امی نے میرے ہونٹوں پہ کس کیا تو میں نے بھی امی کی گانڈ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
میں: آج تو میری چکنی غضب ڈھا رہی ہے۔۔۔
امی: کل ہی تو چودا ہے اس چکنی کو
میں: تو آج کس سے چدوائے گی چکنی؟
امی: تجھ سے چدواؤں گی اور وہ بھی روز
میں: چل پھر آج ننگا مجرا ہو جائے
امی: جیسا تُو بولے
میں: تو نکال ممے
امی نے فوراً شرٹ اُتار دی اور اب ٹائٹ ٹراوزر میں باہر نکلی ہوئی موٹی گانڈ کے اُوپر ممے بالکل ننگے تھے۔ میں نے سیکسی پنجابی گانوں کی سی ڈی میوزک پلیئر پہ اُن کر دی اور امی نے مموں کو ہلا ہلا کر گانڈ مٹکانا شروع کر دیا۔ یہ مجرا دس منٹ تک چلا اور مجرے کے ختم ہونے تک امی مادر زاد ننگی ہو چکیں تھیں۔
میں: چل میری چکنی ماں، اب تیری چُدائی کا ٹائم آ گیا ہے
امی: چُدتی تو میں روز ہی ہوں تجھ سے پر آج سپیشل چُدائی ہو گی
میں: وہ کیسے؟
امی نے ٹی وی آن کیا تو یو ایس بی پہ ٹرپل ایکس فلم چالو تھی جس میں ایک انگریز لڑکا اپنی ماں کے ساتھ ہمبستری کر رہا تھا
امی: آج رات تم بھی مجھے ایسے ہی چودو گے
میں: بہن کی لوڑی، چڈکڑ چھنال، لوڑے کی دیوانی، موٹی رانڈ۔۔۔۔ آج تو تیری چوت کا بھوسڑا بنا دوں گا
امی: یہی تو میں چاہتی ہوں مادر چود۔۔۔۔ آج ساری رات میری چوت میں منی ڈال ڈال کے مجھے پیٹ سے کر دے۔۔۔۔
الغرض اُس رات میں نے امی کو تین مرتبہ چودا اور امی بھی تین بار فارغ ہوئیں۔ درد سے امی کا بُرا حال ہو گیا لیکن بچے کی خواہش میں امی رات بھر چُدواتی رہیں۔ ہم نے یہی معمول اگلے چار روز تک رکھا اور ان چار روز میں امی پندرہ بار مجھ سے چُدیں اور ان دنوں میں امی نے مجھے گانڈ نہیں مارنے دی تا کہ میری منی کا ایک ایک قطرہ امی کی چوت میں گرے اور بچہ دانی میں امی کا مواد میری منی سے مل کر امی کو پریگننٹ کر سکے۔ یہ امی کی چوت کے زرخیز دن تھے لہذا ہماری کوشش کامیاب ہوئی اور امی کو اگلا حیض نہیں آیا، تاریخ گزرنے کے بعد جب ٹیسٹ کروایا تو رزلٹ پازیٹو تھا اور امی میرے بچے کی ماں بننے والی تھیں۔ امی خوشی سے بے قابو ہوئے جا رہی تھیں اور اسی خوشی میں امی نے مجھے اُن کی چلی چکن گانڈ مارنے کی اجازت دے دی۔۔۔۔ میں تو اتنے دن سے اس موٹی گانڈ کے لیے ترس رہا تھا لہذا فوراً امی کو جھکایا، شلوار نیچے کھینچی اور بنا پورا ننگا کیے امی کا گانڈ مارنی شروع کر دی۔ امی بھی آج خوب جوش میں گانڈ مروا رہی تھیں
امی: آہ، آ، اُو، آہ، پھاڑ دے اس موٹی گانڈ کو آج، چود چود کے خون نکال دے، یہ میرا راجہ بیٹا، اور چود، زور سے چود۔۔۔۔
میں بھی خوب گھسے مار رہا تھا اور تھوڑی دیر میں، میں نے ساری منی امی کی گانڈ کے اندر ہی نکال دی۔ امی صوفے پہ اُوندھے لیٹے سستا رہی تھی اور تازہ تازہ چُدی ہوئی موٹی گانڈ اُبھر کر باہر نکلی ہوئی تھی۔
میں: چکنی، سیدھی لیٹ جاؤ
امی: اُوں۔۔۔۔
میں: کیا ہوا! تھک گئیں؟
امی: گانڈ میں درد ہو رہا ہے
میں: سوری جانو، آج جوش میں کچھ زیادہ ہی زور سے چود دیا شاید
امی: چُدنے میں تو مزہ آتا ہے مجھے، بس پیچھے سے لینے میں درد ہوتا ہے
میں: اب پیچھے سے لینے کی عادت ڈال لے میری چُدکڑ ماں۔۔۔
امی: وہ کیوں بھلا؟
میں: جب بچہ بنا رہی ہو گی تو گانڈ سے ہی تو خوش کرے گی اپنے مادر چود بیٹے کو
امی: ارے پگلے، تجھے معلوم ہی نہیں کے عورت پیٹ سے ہو تو چُدائی کی بھوک اُور بڑھ جاتی ہے
میں: نہیں نہیں! یہ تو مزہ ہی آ جائے گا، میں دنیا خوش نصیب ترین بندہ ہوں گا جس نے پہلے ماں کو چود چود کر پریگنینٹ کیا اور پھر پریگنینٹ ماں کو بھی چودے گا
امی: اور میں خوش نصیب نہیں کہ جو پہلے اپنے بیٹے سے چُدوا کر اُس کے بچے کی ماں بننے والی ہے اور پھر پورے نو مہینے بھی اپنے جوان بیٹے کا لنڈ اپنی چوت میں لے گی.
اُسی دن امی نے ابو کو فون کیا اور میرے سامنے ہی فون سیکس شروع کر دیا۔ جب میں نے امی کو چوت میں انگلی کرتے دیکھا تو اپنا لنڈ نکال کر امی کے منہ میں دے دیا۔ اب امی میرا چوپا لگا رہی تھیں اور فون پر ابو سمجھ رہے تھے کہ ان کی بیوی انگلی منہ میں لے کر اپنی سیکس کی بھوک مٹاتے ہوئے اُنہیں خوش کر رہی ہے۔ ابو لاؤڈاسپیکر پہ تھے، تبھی میں نے سنا کہ انہوں نے امی سے کہا کہ اب اُن کا چودنے کا من ہو رہا ہے، امی نے نے کہا کہ فون پر چود دو۔۔۔۔۔ اب ایک طرف سے ابو فون سیکس کر رہے تھے اور دوسری طرف اُن کی سیکسی بیوی کا ننگا جسم مجھ سے چُد رہا تھا۔ امی مجھ سے چُد رہی تھیں، آوازیں نکل رہی تھیں اور فون سیکس بھی جاری تھا۔ دس منٹ کی چُدائی کے بعد میں، امی اور ابو، تینوں فارغ ہو گئے تو امی نے اصل ڈرامہ شروع کیا اور ابو کو سنانی شروع کر دیں کہ ان کے جسم کی بھوک نہیں مٹ رہی اور ان کو چُدوانا ہے۔ امی نے ابو سے کہا کہ وہ فوری طور پر چھٹی لے کر آ جائیں اور اُن کو چود کر اُن کا حق ادا کریں۔ عورت جب ننگی ہو کر منوانے پر آئے تو کیا نہیں کر سکتی لہذا ابو نے ہامی بھر لی اور واقعی تین دن بعد ابو چار دن کی چھٹی لے کر پاکستان آ گئے۔
ابو کی فلائٹ رات بارہ بجے کی تھی۔ میں جانتا تھا کہ امی نے آج رات جم کر چُدنا ہے کیونکہ ابو بہت دنوں کے رکے ہوئے ہیں اور امی نے اُنہیں بلایا ہی چودنے کی دعوت پر ہے۔ رات کے کھانے کے بعد میں نے امی کو پیار کیا تو امی نے مجھے سینے سے لگا لیا اور ہلکے سے فرنچ کس سے میری پپی کا جواب دیا۔
میں: آج تو میری چکنی پہ روپ ہی کچھ الگ آ رہا ہے!
امی: میں تو وہی ہوں
میں: تو آ جائیں کمرے میں، ابھی چلنے میں دو گھنٹے ہیں
امی: نہیں جانو آج نہیں، ابو آ رہے ہیں اور آج تو ساری رات تیری ماں نے چُدنا ہے
میں: ہائے میری میری دو دو لنڈ لینے والی چھمک چھلو، بہت ایکسائٹیڈ ہے!
امی: لنڈ تو میں تیرا ہی لینا چاہتی ہوں پر بچے کو لیگل کرنے کے لیے ابو سے چدوانا بہت ضروری ہے۔۔۔۔ آنے والی چار راتیں تیری ماں پہ بہت بھاری ہوں گی۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی بھرپور چدواؤں گی ابو سے تا کہ اُنہیں بعد میں کسی قسم کا شک نہ ہو
میں: ارے یہ تو ابو کا حق ہے اور آپ بھی مست مزے لیجیے گا چُدائی کا۔۔۔ بھوسڑا تو میں نے بنا ہی دیا ہے
امی: چل ہٹ، اب تیار ہونے دے
میں: ایسے کیسے چکنی! چودوں گا تو ضرور تجھے تا کہ ابو کو آج رات چُدی ہوئی ناہید ملے
امی: رحم کر مجھ پر۔ پہلے ہی پیٹ سے ہوں اور ایک رات میں دو دو لنڈ اور بھی نجانے کتنی بار چودیں ابو مجھے آج رات!!!!!
میں: ارے چتو رانی، کچھ نہیں ہو گا تجھے۔۔۔۔ اتنے سالوں سے چُد رہی ہے۔ بھرپور چُدائی کا مزہ لے
امی: بہت ضدی ہے تُو، چل چود لے اپنی ماں کو
میں نے فوراً امی کے مموں کو ہاتھوں میں لے کر چومنا شروع کر دیا اور امی بھی میرے سر پہ دونوں ہاتھ پھیرتے ہوئے چُدائی کی شروعات کا مزہ لینے
ایک تبصرہ شائع کریں for "امی کا شوہر (قسط 2)"