میں نے تھوڑی دیر میں امی کی شلوار جس میں ایک ڈھیلا سا الاسٹک ڈالا ہوا تھا (میں نے امی کو ازاربند والی شلواریں پہننے سے منع کر رکھا تھا اسی لیے امی نے اپنی ساری شلواروں میں ڈھیلا الاسٹک ڈال لیا تھا تا کہ میں جب چاہوں شلوار کھینچ کر امی کی موٹی گانڈ کا نظارہ دیکھ سکوں) نیچے کر کے اپنا ہاتھ امی کی گانڈ کے درمیان گھسا دیا۔ امی کی گانڈ کی درمیانی لائن بہت کھلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے چلتے وقت دونوں چوتڑ الگ الگ ہلتے اور دیکھنے والے کا لنڈ کھڑا کر دیتے تھے۔ میرا پورا ہاتھ امی کی گانڈ کے درمیان تھا اور امی مچل رہی تھیں۔ میں نے امی کو پلٹا کر اپنا منہ امی کی گانڈ میں دے دیا اور زبان سے گانڈ چاٹنے لگا۔ امی نے اپنی قمیض اُتار دی اور اب صرف کالے رنگ کا برا امی کے جسم پر موجود تھا۔ میں نے امی کو جھُکا دیا تھا اور دونوں ہاتھوں سے امی کے چوتڑ الگ کرتے ہوئے اپنا منہ گانڈ کے بیچ میں گھسایا ہوا زبان سے گانڈ کو سوراخ چاٹ رہا تھا۔ گانڈ چٹائی کے بعد میں نے امی کو بستر پہ دھکا دیا اور خود اوندھی لیٹی امی کے اُوپر چڑھ کر لنڈ امی کی گانڈ کی موری میں گھسانے لگا۔ امی کے چوتڑ اتنے بڑے اور باہر کو نکلے ہوئے تھے کہ ان کو کھولے بغیر میرا لنڈ گانڈ کے سوراخ تک پہنچنے کے بجائے چوتڑوں ہی کے درمیان پھنس جاتا تھا۔
امی: آگے سے ڈال نا
میں: گانڈ کا مزہ تو لے لوں موٹی رانڈ
امی: مادر چود، اوپر آ اور چود مجھے
میں: آ جا تجھے رنڈی بنا کر چودوں
امی: چود دے۔ رنڈی ہوں میں تیری۔۔۔ رکھیل ہوں رکھیل۔۔۔۔ کھیل مجھ سے، پھاڑ دے اپنی رکھیل کی چوت کو
میں نے امی کو سیدھا کر کے بیڈ کے کونے پر کیا، موٹی موٹی ننگی ٹانگیں اپنے ہاتھوں پہ اُٹھائیں اور لنڈ امی کی کھلی چوت میں پیل دیا۔۔۔ لنڈ سیدھا اندر گھسا تو امی نے آہ ہ ہ ہ کی آواز سے اپنے چُد جانے کا اعلان کر دیا۔ اب میں بیڈ کے ساتھ کھڑا امی کی چُدائی کر رہا تھا اور امی کا تھلتھلا پیٹ اور بڑے بڑے ممے میرے ہر جھٹکے سے میری نظروں کے سامنے اُوپر نیچے ہو رہے تھے۔ دس منٹ کی چُدائی کے بعد امی فارغ ہونے لگیں اور اُنکی چوت نے فوارے کی طرح پانی چھوڑ دیا۔ مجھے امی کے پانی چھوڑنے کے بعد اُن کو چودنے میں بہت مزہ آتا تھا کیونکہ پھر امی کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ لنڈ باہر نکال دیں اور امی منتیں کرتیں کہ اُنہیں چھوڑ دوں اور یہی چیز مجھے بہت ایکسائیٹ کرتی تھی۔ خیر، فوراً ہی میں نے بھی منی چھوڑ دی اور امی کے اوپر گر کر ممے دبانے لگا۔
بھرپور چُدائی کے بعد کچھ دیر میں اور امی اسی طرح ننگے بستر پے لیٹے ایک دوسرے کے جسم پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ میں نے امی کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دباتے ہوئے فرنچ کس کیا اور کہا کہ امی، میں نے اچھی طرح چود کر آپ کو رات بھر چُدنے کے لیے تیار کر دیا ہے۔۔۔ آج تو خیر نہیں اس چکنے بدن کی۔ ایک چُدائی کروا لی ہے اور کم از کم دو اور چدائیاں ایک فریش لنڈ سے اور کروانی ہیں ابھی
امی: یہ سب تیرا بچہ پیدا کرنے کے لیے کچھ زیادہ قیمت تھوڑی ہے۔ چُدوا تو میں سالوں سے رہی ہوں، اچھا ہے کہ زیادہ چُدائی سے جسم اور چوت کھل جائے گی اور پھر تجھے زیادہ مزہ دیا کروں گی.
اب امی نہانے چلی گئیں اور جب تیار ہو کر باہر آئیں تو سچ میں قیامت لگ رہی تھیں۔ امی نے سرخ قمیض اور سفید پٹیالہ شلوار پہنی تھی۔ قمیض ٹائٹ فٹنگ کی تھی جس میں ممے اور گانڈ واضح طور پر نمایاں تھے۔ قمیض کا گلا خوب گہرا تھا جس میں مموں کی لکیر تک نظر آ رہی تھی۔ قمیض کی کواٹر آستینیں تھیں اور چاک بھی بہت بڑے تھی جس میں سے شلوار کے اوپر ننگی کمر دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے امی کے مموں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ چُدائی پوری طرح آپ کی شکل پہ لکھی ہے۔۔۔ امی شرما کر آگے بڑھ گئیں۔ بہرحال ہم ابو کو لے کر رات ڈیڑھ بجے گھر پہنچے تو توقع کے عین مطابق ابو سیدھے بیڈ روم کی جانب یہ کہتے ہوئے بڑھے کہ میں بہت تھک گیا ہوں اب کل صبح ملتے ہیں۔ میں نے امی کی طرف دیکھا جو اپنا چکنا بدن لیے پیچھے کھڑی تھیں۔ میں نے دل میں کہا کہ آج تو ہٹ ہٹ کے لیں گے ابو، امی کی اور پھر امی بھی چوتڑ مٹکاتی بیڈروم میں چلی گئیں اور دروازہ بند ہو گیا۔ میں دروازے کے باہر ہی کان لگا کر بیٹھ گیا اور کچھ ہی دیر میں مجھے امی ابو کی اٹھکیلیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد آوازوں سے معلوم ہوا کہ امی چوپا لگا رہی تھیں۔ میں نے کان دروازے سے لگا دئیے
ابو: پورا منہ میں لے
امی: لے تو رہی ہوں
ابو: چوس ناہید، چوس
امی: کب سے تڑپ رہی تھی اس لنڈ لے لیے!
ابو: کھا جا اس لنڈ کو میری جان
اور پھر کچھ ہی دیر میں چُدائی شروع ہو گئی اور میں اپنے کمرے میں آ کر لیٹ گیا۔ مجھے معلوم تھا کہ امی نے پوری رات چُدنا تھا لہذا میں آرام سے نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔ صبح اُٹھا تو ابو سامان لینے ائرپورٹ چلے گئے تھے جبکہ میری چُدکڑ امی بستر ہی میں لیٹی تھیں۔ میں فوراً امی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ کروٹ کے بل لیٹی تھیں اور اُن کے بدن پر صرف ایک سرخ نائنٹی تھی۔ امی کی حالت کافی خراب معلوم ہوتی تھی اور میرے پوچھنے پر امی نے بتایا کہ رات ابو نے اُنہیں تین مرتبہ چودا۔ امی کے بقول، دوسری مرتبہ ہی میں اُن کی حالت خراب ہو گئی تھی اور ٹانگیں شدید درد کر رہیں تھیں لیکن پھر بھی ابو نے امی کو تیسری مرتبہ بھی تقریباً نیم بیہوشی کی حالت میں ہونے کے باوجود چودا اور مسلسل آدھے گھنٹے تک لگاتار چودتے رہے۔ امی گڑگڑاتی رہیں لیکن ابو نے زرا رحم نہیں کھایا اور جم کے گھسے لگائے۔ میں نے امی سے کہا کہ آپ سختی سے منع کر دیتیں تو امی بولیں کہ میں اپنے شوہر کو کیسے منع کر سکتی ہوں بھلا، شوہر کا حق ہے وہ کب چاہے، جتنا چاہے بیوی کو چودے۔ یہ سن کر میرے اندر موجزن ہمدردی کا جزبہ ایک دم ختم ہو گیا کہ میرے سامنے امی کے نخرے ختم نہیں ہوتے اور ابو کے معاملے میں ستّی ساوتری!!! میں نے بھی سوچ لیا کہ اب میں بھی مزہ چکھا کر رہوں گا۔۔۔۔ میں نے لنڈ نکالا اور امی کے منہ میں دے دیا
امی: کیا کر رہا ہے؟
میں: لنڈ چُسا رہا ہوں
امی: ابھی نہیں، میری حالت دیکھ، ساری رات چُدی ہوں
میں: میں بھی شوہر ہوں، مجھے کیوں منع کر رہی ہیں؟
امی: رحم کرو مجھ پر، دونوں باپ بیٹے چود چود کر جان سے مار دو گے
میں: ابھی تیری گانڈ مارتا ہوں رنڈی کی بچی
امی: نہیں، پلیز نہیں
میں جھٹ امی کے پیچھے آیا اور زبردستی گانڈ میں لنڈ گھسا دیا۔ امی کی ہلنے تک کی ہمت نہیں تھی لہذا روتے دھوتے گانڈ مروائی اور منی اندر لے لی۔ امی بالکل بے سدھ ننگی بستر پر اوندھی پڑی تھیں اور میری منی امی کے چوتڑوں پہ جمی ہوئی تھی۔ امی ہلکی ہلکی آہ آہ آہ کی آوازیں نکال رہیں تھیں۔ میں امی کے ساتھ بیٹھا امی کی گانڈ پے ہاتھ پھیرتا ہوا چوت تک پہنچا اور چوت میں انگلی کرنے لگا۔ چوت بہت زیادہ سوجی ہوئی تھیں کیونکہ پچھلے بارہ گھنٹوں میں امی چار مرتبہ چُدی تھیں اور رات بھر کی مسلسل چُدائی کا اثر امی کے پورے جسم اور چوت پر نمایاں تھا۔ میں کچن میں گیا اور گرم دودھ لے کر آیا، امی کو سہارا دے کر اٹھایا اور بیڈ کے سرہانے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا دیا۔ امی آہستہ آہستہ دودھ پینے لگیں جب کہ میں نے نیم گرم پانی میں کاٹن کے صاف کپڑے سے امی کی چوت صاف کر کے اس کی سکائی کرنی شروع کر دی۔ امی نے بھی ٹانگیں کھول کر پھیلا دی تھیں تا کہ میں چوت اور اس کے نیچے کے حصے کے علاوہ امی کی رانوں کی بھی سکائی کر سکوں۔ امی کے چہرے سے شدید تھکن کے آثار نمایاں تھے لیکن مجھے اپنی چُدکڑ ماں کو ایک اور لمبی چُدائی کے لیے تیار کرنا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ابو نے آج دوپہر میں بھی امی کے ساتھ سیکس کرنا ہے اور کیونکہ رات بھر وہ امی کو چود چکے ہیں اس لیے جلدی فارغ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یعنی ایک طویل چُدائی آج دوپہر میں میری ماں کا مقدر ہے۔
میں: امی، بہت درد ہو رہا ہے؟
امی: ہاں، درد ٹانگوں اور کمر میں ہے، چوت تو جیسے اندر تک جل رہی ہے
میں: بہت ظلم کیا ہے ابو نے آپ کے ساتھ کل رات
امی: وہ اسی طرح کرتے ہیں جب واپس آتے ہیں۔ اسی لیے تو میں تجھے روک رہی تھی چودنے سے کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ ابو نے آ کر میرے ساتھ کیا کرنا ہے
میں: تو آپ اُنہیں روکتی کیوں نہیں ہیں؟ منع کیوں نہیں کرتیں؟
امی: کیسے روکوں؟ شوہر ہیں وہ میرے، حق ہے ان کا میرے جسم پر
میں: لیکن حق کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ ایسا حال کر دیں آپ کا
امی: اب تو عادت ہو گئی ہے مجھے۔ تیرے ابو کمرے کے اندر اور کمرے سے باہر بالکل فرق بندے ہوتے ہیں۔ باہر وہ جتنے دھیمے، خوش اخلاق، خوش زبان ہیں، کمرے کے اندر سیکس کرتے ہوئے وہ اُتنے ہی جنگلی، ظالم، سخت دل اور اکھڑ ہوتے ہیں۔ شادی کے شروع میں وہ مجھے بستر سے باندھ کر چودتے تھے۔ یہ جو آج مجھ میں اسٹیمنا ہے اسقدر چُدنے کا، یہ سب اتنے سالوں کی سخت چُدائی ہی کی وجہ سے ہے۔ مجھے یہ سب سن کر پھر سے دکھ ہونے لگا تھا اور اپنی ماں کے لیے رحم اور ہمدردی محسوس ہونے لگی تھی۔
میں: ابو نے آپ کو آج دوپہر بھی چودنا ہے!
امی:ظاہر ہے
میں: لیکن آپ کی تو چوت پوری سوجی ہوئی ہے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ جلن بھی ہو رہی ہے!
امی: سوجن کی تو خیر ہے لیکن بس یہ جلن کسی طرح کم ہو جائے۔۔۔۔ ٹھنڈک مل جائے کسی طرح
میں نے کچھ سوچا اور پھر فریج میں سے آئس کیوب نکال لایا اور امی کو لٹا کر چوت پر برف کی ٹکور کرنے لگا۔ امی کی خوب بڑی سی گلابی چوت پوری باہر نکلی ہوئی تھی اور پنکھڑیاں تک سوجی ہوئی تھیں۔ امی کی حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی، برف لگاتے لگاتے میں نے بے اختیار امی کی چوت کو چوم لیا۔ امی کے منہ سے ایک اطمینان بھری سسکاری نکلی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ امی کو مزہ آیا۔ میں نے فوراً اپنی زبان سے اپنی چُدی ہوئی ماں کی پھولی ہوئی خوب لمبی چوڑی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔ امی کی چوت کی پنکھڑیاں اتنی بڑی اور باہر کو نکلی ہوئی تھیں کہ میں انہیں پورا پورا اپنے منہ میں لے کر چوس رہا تھا۔ امی کی چوت کا دانا بھی خوب موٹا تھا جس پر زبان پھیر کر خوب مزہ آ رہا تھا۔ غرض کوئی دس منٹ امی کی چوت چٹائی چلی اور پھر میں نے امی کو کپڑے پہنا کر تیار کر دیا کیونکہ ابو کسی بھی وقت آ سکتے تھے۔ امی کی حالت خراب ضرور ہو گئی تھی لیکن امی کو اس طرح چُدنے میں مزہ بھی بہت آتا تھا۔ کافی دن بعد رف چُدائی نے درد کیا تھا لیکن اب امی دوبارہ فلو میں آ گئیں تھیں اور لنچ پہ ابو کو بھرپور ادائیں دکھا کر رجھا رہی تھیں۔ کھانے کے بعد ابو کمرے میں چلے گئے اور امی اور میں برتن سمیٹ رہے تھے۔ میں نے امی کے چوتڑ دبا کر کہا کہ جائیں، چُدوا لیں اپنے ٹھوکو سے تو امی ہنستے ہوئے کمرے میں چلی گئیں اور پھر تو وہ چُدی ہیں امی کہ آوازیں باہر تک آ رہی تھیں۔ امی چار دن تک رج کے چُدیں اور پھر ابو واپس چلے گئے۔ قصہ مختصر، نو مہینے بعد امی نے میرے بیٹے کو جنم دیا جس کو دنیا میرا بھائی سمجھتی ہے۔ میں امی کو ریگولر چودتا رہا یہاں تک کہ جب میں اٹھائیس سال کا ہو گیا تو امی نے میری شادی کا کہنا شروع کر دیا۔ میں نے امی کو منع بھی کیا کہ میری بیوی تو امی خود ہیں تو امی نے اصرار کیا کہ اب ان کی عمر پچپن سال ہو گئی ہے اور جسم بھی چُدائی کے لائق نہیں رہا۔ حالانکہ میں ابھی بھی امی کو روز چودتا تھا اور میرے لیے امی میں آج بھی وہی کشش تھی لیکن اب امی کے پیریڈز آنے بند ہو چکے تھے، امی کی طاقت اور ہمت بھی بہت کم ہو گئی تھی اور وہ رات میں ایک مرتبہ چُدائی کے بعد ہی نڈھال ہو جاتی تھیں۔ امی کی ٹانگوں میں بھی درد رہتا تھا لہذا ٹانگیں اُٹھا کر چودنا ممکن نہیں رہا تھا، ہاں امی کی ایک چیز آج بھی جوان تھی اور وہ تھی امی کی گانڈ۔ اب کیونکہ امی کی چوت کھلی اور گرفت کمزور ہو چکی تھی لہذا میں زیادہ تر امی کی گانڈ مارتا تھا اور امی کی گانڈ کا سوراخ آج بھی ٹائٹ تھا۔ بہرحال میں دو شرائط پر شادی کے لیے راضی ہو گیا۔ ایک تو یہ کہ امی بدستور مجھ سے چُدنے کے لیے ایویلیبل رہیں گی یعنی میں جب چاہوں اُنہیں چودا کروں گا اور دوسری شرط یہ کہ میں شادی کسی چودہ، پندرہ سال کی بچی سے کروں گا تا کہ ٹائٹ کنواری چوت کا مزہ لوں اور چھوٹی بچی کو چودنے کا لُطف اُٹھا سکوں۔ امی نے میری دونوں شرائط بخوشی مان لیں اور تین ہی مہینے میں میرے لیے پندرہ سال کی کچی کلی، دلہن کے روپ میں موجود تھی۔ میری بیوی کا نام لیلیٰ تھا اور اس نے اُسی سال میٹرک کے پیپرز دئیے تھے۔ لیلیٰ کی عمر پندرہ سال تھی لیکن وہ بمشکل بارہ سال کی لگتی تھی۔ قد چار فٹ دس انچ، کمر چھبیس انچ، چھوٹی ہی ٹائٹ گانڈ اور چھوٹے چھوٹے لیکن انتہائی تنے ہوئے پنک نپّل والے تیس سائز کے ممے۔ سہاگ رات پہ وہ قیامت لگ رہی تھی لیکن میں پہلے ہی سوچ چکا تھا کہ پندرہ سال کی لیلیٰ کو چودنے سے پہلے میں پچپن سال کی امی کو چودوں گا۔ میں نے لیلیٰ کو کہا کہ میں پہلے امی کو سلا کر آتا ہوں کیونکہ وہ میری ماں ہیں تو اس نے بخوشی اجازت دے دی۔ میں امی کے کمرے میں آیا تو امی نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے فوراً امی کو لپٹا کر کس کرنا شروع کر دیا جس کا امی نے دیوانہ وار جواب دیا۔
امی: بس اب چھوڑ بھی دے، کیا رکھا ہے اس بڑھیا میں! جا، جا کر اپنی کنواری کلی سے دل بہلا
میں: پہلی چُدائی اُس کی جسے چود کر چُدائی سیکھی
امی: تو میرا راجہ بیٹا ہے، میں جانتی تھی کہ بھلے تجھے جوان لڑکی مل جائے پر تو اپنی ماں کو نہیں بھولے گا۔۔۔۔ آ مجھے چود تا کہ لیلیٰ کو اُس کہ سہاگ رات پہ بھی میرے اندر سے نکلا ہوا استعمالی لنڈ ملے
میں نے جھٹ پٹ امی کو دیوار سے لگا کر چودنا شروع کیا اور پھر فارغ ہونے کی لیے امی کی گانڈ ماری۔ امی کی چُدائی سے فارغ ہو کر میں نے لیلیٰ کے کمرے کا رخ کیا۔ کمرے میں زیرہ کا بلب جل رہا تھا لیکن میں نے ٹیوب لائٹ آن کر دی، ویاگرا کی گولی کھائی اور لیلیٰ کی جانب بڑھا جو سمٹی، سہمی بستر پہ بیٹھی آنے والی رات کے انجانے خوف میں مبتلا تھی۔ میں تو پہلے ہی ایک کھلاڑی تھا اور سوچ رکھا تھا کہ اس کچی کلی کو تو مسل کے ہی رکھ دینا تھا۔ میں نے لیلیٰ کو اپنے سامنے کھڑا کیا اور اپنے ایک ہی ہاتھ سے اُس کے دونوں چوتڑ دبا کر اُسے اوپر اُٹھا لیا۔ وہ رات لیلیٰ کے لیے ایک بھیانک رات ثابت ہوئی لیکن اس رات کے بعد سے میری زندگی میں بھی کافی تبدیلیاں آگئیں ۔ دھیرے دھیرے امی نے مجھ سے چدانا کم کردیا ۔میں امی کے چودے بغیر نہیں رہ سکتاتھا مگر امی نے مجھے سمجھایا کہ اپنی نئی زندگی کی طرف توجہ دو ۔میں ضدکرتات و امی مجھ سے چدوالیتیں۔ پھر ایک سال بعد میں چاند سے بیٹے کا باپ بن گیا ۔امی اتنی خوش تھیں کہ بتا نہیں سکتا۔وہ اپنے پوتے کے پیار میں اتنا ڈوب گئیں کہ چدائی کوہی بھول گئیں۔ میں بھی دھیرے دھیرے لیلیٰ کی خوبصورت چوت اور گانڈ میں گم ہوتا چلاگیا۔(ختم شد)
ایک تبصرہ شائع کریں for "امی کا شوہر (آخری قسط)"