شائستہ بیگم کا شمار ملک کے منجھے ہوۓ چند بزنس وومن میں ہوتا تھا انہوں نے یہ مقام سالہا سال کی محنت اور بزنس میں یکسوئی کے بعد بنایا تھا اور کوئی شک نہیں ہے کے انہوں نے شدید انتھک محنت کی تھی اس مقام کے لیے اور آج وہ بہت سی عورتوں اور مردوں کے لیے ایک کاروباری ماڈل کی حیثیت رکھتی تھی. کافی عرصہ ایک بات گردش کرتی رہی کے شائستہ بیگم کچھ مختلف تھی باقی عورتوں سے مطلب کے وہ کچھ عورتوں میں ضرورت سے زیادہ انٹرسٹ رکھتی تھی اور مشہور تھا کے وہ لیسبین ہے لیکن خیر آج تک یہ بات بات ہی رہی نہ کبھی شائستہ بیگم نے کبھی کسی کے ساتھ کھلنے کی کوشش کی نہ کسی اور کی ہمت ہوئی کے ایسی بات وہ پوچھ سکیں. پتا نہیں کیوں لیکن شائستہ بیگم کے شخصیت میں کچھ تھا کے انکا لہجہ کافی حکمکانہ تھا اور اگلا بندہ زیادہ دیر انکے سامنے ٹک نہ پاتا تھا اور جلد ہی انکی شخصیت سے مرعوب ہو جاتا تھا.
شائستہ کی ایک دوست تھی لاریب، جو کے اسکے بہت ہی قریب تھی اور ہر دکھ سکھ تنہائی ویرانی کی ساتھ تھی اور اکثر زیادہ تر شائستہ کے ساتھ ہی پائے جاتی تھی ایک دن اس نے اپنی ایک دوست کی بہن کو جاب دلوانے کے لیے شائستہ سے سفارش کی تھی لیکن شائستہ نہ مانی اور بولی کے یار تم پے جان بھی حاضر ہے لیکن جانی تمہیں پتا ہے نہ کے آجکل بزنس میں مقابلہ سخت چل رہا ہے اور اصغر صاحب کی کمپنی کے مقابلے میں ایک پروجیکٹ جیتنے کرنے کے لیے کچھ بہت اہم کام ہیں اور وہ میں سفارش کے نظر نہیں کر سکتی تم تو سمجھتی ہو نا؟؟ یہ سن کے لاریب تھوڑا آگے جھکی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے بڑی مدھم آواز میں بہکے بہکے انداز میں بولی مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے تمہیں اور یہ کہتے ہوۓ اپنی مخروطی انگلیوں کو شائستہ کے لبوں پے پھیرتنے لگی اور پھر اپنے نرم نرم گلابی ہونٹ شائستہ کے نیم وا ھونٹوں پے رکھ دے اور دھیرے دھیرے سے اسکا ہونٹ اپنے ھونٹوں کے بیچ دبا لیے اور اسپے زبان پھیرتے ہوۓ چوسنا سٹارٹ کر دیا اور ایک ہاتھ شائستہ کے مموں پے رکھ کے ہلکے سے ممے مٹھی میں دبائے اور نپل کو ہاتھوں میں لے تھوڑا سا سہلایا اور شائستہ اس حرکت پے پانی پانی ہو رہی تھی اور اسنے بھی آگے بڑھ کے لاریب کے ھونٹوں کو نرمی سے چوس لیا اور اسکی پھدی پے ہلکا سا تھپڑ مار کے اپنی انگلی اسکی پھدی کی گہرائی میں ڈالنا چاہی اور اسکے ھونٹوں کو کبھی اپنے اوپر والے ھونٹوں میں تو کبھی اپنے نیچے والے ھونٹوں میں چوستی ابھی شاید یہ مزہ کچھ دیر اور رہتا لیکن مین گیٹ پے کچھ شور ہوا تو انہوں نے لب کشائی چھوڑی اور سیدھے ہو کے بیٹھ گئی اور شائستہ بولی تو بہت کمینی ہے تجھے پتا کام کیسے نکلواتے ہیں لاریب بھی ہنس کے بولی ہاں نہ تم سے ہی سیکھا ہے . شائستہ بولی کے بھیج دینا اسے لیکن بتا دینا کے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ویسے نام کیا بتایا ہے تم نے؟ ارے بابا میں تو بتانا ہی بھول گئی حورین نام ہے اسکا اور بہت ہی خوش شکل اور نہایت سلجھی ہوئی بچی ہے. شائستہ بولی ہاں ٹھیک ہے بھیج دینا ہم بھی تو دیکھیں اس سلجھی ہوئی بچی کو
سوموار والے دن حورین نے جوئننگ دی اور سیکرٹری نے اسے کچھ انتظار کو کہا اور کچھ دیر بعد اسے شائستہ کے کمرے میں بھیج دیا . وہ اندر گئی تو ایک دفا تو شائستہ حورین کو دیکھ کے ڈگمگا گئی اور بڑی مشکل سے خود کے اندر بڑھتے ہوۓ بہکے جذبات کو کنٹرول کیا کیا مست بچی تھی حورین، کیا گول گول ممے اور سینا تان کے چلتی اسکا ادائیں پل بھر میں شائستہ پے حاوی ہو گئی . شائستہ نے اسے کام دیا کے پروجیکٹ کی پریزنٹیشن بنانی ہے اور ہاں یہ والا کام بہت امپورٹنٹ ہے کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے. حالاں کے حورین بہت قابل تھی لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں ہر بار کوئی نہ کوئی غلطی ہو جاتی تھی اس سے اور ہر بار شائستہ قہر آلود نگاہوں سے اسے برداشت کر جاتی لیکن ایک دن تو حد ہی ہو گئی اور شائستہ کا دیا گیا انتہائی اہم کام بھول گئی. شائستہ انتہائی غصّے میں تھی اور اسنے بڑے غصّے سے اسے اپنے کمرے میں بلایا. سیکرٹری نے حوریں کو بتایا کے بیگم صاحبہ بہت غصّے میں ہیں .
حوریں اندر کمرے میں چلی گئی اور ڈر کے مارے حورین کا حلق خشک ہوا تھا اور بات نہ ہو پا رہی تھی حورین انتہائی غصّے میں پوچھ رہی تھی ککم کے حوالے سے اور حورین سر نیچے جھکا کے زمین تاڑے جا رہی تھی جسکی وجہ سے شائستہ کا خون کھول اٹھا .
اسکی مسلسل چپ نے شائستہ کو غصہ دلایا اور وہ اپنی سیٹ سے اٹھی اور چلتے چلتے حورین کے پیچھے آئی اور اس کو حکمیہ لہجے میں بولی بس بہت ہو گیا اب برداشت سے باہر ہے اور اب تمہیں سزا ملے گی اور اسکو جھکنے کو کہا کوہنیوں کو میز پے ٹکا کے . وہ پریشان تو ہوئی تھوڑا سا یہ سن کے لیکن اسکے لہجے کی تاب نہ لا سکی اور جھک گئی اس طرح کے اسکی موٹی موٹی گول گانڈ باہر کو نکل آئی. یہ دیکھ کے شائستہ کے تو وارے نیارے ہو گئے اور اسنے اسکی گانڈ پے تھپڑ مارنے سٹارٹ کر دے اس انداز سے کے شور زیادہ ہو لیکن درد کم. ہر تھپڑ کے بعد حورین کی ہلکی سی چیخ نکلتی اور وہ تھوڑا آگے کو جھکتی . لیکن شائستہ اتنی نرم نرم روی مانند گانڈ کو چھوڑنا گوارا نہ کر سکتی تھی
کچھ دیر بعد ہی حورین کی ہلکی ہلکی سی سسکیاں نکلنا سٹارٹ ہو گئی اور اسکی گانڈ تھپڑ کی واضح سے لال اور گرم ہو گئی جسکی ذکر اسنے کیا کے مس بس کریں بہت درد ہو رہا ہے . شائستہ بولی کے اچھا درد ہوتا ہے؟ ذرا ہم بھی تو دیکھیں اور یہ کہ کے اسنے ایک جھٹکے سے اسکی سکرٹ اوپر کر دی اور اسکی چکنی نرم گانڈ بنا بالوں والی شائستہ کے سامنے آ گئی. شائستہ کچھ پل تو حیران ہوئی ایسا غضب کا مال دیکھ کے
لیکن یک دم شائستہ کو احساس ہوا کے معاملا کہاں جا رہا ہے تو وہ پیچھے ہٹ گئی اور بولی چلو جو گھر اپنے اور اپنی جاب ختم سمجھو چلو شاباش. اور پیچھے ہو گئی لیکن حورین زمین پے بیٹھ گئی اور منتیں کرنے لگ گئی کے پلیز جاب ختم نہ کریں میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں لیکن جاب ختم نہ کریں. ایک غلطی کی اتنی بری سزا نہ دیں مجھے . دراصل اسکے ذہن میں تھا کے اگر جاب ختم ہو گئی تو اتنی زیادہ تنخوا ختم ہو جائے گی اور اپنے میاں کے ساتھ گزر رہی شاہانہ زندگی ختم ہو جائے گی
یہ ترلے سن کے شائستہ کے گھاک شیطانی دماغ میں ایک سیکسی سا آئیڈیا ایا کے کیوں نہ اس نازک جسم والی پری پے ہاتھ سیدھے کیے جائیں؟ آخر بہت عرصہ ہوا ایک جوان جسم کا ساتھ حاصل کے تو بولی کے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو؟ حورین بولی ہاں سب کچھ. شائستہ بولی کے سوچ لو اور شیطانی سی سمائل دی جسکا جواب دیا کو جی مس میں سب کچھ کرنے کو تیار ہوں . یہ سن کے شائستہ نے حورین کو سیدھا اوپر کھڑا کیا اور اپنی نگاہیں مموں پے فوکس کرتے ہوۓ زبان اپنے ھونٹوں پے پھیری اور پیچھے کھڑی ہو کے حورین کی شرٹ کے بٹن کھولنا سٹارٹ کر دے. ایک لحظے کو تو حورین حیران ہوئی کے یہ کیا ہو رہا ہے لیکن اسے امتحان سمجھ کے چپ رہی کے شاید یہ جان بوجھ کے بھگانے کے لیے کر رہی ہو .
پھر دھیرے دھیرے اسکے بٹن کھول کے اسکے برازییر کے اوپر سے اسکے موٹے موٹاتے مموں کو سہلایا اور پھر اسکا ایک مما باہر کو نکالا کیا غضب قیامت ڈھاتے ممے تھے حورین کے . مموں پے خون کی ہری ہری رگیں صاف نظر آ رہی تھی . شائستہ اپنی نگاہیں جھکنا اور جھپکنا بھول گئی اس نظارے سے. وہ سب کچھ بھول کے اس سیکسی بمب کے اثر میں تھی. بلکلل گنگ حیران پریشان ادھر حورین کو عجیب لگ رہا تھا یہ سب کیوں کے کسی بھی عورت کے سامنے ننگی ہونے کا یہ اسکا پہلا تجربہ تھا اور پھر عورت بھی وہ جو اسکی بوس تھی اور پتا نہیں کیوں کر رہی تھی .
پھر شائستہ نے دوبارہ حورین کو میز پے جھکایا اور دھرے دھیرے گانڈ پے ہاتھ پھیرتے ہوۓ اسکی گانڈ کو اپنی مٹھی میں قید کے اور پھر دھیرے دھرے سے اسکی سکرٹ کو دوبارہ اوپر کیا اور اسکی گانڈ کو انڈرویر کے اوپر سے ہی سہلانے لگ گئی. حورین کو یہ عجیب لگ رہا تھا لیکن مزہ بھی آ رہا تھا تھوڑا تھوڑا سا لیکن پھر اچانک شائستہ نے اسکی انڈرویر بھی کھینچ کے نیچے کر دی اور اسکی بنا بالوں بنا داغ کے بہکاتی للچاتی پھدی بشمول گانڈ کے صاف نظر آنے لگ گئی حورین کی سانس رک گئی یہ دیکھ کے کیوں کے ابھی تک احساس نہ ہو پا رہا تھا کے یہ سب کی حد کیا ہو گی اور ہو کیا رہا ہے؟ لیکن پھر آہستہ آہستہ گانڈ کو سہلاتے اور اپنی انگلی تھوک لگا کے شائستہ نے اسکی پھدی کو سہلانا سٹارٹ کر دیا پھدی تھوڑی کھلی تھی جسکا مطلب تھا کے حورین کے مرد کا لوڑا بہت ٹھلّا تھا اور وہ جم کے چدائی کرتا ہو گا حورین کی. اب حورین تھوڑا تھوڑا شرمندہ ہو رہی تھی یہ سب کے ھوتے ہوۓ
حورین کی گوری چٹی بنڈ اور تروتازہ پھدی کو ٹچ کر کے اور اسکی بھینی بھینی خوشبو کو محسوس کر کے پھدی کا نشہ شائستہ کے سر پے چڑھ کے بولنے لگ گیا اور وہ جذبات کے دھارے پے بہکنا شروع ہو گئی اور اپنی کرسی پے بیٹھ کے اسکی دعوت دیتی گانڈ کو گھورنے لگ گئی اور سوچنے لگ گئی کے اگلا قدم کونسا اور کیسے اٹھانا ہے؟
پھر وہ کسی فیصلے کی نہج پے پہنچی اور وہ اٹھی اور اپنی میز کے دراز کے اندر سے کچھ تلاش کرنے لگ گئی اور حورین مسلسل اشتیاق میں تھی کے آگے کیا ہونے جا رہا ہے اور پھر اسکا اشتیاق پریشانی میں بدل گیا کیوں کے شائستہ کچھ ڈھونڈ کے اسکے سامنے کر چکی تھی اور وہ کچھ اور نہیں بلکے موٹا لمبا اور جھریوں والا پنک رنگ کا پلاسٹک کا لوڑا تھا جی ہان ایک عدد لوڑا. یہ دیکھ کے حورین کی گانڈ ٹائٹ ہو گئی اور ٹٹی اوپر کو چڑھ گئی اور پھدی لمک کے پھدا بن گئی اب اسے سمجھ لگنے لگ گئی کے استاد جی ہن تے پھدی پاٹی کے پاٹی
شائستہ بولی ایسا کیوں دیکھ رہی ہے جیسے لوڑا نہیں بلکے مچھندر دیکھ لیا ہو؟؟ آخر تم اس سے آشنا تو ہو نا کیوں کے اپنے شوھر کا لوڑا تو تم نے خوب چوسا اور کھایا ہو گا ہے نا؟؟ تم کچھ بولو نہ بولو لیکن تمہاری پھدی صاف بتا رہی ہے اور ہاں میں پھدیوں کی زبان اچھی طرح جانتی ہوں اور اس وقت تمہاری پھدی کو دیکھ کے بتا سکتی ہوں کے وہ یہ والا لوڑا مانگ رہی ہے کیوں ایسا ہی ہے نا؟؟ حورین کے خدشے ٹھیک ثابت ہو رہے تھے مطلب شائستہ اسے چودنے والی تھی؟؟ حورین بدک کے پیچھے ہٹی اور بولی نہیں مس میں ایسا نہیں کروں گی یہ سن کے شائستہ بھوکی شیرنی کی طرح آگے بڑھی اور بولی کے آرام سے موں میں ڈالو اور ٹھیک طرح چوسو سمجھی بلکل اسی طرح تم اپنے ٹھوکو مطلب شوھر کا چوستی ہو . پھر شائستہ نے نقلی لوڑا ایک سٹرپ کی مدد سے اپنی پھدی پے چڑھایا کے بلکل مردانہ لوڑا لگنے لگ گیا اور حورین کو کھینچ کے زمین پے بٹھایا اور لوڑا اسکے موں کے سامنے کر دیا اور دھیرے دھیرے سے اسکے ھونٹوں کے اوپر رگڑنے لگ گئی اور پیچھے سے اسکے بالوں کی چھوٹی ہاتھوں میں کھینچ کے پکڑ کے زور سے کھینچا تو اسکا موں کھل گیا اور شائستہ نے لوڑا اسکے موں میں دے دیا . کچھ دیر تو مزاحمت کی لیکن پھر اسنے اپنے آپ کو حالات کے دھارے پے چھوڑ دیا
پھر شائستہ نے بولا کے اسکو اس طرح چوسو کے تمہاری پھدی میں آسانی سے چلا جائے ورنہ پھدی کی دیواریں چیرنا مجھے بہت آتا ہے اور یقین مانو مجھے بہت مزہ آئے گا تمہاری نازک پھدی کو لوڑے سے ٹھوک کے پھدا بنانے میں لیکن میرا مشورہ یہی ہے کے اسے اچھی طرح چوس لو تا کے تکلیف نہ ہو ورنہ میرے لن کو بھی ٹھنڈ نہیں ہے. یہ سن کے بنا سوچے سمجھے حورین نے لوڑا موں میں لے کے تھوک جمع کر کے چوسنا سٹارٹ کر دیا اور کبھی ٹوپی کو چوستی اور کبھی حلق تک لوڑا اندر لے لیتی اور کافی گیلا کر دیا . شائستہ کے چہرے پے اطمینان تھا جیسے یہ اسکا اصل لوڑا ہو اور وہ آنکھیں بند کے چسائی کے مزے لے رہی تھی اور اپنے ھونٹوں کو اپنے دانتوں کے بیچ چبا رہی تھی .
پھر شائستہ نے لوڑا حورین کے موں سے باہر نکالا اور اسکو اٹھا کے دوبارہ میز کے ساتھ ٹکایا اور ایک جھٹکے کے ساتھ اسکو دھکا دے کے کوڈا کر لیا . حورین نقلی لوڑے اور اپنی بوس سے چدائی کے موڈ میں نہ تھی اور بولی کے پلیز نہ کریں اس پھدی پے میرے شوھر کا حق ہے صرف پلیز اسکا مان ہی رہنے دیں. شائستہ طنزیہ ہنس کے بولی کے حورین بی بی اگر آج میں تمہاری تنخوا بند کر دوں تو کچھ ہی دن میں تمہاری بنڈ بند ہو جائے گی اور پھر جب پیسے نہ ہونے سے یہ پھدی گلی محلے کے لوگوں بچوں اور بوڑھوں کے لوڑے پے چڑھاوے کے طور پے چڑھاؤ گی تو تب تمہاری اس گانڈو شوھر کا حق کدھر جائے گا؟؟ بھوسڑی کی نہ ہو تو بڑی آئی حق جتانے. حورین کے موں میں جیسے لن وڑ گیا ہو اور وہ لوڑے جیسا موں بنا کے چپ کر گئی پھر شائستہ نے اپنی ایک انگلی حلق تک لے گئی اور اپنی چکنی تھوک نکال کے حورین کی پھدی پے لگائی اور پہلے انگلی سے مساج کیا اور پھر لوڑے کی ٹوپی کو پھدی کے سوراخ پے فٹ کیا اور تھوڑا سا اندر پریس کیا تو لوڑا موٹا ہونے کی وجہ سے اندر جا نہیں پا رہا تھا پھر شائستہ نے جھٹکے مارنے شروع کر دئیے اور حورین ہر جھٹکے کے بعد تھوڑا آگے کو ہو جاتی جسکی وجہ سے لوڑا باہر کو آ جاتا پھر شائستہ نے ایک دردناک جھٹکا مارا اور لوڑا پھدی کی دیواروں کو رگڑتا ہوا دیواریں چیرتا ہوا اندر چلا گیا اور اسنے وہاں کھڑے کھڑے ہی چودنا سٹارٹ کر دیا
پھر کچھ دیر بعد وہ تھوڑا تھک گئی تو بالوں سے کتیا کی طرح گھسیٹتے ہوۓ اسکو صوفہ پے لے گئی اور کتیا بنا کے پیچھے سے لوڑا دوبارہ پھدی کے ساتھ ٹکایا اور ایک ہی جھٹکے سے ہی لوڑا آدھ اندر کر دیا حورین نے اپنا سر درد اور مزے کے ملے جلے جذبات کی وجہ سے نیچے جھکا لیا لیکن شائستہ کو یہ بات نہ پسند آئے اور اسنے اسکی بالوں کی چھوٹی کو پکڑ کے گھوڑی کی طرح اسکے بالوں کی مدد سے اسکا سر دوبارہ کھیچ کے اوپر اٹھایا تا کے سر اوپر کو رہے اور چدائی کی وجہ سے اسکے ممے ہلتے رھیں لٹک کے جو کے شائستہ کو بہت پسند تھے
پھر شائستہ نے اسے کپڑے اترنے کو کہا اور فل ننگی کر کے اسکو صوفہ پے لٹایا اور ٹانگیں کھول کے اسکی ٹانگوں کے بیچ آ گئی اور لوڑا اسکی پھدی کے اندر کر دیا اور اب وہ زیادہ اندر گہرائی تک جھٹکے مار رہی تھی جسکی وجہ سے حورین کو بہت تکلیف ہو رہی تھی اور کرب اسکی آنکھوں اور چہرے پے صاف واضح تھا اور ہر جھٹکے کے بعد اسکی ہلکی ہلکی دبی دبی سی چیخ نکل جاتی اور وہ اپنے ھونٹوں کو دانتوں میں دبائے درد کو برداشت کر رہی تھی لگتا ہے کے حورین کے شوھر کا لوڑا لمبا تو ہو گا لیکن موٹا نہیں کیوں کے لوڑا پھنس پھنس کے جا رہا تھا اور شائستہ مزے کی آخری حد پے تھی ایک جوان بچی کو چود کے اور اسکے چہرے پے پھیلے درد کے احساس اور جسم کے ساتھ لگے لوڑا اسے عجیب سی خوشی دے رہا تھا اور وہ ٹھکا ٹھک چود رہی تھی اور حورین کو ہی پتا تھا کے اتنا ٹھلّا لن وہ کیسے لے رہی ہے
شائستہ کو یہ بات پسند نہ آئی کے اسکی چدائی کی وجہ سے حورین واویلا کرے تو اسنے جھک کے ایک ہاتھ سے اسکی گردن دبا لی اور تیز تیز جھٹکے مرنے لگ گئی اور بولی کے اب چیخ مار کے دکھاؤ اور وحشی انداز میں چوت پھاڑ رہی تھی حورین کی آواز نہ نکل پا رہی تھی لیکن درد کا احساس وہ اپنی آنکھوں سے آنسو نکال کے دے رہی تھی اسکی آنکھیں سانس کی کمی کی وجہ سو ابل کے باہر کو آرہی تھی لیکن شائستہ کو پرواہ نہیں تھی
آنسو دیکھ کے شائستہ کا دل پسیج گیا اور اسنے چدائی کی سپیڈ کم کر دی اور اپنے ھونٹوں کو اسکی آنکھوں کے قریب کر اسکے سارے آنسو قطرہ قطرہ کر کے پی لیے اور دھیرے سے اسکے بالوں کو سہلانے لگ گئی اور اسکے حسن کے جلووں میں کھو گئی حورین واقعی ہی حور تھی اور دکھی موں میں وہ اور بھی سندر لگ رہی تھی اور اسکا پھولا پھولا چہرہ اور سوجی آنکھیں شائستہ کی جان نکل کے لے گئی اور اسنے پیچھے ہٹ کے لوڑا باہر کو نکالا اور سٹریپ کو کھول کے لوڑا آزاد کیا اور سائیڈ پے اتار کے پھینک دیا اور اسکی موتی موتی کھلی پھدی کو دیکھنے لگ گئی جسکو اسنے چود چود کے لال کر دی تھی. پھر وہ نرم لہجے میں بولی کے تمھارے شوھر نے کبھی تمہاری پھدی چوسی ہے؟ حورین بولی نہیں کبھی بھی نہیں چوسی اور کون چوستا ہے؟ جواب سن کے شائستہ ہنس پڑی اور بولی چلو آج تمہیں ایک نیا مزہ دیتی ہوں اور یہ کہ کے اسنے اپنا چہرہ نیچے کیا اور پھدی کے قریب لا کر اسکی پھدی کو سونگھا، کیا بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی کون کمبخت ایسی پھدی نہیں چوسے گا؟ اور شائستہ نے اپنی گرم گرم سانسیں اسکی پھدی پے مارنا سٹارٹ کر دی حورین کے لیے یہ بلکل نیا تجربہ تھا اور وہ سر اٹھا کے دیکھ رہی تھی کے شائستہ کیا کرنے جا رہی ہے پھر شائستہ نے اپنی زبان آھستہ سے اسکی لکیر پے پھیری تو حورین جھٹکا کھا کے پیچھے کو ہو گئی اور آنکھیں باہر کو آ گئی کیوں کے اتنا شدید مزہ تھا پھر شائستہ نے دوبارہ اپنی زبان پہلے تو اسکی پھدی کے ارد گرد پھیری اور پھر اسنے اپنی زبان آہستہ آہستہ کر کے اکی لکیر کے اوپر اور پھر لکیر کے اندر تک پھیرنا شروع کر دی اور ادھر مزے میں پاگل تھی اور سر جھٹک رہی تھی وہ اپنا آپ ہلکا سا محسوس کر رہی تھی
پھر شائستہ نے حورین کے پھدی کے لب تھوڑے سے کھولے اور زبان کو گول کر کے سخت کیا اور اسکو پھدی کے اندر لوڑا بنا کے چودنا سٹارٹ کر دیا وہ زبان کو اکابھی اندر کرتی اور کبھی باہر کرتی اور ہر بار جب بھی زبان اندر کرتی تو اس پے حورین کی پھدی کا جوس لگا ہوتا جو کے تھوڑا نمکین سا تھا اور اس بات کا ثبوت تھا کے حورین اس چدائی کو بھرپور طریقے سے انجویے کر رہی ہے پھر شائستہ نے اسکے دانے کو دانتوں میں جکڑ کے اپنی کھردری زبان سے جو چھیڑا تو حورین کی تو جان ہی نکل گئی وہ سپنے میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی کے ایسا بھی مزہ آ سکتا ہے اور وہ بھی اتنا شدید؟؟؟ اسکی پھدی بھل بھل پانی چھوڑ رہی تھی
پھر شائستہ نے پھدی کو چھوڑا اور گانڈ پے سوراخ پے نظر رکھی اور ننھا منا سا پنک رنگ کا سوراخ اسکی جان نکل رہا تھا اور پھر اسنے اپنی زبان جو کے اب کھردری ہو چکی تھی کو گانڈ کی درز پے جو پھیرا تو حورین مزے کی شدت کی تاب نہ لا سکی اور اسنے اپنی گانڈ کا سوراخ بھینچ لیا جو کے شائستہ کو بہت اچھا لگا اور اسنے اپنی زبان کو اسکی گانڈ مین ڈالا اور حورین کو کہا کے اب گانڈ ٹائٹ کرو اور جب حورین نے گانڈ ٹائٹ کی تو اسکی زبان اندر پھنس گئی جسکو شائستہ نے دھیرے دھیرے سے باہر نکالا اور پھر دوبارہ اندر کر کے یہی عمل دہرایا جسکی وجہ سے حورین کتی کی طرح مزے میں گم تھی بلکل اسی طرح جس طرح کتیا کتے کے ساتھ گینڈ پھنسا کے خوش ہوتی ہے اور سانسوں کا طوفان اسکے سینے میں برپا تھا اور دل اتنا تیز دھڑک رہا تھا کے جیسے سینے کی دیواریں پھاڑ کے باہر کو آ جائے گا ابھی کے ابھی. اگر اسنے کبھی سپنا بھی دیکھا ہو گا تو اس میں بھی نہیں سوچا ہو گا کے اتنا مزہ ایک عورت عورت کو دے سکتی ہے. اسے یک دم شستہ پے بہت پیار ایا اور اسنے سوچا کے اسکو بھی مزہ دینا ہو گا نہ.
پھر اسنے اپنا آپ اوپر کو اٹھایا اور شائستہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ اسکے تشنہ لب اپنے لبوں سے ملا لیے جیسے صدیوں کے پیاسے ہوں اور ایک ہی لمحے میں پیاس بھجانا چاہتے ہوں وہ دونوں. کیا کچھ نہیں تھا وہاں؟ تشنگی، دیوانگی، وحشت، جذباتیت، پیار، اقرار ایک کمی ایک نیا احساس اور نیا رشتہ اور نیا سفر. پھر حورین نے حوصلہ اکھٹا کیا اور شائستہ کو دھیرے سے صوفہ پے جھکایا اور پیچھے سے آہستہ شستہ پہلے اسکی پھدی کو چوما اور پھر اپنا پیار کا رخ شائستہ کی گانڈ کی طرف موڑ دیا اور دھرے دھرے سے اسکی گانڈ کو زبان سے ٹٹولنا سٹارٹ کر دیا اور اسی طرح سے اپنی زبان اسکی گانڈ کو پیش کڑ رہی تھی. شائستہ مزے میں گم آنکھیں بند کے اں لمحوں کو محسوس کر رہی تھی اور دعا مانگ رہی تھی کے کاش یہ لمحے یہیں تھام جائیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اور اپنی گانڈ میں ایک دوشیزہ کی گرم زبان محسوس کر رہی تھی .
پھر حورین نے شائستہ کو سیدھا کیا اور اسکی پھدی کو سونگھا جس میں پیاس اسے سونگھ کے ہی محسوس ہو رہی تھی اور اسنے اسی پیاس کے تریاق کو اپنی زبان کی مدد سے اسکی پھدی پے رکھ دیا اور پہلے پوری پھدی کو چوما اور پھر اپنی انگلیوں کی مدد سے اسکے لیب وہ کے اور اندر والے حصے کو زبان سے محسوس کیا اور ہر حصے پے اپنے پیار کے ثبوت نقش کیے اور پھر پھدی کے اندر اپنی زبان دے دی اور اسے گھومنا سٹارٹ کر دیا. شائستہ کا انگ انگ اس جذبے کی شدت سے دھک رہا تھا اور ہر حصہ ایک انجان سی مستی میں تھی اور سارا خوں اسے پھدی کی طرف جاتا محسوس ہو رہا تھا اور وہ مزے میں پاگل ہو رہی تھی اور حورین کے سر کو اپنے پھدی پے دبا رہی تھی اور دل کر رہا تھا کے کسی طریقے سے اسکا سر یہیں جم جائے اور یہ لبوں سے لبوں کا ناتہ اور رابطہ نہ ٹوٹے اور لب لبوں سے ملے ہی رھیں .
پھر حورین نے ہمت پکڑی اور شرم حیا کو بالائے طاق رکھتے ہوۓ اس مزے کو آخری حد تک انجویے کرنے کو سوچا اور دھرے دھرے سے شائستہ کا دان اپنے لبوں مین لے کے اسے چوسنا شروع کر دیا اور کبھی اسے چوس کے اپنے موں کے اندر کھینچتی تو کبھی دانتوں سے رگڑتی اور ساتھ ساتھ پھدی پے حملہ بھی جاری رکھی رکھا. شستہ قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی اور اسکی زبان کے نیچے مچل رہی تھی اور بن پانی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی اور حورین کے لیے یہ ایک نیا مزہ تھا کے اسکی تھوک اور شائستہ کی پھدی کے جوس آپس میں مل کے ایک عجیب سا ذائقہ دے رہے تھے جو کے انتہائی شہوت انگیز تھا
پھر شائستہ نے حورین کو نیچے لٹایا اور خود اسکے چہرے پے اس طرح بیٹھ گئی کے اسکی پھدی حورین کے لبوں کے اوپر آ گئی اور حورین نے بنا کسی تاخیر کے اپنے اپرلے لب شائستہ کے نچلے لبوں سے ملا دے اور ادھر شائستہ نے حورین کی ٹانگیں ھوا میں اٹھا دیں اور ایک ہاتھ سے اسکی پھدی پے تھپڑ مارنے لگ گئی ہلکے ہلکے سے اور ساتھ ہی تھپڑ مرتے مرتے اپنی ایک انگلی اسکی پھدی میں بھی دے دیتی اور پھر تیز تیز تھپڑوں کی رفتار اسکے دانے کے اوپر مرنے لگ گئی جسکا اثر یہ ہوا کے حورین کی پھدی درد اور مزے کے ملی جلے جذبات کی وجہ سے پانی چھوڑنے لگ گئی اور ادھر حورین بھی شائستہ کی پھدی کا جوس نکل رہی تھی اور شائستہ کی پھدی گاڑھا دھودیا مادہ سیدھا حورین کے حلق میں اتار رہی تھی اور حورین اسکو پیٹی جا رہی تھی اور وہ کسی قیمت پے اسکو ضایع نہیں کرنا چاہ رہی تھی. پھر ایک دم ہی شیستی کی سانسیں تیز ہوئی اور جسم اکڑنا شروع ہو گیا اور آہ آہ وی وی سو سو سو ام ام ام کی آوازوں کے ساتھ اسنے حورین کے چہرے پے پھسلنا سٹرٹ کر دیا اور چند ہی سیکنڈز میں اسکا آرگزم ہو گیا اور ڈھیر سارا مادہ حورین کے چہرے سے ہوتا ہوا کانوں کو اوپر سے اسکی گردن اور بالوں میں سرایت کر گیا اور بالوں کی طرح اسکی روح میں بھی سرایت کر گیا
. اسے سب ایک خواب سا لگ رہا تھا کے کہاں ایک وہ شریف سی گھریلو بچی اور کہاں وہ یہ کیا کیا کر گئی اور پل بھر میں ہی وہ کیا سے کیا بن گئی. اسے اب بچھڑنا اور واپسی کا سفر مشکل لگ رہا تھا اسے لگتا تھا کے وہ اب کبھی بھی اپنی ذات کے اس حصّے کو بھلا نہ پائے گی اور نہ ہی دفن کر پائے گی . اسنے پھر اپنی نظروں کو شائستہ کی نظروں سے ملتے ہوۓ پوچھا کے کیا یہ سفر جاری رہ پائے گا؟ شائستہ دھیمے سے لہجے میں بولی کے یہ سوال تم مجھ سے پوچھنے کی بجائے خود سے پوچھو. پھر خود ہی حورین نے شائستہ کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور انکی پشت کو لبوں سے ملا کے چوم لیا اور جواب ہاں میں تھا . پھر اسکی لائف کا ایک نیا باب شروع ہوا اور وہ تھا صبح 9 سے شام 5 بجے تک وہ شائستہ کی بیوی ہوتی اور شام 5 سے رات تک وہ اپنے شوھر کی بیوی ہوتی. لیکن جو مزہ جو اپنائیت اسے شائستہ کی قربت سے ملتی ویسا سکون اسے اپنے شوھر سے نہ مل سکا پھر کبھی. یا شاید اسنے ویسا سکون اپنے شوھر میں تلاش کرنا خود ہی ختم کر دیا ہو، خیر !! کون جانے؟؟؟؟ ہم انسان بھی نہ خود کی دنیا خود اپنے ہی ہاتھوں، باتوں اور سوچوں سے بناتے رہتے ہیں اور خود ہی ختم کرتے رہتے ہیں
لیکن پھر آہستہ آہستہ دنوں دنوں میں حورین شائستہ کی سیکرٹری بن گئی اور اسی کے کمرے میں شفٹ ہو گئی بقول لوگوں کے تا کے شائستہ کو پیغام دینے میں آسانی ہو لیکن اندر کی بات کون جانے؟؟؟ اور سنا کے پورے آفس میں حورین کی محنت اور لگن کی مثالیں دی جاتی ہیں کے اتنے کم وقت میں اسنے اتنی ترقی کر لی ہاہاہاہا اس بات پے اکثر حورین اور شائستہ خوب ہنستی کے لوگ بھی نہ، کچھ بھی بولتے ہیں . ہائے یہ معصوم لوگ انکے الگ الگ ہیں روگ . لیکن یہ دنیا ہے بھائی یہاں سب ہوتا ہے اور سب چلتا ہے اور چلتا رہے گا...
ختم شد
ایک تبصرہ شائع کریں for "نیا رشتہ "