میں نے ابھی پینٹ پہنی تھی کہ میرے ہاتھ وہیں رک گئے،پھر سوچوں میں ڈوبا شرٹ پہننے لگا،میں نے اپنی تربیت کی تمام تر صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے ہر اندازہ لگا لیا تھا ،سوائے اس ایک بات کے کیونکہ میرے اندازے کے مطابق جوسلین یہ کبھی نہیں کرے گی،استاد آخر استاد ہی ہوتا ہے اس نے بھی وہ بات کی جو میں سوچ بھی نہ سکتا تھا،بلکہ اس نے خود کو بھی امتحان میں ڈال لیا تھا ، کیا ہوا کیا تم یہ نہیں کرسکتے ؟ مجھے سوچا دیکھ کر جوسلین نے پوچھا،نہیں میں کچھ اور سوچ رہا تھا ، میں نے اپنے جوگر کے تسمے باندھتے ہوئے کہا میں جانتا تھا جوسلین کو پتہ ہے کہ میں کیا سوچ رہا ہوں ،اب تم ابھی نکل جاؤ ،جوسلین ایک سخت گیر استاد کی طرح بولی تو میں نے اپنی جیکٹ اٹھائی اور ایک لمحے کی دیر لگائے بغیر فلیٹ سے باہر نکل آیا ،باہر کہیں دور سے اذانوں کی آواز آرہی تھی،میں تو ایسی صبح سے انجان تھا ایڈریس ایک مڈل کلاس کالونی کا تھا۔
میرے پاس صرف دو دن تھے اور چار لڑکیوں کو چودنا تھا ،میں بھاگنے لگا ،اور جلد ہی میں روڈ پر پہنچ گیا جوسلین نے بائیک بھی نہیں لینے دی ،میں بھا گنے لگا ،مجھے پیچھے سے ایک موٹر سائکل کی آواز آئی ،میں نے مڑ کے دیکھا تو یہ ایک دودھی تھا جو شاید کہیں سے دودھ لینے جا رہا تھا ،میں نے ہاتھ دے کر اسے روکا بلکہ اس کے رستے میں کھڑا ہوگیا ،کی گل اے صاحب ،سویرے سویرے پیتی تا نہیں ہوئی، یار ساڈے رشتے دار بڑے بیمار نیں تے ایس ٹائم کوئی سواری وی نہیں ملنی تے جانا وی لازمی اے میں ،اوہنا نُوں آودا خون دینا اے ، اتوں یار میری گھڈی خراب ہو گئی اے،،تیری بڑی مہربانی مینوں بس اسٹاپ تے لا دے، اگے میں آپے چلا جاواں گا،،،،شخصیت کے اعتبار سے میں کسی بڑے گھر کا امیر زادہ دِکھ رہا تھا ، دودھی میری کہانی میں آگیا اور مجھے پیچھے بٹھا لیا،موٹرسائیکل بھاگنے لگی ساتھ ہی سوچیں بھی بھاگنے لگی ،جوسلین نے بڑا ہی غیر متوقع امتحان میں ڈال دیا تھا ،دو دن میں چار بہنوں کو چودنا ناممکن تھا ،وہ باہر نکلیں ،ان سے شناسائی ،ان کو پھنسانا ان کا اعتماد حاصل کرنا،پھر ان کو چودنا ،اس کیلیے بھی کوئی ایسی جگہ جہاں وہ اطمینان سے آسکیں ۔
یہ ایک وقت طلب طریقہ کار تھا ،اور وہ بھی ایک لڑکی کیلے نہ کہ چار لڑکیوں کیلیے ، اور چاروں ہوں بھی آپس میں بہنیں ،میں نے فیصلہ کیا کہ ان کے گھر میں گھسناپڑے گا،اور دو دن وہیں رہنا پڑے گا، پتہ نہیں وہ کیسے لوگ تھے ،مگر مڈل کلاس کی کالونی کی وجہ سے میں کچھ آئیڈیے لگا چکا تھا ۔ میرے مطلوبہ بس اسٹاپ پر دودھی نے مجھے اتارا تو میں نے اس کا شکری ادا کیا ،او کوئی گل نئی یار بند ای بندے دا دارو اے ،، اللہ کرے توہاڈا ،رشتے دار ٹھیک ہوجاوے ،وہ چلا گیا تو تھوڑی دیر میں بس آگئی ۔
گو کہ میں نے بسوں میں کبھی سفر نہیں کیا تھا لیکن یہ ایک مشہور بس اسٹاپ تھا اور یہاں بس ضرور آنی تھی،بس آگئی اور میں اس میں بیٹھ گیا،اس میں بس چند ہی سواریاں تھی، کرایہ ،،،کنڈیکٹر میرے سامنے تھا،میں نے بے اختیار جیب میں نے ہاتھ ڈالا لیکن وہاں کچھ نہیں تھا ،جوسلین نے بٹوہ اور موبائل بھی رکھ لیا تھا ،موبائل کی تو مجھے ابھی عادت نہیں ہوئی تھی ،بٹوہ نہ ہونے سے میں ایک لمحے کیلیے بھی فکرمند نہیں ہوا،اسٹوڈنٹ ،،،میں نے بڑے اعتماد سے کہا، ۔اس وقت اسٹودنٹ کا کیا کام تھا، لیکن میری پرسنالٹی کسی امیر زادے کی تھی اور اس معاشرے میں پیسے کو سلام تھا ،کنڈیکٹر مجھے گھورتا ہوا آگے چلا گیا۔
میرے ذہن میں لڑکیوں کو پھنسانے کی ساری باتیں تازہ ہونے لگی،چودائی کے شوق میں یا پیسے کیلیے ،پیسے کی ایک شکل دوستانہ بھی تھی جیسےتحفے تحائف اور ضرورتیں پوری کرنا، پتہ نہیں کون کون سی باتیں مجھے یاد آرہی تھیں ،اپنے مطلوبہ بس اسٹاپ پراتر کر میں بھاگنے لگا، میری رفتار اچھی خاصی تھی میں اگر منہ اندھیرے نکلا تھا تو اب صبح نظر آنی شروع ہوگئی تھی ،بھاگنا اس وقت ضروری تھا ،ویسے تو میرا سٹیمنا کمال کا ہوچکا تھا 15 منٹ بعد میں اپنی مطلوبہ کالونی کی مطلوبہ گلی میں داخل ہوچکا تھا ،ایڈریس اتنا واضح اور نشانیوں سے لکھا تھا کہ مجھے اسے ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی،جس مکان کا ایڈریس تھا وہ بھی میری نظروں پر چڑھ گیا اس میں ایک باریش آدمی داخل ہورہا تھا ، میں پھر فوراً بھاگا ،میرے لیے تو یہ لاٹری سے کم نہ تھا مجھے اس کی توقع نہیں تھی ،میں تو کچھ اور ہی سوچے ہوئے تھا،باریش آدمی اندر داخل ہوا اور اب مڑ کہ دروازہ بند کرنے لگا ہو گا کہ میں بھرّا مار کے اندر داخل ہوگیا۔
باریش آدمی میری طرف غصے سے بڑھا ،میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی ، لیکن میں بڑی تیزی سے ہانپ رہا تھا میرا سانس اکھڑ رہا تھا اور میرے چہرے پر ڈر تھا، جیسے ہی وہ میری طرف بڑھا اور اس نے مجھے پکڑنا چاہا میں نیچے گر گیا ،میرا سانس اکھڑ گیا تھا ،باریش آدمی گھبرا گیا،اس نے کسی کو آواز دی ،پانی لاؤ ،،ایک لڑکی جلدی سے پانی لیکر آگئی وہ حیرانگی سے مجھے دیکھ رہی تھی، آنکھوں کی معمولی سی جھری سے میں سب دیکھ رہا تھا ،باریش آدمی نے پانی کے چھینٹے میرے چہرے پر مارے ،پھر چھینٹے مارے ،میں سانس روکے پڑا رہا،اتنے میں میرے ارد گرد تین لڑکیاں اور ایک عورت جمع ہوچکی تھیں ،اوہ میرے خدا اسے کیا ہوگیا ہے ،باریش آدمی گھبرا گیا، اس نے گھبراہٹ میں مجھ پر بقیہ گلاس کا سرد پانی پھنکا تو میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ،میں گہرے سانس لے رہا تھا ،بیٹھتے ہی میں پھر لیٹ گیا اور میرا سانس تیزی سے چل رہا تھا ،آرام سے بیٹا آرام سے سانس لو ،آہستہ آہستہ میرے سانس نارمل ہوتے گئے ،لیکن میرے چہرے پر اب بھی ڈر تھا اور میں گھبرایا ہوا تھا ،پلیز دروازہ بند کر دیں ،وہ مجھے مار دیں گے میں گھگیایا،عورت اور لڑکیوں کے چہرے پر میرے لیے ہمدردی تھی جبکہ باریش آدمی محتاط تھا ،ایک لڑکی نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا ، کیا بات ہے بیٹا اور کون ہو تم ؟ میرے گھر میں ایسے کیوں آئے ہو اور تم اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو،کون تمھیں مار دےگا، باریش آدمی نے ایکدم اتنے سوالات کر دیئے ، اور میں سوچ رہا تھا کہیں یہ کسی مولوی کا گھر تو نہیں ،کیونکہ باریش آدمی کا حلیہ بالکل کسی مولوی جیسا تھا ،اور تمام گھر والے اس وقت جاگ رہے تھے ، مجھے میرا چاچا مار دے گا،پچھلے دنوں میرے والدین کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا ہے ،تب سے میرے چاچا نے مجھے اپنی حویلی کے تہہ خانے میں قید کر رکھا ہے ،میرے ابا کے ایک وفادار ملازم کی وجہ سے آج میں بھاگنے میں کامیاب ہوگیا تھا،رات کو بھاگا تھا ،میں سیدھا شہر کی طرف آگیا،مجھے ایک بائیک بھی مل گئی تھی ۔لیکن شہر تک پہنچنے کے بعد جانے کیسے وہ خراب ہوگئی ،اس دوران مجھے اندازہ ہوا کہ میرے چچا کو میرے بھاگنے کا پتہ چل گیا ہے ،کیونکہ کچھ لوگ میرے پیچھے تھے ،،انہوں نے میرا پیچھا تو کیا ،لیکن جب بائیک خراب ہونے کے بعد میں گلیوں میں بھاگا تو وہ مجھے نہ پا سکے ،میں تقریباً ایک گھنٹے سے بھاگ رہا ہوں،پلیز بزرگوار میری مدد کریں ،میری جان کو خطرہ ہے ،میں بہت ڈرا ہوا تھا ، باریش آدمی ،عورت اور لڑکیاں میرے ارد گرد بیٹھی تھیں ،اور میں فرش پر بیٹھا تھا،باہر سردی بھی تھی اور اب میری طبیعت نارمل بھی ہوگئی تھی،اسے میری باتوں سے میری کہانی کا بھی کچھ اندازہ ہوگیا تھا ،باریش آدمی نے لمبا سا سانس لیا، جیسے کوئی خود سے سمجھوتہ کر رہا ہو ۔
تمھارا نام کیا ہے بیٹا ،باریش آدمی نے پوچھا ،شہزادہ میں نے بے اختیار جواب دیا،پھر وہ مجھے لے کر ایک کمرے میں لے آیا ، میں مکان کا جائزہ لے چکا تھا گھر میں بس دو ہی کمرے تھے ،اور ایک باتھ روم جس پر ٹاٹ کا پردہ لگا ہوا تھا ،اور ایک جھونپڑی نما برآمدہ تھا جو بتا رہا تھا کہ یہاں کچن ہے،غربت صاف دکھ رہی تھی، عورت جو یقیناً اس کی بیوی تھی اور چاروں لڑکیاں بھی ہمارے ساتھ ہی کمرے میں آگئی،اچھا تو کون ہے تمھارا چاچا اور کہاں کے رہنے والے ہو تم ،میرے چچا کا نام ۔۔۔۔۔۔۔ ہے ،میں نے جوسلین کی وسیع و عریض جائیداد کے ساتھ والی جاگیر کے موجودہ مالک کا نام بتاتے ہوئے کہا،ان کی آپس میں دشمنی چل رہی تھی،اور پانچ قتل بھی ہوچکے تھے حالات ان کے خراب تھے، میں نے تفصیل سے ان کے بارے میں بتایا ،لیکن تم تو کسی گاؤں کے نہیں لگتے،باریش آدمی نے شک زدہ لہجے میں کہا،جی میں تو بچپن سے ہی بورڈنگ سکولز میں پڑھتا آرہا ہوں ،اب بھی ایچی سن میں فورتھ ایئر کے پیپر دے کر فارغ ہوا تھا کہ یہ مصیبت ٹوٹ پڑی ،میرے پاپا مجھے اس ماحول سے دور رکھتے تھے ،اسی لیے مجھے یہاں کی اتنی معلومات نہیں تھی اور میرے مما ،پاپا کے جانے کے بعد میں ان کے چنگل میں پھنس گیا، میرے ایک چچا جو کہ لندن میں رہتے ہیں بس میں نے ان سے رابطہ کرنا ہے اور پھر اس چچا کی خیریت نہیں ہے ،لیکن تمھارے یہ چاچا بھی تمھارے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں باریش آدمی مشکوک تھا یا محتاط تھا لیکن لگتا تھا وہ کچھ دن مجھے اپنے گھر رکھنے پر رضامند ہوگیا ہے ،میرے لندن والے چچا میرے سگے چچا ہیں اور پھر ان کی بیٹی سے میری منگنی ہوچکی ہے ،اور اصل میں یہی بات تو میرے سوتیلے چچا کو بری لگی تھی،وہ اوباش فطرت ہیں ہوسکتا ہیں انہوں نے ہی میرے ماں باپ کو قتل کروایا ہو،ایکبار میں نے اپنے لندن والے چچا سے رابطہ کرلیا تو پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہمارے پاس بے شمار دولت ہے لیکن اس وقت میں مشکل میں ہوں ، پر میں آپ کو یاد رکھوں گا ،اچھا بیٹا میں تمھیں کچھ دن رکھ بھی لیتا ہوں تو تم اپنے چچا سے کیسے رابطہ کرو گے، وہ لندن میں ہے اور تم یہاں ،کوئی ٹیل فون نمبر یا کوئی اور رابطے کا ذریعہ ہے تمھارے پاس ؟ انکل ٹیلی فون نمبر تومیرے موبائل میں تھے وہ بھی وہیں رہ گیا ہے ،میرا ایک دوست ہے جو ایچی سن کالج میں میرا کلاس فیلو رہا ہے ،بہت اچھا دوست ہپے ، دراصل میں چچا کی قید سے فرار ہو کے آیا ہی اسی کا پاس تھا ،اس کے ذریعے میں اپنے چچا سے رابطہ کر لوں گا،لیکن ابھی اس کے پاس نہیں جا سکتا ،کیونکہ میرا چچا بھی جانتا ہے کہ وہ میرا اچھا دوست ہے اور میں اس کے پاس جانے کی کوشش کروں گا، تو وہ لوگ میرے اس دوست کے پاس ضرور جائیں گے یا اس کی نگرانی کریں گے،میں کچھ دن بس چھپنا چاہتا ہوں ،پھر میں اپنے دوست سے رابطہ کر لوں گا اور اسی کے پاس چل جاؤں گا،باریش آدمی نیم رضا مند تو پہلے ہی تھا ا ب اطمینان کر چکا تھا ،اسلیے اس نے مجھے وہیں رہنے کی اجازت دے دی،جاؤ تم لوگ ناشتہ وغیرہ تیار کرو،باریش آدمی نے لڑکیوں اور عورت سے کہا،جب وہ کمرے سے چلی گئی تو وہ مجھے مخاطب ہوا،دیکھو شہزادے بیٹا ۔ میں ایک مسجد کا پیش امام ہوں ، یہ چاروں میری بیٹیا ں ہیں اور ساتھ ان کی ماں ہے ،میرے گھر میں سخت پردہ ہے اور ہماری بچیاں غیر مردوں سے پردہ کرتی ہیں ،اسی لیے میں نے ان کومڈل سے آگے نہیں پڑھنے دیا،باقی تعلیم میں نے گھر میں ہی دینے کا فیصلہ کیا ہے ،تم اس گھر میں اچانک آئے ہو اور تم سے پردہ نہیں ہو سکا ،دوسرا میرے گھر میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ تمھیں علیحدہ رکھ سکوں ،اسلیے تم یہاں رہو گے مگر ہم لوگ غیرت کے معاملے میں بہت سخت ہیں ، بس اس بات کا خیال رکھنا ،انکل آپ میری طرف سے بے فکر رہیں ،میں اپنے حالات کا مارا ہوا ہوں اور آپ کا احسان یاد رکھوں گا ،جب حالات بہتر ہوئے تو میں آپ کا حسان ضرور چکاؤں گا،میں ڈھکے چھپے لفظوں میں پہلے بھی مولوی کو لا لچ دے چکا تھا۔مولوی کی خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ اس بات کی امید رکھتا ہے ۔
اگر میں امیر گھرانے کا فرد نہ لگتا اور جاگیر کی باتیں نہ کرتا تو آج اس گھر میں مشکل سے ہی جگہ بنا پاتا، اس معاشرے میں پیسے کو سلام تھا اور غریب کو دھکے تھے ،گو کہ میں نے فلمی کہانی سنائی تھی ،اور میں نے سنائی بھی اسلیے تھی کہ ہمارا معاشرہ اس کہانی کوقبول کرتا ہے ،ناشتہ ہم سب نے اکٹھے کیا ،میں نظریں جھکائے ناشتہ کرتا رہا،پھر مولوی تو سو گیا اور لڑکیاں کام کاج میں لگ گئی،گھر کے ماحول سے اور کچھ مولوی کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ یہاں پابند یاں زیادہ ہیں،گھر میں غربت ہے اور سہولتوں آسائشوں تو کیا ہونی عام ضرورتیں ہی بمشکل پوری ہوتی ہیں،میں بھی ایک چارپائی پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں ،مولوی کی بیٹیاں تو انتہائی خوبصورت تھیں ،گدڑی میں لعل چھپے ہوئے تھے ٍ،جوسلین نے یہ گھر بھی جان بوجھ کر ہی چنا تھا ،کیونکہ اس نے مجھے ہر طبقے کی پہچان کروائی تھی ،ان کی عادات مزاج ،اور رہن سہن ،ان کی ضروریات ،خوہشات اور نفسیات کے بارے میں بتایا تھا،لیکن اس مولوی طبقے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا،بلکہ اسے بھی ان کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا ،وہ تو تھی ہی کرسچئن ،اور میں بچپن کا تو پتہ نہیں لیکن اب تو کبھی اس طبقے کے نزدیک بھی نہیں گزرا تھا،لہذا یہ طے تھا کہ جوسلین نے جان بوجھ کر یہ امتحان در امتحان والی بات کی تھی۔ میں نے کچھ باتیں ذہن میں دہرائی اور باہر صحن میں نکل آیا،آرام سے لیٹے رہنے سے تو کچھ نہیں ہونا تھا،میں مولوی کی بیوی کے پاس جا کر بیٹھ گیا،بڑے مہذب انداز میں آنٹی آنٹی کرتے میں نے اس سے بات شروع کی،وہ جھجک رہی تھی،لیکن مجھے گفتگو میں ملکہ حاصل تھی ،یہ ہونہیں سکتا تھا کہ کوئی میری باتوں کے جال سے بچ سکے،یہ بھی ایک فن تھا،جیسے کہ سامنے والے کی بات کرو ،اپنی نہ کرو،میں نے غربت اور شوہروں کے حوالے سے کچھ باتیں کی تو وہ مجھ سے کھلنے لگی،آنٹی مجھے تو لگتا ہے یہ گھر چلتا ہی آپ کے دم سے ہے،آنٹی اتنے مشکل حالات میں آپ یہ سب کیسے کر لیتی ہیں،آنٹی میری مما بھی با لکل آپ جیسی تھیں،آنٹی لگتا ہے مولوی صاحب نے آپ کی قدر نہیں کی ہے ، بس آنٹی پگھل چکی تھی۔
آنٹی میں جب اپنے چچا کے پا س پہنچ جاؤں گا توآپ کیلیے بہت سے اچھے سوٹ اور گفٹ بھیجوں گا،میرے لیے کوئی گولڈوغیرہ کوئی مسلہ نہیں ہے،نہیں شہزادے بیٹا ہمیں کچھ نہیں چاہیے،بس خدا کرے تم ان مشکلوں سے نکل جاؤ،مولوی کی بیوی نے اوپری دل سے کہا تو مجھے یقین ہو گیا کہ مچھلی نے چارہ نگل لیا ہے،آنٹی آپ کی بیٹیاں تو میری بہنیں ہوئی لیکن مجھےتو ان کے نام بھی نہیں معلوم،آنٹی نے اپنی بیٹیاں کو بلایا،یہ تمھارا بھائی ہے ،سمجھی،،، اسے گھر میں کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے،شہزادے بیٹا، یہ شازیہ ہے ،یہ میری بڑی بیٹی ہے ،یہ نازیہ ہے اس سے چھوٹی،اور اس کےبعد یہ سعدیہ اور یہ رافعہ سب سے چھوٹی ہے،وہ مجھے سلام کرنے لگی،میں ان سے ان کی پڑھائی کی باتیں کرنے لگا،وہ شرماتی لجاتی تھوڑا بہت جواب دینے لگی،رافعہ میٹرک کی تیاری کر رہی تھی جبکہ شازیہ اور سعدیہ ایف کر کے آگے پڑھائی چھوڑ چکی تھیں،،لیکن نازیہ آگے پڑھنا چاہتی تھی،اور اس وقت تھرڈ ائیر میں تھی،سب سے خوبصورت بھی ان میں سے نازیہ ہی تھی ان کو مولوی خود پڑھاتا تھا،مڈل کرنے کے بعدسب ہی اوپن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر ہی تھیں اور گھر میں دینی تعلیم اور اس کے ساتھ گھر کے کام کاج،لڑکیوں کی بس یہی زندگی تھی، کوئی زندگی میں رنگینی نہیں تھی ،میں نےباتوں میں ان کے اچھے انداز اور تربیت کی تعریف کی،اور لچھےدار باتوں میں ان کو لپیٹنے لگا، ،اپنے کالج کی باتیں،دولت کے قصے ،میرا باتوں کا مرکز دولت تھا جس کا ان کو لالچ دے رہا تھا۔
جب کچھ ماحول بن گیا اور اجنبی پن دور ہوتا گیا تووہ بے جھجک باتیں کرنے لگی،وہ مجھ سے میرے بارے میں سوالات کرتی رہیں،میں اپنی امارت کے قصے سناتے ہوئے انہیں مرعوب کرتا رہا،مزید کچھ ماحول بن گیا تو میں بے تکلفی طرف بڑھا اور کچھ لطیفے اپنے گاؤں کا نام لیکر سنا ڈالے،وہ ہنسنے لگی،میں نے ان کی ماں کو بھی گفتگو میں شامل رکھا،اور گاہے بگاہے کہہ دیتا کہ میں اپنی ماں بہت کچھ بھیجوں گا،اور تو اور میں نے لمبی ہی چھوڑ دی کی میں اپنی ماں کو لندن ہی بلوا لوں گا،لیکن یہ بات بھی چل گئی،سچی بات ہے دولت میں بڑی کشش ہے، غربت بھرے ماحول میں لڑکیوں کی خواہشیں کیا پوری ہونی تھی اب تو بس حسرتیں تھیں،اور میں ان خواہشوں کو جگانے لگا،اچھا پہننا لڑکیوں کی کمزوری ہے،اسی طرح سراہا جانا ،کوئی ان کی تعریف کرے ان کو چاہے،تقریباً تین گھنٹے تو ہمیں گپیں مارتے ہو گیا تھے،لڑکیاں کچھ بے تکلف تو ہوگئی تھیں اب مجھے لگا کہ منزل پاس ہی ہے،لڑکیاں میرا بڑھا ہاتھ نہیں روکیں گی،خاص کر نازیہ پر میری نظر ٹک گئی تھی،بلا کی خوبصورت اور جوانی تھی اس پر ،،،مولوی صاحب اٹھ گئے ،لڑکیاں فوراً کام کاج میں لگ گئیں،اور تو اور مولوی کی بیوی ایسے بیٹھی تھی جیسے ابھی اس کی میری علیک سلیک ہوئی ہے،مجھے ایسے لگا جیسے بنا بنایا ماحول خراب ہو گیا،اور یکدم مجھے اندازہ ہوا کہ یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے،ماحول پر مولوی چھایا ہوا ہے اور اس کی پابندیاں ذہنوں میں گھسی ہوئی ہیں،،بیٹا کہیں باہر نہیں جانا تم،مولوی نے مجھے ہدایت کی اور خود منہ ہاتھ دھو کر باہر نکل گیا،اب یہ دوپہر کی نماز پڑھا کر آئیں گے،مولوی کی بیوی نے ہنستےہوئے کہا،اس کا ہنسنا عجیب تھا،شاید ابھی وہ جو انجان بن گئی تھی اس کا ازالا کر رہی تھی،تو مولوی صاحب اب کیا کریں گے،اب وہ حفظ والے بچوں کو پڑھائیں گے،ان کے ساتھ ایک بڑے قاری ہیں، ان کو مدرسہ انتظامیہ نے وہیں مکان دیا ہوا ہے،کاش ہمیں بھی وہیں مکان مل جاتا تو ان کرایوں سے تو جان چھوٹتی، مولوی کی بیوی نے حسرت سے کہا۔
کہاں کی بات تھی وہ کہاں لے گئی،یا وہ مجھے اپنا دکھڑا سنا رہی تھی،بیماری ظاہر کرنا، گھر کے کام کاجوں میں خود مصروف ظاہر کرنا جیسے ان کے بغیر گھر ہی نہیں چلتا،غربت کو رونا اور دوسروں کو ڈسکس کرنا،یہ عورتوں کی خاص عادتیں تھیں،خیر مولوی چلا گیا تھا اور ایک بار پھر میرے لیے میدان خالی تھا، لڑکیوں میں سے ایک صفائی کررہی تھی،ایک برتن دھو رہی تھی، دوسری کمروں میں کچھ بستر وغیرہ سمیٹ رہی تھی،آج تو میری وجہ سے ان کو دوپہر ہی ہوگئی تھی،شازیہ جو سب سے بڑی تھی وہ ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئی،میں نے اس سے باتیں شروع کر دیں،اب میں اسے نظروں سے ٹٹول رہا تھا کہ وہ سیکس میں دلچسپی رکھتی ہے کہ نہیں،،دولت کی کشش تو میں دکھا چکا تھا،میری پرسنالٹی ان کو نظر آرہی تھی،اور کشش تو ان پر اثر انداز ہو ہی رہی تھی،لیکن شازیہ کے چہرے پر معصومیت تھی،میں نے یہ اندازہ لگانا تھا کہ وہ سیکس میں دلچسپی رکھتی ہے کہ نہیں،اور مجھے لگ رہا تھاکہ نہیں وہ ایسی کوئی بات نہیں سمجھتی تھی،ان کے گھر میں کیبل وغیرہ تو کیا ہونی ،ٹی وی ہی نہیں تھا،بلکہ گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے باہر کی دنیا کا کچھ آسکے،باتوں میں باتوں میں ان کی دوستوں کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا ،مولوی ایسی باتیں پسند نہیں کرتا اور کہیں آنے جانے پر پابندی ہے،شروع شروع میں کچھ کلاس فیلو آئی تو مولوی کے رویے نے ان کو دوبارہ نہ آنے پر مجبور کر دیا،ہمسائیاں بھی آتی ہوئی گھبراتی تھیں ،مولوی کی تقریریں شروع ہو جاتی تھیں،شاید مولوی یہ جان بوجھ کرکرتا تھا،وہ یہاں کا ڈکٹیٹر (آمر)تھا،۔
شازیہ کھلتی جا رہی تھی،کسی غلطی پر ابا بہت مارتے ہیں،،، مجھے تو بہت ڈر لگتا ہے ان سے،میں نے مولوی کی بیوی کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے سے اندازہ ہوا کے معافی اسے بھی نہیں ہے،(بڑا شدّت پسند مولوی تھا)اب مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ ایک نہات مشکل ٹارگٹ ہے باہر کی دنیا سے اگر یہاں کچھ آتا نہیں تو لڑکیوں کو سیکس کا کیا پتہ ہو گا،محبت اور پیار کے بارے میں کیا جانتی ہوں گی،الیکڑانک میڈیا ،سکولز،کالج،اور دوستیاں یہی تو وہ سب دروازے تھے جن سے سیکس کا پتہ چلتا ہے۔خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے،اور مولوی نے یہ سب دروازے بند کیئے ہوئے تھے۔اب دیکھنا یہ تھا کہ لڑکیاں پابندیوں بھری زندگی سے اکتائی ہوئی ہیں،یا ان کے ذہنوں میں بھی مولوی کے خیالات ٹھنسے ہوئے ہیں،میں چاہتا تھا کہ ان کی ماں کہیں آس پاس ہو اور میں کچھ اگلی باتیں چھیڑوں،آنٹی آپ کھانا دوپہر کو بناتی ہیں یا شام کو،،بیٹا ہمارے گھر میں کھانا نہیں پکتا،مدرسے میں طالبعلموں کیلیے کھانا پکتا ہے تو وہ بڑے قاری اور ہمیں بھی ملتا ہے،بات بات میں بڑے قاری سے تقابل شاید ان کی عادت تھی،یا ان کےاسٹیٹس کا معیار ہی بڑے قاری تھے،اور آج تو ویسے ہی جمعرات ہے دیکھنا کتنا کھانا آتا ہے شام کو،شازو نادر ہی ہم لوگ کھانا پکاتے ہیں،میں سوالات کر رہا تھا کہ ان کے گھر شام کو کھانا کیوں آنا ہے کہاں سے آنا ہے،،اس طبقے سے میری واقفیت ہو رہی تھی،باقی بہنیں بھی ہمارے پاس آ کہ بیٹھ گئی تھیں،ان کا رویہ ایسے ہی تھا جیسے ہماری احساس کمتری کی ماری قوم کا کسی گوری چمڑی والے کے ساتھ ہوتا ہے،یا کسی دیسی انگلش بولنے والے کے ساتھ ہوتا ہے،لوگ ہمیں ختم پڑھنے کیلے کھانا دے جاتے ہیں ،شازیہ ہی باتیں کرتی تھی مجھ سے،اور یہ ختم کیا ہے،میں نے پوچھا ،وہ اپنے علم کے مطابق مجھے سمجھانے لگی،ہم نہ ان سب کھانوں کو اکٹھا کردیتے ہیں، پھر ایسا ذائقہ بنتا ہے تم دیکھنا انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ گے،نازیہ نے بڑے فخر سے کہا،عجیب زندگی تھی ان کی،ہر طبقے کی اپنی نفسیات ،ہوتی ہے ،ان کا رہن سہن،ان کی ضرورتین،خواہشات ،ان کا اسٹیٹس،جیسےڈاکٹروں کا ماحول ہے،حجاموں کا ماحول ہے،اسی طرح مولویوں کا ماحول سب سے علیحدہ ہے، بعد میں اس طبقے کابھی میں نے مطالعہ کیا،انہوں نے نظریات کی بنیاد کو سمجھے بناء لکیر کے فقیر بننا ہوتا ہے،اکثریت ان میں پابندیاں اور سختیاں ہیں ۔
میرا واسطہ بھی ایسے لوگوں سے پڑ چکا تھا،صحن میں خوب دھوپ آ گئی تھی ،اور کسی کا اٹھنے کا کوئی موڈ نہیں تھا،سردیوں میں بھرپور دھوپ کا مزہ لیا جا جا رہا تھا سستی سی ہو رہی تھی،وہیں شازیہ گنّے لے آئی یہ بھی کوئی دے گیا تھا،گنے کو ایک طرف سے پکڑ کر منہ سے چھلکا پکڑا ،اور اسے چھیلا ،کچھ چوسا پھر پھینک دیا،اس طرح گنے کی ایک پوری چھیلی اور دانتوں سے ہی گنڈیری کاٹ کر چوسی پھر دوسری ،وہ گنا کھانے میں ماہر تھی اور میں اناڑی تھی،وہ مجھے دیکھ کر ہنسنے لگی،بہرحال میں بھی گزارا کر ہی گیا،ماحول بے تکلفانہ اور گھریلو سا ہوگیا تھا،ابھی تک سیکس کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی،جبکہ مجھے چاروں کوچودنا تھا۔اتنا ہو گیا تھا کہ میں ان کے گھر میں تھا اور اب اس سخت موحول والے لوگوں میں بے تکلفی سے باتیں کر رہا تھا،مولوی کی بیوی سایہ بنی ہوئی تھی،اسے کسی طرح آگے پیچھے کرنا تھا لیکن اس دھوپ میں اس کا ہلنے کا کوئی موڈ نہیں تھا،اتنا ہوا کہ وہ چارپائی پر لیٹ گئی ،پھر اونگھنے لگی،ہم دو چارپائیوں پر بیٹھے تھے ،خود بخود ہماری آوازیں دھیمی ہوگئی،اب میں کچھ کھلنے لگا،بے تکلفی کے ماحول میں ان سے لطیفوں کا سہارا لیکر کچھ باتیں کی،لیکن جیسے وہ لفظ سیکس سے ہی نا آشنا تھی،چھچھورا پن،اور گھٹیا انداز لڑکیاں ویسے بھی پسند نہیں کرتی تھیں،لیکن اگر میں کرتا بھی تو پھر یہاں رہنا مشکل ہوجانا تھا،دھیرے دھیرے میں اپنی بات اشاروں کنایوں میں کہتا رہا ،میں انہیں پرکھتا رہا،سمجھتا رہا ،لیکن وہاں سیکس سے دلچسپی کے کوئی آثار نہیں تھے،دلچسپی کیا،وہ تو جیسے لفظ سیکس سے ہی ناآشنا تھیں،، میں نے جیکٹ اتار دی تھی،دھوپ میں اچھا لگ رہا تھا، اب میں نے ان کے جسموں کو گھورنا شروع کر دیا میں ان کا ردّ عمل دیکھنا چاہتا تھا،لڑکیوں کا ریڈار اس معاملے میں بہت حساس اور تیز ہے ،کچھ ہی لمحوں میں وہ یہ محسوس کر کے بے چین ہونے لگی،شازیہ تو کام کے بہانے فوراً اٹھ گئی،میں بھی باتھ روم میں چلا گیا،باتھ روم کے ٹاٹ کے پردے سے میں ان کو دیکھتا رہا،وہ کافی سخت تھیں کیونکہ اب وہ آنکھوں سے ایکدوسرے سے بات کر رہیں تھیں اور پھر سب سے چھوٹی رافعہ کے سوا سب اٹھ گئی،بڑا ہی سخت رد عمل دیا تھا انہوں نے ،مجھے بنا بنایا ماحول خراب ہوتا محسوس ہوا،میں باتھ روم سے نکلا تو رافعہ سے دلچسپ باتیں کرنے لگا،میں نے لندن کی باتیں چھیڑ دیں،ایک قصہ گو کی طرح مجھے یہ فن بھی آتا تھا،کچھ ہی دیر میں باقی بہنوں کے کان بھی کھڑے ہوگئے تھے وہ میری کہانی نما باتوں میں دلچسپی لے رہی تھیں۔
میرے چہرے کے تاثرات ایسے تھے جیسے کوئی بہت معصوم ہو،اور میری آنکھیں جھکی ہوئی تھی،نازیہ میرے پاس آکہ بیٹھ گئی،لیکن میں نے آنکھیں نہ اٹھائی،اور باتیں گھما پھرا کہ کہیں سے کہیں لے گیا وہ جیسے یہیں بیٹھی دنیا گھوم رہی تھیں،یہ سب ان سفر ناموں کا کمال تھا جو میں نے پڑھے تھے،خاص کرمستنصر حسین تارڑ کو سفر ناموں میں ملکہ حاصل تھی،اس کے سفر نامے پڑھ کے دل کرتا تھا کہ میں بھی شمالی علاقوں میں نکل جاؤں،ان کا پیرس کے سفر سے ماخوذ ناول ،پیار کا پہلا شہر ،،جب میں نے پڑھا تو میں اس ناول کا گرویدہ ہو گیا،پاسکل اور سنان کی دوستی اور علیحدگی ناول کا مرکزی خیال ہے۔ اور ناول پڑھ کے مجھے بھی ناول کی ہیروئین پاسکل سے پیار ہوگیا اس ناول نے چند سالوں میں چھپنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ایک منفرد اور یادگار ناول کے طور پر یہ ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں بطور سلیبس شامل ہے۔آج بھی پیار کا پہلا شہر میرے یادوں میں نقش ہے،بعد میں ایسی تحریری جادو میں نے علیم الحق حقی کی حج اکبر میں دیکھا اور میرے پسندیدہ لکھاریوں علیم الحق حقی بھی شامل ہوگئے ،کبھی یہ علیم شام کے نام سے جانے جاتے تھےاور شاعری بھی کرتے تھے مشہور ترین شعر ،،،،،کسی کو اتنا نہ چاہو کہ پھر بھلا نہ سکو ،،،،،،،یہاں مزاج بدلتے ہیں موسموں کی طرح ،،،، علیم الحق حقی کا ہی ہے ،،یادیں ایسی ہی ہوتی ہیں ،میں بھی ان میں بہتا کہاں سے کہاں پہنچ گیا،سچی بات تو یہ کہ اتنی یادوں میں یہ کہانی لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے،
چلو اک نظم لکھتے ہیں
کسی کے نام کرتے ہیں
مگر اب سوچنا یہ ہے،
کہ اس میں ذکر کس کا ہو
اس میں بات کس کی ہو
اس میں ذات کس کی ہو،
اور یہ بھی فرض کرتے ہیں،
کہ جس پہ نظم لکھتے ہیں
اس سے محبت کرتے ہیں
ہمارے سارے جذبوں کو
بس اسکی ہی ضرورت ہے
اظہار کی خاطر
اک نظم کی حاجت ہے،
چلو اک کام کرتے ہیں
کہ ہم جو نظم لکھتے ہیں
تمھارے نام کرتے ہیں
تمھی عنوان ہو اسکا
تمھارا ذکر ہے اس میں
تمھاری بات ہے اس میں
تمھاری ذات ہے اس میں
پھر کہانی کی طرف آتے ہیں،آہستہ آہستہ سعدیہ اور پھر شازیہ بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئی، میں آنکھیں نیچی کیے لگا رہا اور جب ماحول میں وہی اعتماد واپس آگیا تو میں نے بات ختم کر دی،اور ان کو بولنے کا موقع دیا،وہ سولات کرتی رہیں،اور میں ایسے ہی بتاتارہا جیسے میں خود ساری دنیا گھوما ہوں،میں نے یہی محسوس کروایا کہ جو ابھی میں ان کے جسموں سے حظ اٹھا رہا تھا وہ بس ان کا واہمہ تھی،باتیں ان سے کر رہا تھا اور ذہن سوچوں کے ادھیڑ بن میں تھا کہ کیسے ان کو چدائی کی طرف لاؤں،یہ طے تھا کہ وہ سیکس سے انجان تھیں،اور نسوانی غیرت سے بھری ہوئی تھی،اس ماحول اور مولوی نے ان کے ذہنوں کو جکڑا ہوا تھا وہ ایک حصار میں رہتی تھیں ،جس میں داخلہ مشکل نظر آرہا تھا،سارا دن ہی باتوں میں گزر گی اتھا دوپہر ہوگئی تھی اور اذانیں ہونے لگی،مولوی کی بیوی اٹھ بیٹھی اور سب وضو کر کے نماز پڑھنے لگی، میرے لیے یہ ماحول ایساتھاجیسے بچپن کی کوئی یاد ہو۔۔۔ مجھے بے چینی ہونے لگی،میں جوسلین کے ساتھ یہ سب بھول گیا تھا،میں جتنا بھی برا تھا مجھے اپنی بنیاد نہیں بھولنی چاہیئے تھی، میں نے خود سے عہد کیا کہ کم از کم اپنی بنیادیں ضرور قائم رکھوں گا،میں نگینہ کا ڈسا ہوا تھا اور میں نے عہد کیا تھا کہ اس دنیا کو شہزادہ چاہیے تو اسے شہزادہ ہی ملے گا،لیکن اب سوچ رہا تھا کہ ایک انسان کا بدلہ سب سے نہیں لینا چاہیئے ،سیکس اسی سے کروں گا جو اپنی مرضی سے آئے گی،زبردستی مجھے اچھی نہیں لگی تو کسی کے ساتھ زبردستی کیوں کروں،،، بدلہ صرف نگینہ سے ہی لینا ہے،،۔ چاہے جو مرضی ہو جائے جتنی عمر بھی بیت جائے،میں نے فیصلہ کیا کہ اب جوسلین کوساری بات بتا کر اس کی مدد چاہوں گا ،مجھے نگینہ چاہیے ہر صورت میں چاہیئے ،، آدھے گھنٹے تک مولوی آگیا ۔
مولوی کے آنے سے ماحول بدل گیا،سب اپنے اپنے دھیان ہوگئے،مولوی اپنے ساتھ کھانا بھی لایا تھا،کھانا کھا کر مولوی تو قیلولہ کرنے کیلیے لیٹ گیا،اس کی بیوی بھی وہیں کمرے میں تھی،لڑکیاں صحن میں تھیں،یا دوسرے کمرے میں،میں نے محسوس کیا لڑکیاں اب والدین کے کمرے میں نہیں جا رہی بلکہ اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں تھا،شاید یہ مولوی کا روزمرّہ کا معمول تھا،نازیہ میرے ساتھ دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ بے تکلف ہوگئی تھی ،اگر ماحول کا دباؤ نہ ہوتا تو اس نے چلبلی اور شوخ و چنچل ہونا تھا،باپ نہیں تو ہوتا تھاتو وہ کچھ نٹ کھٹ حسینہ بن جاتی تھی،نازیہ دوسرا کمرہ شاید تم بہنوں کا ہے ،مجھے اپنا کمرہ نہیں دکھاؤ گی،ضرور آؤ نہ کمرہ دکھاؤ ،ویسے ہمارے کمرے میں دیکھنے کو ہے ہی کیا،نازیہ افسردگی سے بولی،شاید میری باتوں کا اس پر اثر ہوگیا تھا،اور اسے اپنے ماحول سے بے زاری ہورہی تھی،میں یہی چاہتا تھا کہ وہ اس ماحول کے اثر سے نکلے،کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نازیہ سے ٹکرایا جیسے مجھے کمرے میں داخل ہوتے ہی ٹھوکر لگی ہو،میں نازیہ کی کمر سے ٹچ ہوا ،، نازیہ کو جیسے کرنٹ لگا،اب وہ مجھ سے فاصلے پر کھڑی تھی اس کے چہرے پر شرماہٹ تھی تو آنکھوں میں شکوک کی پرچھائیاں،کچھ ہی دیر بعد وہ کمرے سے باہر نکل گئی اور اب میرے ساتھ رافعہ تھی، کمرہ لمبائی پر مشتمل تھا اور پیچھے کی طرف جستی پیٹیاں تھیں،ان میں بستر وغیرہ پڑے ہوتے ہیں،وہاں 4 چارپائیاں پڑی تھی،دو ایک طرف کی دیوار سے لگی تھیں اور دو دوسری طرف کی دیوار سے لگی تھیں، دو کرسیاں اور ایک میز تھا،دیوار پر چھوٹے فریم کا شیشہ لگا ہوا تھا،جو کہ ایک لکڑی کی میخ سے ٹنگا ہوا تھا،بس اور کچھ نہیں تھا،میں وہیں ایک چارپائی پر لیٹ گیا،رافعہ میرا موڈ دیکھ کر باہر چلی گئی،،میں سوچنے لگا کہ اب کیا کروں ،،،لڑکیاں کسی بھی طرح مجھے سیکس کی طرف مائل نہیں لگتی تھیِ،پھر وقت کم تھا اتنے کم وقت میں ایک لڑکی تیار نہیں ہو سکتی او ر یہاں 4 لڑکیاں تھیں۔
بفرضِ محال اگر میں تین کو بھی چود لوں اور ایک کو نہ چود سکوں تو میں اس ٹیسٹ میں فیل تھا ،یہاں تو ایک بھی تیار نہیں تھی،کوئی ایسی لڑکی ہوتی جو چودائی کر چکی ہو،یا شادی شدہ ہو تو اس کو پھنسانا آسان تھا بنسبت ان کنواری لڑکیوں کے،سب سے بڑی رکاوٹ مجھے ان کا ماحول لگ رہا تھا،ان کی تربیت لگ رہی تھی،جس نے ان کے ذہنوں کو جکڑا ہوا تھا،وہ لکیر کی فقیر ادھر سے ادھر نہیں سوچ سکتی تھی،اور مولوی کا ڈر ان کے دلوں میں بیٹھا ہوا تھا۔سوچ سوچ کے دماغ درد کرنے لگا،لیکن کوئی حل سمجھ نہ آیا،کتنی دیر گزر گئی کوئی لڑکی بھی کمرے میں نہ آئی،،میں نے نازیہ کی باتوں سے اسے تھوڑا آگے کرنے کیلیے بہانے سے چھوا تھا ،اور اب اس بات کا الٹا اثر ہوا تھا ،وہ بدک کر دور ہو گئی تھی،اسی ادھیڑ بن میں سہہ پہر ہوگئی مجھے محسوس ہوا کہ مولوی باہر چلا گیا ہے تو میں پھر صحن میں آگیا،لڑکیاں مجھے لاتعلق سی محسوس ہوئیں،،، یقیناً نازیہ نے باقی بہنوں کو بھی بات بتا دی تھی،جو ذرا سا حادثاً چھوئے جانے سے اتنا ردِّ عمل دے رہی تھیں تو وہ چودائی پر کیسے راضی ہوتیں، حالانکہ میری اداکاری کمال کی تھی اور شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی،،میں دوبارہ ہمت کر کے ان کی ماں کے پاس ہی بیٹھ گیا،ان کی ماحول کا توکوئی توڑ نظر نہیں آرہا تھا ،میں نے پھر غربت کو نشانہ بنایا اور ایسی باتیں کرنے لگا کہ وہ بھی گھر بیٹھے پیسے کما سکتی ہیں،میری باتوں کا مقصد بس لڑکیوں کو متوجہ کرنا تھامیں اِدھر اُدھر کے منصوبے بتانے لگا،کوئی منصوبہ کام کا نہیں تھا لیکن دلکش لگتا تھا،نہیں بیٹا سب کر کے دیکھ لیا،،مولوی صاحب نہیں مانتے،وہ کہتے ہیں،عورت گھر کی عزت ہے اور گھر سنبھالنے کیلیے ہے اسے کام نہیں کرنا چاہیئے،نہیں تو سلائی کا کام تو میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں ،اور بڑے قاری صاحب کی بیوی مجھ سے ہی کپڑے سلواتی ہے،لیکن مولوی صاحب مجھے کسی اور کے کپڑے نہیں سینے دیتے،،امیّ آپ گھر میں ٹیوشن اکیڈمی کھول لیں،،،لو بیٹا میں انپڑھ اب کسی کو کیا پڑھاؤں گی،آپ نہیں امیّ جان،،یہ پڑھائیں گی بچوں کو ٹیوشن ،سب ہی پڑھی لکھی ہیں،پھر کالونی والے آپ پر اعتماد کرتے ہیں،آپ کے پاس اپنے بچوں کو ضرور بھیجیں گے،لڑکیوں میری طرف متوجہ ہوگئی تھیں۔
لیکن بیٹا مولوی صاحب نہیں مانیں گے، امیّ جان متفکر تھیں۔ آپ لوگ گھر میں سیپارے وغیرہ پڑھائیں،اور پھر آہستہ آہستہ جب مولوی صاحب کو اعتماد ہوجائے تو یہ ٹیوش پڑھانے لگ جائیں،شازیہ اور سعدیہ بھی میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں،رافعہ تو جیسے پہلے ہی انتظار میں تھی،لیکن نازیہ میرے پاس نہیں آئی،فوراً تجویزیں شروع ہو گئیں،پر ابا کو کیسے منائیں،وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوں گے،بھئ کوئی دلیل دو نہ ان کو،جو انہوں نے ہی تم کو بتائی ہو، یہ بات تو ٹھیک ہے وہ اکثر علم حاصل کرنے پر کئی باتیں بتاتے ہیں،جو انہی کو بتائی جا سکتی ہیں، شازیہ نے گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا ،،میری بلا سے مولوی مانے یا نہ مانے،گپ شپ پھر شروع ہوگئی تھی،آپ سب مولوی صاحب سے کہیں کے علم کی شمع سے ہی شمع جلتی ہے اور اس کام کو روکنا تو ظلم ہے ،،یہ بالکل ٹھیک ہے سعدیہ اور شازیہ پرجوش ہوگئی،لیکن مجال ہے جو نازیہ نے تھوڑی سی توجہ دی ہو، لڑکیاں پرجوش ہوگئی،دولت آتی کسے اچھی نہیں لگتی تھی،شام ہو رہی تھی،چھوٹے چھوٹے بچے گھر میں آنے شروع ہوگئے ، کوئی کچھ دے رہا تھا کوئی کچھ لا رہا تھا ،میں کمرے میں جا کر بیٹھ گیا،سورج ڈوبنے کے بعد مولوی پھر آگیا ،اب سارا آیا ہوا سالن ایک ہی جگہ اکٹھا کیا گیا اور کھانا شروع کیا گیا ،عجیب سواد تھا اس میں لیکن تھا مزیدار ،ایسا سواد پھر کبھی کہیں نہیں ملا،کھانا پینا کھا پی کے مولوی لیٹ گیا،کچھ باتیں ہوئیں ،مولوی کو اذان نے پھر بلا لیا،سردیوں کی شامیں تھیں اور محسوس ہو رہا تھا کہ مولوی کے گھر میں رات ویسے بھی جلدی ہوجاتی ہے،میں سوچ رہا تھا کہ اب کہاں سوؤں گا،مولوی کے کمرے میں یا لڑکیوں کے کمرے میں،دن گزر گیا تھا اور اب میں ناامید ہو رہا تھا ،لیکن اگر لڑکیوں کے کمرے میں سونے کا موقع مل جائے تو کچھ مزید کوشش ہوسکتی تھی،نازیہ مجھ سے کچھی کچھی سی تھی ہم سب مولوی کے کمرے میں بیٹھے تھے اورباتیں کر رہے تھے،باتیں ہی وہ دستک ہیں جودلوں کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں،ان کی ماں کے ہوتے ہوئے میں انہیں کی باتیں کرتا تھا لیکن غیر محسوس طور پر انہیں اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، آٹھ بجے مولوی آگیا،اب وہ کہیں جانے والا نہیں تھا لڑکیاں کچھ دیر میں اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی،میں وہیں بیٹھا رہا،کچھ لمحوں بعد شازیہ دروازے پر آئی اور اس نے مجھے اشارے سے بلایا ،،میں باہر گیا تو وہ مجھے کمرے میں لے گئی،وہاں ایک اضافی چارپائی آگئی تھی جو کہ یقیناً میرے لیے تھی،شہزادے وہ آپ کا بستر ہے،آپ یہیں سویا کریں گے،شازیہ نے اپنے بستر میں گھستے ہوئے کہا،
میں چپ چاپ بستر پر لیٹا اور رضائی اوپر لے لی،مجھے سمجھ نہیں آئی کٹر مولوی مجھے اپنی بیٹیوں کے کمرے میں سلانے پر کیسے رضامند ہو گیا،یا تو اسے مجھ پر اعتماد ہو گیا تھا ،یا کوئی اور بات تھی،لڑکیاں خاموش اپنے بستر پر لیٹی تھیں،، ان کے پاس ٹی وی نہیں تھا لیکن،میں تو انہیں کچھ کہہ سکتا تھا، ویسے جتنی باتیں آج کی تھیں اتنا تو میں کبھی نہیں بولا تھا ،،کیا بات ہے بھئی سب چپ چپ ہو،؟ کیا ایسے ہی سو جاتی ہو اتنی جلدی ،آپ کب سوتے ہیں،شازیہ نے پوچھا ،بھئی مجھے تو ایک بج ہی جاتا ہے،اتنی دیر آپ کیا کرتے ہیں ،بس ٹی وی فلمیں ،کمپیوٹر ،یا دوستوں سے گپ شپ،میں نے وہ بتایا جو انہیں سمجھانا چاہتا تھا،ہم جلدی نہ سوئیں تو ابا غصے ہوتے ہیں،مارتے بھی ہیں،پھر صبح جلدی اٹھنا ہوتا ہے نہ، اسلیے نیند پوری کرنے کیلیے جلدی سو جاتی ہیں ہم،سعدیہ بولی،آپ فلمیں بھی دیکھتے ہیں ،شازیہ نے حسرت سے کہا،ہاں بھئی تم لوگوں نے کبھی کوئی فلم نہیں دیکھی ؟ ایک دفعہ شازیہ باجی ہمسایوں کے گھر ٹی وی دیکھنے چلی گئی تھی ،ابا کو پتہ چل گیا،پھر ابا نے باجی کو اتنا مارا کے باجی بے ہوش ہوگئیں،سعدیہ ہی اب بات کر رہی تھی،نازیہ تو جیسے روٹھ ہی گئی تھی،اچھا اگر میں تم لوگوں کو ابھی کوئی فلم دکھاؤں تو ،،ابھی شازیہ اور سعدیہ اکٹھی بولی ،ابھی کیسے ،بھئی میں نے جو فلم دیکھی ہے میں تمھیں اس کہانی سنا دیتا ہوں سمجھ لینا تم نے بھی فلم دیکھ لی ہے ،اچھا تو سناؤ نہ ،شازیہ جوش سے مگر دھیمی آوز میں بولی،میں نے سوچ سمجھ کے ایک فلم کی کہانی شروع کر دی،اس میں کچھ باتیں تھیں جو گرم کر سکتی تھیں ،،شروع شروع میں تو وہ سب ہی پرجوش تھیں لیکن جیسے ہی میں نے ہیرو ہیروئین کی کسنگ کی بات کی،سب بہنیں ایکدوسرے کی طرف دیکھنے لگی،پھر انہوں نے بے توجہی برتنی شروع کی ،میں ان کی طرف دیکھنے لگا اور انہوں نے رضائیاں منہ پر لے لیں،دھت تیرے کی۔
اب تو وہ میرے بارے میں سمجھ گئی ہوں گی،بھئی کیا بات ہے میں تو جدید ماحول میں رہتا ہوں ،مجھے نہیں پتہ تم لوگوں کو کیا برا اور کیا اچھا لگتا ہے ،پلیز مجھے بتاؤ ،تا کہ مجھ سے کوئی غلطی نہ ہو،میں ے سب کو مخاطب کر کے کہا،لیکن کسی نے کوئی جواب نہ دیا،اکٹھی بھی کوشش کر کے دیکھ لی ،اکیلی نازیہ پر بھی کوشش کر کے دیکھ لی،کچھ نہ بنا،اکٹھے تو ہو ہی نہیں سکتا تھا،،کیوں کہ ایک بہن اگر چاہے تو بھی وہ دوسروں کے سامنے اظہار نہیں کرے گی،کہاں پھنسا دیا یار جوسلین نے ،اسنے واقعی مجھے امتحان میں ڈال دیا تھا،سوچوں میں غلطاں میں بے چینی سے بستر پر پہلو بدلتا رہا،پتہ نہیں کتنے آئیڈیئے ذہن میں آئے اور رد کر دیئے ،کیا کچھ نہیں سوچا اس رات میں نے،ہر ممکن بات کی طرف ہر طریقے کی طرف ،اپنی سیکھی ہوئی ہر بات دہرائی،ہر بات سوچی لیکن نتیجہ وہی ٹھاک کے تین پات ،کہ یہ کام اتنے وقت میں نہیں ہوسکتا ، بلکہ ایسے ذہنوں کو تو پھنسایا ہی نہیں جا سکتا،اب میں مایوس ہونے لگا تھا، 2 ،3 بجے تک میں بے چینی سے پہلو بدلتا رہا،اور مجھے بے چین کرنیوالیاں آرام سے سو رہی تھیں،دل تو کرتا تھاکہ ابھی ان پر ٹوٹ پڑوں ،لیکن جوسلین کا خیال آتے ہی سلگتی آگ بجھنے لگی،ایسے ہی خیالات میں جانے کب مجھے نیند آگئی۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (قسط آٹھ) "