میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہوں اور ابو نوکری کے لیے سعودی میں ہوتے ہیں۔ گھر پر صرف میں اور امی ہی ہوتے ہیں اور ابو سال میں صرف ایک مرتبہ دو ہفتے کے لیے آتے ہیں۔
یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں پندرہ سال کا اور امی بیالیس سال کی تھیں۔ میں نیا نیا بڑا ہوا تھا اور میرے دماغ پر سیکس اور سیکس کے نام پر امی سوار تھیں۔ امی تھیں بھی بڑی سیکسی۔ لمبی چوڑی اور بھرا بھرا میری توجہ کا مرکز ۳۶ سائز کے ممے اور کمر سے باہر نکلتی ہوئی موٹی موٹی گول گانڈ تھی۔ امی گھر میں ڈھیلے ڈالے شلوار قمیض پہنتی تھیں اور دوپٹہ کبھی نہیں لیتی تھیں۔ قمیض کا گلا ہمیشہ بڑا ہوتا کیونکہ امی کو گرمی بہت لگتی تھی۔ میں اکثر امی کے جھکنے پر مموں کا دیدار کرتا، پیچھے سے دیکھ کر گانڈ کا نظارہ کرتا اور لاڈ کے بہانے امی کے جسم اور مموں سے خود کو مسّ کر کے مزے لوٹتا۔
امی بھی اکیلی پڑی تھیں اور سیکس کے لیے بے قرار کیونکہ وہ ایک سیکس بم تھیں اور سال کے دو ہفتے امی کی چُدائی میں نے اچھے سے سُنی تھی۔ جب ابو آتے تھے تو امی خوب سجتی سنورتی تھیں، چکنا بدن گھر میں خوب دکھاتیں، مٹک مٹک کے چلتیں اور روز رات کو چُدواتیں۔ امی چُدواتے وقت خوب زور زور سے بولتیں اور آوازیں نکالتیں تھیں اور اسی لیے کمرے سے باہر مجھے سب سُنائی دیتا تھا۔ میں روز چُدائی کی آوازیں سُنتا، اور امی کے نام کی مُٹھ مارتا۔
مجھے معلوم تھا کہ امی کا یہ جسم اور ادائیں دکھانا ابو کے لیے تھا لیکن میں بھی نظارے کے مزے لوٹتا تھا۔ امی صوفے پر ٹیڑھی گانڈ سے بیٹھتیں، کھلے چاک کی قمیض جس میں شلوار کے اُپر ننگی کمر دکھے پہنتیں، ہلکے رنگ لی قمیض کے نیچے کالا برا پہنتیں، قمیض اوپر کر کے شلوار کا نظارہ کرواتیں اور چال میں ایک لچک آ جاتی۔ ابو بھی امی لی تعریف کرتے رہتے۔
ابو کے جانے کے بعد جب امی اُداس ہو گئیں تو میں نے موقع سے فائدہ اٹھانے کا پلان بنایا اور امی کا بہت خیال رکھنا شروع کر دیا۔ امی کو گلے لگاتا، برا پر اوپر سے ہاتھ پھیرتا، گال پر کس کرتا، چپک کر بیٹھتا تو نوٹ کرتا کہ امی کے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ امی کے پاس کافی برا تھے اور میں انہیں سونگھتا اور مست ہوتا۔ ایک رات میں نے امی سے کہا کہ آج میں آپ کے پاس ہی سو جاتا ہوں کیونکہ میرے حساب سے اُسی روز امی کے پیریڈ ختم ہوئے تھے اور امی فل مست چارج ہونی چاہیے تھیں۔ میں امی کے برابر میں لیٹ گیا، امی نے پنک نائنٹی پہنی تھی اور اندر برا بھی نہیں تھا۔ نیچے کوئی شلوار نہیں تھی اس لیے پنڈلیاں تک ننگی نظر آ رہی تھیں۔ میں نے تھوڑی دیر بعد امی سے کہا کہ نیند نہیں آ رہی تو امی بولیں مجھے بھی۔ میں نے پوچھا کیوں تو کہنے لگیں بس جسم میں درد سا ہو رہا ہے۔ میں بستر پر نیم دراز ہو کر امی سے چپک کر امی کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا اور امی کو ماتھے پر کس کر لیا۔ میں نے پوچھا کہاں درد ہے تو امی بولیں کمر میں۔۔۔ میں نے کہا کہ میں مساج کر دیتا ہوں تو امی نے منع کیا۔ میں نے کہا کے میں اپنی اتنی اچھی ماں کا خیال ضرور رکھوں گا۔ میرے ضد کرنے پر امی نے کہا کہ اُنہوں نے صرف نائنٹی پہنی ہوئی ہے اور اب اُن کی ہمت نہیں ہورہی کہ چینج کر کہ کچھ اور پہنیں مساج سے پہلے۔ اس پر میں نے مصنوعی غصے سے کہا کہ اب میں اتنا غیر ہو گیا توامی نے مُسکرا کے کہا کہ ایک تو ہی تو اپنا ہے اور تجھ سے بھلا کیا چھُپا ہے، چل کر دے مساج۔
میں نے امی کو کراس میں کروٹ کرکے دوسری طرف منہ کرنے کا کہا اور پھر نائنٹی کو اوپر اٹھانا شروع کیا۔ سلکی نائنٹی آرام سے اوپر ہوئی اور امی کے چوتڑوں سے ہوتی ہوئی کمر تک آ گئی۔ امی کی کمر، چوتڑ، رانیں، پنڈلیاں اور سفید پاؤں میرے سامنے ننگے پڑے تھے۔ میں نے آہستہ آہستہ کمر پر مساج کیا اور تھوڑی ہی دیر میں امی سے کہا کے اس نائنٹی کو اتار ہی دیں خواہ مخاہ بیچ میں آ رہی ہے۔ امی بولیں، اب کیا ماں کو پورا ننگا کرے گا؟ میں نے کہا کے ہاں اگر ماں اپنی خوشی سے ننگی ہو جائے تو ضرور کروں گا!!! امی کے جواب مے مجھے چونکا دیا جب انہوں نے یہ کہتے ہوئے نائنٹی اتار پھینکی کی بیٹے کی خوشی ہی میں میری خوشی ہے۔ اب امی مادرذاد ننگی میری جانب پیٹھ کیے لیٹی تھیں۔ میں مساج کرتا ہوا امی کے اوپر نیم دراز ہوگیا اور پوچھا، آپ ابو کو بہت مس کر رہی ہیں نہ؟ امی نے کہا،ہاں۔ میں نے کہا کہ میں آپ کی تکلیف سمجھ سکتا ہوں، آپ جوان ہیں، خوبصورت ہیں اور آپ کی کچھ ضرورتیں ہیں۔ امی نے میری شکل دیکھی اور بولیں،میرا بیٹا کتنا بڑا ہوگیا ہے! میں نے ہمت کر کے امی کے ممے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ امی میں آپ کی ضرورت پوری کروں گا۔۔۔۔امی نے سسکاری لیتے ہوئے صرف اتنا کہا، مگر یہ گناہ ہے۔ میں نے کہا کہ اور اگر آپ نے کہیں باہر یہ گناہ کر لیا تو پھر؟ میں آپ کا اپنا ہوں، گھر میں ہوں اور ضرورت صرف سیکس نہیں، محبت و الفت بھی ہے جو کہ ہمارے درمیان پہلے سے موجود ہے۔
میں نے امی کو اپنی جانب پلٹایا، امی کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر صرف اتنا کہا۔۔۔۔ آئی لو یو امی ۔۔۔۔ امی نے دھیرے سے اپنی آنکھیں بند کیں اور میں نے اپنے ہونٹ امی کے ہونٹوں پہ رکھ دیے۔۔۔ امی نے اپنے ہونٹوں کو ڈھیلا چھوڑا اور میں نے امی کا اوپری ہونٹ اپنے ہونٹوں میں دباتے ہوئے پہلا فرنچ کس سٹارٹ کر دیا۔ کوئی تیس سیکنڈ کے فرنچ کس کے بعد جب امی نے آنکھیں کھولیں تو تشکر اور محبت اُن کے چہرے سے صاف عیاں تھی۔ میں نے امی کے ننگے بدن کو اپنے سے لپٹا لیا، امی نے اپنے ہاتھ میری کمر کے گرد حمائل کرتے ہوئے میرے کان میں آہستہ سے کہا، جو کرنا ہے کر لے، میں سر سے پیر تک تیری ہوں۔ میں امی سے الگ ہوا اور ساتھ رکھی چادر امی کے ننگے جسم پر پہنائی، امی سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھنے لگیں تو میں نے کہا کہ میری خواہش صرف آپ کا جسم نہیں، بلکہ روح بھی ہے۔ ہماری محبت پاکیزہ ہے اور آج ہم ہمیشہ کے لیے ایک ہونے جا رہے ہیں، یہ لمحہ میرے لیے تو یادگار ہے ہی لیکن آپ کے لیے بھی یہ ایک نہ بھولنے والا وقت پے کہ کب آپ اپنی زندگی میں دوسری بار اپنا آپ مکمل طور پر کسی مرد کو سونپ رہی ہیں۔ ہم ان لمحات کو ایسے ہی نہیں گزر جانے دیں گے بلکہ یہ ہماری سہاگ رات ہے جسے ہر ممکن یادگار ہم ضرور بنائیں گے۔ امی نے مُسکرا کر مجھے ہونٹوں پر کس کیا اور پوچھا، تو کیسے منانا پسند کریں گے آپ اپنی سہاگ رات؟ میں نے کہا کہ آپ ہلکا سا میک اپ کر لیں، بالیاں، ہلکی سونے کی چین اور ہاتھوں میں سونے کے دو دو کڑے پہن لیں اور اس ننگے جسم پر اپنی شادی کے دوپٹّے سے گھونگٹ لے کر بیٹھ جائیے، جب تک میں شیو بنا کر آتا ہوں۔
میں اپنے واش روم سے شیو بنا کر واپس آیا تو میری دلہن میری ہدایات کے مطابق گھونگٹ میں تیار بیٹھی تھی۔ میں نے دروازہ بند کر لے کنڈی لگائی، ٹیوب لائٹ بند کر کے دونوں سائڈ لیمپ آن کر دیے اور امی کے برابر جا کر بیٹھ گیا۔ میں نے امی کا گھونگٹ اُٹھایا اور اپنی سپورٹس سائیکل لی چابی امی کو یہ کہتے ہوئے پکڑائی کہ آج میرے پاس یہ ہی ایک ملکیت ہے کہ جو میں اپنی دلہن کو منہ دکھائی میں دیتا ہوں۔ امی بے ساختہ ہنس پڑیں اور مجھے برہنہ سینے سے لگا کر دیوانہ وار پیار کرنے لگیں۔ میں نے امی کا ڈوپٹہ اُتار کر نیچے رکھ دیا اور کہا کے اس سے پہلے کہ ہم میں میاں بیوی بن جائیں، ضروری ہے کہ آئیندہ کی زندگی کے تمام اصول ابھی طے کر لیں کیونکہ ہمارے آپسی رشتے شدید تبدیلی سے گزرنے والے ہیں۔ امی نے کہا کہ بولو کیا کہنا چاہتے ہو۔ میں نے کہا کے دنیا کے سامنے ہم ماں بیٹے ہی رہیں گے لیکن جب کوئی نہ ہو تو مکمل میاں اور بیوی، امی بولیں ٹھیک ہے۔ میں نے پوچھا آپ مجھے کیا کہیں گی؟ تو امی بولیں جان کہوں گی۔ اس پر میں نے کہا کہ نہیں، جان تو آپ ابو کو کہتی ہیں۔۔۔۔ امی بولیں لیکن اب تو تم میری جان ہو۔ میں نے کہا کہ نہیں امی، آپ آج بھی ابو کی بیوی ہیں، آپ پر اُن کا حق ہے۔ امی نے کہا، تو کیا تم مجھے ابو کے ساتھ شیئر کر لو گے؟ میں نے کہا کہ مجھے بُرا تو ضرور لگے گا کی میری محبت کسی اور کے سامنے ننگی ہو، ٹانگیں پھیلائے، اور بستر گرم کرے لیکن وہ بھی تو آپ کے شوہر ہیں، وہ آپ دیکھنے، دبانے اور چودنے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ امی بولیں تو ٹھیک ہے، میں تمہیں جان نہیں بلکہ جانو کہوں گی لیکن تم کیا کہو گے مجھے!!!!! میں نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ وہی کہوں گا جو کہتے ہوئے ہمیشہ مُٹھ مارتا رہا ہوں یعنی چکنی۔ امی ہنس کر بولیں، اب میں کہاں رہی چکنی! میں نے مموں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، صرف چکنی نہیں، تجربہ کار چکنی۔۔۔۔ میں نے کہا، چل چکنی، کھڑی ہو جا، امی حیرت سے بولیں، سب آپ جناب بھول گیا! تو میں بولا اب میں شوہر ہوں اور تو بیوی، آج سہاگ رات ہے،اور میری چکنی تو تجربہ کار چُدکڑ ہے اس لیے مست چُدائی کروانا تیری زمہ داری ہے۔ امی میرے سامنے الف ننگی کھڑی ہو گئیں، لمبا قد، چوڑا سینہ، بڑے بڑے ممے، ہللللکی سی توند، گلابی چوت، موٹی موٹی ران اور پنڈلیاں اور اُس پر قیامت ڈھاتی باہر نکلتی، موٹی گانڈ۔۔۔۔ میں نے جھٹ امی کو گھما کر گانڈ کو چومنا شروع کر دیا، پھر دوبارہ امی کو گھمایا اور اپنا منہ مموں میں دے کے چوسنے کی کوشش کرنے لگا۔ امی بھی مست ہو گئیں تھیں اور میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے آہ جانو، آہ جانو کی آوازیں نکال رہی تھیں۔
میں امی کے مموں کو چوس کر دودھ نکالنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے امی کی باہر نکلی گانڈ کو دبا کر مزے لوٹ رہا تھا۔ کچھ دیر امی کو دبانے کے بعد میں نے امی کی جانب دیکھ کر اپنے لنڈ کی طرف اشارہ کیا، امی نے مجھے کہا کہ کھڑا ہو جا اور اگلے ہی لمحے امی زمین پر ہگنے کے اسٹائل میں بیٹھ گئیں۔ امی دونوں ہاتھوں سے میرے لنڈ کو سہلانے لگیں اور میں نے امی کے کٹے ہوئے بال اُن کے چہرے سے ہٹا کر اُن کا سر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ میں نے کہا کہ چل چکنی، اب شروع ہو جا چوپا لگانا تو امی نے ایک ادائے دلبرانہ کے ساتھ میرے ٹوپے پر زبان پھیرنی شروع کر دی۔ مجھے معلوم تھا کہ امی ہر چُدائی میں ابو کا چوپا ضرور لگاتی تھیں اور چوپے میں پورا لنڈ اندر تک لے لیتی تھیں کیونکہ لنڈ حلق میں جانے کی آوازیں کمرے سے باہر تک صاف سُنائی دیتی تھیں۔
میں: چکنی، پورا لنڈ منہ میں لے نا
امی: پورا منہ میں لیا تو تُو فوراً جھڑ جائے گا
میں: ابو کا تو پورا منہ میں لے کر حلق تک لے جاتی ہے!
امی: تجھے کیسے پتا؟
میں: دو سال پہلے سے تیری ہر چُدائی دروازے کے دوسری طرف سے سُنی ہے میں نے
امی: کتنا حرامی ہےتو، اپنی ماں کے چُدنے سے مزے لیتا تھا!
میں: اور تُو کتنی بڑی چُدکڑ ہے جو اپنے ہی بیٹے سے چُدوا رہی ہے!
امی: ہنستے ہوئے، ہاں ہوں نہ میں چودو بلّے کی چُدکڑ ماں
میں: ٹٹے بھی چوس بھوسڑی کی۔۔۔ چوپے لگا لگا کے ہونٹ موٹے کر لیے ہیں اور اب کنواری لڑکی کی طرح ایکٹنگ کررہی ہے
ماں: تیرے لیے تو کنواری ہی ہوئی نہ! سہاگ رات ہے آخر، کچھ تو شرمانے دے مادر چور
میں: بہت لنڈ چوس لیا تُو نے، آجا بستر پہ
امی: کیوں؟ چودے گا مجھے؟
میں: تو اور!!! ننگی کھڑی چوپا لگا رہی ہے میرا، اب چودوں بھی نہیں کیا!
امی: چود دے۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر امی بستر پہ لیٹ گئیں اور میں امی کے اُوپر لیٹ کر نرم نرم، موٹی موٹی ماں کے مموں اور پیٹ پر اپنا جسم مسلنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں امی گرم ہو گئی۔۔
امی: جانو بس کر، اب ڈال دے
میں: ارے چکنی زرا مولٹی فوم کا مزہ تو لینے دے
امی: مادرچود کتنے مزے لے گا!
میں: ساری رات مزے لوں گا اس تھولتھلے جسم کے، اب ننگی رہنے کی عادت ڈال لے جانم
امی: تو کہے تو تیری ماں ساری عمر ننگی گھومتی رہے
میں: بہت اچھی طرح جانتا ہوں تیری ٹھرک کو۔۔۔۔ ننگا ہونے کا تو بہت ہی شوق ہے تجھے، ہر جگہ پیٹ اور ممے دکھاتی ہے سب کو
امی: ہائے اللہ، تُو تو سب نوٹ کر کے بیٹھا ہوا ہے
میں: یہی دیکھ دیکھ کر تو چودنے کا من بنا تجھُکو
امی: تو چود ڈال نہ، کب سے چود تڑپ رہی ہے
یہ کہہ کر امی نے ٹانگیں اوپر کیں اور میں نے لنڈ امی کی جھانٹوں بھری چوت پہ رکھا اور دھکا دے کر امی کے اندر پیل دیا۔۔۔ امی کے منہ سے اچانک نکلا “آہ۔۔۔ چُد گئی”۔
میں: پہلی دفعہ چُدی ہیں کیا!
امی: تیرا لنڈ تو پہلی مرتبہ ہی لیا ہے نہ
میں: کتنے لنڈ لے چُکی ہی میری چکنی آج تک؟
امی: تُو کیا مجھے رنڈی سمجھتا ہے! صرف ابو کا لیا ہے اور اب تیرا دوسرا لوڑا ہے جو اس جنت کے اندر گیا ہے
میں: تو سب کو جسم کیوں دکھاتی پھرتی ہے؟
امی: وہ تو گرمی ہے اندر کی اس لیے ایکسپوز کرتی ہوں ورنہ چدوایا آج تک کسی اور سے نہیں ہے میں نے
انہیں باتوں کے بیچ میں امی کی ٹانگیں اُٹھائے اُنہیں چودے جا رہا تھا۔ امی کے ممے ہر دھکے سے اُوپر کی طرف ہوتے اور میں اور جوش میں گھسے مارتا
امی: اور زور سے، شاباش میرے راجہ، چود اپنی ماں کو
میں: چود بھوسڑی کی، آج تو تیرا بھوسڑا بنا دوں گا
امی: بنا دے، چود دے مجھے، ننگی پڑی ہوں تیرے نیچے
میں: چود تو رہا ہوں رنڈی، تیری تو ماں کو بھی چود دوں گا
امی: مادر چود، مجھے چود، اماں کو کیوں چودنا چاہتا ہے!
میں: اصل پیس تو تیری اماں ہی ہیں جو پانچ پانچ رنڈیاں پیدا کیں ہیں، سب یہ بڑے بڑے ممے لیے گھومتی ہیں
امی: بھڑوے، تو صرف مجھے چودے گا، خبردار جو اماں کی طرف دیکھا
میں: تو جب میں بولوں چُدوا لیا کر مجھ سے ورنہ کسی دن تیری ماں کو ننگا اسی بستر پہ لیٹا ہوا پائے گی
امی: بہت جوانی ہے تجھ میں! تو چود نہ مجھے، پورا کر سکتا ہے مجھے! بیالیس سال کی شادی شدہ عورت کو پورا کرنا آسان نہیں میرے ٹھوکو۔۔۔۔ چوس ڈالوں گی تجھے
امی فل گرم تھیں اور میں بھی اپنی پہلی چُدائی خوب اینجوائے کر رہا تھا کہ مجھے لگا میں چھوٹنے والا ہوں۔
میں: امی میں چھوٹنے والا ہوں
امی: میں بھی۔۔۔۔ بس دس سیکنڈ اور
میں: منی لے گی؟
امی: ہاں، ساری اندر ہی ڈال دے، بھر دے اپنی ماں کی چوت
اور پھر میں اور امی ایک ساتھ چھوٹے۔۔۔ امی کا جسم اکڑ سا گیا جبکہ میں نے ساری منی چوت کے اندر ہی نکال دی۔ میں نڈھال ہو کر امی کے اوپر ہی گر گیا۔ سانسیں بحال ہوئیں تو امی نے مجھے بےتحاشہ چومنا شروع کر دیا، امی کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اُن کی زندگی کی دوسری سہاگ رات پہ اُن کے دوسرے شوہر نے اُنہیں اچھی طرح مطمئن کر کے جسم کی آگ بجھا دی تھی اور سچ تو یہ ہے کہ میں خود ڈرا ہوا تھا کہ معلوم نہیں میں بستر میں اپنی بیالیس سالہ ماں کو مطمئن کر بھی پاؤں گا یا نہیں لیکن اب سب کچھ بہترین ہو گیا تھا اور ہم دونوں ننگے بستر پہ لیٹے ایک دوسرے کے جسم پہ ہاتھ پھیر رہے تھے۔
میں: امی
امی: بول میری جان
میں: میں نے سارا مال آپ کے اندر ہی چھوڑ دیا ہے، کہیں آپ پریگننٹ تو نہیں ہو جائیں گی!
امی: فکر نہ کر میرے جانو، میں نے پلز کھائی ہوئی ہیں۔ تیرے ابو چار پانچ دن پہلے ہی تو گئے ہیں اور پلز کا اثر ایک ہفتے تک رہتا ہے۔۔۔ اتنی جلدی بچہ نہیں کروں گی میں
میں: اتنی جلدی سے کیا مطلب ہے آپ کا؟
امی: مسکراتے ہوئے، مطلب یہ کہ تیرے بچے کی ماں تو میں نے بننا ہی ہے لیکن ہم بچہ باقائدہ پلان کر کے کریں گے
میں: لیکن آپ کو بچہ کیوں چاہیے؟
امی: کیونکہ ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ماں بنے اور تیری تو میں اب بیوی ہوں اور ویسے بھی مرد کو باندھ کے رکھنے کا سب سے اچھا طریقہ بچہ کر لینا ہی ہے سو بچہ تو میں تجھ سے لے کر ہی رہوں گی۔ امی بستر سے اُٹھیں اور بولیں، تجھے کچھ چاہیے کھانے کے لیے؟ میں نے امی کی ننگی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر کہا، ہاں اگر میٹھے میں ایک موٹی تازی عورت ہو جائے تو۔۔۔۔
امی: ابھی تو کھائی ہی موٹی عورت تُو نے!
میں: ہاں تو دوبارہ کھانے کا دل کر رہا ہے
امی: چپ کر، ایک دفعہ چود لیا رات میں، بہت ہے
میں: آپ اپنی پہلی سہاگ رات پہ کتنی مرتبہ چُدی تھیں
امی: دو بار، لیکن تب میں جوان تھی، اب اتنی طاقت کہاں!
میں: لیکن میں تو جوان ہوں نہ۔ مجھے تو دوسری بار بھی چودنا ہے۔۔۔۔ یا تو آپ چُدیں یا پھر اپنی اماں کو بلائیں چُدنے کے لیے
امی: اماں کو کیوں بلاؤں؟
میں: کیونکہ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ میں خواہش پوری کروں گی جتنی بار تو کہے گا
امی: ارے میرے شہزادے میں کوئی جوان لڑکی تھوڑی ہوں۔۔۔ بیالیس سال عمر ہو گئی ہے، اتنی ہمت تھوڑی ہے کہ ایک رات میں دو مرتبہ تیرا جوان لنڈ اپنے اندر لے لوں
میں: میری پیاری امی، بیالیس سال تو چُدنے کے لیے عورت کی بہترین عمر ہوتی ہے، ایک مرتبہ اور ٹرائی تو کریں ۔۔۔ آپ بس لیٹ جائیں، باقی کام میرا ہے۔ میں نے زبردستی امی کو بستر پہ گرایا اور اوپر چڑھ کر اپنا لنڈ امی کے منہ میں دے دیا۔
میں: چوس، چوس چکنی، کھڑا کر ہتھیار کو اپنی چوت کے لیے
امی: اوں۔۔۔۔ کہاں منہ میں گھسا رہا ہے!
میں: ارے چوت میں بھی گھسا دوں گا میری موٹی رانڈ پہلے چوپا تو لگا
امی حلق تک منہ میں لے کر چوپا لگاتی ہوئی سیکسی آوازیں نکالتی رہیں اور جیسے ہی میرا لنڈ ٹائٹ ہوا میں نے جھٹ پٹ اسے امی کی چوت میں پیل دیا۔ چوت ابھی کچھ دیر پہلے ہی چُدنے اور فارغ ہونے کے سبب کافی گیلی اور کھُلی ہوئی تھی لہذا لنڈ پورا اندر جا کر بچہ دانی کو لگا اور امی کا زوردار چیخ کمرے میں گونجی “آہ۔۔۔۔
میں:امی کا ممہ منہ میں لیتے ہوئے، کچھ نہیں ہوتا امی، مزہ لیں چُدائی کا
امی: آہ، بہت درد ہو رہا ہے جان، پلیز مجھے چھوڑ دو
میں: ایسے کیسے چھوڑ دوں! سہاگ رات، ننگی عورت اور وہ بھی سگی ماں۔۔۔۔ نصیب والوں کو ملتی ہے یہ خوشی
امی: کل پھر چود لینا، ابھی بس کر دو، چوت جل رہی ہے اندر سے
میں: جان چودنے دے نہ
امی: اچھا جلدی فارغ ہو جا
میں: دوسری دفعہ ہے، دس پندرہ منٹ تو لگیں گے ہی میری چکنی امی
امی: پلیز ایسے نہ کر، میں مر جاؤں گی
میں: نہیں مرتیں، بہت شوق تھا نہ چُدائی کا، اب چُدیں
امی اسی طرح پندرہ منٹ تک میری منت کرتی رہیں اور روتی رہیں لیکن میں بھی مسلسل لنڈ کے گھسے امی کی چوت لے اندر پیلتا رہا اور آخر کا جب منی چھوڑی تو امی ایکدم چیخ پڑیں کیونکہ گرم گرم مواد نے اُن کی چوت کو اور بھی جلا دیا تھا۔ میں بھی نڈھال ہو کر برابر میں ہی لیٹ گیا جبکہ امی تو ایسا لگ رہا تھا کہ بےہوش ہی ہو گئی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد امی اُٹھیں، اپنی چوت صاف کی اور باتھ روم چلی گئیں، امی کی چال بالکل ایسے بدل گئی تھی جیسے نئی نویلی دلہن کی سہاگ رات چُدائی کے بعد بدلتی ہے۔ حالانکہ امی لاتعداد مرتبہ چُد چکی تھیں لیکن پھر بھی ایک نیا اور وہ بھی جوان لنڈ لینے کا اثر امی کی چال پر صاف ظاہر تھا۔ جب امی باتھ روم سے نکلیں تو باریک دھاگے والی بلیک پینٹی پہنے ہوئے تھیں جبکہ اُوپر ایک سفید رنگ کی ڈھیلی سی ٹی شرٹ تھی۔ امی آ کر میرے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئیں، امی نے شاور لیا تھا اور گیلے بالوں اور ننگی ٹانگوں کے ساتھ تازہ تازہ چُدائی کا روپ امی کو اور بھی سیکسی بنا رہا تھا۔ ہم بستر میں ساتھ لیٹ گئے اور تھوڑی ہی دیر میں نیا جوڑا نیند کی وادیوں میں گم تھا۔
اب ہم مکمل طور پر میاں بیوی کی زندگی گزار رہے تھے، نئے شادی شدہ جوڑے کی طرح ہم روز چُدائی کرتے تھے بلکہ گھر میں امی کے لیے میرا حکم تھا کہ کم سے کم کپڑے پہنیں اور کمرے میں تو میں اکثر امی سے ننگا ڈانس بھی کرواتا تھا اور اس ڈانس کی ویڈیو اپنے موبائل پر بناتا تھا۔ میں اکثر ہماری چُدائی کی ویڈیوز بھی اپنے موبائل سے شوٹ کرتا اور پھر اُنہیں بڑے ٹی وی پر چلا کر لُطف اندوز ہوتا۔ ایک اور شوق جو میرا اور امی کا مشترکہ تھا وہ امی کے بدن کی نمائش کا تھا۔ امی کو ایکسپوزنگ کر کے دوسروں کے جذبات برانگیختہ کرنے میں بہت مزہ آتا تھا اور مجھے بھی اچھا لگتا تھا جب امی اپنے چکنے جسم کی نمائش کرتیں اور توجہ کا مرکز بن جاتیں۔ میں نے تقریبات میں امی کو ساڑھی پہنانا شروع کر دیا جس میں زیادہ سے زیادہ پیٹ ننگا ہو، آستینیں نہ ہوں،پیٹھ کھلی دکھائی دے اور گلا اتنا بڑا ہو کہ مموں کی لکیر ہر کوئی دیکھ سکے۔ جب سب مڑ مڑ کر امی کو ایسے لباس میں دیکھتے تو مجھے بہت لُطف آتا۔ ایک مرتبہ ہم ایک شادی میں گئے تو میں نے امی کو اپنے ہاتھوں سے اسی طرح تیار کرا، شادی کی تقریب میں امی مجھ سے الگ بیٹھیں تھیں کہ اچانک مجھے امی میری جانب آتی دکھائی دیں، امی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ آتے ہی بولیں کہ چلو، گھر چلو فوراً۔ میں فوراً نکل پڑا، امی روہانسی ہو رہی تھی اور کچھ نہ بولیں، گھر پہنچ کر میں نے امی کو اپنی بانہوں میں لیا اور پوچھا تو امی بولیں کہ وہ دلہن کے کمرے کی طرف جا رہیں تھیں تو وہاں گلی میں اندھیرا تھا تو دو بندوں نے امی کی گانڈ پر ہاتھ پھیر دیا اور ایک نے تو اتنی زور سے انگلی کی کہ پوری انگلی امی کی گانڈ کے اندر چلی گئی۔ امی بتاتے ہوئے رونے لگیں کہ یہ سب ایسے کپڑوں کی وجہ سے ہوا ہے تو میں نے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں اگر کوئی ہاتھ پھیر گیا، آخر آپ چکنی بھی تو اتنی زیادہ ہو۔ آج مجھے امی پہ بہت پیار آیا کہ جسم کی نمائش اپنی جگہ لیکن چھونے کی اجازت اور بستر کا مزہ امی صرف میرے اور ابو کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ میں نے امی سے ننگا ہونے کو کہا اور ننگا کرنے کے بعد امی کو گھوڑی بننے کی فرمائش کی۔۔۔ امی کو گانڈ مروانے میں مزہ نہیں آتا تھا لیکن میں تو شروع ہی سے امی کی موٹی اور باہر نکلی ہوئی گانڈ کا عاشق تھا لہذا مجھے خوش کرنے کو امی مجھ سے ریگولر گانڈ مرواتی تھیں۔ آج ایک بار پھر میں نے رج کر امی کی گانڈ ماری تا کہ اُس حرامی کی کری ہوئی انگلی کا درد بھول کر امی میرے لنڈ کی تپش اپنی گانڈ میں محسوس کرنا شروع کر دیں۔ گانڈ مروا کر امی کی چال بالکل تبدیل ہو جاتی تھی.
ایک تبصرہ شائع کریں for "امی کا شوہر (پہلی قسط)"