انٹر کے امتحان کے بعد، میں اپنی بیوہ خالہ سے ملنے ان کے گاؤں میرپورخاص جانے کا پروگرام بنایا۔ میری خالہ وہیں شادی کر کے گئی تھیں۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی اور وہاں کاشتکاری کا کام کرتی تھیں۔ ان کی اپنی زمینیں تھیں، جو انہیں ورثے میں ملی تھیں۔ میں کبھی کبھار ان کے پاس جاتا تھا۔ ان کی شادی کو بیس سال ہو گئے تھے اور وہ میری امی سے بڑی تھیں۔ ان کا گھر بڑا تھا اور شوہر کی وفات کے بعد وہ وہیں رہتی تھیں۔ خاندان والوں کے پاس نہیں گئیں، اپنی زمینداری کے کام میں توجہ دی اور خوشحال تھیں۔
میں نے اپنا سامان پیک کیا اور بس میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ جانے سے پہلے میں نے انہیں فون کر دیا تھا اور امی ان سے کافی دیر تک باتیں کرتی رہیں۔ میں بس اسٹاپ پر اترا تو خالہ کا بھیجا ہوا بندہ پہلے سے میرا منتظر تھا۔ اس کی گاڑی میں بیٹھ کر آدھے گھنٹے کی سفر کے بعد ہم خالہ کے حویلی نما گھر میں پہنچ گئے۔ خالہ نے پرتپاک انداز میں میرا استقبال کیا۔ خالہ اب بھی کنواری لگتی تھیں۔ ان کی جسمانی خدوخال سے ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ پچاس سال کی ہیں۔ وہ میری امی سے بھی جوان لگتی تھیں جبکہ میری امی سے پندرہ سال بڑی تھیں۔ ان کے وجود میں اب بھی ایک خوبصورت لڑکی کا سا حسن چھپا تھا۔ میں نے پہلے خالہ کو اس انداز میں نہیں دیکھا تھا۔ کیا پتہ میں جوانی کی دہلیز پر آ گیا تھا اس وجہ سے لگ رہی تھیں، مگر ان کے خدوخال میں حسن بسا ہوا تھا۔
میرے لیے مختص کیے گئے کمرے میں سامان رکھنے کے بعد میں نے واش روم کا رخ کیا۔ ٹھنڈے پانی سے نہانے کے بعد بھنے ہوئے بٹیر اور قورمہ روٹی کھا کر لطف آ گیا۔ خالہ کے ہاتھ کا قورمہ مجھے بڑا پسند تھا اور انہوں نے یہی بنایا تھا۔ میں نے بھی خوب ڈٹ کر انصاف کیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے گاؤں کا ایک چکر لگایا۔ جان پہچان والوں سے کچھ دیر بات کی، کچھ وقت خالہ کے کھیتوں پر گزارا۔ اس دوران سورج ڈوبنے لگا۔ یہ منظر مجھے بہت پسند ہے اور یہاں آکر میں سورج کو ڈوبتا ہوا روز دیکھتا تھا اور آج بھی میں سورج کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
سورج ڈوب گیا اور اندھیرا چھا گیا۔ میں گھر کی طرف چل پڑا۔ گاؤں میں جلدی سونے کا رواج تھا۔ رات کا کھانا کھا کر سب سونے کی تیاری کرنے لگے۔ میری خالہ نے مجھے اپنے ساتھ سونے کو کہا۔ میں کئی دنوں کے لیے وہاں آیا تھا اور دل ہی دل میں چاہتا تھا کہ کسی طرح خالہ کے قریب ہو جاؤں۔ خالہ کا آج ہی مجھے اپنے ساتھ سونے کا کہنا میرے لیے کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ میں خوشی سے قلقاریاں مارتا ہوا ان کے ساتھ لیٹ گیا۔
خالہ نے چادر درست کرتے ہوئے پوچھا، "تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟"
میں نے انہیں دیکھتے ہوئے جواب دیا، "خالہ، بہت اچھی چل رہی ہے۔"
خالہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے دوسرا سوال کیا، "پیپر کیسے گئے؟"
میں نے چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "اچھے گئے ہیں۔ میں پیپر کی تھکن اتارنے کے لیے ہی تو یہاں آیا ہوں۔" میرے دل میں ایک خیال کُلبلاتا تھا کہ خالہ کے ساتھ وقت گزار کر اپنی تھکن دور کروں گا۔
خالہ نے معنی خیز نظروں سے دیکھ کر کہا، "تم تھکتے بھی ہو؟"
میں نے ایک ہاتھ کہنی کے بل اٹھاتے ہوئے کہا، "کیوں، میں کیوں نہیں تھک سکتا؟"
خالہ نے غور سے دیکھتے ہوئے کہا، "تم تو بچے ہو نا، اور بچے کہاں تھکتے ہیں؟"
میں نے اپنے بازو کی مچھلی دکھاتے ہوئے کہا، "ہاں، میں بچہ تھا، اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔"
خالہ نے میرا جائزہ لیتے ہوئے کہا، "اوہ، دیکھوں گی تم کتنے بڑے ہو گئے ہو۔"
میں نے انہیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا، "دیکھ لینا، آپ حیران ہو جائیں گی۔"
خالہ مجھ سے باتیں کرتی رہیں۔ میں سفر کی تھکن کی وجہ سے کب سو گیا، پتہ ہی نہ چلا۔ رات کا کون سا پہر تھا، مجھے معلوم نہیں، لیکن میں نے محسوس کیا کہ خالہ میرے بہت نزدیک آ گئی تھیں۔ زیرو کی لائٹ آن تھی۔
مجھے خالہ ٹھیک طرح سے نظر نہیں آ رہی تھیں، لیکن ان کے جسم کی خوشبو سے میں انہیں پہچان رہا تھا۔ خالہ کو یہ خوشبو بہت پسند تھی اور وہ اکثر یہی لگاتی تھیں۔ میں ایسے ہی پڑا رہا۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنے پیٹ پر دباؤ محسوس کیا، خالہ کی کمر میرے پیٹ سے ٹکرا رہی تھی۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ وہ آہستہ سے نیچے سرک گئیں اور اب ان کی کمر میرے لن سے لگی ہوئی تھی۔ میں جوان تھا، سوتے میں لن کھڑا رہتا تھا اور صبح بھی بڑی مشکل سے بیٹھتا تھا۔ میرا لن جیسے ہی ان کی گانڈ سے ملا، اس میں اور سختی آ گئی۔ مگر میں خاموش لیٹا رہا۔ میں خالہ کو دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کس حد تک جا سکتی ہیں۔
خالہ نے میرا پاجامہ نیچے کھسکا دیا، جس سے میرا کھڑا لن ان کی گانڈ میں چبھنے لگا۔ خالہ نے نائٹی پہنی ہوئی تھی، جبکہ جب وہ میرے ساتھ لیٹی تھیں، کھانا کھانے کے بعد، تو انہوں نے عام سوٹ پہنا ہوا تھا۔ مگر اس وقت وہ نائٹی میں تھیں۔ سلک کی نائٹی میرے جسم سے چھو رہی تھی۔ پھر خالہ نے اپنی نائٹی اوپر کی اور میرے کھڑے لن کو پکڑ کر اپنی چوت میں ڈال دیا۔ میرا لن آدھا ان کی چوت میں جا چکا تھا۔ بس مجھ سے اب برداشت نہیں ہوا اور میں نے لیٹے لیٹے ہی پاجامہ اتار پھینکا اور خالہ کی ٹانگیں کندھے پر رکھ کر ایک دھکا مارا۔ میرا پورا لن خالہ کی چوت کے اندر چلا گیا۔
خالہ نے کوئی آواز نہیں نکالی، نہ ہی مجھے روکا۔ میں نے آہستہ آہستہ دھکے لگانا اور لن کو خالہ کی چوت میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ میں نے جھک کر خالہ کے مموں کو چوسنا شروع کیا۔ انہوں نے نائٹی اتار دی۔ اب میں نے مموں کے ساتھ ان کے پورے جسم کو چومنا شروع کر دیا تھا۔ میں انہیں چود بھی رہا تھا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے میری گرفت سے الٹی ٹانگ آزاد کرائی اور سائیڈ کروٹ لے کر چدوانے لگیں۔ وہ ہر تھوڑی دیر میں خود اسٹائل چینج کر رہی تھیں۔ بڑا مزہ آ رہا تھا۔ اب خالہ ہلکی ہلکی سسکاریاں لے رہی تھیں۔ روشنی کم تھی اور ہم اسی میں سارا کام کر رہے تھے۔ گھوڑی بن کر چدائی میں میں نے ان کے کان میں کہا...
میرا لنڈ فارغ ہونے والا تھا۔ "منی چوت میں ڈالوں؟" انہوں نے مجھے کس کیا اور بولیں، "ہاں، ڈال دو۔" میں نے اب ان کی چوت پر طوفانی رفتار سے حملہ کر دیا۔ خالہ کی چیخیں نکل گئیں۔ میں کم عمر تھا، مگر خالہ ایک بیوہ اور خوبصورت عورت تھیں۔ میں نے انہیں چدائی کی منزل پر اس دوران کئی بار پہنچایا تھا۔ اور پھر دو تین دھکوں کے بعد میں نے اپنی منی ان کی چوت میں انڈیل دی۔ میں دھکے لگائے جا رہا تھا۔ منی کی چکناہٹ میں لنڈ تیزی سے آگے پیچھے ہو رہا تھا۔ میں چدائی کرتا رہا، لنڈ باہر نہیں نکالا۔
خالہ تڑپ رہی تھیں اور لنڈ کو کھینچ کر باہر نکالنا چاہ رہی تھیں، مگر میں نے ان کا ہاتھ ہٹا لیا اور خالہ کے ہونٹ چوسنے لگا۔ میں دوسری بار کے لیے تیار ہو گیا تھا۔ خالہ میرا ساتھ دینے لگیں۔ اس بار خالہ مجھ پر فدا ہوئے جا رہی تھیں۔ حالانکہ انہیں تکلیف ہو رہی تھی، مگر میرا پورا ساتھ دے رہی تھیں۔ میں لذت کی ساری حد عبور کرنا چاہتا تھا اور خالہ کو مکمل طور پر کس رکھا تھا۔ میں انہیں چوم رہا تھا، چاٹ رہا تھا، انہیں کاٹ رہا تھا۔ خالہ ہنس رہی تھیں، مجھے چوم رہی تھیں، بہت خوش تھیں اور چوت اٹھا کر چدوا رہی تھیں۔ خالہ مجھے خوب پیار کر رہی تھیں۔ "چودو بیٹا، اپنی پیاسی خالہ کو جی بھر کر چودو۔ اپنے کنوارے لنڈ کو میرے گلے تک ڈال دو۔" خالہ بڑبڑا رہی تھیں اور میں انہیں دھڑا دھڑ چدائی کر رہا تھا۔ وہ سسکاریاں لے کر اٹھنے کی کوشش کرتیں، مجھے اپنے اندر کھسانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لذت کی وجہ سے بے حال ہو رہی تھیں۔ میں خالہ کے انگ انگ کو چوم رہا تھا اور وہ نڈھال ہوئے جا رہی تھیں۔ میرا لنڈ ٹپ ٹپ کی آواز کے ساتھ زبردست چدائی میں لگا ہوا تھا۔ میں نے خالہ کی کمر کے نیچے تکیہ رکھا تاکہ چوت اوپر اٹھ جائے۔
پھر میں نے چوت میں لنڈ فٹ کیا اور خالہ کی چیخیں نکلوائیں۔ لنڈ اندر تک جا رہا تھا اور خالہ ہر دھکے سے جھٹکے لے رہی تھیں۔ ہر دھکے پر ان کی ہلکی سی چیخ نکل جاتی تھی۔ اس بار میں نے خوب رج کر چدائی کی۔ خالہ کا جسم ٹوٹ کے رہ گیا۔ ان کی آنکھیں بند ہو گئی تھیں اور میں چدائی میں لگا ہوا تھا۔ آخر میں منزل تک پہنچ گیا اور خالہ کو کس کے اپنی گرفت میں لیا اور لنڈ ان کے بچہ دانی تک پہنچا دیا اور وہیں منی کی برسات کر دی۔ خالہ سسکنے لگیں، "اوہ... اوہ... اتنا لذت! تم نے کہاں جا کر منی گرائی ہے؟ مجھے خرید لیا! میں آج سے تمہاری ہوں۔ میرا سب کچھ تمہارا ہے۔" میں تھک کر ان کے اوپر لیٹ گیا۔ خالہ مجھے دونوں ہاتھوں سے دبوچے ہوئے تھیں۔ مجھے نہیں پتا اس حالت میں کب سو گیا۔
صبح آنکھ کھلی تو خالہ میرے اوپر جھکی ہوئی تھیں۔ مجھے اٹھتا دیکھ کر میرے گالوں پر کس کیا اور کہا، "اٹھو میرے راجا، خالہ کو کب تک تڑپاؤ گے؟" خالہ نے ہلکا میک اپ کیا ہوا تھا اور بلو سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ان کی پسندیدہ پرفیوم مجھے نشے کی وادی میں لے جا رہی تھی۔ میں نے اٹھ کر بیٹھتے ہی خالہ کو بانہوں میں بھر لیا اور انہیں اپنی گود میں بٹھا کر پیار کرنے لگا۔ وہ ہنس رہی تھیں اور مجھے پیار کر رہی تھیں۔ "اپنا! تم اب میرے پاس رہو گے؟" انہوں نے پیار سے کہا۔ "ہاں، میں آپ کے پاس اسی لیے آیا ہوں کہ آپ میں جتنا بھی رس بھرا ہے، سب چوس لوں۔" میں نے انہیں پیار کرتے ہوئے کہا۔ "مجھے ایسا ہی پیار چاہیے، رازداری سے۔" خالہ نے مجھے باور کرایا۔ "خالہ، میں تو آپ کی چوت کا دیوانہ ہو گیا ہوں۔ اب اس پورے جسم پر حق جمانا چاہتا ہوں۔"
"ہاں میرا سب کچھ تمہارا ہے۔ جیسا چاہو کرو، کوئی انکار نہیں ہے۔" خالہ نے میرے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا۔ "اب اٹھ جاؤ اور ناشتہ کر کے خالہ کی چوت میں اپنا یہ مزیدار لنڈ ڈال دو۔" خالہ کے ساتھ مل کر ناشتہ کیا۔ وہ پیاسی، خوبصورت عورت تھی، بیوہ بھی، جو کہ کافی عرصے سے لنڈ کی بھوکی تھی۔ مجھے دیکھ کر ان سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ رات خوب مزے کیے، مگر وہ مجھے جیسے کھا جانا چاہتی تھیں۔ ناشتے کے دوران ہی خالہ نے میرے لنڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے جلدی سے ناشتہ ختم کیا اور گرم خالہ کی ڈھلتی جوانی کے مزے لوٹنے کے لیے خالہ کو بانہوں میں بھرا اور ہونٹوں کو چوستا ہوا ان کے روم کی جانب چل پڑا۔ وہاں جا کر فٹا فٹ ان کے کپڑے اتارے اور اپنا لنڈ ان کے سامنے کر دیا۔ خالہ نے لنڈ منہ میں لے کر چوسنا شروع کیا۔ میں انہیں اس بار منہ میں ہی چودنا چاہتا تھا۔
خالہ بڑے پیار سے لنڈ کو چوم اور چوس رہی تھیں۔ میرا ہاتھ خالہ کے مموں پر تھا۔ میں بیڈ پر بیٹھ گیا تھا اور خالہ میرے لنڈ کو چوس رہی تھیں، چاٹ رہی تھیں۔ کبھی سر سے لگاتیں، کبھی لنڈ کو گالوں پر پھیرتیں، کبھی مموں سے لگاتیں۔ وہ پاگل ہوئے جا رہی تھیں۔ کافی دیر بعد میرا لنڈ خالہ کے منہ میں فارغ ہو گیا۔ خالہ نے میری ساری منی چوس لی۔ "واہ! مزا آ گیا! جوانی کے منی کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔" وہ لنڈ کو مزید چوسے جا رہی تھیں۔ جلد ہی لنڈ پھر لوہا لاٹ ہو گیا، تو میں نے خالہ کو اوپر بیڈ پر کھینچا اور ان کی چوت میں لنڈ ٹکا کر دھکے لگانا شروع کر دیا۔ وہ اپنا سر دائیں بائیں ہلا رہی تھیں اور منہ سے "اوئی... آہ... سی سی" جیسی بے ہنگم آوازیں نکل رہی تھیں۔ میں دن کی روشنی میں خالہ کو چود رہا تھا۔ ان کے جسم کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ بھرا ہوا جسم تھا۔ خوبصورت عورت تھیں۔ بچہ نہیں تھا۔ جسم سے جوان لگتی تھیں۔ میں تو ہر نگاہ سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
اور چدائی کر رہا تھا۔ کبھی ٹانگیں اٹھا کر، کبھی گانڈ باہر کر کے، کبھی گانڈ کے نیچے تکیہ رکھ کر، کبھی گھوڑی بنا کر، کبھی خالہ کو لنڈ کی سواری کرا کر، خوب چودا۔ خالہ چدائی کے وقت اور خوبصورت لگتی تھیں۔ ان کے چہرے پر گلابی رنگ آ جاتا تھا، چہرہ چمک جاتا تھا، مسکراتا چہرہ۔ بڑا مزہ آ رہا تھا۔ پھر خالہ مکمل میرے اختیار میں تھیں۔ کوئی ڈر، کوئی پریشانی نہیں۔ دل بھر کر چدائی کی۔ میرا یہاں جب تک رہا، چدائی میں گزرا۔ میں واپس آگیاتھا مگر یہاں میرا اور وہاں خالہ کا بالکل بھی دل نہیں لگ رہاتھا۔خالہ نے ایک زبردست ترکیب سوچی انہوں نے میرے امی ابو سے مجھے گود لینے کی بات کی ۔اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ان کی سب زمین جائیداد وہ میرے نام لگادیں گی ۔یہ ہی نہیں بلکہ وہ میرے سب تعلیمی اخراجات کی بھی ذمہ دار ہوں گی ۔یہ سن کر تو امی ابو کے ہوش اڑ گئے ۔انہوں نے مجھ سے بات کی تو میں نے راضی ہونے میں ایک پل نہیں لگا۔اب میں کچھ دن میں ہمیشہ کے لیے خالہ کے پاس جارہاہوں ۔ وہاں جا کر بس اب چدائی ہی چدائی ہونی ہے ۔، سونا ہے، کھانا ہے۔ عیش کرنی ہے ۔میں بہت جلد ہمیشہ کے لیے خالہ کے پاس جارہا ہوں
(ختم شد)
ایک تبصرہ شائع کریں for "خالہ کی ڈھلتی جوانی"