اس لڑکی کی کہانی جسے پانا میری ضد تھی جسے پانا میر ی زندگی کا مقصد تھا
موبائل کی بیل نے مجھے اٹھنےپر مجبور کر دیا۔ راجو کے نام پر میں نےیہ بیل محفوظ کی ہوئی تھی ۔
نہیں تو میرے موبائل پر صرف ایک بیپ والی بیل لگی ہوئی تھی۔ جیسے ہی میں نے کال اوکے کی ۔ نیلی آنکھیں باس ۔ راجو نے بغیر تمہید کے مخصوص سگنل دیا ۔ وہ 125 پر ہیں اور بائیک چلانے وال کوئی بازی گر لگتا ہے میں اسے کھو بھی سکتا ہوں ۔ بائیک کا نمبر نوٹ کر لو، میں نے اسے ہدایت دی ۔ نمبر نہیں ہے باس ، اپلائیڈ فار ہے ، آپ آجاؤ ، میرے جسم میں جیسے بجلیاں دوڑ گئ ۔ میں پاجامے کے اوپر ہی ٹی شرٹ پہن کے والٹ ، چابیاں اور موبائل ، موبائل تو میرے کان سے لگا ہے۔ فلیٹ لاک کر کے چار منٹ کے اندر میں گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا۔ اس دوران راجو سے میں اس کی لوکیشن پوچھ چکا تھا ۔ تین سال پہلے میں نے راجو کو ایک مشن دیا تھا ۔ نیلی آنکھوں والی کو ڈھونڈنے کا ۔ تب سے اب تک یہ تلاش جاری تھی ۔ کچھ نیلی آنکھیں ملی پر اس میں وہ نہیں تھی جس کی مجھے تلاش تھی ۔ اس وقت میں بڑی اوور ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔ صبح صبح بیشتر سڑکیں خالی تھیں ، راجو سے میرا مسلسل رابطہ تھا ۔ میں ان کی مخالف سمت سے آرہا تھا ۔ کیا خیال ہے راجو کہاں جا رہے ہیں وہ ؟۔ کسی کالج یا یونیورسٹی کے لگتے ہیں ۔ راجو نے بات ختم بھی نہیں کی کہ میں نے دوسرا سوال کر دیا، رستے میں کون کون سے کالج یا یونیو رسٹی آتے ہیں ۔ میں نے ایک سگنل توڑتے ہوئے پوچھا ۔ جیسے ہی راجو کا جواب آیا میں نے تیزی سے فیصلہ کیا اور ایک شارت کٹ سے کینال بینک روڈ کی طرف گاڑی موڑ دی ۔ کار سے زیادہ تیز میرا دماغ چل رہا تھا ۔ باس وہ کینال روڈ کی طرف مڑسکتے ہیں ۔۔۔۔ میں کینال بنک روڈ پر پہنچ چکا ہوں میں نے راجو کی بات ختم ہونے سے پہلے بتا دیا ۔ صبح صبح کینال روڈ پر بڑا رش ہوتا ہے کئی کالج اسی طرف ہیں خاص کر پنجاب یونیورسٹی اور دفتروں کو جانے والے کچھ اس طرف سے ائیر پورٹ جانے والے ۔ میری نظریں بیک مِرر پر تھی ۔ ایک 125 بڑی خطرناک ڈرائیونگ کرتا گاڑیوں کو بائیں طرف سے اوور ٹیک کررہا تھا۔ میں بھی بائیں قطار میں آگیا ۔ جیسے ہی اس نے مجھے کراس کرنا چاہا ۔ میں نے گاڑی تھوڑی نیچے اتار دی ۔ اسے مجبورا بائیک آہستہ کرنی پڑی ۔ گاڑی اس رش میں بائیک کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی ۔ اس لیے میں اسے آگے نہیں نکلنے دیا ۔ باس میں نے آپ کی کار دیکھ لی ۔ راجو کی پرجوش آوازآئی ۔ راجو تم آگے نکل جاؤ ۔ اوکے باس ، راجو مجھے دیکھ کے پرجوش ہوگیا تھا ۔اورکچھ لمحوں میں شُوں کر کے میری دائیں طرف سے گاڑیوں کے درمیان سے خطرناک طریقے سے نکل کےبائیں طرف سے کراسنگ کرنے لگ گیا ۔ بائیں طرف اوور ٹیک خطرناک ہوتا ہے پر کامیاب ہوتا ہے
میرے اندازے کے مطابق 125 نے بھی راجو کی طرح نکلنا چاہا جب وہ میری کار کے درمیان میں آیا میں نے کار کو ہلکا سا بائیں طرف کیا ۔ وہ پھنس گیا کچھ دیر بعد اسے بائیں قطار میں جانا پڑا ۔ یہی میں چاہتا تھا ۔اس کے آگے پیچھے گاڑیاں تھیں، اس کے انتہائ بائیں طرف فٹ پاتھ تھا اور فٹ پاتھ کے ساتھ نہر تھی ۔ اور ادھر میری گاڑی، وہ بائیں قطار میں پھنس چکے تھے ، نئی بائیک کو اس نے ہوائی جہاز بنایا ہوا تھا۔ اب میں نے لڑکی کی طرف دیکھا ۔ وہ غصے سے میری طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔ اف خدایا اس کی گہری نیلی آنکھیں اور ان آنکھوں میں نیلا سمندر اور اس نیلے سمندر کے نیلگوں پانیوں میں دل کرتا تھا ابھی چھلانگ لگا دوں۔ اس نے سفید چادر سے نقاب کیا ہوا تھا ۔ بلکہ پورا جسم پر چادر اس طرح تھی کہ اس کے جسمانی خطوط کا کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا ۔ میرے اندازے کے مطابق وہ 23 سال کی لگتی تھی ۔ لڑکے نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا ، اس دوران لڑکے نے دو بارکٹ مار کے نکلنا چاہا مگر میں نے اس کی چال ناکام بنا دی ۔ اسے میری بُھونڈی کا اندازہ ہو چکا تھا ۔وہ تو پہلے ہی بڑاغصے میں تھا، اسی کشمکش میں دو تین کالج پیچھے رہ گئے ۔ مجھے ان کی منزل کا اندازہ ہوگیا تو میں نے کار آگے نکالنے میں دیر نہیں لگائی۔ راجو تم باہر ہی رہنا ، کال بند کرنے سے پہلے میں نے اسے ہدایت کی ۔ پھر میں تانیہ کو کال کرنے لگا ۔ بڑے گھر کی بگڑی ہوئی تانیہ اپنا کام بخوبی سمجھتی تھی تانیہ پیڑنہیں گنتی تھی اسے آم کھانے سے مطلب تھا ۔ کچھ ہی دیر میں ، میں تیز رفتاری سے گاڑی پنجاب یونیورسٹی میں لیتا گیا۔ گاڑی پارک کر کے میں کینٹین کی طرف چل پڑ ا۔ 125بائیک والا لڑکا سیدھا جمیعت کے لڑکوں کے پاس گیا وہ انہیں میرے بارے میں ہی بتا رہا ہو گا،۔ مگر جیسے ہی عرفان نے مجھے دیکھا تو جھلاہٹ میں اسے ہی ایک جھانپڑ رسید کر دیا ۔ عرفان پہلے ہی اوپر سے میری وجہ سے جھاڑیں کھا چکا تھا ۔عرفان کی ملتجی آنکھیں مجھے کچھ کہہ رہیں تھیں ،میں نے سر ہلا دیا ۔ میں نے بائیک والے لڑکے کو واپس جاتے ہوئے دیکھا ، لگتا ہے وہ نیلی آنکھوں کو صرف چھوڑنے آیا تھا ، میں اس وقت نیلی آنکھوں مے سحر میں کھویا ہوا تھا اور میرا کسی سے بات کرنے کا بھی موڈ نہیں تھا ۔ اسلیے کینٹین میں جا کے بیٹھ گیا ۔ او شہزادہ ساڈے لاہور دا ۔ ایک خوشامدی آواز نے مجھے خیالوں سے باہر کھنچ لیا ۔ وہ بشیر تھا ۔ میری سرکار بڑے دنوں بعد درشن دیئے ہیں آپ نے۔ اس کی خوشامد جاری تھی ۔ اور بشیر کیسے ہو ۔ مجھے اس سے بات کرنی ہی پڑی ۔ میں ٹھیک جناب ، ایسے کرو دو کولڈ ڈرنک بھیج دو مگرآج پہلے اچھا سا ناشتہ کراؤ ۔ او میرے شہزادے ساری کینٹین ہی تمھاری ہے ، ابھی میں ناشتہ بھیجتا ہوں اپنے شہزادے کیلیے۔ بشیر چلا گیا اور میں پھر خیالوں میں کھو گیا ۔ 4 سال پہلے میرے اندر نیلی آنکھوں کی طلب زیادہ زور مارنے لگی ۔ لیکن صرف نام کے سہارے اسے ڈھونڈنا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف تھا۔ میں نے اپنی سی کوشش کی مگر بات نہ بنی ۔ مجھے کوئی ایسا چاہیے تھا جس کا کام ہی آوارہ گردی ہو ، پھر مجھے راجو ملا ۔ آنٹیوں سے اپنے خرچے نکالتا تھا ۔ میں اس سے ملتا رہا اسے پرکھتا رہا ۔ مجھ سے بہت متاثر تھا ۔ ایک دن پوچھنے لگا باس ،کوئی ایسی لڑکی بھی ہو جسے آپ پا نہ سکیں ہوں ۔ ہاں ایک ہے ، کون ہے وہ باس ؟ اس نے حیرانگی سے پوچھا۔ اس کا نام دلآویز ہے ۔ کہاں رہتی ہے وہ ،اس کا تجسس بڑھنے لگا،پتہ نہیں کہاں ہو گی ۔اس نیلی آنکھوں والی کو آخری بار دیکھا تھا تو وہ 13 سال کی تھی اور میں 16 سال کا تھا ۔اب تو وہ 23 سال کی ہوگئی ہوگی ۔اس کا باپ کا نام اور کام ، راجو کے سوال جاری تھے ،سرور خان ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ کمپنی میں کام کرتا تھا ۔ کچھ اور اس کے بارے میں جانتے ہیں آپ ، راجو نے پھر سوال کیا ۔ بس یہی کچھ جانتا ہوں ۔ ہاں اس کی ماں کا نام نگینہ تھا ۔ نگینہ کے نام سے ہی میرے منہ کا ذائقہ جیسے کڑوا ہو گیا۔اور کچھ ان کے بارے میں ۔ راجو نے پوچھا ۔ دونوں میاں بیوی پیدائشی لہوری ہیں اور پٹھان خاندان سے ہیں وہ آپ کو کہا ملی تھی ؟۔وہ کرائے کے مکان میں رہتے تھے اس کا پرانا ایڈریس بتا کہ میں راجو کو پر خیال نظروں سے دیکھنے لگا۔ اسی کام کیلیے میں اسے اپنی مصروفیات سے وقت دیتا تھا باس میں لاہور کو اپنے ہاتھ کی لکیروں کی طرح جانتا ہوں ہر گلی سے میں گزرا ہوں ۔ہر گرلز کالج ، ہر یونیورسٹی کا مجھے پتہ ہے ، باس میں اسے ڈھونڈوں گا آپ کیلیے ، راجو مجھے امپریس کرنا چاہتا تھا ۔ اچھا سوچ لو یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ایک سال بھی لگ سکتا ہے ،میں نے سے پکا کیا ۔ دو سال بھی لگ جائیں تو پرواہ نھیں ہے ۔اس نے جوش سے کہا ، میں نے اسے ایک پرانی ہنڈا 70 لے دی ۔ جیب خرچ بھی کبھی کبھار دے دیتا ۔ پھر جب مجھے تسلی ہوگئی کہ وہ سنجیدگی سے تلاش کر رہا ہے تو اس کا جیب خرچ مستقل کر دیا ۔ چھ سو چوراسی میل پر پھیلا ہوا لاہور کئی شہروں جیسا ایک شہر تھا ۔اسوقت دوہزاردس میں اس کی آبادی دس کڑوڑ کے لگ بھگ تھی ۔ بلاشبہ راجو کو ایک مشکل مشن دیا تھا لیکن وہ اس کیلیے موزوں ترین تھا ،ڈھونڈتے ڈھونڈتے دوہزار بارہ آگیا ۔ لیکن راجو کا جوش کم نہیں تھا ۔ میں پرنس جو تھا اس کے جوش کو تیز کرنے کیلیے ۔ دوہزار گیارہ میں راجو نے اپنی توجہ ہائیر سیکنڈری سکولوز ، کالجز اور یونیورسٹیز پر مبذول کردی تھی۔ یہ اس کا پسندیدہ کام بھی تھا ۔ اس تلاش سے اب پھر ایک نیلی آنکھوں والی ملی تھی ۔ کافی دیر ہوگئی تھی تانیہ ابھی تک نہیں آئی تھی ۔ میں اس دوران ناشتہ کر چکا تھا ۔ اِدھر دو کولڈ ڈرنک آئی اُدھر تانیہ آگئی ،میں اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ بتاتی ہوں پہلے کولڈ ڈرنک تو پینے دو ۔ بڑے دنوں بعد تم ہاتھ آئے ہو وہ بھی صبح صبح ، جناب کی صبح تو ایک دو بجے سے پہلے نہیں ہوتی ۔ تانیہ یہی سمجھ رہی تھی کہ میں عام حالات کی طرح کسی کا پیچھا کرتا ہوا آیا تھا ۔ اچھا اچھا بتاتی ہوں میرے چہرے کہ بدلتے تاثرات طرف دیکھ کہ وہ بے ساختہ بولی۔ اس کا نام دلآویز ہے میرے خون کی گردش یکدم تیز ہوگئی ۔ ایم اے انگلش کے فائنل ایئر میں ہے ۔ پٹھان فیملی سے ہے ۔ باپ کا نام سرور خان ہے ۔ یہ اس کا ایڈریس اور فون نمبر ہے ۔ تانیہ نے نوٹس سے پھاڑا ہوا کاغذ کا ٹکڑا میری طرف بڑھایا ۔ ہر وقت نقاب میں رہتی ہے بلکہ چادر کو ایسے لپیٹتی ہے کہ اسکا کچھ پتا نہیں چلتا ۔ کافی نک چڑھی ہےکچھ لڑکے اس کی طرف بڑھے مگر جب سے اس نے ایک لڑکے کو تھپڑ مارےہیں تب سے کوئی لڑکا اس کی طرف نہیں بڑھتا ۔ پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے ۔ بڑی آئی ملکہ حسن کہیں کی ۔ تانیہ نسوانی جلاپے سے بولی تو میں سمجھ گیا کہ دلآویز کا حسن دیکھنے کی چیز ہو گا ۔ اور ایک خاص بات اپنی مما سے اس کی جان جاتی ہے بہت ڈرتی ہے اس سے۔ اس کی مما کا نام کیا ہے ؟ میں نے بے ساختہ پوچھ لیا ۔ شاید نگینہ بتا رہی تھی اس کی دوست ۔ تو نگینہ میں تم تک پہنچ ہی گیا ،میں نے دل میں کہا ۔ تانیہ میری حالت سے بے خبر اپنی ہی کہی جا رہی تھی، پتہ ہے ابھی وہ اپنی دوستوں سے کیا بات کر ہی تھی ۔ کسی بگڑے ہوئے امیر زادے نے آج اس کا پیچھا کیا اور انہیں بڑا تنگ کیا۔ ہم دونوں مسکرانے لگے۔ آج جس کے ساتھ دلآویز آئی تھی وہ کون تھا اس کے پاس نئی 125 بائیک ہے اور اسے ہوائی جہاز سمجھتا ہے ، شاید تم نے اسے دیکھا ہو ۔ ظاہر ہے پیچھے لڑکی بیٹھی ہو اور بائیک نئی ہو تو ہوا میں ہی اڑنا ہے ۔ ویسے اس کا کوئی کزن ہے ۔ اپنی دوستوں سے یہی باتیں کر رہی تھی کہ آج کزن کے ساتھ آنے کی غلطی کر لی آئیندہ یونیورسٹی کی بس میں ہی آئے گی۔ اس دوران میں راجو کو دلآویز کا ایڈریس میسج کر چکا تھا ساتھ ہی اسے ہدایت کی کہ ہوشیاری سے اس کی پوری معلومات لے کے شام کو فلیٹ پر آجائے ۔ تو اب آپ کا کام ہو گیا اب چلیں فلیٹ پر ، تانیہ نے بڑے ندیدے پن سے کہا ۔ تانیہ کو بلایا تھا تو مجھے اندازہ تھا کہ پیڑ نہیں گنتی پر آم ضرور کھائے گی جب میں اپنی کار میں بیٹھا توتانیہ نے فرنٹ ڈور کھولنے کا اشارہ کیا ۔ کیا بات ہے لے آؤ اپنی کار میں نے شیشہ نیچے کرتے ہوئے کہا ،نہیں نہیں میں تمھارے ساتھ جاؤں گی تمھارا کوئی اعتبار نہیں ہے ملنا تو دور کی بات کال تک ریسیو نہیں کرتے جناب پرنس صاحب ۔ میں تمھیں چھوڑنے نہیں آسکتا ، کوئی بات نہیں میں ٹیکسی سے آجاؤں گی،مجھے اسے بٹھانا ہی پڑا ۔ آخری لمحے بھی تم باز نہیں آئے ۔ تانیہ نے روٹھے انداز میں کہا۔ نہیں یار میں تمھیں فیس دیئے بغیر غائب نہیں ہونا تھا ،میری فیس والی بات پر تانیہ کی ہنسی نکل گئی۔ شکر کرو ندا اور صائمہ کو نہیں بتایا میں نے ۔ نہیں تو فیس تین گنا ہو جانی تھی ۔ باتیں کرتے ہم فلیٹ پر پہنچ گئے ۔
فلیٹ میں داخل ہوتے ہی تانیہ پاگلوں کی طرح مجھ سے لپٹ گئی اور مجھ سے کسنگ کرنے لگی ۔ تانیہ کا انداز ایسا تھا جیسے بھوکے کو کئی دن بعد کھانا ملا ہو۔ او پرنس تم بہت ظالم ہو،کاش تمھیں کسی طرح باندھ سکتی ۔ تانیہ شدت سے پاگل ہورہی تھی ۔ ہماری زبان اور ہونٹ بڑے مصروف تھے ،اور ہاتھوں کو کہیں آرام نہیں تھا ۔ ہم کسنگ کرتے رہے ۔ کسنگ کرتے ہوئے تانیہ نے میری ٹی شرٹ اتار دی تو میں اس کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگ گیا۔ میں نے اس کی شرٹ اتاری ہی تھی کہ اسنے میرے پاجامے کی ڈوری پکڑ کے کھولی اور ایک جھٹکے سے پاجامہ نیچے بیٹھ کے اتار دیا ۔ میں اپنا انڈرویئر اتارنے لگ گیا تو تانیہ نے اپنی جینز اتار کر برا بھی کھول دی ۔ تانیہ چوبیس سال کی مست جوانی تھی خوبصورت گولائی نما چہرہ ۔ گوری رنگت، تنے ہوئےممے ۔ اسمارٹ جسم جو اب انگارا بنا ہوا تھا ۔ تانیہ کی سسکاریاں تیز ہونے لگی تھی اسے گرم کرنے کی ضرورت نہں تھی وہ تو بڑی مشکل سے خود کو سنبھالتی آئی تھی ۔ پرنس ڈال دو اندر تانیہ نے شدت سے میرے گلے لگتے ہوئے کہا اس کی چوت میرے عضو کو چومنے لگی ۔ ہم فلیٹ کے دروازے کے ساتھ ہی ابھی تک کھڑے تھے میں نے اسے دیوار کے ساتھ لگا کے اس کی دائیں ٹانگ تھوڑی سی اٹھائی اور اپنا عضو اس کی چوت میں ڈال دیا ۔ تانیہ نے اپنی بانہوں کا ہار میرے گلے میں ڈالا ہوا تھا ۔ میں تانیہ کو چودنے لگ گیا ۔ تیز چودو پرنس تیز۔ تانیہ چیخی ۔ ایسی چیخوں کیلیے ہی تو میرا فلیٹ ساؤنڈ پروف تھا ۔ میرے دھکے کوئی عام دھکے نہیں تھے ۔ میں پوری شدت سے تانیہ کی چدائی کرنے لگا ۔ میرے ہر دھکے پر تانیہ مزے کی شدت سے چیخنے لگی ۔ میرے دھکے اور اس کی چیخیں جیسے موسیقی کی ردھم پر تال میل ملا رہے تھے ۔ مار دو پرنس مجھے چود چود کے مار دو میں تمھاری بانہوں میں چدتے ہوئے مرناچاہتی ہوں ۔ تانیہ مجھے پاگل کر رہی تھی ۔ میں بھی ایسے چدائی کر رہا تھا ۔جیسے اپنے دھکوں سے اس انارکلی کو دیوار میں گاڑ دوں گا ۔ تانیہ نے پانی چھوڑ دیا تھا ، تو بھی میرے دھکوں میں کمی نہ آئی ۔ تانیہ گہرے گہرے سانس لینے لگی ۔ بیڈ پر لے چلو پرنس مجھ سے اب کھڑا نہیں ہوا جاتا ۔ پانی نکلتے ہی وہی دھکے اب درد دینے لگے تھے ۔ میں نے اسے اسی طرح اٹھایا اور بیڈ پر لا پٹخا۔ تانیہ میری عادت سمجھتی تھی وہ کپڑے سے اپنی چوت صاف کرنے لگی ۔ میں نے پھر اس کی چوت پر اپنے ہتھیار سے حملہ کر دیا ۔ اس کی ٹانگیں کھول کے میں ٹھکا ٹھک کھدائی کرنے لگا ۔ پانی نکالنے کیلیے گہری کھدائی کرنی ہی پڑتی ہے ۔ میرا عضو چوت کی گہرائیوں میں گھسنے کےلیے بار بار حملے کرتا رہا ۔ تانیہ کی سسکاریاں پھر شروع ہوچکی تھیں ۔ تانیہ انگلش میں (فک می فک می) کی گردان کر رہی تھی ۔ اس کا شعلہ جسم بھڑک چکا تھا اور اس کی آگ میں ہم جھلس کے دیوانے ہو رہے تھے ۔ تانیہ بڑی بے تاب تھی سو میں نیچے لیٹ گیا اور اسے گھوڑے پر بٹھا کر بے تابی نکالنے کا پورا موقع دیا ۔ ایسے موقع پر میں آرام سے جوانی کی شدت کا مزہ لینا چاہیئے ۔ اب اس کے شعلہ جسم اپنی آگ کو بجھانے لگا ۔ لیکن عجیب بات تھی جتنا بجھانے کی کوشش کر رہی تھی اتنی آگ اور بھڑک رہی تھی ، ایسی شدت ہو تو فراغت کیسے دیر کر سکتی تھی ۔ وہ آگئی اور ہمیں ایسا لگا جیسے ٹانگوں سے جان نکل رہی ہو۔ کچھ دیر تو گہرے سانس لیتے رہے ۔ پھر ایکدوسرے کی طرف دیکھا اور ہماری ہنسی نکل گئی ۔ اچھا تو میری بانہوں میں چدتے ہوئے مرنا چاہتی ہو، کاش تم میری یہ خواہش پوری کر دو ،تانیہ نے حسرت سے کہا تو مجھے اس کے لہجے کی سنجیدگی کی وجہ سے محتاط ہونا پڑا ۔ چلو تمھیں آسمانوں کی سیر کراتی ہوں ۔ تانیہ نے میرا عضو پکڑ کے اپنا منہ اس کے پاس لے جاتے ہوئے کہا ۔ جیسے ہی اس نے میرا عضو کو چوما اور چوسنا شروع کیا ۔ میرے جسم میں کرنٹ سا دوڑنے لگ گیا۔ تانیہ مجھے دوسرے راونڈ کیلیے تیار کرنے لگی تھی ۔ اسے چوسنے میں مہارت تھی ۔ اور مجھے اس کا شوق تھا ،تانیہ میری اس کمزوری سے واقف تھی اس نے مجھے اتنا کرنٹ لگایا کہ ٹرانسفر بنا دیا تا کہ یہی کرنٹ میں اسے چودنے میں لگاؤں ۔۔ لیکن میرے کچھ اور ہی ارادے تھے میں اس کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلیے لیٹ گیا اور اسے گھوڑے پر بٹھا دیا پہلے پہل تو وہ جوش سے لگی رہی اور خوب سواری کی پھر وہ آہستہ ہونے لگی لڑکیوں کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے میں نے اسے آرام نہیں کرنے دیے اور اسے جوش دلاتا رہا اور تانیہ سواری کرتی رہی ۔ تانیہ پھر مدہم پڑنے لگی اسکی بس ہورہی تھی ۔اب میں اس کی کمر سے پکڑ کے اسے اوپر نیچے کروانے لگا پہلے وہ تھکی تھی اب نڈھال ہونے لگی اور پھر میرے اوپر گر پڑی ۔ اس کا سانس دھونکنی جیسا چل رہا تھا اسے کچھ مہلت دے کہ پھر میں شروع ہوگیا اور اب کی بار میں نے اس کی تسلی کروا دی ۔ آدھے گھنٹے بعد جسم نارمل ہو گیا تو میں نہانے چلا گیا۔ میں نہا کے نکلا تو تانیہ اٹھی وہ کچھ تھکی تھکی لگ رہی تھی۔ میں نے اسے ایک ٹھنڈی بیئر دی ایک خود پینے لگا ۔اس سے وہ کچھ بہتر محسوس کرنے لگی ۔ اور کپڑے پہن کر چلی گئی۔ جب سے دلآویز کا پتہ چلا تھا میرے دل میں اتھل پتھل ہورہی تھی ۔ اگر تانیہ کی جگہ کوئی اور ہوتی تو میں نے بالکل دھیان نہیں دینا تھا ،لیکن تانیہ میرے بہت کام آتی تھی ۔ یونیورسٹی میں وہ میری آنکھوں کا کام کرتی تھی ۔ سو اسے غذا دینی ضروری تھا۔
اب میرے دل میں بہت سے خیالات آنے شروع ہوگئے ۔ ماضی کی یادیں مجھے پوری شدت سے ستانے لگی۔ جو باتیں پہلے دھیمی آنچ پر ستاتی تھیں آج وہ ایکدم شعلہ سی بننے لگی ۔ دل تو یہی کر رہا تھا کہ ابھی جاؤں اور نگینہ کے سامنے اس کی دلآویز کو چیر پھاڑ دوں ۔ میں نے ایک اوربیئر نکالی اور چسکیوں میں پینے لگا ۔ برہم مزاج کو ٹھنڈا کرنے لگا ۔ مگرماضی میرے سامنے کسی فلم کی طرح چلتا رہا ۔
یہ لے اماں تیرا پوتا آگیا ،تو پوتا پوتا کرتی تھی نہ اب اسے سنبھال ۔ میرے والد کے دوست سرور خان نے مجھے اپنی ماں کو تھماتے ہوئے کہا ۔ سرور خان کی والدہ جیسے میرے بارے میں سب جانتی تھی ۔ میں اس وقت بارہ سال کا تھا اور غم سے نڈھال تھا ابھی پرسوں ہی تو میرے والد صاحب کی فیکڑی میں کام کرتے ہوئے وفات ہوگئی تھی ،ماں تو میرے پیدا ہوتے ہی اس دنیا سے چلی گئی تھیں ۔ اب اس دنیا کے صحرا میں اکیلا تھا ،مگر نہیں کسی نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ خدا نے پلا پلایا بیٹا دے دیا اس کا جتنا شکر کرو کم ہے ۔ سرور خاں کی والدہ نے مجھے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا ۔ لیکن جیسے ہی اس نے مجھے اپنے ساتھ لگایا اسے جیسے جھٹکا لگا ۔ وہ مجھے غور سے دیکھنے لگی ۔ پھر ان کے چہرے پر نورانیت ابھر آئی اور انھوں میں مجھے اپنے ساتھ لگا کے میرا سر چوم لیا۔ مجھے لگا جیسے میں صحرا سے کسی نخلستان میں آگیا ہوں ۔ کوئی قریبی رشتہ دار تو تھا نہیں ، اور دور والے پاس آنا نہیں چاہتے تھے ۔ مکان کرائے کا تھا مالک مکان نے قل خوانی ہوتے ہی سرور خاں سے بات کی اور جو تھوڑا سامان تھا وہ لیا اور یوں میں اس کا بیٹا بن کے اس کے گھر آگیا ۔ یہ بات تو مجھے بعد میں پتہ چلی کہ فیکٹری میں والد صاحب کی حادثاتی وفات کی وجہ سے سرور خان نے فیکڑی مالکان سے مجھےآگے کر کے اچھا خاصا پیسا بٹور لیا تھا۔ ایک بار تو اس نے مجھے اپنے گھر لانا ہی تھا ۔ مجھے سرور خان کی والدہ کی شکل میں دادی مل گئی ۔ دادی نے مجھے اتنا پیار دیا کہ مجھے ماں کی کمی بھی بھول گئی۔ گھر کا ایک اور فرد بھی تھا۔ وہ تھی دلآویز جس کی عمر اس وقت نو سال تھی۔ سرخ وسپید رنگت،نیلی آنکھیں با لکل کسی گڑیا کی طرح تھی میں نے اس کے ساتھ کئی بار کھیلنا چاہا مگر وہ مجھ سے دور رہتی تھی شاید ابھی اس نے مجھے قبول نہیں کیا تھا ، میں نے اس کی ہر چیز جو آدھی بانٹ لی تھی خاص کر دادی تو پوری ہی لے لی تھی ۔ دادی آپ اپنی یہ لاٹھی اب رکھ دیں میں آپ کی لاٹھی ہوں ،میں اکثر دادی سے نہ صرف کہتا بلکہ ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر بھی رہتا ،دادی بھی اب ہر کام کیلیے مجھے ہی کہتی تھی ، نگینہ بھی پیار کر لیتی تھی ۔کسی وقت باہر لڑکوں سے بھی کھیل لیا کر سکول سے آتا ہے تو دادی کی جان کو چمٹا رہتا ہے ، ایسی باتیں کر کے نگینہ مجھے گود میں بٹھا لیتی ۔ مجھے چومتی مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیتی ، مجھے اتنی تو سمجھ نہیں تھی مگر نگینہ کے پیار میں دادی والی بات نہ تھی۔ یہ تو ویسے ہی تھی جیسے میرے اپنے گھر میں ہماری گلی کی خالہ او رباجیاں مجھے لپٹاتی تھیں چومتی تھیں ۔ ہر کوئی یہی جتاتا تھا کہ بن ماں کے بچے کا بڑا خیال رکھتی ہیں ۔ کوئی میرا نام نہیں لیتا تھا ۔ سب مجھے شہزادہ کہتی تھیں پتا نہیں کیا بات تھی جو کوئی مجھے دیکھتی تھی مجھے اپنے ساتھ لپٹاتی تھی یا کوئی کوئی ایسی بھی تھی جو مجھ سے بدکتی تھی ۔ جیسے پہلی دفعہ دادی مجھ سے بدکی تھیں ۔ یہاں بھی میں سب کیلیے شہزادہ تھا ۔ باہر نکلتا توکوئی آواز آتی ، ادھر آنا شہزادے بات سننا ۔ ہمسائی خالہ نے آواز دی ، وہ مجھے اندر لے گئی کتنا معصوم ہے اس نے مجھے گود میں لے لیا۔بہت ہی پیارا بچہ ہے دوسری نے میرے گال چوم لیا ۔یہ لے یہ کھیر کھا لے۔ بن ماں باپ کا بچہ ہے اسنے مجھے اپنے ساتھ لپٹا کے بھینچ لیا ۔۔ایسا ہی ہوتا تھا۔ وہ بن ماں باپ کے بچے کو پیار کر کے اپنے دل کوسکون دیتی تھیں ۔ دادی نماز روزے کا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ ہر وقت ان کی زبان تسبیح کرتی رہتی تھی، ان کے چہرے ہر ایک نورانی ہالہ سا محسوس ہوتا تھا،گلی محلے کی عورتیں ان سے مشورے کرتی تھیں ان کی بڑی عزت کرتی تھیں بلکہ ان کی پوری برادری میں چھوٹے بڑے سب ان کی مانتے تھے ۔ ۔ میرا بیٹا، شہزادہ ادھر تو آ ، دادی کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ میں ان کے پاس تھا۔ جی دادی ۔ بیٹا تو کھیلتا ہی رہتا ہے ادھر اپنی بوڑھی دادی کے پاس بھی بیٹھ جایا کر ۔ ہمیشہ دادی ایسے ہی کہتی تھیں اور پھر ان کی باتیں شروع ہو جاتیں تھیں ۔پتہ نہیں کہاں کہاں کہ قصے کہانیاں مجھے سناتی رہتیں ۔ دلآویز بھی آکےبیٹھ جاتی لیکن پھر بیزار ہو کے اٹھ جاتی تھی ۔ مجھے نہیں پتہ تھا دادی میری تربیت کر رہی تھیں۔ مجھے اچھائی برائی کا فرق سمجھا رہی ہیں ، رشتوں کا تقدس سمجھا رہی ہیں ، دنیا کی اونچ نیچ سمجھا رہی ہیں ،ان کی بہت سی باتیں میرے شعور میں اور کچھ میرے لاشعور میں محفوظ ہوتی جاتی تھیں ۔ ماں باپ کے بغیر بچوں کے ذہن ویسے بھی جلدی بالغ ہو جاتے ہیں دادی نے مجھے پالش کر کے بہت کچھ وقت سے پہلے ہی سمجھا دیا ۔ دلآویزا۔ او ،۔دلآویزا چل اپنی ماں کے ساتھ کام کروا ۔ جب دیکھو کھیلتی رہتی ہے ۔ جب بھی میں اور دلآویز کھیلتے دادی کی یہی آواز سننے کو ملتی ۔ میں سوچتا کوئی بات ضرور تھی جو دادی کو مجھ میں ناپسند تھی۔ لیکن وہ بات سنبھالنا دادی کی دانش سے باہر تھی۔ تین سال پلک چھپکتے گزر گئے ۔ میں پندرھویں سال میں داخل ہوگیا میٹرک کے پیپر دے ابھی فارغ ہوا تھا ۔ کہ ایک رات دادی سوئی تو پھر نہیں اٹھی ۔ دادی میں تمھارے ساتھ جاؤں گا ، نہیں میری دادی کو نہ لے جاؤ ۔ دادی تم کہاں ہو۔ دادی میں مر جاؤں گا۔ دادی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اتنا مجھے اپنے باپ کا دکھ نہیں ہوا تھا جتنا دادی کے جانے کا ہوا تھا۔
چند دن میں ہی گھر کا ماحول بدل گیا ،دادی کی جگہ نگینہ نے لے لی ۔ایک دن میرے کانوں میں آواز پڑی ، نگینہ اب بھگا اس کو اماں کی وجہ سے بہت دن رہ لیا اسنے ۔ خبردار سرورے اگر آئیندہ ایس بات کی تو تیری جان نکال لوں گی ۔ نگینہ ایسے بولی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اب نگینہ کی خیر نہیں ہے مگر سانڈ جیسا سرور خان چپ چاپ باہر نکل گیا۔ اب نگینہ میرا خیال رکھنے لگی ۔مجھے چومنا چاٹنا ،خود سے لپٹانا ۔ مجھے اچھا کھانا پینا دینا۔ کیا ہوا گیا ہے تجھے نگینے تو اس کا اتنا خیال کیوں رکھتی ہے ۔سرور یہ سب دیکھتا ہوا چپ نہ رہ سکا۔ رکھوں گی تجھے کیا ہے لڑائی بڑھنے لگی۔ تو نگینہ نے سرور خان کے ایک تھپڑ دے مارا ۔ میں نے کانپنا شروع کر دیا ۔ مگر سرور سانڈ سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ گیا ۔ میں حیران رہ گیا یہ کیا ہے بھئی ۔ دلآویز سےنگینہ بھی نہیں کھلینے دیتی تھی ۔ اور نہ کسی ہمسائی کو مجھے پیار کرنے دیتی تھی ۔ میں اکثر دادی کی چارپائی پر لیٹا رہتا ، تم کیوں گم سم رہتے ہو شہزادے ۔ نگینہ نے میرے ساتھ لیٹتے ہوئے مجھے خود سے لپٹا لیا ۔ کبھی کبھار میں ایسے دادی سے لپٹ جاتا تھا ۔ ایسے ہی نگینہ میرے دل بہلا رہی تھی ۔ روز بروز اس کا لپٹنا چپٹنا زیادہ ہوتا جا رہا تھا وہ بھی تب جب سرور خاں کام پراور دلآویز سکول گئی ہوتی تھی ۔ نگینہ کے خیال رکھنے میں بہلنے لگا ۔ان دنوں کبھی کبھار باہر نکلتا تھا ایک دن کریانے کی دوکان سے کچھ سودا لینے جا رہا تھا کہ کانوں میں آواز پڑی ۔ ادھر آ شہزادے دوکان پر جا رہا ہے نہ ،مجھے بھی کچھ منگوانا ہے ،نکڑا والی باجی نے مجھے بلایا۔ جی باجی کیا منگوانا ہے میں اس کے پیچھے اندر چلاگیا ۔ باجی نے مجھے خود سے لپٹا لیا ۔ اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھیں اس کے دوپٹے کا کچھ پتا نہیں تھا۔ میرا منہ اس کے سینے میں چھپا ہوا تھا ۔ اس کے ہاتھ میرے پتہ نہیں کہاں کہاں گھوم رہے تھے ۔ کیا کر رہی ہیں باجی ۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو،میں اس کی غیر ہوتی حالت سے گھبرانے لگا ۔ کب سمجھے گا تو شہزادے تیری عُمر کے لڑکے تو جانے کیا کچھ کرتے پھرتے ہیں ۔ باجی نے مجھے بے تحاشا چومتے ہوئے کہا ۔آج تجھے سب سکھا دوں گی ۔ مجھے جانے دو باجی ۔ میں بہت زیادہ گھبرا گیا،مجھے کیا پتا تھا باجی گھر میں اکیلی ہے ، جانے دوں گی پر پہلے زندگی کا مزہ تو لینے دے ۔ باجی نے میرے ہاتھ اپنے سینے پر رکھ دیے، دیکھ میرا دل کیسے دھڑک رہا تیرے لیے ، میں باجی سے خود کو چھڑا کے بھاگا ۔ خود تو مر گئی پر تجھے بگاڑ گئی وہ چنڈال۔ پیچھے سے باجی چلائی ۔ دادی کا سوا مہینہ ہو گیا تھا۔ اوردو دن بعد چالیسواں رکھ دیا گیا ۔ دادی کی یاد سے کچھ دل بہلا تھا ۔ اب پھر غم کی لپیٹ میں آگیا، کسی طرح دن گزر گیا ،ذہنی حالت پہلے ہی ابتر تھی اوپر سے سارا دن بھاگ بھاگ کے کام کرنے سے تھکن کے ساتھ بخار ہوگیا۔ اتنےسارے مہمان تھے سب جا رہے تھے دلآویز اپنی نانی اور نانا کے ساتھ جانے کی ضد کرنے لگی ساتھ میں اس کی خالہ بھی تھی اس طرح وہ چار ہوگئے اور ایک موٹرسائکل پر نہیں جاسکتے تھے مجبوری میں سرور سانڈ اپنی موٹرسائیکل نکال کے انہیں چھوڑنے چلا گیا ۔ میں دادی کے کمرے میں جا کے لیٹ گیا۔ نگینہ میرے کمرے میں آگئی کیا ہو گیا ہے میرے شہزادے کو ۔ کچھ نہیں بس تھکن اور بخار ہے ، تم آرام کرو یہ لو پیناڈول کی گولی،مجھے اٹھا کے نگینہ نےمیرا کندھا اپنے سینے پر ٹکایا اور گولی کھلا دی ۔ اپنی گود میں میرا سر رکھ کے دبانے لگی ۔ میرے جسم پر اس نے رضائی ڈال دی ، بخار کی وجہ سے نگینہ آج میرا کچھ زیادہ ہی خیال رکھ رہی تھی ۔ اور میرے اوپر نچھاور ہو رہی تھی ۔ تُو تو شہزادہ ہے میرا، وہ بڑے لاڈ سے میرا سر دبا رہی تھی تھکن کی وجہ سے اس سے بیٹھا نہیں جا رہا تھا میرے اوپر جھکی جا رہی تھی پتہ نہیں کب اس کی گود اور سینے کے گداز میں مجھے نیند آگئی۔ جانے رات کو کس پہر میری آنکھ کھل گئی حلق پیاس سے سوکھ رہا تھا ۔ بخار ابھی بھی تھا ، میں اٹھا اور کچن میں پانی پینے چلا گیا ۔ نگینہ کے کمرے مجھے عجیب سی آوازیں آئی جو میں نے کبھی پہلے نہیں سنی تھی ، میں سمجھا شاید سرور خان واپس آگیا ہےاور نگینہ اس سے لڑ رہی ہے ۔ پرانے دروازے کی درز سے جھانکا تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی ،نگینہ زمین پراونی گدا بچھائے ننگی لیٹی تھی اور ایک لڑکا نگینہ کے اوپر جھکا ہو ا اسے چود رہا تھا ۔ ان کی آوازوں سے میری دماغ کی نسیں پھٹنے لگی ۔ میرے اندر دادی اٹھ کے بیٹھ گئی تھی ۔ میرے دبلے پتلے جسم میں آتش فشاں پھٹ پڑا ۔ میں نے پیچھے ہو کہ پورے زور سے دروازے کو لات ماری ، دھماکے سے دروازہ کھل گیا اس کی کنڈی ٹوٹ گئی۔ اس سے پہلے وہ دونوں کچھ سمجھتے میں تیزی سے لڑکے پر جھپٹا اور اسے کی پسلیوں میں زور سے ٹھڈا مارا لڑکا اڑتا ہوا چارپائی سے ٹکرایا ۔ وہ بھی پٹھان لڑکا تھا مجھ سے پانچ چھ سال تو بڑا ہو گا لیکن جسامت مردوں کی طرح تھی آج اسے مہمانوں میں دیکھا تھا ۔ میں اس پر پھر چھپٹا اور اس کو لاتوں ٹھڈوں سے مارنے لگا ۔ مار دوںگا تجھے کتے۔ مار دوں گا۔ لڑکا میری وحشت سے ڈر گیا تھا۔ اس نے لیٹے لیٹے ایک پلٹنی کھائی اوراپنی شلوار اٹھا کے بھاگا۔ مگر میں نے اسے جانے نہیں دینا تھا ۔میں اس کی طرف لپکا ،،،،اوغ۔۔۔ میں نیچے گرا، نگینہ نے مجھے بھاگتے ہوئے میرے پاؤں سے پکڑ لیا تھا۔ میں نے لیٹے لیٹے اسے ایک ٹھڈا مارا۔اور اٹھ کے پھر بھاگا ۔ اتنی دیر میں لڑکا صحن پار کرکے دروازے کے پاس تھا میں تیزی سے اس کی طرف لپکا ، او لعنت تیری اوقات پہ مادر چود ، کتی کہ بچے نے دروازے کو باہر سے کنڈی لگا دی تھی۔ ایک پل میں نے بےبسی سے اونچی دیواریں اورلوہے کا دروازہ دیکھا دوسرے پل واپس پلٹا اور جنونی انداز میں کمرے میں داخل ہوا ۔ نگینہ ابھی تک میرے ٹھڈے سے نہیں سنبھلی تھی ۔ میں نے اسے دو تین ٹھڈے اور مارے پھر اس کے سینے پر بیٹھ کے اسے مارنے لگا بتا کون تھا وہ کنجر،بتا دے نہیں تو گلا گھونٹ دوں گا تیرا ۔ میں اس کا گلا دبانے لگا ۔ نگینہ چالیس کی تھی صحت مند تھی ۔ مگر اس وقت میری جنونیت اسے ہلنے نہیں دے رہی تھی ،آخراس نے اپنا نچلا دھڑ اٹھا کے دونوں گھٹنے جوڑ کے پوری طاقت سے پیچھے سے میری کمرمیں دے مارے میری گرفت کچھ ڈھیلی پڑی تو اس نے اوپر تلے دوتین گھٹنے جڑ دیئے ۔ میں اس کے اوپر ہی گر پڑا ۔ نگینہ نے میری گردن کو دونوں بازوؤں سے کس لیا ، اور مجھے نیچے کر کے اپنا وزن میرے اوپر ڈال دیا اور اپنی ٹانگوں سے مجھے قینچی ڈال لی ۔ میں نے دو تین دفعہ نکلنے کی کوشش کی لیکن بےبسی سے پھڑپھڑا کے رہ گیا۔ ہوش میں آ شہزاے ہوش میں آ ۔ نگینہ جیسے مجھے سوتے سے جگا رہی تھی ۔ میں اس کی پسلیوں میں مکے مارنے لگا ،تو اس نے اسی حالت میں میں اپنے دونوں بازو میری گردن سے نکال کے میرا گلا دبانے لگی ۔ کچھ سیکنڈ میں میری سانسیں رکنے لگی ۔اگلے پل میری آنکھیں باہر آنے لگی ۔ چند سیکنڈ اور ایسے گزر جاتے تو میں گیا تھا ، لیکن اچانک نگینہ نے میرا گلا چھوڑ دیا ۔ میری آنکھوں میں پانی آگیا اور کھانسی کرنے لگ گیا ۔ پھر لمبے لمبے سانس لینے لگا کچھ دیر بعد میری حالت سنبھلنے لگی لیکن نگینہ نے مجھے چھوڑا نہیں ۔ میری جنونیت اب ختم ہو چکی تھی اور یکدم کمزوری نے حملہ کر دیا تھا ۔ بخار سے جسم تپ رہا تھا ۔ جوش ختم ہوا تو پہلا احساس یہی ہوا کہ نگینہ ابھی تک ننگی ہے ۔ جاؤ اپنے کپڑے پہن لو۔ میں گھبرا کے بولا ۔ کپڑے پہن لیے تو پھر کیا ہو گا ،نگینہ نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ کیا مطلب ؟ میں حیران ہوا ۔ تُو آزاد ہو جائے گا اورمجھے مار دے گا ۔ نگینہ ڈری ہوئی تھی ۔ نہیں مارتا تمھیں مہربانی کرو کپڑے پہن لو ۔ تُو نہیں مارے گا تو سرورے کو بتا دے گا ۔ سرور کچھ نہیں کرے گا وہ تیرا حکم کا غلام ہے ۔ جتنا بھی حکم کا غلام ہو لیکن اس معاملے میں مجھے چھوڑے گا نہیں ۔ نگینہ ہر طرف سے محتاط تھی۔ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا اگر تم کپڑے پہن لو۔ میں تم پر اعتبار نہیں کر سکتی شہزادے ۔ تیرے اندر کوئی اور بولتا ہے ۔ یہ کیا کر رہی ہو میں اچانک گھبرا گیا۔ نگینہ اپنی چوت میرے عضو پر رگڑنے لگی۔ یہی ایک رستہ بچا ہے ہم دونوں کیلیے ، نگینہ کی فیصلہ کن لہجے میں بولی۔ مت کرو ، یہ نہ کرو یہ غلط ہے ، ایکدم میرا سوچیں جواب دے گئی ۔ تم میری ماں ہو، میں تمہاری ماں نہیں ہوں نہ میں نے تمھیں پیدا کیا ہے اور نہ ہی تم نے میرا دودھ پیا ہے ۔ نگینہ نے ایک ایک لفظ چبا چبا کے ادا کیا ۔ نگینہ اپنا کام کرتی رہی ۔ کمبخت کس مٹی سے بنا ہے تو تیرا کھڑا کیوں نہیں ہوتا ۔ کیا کھڑا نہیں ہوتا ۔ میں بے اختیار پوچھ بیٹھا ۔ تیرا لوڑا ۔اتنا بھولا نہ بنا کر، ایک مہینہ ہو گیا ہے تیرے آگے پیچھے گھومتے ہوئے ، سب سمجھتی ہوں تو کتنا گُھنا ہے ۔ جب بھی تجھے رِجھاتی تھی تو میسنا بن جاتا تھا ، اتنی بچی نہیں ہوں میں جتنا تُو نے سمجھ لیا ہے مجھے ، مجھے پتہ ہے اس چڑیل نے تیرے ذہن کو جوان کر دیا ہے ،وہ تیرے دل میں گھسی بیٹھی ہے ۔ مجھے بخار ہے میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے ،ایک بار مجھے ٹھیک ہونے دے پھر جو کہے گی میں کروں گا ،میں نے اس سے جان چھڑائی ، نہ شہزادے نہ اتنی چالاکیاں اچھی نہیں ہوتی ، نگینہ میرے داؤ میں نہیں آئی ۔ سرور خان کسی بھی وقت آسکتا ہے میں نے اسے ڈرایا ، نگینہ ہنسنے لگی وہ حکم کا غلام ہے میں نے اسے کہا تھا اُدھر ہی رہنا اور صبح دلآویز کو ساتھ لے کہ آنا ، اچھا کیوں نہ تمھارے اوپر الزام لگا دوں کہ تم نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے ۔ نگینہ نے مجھے رگڑا دیا۔ ٹھیک ہے ایسا ہی کر لے میری جان چھوڑ دے ۔ میں مُصمَم ارادے سے بولا ۔ مجھے پتہ تھا تم اس کیلیے بھی راضی ہوجاؤ گے، پر پتہ ہے اصل مسلہء کیا ہے ۔ پھر تو میرے ہاتھ نہیں آئے گا،میں تم سے مایوس ہوگئی تھی ،اب تو ہاتھ آیا ہے تو یہ موقع جانے نہیں دوں گی ۔ نگینہ میری بے بسی کا لطف لیتے ہوئے کمینگی سے بولی ۔ اچھااااااااااااااااااا ۔ تو کر لو پھر اسے کھڑا ۔ میں نے اسے چیلنچ دیا ۔ یہ ہوئی نہ بات مجھے پتہ تھا تُو سب سمجھتا ہے ۔ دیکھ شہزادے مان لے ساری زندگی عیش کراؤں گی ۔ نگینہ نے تھوڑا سا اٹھ کے میری قمیض اتارتے ہوئے کہا ۔ میں نے مزاہمت کی مگر کچھ نہ کر سکا ، تھوڑی دیر میں جسم کی جتنی توانائی خرچ کی تھی اب اتنی ہی نقاہت اور بخار زیادہ ہو رہا تھا۔ نگینہ تھوڑا پیچھے ہوئی اور اپنے بھاری جسم کیساتھ میری پنڈلیوں پر بیٹھ گئی پنڈلیاں درد کرنے لگی اس دوران نگینہ نےمیرا ناڑا کھول کے پھرتی سے میری شلوار اتنی نیچے کر دی کہ میرا عضو نظر آنے لگا ۔ میں تیزی سے اٹھا مگر اس نے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کہ انکار میں اپنا سر ہلایا دیا ، اس کی آنکھوں میں جنونیت تھی، نہ کرو میں نے اس کی مِنت کی تم میری ماں ہو ،
میں تمہاری ماں نہیں ہوں نہ میں نے تمھیں پیدا کیا ہے اور نہ ہی تم نے میرا دودھ پیا ہے ۔ نگینہ نے ایک ایک لفظ چبا چبا کرپھر وہی فقرہ بولا ، میرے دل میں کچھ ٹوٹ سا گیا ۔
نگینہ نے جُھک کہ میرا عضو منہ میں لے لیا ، اور چوسنے لگی ،کچھ ہی دیر میں میرے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی ۔ نگینہ مزے سے عضو کو چوستی رہی ۔ میرے نہ چاہتے ہوئے بھی آخر کار وہ ٹن کر کے کھڑا ہو گیا ۔یہ تو میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ عضو کو ایسے کھڑا کر دے گی ، نگینہ پھر بھی نہ رکی ، آہستہ آہستہ پنڈلیوں کا درد ، بخار ، نقاہت سب پس منظر میں چلا گیا۔ مجھے نگینہ کی کمر اور کچھ مُمے نظر آنے لگے ، اس کا صحت مند جسم نظر آنے لگا ، اس کی سرخ سپید رنگت نظر آنے لگی اس کی خوبصورتی محسوس ہونے لگی ، اس کے لمبے بالوں میں انگلیاں پھیرنے کیلیے ہاتھ ہلایا ،تو نگینہ نے ہاتھ نہ چھوڑا ،چہرہ اٹھا کے مجھے دیکھنے لگی ۔ میرے چہرے پر بدلتے رنگ دیکھ کے نگینہ نے مجھے سینے پر دباؤ ڈال کے نیچے بچھے اونی گدے پر لٹا دیا اور خود میرے عضو پر آگئی اپنے ایک ہاتھ سے میرے دونوں ہاتھ پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے عضو پکڑ کے اپنی چوت میں ڈال لیا ، پھرمیرے سینے پراپنے ہاتھوں سےمیرے ہاتھ تھوڑا دبا کے رکھ دیے ۔ اور کچھ آگے پیچھے کچھ اوپر نیچے ہونے لگی ۔ اووووو تو واقعی شہزادہ ہے مست ہے تو مست ، نگینہ سرور کی لہروں میں ڈوبتے ہوئے بولی ۔ کیا چیز ہے تو صحیح تڑپتی ہیں تیرے لیے عورتیں ۔ پتہ نہیں کیا جادو ہے تجھ میں ۔ نگینہ آپے سے باہر ہو رہی تھی ۔ جو کرنا تھا نگینہ ہی نے کرنا تھا اور وہ کرتی رہی ۔ کبھی تیز کبھی آہستہ ۔کبھی بیٹھ کے کبھی میرے اوپر لیٹ کے ، نگینہ کو سارے ڈھنگ آتے تھے اس کے جسم میں بہت سے رنگ تھے ۔۔ اس کے جسم کو دیکھ کے لگتا تھا جوانی بہت خاص ہوگی،اب بھی وہ کم نہیں تھی ۔ اس کی خوبصورتی میں اس کےاسمارٹ جسم کا کافی حصہ تھا ۔ مجھے اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی ۔ ٹانگوں کی کیفیت بھی یہی تھی پھر یہ کیفیت عضو سے نکلنے لگی۔ ارے ٹھر تو جا ،میں بھی آنے والی تھی ۔ میں خاموش لیٹا رہا ۔ چلو کو ئی بات نہیں تمھاری چوپا بھی تو زیادہ لگ گیا تھا ۔ اب پھر مزا لیتے ہیں ، نگینہ نے کپڑے سے میرا عضو صاف کیا اور جھک کہ پھر چوپا لگانے لگی ۔ تھوڑی دیر بعد اس نے میرے ہاتھ چھوڑ دیے ۔ میرے جسم میں سرسرایت سی پھر ہونے لگی ، میرا جسم اک نئی تپش سے جلنے لگا ، عضو پھر کھڑا ہو گیا ۔ نگینہ جلدی سے پھر اپنے اندر لے کے اوپر نیچے ہونے لگی۔ ویسے بھی میرا اٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ، دیکھا شہزادے اس میں کتنا مزہ ہے ۔ نگینہ پھر بے قابو ہونے لگی۔ شہزادے سچی بات تو یہ ہے کہ اتنا مزہ کبھی پوری زندگی میں نہیں آیا ،ہانپتی آواز میں اسے بولنے میں بھی مزہ آرہا تھا ۔ جس کو بھی چودے گا وہ تیری دیوانی بن جائے گی ، پر نہیں تو صرف میرا ہے صرف میرا شہزادہ ۔ نگینہ رک گئی، شہزادددددددے - اس کا جیسم معمولی سے جھٹکے لینے لگا - نگینہ کچھ دیر میری طرف دیکھتی رہی پھر میرے ساتھ لیٹ گئی۔مجھے کچھ بے چینی ہونے لگی ، جیسے پیاس لگی ہو اور پانی پیتے پیتے درمیان سے کوئی گلاس چھین لے ،نگینہ غور سے میری طرف دیکھ رہی تھی ، ابھی تمھارا پانی نہیں نکلا تمھیں بے چینی ہو رہی ہو گی ، میں تو تھک گئی ہوں ،ایسا کر میرے ممے چوس تو میں تیار ہوجاؤں گی اور پھر میں تمھارا پانی نکال دوں گی ،نگینہ میرے ہاتھ اپنے ممے پر رکھ دیا۔ مجھے وہ اچھے لگے ،میں انہیں آہستہ آہستہ دبانے لگا، ایسے نہیں ، انہیں اس طرح سہلاؤ ،نگینہ نے جیسے بتایا میں ویسے کرنے لگا ، تھوڑا چُما بھی لے لے نہ ان کا ،نگینہ نے فرمائش کی،مجھے ممے اچھے لگ رہے تھے میں انہیں چومنے لگا ،ایسے نہیں شہزادے میرے اوپر لیٹ کے چوس ان کو۔ نگینہ نے مجھے بازو سے پکڑ کے اپنے اوپر کھنچا تو میں بے اختیار اس کے اوپر لیٹ گیا، ایک نپل منہ میں لیا تو اچھا لگا میں اسے پکڑا کے چوسنے لگا ،نگینہ نے میرا دوسرا ہاتھ اپنے دوسرے ممے پر رکھ دیا ،اسے بھی دباتا رہ ،اپنی ہاتھ اور انگلیاں سے ،ایسے، ہاں ایسے ، واہ شہزادے تم تو کمال ہو، بہت مزا آرہا ہے ۔ تمھیں اب بھی بے چینی تو ہو گی بلکہ بڑھ گئی ہو گی ،ایسے کر ساتھ ساتھ اپنا لوڑا میری چوت کے اوپر رگڑ، ساتھ ہی میری کمر کو دونوں طرف سے پکڑ کے مجھے اپنی چوت پر کِھسنے لگی، مجھے اس سے سکون بھی آیا اور تیز کرنے کو بھی دل کرنے لگا ، چوت کے اوپر رگڑ ، نگینہ نے بیچ میں ہاتھ گھسا کے عضو صحیح رکھا ۔ اچھا لگ رہا ہے نہ شہزادے ، اندر ڈال کے کرے گا تواصلی مزا آئے گا تمھیں ، چوت نرم ہوتی ہے نہ اس لیئے ۔لا میں ڈال دیتی ہوں ، لے موری کے اوپر رکھ دیا ہےاب تُو تھوڑا تھکا لگا ، میں نے آہست آہستہ اندر کیا تو چوت نے میرے عضو کو گرفت میں لے لیا، آگے پیچھےہو جیسے میں کرتی رہی ہوں ،ہاں یوں ،، شاباش شہزادے اب تم چودائی کرنا سیکھ گئے ہو، چودو مجھے ، تیز کر نہ ، کیا لڑکیوں کی طرح لگا ہوا ہے ، ہاں ایسے ، آہ ۔ اور ،تیز ،اور تیز ، نگینہ کی آوازیں مجھے ایسے ہی بھگانے لگی جیسے چابُک گھوڑے کو بھگاتا ہے ، میں بھی تیز تیز کرتا رہا ،کرتا رہا اور پھر پہلے کی طرح جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی ،مجھے رکنا پڑا میں نے نگیہ کو جپھا ڈال لیا، نگینہ نے میری کمر کودونوں ہاتھوں سے پکڑ کے اپنے اوپر کھسنے لگی اس طرح میں آگے پیچھے ہونے لگا ، عضو اندر ہی تھا اورکچھ جان باقی تھی ، نگیینہ کرتی رہی ۔ عضو میں جان ختم ہوگئی پھر بھی کرتی رہی اور پھر اس نے بھی مجھے جپھا ڈال لیا اور اپنی ٹانگوں سے مجھے کس لیا ، شہزادے مجھے تو لگتا ہے جیسے میں مر ہی جاؤں گی آج ، نگینہ نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔ کچھ دیر ہم ایسے ہی لیٹے رہے ،پھر ایکدوسرے کیطرف منہ کر کے لیٹ گئے، تھوڑی دیر ٹہر جا ، پھر کھیلیں گے،نگینہ کا جی نہیں بھرا تھا،نگینہ میرے جسم پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ میں بہت تھک گیا ہوں ،میری ٹانگوں میں بہت درد ہو رہا ہے ۔ کمزوری تو بہت ہی ہے،نگینہ اٹھی اور نیم گرم دودھ لے آئی،لے پی لے نگینہ نے مجھے اٹھا کے گلاس میرے منہ سے لگا دیا، اونہہ یہ تو گرم ہے مجھے ٹھنڈا چاہیے ، ایسی حالت میں ٹھنڈا نہیں پیتے شہزادے ، اسے پی لے تمھاری حالت بہتر ہو جائے گی ، دودھ پینے کے بعد میں پھر لیٹنے لگا،لیکن نگینہ نے مجھے اٹھا کے چارپائی پر بٹھایا اور اونی گدا ساتھ نیچے سےچٹائی لپیٹ کے رکھ دی ، سرورے کو پتہ ہے ہم یہ کیوں بچھاتے ہیں ، نگینہ بڑبڑائی ، دلآویز انہی کے کمرے میں سوتی تھی ،شاید اسی لیے نیچے یہ طریقہ بنایا ہوا تھا ، پھر نگینہ مجھے اپنے ساتھ لگا کے دادی کے کمرے میں لے آئی، بہت درد ہے میری ٹانگوں میں نگینے ،نگینہ مجھے لٹا کے میری ٹانگوں کو دبانے لگی کافی دیر دباتی رہی ، پتہ نہیں کب میں سو گیا، اگلے دن دوپہر کواٹھا ،تو نگینہ نے میرے لیے کچھڑی بنائی ہوئی تھی،اسی سے ناشتہ کیا،نگینہ نے مجھے بخار کی دوائی دی ۔شاید وہ صبح ہی لے کہ آئی تھی ، طبعیت اب بہتر تھی،سرور سانڈ فیکٹری گیا ہوا تھا ۔اور دلآویز گھر میں ہی تھی ،وہ سکول نہیں گئی تھی کیونکہ وہ نانی کے گھر سے کچھ دیر سے آئے تھے ، مجھے پھر نیند آگئی ،شام کو اٹھا تو طبیعت کافی بہتر تھی، نگینہ نے میرے لیے یخنی بنائی ہوئی تھی ،میں وہ دوپہر کی کچھڑی پہ ڈال کہ کھا گیا، مجھے بھوک لگی ہے روٹی لا کہ دو، روٹی ابھی نہ کھاؤ شہزادے بخار کی وجہ سے معدہ کمزور ہے روٹی ہضم نہیں ہو گی ، اُلٹی آجائے گی، تھوڑا سا بخار ہے ابھی ،نگینہ نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔ صبح تمھیں تگڑا ناشتہ کرواؤں گی ،نگینہ نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا، میرا سر تو دبا دو نگینے، کسی کے سامنے مجھے نگینے نہ کہنا ، میرے شہزادے ، نگینہ میرا سر دبانے لگی ، کچھ دیر بعد مجھے دوائی دے کے چلی گئی ،رات کو پھر آئی میری سر اور ٹانگیں دباتی رہی ۔ تو نے تو اسے سگا بیٹا ہی بنا لیا نگینے ،سرور خان یہ سب دیکھ کہ چپ نہ رہ سکا ،نگینہ نے اس کی طرف ایک گُھوری ڈالی تو وہ کھسک گیا، میں پھر سو گیا،صبح اٹھا تو ہشاش بشاش تھا، سرور خان کام پر گیا تھا اور دلآویز سکول گئی تھی وہ ساتویں میں تھی اور میرا میٹرک کا رزلٹ آنے میں ابھی مہینہ تو پڑا تھا ، اٹھ گیا میرا شہزادہ صبح سے کئی بار تمھیں دیکھ چکی ہوں ، نگینہ کا چہرہ سو واٹ کے بلب کیطرح ہو رہا تھا ، میں باتھ ر وم سے ہو کے آیا تو نگینہ میرے لیے ناشتہ لے کہ بیٹھی تھی۔ یخنی میں روٹی ڈال کے اس نے چُوری سی بنا لی تھی،میں یہ نہیں کھاؤں گا ، بس ابھی یہ کھا لے ،دوپہر کو بھنا ہوا گوشت پکا کے دوں گی اپنے شہزادے کو ، نگینہ نے بڑے لاڈ سے کہا ،ناشتہ کروا کے وہ برتن لے جانے لگی، تم ناشتہ ہضم کر لو، اتنی دیر میں میں کچھ کام کر لوں ،نگینہ نے جاتے ہوئے معنی خیز لہجے میں کہا، ایسی باتوں کی اسے بڑی سمجھ تھی، بعد میں بھی نگینہ میری غذا کا خاص خیال رکھتی تھی ۔ ایک گھنٹے بعد نگینہ میرے پاس آکہ بیٹھ گئی میری ٹانگیں دبانے لگی، ٹانگیں تو ایک بہانہ تھا پھر وہی کھیل شروع ہو گیا ،ایک بار ، دو بار ، دل تو میرا اور کر رہا ہے پر ابھی تم آرام کرو نگینہ نے کپڑے پہنتے ہوئے کہا ، جا شہزادے لڑکوں کے ساتھ کھیلا کر شام کو نگینہ نے مجھے نئے کام پر لگا دیا ،دادی ہوتی تھی تو میں انہی کے پاس رہتا تھا، میرے ہم جولیوں کی باتیں مجھے بچکانہ لگتی تھی ، بہرحال کھیلنا اچھا لگتا تھا، ہفتہ گزر گیا ، اب میری نظر بھٹکنے لگی تھی ، لڑکیوں کو غور سے دیکھنے لگا تھا،آس پاس کے گھروں میں جانے لگا تھا، باہر کی لڑکیاں گھورنے لگا تھا تو گھر کی لڑکی کو کیسے نظر انداز کر سکتا تھا ، دلآویز کو دیکھنے والی نظر ہی بدل گئی ،اس کی نیلی آنکھی مجھے بہت اچھی لگتی تھی، میں بہانے بہانے سے اس کے پاس بیٹھنے لگا ،آؤ نگینہ تمھیں سکول کا کام کروا دوں ، کبھی کبھار اسے چھو بھی لیتا تھا ، دوسرا ہفتہ گزر گیا،میرا دھیان دلآویز کی طرف زیادہ ہوگیا ، میں دیکھ رہا تھا نگینہ مجھے روکنا بھی نہیں چاہتی تھی، اوراسے یہ سب اچھا بھی نہیں لگ رہا تھا ،اسی طرح تیسرا ہفتہ گزر گیا ، چودائی سے فارغ ہوئے تو نگینہ میرے ساتھ لیٹ گئی،دو ہفتے ہو گئے تم چوپا نہیں لگایا مجھے مزہ نہیں آ رہا میں روٹھا ہوا بولا ، مجھے یہ اچھا نہیں لگتا شہزادے ، کیا ؟ پہلے اسے چوستی رہی ہو اور اب اچھا نہیں لگتا، اور پتا نہیں سرور کا کب سے چوس رہی ہو، نہیں شہزادے سرور کا تو کبھی نہیں چوسا، زندگی میں تمھارا پہلی بار چوسا ہے وہ بھی تم نے چیلینچ دیا اس لیے مجھے ایسا کرنا پڑا ،تو پھر تم اُس کاچوپا لگاتی ہو گی،میرا اشارہ اُس لڑکے کی طرف تھا جو اس رات نگینہ کی چودائی کر رہا تھا ، میں نے تمھیں پہلے بھی روکا تھا شہزادے کہ آئیندہ اُس کی بات نہ کرنا ، نگینہ غصے سے بولی، میں تو کروں گا،میں ناراض ہوگیا، اچھا تمھارا چوپا لگاتی ہوں مجھ سے ناراض نہ ہوا کر ،نگینہ نے جیسے ہی عضو منہ میں لیا میں وہ موضوع پھر بھول گیا، ان دنوں نگینہ نے مجھے بہت سر چڑھا رکھا تھا دیکھنے والے یہی سمجھتے تھے کہ دادی کے بعد نگینہ نے ماں بن کرمیری ذمہ داری لے لی ہے بلکہ دادی سے بھی بڑھ کے میرا خیال رکھتی ہے ۔ اسلیے مجھے یقین ہو گیا کہ میں دلآویز کو ضرور چود پاؤں گااس خیال سے ہی مجھے سرور آنے لگتا تھا ،نگینہ ہماری کھیلنے کودنے پر خاموش تھی،اور میں اس خامومشی کافائدہ اٹھاتے ہوئے دلآویز کے اور قریب ہو گیا ،چوتھا ہفتہ بھی گزر گیا نگینہ سارا دن پروانے کی طرح میرے ارد گرد رہتی تھی ،ادھر میں اور دلآویز دوست بن گئے تھے ، دلآویز مجھ سے کیسے دور رہ سکتی تھی ، اسے نہیں پتہ تھا وہ میرے پاس کیوں چلی آتی ہے ایک دن کھیلتے ہوئے میں نے دلاویز کو گال پر چوم لیا ،وہ شرما کے سمٹ گئی ۔مگر کچھ کہا نہیں ، دلآویزہ۔ او۔ دلآویزا ۔ ادھرآ، کیا ہر وقت کھیلتی رہتی ہے ،میرے ساتھ کام کروایا کر گھر کے، اب تم بڑی ہوگئی ہو ،یکدم نگینہ کی غصیلی آواز آئی، آخر نگینہ بول ہی پڑی ۔ اگلے دن نگینہ میرے پاس آئی تو میں اس سے ناراض تھا، میرے ساتھ لیٹ کہ میرے عضو کو پکڑ کے مسلنے لگی ۔ میری چمیاں لینے لگی ، پر میں ٹس سے مس نہ ہوا،کیا بات ہے شہزادہ حضور، نصیبِ دشمناں مزاج کیوں برہم ہیں جناب کے،نگینہ نے ایک فلمی ڈائیلاگ بولا ، چھوڑ نگینے تم مجھ سے پیار ہی نہیں کرتی ہو۔ ایسے نہ کہو شہزادے ،جتنا تمھاراخیال رکھتی ہوں نہ، اتنا تو سرورے سوچ بھی نہیں سکتا ۔ نگینہ تو تمھاری دیوانی ہے شہزادے ، اگر ایسی بات ہے تو دلآویز کو میرے ساتھ کھیلنے کیوں نہیں دیتی، ارے وہ بچی ہے اسے گھر کے کام کاج پہ ابھی نہ لگایا تو کل کوگھر کیسے سنبھالے گی، نگینے تم بھی جانتی ہو اور میں بھی جانتا ہوں کہ ہم کیا چھپارہے ہیں اورکیا بتا رہے ہیں ،بات سیدھی کروں گا ،مجھے دلآویز چاہیے ، مجھے یقین تھا کہ وہ میری بات نہیں ٹالے گی ، سارا دن تونگینہ میرے آگے بچھی رہتی تھی ۔ وہ ابھی بچی ہے شہزادے کچھ سال ٹھر جا ،میں بھی تو بچہ ہوں (میں کہنا چاہتا تھا کہ میں بھی بچہ تھا جب تم نے مجھ سے زبردستی کی تھی) ، ضد نہ کر شہزادے ، تم صرف میرے ہو ،میں تمھیں کسی سے نہیں بانٹ سکتی چاہے وہ میری بیٹی ہی کیوں نہ ہو، مجھے نہیں پتہ ، مجھے دلآویز چاہییےنگینے،شہزادے میں بے غیرت نہیں ہوں ،کہ جس لوڑے پہ ماں چڑھتی ہے اسی لوڑے پر بیٹی کو بھی چڑھا دوں ، اس کھیل میں غیرت کا کیا کام نگینے، ادھر ادھر کی باتیں نہ کر، مجھے بس دلآویز چاہیے، ہم میں ایک رسم ہے کہ سہاگ رات کو لڑکی کا خون نکلنا چاہیے خون سے چادر خراب ہونی چاہیے ، اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس لڑکی کی ساری زندگی پھر کتوں سے بدتر گزرتی ہے ،نگینہ نے ایک نئی بات شروع کر دی ، اس بات کا ہماری بات سے کیا تعلق ہے میں بےزاری سے بولا، ہم نے دلآویزکی منگنی اس کے بچپن میں کر دی تھی ، اب وہ کسی کی امانت ہے ۔ نگینہ نے اپنی بات مکمل کی ، کیا؟؟؟؟ تم نے نگینہ کی منگنی کب کی؟ مجھے تو اس بات کا نہیں پتا، میں حیران تھا ، یہ تمھارے آنے سے پہلے کی بات ہے ، بعد میں کبھی تمھارے ساتھ اس بات کا ذکر نہیں ہوا ہو گا نگینہ نے وضاحت کی ، اچھا نگینے اب یہ رسمیں کہاں ہوتی ہیں تم توپیدائشی لاہورن ہو ،تمھارے رشتے دار بھی لاہوری ، کہانیاں نہ ڈال ،میں چلایا ، ہمارے کچھ رشتے دار ادھر مستقل آباد ہوگئے ہیں ،لیکن کچھ ابھی بھی فاٹا میں رہتے ہیں یہاں بس کام کاج کرنے آتے ہیں ، دلآویز کی منگنی جن سے کی ہے وہ فاٹا میں رہتے ہیں، تم دلآویز کی شادی مجھ سے کر دینا میں نے آخری بات کر دی ، ضد نہ کر شہزادے ، ہاں یا نہ ؟ میں نے اس کی آنکھوںمیں میں دیکھتے ہوئے پوچھا مجھے یقین تھا وہ میری بات نہیں ٹال سکتی تھی ، نہ شہزادے اپنے پیاروں سے اتنا بڑا امتحان نہیں لیتے نگینہ نے مجھے گلے لگا لیا ، ہاں یا ناں ،میں نگینہ کو پیچھے ہٹا کے پھر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا،مجھے اب بھی یقین تھا کہ نگینہ مجھے انکار نہیں کرسکتی، نہیں شہزادے دلآویز تمھاری کسی طرح نہیں ہو سکتی نگینہ اٹل ارادے سے بولی ، چل پھر اب میرے پاس نہ آنا ،میں نے اسے تھکا دیا، نگینہ چارپائی سے نیچے گر پڑی، وہ اٹھی اور مجھے گھورنے لگی ،سرورے کو تھپڑ مارنے والی رانی آج میرے ہر سلوک خوشدلی سے سہہ رہی تھی، میں بھی ناراض پڑا رہا ، مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ نگینہ مجھے انکار کر آرہی ہے ، شہزادے ضد نہ کر ،نگینہ آپ بڑی ضدی ہے ، ضد تو تم کر رہی ہو نگینے، مجھے پانا ہے تو دلآویز مجھے دے دو، ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے نگینہ کی مرضی کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا تھا ۔ جبکہ نگینہ ہربات سمجھتی بھی ہو ، نگینہ غصے سے باہر نکل گئی، ہفتہ اسی کشمکش میں پھر گزر گیا ،اس دوران ہم نے صرف چوتھے دن چودائی کی باقی دن نگینہ کو ترساتا رہا ، لیکن نگینہ میرا خیال پہلے کی طرح رکھتی تھی ، میں اسے عضو کو چوسنا تو کیا ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا تھا ،چودائی سے دوری کی وجہ سے نگینہ کی بری حالت تھی اور مجھے منانے کی کوشش کرتی رہی ، اس کے رویے سے مجھے اب بھی یقین تھا کہ نگینہ کو میری بات ماننا پڑے گی ، لیکن اُس عُمر میں ابھی میں یہ نہیں سمجھا تھا کہ سیکس کی چاہت اور سچےپیار کی چاہت بظاہر ایک جیسی ہوتی ہے،ان کے ہجر وصال کی تڑپ پھڑک ایک جیسی ہوتی ہے ، ان میں فرق صرف نیت کا ہوتا ہے ، اور نیت کا یہ فرق کوئی دیکھ کہ بھی اپنی آنکھیں بند رکھتے ہیں اور کچھ کسی مشکل ترین وقت میں یہ فرق سمجھتے ہیں ،بس آنکھوں والے ان جذبات کا فرق سمجھتے ہیں۔ سرور اور دلآویز کے جانے کے بعد روزانہ کی طرح نگینہ میرے پاس آکہ بیٹھ گئی، نگینے کیا فیصلہ کیا ہے تم نے ،ضد چوڑ دے شہزادے وہ ابھی بچی ہے کچھ سال گزر جانے دے ،پھر اپنی مرضی پوری کر لینا ، نگینہ مجھے فریب دے رہی تھی ، میری ضد جاری رہی ،آج میں نے اسے منانے کیلیے بڑا دباؤ ڈالا ، اس کے جذبات کو بڑا ہی بلیک میل کیا تو نگینہ غصے میں آگئی ، تُو کیا سمجھتا ہے میں تیرے دل کی بات نہیں سمجھتی ، عقل مند ہونا اور بات ہے تجربہ اور چیز ہے ۔تُو نے عقل کی باتیں چار کیا سیکھ لی نگینہ کو ہی بیوقوف بنانے لگے ۔ تجھے ہر لڑکی،عورت اپنا شہزادہ بنانا چاہتی تھی میں تجھے اپنا شہزادہ بنانے میں کامیاب ہوگئی اور اب تو اس کے بدلے میں میری بیٹی کو شہزادی بنانا چاہتے ہو، اپنا بدلہ لینے چاہتے ہو ، نگینہ غصے میں وہ بول گئی جو وہ جان گئی تھی جو میرے دل میں تھا ،تُو نے اس بات کو ضد بنا لیا ہے شہزادے ، تم اپنی ہار سود سمیت لوٹانا چاہتے ہو، لیکن میری بھی ضد ہے یہ نہیں ہونے دوں گی ، ابھی تم بچے ہو اور بچے ہی رہو اماں دادی نہ بنو ، اس کے طنز میں بہت کچھ تھا ، کھیل کُھل گیا تھا ، میں سکون سے لیٹ گیا، کہنی ٹکا کہ اپنے ہاتھ پر سر رکھ کہ اس کی طرف چہرہ کیا اور بہت اعتماد سے بولا ، جس لڑکے سے تم نے اس رات چودائی کی تھی اس کا نام شہروز ہے ،مجھے اس کا نام دوسرے روز ہی یاد آگیا تھا ، میں سرور خان کو اس کا نام بتا دوں یا تم مجھے دلآویز دیتی ہو،ایسی باتیں صرف موقع پر ہی ہوتی ہیں اب سانپ نکل گیا ہے لیکر پیٹنے سے کچھ فائدہ نہیں ہو ، نگینہ بھی بڑے اعتماد میں تھی ۔اور تم اسے کیا بتاؤ گے کہ اتنے دن کیوں چپ رہے ہو ، تم کچھ ثابت نہیں کر سکو گے ،الٹا پھنس جاؤ گے ، بہتر یہی ہے کے اب یہاں رہنا ہے تو مجھے خوش رکھا کر نہیں تو نکل جا یہاں سے نگینہ چلائی ، دراصل نگینے تمھیں پتہ لگ گیا کہ میں نے تمھیں دیکھ لیا ہے تم اور شہروز مجھے دھمکاتے رہے ہو دوسری طرف تم میرا بہت خیال رکھتی رہی ہو مجھے ہر طرح کا لالچ دیتی رہی ہو،جب تم نے دیکھا کہ میرا ضمیر بار بار جاگ اٹھتا ہے تو اپنے آپ کو میرے سامنے کپڑے اتار کے پیش کر دیا تب میں نے تمھارے جسم کا حُلیہ دیکھا کچھ نشانیاں نظر آئی یہ مجھے اس وقت بھی نظر آئی تھی جب میں نے تم دونوں کو چُدتے ہوئے دیکھا اور اس طرح تمھارے جسم کا حلیہ ایک خاص تِل اورنپلزاور کافی کچھ بتاؤں گا ، تو پٹھان کی غیرت کیلیے اتنا بہت ہو گا مسجد میں جا کہ یا تمھارے بھائیوں اور شوہر کے سامنے قسم بھی اٹھانی پڑی تو بھی کوئی مسلہ نہیں ہے ، شہروز کو بھی وہ جانتا ہو گا تمھارا اس سے کوئی رابطے کا زریعہ بھی ہوگا جس سے تم نے اسے اُس رات کی اگلی صبح سب ٹھیک ہونے کی اطلاع دی ہوگی ، باقی ساری کہانی وہ تمھارے حلق میں ہاتھ ڈال کہ خود نکال لے گا ، بتاؤ کیا کہتی ہو ، شہزادے میں دلآویز کی ماں ہوں ،میں اسے یہ سب کرنے کو نہیں کہہ سکتی ۔ نگینہ کا لہجے اور الفاظ میں پھر مٹھاس آگئی ، تم اس کی فکر نہ کرو بس دلآویز کو میرے ساتھ اسی کمرے میں کھیلنے دیا کرو، باقی سب خود بخود ہو جائے گا میں نے اسے ایک آنکھ دبا کے کہا ،یہ بات بھی میں نے نگینے سے ہی سیکھی تھی ، نگینہ نیم رضامند نظر آنے لگی ، ہمارا تعلق بھی دلآویز کے سامنے آجائے گا ، میں اس کی نظروں سے گر جاؤں گی نگینہ نے ایک اور اعتراض کیا ،نہیں کُھلتا ہمارا راز ، نہ تم اسے بتانا نہ میں بتاؤں گا ، مجھے پتہ ہے تم اپنی دل کی بھڑاس نکالنے کیلیے ہم دونوں کو ایکدوسرے کے سامنے چودو گے ، وہ میری ہر چال سے واقف تھی ، میں ایسا نہیں کروں گا ،میں نے اسے فریب دیا ، ٹھیک ہے شہزادے تمھاری ضد کے آگے میں ہار گئی ہوں ، جیسا تم کہو گے ویسا ہی ہو گا ، نگینہ میرے ساتھ لیٹ گئی ،، کھیل شروع ہوگیا ،ایک بار ،دو بار ، تین بار ،نگینے میں تھک گیا ہوں ، چار بار ،نگینے میں ادھر ہی ہوں ،اب بس کر، ایکبار جی بھر کے میری خواہش پوری کر دے شہزادے ، پانچویں بار ۔۔ دروازہ کھٹکنے لگا ،شکر ہے میری جان چُھوٹی ، دلآویز سکول سے آگئی تھی ،نگینہ نے چھ دن کی کسر ایک دن میں نکال لی تھی ، تھکن اور کمزوری نے مجھ پر حملہ کردیا ،میں تھوڑی دیر میں بُھوکا ہی سو گیا، شام کو اٹھا تو طبیعت میں سُستی تھی ،نگینہ نے میرے لیے کھانا لے آئی ،ایسی حالت میں نگینہ مجھے یخنی پلاتی تھی،مگر آج کسی وجہ سے نہیں بنا سکی ، کھانا کھا میں پھر لیٹ گیا ، کچھ دیر مجھے نگینے دباتی رہی ،رات کو پھر دبا دوں گی شہزادے نگینہ نے مجھے ایک آنکھ دبا کے کہا ، میں سمجھ گیا آج رات کو نگینہ اور مزہ لے گی ،اس رات کے بعد ہم رات کو بالکل نہیں ملے تھے ، رات کو کھانا کھلا کے سب کچھ سمیٹ کر نگینہ فارغ ہوئی ۔سوا ،نوہو گئے تھے ، کبھی اپنے بیٹے کا بھی حال چال پوچھ لیا کر ،نگینہ سرور خان کو کمرے میں گھسیٹ لائی ،سرور سانڈ نے مجھے نفرت سے گُھورا اور باہر نکل گیا ، سرورے سونا نہ ،میں اس کا سر دبا کے آتی ہوں ،نگینہ کی آواز میں ممتا کی چاشنی تھی اور سرور کیلیے سگنل تھا ، باہر بارش ہونے لگی ، نگینہ میری رضائی میں آ گئی اور میرا سر دبانے لگی ، نگینہ نے اپنی چادر اتار کے بے پروائی سے پھینک دی ، پھر نگینہ نے اپنے بال کھول دیے ،نگینے بڑی رومانٹک موڈ میں تھی ،اس کا حُسن کمرے کو جگمگ کرنے لگا، بے شک وقت نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا تھا ، نگینے تم کمال ہو ،میں اس کے حُسن سے بے خود ہو گیا ، نگینہ نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے بیس پچیس منٹ اس نے مجھے بڑی شدت سے پیار کیا ،(الف اج دی رات سہاگ والی ۔۔۔ بھلکے کی جانے کیہڑا رنگ ہوسی) اسے سرورے کا ڈر بھی نہیں تھا ،یا اسے یقین تھاکہ وہ نہیں آئے گا ، کاش شہزادے تم مجھ سے ضد نہ لگاتے تو ساری عُمرتمھیں عیش کراتی ،نگینہ کا موڈ بہت عجیب تھا ، کیا ؟ میں اس طرح موڈ بدلنے پر حیران ہوا، بچاؤ ،بچاؤ نگینہ کُھٹی کُھٹی آواز میں ایسے چیخِی جیسے اس کے منہ پر کسی نے ہاتھ رکھا ہو ، ساتھ ہی اس نے اپنے گریبان پہ ہاتھ ڈالا اور ایک جھٹکے سے پھاڑ ڈالا ،اس کی برا نظر آنے لگی میں سنبھل نہیں پایا تھا کہ اس نے میری رضائی ایک طرف پھینک دی اور اور خود چارپائی سے گر پڑی جیسے جان چھڑا کہ بھاگی ہو اور گر پڑے ۔ دو پل میں یہ سین مکمل ہوا اور سرور خاں کمرے میں داخل ہو گیا، زمین پر گری ہوئی چادر ،بکھرے بال ، پھٹی ہوئی قمیض ،ایں ؟ریشمی قمیض ایکدم کیسے پھٹ گئ ؟ اور اس کی ننگے جسم پر ایک خراش بڑی واضح نظر آرہی تھی جو کہ دوپہر کو نہیں تھی ، ایک پل میں ساری صورت حال میں سمجھ گیا ۔ادھر میری جسمانی حالت اتنی اچھی نہیں تھی ، کہ میں بھاگ سکوں ، نگینہ نے بڑا مکمل حملہ کیا تھا ، سرور خان نے کمرے میں داخل ہوتے ہی نگینہ کو اٹھایا ،سرورے اس نے میری عزت پر حملہ کیا ہے آج یہ بچ کر نہ جائے ، نگینہ نے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا
ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (پہلی قسط)"