Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ناگن (قسط پانچ)

 

کچھ لمحوں میں کام چھوڑ چھاڑ کےتہمینہ آگئی ۔ جی فرمائیے ؟ تہمینہ نے سنجیدہ لہجے میں انجان بن کے پوچھا ۔ میں مسکراتا رہا اور میٹھی میٹھی نظروں سے تہمینہ کو دیکھتا رہا ۔ مجھے پتہ تھا تہمینہ مجھ سے ناراض ہے ۔ بتیس سالہ تہمینہ میں وہ سب کچھ تھا جوکسی بھی مرد کو پاگل کر سکتا تھا ، کسی وقت میں بھی پاگل تھا ،اور پھر پاگل پن پانی کے ساتھ نکل گیا،ہر بار یہی ہوتا تھا ۔پھر ملنا ملانا کم ہو گیا ۔ آج کافی عرصے بعد تہمینہ کی یاد آئی، میری مسکراہٹ نے اسے پگھلا دیا ۔ بہت ہی ظالم ہو تم ، تہمینہ میرے گلے لگ چکی تھی،۔ ہر بار دل سے عہد لیتی ہوں کہ تم جب ملو تو پتھر ہو جانا مگر پتہ نہیں کیا بات ہے تم میں ، تمھیں دیکھتے ہی دل تم سے لپٹنے کو مچلنے لگتا ہے ۔ تہمینہ کچھ بیٹھی کچھ میرے اوپر گری ہوئی تھی ۔ تہمینہ تمھارا حسن اور تمھاری جسمانی کشش تمھاری ادائیں مجھے اپنے پاس کھینچ کے لے آتی ہیں یقین مانو میں تمھیں چاہتا ہوں تو تمھارے پاس آتا ہوں جب بھی مصروفیت سے فرصت ملتی ہے تو تمھارے پاس آجاتا ہوں ۔۔میں جانتی ہوں تمھاری مصروفیت، تہمینہ نے ناراضگی سے کہا ۔ تو کیوں نہ اب شکووں کی بجائے ہم بھی مصروف ہوجائیں میں نےاسے پیار سے سمجھایا ۔ تہمینہ اٹھی اور اس نے انٹڑ کام سے کال کی، پیک کر دو، باقی کل ۔ کوئی مجھے ڈسٹرب نہ کرے اوکے۔ پھر میری گود میں گھس آئی ۔ ہم کسنگ کرنے لگے ، تہمینہ مجھ سے ایسے ترسی ہوئی تھی جیسے پانی کے بناء مچھلی ترستی ہو ۔ بےصبری سے تہمینہ نے میرے کپڑے اتارے اور پھر خود بھی ننگی ہوگئی ۔ اس کا چاندی کا جسم چمکنے لگا ،اس جسم کی رعنائی نے مجھے پاگل کر دیا تھا ، اب پھر اس کے جسم کا جادو سر پر چڑھ گیا مجھے بہکانے لگا ۔ تہمینہ کی طلب اتنی زیادہ تھی کہ میں نے کچھ کرنے کی بجائے خود کو اس کے حولے کر دیا ۔ صوفہ تھوڑا چوڑا تھا ۔ میں کچھ بیٹھا کچھ لیٹا ہوا تھا۔ تہمینہ مجھے مجنونانہ انداز میں چوم رہی تھی اس کے ہاتھ میں میرا عضو تھا ۔ وہ مجھے چومتی ہوئی چہرے سے سینے پر اور سینے سے پیٹ پر اور پیٹ سے عضو تک کا سفر بے تابی سے طے کرتی ہوئی منزل پر پہنچی اور عضو منہ میں لے کر چوسنے لگی ۔ پتہ نہیں تم اتنے بے رحم کیوں ہو پرنس ،تہمینہ کو سکون نہیں آرہا تھا وہ چوستی بھی تھی اور شکوے بھی کر رہی تھی۔اس کی بے چینی ایسے ہی ہوتی تھی۔ تہمینہ بہت جوشیلی تھی ۔اس کے ساتھ سیکس کرنے میں بہت مزہ آتا تھا اب بھی وہی ہو رہا تھا تہمینہ نے جوش میں مجھ پر چڑھائی کی اپنی پوزیشن درست کی اور عضو کو پکڑ کے چوت پر رکھا،چوت پر اپنا وزن ڈال کہ عضو اند لینے لگی پورا عضو اندر لے کے تہمینہ اپنے جسم اور گھٹنوں کے بل اوپر نیچے ہونے لگی۔ تہینہ کی رفتار سے اس کے جوش کا پتا چل رہا تھا۔ اس کے ممے ایک ردھم سے ہل رہے تھے بلکہ مجھے ہلا رہے تھے ۔اوہ تہمینہ تم کمال ہو ،تم جیسی کوئی نہیں ، تہمینہ پہلے ہی جوشیلی تھی میری تعریف سے ہوائی گھوڑے پر بیٹھ گئی ۔ جسم کے اندر طوفان تھا اور طوفان میں میں لہریں اچھل اچھل کے بندھے بند کو توڑنا چاہتی تھی ۔ جب تک جسم سے یہ طوفانی پانی باہر نہیں نکلنا تھا لہریں اور سے اور منہ زور ہوتی جانی تھیں ۔ تہمینہ اس طوفان سے اکیلی ہی نبزد آزما تھی مجھے اس پر ترس آیا اس کی حالت بہت بری تھی مگر وہ جوشیلے انداز میں چودائی کرتی جا رہی تھی ۔میں نے اسے روکا اور باہر نکالے بغیر اسے صوفے پر لٹایا ،اس کی ایک ٹانگ صوفےسے نیچے لٹکائی ،اور میں نے وہیں سے طوفان اٹھا دیا جہاں سے سلسہ ٹوٹا تھا ۔ تہمینہ کا سرور سے برا حال تھا آہ پرنس یہی تو میں چاہتی ہوں تم مجھے چودو ۔میرے اوپر چڑھو ، میرے مالک بن کے مجھے حاصل کرو ۔ تہمینہ کی باتیں بتا رہی تھیں کہ وہ کب کی ہوش کی دنیا سے آگے جا چکی تھی ۔ میں ایسی باتیں سننے کا عادی تھا اب یہ باتیں مجھ پر کچھ بھی اثر نہیں رکھتی تھیں ۔ آج مجھے اپنے بچے کی ماں بنا ڈالو ۔ سیکس تہمینہ کے دماغ کو چڑھ گیا تھا ۔ چودو، چودو ،اور تیز کرو نہ ۔ تب میں نے فوراً تہمینہ کو گھوڑی بنا کے عضو چوت میں ڈالا ۔ اور اس کی گانڈ پر تھپڑ مارنے لگا ۔تہمینہ کا یہی علاج تھا ۔ کبھی کبھی اسے یہ دورہ پڑتا تھا جب طوفانی چودائی سے اس کا کچھ نہیں بنتا تھا تو تشدد کا سہارا لینا پڑتا تھا ۔
ایک طرح سے یہ نفسیاتی مسلہ بھی ہے گانڈ پر تھپڑ مار مار کے میں نے لال کر دی ۔ ساتھ چودائی بھی جاری رکھی ۔ تہمینہ کی کچھ تسلی ہونے لگی ۔پانی کناروں پر آنے لگا ۔ تھوڑے کنٹرول کے ساتھ میں نے بھی اپنا کام جاری رکھا ۔ پرنس رکنا مت تہمینہ چلائی ۔۔میں کونسا رکنے والا تھا ۔تہمینہ کی کشتی کو طوفانوں سے نکال کر کنارے پر ہی تو لانا تھا ۔ اور تہمینہ کا جسم جھٹکے کھانے لگا ۔ میں سمجھ گیا پانی کی جگہ سیلاب ہی آئے گا،میں بھی اس کے ساتھ ہی کنٹڑول چھوڑ دیا اور چند لمحوں میں تہمینہ کی چوت اپنے پانی سے سیراب کرنے لگا ۔ پانی ہی اس کی آگ بجھا سکتا تھا ۔ ہم ایکدوسرے پر گرے پڑے تھے ۔تہمینہ کو نارمل ہونے میں 10 منٹ تو لگ ہی گئے ۔ہوش میں آتے ہی تہمینہ نے نیا مسلہ چھیڑ دیا۔پرنس پچھلی بار مجھے حمل ہوگیا تھا ۔ایک لیڈی ڈاکٹر کو اچھے خاصے پیسے دے کے ابارشن کروانا پڑا مجھے ۔ کیا میں مجھے تعجب کے ساتھ تہمینہ پر غصہ بھی آنے لگا۔ تم نے مجھے تو بتانا تھا ۔دو گولیاں ، گائنی کوسڈ ، کھا لینی تھی چوبیس گھنٹے میں مینسسز آجانے تھے ۔جناب پرنس صاحب آپ ایک دفعہ غائیب ہوجائیں تو پھر نہ پیچھے مڑ کے دیکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی کال ریسیو کرتے ہیں ۔ یار تم مجھے ایک میسج ہی کردیتی ،مجھے خبر تو ہوجاتی ،فلیٹ پر ہی آ جاتی ۔ کسی طرح مجھ تک مسلہ پہنچا دیتی باقی میں خود کرلیتا ۔ میں غصے میں بولا تو تہمینہ کچھ ڈھیلی پڑ گئی ،وہ مجھے بھی غصہ آگیا تھا ۔میں نے تب ہی ارادہ کر لیا تھا کہ تم سے اب بات بھی نہیں کرنی ،مگر تمھیں دیکھتے ہی سب کچھ بھول جاتی ہوں ۔اب کوئی مسلہ بنے تو مجھے بس ایک میسج کر دینا ۔میرے پاس اس کی بڑی میڈیسن پڑی ہیں ۔ابارشن کرنا پڑا تو وہ بھی کر لوں گا ،ایک چھوٹے سے اوزار سے رحم کا منہ کھولنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے ۔ دوسرے مہنیے ابارشن کروایا تھا تم نے ؟مجھے تسلی نہیں ہو رہی تھی ،ہاں دوسرے مہنیے فوراً پتہ چلتے ہی ابارشن کروا دیا تھا۔ چلو پھر تو کوئی مسلہ نہیں بنا ہو گا ۔زیادہ مسلہ تیسرے مہنیے کے بعد بنتا ہے ۔ اچھا چھوڑو یہ بیکار کی باتیں ،تہمینہ اب موضوع سے جان چھڑانا چاہتی تھی میں سمجھ گیا وہ ابھی اور کھیلنا چاہتی تھی ۔اس بار میں دل سے جم کر اس کی چودائی کی ،اور اس کی کسریں نکال دی ۔ تہمینہ کو حمل کے دوران ذہنی اذیت ہونے سے اب میں اس کا ازالہ کر رہا تھا ۔ کیونکہ ایسے حالات میں کبھی بھی میں نے اپنی گرل فرینڈ کو تنہا نہیں چھوڑتا تھا ۔ اسی طرح دو بجنے والے ہو گئے ۔ ہم باہر نکلے تو سارا اسٹوڈیو خالی تھا ۔ تہمینہ کی کاراسٹارٹ ہی نہیں ہو رہی تھی سو اس کے گھر چھوڑتے ہوئے میں فلیٹ پر آگیا
سوا دو ہونے والے تھے ۔ یہ وقت پرفیکٹ (ہر لحاظ سے بہترین) تھا۔امید تھی اس وقت نگینہ کی آنکھیں دلآویز کی نگرانی نہیں کر رہی ہوں گی، یہ بھی طے تھا نگینہ سرورے کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں ہو گی ۔میں جانتا تھا نگینہ کوئی رات خالی نہیں جانے دیتی ہوگی ۔اس وقت دلآویز سے لمبی بات ہو سکتی تھی اگر سب کچھ میرے طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوتا ، میں نے دلآویز کا موبائل نمبر ملایا ، میرا دل دھڑک رہا تھا ۔ بیل جانے لگی ،ساتویں بیل پر کال رسیو کر لی گئی ، ہیلو ایک نیند میں ڈوبی ہوئی آواز آئی ،آواز سے لگتا تھا کسی نوجوان لڑکی کی آواز ہے ۔ ہیلو کون ہے بھئ کیا مسلہء ہے اس وقت ، غالباً وقت بھی دیکھا گیا ہو، ہیلو آپ نے مس کال دی تھی تو میں نے آپ کو بیک کال کی ہے ۔ آپ بتائیے ،کیا بات ہے ؟کیوں کال کی آپ نے مجھے ؟ کیا میں نے کال کی ہے ، میں ابھی تمھاری کال سے سوتی اُٹھی ہوں اور تم مجھے کہہ رہے ہو کہ میں نے کال کی ہے ۔ کون ہو تم ؟ دلآویز غصے میں آگئی ۔مجھے آپ کی مس کل آئی تھی اس لیئے جوابًا کال کی ہے ،اور آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے کال ہی نہیں کی ،عجیب بے ہودہ انسان ہو تم بلاوجہ ہی مان نہ مان میں تمھارا مہمان ،دلآویز غصے میں تھی،میں چاہتا تھا وہ اچھی طرح جاگ جائے ،بات سنیئے اتنے غصے میں نہ آئیے ،کال آپ نے نہیں کی میں نے ہی کی ہے ۔میں بس آج کی رات کا مہمان ہوں اور ادھر ادھر بھٹک کے اپنی قسمت آزما رہا ہوں۔اس وقت اپنی زندگی کی آخری کالز کر رہا ہوں ، ابھی دس بارہ رانگ کالیں کر چکا ہوں لیکن کسی کے پاس میری زندگی کیلیے وقت نہیں ہے ۔دوسروں کی طرح آپ بھی برا مان گئی ہیں ۔ آپ کو سوتے میں اٹھایا ۔ نہایت معذرت خواہ ہوں ،خدا حافظ ۔میں نے کال بند کر دی اگر پانچ منٹ میں دلاویز کی کال آجاتی ہے تو اس کا مطلب تھا کہ مچھلی نے چارہ نگل لیا، نہیں تو کوئی اور حل سوچنا پڑے گا ۔ ایک منٹ ،دو منٹ ،تین منٹ ،چار منٹ ۔میں مایوس ہونے لگا ، موبائل پر ایک بیپ ہوئی ، کال دلآویز کی تھی ۔ ہیلو جی فرمایئے میں نے کال رسیو کی ، آپ زندگی کی آخری کالز کر رہے ہیں کیا مطلب ہے اس بات کا ،دلآویز کی آواز میں بے چینی تھی ۔ آخری کالز کا مطلب ہے کہ میں نے پانچ بجے خود کشی کر لینی ہے کل پانچ بجے میری دوست مر گئی اور آج میں اسی وقت اس کے پاس چلا جاؤں گا ۔ کیا آپ پاگل تو نہیں ہیں ، میرا مطلب ہے کہ آپ کون ہیں ۔ ایسا کیوں کر رہے ہیں ،میرا مطلب ہے کہ آپ ایسا نہ کریں پلیز دلآویز کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہے ،آپ ایسا مت کریں ،زندگی انمول ہے ۔یہ بار بار نہیں ملتی ،خود کشی حرام ہے ۔ کسی کے ساتھ مرا نہیں جاتا نہیں تو اس کی روح بے چین ہوگی،دلآویز مجھے طرح طرح سے سمجھا رہی تھی ۔ لیکن میں نے کال بند کر دی ، پھر اس کی کال آگئی ،پلیز میری بات سنیئے، کال بند نہ کیجیئے گا ۔ کیا وہ آپ کی محبت تھی ۔ کیا آپ اس لیئے مرنا چاہتے ہیں کہ آپ کو کوئی چاہنے والا نہیں ہے ۔پلیز آپ کچھ تو بولیں ، مجھے صرف اتنا پتہ ہے کہ اب مجھ سے جیا نہیں جاتا اتنا کہہ کر میں نے کال پھر بند کر دی ۔پھر اس کی کال آگئی۔ جونہی میں نے کال ریسیو کی اس کے بے چین آواز آئی ۔ پلیز میں آپ کو روکوں گی نہیں ایک بار میری پوری بات سُن لیں ،ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کسی کے پاس آپ کی زندگی کیلیے وقت نہیں ہے اور جب میں آپ کی زندگی میں دلچسپی لے رہی ہوں آپ بات ہی نہیں سُن رہے دلآویزکی دلیل نے مجھے اس کا فون سننے پر مجبور کر دیا ۔ ٹھیک ہے میں آپ کی بات سُن رہا ہوں ۔لیکن مجھے اب افسوس ہے کہ میں نے آپ کو ڈسٹرب کر دیا ۔ اب میں سوچ رہا ہوں مجھے کسی کو کال نہیں کرنی چاہیے تھی ، میرا نام دلآویز ہے آپ کا کیا نام ہے ،دلاویز نےمیری بات ان سنی کرتے ہوئے اپنی بات شروع کر دی ۔ میرا نام ، جو مرضی کہہ لیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اچھا چلیں میں آپ کو ،،،،،،،،، ساحل کہہ لیتی ہوں ،ٹھیک ہے ، دلاویز نے پوچھا ،ٹھیک ہے پر یہ ساحل ڈوبنے والا ہے ۔ اس نے نام رکھ کے مجھے امید دی اور میں نے وہ امید ڈبو دی ، دلآویز نے میری بات سنی ان سنی کر دی اور اپنا سوال دہرایا ۔ اچھا آپ یہ بتائیں آپ جس کیلیے حرام موت مرنا چاہتے ہیں ،کیا وہ آپ کی محبت تھی ؟ نہیں وہ میری دوست تھی بس ،شوکت میموریل ہسپتال میں کل وہ میرے سامنے مر گئی ۔ کینسر کی آخری اسٹیج پر تھی ۔مجھ سے اس کی موت کا منظر بھلایا نہیں جا رہا ،اس کا دکھ مجھے تڑپا رہا ہےمیں کیا کروں میں مرنا چاہتا ہوں ، آپ میری ایک بات سنیں گے،دلآویز رندھی ہوئی آواز میں بولی ، آپ رو رہی ہیں،آپ میرے لیے رو رہی ہیں ،میں بے چین ہو گیا ،ہاں میں ایسی ہی ہوں مجھ سے کسی کا دکھ دیکھا نہیں جاتا ۔ اوہ میں بہت برا ہوں میں نے آپ کو دکھ دیا ،میں ایسا نہیں چاہتا تھا بس میں رانگ کالز کر رہا تھا کہ دل بہل جائے اصل میں آج پانچ نہیں بج رہے تھے ،اور اب میں نے آپ کو دکھی کر دیا ۔ ویری سوری ۔ آپ مجھے بھول جائیں ،خدا حافظ ۔ نہ نہ نہ آپ کال بند نہ کریں ،آپ کو آپ کی دوست کی قسم آپ مجھ سے پانچ بجے تک بات کریں ۔ دلآویز نے روتے ہوئے مجھے مجبور کیا ۔اور میں مجبور ہوگیا ، آپ نے مجھے قسم ہی ایسی دی ہے کہ اب آپ کی بات سننی پڑے گی لیکن میرے ہاتھ میں پسٹل ہے اور یہ آج پانچ بجے چل پڑے گا۔ میں نے اسے تنبیہ کی۔ ٹھیک ہے آب ہم پانج بجے تک بات کریں گے ۔اچھا ساحل آپ ایک بات کا جوا ب دیں گے ۔ ضرور پوچھیئے ،اگر آپ کا کوئی بھی دوست آپ کی وجہ سے مرنا چاہے تو آپ اسے روکیں گے یا مرنے دیں گے ؟ دلآویز کے سوال نے مجھے خاموش کر دیا ۔ بتائیں نہ آپ مرنے دیں گے یا نہیں ۔ دلآویز نے اپنا سوال دہرایا ۔ایک دوست اپنے دوست کو کیسے مرنے دے سکتا ہے ،اس کی جگہ میں خود مر جاؤں گا، میں نے صحیح جواب دیا ۔ اچھا تو اگر آپ کی دوست زندہ ہوتی تو کیا وہ آپ کو حرام موت مرنے دیتی ۔ نہیں وہ مجھے نہیں مرنے دیتی ۔ مجھے پھر صحیح جواب دینا پڑا ۔ آپ کو پتہ ہے آپ کی دوست مری نہیں ہے وہ زندہ ہے بس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوئی ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ آپ خود کشی کریں ،وہ آپ کیلیے بے چین ہے ۔اگر آپ نے خود کشی کی تواس کی روح تڑپتی رہے گی ،اگر آپ حرام موت مر گئے تو آپ کی دوست کو کبھی چین نہیں آئے گا ۔ تو اب آپ سوچ کر بتائیں ،کیا آپ اپنی دوست کو دکھی کرنا چاہتے ہیں یا اس کی روح کو سکون دینے کیلیے دعا کرنا چاہتے ہیں ۔ مجھے جیسے خاموشی لگ گئی ۔ مجھے کوئی جواب نہیں آیا ، آپ کی خاموشی بتا رہی ہے کہ آپ میری بات سمجھ گئے ہیں لیکن اقرار نہیں کرنا چاہتے دلآویز نے درست تجزیہ کیا ۔ لیکن مجھ سے اپنی دوست کا دکھ برداشت نہیں ہوتا ، میں پہلے ہی بہت تنہا ہوں ۔ کوئی بھی تنہا نہیں ہوتا ،ہر کسی کے ماں باپ ،بھائی بہن ،دوست احباب ،رشتے دار ہوتے ہیں ،آپ کمرے سے نکلیں اور ان کے ساتھ اپنا دکھ بانٹیں ۔ دلآویز نے مجھے سمجھایا ، میرے پاس ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے ، میرے ماں باپ پچھلے سال اتنقال کر گئے تھے ،مطلب پرست رشتہ دار وں سے میں دور رہتا ہوں ۔اور ایک یہی دوست تھی ا سی نے مجھے اس وقت بھی سنبھالا جب میرے والدین کی وفات ہوئی تھی ۔ میں نے سچ کو جھوٹ میں ملا کر بتایا ۔ اوہ تو اب میں آپ کا اصل مسلہ سمجھی ہوں ،آپ تنہا ہیں اور آپ کا کوئی دکھ بانٹنے والا نہیں ہے ۔ ویری سیڈ ۔ دلاویز کی حساسیت عروج پو تھی ۔ اچھا تو ایسا کرتے ہیں آج سے میں آپ کی دوست بن جاتی ہوں ۔اگر آپ خود کشی کا خیال دل سے نکال دیں ،ہا ہا اہا ہاہا ۔ میں کرب سے ہنسنے لگا ، کیا ہوا آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟ دلآویز نے حیرانی سے پوچھا ۔ آپ صرف ترس کھا میری دوست بن رہی ہیں ، اور کل کوہو سکتا ہے آپ مجھ سے بات بھی نہ کریں ،نہیں نہیں میں اپنے والدین کی قسم کھاتی ہوں ، میں آپ کی پکی اور سچی دوست بنوں گی ہمیشہ کیلیے ۔۔ آپ نے والدین کی قسم کھائی ہے میں آپ کا اعتبار کر لیتا ہوں اگر آپ نے دوستی سے منہ موڑا تو میں اسی دن تنہائی کے ڈنگ سے مر جاؤں گا ، میں نے آج تک کسی لڑکے سے دوستی نہیں کی اب کر لی ہے تو کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گی ، دلآویز کی آواز اس کے دل سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ ٹھیک ہے تو آج سے ہم دوست ہیں مجھے اب اقرار کرنا پڑا۔اب آپ وعدہ کریں آپ خود کشی نہیں کریں گے،دلآویز آب بھی محتاط تھی ،میں خود کشی نہیں کروں گا اگر آپ ہر رات مجھ سے بات کیا کریں ،بس اور میں اپنی دوست سے کچھ نہیں چاہتا ۔ ہم ہر رات بات کیا کریں گے ساحل ۔ اب آپ ساحل پر آ گئے ہیں اب تو اپنا نام بتا دیں دلاویز مجھے جاننا اور سمجھنا چاہتی تھی ۔میں نے اسے بتایا کہ ۔ آج سے میرا نام ساحل ہی ہے
۔۔ اور دلآویز مجھے جانتی اور سمجھتی رہی ۔اور اپنی ہر بات مجھے بتاتی اور سمجھاتی رہی ۔ دنیا جہاں کی باتیں ہوئیں ۔دو ہفتے میں ہم گہرے دوست بن گئے ۔اب میں نے اس سے خاص باتیں شروع کر دی۔ اس کی زندگی اس کے گھر بار کی باتیں ۔ میں جان بوجھ کے ایسی باتیں کر دیتا جو اکسانے والی ہوتی تھیں اور دلآویز شروع ہو جاتی ۔جیسے میں نے اس سے کہا کہ تمھاری ممّا تو بہت خیال رکھتی ہیں تمھارا ۔ ہاں کچھ زیادہ ہی خیال رکھتی ہیں دلآویز نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا ۔کیا مطلب کُھل کے بات کرو نہ اب دوستوں سے بھی دل کی بات نہ کرو گی تو کس سے کرو گی۔ یار ممّا نہ ، بہت ہی تنگ کرتی ہیں پابندیاں ہی پابندیاں میں ان سے تنگ آ چکی ہوں ۔میری دوستوں تک کو نہیں چھوڑتی۔ہر وقت میرے آنے جانے پر نگرانی،میرے موبائل کو بھی چیک کرتی ہیں مجھے باہر تو نکلنے ہی نہیں دیتی۔ میں نے بھی اب بغاوت کر دی ہے۔اور پچھلےسال یونیورسٹی میں داخلہ لے لیاتھا۔ممّا نے بہت شور کیا مگر ابا نے اُن کی ایک بھی نہ چلنے دی۔ ممّا کی اس عادت سے ابّا بہت تنگ ہیں مگر ممّا کے سامنے بولتے نہیں ۔ اگر تمھارے ابا مّما کے سامنے بولتے نہیں تو تم یونیورسٹی کیسے چلی گئی میں نے اس کی گفتگو میں لقمہ دیا ۔ میرے لیئے ابا ممّا سے ضرور بولتے ہیں۔ دلآویز فخریہ لہجے میں بولی ۔ ہماری باتیں چلتی رہی ۔ایک دن میں نے دوستی اور پیار کی بات چھیڑ دی ۔ ساحل میں یہ بات پسند نہیں کرتی تھی لیکن اب تم میرے دوست ہو ۔مما نے بچپن سے میرے ذہن میں پتہ نہیں کیا کیا ٹھونسا ہوا تھا کہ میں نے زندگی کی ہر خواہش سے خود کو دور کر لیا تھا ۔ تمھاری باتیں مجھے نئی دنیا سے آگاہ کر رہی ہیں ،مجھے مھسوس ہو رہا ہے کہ میں زندگی سے بہت دور تھی ،اب میں زندگی کا مزہ لے رہی ہوں ۔ ساحل تم میری زندگی میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہو ، دلآویز اپنے جذبات مجھے بتاتی رہی ،جب تم سے دوستی ہوئی تو میں صرف فون پر رابظہ رکھنا چاہتی تھی، اور تم نے بھیمجھ سے ملنے کی کبھی خواہش نہیں کی ، تم بہت اچھے اور سچے دوست ثابت ہوئے ہو ساحل ۔ میرے دل میں بہت قدر ہے تمھاری ۔دلآویز جذبات کا اظہار کرتی رہی ۔ نگینہ نے بڑے پہرے بٹھا ئے تھے اپنی بیٹی پر لیکن میں نہ صرف دلآویز تک پہنچ چکا تھا بلکہ دلآویز پر نگینہ کی گرفت کمزور کررہا تھا ۔جس دلآویزکے ذہن میں نگینہ نے پتہ نہیں کیاکیا بچپن سےگاڑا ہوا تھا نا معلوم طریقے سے میں وہ ختم کر رہا تھا لڑکوں سے بے رحم رویہ رکھنے والی دلآویز اب میری دوست تھی ۔نہ صرف دوست تھی بلکہ مجھ سے ہر بات کا تبادلہ خیال کر لیتی تھی اور اپنے راز مجھے دے رہی تھی ۔ نگینہ کے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے میں دلآویز سے نائیٹ کالز کرتا رہا ،جب میں نے دیکھا کہ دلآویز مجھ پر مکمل اعتماد کرنے لگی ہے ۔ اور ہماری دوستی بے تکلفی میں بے تکلفی آگئی ہے تب میں نے اس سے کھلی ڈھلی باتیں شروع کر دی ۔ اس کے لیئے لطیفوں کا سہارا بھی لینے لگا۔میں اسے سیکس کی طرف لانے لگا ۔پھر ایک دن میں نے یتیم بچوں کا زکر چھیڑ دیا ۔کہ ہمارے ایک جاننے والے تھے انہوں نے ایک یتیم بچے کو سہارا دیا اس پر سب اعتماد کرتے رہے ، لیکن وہ گھر کی جمع پونجی لے کہ بھاگ گیا ۔اور بھی ایسے دو چار باتیں کیں جن میں سے ایک بچے نے گھر والوں کو قتل کر کے زیور اور پیسہ لے کر بھاگ گیا۔ایک اور بچے نے گھر والوں کی بڑی بیٹی کی عزت لوٹی اور فرار ہو گیا ۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہو چکا ہے دلآویز نےساختہ کہہ بیٹھی ۔اچھا کیا واقعہ ہوا ہے میں نے تجسس ظاہر کیا ۔چھوڑو دفعہ کرو ، دلآویز نے بے زاری سے کہا ۔یار اب مجھ سے بھی باتیں چھپاؤ گی ۔میں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ نہیں یا رمیں اسے یاد نہیں کرنا چاہتی اس واقع نے تو ہمارے گھر کا سکون برباد کر دیا ۔پھر تو میں ضرور سنوں گا تمھاری زندگی کے اہم ترین واقعہ کا مجھے پتہ ہی نہیں ۔یہ کیسی دوستی ہے دلآویز ۔اچھا سنو دلآویز نے میری ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ۔میرے ابا نے بھی ایک یتیم کو سہارا دیا تھا وہ ابا کے دوست کا بیٹا تھا ۔جب ابا کے دوست کا انتقال ہوگیا اور ان کا کوئی قریبی رشتہ دار تو تھا نہیں اور دور والے قل خوانی کروا کے بھاگ گئے۔ ۔ تو ابا اسے گھر لے آئے میں اس وقت نو سال کی تھی ۔بڑا معصوم تھا میری داد ی کو تو جیسے کھلونا مل گیا ،اس نے مجھ سے میری دادی چھین لی۔مجھے اس پہ بڑا غصہ آتا تھا اور پتہ نہیں کیوں اس کے ساتھ کھیل بھی لیتی تھی پھر دادی وفات پاگئی تو مما نے اسے وہی توجہ دینی شروع کر دی جو اسے دادی دیتی تھی بلکہ دادی سے بھی بڑھ کے پیار دیا مما نے اسے ۔ اس وقت میں تیرہ سال کی تو ہوں گی،مجھے اس سے بڑی جلن ہوتی تھی ۔پر اس کے ساتھ کھیلتی بھی تھی۔اس بےغیرت نے مما کے پیار کا غلط مطلب لیا جس نے اسے بیٹا بنایا ، اسی ماں پر بری نظر رکھنے لگا تھا اور ایک دن مما کی عزت لوٹنے کی کوشش کی ۔ وہ تو شکر ہے ابا اس وقت گھر تھے اور وہ کچھ نہ کر سکا بلکہ اسے منہ چھپا کے بھاگنا پڑا ۔ بس اس واقعہ کے بعد ہماری زندگی بدل گئی ۔مما نے مجھ پر بے جا پابندیاں لگانی شروع کر دی ۔ ہر روز مما مجھےبتاتی کہ شہزادے نے اس کی عزت لوٹنے کی کوشش کی تھی ۔ میرے حساس دل کے لیئے وہ باتیں بڑی تکلیف دہ تھیں مجھے مرد ذات سے نفرت ہوتی گئی اور اپنی عزت کا احساس بڑھتا گیا میرے ذہن میں ساری باتیں بیٹھنے لگی اور میں زندگی سے دور ہوتی گئی ،مجھ پر پابندیوں سے ابا اور مما کی پر روز لڑائی ہوتی تھی ۔ مما اس واقع سے اتنی ڈر گئی تھی کہ انہوں نے ابا سےمکان بدلنے کو کہا ۔انہیں نوکری چھوڑنے کو کہا ۔ ہمارے گھر دن رات لڑائیاں شروع ہوگئی مجبوراً ابا کو مما کی بات ماننی پڑی ۔ تین چار سال میں میری زندگی جہنم بن گئی ۔مما نے چار دفعہ مکان بدلے۔ابا کی نوکریاں چھڑوائی ۔ ہمارے گھر کا سکون برباد ہوگیا ۔کبھی کبھی مجھے مما پر ترس بھی آتا ایک واقعے نے ان کی زندگی تباہ کر دی اور انجانا ڈر ان کے دل میں بیٹھ گیا اور وہ کبھی نہ سنبھل سکیں ۔۔ کیا اس شہزادے نے تھا اور بھگتنا ہمیں پڑا ، خاص کر مجھے تو بہت عذاب بھگتنا پڑا ۔ مما نے شہزادے کا ذکر نہ چھوڑا مجھے اس سے نفرت ہوتی گئی ،مجھے نہیں پتہ میں شہزادے سے کتنی نفرت کرتی ہوں ۔ کبھی کبھی دل کرنے لگتا ہے کہ شہزادہ مجھے ملے تو میں اسے چیڑ پھاڑ دوں دلآویز رونے لگی ۔۔ میں نے خلاف توقع اسے رونے دیا ۔ دل کا غبار نکلنے دیا ۔ پھر اس سے پوچھا اب بھی تمھارے گھر کے حالات ایسے ہی ہیں ؟ نہیں اس واقعہ کو چھ سات سال گزر گئے تو کچھ سکون ہوا ۔ ہم اس مکان میں آگئے ابا نے کافی پیسے جوڑے ہوئے تھے انہوں نے جنرل سٹور کھول لیا ۔لیکن مما کی پابندیوں نے میری جان نہ چھوڑی ان کاڈر میرے دل میں بیٹھ گیا ، میں ضد کر کے یونیورسٹی توچلی گئی لیکن مما نے میری جو شخصیت بنا دی تھی اس سے مجھے زندگی کی کوئی خوشی نہ ملی ۔ساحل اگر تم نہ ملتے تو میں زندگی کے احساس کو کبھی بھی نہیں پا سکتی تھی ۔تم بہت اچھے دوست ہو ۔اب تم سے ملنے کو دل کرنے لگا ہے اب تو اپنا نام بتا دو مجھے۔ دلآویز اس رات میں نے اپنی زندگی کرختم کر لینی تھی اب یہ تمھاری دی ہوئی زندگی ہے اور نام بھی اب ساحل ہی چلے گا ۔ وہ شہزادہ تو کافی عمر کا ہو گا ۔میں نے نئی بات چھیڑ دی ۔نہیں اس وقت صرف پندرہ سال کا تھا وہ بےغیرت ۔ یار ایک پندرہ سال کا لڑکا ایک بڑی عمر کی عورت پر حملہ کیسے کر سکتا ہے ؟ پھر تم نے بتایا کہ تمھار ا باپ بھی اس وقت گھر تھا جس کا اس شہزادے کو یقینًا پتہ ہو گا، میں نے دلآویز کو جھنجھوڑا،تم اسے نہیں جانتے ساحل ،اس کی عمر دیکھو اس کی معصومیت دیکھے تو کوئی یقین نہ کرے ۔ دلآویز کے دل میں مجھ سے نفرت کی جڑیں بڑی گہری تھی ۔نگینہ نے پکا کام کیا تھا ۔دلآویز تو سو گئی ہو گی کیونکہ اسے صبح یونیورسٹی بھی جانا ہوتا ہے۔لیکن مجھے یادوں اور خیالوں کے ہجوم میں چھوڑ گئی تھی،ایسا پہلی بار نہیں ہوا کئی بار ہو چکا تھا،اور اب پھر وہ واقعات آنکھوں کے سامنے آنے لگے،اور میں ان خیالوں میں کھو گیا،مجھے وہ وقت یاد آیا جب نگینہ نے مجھے زبردستی سیکس پر مجبور کیا تھا پھر وہ مجھ پر نچھاور ہوتی گئی،پھر اس کی میری ٹھن گئی اور اس نے مجھ عزت لوٹنے کا الزام لگا کر سرورے کو میرے قتل پر مجبور کردیا ،اور میں وہاں سے نکل بھاگا ۔نگینہ کہ چنگل سے نکلنے کے بعد میں سحرش کے پاس عارضی طور پر پناہ گزیں ہوا تھا،حالات نے کروٹ لی اور کچھ ہی دنوں میں مجھے وہاں سے بھی نکلنا پڑا ،مجھے آج بھی سحرش سے وہ آخری ملاقات یاد ہے ،جب اس نےاپنے گھر سے باہر گلی میں جھانک کرسسکتے ہوئے بتایا تھا کہ باہر کوئی نہیں ہے ،اور میں اسے چوم کے باہر نکل گیا تھا،گلی میں اندھیرا تھا،بلکہ اس دنیا میں ہی اندھیرا تھا اور میں نے ان اندھیروں میں خود کو گم کر لیا تھا،سحرش کے گھر سے نکل کر میں چھپتا چھپاتا پھرتا تھا،پھر سحرش کے دئے پیسے ختم ہونے لگے تو میں کوڑے کے ڈرموں سے پلاسٹک کی بوتلیں وغیرہ ،گتا،اور کانچ اکٹھا کر کے کباڑئے کو بیچنے لگا،کچھ دنوں کی آوارہ گردی میں یہ کام کئی لڑکوں کو کرتے دیکھا تھا جو بھی لڑکے یہ کام کرتے تھے،ان میں سے کچھ میرے دوست بن گئے،ان کیساتھ میں ان کی جھونپڑیوں میں بھی گیا،وہاں مرد چرس پیتے تھے اور سارا دن تاش کھلتے تھے، ان میں سے اکثریت کا پیشہ بھیک مانگنا تھا ،عورتیں سارا دن مانگ کر لاتی تھیں اور مرد وہ کمائی جوئے اور نشے میں اڑا دیتے تھےیا کچھ عورتیں کوڑا چنتی تھیں ،اور کچھ مردوں کی چھیڑ چھاڑ سے جسم بیچنے کے شعبے میں چلی جاتی تھیں ،ایک بار کی چدائی 100 روپے اور بعض اوقات 50 میں بھی کروا لیتی ےتھیں ان کے مردوں کو بس پیسہ چاہیے جیسے مرضی لائیں،کچھ دن ان کے ساتھ میں رہالیکن ان کے ماحول کو دل سے قبول نہ کرسکا اور وہاں سے واپس ہو لیا،میں شہر بھر میں آوارہ گردی کرنے لگا،اس آوارہ گردی میں میرے دل سے سرور خان کا ڈر اترنے لگا ،رات کہیں بھی سو جاتا،میں اس زندگی سے نکلنا چاہتا تھا سو میں چوبرجی چلا جاتا ،وہاں مزدوروں کی لمبی لائنیں لگی ہوتی،ان میں رنگساز بھی تھے،جو اپنے ڈبوں پر برشوں کا ڈھیر لگائے کام کے منتظر رہتے تھے،ان میں سے ایک بھلا مانس آدمی دیکھ کر میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ،اس سے باتیں کرتا،اسے استاد کہتا،مسلسل اس سے کہتا رہا کہ مجھے اپنا شاگرد کر لو مجھے اپنے ساتھ کام پر لے جاؤ،آخر کار وہ مان گیا مجھے اپنے ساتھ کام پر لے جانے لگا،جلد ہی میں کام سمجھ گیا،استاد کو اتنا فائدہ ہوا کہ اسے دو آدمیوں کی مزدوری ملنے لگی،مجھے بس وہ جیب خرچ دیتا تھا لیکن میں اتنے سے ہی خوش تھا،استاد کو میں نے اپنی باتوں سے پٹا لیا، اپنی داستان میں مرچ مصالحے لگا کر میں اپنے لیئے اس کے دل میں اپنے لیئے ترس پیدا کیا تھاتو وہ مجھے اپنے گھر لے گیا،میرا تو کوئی تھا نہیں ، اسے مجھ پر ترس آگیا،بلکہ اس کی بیوی بھی اس کی طرح بھلی مانس تھی،مجھے اس نے بیٹا بنا لیا،پہلے ہی اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی،ہماری عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا،یہاں میری کشش کام بھی کرتی تھی تو وہ مجھے بیٹا اور بھائی کا پیار دیتے تھے،سارا گھر ہی حلال روزی کی برکت سے نیک اولاد والا اور صبرشکر والا تھا۔ مجھے یہاں سکون آنے لگا،عین ممکن تھا میں اس گھر کے ماحول میں نگینہ کو بھول جاتا اور ایک دن استاد کی بیٹی سے میری شادی ہوجاتی، مگر ،،،،،،ایک دن ہم مزدوری کیلیے بیٹھے کام کا انتظار کر ہے تھے،کہ ایک کار آ کر رکی ۔اس میں ایک طرح داراور رعب دار لڑکی بیٹھی تھی۔عمر کوئی بتیس سال تو ہو گی،نہایت حسین تھی،میں یک ٹک اسے دیکھنے لگا،مزدوروں نے اس کی کار کو گھیرے میں لے لیا،،وہ انہیں جھڑکنے لگی، تو سب تتر بتر ہوگئے،اچانک اس نے میری طرف دیکھا ،شاید اس کی چھٹی حس نے بتایا ہو گا کہ میں اسے دزیدہ نظروں سے گھور رہا ہوں،عورتیں اس بارے بڑی حساس ہوتی ہیں انہیں فوراً پتہ چل جاتاہے ،پہلے تو وہ مجھے گھورتی رہی اور میں آنکھیں چرانے لگا،پھر اس نے اشارے سے استاد کو اپنے پاس بلایا ،میں بھی اس کے ساتھ چلا گیا،وہ بغور مجھے دیکھنے لگی،جیسے اس کی نظریں ایکسرے تھیں اور مجھے اندر باہر سے دیکھ رہی تھیں ،پتہ نہیں اسے مجھ میں کیسی دلچسپی ہوگئی تھی،،وہ کار میں بٹھا کر ہمیں اپنے فلیٹ میں لے آئی،فلیٹ کی لوکیشن ز بردست تھی ۔سب سے الگ اور گنجان آباد علاقے میں تھا، فلیٹ کے اندر جانے کیلیے کچھ سیڑھیاں بنی تھیں،اندر تین کمرے اور ایک ڈرائینگ روم بھی تھا جو کہ یقیناً ٹی وی لاؤنچ بھی تھا،کچن اور باتھ روم تھے،ایک کمرے میں لائبریری تھی، باقی دو کمروں میں بیڈروم تھے ،لائبریری میں نفسیات،تاریخ ،شاعری ،ناولز،علم بروج ، دست شناسی ،قیافہ شناسی،اور سیکس پر کولیکشن موجود تھی ،میں کتابیں دیکھ کر دنگ رہ گیا، کچھ دیر تو میں مسحور ہی رہا، مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن نگینہ کے گھر سے نکلنے کے بعد ابھی تک پڑھائی کا کوئی سبب نہیں بنا تھا،بلکہ میں نے تو ابھی تک اپنے میٹرک کا رزلٹ بھی معلوم نہیں کیا تھا ،میڈم اپنے کمرے سے نکلی تو میں فوراً جا کر استاد کے ساتھ صفے پر بیٹھ گیا، فلیٹ ہر طرف سے بتا رہا تھا کہ یہ کسی امیر ترین کی ملکیت ہے اس کے اندر محلوں جیسا سامان اور آرائش تھی،یعنی پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا، پورے فلیٹ کے نیچے ایک تہہ خانہ تھا،وہ تہہ خانے کو پینٹ کروانا چاہتی تھی ، یہ ایک جم جیسا لگتا تھا یا جوڈو کراٹے کے ڈوجو جیسا تھا،سامان وغیرہ منگوا کر ہم نے کام شروع کر دیا،استاد بہترین کام کرنا چاہتا تھا ،یہ اس کا مزاج تھا ،کام صاف ستھرا اور لگن سے کرتا تھا،وہ عورت جسے اب ہم میڈم کہنے لگےتھے،وہ کبھی کبھار ہمارا کام دیکھ جاتی تھی اور استاد کو ہدایات بھی دے جاتی تھی ،لیکن اس کی نظریں مجھی پر ٹکی رہتی تھی،جیسے میں مقناطیس ہوں اور وہ لوہے کا بے جان ٹکرا ہے،شہزادے ،،،، جی استاد ۔۔۔لگتا ہے یہ بھی گئی کام سے،، استاد نے شوخی سے کہا،میں چپ رہا ،یار پتہ نہیں تم کیا چیز ہو، ہماری طرف تو کوئی دیکھتا بھی نہیں اور تمھاری طرف دیکھتی ہیں تو نظریں ہٹانا بھول جاتی ہیں ،استاد مجھے چھیڑنے لگا،میں جانتا تھا استاد ایسی باتیں بس چھیڑ چھاڑ میں کرتا ہے ورنہ اپنی بیوی کے سوا ساری دنیا کی عورتیں اس کیلیے ماں بہنیں تھی،ایسی کوئی بات نہیں استاد تم ہیرو ہو،بس ہو اپنی بیگم کے،ایسی عورتیں تمھاری قدر نہیں جانتی،میں بھی استاد کو چھیڑنے لگا،چھوڑ یار ،آجکل بازار میں اچھائی اور وفاداری نہیں بکتی، اچھا یار میڈم تو تم فدا ہوگئی ہے ،کہیں یہ نہ ہو ہمیں یہاں سے بھی کام مکمل کیئے بغیر جانا پڑے،استاد سنجیدہ لہجے میں بولا،نہیں استاد ایسا نہیں ہوگا،میڈم کافی سمجھدار اور اونچے درجے کی چیز لگتی ہے،میں نے اپنے محسوسات کے مطابق جواب دیا،اچھا خدا کرے ایسا ہی ہو،وہ بیگم چوہدری تو تمھیں یاد ہی ہو گی ،استاد نے خوشدلی سے کہا تو میرا منہ کڑوا ہو گیا،میرے اندازے کی مطابق تین چار دن کا کام تھا ،دوپہر کا کھانا ہم وہیں کھاتے تھے،لگتا تھا کہ میڈم اس فلیٹ میں اکیلی رہتی ہے یا اس کے گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے،
بہر حال میڈم کی باتوں سے پتہ لگا کہ وہ کسی یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں ،استاد کا کہنا تھا کہ یہ شہر کی مشہور پروفیسر ہیں ،سارے شہر میں ان کی بڑی عزت ہے، ایسی عزت اور مقبولیت کم ہی پروفیسرز کو ملتی ہے،تیسرے دن ہم کام پر گئے تو میڈم اپنی کار میں کچھ کارٹون رکھ رہی تھی ان میں کتابیں تھیں،ذرا میری مدد کرنا،میڈم ہمیں دیکھ کر بولی،ہم نے فوراً اس کیساتھ ڈبے رکھوا دیئے ،استاد اپنے شاگرد کو میرے ساتھ یونیورسٹی تک بھیج دو ،وہاں یہ ڈبے رکھنے ہیں ،تھوڑی دیر میں ہم واپس آجائیں گے،میڈم نے کہا تو استاد اسے نہ نہیں کر سکا،اور مجھے میڈم کیساتھ جانا پڑا،پچھلی سیٹ پر ڈبےپڑے تھے،میں اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا،کار چلتے ہی میڈم بھی شروع ہوگئی،شہزادے تمھارا نام کیا ہے،یہی میرا نام ہے میں نے تلخی سے کہا ،نہیں شہزادے یہ تمھارا اصل نام نہیں ہے، تم نے یہ نام انتقاماً رکھا ہوا ہے،تم اس دنیا میں اکیلیے ہو،استاد تمھارا باپ نہیں ہے، میرے اندازے کے مطابق تمھارے ماں باپ مر چکے ہیں ،اور تم تنہا دنیا کی ٹھوکروں پر ہو،حال ہی میں تمھیں کوئی دکھ ملا ہے جس کے نقش اب بھی تمھارے چہرے پر دیکھے جا سکتے ہیں،لگتا ہے دنیا نے تمھارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا،تم بھٹک رہے ہو،کسی نے تمھیں پالش کیا ہے اپنی دانش تمھیں دی ہے،لیکن بس بنیادی باتیں سمجھائی ہیں کیونکہ یہ دنیا تمھیں پالش کرنے والے کی سمجھ سے بہت آگے ہے،بہت کمینی ہے یہ دنیا،میں حیران نظروں سے میڈم کی طرف دیکھنے لگا،حیران نہ ہو میں دو دن سے تمھاری سٹڈی کر رہی ہوں،قیافہ شناسی کی میں ماہر ہوں،اور میں نے ہاورڈ یونیورسٹی سے نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے ،یہی میں پڑھاتی ہوں ،انسانوں کو اندر جھانکنا میرا شوق ہے،بے شمار پیسہ میرے پاس ہے،میرے پاس وسیع جائیداد ہے،عزت ہے شہرت ہے،لیکن سکون نہیں ہے،تمھاری طرح میں بھی دنیا میں تنہا ہوں،میرے والد امریکی تھے انہیں پہاڑوں کو سر کرنے کا شوق تھاوہ یہاں نانگا پربت کی چوٹیوں کو فتح کرنے آئے تھے ،شاید تمھیں پتہ ہو کی نانگا پربت دنیا کی خطرناک چوٹیوں میں سے ایک ہے ،یہاں انہوں نے اپنا شوق پورا کیا اور نانگا پربت کو فتح تو کر لیا لیکن وہیں میری مما ان سے ملیں اور انہوں پاپاکو فتح کرلیا،مما جب لاہور گھر آئی تو وہ شادی شدہ تھیں ان کے ماں باپ نے بالآخر ان کی شادہی کو قبول کر لیا۔ لیکن پاپا نے ان کا زیادہ ساتھ نہ دیا میں ابھی مما کے پیٹ میں ہی تھی کہ پاپا مما کو پاکستان میں ہی چھوڑ کر امریکہ چلے گئے،میری پیدائش کے بعد مما مشکلوں میں پڑ گئی ،اور انہیں اخراجات کیلیے نوکری کرنی پڑی ،پاپا کی وجہ سے بھی مما کو بڑی باتیں سننی پڑی ،بھائی بہنوں نے تو پہلے ہی منہ موڑ لیا تھا ،میرے نانا اور نانی کے جانے کے بعد مما اور میں بالکل تنہا رہ گئی، مما نے کئی بار پاپا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ،لیکن انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا،،جیسے جیسے میں بڑھتی گئی مما تنہائی سے تنگ زندگی سے منہ موڑتی گئی، قسمت خدا کی جب میں جوان ہوئی تو پپا کو ہماری یاد آئی اور ہمیں امریکہ بلوا لیا وہاں جا کر پتہ چلا کہ پاپا بہت بیمار ہیں اور اپنی اولاد سے ملنے کیلیے تڑپ رہے ہیں یعنی مجھ سے ، کیونکہ ان کی ایک بیٹا اور بیٹی ایک ایسیڈنٹ میں فوت ہو گئے تھے ،شاید یہ بھی قدرت کے ہونے کا کوئی ثبوت تھا کہ جو باپ ہمیں تنہاچھوڑ گیا تھا ب ہمیں بلانے ر مجبور ہو گیا تھا،لیکن مجھے ان سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔بہرحال پاپا نے ساری زندگی کے دکھوں کا مداوا اسطرح کیا کہ جاتے جاتے اپنی جائداد میرے نام کر گئے امریکی قوانین نے ہمارا ساتھ دیا اور ساری جائیداد مجھے مل گئی میں سب کچھ بیچ باچ کر پاکستان آگئی کیونکہ مما اپنی سرزمیں پر مرنا چاہتی تھی،یہاں ہم نے اس پیسے سے وسیع عریض جائیداد بنا لی،اب زندگی میں کچھ سکھ ملا تو مما کا وقت پورا ہوچکا تھا میں نے ان کو وصیت کے مطابق نانا اور نانی کے پہلو میں دفن کر دیا۔ان کے جانے کے بعد میرے رشتہ دار میرے پاس آنے لگے،مجھے ان سب سے نفرت تھی،لیکن سموئیل نے مجھے ایسی ہمدردی دی کہ وہ چاہت میں بدل گئی اور میں نے جذبات میں اس سے شادی کر لی ،کچھ ہی عرصے میں مجھ پر واضح ہوگیا کہ سموئیل کی محبت مجھ سے نہیں بلکہ میری دولت سے ہے تو میں نے اس سے جھٹکارا پا لیا،اور تمام مطلبی رشتہ داروں سے کنارا کر لیا،رشتہ داروں سے دور میں نے یہ فلیٹ اپنے سکون کیلیے بنوایا ہے،بڑی حویلیوں اور بنگلوں میں میرا دم گھٹتا ہے،شہزادے مجھے سکون چاہیئے میں تم سے کچھ نہیں چھپاؤں گی،میں نے اس سکون کیلیے کئی دوستیاں کی،مگر دنیا کا کوئی مرد مجھے وہ نہ دے سکا،جو میں چاہتی ہوں،شہزادے وہ سکون مجھے بس تمھی دے سکتے ہو،میں دے سکتا ہوں ؟ میں شدید حیران تھا،ہاں تم ہی دے سکتے ہو کیونکہ تمھارے پاس وہ ہے جو دنیا میں کسی کسی کے پاس ہوتا ہے،تمھارے پاس سیکس کی جادوئی کشش ہے،یعنی بے پناہ سیکس اپیل ہے تم میں ،جو تم سے دور ہے وہ تمھارے پاس آنا چاہے گی اور جو پاس آجائے گی وہ ہمیشہ کیلیے تمھاری ہو جائے گی، اور تمھارے چوڑے ماتھے سےتمھاری خوش قسمتی کا پتہ لگتا ہے، تم بڑے با صلاحیت ہو،دنیا تمھارے قدموں میں جھک سکتی ہے،میں میڈم کی بات پر طنزیہ انداز میں ہنسنے لگا،اس طرح مت ہنسو،کیونکہ خوش قسمتی تمھارے دروازے پر کھڑی ہے، تمھار ا کیا خیال ہے میں تمھیں اپنے بارے میں سب کچھ کھل کے کیوں بتا رہی ہوں ، کیونکہ میں تمھیں ایک بہت بڑی آفر کرنے لگی ہوں، تمھارے مزاج کے عین مطابق تمھاری مرضی سے ،بغیر کسی زبردستی یا چھل فریب کے ،تم مجھے کتنا جانتی ہو؟میں نے الٹا اس سے سوال کر دیا،تم اپنی مرضی کے مالک ہو اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہو،سب ہی ایساچاہتے ہیں مگر تمھارے پاس اپنی مرضی پوری کرنے کیلیے قدرت نے تمھیں صلاحیتیں بھی دی ہیں،میں چاہوں تو تم میرے اشاروں پر ناچو ،لیکن جلد ہی تم میرا کھیل سمجھ جاؤ گے اور پھر میری طرف پلٹو گے مجھے نقصان پہنچاؤ گے،جب تک تمھارا بس چلا،یہ ہو تم ،وہ سچ کہہ رہی تھی اسے نہیں پتہ تھا وہ میری اور نگینہ کی کہانی مجھے ہی سنا رہی تھی،شاید تم ایسا کوئی تجربہ جھیل بھی چکے ہو،مجھے سوچتا دیکھ کر میڈم نے ایک اور اندازہ لگایا،بہت خطرناک تھی یہ میڈم ،انسان اس کے سامنے کھلی کتاب کی طرح تھا،چہرے سے مزاج،عادات ،خیالات ،کردار تک جان لیتی تھی،ماضی پڑھ لیتی تھی،بعد میں مجھے سمجھ آئی کے قیافہ شناسی ایک زبردست علم ہے،اگر اس کے ساتھ علمِ بروج اور دست شناسی مل جائے تو انسان کا کچھ بھی چھپا نہیں رہتا، سِرّی علوم پر یورپ اور امریکہ میں تو آکلٹ سائنس کے نام سے ایک علیحدہ شعبہ بن چکا ہے ،اور اس پر بہت تحقیقات ہو رہی ہیں،ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی اب کوئی خواب کی بات نہیں رہی ۔تمھاری آفر کیا ہے ،میں ایک نتیجے پر پہنچ چکا تھا،میں چاہتی ہوں تم ہمیشہ کیلیے مجھ سے دوستی کر لو،میرے ساتھ رہو ساری زندگی،اور مجھے اپنی گرل فرینڈ بنا لو صرف میں اور تم ،اس کے بدلے میرا سب کچھ تمھارا ہو گا،میری دولت، میرا علم،میری جائیداد ، اور میں سب کچھ تمھارا ہوگا،میڈم آپ بہت بڑی آفر کر رہی ہیں لیکن آپ کی آفر کی بنیاد یہ ہے کہ میں آپ کو بذریعہ سیکس میں وہ خوشی دے سکتا ہوں جو دنیا کا کوئی اور مرد نہیں دے سکتا،کیونکہ بقول آپ کہ میری پاس نیچرلی وہ ہے جو دنیا میں کسی کسی کے پاس ہوتا ہے،تو ہوسکتا ہے آپ کا اندازہ غلط ہو یا یہ چیز مجھ میں ہو تو کل کو ختم ہو جائے،پھر کیا ہو گا ؟ کار ایک سائیڈ میں رک چکی تھی،میڈم بہت ہی سنجیدہ ہو چکی تھی،شہزادے یا تم جو بھی ہو میرا ندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا ،میں نے جنسیات میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے،لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے،میں ایک سیکس اسپیشلٹ ہوں،تم چاہو تو میں تمھیں کتابوں میں دکھا سکتی ہوں کہ تم میں جو ہے وہ کیا ہے اور کتنا نایاب ہے اور یہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے،یہ تمھارے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے تمھاری اندر تمھاری دوسری صلاحیتیں ہیں،یہ تمھاری سانسوں کیساتھ ہی ختم ہوں گی،اور یہ کوئی ڈیل نہیں ہے میں زندگی بھر کیلیے تمھاری طرف ہاتھ بڑھا رہی ہوں ،اس کیلیے اگر تم کہو تو میں اپنی ساری جائیداد تمھارے نام لکھ کر دے سکتی ہوں،میڈم نے بہت بڑی آفر کر دی،تم مجھے وہ بناؤ گی جو میں بننا چاہتا ہوں؟ میں نے جیسے شرط رکھ دی

ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (قسط پانچ)"