Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ناگن (قسط سات)

 

میں سمجھ گیا جوسلین کو میری ٹیچر پر بھروسہ ہے اور قابلیت پر اعتماد ہے ،شاید اس کی نظر میں ایسی ٹیچر کوئی اور نہ ہو،اسی لیے جوسلین ایک لڑکی کو میرے ساتھ برادشت کر رہی تھی،دوسرا سال شروع ہوتے ہی میں ٹیچر سے کھل گیا ،اور پہلے دن ہی موقع دیکھ کر اس کے گال پر چوما لے لیا،اسے جیسے جھٹکا لگا،اور گم سم سی ہو گئی،مجھےاعتمادتھا وہ میری کشش سے اب کہیں بھاگ نہیں سکتی،ٹیچر نے کچھ نہیں کہا اور وہ مجھے پڑھاتی رہی لیکن اس کے چہرے پر غصہ تھااس نے جوسلین سے تو کچھ نہیں کہا، لیکن مستقل میرے ساتھ اپنا رویہ کافی سخت اپنا لیا تھا، دوسرا سال شروع ہوتے ہی جیسے جوسلین نے میرا سارا پروگرام بدل دیا،اب مجھے ناولز کی بجائے وہ افسانے اور خشک ادبی کتابیں پڑھانے لگی،عصمت چغتائی ،منٹو ، انتظار حسین کا اداس نسلیں ،قرۃالعین کا آگ کا دریا ،اشفاق احمد ، کا سفر در سفر ،ایک محبت سو افسانے احمد ندیم قاسمی کا گنڈاسہ ،بانو قدسیہ کا راجہ گدھ رحیم گل کا جنت کی تلاش جوسلین کے اصرار پر مجھے پڑھنے پڑے آہستہ آہستہ ناولز کی بجائے مجھے ان کا چسکا پڑتا گیا،اب مارشل آرٹ کے ساتھ جوسلین نے خودمجھے یوگا کی تربیت دینی شروع کر دی ۔
میرے پاس اپنے لیئے وقت کم ہوتا تھا،چھ مہینےمزید گزرنے کے بعد میں نے بلیک بیلٹ حاصل کر لی۔اس دن جوسلین کافی خوش تھی اور اس نے مجھے ٹریٹ دی اور ہم دو دنوں کیلیے اس کی وسیع جاگیر پر پکنک منانے چلے گئے،وہاں ہر کوئی اس کے سامنے جھکتا تھا جوسلین وہاں کی ملکہ تھی تو میں وہاں کا پرنس تھا،ہم نے وہاں جاگیر میں خوب مزے کیئے اور پھر واپس ہو لیئے ، لیکن پھر ہر مہینے وہاں ویک اینڈ گزارنے لگے،ٹیچر سے آنکھ مچولی جاری تھی اس دوران میں نے کئی بار ٹیچر کی چومی لی اب وہ غصے کی بجائے بے حس بیٹھی رہتی ،جیسے وہ کوئی پتھر ہے میں اندر ہی اندر تلملانے لگا،اور اب میں نے رسک لینے کا فیصلہ کر لیا ،میں اگر کوئی موقع بناتا تو جوسلین سے چھپنا نہیں تھا ،میں کسی موقع کے انتظار میں رہنے لگا،باقی معمولات جاری تھے ۔
میں ایک دن جان بوجھ کر بات چھیڑ دی کے لڑکی کیسے پھنستی ہے ،تو جوسلین شروع ہو گئی ،میں اس کی یہ عادت جان گیا تھا بس اسے کوئی سوال دے دو اور وہ شروع ہو جاتی تھی ایک تو وہ عورت تھی دوسرا پروفیسر تھی اب بھی مجھے تجربے کا نچوڑ سننے کا ملنے لگا ، غور سے سنو پرنس کُوک شاستروں کا وقت چلا گیا ہے اب اس دنیا میں بس دو قسم کی لڑکیاں ہیں ، ایک وہ جو سیکس کرنا چاہتی ہیں یا کر چکی ہیں،اور دوسری وہ جو کچھ اصولوں پر اپنی زندگی گزارتی ہیں یعنی شادی وغیرہ،پہلی قسم کی لڑکیوں کو پھنسایا تو کئی طریقوں سے جاتا ہے ،لیکن ان سب کی بنیاد دو اصول ہیں ایک لڑکی اپنی بھوک مٹانے کیلیئےپھنستی ہے دوسرا پیسے کیلییے پھنستی ہے، جسے چودائی کی بھوک لگی ہے لیکن ابھی کچھ کیا نہیں ہے تو وہ کچھ وقت لے گی ۔
لیکن جس نے چودائی کی ہوئی ہےاور وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس سے چودائی آسان ہے ،دوسرے نمبر پر پیسے کے بدلے چودائی کروانا ہے اسے آپ کسی بھی گفٹ سے شروع ہو کہ کہیں بھی لے جاسکتے ہیں کوئی بھی نام دے سکتے ہیں،(موبائل بیلنس کی وبا کا اس وقت نام و نشان نہیں تھا )گر کوئی ان دو بنیادی باتوں سے نہیں پھنستی تو ایک ایک تیسرا طریقہ بھی ہے جو کہ منفی ہے اور وہ ہے،محبت کا فریب دینا، اس وقت یہی طریقہ عام ہے ،لڑکی سے اظہارِ محبت کرو اس کا اعتماد جیتو اور جب وہ آپ کے پیار میں اپنا آپ بھلا دے تو اس سے سیکس کرو جب تک اسے ہوش نہیں آجاتا ،جب ہوش آجائے کسی بھی وجہ سے تو اسے بھگا دو اور کوئی اور ڈھونڈ لو ،یا اسی پر نئی کہانی ڈال کر اپنا کام جاری رکھو جب تک ہو سکے ۔
اس سے بھی کوئی لڑکی تمھیں اپنے قریب نہ آنے دے جو کہ بہت کم ہوں گی تو اس سے شادی کا وعدہ کرلو،شادی ہر لڑکی کا خواب ہے،سو وہ شادی کے نام پر اپنا آپ اس کے حوالے کر دیتی ہے،اس طریقہ سے کوئی خا ص لڑکی ہی بچ سکتی ہے،اور اگر یہ بھی نہ ہو،یعنی ملتی تو ہےیا اس سے دوستی تو ہوگئی ہو لیکن ہاتھ نہیں لگانے دیتی تو ایسی میڈیسن آچکی ہیں،جوکسی جوس وغیرہ میں پلا دی جائیں تو آپ کے پاس بیٹھی لڑکی گرم ہو جائے گی اور اسے چھیڑنے سے وہ آپ کی جھولی میں آگرے گی،لیکن یہ بھی ایک زبردستی ہے،اس کے بعد جو طریقہ بچ جاتا ہے وہ ہے زبردستی بزورِ بازو عزت لوٹنا،یا کسی کمزوری سے لڑکی کو بلیک میل کرنا،صرف اسی سے آپ کہہ سکتے ہیں کہہ آپ نے لڑکی کو اپنی مرضی سے حاصل کیا ہے ،یاد رکھنا پرنس دنیا کا کوئی مرد یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ کسی بھی لڑکی کو پھنسا سکتا ہے ،لڑکی سیکس کی چاہت یا پیسے کی ضرورت میں خود پاس آتی ہے، آپ تو صرف اسے یہ بتاتے پیں کہ میں تمھاری سیکس کی یا پیسے کی ضرورت پوری کر سکتا ہوں۔
((،اس سلسلے میں اپنا بھی تجربہ بیان کرتا چلوں،ڈرائیور طبقہ ایسا ہے جو ہر قسم کے لوگوں سے ملتا ہے،،اور مڈل کلاس میں کہتے ہیں کہ 10 کنجر ہوں تو ایک پولیس والا بنتا ہے اور 10 پولیس والے ہوں تو ایک ڈرائیور بنتا ہے،(معذرت کے ساتھ)میں ایک خرانٹ ڈرائیور سے ملااس کا رینٹ اے کار کا کام تھا اس کے پاس اپنی کار تھی ،،آگے بات اسی کی زبانی اچھی لگے گی،باؤ جی تسی کہندے او کُڑی کیویں پھسدی اے،میں تہانوں ایک آودا واقعہ دسنا،، میرا کول سوزوکی کلٹس ہے سی،،تو او خراب ہوگئی،،اُتُوں شادیاں دا سیزن آگیا،،اک شادی وچ میرا اک یار بنیا سی،ساڈے شوق کٹھے سی۔
اوہندے کول ہنڈا گڈی سی نوا ،ماڈل ۔ 2012 ۔میں کہیا یار کجھ دن مینوں دے تیرے کول اینی گڈیاں کھڑیاں نے تینوں کی فرق پیندا اے،،تے میں شادیاں دا سیزن کما ،لاں گا،،اوہنے کہیا ،لے جا یار،،لو جی فیر جتھے لوگ ایکس ایل آئی دے 3000 لیندا سی اوتھے میں 6000 لین لگیا تے لوگ وی ہس تے دیندے سن،،کتھے ساڈی سوزکی کلٹس،،تے کتھے ایکس ایل آئی ،12 لاکھ دی تے کتھے ہنڈا 24 لاکھ دی،اک شادی میں چُکی تے 10000 منگے،،لاڑے نوں لے تے جانا سی،،راہ وِچ کجھ میری پرسنالٹی تے باقی کڈی نے او کم کیتا کے ووہٹی نظراں نظراں وچ میرے نال سیٹ ہوگئی،،فیر بادشاہو ،،اوہندی سفارش تےمکلاوے آلے دن وی اوہندا خصم مینوں ای لے تے گیا،،اوہنے آودے خصم دئے موبائل تُوں میرا نمبر لے لیا،،تے فیر،،،بادشاہو،،،،اوس کُڑی نُوں میں ایناہ ،وجایا کہ ایناہ ،اوہندے خصم نے نہ وجایا ہوئے گا۔
صاحب جی اگے دوستی ہوندی سی ،جذبات دے سر ،تے،،ہن ہوندی اے پیسے دے سر ،تے،،چنگے کپڑےۓ ،چنگی گڈی ،تے کڑی توہاڈی ،پر اوہنوں مال کھوانا پیندا اے بھانویں امیر گھر دی ہوے تے بھانویں غریب گھر دی ہوے ،)))۔
جوسلین نے اپنے بات ختم کر چکی تھی تو میں سوچنے لگا کی ٹیچر ان میں سے کون سی ہے لیکن مجھے اس کی سمجھ نہ آئی ،میں نے ٹیچر سے کئی بار بات کرنی چاہی کئی بار اسے نوٹ لکھ دیئے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی،نہ وہ میری شکایت لگاتی تھی نہ مجھے ہٹاتی تھی نہ میرے ساتھ چودائی پر رضامند تھی ،،،ایں میں سوچنے لگا اگر اسے برا لگتا ہے تو جوسلین کو بتا کیوں نہیں دیتی ،اچھا بھلا پڑھاتی ہے کافی پیسے کما لیتی ہے یعنی اسے کوئی مجبوری بھی نہیں تو پھر وہ اتنے عرصے سے یہ سب کیوں برداشت کر رہی ہے ،میرے اندر سےآواز آئی کہ وہ راضی ہے لیکن جوسلین سے ڈرتی ہے ،اور اس نے اپنے رویے کا نقاب مجھے حد میں رکھنے کیلیے لگایا ہوا ہے،مجھے ایک موقع چاہیے تھا ،جو مجھے مل نہیں رہا تھا،میں ایک دفعہ اس سے ملنے کوچنگ سنٹر بھی پہنچ گیا تھالیکن اس نے ایسا سخت رویہ اپنا یا کہ مجھے دوبارہ جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔
پھر یہ سال بھی گزر گیا ،اس بار میں نے کالج میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لی،مارشل آرٹ میں اب میں ماہر ہوگیا تھا اور کنگفو میرا پسندیدہ آرٹ بن گیا تھا،تیسرے سال جوسلین نے پھر میرا پروگرام بدل دیا اور اب مجھے سنجیدہ کتب پر مائل کرنے لگی،تاریخ ،عمرانیات ،اور فلسفہ میرے مضمون بن گئے ،ساتھ ہی سرگزشت جیسا ڈائجسٹ بھی میرے مطالعے میں رہنے لگا، اور اب ممتاز مفتی ،اور علیم الحق حقی کے بعد اب طاہر جاوید مغل بھی میرا پسندیدہ لکھاریوں میں سے تھا فلسفےسے تو میں نے جلد ہی جان چھڑا لی ،لیکن تاریخ اور عمرانیات سے مجھے لگاؤ ہوتا گیا کیونکہ اس سے انسان کی تہذیبوں،انسان کی نفسیات اور کردار کے بارے میں جاننے کا موقع ملنے لگا،انسانوں کے معاشرے کو سمجھنے کا موقع ملنے لگا،یوگا میں بھی اب میں ماہر ہونے لگا،سانسوں پر قابو پانے سے مجھے پتہ چلا کہ ہم تو سانس بھی صحیح طرح سے نہیں لے رہے ،اس میں سیکس کی طاقت کو برقرار رکھنے اور جسم کو جوان رکھنے کے کئی آسن تھے جن پر اب میں عبور حاصل کرتا جا رہا تھا،ساتھ ہی ساتھ اب کشتہ مروارید اب میرے جسم کا حصہ بن گیا تھا۔
ذہنی تربیت کیلیے جوسلین نے اب میرے ساتھ شطرنج کھیلنی شروع کر دی،پرنس یہ کھیل کھیلوں کا بادشاہ ہے جتنی کتابیں اس کھیل پر لکھی گئی ہیں اتنی کسی اور پر نہیں لکھی گئی،اس میں چونسٹھ خانے ہوتے ہیں اور ہر کھلاڑی کو 16 ،16 گوٹیاں ملتی ہیں،ان میں آٹھ پیادے اور 2 فیلے یعنی ہاتھی،2 رخ یعنی توپ 2 گھوڑے اور ایک وزیر ایک بادشاہ ہوتا ہے ،یورپ میں فیلے کو بشپ اورتوپ کو قلعہ کہتے ہیں ،اور ان کے ہاں وزیر کی جگہ ملکہ ہوتی ہے اور اس کے ساتھ بادشاہ ہوتا ہے کھیلنے کا طریقہ ایک جیسا ہے،گھوڑا ہمیشہ ڈھائی چال چلتا ہے اور وزیر جہاں تک رستہ صاف ملے چال چل سکتا ہے اسی طرح فیلا اور توپ بھی جہاں تک جہ صاف ملے یعنی درمیان میں کوئی گوٹی نہ ہو ،فرق صرف یہ ہے کہ وزیر ترچھا اور سیدھا دونوں چالیں چل سکتا ہے جبکہ فیلا ہمیشہ ترچھا چلتا ہے اور توپ ہمیشہ سیدھی چلتی ہے ،اسی لیے کہتے ہیں کہ ایک توپ اور ایک فیلا مل کہ ایک وزیر کے برابر ہوتے ہیں ،کھیل کے قوانین تو تمھیں آہستہ آہستہ سمجھ آجائیں گے لیکن جو بات میں تمھیں ابتدء میں ہی ایک بات سمجھانا چاہتی ہوں۔
شطرنج بنانے والے کے بارے میں ایک کہاوت کچھ یوں ہے کہ جب شطرنج بنانے والے نےشطرنج بنا لی تو اسے وقت کے بادشاہ کے پاس لے گیا ،بادشاہ اور اس کے وزیر اور درباریوں نے جب یہ کھیل دیکھا تو دنگ رہ گئے اور بنانے والے کی عقل کو خوب داد دی ،بادشاہ ترنگ میں آگیا اور شطرنج کے موجد سے کہا کہ مانگو جو مانگتے ہو ہم تمھیں عطا کریں گے،تم نے ہمیں بےحدخوش کیا ہے اور ایک بےمثال کھیل ایجاد کیا ہے ،اس نے کہا بادشاہ حضور آپ کی داد ہی میرے لیے سب کچھ ہے ،مجھے کچھ نہیں چاہیے لیکن بادشاہ آخر بادشاہ تھا وہ یہ کیسے برداشت کرسکتا تھا اس نے بڑا اصرار کیا تو شطرنج کے موجد نے کہا کے اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو شطرنج کے چونسٹھ خانوں میں سے پہلے خانے میں ایک چاول ر کھیں اور اسے ہر خانے میں دوگنا کرتے جائیں ،آخری خانے میں جتنے چاول ہو جائیں وہ مجھے دے دیں ،بادشاہ اس کی اس معصوم خواہش پر ہنستا ہے اور وزیر کو کہتا ہے کہ اس کی خوہش ابھی پوری کی جائے،وزیر کچھ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ریاضی دانوں کو بلوا کر حساب لگواتا ہے کے آخری خانے تک کل کتنے چاول بن جائیں گے،پہلے 15 خانوں تک تو سب آرام سے گنتے ہیں لیکن جب 16 خانے میں پہنچتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی خطرناک کام میں ہاتھ ڈال دیا ہے اس سے آگے حیران کن حد تک حساب مشکل سے نا ممکن کی طرف چلا جاتا ہے۔
وزیر بادشاہ کے حضور پیش ہوتا ہے ،حضور ِوالا ہمارے ملک کے تما م چاول اور ہمسایہ ملکوں کے چاول بھی یہ شرط بمشکل پوری کرسکیں گے،بادشاہ سن کر حیران ہوجات ہے لیکن ریاضی دانوں کو بھی غلط نہیں کہہ سکتا ،بادشاہ کو تب پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی ایک شطرنج کی چال تھی،ہم تمھاری اس بات سے بھی خوش ہوئے ،آخر بادشاہ شاہانہ انداز میں کہتا ہے ،تمھیں اس سوال پر بھی انعام دیا جائے گا،اور بادشاہ اسے بھاری انعام اور جاگیر عطا کرتا ہے ۔ تو پرنس شطرنج سیکھو مگر کھیل نہیں بلکہ شطرنج کو اصلی زندگی میں لے آؤ،جیسے ایک اداکار عام زندگی میں بھی ایکٹنگ کرتا ہے اور لوگ اسے سچائی سمجھتے ہیں ، ایسے ہی عام زندگی میں بھی یہ کھیل کھیلو،یاد رکھنا اس کھیل میں تکے کی کوئی گنجائش نہیں ہے،یہ تمھاری ذہنی صلاحیت پر ہے کے اس میں کتنا کامیاب ہوتے ہو،ہم دن میں میں 15 ،20 بار تو یہ کھیل کھیلتے،اور میں ہارتا رہتا،ایک ہفتے بعد میں جوسلین سے گیم جیت گیا،پھر بازی پھنسنے لگی،کبھی وہ کبھی میں جیت جاتا،،،پھر میں ہی جیتنے لگا ،اب مجھے خواہش ہونے لگی کہ کوئی کھلاڑی ہو جس سے بازی پھنسے ،میں نے کچھ کھلاڑی ڈھونڈ لیے اور بازیاں جمنے لگی ،جوسلین یہ سب دیکھ رہی تھی،پھر اس نے ایک دن مجھے پکڑ لیا ،پرنس میں نے تم سے کہا تھا اس کھیل میں ماہر نہیں ہونا ،اس کھیل کے ذریعے مائنڈڈ گیم ،ذہنی جنگ میں ماہر ہوناہے ،بڑی مشکل سے شطرنج کا نشہ ٹوٹا اور میں زندگی کی طرف لوٹ آیا،ٹیچر سے میری آنکھ مچولی بدستورجاری تھی اور وہ بھی اپنی جگہ پر جمی ہوئی تھی ،مجھے اس کے ساتھ تیسرا سال تھا۔لیکن ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پایا تھا،اب تو میرے حوصلے بڑھ گئےتھے اور میں اس کی چومیوں کے ساتھ اس کی ممے بھی پکڑ کے مسل دیتا تھا ،لیکن پتہ نہیں ٹیچر کس مٹی کی بنی تھی ،وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی تھی،یہ سال بھی گذر ہی گیا ۔
میں نے پھر فرسٹ کلاس پوزیشن لی ،اب چوتھا سال شروع ہو گیا،پروگرام پھر بدل گیا،جیسے ہر سال کیلیے علیحدی علیحدہ سلیبس ہو،اب کی بار جوسلین نے نفسیات پڑھانی شروع کر دی ،وہ اس مضمون میں ڈاکٹر تھی اور سب سے بہتر تھی ،مجھے بھی اس کا کب سے انتظار تھا،اب نفسیات کی کتب ،انسانوں کو پڑھنا ،معاشرے کو سمجھنا ، عورتوں کو سمجھنے لگا،جوسلین نے مجھے قیافہ شانسی پر لگا دیا ،میں پے درپے انسانوں کا مطالعہ کرنے لگا علوم کوعملی طور پر آزمانے لگا،میں ایک جہانِ حیرت میں پہنچ گیا ،ارے یہ کیا اس حمام میں تو سب ننگے ہیں،مارشل آرٹ میں بلیک بیلٹ 1 ڈان کی تیاری کرنے لگا تھا،پڑھائی پھر یوگا،یہ سال بہت ہی مصروف گزرا ،کسی بات کی ہوش نہیں رہا تھا،ٹیچر سے بھی چھیڑا چھاڑی کم ہو گئی تھی،فرسٹ کلاس پوزیشن کے بعد مجھے ہوش آیا ،اس دوران میں بلیک بیلٹ 2 ڈان کر چکا تھا ،یوگا فائنل ہوچکا تھا اور قیافہ شناسی میں ماہر ہو چکا تھا ، ،( فیس ریدنگ اور باڈی لینگوج سے انسان کو پڑھنا اور جاننا )،عورتوں کے بارے کافی کچھ جان چکا تھا اب تک میں سیکس کی تھیوری اور پریکٹیکل میں ماہر ہوچکا تھا،رزلٹ آگیا اور حسبِ معمول میں فرسٹ کلاس پوزیشن میں تھا،مجھے جوسلین کے پاس چار سال گزر گئے،اس وقت میں 19 سال کا ہوگیا تھا ۔اس دوران میں کیا سے کیا بن گیا،کئی علوم میں ماہر بن گیا،اس دوران میں نگینہ کو ایک پل بھی نہ بھول نہ سکا ،میں نے کئی بار کچھ وقت نکال کر ان کو تلاش کرنے کی کوشش کی ،لیکن نگینہ وہ مکان کب کا چھوڑ چکی تھی اور اب اس کا کچھ پتہ نہیں تھا،جوسلین یہ کام کرسکتی تھی لیکن پہلے پہل احتیاطً اور پھر اس کا رویہ دیکھ کر میں نے اسے اس راز میں شامل نہیں کیا،مجھے یہ بھی خیال تھا کہ دلآویز سے میرا تعلق دیکھ کر کہیں جوسلین رقابت میں نہ پڑ جائے۔
اب میں فلیٹ میں تنہا ہی ہوتا تھا ، اسلیے نگینہ کو دھونڈنے نکل جاتا ،سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا، کالونیوں میں تانک جھانک کرتا ،لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا،جب جوسلین یونیورسٹی سے آجاتی تو میں بھی فلیٹ پر پہنچ جاتا،اور پھر سارا وقت اکٹھے ہی گزرتا،ٹیچر بھی ان دنوں آنا بند کر چکی تھی اپنی تماتر کوشش اور کشش کے باوجود میں اسے چود نہ سکا،میں جو جوسلین سے سیکھتا وہ ٹیچر پر آزماتا لیکن وہ ہاتھ نہ آنی تھی اور نہ ہی آئی ،میں اس نتیجے پر پہنچا تھا ک ٹیچر پر میری کشش جتنی بھی اثر انداز ہو لیکن اس پر جوسلین کا اثر مجھ سے زیادہ تھا ،،یہ بھی طے ہوچکا تھا کہ میں پھنسا تو ٹیچر کو رہا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ میرا مقابلہ جوسلین سے تھا ،اور جوسلین میری استاد تھی ،جب تک اس کی مرضی نہیں تھی میں ٹیچر کو حاصل نہیں کر سکتا تھا ۔
بلکہ کسی کو بھی حاصل نہیں کرسکتا تھا ، اب ٹریننگ اور پڑھائی رک سی گئی تھی اور میں اگلے پروگرام کا منتظر تھا ،لیکن جوسلین کے ارادے کچھ اور ہی تھے،وہ چپ چاپ تھی ،جوسلین میری جان آگے کا کیا پروگرام ہے ،،،یہ تو تم بتاؤ گے پرنس کہ تمھارا آگے کا کیا پروگرام ہے،جوسلین میں جو چاہتا تھا وہ تم نے مجھے بنا دیا ،لیکن میں اس مقام پر خود کو ادھورا محسوس کرتا ہوں کیونکہ میرے سامنے تمھاری مثال ہے میں تم جیسا جینئس بننا چاہتا ہوں ،استاد سے آگے کا درجہ چاہتا ہوں،مجھے پتہ نہیں ہے لیکن مجھے کچھ اور چاہیئے ،،میں تمھارے اگلے پروگرام کا منتظر ہوں ،میں نے جوسلین کے ہاتھ پکڑ لیا تھے ،اور میری محبت کی گرم جوشی میں وہ ہمیشہ کی طرح پگھل گئی تھی،پرنس تمھیں وہ سب سکھا دوں گی جو تم چاہتے ہوں ،لیکن اب تک تم نے جو سیکھا ہے تمھیں اس کا ٹیسٹ دینا پڑے گا،تمھیں ثابت کرنا پڑے گا کہ تم اب استاد ہو،اس سے تمھیں تجربے کا حصول ہو گا ،یوں سمجھ لو کہ اس ٹیسٹ سے تم تجربہ حاصل کرنے کا سفر شروع کرو گے،تم نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے لیکن تم باہر کی دنیا میں یہ آزمایا نہیں ہے ،کیونکہ میں نے تمھیں اپنے ساتھ ہی رکھا ہے ،اور اب وقت آگیا ہے کہ تم باہر دنیا کے سامنے اپنا آپ آزماؤ تا کہ تم جان سکو کہ تم کیا بن چکے ہو،یاد رکھانا پرنس،ہر تھیوری پریکٹیکل کے بغیر ہے ،دنیا میں تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ،اور تمھیں اب تھیوری سے تجربے کی طرف قدم بڑھانا ہے ،اب تم ٹیسٹ کیلیے تیار ہو جاؤ،میں کسی بھی وقت تم سےٹیسٹ لے سکتی ہوں،
میں ذہنی طور پر خود کو تیار کرنے لگا ،جوسلین نےٹیسٹ لینا تھا تو یقیناً کوئی انتہائی ٹیسٹ ہی ہونا تھا،میں نے بہت سے موضوعات پر سوچا ،کئی باتوں کی طرف دھیان دیا ،یہ بھی طے تھا کہ عملی ٹیسٹ ہی لے گی ،سو میں نے کئی ممکنہ ٹیسٹ سوچے اور ان کو جواب تیار کیا،اور میرا ذہن کچھ اطمینان حاصل کرنے لگا،اسی ادھیڑ بن میں دو دن گزر گئے تھے ،تیسرے دن کافی جلدی مجھے جوسلین نے اٹھا دیا،سردیوں کے دن تھے ابھی صبح بھی رات کا حصہ ہی لگ رہی تھی اس وقت تو بستر سے نکلنے کو با لکل دل نہیں کرتا ،لیکن جوسلین سنجیدہ تھی،مجھے اٹھنا ہی پڑا ،میں عادت کے مطابق نہانے لگا تو جوسلین نے منع کر دیا،میں پاس پڑے کپڑےپہننے لگا جو رات کو اتارے تھے اور جوسلین نے مجھے ایک چٹ پکڑا دی اس پر ایک ایڈریس لکھا تھا ، پرنس یہاں ایک ہی گھر میں چار لڑکیاں رہتی ہیں ،چاروں آپس میں سگی بہنیں ہیں ،تمھیں ان چاروں کو ان کی مرضی سے چودنا ہے ،تمھارے پاس صرف دو دن اور دو راتیں ہیں ،تیسرے دن اسی وقت تمھیں میرے پاس ہونا چاہیئے ، جوسلین کی بات سے مجھے اچھا بھلا جھٹکا لگا

ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (قسط سات)"