Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ناگن (قسط نو)

 


صبح مجھے کسی نے نہیں اٹھایا لہذا میں سوتا رہا اور تقریباًدس بجے اٹھا ،باہر نکلا تو سب کچھ حسبِ معمول تھا،مولوی آرام کررہا تھا اور باقی اپنا کام کاج،باتھ روم سے ہوکر منہ ہاتھ دھویا تو شازیہ نے چپ چاپ ناشتہ میرے آگے لا کر رکھ دیا،نازیہ مجھے سے برگشتہ ہوچکی تھی صاف دکھ رہا تھا ،پراگندا خیالات کے ساتھ ناشتہ تو کر لیا،لیکن ذہن جیسے ایک ہی نکتے پر رک گیا تھا کہ یہ لڑکیاں چودائی کیلیے راضی نہیں ہیں،بلکہ ان کو سیکس کاہی کچھ پتہ نہیں ہے،اوپر سے ان کا اسٹوپڈ ماحول ایسا پتھر تھا جس سے سر پٹک پٹک کر مرجائیں لیکن یہ ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہو، مجھے ان کے ماحول پر غصہ بھی تھا اور مایوسی میں جھلاہٹ بھی تھی،اب میں نے پھر ان کے جسموں کو گھورنا شروع کر دیا اب میں بے باک تھا ،میں نے ان کو ذومعنی باتیں بھی کیں،،کچھ فحش اشارے بھی کر دیئے ،جو کہ میری سرشت میں نہیں تھا،لیکن ان میں سے کسی نے کوئی ایسی بات نہ کی جس سے مجھے تھوڑی سی بھی امید ہوتی، دوپہر تک میں ان کی ماں سے گپیں مار تا پھر مولوی آیا ،،آج جمعہ تھا وہ جلدی نکل گیا تھا اور اب بھی دیر سے آیا تھا تو کھانا کھاکرمولوی اپنے کمرے میں لیٹ گیا اور میں بھی دوسرے کمرے میں آکر لیٹ گیا،میں مایوس ہوچکا تھا،،مایوسی میں عجیب عجیب خیالات آرہے تھے،جوسلین نے مجھ پر کتنا پیسہ لگایا ،کتنی مجھ پر محنت کی ،اور مجھے کیا سے کیا بنا دیا،لیکن میں نے فیل ہو کر اس کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا، ایسے ہی سہہ پہر ہوگئی ،شاید مولوی پھر آگیا تھا ،،لیکن میں باہر نہ نکلا ،میں کبھی مایوس نہیں ہوا تھا نہ کبھی ہارا تھا ،،لیکن آج میں ہار رہا تھا جیسے جیسے دن ڈھل رہا تھ ااور شام قریب آرہی تھی،میری دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں میرے چہرے پر ناکامی لکھی جا رہی تھی ۔پتہ نہیں کون کون سے خیالات میرے ذہن میں آتے گئے،ایسے میں ایک سوچ یہ بھی آئی ،کہ اگر یہ سیکس نہیں کرنا چاہتی تو مجھے جوسلین نے یہاں کیوں بھیجا ؟ کیا اس نے مجھے ایسے لوگوں میں پھنسایا ہے جو میری ہار کا سبب بنے یا اس نے مجھے مشکل ٹارگٹ دیا ہے؟ ذہن نے جواب دیا کہ اگر ان لڑکیوں نے سیکس کرنا ہی نہ ہوتا تو وہ مجھے یہاں بھیجتی ہی نہ،میں جوش میں اٹھ بیٹھا۔
اس خیال نے مجھ میں نئی امنگ پیدا کر دی،،میں پھر سے ترتیب سے سوچنے لگا،مفروضے بنانے لگا،اگر لڑکیاں سیکس کو جانتی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں،تو پھر وہ سیکس سے کسی طرح متاثر ہو رہی ہیں،،،تو وہ سیکس سے کہاں سے متاثر ہو رہی ہیں ،ذہن نے سوال کیا،؟ الیکٹرانک میڈیا کا کوئی ذریعہ تو گھر میں ہے نہیں جس سے باہر کی دنیا سے گھر میں کچھ آئے،پرنٹ میڈیا ہو شاید ،میں نے ان کے بستروں اورسرہانوں کو اچھی طرح دیکھا،جستی پیٹی اور اس پر پڑے ٹرنکوں کو دیکھا،لیکن وہ سب لاک تھے،نہیں پرنٹ میڈیا بھی نہیں ہو سکتا،مولوی کی سختی اور ان کا ڈر میرے سامنے آگیا،تو پھر ان کی کوئی دوست اور ہمسائی بھی نہیں ہوگی،ان کے ماحول میں اور مولوی کی بادشاہت میں سب ناممکن تھا،ہو نہ ہو اگر وہ سیکس سے متاثر ہیں،تو وہ چیز ان کو گھر میں ہی مل رہی ہے،میرے ذہن میں جھماکا ہوا،کہیں یہ مولوی اور اس کی بیوی کا سیکس تو نہیں دیکھتیں،یہ ممکن تھا ،اور اس سے مولوی لا علم بھی ہو گا،کل رات مجھے مولوی کے کمرے میں کیوں نہیں سلایا گیا،؟ یہ حکم مولوی نے دیا ہو گا،اس کی مرضی کے علاوہ گھر میں ایسا کوئی نہیں تھا جو مجھے اس کمرے میں سونے کی اجازت دیتا،اب مجھے سمجھ آنے لگی کہ مولوی بیوی سے چودائی کرنے کیلیے مجھے لڑکیوں کے کمرے میں سونے دیا،یہیں ایک بات ہے جو اس کے خیالات کو روک سکتی تھی،اس کامطلب ہے مو لوی ناغہ نہیں کرتا ہو گا، ویسے بھی مولوی کا کوئی بیٹا نہیں تھا ،تو لازماً وہ چار بیٹیوں کے بعد مزید کوشش تو کرتا ہو گا،جو کہ اب تک بارآور نہیں ہوئی تھی ،کیونکہ چوتھی لڑکی کے بعد سے مولوی کی بیوی کو بریک لگے ہوئے تھے ،، تو یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکیاں کو مولوی کی چودائی کی بھنک پڑ گئی ہو۔
دن میں بھی مولوی قیلولہ کرتا ہے اور مولوی کی بیوی اس کے ساتھ ہوتی ہے، لڑکیاں اس معمول کی عادی تھیں ،یعنی یہ کتنے عرصے سے جاری ہے ،دن میں کچھ دیکھ لیا ہو،اسی مفروضے کو بڑھا کر میں مختلف آپشن پر غور کرتا رہا،،اگر لڑکیاں سیکس پر مائل ہیں تو،،،،، مولوی کے علاوہ لڑکیوں کو اور کہیں سے انسپائریشن(متاثرہونا ) نہیں مل رہی یہ میں طے کرچکا تھا،،،وہ کہاں سے دیکھتی ہیں،؟ ذہن نے سوال کیا،،میں باہر کا منظر ذہن میں لا کے دیکھنے لگا،،باہر سے یہ ممکن نہیں تھا،مولوی نے اس بات کا خیال رکھا ہوا تھا، ونڈو اور دروازے کے اندر کی طرف پردے لگے ہوئے تھے ،جس کا مولوی جیسا شخص خیال رکھتا ہو گا،،پھر وہ جو کرتی ہیں وہ اسی کمرے میں کرتی ہیں،میں اچھل کر کھڑا ہو گیا،سامنے وہ دیوار تھی جو مولوی اور لڑکیوں کے کمرے کی مشترکہ دیوار تھی،اسمیں کوئی اینٹ نکلتی ہوگی،میں پرخیال نظروں سے بغیر پلستر کی دیوار کو دیکھنے لگا، لڑکیوں نے کمرے میں کیا آنا تھاوہ تو مجھ سے دور رہنا چاہتی تھیں ،،،میں نے لڑکیوں کے قد کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کئی اینٹوں کو دبایا لیکن مجھےکوئی سرکتی اینٹ نہ ملی،پھر میں نے نچلی لائین سے شروع ہو کر ایک ایک اینٹ دیکھنے لگا،21 لائینوں تک میں نے ایک ایک اینٹ دبا کر دیکھی ،لیکن کچھ نہ ملا،پھر میں نے احتیاطً ہاتھ اونچے کر کے کچھ اوپری لائنیں بھی دیکھ ہی لیں ،مجھے سارا مفروضہ ریت کی دیوار محسوس ہوا،پھر میں آخری کوشش کے طور پر دیوار پر لگے شیشے کے پیچھے دیکھا ،لیکن وہاں بھی کچھ نہیں تھا۔
پھر میں پیچھے پٹا اور ساری دیوار کودیکھنے لگا،اور میری نظریں لکڑی کی میخ پر آٹکی،وہ کوئی باقاعدہ میخ نہیں تھی،بلکہ جلانے والی لکڑی سے علیحدہ کی گئی تھی،اور کافی موٹی میخ تھی جبکہ یہاں ایک معمولی سے کیل سے بھی کام چل سکتا تھا ، لیکن غربت کے ماحول میں وہ چل رہا تھا ،میں نے دروازے کی طرف دیکھا اور جو کہ ا س دیوار کے ساتھ ہی تھا،پھر میں نے میخ کو کھینچا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، میخ آرام سے میرے ہاتھ میں آگئی،اور دیوار میں اینٹوں کی درز کے درمیان ایک بڑا سا سوراخ موجود تھا میں نے جلدی سے اس میں سے جھانکا،سامنے ہی مولوی کا بستر تھاجس پر وہ سوتا تھا بلکہ تقریباً اس طرف کا پورا منظر واضح تھا مولوی کے ساتھ ہی اس کی بیوی کی چارپائی تھی،میں نے جلدی سے میخ واپس لگا دی اور شیشہ بھی میخ پر لٹکا دیا،اس پرکنگھی اور سرسوں کے تیل کی شیشی تھی وہ بھی دوبارہ رکھ دی،اور آرام سے آکر بستر پر لیٹ گیا،لڑکیاں کبھی بھی میرے ہاتھ نہیں آنی تھی،،اور سب سے بڑی رکاوٹ ان کے خیالات تھے،گھر کا ماحول تھا،اور مولوی تھا،لیکن مولوی کو نہیں پتہ تھا کہ وہ خود ہی اپنی ہر بات کی کاٹ کر رہا ہے ،،اب مجھے رات کا انتظار تھا،،،شام تو ہو ہی گئی تھی،رات کو کھانے کا وقت ہوا تو میں ے کم کھانا کھایا ،اور بہانہ کیا کہ میری طبعیت کچھ سست ہو رہی ہے ،میں بس آرام کرنا چاہتا ہوں،،مجھے بہت نیند آئی ہے، میں نے ایک ہاتھ منہ پررکھ کر لمبی سی جمائی لی،میں جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا اور اچھی طرح رضائی لپیٹ لی،کچھ ہی دیر میں مجھے نیند آگئی ،اور پھر میں گہری نیند میں چلا گیا،،سردیاں ویسے بھی بڑی پڑ رہی تھی،،شاید دس بجے ہوں گے اور ابھی سے لگ رہا تھا کہ جانے رات کتنی ہوگئی ہے ،،پھر عائشہ اپنے بستر سے نکلی اور میری طرف محتاط نظروں سے دیکھا،میں تو ہلکے ہلکے خراٹے لے رہا تھا،،،اورکب سے گہر ی نیند میں تھا،،شازیہ نے دیوار سے شیشہ اتارا اور آرام سے نیچے زمین پر دیوار سے ٹکا کر رکھ دیا،پھر میخ نکالی اور اس موری سے مولوی کے کمرے میں دیکھنے لگی۔
میخ اس کے ہاتھ میں ہی تھی،اس نے میخ آرام سے نیچے رکھ دی،اتنے میں نازیہ پھر سعدیہ اور رافعہ بھی اٹھ بیٹھی ،،،میں آنکھ کی معمولی سے جھری میں سب دیکھ رہا تھا،کتنی دیر سے میں مورچہ جمائے بیٹھا تھا،اور اب شکار کو سامنے دیکھ کر میرا دل بلیوں اچھلنے لگا تھا،چاروں لڑکیاں باری باری اس موری سے دیکھنے لگی،،پھر شازیہ نے نازیہ کے ممے پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے کسنگ کرنے لگی،اور سعدیہ بھی رافعہ کے ساتھ کسنگ کرنے لگی،،وہ باری باری سوراخ سے دیکھتی تھیں اور ایکدوسرے کو چھیڑتی تھیں،،پھر انہوں نے اپنی قمیضیں اتار دی اور برا اتار کر ممے چوسنے لگی،،،جو ممے چوستی اس سے دوسری سوراخ سے دیکھتی،،،چار جوانیاں میرے سامنے ننگی تھیں ،میری آنکھیں پوری کھل گئی تھیں لیکن اب لڑکیوں کو میرا کوئی خیال نہیں تھا، میں بے آواز چارپائی سے اترا ،لڑکیوں کا دھیان سوراخ اور ایکدوسرے کی طرف تھا ان کی پشت ہی میری طرف تھی،میں نے اپنے کپڑے اتارے اور ننگا ان کے پیچھے جا کھڑا ہوا،اچانک جیسے انہیں میری موجودگی کا احساس ہوا،اور سب سے پہلے شازیہ ہی مڑی ،،،مجھے دیکھ کر انہیں جیسے سکتہ ہوگیا،جبکہ نازیہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا،شاید وہ چیخنے لگی تھی،،وہ انتہائی حیرانگی سے مجھے دیکھ رہی تھی،اور اب اچانک انہیں میرے ننگے ہونے کا احساس ہوا،،تو انہیں بڑا زور کا جھٹکا لگا، میں نے آگے بڑھ کے سوراخ سے دیکھا مولوی جوش و خروش سے لگا ہوا تھا ،، بڑی بہن ہونے کے ناطے ان کی لیڈر شازیہ تھی،میں نے شازیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے خود سے لپٹا لیا،میرا عضو اسے چھو رہا تھا ،،وہ کچھ کہہ نہیں سکتی تھی،نہ چلا سکتی تھیں ،وہ اپنی پوزیشن سمجھتی تھیں ،،،شازیہ جو دیکھ دیکھ کر تم ترس رہی ہو وہ میں تمھیں دے سکتا ہوں ،،اگر تم نے یہ موقع ضائع کرد یا تو ساری عمر ترستی رہو گی جانے کب تمھاری شادی ہو۔
اپنے اور اپنی بہنوں پر رحم کھاؤمیں نے اس کے کان میں سرگوشی کی،،،میرا جسم اس سے لگا ہوا تھا اور میرے ہاتھ اس کے مموں پر تھے جو اس دوران چھیڑ خانی شروع کر چکے تھے،،کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں تھی،،،شازیہ تو پہلے ہی بھڑکی ہوئی تھی،،اب اس کے سامنے ایک مضبوط عضو اور جوان لڑکا تھا جو کہ اس کا ہم عمر ہی تھا،وہ ابا کو پتہ چلے گا تو بہت مارے گا،شاید قتل ہی کر دے ،شازیہ نے کچھ تو کہنا ہی تھا،،،شازیہ ابا اپنے کام لگا ہوا ہے او ر پھر وہ مدہوش ہو کر سو جائے گا،اگر اسے اب تک سوراخ کا پتہ نہیں چلا تو ہمارا بھی پتہ نہیں چلے گا،دنیا سوئی ہوئی ہے اور ہم کمرے میں بند ہیں ،کسی کو کیا پتہ کے اندر کیا ہورہا ہے،میں نے شازیہ کے کان میں سرگوشی کی،میرے ہاتھ اس دوران اس کے مموں کو مسل رہے تھے ،،،اور عضو اسے بے چین کر رہا تھا،اس دوران دوسری بہنیں ہماری طرف ہی متوجہ تھیں کہ کیا فیصلہ ہوتا ہے،،،میں نے شازیہ کے چہرے کے سامنے اپنا چہرہ کیا،،،اس کے ہونٹ کپکپائے اور پھر ہم نے ہونٹوں کو ہونٹوں سے جوڑ دیا،،،شازیہ کو سیکس کا کچھ پتہ نہیں تھا وہ اناڑی تھی ،، بلکہ ساری بہنیں ہی اناڑی تھی ابھی جب وہ آپس میں چوماچاٹی کر رہی تھیں تو یہ بھی لیسبن نہیں تھا بلکہ وہ صرف مولوی کی نقل اتار رہی تھیں،میں نے شازیہ کو ساتھ لگا لیا،میرا عضو اس کی چوت سے لگ رہا تھا اور میرے ہاتھ اس کے ممے کو مسل رہے تھے اور ایک ہاتھ میرا اس کی گانڈ پر تھا،نازیہ پیچھے سے مجھے لپٹ گئی تھی،،او رمیری کمر چوم رہی تھی،اس کی دیکھا دیکھی سعدیہ اور رافعہ بھی مجھے چوما چاٹی کرنے لگی،،،،میں نے تو کبھی دو لڑکیوں سے اکٹھی چودائی نہیں کی تھی یہاں تو دو نہ شُدچار شُد ہو گئیں تھیں، میں نے سوچا ان کے درمیان چُوں چُوں کا مربّہ بننے سے بہتر ہے ایک ایک سے آرام سے نپٹا جائے،اس دوران دوسری جو کرتی ہے وہ کرتی رہے۔
شازیہ گرما گرم تھی،اسے تیاری کی ضرورت نہیں تھی میں نے سوچا اسےچودا جائے،ویسے بھی کل سے ان کے بارے میں سوچ سوچ کے اب میرے اند آگ جل رہی تھی،میں چارپائیوں کی طرف دیکھا وہاں چودائی مناسب نہیں تھی اور مزہ بھی نہیں آنا تھا،نازیہ ،،،جی،،،،نیچے چٹائی بچھا دو اور اس پر گدے بچھا دو ،ساتھ رضائی بھی رکھ دو ہم چاروں کا یک ہی بستر بنا لو،صبح اٹھا لیں گے،،نازیہ میری بات سمجھ گئی،،میں نےسعدیہ کو اشارہ کیا تو اس نے میخ واپس لگا دی اور شیشہ لٹکا دیا،کنگھی رکھنے کے بعد سرسوں کے تیل کی شیشی میں نے نیچے ہی رکھنے کا اشارہ کیا،شازیہ مجھے چومتی جارہی تھی،،،میں نے اس کے ہاتھ میں اپنا عضو دے دیا،اسے جھٹکا سا لگا مگر اسے پتہ لگ گیا کہ اس کے ہاتھ میں کیا ہےعضو پکڑے شازیہ مجھے چومنے لگی،،میں نے اس کاہاتھ پکڑ کر مٹھ مارنے کا طریقہ بتایا اور اسے کام پر لگا دیا،،اس سے شازیہ کا درجہ حرارت بڑھتا گیا،نازیہ نے بستر بہت اچھا بنایا تھا اس نے دوگدے/سرہانے ساتھ ساتھ ڈال دیئے تھے اور اس پر دو رضائیاں رکھ دی تھیں لیکن سردی کے باوجود ہمیں سردی کا احساس تک نہ تھا سعدیہ ایک کپڑا لانا جس سے کچھ صاف کیا جاسکے میں نے شازیہ کو لیکر بستر کے درمیان میں بیٹھتے ہوئے کہا،اور شازیہ کو لٹا دیا،میرے اندر تو آگ بھڑکی ہوئی تھی ،جیسے ہی شازیہ لیٹی میں نے اس کی شلوار پکڑ کر کھینچی اور نیچے کر دی،،،شازیہ اس کیلیے تیار نہیں اس نے ٹانگیں اکٹھی کر لیں،میں اس کے ساتھ لیٹ گیا،شازیہ شرماؤ مت،یہ تو پیار کی ابتداء ہے،ہم نے ابھی یک جان ہونا ہے،میرے سامنے حسین جوانی ننگی پڑی تھی ا سکے کچے ممے مجھے بلا رہے تھے ، میں نے اس کے اوپر لیٹ کر اس کے ممے چوسنے شروع کر دیئے،،اور عضو اور اس کی چوت پر رگڑنے لگا۔
شازیہ حسین تھی،بلکہ چاروں بہنیں ہی حسین تھیں گدڑی میں لعل چھپا ہوا تھا،ان میں نازیہ تو کمال تھی ،،چاروں بہنیں دبلی پتلی تھیں بس سعدیہ کا جسم تھوڑا فربہی مائل تھا ،لیکن وہ اس میں بھی خوبصورت لگتی تھی، ،،چاروں کی رنگت گوری تھی،اور یہ حسن انہیں اپنے والدین سے ملا تھا ،،شازیہ اور نازیہ کے نین نقش ذراتیکھے تھے ،جبکہ سعدیہ کا چہرہ گولائی نما اور رافعہ الھڑ جوانی ،اٹھتا طوفان تھوڑا لمبوترا چہرا تھا جس کا اپنا ہی حسن تھا،ہوسکتا تھا کل کو رافعہ نازیہ سے بھی آگے نکل جائے،ان کی عمر بھی ایسی تھی کہ اس عمر میں توکھتی کا بچہ بھی حسین لگتا ہے ،ایسی عمر جیسے کچے عام جو تھوڑے سے پکے ہیں،یا کھلتی ہوئی کلیاں جو ابھی بند بند سی ہیں،،یا وہ شبنم کے قطرے جو ہرے پتوں پر پڑے ہیں یا ہوا کا وہ جھونکا جو چھو کر گزرتا ہے تو محسوسات جگا دیتا ہے۔جیسے موسیقی کی لے ہو،جو دل کو چھو جائے،،بس شازیہ اور ا سکی بہنیں کچھ ایسی ہی تھیں،،،میرے ذوق کے عین مطابق،جوسلین کو میرے ذوق کا پتہ تھا ،اس نے شکار بھی ایساہی ڈھونڈا تھا جنہیں دیکھ دیکھ کر میں تڑپوں،،،،اور میں کل سے تڑپ پھڑک رہا تھا،اب میری بس ہوگئی تھی،جاؤ سرسوں کے تیل کی شیشی اٹھا لاؤ میں نے رافعہ کے کان میں کہا،جو مجھے کمر سے چوم رہی تھی اور باقی کو بھی یہی کام تھا،ان کا اناڑی پن مجھے موقع دے رہا تھا کہ میں باری باری ان کو چود ڈالوں،کبھی چودائی کی ہوتی تو ان بہنوں نے مجھے سانس تک نہیں لینے دینا تھا،،میں نے تیل عضو پر لگایا اور کچھ شازیہ کی چوت میں لگا دیا،کنواری چوت کو چودنے کا ایسا طریقہ جس سے اسے بالکل درد نہ ہو،نہ کوئی آواز نکلے ۔
سوکھا عضو کنواری لڑکی کیلیے عذاب بن جاتا ہے اسے مزہ بھول کر اپنی پڑ جاتی ہے،یہ جو کہتے ہیں کہ سوکھا عضو اندر ڈالا اور پھر آہستہ آہستہ روانی ہونے لگی اور لڑکی بھی مزہ لینے لگی تو یہ جھوٹ ہے پہلی بار میں ایسا نہیں ہوتا ،اور نہ ہی روانی ہوتی ہے،بلکہ اندر ہی نہیں جاتا،اگر زبردستی چلا جائے اور چودائی کر لی جائے تو لڑکی کا سوا ستیا ناس ہو جاتا ہے،میں تو کہتا ہوں لڑکی کی چوت ایک سال تک تنگ رہتی ہے اور مزہ دیتی رہتی ہے،بلکہ عرصے بعد کھلی چوت میں بھی ڈالا جائےتو اسے بھی احساس ہوتا ہے کہ اندر کچھ آیا ہے،،شازیہ کے چہرے پر جوش تھا اسے پتہ تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے،وہ ہر روز یہ دیکھتی تھی،،،باپ کا عضو ماں کی چوت میں جاتے ہوئے،نازیہ ،سعدیہ اور رافعہ ، چوما چاٹی چھوڑ کر دم سادھے عضو کی طرف دیکھ رہی تھیں،جیسے کوئی عجوبہ ہو،شاید انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن یہ عضو ان کے پاس ہو گا،اور پرنس ان کی چودائی کررہا ہو گا،میں نے شازیہ کی ٹانگیں کھولی اور اس کی گانڈ کے نیچے کپڑا بچھا دیا یہ سعدیہ کی چادر تھی اس وقت یہی ملی تھی،اسے نہیں پتہ تھا اس چادر پر کیا گرنا ہے،اور ان ٹانگوں میں گھٹنوں بل بیٹھ کر تھوڑا آگے ہو کہ جھک کے عضو کو شازیہ کی چوت پر رکھا ،،انگلیوں سے اس کی چوت کی پنکھڑیاں کھولی اور عضو کو چوت کے سوراخ میں داخل کیا،،پھر میں نے ہاتھ پیچھے کیااور عضو کو آگے دھکیلا،،عضو نرمی سے کچھ آگے چلا ،چاروں بہنوں کے چہرے پر ہیجانی کیفیت تھی،شازیہ کے تو اندر جا رہا تھا لیکن باقی بھی اسی کیفیت میں تھی،عضو کو تھوڑا دھکا چاہیئے تھا لیکن شازیہ کوچوت بڑی ہی تنگ تھی،پہلی بار جا رہا تھا میں نے تیل بھی لگایا تھا لیکن شاید شازیہ نے ہیجانی کیفیت میں چوت کو بھینچا ہوا تھا،میں نے جھک کر ا سکے ممے چوسنے شروع کر دیے،،شازیہ کا دھیان بٹ گیا،چوت کی اضافی تنگی ختم ہوئی ،میں اسی کے انتظار میں تھا میں نے عضو چوت میں دھکیل دیا،محسوس کرتے ہوئے میں نے عضو کو پردہ بکارت کے پاس روک دیا۔
شازیہ کے چہرے پر میری نظر تھی ،اس سے ا سکی دلی کیفیت کا پتہ لگ رہا تھا،وہ اب بھی ہیجان میں تھی،اور اس سے پردہ بکارت کے ٹوٹتے وقت اس کی حساسیت بڑھ جانی تھی اور زیادہ محسوس ہونا تھا،میں اس پر جھکا اور اس کے ممے پھر چوسنے شروع کر دیے،،ممے ایک ایسا راستہ ہے جو چودائی کےدروازے تک لے جاتا ہے،،وہی ہوا شازیہ کی چوت عضو کا وصال مانگنے لگی،شازیہ کی بے چینی نہیں سمجھتی تھی کہ اسے کیا چاہیے ،لیکن میں جانتا تھا کہ ایسی حالت میں چوت قدرتی طور پر عضو لینے کیلیے تڑپتی ہے اور اس چاہت میں عضو کو اپنے اندر سمو سکتی ہے،،،مجھے ہر حال میں شازیہ کی چوت کا بغیر درد کے پردہ توڑنا تھا ،،تا کہ اس کی بہنیں ڈریں نہ ،،،ان کا ڈر ان کو چودنے میں رکاوٹ بن سکتا تھا،جب شازیہ مسلسل بے چینی محسوس کر نے لگی ،تو میں نے وہیں اندر باہر کرنا شروع کر دیا ،شازیہ کا دھیان پہلے ہی بٹ چکا تھا اب وہ کچھ مزے میں اور اس کی چوت پورا اندر لینا چاہتی تھی ،میں نے احتیاطً ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھا جیسے ان کوچھو رہا ہوں ،ویسے میرا رادہ ان کو دبانے کا تھا اگر چیخ نکلتی،،اور پھر زور کا دھکا لگایا،اب تیل کام کر رہا تھا اور عضو چوت کی وادیوں میں گھستا گیا،،پردہ ٹوٹتے وقت شازیہ نے جھٹکا تو لیا،لیکن یہ ایسے ہی تھا جیسے ارتھ لگتا ہے اور بس، کرنٹ لگتا تو اس نے چیخنا ہی تھا،،میں وہاں کچھ دیر ٹھہرا،ممے چوسنے جاری رکھے اور پھر آہستہ آہستہ چودائی شروع کر دی،شازیہ چودائی کی لہروں تیرنے لگی،نازیہ ۔سعدیہ اور رافعہ کی حالت ٹھیک نہیں تھی ان کو چودائی کی شدید بھوک لگ چکی تھی،ان کا ایک ہاتھ چوت پر اور دوسرا مموں پر تھا، آہستہ آہستہ میں تیز ہونے لگا۔۔شازیہ اب تیر نہیں رہی تھی بلکہ ڈوب رہی تھی،شہزادے دیکھ دیکھ کے لگتا نہیں تھا کے اس میں اتنا مزہ ہے ،تڑپ تھی لیکن اسے سکوں کیسے دینا ہے یہ نہیں پتہ تھا،تم نے مجھ پر احسان کیا ،میں کل سے تم سے ناراض تھی،لیکن آج مجھے تم سے پیارا کوئی نہیں ہے،شازیہ ابھی سے جذباتی ہوچکی تھی،میں 4 سال سے جوسلین کو چود رہا تھا ،بے شک وہ حسین ترین تھی،اسے چودائی کا فن آتا تھا،مزے دینا وہ جانتی تھی،چوت بھی اس کی ٹھیک تھی،لیکن مجھے شازیہ جو دے رہی تھی،جو ا سکا کچا پن میں مزہ تھا وہ بالکل ایک نئئ چیز تھی بڑے عرصے بعد سحرش یاد آئی ،کنواری چوت کو چودتے ہوئے تب یہ مزہ آیا تا،تب نگینہ کی چدائی مجھے بھولنے لگی تھی اور سحرش کا جادو سر چڑھ کے بولنے لگا تھا،سحرش اور شازیہ میں مشترکہ چیز جوانی ،کنواری چوت ،اناڑی پن اور خوبصورتی تھی جو آدھی کھلی آدھی بند کلی کی طرح تھی،اب یہ ذائقہ دل میں بیٹھنے لگا،اور جوسلین بھی اس سے کم محسوس ہونے لگی،ایں ،یہ مجھے کیا ہو گیا ہے،کیا میں جوسلین کی محبت اوراحسانات کو بھول کر ایک لڑکی کے جسم میں کھو رہا ہوں، میں سر جھٹکا اور شازیہ کی چودائی کی طرف دھیان لگایا،اندر اور باہر کرتے ہوئے بہت مزہ آرہا تھا کیونکہ چوت نے عضو کو پوری طرح گرفت میں لیا ہوا تھا،رگڑ تو انتہائی لگ رہی تھی اسی رگڑ کا ہی تو سار مزہ ہے،تیز تیزشازیہ کو چودتے ہوئے میں پھر اس کے حسن میں کھونے لگا،لیکن خود کو کنٹرول کر کے میں نے ا سکے مموں کو پکڑ لیا ،اور چدائی کرنے لگا۔
آہ شہزادے جہاں ہاتھ لگاتے ہو وہیں کچھ ہونے لگتا ہے ،کیا ہے یہ،شازیہ سسکی،،پلیز مجھے کبھی مت چھوڑنا،شازیہ کی باتوں سے محسوس ہوا کہ یہ ایک جذباتی لڑکی ہے ،تھوڑا سا اثر پڑتے ہی ڈوبنے لگتی ہے،ایسی لڑکیاں سیکس میں اچھی ہوتی ہیں کہ جب چل پڑتی ہیں تو بہت مزہ دیتی ہیں،لیکن خطرناک بھی ہوتی ہیں کہ چودائی کے کھیل کھیل میں دل ہی لگا لیتی ہیں،شازیہ بھی کچھ ایسی ہی لگ رہی تھی،ممے چھوڑ کر میں نے دل سے جما کر چودائی شروع کر دی،اب مجھے اس کی چوت کی اتنی پرواہ نہیں تھی،اس کی چوت نے میرے عضو کو گرم جوشی سے قبول کرلیا تھا،اور میں پرجوش انداز میں چودائی کرنے لگا،ویسے اتنابے درد بھی نہیں کہ اتنی کومل اور نازک لڑکی کاخیال ہی چھوڑ دوں ،شازیہ رومانوی طبیعت کی تھی،،اور ایسی لڑکیاں بڑی اچھی ساتھی ثابت ہوتی ہیں،،شہزادے ذرا تیز چودو نہ مجھے،شازیہ کی طلب بڑھتی جا رہی تھی،میں بھی دھکادھک چدائی کر رہا تھا،اوہ شازیہ نے لذت سے آنکھیں بند کر لیں ،،،شہزاداہ ،میرا شہزادہ،شازیہ جذباتی ہو چکی تھی،،شازیہ ،میری جان،،تمھیں کیسا لگ رہا ہے ،میں نے اس کی جذباتی کیفیت میں جان بوجھ کر چودتے ہوئے پوچھا،شہزادے لگتا ہے،زندگی کا حاصل یہی ہے،،یہ نہیں تو کچھ نہیں۔
اب میری زندگی کی کہا نی کچھ ایسے ہو گی کہ،سیکس کرنے سے پہلے اور سیکس کرنے کے بعد،،واہ شازیہ نے سیکس کے مزے کو بڑی اچھی طرح بیان کر دیا تھا ،شازیہ دل کرتا ہے سارے کا سارا تمھاری چوت میں چلا جاؤں،،کیا لذت ہے تمھارے جسم کی،،،میں بھی اپنی بھوک کا اظہار کیے بناء نہ رہ سکا ،تو گھس نہ سارے کے سارے،،تمھیں روکا کس نے ،شازیہ سسکی،، لیکن ہمارا کیا ہو گا،،نازیہ مسخری سے بولی تو مجھے اس مسخری میں چھپی بھوک کا احساس ہوا،،لیکن نازیہ کی چودائی سب سے آخر میں ہونی تھی ،میں اس سے بھر پور مزہ لینا چہتا تھا،مجھے لگ رہا تھا کہ منزل بس قریب ہے اورہم پانی چھوڑنےوالے ہیں،،،میں نے شازیہ کی طرف دیکھا وہاں کی کیفیت بھی تبدیل تھی جیسے طوفان آنے والا ہو،اب رکنا تو تھا ہی نہیں چلتے رہنا تھا اور میں نے چودائی میں دھکے مارے تو شازیہ نے پانی چھوڑ دیا،،،میں اس سے لپٹ گیا اس وقت اسے کسی سہارے کی ضرورت تھی،،،ہم کچھ دیر لپٹے رہے پھر میں اس کے ساتھ لیٹ گیا،نازیہ ،سعدیہ اور رافیہ سمجھ رہی تھیں کہ ایک مرحلہ طے ہوگیا ہے،یقیناً ان کے ماں باپ بھی ایک وقت میں چدائی چھوڑ کے علیحدہ ہو جاتے ہوں گے،مجھے نہیں لگتا لڑکیاں سمجھتی ہوں کہ اب چدائی بند کیوں ہو گئی ہے،بس ان کے اندازے ہی تھے،یا ہو سکتا ہے،کیا ہوا ،رک کیوں گئے نازیہ نے بےچینی سے پوچھا،وہی ہوا نازیہ کا پوچھنا بتا رہا تھا کہ جو کچھ ہے وہ دیکھا ہوا ہے ،کسی نے بتایا نہیں کہ یہ چدائی ہے اوریہ فراغت ہے،نازیہ جب کسی کے ساتھ چدائی کرتے ہیں نہ تو پھر اس چدائی کی وجہ سے جسم میں آگ لگتی ہے ،جو کہ مزہ دیتی ہے،اس آگ سے جسم میں ایک جگہ پانی ہے وہ پگھلتا ہے اور جب بہت گرمی چڑھ جاتی ہے تو وہ پانی باہر نکل آتا ہے جیسے پیشاب نکلتا ہے،ساری چدائی کی لذت اسی وقت ملتی ہے،اس کے بعد چدائی ختم ہوجاتی ہے اور دوبارہ نئے سرے سے شروع کیجاتی ہے،تو اب میری باری ہے،نازیہ نے اشتیاق سے کہا،براہِ راست چدائی دیکھ کے ان کا کیا حال ہوگا میں محسوس کر سکتا تھا ،نازیہ ان سب سے حسین تھی ،اناروں جیسے اس کے گال تھے اور ریشم جیسا اس کا جسم تھا،بعد میں تو ایسا جسم ہی میرا مستقل شوق بن گئے ،کنواری ،کم عمر ،اور ریشمی جسم کی نازک اندام حسینہ میرا ذوق بنتا گیا،توابھی میرا نازیہ کو چودنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا،اتنے میں شازیہ نارمل ہوچکی تھی،اس کے چہرے پر وصال کا اطمینان تھا،جیسے بھوکے کو بڑے عرصے بعد کھانا ملا ہو،کمال کامزہ ہے ،،ہم تو اصل مزے سے محروم ہی تھے شازیہ نے اپنی بہنوں سے کہا،،،دیکھ دیکھ کہ برا حال ہوگیا تھا ۔
لیکن پتہ نہیں تھا کہ اس میں اتنا مزہ ہے ،نازی اب تو مزہ لے اس کا تمھیں ایسے لگے گا جیسے جنت مل گئی ہو،شازیہ نے اپنی سمجھ کے مطابق اسے بتایا تو نازی کے لبوں پر میٹھی مسکان آگئی،وہ آنے والے وقت کے تصور میں سرشار تھی،شازیہ اٹھی تو وہ چادر جو نازیہ نے دی تھی وہ خون سے بھیگی ہوئی تھی،،ارے یہ کیا،نازیہ کی گھبرائی ہوئی آواز آئی ،،یہ خون ہے ،،جب کسی لڑکی کو پہلی دفعہ چودا جاتا ہے تو اس کے اندر سے خون نکلتا ہے،،اوہ مجھے محسوس تو ہوا تھا لیکن اس وقت میں اور ہی ہواؤں میں تھی،،ویسے یہ خون کیوں نکلا تھااور کیا یہ سب کے نکلے گا، خون اسلیے نکلا تھا کہ ہر لڑکی کی سیل ہوتی ہے جو پہلی بار کی چدائی سے ٹوٹ جاتی ہے،،اور خون نکل آتا ہے،لیکن تم فکر نہ کرو کچھ نہیں ہوگا جیسے شازیہ کو کچھ نہیں ہوا اور اس نے مزہ ہی مزہ لیا ہے ایسے ہی تم سب بھی بس مزہ لو گی،میں نے باقی کو تسّلی دینی ضروری سمجھی،،اچھا یار یہ تو بتاؤ کہ یہ سوراخ تم نے دیوار میں بنایا تھا کہ اچانک نظر آیا تھا،،،میں ان سے مخاطب ہوا ،،ساتھ ہی میں نے رافعہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور سہلانے لگا،،،اچانک سامنے آیا تھا شازیہ نے جواب دیا،پہلے اس میں کیل لگا تھا کیونکہ دیوار کی چنائی مٹی کے گارے سے ہوئی ہے پھر وہ کیل تھا بھی چھوٹا تو شیشے کے وزن سے کچھ ڈھیلا ہو گیا،نازیہ نے وہ نکالا اور اس کی جگہ ایک پرانا برش کا سرا تورڑکہ وہ ٹھونک دیا ،اس نے اسے اینٹ سے ڈھونکا تھا ضرب کچھ زیادہ ہی لگ گئی وہ مٹی میں گھستا ہوا دوسری طرف نکل گیا،ہم نے نکالا تو دیوار میں سوراخ ہوگیا تھا،اور اس میں ابا کے کمرے کا منظر کچھ نظر آرہا تھا۔
،یہ پچھلے سال کی بات ہے ایک دن نازیہ نے بات چھیڑ دی کے ابا دوپہر کوکمرے میں بند کیوں ہوجاتے ہیں ،ساتھ میں امی بھی ہوتی ہے،بعض دفعہ ہم کچھ بے معنی آوازیں بھی سنتے ہیں،اشتیاق میں ایک دن نازیہ نے وہ برش ہٹا کر اندر کمرے کا منظر دیکھ لیا،بس پھر وہ منظر دیکھنے کا ایسا چسکا لگا ،کہ ہم خود کو روک نہ سکی،پھر ہم نے رات کو بھی نگرانی کی،اور دن کو تو کبھی کبھی ہوتا تھا لیکن رات کو تو مزے آگئے ،ہر رات یہ کام ابا اور امی دو تین بار کرتے تھے،ہماری عمر کی ایک رشتہ دار ہے اس کی شادی ہوگئی تھی ،ہم نے اس کچھ معلومات بھی لے لی ،،اپنی سکول کے دور میں بھی چدائی کا سنا تھا لیکن تفصیل کا پتہ نہیں تھا ،بس چوت اور عضو کا پتہ تھا،یا یہ کہ شادی کے بعد بچہ ہو جاتا ہے اور وہ پتہ لگا کہ چدائی سے ہوتا ہے ،اسی طرح بے ترتیب معلومات ملتی رہی،بعد میں ہم نے بڑی ہوشیاری سے اینٹ کے کنارے توڑ کر اس میں لکڑی کی موٹی میخ لگا دی اس سے موری تھوڑی بڑی ہوگئی اور مزہ آنے لگا، اور کل یہ مزہ تم میری وجہ سے پا نہیں سکی تھی۔
کیونکہ میں کافی دیر جاگ کر پہلو بدلتا رہا تھا ،،،،اسی لیے تم آج اتنی گرم ہو،،،ہم رضائیاں لے چکے تھے اور اس دوران میں رافعہ کا ہاتھ سہلاتے سہلاتے اس کو گود میں بٹھا چکا تھا اور اس کے ممے چوس رہا تھا،رافعہ کا منہ میری طرف تھا اور 16 برس کی جوانی کا رس چوسنے کوبےتاب تھا،ممے چوستے ہوئے میرے ہاتھ اس کی کمر پر بے تابانہ گردش کر رہے تھے،میں رافعہ کو گود میں بٹھائے ممے چوستا رہا میرا عضو رافعہ کوبے چین کر ہا تھا تھا یہ رافعہ پہلے سے ہی بے چین تھی اس نے تھوڑا اٹھ کہ اپنی شلوار کھسکائی اور میں کھینچ کر نیچے کر دی وہ سیدھا میرے عضو پر بیٹھ گئی،اور عضو پر گانڈ کو رگڑنے لگی،رافعہ سب سے چھوٹی تھی مگر سب سے تیکھی لگ رہی تھی،اس نے ٹانگیں میری پہلوؤں میں سیدھی کر لی تو میں سمجھ گیا اور ا سکی شلوار ایک ٹانگ سے نکالی اور پھر دوسری سے اس نے خود نکالی مگر گود سے نہیں نکلی،شاید وہ سمجھ گئی تھی کہ نازیہ کی جگہ وہ آئی ہے اور اب جگہ خالی نہیں کرنی،،جبکہ کے سب سمجھ رہے تھے کہ اتفاقاً رافعہ گود میں آگئی ہے،میں نے ارادتاً باتیں چھیڑ کر یہ کام کیا ہے،میں نازیہ کو آخر میں چودنا چاہتا تھا،اس کا بھرپور مزہ لینا چاہتا تھا۔
کیونکہ چار دفعہ چودائی کے بعد میرا دل بھر جانا تھا اور دوبارہ کی نوبت نہیں آنی تھی،یا شاید،،،،،،،،اب تو میں اتنا ماہر ہوگیا تھا کہ ایک ہی بار میں اتنا اچھا سیکس کرتا تھا کے جی بھر جاتا تھا ،جیسے پیٹ بھر کے کھانا کھا لیا جائے،رافعہ ایک تیکھی مر چ جیسی تھی،،اس میں چودائی کی چاہت باقی بہنوں سے زیادہ تھی،اور اب یہ چاہت ابھر کر باہر آگئی تھی ،رافعہ گانڈ کو عضو پر رگڑتے ہوئے سسک بھی رہی تھی جبکہ اس کے ممے اسے بہت بے چین کر رہے تھے،،،اور سب بے چینی چوت میں جمع ہو رہی تھی،،رافعہ لگتا ہے تمھاری آگ تو ٹھنڈی کرنے کیلیے ابھی چوت میں ڈالنا پڑے گا،تو پھر دیر کس بات کی ہے ڈال نہ چوت میں اور میری آگ بھی ٹھنڈی کر دو،اسے نہیں پتہ تھا لیکن وہ ٹھیک کہہ رہی تھی،چدائی کی آگ مرد کے پانی سے ہی بجھتی ہے،،میں نے تیل کی شیشی اٹھا ئی تونازیہ نے پہلے ہی اٹھا لی،اور ڈھکنا کھول کر میرے عضو پر تیل لگا دیا،شاید اس طرح وہ اپنی شہوت کو تسکین دے رہی تھی،میں نے رافعہ کی ٹانگیں اپنے کندھوں پر ٹکائی ، اس کی ٹانگیں سیدھی اوپر کو تھیں اور چوت خوب نمایاں ہوگئی تھی،جیسی لڑکی ویسی چدائی، رافعہ اگر گرما گرم تھی اور اس میں شدت تھی تو چدائی بھی ٹھوکا ٹھکائی جیسی ہونی چایئے ، تھوڑا سا آگے کھسکا اور عضو اس کی چوت پر رکھ کر نشانہ باندھا اور میزائل چھوڑ دیا،،عضو اس کی چوت میں گھس گیا اور لذت سے رافعہ کی سسکاریاں نکل گئی،،شہزادے سارا ڈال دو ، رکو مت،،،مجھے کچھ نہیں ہوگا،،رافعہ نے مجھے حوصلہ دیا اور میں جو پردہ بکارت پر رک گیا تھا اور کچھ آگے پیچھے کرنے کا ارادہ کیا تھا رافعیہ کے الفاظ سنتے ہی پیچھے ہو کر ایک تیز جھٹکا مارا اور رافعہ کی چوت کا پردہ پھاڑتا ہوا اس کی گہرائیوں میں جا گھسا،رافعہ نے دانت بھینچے ہوئے تھے ،،اور واقعی اس کی کوئی آواز نہیں نکلی،میں نے دیکھ لیا اس کی چوت سے خون نکل رہا تھا،،میں نے چدائی جاری رکھی اور ٹانگیں اٹھائے اسے چودنا شروع کیا،،یہ ایسا اسٹائل ہے کہ اس میں عضو چوت کی گہرائیوں میں جا کہ لگتا ہے ،جیسے پسٹن تیزی سے حرکت کرتا ہے ایسے ہی میں تیزی سے اس کی موٹر میں دھکم پیل کر رہا تھا،میں عضو اس کے اندر بھیجتا اور پھر اسے واپس بلوا لیتا ،میری اس ادا سے اس کی چوت خوش تھی کیونکہ رافعہ مزے میں ڈوبی لگ رہی تھی، پرنس اور تیز کرو نہ ،رافعہ سسکی، میں نے رفتار بڑھا دی،،رات کے سناٹے میں جھپاک جھپاک کی آواز گونجی ،میرا جسم اس کی رانوں سے ٹکرا رہا تھا،میں پھر تیز چودنے لگا ،لیکن کوئی آواز نہیں نکلنی چاہیے،میں نے سوچا۔۔ایسی آوازیہ بھلا مولوی جیسا شخص انجان کیسے ہو سکتا ہے،اس لیے رات کا سَنّاٹا احتیاط کا متقاضی تھا،رافعہ ان لڑکیوں میں سے تھی جو بھرپوار وحشیانہ چودائی پر خوش ہوتی ہیں،لیکن ابھی اس کی چوت یہ سب برداشت نہیں کرسکتی تھی،،،نہیں تو اس کی چوت کا دھڑن تختہ ہوجانا تھا
اس پر ایک واقعہ یاد آگیا ،سہاگ رات منانے سے پہلے دوستوں نے دولہے کو اچھی طرح سمجھایا کہ یہی رات ہے جس میں آنے والی زندگی فیصلہ ہو جاتا ہے اس لیےاپنی بیوی کو آج ہی اپنے قابو میں کرلو ،ساری عمر تمھارے حکم بغیر ہلے گی بھی نہیں،،،تو پھر اسکے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا،،دولہے نے دوستوں سے پوچھا ،،،،یار اسے اچھی طرح چودنا،،نخرے تو کرے گی مگر درد وغیرہ کا کہے تو پرواہ نہ کرنا۔تین چار بار چودنا اسے،،دھاک جما دینا اپنی اس پر،سارا کمال ہی اسی کا بات ہے ،،،،دولہا صاحب کمرے میں چلے گئے ،پہلے تو اس کا ذہن تھا کہ کچھ باتیں کریں گا کچھ روما نوی موڈ بنائے گا، اسے سہاگ رات کا تحفہ دے گا ،کچھ اپنا بتائے گا ،کچھ اس کا پوچھے گا،پھر آدھی رات کے بعد اسے جی بھر کے پیار کرے گا،اس کا انگ انگ چومے گا پھر دو دفعہ چودائی کرے گا،،،لیکن اب اس کا ذہن خراب ہوچکا تھا،،اس نے کچھ دیر باتیں کی،تحفہ بھی اجلت میں دیا،اور پھر دولہن کو لٹا دیا ،،جیسے جیسے دولہا آگے بڑھتا گیا ،دولہن کے خواب چکنا چور ہوتے گئے،،وہ کیا کیا سوچ کہ نئی زندگی شروع کرنے آئی تھی اور یہاں تو جذبات کی پرواہ کیے بغیر کچھ اور ہی شروع ہوگیا تھا،دولہے نے نہ آئل استعمال کیا،نہ چوما چاٹی کی ،یعنی فورپلےیا گرم کرنا اور دھڑاک عضو اندر زبردستی داخل کردیا،دولہن نےبمشکل چیخیں روکی مگر دولہا صاحب نے کچھ نہ خیال کیا،اس کے بعد وہ تو کرتا رہااور دلہن انتہائی اذیت کے باوجود عزت بچانے کیلے بمشکل اپنی چیخیں روکنے کی کوشش کرتی رہی ایک بار تک تو دولہن برداشت کر گئی لیکن دولہے نے فوراً پھر چودناشروع کو دیا اور جب اس نے تیسری دفعہ چودا تو دولہن بے ہوش ہوچکی تھی،سارا بیڈ لہو لہان ہوچکا تھا ،جب دولہا فارغ ہوا تو اسے دولہن کاخیا ل آیا اس نے ہلایا جلایا مگر وہ تو کب کی بے ہوش ہو چکی تھی
دولہا فوراً باہر نکلا اور والدین کو بلایا،،دولہن کو ہسپتال لے گئے،،،بمشکل اگلے دن خون رکا،پتہ چلا اس کے رحم کا ستیاناس ہوگیاہے اور اب کبھی ماں نہیں بن سکے گی،دولہن کے والدین وغیرہ بھی آگئے تھے،بڑی لڑائی ہوئی ،،اور وہیں طلاق ہوگئی ،اسی طرح ایک دولہا صاحب نے پہلی رات ہی ٹائمنگ گولی لے لی،اب وہ چھوٹے نہ اور دولہن برداشت نہ کرسکی،اتنی بلیڈنگ ہوئی کہ ہسپتال لے جانا پڑا ،بہر حال بچ بچاؤ ہو گیا،،،،،تو نئی نویلی چوت کو آرام سے سہج سہج کے چودنا چاہیئے اور اس وقت میری رفتار تو تھی لیکن اتنی ہی تھی جتنی رافعہ کی چوت برداشت کرسکتی تھی،،ویسے بھی میں نے رافعہ کی ٹانگیں کندھوں سے ٹکائی ہوئی تھیں اس میں تو دھکا لگتا ہی بہت ہے،،شہزادے تیز کرو نہ،،،رافعہ نے پھر کہا تو میں نے ٹانگیں چھوڑ دی اور ااسے دھکڑ دھکڑ چودنے لگا،ایک تو اس سے آواز کم آتی تھی دوسرا جھٹکا اندر کم جا رہا تھا،،،،نفسیاتی طور پر اسے بہلانے کیلے میں نے اس ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیا اور چومنے لگا،ابھی تک میں نے اس سے کسنگ تو کی ہی نہیں تھی،نہ ہی وہ کسنگ کی لذّت سے واقف تھی،،اس کا دھیان بٹ گیا اور اوپر جاتا گراف نیچے آگیا،میں اسے چودتا رہا اور کسنگ کرتا رہا ،اگر اس وقت ممے پکڑتا تو پھر اس نے اور گرم ہوجاناتھا،اب دھیان بٹتے ہی میں پھر بیٹھ گیا،اب ایسا بھی نہیں تھا کہ اس کی آرزو پوری نہیں کرسکتا تھا،،میں نے اس کے پہلوؤں سے پکڑا اور عضو باہر نکال کر چوت کے سوراخ پر رکھا اور ایک دھکا لگایا،دھکا اس کی چوت کے حساب سے تھا،ویسے وہ سب سے چھوٹی اس کی عمر کے حساب سے اس کی چوت باقی بہنوں سے زیادہ ٹائیٹ ہونی چاہیےتھی ،اور مجھے ایسا ہی لگ رہا تھا،پہلے دھکا پھر عضو باہر نکالا لیکن پورا نہیں نکالتا تھا پھر اندر دھکے سے ڈالا ،،،اسی طرح ردھم سے میں باہر نکالتا اور دھکے سے اندر ڈالتا اس میں رفتار اتنی نہیں تھی لیکن ہر دھکاا س کی ضرورتوں کو پورا کر رہا تھا ،،،ہاں شہزادے یہ ٹھیک ہے،،رافعہ نے سرگوشی کی،،،شازیہ ،نازیہ ،سعدی اپنی چھوٹی بہن کو آنکھیں پھاڑ کے دیکھ رہی تھی،،ان کے حساب سے وہ بچی تھی ،لیکن بچی تیکھی مرچی تھی،،،ہر دھکا اس کے جسم کی بنیادوں کو ہلا دیتا تھا اور عضو اس کے رحم کو چوم کر آجاتا تھا،،آخر میں ایک تیسرا اور آخری حساس مقام ہوتا ہے میرا عضو اسے جا کے چھوتا تھا تو رافعہ کی مزے سے سسکاریاں نکلتی تھیں،،،تھوڑا اور دھکا لگاؤ نہ،رافعہ پھر شدّت میں آگئی تھی ،،پتہ نہیں رافعہ کیسے اب تک ضبط کرتی آئی تھی ۔
میں پیچھے ہو کر ایک زور دار دھکا لگایا تو رافعہ کی ہلکی سی چیخ نکل گئی،اور ساری بہنوں کے چہرے یکدم زرد ہو گئے،،مولوی کا ڈر بہت گہرا اور زبردست تھا،،،یقیناً مولوی سو گیا تھا،،،ایک بار تو مجھے بھی خطرہ محسوس ہوا تھا لیکن بس اتنا کہ کہیں مشن ادھورا نہ رہ جائے،،،کچھ لمحیں خیریت سے گزرے اور میں نے پھر دھکم پیلنا شروع کر دیا ۔۔۔ تجھے بڑی گرمی چڑھی ہے ،،تیری ساری گرمی ابایک منٹ میں نکال دے گا،شازیہ دھیمی آواز میں رافعہ پرغرّائی ،،ماحول سے ایکدم چودائی کی گرمی غائب ہوگئی تھی،،،مجھے ماحول بنانے کیلیے رافعہ کے مموں پر جھکنا پڑا،،،کچھ ہی دیر میں رافعہ پھر گرم تھی،اس میں ایک طوفان چھپا تھا،جوسمجھا رہا تھا کہ اب سیل کھلنے کے بعد مشکل ہی رکے گا،،،میں دیکھ رہا تھا مستقل میں مولوی کو ایک باغی لڑکی کا سامنا کرنا پڑے گا،،رافعہ اب پھر بے پرواہ نظر آرہی تھی ،اور شازیہ ایسے چوکنی بیٹھی تھی جیسے اب اگر رافعہ نے کوئی بات کی تو اسے دبوچ لے گی،،رافعہ اس سب سے بے پرواہ مزہ لے رہی تھی،اور میں دھکے پہ دھکے لگا رہا تھا،،حالات کے مطابق رافعہ میرا طریقہ سمجھ گئی تھی اور اس سے بھرپور لطف اندوز ہورہی تھی،،رگڑ مسلسل نہ لگےتو پانی کا آنالیٹ ہوجاتا ہے،،،ہم بھی پندرہ منٹ تو گزار چکے تھے اس کا مطلب تھا ابھی مجھے پانی نکالنے کیلیے اور کھدائی کرنی پڑے گی،،،اور میں شوق سے کھدائی کرنے لگا،،،نازیہ اور رافعہ نے گرمی سے گھبرا کے ایکدوسرے کو پکڑ لیا،،اور ایکدوسرے سے لپٹی ہوئی تھی،،اور منہ میں منہ ڈالے ایکدوسرے کا رس پی رہی تھی،،میں نے پہلے بھی دیکھا تھا کہہ یہ ایکدوسرے کی چوت سے کچھ نہیں کرتی،میں بھی انگلی والا کام بتانا مناسب نہ سمجھا،،رافعہ کو پھر گرمی چڑھ رہی تھی ۔
وہ کیا کرتی رکنا اس کے بس سے باہر تھا ،وہ ملتجی آنکھوں سے مجھے دیکھنے لگی،،،کچھ کہ تو نہیں سکتی تھی شازیہ اب بھی اس کے سر پر تھی،،،میں نے اس کی ٹانگیں پھر کندھوں پر ٹکائی اور اس کی چوت کو تھوڑا انچا کیا،دھکوں کیلیے سیٹنگ کی،،لیکن باہر نہیں نکلنے دیا تھا ،،اور پھر میں نے پیچھے کر کے ایک کم طاقت کا دھکا لگا کر اسٹارٹ کیا،،،رافعہ کے چہرے پر کچھ اطمینان آیا تو میں نے اگلی بار زیادہ طاقت کا دھکا لگایا،،رافعہ کےچہرے پر خوشی کے آثار آگئے،،،مجھے تسلی ہوگئی،،،میرے ہتھیار کام کرگیا تھا،،میرے پاس موقع محل کے لحاظ سے طریقوں کی کمی نہ تھی،،میں نے پھر جوش میں اور طاقت کا دھکا مارا ،،،اس بار رافعہ کے ہونٹ بھنچے گئے ،،،میں سمجھ گیا اسے کچھ درد تو ہوا ہے،لیکن مزہ لینے والے درد سے کب گھبراتے ہیں، شازیہ نے مجھے نظروں ہی نظروں میں تنبیہ کی،،میں اسی طاقت کے دھکے لگانے لگا،،،رافعہ منہ کو بھنچے مزے لیتی رہی،،،اب اس کی خوہش پوری ہورہی تھی،،،،اسی ردھم میں چودائی کرتے ہوئے رافعہ منزل پر پہنچنے والی ہو گئی،،،اور اس کے چہرے پر بے اختیاری کی کیفیت تھی،، ٹانگیں چھوڑ کرمیں نے اسے بانہوں میں لے کر کس لیا،،،اس کا جسم ارتعاشی حالت میں تھا،،،رافعہ نے کچھ دیر لگائی اور پھر وہ آرام کی حالت میں آگئی،،،میں نے اسی حالت میں اس کا جسم کستے ہوئے رفتار تیز کر دی اب میں فارغ ہونا چاہتا تھا،،ابھی میرے سامنے دو مست جوانیاں پڑی تھی،،،دو تین منٹ کی رفتار نے مجھے بھی منزل پر پہنچا دیا اور میں نے سارا پانی رافعہ کی چوت میں ڈال دیا،،،اس سے رافعہ کی آگ ٹھنڈی ہونے میں کافی مدد ملے گی،،جیسا کے مشہور کلیہ ہے کہ آگ ہمیشہ پانی سے ہی بجھتی ہے۔
ہم کیونکہ رک گئے تھے اور اب نازیہ اور رافعہ کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ پانی نکل گیا ہے اور اب اگلی کی باری ہے،،،وہ ا پنا کام چھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوگئی تھیں،،میں بستر پر لیٹ گیا،،،اور آرام کے موڈ میں تھا ،،شازیہ نے ایک لمحے کیلیے دیر نہیں لگائی اور مجھے گلے لگا لیا تھا،،،شہزادے کچھ دیر مجھے بھی دے دو،شازیہ بڑی بہن ہونے کے ناطے اپنا حق استعمال کر ر ہی تھی،،میں نے ا سکے ہونٹو سے ہونٹ لگا دیے اور اسے ایک لمبی کس دی،،،دوسری طرف نازیہ میرے ساتھ لیٹ گئی ،،،اور میرا سینہ چومنے لگی،،،شازیہ اسے دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی کہ اب اس کی باری ہے تو سعدیہ اس کی جگہ میرے ساتھ لیٹ گئی اب ایکطرف نازیہ تھی تو دوسری طرف سعدیہ لیٹی ہوئی تھی،،،اور میں درمیان میں سینڈوچ بنا ہوا تھا،،،دونوں مجھ پر چڑھی جارہی تھی،،،جتنا صبر کرنا تھا کر لیاکے مصداق دونوں ایک دوسرے کا لحاظ کیے بغیر مجھے چوماچاٹی میں لگی ہوئی تھیں،شازیہ نے سعدیہ کی کمر پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ میں اس کا ارادہ سمجھ گیا کہ وہ سعدیہ کو پیچھے کرنے لگی ہے،،میں نے اسے اشارے سے روک دیا،شازیہ خود بمشکل بیٹھی تھی ،،،پہلے پہل جب اس کی سیل توڑی تھی تواسے یہ نہیں پتہ تھاکہ وہ کس دنیا میں جا رہی ہے،پھر شازیہ کو مزہ آیا،،لیکن رافعہ کو دیکھ کر اسے احساس ہو اتھا کہ چدائی میں کیا کچھ ہوسکتا ہے،،،اب وہ اور مزے لینا چاہتی تھی ،،وہ نہیں جانتی تھی اب مزے کیلیےتو ساری عمر جستجو کرتی رہے گی،،نازیہ وہ لڑکی تھی جو میرا ذوق بن گئی تھی،اس لیے نازیہ مجھے کبھی نہیں بھولی،،،ابھی وہ کچھ جھجکی ہوئی تھی ،یہ ٹھیک تھا کہ جیسے جیسے چدائی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے بندہ بے شرم ہوتا جاتا ہے،،، تب وہ کھل کے مزے لیتا ہے،،،لیکن اتنی بے شرمی بھی نہیں ہونی چاہیئے ،،، کہ اپنی عزت کا بھی خیال ہی نہ رہے،،بے دھڑک ہونا،جرات والا ہونا اور بات ہے بے شرم ہونا اور بات ہے،،،،،،،(میں نے بھری مارکیٹ کے باتھ روم میں ایک لڑکی کوچود ڈالا تھا جبکہ باہر چینچ کرنیوالیاں دوسرا باتھ روم استعمال کر رہی تھیں اور میں دس منٹ میں چودائی کر کے باہر نکلا آیا تھا،،اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی اور آفس میں رش کے باوجود کھلے دروازے کے پیچھے کسی کی سیکٹری کو چود ڈالا تھا تب بھی دس منٹ ہی لگائے تھے،،لیکن موقع کی کیکولیشن کرکے میں نے اندازہ کرلیا تھا کہ میں یہ میں کر لوں گا مجھے اعتماد تھا آپ بتائیں کیا یہ بے شرمی تھی یا جرات تھی؟

ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (قسط نو) "