میرا نام زاہد ہے اور میں ساہیوال کا رہنے والا ہوں
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بی اے کر کے فارغ تھا سارا دن دوستو کے ساتھ بیٹھ کے گپیں مارنا اور مختلف لڑکیوں کے بارے میں کومنٹس پاس کرنا ہمارا پسندیدہ مشغلہ تھا. اور اکثر یہ محفلیں کسی سیکسی مووی پے ہی جا کے ختم ہوتی تھیں . اور سونے پے سہاگہ یہ کے جو فارغ وقت ملتا تھا وہ جم میں گزرتا تھا . ورزش کر کر کے میں نے اپنے آپ کو کافی متناسب بنا لیا تھا
گھر والوں کو میرا یہ چال چلن ایک آنکھ نہی بھاتا تھا . ابا حضور نے کچھ دن تو ایسے ہی برداشت کیا اور پھر ایک دن مری پیشی ہو گئی.
کیوں میاں کچھ کام وام کرنے کا بھی ارادہ ہے یا نہیں .
میں نے عرض کی جی میں نے بہت کوشش کی ہے مگر کوئی نوکری دینے پہ آمادہ نظر نہی آتا .
ابّا حضور نے ٹی شرٹ میں جھانکتے میرے بازوؤں کو دیکھتے ہووے کہا تمہاری کوشش تو نظر آرہی ہے برخور دار .
تمھارے تایا جان سے بات کی ہے میں نے. تم اس سوموار کو لاہور جا رہے ہو . تیاری پکڑو اور ہاں دھیان رکھنا کوئی ایسی ویسی حرکت نہ ہو جس سے انھیں شکایات کا موقع ملے.
یہاں تایا جان کا تعارف کرواتا چلوں . میرے تایا جان ساٹھ سال کے سوبر سے بزرگ ہیں . نہایت ہی نرم طبیعت اور حلیم انسان ہیں جتنے حلیم مرے تایا جان ہیں اتنی ہی حلیم انکی بیگم ہیں. انکی پلاسٹک کے برتن بنانے کی ایک بڑی سی فیکٹری ہے. مگر وہ اولاد سے محروم ہیں. میری تائی جان کی ایک بہن کے خاوند کا انکی جوانی میں انتقال ہو گیا تھا انکی دو بیٹیاں بھی تھی. انھوں نے دوسری شادی کی تو اپنی دونوں بیٹیاں تایا جان کو دے دیں.
بڑی بیٹی کا نام فرزانہ اور چھوٹی کا نام ریحانہ تھا. فرزانہ کی عمر پچیس سال اور ریحانہ کی عمر بائس سال تھی. میں نے دونوں کو بہت چھوٹی عمر میں ہی دیکھا ہوا تھا.
خیر مجھ میں اتنی مجال نہ تھی کہ میں ابّا حضور کے حکم کی خلاف ورزی کر سکتا . لہذا میں نے آگلے دن اپنا سامان باندھا اور لاہور کے لئے نکل پڑا. تایا جان کا گھر بہت ہی خوبصورت تھا . نیچے ایک بہت بڑا ٹی وی لا ونچ کچن اور دو کمرے تھے . ایک بیڈروم تایا جان کے استعمال میں تھا اور دوسرا مجہے عنایات کر دیا گیا . اوپر بھی دو بیڈروم تھے وو دونوں فرزانہ اور ریحانہ کے استعمال میں تھے. تائی جان نے مجہے میرا کمرہ دکھایا اور حال احوال پوچھا. شام ہو چکی تھی .
تائی جان نے کہا زاہد تم نہا کر فریش ہو جاؤ تو کھانے کے لئے باہر آجانا . میں فریش ہو کے کھانے کی میز پر پوہنچا تو پہلی دفعہ میں نے اپنے دل میں ابّا جی کو خراج تحسین پیش کیا . فرزانہ اور ریحانہ کو دیکھ کر میری آنکھیں کھلی رہ گئی .
دونوں بہنیں لازوال حسن کی مالک تھیں. فرق صرف اتنا تھا کے فرزانہ کی اپنی عمر کی وجہ سے کچھ پختہ نقوش کی مالک تھی جبکے ریحانہ ایک ابھرتی ہوئی کلی تھی.
فرزانہ کی بڑی آنکھیں اسکی حسن میں اضافہ کر رہی تھی . اسکی آنکھو کی گہرائی کسی بھی جوان دل کو بھٹکانے کے لئے کافی تھی. جبکے اس کے برعکس ریحانہ کی آنکھوں میں شوخی بھری تھی اور ویسی ہی شوخی اسکے چہرے کے نقوش میں بھی واضح تھی. فرزانہ کے ہونٹ رس بھرے اور خوب لال تھے لگتا تھا ابھی ان سے رس ٹپکنے لگے گا . جبکے ریحانہ کے ہونٹ پتلے مگرپھولوں کی طرح نازک تھے .
فرزانہ کا قد نسبتاً چھوٹا تھا جس کی وجہ سے اسکی ابھری ہوئی چھاتی اسکے حسن میں اضافہ کر رہی تھی . اسکے مخروطی ابھار کپڑوں سے باہر نکلنے کو بے تاب تھے . میرے تجربے کے مطابق اسکی چھٹی کا سائز چھتیس تھا . جبکے ریحانہ کے کے مموں کا سائز چونتیس تھا.
چونکہ وہ دونوں بیٹھی ہوئی تھی اس لئے میں نیچے کا دھڑ نہی دیکھ پایا تھا مگر مجہے یقین تھا وہ میری امیدوں پر پوری اتریں گی . میرے اس طرح گھورنے پر فرزانہ نے خوب برا منایا اور ہلکا سا کھانسی اور مجہے گھورا. تو مجہے احساس ہوا کے میں تائی جان کو تو بلکل فراموش کر گیا تھا میں نے شرمندگی سے نظریں جھکا لی . تائی جان نے میرا ان دونوں سے تعارف کروایا .
بیٹا یہ زاہد ہے . تمھارے انکل عابد کا بیٹا اور یہ اب تمھارے ابو کی فیکٹری میں ان کے ساتھ کام کرے گا . اور زاہد بیٹا یہ تمہاری بہنیں ہیں فرزانہ اور ریحانہ .
فرزانہ نے تعارف کے باوجود مجھ سے بات کرتا گوارا نہی کیا جس سے مجہے اندازہ ہوا کے محترمہ کے مزاج آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں . ریحانہ نے مجہے سلام کرنے کے بعد نہایت اچھے انداز میں مجھ سے چند رسمی باتیں کی . اور یوں ہماری پہلی ملاقات کا اختتام ہوا .
دن پر لگا کر گزرتے رہے . اور میں آہستہ آہستہ وہاں کے ماحول کا عادی ہوتا چلا گیا . فرزانہ کا رویہ مجھ سے کبھی بھی اچھا نہی رہا . مجہے اس سے بات کرتے ہوۓ بھی ڈر لگتا تھا . وہ بات بات پے کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی اور میں یہ سوچنے پر مجبور تھا کے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسلہ ضرور ہے . جبکے رہنا اتنی ہی شائستہ تھی یہی وجہ تھی کے میرے خیالات میں ہمیشہ ہی وہ میری سکس پارٹنر بنتی تھی میں نجانے کتنی دفع اسے سوچ سوچ کے مٹھ مار چکا تھا .
ایک دن صبح میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی تو حیران ہوا کے صبح صبح مجہے کون جگانے آگیا . دروازہ کھولا توریحانہ سامنے کھڑی تھی . میرا لن جو کے پھلے ہی صبح کے وقت کی وجہ سے کھڑا کچھ اور اکڑگیا . ریحانہ کے ہاتھ میں تولیہ تھا .
زاہد بھائی میں اپکا واش روم استعمال کر لوں میرے کمرے میں گرم پانی نہی آرہا . میں نے بنا کچھ کہے راستہ چھوڑ دیا . ریحانہ نے ایک نائٹی پھنی ہوئی تھی . جبکے نچلا حصہ خلا تھا . اور کی گوری ٹانگیں دیکھ کے مری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی.
اسکی سڈول گانڈ اور لچکتے ہوے کولھے مرے دل کی دھڑکن کو تیز کر رہے تھے اسکی رانوں پر ذرا بھی فالتو چربی نہی تھی لگتا تھا جیسے اسے کسی سانچے میں ڈھال کر بنایا گیا ہو . ریحانہ سیدھی واش روم کی جانب گئی اور پھر مجہے تھوڑی ہی دیر میں شا ور کی آواز آنے لگی . نجانے کیوں میرے دل ایک خواہش جاگی کے میں ریحانہ کو ننگا دیکھوں . میں جلدی سے آگے بڑھا اور واش روم کے کی ہول سے آنکھ لگا دی . وہ کیا حسین منظر تھا . مجہے ریحانہ کی حسین اور خوبصورت گانڈ نظر آرہی تھی جس پہ سے پانی ایسے گزر رہا تھا جیسے دشوار گزر گھاٹیوں سے کوئی میٹھے پانی کا چشمہ. میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کے کاش میں اسی وقت ریحانہ کی گانڈ پر سے گزرنے والی پانی کو منہ لگا کر پی جاؤں . اس حسین منظر کو دیکھ کر میرا لن لوہے کی طرح اکڑ گیا تھا . اور مجہے مجبوراً اپنے پاجامے میں ہاتھ دل کر اسے سہلانا پڑا. میرے منہ کی طرح مرے لن کی ٹوپی بھی پانی سے بھری ہوئی تھی. مرے دل سے نے آواز لگائی کے کیا ہی اچھا ہو اگر مجہے ریحانہ ہی چوت دیکھنے کا موقع بھی مل جائے . مگر ریحانہ شاور کی طرف ہی منہ کر کے نہاتی رہی . میں نے جوش اور مزے کی کیفیت کو بڑھانے کے لئے اپنے لن کو پاجامے سے باہر نکل لیا اور مٹھ مارنے لگا. آہ کیا منظر تھا میں اپنی بہن کی سڈول گانڈ دیکھ کر مٹھ مار رہا تھا . میں مزے کے عروج پے تھا . کے اچانک میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور فرزانہ اندر آگئی . میں جوش میں دروازہ لاک کرنا ہی بھول گیا تھا . میرا ہاتھ جو کے میرے لن پر آگے پیچھے تیزی سے گھوم رہا تھا اچانک رک گیا . فرزانہ کی آنکھوں میں مجہے پھلے حیرت اور پھر غصہ نظر آنے لگا .اسے حیرت مرے لن کو دیکھ کر ہوئی اور پھر غصہ مری حالت دیکھ کر . اسے دیکھتے ہی سمجھننے میں دیر نھی لگی کے واش روم میں کون ہوگا . میری شرمندگی کی کوئی انتہا نہی تھی . مجہے سمجھ نہی آرہا تھا کے میں کہاں چھپ جاؤں . میں نے جلدی سے اپنے لن کو واپس اپنے پاجامے میں ڈالا اور کھڑا ہو گیا . ابھی میں کچھ کہنے والا ہی تھا کی واش روم کا دروازہ کھلا اور ریحانہ باہر نکلی . وہ فرزانہ کو دیکھ کر حیران ہوئی اور پوچھا فرزانہ تم یہاں کیا کر رہی ہو . تو فرزانہ نے جواب دیا .
یار مرے کمرے میں گرم پانی نھی آرہا تھا تو سوچا نیچے جا کے نہا لوں . ریحانہ اسکے جواب سے مطمئن ہو کے باہر نکل گئی . اب کمرے میں صرف میں اور فرزانہ تھے . فرزانہ مجہے مسلسل گھور رہی تھی اور شرم سے پانی پانی تھا . فرزانہ نے مجہے غصے سے کہا تمہیں تو میں بعد میں دیکھتی ہو . اور یہ کہ کر وہ بھی واش روم میں نہانے چلی گئی . میں بے دم ہو کر بیڈ پر بیٹھ گیا . دل اتنی زور سے دھڑک رہاتھا جیسے ابھی سینے سے باہر آجاے گا .
پتا نھی کتنی دیر لگی فرزانہ کو نہانے میں . بس مجہے یہ علم ہے کے ایک ایک لمحہ مجھ پر پہاڑ بن کر ٹوٹ رہا تھا نجانے میرے ساتھ کیا حشر کیا جائے گا . فرزانہ سے مجہے کسی قسم کی بھلے کی امید نھی تھی . مجہے لگا جیسے آج میرا اس گھر میں آخری دن ہے . جیسے ہی فرزانہ نہا کر نکلی میں نے اسے پکارا فرزانہ باجی پلیز مری بات تو سنیں . فرزانہ باجی نے غصے سے کہا اپنی بکواس بند کرو گھٹیا انسان . وہ بہن تھی تمہاری کچھ تو شرم کی ہوتی . ابھی میں جلدی میں ہوں تمہیں میں بعد میں دیکھتی ہوں . تمہیں اس حرکت کی سزا ضرور ملے گی .
میں بے دلی سے بیڈ پے لیٹ گیا . میرا فیکٹری جا نے کا بلکل دل نہی کر رہا . کچھ دیر ایسے ہی لیٹے رہنے کے بعد میں نے ہمت کی اور نہا کے بنا ناشتے کے آفس چل پڑا میرے لئے دن کاٹنا عذاب بن گیا دل میں عجیب عجیب خیالات آتے رہے . شام کو دیر سے گھر آیا تو آنٹی سے ملاقات ہو گئی . انھوں نے حسب عادت کھانے کا پوچھا میں نےانکار کر دیا . مگر انکے انداز سے ہرگز نہی لگ رہا تھا کے کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہے . یعنی فرزانہ نے اپنی زبان بند رکھی ہے . میں چپ چاپ اپنے کمرے میں آگیا . آج کسی چیز میں دل نہی لگ رہا تھا . بے چینی تھی کے ختم ہونے کا نام نہی لے رہی تھی . تقریباً ١١ بجے مرے کمرے پے دستک ہوئی میں نے چونک کے دروازہ کھولا تو سامنے ریحانہ اور فرزانہ دونوں موجود تھیں . فرزانہ نے مجہے کہا آگے سے ہٹو . میں ایک شریف بچے کی طرح سامنے سے ہٹ گیا .
وہ دونوں اندر آگئی فرزانہ بیڈ پے بیٹھ گئی جبکے ریحانہ نے کمرے میں پڑی کرسی پر قبضہ کر لیا . جبکے میں ان دونوں کے درمیان کھڑا تھا . فرزانہ نے کمرہ بند کر لیا .
زاہد بتاؤ ریحانہ کو کے تم صبح کیا کر رہے تھے جب ریحانہ تمھارے واش روم میں نہا رہی تھی .
میں نے پریشان ہو کر فرزانہ کی طرف دیکھا تو اس نے غصہ سے مری طرف دیکھا اور پھر دوہرایا تمہیں مری بات سمجھ نہی آ رہی شاید .
بتاؤ اسے کے تمہیں کیا کر رہے تھے ورنہ میں ابھی ممی اور پاپا کو بتاتی ہو . مری حالت ایسے تھی جسیے میں ابھی غش کھا کر گر پڑو گا .
معاف کر دیں فرزانہ باجی مجھ سے غلطی ہو گئی . دیکھیں میں کان پکڑتا ہو مگر آپ کسی کو مت بتایے گا یہ بات .
ایسے تمہیں معافی نہی ملے گی زاہد . جو کہا جا رہا ہے وہ کرو زیادہ بہتر ہوگا . بتاؤ تم کیا کر رہے تھے صبح .
دیکھیں فرزانہ باجی میں آپکے پاوں پکڑتا ہوں ایسے نہ کریں . میں آیندہ کبھی ایسا نہی کرونگا .
فرزانہ نے ریحانہ کی طرف دیکھتے ہووے کہا لگتا ہے ہمیں چلنا چاہیے اب یہ بات ممی کو بتا ہی دیں تو اچھا ہے یہ کہ کر وہ بیڈ سے اٹھی تو میں نے جلدی سے کہا نہی پلیز میں بتاتا ہوں .
میں نے ہمت کی اور کہا میں صبح ریحانہ باجی کو نہاتے ہووے دیکھ رہا تھا .
تو کیا دیکھا مرے بھائی نے . چلو بتاؤ .
یہ فرمائش پچھلی سے زیادہ خطرناک تھی مجہے سمجھ نہی آرہا تھا کے میں کہاں جا کے چھپ جاوں. میں نے پھر کوشش کی کے فرزانہ باجی اپنے ارادے سے باز آجائیں مگر وہ اپنی کمینگی آج پوری طرح دکھانے پر آمادہ تھیں .
میں نے کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا . تو فرزانہ باجی نے کہا ٹھیک ہے ایک چونکے تم نے ریحانہ کو ننگا دیکھا ہے اس لئے ریحانہ بھی تمہیں ننگا دیکھنے گی . میں نے ریحانہ کی طرف دیکھا تو اس نے شرم سے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں . یہ فرمائش مجھ پر بجلی بن کر گری . اچانک کسی کو ننگا دیکھ لینا یہ کوئی آپکو دیکھ لے وہ الگ بات ہوتی ہے مگر کسی کی فرمائش پر ننگا ہو کے دکھانا وہ بھی اپنی بہنوں کے سامنے بہت مشکل کام تھا . میں ابھی سوچ میں ہی پڑا تھا کہ فرزانہ باجی کی چنگھاڑتی ہوئی آواز مرے کانوں کو سنائی دی . تم اگر کوئی بات ماننے پر راضی نہی تو تمہارا انجام بلکل اچھا نہی ہوگا .
دیکھو ریحانہ اس بہن چود کو اب کتنا غیرت مند بن رہا ہے جب صبح تمہیں نہاتے ہووے دیکھ رہا تو اس وقت اسکی غیرت گھاس کھانے گئی ہوئی تھی .
مجہے اپنے کانوں پر یقین نہی آیا . یہ گالی میں نے فرزانہ باجی کی ہی زبان سے سنی تھی میں ایک شاک کی سی کیفیت میں تھا .
اسکی گانڈ دیکھتنے ہوتے تمہیں کچھ خیال نہ آیا اور جب تمھارے لنڈ دکھانے کی باری ہے تو تمہاری گانڈ پھٹ گئی ہے .
میں ابھی پھلے ہی جملے کے اثر سے باہر نہی آیا تھا کے انکے اگلے الفاظ مجھ سے ایٹم بم بن کر گرے.
مجہے یہ سب کچھ ہضم نہی ہو رہا تھا فرزانہ کا یہ روپ مجھ سے آج تک پوشیدہ تھا مجہے علم نہی تھا کے فرزانہ کی زبان سے ایسے الفاظ بھی نکل سکتے ہیں .
در حقیقت میرے لنڈ میں ہلکی سی جنبش پیدا ہوئی . انکے منہ سے ایسے الفاظ سن کے عجیب سا مزہ آیا . اس وقت میں خوف اور ہلکے سے مزے کی کیفیت میں تھا .
میری حالت عجیب سی تھی . مجہے امید نہی تھی کے حالات یہ رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں . میں ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہہ فرزانہ کی چنگھاڑتی ہوئی آواز سنائی دی . تم اپنی شلوار کھولتے ہو یا , یہ کام بھی مجہے ہی کرنا پڑے گا .
میں کم از کم اس حرکت کی اجازت اسے دینے کے لئے تیار نہی تھا .
میں نے آخری بار رحم طلب نگاہوں سے فرزانہ کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک تھی . میں تقریباً رونے والا تھا.
آخر میں نے مرے مرے انداز میں اپنا ازار بند کھولا اور چھوڑ دیا . احساس شرمندگی سے مری آنکھیں لال ہو چکی تھی . اپنی تایا زاد بہنوں کے سامنے میں ننگا کھڑا تھا .
میں چونکے صرف شلوار اور بنیان میں تھا اور شلوار تو اب اتر چکی تھی . میرے پاس چھپانے کو کچھ بھی نہی تھا. ریحانہ کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے جیسے اس نے لنڈ کو پہلی دفعہ دیکھا ہو . میرے جسم کی لرزش واضح تھی . فرزانہ نے ریحانہ سے کہا دیکھ ریحانہ ایسا ہوتا ہے اصل کا لنڈ . اس سارے ڈرامے میں بس میں اور ریحانہ ہی شاید گھبرا رہے تھے مگر فرزانہ کے چہرے پہ کسی قسم کی کوئی جلدی یا پرشانی نہ تھی .
ریحانہ نے فرزانہ سے کہا باجی چلیں اب ، اب تو ہم نے دیکھ لیا نا. چلیں کوئی آ نا جاتے .
فرزانہ نے کہا تم آرام سے بیٹھو میں اسے اتنے آرام سےاسے بخشنے کے لئے تیار نہی ہوں . اور کوئی نہی آنے والا ممی اور پاپا جلدی سونے کے عادی ہیں . ویسے بھی انکا کمرہ یہاں سے بہت دور ہے .
اب ہمارا پیارا بھائی ہمیں مٹھ مار کے دکھا یے گا . چلو زاہد شروع ہو جاؤ.
فرزانہ کی بات سن کر مرے آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا . ان حالات میں جہاں میرا لنڈ ہی کھڑا نہی ہو رہا تھا وہاں مٹھ مارنے کا سوال کیسا ؟
میں نے رونے والے انداز میں کہا یہ نا ممکن ہے باجی . ان حالات میں ایسا کرنا ممکن نہی .
فرزانہ نے کہا حالات مجہے پیدا کرنے آتے ہیں . چلو شاباش لو اسے اپنے ہاتھ میں اور شروع ہو جاؤ .
میں نے اپنے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور تھوڑی دیر ہلایا مگر کوئی اثر نہی ہوا .
میں نے پھر فرزانہ باجی کو کہا . مجھ سے نہی ہوگا یہ سب . آپ پلیز مجہے معاف کر دیں .
فرزانہ باجی نے کہا ٹھیک ہے . چلو ریحانہ چلتے ہیں ممی کو کہہ کے اسے یہاں سے فارغ کروائیں ذرا اسکے گھر والوں کو بھی تو پتا چلےکہ جناب یہاں کیا گل کھلا رہے ہیں .
کمبخت فرزانہ باجی کو بلیک میل کرنے کے سارے گر آتے تھے . جس طرح وہ مجہے ڈیل کر رہی تھی اس سے لگتا تھا کے وہ خاصی تجربے کار ہیں اس طرح کے معاملات میں .
مرتا کیا نہ کرتا . مجہے اندازہ ہو گیا تھا کے مری جان بخشی صرف اسی صورت میں ہو سکتی جب میں وہی کروں جو فرزانہ باجی کہہ رہیں تھی .
میں نے جلدی سے کہا آپ بار بار یہ دھمکیاں مت دیں میں کوشش کرتا ہوں .
فرزانہ باجی نے کہا شاباش میرے بھائی آج ایک اچھا سا شو دکھاؤ ہمیں اور جی خوش کر دو .
میں نے ساری شرم ایک طرف رکھی اور اپنے ہاتھ پہ تھوک لگا کے لنڈ پہ ہاتھ چلانے لگا .
مجہے تو اس وقت اسے کھڑا کرنا ہی سب سے بڑا مسلہ نظر آرہا تھا مٹھ مارنا تو دور کی بات .
یہاں فرزانہ باجی کا تجربہ کام آیا . انھوں نے مجہے پکارا تو بتاؤ مرے بھائی کیا دیکھا صبح ریحانہ کا.
میں نے کوئی جواب نہی دیا .
ابے او بہن چود جواب دے . کیا دیکھا ریحانہ کا بول ننگا دیکھا ریحانہ کو . اسی وقت مرے ذہن میں صبح کا واقعہ تازہ ہو گیا . مرے لنڈ میں تھوڑی سی تحریک پیدا ہوئی .
میں نے ہاں میں سر ہلایا . منہ سے بول کیا منہ میں لنڈ لیا ہوا ہے ؟
فرزانہ باجی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر مرا لنڈ تیزی سے سر اٹھا رہا تھا .
میں نے کہا ہاں میں نے ریحانہ باجی کو ننگا دیکھا تھا .
کیا دیکھا تھا اسکی گانڈ ؟ یا چوت
میں نے کہا صرف پچھلا حصہ دیکھا تھا فرزانہ باجی نے کہا یہ پچھلا حصہ کیا ہوتا ہے . گانڈ کہتے ہووے تیری زبان دکھتی ہے .
ہاں باجی میں نے ریحانہ باجی کی گانڈ دیکھی تھی .
اچھا کیسی لگی پھر ہے نہ مست گانڈ تیری بہن کی . میں نے کہا جی ہاں بہت مست ہے .
اور ممے دیکھے تھے ریحانہ کے . میں نے کہا نہی صرف گانڈ اور ٹانگیں دیکھی تھی .
کیوں تھی نہ گوری چٹی ٹانگیں ریحانہ کی ؟
میں نے کہا ہاں بہت سیکسی ٹانگیں تھی ریحانہ باجی کی .
میرا لنڈ اس وقت پورا تن چکا تھا . میں نے یہ بات کہتے ہووے میں نے ریحانہ کی طرف دیکھا تو مری طرف ہی دیکھ رہی تھی اسکا چہرہ شرم اور مزے کیفیت سے لال ہو چکا تھا .
ریحانہ اس وقت ایک لمبی سی نائٹی میں تھی جو کے گھٹنوں سے تھوڑا سے آگے جا کے ختم ہو جاتی تھی . اس نے مزے کی شدت سے اپنی ٹانگ پے ٹانگ رکھی ہوئی تھی .جس سے مجہے لگا کے وہ گیلی ہو چکی ہے . اور اسکی
چوت کے لب اسکی اس حرکت کی وجہ سے ایک دوسرے سر رگڑ کھا ہونگے جس کی وجہ سے وہ مزے کی حالت میں تھی . اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں کے درمیان دبایا ہوا تھا .
ماحول نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا مرے لنڈ کی ٹوپی پر بھی چند چمک دار قطرے ابھر چکے تھے .
دیکھ ریحانہ اس گانڈو کے لن سے منی نکلنا شروع ہو گئی ہے . ایسا بہن چود ہے اپنی بہنوں کے بارے میں سوچ سوچ کے گیلا ہو رہا ہے .
فرزانہ باجی کی اس بات نے مجہے پھر یاد دلا دیا میں میں ان حالات میں اپنی خوشی سے یہ سب نہی کر رہا .
مرا دماغ دو حصوں میں بٹ چکا تھا . ایک حصہ کہتا تھا کے لنڈ کی بات مانوں جبکے دوسرا حصہ مجہے شرم دلانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا .
جب ذہن بٹا ہو تو یقین کریں مٹھ مارنا بہت ہی مشکل کام ہے . اس کام کے لئے یکسوئی سے سوچنا پڑتا ہے .
میں اسی طرح پانچ منٹ تک ہاتھ ہلاتا رہا مگر منی نہی نکلی . مرا ہاتھ اور لن دونوں درد کر رہے تھے . میں نے تقریباً روتے ہوۓ کہا فرزانہ باجی مجھ سے نہی ہو گا .
مرا خیال تھا کے وہ مری حالات کو سمجھتے ہوۓ مجہے جانے دیں گی . مگر اسکے بلکل برعکس انھوں نے کہا میں دیکھتی ہو میں کیسے نہی نکلتی منی .
بول دیکھے گا ریحانہ کی سیکسی ٹانگیں . فرزانہ باجی اٹھی اور ریحانہ کے پاسس چلی گئی . ریحانہ ایک دم بولی فرزانہ باجی پلیز ایسا نہ کریں . اور اپنی نائٹی کو زور سے پکڑ لیا .
کیا ہو گیا ہے ریحانہ یہ تو پھلے ہی تمہیں ننگا دیکھ چکا ہے اب چھپانے سے فائدہ اور میں کونسا تمہیں ننگا ہونے کو کہہ رہی ہو . تم بس اپنی نائٹی اوپر اٹھاؤ .
فرزانہ کے ارادوں سے لگ رہا تھا کہہ اگر ریحانہ نے نائٹی نہ اٹھائی تو وہ خود اٹھا دے گی . ریحانہ نے اسی طرف بیٹھے بیٹھے اپنی نائٹی تھوڑی اوپر سرکی تو اسکی سیکسی رانیں نظر آنا شروع ہو گئی .
میں نے یہ منظر دیکھا تو مرے لنڈ نے ایک جھٹکا لیا . یہ وہی رانیں ہیں جنھیں میں سوچ سوچ کے مٹھ مارتا تھا . آج میرے سامنے حقیقت کا روپ دھارے موجود تھی .
دیکھ زاہد تیری ریحانہ باجی کی رانیں جنھیں دیکھ کے تم صبح مٹھ مار رہے تھے .
انھوں نے نائٹی کو مزید آگے سرکایا . اب ریحانہ باجی کا سفید انڈر ویر صاف نظر آ سکتا تھا . میرے جسم میں مزے کی لہریں دوڑ رہی تھیں
میرے ہاتھ کی رفتار تیز ہو گئی . جبکے مرا لن مزید گیلا ہوتا چلا گیا . مجہے اس طرح ہاتھ ہلاتے دیکھ کر فرزانہ باجی نے اپنی نائٹی کے اوپر سے اپنے چھتیس کے مموں کو دبانا شروع کر دیا .
یہ منظر بھی میری آنکھوں کے لئے نیا تھا . مرے منہ سے اب مزے کی وجہ سے آوازیں نکل رہی تھی . میرے ہونٹ بلکل خشک تھے. میری آوازوں کو سن کر ریحانہ باجی نے اپنی ٹانگ دوسری ٹانگ سے اٹھائی اور دونوں ٹانگیں کھول کر پیچھے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی . انکی پینٹی گلی ہو چکی تھی . انکی چوت کی جگہ پہ بڑا سا گیلا دھبہ دور سے ہی نظر آرہا تھا .
جبکے فرزانہ باجی نے اپنی پینٹی میں ہاتھ ڈال لیا تھا اور اپنی چوت میں انگلی ڈال کر ہلانا شروع کر دی تھی .
ساتھ ساتھ انکی گندی باتیں بھی جاری تھی . بول زاہد دودھ پیے گا اپنی بہن کا . چوسے گا میرے ممے .
ہاں پیو کا دودھ باجی . خوب پیوں گا اور چوس چوس کے لال کر دونگا . میں نے آج تک اتنے خوبصورت ممے نہی دیکھے فرزانہ باجی
تو نے ابھی دیکھا ہی کیا ہے میرے بھائی میں تجھے اس دنیا کی سیر کراؤں گی کے تم یاد رکھو گے .
فرزانہ باجی کے دیکھا دیکھی ریحانہ باجی نے بھی اپنی پینٹی کے اوپر سے ہی اپنی چوت کو سہلانا شروع کر دیا تھا . ہم تینوں اس وقت ایک الگ ہی دنیا میں تھے . میرے کمرے کے تین مختلف کونوں میں تین جوانیاں مزے لوٹ رہی تھیں .فرزانہ باجی اچانک کیا سوجھا کے انھوں نے اپنی نائٹی کے اوپر سے ہی اپنے ممے کو برا سر بھر نکالا اور اپنے نپل کو دبانے لگیں .
یہ منظر مرے لئے نا قبل فراموش تھا . چھتیس کے گورے چٹے ممے اور ان سے جھانکتے ہوۓ فرزانہ باجی کے گلابی نیپل غضب ڈھا رہے تھے .
ان کے نیپل فل ہارڈ تھے . جنہیں وہ بڑی بے دردی سے مسل رہی تھی .
میں اپنی منزل کے عروج پہ تھا شاید یہی حال باقی دونوں کے ساتھ بھی تھا .
بول زاہد چودے گا مجہے . چودے گا اپنی باجی کو .
ہاں باجی میں تمہیں گھوڑی بنا کے چودوں گا .
میرے منہ سے نکلنے والے الفاظوں کا اثر دونوں پر پڑا اور پھر مری آنکھوں نے عجیب منظر دیکھا کے . فرزانہ باجی کے سانس تیز تیز چلنے لگی . انھوں نے مزے کی شدت سے اپنی آنکھیں بند کر لیں .
تھوڑی دیر بعد انکے جسم نے جھٹکے کھانے شروع کر دیے وہ بیڈ پر وہیں لیٹ گئی انکے منہ سے آہیں نکل رہی تھی . شاید وہ فارغ ہو رہی تھی . انکی اس حالت کو دیکھتے ہوۓ میرے منہ سے ایک بڑی سی آہ نکلی اور یک دم میرے لن نے جھٹکا کھایا اور منی کے قطرے سامنے بیٹھی ریحانہ کی ٹانگوں پر گرے . میری منی جونہی ریحانہ کی ٹانگوں پر گری ریحانہ کے جسم نے بھی جھٹکے لئے اور اس نے مزے سے اپنی آنکھیں بند کر لی .
کمرے میں آنے والا طوفان تھم چکا تھا . اب صرف ہماری سانسوں کی آوازیں باقی تھی . مجھ میں اب کھڑا ہونے کی ہمت نہی تھی . کمزوری کی وجہ سے میں وہیں زمین پر ڈھیر ہو گیا . فرزانہ اور ریحانہ باجی سے اپنے کپڑے درست کیے اور کہا میرا خیال ہے اسکے لئے اتنا ہی سبق کافی ہے . چلو ریحانہ چلیں .
یہ کہتے ہوۓ وہ دونوں روانہ ہو گیں . انکے جانے کے بعد میں نے ہمت کی اور جلدی سے دروازہ بند کیا . اور خود کو صاف کرنے کیے بعد بستر پر گر گیا . یہ وہی بستر تھا جس پر کچھ دیر پہلے میری بہن اپنے مموں سے کھیل رہی تھی .
صبح آنکھ کھلی تو سمجھ نہی آیا میں کہاں ہو . پھر جیسے ایک دم ریل سی چلی دماغ میں . اور کل کے واقعات دماغ میں ایک فلم کی طرح چلنے لگے. کل جو کچھ ہوا تھا وہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا .
جب سے میں لاہور آیا تھا میں نے صرف ریحانہ باجی کو ہی سوچا تھا . اور کل جس طرح انھوں نے اپنا بھرم قائم رکھا تھا وہ مجہے بہت اچھا لگا تھا . جبکہ فرزانہ باجی کے انداز سے لگتا تھا جیسے وہ سیکس کے بارے میں سب جانتی ہوں.
میرا ڈر ابھی تک قائم تھا . اگر وہ کچھ بھی اپنے گھر والوں کو بتا دیتی تو میں ضرور اس نوکری اور گھر سے فارغ ہو جاتا .
میں اٹھا اور نہا کر فیکٹری چلا گیا . شام کو واپسی پر کھانے کی میز پر فرزانہ اور ریحانہ باجی سے ملاقات ہوئی . فرزانہ باجی ہمیشہ کی طرح خشک مزاج ہی ثابت ہو رہی تھی . جبکے ریحانہ باجی نے مجھ سے آنکھ ملانے کی ہمت نہی کی
مجہے لگا جیسے وہ مجھ سے شرمندہ ہوں .
مگر وہ مجھ سے شرمندہ کیوں ہوتی شرمندہ تو میں تھا . میں نے حرکت ہی ایسی کی تھی . اس بیچاری نے نجانے کیا سوچا ہوگا .
مگر اس سارے کھیل میں اگر کوئی فائدے میں رہا تھا تو وہ فرزانہ باجی تھی .
میرے ذہن سے ابھی تک یہ بات نہی نکل پا رہی تھی کے فرزانہ باجی اس معامله میں اتنی تجربہ کار کیسے ہیں . خیر وقت کے ساتھ ساتھ یہ گھتی بھی کھل ہی جاتی . ہم سب نے جلدی جلدی کھانا ختم کیا . اور اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے . میری جسمانی حالت کوئی اتنی اچھی نہی تھی . میں پچھلی پوری رات سکون سے ںہی سو پایا تھا جبکے سارا دن ڈر کے مارے پریشان رہا تھا . میرا خیال تھا کے معامله حل ہو چکا ہے اور اب سکون کا سانس لے سکتا ہو . میرے بیڈ پر گرتے ہی کچھ دیر میں میری آنکھ لگ چکی تھی . تقریباً رات ایک بجے میرے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا . دوسری یا تیسری دستک پہ میں نے دروازہ کھولا تو فرزانہ باجی کھڑی تھی . انھیں دیکھتے ہی میری نیند اڑ گئی میں نے ڈرتے ہووے پوچھا :
جی فرزانہ باجی . انھوں نے مجہے ہاتھ سے دھکیلتے ہووے کہا کہ کیا باہر ہی بات کرنے کا ارادہ ہے اور اندر آ گئیں .
اندر داخل ہونے کے بعد انھوں نے نیا حکم جاری کیا کے دروازہ بند کر دو اور سکون سے بیڈ پر بیٹھ گئیں. میں نے کانپتے ہاتھوں سے دروازہ بند کر دیا میرا دل ڈر رہا تھا کے آج پھر میری عزت کی دھجیاں نہ بکھیری جائیں . میرا جرم اتنا شدید تو ںہی تھا کے ایسے سزا دی جائے . اور پھر میں تو شرمندہ تھا اپنی حرکت پہ اور معافی کا طلب گار تھا مگر لگتا تھا کے میں کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہو مگر کمبل مجہے چھوڑنے پر راضی ںہی ہے . اپنی بے بسی پر میری آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے. جب میں مڑا تو میرے چہرے کی طرف دیکھ کر فرزانہ باجی حیران رہ گئی .
میں نے روتے ہوۓ ان سے التجا کی کے باجی میرا قصور اتنا بھی ںہی تھا کہ اتنی سزا ملتی پلیز مجہے معاف کر دیں .
باجی کی آنکھوں سے لگا جیسے انھیں مجھ پے ترس آگیا ہو. مگر پھر اچانک ان کے اندر کا شیطان جاگا اور انھوں نے گرج کے کہا .
ابے گدھے اٹھ اور مرد بن کیا لڑکیوں کی طرح ٹسوے بہاتا ہے .
جب تو اپنی بہنوں کو ننگا دیکھنے چلا تھا تب علم ںہی تھا کے پکڑا گیا تو کیا ہوگا . اگر ٹٹوں میں اتنا پانی ںہی تھا تو ایسی حرکت کی ہی کیوں تھی .
فرزانہ باجی کے منہ سے ٹٹوں کا لفظ سن کر مجہے کرنٹ لگا اور میری حیرت کی کتاب میں ایک اور باب کا اضافہ ہو گیا .
ابھی میں حیرت کے ہی سمندر میں غوطہ زن تھا کہ باجی نے کہا چل ادھر آ اور کپڑے اتار اپنے . میں اپنی جگہ کھڑا ہی رہ گیا .
تمہیں سنائی ںہی دیا کے میں کیا کہ رہی ہو .
باجی پلیز آج ںہی . میں نے التجائی لہجے میں ان سے کہا .
تو ادھر آئے گا یا میں شور مچاؤ کے تو نے میری عزت لوٹنے کی کوشش کی ہے .
پلیز ایسا نہ کیجیے گا میں آتا ہو .
میری بات سن کے باجی کے لبوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی .
انھوں نے کہا شاباش . چلو اب اپنے کپڑے اتارو . میں نے نفی میں سر ہلایا . شاید یہ پہلا واقعہ تھا جس میں ایک لڑکا اپنی عزت بچانے کے لئے اتنی تگ و دو کر رہا تھا . میرے مسلسل انکار نے باجی کو جھنجھلا دیا . مگر وہ زیادہ سختی ںہی کرنا چاہتی تھی . انہو نے مجہے کہا اچھا پھر ایک کام کرو بیڈ پہ لیٹ تو سکتے ہو نہ بے شک کپڑے نہ اتارو . میں نے نہ سمجھ آنے والے انداز میں کہا
آپ چاہتی کیا ہیں .
انھوں نے کہا تم بتاؤ یہ کام کرتے ہو یا میں شور مچاؤ .
مجہے بظاھر اس کام میں کوئی ایسی بات نظر ںہی آرہی تھی جس سے مجہے کوئی مسلہ ہو لہذا میں اس کام کے لئے راضی ہو گیا . میں بیڈ پر سیدھا لیٹ گیا . فرزانہ باجی نے کہا اب اپنے ہاتھ اپنے سر کے پیچھے لے جاؤ. جو کچھ بھی ہو رہا تھا وہ میری سمجھ سے باہر تھا
خیر میں نے اسی بات میں اپنی خیر سمجھی کے جب تک عزت سلامت ہے میں انکی بات مانتا رہوں . ابھی ہم یہی بات کر رہے تھے کہ اچانک دروازے کے دستک ہوئی . میں چونک کے بیٹھ گیا . فرزانہ باجی نے کہا تم ایسے ہی لیٹے رہو . یہ ریحانہ ہو گی اسے نہ خود چین ہے نہ یہ مجہے لینے دے گی . انھوں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ریحانہ اندر آگئی . اس نے اندر آ کر مجہے دیکھا تو کہا . فرزانہ باجی آپ کیا چاہتی ہیں . کوئی آگیا تو کتنا بڑا مسلہ کھڑا ہو جائے گا اندازہ ہے آپکو .
فرزانہ باجی نے اسی لہجے میں جواب دیتے ہوۓ کہا . یار کوئی ںہی آنے والا . تم جیسی ڈرپوک لڑکی میں نے ںہی دیکھی . اگر تم یہاں رہنا چاہتی ہو تو چپ کر کے اندر آجاؤ ورنہ اپنا لیکچر ختم کرو اور چلتی نظر آو . ریحانہ کے انداز میں جھجھک تھی مگر وہ جانے کے لئے بھی تیار نہ تھی . کل کا منظر اسکے لئے بھی ہیجان خیز تھا . آج دونوں بہنوں نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی . اور گلے میں دوپٹے تھے . دونوں کی چست قمیضوں سے جھلکتی چھاتیاں ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی . مگر اس وقت مجہے صرف اپنی پڑی تھی . ریحانہ نے کوئی جواب نہ دیا تو فرزانہ باجی نے اسے اندر کی طرف دکھیلا اور دروازہ پھر سے بند کر لیا .
اب وہ دونوں میری طرف متوجہ ہوئی .
میں ایک ٹراؤزر پہنے سیدھا لیٹا تھا. ایسے کے میرے ہاتھ میرے سر کے پیچھے تھے جیسے کسی بچے کو اسکے استاد نے سزا کے طور پر ہاتھ اٹھا نے کی سزا دی ہو .
میں اگلے حکم کا منتظر تھا . فرزانہ باجی نے اگلا حکم صادر کرنے میں دیر ںہی لگائی.
تم اپنی آنکھیں بند کر لو اور تب تک نہ کھولنا جب تک میں نہ کہوں
مگر فرزانہ باجی ؟
اگر مگر کچھ ںہی . جو کہا جا رہا ہے وہی کرو
میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی . مجہے قدموں کی آہٹ سے اندازہ ہوا کہ فرزانہ باجی میری طرف بڑھ رہی ہیں . پھر مجہے احساس ہوا کے کوئی بیڈ پر چڑھ گیا ہے میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا یہاں تک کے میں اپنے دل کی دھک دھک سن سکتا تھا .
پھر اچانک فرزانہ باجی میرے سینے پہ سوار ہو گئی اور میرے ہاتھ پکڑ لئے . میں نے شور مچانا شروع کیا ہی تھا فرزانہ باجی نے مجہے خبردار کیا کے شور مچانے سے اگر کوئی آگیا تو وہ یہی سمجھے گا کے میں ان کا ریپ کر رہا ہوں . میری آواز اپنے ہی حلق میں دب کے رہ گئی اور مری مزاحمت وہیں دم توڑ گئی . کمرے کا منظر ہی ایسا تھا کے سارے ثبوت میرے ہی خلاف جاتے .
باجی نے حیران ریحانہ کو آواز تھی کے تم یونہی کھڑی رہو گی یا کچھ کام کرنے کا بھی ارادہ ہے . یک دم ریحانہ میں جیسے جان آگئی اس نے پوچھا جی بتائیں.
اپنا دوپٹہ اتارو اور اسکے ہاتھ باندھو .
فرزانہ باجی پلیز میرے ہاتھ نہ باندھیں جو آپ کہیں گی میں کرنے کو تیار ہوں پلیز ایسا نہ کریں .
میں نے تو کوشش کی تھی مگر تم ہی شرافت سے کپڑے اتارنے پر آمادہ ںہی تھے . فرزانہ باجی نے جواب دیا .
ریحانہ باجی انتظار میں تھی کے ہماری بات چیت کے کیا نتیجہ نکلتا ہے . میں نے ابھی کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کے فرزانہ باجی نے ریحانہ کے ڈانٹنے ہوے کہا . تم ہل کیوں ںہی رہی . ریحانہ باجی نے آگے بڑھ کر مرے ہاتھ اپنے دوپٹے سے باندھنا شروع کر دیے . وہ میرے اتنے قریب تھیں کے ان کے جسم کی خوشبو میرے حواس پر طاری ہونے لگی تھی . انکے کھلے گلے سے جھانکتی انکی چھاتیاں میرے سانس الٹ رہی تھیں . انکے جسم کی حرارت سے میں پگھلا جا رہا تھا . جتنی دیر وہ میرے ہاتھ باندھتی رہی میں اتنی دیر سب کچھ بھول کے انکے سراپے میں گم رہا . ریحانہ باجی گھبراہٹ میں کافی ٹائم لگا رہی تھیں . آخر انھوں نے تنگ آکر کہا مجھ سے ںہی باندھے جاتے تم خود باندھ لو .
فرزانہ باجی نے جھنجلا کے کہا یار تم اتنا سا کام ںہی کر سکتی .
ریحانہ باجی نے کہا میں نے کونسا کبھی کسی کے ہاتھ بندھے ہیں جو مجہے تجربہ ہوگا .
اچھا تم ادھر کے بیٹھو اسکے اوپر. میں باندھتی ہو .
میں انکار کرنا چاہتا تھا مگر ریحانہ باجی کی قربت سے انکار ممکن ںہی تھا میں چپ رہا . وہ میرے اوپر آکر بیٹھ گئیں .
انکی نرم گرم گنڈ اب میرے سینے پر تھی . یقین کریں اتنی عجیب حالت کے باوجود میرے لن میں حرکت شروع ہو چکی تھی .
میرے دل میں ایک دم خواہش پیدا ہوئی کے کاش ریحانہ باجی نے کپڑے نہ پہنے ہوتے اور اسی طرح وہ تھوڑا اور قریب ہو کے اپنی چوت مرے منہ پر رکھ دیتی اور میں پاگلوں کی طرح انکی کی چوت کو چوستا .
ریحانہ باجی نے شاید مرے دل خیالات پڑھ لئے تھے اسی لئے وہ ایک دم تھوڑا پیچھے ہٹ کے بیٹھ گئیں .
میں اس وقت فرزانہ باجی کو بلکل فراموش کر چکا تھا جو کے میرے ہاتھ باندھنے میں مصروف تھیں .
اب ریحانہ باجی میرے پیٹ پر بیٹھی تھی . میرے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا . میں نے ریحانہ باجی کو کہا کے پلیز پیٹ پر نہ بیٹھیں میں نے کھانا کھایا ہوا ہے .
تھوڑا سا پیچھے ہو جائیں . وہ میری بات سمجھتے ہوۓ تھوڑا پیچھے سرکی تو ایک دم اچھل کے بیڈ سے نیچے اتر گئی . اتنی دیر میں فرزانہ باجی جو کے میرے ہاتھ باندھ چکی تھیں .
انھوں نے حیرانی سے ریحانہ باجی کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا ہوا . تو ریحانہ باجی نے میرے ٹراؤزر کی طرف اشارہ کیا جہاں ایک ٹینٹ سا تنا ہوا تھا .
وو جب پیچھے ہوئی تو میرے لنڈ پر بیٹھ گئیں تھیں .
فرزانہ باجی کے منہ سے ایک قہقہہ برآمد ہوا .
اور انھوں نے ریحانہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا مزا آیا.
ریحانہ باجی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا .
انکا تو پتا ںہی مگر میں مزے سے پاگل ہو گیا تھا جب انکی گانڈ میرے لنڈ پر ٹکی تو ایک کرنٹ سا دوڑ گیا تھا جسم میں .
ریحانہ باجی میری شرارت کو سمجھ گئی تھیں .
ایک تبصرہ شائع کریں for "باجی فرزانہ اور باجی ریحانہ(پارٹ ون)"