Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ناگن (دوسری قسط)


 

سرور سانڈ ، طیش میں مجھ پر حملہ آور ہوا، میں صورتِ حال سمجھ کہ اٹھ ہی رہا تھا کہ سرور سانڈ میرے اوپر گر پڑا اور مجھے گالیاں دیتے ہوئے مکے مارنے لگا، نگینہ کے دروازہ بند کرنے کا مطلب تھا اسنے مجھے بھگانا نہیں ہے مروانا ہے ، لمحوں میں یہ سب ہوگیا ، اب سستی کا مطلب موت تھا، سرور خان وحشیوں کی طرح مجھے مار رہا تھا ،میرے جسم میں بجلیاں دوڑ گئی ،موت کے سامنے دیکھ کہ توچڑیا بھی باز سے لڑ پڑتی ہے،میں تو پھر انسان تھا ، میں بھی ہاتھ چلانے لگا ، مگر وہ مجھ پر حاوی تھا ، میرے اندھا دھند ہاتھ چلانے سے بس اتنا ہوا کہ اُس کے مکوں کی رفتار کم ہوگئی ،میری نظر اس کی جنونی آنکھوں پر تھی میں اپنی انگلیاں اس کی آنکھوں میں مارنے لگا ،آخر انگلیاں لگ گئی مگر پوری نہیں لگی تھی لیکن اس نے میرا بازو چھوڑ کر اپنے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے ، وہ ڈھیلا ہوا تو میں اسے خود پر سے دھکا دے کر چارپائی سے کھڑا ہو گیا،میرا جسم بُری طرح درد کر رہا تھا ، نیچے سے نکلنا میری کامیابی تھی پر موت اب بھی سامنے کھڑی تھی، یعنی سرور سانڈ بھی آنکھیں ملتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تھا ، میری جسمانی حالت دِگردُوں تھی، نگینہ ابھی تک لڑائی میں شامل نہیں ہوئی تھی وہ دروازے پر کھڑی تھی، کہ میں بھاگ نہ سکوں یا اسے یقین تھا کہ میں سرور کے سامنے کچھ نہیں ہوں ،اور بات بھی سچ تھی، سرور کے اٹھتے ہی میں نے چارپائی کو ٹھوکر ماری جو اسکے گھٹنوں پر لگی تھوڑی چُوک ہوگئی نہیں تو یہی چارپائی اٹھتے ہوئے اس کے منہ پر لگنی تھی،میں نے ادھر ادھر دیکھا تو دادی کی لاٹھی نظر آئی ، میں نے وہ اٹھا لی ، سرور ٹانگ کی تکلیف بھول کہ میری طرف بڑھا ، سرور اندھا دھند میری طرف بڑھا ،میں نے بے دریغ لاٹھی گھما دی، اس نے بے اختیار ہاتھ آگے کردیے لاٹھی ہاتھوں اور بازوؤں پر پڑی اور اس نے فوراً ہاتھ پیچھے کیے ، میں نے اسی پل لاٹھی اسکے سر پر دے ماری ۔ سرور ایک سانڈ تھا ایک بار قسمت سے اس کے ہاتھ سے نکل آیا تھا اب ہاتھ آجاتا تو موت نے ہی مجھے آزادی دلانی تھی ، میں نے سرور کو سنبھلنے نہ دیا میں نےدوتین لاٹھیاں اوپر تلے اس کے سر پہ دے ماری ،سر پر لاٹھیاں پڑنے سے سرور بھی ڈگمگا گیا اور لاٹھی بھی چٹخ گئی، میں نے زور سے لات اس کے پیٹ پر ماری ،وہ گر پڑا ، اسکے سر سے خون نکل رہا تھا ، لاٹھی ہاتھ میں آتے ہی چند سیکنڈ میں پانسہ پلٹ گیا ، آخر دادی ہی کام آئی، میں دراوزے کی طرف بڑھا ،نگینہ پریشان ہو گئ ،اور جلدی سے پرانی طرز کا پیتل کا گلدان ہاتھ میں پکڑا اور آگے بڑھ کے میرا سر پر مارنا چاہا،اب پھرتی میں تو وہ مجھ سے زیادہ نہیں تھی،میں نے ایک طرف ہو کہ نفرت میں پوری طاقت سے اسے لاٹھی دے ماری، لاٹھی اس کے بازو اور کندھوں پر پڑی اور ٹوٹ گئی، اوپر سے میں نے اسے لات دے ماری جو اس کے پیٹ پر لگی نگینہ پیچھے جا گری، نگینہ نے بغیر کسی دیر کے لیٹے لیٹے پھر گلدان اٹھا کہ میری طرف چلایا جو میری پنڈلی کی ہڈی پر لگا پنڈلی کی ہڈی نے تو میری جان ہی نکال دی ۔ مگر موت سامنے تھی میں نے سب نظر انداز کر کے دروازہ کھول لیا،سرورسانڈ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا اس کاجنون کم ہونے کی بچائے بڑھ چکا تھا میں نے جلدی سے بچی کچھی لاٹھی اس کی طرف چلا دی ،جو سیدھی اس کے چہرے کی طرف گئی، دروازہ بند کر کے باہر سے کنڈی لگا دی، باہر کی طرف لنگڑاتا ہوا بھاگا تو دلآویز اٹھ کے دروازے میں پریشان کھڑی تھی ،میری حالت دیکھ کہ وہ چونکی ، اور پریشانی سے میری طرف بڑھی ، یقیناً ابھی اسے حالات کاپتہ نہیں تھا میں نے اسے زور سے دھکا دیا وہ واپس کمرے میں گر پڑی ، اس دروازے کو بھی باہر سے بند کر دیا ۔ اب دلاویز مجھ سے نفرت کرے گی ، کیونکہ میں نے اس کی ماں کی عزت لوٹنے کی کوشش کی تھی ، نگینہ نے بڑا مکمل وار کیا تھا ، میں تیزی سے صحن پار کر کے باہر والے دروازے کی طرف بڑھا کُنڈی کھول کے دروازہ کھولا اور کچھ سوچ کر تیزی سے لنگڑاتا ہوا سیڑھیوں کی طرف بڑھا ، میں چھت پر آگیا ، بڑی تیز بارش ہو رہی تھی، ہر کوئی کمروں میں دُبکا ہوا تھا ، میں ایک چھت سے دوسری چھت پر چلا گیا، دروازہ اور کنڈی سرور سانڈ کے سامنے کچھ نہیں تھی ، اس کی نفرت بہت زیادہ ہوگئی تھی ،یقیناً اس نے مجھے ڈھونڈنا تھا ، نگینہ نے پہلے بھی گھٹی ہوئی آواز میں بچاؤ کہا تھا اور پھر بعد میں بھی چیخ کے گلی والوں کو اکھٹا نہیں کیا تھا یعنی مجھے مار کے وہیں گاڑنا اس کا واضح مقصد تھا ،ضد میں نگینہ نے انتہائی فیصلہ کر لیا تھا ۔ مجھے کس نے ڈھونڈنا تھا ، ان سے گلی والا کوئی پوچھتا بھی تو کہدیتے کہ میں گھر سے بھاگ گیا ہوں ، تیز بارش ٹھنڈ میں جسم کو سُن کرنے لگی ۔ میں چھتیں پھلانگتا نکڑوالی باجی کی طرف جا رہا تھا، ایک گھر کی چھت اونچی تھی مزید اس پر پردے بھی بننے سے دیوا سی بن گئی تھی ، مجھے اس پر چڑھنے میں مشکل پیش آئی ،اوپر سے بارش نے براحال کر رکھا تھا بہرحال چڑھ ہی گیا ،کلائیاں چِھل گئ ، سوچیں مجھ بھی تیز رفتار تھیں ، نگینہ نے وقت بھی رات کا چُنا تھا اور سرور سانڈ کو جان بوجھ کے میرے کمرے میں لائی تھی کہ بعد میں بتا سکے کہ وہ تو میری خراب طبیعت کی وجہ سے آئی تھی اس نے سرور سانڈ کو جاگنے کا سگنل بھی دیا تھا وہ نہ صرف جاگتا رہا بلکہ اس کا دھیان بھی نگینہ کی طرف تھا اسی لیے وہ نیچی آوز سن کے بھی آگیا ، نکڑ والی باجی کی چھت پر آکے میں چھت کے پردوں سے کمر ٹکا کے بیٹھ گیا پنڈلی کا درد بارش میں سُن ہو رہا تھا ، میری جسمانی حالت بھی نگینہ کی کارستانی تھی اس نے پانچ بار عضو چوس کہ محبت کے ڈھونگ سے چدوا چدوا کے مجھے بے حال کیا ،وہ تو دلآویز آگئی نہیں تو نگینہ نے مجھے ادھ مواء کر دینا تھا ۔ نگینہ نے مجھے دوسری دفعہ شکست دے دی تھی ، اس کا منصوبہ ہر طرح سے مکمل تھا، یقیناً اب وہ میرا پیچھا کروائے گی ، وہ سرور اور اپنے بھائیوں کیساتھ برادری کو بھی اس میں شامل کرے گی عزت لوٹنے والی بات ان اکھڑ لوگوں کیلیے تازیانہ تھی،موت کے سائے میرے آس پاس منڈلانے لگے تھے۔ اس کی مکاری کے سامنے میں ابھی بچہ ہی تھا ، اور اب میری جان خطرے میں تھی مجھے بھاگنے کی بجائے کہیں چھپنے کی ضرورت تھی میں بارش میں ننگے پاؤں اپنے نڈھال جسم اور زخمی پنڈلی کے ساتھ زیادہ بھاگ نہیں سکتا تھا ،نکڑ والی باجی اس وقت مفید ترین تھی، میں نیچے کی سُن گُن لینے لگا،نکڑ والی باجی کا بھائی، بھابی، بچے ،اور باجی کے ماں باپ اپنے کمروں میں رضائیوں میں گُھسے ہوں گے ،سردیوں کے دس بجے ہوں اور بارش ہو رہی ہو تو اس وقت کس نے میرا راستہ روکنا تھا،میرے لیے یہ گھر اجنبی نہیں تھا ، اس لیے سیدھا باجی کے کمرے کی طرف بڑھا ۔ مناسب قد کی، تیکھے نین نقش والی ، گوری چٹی، تیز وطرار، دبلےپتلے جسم والی ، ،اور ہمشہ چست (ٹائیٹ فٹنگ ) کپڑوں میں ممے اور پتلی کمر دکھانے والی چوبیس سال کی باجی سحرش کو میری وجہ سے جوانی بڑی تنگ کرتی تھی ، خوش قسمتی سے دروازہ کھلا تھا میں نے محتاط ہو کے دروازہ سے جھانکا ،باجی کمرے میں رضائی لپیٹ کہ کوئی رسالہ پڑھ رہی تھی ،ساتھ مونگ پھلی اور ریوڑیاں بھی چل رہی تھی ، میں کمرے میں داخل ہو گیا، باجی نے میری طرف دیکھا اور۔۔۔۔۔حیران ہوگئی ،شہزادے تم ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے دروازہ بند کر دیا ،وہ میری حالت دیکھ کے پریشان ہوگئی ، کیا ہوا شہزادے تم اندر کیسے آئے ،باجی اٹھ کہ میرے پاس آگئی، سرورے سے میری لڑائی ہوگئی ،میں بھاگ آیا میرا جواب مختصر تھا،سرورا نگینہ کا غلام ہے اور تُو اس کا شہزادہ ۔ مجھے گولی مت دے سیدھی بات بتا،باجی سحرش میری بات میں نہ آئی ، سرور نے مجھے اور نگینہ کو اکٹھا دیکھ لیا اور مجھے ماررنا چاہا ،مگر مجھے وہاں سے بھاگنے کا موقع مل گیا ، تفصیل سے بتا، باجی سحرش کی تسلی نہ ہوئی ، پوری بات بھی سن لینا ،پہلے میری حالت کا کچھ کر،باجی نے میری حات کا جائزہ لیا ،گیلے کپڑے اتار دے ، باجی نے کھونٹی سے تولیا اتار لیا،لیکن میں ویسے ہی کھڑا رہا ، کپڑے کیوں نہیں اتارتا ، باجی حیران ہوئی ، کوئی کپڑے پہننے کو تو دے ،اور تم بھی ادھر منہ کر لو، زیادہ ڈرامے بازی نہ کر شہزادے ، تیرے سائیز کا کوئی سوٹ نہیں ہے ہمارے گھر میں ،کپڑے اتار کے رضائی میں گُھس جا،اب مجھ سے کیا شرمانا، باجی نے موقع کا فائدہ اٹھانے میں ایک لمحے کی دیر نہیں لگائی ، باجی سحرش خود ہی آگے بڑھ کے میرے کپڑے اتارنے لگی تو میں نے بھی قمیض اور شلوار اتار دی سحرش کی آنکھوں میں چمک آگئی ،وہ پیار سے میرا جسم تولیے سے خشک کرنے لگی ، میرے بال خشک کیے ،جسم خشک کرتے کرتے وہ خود گیلی ہو گئی ہوگی،میں رضائ میں گُھس گیا، تم اندر کیسے آئے ،میں چھت سے آیا ہوں ۔ سحرش نے دروازہ کھول کہ صحن میں دیکھا اور اپنی تسلی کرکے دروزہ بند کر دیا ،بارش جاری تھی،سحرش نے میرے کپڑے نچوڑ کے پھیلا دیے ، میں سردی سے کانپ رہا تھا بلکہ اب ہی تو سردی لگنی شروع ہوئی تھی ،پنڈلی کا درد بے چین کرنے لگا ۔ سحرش نے دروازہ کھولا اور باہر جانے لگی ،کہاں جا رہی ہو،میں نے دھیمی آواز میں پوچھا، کچھ تمھاری سردی کا کرتی ہوں مجھے دیکھ کے سحرش نےگھر اور باہر کے سب خطرے نظر انداز کر دیے تھے ، اسی لیے تو میں سحرش کے پاس آیا تھا ،میں اچھی طرح رضائی لپیٹ کے بیٹھ گیا دس بارہ منٹ بعد سحرش گرم دودھ اور تین دیسی انڈے ابال کے لے آئی، پی لے اس میں شہد بھی ڈالا ہے ،جو سحرش کی سمجھ میں آیا وہ لے آئی ،میرے ہاتھ کانپ رہے تھے ، سحرش انڈوں کا چھلکا اتارنے لگی، دودھ اور انڈے نگلتےہوئے میں نے مناسب سی تفصیل سحرش کو بتا دی کھلا پلا کہ وہ ڈیٹول اور روئی لے آئی ، میری کلائیوں اور ماتھے پر روئی سے صاف کرنے لگی،پھر روئی اچھی طرح ڈیٹول سے بھگو کے میری پنڈلی پر رکھ کے کپڑے سے پٹی باندھ دی ، سحرش اس سب سے فارغ ہو کہ دروازہ بند کر کے میرے ساتھ رضائی میں ہی گھس آئی ، پندرہ بیس منٹ میں میری حالت کچھ نارمل ہو گئی اور سحرش کی حالت خراب ہو گئی ، جس کیلیے وہ اپنے دروازے میں کھڑی انتظار کرتی رہتی تھی ، جس کیلیے سحرش کی منہ زور جوانی بے قابو ہو رہی تھی آج وہ اس ننگے شہزادے سے جڑی بیٹھی تھی ، سحرش نے مستی میں انگڑائی لی تو اس کے ممے اور پتلی کمر نمایاں ہوگئی اس کے چست کپڑوں سے جسم باہر آنے کیلیے پھڑک رہا تھا، ایکدم وہ مدہوشی میں مجھ سے لپٹ گئی اور مجھ پر بوسوں کی بارش کر دی،، اس نے میرےننگے جسم کا کوئی حصہ نہ چھوڑا ، اس کا طوفان بوسوں سے اور بڑھ گیا تو سحرش نے اپنی قمیض اتار دی پھر شلوار اور برا بھی اتار دی، نگینہ جتنی بھی خوبصورت تھی لیکن اس کچی جوانی کے آگے کچھ بھی نہیں تھی، کیسا لگا ہے تمھیں میرا جسم شہزداے،سحرش نے اپنی کمر ہلا ئی، زبردست ، میں نے دل سے کہا، سحرش میرے ساتھ ہی لیٹ گئی ، اور زبردست جپھا ڈال لیا ،ہم کسنگ کرنے لگے ، منہ میں منہ ڈال لیا۔ ہمارے ہاتھ آوارہ ہو گئے ،میں اس کے اَن چھوئے کچے ممے چھونے لگا ، پتلے جسم کی جادوگری تو بہت زیادہ تھی ، سحرش نے ہاتھ بڑھا کے میرا عضو پکڑ لیا، بے شک سحرش بہت ترسی ہوئی تھی، شہزادے اسے ہاتھوں سے نہیں منہ سے پکڑ کے پی ، سحرش نے مجھے اپنے ممے کی طرف کیا ،میں نے ایک نپل منہ میں لے لیا اورچوسنے لگا، یہ میرے پہلے کچے ممے تھے ،مجھے ان کے سواد میں اپنی جسمانی تکلیفیں بھولنے لگی ، جسم گرم ہو گیا ۔جو کہ میرے لیے اچھا تھا ، پہلا پھر دوسرا ،دوسرا اور پھر پہلا،ممے چوسنے سے دل نہیں بھر رہا تھا ، جسم ایک دوسرے میں کبُھے ہوئے تھے ،نگینہ سے سیکھا ہوا سبق پورا کر کے اب میں اندر ڈالنا چاہتا تھا ۔ سحرش کی معلومات سننے تک تھی یا اس نے کچھ دیکھا بھی ہو ، میں کر چکا تھا مگر مجھے نہیں پتہ تھا کہ کنواری چوت کے طریقے کچھ اور ہوتے ہیں ۔ آجا شہزادے سحرش خود بھی لینے کیلیے بےچین تھی ۔ میں نے گھٹنوں پر بیٹھا تو پنڈلی کا درد نے بتایا کہ ابھی میں پوری طرح زندہ ہوں ، مگر اس وقت اس کو بھول جانا ہی ہر لحاظ سے وقت کا تقاضا تھا ،چوت کے اوپر رکھ کے عضو تھوڑا اندر ڈالنا چاہا زور لگایا تو بمشکل ٹوپی چلی گئی ،یہ کیا نگینہ کے اندر تو گھڑاپ کر کے چلا جاتا تھا ،میں نے اور دھکا لگایا تو سحرش کو درد ہوا ، ٹھر جا شہزادے سحرش کو عقل آگئی ، وہ شیمپو کی بوتل الماری سے لے آئی اس میں سرسوں کا تیل تھا، سیانوں کی بات پر عمل کرنا چاہیے ، سحرش نے تیل میرے عضو پر لگاتے ہوئے کہا اور پھر اپنی چوت میں لگایا ، آجا میرے شہزادے ، سحرش نے لیٹتے ہوئے مجھے دعوتِ چدائی دی ،میں اس کی ٹانگٰں کھول کے چوت کے سامنے آیا اور پھر موری پر رکھ کے دھکا لگایا ۔ آہ سکون آگیا ، عضو پھسلتا ہوا اندر چلا گیا مگر چوت اپنی تنگی پوری طرح محسوس کروا رہی تھی، آگے جا کے عضو کسی چیز سے ٹکرا کے پھر رک گیا ، میرے حساب سے اسے اور آگے جانا چاہیے تھا ابھی تو پورا ،اندر ہی نہیں گیا تھا ، شہزادے تھوڑا پیچھے ہو کہ پورے زور سے دھکا لگا، اس دفعہ بھی سحرش ہی کام آئی ، یقیناً اس نے اس کی پوری معلومات لی ہوئی تھی ، نہیں تو انجان کا چودنا چوت کا نقصان والی بات ہو جانی تھی ، میں نےعضو تھوڑا باہر نکالا ،اور پوری طاقت سے اندر ڈالا ، میرا عضو کسی چیز کو توڑتا ہوا اندر جا گھسا ، اور سحرش کے جسم نے جھٹکا لیا ، اس نے اپنے دانت پر دانت جمائے ہوئے تھے ،اس کی رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھی،بعد میں اس نے بتایا کے اسے درد ہوا تھا اور وہ اپنی چیخ روک رہی تھی ،اندر چلا گیا تھا میں سحرش کی حالت سے بے پرواہ چودائی کرنے لگا ۔ شہزاے اب رکنا نہ،کچھ دیر بعد سحرش نے جذبات میں کہا، اس کے رخسار کی ہڈیاں اب نارمل ہو گئ تھی ، مجھے اب چوت میں تھوڑی روانی محسوس ہوئی ، تھکا تھک ،پھٹا پھٹ ،تیز اور تیز،اس کے بعد وہی سب جو نگینہ کو کرتا تھا ،اب سارا کام میرا تھا، میں نے اپنا کام بخوبی کیا ہم جوش میں تھے جوش میں رفتار خودبخود تیز ہوجاتی ہے ۔ میری رفتار بھی تیز ہوگئی ، سحرش میری طوفانی رفتار سے خوش تھی اسے مزہ آرہا تھا ، شہزادے آج ساری کسریں نکال دے ،آج میری دلی تمنا پوری کر دے ،مجھے اتنا چود کہ میرے اندر جو تمھاری طلب ہے اس کے تقاضےۓ پورے ہوجائیں ۔ چود شہزادے چود ، سحرش کو کافی معلومات تھیں اور وہ ان معلومات کا پورا ستعمال کر رہی تھی مجھے سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑانے کیلیئے سحرش سیکسی باتیں کرتی رہی ،شہزادے اپنی باجی کو تیز چود، شہزادے آج مجھے چود ،چود کے ساری کسریں نکال دے ۔ اتنا چود اپنی باجی کو کہ میرے دل کی دھڑکنیں بس تیرا ہی نام لیں ۔آہ ،آہ کیا مست چودائی ہے میرے شہزادے کی ، میرے شہزادے سحرش تو کب سے تمھاری ہے تم ہی اس سے دور بھاگتے تھے ،میں تمھاری دلہن ہوں شہزادے اور آج ہماری سہاگ رات ہے ۔اس سہاگ رات کو اپنی چودائی سے مرادوں بھری رات کر دے ۔ایسی باتوں سے میرا جوش جنوں میں ڈھلتا گیا اور جنوں گرما گرم چودائی کے بعد پانی بن کر نکلنے والا تھا ،وہی ہوا جو نگینہ کے ساتھ ہوتا تھا۔،جسمانی کیفیت بدلی تو میں نے اور سحرش نے جِن جپھا ڈال لیا ۔ جب جنوں پانی بن کے نکلا تو پھر ہمیں سکون آگیا ، میرے شہزادے تو نے میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کر دی ،دن رات تیرے سپنے دیکھ کے میں پاگل ہو چکی تھی، آج سےسحرش تمھاری کنیز ہے شہزادے ، سحرش مجھے لپٹائے اپنے دل کی حالت بیان کر رہی تھی ، ہم کچھ دیر لپٹے رہے ، پھر جیسے سحرش کو کچھ یاد آیا ، اس نے اٹھ کے بستر کو دیکھا ، اس کا تو مجھے یاد ہی نہیں رہا ،سحرش بڑبڑائی ، میں نے بھی دیکھا وہاں بڑا سا خون کا نشان تھا خون اونی گدے نے چوس لیا تھا ۔ اس نے خود کو دیکھا اس کی کمر پر خون لگا تھا ،سحرش نے اپنا جسم صاف کیا اپنے کپڑے پہنے ،سحرش نے چادر اور گدا لپیٹا اور باہر نکل گئ، اب بارش ہلکی ہلکی ہو رہی تھی،میں کمرے کا جائزہ لینےلگا ،کمرے کی دیوار پر ایک انڈین اداکاراور اداکارہ کی بڑی سی تصویر لگی تھی ،ڈریسنگ ٹیبل،دو سنگل صوفے اور دو سنگل بیڈ تھے دونوں انگلش لفظ ایل کی الٹی شکل میں دیوار سے لگے تھے ۔دوسرا بیڈ یقیناً سحرش کی بڑی بہن کا تھا جس کی شادی ہوگئی تھی ،ضرور وہ اب بھی ماں باپ کے پاس آکہ اسی کمرے میں ر ہتی ہو گی ، ہو سکتا ہے سحرش نے سیکس کی ساری معلومات اپنی بڑی بہن سے لی ہوں ، بیس پچیس منٹ بعد سحرش آئی تو جہاں خون لگا تھا وہاں سے چادر اور گدا دھلا ہوا تھا ،پھر سحرش استری لے آئی، اور چادر اور گدے کو استری سے خشک کیا، میں رضائی میں لپٹا بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا ، سحرش نے میرے کپڑے بھی استری کر دیے ،پھر اپنے کپڑے اتار کے میرے پاس آگئی،صبح کسی نہ کسی نے یہ دیکھ لینا تھا اور طوفان آجانا تھا ،سحرش میری گود میں بیٹھتے ہوئے کہا ، نگینہ کی مجھے طلب نہیں ہوتی تھی ، لیکن آج سحرش کی مجھے طلب ہو رہی تھی ، میں اس کے کندھے گردن چومنے لگا اس کے ممے چوسنے لگا ،سحرش کو بھی میری طلب تھی،ہم گُتھم گُتھا ہونے لگے، ایکدوسرے سے مزہ کشیدتے ہوئے ہم گرما گرم ہو گئے ،سحرش لیٹ گئی اور میں اس کے اوپر تھا ، میں اند ڈالنے لگا تو سحرش نے عضو پر تیل لگا دیا ،کچھ دن تو لگانا پڑے گا ، اس نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا ،پھر وہی مزےدار مشقت ، پتہ نہیں کیا بات تھی سحرش کی چودائی میں مزہ بہت تھا، یہ تو جیسے ایک نئی دنیا سامنے آگئی تھی ، میں اس کے اوپر لیٹ کے آہستہ آہستہ کرنے لگا اور ساتھ اس کے ممے چوسنے لگا ، سحرش تو جیسے مزے میں ڈوب گئی ،میں لگا رہا ،کبھی آہستہ کبھی تیز ہو جاتا تھا ،شہزادے پھاڑ دے میری چوت تیز اور زور دار دھکے لگا ، جیسے اس نے کہا تھا ویسے میں چودائی کرنے لگا،شاید اس کا وقت قریب تھا ،وقت تو میرا بھی قریب تھا ،ہم زبردست طریقے سے لپٹ گئے ، اور پانی نکالنےلگے۔ جذبات کا دریا کچھ مدہم ہوا تو آگے کی سوچنے لگے ،سحرش کو میری فکر تھی،شہزادے اب تم کہا جاؤ گے ،جب میں گدا دھونے گئی تو گلی میں جھانکا تھا مجھے سرور کے مکان کے سامنے تین چار موٹر سائیکل نظر آئے ۔ مجھے لگتا ہے سرور نے اپنے اور نگینہ کے بھائی بلا لیے ہیں ، وہ لوگ تمھیں ضرور ڈھونڈیں گے ، میں پریشان ہو گیا ،مجھے اس کا اندازہ تھا کہ یہ ہو سکتا ہے ۔ فی الحال تمھارا باہر نکلنا ٹھیک نہیں ہے ، تم ان سے چھپ نہیں سکو گے ،سحرش میرے لیے پریشان تھی،تم اپنے کپڑے پہن لو،سحرش نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، میرے کپڑے پہننے کے دروان سحرش مجھے سمجھاتی رہی کہ کیا کرنا ہے ، تھوڑی دیر بعد وہ اپنی امی کو اٹھا کے لے آئی، شہزادے کیا ہوا بیٹا ؟سحرش تمھیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھتی ہے بہت پریشان ہے تمھارے لیے ، وہ آنٹی جی آپ کو پتہ ہے کہ میرے والد کے مرنے پر سرور خان نے میرے نام پر فیکٹری سے کافی پیسے لے لیے تھے بلکہ اس نے اپنے کسی بھتیجے کو میری جگہ فیکٹری بھی لگوا دیا ہے ،،(اس بات کا پتا مجھے سحرش سے چلا تھا ) دادی کی وجہ سے سرور مجھے گھر میں رکھنے پر مجبور تھا اب اس نے مجھے چوری کا الزام لگا کے نکال دیا ہے کہ میں نے سرور کے پیسے اور نگینہ کا زیور چرایا ہے یہ مجھے پولیس میں لے جانے والے تھے کہ میں چھت سے بھاگتا ہوا باجی سحرش کے پاس آگیا ،اسی بہانے وہ مجھے پکڑ کے پولیس میں دینا چاہتے ہیں جہاں سے میں شاید بچ سکوں ، تا کہ بعد میں کبھی ان سے اپنا حق نہ مانگ سکوں ، آنٹی اب تو خدا کے بعد آپ ہی میرا سہا را ہیں ، آنٹی نے ٹھنڈی سانس لی ،بیٹا کیا زمانہ آگیا ہے ،دولت کیلیے لوگ کیا کیا کر جاتے ہیں ، یہ تمھارے والد کے پیسے لینے کا توساری گلی کو پتہ ہے اسی پیسے سے اس نے موٹر سائیکل لی تھی اور سنا ہے اس نے باقی پیسے کسی بینک میں رکھوا دیے ہیں ،بہرحال بیٹا یہ تو بڑے اکھڑ لوگ ہیں ہم ان کا مقابلا نہیں کر سکتے ،آنٹی آپ بس کچھ دن مجھے چھپا لیں میں اس سے زیادہ آپ پہ بوجھ نہیں بنوں گا،نہیں بیٹا بوجھ کی کوئی بات نہیں اگر ان لوگوں کا مسلہ نہ ہوتا تو ہم تمھیں اپنے پاس ہی رکھ لیتے، بیٹا ان کو پتا تو نہیں چلا کہ تم چھت سے بھاگے ہو،آنٹی فکرمند تھی ۔ نہیں آنٹی وہ سمجھے کہ میں باہر نکل گیا ہوں ،اچھا چلو میں سحرش کے ابا سے بات کرتی ہوں ،آنٹی باہر چلی گئی تو سحرش مجھ سے لپٹ گئ،امی مان گئی تو سمجھو ابو بھی مان گئے،اچھا تمھیں یقین ہے نہ وہ نگینہ کی عزت پر حملے والی بات کسی سے نہیں کریں گے نہیں یار وہ اس بات میں اپنی بے عزتی محسوس کریں گے اسلیے کوئی اور الزام لگائیں گے ہو سکتا ہے چوری والی بات سچی کر دیں ،قصہ مختصر سحرش اوراس کی امی کیوجہ سے مجھے کچھ دن وہاں رہنے کی اجازت مل گئی ،سحرش بہت فکر مند تھی اپنے چھوٹے بھائی کیلیے، اسلیئے اس نے مجھے اپنے کمرے میں ہی رکھ لیا، اس کےبھائی اور بھابی ،امی اور ابا کے کمرے میں ویسے بھی میں کباب میں ہڈی تھا ،بچوں کو کچھ نہیں بتایا گیا تھا ،اس لیے سارا دن کمرے کا دروازہ بند رہتا تھا ، سحرش کی بڑی بہن کا بیڈ اب میرے قبضے میں تھا، دو دن تک پنڈلی کا درد ٹھیک ہو گیا، سحرش میری مخبر تھی ،نگینہ کے گھر موٹر سائیکلوں پر آنے جانے والے کافی ہوگئے تھے ،کچھ کے پاس اسلحہ بھی دیکھا گیا،انہوں نے یہی مشہور کیا کہ میں ان کی ساری جمع پونجی لے کے بھاگ گیا ہوں ، جب سرور نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی تو شہزادے نے اس پر قاتلانہ حملہ کردیا ،اس طرح پولیس میں بھی پرچہ ٹھوک کہ کٹوایا گیا اگر میں ان کے ہاتھ آجاتا تو میری خیر نہیں تھی ۔کالونی میں چہہ مگوئیاں ہورہی تھیں ، سحرش کی امی فکر مند رہتی تھی جب سحرش اور اس کی بھابی گھر کے کام کاج میں لگی ہوتی تھیں تو سحرش کی امی میرے پاس کے آکہ بیٹھ جاتی تھی، مجھے لپٹا لیتی ،سینے سے لگا لیتی، ان کو میری بڑی فکر تھی ،دروازہ بند ہوتا تھا ، میں سب سمجھ کے بھی انجان بن رہا تھا ، رات کو سحرش اور میرا جوڑ پڑتا تھا ،ہم تھک کے گر پڑتے تو سو جاتے،سحرش کی بھابی مجھ سے دور رہنے کی کوشش کرتی تھی ،ہفتہ گزر گیا ، سحرش میری دیوانی تھی لیکن اب میری قربت نے اسے کچھ زیادہ ہی دیوانہ کر دیا تھا ۔سرورے کے خاندان کی تلا ش مدہم پڑنے لگی،بھائی اور ابو کہہ رہیں ہیں کے اب تمھیں یہاں سے چلا جانا چاہیے ،سحرش نے رات کو پریشانی سے مجھے بتایا،میں کچھ کرتی ہوں ، ہم کھیلنے لگےسحرش اب سیکس میں بہت جذباتی ہو جاتی تھی ،اس کاانداز بدلنے لگا تھا ،سحرش کے جذبات مجھے بے چین کرنے لگے ۔اگلے دن سحرش کی ماں موقع دیکھ کے آگئی ، بیٹا سحرش کے ابا اب تمھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتے ، میں بہت مجبور ہوں ،مجھے تمھاری بہت فکر ہے انہوں نے مجھے بیٹا سمجھا کے ساتھ لپٹا لیا،میرا سر ان کے مموں پر تھا ، میں ہفتے سے انجان بن رہا تھا ،بڑے سے ممے ،موٹی گانڈ بڑھا ہوا پیٹ ،چوڑی کمر۔ یہ سب میرے جمالیاتی ذوق پر تازیانہ تھا،مگر اب مطلب کے لیے دل سخت کر لیا ،آنٹی آپ ہی تو میرا سہارا ہیں میں نے ان کے گلے میں سامنے سے اپنی بانہہ ڈال دی ،میرا بازو ان کے مموں پر تھا ،ان کی آنکھوں میں چمک آگئی ،بیٹا میں تو چاہتی ہوں ابھی تم نہ جاؤ ان کی تلاش ابھی مدہم پڑی ہے رکی نہیں ،سحرش کی امی نے مجھے کچھ سمجھایا،جی آنٹی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میں نے اپنے بازو سے مموں پر دباؤ ڈالا ، آپ کچھ کریں نہ پلیز ،میں ان سے زور سے لپٹ گیا،شہزادے میں نے بڑی مشکل سے ان کو مزید چند دن کیلیے منایا ہے ،انہوں نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا،، اور مجھے چومنے لگی ،ماں بننے کا لبادہ ایک منٹ میں اتار کے وہ میری عاشق بن گئی،دس منٹ اس نے مجھ پر اپنی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی ،سحرش کسی بھی کمرے میں آسکتی ہے میں نے کسمساتے ہوئے کہا،، بادل ناخواستہ سحرش کی امی کومجھے چھوڑنا پڑا ، ان کو چدائی کیلیے موقع ملنا بہت مشکل تھا ،اسی لیے میں نے دل سخت کر کے اسے چوما چاٹی تک آنے دیا تھا ۔ دن میں سحرش کی امی موقع بنا کے آتی رہتی اور رات کو سحرش سحرش ہوتی رہتی ،سحرش اب میرے نام کی مال جپتی تھی ،ہرپل اسے میرا خیال رہتا تھا ، اسے میری لگن لگ گئی تھی ۔ سحرش کو مجھ سے پیار ہوگیا تھا ۔کچھ دن گزر گئے سرور کے گھر میں برادری کا آنا جانا ختم ہو گیا ۔ سحرش بتا رہی تھی کہ وہ حیران ہیں کہ مجھے زمیں کھا گئی کے آسمان ؟ سحرش اور اس کی امی کے پاس اب مجھے گھر میں رکھنے کا کوئی بہانہ نہیں تھا ، دو دن اسی کشمکش میں گزر گئے ، رات کو سحرش کی امی اور ابا کی لڑائی ہو گئی ، ہم نے اس کا ٹھیکہ نہیں اٹھایا ،اس جیسے ہزاروں پھرتے ہیں کیا ہم سب کو گھر لے آئے،آپ نے جوان بیٹی کے کمرے میں ایک آوارہ کو رکھا ہوا ہے پتہ نہیں آپ کی سمجھ کو کیا ہو گیا ہے امی جان ، یہ سحرش کا بڑا بھائی تھا، باتیں میری کانوں میں پڑ رہی تھیں،میں سمجھ گیا اب سحرش اور اس کی امی کی نہیں چلے گی ، میں اور سحرش کمرے میں بیٹھے تھے،اچھا سحرش اب میں چلتا ہوں ،میں اٹھ کھڑا ہوا ،کہاں ،رکو۔ سحرش بے چینی سے اٹھ پڑی ، سحرش میری جان ، تمھارے گھر میں جھگڑے بڑھ گئے تو اس سے ہو سکتا ہے ہمسائیوں کو کچھ بِھنک پڑ جائے،اس سے بات پھیل جائے گی اور جو بھی ہوآخر مجھے جانا توہے ہی ، سحرش بھی یہ بات سمجھ گئی تھی،میں تمھیں نہیں بھلا سکتی شہزادے ،وعدہ کرو تم مجھے ملو گے ،سحرش میرے گلے لگ چکی تھی ،اس کی حالت ٹھیک نہیں تھی، یہ کچھ پیسے رکھ لو ،کافی سارے پیسے اس نے میری جیب میں ڈال دیا ،پتہ نہیں اس نے کیسے اکٹھے کیے تھے ۔ سحرش پھر میرے گلے لگ گئی، اس کا جسم کانپ رہا تھا ،ہم نے ایک لمبی سی آخری کِس لی، میں نے اس کی دی ہوئی گرم شال لپیٹی ،اس سے منگوایا ہوا چاقو جیب میں ڈالا ، لنڈے کے جوگرز کے تسمے بیڈ پر بیٹھ کر کسے، یہ بھی اسی کے دئیے ہوئے تھے
میں کمرے سے باہر نکلا ،دو ہزار دو ، شروع ہو گیا تھا ،پچھلی صدی کب کی چلی گئی تھی ۔ماں باپ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مر گیا اور شہزادہ زندہ ہو گیا تھا ،امی ابو سے نہیں ملو گے ،سحرش نے مجھے باہر کی طرف جاتے ہوئے پوچھا ، سحرش کی امی اور ابو کے لڑنے کی آواز بلند ہو رہی تھی ، نہیں یار تم ہی انھہیں بتا دینا ،میں دروازے کے کے پاس رک گیا،سحرش نے باہر گلی میں دیکھا، کوئی نہیں ہے۔سحرش نے سسکتے ہوئے بتایا۔
مجھے اس پر پیار آگیا ، میں نے اس کی آنکھیں چومی ، ہونٹوں پر کِس لی اور گلی میں نکل گیا ، سحرش روتی رہی، گلی میں اندھیرا تھا ،بلکہ اس دنیا میں ہی اندھیرا تھا ،میں نے ان اندھیروں میں خود کو گم کر لیا ،
(آدمی خود بخود نہیں مرتا ۔۔۔۔۔ دوسرے لوگ مار دیتے ہیں )
جاری ہے

ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (دوسری قسط)"