ایک دو دن کے بعد مشت زنی کرنے کی مجھے عادت تھی اس لیے ایک دن میرا دل مٹھ مارنے کا ہورہا تھا تو باتھ روم میں گھس گیا اور سارے کپڑے اتار کر لنڈ کو کھڑا کرنے لگا۔ جب میرا ہاتھ ٹٹوں کو ٹچ ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ ٹٹوں اور لنڈ کے درمیانی جگہ پر پھوڑا نکلا ہوا ہے۔ جس کی جسامت اس وقت کچھ کم تھی۔ بار بار انگلیاں لگنے سے لنڈ درد کرنے لگا تب مٹھ نہ مارنے کی سوچی اور نہا کر کپڑے پہن کر باہر نکل آیا۔
میرے گھر پر میرے علاوہ میری امی ہوتی ہیں میں نے ان سے اپنا مسئلہ بیان نہیں کیا اور خاموش ہی رہا۔ دن کے وقت کھانا کھانے کے بعد میں دوستوں کے ساتھ کھیلنے میدان میں چلا گیا۔ جب میری بیٹنگ آئی تو پہلے کچھ اوورز میں، میں نے مخالف ٹیم کے چھکے چھڑوا دیے۔
مخالف ٹیم کے کپتان نے دیکھا کہ عثمان تو کافی تیزی سے میچ کو اپنی جانب موڑ رہا ہے تو اس نے اپنے تیز ترین باولر جس نے ابتدائی اوورز میں ہماری ٹیم کے دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کردیا تھا اس کو اوور دیا۔
قدرت نے جیسا لکھا تھا ویسا ہی ہوا میں اس اوور میں آخری گیند کھیلنے کے لیے اس کے سامنے آگیا۔ باولر نے سٹارٹ لیا اور گیند حطرناک حد سے پھینکی باولر نے ٹھیک میری ران کے درمیانی حصے کو نشانہ بنایا تھا جس میں وہ کامیاب ہوگیا۔
پہلے تو میری ٹیم کو کچھ سمجھ نہیں پھر جب سمجھ آیا تو سب میری طرف دوڑے۔ میرے لنڈ پر پہلے پھوڑا نکلا تھا اور اوپر سے تیز گیند کے لگنے سے میرے ہواس ہی ختم ہوچکے تھے۔
خیر خدا خدا کرکے میرے ہواس دوبارہ بحال ہوئے اور ہم اس میچ کو وہیں ختم کرکے گھر کی طرف چل دیے۔ ہماری ٹیم کا کپتان احسن میرا دوست تھا اس نے راستے میں بات چھیڑ دی۔
احسن: یار ایک بات پوچھوں؟
میں (لنگڑاتے ہوئے): ہاں پوچھ
احسن: جب تمہیں گیند لگی تو مالش کرتے وقت مجھے کچھ محسوس ہوا تھا۔
میں(شرمندہ ہوتے ہوئے): کیا؟ (کیونکہ میرے لنڈ کا سائز چھ انچ سے زیادہ تھا)
احسن: تیرے ہتھیار پر پھوڑا ہے شاید اتنی زیادہ درد تمہیں اسی کی وجہ سے ہو رہی تھی۔
میں: شاید ایسا ہو۔
احسن: یار۔۔۔ ایک اچھے دوست ہونے کے ناتے تجھے میں مشورہ دیتا ہوں کہ تم اپنی امی کو اس پھورے کے متعلق بتا دو۔
میں ہچکچاتے ہوئے: نہیں یار۔ میں امی کو کیسے بتا سکتا ہوں؟
احسن: چل میں بتا دیتا ہوں۔
میرے انکار کے باوجود احسن نے امی کو ساری بات بتا دی۔ امی احسن کی بات سن کر بہت پریشان ہوگئی آپ سب کو معلوم ہو گا کہ جن کی والدہ محترمہ دیہاتی ہوتی ہیں ان کی اولاد کو کیا کچھ سننا پڑتا ہے۔ خیرامی نے اسی وقت گھر کو تالا لگایا اور مجھے لے کر قریبی کلینک پر چلی گئی جو تقریبا تین کلومیٹر دور تھا۔
کیچھ دیر انتظار کے بعد ہمارا نمبر بھی آگیا اور ہم اندر پہنچ گئے۔ امی نے لیڈی ڈاکٹر سے مسئلہ شئیر کیا۔ لیڈی ڈاکٹر نے خاموشی سے ساری بات سنی پھر مجھے آفس کے ساتھ اٹیچ ایک کمرے میں جا کر لیٹنے کا بولا۔
میں بادل ناخواستہ اٹھا اور ساتھ والے کمرے میں لگے اسٹریچر پر جا لیٹا جہاں ایک نرس پہلے سے موجود تھی۔ اس نے مجھے دیکھا اور باہر نکل گئی۔ کچھ سکینڈز کے بعد وہ دوبارہ اندر آئی اور مجھ سے بولی: میڈیم نے بولا ہے کہ اپنی شلوار اتار دو اور پھوڑے والی جگہ پر یہ کریم لگا دو۔
میں نے خاموشی سے اس سے کریم لی اور اسے باہر جانے کی استدعا آنکھوں سے کرنے لگا لیکن وہ ایسے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئی جیسے اسے میرے ہونے یا نہ ہونے کی کوئی پرواہ نہ ہو۔
میں نے بادل نخواستہ اپنے شلوار آہستہ سے اتاری اور مطلوبہ جگہ کریم لگانے لگا۔ جب کریم لگا چکا تو میری نظر نرس کی طرف گئی تو مجھے حیرت ہوئی کیونکہ وہ میری طرف بالکل بھی نہیں دیکھ رہی تھی۔ جیسے ہی میں کریم کو بند کرکے سائڈ پر رکھی اسی وقت نرس نے میری طرف توجہ دی اور کہا۔
نرس: ابھی شلوار مت پہن لینا۔ ابھی میڈیم نے چیک بھی کرنا ہے۔
میں تو مختلف سوچوں میں ڈوبا ہواتھا۔ میں نے ویسے بھی نیٹ پر کافی سٹوریز پڑھ رکھی تھی کہ ایسا ہوتا ہے ویسا ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ خیر کچھ دیر بعد لیڈی ڈاکٹر اندر آئی اور اس نے عام سا چیک اپ کیا اس دوران میرا لنڈ کھڑا رہا جو میری شرمندگی کا سبب بھی بنا۔ لیکن لیڈی ڈاکٹر اور نرس کے چہرے پر کوئی بھی تاثر ایسا ویسا نہیں تھا جس سے میں کوئی اندازہ لگاتا۔
لیڈی ڈاکٹر نے مجھے سیکس، مٹھ اور گندے خیالات سے باز رہنے کی ہدایات دی اور مجھے ایک ہفتے بعد دوبارہ چیک اپ کروانے کا بول کر کمرے سے باہر نکل آئی۔ نرس نے لیڈی ڈاکٹر کے جانے کے بعد مجھے پانچ منٹ کے بعد باہر آنے کا بول اپنے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ یہ تمام باتیں امی کی غیر حاضری میں ہوئی اس لیے میں زیادہ نروس نہیں ہوا۔
خیر لیڈی ڈاکٹر کی دی ہوئی ٹیوب اور کیپسول کھانے سے میرا پھوڑا آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔ ایک ہفتے کے بعد امی نے خود ہی کہا کہ ہمیں وہاں چلنا چاہیے۔ میں نے انکارکیا تب امی بولی
امی: ڈاکٹر نوشابہ نے کہا تھا کہ اگر چیک اپ کروانے نہ آئے تو ہو سکتا کہ یہ پھوڑا کسی اور جگہ نکل آئے اور اس کی جسامت زیادہ بڑھی بھی ہوسکتی ہے۔
میں ڈاکٹر نوشابہ کی عقلمندی کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ اکثر ڈاکٹرز حضرات پیسے وصولنے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں۔ خیر مقررہ دن صبح صبح امی نے مجھے جگایا اور کہا: تمہاری خالہ کی ساس فوت ہوگئی ہیں اس لیے میں ان کی طرف جا رہی ہوں تم خود آج لیڈی ڈاکٹر کے پاس چلے جانا۔
میں ان کی بات مان کر ان کے ساتھ ہی گھر سے نکل پڑا۔جب مقررہ جگہ پہنچا تو مریضوں کی تعداد میں خاصی کمی تھی۔ مجھے جلد ہی اندر بلا لیا گیا میں خاموشی سے لیڈی ڈاکٹر کے پاس جا بیٹھا جہاں تمام مریض بیٹھ کر اپنا چیک اپ کرواتے ہیں۔ خیر کچھ دیر رسمی گفتگو کے بعد لیڈی ڈاکٹر نے مجھے اندر چلنے اور شلوار اتار کر رکھنے کا کہا۔ میں پہلے کی طرح اندرونی کمرے میں گیا اور اپنی شلوار اتار کر سائد پر رکھ دی۔ آج نرس کمرے میں موجود نہیں تھی۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر نوشابہ اندر داخل ہوئی اور بولی: آرام سے لیٹ جاو مجھے ایک مریض کو چیک کرنا ہے۔ رمشا آج نہیں آئی اس لیے مجھے سارے کام دیکھنا پڑرہے ہیں۔
میں جی اچھا کہہ کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد میڈم اندر داخل ہوئی اور اپنے ہاتھوں پر دستانے معمول کے مطابق چڑھائے میرے قریب آئی۔ ناجانے کیوں جب بھی میڈم نوشابہ میرے قریب آتی تھی تو میرا لنڈ کھڑا ہوجاتا تھا۔ خیرمیڈم نے اپنا وہی کام شروع کردیا۔ میرے لنڈ کو پکڑ کر کبھی دائیں کبھی بائیں جانب موڑ کر دیکھتی۔ اس دوران میرے لنڈ میں بچی نرمی سختی میں تبدیل ہوچکی تھی۔
میڈم اپنے چہرے پر کوئی بھی تاثرات لائے بغیر بولی: آج خالہ (امی) کو ساتھ نہیں لائے؟
میں: نہیں۔۔۔ وہ امی کو کسی کام سے رکنا پڑا۔
میڈیم: یہ اچھا کیا۔ ویسے بھی ان کی عمر ہوگئی ہے۔
میں بس جی کہہ سکا۔ کچھ دیر تک میڈم چیک اپ کرتی رہی اور ساتھ ساتھ باتیں بھی، پھر میڈیم نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: اس ہفتے احتیاط کی؟
میں اچانک سوال کو سمجھ نہ سکا اور بولا: کیا مطلب
میڈم مسکراتے ہوئے: مطلب۔۔۔ سیکس، مشت زنی یا کوئی اور کام تو نہیں کیا؟
میں: نہیں۔
میڈم: مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ تم نے ایسا کوئی کام اس ہفتے لازمی کیا ہے اس لیے پھوڑے والی جگہ پر نشان باقی ہے۔ (فرینڈز جس جگہ پھوڑا نکلتا ہے اس جگہ اس کا نشان وقتی رہتا ہے)
میں میڈم کی بات سن کر تھوڑا سا پریشان ہوگیا۔میں بولا: پھر کیا ہوگا جبکہ میری تو کوئی گرل فرینڈ بھی نہیں۔
میڈم نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے: میں نہیں مانتی کہ تمہاری کوئی گرل فرینڈ نہیں ہے۔
میں پریشانی میں: یہ سچ ہے میری کوئی گرل فرینڈ نہیں۔
میڈم: ابھی معلوم ہو جائے گا۔
اتنا کہہ کر لیڈی ڈاکٹر میرے ہتیھار کو اسی طرح پکڑے پکڑے ہلکا ہلکا ہلانے لگی۔ مجھے زیادہ تو نہیں لیکن تھوڑا تھوڑا مزہ آنے لگا کچھ سیکنڈز کے بعد ڈاکٹر نوشابہ نے اپنے ہاتھوں سے داستانے اتار کر سائڈ پر رکھے اپنے ننگے ہاتھوں سے میرے لنڈ کی مٹھ مارنے لگی۔ جو گرمی ننگے ہاتھ کی ہوتی ہے وہ داستانے میں نہیں، اسی وجہ سے میرے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگی۔
چند لمحوں کے بعد مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرے جسم میں خون کی گردش بڑھنے لگی ہے ایسا اس وقت ہوتا ہے جب میرے لنڈ سے منی نکلنے والی ہوتی ہے۔ میرے منہ سے سسکاریوں کی آواز بلند ہوتا دیکھ میڈم نوشابہ بھی اپنے کام کو مزید تیز کردیا۔ میری کمر اسٹریچر سے اوپر اٹھنے لگی تب ڈاکٹر نوشابہ نے اپنے منہ کو میرے لنڈ پر جھکا لیا میں اس منظر کو مزید دیکھ نہ سکا۔
کیونکہ میرا ہتیھار ڈاکٹر نوشابہ کے ہاتھوں کی گرمی کو پہلے برداشت نہیں کرسکا تھا اور اب تو ڈاکٹر نوشابہ نے حد ہی کردی تھی۔
ایک کے بعد ایک منی کے قطرے میرے لنڈ سے نکل رہے تھے۔ جب میں مکمل خالی ہوچکا تب ڈاکٹر نوشابہ نے مجھ سے کہا: ابھی پانچ منٹ کے بعد یہاں سے نکل کر سامنے والی سٹور پر جاو اور ان سے ۔۔۔۔نامی میڈیسن لے لو۔
میں سٹریچر سے اترا تو میری نظر سٹریچر پر گئی جہاں ایک بھی منی قطرہ موجود نہیں تھا جس کا ایک ہی مطلب تھا۔ خیر میں نے میڈیسن لی اور واپس آکر ڈاکٹر نوشابہ کو دیکھائی۔ ڈاکٹر نوشابہ نے اپنے چہرے پر کوئی بھی تاثر دیئے بغیر دراز سے ایک چابی نکالی اور اوپر بنے ایک کمرے میں جانے کا کہا۔
قریب بیس منٹ کے بعد ڈاکٹر نوشابہ اس کمرے میں آئی اور آتے ساتھ میرے چہرے کو چومنے چاٹنے لگی۔ میں نےپہلے کبھی کسی لڑکی کو چودا نہیں تھا اس لیے ڈاکٹر نوشابہ کا ساتھ دینے میں ناکام رہا۔ ڈاکٹر نوشابہ کو محسوس ہوچکا تھا اس لیے ڈاکٹر نوشابہ نے مجھے سنگل بیڈ پر کپڑے اتار کر لیٹنے کا کہا۔ میں بھی سیکس میں چور اس کی بات مانتے ہوئے اپنے کپڑے اتارنے لگا۔
جب میں کپڑے اتار چکا تو ڈاکٹر نوشابہ نے مجھے بیڈ پر آنے کا اشارہ کیا۔ میں تین سالہ سیکس کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ڈاکٹر نوشابہ کی طرف بڑھنے لگا۔ بیڈ پر پہنچ کر ہم ایک بار پھر بوس و کنار ہوئے۔(اس دوران میں آپ کو ڈاکٹر نوشابہ کے جسم کے متعلق بتا دوں۔ نوشابہ کے بوبز ۳۶ سائز کے، کمر ۲۸، اور گانڈ کافی باہر کو آئی ہوئی تھی شاید ۳۲ سائز تھا یا اس سے زیادہ، نوشابہ کا جسم گورا، پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی شادی ہوچکی ہے اولاد نہیں ہے کیونکہ وہ دونوں (میاں بیوی) ابھی بچوں کے جنجٹ کو افورڈ نہیں کرسکتے تھے)
بوس و کنار کے بعد ڈاکٹر نوشابہ نے مجھے بیڈ پر دھکیل دیا میں خاموشی سے بیڈ پر ٹانگیں نیچے لٹکائے لیٹ چکا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنی ٹانگوں کو بھی اوپر کرلیا۔ ڈاکٹر نوشابہ میرےہونٹوں سے ہوتے ہوئے میری گردن پر آئی پھر آہستہ آہستہ میری گردن سے نیچےمیری چھاتی سے ہوتے ہوئے میرے لنڈ پر پہنچ گئی۔ میرے لنڈ کو چوستے ہوئے کچھ لمحوں کے لیے رکی اور بولی:
ڈاکٹر نوشابہ: مجھے اسی وقت شک پڑ چکا تھاجب تم اپنی والدہ کے ساتھ میرے کلینک پر پہلی مرتبہ آئے کہ تمہاری کوئی گرل فرینڈ نہیں، یہ پھوڑے زیادہ تر اسی وقت نکلتے ہیں جب لڑکے مشت زنی کرتے ہیں۔ آج میں تمہیں وہ مزہ دوں گی جس کا تصور تم نے کبھی بھی نہیں کیا ہوگا۔
میں ڈاکٹر نوشابہ کی باتیں توجہ سے سن رہا تھا۔ ڈاکٹر نوشابہ پھر بولی: اگر آج تم مجھے خوش کردو تو میں ہر خوشی تمہیں لا کر دے سکتی ہوں لیکن تمہیں وعدہ کرنا ہوگا کہ یہ راز صرف ہمارے درمیان رہے گا۔
میں سیکس کے نشے میں ڈوبا ہوا بول پڑا: جو کام ہم نے شروع کیے ہیں اس کو پہلے مکمل کرلو پھر کسی دوسرے کی طرف توجہ دیں گے۔
ڈاکٹر نوشابہ مسکراتے ہوئے میرے لنڈ پر پھر سے جھک گئی۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر نوشابہ میرے لنڈ کو اپنے منہ سے نکال کر میرے لنڈ پر بیٹھنے لگی۔ میرا لنڈ بڑی آسانی سے ڈاکٹر نوشابہ کی پھدی کے اندر داخل ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر نوشابہ نے آہستہ آہستہ اوپر نیچے ہوتے ہوئے خود کو سیٹ کیا اور مجھ پر جھک گئی۔
ہم ایک بار پھر بوس و کنار میں مصروف ہوچکے تھے نوشابہ نے اپنے ایک ہاتھ کو آگے بڑھا کر میرے ہاتھ کو اپنے قابضے میں لے کر اپنے پستان پر جما دیا۔ میرے ہاتھ کے اوپر سے ہی اپنے ایک پستان کو دبانے لگی۔ میں اس کا اشارہ سمجھ کر اپنے دونوں ہاتھوں نوشابہ کے پستانوں کو دبانے میں مصروف ہوگیا۔
نوشابہ اس سارے عمل کے دوران خود کو اوپر نیچے ہونے کے لیے بالکل بھی نہیں روکا۔ کچھ لمحوں کے بعد ڈاکٹر نوشابہ ڈسچارج ہوچکی تھی۔ میں نوشابہ کے بدن کے وزن کو مزید برداشت نہیں کرسکتا تھا اس بات کا احساس ڈاکٹر نوشابہ کو ہوچکا تھا اس لیے ڈسچارج ہونے کے بعد نوشابہ میرے جسم سے الگ ہو کر بیڈ پر کمر کے بل لیٹ چکی تھی۔
نوشابہ لمبے لمبے سانس لینے کے بعد: میرے اوپر آؤ۔
میں نوشابہ کی بات مان کر اس کے جسم کے اوپر آگیا۔ نوشابہ نے ہاتھ بڑھا کر میرے لنڈ کو پکڑ لیا جو ایک دفعہ ڈسچارج ہوجانے کے بعد ابھی تک کھڑا تھا۔ نوشابہ نے دو سے تین مرتبہ میرے لنڈ کو ہلایا اور پھر اپنے پھدی کے سوراخ پر رکھ کر مجھے جھٹکا دینے کا کہا۔
میں نے دو جاندار جھٹکوں کی مدد سے اپنا لنڈ ڈاکٹر نوشابہ کی پھدی میں مکمل ڈال دیا۔ نوشابہ میرے ہر جھٹکے پر سسکتی اور مجھےمزید تیز جھٹکے لگانے کا بولتی۔ نوشابہ اپنی ننگی ٹانگوں کی مدد سے میری کمر کو جھکڑ کر اپنے قریب لانے کی کوشش کرنے لگی۔ اس انداز میں میرے لنڈ کی ٹوپی نوشابہ کی بچہ دانی سے بار بار ٹکڑانے لگی۔
میں نوشابہ کی پھدی کی گرمی کو محسوس کرکے مزید گرم ہونے لگا تھا۔ مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ میری منی میرے لنڈ کی ٹوپی کی طرف جانے والی ہے۔ میں نے اپنا چہرہ نوشابہ کے بڑے بڑے مموں کے درمیان چھپا کر جھٹکوں کی رفتار تیز کردی۔
نوشابہ جب تک میری حالت کو سمجھتی میں اس کی پھدی کے اندر تیزی سے فارغ ہونے لگا۔ نوشابہ اپنے اندر میری گرم منی کو محسوس کرتے ہی فارغ ہونے لگی۔ ہم دونوں دو جسم ایک جان بنے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے میں نوشابہ کے ساتھ لیٹ کر سستانے لگا۔ یہ میری زندگی کا پہلا سیکس تھا۔
نوشابہ آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئی شاید ہماری اس چودائی کو محسوس کررہی تھی۔ میں وہاں سے اٹھا اور واش روم میں گھس گیا۔ اچھے سے فارغ ہو کر کمرے میں آیا تو نوشابہ برا اور قمیض پہن چکی تھی۔ مجھے واش روم سے باہراتا دیکھ، سمائل کرتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
کچھ دیر بعد نوشابہ پینٹی اور شلوار پہن کر میرے پاس آگئی۔ ہم ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔ نوشابہ بولی: کیسا لگا تمہارا پہلا سیکس؟
میں(نوشابہ کے بوبز کو دباتے ہوئے): میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
نوشابہ مسکراتے ہوئے: تم نے خود کو روکا کیوں نہیں ڈسچارج ہونے سے پہلے؟
میں: بس۔۔۔ کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ تم مجھے اپنے اندر ڈسچارج کروانا چاہتی ہو۔
نوشابہ: ہمممممم۔۔۔ ایسا ہر کسی سے نہیں کرتے۔ اگر میری جگہ کوئی اور ہوتی تو وہ ٹھیک نو ماہ بعد تمہارے بچے کی ماں بن جاتی۔
میں(پریشان ہوتے ہوئے): کیا تم بھی ماں بن جاو گی؟
نوشابہ مسکراتے ہوئے: تمہارا کیا ارادہ ہے؟ میں تمہارے بچے کی ماں بن جاؤں یا نہیں؟
میں: جیسے تمہیں صحیح لگے۔
نوشابہ: اس متعلق پھر کبھی بات کریں گے۔ پہلے کچھ کام کی باتیں ہو جائیں۔
میں نے ہاں میں سر ہلایا۔ نوشابہ نے اِن شارٹ مجھے ایک ماہ اس سے چودائی کرتا رہوں اگر وہ (نوشابہ) پریگنٹ ہوجاتی ہے تو پھروہ مجھے ایک کام کرنے کے لیے دیا کرے گی۔ جس سے ہمارے گھر کے مالی حالات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ میں نے یہ بات سوچ کر ہامی بھر لی کہ ایک تو چودائی بھی ہوتی رہے گی اور اوپر سے پیسے بھی ملا کریں گے۔ ہم نے اپنی باتیں کم کی اور اپنے اپنے راستے چل دیے۔ ہم دونوں ایک ماہ تک مسلسل جب بھی موقع ملتا سیکس کی دنیا میں کھوئے رہے پھر اسی نے بتایا کہ وہ پریگننٹ ہے۔ پھر اس نے مجھے اپنے علاقے کے لیے ایک کام کرنے کے لیے دیا جسے میں نے پہلے پہل انکار کیا پھر مالی فائدہ ہونے کی وجہ سے انکار نہ کرسکا۔
میری وجہ سے ڈاکٹر نوشابہ اپنے کلینک کو مشہور سے مشہور ترین بناتی چلی گئی اور میں امیر سے امیر ترین۔ آج ڈاکٹر نوشابہ کا اپنا ہسپتال ہے جس میں کافی مہنگا علاج ہوتا ہے۔ اور میرے پاس گاؤں میں ایک پکا مکان جو ڈبل سٹوری اور ایک شہر میں مکان ہے جہاں ہم (نوشابہ اور میں) سیکس کرتے ہیں
ایک تبصرہ شائع کریں for "ڈاکٹرنی جی "