تم بہت علم حاصل کرنا چاہتے ہو،میں نے اپنی لائیبریری میں جاتےہوئے تمھیں دیکھا ہے ،اسوقت تمھاری آنکھوں میں حریصانہ چمک تھی، تم مارشل آرٹ سیکھنا چاہتے ہو،جدید ٹریننگ لینا چاہتے ہو،تم لڑکیوں کو عورتوں کو فتح کرنے کیلیے وہ سب سیکھنا چاہتے ہو جو اس کیلیے ضروری ہے،مائنڈڈ گیم میں تم ماسٹر بننا چاہتے ہو،تم لوگوں کو پڑھنا چاہتے ہو،تا کہ تم ان سے کھیل سکو وہ نہ تم سے کھیل سکیں،بس بس میڈم ،اتنا ہی بہت ہے، پتہ نہیں کیسے وہ میرے دل کی ہر بات جان لیتی تھی، بلکہ ہر کسی کی جان لیتی تھی ،میرا نام میڈم نہیں ،جوسلین ہے،(جوسلین پاکستانی کرسچن تھی) جوسلین نے میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا، اور میرا نام ۔۔۔۔۔۔۔ ہے میں نے اس سے ہاتھ ملا لیا،
یاد رکھنا تم اپنی مرضی سے میرے پاس آئے ہو اسلیے کبھی مجھے چھوڑنے سے پہلے سوچ لینا کہ اسوقت بھی تمھارے پاس واپسی کا رستہ موجود تھا ۔استاد سے تم ہی بات کر لینا اس کی بات کے جواب میں ،میں نے استاد کی ذمہ داری اس پر ڈال دی،میں ہی بات کروں گی تمھاری بات کرنا بنتا بھی نہیں ہے،ویسے اتنی عمر میں تم نے ڈبل پی ایچ ڈی کیسے کر لی،میرے ذہن میں کافی دیر سے ایک تجسس تھا،کار چل پڑی تھی ،تمھارے خیال میں میری کتنی عمر ہے،جوسلین نے الٹا مجھ سے سوال کر دیا،تیس یا بتیس کی لگتی ہو تم،میں نے اسے اپنا اندازہ بتایا،جوسلین ہنسنے لگی،
میں چالیس سال کی ہوں،اور ڈبل پی ایچ دی میری صلاحیتوں کا ایک نمونہ ہے،لیکن تم اتنی کم عمر کیسے لگتی ہو،میں بہت حیران ہوا،تمھیں بھی سکھا دوں گی،یہ سب مخصوص غذاؤں اور یوگاسے ممکن ہے کچھ مخصوص ورزشیں بھی اس کیلیے ضروری ہیں،شام تک کام ختم ہو گیا،جوسلین نے استاد سے پتہ نہیں کیا کہا ،کہ وہ مجھے دعائیں دے کر چلے گئے ،جوسلین نے اسے پیسہ بھی دیا تھا،میں وہیں رہ گیا، جوسلین نے تین کمروں میں سے مجھے ایک کمرہ دے دیا تھا،میرا خیال تھا کہ ہم آج رات ہی چدائی کریں گے مگر نازیہ اور میں رات گئے تک باتیں کرتے رہے،ایکدوسرے کا ماضی کھنگالتے رہے،ایکدوسرے کو بارے میں جانتے رہے،باتیں کر کر کے ہم تھک گئے تو سو گئے،اگلی صبح ہم کچھ دیر سے اٹھے،جوسلین نے ناشتہ بنایا ،ناشتہ کر کے جوسلین نے مجھے بازار چلنے کو کہا،جوسلین بہت ہی اوپری درجے ( ہائی اسٹینڈرڈ )کی زندگی گزارتی تھی،بازار وہ میرے لیئے شاپنک کرنے لگی،میرے لیے مہنگے ترین کپڑے خریدنے لگی،اور پتہ نہیں اس نے کیا کچھ خرید ڈالا۔ اس نے دلہن کا ایک لہنگا بھی خریدا جو میری سمجھ سے باہر تھا،جوسلین نے لہنگا انہی کے ٹیلر کے پاس سینے کے دے دیا،اور شام کو یہ لہنگا اسے ملنا تھاہم نے ایک رسٹورینٹ میں دوپہر کا کھنا چار بجے کھایا،
پھر باقی کی خریداری کرنے کے بعد ہم واپس ہو لیئے،اس دوران اس نے عجیب فرمائش کر دی ،کہ میں اس کیلیے کوئی تحفہ خریدوں ،میں نے ایک جگہ اس کیلیے سونے کی چین پسند کی اس میں ڈائمنڈ لگا ہوا تھا ۔ظاہر ہے اس کے پیسے بھی اسی نے ادا کرنے تھے ،رستے میں ایک جگہ اس نے پھولوں کا آڈر دیا،تقریباً شام کو ہی ہم گھر پہنچے ،ایک دن میں اس نے لاکھوں پانی کی طرح بہا دیا تھا ۔ سامان وہیں رکھ دیا کچھ سامان لیکر جوسلین اپنے کمرے میں چلی گئی تو میں بھی اپنے کمرے میں جا کہ لیٹ گیا ۔مجھے تو ہلکی سی جھپکی آگئی ،آنکھ کھلی تو یہ ہلکی سی جھپکی بھی کافی ہو گئی تھی رات کے نو بج رہے تھے،کمرہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ نازیہ یہاں آئی تھی اور جو کچھ لائی تھی اس کی سیٹنگ کر گئی تھی وارڈروب کھول کہ دیکھا تو اس میں سارے کپڑے جڑے ہوئے تھے ،
جوسلین نے کھانا باہر سے منگوایا تھا،کھانا وغیرہ کھاتے باتیں کرتے دس بج گئے،چلو شہزادے تیار ہو جاؤ تمھارا ایک سوٹ میں نے نکال دیا ہے تمھارے کمرے میں ہی پڑا ہے وہ پہن لو اور اچھی طرح تیار ہو جاؤ،نازیہ نے مجھے کہا تو اس کے لہجے میں کچھ خاص تھا لیکن میں سمجھ نہ سکا،کیا ہم کہیں جا رہے ہیں ؟ میں پوچھے بناء نہ رہ سکا ،ہاں تم تیار ہو جاؤ، میں کمرے میں جا کر کپڑے بدلنے لگا،کمال ہے وہاں ایک شیروانی بھی پڑی تھی میں نے پہن لی بالکل میرے سائیز کی تھی، سلیم شاہی جوتے پہن کے تیار ہو کے میں نےخود کو آئینے میں دیکھا ،کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا،بلکہ اسوقت مجھے دولہا بھی کہا جا سکتا تھا، مجھے نظر بھی لگ سکتی تھی سو میں نے آئینے سے نظریں ہٹا لیں ،جوسلین نے کہا تھا کہ تیار ہو کہ وہیں ٹھہرو میں تمھیں بلا لوں گی۔میں اس کا انتظار کرنے لگا،آدھا گھنٹا ہو گیا ،پتہ نہیں یہ عورتیں تیار ہونے کیلیئے اتنی دیر کیوں لگاتی ہیں ،خیر انٹر کام کی بیل ہوئی تو میں لپک کہ ریسیور اٹھا لیا،تیار ہوگئے شہزادے ؟ جوسلین نے پوچھا،میں تو پونے گھنٹے سے تیار ہوں آپ کب تک تیار ہوجائیں گی میں نے شوخی سے پوچھا،میں بھی تیار ہوں ،تم میرے کمرے میں آجاؤ اور میرا تحفہ لانا نہ بھولنا ،ریسیور رکھ کر میں جوسلین کے کمرے کی طرف چل پڑا،اس کے کمرے کا دروازہ بھڑا ہوا تھا میں نے ہاتھ کا دباؤ ڈالا تو دروازہ کھلتا گیا،اور میرے قدم وہیں ٹھہر گئے،
کمرے کے فرش پر پھولوں کی پتیوں سے راہداری بنی ہوئی تھی،جو کہ بیڈ تک جا رہی تھی ،بیڈ پر بھی پتیاں ہی پتیاں تھی ۔اور اس بیڈ پر جوسلین لہنگا اور کرتی پہنے دلہن بنی بیٹھی تھی ،اس کے ارد گرد لہنگا پھیا ہوا تھا ۔لہنگا گلابی رنگت کا تھا ،جو کہ میرا پسندیدہ رنگ تھا،جب یہ لہنگا میں نے دن کو دیکھا تھا تو شاید میری آنکھوں یا چہرے سے جوسلین نے میری پسندیدگی کا اندازہ لگا لیا ہو گا،یہ سب ایک زبردست سرپرائیز تھا ،اور میں ابھی تک کمرے کی دہلیز پر کھڑا تھا ،اندر آجاؤ میرے پرنس(پہلی بار مجھے پرنس کہا گیا)جوسلین پیار بھری آواز نے میرے کانوں میں رس کھولا ،اور میں مسحور انداز میں اس کی طرف چل پڑا،ایک ہاتھ سے میں نے دروازہ واپس پش کر دیا،جو کہ ٹھک سے بند ہو گیا،میں بیڈ کہ پاس جا کہ پھر رک گیا میں یک ٹک جوسلین کو دیکھ رہا تھا، گویا اجنتا الورہ کی کوئی دیوی میرے سامنے آ کہ بیٹھ گئی تھی،،2 دن سے میں اسے دیکھ دیکھ کے تڑپ رہا تھا ، جوسلین کا بے پناہ حُسن میرے دل و دماغ پر چھا چکا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا حُسن ایک ایسا مقناطیس تھا جس کے سامنے ہر مرد خود کو ایک بے جان لوہے کا ذرّہ محسوس کرتا تھا۔بیٹھ جاؤ میرے پرنس جوسلین میری بے خودی محسوس کر چکی تھی،میں اس کے سامنے بیٹھ گیا،
مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہوں اور کیا کروں ،میرے پرنس میں نے برسوں چاہا تھا کہ وہ مرد جس کا میں ذکرمیں نے بس سنا ہے ،وہ مرد مجھے مل جائے،پھر میں سوچتی تھی ایسی (سیکس اپیل)جنسی کشش والا دنیا میں ہو گا بھی کہ نہیں ،پھر میں سوچتی کہ ایسے مرد ہو گیں تو ضرور لیکن میری قسمت میں شاید ہی ہو،آج تمھیں اپنے سامنے پا کہ بھی مجھے یقین نہیں آ رہا ،جوسلین جذباتی ہو رہی تھی،مجھے موضوع بدلنا پڑا،یہ سب کیا ہے جوسلین- میں نے اس کے دلہن بننے کی طرف اشارہ کیا،میرے پرنس تم سے ملاقات کا اس سے بہتر آئیڈیا نہیں تھا،میں چاہتی ہوں ہماری پہلی رات زندگی کی یاد گار رات ہو،بڑی بڑی آنکھیں ،لمبی پلکیں ،ستواں ناک،تیکھا چہرہ،خوشنما گال،رسیلے ہونٹ ،لمبے گھنے بال،اسمارٹ جسم ،اور جھانکتے ہوئے دل فریب ممے،گوری رنگت جس میں سرخی شامل ہو،بار بار میں اس کے حُسن میں گویا نئے سرے سے کھو جاتا تھا،
کیا یہ کوئی خواب تو نہیں میں ہاتھ بڑھا کہ اسے چھوا،جوسلین بے تابی سے میرے سینے پر آلگی،میں نے اس کی آنکھوں کو چوم لیا پھر اس کے گالوں سے چوما، پھر اس کے ہونٹوں پر اپنے لب رکھ دیا،جیسے کوئی آبِ حیات کے پیالے کو منہ لگاتا ہے،اور پھر میں اس کے ہونٹوں کی شراب کو دھیرے دھیرے پینے لگا،میرے ہاتھوں میں ایک انمول جینئس عورت تھی،سیکس کے بارے میں اس کی مہارت استاد کے درجے سے آگے رہنما تک چلی گئی تھی،اس کی گردن میرے ایک بازو پر تھی اور اس کا چہرہ میری طرف تھا اس کی گردن کیطرف دیکھتے ہوئے مجھے سمجھ آئی کہ اس نے اپنے لیے تحفہ کیوں لینے کو کہا تھا،
وہ آج کی رات کو یاد گار بنانا چاہتی تھی،میں نے شیروانی کی جیب سے چین نکالی تو جوسلین کی آنکھوں میں چمک آگئی،اس کے گال لال رنگ کے ہونے لگے،مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ شرما رہی ہے،بعد میں ایک کتاب میں پڑھا کہ طوائف بھی ایسے مرد کے پاس آ کہ شرما جاتی ہے جسے دل سے اپنا مرد اپنا محبوب مانتی ہے،میں نے ایک ہاتھ سے ہی چین اس کے گلے میں ڈال دی،اور ڈائمنڈ آگے کر دیا،وہ چھوٹے سے دل کی شکل میں تھا،شکریہ میرے پرنس ،میں ہمیشہ اس تحفے کو اپنے دل سے لگا کر رکھوں گی،اب میں بھی اپنےپرنس کو تحفہ دینا چاہتی ہوں ،لیکن سوچ سوچ کے دماغ تھک گیا ہے اور سمجھ پھر بھی نہیں آیا کہ میں اپنے پرنس کے لائق کیا تحفہ دوں ،بڑا سوچا تو ایک تحفہ سمجھ میں آیا،اگر تم قبول کر لو تو میں سمجھوں گی کہ میری زندگی کی ہر مراد پوری ہوگئی،میں سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا،اپنا ہاتھ آگے کرو ،جوسلین نے کہا تو میں نے ہاتھ آگے کر دیا،جوسلین نے میری آنکھوں میں دیکھا اور اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا،
آج سے میں مکمل رضا مندی سے اپنا آپ اپنے پرنس کو سونپتی ہوں ، میں اس کے الفاظ اور لہجے کی تاثیر میں کھو گیا،جوسلین نے لہنگے کا اوپری حصہ اتار دیا ،جیسے گفٹ کا ریپر اتارا جاتا ہے،اس کا چاندی جیسا جسم تھا یا دودھیا بدن تھا ، یا شہد کا ذائقہ کھلا ہواتھا یا اس کا جسم ریشم جیسا تھا سلکی بدن ،بلکہ نہیں جسمانی تعریف میرے لیئے تو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے اور کیفیات بیان کرنے کیلیے تو الفاظ کی کم مائیگی کا شدید احساس ہوتا ہے بس جو بھی تھا بےحد تھا بے پناہ تھا میں نے اس کی کمر اپنے سینے سے لگا لی اور اور اس کا بریزیر اتارنے لگا،ہُک کھول کے میں نے ہاتھ پیچھے سے اس کی برا میں جانے دیئے اور ریشمی ممے پکڑ لیا،دونوں ہاتھوں سے مموں کو آہستہ آہستہ مسلنے لگا،اور ساتھ میں اس کے کندھے اور گردن کو چومنے لگا،تھوڑی دیر بعد جوسلین نے اپنا چہرہ میری طرف کر لیا،اور میر شیروانی کے بٹن کھولنے لگی،شیروانی اتار کے اس نے میرا کرتا اور بنیان بھی اتار دی،اور ساتھ ہی میرے ناڑے پر ہاتھ ڈال دیا،پاجامہ اتار کہ ہم ساتھ ساتھ لیٹ گئے،اور میں اس کا چہرہ چومنے لگا،چہرہ چومتے ہوئے میں اس کے گردن چو متا ہوا اس کے کندھے اور سینہ چومنے لگا،میرے ہاتھ مسلسل اس کےممے کو سہلا رہے تھے،اسی طرح میں اس حسین وادی کے پگڈنڈیوں پر ادھر ادھر پھرتا ہوا اس کے پیٹ کو چومتا ہوا اس کا لہنگا اتارنے لگا،لیکن جوسلین نے میرا ہاتھ پکڑ لیا،آہ میرے پرنس بہت اچھا کر رے ہو ،پر جو بھی کرنا ہے اس لہنگے کے ساتھ ہی کرنا ہے تا کہ اس کی قیمت وصول ہو جائے ،
میں نے آہستگی سے اس کا لہنگا اوپر اٹھا دیا،نیچے ۔۔۔۔ اس نے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا،میں براہ ِ راست اس کی انہدامِ دانی (چوت)کو دیکھنے لگا،بے شک کپڑے اتار کے اس کا حُسن دُگناتِگنا ہو گیا تھا ،میں اس کی ٹانگیں چومتا ہوا واپس مموں پر آگیا اور ممے چوسنے لگا،اسوقت میں اتنا ماہر نہیں تھا،پھر مجھ پر جوسلین کی شخصیت کا بھی رعب تھا،کیونکہ ایک تو وہ حسین بہت تھی اوپر سے سیکس میں استاد سے بھی آگے تھی،میں اسے سیکس میں کیا مزہ دے سکتا تھا،نازیہ نے میری جھجک محسوس کر لی،میرے پرنس،سیکس کے بارے میں دنیا کا سار علم بھی کسی کو آجائے تو پھر بھی چودائی کیلیے نہ کوئی نیا سوراخ نکل آنا ہے اور نہ کوئی چودنے کو عضو کےساتھ کچھ اور نکل آنا ہے یہ موری ہے اور یہ عضو ہے اور اسی طرح چوما چاٹی کیا جاتا ہے،ویسے بھی تمھیں کسی مہارت کی ضرورت نہیں ہے ، جو کچھ تمھارے پاس ہے ،اسے کسی مہارت کی ضرورت نہیں ،تم ہاتھ ہی لگا دو تو جسم میں مزے کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں،اسلیے کھل کے پیار کرو اپنی جوسلین کو،جوسلین کے الفاظ سے مجھ میں بے باکی آگئی اور میں عضو اس کی چوت پر رگڑتے ہوئے ممے چوسنے لگا،جو مجھے آتا تھا میں وہی کر رہا تھا اور جوسلین کے تاثرات بتا رہے تھے وہ ایک ایک پل سے محظوظ ہو رہی ہے،یہ سیکس کے اثرات نہیں تھے بلکہ چہرے پر جوش تھا جیسے کوئی انمول خزانہ پانے کے تاثرات تھے،آہستہ آہستہ ہم پر سیکس غالب آنے لگا،میں کیا کر رہا تھا میں اس کے جسم کو اوپر سے نیچے چوم رہا تھا ،اس کے ممے چوس رہا تھا ،
اس کے جسم سے میرا جسم رگڑ کھا رہا تھا ،اس سے اسپارکنگ ہو رہی تھی ،اور اس اسپارکنگ سے جسم ہیجان میں مبتلا ہو رہے تھے،بعد میں جوسلین نے مجھے بتایا کہ اسے فورپلے کہتے ہیں ،ہمارے دیسی ماحول ماحول میں اسے گرم کرنا کہتے ہیں ،لیکن گرم کرنے اور فور پلے کی تھیوری اور پریکٹیکلی میں بہت فرق ہے،گرمی تو چوت کے پہلے حساس ترین مقام
(المعروف چوت کا دانہ لیکن اس کا اردو میں صحیح نام بظرہے یہ مرغی کی کلغی یا مٹر کے دانے جیسا ہوتا ہے اور 1/5 یا 1/4 انچ ہوتا ہے یہ چوت کے لبوں کے اندر سوراخ سے ڈیڑھ انچ اوپر ہوتا ہے مگر کچھ عورتیں چوت کے سوراخ والی جگہ سے زیادہ گرم ہو جاتی ہیں بظر کو چودائی کے دوران عضو چھو نہیں سکتا اسے انگلیاں سے ہی چھیڑا جا سکتا ہے یا عضو ہاتھ میں پکڑ کر اس کے ہیڈ کو اس پر رگڑا جا سکتا ہے )
کو چھیڑنے سے بھی چڑھ جاتی ہے ،سچی بات تو یہ کہ جوسلین کے جسم سے میرا دل نہیں بھر رہا تھا،اورجوسلین اب چودائی کیلیے اُتاولی ہو رہی تھی ،میرے لیے یہ بڑی بات تھی کہ جوسلین جیسی سیکس جینئس کو میں سیکس کے ہیجان میں مبتلا کرچکاتھا۔آہ میرے پرنس تمھارا جادو سر پر چڑھ گیا ہے،آج تک مجھے چودائی کیلیے کوئی بھی اتنا بے تاب نہیں کر سکا،یہ سب تمھاری جنسی کشش کا کمال ہے،اب اندر ڈال دو اور ہمیشہ کیلیے مجھے اپنا بنا لو،بے شک تم وہی ہو جس کی صرف آرزو کی جاسکتی تھی،جوسلین کا حُکم سرآنکھوں پر مگر میرا دل اس کے جسم کی رعنائیوں سے نہیں بھرا تھا،پھر بھی میں نے اس کی ٹانگیں کھول کے مخصوص پوزیشن بنائی ،جوسلین مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی ،لہنگے کے پیچھے والا حصہ اس کی گانڈ اور ٹانگوں کے نیچے پڑا تھا ۔میں اسے اوپر کرنا چاہا تو اس نے سر ہلا کہ مجھے منع کر دیا ،گویا اس وقت بولنے کی بھی حالت نہیں تھی،بہر حال میں نے اس کی ٹانگوں کو موڑا اور گھٹنے اوپر کی طرف ہو گئے اور میں آگے ہوا ،میرے گھٹنے لہنگے کے اوپر آگئے،اچھے بھلے لہنگے کا ستیاناس ہونے لگا تھا
کیونکہ ا سکا کپڑا بڑا ہی نازک تھا لہنگا تقریباً ڈیڑھ لاکھ کا توتھا ہی ۔شایدجوسلین اس کا ستنیا ناس ہی چاہتی تھی،میں تھوڑا آگے ہوا اور عضو اوپر رکھنے لگا تو جوسلین نے اپنا ہاتھ بڑھا کے میرا عضو پکڑ لیا اس کے لیے اسے تھوڑا اوپر ہونا پڑا ،میرا عضو اپنی چوت پر صحیح رکھ کہ جوسلین نے میری طرف دیکھاتو میں نے اندر ڈالنا شروع کر دیا ،جوسلین کی آنکھیں اس منظر پر ایسے چپکی ہوئی تھیں جیسے وہ اس لمحے کو اپنی آنکھوں میں ہمیشہ کیلیے محفوظ کرلینا چاہتی ہو، عضو اندر جاتا ہوا کچھ حیران تھا کیونکہ چوت کی دیواروں نے اسے گرم جوشی میں لپٹ کر خوش آمدید کہا ،جیسا جوسلین نے اپنے بارے میں بتایا تھا،ایسے تو چوت کھلی نہیں تو نارمل ہی ہونی چاہیئے تھی،لیکن یہ تو تنگ تھی،شاید کم عمر نظر آنے کی طرح ا سمیں بھی جوسلین کا کوئی کمال تھا ،
(تھوڑی سے پھٹکری چوت پر ملنے سے وہ سوج جاتی ہے کیونکہ چوت حساس ہوتی ہے اور پھٹکری تیز ہوتی ہے اوراس سوجن سے چوت ٹائیٹ ہو جاتی ہے اس طرح کچھ کال گرلز یا شوقین لڑکیاں مزہ دینے کیلیئے یا کنورا پن محسوس کروانے کیلیے اور بھی کئی ٹوٹکےاستعمال کرتی ہیں ،لیکن جوسلین کی چوت اوریجنل ٹائیٹ تھی) میں بہت چُن کر سیکس پارٹنر بناتی ہوں ،اور شادی صرف ڈیڑھ سال چلی تھی شایدجوسلین نے میری حیرانگی محسوس کر لی تھی اور بات کو سمجھ گئی تھی، چودو پرنس اس لمحے کے میں نے برسوں خواب دیکھے ہیں،تمھیں پتہ ہونا چاہیئے خواب صرف خوش قسمت لوگوں کے پورے ہوتے ہیں اور تم سے ملنے کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں خوش قسمت ہوں،میں حسبِ عادت آہستہ آہستہ چودنے لگا ،جوسلین نے اپنی آنکھیں بند کر لی،وہ مزے کے سمندر میں گہرا غوطہ لگانے کے لیئے تیار تھی۔
میں بھی تیز ہونے لگا،میری تیزی میں جوسلین کا جسم کا بڑا دخل تھا ،اس وقت میں جسم کے مرکز پر تھا اور وہاں پر سارے جسم کا نچوڑ تھا،اس نچوڑ سے میں میں اپنے لیئے مزہ نچوڑ رہا تھا،دھیرے دھیرے میری رفتار اور تیز ہونے لگی،جوسلین کا جسم ہلنے لگا،اگر میں نے جوسلین پر سحر کر دیا تھا اور اسے ہیجان میں مبتلا کر دیا تھا تو اس کے جسمانی حُسن نے مجھے بھی پاگل کر دیا تھا،اور اس پاگل پن میں میری رفتار اور دھکوں میں شدت آگئی تھی،اتنی شدت کے بیڈ بھی چوں چوں کرنے لگا تھا،جوسلین سسکاریاں بھرنے لگی،کبھی کبھی اس کی آواز تیز ہوجاتی ،جو کہ رات کے سناٹے میں دور تک جا سکتی تھی ،میں کچھ آہستہ ہوا ،چودو مجھے چودو ،پورا فلیٹ ساؤنڈ پروف ہے،جوسلین ہر بار کی طرح میری الجھن سمجھ گئی،ایک پل کیلیے میں آہستہ ہوا تھا اور دوسرے پل ہی میں وہیں سے چودائی شروع کر دی،شکر ہے چودائی کا ردھم ٹوٹا نہیں بلکہ ماحول اور زیادہ جم گیا،کیونکہ میں اب اور کھل گیا تھا اب میری بے معنی آوازیں نکل رہی تھیں ،جوسلین مسلسل مجھے بڑھاوا دیئے جا رہی تھی،خود اس کا بھی برا حال تھا ماحول ہی کچھ ایسا بن گیا تھا کہ ہم اپناکنٹرول کھو بیٹھے تھے،اور پتہ نہیں ایکدوسرے کو کیا کیا کہہ رہے تھے، جوسلین کا جسم میرے دھکوں سے تیز ہوا میں سوکھے پتوں کی طرح اڑ رہا تھا۔اتنی شدت سے میں نے نہ نگینہ کو اور نہ ہی پھر سحرش کو چودسکا تھا۔
یہ سارا کمال جوسلین کا تھا ،اور یہ جس کی طلب تھی اسے ہی ملنا تھا،جوش میں تھکن کا احساس تو کیا ہونا ،بس میں بھرپور دھکے لگانے کیلیے کچھ رفتا ر کم کر بیٹھا ،اور جوسلین اٹھ کے بیٹھ گئی مجھے اس نے کمر سے بانہوں کے گھیرے میں لے لیا ،اور اسی حالت میں مجھے پیچھے کیا تو میں بیڈ کی دوسری طرف سیدھا لیٹ گیا اور جوسلین میرے اوپر بیٹھ گئی ،ابھی تک عضو اس کے اندر ہی تھا،س نے لہنگا سائیڈوں پر پھیلا لیا،اور اوپر نیچے ہونے لگی، یقناًجوسلین چودائی کے جوش میں اوپر آگئی تھی اور اسی جوشیلے انداز میں اب چودائی کر رہی تھی،اب مجھے احساس ہو رہا تھا کہ سیکس میں استادی کسے کہتے ہیں ،اس اسٹائل میں نگینہ نے بھی چودائی کی تھی مگر اب سمجھ آرہا تھا کہ وہ تو بس اندر ڈالا اور دھکم پیل شروع کر دی ،اصل چودائی تو یہ تھی،اسوقت سے یہ میرا پسندیدہ اسٹائل بن گیا۔
یہ دوسرا آسان ترین اور چودائی کیلیے بہترین اسٹائل ہے اس میں عورت فاعلی کردار ادا کرتی ہے اس میں رفتار اور دھکے کچھ نہیں کرتے سب کچھ عورت یا لڑکی کا وزن کرتا ہے،عورت نے جوش سے بس اوپر جانا ہے اور پھر نیچے آتے ہوئے اس کا جسمانی وزن عضو پر ایسی چڑھائی کرتا ہے ایسا لپیٹتا ہے کہ بس کچھ نہ پوچھو کتنا مزہ آتا ہے ،لگے ہاتھوں پہلے مفید ترین اسٹائل کی بات بھی ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ عورت نیچے لیٹی ہو اور مرد اوپر لیٹ کر یا بیٹھ کر یا کچھ بیٹھا کچھ لیٹا ،چودائی کرے،یہ دنیا کا سب سے بہترین ، آسان ترین اور مقبول ترین اسٹائل ہے، چوت کی ساخت کے اعتبار سے، اور پیار کو سامنے رکھتے ہوئے،ممے اور چہرہ بلکہ پورا جسم سا منے اور پہنچ میں ہوتا ہے،انکھوں سے چودائی کو دیکھتے ہوئے مزہ دوگنا ہوجاتا ہے تیسرا مقبول ترین اور بہترین اسٹائل گھوڑی بنانا ہے اسے عام طور پر ڈوگی اسٹائل کہتے ہیں یعنی کہ لڑکی کو ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل کُتّی بنا کر چودنا لیکن میں اسے گھوڑی اسٹائل کہنا زیادہ مناسب سمجھتا ہو ں،اس میں مرد اگر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو تو زیادہ بہتر ہوتا ہے،جی اسپاٹ یعنی دوسرے حساس ترین جگہ کو اس اسٹائل میں بڑی اچھی طرح عضو سے چھوا جاسکتا ہے جس سے لڑکی جلدی انتہا پر پہنچ جاتی ہے،اس اسٹائل میں کچھ اور طریقے بھی ہیں جیسے لڑکی ہاتھ دیوار سے ٹکا کر ،یا ہاتھ کسی ٹیبل پر ٹکا کر یا کار کے دروازے کو پکڑ کر یا ائیر پلین میں سیٹ کا سہارا لیکر یا کسی شپ میں کسی بھی چیز کا سہارا لیکر گانڈ پیچھے نمایا ں کرے اسوقت لڑکی کو تھو ڑا جھکا کہ یا کھڑے کر کے چوت میں چدائی کی جا سکتی ہےمیرے تجربے کیے مطابق یہ تین اسٹائل سیکس کا نچوڑ ہیں۔
جوسلین کی ہر حرکت بتا رہی تھی کہ مزہ اس طرح لیا اور دیا جاتا ہے،جوسلین میری جان ،بہت مزہ آ رہا ہے میں بے اختیار بول پڑا،جوسلین چودائی کرتی کرتی میرے اوپر لیٹ گئی اور میرے چہرے کے سامنے اپنا چہرہ کر کے کہنے لگی،ایکبار پھر کہنا ،کیا کہا مجھے ؟ بہت مزہ آرہا ہے،میں نے اس کی فرمائش پوری کی،نہیں جو اس سے پہلے کہا تھا وہ مجھے کہو،جوسلین تھوڑا آگے پیچھے بھی ہورہی تھی جس سے چدائی کا مزہ بھی آرہا تھا میں نے کہا جوسلین میری جان میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پھر کہا، بہت اچھا لگا مجھے ،سن کر دلی خوشی ہوئی،اور جوسلین پھر بیٹھ کر چدائی کرنے لگی،جوسلین میری جان ،جوسلین میری جان میں اونچی اونچی چلانے لگا،جوسلین کھلکھلا کر ہنسنے لگی،اس کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی اور اس خوشی میں ،جوسلین کی چدائی کا فن کھل کے سامنے آ رہا تھا ،گو کہ میں اس وقت میں سیکس کے باے میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن محسوس ہو رہا تھا کہ کہ وہ جو بھی کر رہی ہے بہترین کر رہی ہے،ابھی اس نے کہا تھا کہ سیکس ایکسپرٹ ہونے سے چدائی تو پھر بھی ویسے ہی ہونی ہے جیسے ہوتی ہے ۔
مگر حقیقت یہ تھا کہ ایک ہی کام کو عام فرد کے کرنے سے اور استاد کے کرنے میں بہت فرق ہے،میرے پرنس کیسا لگا تمھیں یہ اسٹائل ،جوسلین نے مخصوص انداز میں چودائی کرتے ہوئے مجھے مخاطب کیا، میں تو اس وقت ہواؤں میں اڑ رہا تھا ،ہر بات بوجھ لینے وا لی جوسلین مجھ سے کچھ خاص سننا چاہتی تھی ،زبردست اسٹائل ہے،مزہ آگیا،میرا پہلے بھی اتفاق ہوچکا ہے مگر جو آج ہو رہا ہے اِس میں اور اُس میں زمیں اور آسماں کا فرق ہے،زبردست جوسلین میری جان،میری بات سے جوسلین پھر کھلکھلا کر ہنسنے لگی،چلو اوپر آجاؤ اب تمھاری باری ہے ،جوسلین میرے اوپر لیٹ گئی ،مگر یاد رکھنا باہر نہ نکلے ،میں نے بیٹھ کر جوسلین کو پیچھے کیا وہ بازوؤں کے سہارے پیچھے لیٹ گئی اور پھر جوسلین میرے نیچے آگئی اور میں اس کے اوپر آگیا،عجیب بات تھی اس نے اس دوران لہنگا پھر نیچے لے لیا تھا۔میں اس کی چودائی کرنے لگا تھا پہلے ہم بہت تیز تھے پھر دھکوں میں شدت آتی گئی،پھر اس ہیجانی حرکات بھی آئیں جب ہم خود پر کنٹرول نہ رکھ سکے ،اور پھر جوسلین کے اوپر آنے سے ماحول بدل گیا ۔
میں اس کی چدائی کے سرُور میں ڈوب گیا،اور اب میں طاقت سے دھکے لگا رہا تھا مگر رفتار نارمل تھی،میں سوچنے لگا میری تو اتنی ٹائمنگ نہیں ہے ،میں تو حد پندرہ منٹ میں فارغ ہو جاتا ہوں،بلکہ ہر انسان کی پانچ سے لیکر پندر ہ منٹ تک ہی ٹائمنگ بنتی ہے ،اس سے کم اور اس سے زیادہ یا تو میڈیسن سے ممکن ہے یا پھر اس انسان کے ساتھ کوئی مسلہ ہے،جیسے پانچ منٹ سے کم والے وہ ہوں گے جو سگریٹ پیتے ہوں گے یا ہینڈپریکٹس کرتے ہوں گے اور بھی کئی وجوہات ہیں جیسے کبھی کبھی ہیجان میں مبتلا ہوں جائیں یا عرصے بعد سیکس کر رہے ہوں تو پانچ منٹ سے پہلے بھی فارغ ہو جاتے ہیں ،اور زیادہ منٹ والے وہ ہوں گے جو چرس ،افیم وغیرہ کے عادی ہوتے ہیں،یا میڈیسن استعمال کرتے ہیں ۔یا کچھ اور مسلہ ہو ،اگر کوئی کہے کہ اس وقت آدھا یا پونا گھنٹا قدرتی ہے تو پھر جھوٹ ہی ہو گا۔ یا کوئی سپر مین ہو شاید ،زیادہ تفصیل کی اسوقت گنجائش نہیں ہے۔
میں جوسلین سے پوچھنا چاہتا تھا کہ ہم ابھی تک فارغ کیوں نہیں ہوئے،مگر میں لگا رہا ایسی باتوں کو سمجھنے کیلیے بڑا وقت پڑا تھا۔ میں اسی بارے میں سوچ رہا تھا کہ جوسلین بول پڑی ،میرے پرنس ہم آنے والے ہیں ،جوسلین نے مجھے کچھ سمجھایا شاید اسے وقت کا کچھ اندازہ تھا اسی لیئے وہ نیچے آئی تھی ،نیچے آنے اور لہنگے میں ضرور کوئی تعلق تھا،اب میں بھی جوسلین کی طرح اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا اور میں پھر جوش میں پہلے والے موڈ میں آگیا تھا اور دھکا دھک چودائی رہا تھا ،چودائی سےجوسلین کے ممے دلفریب انداز میں حرکت کر رہے تھے ،اور مجھے ان کو چھونے کی طلب ہو رہی تھی،،میں اپنے گھٹنوں کے بل اس کے اوپر لیٹ گیا ،تا کہ اس پر میرا وزن نہ پڑے اور اس کے ممے پکڑ کے چودائی کرنے لگا،میرے پرنس تم جو بھی کرو جسم میں مدّو جزر کی طرح اُتھل پتھل ہو جاتی ہے ۔میں سمجھتی تھی سیکس میں مہارت سے چودائی کا مزہ زیادہ سے زیادہ لیا جاسکتا ہے مگر میرے اندازے کے مطابق تمھیں اس کی ضرورت نہیں ہے اور اگر تم سیکس ایکسپرٹ بن بھی گئے تو دو آتشہ ہو جاؤ گے،تھوڑی دیر میں ہی ہماری حالت بدلنےلگی مجھے محسوس ہوا وقت قریب آ رہا ہے ،جوسلین بھی ایسے ہی لگ رہی تھی ،میرے پرنس سارا پانی اندر ڈال دینا ،میری چوت تمھارے پانی کا ذائقہ چکھنا چاہتی ہے،اس پانی کی مہک میں اپنے جسم میں سمونا چاہتی ہوں،اس پانی سے میں اپنی چوت کی پیاس بجھانا چاہتی ہوں ،میں نے سر ہلا دیا اس وقت میں بولنا نہیں چاہتا تھا نہیں تو اسے بتاتا کہ میں نے نگینہ اور سحرش کے اندر ہی پانی ڈالتا تھا ،نگینہ تجربے کار تھی اسے حمل کا کوئی ڈر نہیں تھا اور سحرش کے ساتھ اس کی بہن یا کوئی دوست تھی جو اس کوسیکس ٹریننگ دے چکی تھی ۔
آہ ہ ہ ہ ہ ،میرے پرنس،جسم میں جان کھچ رہی ہے،میری بھی حالت ایسے ہی تھی،منزل قریب ہی تھی،میں نے اضطراری انداز میں چدائی کرتے ہوئے کچھ دھکے اور پورے اندر جا کہ گہرائی میں مارے،اور میں اور جوسلین سسکے،ہم نے ایکدوسرے کو بانہوں میں جکڑ لیا،بلکہ میں نے تو اپنی ٹانگوں سے اس کے جسم کو کس لیا،جوسلین مجھے چمٹ چکی تھی،ہمارے جسم چھوٹے چھوٹے جھٹکے لیتے رہے،میرے پرنس میرا کبھی اتنا پانی نہیں نکلا،میرا بھی، میں نے اسے کہا،پھر میں علیحدہ ہونے لگا تو جوسلین نے مجھے بانہوں سے جکڑے رکھا،نہیں ابھی نہیں میرے پرنس ،فوراً علیحد ہ نہیں ہوتے،کچھ دیر اسی حالت میں پڑے رہتے ہیں،اور ہوسکے تو ایکدوسرے کو چوم کر پیار بھی کرتے ہیں ،جوسلین نے مسکراتے ہوئے مجھے پہلی بار سیکس نالج دیتے ہوئے کہا،کبھی کبھی یہیں سے دوبارہ موڈ بن جاتا ہے کیونکہ اندر رکھنے سے عضو جلدی سست نہیں ہوتا،ٹھیک ہے جوسلین میری جان میں نے مسکراتے ہوئے کہا،اور ہم نے لبوں کو لبوں سے جوڑ دیا،کچھ وقت ہم نے ایسے گزارا اور پھر میں عضو نکال کر جوسلین کے پہلو میں لیٹ گیا،جوسلین اٹھ کے بیٹھ گئی اور ہاتھ سے کچھ کرنے لگی،میں نے دیکھا تو ہمارا پانی لہنگے پر گرا ہوا تھا اور جوسلین چوت والا پانی لہنگے پر گرا رہی تھی،لہنگے کا ستیاناس ہو چکا تھا،جوسلین نے لہنگا اتار کہ ایک سائیڈ میں احتیاط سے رکھ دیا،اور میرے ساتھ لیٹ گئی،اس نے ایک بازو میرے اوپر رکھ لیا اور میری گردن سے نیچے سے گزار کر مجھے نزدیک کر لیاہمارے چہرے ایکدوسے کے سامنے تھے،میرےپرنس یہ لہنگا پہلی ملاقات کی یادگار کے طور پر ہمیشہ بغیر دھوئے اسی حالت میں سنبھال کر رکھوں گی۔یہ ہمیں پہلی ملاقات کی یاد دلاتا رہے گا۔
ہم ایکدوسرے سے لپٹے ہوئے پڑے تھے ،جوسلین کا جسم مجھے پھر بلا رہا تھا میں اسے دوبارہ چودنا چاہتا تھا۔جوسلین میرے عضو کو ہاتھ میں پکڑ کر سہلا رہی تھی،دل اس کا بھی کر رہا تھا،میرے پرنس چلو تمھیں جنت کی سیر کرواؤں،جوسلین نے اٹھ کر میرے عضو پر جھکتے ہوئے کہا،میں گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا،جوسلین عضو کو منہ میں لیتے لیتے رک گئی ،کیا بات ہے میرے پرنس، اس نے میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،جوسلین میری جان اس میدان میں تم اکیلی ہو گی ،میں ادھر نہیں آؤں گا،تم بے شک پیچھے ہٹ سکتی ہو،میں نے اسے واضح طور پر سمجھا دیا ،اور وہ سمجھ گئی تمھیں میری چوت نہیں چاٹنی تو نہ صحیح ،لیکن میں اس عضو کو چوسے بغیر نہیں رہ سکتی ،جوسلین نے جھک کر میرا عضو پہلا چوما پھر اس کو قلفی کی طرح نیچے سے اوپر چاٹا اور پھر اسے منہ میں لے لیا،جوسلین نے سچ کہا تھا کچھ ہی دیر میں مزے کی جنت میں پہنچ گیا ،بلاشبہ جوسلین اورل سیکس میں ماہر تھی،اور اس نے مجھے اس سے بہت مزے دیئے،اس رات ہم نے کئی باربھرپور چودائی کی،اور صبح سو گئے۔
میرے پرنس اب اٹھ بھی جاؤ بہت بھوک لگی ہےناشتہ تیار ہے جناب،جوسلین کی پیار بھری آوز مجھے نیند کی وادیوں سے باہر لے آئی،میں نے وقت دیکھا توسہہ پہر ہو رہی تھی،جوسلین نے پہلی رات کو یادگار بنا دیا تھا مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں خواب میں تھا لیکن اب جوسلین کی موجودگی بتا رہی تھی کہ گزری رات ایک حقیقت تھی میں نے جوسلین کوخودسے لپٹا لیا اور اس کے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دئے ،کچھ دیر ہم کسنگ کرتے رہے۔پھر جوسلین نے مجھے اٹھا لیا اور بڑے لاڈ سے کھنچتے ہوئے باتھ روم میں دھکا دیا اور باہر سے چٹخنی لگا دی ،جلدی سے نہا لو میرے پرنس،پھر مل کر ناشتہ کریں گے میں نہا کر نکلااور کچن میں ہی سیدھا چلا گیا،وہاں جوسلین میرے انتظار میں بیٹھی تھی،مجھے دیکھتے ہی جوسلین نے ایک ڈبیہ سے کچھ نکالا اسے ایک معجون کے ساتھ ایک کپ میں ڈ الا اور اسے پانی میں ڈال کر مکس کیا ،لو پرنس اسے پی جاؤ ،میں اسے پی گیا( یہ کشتہ مروارید تھااور اسے خمیرہ گاؤ زبان میں ڈال کر مکس کیا تھا اگلے پانچ سال تک میں اسے ہر روز نہار منہ لیتا رہا، شروع شروع میں جوسلین خود دیتی رہی پھر مجھے اس کی عادت ہوتی گئی کبھی کبھار خمیرہ گاؤزبان چھوڑ کر عرقِ گلاب میں بھی لیتا رہتا کبھی صبح نہ لے سکا تو دوپہر کو لے لیا کیونکہ اس وقت بھی کھانا کھانے سے پہلے معدہ خالی ہوتا ہے،صرف ایک ماچس کی تیلی کی نوک پر جتنا آ تا ا تنا ہی کشتہ مروارید میں استعمال کرتا) پھر ہم ناشتہ کرنے لگے،یہ ناشتہ اور دوپہر کا کھانا تھاکیونکہ اب سہہ پہر ہو رہی تھی ۔بڑا زبردست کھانا ہے یار ،کیا ذائقہ ہے تمھارے ہاتھ میں ،میں نے جوسلین کی کھل کے تعریف کی،جوسلین دھیما دھیما مسکرانے لگی،میں نے بڑے عرصے بعد اتنے اہتمام سے کھانا بنایا ہے،پرنس مجھے کھانا بناناکچھ خاص نہیں آتا تھا ،اور میری مما کہتی تھی جوسلین جب تم دل سے کسی کیلیے کھانا بناؤ گی تو کھانا زبردست بن ہی جائے گا اور اس دن تمھیں کھانے میں ذائقہ ڈالنا آجائے گا،تو آج پرنس مجھے تمھاری بدولت کھانا بنانا بھی آگیا،میں ہنسنے لگا،بات بے بات ہنسنے کودل چاہ رہا تھا،جوسلین کا چہرا بھی ایسا تھا جیسے قمقمہ جل اٹھا ہو،ہم ڈرائنگ روم میں آکر کافی پینے لگے،پھر وہاں باتیں کرتے رہے ،اور پھر ہم بیڈروم میں آگئے،میں نے جوسلین کو بانہوں میں لے کر ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ دئے ،پھر وقت بیتنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔
اسی سر شاری میں ایک ہفتہ گزر گیا،ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں تھا،بس ہم تھے اور ہماری مستیاں تھیں،اس دوران کچن ،باتھ روم، ڈرائنگ روم،لابریری ،بیسمنٹ ہرجگہ ہم نے سیکس کیا ،گویا یہ ہمارا ہنی مون کا پیریڈ تھا،لیکن ہم نے فلیٹ سے اک لمحے کیلیے بھی قدم باہر نہیں نکالا،جوسلین نے یونیورسٹی سے ایک ہفتے کی چھٹیا ں لی ہوئی تھیں،اب کل سے اس نے یونیورسٹی جانا تھا،پرنس تم نے میٹرک کیاتھاتو اس کا رزلٹ کیسا نکلا،میں نے رزلٹ کا پتہ ہی نہیں کیا،بلکہ سچ کہوں تو جوسلین میرا اس طرف دھیان ہی نہیں گیا،ٹھیک ہے تم اپنا رولنمبر بتاؤ اگر تمھیں یاد ہے تومیں رزلٹ کا پتہ کرواتی ہوں،میں نے اپنا رولنمبر بتا دیا،اگلے دن جوسلین یونیورسٹی چلی گئی ،اور میں فلیٹ میں تنہا رہ گیا،اور کچھ نہیں تو میں بائیک لے کراستاد کی طرف نکل گیااور گھر والوں کیلیے کچھ چیزیں بھی لے گیا،وہاں استاد کی بیوی بڑی چاہت سے ملی،کیوں رے بڑا بے مرّوت نکلا تو،ایک لمحے کیلیے ماں سے ملنے بھی نہ آیا،معافی چاہتا ہوں امّاں جی،فوری نہ آسکا،لیکن آپ لوگوں کی یاد مجھے بھی آتی تھی،استاد کے گھر والے میرے ساتھ بہت خوش تھے وہ دن بڑی تیزی سے نکل گیا،اور مجھے اداس بھی کر گیا،دوپہر کا کھانا کھائے بناء امّاں نے آنے نہ دیا،پھر ان سے اجازت لیکر میں فلیٹ میں پہنچ گیا،جوسلین آچکی تھی میں وہاں ایک چٹ لکھ کر گیا تھا اس لیئے وہ میرا ہی انتظار کر ہی تھی ،اسے بڑی بھوک لگی تھی ،جس بے تابی اور محبت سے جوسلین میرا نتظار کر رہی تھی ،میں اسے یہ نہ کہہ سکا کہ میں کھانا کھا کر آیا ہوں ،اور اس کے ساتھ کھانے میں شامل ہوگیا،،کچھ زیادہ ہی کھانے میری حالت میں بے زاری سی آگئی ،لیکن جیسے ہی جوسلین کی بنائی کافی پی تو حالت بہتر ہونے لگی،پرنس تم میٹر ک میں اچھے نمبروں سے پاس ہوگئے ہو،اب کیا ارادے ہیں تمھارے ؟ جوسلین جانتے بوجھتے میرے ارادے پوچھنے لگی،جوسلین تم جانتی ہو کہ میں آگے پڑھنا چاہتا ہوں،ٹھیک ہے تو پھر داخلہ کافی لیٹ ہونے کے باوجود میں نے تمھیں ایچی سن میں داخل کروا دیا ہے ،مجھے اس کیلیے کچھ اثرورسوخ استعمال کرنا پڑا ،اور اب میں چاہتی ہوں کہ کم وقت ہونے کے باوجود تم فرسٹ ائیر میں کوئی پوزیشن لے کر دکھاؤ،کل سے تم کالج جاؤ گے اور شام کو تمھیں ایک ٹیچر بھی پڑھانے آیا کرے گی،جوسلین سب کچھ طے کر چکی تھی اور اسی طرح ہوا اگلے دن میں کالج اور جوسلین یونیورسٹی چلی گئی،کالج کے بعد ہم آگے پیچھے ہی فلیٹ واپس ہوئے ،کھانے اور کچھ دیر کے آرام کے بعد سہہ پہر کو ہی ایک ٹیچر مجھے پڑھانے آگئی، میں حیران ہوا وہ ایک جوان لڑکی تھی۔
شاید اس کی عمر 26 سال ہو،بعد میں اندازہ ہوا وہ جوسلین کی اسٹوڈنٹ رہ چکی تھی،اور اب کوچنگ سنٹرمیں پڑھاتی تھی،اسے کم وقت میں تیاری کروانے میں مہارت تھی،،مجھے اسپیشل جوسلین کی وجہ سے فلیٹ پر ہی وقت دینے پر رضامند ہوگئی تھی،پڑھانے بیٹھی تو پتہ چلا کہ اپنے شعبے میں بڑی ماہر ہے،،اچھی بھلی خوبصورت لڑکی تھی،بڑی ہی دلکش اور حسین تھی،اسے دیکھ کہ مجھے خماری چڑھنے لگی۔وہ گئی تو شام کو ایک اور استاد آگئے یہ میرے مارشل آرٹ کے استاد تھے ۔شاید جوسلین ایک ہی بار میں میری ہر خوہش پوری کردینا چاہتی تھی، رات کو ہم اکھٹے کھانا کھاتے اور اس کے بعد دیر تک باتیں کرتے جب کھانا اچھی طرح ہضم ہوجاتا تو ہم بیڈ روم میں چلے جاتے اور ہماری مستیاں شروع ہو جاتی،،دھیے دھیرے وقت گزرنے لگا،اور میں معمولات کا پابند ہوتا گیا،ٹیوشن ٹیچر بڑی لے دے کہ رہتی تھی،شاید اس کی وجہ یہ ہوگی کہ جوسلین پڑھائی کے دوران اپنا آپ محسوس کرواتی رہتی تھی،گو کہ ہم لائبریری میں پڑھتے تھے،لیکن مجھے محسوس ہوا کہ جوسلین ہمیں اکیلا چھوڑنے کو بالکل تیار نہیں تھی،میں سمجھ گیا کہ جوسلین کبھی بھی مجھے کسی کے ساتھ بانٹے گی نہیں ،بلکہ اپنے حقِ ملکیت جتاتے ہوئے کسی کو میرے پاس بھی نہیں آنے دے گی،،بہر حال یہ ضرور تھا کہ ٹیچر پر میری شخصیت اثر انداز ہونے لگی تھی ،بھلا وہ اس سے کیسے بچ سکتی تھی۔۔ معمولات چلتے رہے اور جلد ہی جوسلین نے مجھے ناولز پڑھنے کیلیے دینے لگی ،پھر اس کے بار ے میں پوچھتی کے پڑھا کہ نہیں ،اگر میں کہتا پڑھا ہے تو وہ اس کے بارے میں بحث کرتی ،آہستہ آہستہ مجھے ناولز پڑھنے کی عادت ہوگئی،شروع میں ہی جوسلین نے مجھے ممتاز مفتی کا علی پور کا یلی پڑھنے کو دیا،میں اس کی تحریر میں کھو سا گیا،کیا کشش تھی ممتاز مفتی کی تحریر میں ،ایسے لکھاری کم ہی ہوتے ہیں جو لفظوں سے سحرطاری کرد یتے ہیں اس میں ممتازمفتی کے اینکر اینڈی ماباؤ نے مجھے کافی محظوظ کیا،آخر میں نے اس طویل ترین ناول کوختم کر کے ہی دم لیا،اس طرح ابنِ صفی/مظہر کلیم ایم اے ،نسیم حجازی ،قمر اجنالوی ،اے حمید ،طارق اسماعیل ساگر کے دلچسپ ترین ناول پڑھنے لگا،اور مجھے ان کی لت لگ گئی ،اس وقت مجھے نہیں پتہ تھا کہ جوسلین مجھے کتابوں کے مطالعہ کیلیے بک ریڈنگ کی عادت ڈال رہی ہے ،ٹیچر سے میری آنکھ مچولی چلتی رہی ،وہ ظاہر کرتی رہی کہ اسے مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی،لیکن میں سمجھ رہا تھ اکہ اس کے دل میں پرنس کی شبیہ آچکی تھی،میرے سامنے بیٹھتے ہی اس کی آنکھیں بولنے لگتی،لیکن وہ جوسلین سے بہت محتاط تھی بلکہ ڈرتی تھی ،میں یہ سب محسوس کر رہا تھا اور میں بس کسی موقع کے انتظار میں تھا،ایک طرح سے میں جوسلین کی کڑی نگرانی میں تھا،ساتھ ہی ساتھ جوسلین نے مجھے سیکس کی تھیوری سمجھانی شروع کر دی،پریکٹیکل تو ہم ہر رات کرتے تھے۔
سب سے پہلا سبق جو جوسلین نے مجھے دیا وہ تھا کہ سیکس کیا ہے ،کیوں ہے ،اور اس کی کتنی قسمیں ہیں ،پرنس آج کی میری بات یاد رکھنا ،چودائی کی بھوک ہر انسان میں ایسے ہی قدرتی طور پر ہے جیسے پیٹ کو کھانا کھانے کی بھوک لگتی ہے ،سیکس کے حوالے سےنفسیات کے بابا آدم سگمنڈفرائڈ کہتا ہے کہ ہر انسان کی افزائش نسل کے ساتھ ساتھ سیکس کی بھوک پروان چڑھتی ہے،فرائڈ اسے لبیڈو کا نام دیتا ہے چودائی کی بھوک قدرت نے اس لیئے انسان میں ڈالی ہے کہ اس سے انسان کی نسل بڑھتی رہے ،اور اس میں بے مثال مزہ ڈال دیا ہے کہ انسان اپنی بھوک مٹانے کیلیے یہ کام کرتا رہے اور نسلِ انسانی بڑھتی رہے ،ظاہر سی بات ہے کہ اگر انسانیت کی بڑھوتری کا کوئی سامان نہیں ہوتا تو انسان کب کا ختم ہو جانا تھا اس کیلیے تمام مذاہب شادی کرنے کو کہتے ہیں،لیکن کیونکہ یہ مذہبی بحث ہے اور ہم آزاد سوسائٹی کے افراد ہیں ،تو ہمیں اپنی بھوک مٹانے کیلیے جہاں موقع ملتا ہے ،ہم اپنی بھوک کی تسکین کرنے لگتے ہیں ،اس کی کچھ قسمیں بھی ہیں ،
نمبر 1۔لڑکے کا لڑکی سے سیکس ۔
نمبر 2 ،لڑکے کا لڑکے سے سیکس ۔
نمبر 3 ،لڑکی کا لڑکی سے سیکس ۔
نمبر 4، سیلف سیکس ، یعنی مشت زنی ۔
نمبر5،جانوروں سے سیکس
بنیادی طور پر یہی سیکس ہیں ،ان میں جنس کو جنس سے تقابل کیا گیا ہے ،لیکن کچھ باتیں ایسی بھی سامنے آئی ہیں جو سیکس میں نئی روایات ڈال رہی ہیں ان میں جنس سے جنس کا تقابل تو نہیں ہے ،لیکن نئی جدت نے سرگھما کہ رکھ دیا ہے، یہ ہے انسیسٹ سیکس ۔
نمبر 6خونی رشتوں کا آپس میں سیکس ۔
نمبر 7 ، وائف سویپنگ یعنی بیویوں کی ادلا بدلی
خونی رشتوں کا سیکس ہمارے ہاں دیور بھابی اور سالی ،بہنوئی ،اور سسر اور بہو کی شکل میں موجود تھا لیکن اب یورپی وبا سے بہن بھائی اور ماں بیٹے میں بھی شروع ہو گیاہے،اس کی بنیاد تاریخ میں تو بہت پرانی ہے،جیسے عظیم ایمپائیر یونان میں کیلی گولا اور نیرو کا دور میں یہ ہوتا تھا تھا،مغرب نے سیکس کی تمام روایات یونان لی ہیں،یہ سب یونانی ایمپائیر کے معاشرےسے آئی ہیں،آگ پرست طبقہ جو کہ پارسی کہلاتا ہے اور ایران ان کا مسکن رہا ہے ، یہ لوگ مزہبی احکامات کے تحت بہنوں اور بیٹیوں سے شادی کر لیتے تھے،ایک اور مثال سندھ کے راجہ داہر کی ہے اس نے اپنی بہن سے شادی کر لی،،کچھ کہتے ہیں اس نے سیکس نہیں کیا تھا ،لیکن جب شادی ہوگئی اور کوئی روکنے والا بھی نہیں تو پٹرول اور آگ ایک دوسرے سے دور کیسے رہ سکتے ہیں،
( پانچ اکتوبر 2014 کو پاکستان اخبار میں تازہ نیوز آئی ہے جرمن حکومت کی کونسل برائے اخلاقیات نے ایک تجویز دے دی ہےکو نسل کا کہنا ہے کہ جرمن معاشرے میں بہن اور بھائی کے آپس میں جنسی تعلق کو قانونی اجازت ہونی چاہیے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ کس کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اس وقت کونسل پیٹرک سٹیوبنگ کا مقدمہ سن رہی تھی، پیٹرک نے اپنی سگی بہن سوسین کیرول سے شادی کررکھی تھی اور دونوں کے چار بچے بھی تھے۔جرمن حکومت کی اس تجویز پر دیگر یورپی ممالک میں شدید تنقید بھی کی جارہی ہے۔)
مرد کا مرد سے سیکس ہمارے معاشرے میں بہت پرانا ہے مغل بادشاہوں نے تو خاص طور پر اس میں بڑا حصہ ڈالا ہے،عورت سے عورت کا سیکس بھی ہمارے معاشرے میں پہلے سے موجود تھا ، اس راز سے پردہ عصمت چغتائی اپنے مشہور افسانے لحاف میں کافی پہلے اٹھا چکی ہے جانوروں سے سیکس گو کہ ٹرپل ایکس موویز کے ذریعے سامنے آیا ہے وہاں پیٹس (پالتو جانور کتا بلی وغیرہ ) کا رواج ہے اور ان کے معاشرے میں فرد کی تنہائی بھی مو جود ہے لیکن ہمارے ہاں بھی یہ موجود ہے ،اس انداز سے نہیں لیکن ہے ضرورر جیسے پالتو جانور گائے بھینس وغیرہ کو باڑے میں ہی جنسی تلذذ کیلیے چودنا ،اب رہ گیا سیلف سیکس یعنی اپنے ہاتھ سے خود کے ساتھ چودائی کا مزہ لینا ،جس میں لڑکا اپنے ہاتھ سے چوت بنا کے اسے چودتا ہے اور لڑکی اپنے انگلی کو عضو بنا کے خود کو چودتی ہے ،یورپ میں تو اس کے لیئے کھلونے بھی ملتے ہیں ،اور نرماہٹ کیلیے آئل یا کریمیں بھی ملتی ہیں، وہاں یہ سیکس کا ایک حصہ ہے اور اس پر کسی کو شرمندگی نہیں ہے ،لیکن ہمارے ہاں یہ ایک بیماری سمجھا جاتا ہے ،ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں نے اسے جنسی طاقت کا خاتمہ کہاہے اور سارے پاکستان کی دیواریں اور ہفتہ وار میگزین مردانہ کمزوری کے علاض سے بھرے ہوتے ہیں ۔
لہذا ،ان نفسیاتی الجھنوں سے پاکستان میں سیلف سیکس کرنے والے لڑکے جلد منی نکل جانا یعنی سرعتِ انزال اور منی پتلی اور عضو کا ٹیڑھا پن اور جریان وغیرہ کا شکار ہوجاتے ہیں ،اور کثرت کے ساتھ ہینڈ پریکٹس کرنے سے جسم میں خون کی کمی بھی ہو جاتی ہے ساتھ ہی ساتھ طبیعت میں شرمیلا پن اور تنہائی پسندی بڑھ جاتی ہے ،تم اسے احساس کمتری بھی کہہ سکتے ہو ۔اصل میں نفسیاتی الجھنوں سے بچا جائے تو اس سے کسی لڑکے کو طبیّ لحاظ سے کو ئی نقصان نہیں ہو سکتا ایک طرف ایک انسان دھڑا دھڑ چدائی کرتا ہے اور ان مسائل سے بچا رہتا ہے اور دوسری طرف ایک انسان مشت زنی کرتا ہے تو کئی مسائل کا شکار ہوجاتا ہے یہ نفسیاتی الجھنوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ایک انگریزی کہاوت ہے کہ٪ 95 انسان مشت زنی کرتے ہیں اور جو باقی 5 ٪ ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں لیکن لڑکیوں کو یہ نہیں کرنا چاہیئے یہ حقیقت ہے کہ میڈیکلی یہ ان کیلیے کافی نقصان دہ ہے اور معاشرتی طور پر تو بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ پاکستانی مرد خود جو مرضی کرتا پھرے لیکن اپنی عورتوں کے ساتھ ایسی کوئی بات منسوب ہوتے ہی اس کی غیرت ابھر آتی ہےلیکن دوسرے کی بیٹیوں پر اس کی رال ٹپکتی ہے،تو ایسے دوغلے معاشرے میں پاکستانی لڑکیوں کو بے حد محتاط زندگی بسر کرنی چاہیئے ، (یاد رہے جوسلین کرسچن ہے )اور پرنس یہ جو بتایا جاتا ہے کہ یہ ہارڈ کور ہے یہ فیٹش ہے ،اینل سیکس ہے ، گروپ سیکس وغیرہ یہ سب سیکس کی قسمیں نہیں ،بلکہ چودائی کے انداز /طریقے ہیں اور اوپر بیٹھ کر کرنا،نیچے لیٹ کر کرنا ،کھڑے ہو کرنا ،بیٹھ کر کرنا یہ سب سیکس کہ مختلف آسن ہیں اسٹائل ہیں ہے یہ بنیادی باتیں ہیں اور تمھیں وقتاً فوقتاً مزید معلومات ملتی رہیں گی،جوسلین رسانیت سے بات کرتے ہوئے اپنی بات ختم کر دی ۔
اسی طرح وقت گزرتا جا رہا تھا،ایک دن جوسلین تھکی ہوئی تھی اور اپنے کمرے میں لیٹی تھی ادھر ٹیچر آگئی،ہم پڑھتے رہے جوسلین نے بس ایک چکر لگایااور پھر لیٹ گئی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ وہ ہمارے پاس لائبریری میں نہیں آتی تھی بلکہ اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی تھی، میں نے موقع غنیمت جان کر ٹیچر کا ہاتھ پکڑ لیا،مجھے یقین تھا ٹیچر میری کشش میں پھنس چکی ہے ،جیسے ہی میں نے ہاتھ پکڑا اس کی نظریں سب سے پہلے دروازے کی طرف اٹھی،لیکن وہاں کسی کو نہ دیکھ کر وہ خاموشی سے اپنا ہاتھ چھڑانے لگی،،میرے لیئے اتنا ہی بہت تھا کہ نہ تو اس نے شور مچایا تھا اور نہ ہی مجھ سے کسی قسم کہ غصے کا اظہار کیا تھا،آخر میں نے اس کا ہاتھ پشت سے چوم کر چھوڑ دیا،ٹیچر میری طرف شاکی نظروں سے دیکھنے لگی،کچھ لمحیں بیتے ہوں گے کہ جوسلین دروازہ کے سامنے سے گزری،ہم پڑھ رہے تھے،جوسلین جیسی جیئنس کہ ہوتے ہوئے ایک نیا کھیل شروع ہو گیا تھا،جس کی ابھی اسے خبر نہیں تھی،سال پورا ہونے والا تھا میرے پیپرز آگئے تھے اس دوران میں دو سو کہ لگ بھگ ناول پڑھ چکا تھا اور میری پڑھنے کی رفتار کافی تیز ہو گئی تھی،مارشل آرٹ میں بھی میں بھی چل نکلا تھا ،میں اچھے نمبروں سے پاس ہوگیا لیکن جوسلین اس سے خوش نہیں تھی وہ چاہتی تھی میں کوئی پوزیشن لوں،اس پر جوسلین ٹیچر سے غصے بھی ہوئی،لیکن غنیمت تھا کہ اسے نکالا نہیں ۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (قسط چھ)"