Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ناگن (تیسری قسط)

 


 


ماضی کی فلم خیالوں چلتی رہی اور پتہ نہیں میں کب سو گیا تھا ، ویسے بھی صبح جب راجو نے اٹھایا تو مجھے سوتے ہوئے صرف دو گھنٹے ہی ہوئے تھے ،دوپہرکو اٹھا تو نہا دھو کے اپنے ہوٹل چلا گیا ،دو سال پہلے یہ ہوٹل میں نے خریدا تھا ۔ اپر کلاس کا پسندیدہ ہوٹل تھا،اور اسی لیے میں نے اسے خرید لیا تھا ،بہت سی شہزادیاں یہاں آتی جاتی تھیں اور میرے جیسے شہزادوں کے پیار کا کاروبار چلتا رہتا تھا ، منیجر سے کچھ کاروباری معاملات ڈسکس کرنے کے بعد میں وہاں سے نکلا اور کار کو فارم ہاؤس کی طرف موڑ دیا، آٹھ بجے تک میں فلیٹ میں واپس آگیا ، مجھے راجو کا انتطار تھا ، نہیں تو اب فلیٹ میں صبح کے وقت ہی آنا ہونا تھا ، راجو فلیٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا ۔ میں نے کار اپنی جگہ پر پارک کی ، مجھے فون کردیتے راجو ، میں نے فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا، باس میں ابھی آیا ہوں میں نے سوچا کچھ انتظار کر لیتا ہوں ،مجھے امید تھی آپ نے ملنے کو کہا ہے تو آپ یہاں ضرور آئیں گے ، فریج سے اپنے لیے کولڈڈرنک یا بیئر جومرضی لے لو،آپ کچھ نہیں پیئں گے باس،راجو نے ایک بیئر لیتے ہو ئے پوچھا ، نہیں میں تھوڑی دیر تک کھانے کے موڈ ہوں ، ہاں تو بلا تمہید شروع ہو جاؤ راجو، باس یہ سرور خان کی تصویر ہے ،راجو نے اپنا موبائل میری طرف بڑھایا ، سرور خان کسی جنرل سٹور پر کھڑا تھا ،جیسے مڈل کلاس میں ہوتے ہیں ، دس سال بعد بھی وہ سانڈ ہی تھا ۔اب مونچھیں نارمل اور بال مہندی سے رنگے ہوئے تھے ، یہ اس کا اپنا جنرل سٹور ہے باس ، اگلی تصویر دیکھیں باس ،میں نے تصویر آگے کی تو دلآویز کے ساتھ ایک عورت پٹھانی برقعے میں نظر آئی ، یہ پنجاب میں ٹوپی والا برقع بھی کہلاتا ہے اس سے اچھا پردہ کسی میں نہیں ہو سکتا،جسم تو دور کی بات ہے، آنکھیں تک نظر نہیں آتی ، میرے اندازے کے مطابق یہ نگینہ تھی ،تصویر سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ بازار میں اسے کھینچا گیا ہے ، ایک تصویر اور بھی ہے باس ،وہ تصویر کسی جوان کی تھی مجھ سے پانچ چھ سال بڑا ہو گا،مجھے وہ کچھ جانا پہچانا محسوس ہوا ،میں اس پر غور کرنے لگا کہاں دیکھا ہے اسے،مونچھیں، بال ، رنگت، چہرہ ،ناک ،آنکھیں ، ہونٹوں کی بناوٹ ،اسکی تھوڈی ۔ ٹھوڈی اور رخسار سے سخت گیر، اونچی ناک سے مطلب پرست اندر ہوئی آنکھوں سے ناقابل اعتبار تھا کپڑوں سے آسودہ حال لگتا تھا ۔ کچھ یاد نہیں آیا کہ کون تھا ،شاید ان کی برادری کا ہو میں بس کچھ کو جانتا تھا باقیوں کا چہرہ شناس تھا ،یہ ان کے گھر آیا تھا اسی کے ساتھ ماں بیٹی بازار گئی تھیں ، کام کی چیزیں یہی تصویریں ہی تھی ،راجو نے مزید کچھ معلومات دی، اوکے باس ۔ راجو جانے کیلیے پر تولنے لگا ،
رضوان عرف راجو تم نے تین سال دن رات ایک کر دیئے اور میری زندگی کی اہم ترین لڑکی تلاش کر دی ، تم نےکمال کر دیا ہے ، تم نے بہت بڑا کام کیا ہے ،زبردست ،میں تم سے بہت خوش ہوں ،میں نے کھل کے راجو کی تعریف کی،شکریہ باس ،میری تعریف سے راجو کی باچھیں کھلی ہوئی تھی ۔ میں چاہتا ہوں تم مستقل میرے ساتھ کرو، تمھیں اچھی تنخواہ،اچھی موٹرسائیکل ، کھانا پینا ، موج مستی ملے گی، آپ کے ساتھ کام کرنا میرے لیے فخر کی بات ہے باس ، راجو نے میری آفر فوراً قبول کرلی،میں اسے پرخیال نظروں سے دیکھنے لگا ۔اگر اسے میرے ساتھ کام کرنا تھا تو اپنا شخصیت کو بدلنا پڑے گا ۔نہیں تو یہ میرے ساتھ نہیں چل سکے گا ، اس کے لائف اسٹائل کوتبدیل کرنا پرے گا ،میں نے سوچتے ہوئے فوراً ایک پلان بنایا ، راجو ،اب بھی آنٹیوں سے دوستی رکھتے ہو یا چھوڑ دی ،ان کے بغیر کیسے زندگی گزر سکتی ہے باس،مجھے آنٹیاں پسند ہیں،باس ان کے بڑے بڑے ممے بڑی بڑی گانڈ ہوتی ہے، بہت مزہ آتا ہے راجومسکرایا ،نہیں تمھیں آنٹیاں پسند نہیں ہیں،میں نے اسے جھنجھوڑا، باس ؟،وہ حیران ہوا ۔
اچھا تمھارے پاس کُھلے پیسے ہوں اور ایک بائیک خریدنی ہو تو نئی لو گے یا پرانی،میں نے اس سے سوال کیا،ظاہر ہے باس نئی ہی لوں گا،اور اگر کپڑے خریدنے ہوں تو ؟ وہ بھی باس نئے اور بہترین لوں گا ،راجو میری بات اب بھی نہیں سمجھا تھا، اچھا اگر بھوک لگی ہو اور جیب میں پیسے ہوں تو باسی کھانا کھا لو گے؟ میں نے اپنا گھیرا اور تنگ کیا،نہیں باس ، باسی کھانا کون کھاتا ہے ،راجو حیران ہوا، یا فروٹ پلپلا ہو زیادہ پکا ہو ا ملے اور تازہ بھی پڑا ہو تو کیا کرو گے،تازہ اور اچھا فروٹ ہی لوں گا باس، راجو نے پھر میرے مطلب کا جواب دیا،
تو تم آنٹیاں کیوں پسند کرتےہو ؟ جب زندگی میں سب کچھ تمھیں نیا، تازہ ،بہترین چاہیے؟ میں نے راجو سے اسی سوال کیلیے اتنے سوال کیے تھے،سچی بات تو یہ ہے باس کہ لڑکیاں ہاتھ آتی ہی نہیں،راجو نے میری بات سمجھتے ہوئے حقیقت بیان کی ،تو کیا آنٹیاں ہاتھ آجاتی ہیں ، ؟ میں نے فوراً پوچھا،باس تھوڑا ان کے آگے پیچھے پھرو تو وہ خود ہی پہل کر دیتی ہیں ،یا کوئی واضح سگنل دے دیتی ہیں ،اچھا جب تم کسی بھی آنٹی سے ملتے ہو تو تازہ ،بہترین مال کسے ملتا ہے ؟ تمھیں یا آنٹی کو،سوچ کے جواب دینا،میں نے اسے صحیح جواب تک پہنچنے کیلیے موقع دیا، تازہ اور بہترین مال تو آنٹی کو ملتا ہے ،ہمیں تو باسی کھانا پلپلا فروٹ ملتا ہے راجو نے سوچ کے جواب دیا،اور اس باسی کھانے کی بڑی گانڈ اور بڑے ممے کا مطلب ہے کہ اس کا پیٹ بھی بڑھا ہو گا ، کمر نہیں کمرہ ہو گا ۔ اس کی عمر پینتالیس سے آگے پچاس ساٹھ تک ہو گی، اس طرح اس کی شادی اگر تیس سال میں ہوئی ہو تو پچیس تیس سال اسے سیکس کرتے ہوئے ہو گئے ہیں ،اب اگر وہ پچاس ساٹھ کی ہے تو اسکا شوہر ساٹھ یا پینسٹھ کا ہو گا،یعنی وہ اسے اب سیکس کا وہ مزہ نہیں دے سکتا جو ایک جوان دے سکتا ہے ،اس کا شوہر خود ٹھرکی بابا بن کے جوان لڑکیوں کو تاڑتا ہو گا ،دونوں جوانی کا مزہ چاہتے ہیں ،یہ بتاؤ راجو تم آنٹیوں کو پھنساتے ہو یا آنٹیاں تازہ شکار کی شکاری ہیں ، میں اسے اصل بات پہ لے آیا ،اوہ باس ، یہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا،اسکا مطلب ہے کہ جب میں انہیں پھنسانے کی ٹرائی کرتا ہوں تو وہ پہلے ہی میرے جیسوں کا انتظار کرتی ہوتی ہیں ، راجو حقیقت تک پہنچ گیا
یہی بات تمھیں سمجھانا چاہتا ہوں کوئی بھی آنٹیوں کو نہیں پھنساتا ،آنٹیاں ہی اصل شکاری ہیں ، اور اب تم باسی کھانا چھوڑ دو اگر میرے ساتھ کام کرنا ہے ۔ ویسے بھی میڈیکلی (طبی) لحاظ سے بڑی عمر کی عورتیں نوجوانوں کی صحت کیلیے انتہائی نقصان دہ ہیں ،سیدھا سیدھا یہ تمھارا خون چوس رہی ہیں ، لیکن باس بھوک بہت لگتی ہے کیا کروں ،مجھے پتہ ہے تم یہ باسی کھانا بھوک سے مجبور ہو کہ کھاتے ہو، لیکن مجھ سے کوئی امید نہ رکھنا،اپنا شکار خود کرنا پڑے گا تمھیں ،میں بس رستہ بتا سکتا ہوں ،جی باس آپ بتائیں ،وہ سمجھا میں کوئی دھانسو قسم کا طریقہ بتاؤں گا جس سے لڑکیاں اس کی طرف خود بخود کھچی چلی آئیں گی، راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑنا ،آوازیں کسنا،سیٹیاں مارنا،بائیک چلاتے ہوئے پیدل چلتی لڑکی کی گانڈ میں انگلی دینا ،بازاروں میں ان کے ممے پر ہاتھ پھیرنا ،جسم ساتھ لگانا ، کھسا لگانا،کالجوں کے باہر بھونڈی کرنا ،موبائل سے تصویریں ویڈیو بنانا ، بائیک پر پیچھا کرنا ۔تنگ کرنا ،موبائل نمبر مانگنا ،کہیں سے مل جائے تو کالیں کر کے تنگ کرنا ، عجیب عجیب میسجز کرنا ، یہ سب چھوڑ دو اس سے لڑکیاں پھنستی نہیں پیچھے ہٹتی ہیں،ہر لڑکی پر لائین مارنا ، گھٹیا طور طریقے ،ڈرامے بازیاں لڑکیوں کو پسند نہیں ہیں، اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو سڑک چھاپ لفنگوں کے طور طریقے چھوڑ دو ۔ویل مینرز (ادب و آداب)،ویل ڈریس ،(خوش لباسی) یہ دو پہلے گُر ہیں ان کو یاد کر لو گے تو اگلا رستہ کھل جائے گا،میں نے اپنی طرف سے اسے پہلے دو گُر سکھا دیئے ۔
ٹھیک ہے اب تم ہوٹل جاؤ اور منیجر بشارت سے مل لینا میں نے اسے تمھارا بتا دیا تھا ،، تم ہوٹل میں میری کان اور آنکھ بن کے رہو گے، کسی کو ہمارے خصوصی تعلق کا کچھ پتہ نہیں چلنا چاہیے ،نہ ہی میرا کوئی راز کسی کے پاس جانا چاہیے ،نہیں تو میرا موڈ بہت خراب ہوجائے،بے فکر رہیں باس آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی ،راجو نے مکمل ارادے سے کہا ، ویل مینرز ، ویل ڈریس اینڈ نو آنٹی ،یہ تین باتیں یاد کرلو ،جیسے آپ کا حکم باس،راجو چلا گیا،دو تین اور ایسی ڈوذ ملیں گی تو اس کا لیول اَپ ہو جائے گا اور ذہن آگے خود ہی چل پڑے گا ، ایک وقت آئے گا اسی راجو کو ہوٹل سنبھالنا تھا ، یہی اِس کا انعام تھا ۔ تین سال اتنے بڑے شہر میں میرے لیے ایک لڑکی کوڈھونڈنے واسطے دن رات ایک کردینا کوئی عام بات نہیں تھی۔ جنوں میرا تھا ،پورا اس نے کیا تھا ۔ ایسے کام کےبندے کو ہاتھ سے کون جانے دے گا۔
میں نے وقت دیکھا ابھی بس نو سے کچھ اوپر ٹائم ہوا تھا آج وقت گزر ہی نہیں رہا تھا ۔ مجھے بھوک لگی تھی ۔میں نے اپنے ہوٹل فون کیا کہ مجھے کھانا پہنچا دو، جب سے اٹھا تھا ،دماغ ایک ہی بات پر لگا ہوا تھا دلآویز کو کیسے پھنساؤں ،ہر طرف سے سوچ سوچ کے تھک جاتا تھا اور کوئی راستہ نہیں نظر آرہا تھا ۔یہ بات صرف میں اور نگینہ جانتے تھے کہ اس نے مجھے قتل اس لیے کروانا چاہا تھا کہ میں نے اپنا بدلہ ضرور لینا تھا ۔ نگینہ کا حملہ مکمل تھا لیکن میں خوش قسمتی سے بچ گیا ، پھر بھی نگینہ نے مجھے ڈھونڈنا چاہا اور جب مجھے ڈھونڈنے میں ناکام ہوگئی ہو گی اس نے سب سے پہلے اپنی بیٹی کے دل میں میرے خلاف زہر بھرنا شروع کیا ہو گا،دلآویز مجھ سے نفرت کرتی ہو گی،، ،تانیہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ دلآویز اپنی ماں سے بہت ڈرتی ہے،اس کامطلب ہے نگینہ نے اس پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے،اس کے آنے جانے اور ہر معمولات پر اس کی نظر ہو گی اس سے ملنا بہت مشکل ہو گا ،اگر کسی طرح اس سے مل بھی لیا ،وہ پہلی نظر میں نہیں پر مجھے پہچان جائے گی اور پھر میری کوئی بات نہیں سنے گی مکار نگینہ دل میں جھانکنے میں ماہر تھی اس نے اپنی بیٹی کو ہر طرح سمجھ کے اس کے اندر اپنے خیالات ڈال دیئے ہوں گے۔ جو لڑکی آپ سے نفرت کرتی ہو دیکھنا بھی گوارہ نہ کرے اسے کیسے پٹایا جا سکتا ہے ،بس ایک ہی رستہ رہ گیا تھا ،اسے بلیک میل کروں یا اس کے ساتھ زبرستی کروں ،مگر یہ میرے مزاج کے خلاف تھا پھر میں پرنس کس بات کا ہوں، میں زبردستی کا قائل نہیں تھا،چاہے وہ نگینہ کی ہی بیٹی کیوں نہ ہو۔ دوپہر سے ذہن بار بار جائزے لیتا تھا اور یہیں آ کر رک جاتا تھا ،کیا ستم ظریفی ہے میری زندگی کی اہم ترین لڑکی ہے اور میں اس پر کوئی ٹرائی نہیں کر سکتا ہوں،
نہ مجھے دلآویز کے مزاج کا پتہ تھا نہ اس کی عادات ،پسند نا پسند کا پتہ تھا ، نہ اس کے گھر کے موجودہ ماحول کا پتہ تھا،نہ اس کی سوچوں کا کچھ اندازہ تھا ۔ یہ تو اندھیرے میں تیر چلانا تھا ،تانیہ یاد آگئی ،میں نے اسے میسج کیا کہ مجھے دلآویز کی تصویر چاہیے ، یا ویڈیو مل جائے تو کیا ہی بات ہے ، مجھے پتہ تھا تانیہ ہر صورت میں یہ کام کرے گی ،تصویر سے مجھے دلآویز کی ذہنیت کا اندازہ ہو جانا تھا، قیافہ شناسی (فیس ریڈنگ ،باڈی لینگویج) میرا پسندیدہ مشغلہ تھا،یہ ایک فن ہے اور کسی نے مجھے بڑی لگن سے باقاعدہ سکھایا تھا ، اگر اس کی برتھ ڈیٹ کا پتہ چل جاتا تو اس کے بُرج سے اس کی بہت سی معلومات مل جانی تھی،اور ہاتھ دیکھ لیتا تو وہ ساری کی ساری میرے سامنے عیاں ہوجاتی،اس کی پیدائشی تاریخ بھی مجھے چاپیے ،تانیہ کو دوبارہ میسج کیا، اوکے اس بار اس کا جواب آگیا،اس کامطلب تھا کہ آج رات تو کچھ نہیں ہو سکتاتھا اب کل تک انتظار کرنا پڑے گا، کھانا پینا کرکے میں بور ہونے لگا ، جب کوئی حل نظر نہ آئے تو ذہن کو سوچ سوچ کے تھکانے کی بجائے اسے فریش کرنا چاہیئے ،ڈاکٹر کنول پر کام چل رہا تھا لیکن ابھی وہ بستر کی زینت بننے والے مرحلے پر نہیں آئی ،دو تین اور کو سوچا،نہیں کسی پرانی دوست کا بلا لیتا ہوں ،کون اس وقت آسکے گی،میں سوچتا رہا، کچھ نیا ہونا چاہیے ،یہ سوچنا ہی تھا کہ میں کمال کی طرف چل پڑا ،
کار چلاتے ہوئے ذہن پھر سوچنے لگا،میں اسے مصروف کر رہا تھا مگر مجھے پتہ تھا کہ اب میرا ذہن ہر وقت اس کا تجزیہ کرتا رہے گا جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکل آتا ،اگر میں نگینہ ہوتا تو ؟ پھر شہزادے کے قتل میں ناکامی کے بعد مجھے اس کی واپسی کے اندیشے تو ستاتے ہوں گے،مجھے سو فیصد یقین ہو گا کہ میں شہزادے کو سمجھ چکی ہوں ، تو پھر میں یہ شہر چھوڑ کے کیوں نہیں گئی؟ میں سرورکو اصل بات تو بتا نہیں سکتی تھی ۔اسے مجبور کیا مگر وہ کہتا ہو گا شہزادہ ملے یہی تو میں چاہتا ہوں ، جب نگینہ نے شہر چھوڑنے کی بات کی ہو گی تو حکم کا غلام نہیں مانا ہو گا کیوں کہ یہ بات اس کی غیرت پر کوڑے کی طرح لگی ہو گی ،کہ وہ کیوں شہر چھوڑیں ،بھاگے ان سے شہزادہ ،جیسے پہلے بھاگا تھا ۔ سرور نے نگینہ کے بھائیوں اور باپ کو بتایا ہوگا سب غصے میں ہوں گے کہ سرور یہ شہر چھوڑ کہ کیوں جائے ،یہ نگینہ کی ناکامی ہو گی،پھر اس نے کسی طرح وہ مکان چھوڑ دیا ہو گا ،بلکہ دو تین مکان بدلے ہوں گے ،سرور سے فیکٹری میں کام چھڑوا دیا ہو گا ، ان باتوں کا سرور کو سمجھ نہیں سکا ہو گا ، ساتھ ہی نگینہ نے دلآویز کو ٹارگٹ بنا لیا ہو گا،کیوں کہ حملہ تو دلآویز پہ ہونا تھا ،نگینہ شہزادے کی کشش سے بھی واقف تھی ، اس لیے دلآویز کے دل میں شہزادے کے خلاف زہر بھرنے کیلیے نگینہ اسے مسلسل بتاتی رہتی ہو گی کہ شہزادے نے اس کی ماں کی عزت پر حملہ کیا تھا،دوسری طرف وہ نگینہ کی کڑی نگرانی کرتی ہو گی ،اس کے آنے جانےے پر ،دوستوں پر ،اس کے معمولات پر ،پابندیاں ہی پابندیاں ، پہلے تین سال وہ بہت چوکنی رہی ہو گی،پھر وقت گزرتے نگرانی تو ہوتی رہے گی،پانچویں سال نگینہ کچھ ڈھیلی پڑ جائے گی ۔اور ساتویں آٹھویں سال نگینہ کو میرے آنے کی امید بالکل نہیں رہے گی ۔ اسی لیے تو دلاویز یونیورسٹی میں نظر آئی ہے ،ضرور پہلے وہ غیر معروف سکولز میں پڑھتی ہو پھر ایف ۔بی اے اس کی ماں نے پرائیویٹ کروایا ہو گا ۔اب دلآویز یونیورسٹی میں ہے تو ضرور دلآویز اس کی پابندیوں سے اکتا گئی ہو گی اور یونیورسٹی میں آنے کی ضد کی ہو گی، دو پوائینٹ ملے تھے دلاویز اس کی پابندیوں سے بے زار ہو گی ،اور اسے غلط سمجھتی ہو گی،دوسرا اب نگینہ کو میرے ملنے کی کوئی امید نہیں تھی، سوچتے سوچتے سر درد کرنے لگا، مگرمیں اسے سوچنے سے روک نہیں سکتا تھا میری ٹریننگ ہی ایسے ہوئی تھی، جب تک کوئی حل نہیں مل جاتا میں نے دن رات سوچنا تھا اور ساتھ ساتھ خود کو ریفریش بھی کرتے رہنا تھا ، کمال کا بنگلو آگیا تھا،
اس کے وسیع لان میں پارٹی شروع تھی،لوگ آنے شروع ہوگئے تھے ۔ جیسے جیسے رات گزرے گی پارٹی اپنے عروج پر جائے گی،پھر دو تین بجے تک پتہ نہیں کس نے کس حالت میں کس کے ساتھ جانا تھا،ایسی مادر پدر آزاد پارٹیاں میں بہت کچھ ملتا ہے ،میں نے خود ایسی پارٹیوں کیلیے شہر کے ساتھ ہی فارم ہاؤس لیا تھا،بلکہ اب وہ شہر میں ہی تھا، استقبالیہ پر دونوں میاں بیوی کھڑے تھے ۔ او ساڈا پرنس، کمال بڑے جوش سے میرے گلے لگ گیا، یار تم نے آکے دل خوش کر دیا،پچھلی پارٹی تمھارے بغیر بڑی پھیکی تھی ۔ بڑی زیادتی کی تم نے میرے ساتھ ، کمال گلے شکوے کرنے لگا،یار میں مصروف تھا ،میں اسے نارمل کرنا چاہ،او ہاں ہاں ،میں جانتا ہوں تمھاری مصروفیتیں ، تقریباً اڑتیس سال کا کمال ایک بڑا بزنس میں تھا اور میرا اچھا دوست تھا،بھابی آپ کیسی ہیں ،میں اس کی بیوی سے علیک سلیک کرنے لگا ۔میں تو ٹھیک ہوں آپ بتائیں آپ کہاں ہیں آجکل،اس کی بیوی نے معنی خیز انداز میں کہا تو میں ہنس پڑا ۔
اگرچہ گوشہ گُزیں ہوں میں شاعروں میں میر۔۔۔
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لی ۔۔۔
میں نے بے ساختہ شعر پڑھ ڈالا ،یار کیا مشکل مشکل باتیں کر رہے ہو کوئی آسان بات کرو نہ سلیس انگلش میں ، واہ سلیس انگلش پر میں نے اسے داد دی، اچھا تو آپ گوشہ نشین ہیں پر آپ کی شہرت ہر جگہ پہنچ گئی ہے،بھابی نےمشکل شعر کا مطلب بتا کہ مجھے حیران کردیا ۔۔ ارے بھابی جی، بدنام اگر ہوں تو کیا نام نہ ہوگا ۔۔ میرے ساتھ کمال نے میرا پسندیدہ مصرعہ مکمل کیا ، آپ لوگ مہمانوں کا استقبال کریں میں ذرا مل ملا لوں، بدنامی شہرت بن گئی تھی،اسلیے ہر کسی سے ملنا ملانا ہو گیا تھا ۔ ویسے بھی اس حمام میں سب ننگے تھے ،لیکن شرافت کا لبادہ اوڑھ کے پھرتے تھے،لیکن ان میں اور مجھ میں بس یہی فرق تھا ،وہ چھپے رستم تھے اور میں بدنامِ زمانہ پرنس تھا ،کیونکہ یہ سب مل کے بھی اتنے شکار نہیں کر سکے تھے جتنے میں اکیلا کر چکا تھا اپنی تو لائف ہی یہی تھی ،غنیمت یہ تھا کہ کافی مخلص دوست مل گئے تھے جن کی فیملیوں کا میں حصہ تھا ،بس یہ دوست ہی میری فیملی ہیں،کمال بھی انہی میں سے ایک تھا، ہیلو ایوری باڈی میں ملتا ملاتا ایک ٹیبل پہ بیٹھ گیا ، یہاں صرف اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ بیٹھنا الاؤڈ ہے، سمیر نے مزاق کیا ، یار سمیر اس کی کوئی ایک گرل فرینڈ ہو گی تو اس کے ساتھ بیٹھے گا ، رانیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا ، باقی دو نے بھی جو بکنا ہے وہ بھی بک لیں ، میں نےچاروں کو ہی لتاڑتے ہوئے کہا،علوینہ اور احتشام ہنسنے لگے ۔ میں صبح مما کو چھوڑنے ائیرپورٹ جا رہی تھی ، تو پرنس نے پتہ نہیں کس کے ساتھ ریس لگائی ہوئی تھی ،علوینہ شرارت سے میری طرف دیکھنے لگی، پہلے تو یہ بتاؤ کہ تم ڈی ایچ اے میں رنگ روڈ سے ایئرپورٹ جانے کی جانے کی بجائے اتنا چکر کیوں کاٹا ،میں نےبات کا رخ بدل دیا،وہ میں مما کی ایک دوست کو جوہر ٹاؤن فیزٹوسے لینا تھا تو وہاں سے کینال بینک روڈ سے پھر ایئرپورٹ کی طرف چلے گئے ۔اوہ صبح صبح اتنی ڈرائیونگ،میں نے ڈرامہ کیا ، یہ مما کی اچھی بچی ہے نہ ،احتشام بے اختیار بول پڑا ،ضرور احشتام کو تو پتہ ہونا چاہیے میں نے معنی خیز لہجے میں کہا ۔ یاد رکھنا احتشام ڈرائیور کی بجائے صبح اٹھ کے خود گئی ہے ،مما کی اچھی بچیاں بعد میں تنگ بڑی کرتی ہیں میں نے دونوں کو چھیڑا۔ بالکل تمھیں بچیوں کا نہیں پتہ ہو گا تو کسے ہوگا،علوینہ کب پیچھے رہنے والی تھی، آہ ہا ۔۔۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا، چاروں نے میرے ساتھ مصرعہ مکمل کیا،اوکے گایئز انجوئے یور سیلف،(مزے کرو ، دوستو)مجھے ایک پٹاخہ نظر آگیا تھا ، یہ تمھارے ہاتھ نہیں آئے گی ،علوینہ چپ نہ رہ سکی، لگتا تھا علوینہ مجھے ٹائم دے گی ،، میں ایسے ہی تو اس کے پاس جا کہ نہیں بیٹھتا تھا ، جب بھی آئے گی خوش آمدید ،
کمال کون ہے وہ پٹاخہ ؟ کون سا پٹاخہ کدھر ہے؟کمال نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا وہ جو مسز ریحان کے ساتھ بیٹھی ہے،اوہ وہ ،وہ پٹاخہ نہیں ہے ، بم ہے ۔۔۔ بم ہے۔ کمال نے مزہ لیتے ہوئے کہا، تو تمھارے سامنے بم ڈسپوزل کھڑا ہے،اس کا حدود اربعہ بتاؤ، یار وہ ۔۔۔۔۔ تمھارے ہاتھ ۔۔۔۔۔۔ مشکل ہے ، جانے دو،کمال کی بات پر میں بہت حیران ہوا،کیا کہہ رہےہو تم ، ہاں یار کچھ ایسا ہی ہے ، یو ں سمجھ لو کے تم پرنس ہو تو وہ کنگ ہے،یار اب مجھے تجسس سے ہی مار دیتے رہو گے یا کچھ منہ سے پھوٹو گے بھی ۔ کراچی سے اپنے شوہر کے ساتھ آئی ہے وڈیرے ہیں بہت بڑے ،انتہائی مغرور ہے،دولت کا خمار بہت ہی زیادہ ہے،ہم جیسے بڑے کاروباری بھی ان کے سامنے کچھ نہیں ہیں،یہاں کیا کرنے آئے ہیں ؟میں نے تجسس سے پوچھا کچھ مہینے ہوئے ہیں شادی کو ،مسٹر اینڈ مسسز ریحان کے مہمان ہیں ،انہوں نے شادی کا کھانا دیا ہے ،ان کو ٹائم نہیں مل رہا تھا ،اب چھ سات ماہ بعد ٹائم ملا ہے ان کو ،سمجھ لے اب ان کی باری آئی ہے مسٹر اینڈ مسسز ریحان کی،تو بڑی خبریں رکھتا ہے لگتا ہے بھابی کو خبردار کرنا پڑے گا، یار مسسز ریحان ابھی میری مسِسزسے اس کا تعارف کروا رہی تھی ،بڑی شو مار رہی تھی کہ کیسے لوگ ہمارے مہمان ہیں ، ہاں تو ایسی فیملی ان کی مہمان کیسے بن گئ، یار تمھیں پتہ ہے نہ وہ ریحان شکار کا شوقین ہے اور وڈیرے بھی ایسے شوق پالتے ہیں ،تو ہو گئی ہو گی ان کی کوئی واقفیت ۔ اب بھی دونوں شکار پر گئے ہوئے ہیں کمال نے مجھے آنکھ مارتے ہوئے کہا،اوووہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب زارینہ صاحبہ بور ہورہی تھیں تو مسز ریحان اسے یہاں لے آئی،اچھا تو اس بم کا نام زارینہ ہے ،ہاں اب تمھاری تسلی ہوگئی ،اب جاؤ علوینہ پے ڈورے ڈالو ،کمال کی نظریں بڑی تیز تھی،علوینہ خود آئے گی جب بھی آئے گی،ابھی اس بم کی بات کرو،پرنس چھوڑو اسے ،کمال محتاط تھا،تمھارا کیا خیال ہے ان وڈیروں کی بیویوں کو نہیں پتہ ہوتا کہ ان کے شوہر کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں ؟ یہ خود بھی کسی کے انتظار میں ہے،میں اتنی دیر سے مسلسل اس کا تجزیہ کر رہا تھا ۔اوہ نہیں یار ،کیا بات کرتے ہو ابھی کچھ عرصہ ہوا ہے ان کی شادی کو،کمال بے زاری سے بولا۔ جو تم سمجھ رہے ہو وہ سب تو یہ شادی سے پہلے بھی کر چکی ہےمیں کچھ اور کہ رہا ہوں یہ وہ انتطار نہیں ہے جو عام طور پر کیا جاتا ہے ،یہ چاہتی ہے کوئی آئے اور اسے زبردستی اٹھا کے لے جائے ۔ اتنا کہنے کے بعد میں زارینہ کی طرف قدم بڑھا چکا تھا، پرنس ۔۔۔ پرنس پیچھے سے کمال کی متفکر آواز آئی مگر میں اب رکنے والا نہیں تھا


ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (تیسری قسط)"