Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ناگن (قسط چار)

 


ہیلو مسز ریحان ، میں ایسے رکا جیسے اچانک اسے دیکھا ہو، پرنس،آپ ۔۔ تم،،اوہ اوہ ،آو بیٹھو نہ ،مسز ریحان نے حسرت سے کہا ، لو جی آج آپ کے پاس بیٹھ جاتے ہیں،کیسی ہیں آپ ؟ میں ٹھیک ہوں ،مجھے یقین نہیں آرہا کے تم میرے پاس بیٹھے ہو۔ آج تو جیسے جو مانگتی مل جاتا ،مسز ریحان نے شوخی سے کہا،اچھا آپ کو پتہ ہوتا کہ آپ آج جو بھی مانگیں گی ملے گا،تو پھر آج آپ کیا مانگتی ۔۔۔۔ سچ بتاؤں،مسز ریحان کسی خوش فہمی میں پڑ گئی تھی ،بلکہ یہاں بیٹھ کے میں نے اسے خوش فہمی میں ڈال دیا تھا ، جی بالکل سچ سچ بتائیں میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا، میں مانگتی کہ پرنس ایک دفعہ ہمیں بھی اپنے فلیٹ پر آنے کی دعوت دے مسز ریحان نے بڑی ہی ذو معنی بات کر دی،۔نہیں مسز ریحان آپ مجھے بنا رہی ہیں ۔ بھلا میں اس قابل کہاں میں تو ایک عام سا بندہ ہوں ،اور یہ عام سا بندہ کچھ لوگوں کا پرنس چارمنگ ہے ، مسز ریحان آپے سے باہرہو رہی تھی ، اور زارینہ کو یکسر نظر انداز کر چکی تھی،یہی میں چاہتا تھا،میں تو اس کی طرف دیکھے بغیر بتا سکتا تھا ، کہ اس کی انا کے غبارے میں ہوا بھرنی شروع ہو چکی ہے ، مسز ریحان میری طرف سے آپ کو آپ کے شوہر کو کھلی دعوت ہے آپ جب چاہیں میرے فلیٹ پر آسکتی ہیں میں مسز ریحان کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اسے میری بات کی سمجھ آرہی تھی کہ میں اسے کیا کہہ رہا تھا،اوہ ،اوہ پرنس کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہی ، مجھے یقین نہیں آرہا ،مسز ریحان کا بس نہیں چل رہا تھا وہ میرے اوپر گر جانا چاہتی تھی، کمال ہے آپ نے چھوٹی سی سی بات پہ بہت ری ایکٹ کر رہی ہیں،دوست ہی دوستوں کو ملتے ہیں اور ایکدوسرے کے کام آتے ہیں،میں نے اس کی آنکھوں میں مسلسل دیکھ رہا تھا ، اوہ ہاں وہ کچھ سمجھی کچھ نہیں سمجھی،ابھی تک اسے زارینہ کا کوئی خیال نہیں آیا تھا،جب آپ دوسروں کی خوشیوں کا خیال رکھتے ہیں تو آپ کو بھی خوشیاں ملتی ہیں ، میں نے اسے پھر کچھ سمجھایا ، اچھا میں چلتا ہوں ،میں اچانک اٹھنے لگا ، نہیں بیٹھو نہ کچھ دیر اور بیٹھو پرنس ،مسز ریحان نے میری توقع کے مطابق کہا، وہ دراصل مسز کمال کو کوئی کام تھا یا آپ ان سے مل لیں ،آپ سے بہتر ایسی پارٹیوں کے انتظام کو کون جانتا ہے ،میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کچھ سمجھایا ، ٹھیک میں مل لیتی ہوں ،میں ابھی آئی ،وہ اٹھتے ہوئے بولی،اوہ سوری ،،، سوری میں آپ لوگوں کا تعارف کروانا تو یاد ہی نہیں رہا،اگین سوری، یہ مسسز کالپر ہیں، بس یہ سمجھ لو کے کنگ میکر فیملی ہے ان کی،مسزکالپر یہ پرنس ہے بہت ہی سحر انگیز شخصیت کا مالک ہے اور پتہ نہیں کیا کیا ہے،آپ لوگ بیٹھے میں ابھی آئی ،بے چاری مسسز ریحان ایک اور بھوکی آنٹی، مگر اس کے پاس اچھا کھانا بہت تھا بس پرنس نہیں تھا ، نہ پرنس نے اس کے پاس آنا تھا ، نظر انداز کیے جانے پرزارینہ کی انا اور غرور اس وقت ایسے بن گیا تھا جیسے کوئی شیر کی کچھار میں گھس کے اسے شکار کرنا چاہے ، سیاست دان اور بزنس مین اس فیملی سے ملنے کیلیے انتظار کرتے تھے اور یہاں زارینہ کو نظر انداز کیا جا رہا تھا، زارینہ نے اس کا بدلہ یوں لیا کہ مجھے یکسر نظرانداز کر دیا جیسے میں موجود ہی نہیں ہوں،اس کی نخوت کا عالم ایسا تھا جیسے کوئی زمینی خدا ہو،میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا اس کے حسن کےلیے بس ایک فقرہ کہوں گا کہ ملکہ حسن کا عالمی اعزاز جیتنا اس کے لیے انتہائ آسان تھا ، عمر کوئی چھبیس سال، اسمارٹ جسم ،جسم پر ملک کا مہنگا ترین لباس،نقوش جیسے اجنتا الورہ کی مورتی ہو، ملکوتی حُسن ،اور ملکوتی حُسن پر بے انتہا دولت کی آسودگی اور آسودگی پر طمانیت جیسے اس ملک کے مالک ہو۔اور اس ملک کی مالک کو میں نے چھیڑ دیا،چلو بھئ پرنس چلتے ہیں نہیں تو لوگ اپنی حسد کی آگ میں جل مریں گے، میں نے اٹھتے ہوئے کہا، کیا تم نے ہم سے کچھ کہا ہے مسٹر پرنس ؟ زارینہ کی آنکھوں میں حیرانی اور غصے کی تپش تھی ، اس کی تپش میں بھی محسوس کر رہا تھا ،ہاں تم سے ہی کہا ہے ،تھوڑی دیر مسسز ریحان نے مجھے توجہ کیا کروا دی تم حسد سے جل مری ہو اور پاس بیٹھےانسان کوبلانا بھی گوارہ نہیں کیا، میں نے اچانک ہی اسے تم کہ دیا ،حاسد اور جل مری کہہ دیا،اس کے چہرے سے ایسے لگنے لگا جیسے میں نے کوئی بہت بڑی گستاخی کر دی ہو ۔ ملکہ عالیہ ے چہرے پر جلال آگیا تھا، تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے شدت غصب سے کچھ بولا نہ گیا، تمھاری یہ جرات ۔۔۔۔۔۔ ہم سے ایسے الفاظ ایسے لہجے میں بات کرو ۔۔ اچھا تو کیا ہو تم خدا ہو یہاں کی، اس سے پہلے وہ کچھ کرتی میں نے اسے چیلنچ کر دیا، ہم مالک ہیں اس ملک کے اورتم جیسے کیڑے مکوڑے ہماری رعایا ہو، تم ٹٹ پونجیے پرنس میری جوتیاں سیدھی کرنے کے بھی قابل نہیں ہو ،اس کا غرور ایسے اچھل رہا تھا،جیسے سمندر کی طوفانی لہریں شہر کوملیا میٹ کر دیتی ہیں، لیکن میں بڑے اطمینان سے بیٹھا تھا ، جیسے وہ میرے لیے جوکر ہو،میرے ہونٹوں پر تمسخرانہ مسکراہٹ تھی جو اس کے غصے کو جلتی پر تیل جیسا کام کر رہی تھی، میں نے تمھاری تقریر نہیں سننی ،میں نے اس کے الفاط اور لہجے کو ایک ہی فقرے سے زیرو کر دیا ، میں نے پوچھا کیا ہو تم ؟ مجھے اس بات کا جواب دو ۔ اسے نہیں پتا تھا یہ شطرنج کی گیم ہے اور وہ میری مرضی کی چالیں چل رہی ہے، ہم مالک ہیں تمھارے ،،،،،، تم نہیں ہو، میں نے اس کی بات درمیان میں ہی کاٹ دی ، وہ تمھارا باپ ہو گا، تم کیا ہو؟ میں نے اسے جھنجھوڑا ۔ ہمارا خاندان۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ میں نے تمھارے خاندان کا نہیں پوچھا ۔۔۔۔۔ میں نے پھر اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ تم یہ بتاؤ تم کیا ہو۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ میں مسز کالپر ہوں میرے شوہروزیر۔۔۔۔۔ اس نے غرور سے کہنا شروع کیا کہ میں نے پھر اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔۔ اونہہ کتنی بدھو ہو تم ،میری بات نہیں سمجھ نہیں رہی ۔ اس کے غصے کی کوئی حد نہیں رہی تھی اب۔ ایسے لہجے ایسے الفاظ اسنے کب سنیں ہو گے ۔۔ تمھارا شوہر تمھاے بھائی ،تمھارا باپ،تمھار خاندان ،اسمبلی،حکوت ، کنگ میکری ، یہ سب بہت بورنگ ہے ،کچھ اپنا بتاؤ ، کیا ہو تم ۔۔۔ وہ چپ ہو گئی تھی اسے اب احساس ہوا تھا کہ میں اس سے کیا پوچھ رہا تھا ، اب تمھیں یہ ٹٹ پونجیا پرنس بتائے کہ تم کیا ہو، تم اپنے ماں پاب کیلیے ایک جائیداد ہو جسے خاندان میں ہی کہیں سنبھال کے رکھنا ہے اور اپنے شوہر کیلیے ایک سیاسی شادی ہو،بس ۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے ایکدم خالی کردیا ۔۔۔۔ میں آکسفورڈ میں پڑھی ہوں ۔۔۔ بورنگ ۔۔۔ میں ہنسنے لگا، بہت سی این جی اوز کی چیئرپرسن ہوں ، زارینہ عامیانہ باتیں کرنے لگی ۔۔ بورنگ یار ،اب تم کہیں یہ نہ کہہ دینا کہ اتنی جیولری ہے تمھارے پاس اور اتنا بینک بیلنس ہے ،اتنی جائیداد ہےتمھارے نام، کوئی ڈھنگ کی بات کرو یار ۔۔۔۔ میں نے اس کا مزاق اُڑایا ۔۔۔۔۔۔۔ تم خود کیا ہو زارینہ نے بےبسی سے کہا ۔۔۔ میں اپنی مرضی کا مالک ہوں ۔۔۔ وہ تو میں بھی ہوں زارینہ امید سے بولی ۔۔۔۔۔ نہں تم نہیں ہو ۔۔۔۔ تمھیں پتہ ہے اس وقت تمھارا شوہر کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے ۔ میں نے اس پر ایک اور حملہ کیا۔ نہ جانے کب وہ تمھیں شرفِ ملاقت بخشے گا۔۔۔ میں نے اس پر بھر پور طنز کیا ۔۔۔۔۔۔۔ اسے پھرخاموشی لگ گئی ۔۔وہ کہیں شکار کر رہا ہو گا اور تم اس کی وفاداری کا بھرم رکھ رہی ہو یا ہو ہی بے بس ۔۔ بہت بورنگ لڑکی ہو یار تم ۔۔۔۔۔۔ میں اٹھتے ہوئے بولا۔ دو قدم چل کہ میں نے اسے دیکھا ۔۔۔ میرے فلیٹ میں باون انچ کی ایچ ڈی ایل ای ڈی لگی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ اور میرے پاس اچھی فلموں کی زبردست کولیکشن بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم اپنی مرضی سے کچھ وقت گزارنا چاہتی ہو تو میرے ساتھ آسکتی ہو ۔۔۔۔ میں نے اسے خود کو ثابت کرنے کا ایک موقع دیا ۔۔۔۔۔ میں باہر کار میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں ۔ کمال مجھے ہی دیکھ رہا تھا مجھے ایسے جاتے دیکھ وہ ہنسا جیسے کہہ رہا ہو میں نہ کہتا تھا کہ یہ تمھارے بس سے باہر ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مسز ریحان نے مجھےخوب موقع دیا تھا ۔۔۔مجھے پتہ تھا وہ ضرور آئے گی خود کو ثابت کرنے کیلیئے مجھے ہرانے کیلیے ۔۔۔ میں اپنی کار میں انتظار کر رہا تھا کہ وہ چلتی ہوئی نظر آئی۔۔۔۔۔۔۔ اس کی چال بڑی دلربا تھی اور جسم سحر انگیز تھا ،بلاشبہ وہ ایٹم بم تھی ۔۔۔۔۔ زارینہ نے کار کا دروازہ کھولا اور میرے ساتھ بیٹھ گئی ۔( چیک میٹ )۔۔ جس اعتماد سے وہ بیٹھی تھی میں سمجھ گیا اسے شوہر کے علاوہ بھی سیکس کا پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کار فلیٹ کی طرف چلا دی ۔۔۔۔ شطرنج کے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنی چالوں سے حملے پرحملہ کرتے جایئں ۔ مخالف کو سوچنے کا موقعہ نہ دیں ۔ پھر وہ دفاع پردفاع کرے گا اورآپ کی مرضی کی پوزیشن پر آجائے گا،جہاں اسے چیک میٹ کرسکیں گے۔۔۔۔۔۔۔ بھلا زارینہ کوکیا ضرورت تھی میرے سامنے خود کو ثابت کرنےکی ۔۔۔ لیکن اس کے غصے نے اسے کچھ سوچنے نہ دیا اور اس کی انا خود کو ثابت کرتی رہی اور ناکام ہوتی رہی ۔ اب اس کے پاس ایک ہی طریقہ رہ گیا تھا خود کو ثابت کرنے کا ۔ خود کو آزاد ثابت کرنے کا کہ وہ میری جھولی میں آگرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم فلیٹ پہنچے راستے میں مکمل خاموشی رہی ۔۔۔۔ کوئی بات کر کے میں اس کا ردھم نہیں توڑنا چاہتا تھا ۔۔۔۔ ہم فلیٹ میں داخل ہوئے ۔۔۔ میں اپنے بیڈروم میں آگیا ،وہ بھی آہستہ آہستہ میرے ساتھ تھی ۔۔ فلم کولیکشن کہاں پڑی ہے ۔۔۔۔ اس نے بڑی ہی نرمی سے پوچھا ۔۔۔۔ میں نے اپنی پینٹ کی زپ نیچے کی انڈرویئر نیچے کیا اور عضو پکڑ کے کہا یہ میری کولیکشن ہے ۔۔۔ بہت بےہودہ انسان ہو تم وہ غصے میں میری طرف لپکی اور میرے سامنے کھڑی ہوگئی ، مجھے دیکھتی رہی اب ایسا بھی نہیں تھا کہ اسے پتہ ہی نہ ہو کہ فلیٹ میں کیا کرنے جا رہی ہے ۔۔۔۔ ہم آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے رہے ضرور اس کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بہت سی آنکھیں جھک جاتی تھیں لیکن آج اس کی شکست کا دن تھا میں نے ایسے کھیل بہت کھیلے تھے آخر اسے آنکھیں جُھکانی پڑی اس کی انا ، ابھی بھی مجھے شکشت دینا چاہتی تھی ۔ زارینہ اکڑوں نیچے بیٹھ کے میرے عضو کو پکڑ کے سہلانے لگی۔۔۔۔۔ میں نےاوپری لباس اتار دیا ۔ زارینہ نے عضو سہلاتے ہوئے منہ میں لے لیا ۔ میں بیڈ پر بیٹھ گیا اور اسے نیچے قالین پر بٹھایا ،میں نے پینٹ اور نیچے کر دی اورسرور لینے لگا ۔۔۔ زارینہ بڑی مہارت سے اپنا کام کر رہی تھی ۔ میں سمجھ رہا تھا یہ چھ مہینے کی شادی والی مہارت نہیں تھی ،ضرور اس کا کوئی بوائے فرینڈ ہو گا شاید آکسفورڈ میں ہی ہو ۔ وہاں ملنا اور سیکس کرنا آسان بھی ہو گا ۔ لیکن وہ بوائے فرینڈ اسکے خاندان کا حصہ نہیں بن سکتا ہو گا ۔۔ کیا پتہ اب بھی اس سے ملتی ہو ۔۔۔ زارینہ کو عضو چوستے ہوئے دس منٹ سے اوپر ہوگئے تھے ۔ اب وہ بڑے جوش سے عضو کو چوس رہی تھی ۔اس کی رفتار، پکڑ ، ہونٹ اور زبان کسی کام میں شدید مصروف تھے ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی ۔۔۔ کیا یاد کرو گے تم پرنس ۔ کوئی زارینہ تمھیں ملی تھی ۔۔۔ اس کے چہرے پر جیت کے آثار نظر آنے لگے ایسے جوش اور مہارت سے عضو چوسا جائے تو مزے کی لہروں میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔ نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے ۔۔۔۔۔۔ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ۔۔ اور اتنے نازک ہونٹ مزے سے ماریں گے نہ تواور کیا ہو گا ۔۔۔ بیس منٹ ہونے والے تھے اب اس کے چہرے پر حیرانی تھی اور آنکھوں میں مایوسی تھی ۔۔۔ اس کا جوش مدہم پڑنے لگا تھا ۔۔۔۔ بہت اسڑانگ ہو ابھی تک تو تمھارا پانی نکل جانا چاہیے تھا۔۔۔۔ زارینہ نے مایوس لہجے میں کہا ۔ میں دل ہی دل میں ہنسنے لگا جب میں کارمیں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا تو میں ٹائمنگ کی آزمودہ گولی کھا لی تھی ۔۔ میں یہ کبھی کبھارکھاتا ہوں کیونکہ ان کا مستقل استعمال نقصان دہ ہوتا ہے لیکن آج یہ بہت ضروری تھا ۔چوس چوس کہ اس نے میرا پانی نکالنے کے بعد یہاں نہیں رکنا تھا ۔۔۔ اس نے مجھے شکست دینے کی آخری کوشش کی تھی ۔۔۔۔ میں نے اس ایٹم بم کو بازووں سے پکڑا اور اپنی گود میں بٹھا لیا ۔۔ اس کی قمیض اور برا اوپر کر کے اس کے ممے چوسنے لگا ۔۔۔۔ زارینہ میرے عضو پر بیٹھی تھی عضو اسے نیچے سے پریشان کرنے لگا ،اور ممے اسے اوپر سے پریشان کرنے لگے۔۔۔ ممے چھیڑنے سے ان کے پیچھے پیٹھ میں اس کا پانی ابلنے لگا ۔۔۔ اب اس کے جسم میں سرور کی لہریں اٹھنے لگی۔۔ زارینہ بےچین ہونے لگی ۔۔میں اسے جسمانی طور پر انتہائی بے چین کرنا چاہتا تھا۔۔ اسے محسوس ہونےلگا کے مدِمقابل کچھ بہت خاص ہے میری ہونٹوں نے ہاتھوں نے اسے بےچینی کی لہروں میں دکھیل دیا ۔ اب زارینہ ایسے ری ایکٹ کر رہی تھی جیسے میں اسے کھینچ کے گہرائی میں لے جا رہا ہوں ۔ ممے فور پلے کا ایک ایسا رستہ ہیں جس سے انسانی جسم ہیجان میں مبتلا ہوجاتا ہے ،ساتھ ساتھ زارینہ کی کمر پر مخصوص انداز میں دائرے بنانے لگا ۔۔ زارینہ کو اب پتہ چلا کہ فور پلے کیا ہوتا ہے ۔ پرنس تم بہت اچھا فورپلے کرتے ہو ۔ تم کافی ماہر ہو زارینہ کو مزے نے اعترف کرنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ اب میں اس کی قمیض اور برا اتار سکتا تھا سو میں نے بڑی نرمی سے اس کا اوپری حصہ ننگا کیا ۔۔۔ اسے بیڈ پر لٹا دیا ۔۔۔ اپنا نچلا حصہ پورا ننگا کیا ۔اوراس کی شلوار کھینچ کے اسے بھی ننگا کر دیا ۔۔ بس لگائے اس میں کچھ پل ہی تھے ۔۔ اس کے اوپر لیٹ کے اس کے ممے چوسنے لگا ۔۔۔ اس کی جسم کی شراب پیتے ہوئے میں مدہوش ہونے لگا ۔۔۔ مست ہی مست ہو تم ،میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔ تم بھی کچھ کم نہیں ہو ۔۔ زارینہ اب باتیں کرنے لگی ۔۔ تمھیں دیکھ کے بہت سے شعر یاد آرہے ہیں ۔ مگر تمھارے جسم کے سامنے دوسرے لمحے وہ شعر کمتر لگنے لگتے پیں ۔ اب میں نے دوستی کیلیے ماحول ہموار کرنا شروع کر دیا ۔ میرا عضو ضرور اسے بے چین کر رہا ہو گا ۔ میں نے اسے اسی کام پر لگایا ہوا تھا ،میرے ہاتھ زارینہ کو سمجھا رہے ہوں گے کہ پیار کسے کہتے ہیں ۔ اور میرے ہونٹ اس کے گلاب بدن کی پنکھڑیاں چُننے میں مصروف تھے ۔۔ اچھا میں بھی تو سُنوں کون سے شعر یاد آ رہے ہیں ،زارینہ شکشت کے بعد اپنی تعریف سننا چاہتی تھی ۔۔ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے ۔۔۔۔۔ وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے (احمد فراز) ۔ایک ہی شعر میں اپنی کیفیت بھی بیان کر دی اور اس کے حُسن کی دل کھول کر تعریف بھی کر دی ۔ پرنس تمھیں گفتگو میں بھی کمال ہے ؟ بات بات پر میری تعریف کا مطلب تھا کہ وہ ذہنی طور پر میرے اثر میں آ چکی ہے ۔ اتنی نرماہٹ سے اتنے پیار سے اتنے احساس سے میں زارینہ کو پیار کر رہا تھا جیسے وہ کانچ کا پیکر اور میری شِدتیں اسے کوئی ٹھیس نہ پہنچا دے ۔۔۔ مجھے اندازہ تھا ایسی چاہت سے اس کا کبھی واسطہ نہیں پڑا ہو گا ۔۔ تمھیں اپنی بانہوں میں پا کہ بھی میری وحشتوں کو سکوں نہیں آرہا ۔۔ جانے کیا ہو تم ۔ زارینہ کے دل میں میری سرگوشیاں ہلچل پیدا کر رہی تھیں تو ہونٹ،ہاتھ اور عضو اس میں میری طلب جگا رہے تھے۔ میں نے پیار کے لمحات طویل تر کر دیئے تھے مجھے کچھ خاص چاہیئے تھا ۔ میرے جذبات میں خود طوفان اٹھا ہوا تھا ۔ مگر میں نے ضبط کا دامن نہیں چھوڑا تھا ۔ میں چاہتا تو اسے چود دیتا ۔ وہ اپنی راہ لیتی میں اپنے راہ چل پڑتا ۔ لیکن میں کچھ اور چاہتا تھا مجھے وہ مفتوح نہیں چاہیئے تھی ۔۔ مجھے وہ اُسی کی دلی مرضی سے چاہیئے تھی ۔ میری حالت اس وقت کچھ اس شعر جیسی تھی ،
بے قراری سی بے قراری ہے ۔۔۔۔ وصل ہے اور فراق طاری ہے ۔۔۔۔ (جون ایلیا) مجھے پتہ تھا وہ اس وقت میری نہیں تھی ۔ زارینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرنس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمھیں فتح نہیں کرنا چاہتا تمھیں تمھاری مرضی سے پانا چاہتا ہوں ۔۔۔ اگر اجازت ہو تو تمھیں حاصل کر لوں ؟ زارینہ کے جسم میں ارتعاش سا ہوا ۔ اس کا ذہن اور جسم تو پہلے ہی میرا ہوچکا تھا ۔۔ زارینہ نے اپنے بازوؤں کا ہار میرے جسم کے گرد ڈال دیا ۔اور پھر اس ہار کا گھیرا تنگ کردیا ۔۔ پرنس میں اب بھی تمھیں جیتنے آئے تھی ۔ تمھیں اپنے پیچھے لگانے آئی تھی ۔ تمھیں تڑپانے آئی تھی ترسانے آئی تھی، لیکن تم نے مجھے جیت لیا ہے میرے دل کو جیت لیا ہے ۔۔ اب میں دل سے چاہتی ہوں کہ تم مجھے پا لو ۔۔ میں نے اسکی ٹانگیں کھول کے گھٹنوں کے بل مخصوص پوزیشن بنائی اور ۔۔۔۔۔۔ زارینہ نے میرا عضو اپنے ہاتھ سے اپنی چوت پررکھا میں نے بڑی نرمی سے دھکا لگایا اور عضو اس کی چوت میں گھس گیا ۔ چوت ٹھیک تھی ۔ تنگ تھی ۔ ہمیں محسوس ہوا کہ دو جسم ایک جان ہو گئے ہیں ۔ میں آہستہ آہستہ زارینہ کو چودنے لگا۔ زارینہ کی آنکھوں میں بے تحاشا پیار تھا ۔ اور اس کے ہاتھ مجھے اس طرح پکڑے ہوئے تھے جیسے کبھی مجھے کھونا نہیں چاہتی ہو۔ جسم کی ضرورتوں کے مطابق اب میں تیزہونےلگا ۔اس کا جسم میرے دھکوں سے ہلنے لگا ، ممے ارتعاشی حالت میں آگئے۔ چہرہ وصال کی گواہی دینے لگا تھا اور جسم مزے کے سمندر میں ڈوب گیا تھا ۔ جیسے جیسے میں چودتا گیا ویسے ویسے زارینہ کی جذباتیت بڑھتی گئی۔ جسمانی ضرورتوں کے علاوہ ذہنی اور دلی ضرورتیں بھی ہوتی ہیں ،جنہیں اس دوران خوراک دی جا سکتی ہے ، بس فرق آپ کے انداز میں ہوتا ہے ۔ چاہت سے چودنے اور بھوک مٹانے کیلیے چودنے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ میں نے جس کو بھی آج تک چودا ہے وہ اپنی مرضی سے میرے بستر پر آئی ہے ۔ کیونکہ نگینہ اور میری پہلی رات نے پھر کبھی مجھے کسی سے زبردستی نہیں کرنے دی ۔ جو مزا باہم ملنے میں ہے وہ کسی اور طریقے سے نہیں مل سکتا۔اس وقت ہم اسی مزے کے سمندر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پرنس کچھ کرو یہ وقت یہیں رک جائے ۔ ہم تمھارے بازوؤں سے واپس اس دنیا میں نہیں جانا چاہتے ۔زارینہ انتہائی جذباتی ہو رہی تھی ۔ چودائی کے ساتھ ساتھ میں اس کی آنکھوں کو گالوں کو بھی چوم لیتا تھا ۔ سیکس اور پیار کے حسین امتزاج نے زارینہ کو بےحال کر دیا تھا ۔ میں نے جیسے اس کی نبض پر انگلیاں رکھ دی تھی ۔ اور اس کی بیماری کے مطابق دوا دے رہا تھا ۔ اور یہ دوائی زارینہ کے دل پر اثر کر گئی تھی ۔ میں نے ٹائمنگ گولی کا حساب بھی ذہن میں رکھا ہوا تھا ، بیس منٹ تو زارینہ نے چوستے ہوئے گزار دیے تھے ،پھر میں نے پیار کے لمحات بھی طویل کردیئے تھے ۔ جس سے پانی ابلتا رہا تھا اوراب بس باہر نکلنے والا تھا ۔ لگتا یہی تھا ہم اکھٹے مزل پر پہنچے گے ۔۔ یہی میں چاہتا تھا ۔ اب دھکے اضطراری تھے ۔ جسم کہتا تھا کچھ ہونے والا ہے ۔ جب کچھ ہونےوالا ہو تو اپنے آپ دھکوں کی رفتار تیز ہوجاتی ہے ۔ جیسے پانی پہاڑی نالوں سے گرتا ہے ۔ اووو ۔ میں رک گیا ۔جسم کوجھٹکا لگا ۔ مگر میں رکا نہیں زارینہ کو دو جھٹکے اور چاہیئے تھے ۔ اور پھر اس کے اوپر گر گیا ہم نے ایکدوسرے کو جکڑ لیا۔ ہمارے جسم وائبریشن پر تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو باتیں ہوئی ایک تو پانی بہت نکلا ۔۔ دوسرا زارینہ نے مجھے آئی لو یو(مجھے تم سے محبت ہے) کہا ۔۔ برستے پانی میں خوشبو سی میں نے کی محسوس ۔۔۔۔۔۔ مجھے یقیں ہے کہ وہ بھی انہیں گھٹاؤں میں تھی ۔۔۔ (شاعر ۔ اعجازعبید) ۔
کسی نے کبھی ہم سےاجازت نہیں مانگی ۔ والدین سے لیکر شوہر تک ہر کسی نے ہمیں اپنی مرضی بتائی ہے دنیا کیلیئے ہم ایک پرنسیس کی طرح ہیں لیکن ہم جانتی ہیں کہ ہمارے جیسے خاندانوں میں لڑکیاں کتنی بے بس ہوتی ہیں ۔آج تم نے ایسے طریقے سے ہمیں گھیرا ہے جو ہمارے وہم و گماں میں بھی نہ تھا ،لیکن جب تم نے اجازت مانگی تب ہم تمھاری ساری بات سمجھ گئے ۔ نہ کبھی ایسی چاہت سے کسی نے پیار کیا ہے نہ کبھی ہمیں زندگی میں ایسا مزہ ملا ہے آئی لو یو پرنس ۔۔ تمھارے بوائے فرینڈ کا کیا بنا ، میں نے اسے چونکایا ۔ زارینہ حیرانی سے میری طرف دیکھنے لگی ۔ تمھیں کیسے پتہ چلا ؟ کہیں دور سے اس کی آوز آتی محسوس ہوئی ۔ میں نے بس آئیڈیا لگایا ہے ۔ مجھے شوق ہے لوگوں کو پڑھنے کا ان کے دل کے حال جاننے کا ۔ اگر تم ہمیں بستر تک لا سکتےہو تو بے شک ایسا پرفیکٹ آئیڈیا بھی لگا سکتے ہو ۔ زارینہ تو جیسے میری معتقد ہو گئی تھی۔ شاید تم لوگ آکسفورڈ میں ملے ہوگے وہ بھی پاکستانی ہو گا ۔ اظہار کے بعد جسمانی ملاقات میں اس نے دیر نہیں لگائی ہو گی۔ پھر اسے تمھاری فیملی کا پتہ چلا ہو گا تو پیچھے ہٹ گیا ہو گا وہ بھی اس وقت جب تم یا وہ پاکستان مستقل آگئے ہو ۔ تم نے دل پر پتھر رکھ لیا ہو گا اور والدین کی مرضی کے سامنے سر جھکا دیا ہو گا ۔ جلد ہی تمھاری شادی کر دی گئی ہو گی شاید دو سال کے اندر ۔ لیکن وہ جو کوئی بھی تھا اس نے تمھیں جذباتی بلیک میل کر کے بس تمھارا فائدہ ہی اٹھانا تھا میری بات ختم ہوئی تو زارینہ کی آنکھوں میں آنسو نکل رہے تھے ۔ زارینہ نے مجھے زور سے جکڑ لیا۔ ہاں ایسا ہی ہوا تھا ہمیں بھی اس کی بے وفائی کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ پرنس تمھیں چاہنے لگی ہوں ۔ تمھارے ساتھ مستقل دوستی چاہتی ہوں ۔ میں ہمہشہ تمھارے ساتھ ہوں ۔ میں نے اسے اپنے بازوؤں کے گھیرے میں کس لیا۔ یہاں زارینہ نے کمال کا شعرسنا دیا ۔ توملا ہےتو اب یہ غم ہے ۔۔۔ پیار زیادہ ہے زندگی کم ہے ۔
کیا ستم ظریفی ہے ہم نے تمھارے نام اپنی زندگی لکھ دی اور ہمیں تمھارا نام تک نہیں معلوم ؟ زارینہ اب مجھے جاننا چاہتی تھی ، میر ا نام پرنس ہی ہے ۔ اب میرے ساتھ ایسا سلوک کرو گے زارینہ نے خفگی سے کہا ۔ کوئی میرا نام نہیں جاننا چاہتا میں بس شہزادہ ہوں میں نےاس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ بس وقت نے اتنا فرق ڈالا ہے کسی نے مجھے شہزادے سے پرنس بنا دیا ۔ میرے سرد لہجے نے اسے چپ رہنے پر مجبور کر دیا لیکن زارینہ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے وہ آسانی سے اس مو ضوع کا پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔ زارینہ میرے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتی تھی ۔ میری پسند نا پسند ،میرے مشاغل ۔میری عادات ۔مزاج ۔نظریات ۔ میرا کاوربار ۔ میری سوچیں پڑھنا چاتی تھی ۔ میں اسے ایک بار اور کرنا چاہتا تھا لیکن زارینہ کا انداز اتنا دلربائی تھا کہ میں نے زارینہ کو اپنے بارے میں کافی کچھ بتا دیا ۔ ایکطرح سے اچھا ہی ہوا میری آوارگی سے زارینہ واقف ہوگئی نہیں تو کچھ گھنٹوں کی ملاقت میں جس طرح زارینہ میری طرف بڑھی تھی مجھےاس کے جذبات کی شدت سے ڈر لگنے لگا تھا ۔ دو گھنٹےسے اوپر گزر گئے ۔ زارینہ کی باتیں ختم نہ ہوئی، اپنا بتاتی رہی میرا حال سنتی رہی زارینہ گھما پھرا کے میرا ماضی جاننا چاہتی تھی ۔ اور میں اسے گھما پھرا کے ماضی سے حال میں لے آتا تھا ۔ وہ تو اچھا ہوا ، زارینہ کے موبائل پر مسز ریحان کی کال آگئی ۔ مسز کالپر بہتر یہی ہوتا کہ ہم اس وقت گھر ہوتے ۔ مسز ریحان نے زارینہ کو کچھ سمجھایا ۔ آواز میرے کانوں میں بھی پڑ گئی تھی ۔ میں نے وقت دیکھا تو تین بجنے والے تھے ۔میں نے سر ہلا کے اسے مسز ریحان کی بات ماننے کا کہا ۔ پارٹی میں اسوقت واپس جانا مشکوک بننے کے مترادف تھا ۔ یقیناً مسز ریحان ہر بات سے واقف تھی، میں نے موبائل پکڑ لیا ۔ مسز ریحان آپ میرے فلیٹ پر آجائیں ، یہیں سے آپ لوگ گھر چلے جانا ، اوکے پرنس یہی بہتر رہے گا ۔ مسز ریحان نے کال بند کر دی ۔ مسز ریحان تمھارے کنٹرول میں اسے سمجھا دینا ۔زارینہ میرے گلے لگ گئی ۔ جب مسز ریحان آئی تو زارینہ گاڑی میں بیٹھنے چلی گئ اور میں مسز ریحان کو روک لیا ۔ میں نے مسز ریحان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اسے اپنے قریب کر لیا ، مسز ریحان کا جسم کانپنے لگا ۔ پرنس ،پرنس ۔۔ آئی لو یو پرنس ،وہ مجھ سے لپٹ گئی ۔۔ دیکھئے مسز ریحان یہ لوگ کسی اسکینڈل کو برداشت نہیں کرسکتے ،اسکینڈل مٹانے کیلیے اس سے منسلک ہر انسان مٹانا ان کیلیےکچھ مشکل نہیں ہو گا ۔۔ میری بات سمجھ رہی ہیں آپ ۔ ہاں سمجھ رہی ہوں بلکہ ان لوگوں کو تم سے بہتر جانتی ہوں ، بے فکر رہو یہ راز میرے سینے میں دفن ہو گیا ہے ۔اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے ۔ ٹھیک ہے اب آپ جائیں زارینہ آپ کا انتظار کر رہی ہو گی ۔ اوکے پرنس میں چلتی ہوں لیکن میں اس وقت کے انتظار میں ہوں جب تم مجھے اس فلیٹ میں بلاؤ گے ۔ آپ اپنے ویٹ کیلیے کچھ کریں ۔ جم جوائین کر لیں ۔ میں نے اسے مشور ہ دیا ۔ تمھارا مشورہ میرے لیئے حکم ہے ۔ مسز ریحان میری بات سمجھ گئی۔ کار چل پڑی زارینہ مسلسل میری طرف دیکتی رہی جب تک مجھے دیکھ سکتی تھی ۔ دلآویز کو سوچتے سوچتے اب درمیان میں زارینہ آگئی ،جب میں زارینہ کی طرف بڑھا تھا میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ یکدم میں اس کی چاہت بن جاؤں گا ، اور صرف ایک اجازت مانگنے سے اس کے جذبات میں ایسی ہلچل آئی کے پھر سالوں کا فاصلہ زارینہ نے لمحوں میں طے کر لیا ۔ زارینہ ، دلاویز ،زارینہ، دلآویز ،انہی خیلالات میں مجھے نیند آگئی۔
اگلے دن ایک بجے تک اٹھا ۔ آنکھ کھلی تو سب سے پہلے موبائل چیک کیا ۔ کالز اور میسجز کا ڈھیر جمع ہو گیا تھا ، میں تانیہ کا نمبر ڈھونڈتا رہا ۔ اس کا میسج مل گیا ۔ کوشش کے باوجود دلآویز کی تصویر یا ویڈیو فی الحال نہیں مل سکی ۔ یہ اس کی پیدائش کی تاریخ ہے ۔ میں نے تاریخ دیکھی تو مجھے امید کی کرن نظر آئی، بائیس جون سے بائیس جولائی ، دلآویز کا برج سرطان بنتا تھا جو کہ انگلش میں کینسر کہلاتا ہے ،امید کی کرن اس لیئے نظر آئی کے سرطان افراد کی نمایاں بات یہ ہے کہ یہ بے حد حساس اور جذباتی ہوتے ہیں محبت میں ٹوٹ کر چاہتے ہیں ۔ ماضی کی وابستگیوں اور اپنی خاموشی کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے جذبات کے سمندر میں تیرتے ہیں ۔آپ کوئی بھی محبت بھرا گیت سنا کر انہیں رُلا سکتے ہیں ۔برج سرطان کا حاکم سیارہ قمر ہےاور تمام قمری حضرات کی مشترکہ خصوصیت بے حد مضبوط اور جذباتی دماغ ہے ۔ ۔ اب مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں دلآویز کا جانتا ہوں اسے سمجھتا ہوں ۔ دو پوائنٹ پہلے تھے کہ دلآویز اپنی ماں کی پابندیوں سے بے زار بلکہ مخالف ہو گی دوسرا اب نگینہ پر بے خبری میں حملہ ہو گا اب ایک پوائینٹ یہ تھا کہ یہ انتہائی جذباتی اور حساس ہوتے ہیں خاص کر محبت کے معاملے میں ان کی جذباتیت کی کوئی حد نہیں ہوتی آہستہ آہستہ میرے ذہن میں ایک منصوبے کے خدوخال واضح ہونے لگے ۔اب آج رات دلآویز سے رابطہ کرنا تھا ۔ ۔۔ رات دو بجے تک رابطہ کرنا چاہیئے دل ابھی سے انتظار کی کیفیت میں مبتلا ہونے لگا۔ یار ایسے تو نہ کرو اس طرح تو رات تک برا حال ہو جائے گا ،میں نے دل کو کہا اور نہانے کیلیے باتھ روم میں چلا گیا ۔ نہا کے ناشتہ وغیرہ کرتے ہوئے کچھ ضروری بیک کالز کیں ، دلآویز دلآویز، دلآویز، دلاویز، دل و دماغ بس ایک ہی نام پکار رہے تھے یار زارینہ نے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ دل فوراً بہل گیا ،میں نے مسز ریحان سے رابطہ کیا ،ہیلو پرنس اچھا ہوا رات کو وقت پر پہنچ گئے ، میں اس کی بات سمجھ گیا کہ زارینہ کا شوہر آ گیا ہو گا ۔اچانک ان کوواپس جاناپڑا۔ مسسز ریحان کی آواز سنائی دی۔ مجھے جھٹکا سا لگا ا بھی تو زارینہ سے ملاقات شروع ہوئی تھی ۔ مجھے یقین تھا زارینہ ضرور رابطہ کرے گی ۔ دیکھو اب کب ملناہوتا ہے آپ اپنا خیال رکھیئے گا مسز ریحان ، میں کال بند کر دی مسز ریحان کو اسمارٹ ہو نے کی گولی دے دی تھی ۔امید تھی کچھ مہینے تو اس سے نکل جائیں گے ، کیوں کہ اب اس کا اسمارٹ ہونا تو ناممکن تھا مسز ریحان اتنی محنت نہیں کر سکتی تھی ۔ ویسے یہ بھی تھا کہ اسنے میری بات کو اپنی ہتک سمجھنے کی بجائے اس پر عمل کرنے کی ٹھان لی تھی ۔ وقت بڑی ظالم چیز ہے کبھی یہ رکنے کا نام نہیں لیتا اور کبھی یہ گزرنے کا نام نہیں لیتا آج بھی وقت گزرنے کا نام ہی نہہیں لے رہا تھا ۔ دلِ ناداں کو سمجھانے کا وقت نہیں تھا ، اسے بہلانے کا وقت تھا ۔ سو میں دوستوں سے ملتا ملاتا ،ہوٹل گیا،ایک دو نئی فرینڈز سے ملا ، بیوٹی پارلر جا کے شبنم سے ملا ۔ رات کا کھانا بھی کھا لیا تھا مگر دو بجنےمیں تو ابھی بھی کافی وقت پڑا تھا سوچ سوچ کے میں تہمینہ کی طرف چلا گیا ۔ تہمینہ اپنی ایڈورٹائیزنگ کی کمپنی چلا تی ہے۔ مجھے امید تھی اس وقت بھی وہ اپنے آفس میں ہو گی ،اس کے سٹوڈیو میں کام چلتا رہتا تھا ۔ تہمینہ اپنے اسٹوڈیو میں ہی تھی اس نے مجھے دیکھ لیا تھا ،میں اس کے آفس میں جا کے بیٹھ گیا۔



ایک تبصرہ شائع کریں for "ناگن (قسط چار)"