سوموار کا دن آ پہنچا اور دوپہر ھو گئی لیکن اس کی کال نہ آئی میں نے کافی سارے میسج کیے لیکن کوئی رپلائی نہیں – مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ نورین کال کیوں نہیں کر رہی ہے ، اپنے میاں کے جانے سے پہلے وہ مجھ سے ملنے کے لیے بہت ہی زیادہ پرجوش تھی لیکن اسکے جانے کے بعد مجھ سے رابطہ نہ کرنا سمجھ سے بالاتر تھامیراذھن اس دن نیگٹیو خیالات کی آماجگاہ بنا ھوا تھا- سب سے زیادہ جو بات میرے لیے تکلیف کا باعث بن رہی تھی وہ اسکامجھ سے یوں لا تعلق رہنا تھا کیونکہ میں اس کا بہت زیادہ عادی ھو چکا تھا اس کی یہ بے اعتنائی مجھ سے برداشت نہیں ھو رہی تھی-
بالآخر میں نے اسے کال کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا نمبر ڈائل کیا، اورآگےکمپیوٹرائز آوازآئی”آپ کامطلوبہ نمبر اس وقت بند ہے، اس کا نمبر بند تھا، بند نمبر جان کر مجھے ایسا لگا جیسے منزل مجھ سے قریب آ کر دور چلی گئی ھو، منزل کیاتھی اس کے حسین جسم کا حصول، وہ جسم جس کے خواب میں پچھلے کچھ عرصے سے دیکھ رہا تھا،مجھے ایسا محسوس ہونے لگا تھا جیسے اس کا حسین سراپا اب میری پہنچ سے دور ھو گیا ہے اور اب میں اس کو اپنی بانہوں میں لینے کی حسرت پوری نہیں کر پاؤں گا اور میری کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ھو گئی ہے
لیکن کہانی ختم نہیں ہوئی تھی یہ سب میرے منفی خیالات تھے جو عموما ایسے موقعوں پر انسانی ذھن میں پیدا ہوتے رہتے ہیں میں نے بارہا سوچا ہے لیکن مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ ذھن میں ہمیشہ برے خیالات ہی کیوں آتے ہیں ، میں یہ بھی سوچ سکتا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی مسلئہ ھو گیا ھو گا یا پھر کوئی مجبوری ھو سکتی ہے جس کی وجہ سے وہ مجھ سے رابطہ نہیں کر سکی اور جیسے ہی اس کا مسلئہ حل ھو گا یا مجبوری ختم ھو گی وہ مجھ سے دوبارہ رابطہ کرے گی لیکن میں واھموں کا شکار ھو گیا تھا اور یہ سوچ لیا تھا کہ بس بات ختم ھو گئی ہے –
سوموار کا سارا دن گزر گیا اور رات بھی لیکن اس کا نمبر بند اور کوئی رابطہ نہیں – ایک دن اور دو راتیں گزر چکی تھیں اور میں تقریبا مایوس ھو چکا تھا، ٹی وی کے پروگرام بھی بور لگ رہے تھے ، کہیں بھی دل نہیں لگ رہا تھا گھر میں بیٹھا بیٹھا بور ھو رہا تھا تو کسی دوست کے ہاں جانے کا سوچا اور گھر سے نکل آیا راستے میں بچے کھیل رہے تھے وہاں کھڑا ھو گیا اور بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھنے لگا ، اسی اثنا میں میرے فون کی گھنٹی بجی میں نے بنا نمبر دیکھے کال او .کے. کی اور کہا
“ھیلو ”
دوسری طرف سے نورین نے کہا ” کیسے ھو گلباز ”
نورین کی آواز سنتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں تیز ھو گئیں اور میرے اندر خوشی کی لہر ڈور گئی ، مجھے ایسا لگا جیسے میرے مردہ جسم میں زندگی کی لہر ڈور گئی ھو، اس کی آواز سن کر مایوسی کی جگہ سرشاری نے لے لی تھی اور میں نے جواب دیا “آپ کو کیا لگے، میں ٹھیک ھوں یا نہیں ”
نورین نے کہا ناراضگی چھوڑو اگر مجھ سے ملنا چاہتے ھو تو فوری فیصل آباد آ جاؤ ،
میں نے کہا “آپ نے اتنا لیٹ رابطہ کیوں کیا ؟ ”
تو اس نے کہا فیصل آباد آ جاؤ پھر بتاتی ھوں – میں واپس گھر گیا اور جلدی جلدی کپڑے تبدیل کیے اور فیصل آباد کے لیے روانہ ھو گیا- فیصل آباد جھنگ سے 48 کلو میٹر دور ہے میں نورین کی کال کے بعد تقریبا ایک گھنٹے بعد فیصل آباد بس اسٹینڈ پر اترا اور نورین کو کال کی اور کہا کہ میں اس وقت بس اسٹینڈ پہ کھڑا ھوں تو اس نے مجھے شہر کے ایک چوک کا ایڈریس بتایا اور کہا کہ وہاں پہنچو، میں نے رکشہ لیا اور وہاں پہنچ گیا اور نورین کو کال کی تو اس نے کہا کہ ہم بس چند منٹ میں پہنچ رہی ہیں تو میرے ارمانوں پر اوس پڑ گئی کیونکہ اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھی میں نے راستے میں پتا نہیں کیا کیا سوچا تھا میں نے پہلی ملاقات کے لئے بہت کچھ سوچ رکھا تھا کہ اس سے کیا کیا باتیں کرنی ہیں اور کیا کیا ڈائیلاگ مارنے ہیں لیکن اب کسی کے سامنے میں اس سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا،اور یوں پہلی ملاقات پر دل کی باتیں دل میں ہی رہ جانی تھیں لیکن پہلی ملاقات کی خوشی اپنی جگہ تھی –
میں وہاں کھڑا اس کا انتظار کرنے لگا، تقریبا پانچ منٹ گزرے ھوں گے کہ ایک طرف سے دو نقاب پوش لڑکیاں آ رہی تھیں میں نے سرسری نظر سے ان کی طرف دیکھا اور دوسری طرف دیکھنے لگا، وہ میرے پاس آ کر کھڑی ھو گئیں اور نورین نے کہا کہ ” گلباز ”
میں نے مڑ کر دیکھا تو نورین اپنی کزن کے ساتھ میرے ساتھ کھڑی تھیں میں نے کہا
” السلام عليكم ”
دونوں نے بیک وقت کہا
“وا علیکم **************** ”
اور نورین نے کہا “آؤ چلیں” میں ان کے ساتھ چل پڑا ، میں خود کو تھوڑا تھوڑا نروس محسوس کر رہا تھا ، تھوڑا آگے ایک برگر شاپ تھی، وہ اس میں داخل ھو گئیں وہاں کیبن بنے ہوئے تھے اور ان کے سامنے پردہ لگا ھوا تھا ، ہم ایک کیبن میں بیٹھ گئے ، بیٹھتے ہی دونوں نے نقاب اتار لی ، نورین کو تو میں نے پہلے ہی دیکھا ھوا تھا اس کا حسن تو کھلتے گلاب جیسا تھا اور وہ بہت حسین تھی جبکہ اس کے ساتھ جو لڑکی تھی وہ سانولی سی پتلے پتلے نین نقشوں والی نمکین حسن کی مالک بائیس تئیس سالہ لڑکی تھی اس کے سانولے چہرے پر جوانی کا انوکھا نکھار چھایا ھوا تھا جس سے وہ جادب نظر لگ رہی تھی وہ بھی دیکھنے میں ایک حسین لڑکی تھی لیکن نورین اس سے زیادہ خوبصورت تھی –
نورین نے کہا گلباز کیسے ھو ؟
میں نے جواب دیا کہ آپ کے سامنے ھوں اور آپ سناؤ کیسی ھو ؟ تو نورین نے کہا میں ٹھیک ھوں اور اپنی کزن کی طرف ہاتھ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری کزن انیلہ ہے اور پھر میرا تعارف اپنی کزن سے کروایا کہ یہ گلباز ہیں اور ہم دوست ہیں اور پہلی دفعہ مل رہے ہیں تو انیلہ نےکہا
گلباز صاحب کیسی لگی میری کزن نورین ؟ انیلہ مجھے شوخ طبیعت لگ رہی تھی
میں بھی ذرا موڈ میں آتے ہوئے
لگتا ہے آپ اپنی کزن کی تعریف کروانا چاہتی ھو؟
اسی دوران دستک دے کر ایک لڑکا آیا اور پوچھنے لگا کہ آپ کیا لیں گے؟
میں نے تین برگز کا آڈر دیا اور ساتھ میں کوک کا ، لڑکا چلا گیا تو انیلہ نے کہا کیا نورین تعریف کے قابل نہیں ؟ تو میں نے کہا نورین کے سامنے یہ پھول اور کلیاں کچھ بھی نہیں نورین ان سب سے زیادہ حسین ہے
نورین ان سب سے زیادہ حسین ہے اور یہ کہتے ہوئے میری نظر نورین پر ہی تھی اپنی تعریف سن کر نورین کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا اور وہ اس کا چہرہ سرخ ھو گیا تھا اور جب انیلہ نے مسکراتے ہوئے نورین کی طرف دیکھا تو نورین کا چہرہ شرم کے مارے مزید سرخ ھو گیا اور نورین مزید خوبصورت لگنے لگی تھی .
نورین کو شرماتے دیکھ کر میں نے بات کا رخ بدلا اور پوچھا کہ نورین کیا بات تھی کہ تم نے اتنا انتظار کروایا آج منگل ہے تمہیں تو اتوار کی شام کو ہی کال کرنی چاہئیے تھی تو نورین نے جواب دیا کہ اتوار کی صبح میرا موبائل گر گیا تھا اور اس کی ایل سی ڈی ٹوٹ گئی تھی کل تک گھر میں مہمان تھے اس لئیے بازار نہیں آئی اور آج سب سے پہلے موبائل ٹھیک کروا کے آپ کو ہی کال کی ہے ، میں نے کہا آپ کے ہاں تو پی ٹی سی ایل بھی ہے آپ وہاں سے بھی تو کال کر سکتی تھیں تو اس نے کہا کہ بل کے ساتھ کال ریکارڈ بھی آتا ہے میں اپنے گھر والوں کو شک میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی اور ویسے بھی آپ کو جان بوجھ کر انتظار کروایا ہے ، وہ کیا کہتے ہیں نا کہ انتظار کے بعد ملنے کا اپنا ہی مزا ہے -میں نے کہا کہ
“کسی کی جان گئی اور آپ کی ادا ٹھہری”
اگر مجھے کچھ ھو جاتا تو ؟
تو انیلہ بولی کہ عاشقوں کو انتظار کچھ نہیں کہتا-
یہ عاشق لوگ بڑے ڈھیٹ ہوتے ہیں اگر انہیں قیامت تک بھی انتظار کرنا پڑے تو یہ کر سکتے ہیں ،
میں نے نورین کی طرف دیکھا اور اور کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ نورین مجھ سے پہلے بول پڑی کہ اس کا مائنڈ مت کرنا اس کو مذاق کرنے کی عادت ہے، اس دوران لڑکا برگر اور کوک لے آیا اور ہم برگر کھانے لگے-
کھانے کے دوران جب نورین کا ہاتھ منہ کی طرف گیا اور اس کا دوپٹہ سینے سے ہٹ گیا تو میری نظر نورین کے سینے پر پڑی
نورین کی چھاتیاں نہ ہی بہت زیادہ بڑی تھیں اور نہ ہی بہت زیادہ چھوٹی ، میرے اندازے کے مطابق نورین کی چھاتی کا سائز36 تھا اور اس کی چھاتیاں ابھری ہوئی تھیں ، اس کی چھاتی دیکھ کر میرا اندر کا مرد جاگ گیا اور میرے لن میں تھوڑی سی ہلچل ہوئی اور وہ کھڑا ھو گیا ، راستے میں میں سوچ رہا تھا کہ آج میں نورین کے حسین اور رس بھرے ہونٹوں سے زندگی کشید کروں گا اور اس کے نرم و نازک جسم کو اپنی بانہوں میں لے کر اپنے من کی پیاس بجھا سکوں گا
لیکن میرا یہ سپنا آج پورا ہونے والا نہیں تھا نورین اپنے پورے حسن و جمال کے ساتھ میرے سامنے تھی لیکن میری دسترس میں نہ تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ آج نہیں تو کل یہ حسین مورت میری بانہوں میں ھو گی ،
انیلہ کی چھاتیاں نورین کی نسبت کافی بھاری تھیں اور انیلہ کی چھاتیاں کسی ہوئی لگ رہی تھیں اور اس کی چھاتی کا سائز میرے اندازے کے مطابق 38 تھا انیلہ کو مموں کے حوالے سے نورین پر فوقیت حاصل تھی لیکن نورین انیلہ کے مقابلہ میں زیادہ حسین تھی ، میرا ذھن صرف نورین کے جسم میں تھا اور اس کو ہی دیکھ رہا تھا اور انیلہ کے بارے میں میرے ذھن میں کوئی ایسا ویسا خیال نہیں آیا تھا
ہم کھانے کے بعد گپ شپ لگاتے رہے اس دوران مجھے میرے ایک دوست کی طرف سے کال آئی میں نے وہاں بیٹھے بیٹھے ہی کال رسیو کی اور کال سننے کے بعد اپنا موبائل وہاں ٹیبل پر رکھ دیا جو وہاں سے انیلہ نے اٹھا لیا اور پوچھنے لگی کہ یہ کون سا ماڈل ہے تو میں نے کہا کہ نوکیا 2690 تو انیلہ نے کہا سمارٹ سا اچھا ماڈل ہے اس نے موبائل کے کچھ فنکشن دیکھے اور پھر مجھے واپس کر دیا ، اور انیلہ نورین سے کہنے لگی
“چلیں ” ؟
نورین نے بھی کہا چلو –
میں نے لڑکے کو آواز دی اور بل کا کہا
میں نے بل کی ادائیگی کی اور اٹھ کھڑے ہوئے –
میں نے پوچھا اب کب ملاقات ھو گی ؟
تو نورین نے کہا کہ شام کو فون پہ بات ھو گی پھر بتاؤں گی –
ہم شاپ سے نکل آئے اور نورین اور انیلہ ایک طرف چل پڑیں ، میں نے پیچھے سے دیکھا تو نورین کی چال میں ایک تمکنت اور وقار تھا اور اس کا قد انیلہ سے نکلتا ہوا تھا ، اس کی گانڈ بھاری اور تھوڑی باہر کو نکلی ہوئی تھی جس کو دیکھ کر میرے منہ سے ایک حسرت بھری آہ نکلی اور میں اس وقت کا انتظار کرنے لگا جب یہ جیتا جاگتا حسین جسم اپنی تمام تر حشر سامانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ بنا کپڑوں کے میری بانہوں میں ھو گا —
میں واپس گھر آ گیا ، شام میں نورین کا میسج آیا کہ گلباز رات کو بات ھو گی میں اس وقت تھوڑی مصروف ھوں ،
رات کے گیارہ بجے کے قریب اس کی کال آئی
میں نے کہا “ نورین تم بہت حسین ھو” تمہیں دیکھ کر کسی زاہد کا بھی ایمان ڈول سکتا ہے میں اپنی خوش بختی پر جتنا بھی ناز کروں کم ہے کہ مجھے تم جیسی خوبصورت دوست ملی ہے ، مجھے ایک بات بتاؤ کہ مجھ میں ایسا کیا ہے کہ تم نے مجھ سے بہت جلد دوستی کر لی تو نورین نے کہا کہ آپ سے دوستی اس لئے کی تھی کہ آپ پہلے لڑکے ھو جس نے پانچ سو کا لوڈ کروا دیا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ کی آواز میں معصومیت تھی اور آپ کی باتوں سے ہوس نہیں جھلکتی تھی
میں نے پوچھا کہ
تھی ؟
کیا اب میری باتوں میں ہوس ہے ؟
تو اس نے کہا ہاں جب سے آپ سے مل کر آئی ھوں آپ کی نگاہیں مجھے اپنے جسم پر ہی رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں لیکن اب مجھے آپ کے منہ سے اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے اور آپ کا ایسی والہانہ نظروں سے دیکھنا ایک دوسری ہی دنیا میں لے جاتا ہے –
اب کب ملو گی میں نے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ کل میں اپنے لاہور والے گھر میں شفٹ ھو رہی ھوں اب ہماری ملاقات وہیں ھو گی ، میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں ؟
تو اس نے کہا جی ہمارے گھر میں ،
وہاں آپ کو کوئی ٹینشن نہیں ھو گی – میں نے کہا سوچ لینا کہیں کوئی مسلئہ ہی نہ بن جائے
تو اس نے کہا ڈونٹ وری ،
تو میں نے پوچھا کہ کب ؟ تو اس نے کہا میں آپ کو بتا دوں گی بس ایک دو دن کے اندر اندر ہماری ملاقات ھو گی . میرے مشاہدے کے مطابق سب سے زیادہ مزا گرل فرینڈ سے سیکس کا آتا ہے ، کیونکہ وہ گھر سے آتی ہی چدوانے کے لئے ہیں اور ذہنی طور پر تیار ہوتی ہیں اس لئے وہ بہت زیادہ رسپانس دیتی ہیں اس کے مقابلے میں بیوی سے بھی مزا آتا ہے لیکن گرل فرینڈ سے زیادہ نہیں ،
اگلے دن وہ لاہور چلی گئی
اب میں اس انتظار میں تھا کہ وہ کب مجھے ملنے کے لئے بلاتی ہے .
ہماری فون پر بات چیت جاری تھی میں اس سے ملنے کے لئے بے صبری سے انتظار کر رہا تھا
دو دن بعد رات کو اس نے مجھے بتایا کہ کل ہم ملیں گے –
یہ سنتے ہی میں نے فون پر اس کی بہت ساری کس kiss کیں اور بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ کہاں ملنا ہے تو اس نے کہا کہ لاہور میں میرے گھر میں ، تو میں نے پوچھا کہ آپ کے گھر میں کون کون ہوتا ہے تو اس نے بتایا کہ میں اور میرا بے بی ، اس کے علاوہ میری ملازمہ اور گیٹ پر چوکیدار ،
اس نے کہا کہ میں نے سب سوچ لیا ہے آپ میرے کزن ھو لاہور کسی کام سے آئے ھو اور ایک دو دن ہمارے گھر میں رھو گے ، میں نے ملازمہ سے آپ کے آنے کا کہہ دیا ہے آپ میرے مہمان کی حثیت سے ہمارے گھر رھو گے آپ کل صبح ٹھوکر اتر جانا میں آپ کو وہاں سے پک کر لوں گی
ہمارے ملنے کا ٹائم بن گیا ، میں نے اگلی صبح اٹھ کر اچھی طرح شیو بنائی اور انڈر شیو بھی کی اور خاص طور پر اپنے ٹٹوں testicals کی صفائی کی ، اچھی طرح تیار شیار ھو کر بیگ میں ایک سوٹ رکھا اور گھر والوں کو بتایا کہ دوست کے پاس لاہور جا رہا ھوں ھو سکتا ہے ایک دو دن وہاں رہنا پڑ جائے اور گھر سے نکل آیا ، میں نے نورین کو فون کیا کہ میں گھر سے نکل آیا ھوں اور بارہ بجے کے قریب ٹھوکر پہنچ جاؤں گا تو نورین نے کہا کہ میں آپ کو وہاں سے پک کر لوں گی آپ پہنچنے سے آدھا گھنٹہ پہلے مجھے میسج کر دینا ، میں نے کہا ٹھیک ھے ،
میں بس میں سوار ہوا اور لاہور کے لئے روانہ ھو گیا
میں بس میں بیٹھا آنے والے حسین لمحات کے بارے میں سوچ رہا تھا ، آج بڑے گھر کی بہو میرے ہاتھ سے چدنے والی تھی ، ان سنسنی خیز اور سیکسی لمحات کے بارے میں سوچتے سوچتے میرے دل کی دھڑکنیں تیز ھو گئیں تھیں اور میرا لن کھڑا ھو گیا تھا ، میں اک انجانی سی لذت محسوس کر رہا تھا اور میں نے اپنا لن اپنے پٹوں thigh میں دبایا ہوا تھا اور مزے کی حسین وادیوں کی سیر کر رہا تھا کہ ایک انجان نمبر سے مجھے کال آئی ، میں نے کال رسیو کی تو آگے سے خاموشی – کوئی بول نہیں رہا تھا میں نے دو تین دفعہ ھیلو ھیلو کہنے کے بعد کال کٹ کر دی اور میسج کیا کہ ” آپ کون ؟ ”
جواب آیا ” آپ کی چاہنے والی ”
میں نے رپلائی کیا،
کیا چاہتی ھو ؟ تو اس نے جواب دیا آپ کو – میں نے پوچھا کیا میں آپ کو جانتا ھوں تو اس نے لکھا شاید ہاں ، شاید نہیں –
میرے ذھن پر اس وقت نورین سوار تھی اور میں نے وہاں ایک دو دن رکنا بھی تھا اس دوران کوئی ڈسٹربنس نہ ھو اس لئے اس سے جان چھڑانا ضروری سمجھتے ہوئے میں نے اسے لکھا کہ میں اگلے دو دن بہت مصروف ھوں اگر آپ مجھے چاہتی ہیں تو دو دن مجھے تنگ نہ کرنا – اس نے رپلائی کیا
او-کے ،
اب مجھے کنفرم نہیں تھا کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی ، میں اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ یہ کون ھو سکتا ہے لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی تو میں اس کی سوچوں کو ذھن سے جھٹکتے ہوئے نورین کے بارے میں سوچنے لگا کہ کیسے کیسے اس کی چدائی کرنی ہے ، میں نے آج تک پھدی نہیں چاٹی اور اگر اس نے پھدی چاٹنے کا کہہ دیا تو کیا کروں گا ؟ یہ سوال ذھن میں آیا تو اس کا جواب سوچنے لگا لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی پھر اس کا جواب صورت حال پر چھوڑ دیا – میں نے سنگ میل پر ٹھوکر پچیس کلو میٹر دیکھا تو میں نے نورین کو کال کی کہ میں آدھے گھنٹہ تک پہنچ رہا ھوں تو اس نے کہا ok میں آ رہی ھوں
بس ٹھوکر پہنچی تو میں اتر گیا، میں نے اردگرد دیکھا لیکن مجھے وہاں نورین نظر نہیں آئی تو میں نے نورین کو کال کی اور کہا کہ میں اتر گیا ھوں آپ کہاں ھو ؟ تو اس نے کہا
تھوڑا ویٹ کرو ،
میں آپ کے پاس پہنچنے ہی والی ھوں، پندرہ منٹ بعد ایک کار میرے نزدیک آ کر رکی میں نے کار کی طرف دیکھا تو اس میں نورین تھی اس نے مجھے اشارہ کیا اور میں اگلا دروازہ کھول کر امبر کے ساتھ بیٹھ گیا نورین نے ہاتھ ملایا نورین کا نرم و نازک ہاتھ میرے ہاتھ میں آیا تو جسم میں کرنٹ دوڑ گیا
یہ پہلی دفعہ تھا کہ نورین کو میں نے چھوا تھا اس کا ہاتھ ملانا مجھے بہت اچھا لگا اور میرے سارے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی – نورین کی تیاری سے لگتا تھا نورین کسی بیوٹی پارلر سے تیار ھو کر آئی ہے ، اس کی ہر چیز میچنگ تھی اس نے پنک کلر کے کپڑے پہنے ہوئے تھے نورین اس وقت بہت پیاری لگ رہی تھی ایک لفظ پڑھا تھا ملکوتی حسن ، اور آج اس لفظ کی تشریح حقیقت میں دیکھ رہا تھا – نورین نے دوپٹا نہیں اوڑھا ہوا تھا میری نظر اس کی چھاتیوں پر پڑی اس کے سینے کے ابھار سرکشی پر مائل لگ رہے تھے اور ایسے تنے ہوئے تھے جیسے یہ کسی پہاڑ کی دو چوٹیاں ھوں اور ان کو ابھی تک کسی نے سر نہ کیا ھو ، اور خود کو سر کرنے کی دعوت دے رہے ھوں ، نورین نے میری نظروں کی تپش محسوس کی اور اس کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ آ گئی اور اس نے پوچھا کہ گلباز سفر کیسا گزرا ؟ میں نے کہا آپ کی سوچوں میں سفر کا احساس ہی نہیں ہوا اور آپ کو دیکھ کر تو ویسے بھی فریش ھو گیا ھوں ،
نورین تم بہت ہی پیاری لگ رہی ھو کہیں میری نظر ہی نہ لگ جائے ؟ تو نورین نے کہا آپ مسکہ بہت اچھا لگا لیتے ھو ، میں نے کہا نورین یہ حقیقت ہے کہ تم بہت خوبصورت ھو .تمہارے جیسا رنگ و روپ اور نین نقش بہت کم لڑکیوں کے ہوتے ہیں تم تو میرے خوابوں کی شہزادی ھو ورنہ کسی عام لڑکی کے لئے کوئی اتنا سفر نہیں کرتا ، میں جب بھی اس کی تعریف کرتا تھا تو اس کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے تھے ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتی ھو ،
میں نے پوچھا کہ نورین تم لاہور میں کس جگہ رہتی ھو تو اس نے کہا ماڈل ٹاؤن ، ایسے ہی باتیں کرتے کرتے ہم ماڈل ٹاؤن پہنچ گئے
اس نے ایک شاندار گھر کے گیٹ کے سامنے گاڑی روکی اور ہارن دیا چند لمحوں بعد چوکیدار نے گیٹ کھول دیا اور نورین کار اندر لے گئی اور مجھے کہنے لگی کی کہ تم میرے کزن ھو، میں نے پوچھا آپ کے بیٹے کا نام کیا ہے تو اس نے بتایا
شہزاد میں نے کہا او-کے-
ہم اتر کر اندر گئے تو سامنے ایک ادھیڑ عمر عورت ایک دو سالہ بچے کو پکڑے کھڑی تھی
نورین نے اس سے بچہ لے لیا اور اپنے سینے سے لگا لیا میں نے نورین سے کہا کہ شہزادہ تو کافی بڑا ھو گیا ہے تو نورین نے کہا کہ انکل سے سلام لو تو میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اس نے بھی ہاتھ بڑھا کر سلام لیا میں اس وقت نورین کا رشتہ دار ہونے کی ایکٹینگ کر رہا تھا
نورین نے ملازمہ سے کہا کہ صاحب کے لئے جوس لے کر آؤ ،
(یہ ساری تفصیل آپ کو بور کرے گی اسلئے اس کو حذف کرتا ھوں ) قصہ مختصر دوپہر کا کھانا کھایا اور ملازمہ نے مجھے اوپر والے کمرے میں پہنچا دیا ، ملازمہ گھر تھی اس لئیے احتیاطا نورین مجھ سے زیادہ فری نہ ہوئی ، شام کو نورین اپنے بچے کے لئیے میرے ساتھ ماڈل ٹاؤن پارک گئی ، پارک بہت اچھا تھا وہاں جوڑے اور انٹیاں واک کر رہی تھی وہ بہت سجی سنوری ہوئی تھیں بہت سارا ٹائم ہم نے پارک میں گزارا اور رات ھو گئی ، ہم گھر واپس آ گئے نورین نے کہا کہ کھانا باہر کھائیں گے آپ فریش ھو جاؤ، میں نہا دھو کر تیار ھو گیا اور میں نے نورین کو میسج کیا کہ میں ریڈی ھوں تو اس نے جواب دیا او-کے-
آدھا گھنٹہ بعد ملازمہ مجھے بلانے آئی میں نیچے گیا تو نورین تیار تھی اس نے ملازمہ سے کہا کہ شہزاد کا خیال رکھنا اور ہم کار میں بیٹھ کر باہر نکل آئے تو نورین نے کہا کہ کہاں کھانا کھاؤ گے تو میں نے کہا کہ جو سب سے نزدیک رسٹورنٹ ہے تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا میں سمجھ رہی ھوں آپ کو کس چیز کی جلدی ہے ، میں نے کہا اگر آپ کو پتا ہے تو پھر دیر کیوں کر رہی ھو ؟
اس نے عجیب سے لہجے میں کہا “انتظار کا اپنا ہی مزا ہے
اور ساتھ ہی اس نے ایک رسٹورنٹ کے سامنے کار کھڑی کر دی ، یہاں ہے
مجھے یاد ہے اس کا نام گورمے رسٹورنٹ تھا یہ ایک فیملی رسٹورنٹ تھا وہاں سے ہم نے کھانا کھایا اور گھر واپس آ گئے نورین نے کہا آپ اپنے کمرے میں جاؤ –
میں اپنے کمرے میں آ گیا میں کمرے میں آ گیا آپ مجھے نورین کے کمرے میں آنے کا انتظار تھا آج دوپہر سے میں نورین کے ساتھ تھا لیکن ابھی تک اس کے حسین جسم سے محروم تھا لیکن اب میرا یہ انتظار ختم ہونے والا تھا
اچانک میرے ذھن میں آیا کہ گلباز تمہارے پاس تو کنڈوم ہی نہیں ہے کہیں کوئی مسلہ ہی نہ بن جائے یہ سوچ کر میں وہاں سے نکلا اور میڈیکل سٹور سے ٹائمنگ والے کنڈوم لے آیا اور ساتھ میں ایک ویاگرا کی گولی بھی – ابھی مجھے آئے ہوئے پندرہ بیس منٹ ہی ہوئے تھے کہ ملازمہ اوپر آئی اور پوچھنے لگی صاحب جی کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ، یہ کہتے ہوئے اس کی آواز میں عجیب طرح کا لوچ اور دعوت گناہ واضح تھی اس نے کسی چیز پر بہت زور دیا تھا میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر مسکراہٹ تھی اس کی عمر چالیس کے اردگرد تھی اور وہ شکل و صورت کی ٹھیک ہی تھی میں نے کہا کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں تو اس نے کہا کہ صاحب جی میرا کوارٹر گیٹ کے ساتھ والا ہے اگر کسی چیز کی ضرورت ھو تو آ جانا یہ بالکل صاف اور واضح اشارہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے لیکن شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ آج اس کی مالکن کے جسم سے میں اپنی ہوس کی پیاس بجھانے والا ھوں ورنہ وہ مجھے یہ پیشکش نہ کرتی ، میں نے کہا ٹھیک ہے اب تم جاؤ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی ،
میں نے نورین کو میسج کیا اچھی میزبان ھو ادھر مہمان بور ھو رہا ہے اوراس کو کوئی لفٹ ہی نہیں تو نورین کا میسج آیا کہ شہزاد سو گیا ہے لیکن ملازمہ ابھی جاگ رہی ہے میں تمہارے پاس بارہ بجے کے بعد آؤں گی-
وہ مجھے تڑپا رہی تھی وہ وقت مجھے آج بھی یاد ہے اس کے بدن کو پانے کے لئے انتظار کے وہ لمحات کتنی مشکل سے گزارے تھے وہ دو گھنٹے صدیوں پر محیط لگ رہے تھے آخر وہ لمحہ بھی آ گیا جب نورین کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آ گئی ، میں اس کو دیکھ کر مبہوت ھو کر رہ گیا وہ اس وقت بہت ہی حسین لگ رہی تھی ملکوتی حسن کی مالک نورین میری دسترس میں آ چکی تھی لیکن سب سے مشکل کام ابھی باقی تھا وہ تھا ابتدا، شروعات -
یہ پہلی دفعہ ملنے والوں کے لئے سب سے مشکل ہوتا ہے ، نورین بیڈ پر میرے قریب آ کر بیٹھ گئی میں نے ابتدا کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اس نے کوئی جنبش نہیں کی اور خاموشی سے بیٹھی رہی میرا حوصلہ مزید بڑھ گیا میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے اور قریب کر لیا ، اس کے جسم کے لمس سے میرا سویا ہوا لن ایک جھٹکے سے انگڑائی لے کر کھڑا ھو گیا ، میں نے اپنا ہاتھ اس کی کمر سے اوپر کرتے ہوئے اس کی چھاتی پر لے گیا اور اس کی چھاتی کو ہلکا سا دبایا تو نورین نے خمار آلودہ آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اس کے ہونٹ خشک تھے اور اس کی سانسیں تیز ہونا شروع ھو گئی تھیں میں نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں میں پیوست کر دئیے اور ان کو چوسنا شروع کر دیا اس کے ہونٹ ربڑ کی طرح سوفٹ تھے اور نورین نے بھی آگے سے رسپانس دینا شروع کر دیا اس نے اپنی زبان میرے منہ میں کر کے اسے گول گول گھمانا شروع کر دیا یہ دیکھ کر میں نے بھی اپنی زبان اس کے منہ میں کر دی جسے اس نے چوسنا شروع کر دیا اب کبھی اس کی زبان میرے منہ میں ہوتی اور کبھی میری اس کے منہ میں ، اور ہم کبھی ایک دوسرے کی زبان چوستے اور کبھی ایک دوسرے کے ہونٹ ، اب میری ساری جھجک اتر چکی تھی اور اس وقت ہم بیڈ سے نیچے کھڑے تھے، میں نے اس کے ہونٹوں کو چھوڑ کر اس کے گالوں پر کس KISS کرنا شروع کر دی اور گالوں سے اس کی گردن پر آ گیا جیسے ہی میں نے اس کی گردن کو اپنی زبان سے چھوا تو اس کے منہ سے ایک لمبی آہ. . . . . .ہ . . . . . ہ نکلی اور اس نے زور سے مجھے اپنے ساتھ چمٹا کیا مطلب جھپی ڈال لی اس کی نرم و گرم چھاتیاں میرے سینے سے لگ گئیں اور میں اس وقت خود کو ایک الگ ہی دنیا میں محسوس کرنے لگا تھا میں نے اس کو زور سے اپنے سینے کی طرف دبایا اور ساتھ ساتھ اس کی گردن پر کس KISS کرتا رہا میں اس کی بیک پر چلا گیا اور اس کے بازؤں کے نیچے سے ہاتھ گزار کر اس کے دونوں ممے پکڑ لئے اس کے ممے پکڑے ہی تھے کہ اس کے منہ سے ایک تیز سسکاری بلند ہوئی اور اس کی سانسیں بھاری اور تیز ھو گئیں میں نے اس کے ممے مسلنا اور ساتھ میں اس کی بیک نیک(گردن) پر کسنگ شروع کر دی اس کی سسکاریاں تیز اور اس کی سانسیں پھول گئیں تھیں ایسے لگ رہا تھا کہ وہ فارغ ھو رہی ہے اور اس نے ایک تیز سسکاری کے ساتھ مجھے پیچھے دھکیل دیا اور خود بیڈ پر بیٹھ کرزور زور سے سانسیں لینے لگی وہ فارغ ھو چکی تھی
میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر بعد اپنا ایک ہاتھ اس کی تھائی THIGH پر رکھا اور اس پر آہستہ آہستہ پھیرنے لگا اور اس کی پھدی کے اس پاس کا حصہ بھی سہلانے لگا اس کی شلوار کا وہ حصہ گیلا ھو چکا تھا میں نے اسکی شلوار کو نیچے کیا اس نے میری طرف دیکھا لیکن کچھ بولی نہیں میں نے اس کی شلوار پہنچے سے پکڑ کر نیچے کھینچ لی اس کی صاف شفاف ٹانگیں بہت سیکسی لگ رہی تھیں اس کی پھدی پر اس کی قمیض تھی اسلئے اس کی پھدی نظر نہیں آ رہی تھی میں نے ایک ہاتھ سے اس کی پھدی سے قمیض اٹھائی تو اس کی شیوڈ پھدی میرے سامنے تھی جس کو دیکھ کر میرے منہ سے رالیں ٹپکنے لگیں کیونکہ اس کی پھدی کے لپسLIPS آپس میں جڑے ہوئے تھے اور اس کی پھدی کے لپس ڈبل روٹی کی طرح پھولے پھولے تھے ابھی اس کی پھدی، پھدی ہی تھی پھدا نہیں بنی تھی میں اس کی پھدی کو دیکھ کر فل گرم ھو چکا تھا میں نے اس کی قمیض بھی اتاری دی اب وہ صرف برا BRA میں تھی اس نے سکن کلر کا برا پہنا ہوا تھا میں نے ہاتھ پیچھے لے جا کر اس کے برا کی ہک بھی کھول دی اب اس کے صاف شفاف ممے میرے سامنے تھے اس کے ممے گول اور ابھرے ہوئے تھے وہ ساری ننگی ھو چکی تھی میں نے اس کی چھاتیوں کو ہاتھوں میں لے کر دبانااور مسلنا شروع کر دیا وہ پھر سے گرم ھو چکی تھی
اب اس نے میرے لن کو پکڑ لیا تھا اور اس کو دبانا شروع کر دیا تھا میں نے اس کی چھاتی منہ میں لے کر چوسنے لگا وہ بہت مدہوش ھو گئی تھی اس کی کوشش تھی کہ اس کی پوری چھاتی میرے منہ میں چلی جائے اب اس نے سسکنا بھی شروع کر دیا تھا وہ دوبارہ سے فل گرم ھو چکی تھی یہ دیکھ کر میں نے اپنے سارے کپڑے اتار دئیے ، اب ہم دنوں بالکل ننگی حالت میں تھے میں نے اس کے سارے جسم پر کسنگ سٹارٹ کر دی جس سے اس کے منہ سے نا معلوم زبان کے الفاظ نکلنے لگے جن کا کوئی سر پیر نہیں تھا آں آوں سی . . . . . . .
اس کو فل گرم دیکھ کر میں نے لن اس کی پھدی میں کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ میں بھی بہت گرم ھو چکا تھا میں نے کنڈوم اٹھایا اور اپنے لن پر چڑھا لیا اور اس کو ٹانگوں سے کھینچ کر بیڈ کے درمیان میں کر لیا اس کی ٹانگیں اوپر کیں اور اپنے پیروں کی بیڈ کی نکڑ سے ٹیک لگا لی ، میں نے اپنے لن کو پھدی پر سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں سارا لن اس کی گیلی پھدی میں چلا گیا اس کے منہ سے ایک درد بھری آہ نکلی اور کہنے لگی کہ گلباز آرام سے ، میں نے دو تین دفعہ لن کو آہستہ سے آگے پیچھے کیا اور پھر اپنی سپیڈ تیز کر دی لیکن اب نورین کے منہ پر تکلیف کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے وہ ایڈجسٹ ھو چکی تھی میں نے زور زور سے دھکے مارنے شروع کر دئیے اور کمرے میں دھپ دھپ اور پچک پچک کی آوازیں میرے ہر دھکے کے ساتھ گونج رہی تھیں اور اس کے منہ سے آہ آہ آہ . . ….. آہ . . کی آواز نکل رہی تھی ایک دو منٹ کے بعد نورین کے جسم میں اینٹھن ہونے لگی اور تھوڑی دیر بعد اس کا جسم اکڑنے لگا میں نے اپنی سپیڈ اور تیز کر دی اس کے منہ سے عجیب طرح کی خرخراھٹ جیسی آوازیں نکلنا شروع ھو گئیں اور پھر ایک تیز اور لمبی سی . . . کے ساتھ ہی اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا وہ فارغ ھو چکی تھی میں نے بھی بس فارغ ہونے کے قریب تھا میں نے دھکے لگانا جاری رکھا اور جلد ہی فارغ ھو گیا اور اس کے اوپر لیٹ گیا
ایک تبصرہ شائع کریں for "بڑے گھر کی بہو (پارٹ ٹو)"